اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصّہ 1، مسیح کی ولادت اور ابتدائی سال

سیرت المسیح، حصّہ 1، مسیح کی ولادت اور ابتدائی سال

جارج فورڈ

2015


دیباچہ

"عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صُلح۔" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 2: 14)

"اُٹھ مُنور ہو کیونکہ تیرا نُور آ گیا اور خداوند کا جلال تجھ پر ظاہر ہوا۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اُمتوں پر لیکن خداوند تجھ پر طالع ہو گا اور اُس کا جلال تجھ پر نمایاں ہو گا۔" (یسعیاہ 60: 1-2)

1- تعارف

انسان کےلئے مسیح کی ضرورت

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی اپنی کاملیت سے دُور ہونے کی وجہ سے زندگی میں بے انصافی و مشکلات عروج پر ہیں۔ انسانی فسلفیانہ نظریات اُس کےلئے کاملیت کے حصول یا اُس کی حالت بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ عظیم یونانی فلسفی سقراط نے اپنے شاگرد الکیبیادس سے ایک بار یوں کہا "میں تمہیں اعلیٰ ترین بھلائی حاصل کرنے کا طریقہ نہیں بتا سکتا، کیونکہ یہ میں خود نہیں جانتا۔ تاہم، مجھے اِس بات کا کامل یقین ہے کہ خالق کائنات بھلا ہے۔ اپنی بھلائی میں وقت مقررہ پر وہ ایک اُستاد بھیجے گا تا کہ انسانیت کو سکھائے کہ یہ بھلائی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔"

تجربہ نے اِس فلسفی کو سکھا دیا تھا کہ فطرتاً شریر لوگ فتنہ و شر سے بھرے ماحول کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ ایک عرب شاعر نے کہا:

نہیں اُمیدِ اصلاح شَر پسندوں سے

ملتا نہیں شہد کڑوے ثمر سے

قوموں کے راہنماﺅں نے انسان کی حالت بہتر بنانے کےلئے کئی دستور و ضوابط بنائے۔ حمورابی، یونانی فلسفیوں، مصر کے دانشوروں، رومی قانون دانوں، ایران کے مجوسیوں، ہندوستان کے برہمنوں اور اَور بہت سے لوگوں نے یہی کچھ کیا۔ مگر اُن کی تمام عقل و دانش اِس ضرورت کی تکمیل میں ناکام رہی۔ اگرچہ موسوی شریعت الٰہامی ہے، لیکن وہ بھی انسان میں کامل تبدیلی لانے میں غیر موثر تھی کیونکہ شریعت کا مقصد انسان کو صرف اُس کی خطاﺅں سے آگاہ کرنا اور کاملیت حاصل کرنے کی کوشش کی جانب اُس کی راہنمائی کرنا تھا۔ اِس کا مقصد اُسے تمام اصلاح کے منبع کی طرف لے کر آنا تھا۔

انسان کےلئے الہٰی مقرر کردہ انتظام کے سِوا کاملیت تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا، اور یہ انتظام آسمانی اُستاد، خدا کی پاک محبت کے فرزند یسوع مسیح کی صورت میں تھا جس نے وہ کچھ مہیا کیا جو کوئی نیکوکار شخص کبھی مہیا نہ کر سکتا تھا۔ مسیح نہ صِرف ایک پُرجلال اور کامل شریعت لایا، بلکہ وہ بذاتِ خود خیال، قول و فعل میں کامل تھا۔ جو کام اُس نے دوسروں سے کرنے کی توقع کی، پہلے خود اُس پر پوری طرح سے عمل کر کے دکھایا۔ مسیح کے قول و فعل میں وہ ہم آہنگی اورمطابقت پائی جاتی تھی جس کا تمام دُوسرے مصلحین کی زندگیوں میں فقدان تھا۔

اِس لئے ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ نہیں کوئی ہمیں کاملیت کے راستے کے بارے میں آگاہ کرے، بلکہ ضرورت ایسی شخصیت کی ہے جو ہمارا کامل رہبر اور ہمراہی ہو، جس کی مثال کی ہم تقلید کر سکیں اور جس کی راہ پر ہم اُس کے پیچھے چل سکیں۔ اِس روئے زمین پر یسوع ابنِ مریم کے سوا، ایسی کامل اور پاکیزہ شخصیت اَور کسی کی نہیں ہوئی۔

زبانی درس دینے اور عملی نمونہ کے ذریعے سکھانے میں کتنا عظیم فرق پایا جاتا ہے۔ زبانی سکھانا محض نظریات کو پیش کرنا ہوتا ہے، جبکہ اُسی بات کو اپنے نمونے سے سکھانا تعلیم بالعمل ہے۔ چونکہ یسوع نے کلام اور نمونہ دونوں طریقوں سے سکھایا، اِس لئے وہ اِس بگڑی دُنیا میں نیکی، خوشی اور کاملیت کے معیار کی معراج تھا۔ اب ہمارے لئے اہم بات یہ معلوم کرنا ہے کہ مسیح نے ہمارے لئے کیا کِیا اور ہمیں کیا سکھایا؟ پھر مسیح کی سوانح حیات کا مزید گہرائی سے مطالعہ کرنا اہم ہے تا کہ شخصی تبدیلی کی راہ سے واقف ہوا جا سکے اور اُس خوشی کو حاصل کیا جا سکے جس کی ہمیں جستجو ہے۔ گرچہ ہر بات میں مبالغہ آمیزی ہوسکتی ہے، مگر ہم یسوع مسیح کے جلال کی وضاحت میں آمیزش نہیں کر سکتے۔ مسیح کی کامل صفات اور اعلیٰ مرتبت زندگی کو بیان کرنے میں ہر فصیح شخص کے پاس بھی الفاظ کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا، وہ عظیم تر اَجر، جس کی کوئی شخص توقع کر سکتا ہے، یہ ہے کہ وہ لوگوں کو مسیح تک پہنچانے کا ذریعہ بنے جو تمام زندگیوں کا راہنما، پاسبان اور آسمانی محبت کا پیامبر ہے۔ صرف مسیح ہی ہمیں حقیقی کاملیت تک پہنچنے، مفت نجات کا تجربہ کرنے اور اپنے ساتھ آسمانی جلال میں ایک مُقدّس اور ابدی زندگی پانے کے قابل بناتا ہے۔ کسی شاعر نے خداوند یسوع مسیح کی شخصیت کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:

اُٹھ! تُو اَے نغمہ زن

مُنجی کا نام، مبارک کہنے میں، ہو مگن

اِس حیران کُن ہستی کو

شیریں سُر میں، دے جلال اور ہو، نغمہ سرا

کردار اُس کا ہے اعلیٰ

شان اُس کی ہے بےمثال

خالقِ کُل جہاں ہے

شفقت اُس کی حیاتِ انسان ہے

ہستیِ اقدس اُس کی لازوال

وہ ہے تب سے، جب یہاں موجودہ نہ تھا کوئی کُہسار

جلالی پوشاک پہنے

اقدس ہے ذات وہ

حسین آفتاب صداقت

چمکتا صبح کا ستارہ

اِک وہی ہے سچا کامل

لاثانی و بےمثال

ایک مرتبہ مسیح نے اپنی بابت یسعیاہ نبی کی معرفت لکھی گئی اُس نبوت کو باآواز بلند سب کے سامنے پڑھ کر سُنایا، جس میں اُس کی آمد کے ظہور کی سات سو سال پیشتر پیشین گوئی کی گئی تھی:

"خداوند کا رُوح مجھ پر ہے۔

اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کےلئے مسح کیا۔

اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی

اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سُناﺅں۔

کچلے ہوﺅں کو آزاد کروں۔

اور خداوند کے سالِ مقبول کی منادی کروں۔"

(انجیل جلیل بمطابق لوقا 4: 18، 19)

نیا عہد نامہ، مسیح کی بابت یوں بیان کرتا ہے:

"ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اُس خوشی کےلئے جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا، نہ کر کے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔ پس اُس پر غور کرو، جس نے اپنے حق میں برائی کرنے والے گنہگاروں کی اِس قدر مخالفت کی برداشت کی، تا کہ تم بےدل ہو کر ہمت نہ ہارو۔ تم نے گناہ سے لڑنے میں، اَب تک ایسا مقابلہ نہیں کیا جس میں خون بہا ہو۔" (انجیل مُقدّس، عبرانیوں 12: 2-4)

"تم اِسی کےلئے بلائے گئے ہو، کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تا کہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔" (انجیل مُقدّس، 1- پطرس 2: 12)

اِس لئے مندرجہ ذیل پانچ وجوہات کے سبب، ہمیں مسیح کی ضرورت ہے:

(1) مسیح صورت ِ انسانی میں خدا کا مجسّم کلام ہے جو اپنے آسمانی باپ کی صورت کے علاوہ کسی اَور حالت میں ظاہر نہیں ہو سکتا۔ انجیل مُقدّس میں لفظ "محبت" مسیح کی پوری طرح سے وضاحت کرتا ہے۔ خدا نے مسیح کے وسیلہ، اپنی الٰہی اور لامحدود محبت کو کسی عقیدہ کے امتیاز کے بغیر اپنے محبت رکھنے والوں اور اپنے دشمنوں دونوں کےلئے یکساں ظاہر کیا۔ اُس سے بنی نوع انسان نے سب سے یہاں تک کہ دشمنوں سے بھی محبت رکھنے کا اُصول پایا ہے۔ مسیح نے اِس اصول کو اپنی تعلیم میں شامل کیا، اور اپنے کردار سے اُس کی توثیق کی اور یہ اعلان کیا کہ محبت شریعت کی تکمیل ہے۔

(2) مسیح وہ شخصیت ہے جسے خدا تعالیٰ نے اَزّل ہی سے مقرر کر دیا تھا، اور اُسے خدا کی لامحدود اور بےبیان محبت کا اعلان کرنے اور بنی نوع انسان کے گناہوں کےلئے صلیب پر اپنی جان دینے کےلئے وقتِ مقررہ پر بھیجا۔

(3) مسیح نجات دہندہ ہے جس نے رضاکارانہ طور پر انسانی جامہ پہنا تا کہ وہ ہم انسانوں کے مشابہ ہو کر مخلصی کے کام کو پورا کر سکتا۔

(4) مسیح وہ ممتاز مذہبی راہنما ہے جو اپنی محبت کےلئے مشہور ہے۔ آج کی دُنیا میں اُس کے پیغام کی کامیابی اُس کی شخصی قربانی دینے والی محبت اور اپنے لوگوں کے ساتھ اُس کی حقیقی اور مستقل موجودگی کا نتیجہ ہے۔

(5) مسیح انجیل کا نفسِ مضمون ہے، اور یہ انسانی کانوں سے سُنی جانے والی عظیم ترین خوشخبری ہے۔ ہر زمانے اور ابدیت میں بنی نوع انسان کے واسطے یہ خدا کی فکرمندی کا پیغام ہے۔

کچھ مذہبی عقائد میں پرستش کئے جانے والے خدا کی قدرت کاملہ پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ کچھ میں اُس کی پاکیزگی پر زور دیا جاتا ہے، کچھ میں اُس کی حکمت پر اور جبکہ کچھ میں اُس کی رحمت پر زور دیا جاتا ہے۔ مگر مسیحیت اِن تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے، یسوع مسیح کے پیغام پر زور دیتی ہے، جو بنی نوع انسان کےلئے خدا کی پدرانہ محبت ہے، جو اِس بات کی متمنی ہے کہ تمام انسان حتیٰ کہ نہایت ہی بڑے گنہگار بھی خدا کی طرف لوٹ آئیں اور جہنم میں جانے سے بچ جائیں (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 3: 16)۔

کسی بھی فرد کو اُس وقت تک مسیحی کہلائے جانے کا کوئی حق حاصل نہیں جب تک کہ وہ سب لوگوں کےلئے محبت کے اصول کی پیروی کرتے ہوئے زندگی بسر نہ کرے۔ ایک سچا مسیحی دوسروں کی خدمت کرنے اور اُن کےلئے قربانی دینے کی کوشش میں رہتا ہے اور اپنے پڑوسی کی بہتری چاہتا ہے۔

2- مسیح کی شخصیت

کسی شخص کے دعوے جتنے بڑے ہوتے ہیں اُنہیں ثابت کرنا اُتنا ہی مشکل ہوتا ہے، اور اگر وہ جھوٹے ہوں تو دوسرے لوگوں کےلئے یہ دیکھنا انتہائی آسان ہوتا ہے۔ اِس لئے، ایک دانا شخص اِس خوف سے جھوٹے دعوے کرنے سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اُس کے دعوے غلط ثابت نہ ہوں اور وہ ہنسی و رسوائی کا سبب نہ ٹھہریں۔

مسیحیت اپنے رہبر یسوع کی بابت نہایت حیرت انگیز دعوے کرتی ہے۔ اگر مسیحیت کے یہ دعوے برحق ہیں، تو یہ مذہب عظیم ترین ہے اور اِس کا رہبر دیگر تمام راہنماﺅں سے بڑا ہے۔ لہٰذا، مسیحیت کے دعووں کو ثابت کرنے کےلئے ضروری ہے کہ مسیح کی سوانح حیات کی گہرے طور سے تحقیق کی جائے۔ مسیح نے خود فرمایا: "اُن کے پھلوں سے تُم اُن کو پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟" (انجیل جلیل بمطابق متی 7: 16)۔ مسیح کے دوستوں کے بیانات یا مسیح کے مخالفین کی نکتہ چینی کو ایک طرف رکھ کر، کوئی بھی فرد مسیح کے کلام و عمل کے باعث اُس کی سچی عظمت کی بابت فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔

مسیح گلیل کا رہنے والا ایک غریب ربّی تھا، جسے اُس کے مخالفین یہودی مذہبی راہنماﺅں نے گرفتار کیا اور اُس وقت کے ظالم رومی گورنر پیلاطس کے پاس لائے، اور مسیح کو صلیب دینے کا تقاضا کیا۔ پوری تحقیقات کے بعد پیلاطس نے مسیح کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے، الزام لگانے والے یہودیوں سے کہا "میں اِس شخص میں کچھ قصور نہیں پاتا" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 23: 4)۔ مگر مسیح کے مخالف یہودی لوگ اِس قدر بضد ہوئے کہ گورنر نے دوبارہ تحقیقات کیں اور اپنا فیصلہ سنایا: "پھر پیلاطس نے سردار کاہنوں اور سرداروں اور عام لوگوں کو جمع کر کے اُن سے کہا کہ تم اِس شخص کو لوگوں کا بہکانے والا ٹھہرا کر میرے پاس لائے ہو اور دیکھو میں نے تمہارے سامنے ہی اُس کی تحقیقات کی، مگر جن باتوں کا الزام تم اُس پر لگاتے ہو، اُن کی نسبت نہ میں نے اُس میں کچھ قصور پایا، نہ ہیرودیس نے۔ کیونکہ اُس نے اُسے ہمارے پاس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اُس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرتا" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 23: 13-15)۔

پیلاطس کی بیوی نے خواب میں دیکھا کہ یسوع بے قصور تھا، اِس لئے اُس نے پیلاطس سے کہا کہ وہ اِس معاملہ سے سروکار نہ رکھے (انجیل جلیل بمطابق متی 27: 16)۔ اِسی لئے پیلاطس نے بِھیڑ سے تین مرتبہ یوں کہا کہ "میں نے اِس میں قتل کی کوئی وجہ نہیں پائی" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 23: 22)۔ بالآخر، پیلاطس نے بادلِ نخواستہ یہودیوں کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے یسوع کو صلیب پر مصلوب کرنے کےلئے اُن کے حوالے کر دیا۔ تاہم، اُس نے اپنے پریشان حال ضمیر کو تسلی دینے کےلئے سب کے سامنے پانی میں ہاتھ دھوئے اور یوں کہا "میں اِس راستباز کے خون سے بری ہوں۔ تم جانو" (انجیل جلیل بمطابق متی 27: 24)۔

پیلاطس نے مسیح کے مقدمے کی تحقیقات کے بعد اُسے بے قصور پایا۔ مسیح کی زمینی زندگی کے آخری وقت پیلاطس جس نتیجے پر پہنچا، وہ مسیح کی شخصیت کو جاننے کےلئے انتہائی اہم ہے۔ تمام مہذب دُنیا اِس نتیجے سے متفق ہے۔ یہودی، مسیحی، اہل اسلام، بُت پرست اور بے دین سب اِس حقیقت سے متفق ہیں کہ یسوع مسیح کی شخصیت راستباز اور بے عیب تھی۔

یسوع مسیح کی شخصیت کے ادراک میں تنوع کی کیا منطقی وضاحت ہے؟ ہم مسیح کی دیانتداری اور پاکیزگی کے بارے میں دُنیا کے نتیجے کو مندرجہ ذیل باتوں کے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟

(1) وہ دعوے جو مسیح نے اپنے بارے میں کئے۔

(2) وہ کام جو مسیح نے سرانجام دیئے۔

(3) جو کچھ مسیح کے بارے میں کہا گیا، اور جو کچھ اُس کے ساتھ کیا گیا۔

ہم سب اِس بات سے متفق ہیں کہ اگر کوئی فرد اپنی ذات میں ایسی غیر معمولی صفات ہونے کا دعویٰ کرے، مگر یہ اُس کی زندگی میں نہ ہوں تو ایسے شخص کو سب لوگ جھوٹا، بے وقوف اور دیوانہ کہیں گے۔ لیکن ہم مسیح کو کسی بھی ایسی بات کا الزام نہیں دے سکتے۔

یہ واضح ہے کہ مسیح کے شاگرد اور رسول جس قدر نیکوکار ہوتے گئے، اُتنا ہی زیادہ وہ اپنی غلطیوں اور خامیوں کو تسلیم کر کے حلیم بھی ہوئے۔ نیکی و دینداری میں حلیمی سب سے مقدم ترین ہے اور اپنی خطاﺅں کو تسلیم کرنا نہایت ہی اہم ہے۔ نیک ضابطہء اخلاق ایک فرد کے ضمیر کی اثر پذیری کو اَور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ صحائف مُقدّسہ میں ہم عظیم ترین نبیوں اور رسولوں مثلاً موسیٰ، دانی ایل، پطرس اور پولس کے گناہوں کے اقرار اور خدا کے رحم کےلئے دِلی التجا کو دیکھتے ہیں۔ اِس سے اُن کے حقیقی نیک رویے کی تصدیق ہوتی ہے کہ اُن میں سے کسی نے بھی کامل ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔ لیکن اِس ضمن میں مسیح دیگر تمام نیک صفت لوگوں سے مختلف ہے، اور اِس فرق کی معقول وضاحت کرنا ضروری ہے اور ساتھ ہی اِس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے کہ "یہ یسوع کون ہے؟"

یاد رکھئے، مسیح کے کامل ہونے کا اعلان کرنے والے افراد وہ تھے جو تین سال تک دن رات اُس کے ساتھ رہے۔ وہ مسیح کو بہت ہی قریب سے جانتے تھے۔ وہ ناکامیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے والے لوگ نہیں تھے اور نہ ہی ایسے تھے کہ اُن کی بابت خاموش ہو جاتے۔ بلکہ اِس کے برعکس مسیح کی زندگی اور اُس کی کاملیت کی فوقیت بیان کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنی کمزوریوں اور خطاﺅں کا ذکر بھی کیا۔ یہ اُن کے خلوص، دانائی اور راستبازی کا ثبوت ہے، اور خاطر خواہ دلیل بھی ہے کہ مسیح سے متعلق اُن کی گواہیوں کو نہایت عزت و تعظیم کے ساتھ دیکھا جائے۔

یہ باعثِ حیرت ہے کہ ماضی اور حال کی سخت ترین مخالفت کے باوجود بھی مسیحیت بڑھتی گئی، اور قائم و دائم ہے۔ دشمنانِ مسیحیت اِسے خوار، کمزور اور برباد کرنا چاہتے تھے۔ ہیرودیس نے بیت لحم میں بچہ یسوع کو قتل کرنا چاہا; اُس کے بعد سے مسیحیت کے دشمنوں نے ہیرودیس ہی کی طرح مسیحی کلیسیا اور اُس کی تعلیمات کے خلاف جنگ کرنا بند نہیں کیا۔

کسی بھی صاحبِ فکر متلاشی پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ مسیحیت کی تعلیمات اور عقائد سے متعلق اعتراضات رسولی زمانے میں شروع ہوئے، کچھ تعطل کے بعد آنے والی نسلوں میں پھر سے اُبھرتے چلے آ رہے ہیں۔ اِن میں سے کچھ تنقیدی نکات نہایت نامعقول و مضحکہ خیز تھے، جنہیں فوراً تردید کے بعد باطل قرار دے دیا گیا۔ مسیحیت پر تنقید اور اُس کی مخالفت کرنے والے لوگوں اور اُن کے راہنماﺅں نے تصور کر لیا کہ مسیحیت کی بنیاد ہلا دی گئی اور اُنہوں نے فخریہ انداز میں سوچا کہ اَب مسیحیت کا خاتمہ نزدیک ہے۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ بائبل مُقدّس غیر معتبر ثابت ہو گئی ہے اور لوگوں نے اِس کی اہم ترین تعلیمات کو ردّ کر دیا ہے۔ لیکن مسیح کی شخصیت کے بارے میں اِنجیل مُقدّس کی تعلیم سب امتحانوں میں سے گزر کر بھی مضبوطی سے قائم و ثابت ہے۔

اپنی دُعا میں جناب مسیح نے فرمایا "اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں" (انجیل بمطابق یوحنا 17: 3)۔ پولس رسُول نے کہا "میں اپنے خداوند مسیح یسوع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں جس کی خاطر میں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کُوڑا سمجھتا ہوں تا کہ مسیح کو حاصل کروں" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 8)۔ یوحنا رسُول نے اپنے انجیلی بیان میں مسیح کی بابت نہایت خوبصورت پیرائے میں لکھا "یہ (معجزات) اس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لاﺅ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاﺅ" (انجیل بمطابق یوحنا 20: 31)۔

کتنا ہی اچھا ہو، اگر تمام انسانیت اِس لاثانی نجات دہندہ پر جو الٰہی شخصیت ہوتے ہوئے کامل انسان بھی ہے شخصی طور پر ایمان لائے۔ مسیح کے نام پر ایمان ہی ایک ایماندار کو ہمیشہ کی زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے، اور اِس بارے میں پولس رسُول نے فرمایا: "اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سر بلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو، خواہ زمینیوں کا، خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 9-11)۔

3- حیات مسیح جاننے کے ذرائع

جناب مسیح کی زندگی کے حالات کی حقیقت جاننے کے چار ذرائع ہیں۔ جو متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیانات ہیں۔ لفظ "انجیل" یونانی زبان سے عربی زبان میں آیا، جس کے معنٰی "خوشخبری" کے ہیں، یہ لفظ پہلے پہل، مسیح کے ذریعے نجات کی خوشخبری کی تعلیمات کے تناظر میں استعمال ہوا، یعنی وہ تعلیمات جو خوشخبری کا احاطہ کرتی ہیں۔ لفظ خوشخبری مسیح کی زندگی کو بھی بیان کرتا ہے جو اپنی ذاتِ پاک میں مجسم کلام تھا۔

ابتدا میں خوشخبری سے مُراد ایک کتاب نہ تھی بلکہ اِس کا مطلب مسیح کا بذاتِ خود حقیقی پیغام اور اُس پیغام کی ترسیل تھی۔ انجیل اپنی تحریری حالت سے قبل، مسیح کے رسُولوں اور اُن کے شاگردوں کی زبانی تمام رومی سلطنت میں پھیل چکی تھی۔ خداوند یسوع مسیح نے خود انجیلی بیان کو قلمبند نہیں کیا اور نہ ہی براہ راست اپنے شاگردوں کو اُسے لکھنے کےلئے کہا۔ مسیحی مکاشفہ بنیادی طور پر ایک کتاب کا نام نہیں جو شاگردوں پر نازل ہوئی، بلکہ یہ مسیح کی اپنی ہی ذات کی زندہ شخصیت کا مکاشفہ ہے۔ اِسی سے متعلق پولس رسُول نے فرمایا کہ اگلے وقتوں میں خدا نے ہمارے باپ دادا سے حصّہ بہ حصّہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کیا، لیکن اب زمانہ کے آخرمیں اُس نے ہم سے اپنے بیٹے کلام خدا کی وساطت سے کلام کیا (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 1: 1، 2)۔ یوحنا رسُول نے اپنے پہلے خط کے شروع میں اپنے اور رسُولوں کے تعلق سے لکھا کہ اُنہوں نے زندگی کے کلام (مسیح) کو سُنا، دیکھا اور چھوا ہے (نیا عہدنامہ، 1-یوحنا 1: 1)۔ یوں اُنہوں نے خوشخبری یعنی اُمید اور نجات کے پیغام سے دُنیا میں منادی کی۔

ابتدائی مسیحی قیادت نے ضرورت محسوس کی کہ مسیحی کلیسیا کےلئے مسیح کے حالات سے متعلق ہر طرح کی آمیزش و غلطی سے پاک ایک قابل اعتبار تحریر قلمبند کی جائے۔ یوں رسُولوں کےلئے ناگزیر ہوا کہ وہ اپنے تجربات کو تحریر کریں کیونکہ رسُول ہی تمام باتوں کے چشم دید گواہ تھے۔ اُنہوں نے اُس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے سے پہلے خود اُسے قبول کیا تھا اور اُس کا تجربہ بھی کیا تھا۔ غرض، رُوح القدس کے الہام سے چار انجیلی بیانات لکھ کر محفوظ کئے گئے، جو آج ہمارے پاس بائبل مُقدّس میں موجود ہیں۔ یاد رہے، انجیل یعنی خوشخبری ایک ہی ہے، جو مسیح میں مجسم ہوئی، جسے جناب مسیح لائے اور ہمیں سکھائی۔ لفظ "انجیل" تمام بائبل مُقدّس میں صیغہء واحد میں استعمال ہوا ہے۔ گو کہ اِس کی ترسیل ہم تک چار بیانات کے ذریعے ہوئی، مگر یہ چاروں بیانات اپنے جوہر اور نفس مضمون میں ایک دوسرے سے باہم متفق ہیں۔ یوں پیغام تو ایک ہی ہے، مگر اِسے چار مصنفین متی، مرقس، لوقا اور یوحنا نے تحریری صورت دی۔ متی اور یوحنا، مسیح کے بارہ رسولوں میں سے تھے۔ مرقس پطرس کا شاگرد تھا، جبکہ لوقا پولس کا شاگرد تھا۔ مرقس اور لوقا نے پطرس اور پولس رسول کی زیر نگرانی انجیلی بیان تحریر کئے۔

متی نے اپنا بیان اپنے لوگوں یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا۔ اُس کی خاص دلچسپی پرانے عہدنامہ کی نبوتوں اور یسوع مسیح میں اُن کی تکمیل کے بارے میں تھی۔ مرقس نے اپنا بیان رومی پس منظر رکھنے والے مسیحیوں کےلئے روم میں لکھا۔ اُس نے مسیح کی قوت و قدرت اور عظمت پر زور دیا، جس نے رومی لوگوں کو متاثر کیا۔ لوقا نے اپنا بیان یونانی پس منظر رکھنے والے مسیحیوں کےلئے لکھا۔ اُس نے ارادہ اور دِل کی کیفیت پر زور دیا، جن کے ذریعے انسان کاملیت کی طرف بڑھتا ہے، اور جن کے وسیلے خدا کی محبت آشکارا ہوتی ہے۔ اُس کے انجیلی بیان کو "شفقت و رحمت کی انجیل" کہا گیا ہے، اور یہ مسیحیت پھیلنے کے بعد لکھا گیا۔ وہ بعض نظریات کی وضاحت کرنا اور کچھ سوالات کے جوابات دینا چاہتا تھا، نیز اُن خیالات کی بابت بات کرنا چاہتا تھا جو مسیحی تعلیمات میں داخل ہو گئے تھے۔

الف- متی کے مطابق خوشخبری کا پیغام

"یسوع مسیح، ابنِ داﺅد، ابنِ ابرہام کا نسب نامہ۔" (انجیل بمطابق متی 1: 1)

مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد بنام متی نے یہودی ایمانداروں کو مخاطب کرتے ہوئے خوشخبری کا بیان کیا۔ اُس نے مسیح کی زمینی حیات کو کسی الگ تھلگ واقعے کے طور پر نہیں بلکہ اُن تاریخی اور نبوتی واقعات کے سلسلے کے اختتام و تکمیل کی صورت میں پیش کیا، جن کا آغاز صدیوں پہلے ہو چکا تھا۔ متی کی انجیل داﺅد اور ابرہام کی نسل سے پیدا ہونے والے مسیحا کے بارے میں ہے۔ متی عہد عتیق کے پاک نوشتوں کا تواتر سے حوالہ دیتے ہوئے ظاہر کرتا ہے کہ کیسے مسیح میں نبوتیں پوری ہوئیں۔ مسیح ہی وہ واحد شخصیت ہے جس نے خدا کی ساری راستبازی کو پورا کیا۔ باالفاظ دیگر، مسیح ہی نے موسیٰ نبی اور دیگر انبیا کی تحریروں میں پائے جانے والے کلام خدا کو پورا کیا۔ متی عہد عتیق سے پچھتر آیات کا حوالہ دیتا ہے، جس سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یسوع مسیح، ابرہام اور اُس کی نسل سے کئے گئے تمام الہٰی وعدوں کی تکمیل ہے۔ مسیح نے اِس یہودی خیال کی کہ آنے والا مسیح یروشلیم کو اپنا مرکز بنا کر سیاسی بادشاہی قائم کرے گا، تصحیح کی۔ وہ آسمان کی بادشاہی کی بنیاد ڈالنے کےلئے آیا۔

ب- مرقس کے مطابق خوشخبری کا پیغام

"یسوع مسیح ابنِ خدا کی خوشخبری کا شروع۔" (انجیل بمطابق مرقس 1: 1)

مرقس بارہ رسولوں میں سے نہیں تھا۔ اُس کے نام کا ذِکر چاروں انجیلی بیانات میں نہیں ملتا۔ اُس کا عبرانی نام یوحنا تھا جبکہ یونانی یا رومی نام مرقس تھا۔ اُس کے نام کا پہلی مرتبہ ذِکر مسیح کے صعودِ آسمانی کے کچھ سال بعد ملتا ہے۔ وہ ایک خاتون بنام مریم کا بیٹا تھا، جو خود بھی یسوع پر ایمان لائی تھی (نیا عہدنامہ، اعمال الرسل 12: 12)۔ یہ خاتون کُپرُس کے ایک لاوی برنباس کی بہن تھی جو نصیحت و منادی کےلئے مشہور ہوا۔ پطرس رسُول نے مرقس کو "اپنا فرزند" کہہ کر مخاطب کیا ہے (نیا عہدنامہ، 1-پطرس 5: 13)۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرقس نے پطرس کی معرفت مسیحی ایمان کو قبول کیا تھا۔ آبائے کلیسیا کی تحریریں اِس بات سے متفق ہیں کہ مرقس، پطرس رسُول کا شاگرد تھا اور اُس نے پطرس ہی کی قیادت میں اِس انجیلی بیان کو تحریر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پطرس نے اپنے نام سے کوئی انجیلی بیان نہیں لکھا۔

مرقس کی معرفت لکھی گئی انجیل کی ابتدا یوں ہوتی ہے: "یسوع مسیح ابنِ خدا کی خوشخبری کا شروع۔" اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی داستانِ حیات ہی انجیل یعنی خوشخبری ہے۔ اِس خوشخبری کے تین پہلو تعارف میں دیئے گئے تین ناموں سے عیاں ہیں "یسوع مسیح ابن خدا۔" اِن تین ناموں کی وضاحت یہ ہے:

(1) یسوع: یہ نام جبرائیل فرشتہ کی معرفت دیا گیا تھا۔ اِس کا مطلب "نجات دہندہ" ہے۔ مسیح کی پیدایش سے پہلے فرشتے نے اِس نام کے مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے اِس کے بارے میں بتایا "اُس (مریم) کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا" (انجیل بمطابق متی 1: 21)۔ مسیح کے وسیلہ اِس نجات کو ابدیت کےلئے ہونا تھا۔

(2) مسیح: ابنِ داﺅد ہوتے ہوئے، یسوع ہی مسیح ہے، جس کا وعدہ آدم کے وقت سے کیا گیا۔ خدا نے اُسے نبی، کاہن اور بادشاہ ہونے کےلئے مسح کیا۔ اُسے بزرگان دین (ابرہام، اضحاق اور یعقوب) اور اُس کے بعد آنے والی نسلوں میں انبیا کو دی گئی بیش قیمت نبوتوں کی تکمیل کےلئے بھیجا گیا۔

(3) ابنِ خدا: وہ حقیقتاً ابنِ خدا ہے کیونکہ یہ شاہانہ نام مسیح کےلئے کسی زمینی انسان کی جانب سے نہیں، بلکہ ایک فرشتہ کی طرف سے الٰہی مکاشفہ ہے جس نے کنواری مریم کو خبر دی کہ اُس کے ہاں بیٹا ہو گا جو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا، اور خداوند خدا اُس کے باپ داﺅد کا تخت اُسے دے گا اور وہ ابد تک بادشاہی کرے گا (انجیل بمطابق لوقا 1: 31-33)۔ جب مریم نے اِس بظاہر ناممکن واقعہ کی تصدیق چاہی، تو جبرائیل فرشتہ نے اِس معاملہ کو واضح کرنے کےلئے اپنے اعلان کو دہرایا۔ ساری انسانی تاریخ میں مسیح کی آمد کے علاوہ کوئی ایسی خبر نہیں جو انجیل یعنی خوشخبری کہلانے کی مستحق ہے۔ درحقیقت، یسوع مسیح ہی حقیقی خوشخبری ہے۔ اِسی لئے ہمیں تعجب نہیں ہوتا کہ مسیح سے تقریباً سات سو سال پہلے کے زمانے میں یسعیاہ نبی نے مسیح کے بارے میں یہ نبوتی الفاظ کہے: "خداوند خدا کی رُوح مجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مجھے مسح کیا تا کہ حلیموں کو خوشخبری سناﺅں۔ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دِلوں کو تسلّی دوں۔ قیدیوں کےلئے رہائی اور اسیروں کےلئے آزادی کا اعلان کروں۔ تا کہ خداوند کے سالِ مقبول کا اور اپنے خدا کے اِنتقام کے روز کا اِشتہار دُوں اور سب غمگینوں کو دِلاسا دُوں" (یسعیاہ 61: 1، 2)۔ اِس لئے یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ جب خداوند کے فرشتہ نے بیت لحم کے نزدیک چرواہوں پر مسیح کی پیدایش کا اعلان کیا تو اُن سے کہا "ڈرو مت! کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہو گی" (انجیل بمطابق لوقا 2: 10)۔ مرقس کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان کا یہ مختصر تعارف ہمارے لئے یسوع مسیح کے بارے میں اُس بات کو بیان کرتا ہے جس کا ہمارے لئے جاننا ضروری ہے۔

ج- لوقا کے مطابق خوشخبری کا پیغام

"چونکہ بہتوں نے اِس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں اُن کو ترتیب وار بیان کریں۔ جیسا کہ اُنہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادم تھے اُن کو ہم تک پہنچایا۔ اِس لئے اے معزز تھیُفِلس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں تا کہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے۔" (انجیل بمطابق لوقا 1: 1-4)

مرقس کی طرح، مبشر لوقا کا ذِکر بھی چاروں انجیلی بیانات میں نہیں پایا جاتا۔ تاہم، لوقا کی زندگی کی جھلک ہمیں اُس کی دوسری تحریرکتاب اعمال الرُّسل میں کہیں کہیں نظر آتی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ پولس کے کچھ بشارتی سفروں میں اُس کے ساتھ تھا۔ اِس کے علاوہ نئے عہدنامہ میں موجود کلیسیاﺅں کو لکھے گئے خطوط میں سے ایک میں لوقا کو "پیارا طبیب" کہا گیا ہے (نیا عہدنامہ، کلسیوں 4: 14)۔ اپنی یونانی زبان کی نہایت شایستگی اور نفاست کے باعث وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نظرآتا ہے۔ اُس کا تمہیدی بیان اُس کے مسیحی ایماندار دوست تھیُفِلس کےلئے مختصر پیغام ہے، جس میں وہ ظاہر کرتا ہے کہ اِس انجیلی بیان کو قلمبند کرنے کا مقصد تھیُفِلس کے ایمان کی تصدیق کرنا تھا۔ وہ اُسے یقین دِلاتا ہے کہ اُس نے مسیح کی بابت معلومات کی پوری طرح سے تحقیقات کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اُس نے کہا: " ...تا کہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی تجھے معلوم ہوجائے" (انجیل بمطابق لوقا 1: 4)۔

د- یوحنا کے مطابق خوشخبری کا پیغام

"ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 1-4)

چوتھا انجیل نویس یوحنا رسُول ہے۔ یہ پہلے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا شاگرد تھا اور یسوع مسیح کی پیروی کرنے والے پہلے دو شاگردوں میں سے ایک تھا۔ اُسے وہ شاگرد "جس سے یسوع محبت رکھتا تھا" کہا گیا ہے (انجیل بمطابق یوحنا 13: 23)۔ ماہی گیر ہونے کے باوجود وہ غریب نہیں تھا کیونکہ اُس کے والد زبدی کے پاس بہت سی کشتیاں تھیں اور ملازم بھی تھے۔ اُس کی والدہ سلومی، یسوع اور اُس کے حواریوں کے ساتھ رہی اور اُنہیں مالی امداد بہم پہنچاتی تھی۔ مسیح نے کئی لحاظ سے یوحنا پر نظر کرم کی۔ آخری فسح کے موقع پر وہ یسوع کے سینہ کی طرف جھکا ہوا کھانا کھانے بیٹھا تھا (انجیل بمطابق یوحنا 13: 23)، اور مرنے سے پہلے یسوع نے اپنی والدہ مریم کو اِسی شاگرد یوحنا کی سپردگی میں دیا (انجیل بمطابق یوحنا 19: 27)۔ یوحنا کا انجیلی بیان محبت و مہربانی سے لبریز ہے۔

یوحنا نے متی، مرقس اور لوقا کے تقریباً بیس یا تیس برس بعد انجیلی بیان لکھا۔ تب تک مسیح کی اِنسانیت ایمانداروں کے ذہنوں میں خوب تصدیق یافتہ حقیقت بن چُکی تھی جس کا متزلزل ہونا ناممکن تھا۔ چونکہ جنونیت خاص طور پر مذہبی جنونیت ایک انسانی رجحان ہے، اِس لئے بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسیح صرف ایک انسان تھا اور اُنہوں نے اُس کی الوہیت کا انکار کیا۔ اِس لئے یوحنا نے اپنے انجیلی بیان میں اِس بات کو ضروری سمجھا کہ وہ مسیح کی الوہیت کو شامل کرے۔ یوں اُس نے کلیسیا میں آنے والی بدعتی تعلیم کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔

یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان کا دیباچہ انجیل مُقدّس کا عظیم الشان اور سب سے زیادہ مشہور بیان گردانا جاتا ہے۔ یہ بیان مذہبی لگاﺅ رکھنے والے کسی بھی شخص پر گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔ پیدایش 1: 1 میں ہم یوں پڑھتے ہیں کہ "خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔" اور یوحنا رسُول اُس ابتدا کے بارے میں لکھتا ہے، اُس نے لکھا "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 1-3)۔

"اِس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولُّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مُشیر، خدائے قادر، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔" (مسیح کی پیدایش سے تقریباً سات سو سال پہلے یسعیاہ نبی و کاہن کی مسیح کے بارے میں پیشین گوئی، صحیفہ یسعیاہ نبی 9: 6)

4- یسوع مسیح کا نسب نامہ

ہر سمجھ بُوجھ رکھنے والا قاری، متی اور لوقا کے تحریر کئے گئے نسب نامہ میں ایک فرق ضرور دیکھے گا۔ یوحنا کے انجیلی بیان میں مسیح کے نسب نامہ کا ذِکر نہیں ہے کیونکہ اُس نے مسیح کی ازلی ابتدا کے بارے میں بات کی ہے۔ متی اور لوقا کے نسب ناموں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے، جیسے کہ ہم آگے دیکھیں گے۔

الف- یوحنا کے مطابق یسوع کا نسب نامہ

یوحنا نے مسیح کو ایک نیا لقب دیا۔ اُس نے مسیح کو "کلام" کہہ کر پکارا، جو نہایت ہی موزوں بیان ہے کیونکہ الفاظ کسی شخص کی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یوں یسوع جو مجسّم ہوا، اُس نے خدا کو ظاہر کیا جو سب کچھ دیکھتا ہے مگر خود نادیدنی ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے کردار اور کلام کے ذریعے قدرت، حکمت، نیکی و پاکیزگی جیسے اوصافِ الٰہی کو آشکارا کیا۔ اِس لئے مسیح کے القاب میں سے ایک لقب "کلام" کا ہونا باعث ِحیرت نہیں۔

عربی زبان میں لفظ "کلمہ" (یونانی، لوگوس) گرامر کی رو سے مونث ہے۔ مگر یوحنا نے اِسے یسوع ایک مرد کےلئے استعمال کیا ہے۔ (لفظ کلمہ کے ساتھ ربط میں مذکر ضمائر اور فعل کے استعمال سے، لفظ کا استعمال ایک حقیقی شخصیت یسوع مسیح کو ظاہر کرنے والے لقب میں تبدیل کر دیا گیا۔)

یوحنا نے اپنے دیباچہ کا اختتام اِس تصدیق کے ساتھ کیا کہ خدا اَن دیکھا ہے اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے "کلام" کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے اور صرف وہی کلام اِس کام کے اہل تھا کیونکہ وہ خدا کی گود میں ہوتے ہوئے اُسے حقیقی گہرائی سے جانتا ہے۔ خدا کو ظاہر کرنے کےلئے کلام مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا: "کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچّائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 14)۔

ب- متی کے مطابق یسوع کا نسب نامہ

"یسوع مسیح، ابنِ داﺅد، ابنِ ابرہام کا نسب نامہ۔ ابرہام سے اضحاق پیدا ہوا، اور اضحاق سے یعقوب پیدا ہوا، اور یعقوب سے یہوداہ اور اُس کے بھائی پیدا ہوئے۔ اور یہوداہ سے فارص اور زارح تمر سے پیدا ہوئے۔ اور فارص سے حصرون پیدا ہوا، اور حصرون سے رام پیدا ہوا۔ اور رام سے عمّینداب پیدا ہوا، اور عمّینداب سے نحسون پیدا ہوا، اور نحسون سے سلمون پیدا ہوا۔ اور سلمون سے بوعز راحب سے پیدا ہوا، اور بوعز سے عوبید رُوت سے پیدا ہوا، اور عوبید سے یسّی پیدا ہوا۔ اور یسّی سے داﺅد پیدا ہوا۔

اور داﺅد سے سُلیمان اُس عورت سے پیدا ہوا جو پہلے اُوریاہ کی بیوی تھی۔ اور سلیمان سے رحُبِعام پیدا ہوا، اور رحُبِعام سے ابیاہ پیدا ہوا، اور ابیاہ سے آسا پیدا ہوا۔ اور آسا سے یہوسفط پیدا ہوا، اور یہوسفط سے یُورام پیدا ہوا، اور یُورام سے عُزّیاہ پیدا ہوا۔ اور عُزّیاہ سے یُوتام پیدا ہوا، اور یُوتام سے آخز پیدا ہوا، اور آخز سے حزقیاہ پیدا ہوا۔ اور حزقیاہ سے مَنسّی پیدا ہوا، اور مَنسّی سے امُون پیدا ہوا، اور امُون سے یُوسیاہ پیدا ہوا۔ اور گرفتار ہو کر بابل جانے کے زمانہ میں یُوسیاہ سے یکونیاہ اور اُس کے بھائی پیدا ہوئے۔

اور گرفتار ہو کر بابُل جانے کے بعد یکونیاہ سے سیالتی ایل پیدا ہوا، اور سیالتی ایل سے زَرُبّابُل پیدا ہوا۔ اور زَرُبّابُل سے ابیہُود پیدا ہوا، اور ابیہُود سے اِلیاقیم پیدا ہوا، اور اِلیاقیم سے عازور پیدا ہوا۔ اور عازور سے صدوق پیدا ہوا، اور صدوق سے اخیم پیدا ہوا، اور اخیم سے اِلیہُود پیدا ہوا۔ اور اِلیہُود سے اِلیعزر پیدا ہوا، اور اِلیعزر سے متّان پیدا ہوا، اور متّان سے یعقوب پیدا ہوا۔ اور یعقوب سے یُوسُف پیدا ہوا۔ یہ اُس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے۔

پس سب پُشتیں ابرہام سے داﺅد تک چودہ پُشتیں ہوئیں، اور داﺅد سے لے کر گرفتار ہو کر بابُل جانے تک چودہ پُشتیں اور گرفتار ہو کر بابُل جانے سے لے کر مسیح تک چودہ پُشتیں ہوئیں۔" (انجیل بمطابق متی 1: 1-17)

مسیح کے اِس نسب نامہ کا مصنف متی بنیادی طور پر ایک یہودی محصول لینے والا شخص تھا۔ اُس کا عبرانی نام لاوی اور یونانی نام متی تھا، اور اُس کے باپ کا نام حلفئی تھا۔ وہ رومی حکومت کے ماتحت ملازم تھا، اِس لئے اُسے مالی اور تجارتی معاملات کا خوب علم تھا۔ وہ بھی ایک امیر شخص تھا۔

متی انجیلی بیان کا آغاز اِن الفاظ سے کرتا ہے: "یسوع مسیح، ابنِ داﺅد، ابنِ ابرہام کا نسب نامہ۔ ابرہام سے اضحاق پیدا ہوا، اور اضحاق سے یعقوب پیدا ہوا، اور یعقوب سے یہوداہ اور اُس کے بھائی پیدا ہوئے۔..." پھر وہ چالیس آدمیوں اور عورتوں کا ذِکر کرتا ہے، اور آخر میں یُوسُف اور اُس کی منگیتر مریم کا ذِکر کرتا ہے جس کے بطن سے یسوع مسیح کی ولادت ہوئی۔ ممکن ہے ایک عام قاری کو یہ فہرست بیزار کُن لگے، لیکن ایک صاحبِ فکر قاری اِس کی بڑی اہمیت کو دیکھ سکتا ہے، کیونکہ اِس نسب نامہ میں اُس عظیم شخصیت کی انسانیت کے بارے میں بصیرت ملتی ہے جو مجسم ہو کر ہمارے درمیان رہا۔ مسیح کا نسب نامہ پہلے آدمی یعنی آدم سے جا ملتا ہے۔ اور یہ وہ واحد شخصیت ہے جس کی قدر و منزلت اُس کے الہٰی جوہر کے ساتھ ساتھ اُس کے انسانی نسب نامہ پر بھی منحصر ہے، کیونکہ وہ ابنِ داﺅد ہے جس سے مسیحا کا آنا متوقع تھا۔

ج- لوقا کے مطابق یسوع کا نسب نامہ

"جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو قریباً تیس برس کا تھا اور (جیسا کہ سمجھا جاتا تھا) یُوسُف کا بیٹا تھا اور وہ عیلی کا۔ اور وہ متّات کا، اور وہ لاوی کا، اور وہ ملکی کا، اور وہ ینّا کا، اور وہ یُوسُف کا۔ اور وہ مَتِّتِیاہ کا، اور وہ عاموس کا، اور وہ ناحوم کا، اور وہ اسلیاہ کا، اور وہ نوکہ کا۔ اور وہ ماعت کا، اور وہ مَتِّتِیاہ کا، اور وہ شِمعی کا، اور وہ یوسیخ کا، اور وہ یوداہ کا۔ اور وہ یوحناہ کا، اور وہ ریسا کا، اور وہ زرُّبّابُل کا، اور وہ سیالتی ایل کا، اور وہ نیری کا۔ اور وہ ملکی کا، اور وہ اَدّی کا، اور وہ قوسام کا، اور وہ اِلمودام کا، اور وہ عیر کا۔ اور وہ یشوع کا، اور وہ اِلیعزر کا، اور وہ یوریم کا، اور وہ متّات کا، اور وہ لاوی کا۔ اور وہ شمعون کا، اور وہ یہوداہ کا، اور وہ یُوسُف کا، اور وہ یونان کا، اور وہ اِلیاقیم کا۔ اور وہ ملےآہ کا، اور وہ مِنّاہ کا، اور وہ متَّتاہ کا، اور وہ ناتن کا، اور وہ داﺅد کا۔ اور وہ یسّی کا، اور وہ عوبید کا، اور وہ بوعز کا، اور وہ سلمون کا، اور وہ نحسون کا۔ اور وہ عمِّینداب کا، اور وہ ارنی کا، اور وہ حصرون کا، اور وہ فارص کا، اور وہ یہوداہ کا۔ اور وہ یعقوب کا، اور وہ اضحاق کا، اور وہ ابرہام کا، اور وہ تارہ کا، اور وہ نحور کا۔ اور سُروج کا، اور وہ رعو کا، اور وہ فلج کا، اور وہ عِبر کا، اور وہ سِلح کا۔ اور وہ قینان کا، اور وہ ارفکسد کا، اور وہ سِم کا، اور وہ نُوح کا، اور وہ لَمک کا۔ اور وہ متُوسِلح کا، اور وہ حنوک کا، اور وہ یارِد کا، اور وہ مہلل ایل کا، اور وہ قِینان کا۔ اور وہ انُوس کا، اور وہ سیت کا، اور وہ آدم کا، اور وہ خدا کا تھا۔" (انجیل بمطابق لوقا 3: 23-38)

لوقا کی معرفت لکھا گیا نسب نامہ، متی کی معرفت لکھے گئے نسب نامہ سے فرق نظر آتا ہے۔ مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں اِس بات پر باہم متفق ہیں کہ نسب نامہ کی آخری کڑی یسوع کی ماں مریم کا شوہر یُوسُف ہے۔ دونوں نسب نامے ابرہام سے داﺅد تک کی لڑی، اور بابلی اسیری میں سیالتی ایل اور زرُّبّابُل کے ناموں پر متفق ہیں۔ تاہم اِن دونوں نسب ناموں میں کچھ فرق کے باعث، بعض کو نکتہ چینی کی راہ نظر آئی۔ مثلاً متی، یسوع کے نسب نامہ کو ابرہام تک لے جاتا ہے، جبکہ لوقا اُسے آدم تک لے کر جاتا ہے۔ متی، مسیح کے نسب نامہ کے سلسلہ کو سلیمان ابنِ داﺅد سے شروع کرتا ہے، جبکہ لوقا اُسے داﺅد کے ایک اَور بیٹے ناتن سے شروع کرتا ہے۔ متی، یُوسُف (مریم کے منگیتر) کو یعقوب کا بیٹا بتاتا ہے، جبکہ لوقا اُسے عیلی کا بیٹا کہتا ہے، جبکہ عیلی، مریم کا والد تھا (یہودی بیوی کے باپ کے خاندان سے بھی نسب نامہ کا سلسلہ تیار کرتے تھے، جیسے عزرا 2: 61، اور نحمیاہ 7: 63 میں برزِلّی نامی شخص کی مثال ملتی ہے)۔ متی کی انجیل میں، لوقا کی انجیل کی نسبت، داﺅد سے یُوسُف تک سلسلہ مختصر ہے; جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناموں کے سلسلے میں کچھ نام چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ ایسا اِس لئے ہے کہ الفاظ "کا بیٹا تھا" اور "کا باپ تھا" وسیع معنٰی میں استعمال کئے گئے ہیں، جیسے مسیح کو ابنِ داﺅد یا ابنِ ابرہام کہہ کر پکارا گیا ہے۔ متی نے راحب اور داﺅد کے درمیان جو قاضیوں کا 450 برس کا عرصہ بنتا ہے، صرف چار لڑیوں کا ذکر کیا ہے۔ پھر، لوقا نے مریم کے خاندان کا نسب نامہ پیش کیا ہے، جبکہ متی نے یُوسُف کے تعلق سے نسب نامہ پیش کیا ہے، تاہم دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔

یہ دونوں انجیلی بیانات مسیح کے الہٰی جوہر کی اصل کی وضاحت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ متی یہ نہیں لکھتا کہ یُوسُف سے یسوع پیدا ہوا، بلکہ یوں لکھتا ہے کہ "یُوسُف... اُس مریم کا شوہرتھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے۔" اِسی طرح لوقا، مسیح کے نسب نامہ کا شروع یہ کہتے ہوئے کرتا ہے کہ "جیسا کہ سمجھا جاتا تھا یُوسُف کا بیٹا تھا۔"

اگر اِن دونوں نسب ناموں میں نکتہ چینی و اعتراض کی کوئی گنجائش ہوتی، تو یہودی راہنما شروع ہی سے تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے، خاص کر جبکہ یہ شجرئہ نسب، داﺅد نبی تک جا کر یسوع مسیح کو مسیحِ موعود ثابت کرتا ہے۔ لیکن یہودیوں کی خاموشی اِن نسب ناموں کی صحت و حقانیت کا ثبوت ہے۔

د- نسب نامہ میں پنہاں سبق

نسب نامہ میں موآبی قوم کی عورت رُوت کے ذِکر سے یہ نتیجہ اَخذ کیا جاتا ہے کہ اسرائیل میں غریب و پردیسی بھی مسیحائی شاہی نسب نامہ میں شامل ہیں۔ تمر، بت سبع اور سابق فاحشہ عورت راحب کے ناموں کی شمولیت یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ جو گنہگار حقیقی توبہ کرتا ہے، اُسے اپنے ماضی سے قطع نظر عزت کا مقام مل جاتا ہے۔ مسیح کمزوروں کی فکر کرتا ہے اور جو اصلاح و راستی سے دُور ہیں اُنہیں معاف کرتا ہے۔ "تندرستوں کو طبیب درکار نہیں، بلکہ بیماروں کو ہے" (انجیل بمطابق متی 9: 12)۔ "کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور اُنہیں نجات دینے آیا ہے" (انجیل بمطابق لوقا 19: 10)۔

تمام انجیل مُقدّس، یوحنا رسُول کے اِنہی اِلہامی الفاظ کا احاطہ کرتی ہے کہ "کلام مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا۔" چونکہ حیات مسیح کو جاننے کا واحد ذریعہ انجیل مُقدّس ہے اور چونکہ چاروں انجیلی بیانات مسیح کی الوہیت پر متفق ہیں، اِس لئے مسیح کے حالاتِ زندگی کی وضاحت اُس کی الوہیت کے دائرہ ہی میں پیش کرنا برحق و مناسب ہے۔

5- جبرائیل فرشتہ کا زکریاہ کو خوشخبری دینا

"یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے زمانے میں اَبِیّاہ کے فریق میں سے زکریاہ نام ایک کاہن تھا اور اُس کی بیوی ہارون کی اَولاد میں سے تھی اور اُس کا نام الیشبع تھا۔ اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بےعیب چلنے والے تھے۔ اور اُن کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ تھی اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اُس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مَقدِس میں جا کر خوشبو جلائے۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلاتے وقت باہر دُعا کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہوا اُس کو دکھائی دیا۔ اور زکریاہ دیکھ کر گھبرایا اور اُس پر دہشت چھا گئی۔ مگر فرشتے نے اُس سے کہا، اَے زکریاہ! خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سُن لی گئی اور تیرے لئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہو گا۔ تُو اُس کا نام یوحنا رکھنا۔ اور تجھے خوشی و خُرّمی ہو گی اور بہت سے لوگ اُس کی پیدایش کے سبب سے خوش ہوں گے۔ کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا اور ہرگز نہ مَے، نہ کوئی اَور شراب پیئے گا اور اپنی ماں کے بطن ہی سے رُوح القدس سے بھر جائے گا۔ اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو اُن کا خدا ہے پھیرے گا۔ اور وہ ایلیاہ کی رُوح اور قوت میں اُس (مسیح) کے آگے آگے چلے گا کہ والِدوں کے دِل اَولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کےلئے ایک مُستعِد قوم تیار کرے۔ زکریاہ نے فرشتے سے کہا، میں اِس بات کو کس طرح جانوں؟ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے۔ فرشتہ نے جواب میں اُس سے کہا، میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اِس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اِن باتوں کی خوشخبری دوں۔ اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہوں لیں، تُو چُپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا۔ اِس لئے کہ تُو نے میری باتوں کا، جو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا۔ اور لوگ زکریاہ کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اُسے مَقدِس میں کیوں دیر لگی۔ جب وہ باہر آیا تو اُن سے بول نہ سکا۔ پس اُنہوں نے معلوم کیا کہ اُس نے مَقدِس میں رویا دیکھی ہے اور وہ اُن سے اِشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا۔ پھر اَیسا ہوا کہ جب اُس کی خدمت کے دن پورے ہو گئے تو وہ اپنے گھر گیا۔ ان دِنوں کے بعد اُس کی بیوی الیشبع حاملہ ہوئی اور اُس نے پانچ مہینے تک اپنے تئیں یہ کہہ کر چھپائے رکھا کہ جب خداوند نے میری رسوائی لوگوں میں سے دُور کرنے کےلئے مجھ پر نظر کی اُن دِنوں میں اُس نے میرے لئے ایسا کیا۔" (انجیل بمطابق لوقا 1: 5-25)

ستاروں کا نمودار ہونا اچانک ہوتا ہے، جبکہ سورج پَو پھٹنے کے نشانات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ یوں بغیر کسی نشان یا پیشین گوئی کے عظیم انبیا کی آمد ستاروں کے نمودار ہونے کی مانند تعجب کا سبب ہوئی۔ ماسوائے یوحنا اصطباغی کے ابرہام، موسیٰ، داﺅد اور ایلیاہ نبی کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی گئی تھی۔ لیکن مسیح جسے "آفتابِ صداقت" کہا گیا ہے، اُس کی آمد اچانک اور باعثِ حیرت نہ تھی۔ پُرجلال پو پھٹنے کی طرح، مسیح کی آمد سے متعلق متعدد پیشین گوئیاں پہلے ہی دی جا چکی تھیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ، آفتاب ِصداقت کے طلوع ہونے سے پہلے، اِس پو پھٹنے کے حلقہ سے باہر اخلاقی اور روحانی تاریکی انتہائی شدید ہو چکی تھی۔ آسمانی نُور مسیح اُس وقت نمودار ہوا جب دُنیا کو اِس کی اشد ضرورت تھی اور راستباز شدت سے اِس کے منتظر تھے۔

ابتدائی نبوتوں کی بابت محتاط مطالعہ کی ضرورت ہے، تا ہم کتاب میں جگہ کی کمی کے باعث اُنہیں شامل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ لہٰذا ہم اُنہی نبوتوں پر قناعت کریں گے جو مسیح کی آمد کی نزدیکی پر روشنی ڈالتی ہیں۔ قریباً پانچ سو برس سے زیادہ عرصہ سے فرشتوں کے ظہور کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ مگر جب مسیح کا وقتِ تجسم نزدیک آیا، تو فرشتوں کا ظہور مزید جلالی صورت میں کئی مرتبہ ہوا، ایسا کہ وقتِ تخلیق سے بعد کی تاریخ میں پہلے وقوع میں نہیں آیا تھا۔ اِس کا مقصد بادشاہوں کے بادشاہ اور خداوندوں کے خداوند کی جلد آمد کی بابت اعلان کرنا تھا جو انسانی رُوپ لے کر اِس زمین پر بادشاہی کےلئے آنے کو تھا۔ اِس واقعہ کی بابت بائبل مُقدّس میں یوں لکھا ہے: "اور جب (خدا) پہلوٹھے کو دُنیا میں پھِر لاتا ہے تو کہتا ہے کہ خدا کے سب فرشتے اُسے (مسیح کو) سجدہ کریں" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 1: 6)۔ یہ وہی تھا، جس کی بابت دانی ایل نبی نے کہا تھا: "اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تا کہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خدمت گزاری کریں۔ اُس کی سلطنت اَبدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی" (صحیفہ دانی ایل نبی 7: 14)۔

یہ نہایت موزوں و مناسب تھا کہ اِس آسمانی بادشاہ کی آمد سے پہلے اُس کے عرشِ آسمانی سے پیامبر آتے۔ اِس پیغام نے آسمانوں کو معمور کر دیا اور اِس سے پہلے کہ یہ زمین پر سُنا جاتا اِس کی آواز سے آسمانی لشکر کانپ اُٹھا۔

یروشلیم کی ہیکل میں سنہرے مذبح پر خوشبو جلانے کی باری زکریاہ کاہن کی تھی۔ زکریاہ اپنی باری پر ہیکل میں اپنی خدمت کو ادا کرنے کےلئے پردے کے پیچھے چلا گیا۔ وہ خوشبو جلانے والے مذبح کے سامنے دُعا کرتا ہوا کھڑا ہوا، جبکہ خوشبودار دُھواں آسمان کی جانب اوپر بلند ہو رہا تھا۔ اچانک اُس نے مقرّب فرشتہ جبرائیل کو مذبح کی دہنی طرف کھڑا دیکھا۔ زکریاہ خوفزدہ ہو کر کانپ اٹھا، خواہ وہ کتنا ہی راست یا نیک تھا لیکن وہ اپنے ضمیر میں اپنی گنہگار حالت سے واقف تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک حسّاس ضمیر رکھنے والا فرد خدا کی قُدُّوسیت سے معمور حضوری میں خوفزدہ ہو جاتا ہے کیونکہ معمولی سی بھی غلطی یا خامی اور کاملیت کے معیار میں کمی اُسے موجبِ سزا ٹھہراتی ہے۔ فرشتے کی موجودگی سے زکریاہ اِس لئے بھی ہراسان ہوا کیونکہ غالباً اُس نے خیال کیا کہ شائد فرشتہ اُس سے حقوق اللہ کا مطالبہ کرنے آیا ہے یا اُسے اُس کے گناہوں کی سزا دینے آیا ہے۔

اِس واقعے سے پہلے فرشتے کے ظہور کا اندراج دانی ایل نبی کے واقعے میں ملتا ہے۔ جبرائیل فرشتہ اِس واقعے سے تقریباً پانچ سو برس پہلے دانی ایل پر ظاہر ہوا تھا۔ دانی ایل نے اِس فرشتہ کا ذِکر اِس طرح کیا ہے: "اُس کا بدن زبرجد کی مانند اور اُس کا چہرہ بجلی کا سا تھا اور اُس کی آنکھیں آتشی چراغوں کی مانند تھیں۔ اُس کے بازو اور پاﺅں رنگت میں چمکتے ہوئے پیتل سے تھے اور اُس کی آواز انبوہ کے شور کی مانند تھی" (صحیفہ دانی ایل نبی 10: 6)۔

اب خدا نے جبرائیل کو زکریاہ سے کلام کرنے کےلئے بھیجا۔ یہ مسیح کے زمین پر آنے میں الہٰی دلچسپی کا واضح اظہار ہے۔ فرشتہ کو دیکھ کر ز کریاہ خوفزدہ ہو گیا، مگر فرشتہ نے زکریاہ کو تسلی دی اور کہا "خوف نہ کر۔" فرشتہ نے اُسے بتایا کہ اُس کی اور اُس کی بیوی کی دُعا سُن لی گئی ہے۔ اُن کی عمر رسیدگی میں انسانی ناتوانی کے باوجود بھی خدا اُنہیں بیٹا بخشے گا۔

جبرائیل نے پیدا ہونے والے اُس بچّے کا نام بھی بتایا۔ فرشتہ نے زکریاہ کو بچّے کے مستقبل کی بابت بتایا کہ وہ اپنے والدین اور بہتوں کے واسطے خوشی و خرمی کا باعث ہو گا۔ وہ خدا اور انسانوں کے سامنے بزرگ ہو گا کیونکہ وہ اپنی ماں کے بطن ہی سے رُوح القدس سے بھرا ہوا ہو گا۔ وہ خداوند کےلئے کامل طور پر مخصوص ہو گا اور اپنی زندگی پاکیزگی میں بسر کرے گا اور زمین پر الہٰی دلچسپی کے حامل کام کو پورا کرنے میں کامیاب ہو گا جو بہتوں کو خداوند اپنے خدا کی طرف پھیر لانے کا کام ہے۔

فرشتہ نے زکریاہ سے اِس سے بھی بڑی بات کا وعدہ کیا کہ اُس کا بیٹا یوحنا، مسیحِ موعود کا پیشرو ہو گا اور اُس نبوت کو پورا کرے گا جس پر ہر ایک یہودی کا یقین تھا کہ ایلیاہ خداوند مسیح کے آنے سے پہلے آئے گا تا کہ خداوند کےلئے ایک مستعد قوم تیار کرے۔ قدیم وقتوں میں ایک سے زائد مرتبہ فرشتہ نے لوگوں کو اُن کے بچے کی پیدایش کی خبر دی تھی، مگر کسی بچّے کی بابت یہ پہلا اعلان ہے کہ جو اپنے سے کہیں بڑے کے آنے کی خبر دے گا، جس سے مسیح کی تمام انسانوں پر عظمت ظاہر ہوتی ہے۔

اگرچہ زکریاہ، ابرہام اور سارہ کے معاملے میں رونما ہونے والے معجزے سے واقف تھا، تاہم اُس نے فرشتے کا یقین نہ کیا۔ اُسے یہ یقین تھا کہ اُس کی بانجھ بیوی حاملہ نہیں ہو سکتی تھی اور یہ کہ وہ خود بھی عمر رسیدہ تھا۔ لہٰذا، خدا نے اُسے نو ماہ کےلئے گونگا کر دیا، جب تک کہ اُس نے جبرائیل کے کلام کی حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور اپنے کانوں سے سُن نہ لیا۔

جبرائیل کی غیر متوقع آمد کے سبب زکریاہ کو مَقدِس سے باہر آنے میں دیر ہوئی جہاں عبادت گزار ہیکل سے رُخصت ہونے سے پیشتر اُس سے برکت حاصل کرنے کے منتظر تھے۔ ہیکل کے اندر، پردے کے پیچھے اُس کی دیری کے سبب وہ سب تعجب کرتے تھے۔ اُن کی حیرانی اُس وقت اَور بھی بڑھ گئی کہ جب وہ باہر آیا لیکن بول نہ سکا۔ اُس نے اُنہیں بول کر برکت نہیں دی، بلکہ اشاروں میں جتنا بھی بہتر سمجھا سکتا تھا اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ عبادت گزار سمجھ گئے کہ اُس نے کوئی رویا دیکھی ہے۔

زکریاہ بطور کاہن اپنی خدمت کے کام میں وفادار رہا۔ جو کچھ اُس کے ساتھ ہوا تھا اُس کے بعد اُس نے نہ تو کسی قسم کی معذرت چاہی اور نہ یہ خوشخبری اپنی بیوی کو دینے کی خاطر اپنی خدمت کے کام کو ملتوی کیا، بلکہ اُس نے اپنی خدمت کے دِن پورے کئے اور پھر اپنے گھر گیا۔

کوئی بھی شخص، الیشبع کی حالت ِتذبذب کا تصوّر کر سکتا ہے کہ جب اُس کا شوہر گونگی حالت میں گھر واپس آیا۔ اِس سے بھی زیادہ، وہ اُس بات سے حیرت زدہ ہوئی جب زکریاہ نے جبرائیل فرشتہ کے ساتھ ملاقات کے احوال کو لکھ کر اُسے بتایا۔ غالباً زکریاہ نے فرشتہ کی معرفت ملنے والی اِس خوشخبری پر یقین نہ کرنے کی بابت اپنی بیوی کو خبردار کیا ہو گا کہ کہیں اُسے بھی ویسی ہی سزا نہ ملے جیسی اُسے ملی تھی۔

زکریاہ اور اُس کی بیوی فرشتہ کی معرفت ملی خبر کے سلسلے میں محوِ خیال تھے کہ اُن کے ہاں ہونے والا بیٹا خداوند کےلئے راہ تیار کرنے والا ہو گا۔ بلا شک و شبہ اُنہوں نے یہ سوال کیا ہو گا کہ "وعدہ شدہ مسیحا کب اور کیسے ظہور میں آئے گا؟" جلد ہی اُنہیں جبرائیل فرشتہ کے ذریعہ تو نہیں لیکن الیشبع کی رشتہ دار ایک خاتون مریم کے ذریعے اِس بارے میں پتا چلنے کو تھا جو نہایت مشہور اور دُنیا کی سب خواتین میں مبارک مرتبہ حاصل کرنے والی تھی۔

ایک شخص منطقی طور پر یہ قبول نہیں کر سکتا کہ خدا کے ازلی فرزند مسیح کے تجسم کا عظیم ترین معجزہ دیگر معجزات کی تصدیق کے بغیر ہو گا۔ غرض، زکریاہ کو فرشتہ کا پیغام ملنا، زکریاہ کی سزا، الیشبع کا معجزانہ طور پر حاملہ ہونا، یہ سب واقعات مسیح ابنِ مریم کی ولادت کا پیش خیمہ تھے۔ اِن معجزات نے لوگوں کو اُس عظیم ترین معجزہ پر ایمان لانے میں مدد فراہم کی جو جلد وقوع میں آنے کو تھا یعنی کُنواری مریم سے مسیح کی پیدایش۔ مسیح کی پیدایش کے ذریعے تمام قدیم نبوتیں تکمیل کو پہنچیں اور کئی دقیق رموز سمجھ میں آئے، جن کا مسیح کے سوا کسی اَور شخص پر اطلاق نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں، ہم صدقِ دل سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع ناصری ہی وہ نجات دہندہ ہے جس کی آمد کی بابت مسیح سے قبل کے پاک نوشتوں میں تمام انبیا نے پیشین گوئیاں کی تھیں۔ یہودی توریت کا بنظرِ غور مطالعہ کرنے والا شخص دیکھ لے گا کہ یہ الہامی کتاب مسیح کو ایک عام انسان یا نبیوں میں سے ایک نبی کے طور پر نہیں بلکہ ایک الہٰی شخصیت کے طور پر بیان کرتی ہے۔

6- جبرائیل فرشتہ کا مُقدّسہ مریم کو خوشخبری دینا

"چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرة تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔ جس کی منگنی داﺅد کے گھرانے کے ایک مرد یُوسُف نام سے ہوئی تھی اور اُس کنواری کا نام مریم تھا۔ اور فرشتہ نے اُس کے پاس اندر آ کر کہا، سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔ وہ اِس کلام سے بہت گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے۔ فرشتہ نے اُس سے کہا، اَے مریم! خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔ اور دیکھ تُوحاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اُس کے باپ داﺅد کا تخت اُسے دے گا۔ اور وہ یعقوب کے گھرانے پر اَبد تک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہو گا۔ مریم نے فرشتہ سے کہا، یہ کیونکر ہو گا جبکہ میں مرد کو نہیں جانتی؟ اور فرشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ رُوح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مَولُود ِمُقدّس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ اور دیکھ تیری رشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور اَب اُس کو جو بانجھ کہلاتی تھی چھٹا مہینہ ہے۔ کیونکہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہرگز بےتاثیر نہ ہو گا۔ مریم نے کہا، دیکھ میں خداوند کی بندی ہوں۔ میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو۔ تب فرشتہ اُس کے پاس سے چلا گیا۔" (انجیل بمطابق لوقا 1: 26-38)

مُقرّب فرشتہ جبرائیل، گلیل نام ایک شہر میں یہودیوں کے کاہن زکریاہ سے ملنے گیا اور اُسے اُس کی بیوی الیشبع سے جو بانجھ تھی ایک بیٹے کی پیدایش کی بشارت دی۔ زکریاہ اپنے لوگوں میں ایک راستباز شخص اور قابلِ احترام راہنما تھا۔ اِس بزرگ کاہن سے بھی عظیم، وہ کتنی ہی بلند مرتبہ شخصیت ہو گی، جس کی ملاقات کےلئے اَب مُقرّب فرشتہ جبرائیل کو جانا تھا؟ کیا کسی بادشاہ کے پاس؟ نہایت دولتمند یا بااختیار ہستی کے ہاں؟ نہیں! بلکہ ایک غریب و حلیم کنواری کے پاس، جو اُس وقت کی دیگر کنواریوں میں بغیر کسی خصوصی حیثیت کے گویا گمنامی کی حالت میں تھی اور وہ کسی اہمیت کی حامل بھی نہ تھی کہ خدا کا مُقرّب فرشتہ اُس سے ملاقات کو آتا۔ فرشتہ جبرائیل، کنواری مریم کے پاس یہ اعلان کرنے کےلئے بھیجا گیا کہ خدا نے اُسے اپنے بڑے فضل میں اِس مقصد کےلئے چن لیا ہے کہ اُس کے ذریعے واحد نجات دہندہ اِس دُنیا میں آئے۔

خدا نے کنواری مریم کو ہر طرح کی عزت سے بھی بلند ترین درجہ دیا۔ اِسی لئے جبرائیل فرشتہ نے اُس سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں کہا کہ "سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے" (انجیل بمطابق لوقا 1: 28)۔ اِس واقعہ سے خدا نے بنی نوع اِنسان پر یہ ظاہر کر دیا کہ حقیقی سرفرازی کسی کے ذاتی مرتبہ، خاندانی پس منظر، جسامت یا شاندار ذہانت سے نہیں ملتی، بلکہ اِس کا انحصار رُوح و باطن کی پاکیزگی پر ہے۔

فرشتہ کی اچانک موجودگی سے یہ کنواری لڑکی ضرور ہی گھبرا گئی ہو گی کیونکہ وہ اُس وقت بالکل تنہا تھی۔ جب فرشتہ نے مریم کا نام لے کر اُس سے کلام کیا تو وہ نہایت حیرت زدہ ہوئی۔ تب فرشتہ نے اپنے سلام کو دہرایا اور اِس کے ساتھ اُسے وہ خبر دی جس کی اُسے توقع نہ تھی کہ وہ اپنی رشتہ دار الیشبع سے بھی زیادہ عجیب طور پر، کنواری ہوتے ہوئے رُوح القدس کی قدرت سے حاملہ ہو گی۔ اُس کا بیٹا نہ صرف عظیم بزرگ ہو گا بلکہ خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ داﺅد کی نسل سے ہونے کے سبب وہ داﺅد کا عظیم ترین جانشین ہو گا جس کی بادشاہت ہمیشہ قائم رہے گی۔

جب مریم کی منگنی داﺅد کی نسل کے ایک راستباز شخص سے ہو گئی، تو ممکن ہے کہ مریم نے اپنے زمانے کی کئی دوسری لڑکیوں کی طرح تمنا کی ہو کہ آنے والا مسیح اُس سے پیدا ہو۔ غرض، یُوسُف کے ساتھ اُس کی منگنی کے بعد یہ خواہش اَور زیادہ ہو گئی۔

جب فرشتہ نے مریم پر یہ ظاہر کیا کہ وہ یُوسُف کے ساتھ شادی سے پیشتر ہی فوراً حاملہ ہو گی تو مریم کا شش و پنج میں پڑنا ایک قدرتی امَر تھا۔ اُس نے اپنی پاکدامنی اور آبرو کا دفاع کرنا ضروری سمجھا، اور اُس نے فرشتہ سے پوچھا کہ وہ اُس کے بیان کردہ الفاظ پر کیسے یقین کرے؟ پاکدامنی، شرم و حیا اور اِنکساری مریم میں پائی جانے والی نیک خوبیاں تھیں۔

خدا نے مریم میں موجود اَوصاف کی برتری پر مہر کرتے ہوئے اُسے اِس بلند رُتبہ کےلئے اُس کی قوم کی دیگر کنواریوں میں سے چن لیا۔ خدا نے مریم پر اپنا فضل نازل کیا کہ وہ ابنِ خُدا یسوع مسیح کی انسانی فطرت کی ماں بنے۔ خدا، اپنے چُنے ہوئے لوگوں کو جب کوئی کام سپرد کرتا ہے تو پھر اُس کام کےلئے اُنہیں قابلیت بھی عنایت کرتا ہے۔ خدا نے مریم کو نئے فرائض کی ادائیگی کے قابل بنانے کےلئے اپنے فضل کی بارش کو اُس پر برابر جاری رکھا۔ اِسی لئے جبرائیل نے مریم سے کہا "رُوح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مَولودِ مُقدّس خدا کا بیٹا کہلائے گا" (انجیل بمطابق لوقا 1: 35)۔

فرشتہ کے اِس غیر معمولی جواب نے اعلان کے انوکھے پن ہونے کی وضاحت نہ کی اور نہ ہی یہ اعلان انسانی دلائل کے اعتبار سے قابلِ فہم نظر آتا تھا۔ جبرائیل فرشتہ نے مریم کو یقین دلایا کہ بچے کی ولادت ایسے فوق الفطرت طریقے سے ہو گی جو نہ تو پیشتر ہوا، اور نہ ہی بعد میں رونما ہو گا۔ فرشتہ نے یہ بھی بتایا کہ اِس سبب سے پیدا ہونے والا بچہ خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ فرشتہ نے یہ بھی بتایا کہ پیدا ہونے والا بیٹا مقدّس ہو گا، یہ ایسا اسمِ صفت تھا، جو پہلے کسی انسان کےلئے استعمال نہیں ہوا تھا۔

فرشتہ کے ظہور کے وقت مریم کا ردّعمل زکریاہ کے ردّعمل سے مختلف تھا۔ مریم نے فقط پیغام کی وضاحت چاہی۔ جبرائیل نے مریم سے اُس کی رشتہ دار الیشبع کے حمل کا بھی ذِکر کیا تا کہ اپنی بات کی صداقت کے بارے میں اُسے یقین دہانی کرا سکے۔ فرشتہ نے اپنی گفتگو کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ خدا کے حضور کوئی بات ناممکن نہیں۔ جس خدا نے آسمان و زمین کو نیست سے خلق کیا، کیا اُس کےلئے بغیر کسی انسانی والد کے ایک کنواری کو فرزند عطا کرنا مشکل کام تھا؟

اگرچہ جبرائیل فرشتہ کی باتیں تسلیم کر لینا مریم کےلئے بہت مشکل تھا، لیکن اُس نے کلامِ خداوندی کی اطاعت کی اور یقین کر کے کہا "دیکھ! میں خداوند کی بندی ہوں۔" خداوند تعالیٰ کے حضور کامل اطاعت کا یہ رویہ اپنی ذات میں دانائی ہے، جبکہ آنکھیں بند کر کے کسی انسان کی اطاعت کرنا لاعلمی اور شرمندگی ہے۔

اِس چُنیدہ کُنواری کی خوشی کتنی عظیم ہو گی۔ اُس کی اور اُس کی قوم کی اُمید بر آنے کا وقت نزدیک آ گیا تھا،اور خدا نے مسیحا کو انسانیت تک لانے کےلئے مریم کو آلہء کار بننے کا شرف عطا فرمایا۔ یقیناً اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ ہو گا۔

اِس دُنیا میں کامل خوشی تو دکھائی نہیں دیتی۔ اِس لئے، مریم کے پاک دِل میں خوشی کے ساتھ خوف کا کچھ عنصر ہونا لازم تھا۔ اُسے اِس بات کا خوف ہوا ہو گا کہ یہ راز منکشف ہو جانے پر اُس کا منگیتر غصہ ہو گا اور علیحدگی اختیار کر لے گا۔ مریم کے پاس اِس بات کو ثابت کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا، اِس لئے کسی نے اُس پر اعتبار نہیں کرنا تھا۔ مزید برآں نیک و اعلیٰ کردار کے ساتھ ساتھ اُس میں یہ مناسب خوف بھی تھا کہ اُس نے اپنے آپ کو اِس غیر معمولی استحقاق کے قابل نہ سمجھا تھا۔ اُسے خوف محسوس ہوا کہ وہ ماں ہونے کے فرائض کو نباہ نہ سکے گی۔ تاہم بلا شک و شبہ مریم نے اپنے آپ کو خدا کے رحم کے حوالے کرنے کےلئے بڑی ہمت سے کام لیا، تا کہ رحمت ِخداوندی اُس کی زندگی کی اِس نئی صورتحال میں کام کرے جسے وہ بذاتِ خود اور نہ ہی کوئی اَور انسان اکیلے کر سکتا تھا۔

الف- یُوسُف کی تشویش

"اَب یسوع مسیح کی پیدایش اِس طرح ہوئی کہ جب اُس کی ماں مریم کی منگنی یُوسُف کے ساتھ ہو گئی تو اُن کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ رُوح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔ پس اُس کے شوہر یُوسُف نے جو راستباز تھا اور اُسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اُسے چُپکے سے چھوڑ دینے کا اِرادہ کیا۔ وہ اِن باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اُسے خواب میں دِکھائی دے کر کہا، اَے یُوسُف ابنِ داﺅد! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اُس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح القدس کی قدرت سے ہے۔ اُس کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا۔ یہ سب کچھ اِس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ: دیکھو، ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اُس کا نام عِمّانُوایل رکھیں گے جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ۔ پس یُوسُف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا خداوند کے فرشتہ نے اُسے حکم دیا تھا اور اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آیا۔ اور اُس کو نہ جانا جب تک اُس کے بیٹا نہ ہوا اور اُس کا نام یسوع رکھا۔" (انجیل بمطابق متی 1: 18-25)

جب یُوسُف کو علم ہوا ہو گا کہ اُس کی منگیتر حاملہ ہے تو اُس نے کیا سوچا ہو گا؟ یہ ہمیں معلوم نہیں کہ یُوسُف تک یہ بات کیسے پہنچی، لیکن اُس نے اِس واقعے کے عجیب ہونے کے باوجود بھی اِس کا یقین کیا۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی جتنا وہ مریم کو جانتا تھا اُس کی بدولت اُسے مریم کی پاکدامنی پر کوئی شک نہ تھا۔

یُوسُف کو مریم کے مستقبل کے شوہر کے طور پر اُسے ہر طرح کی بدنامی سے تحفظ دینا ضرور تھا۔ اگر یُوسُف، مریم کو اعلانیہ طور پر چھوڑ دیتا تو یہ اُس کی جانب سے مریم کے حق میں ظلم ہوتا۔ مگر ساتھ ہی، اُس کے گھر میں نجات دہندہ کی ولادت سب سے زیادہ اعزاز کی بات بھی تھی۔ تاہم دوسری جانب، راستباز شخص ہوتے ہوئے اور الہٰی شریعت کے پاکدامنی اور عزت و ناموس سے متعلقہ مُقدّس قوانین کی پیروی کرتے ہوئے اُسے مریم کو مناسب سزا بھی دینی تھی۔ اُس کی حالت کتنی تکلیف دہ اور پُر اضطراب ہو گی۔ تاہم، اپنی شرافت و محبت میں سوچ بچار کے بعد یُوسُف نے مریم کو چُپکے سے چھوڑ دینے کی ہلکی سزا کا انتحاب کیا۔

اِسی اثناء میں الہٰی مداخلت ہوئی۔ ایک فرشتہ جو عین ممکن ہے جبرائیل ہو یُوسُف کو خواب میں دکھائی دیا، اور اُسے ساری سچائی سے آگاہ کیا۔ اِس طرح یُوسُف قائل ہو گیا کہ مریم کو چھوڑ دینے سے زیادہ بہتر اُس سے شادی کر لینا ہے۔ یوں جس بات کو اُس نے رسوائی سمجھا، وہ دونوں کےلئے ایک عظیم ترین شرف میں بدل گئی۔ یہ بات عموماً خدا کے لوگوں کے حق میں صادق آتی ہے کہ اُنہیں اکثر اپنے اِرد گرد کے حالات سے مختلف قسم کی آزُردگی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

فرشتہ نے جو باتیں مریم کو کہی تھیں، وہی باتیں یُوسُف کو بھی دہرائیں کہ: اِس ہونے والے بچہ کا نام یسوع ہو گا۔ عموماً والد کو اپنے بچّے کا نام تجویز کرنے کا حق ہوتا تھا، لیکن یُوسُف کو بچّے کے نام کے سلسلے میں خدا کی مرضی کو سمجھنا مناسب تھا۔ "یسوع" نام نے بچّے کی خصوصی خدمت کے مطابق ہونا تھا اُس کی تصدیق بھی کرنی تھی۔

"یسوع" نام اور "یشوع" نام دونوں ایک ہی ہیں۔ یہ دونوں یہودی نام قدیمی مگر قابلِ تعظیم ہیں، اور اِن دونوں ناموں کا مطلب "نجات دہندہ" ہے۔ اِس لئے یہ نام اِنسانیت کےلئے اعلیٰ ظرف ناموں میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ نام بنی نوعِ انسان کے درمیان عظیم کام کو ظاہر کرتا ہے یعنی اُنہیں اُن کے گناہوں سے نجات دینے کا کام۔ وہ جس کا نام "یسوع" ہے، وہی طبیبِ اعظم ہے کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو گنا ہ کی مہلک بیماری سے جس میں تمام انسانیت تڑپ رہی ہے شفا دیتا ہے۔

یہودی لوگ اپنے بچوں کو، یہوداہ کے قبیلہ اور داﺅد کے گھرانے میں سے آنے والے مسیحا کی بابت بتایا کرتے تھے جو اُنہیں اِس دُنیا کی ناگہانی مصیبتوں یعنی غربت، بیماری، مشقت اور بےعزتی اور اُن کے دشمنوں کے پنجے سے چُھڑائے گا۔ اِن توقعات کے سبب جھوٹے مسیحاﺅں نے اپنے خام خیالات، ذاتی ہوس اور لالچ کے تحت خُونی بغاوتیں کیں، جس کے نتیجہ میں صرف قوم کی بربادی ہی ہوئی۔ جبرائیل فرشتہ کے پیغام نے ایسی تمام بےبنیاد توقعات کی نفی کرتے ہوئے مسیحِ موعود کے حقیقی کام کا مکاشفہ دیا، جو اُن کے خیالات و تصورات سے کہیں بڑا تھا۔ یسوع نے یسعیاہ کی نبوت کو پورا کرنا تھا کہ مسیحا ایک کنواری سے پیدا ہو گا، اور اپنے فوق الفطرت کردار کے سبب اُسے عِمّانُوایل کا لقب ملنا تھا جس کا مطلب ہے "خدا ہمارے ساتھ" (صحیفہ یسعیاہ نبی، 7: 14)۔

یُوسُف نے خداوند کے فرشتہ کے کلام پر عمل کرتے ہوئے مریم کو اپنی بیوی کے طور پر قبول کیا۔ اور اُسے اُس وقت تک نہ جانا جب تک کہ مریم کا پہلوٹھا بیٹا پیدا نہ ہوا۔ یوں لوگ یسوع مسیح کو یُوسُف اور مریم کے فرزند کے طور پر پہچاننے لگے، اور ناصرت شہر میں قیام کے دوران یُوسُف نے اپنی آبرو، اور اپنی بیوی و بچہ کی عزت کو بھی برقرار رکھا۔ ایسی اعلیٰ کردار کی مالک شریکِ حیات چُن کر یُوسُف کتنا خوش نصیب تھا، حالانکہ مریم کے پاس دُنیوی مال و دولت نہ تھی۔ کوئی واضح ثبوت نہ ہوتے ہوئے بھی یُوسُف نے آسمانی ہدایت کی فرمانبرداری کی۔ اُس نے اپنے جدِ امجد ابرہام نبی کی طرح خدا کا یقین کیا جو ابرہام کے حق میں راستبازی گِنا گیا تھا۔

ب- مریم کی الیشبع سے ملاقات

"اُن ہی دِنوں مریم اُٹھی اور جلدی سے پہاڑی مُلک میں یہوداہ کے ایک شہر کو گئی۔ اور زکریاہ کے گھر میں داخل ہو کر الیشبع کو سلام کیا۔ اور جونہی الیشبع نے مریم کا سلام سُنا، تو ایسا ہوا کہ بچّہ اُس کے رحِم میں اُچھل پڑا، اور الیشبع رُوح القدس سے بھرگئی۔ اور بلند آواز سے پُکار کر کہنے لگی کہ تُو عورتوں میں مُبارک اور تیرے رحِم کا پھل مُبارک ہے۔ اور مُجھ پر یہ فضل کہاں سے ہُوا کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی؟ کیونکہ دیکھ جُونہی تیرے سلام کی آواز میرے کان میں پہنچی، بچّہ مارے خوشی کے میرے رحِم میں اُچھل پڑا۔ اور مُبارک ہے وہ جو ایمان لائی کیونکہ جو باتیں خداوند کی طرف سے اُس سے کہی گئی تھیں، وہ پُوری ہوں گی۔" (انجیل بمطابق لوقا 1: 39-45)

مریم، الیشبع سے ملاقات کےلئے گئی تا کہ جو کچھ فرشتہ نے الیشبع کے بڑھاپے کے حمل کے بارے میں کہا تھا اُس کی سچائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے، اور جو خوشخبری شخصی طور پر اُسے ملی تھی اُس کی صداقت کی تصدیق کر سکے۔ بہرحال، وہ وہاں جا کر اپنی رشتہ دار الیشبع کو مبارکباد دینا اور اُسے اپنے نئے تجربے کے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔

ناصرة سے یہوداہ تک کی مسافت اُن دِنوں قریب پانچ دن کی تھی۔ مریم کو علم ہوا کہ الیشبع اپنے حمل کے چھٹے مہینہ میں تھی۔ الیشبع سے بانجھ پن کی شرمندگی جاتی رہی تھی اور اُسے معاشرے میں عزت ملی تھی۔ جیسے ہی مریم نے الیشبع کو سلام کیا، بچّہ (یوحنا) اُس کے رحِم میں اُچھل پڑا۔ یہ الیشبع کےلئے نشان تھا کہ جو شخصیت اُسے سلام کر رہی تھی وہ عرصہء دراز سے اِنتظار کئے جانے والے مسیحا کی ماں تھی۔ رُوح القدس نے نازل ہو کر الیشبع کے دماغ کو روشن کیا اور اُس کی زبان کھولی۔ تب اُس نے رُوح میں مریم کو اُسی طرح کی مبارکباد دی جیسی فرشتے نے مریم کو دی تھی کہ "تیرے رحِم کا پھل مُبارک ہے۔" الیشبع نے مریم کو اُس کے عظیم ایمان کےلئے مبارکباد دی جو اُس نے فرشتے کے پیغام کو قبول کر کے ظاہر کیا تھا۔

مریم کو مبارکبادی دینے کی یہ کیفیت الیشبع کی فروتنی کی مظہر ہے۔ اُس کے الفاظ رُوح القدس کی تحریک سے تھے کیونکہ اُس نے کہا "مجھ پر یہ فضل کہاں سے ہوا کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی؟" وہ مریم کی نہیں بلکہ مریم کے بچہ کی تعریف کر رہی تھی جس کے الٰہی مرتبہ کو الیشبع نے پہچان لیا تھا۔ جب الیشبع نے اپنی مبارکبادی ختم کی تو رُوح القدس سے معمور ہو کر مُقدّسہ مریم نے یوں کلام کیا جو انجیل بمطابق لوقا 1: 46-55 میں مرقوم ہے:

"میری جان خداوند کی بڑائی کرتی ہے۔

اور میری رُوح میرے مُنجی خدا سے خوش ہوئی۔

کیونکہ اُس نے اپنی بندی کی پست حالی پر نظر کی

اور دیکھ اَب سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مجھ کو مُبارک کہیں گے۔

کیونکہ اُس قادر نے میرے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں

اور اُس کا نام پاک ہے۔

اور اُس کا رحم اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں

پُشت در پُشت رہتا ہے۔

اُس نے اپنے بازو سے زور دِکھایا

اور جو اپنے تئیں بڑا سمجھتے تھے اُن کو پراگندہ کیا۔

اُس نے اختیار والوں کو تخت سے گرا دیا

اور پست حالوں کو بلند کیا۔

اُس نے بھوکوں کو اچھی چیزوں سے سیر کر دیا

اور دَولت مندوں کو خالی ہاتھ لوٹا دیا۔

اُس نے اپنے خادم اسرائیل کو سنبھال لیا

تا کہ اپنی اُس رحمت کو یاد فرمائے۔

جو ابرہام اور اُس کی نسل پر ابد تک رہے گی

جیسا اُس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا۔"

مریم نے کلام مُقدّس کے رُوحانی گیتوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت و عظیم گیت گایا۔ اِس نغمہ نے مریم میں موجود خدا داد حکمت و ذہانت اور رُوحانی شعور کو ظاہر کیا۔ وہ ہمیں موسیٰ کی بہن مریم کی یاد دِلاتی ہے جس نے اسرائیل کے بحرِ قلزم پار کرنے پر گیت گا کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کنواری مریم نے حلیمی سے معمور ہو کر ایسے الفاظ ادا کئے جو شیخی سے کہیں دُور تھے۔ مریم نے اپنی پست حالی کو محسوس کرتے ہوئے یہ جانا کہ اُس کی اِس حالت میں صرف خدا ہی کو عزت و جلال ملے گا۔ مریم نے اِس بات کا بھی اقرار کیا کہ اُسے بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے اور وہ اپنی شخصی نجات کےلئے خدا میں پناہ لے گی۔ اِس لئے ایک فرد اُس سے دوسروں کو بچانے کی توقع نہیں کر سکتا جیسے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔

مریم نے کہا "میری جان خداوند کی بڑائی کرتی ہے۔" یہاں وہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ اِس اِلٰہی انعام کے لائق تو نہیں، لیکن پھر بھی خدا نے اُسے چن لیا اور اُس بلند ترین مقام پر پہنچایا جس تک کسی انسان کی رسائی نہیں ہوئی، اور سب سے پہلے مریم ہی نے خدا کی اِس پُرفضل تدبیر کو تسلیم کرتے ہوئے یوں کہا کہ "اُس نے اپنی بندی کی پست حالی پر نظر کی۔" یہ الفاظ مریم کی عظمت کو ثابت کرتے ہیں۔ مریم نے کبھی کوئی معجزہ نہیں کیا، نہ ہی مریم کا زیادہ ذِکر ہوا ہے، اِس واقعے کے بعد نہ تو مریم نے کوئی خصوصی بیان دیا اور نہ ہی کسی خصوصی مرتبہ سے نوازا گیا۔ یہاں تک کہ مسیح کے جی اٹھنے کے بعد کلام مُقدّس میں مریم کا ذِکر بمشکل نظر آتا ہے۔ بالا خانہ میں دُعا کےلئے جمع ہونے والے ایک سو بیس شاگردوں میں اُس کا ذِکر عمومی طور پر ملتا ہے۔

ہمیں مریم کی خود اِنکاری سے سبق سیکھنا چاہئے۔ جلالی عظمت حاصل ہونے کے وقت بھی مریم نے خدا کے بارے میں یوں کہا "اُس کا نام پاک ہے۔" اُسے فقط خدا کا ہی خیال تھا، اور جو کچھ خدا نے اُس کےلئے کیا تھا اُس پر وہ شادمان تھی۔ اُس نے اعلانیہ کہا کہ خدا لوگوں کے ساتھ برتاﺅ میں کسی کا طرفدار نہیں، بلکہ وہ صرف اپنے الٰہی خیالات کے مطابق کام کرتا ہے جو انسانی خیالات سے انتہائی بالا و مختلف ہیں۔ وہ پست حالوں کو بلند کرتا اور مغروروں کو نیچا کرتا ہے۔ جو سوچتے ہیں کہ وہ خدا کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں اُنہیں وہ ردّ کرتا، اور جو غیر مستحق تصور کئے جاتے ہیں اُنہیں خدا قبول کرتا ہے۔ مریم کے اِس گیت پر مسیحی کلیسیا کا ناز واجب ہے اور اِسے نہایت قیمتی بشارتی نغمہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔

7- مسیح کی پیدایش

"اُن دِنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگوستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دُنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔ یہ پہلی اِسم نویسی سُوریہ کے حاکم کورِنیُس کے عہد میں ہوئی۔ اور سب لوگ نام لکھوانے کےلئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔ پس یُوسُف بھی گلیل کے شہر ناصرة سے داﺅد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے۔ اِس لئے کہ وہ داﺅد کے گھرانے اور اَولاد سے تھا۔ تا کہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے۔ جب وہ وہاں تھے تو اَیسا ہوا کہ اُس کے وضعِ حمل کا وقت آ پہنچا۔ اور اُس کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا، اور اُس نے اُس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 1-7)

مریم ایامِ حمل سے بچے کی پیدایش سے کچھ عرصہ پہلے تک یُوسُف اور اُس کے خاندان کے ہمراہ ناصرة میں رہی۔ تاہم، میکاہ نبی نے اُس سے تقریباً سات سو برس پیشتر پیشین گوئی کی تھی کہ مسیح کی ولادت بیت لحم کے مقام پر ہو گی (میکاہ 5: 2)۔ بیت لحم ناصرة سے کافی فاصلے پر واقع تھا۔ مسیح نے فرمایا کہ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی (انجیل بمطابق متی 24: 35)۔ اور یسعیاہ نبی کی معرفت خدا نے یوں فرمایا تھا: "تم خداوند کی کتاب میں ڈھونڈو اور پڑھو۔ اِن میں سے ایک بھی کم نہ ہو گا اور کوئی بے جفت نہ ہو گا۔ کیونکہ میرے مُنہ نے یہی حکم کیا ہے اور اُس کی رُوح نے اِن کو جمع کیا ہے" ( یسعیاہ 34: 16)۔ لیکن مریم کے بچہ کی پیدایش کے عین وقت کیا وجہ تھی جس نے یُوسُف اور مریم کو مجبور کیا کہ وہ موسمِ سرما کے شروع میں چار پانچ دن کی مسافت طے کر کے ناصرة سے بیت لحم جاتے؟

اپنی مرضی بجا لانے کےلئے خدا نہ صرف فرشتوں کو بلکہ بادشاہوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔ کیا سلیمان نے یہ قلمبند نہیں کیا؟: "بادشاہ کا دِل خداوند کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اُس کو پانی کے نالوں کی مانند جدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے" (امثال سلیمان 21: 1)۔ خدا نے طاقتور رومی شہنشاہ کو استعمال کیا کہ وہ مردم شماری کرانے کےلئے حکم جاری کرتا۔ فلسطین میں یہودی دستور کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے رومی بادشاہ نے اِسم نویسی کےلئے ہر ایک کو خواہ وہ اُس وقت کہیں بھی بود و باش رکھتا تھا، اُس کے آبائی قبیلہ یا خاندانی شہر میں جا کر اپنا نام لکھوانے کا حکم دیا۔ چونکہ یُوسُف اور مریم، داﺅد کے گھرانے سے تھے، سو اُنہیں داﺅد کے شہر بیت لحم میں جا کر نام لکھوانا تھے۔

الف- بیت لحم میں ولادت

داﺅد نبی سے مسیح تک کے ہزار سالہ عرصہ میں یہودی دُنیا کے ہر علاقے میں پھیل چکے تھے۔ اِس مردم شماری کےلئے بیت لحم کے وہ سب باشندے جو اُس وقت رومی سلطنت کے مختلف علاقوں میں تھے واپس اپنے آبائی شہر بیت لحم میں آئے اور اُن لوگوں میں یُوسُف اور مریم بھی شامل تھے۔ اُس وقت وہ علاقہ اتنا پُرہجوم ہو گیا کہ اُن کے قیام کےلئے جگہ میسّر نہ ہو سکی اور اُن کی بڑی غریبی کے سبب کسی نے اُنہیں اپنے گھر ٹھہرنے کےلئے دعوت بھی نہ دی۔ علاوہ ازیں یُوسُف اور مریم دونوں گلیلی تھے، جبکہ یہودیہ کے رہنے والے گلیلی لوگوں کو حقیر سمجھتے تھے، اِس لئے اُنہیں ایک سرائے کے نزدیک جانوروں کے گلّہ خانہ میں رات بسر کرنا پڑی۔

اُسی رات مریم نے بچہ کو جنم دیا اور اُسے چرنی (جانوروں کے چارہ کھانے والی جگہ) میں رکھا۔ اِس سے زیادہ غریبی و بیکسی اَور کیا ہو سکتی تھی؟ لیکن یہ تجسم کے الہٰی منصوبہ کے عین مطابق تھا۔ اِس سے خدا کی عجیب محبت کا اظہار ہوا، جس کے باعث خدا گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے انسان بن گیا۔

اُس وقت ہر ایک کو مردم شماری کا علم تھا اور اِسی وجہ سے لوگ بیت لحم میں آئے تھے، مگر وہ لوگ بہت تھوڑے تھے جن کو اِس بچّہ کی ولادت کا علم ہو سکا۔ آج معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ تقریباً سب ہی قیصر کی مردم شماری کو بھول گئے ہیں، اور اگر کبھی ذِکر کیا بھی جائے تو وہ مسیح کی پیدایش کے تعلق سے ہے، جبکہ آج بہت سے لوگ یسوع کی جائے پیدایش بیت لحم کی زیارت کو جاتے ہیں۔

چرنی سے متعلق غور و فکر کرتے ہوئے ہم پوچھ سکتے ہیں "کیا یہ وہی غریب بچہّ ہے، جو دو ہزار برس بعد، ابھی بھی عظیم بادشاہوں، دولتمندوں اور دُنیا کے مشہور مدبّروں و لاتعداد انسانوں کےلئے پرستش و تعظیم کا موجب بنا ہوا ہے؟" یہ سب لوگ مسیح کی صلیب کے سامنے سرنگوں ہونے، اُس کے لوگ کہلانے اور اُس کی تعلیمات کی فرمانبرداری کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

یہ کہنا سچ ہے کہ یسوع "آدمِ ثانی" تھا جو انسانی والد کے بغیر اِس دُنیا میں آیا، وہ گناہ سے پاک تھا اور اِس لئے آیا کہ پہلے آدم نے اپنے گناہ میں گرنے کے باعث جو مقام کھو دیا تھا اُسے واپس دلائے (نیا عہد نامہ، 1-کرنتھیوں 15: 45-49)۔ یسوع ایک روحانی نسل کی تجدید کرنے اور اِس بدنصیب دُنیا کو کھوئی ہوئی فردوس پھر سے واپس دلانے کےلئے آیا۔

ب- فرشتے چرواہوں کو خبر دیتے ہیں

"اُسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔ اور خداوند کا فرشتہ اُن کے پاس آ کھڑا ہوا، اور خداوند کا جلال اُن کے چوگرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے۔ مگر فرشتہ نے اُن سے کہا، ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہو گی۔ کہ آج داﺅد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔ اور اِس کا تمہارے لئے یہ نشان ہے کہ تم ایک بچّہ کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاﺅ گے۔ اور یکایک اُس فرشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کی ایک گروہ خدا کی حمد کرتی اور یہ کہتی ظاہر ہوئی کہ عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صُلح۔ جب فرشتے اُن کے پاس سے آسمان پر چلے گئے تو ایسا ہوا کہ چرواہوں نے آپس میں کہا کہ آﺅ بیت لحم تک چلیں اور یہ بات جو ہوئی ہے اور جس کی خداوند نے ہم کو خبر دی ہے دیکھیں۔ پس اُنہوں نے جلدی سے جا کر مریم اور یُوسُف کو دیکھا اور اُس بچہ کو چرنی میں پڑا پایا۔ اور اُنہیں دیکھ کر وہ بات جو اُس لڑکے کے حق میں اُن سے کہی گئی تھی مشہور کی۔ اور سب سننے والوں نے اِن باتوں پر جو چرواہوں نے اُن سے کہیں تعجب کیا۔ مگر مریم اِن سب باتوں کو اپنے دِل میں رکھ کر غور کرتی رہی۔ اور چرواہے جیسا اُن سے کہا گیا تھا ویسا ہی سب کچھ سُن کر اور دیکھ کر خدا کی تمجید اور حمد کرتے ہوئے لَوٹ گئے۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 8-20)

مسیح کی ولادت کے وقت بہت سے آسمانی واقعات رُونما ہوئے اور ایک عظیم آسمانی سرگرمی بھی دیکھنے میں آئی۔ یہ واحد درج شدہ واقعہ ہے جب خدا نے فرشتوں کی ایک بڑی دیدنی گروہ بھیجی اور اُن کی مدح سرائی فضاﺅں میں سُنائی دی گئی۔

یہ لوگ کون تھے جنہیں فرشتوں کو دیکھنے اور اُن کی نغمہ سرائی سننے کا شرف حاصل ہوا؟ یہ دولتمند یا عالم نہ تھے، نہ ہی یہ ہیرودیس بادشاہ یا سردار کاہن تھے، بلکہ یہ غریب لوگ تھے جنہیں خدا تعالیٰ نے چنا اور وہ اپنے زمینی حالات میں نوزائیدہ بچے جیسے ہی تھے۔ یہ اُس حلیمی و انکساری پر زور دینے کی وجہ سے ہُوا، جو انسانیت کو بچانے کےلئے خدا کے زمین پر آنے کو نمایاں کرتی ہے۔

تخلیقِ عالم کے وقت صبح کے ستاروں نے مل کر گایا (ایُّوب 38: 7)، مگر اُس وقت کوئی انسانی کان اُنہیں سننے کےلئے نہیں تھا۔ تاہم، جب مخلصی و کفارہ کی بنیاد اور کونے کے سرے کا پتھر رکھا گیا یعنی مجسم شدہ ازلی ابنِ خدا کا ظہور ہُوا، تو اُس وقت بیت لحم کے میدانوں میں ایک خوشی کا نغمہ سُنائی دیا۔ یہ خدا کے فرشتوں کی حمد کا گیت تھا جو اُن چرواہوں کے کانوں میں سُنائی دیا جو رات کے وقت اپنے گلّہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔

جب خدا کا جلال اُن چرواہوں کے چوگرد چمکا تو وہ ڈر گئے، لیکن فرشتہ نے اُن سے کہا "ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں۔" یہ خوشخبری، زکریاہ اور مریم کو ملنے والی خبر سے بھی بڑی تھی کیونکہ اَب یہ وقوع میں آ چکی تھی، جس سے خُدا کے سب لوگوں کو برکت ملنے کو تھی۔

فرشتہ نے چرواہوں کو وہی بات بتائی جو مریم اور یُوسُف سے کہی گئی تھی کہ وہ بچّہ "نجات دہندہ" کہلائے گا۔ اب فرشتہ نے چرواہوں کو بتایا کہ "آج داﺅد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے۔" فرشتہ نے چرواہوں کو بتایا کہ یہ نجات دہندہ داﺅد کے شہر سے اور داﺅد کی نسل سے تھا۔ وہ محض ایک عام انسان نہیں تھا بلکہ وہ مسیحا اور خداوند تھا جس کے لوگ مُدّتوں سے منتظر تھے۔ چرواہوں کو مسیح کی پہچان بخشنے والا ایک نشان بھی دیا گیا تھا، کہ جب اُسے دیکھیں تو پہچان سکیں۔

جونہی فرشتہ نے یہ الفاظ ادا کئے، تو اِس اعلان کی تصدیق کےلئے فرشتوں کا ایک لشکر ظاہر ہوا۔ یہ تمام فرشتے خدا کی حمد کر رہے تھے، اور اُن کے ذمہ کوئی نیا پیغام دینا نہیں تھا بلکہ یہ پہلے سے دیئے گئے پیغام کو دہراتے ہوئے یہ کہہ کر اُس کی تصدیق کر رہے تھے کہ "عالمِ بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صُلح۔" یہ حیرت انگیز بیان پولس رسُول کے اِن الفاظ کے عین مطابق ہے: "خدا کی بادشاہی کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اور اُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے" (نیا عہدنامہ، کتاب رومیوں 14: 17)۔

بہت سے لوگ فرشتوں کی حضوری کے آرزومند ہوتے ہیں، مگر چونکہ آسمانی مخلوقات کا انسان کے ساتھ قیام ممکن نہیں، اِس لئے وہ فرشتے آسمان پر واپس چلے گئے۔ اِس ملاقات کے نتیجے میں چرواہوں نے بتائے گئے مقام پر پہنچنے کےلئے شہر جانے میں جلدی کی۔ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے ننھے بچّے یسوع کا جلال اور فروتنی دیکھی۔ یوں چرواہے فرشتوں کے آنے کے اور بچہ یسوع کی حقیقت کے چشم دید گواہ بن گئے جو اپنے ظاہری حالات سے عیاں نہ تھی۔ ایسے ادنیٰ لوگوں (چرواہوں) کو مسیح کی جائے ولادت کی زیارت سے بھلا کون روک سکتا تھا؟ مسیح کی پیدایش کی جگہ پر کوئی محافظ موجود نہ تھا جیسے کہ ہم دنیوی جگہوں میں دیکھتے ہیں۔ اگر یسوع کی ولادت کسی شاہی محل میں ہوئی ہوتی تو اِن غریب چرواہوں کو مسیح سے ملاقات کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اُنہوں نے مسیح کو دیکھنے کےلئے جلدی کی اور جیسا فرشتہ نے بیان کیا تھا اُنہوں نے ویسا ہی پایا۔ جب چرواہوں نے تمام واقعہ مریم، یُوسُف اور دوسرے لوگوں سے بیان کیا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ مسیح کی شادمان، خوش و خرّم والدہ کےلئے یہ خبر نہایت اہم تھی کیونکہ اِس نے اُس بات کی تصدیق کی جو فرشتہ اُس کے حیرت انگیز بچّہ کی بابت پہلے ہی سے مریم کو بتا چکا تھا۔

جیسے فرشتے واپس چلے گئے تھے ویسے ہی چرواہے بھی خدا کی حمد کرتے ہوئے اپنے گلہ کے پاس واپس چلے گئے۔ یہ چرواہے وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے رُوحوں کے گلہ بان اور تمام کلیسیا کے سر یعنی نجات دہندہ کی ولادت کی خبر کو چاروں طرف مشہور کیا۔

یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ چرواہے اُن غریب خدا ترس لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت سی مذہبی رسومات کو نظر اندازکیا کہ بعض رسومات ایک بوجھ کی طرح تھیں۔ ممکن ہے کہ یہ چرواہے اُن برّوں کی رکھوالی کر رہے تھے جنہیں یروشلیم میں ہیکل میں عبادت کے دوران مُقدّس قربانیوں کےلئے نذر کیا جاتا تھا۔ یہاں ہم ہیکل میں نذر کئے جانے والے برّے اور اِس نو مولود بچّے میں ایک تعلق دیکھ سکتے ہیں، یہ وہ بچہ ہے جسے یوحنا اصطباغی نے "خدا کا برّہ" کہا (انجیل بمطابق یوحنا 1: 29) اور جس کے بارے میں یوحنا رسُول نے "ذبح کیا ہوا برّہ" کے الفاظ استعمال کئے (نیا عہدنامہ، کتاب مکاشفہ 5: 6)۔

ج- ختنہ

"جب آٹھ دِن پورے ہوئے اور اُس کے ختنہ کا وقت آیا تو اُس کا نام یسوع رکھا گیا جو فرشتہ نے اُس کے رَحِم میں پڑنے سے پہلے رکھا تھا۔ پھر جب موسیٰ کی شریعت کے موافق اُن کے پاک ہونے کے دِن پورے ہو گئے تو وہ اُس کو یروشلیم میں لائے تا کہ خداوند کے آگے حاضر کریں۔ (جیسا کہ خداوند کی شریعت میں لکھا ہے کہ ہر ایک پہلو ٹھا خداوند کےلئے مُقدّس ٹھہرے گا)۔ اور خداوند کی شریعت کے اِس قول کے موافق قربانی کریں کہ قمریوں کا ایک جوڑا یا کبوتر کے دو بچّے لاﺅ۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 21-24)

خدا تعالیٰ کے ابرہام کو دیئے گئے حکم کے مطابق بچہ یسوع کی زمینی زندگی کے آٹھویں دن اُس کا ختنہ کیا گیا، جو خدا کی چنیدہ قوم کے ساتھ اُس کے عہد کا نشان تھا۔ ختنہ کا یہ واقعہ اَور بہت سے دیگر واقعات میں سے ایک تھا، جب مسیح نے نئے عہد کا بانی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو پرانے عہد کے قوانین کے تابع کر دیا تا کہ اپنی شخصیت میں پرانے اور نئے عہد دونوں کو منسلک کرے۔ اِسی طرح، مسیح نے اپنی ذات میں خالق و مخلوق کی طبیعتوں کو یکجا کر دیا۔

د- شمعون خدا کی نجات دیکھتا ہے

"اور دیکھو، یروشلیم میں شمعون نام ایک آدمی تھا اور وہ آدمی راستباز اور خدا ترس اور اسرائیل کی تسلّی کا منتظر تھا اور رُوح القدس اُس پر تھا۔ اور اُس کو رُوح القدس سے آگاہی ہوئی تھی کہ جب تک تُو خداوند کے مسیح کو دیکھ نہ لے موت کو نہ دیکھے گا۔ وہ رُوح کی ہدایت سے ہیکل میں آیا اور جس وقت ماں باپ اُس لڑکے یسوع کو اندر لائے تا کہ اُس کےلئے شریعت کے دستور پر عمل کریں۔ تو اُس نے اُسے اپنی گود میں لیا اور خدا کی حمد کر کے کہا کہ، اے مالک اَب تُو اپنے خادم کو اپنے قول کے موافق سلامتی سے رخصت کرتا ہے۔ کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے۔ جو تُو نے سب اُمّتوں کے رُوبرُو تیار کی ہے۔ تا کہ غیر قوموں کو روشنی دینے والا نُور اور تیری اُمّت اسرائیل کا جلال بنے۔ اور اُس کا باپ اور اُس کی ماں اِن باتوں پر جو اُس کے حق میں کہی جاتی تھیں تعجب کرتے تھے۔ اور شمعون نے اُن کےلئے دُعایِ خیر کی اور اُس کی ماں مریم سے کہا، دیکھ یہ اسرائیل میں بہتوں کے گرنے اور اُٹھنے کےلئے اور ایسا نشان ہونے کےلئے مقرر ہُوا ہے جس کی مخالفت کی جائے گی۔ بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چھِد جائے گی تا کہ بہت لوگوں کے دِلوں کے خیال کھل جائیں۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 25-35)

شریعت کے مطابق یُوسُف اور مریم، مسیح کو یروشلیم میں ہیکل میں لے گئے۔ ہیکل کے خداوند کی، خداوند کی ہیکل میں آمد اِس سے پیشتر ہونے والے نشانات اور معجزات کی تصدیق کرنے والے واقعات کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ شمعون نام ایک بوڑھا راستباز شخص رُوح القدس سے معمور تھا، اُس پر خدا تعالیٰ نے منکشف کیا تھا کہ جب تک وہ اِس دُنیا کے نجات دہندہ "مسیحا" کو نہیں دیکھ لیتا موت کا مزہ ہرگز نہ چکھے گا۔ اِس کے عین مطابق شمعون نے محسوس کیا کہ پاک رُوح اُسے ہیکل کی جانب لے جا رہا تھا۔ سو وہ ہیکل میں گیا اور وہاں یُوسُف، مریم اور بچہ یسوع سے ملا اور اُس نے پہچانا کہ یہی وہ "مبارک بچہ" تھا۔ شمعون نے خدا کے حضور پیش کرنے کےلئے بچہ یسوع کو اپنے بازوﺅں میں اُوپر اُٹھا کر خداوند کو مبارک کہتے ہوئے کہا کہ: "اَب تُو اپنے خادم کو اپنے قول کے موافق سلامتی سے رخصت کرتا ہے۔ کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے۔" اپنی دُعا کا اختتام کرتے ہوئے شمعون نے ظاہر کیا کہ یہ نجات سب لوگوں کےلئے ہے، اور اِس کا اظہار اُس نے مسیح کو "غیر قوموں کو روشنی دینے والا نُور" کہہ کر کیا۔

شمعون کی باتوں سے مریم اور یُوسُف حیرت زدہ تھے کہ وہ بچّے یسوع کے رتبہ کی بابت جانتا تھا اور شمعون نے اُن کو برکت دی جیسے کہ کوئی بزرگ کسی جوان کو دُعائے خیر دیتا ہے۔ پھر اُس نے مسیح کی ذات اور اُس کے کام کے گہرے اور اہم بھید کو مریم پر ظاہر کیا کہ نجات دہندہ کے طور پر وہ بہتوں کو اُٹھائے گا اور بہتوں کے گرنے کا بھی سبب بنے گا۔ وہ بہت مخالفت اور ایذاﺅں کا سامنا بھی کرے گا، اور انسان کے باطنی خیالات کو ظاہر کرے گا۔ اور پھر والدہ ہوتے ہوئے مریم مسیح کی ایذاﺅں میں شامل ہو گی جنہیں اُس کے دِل کو چھیدنے والی تلوار سے مشابہت دی گئی ہے۔

ہ- نبیّہ گواہی دیتی ہے

"اور آشر کے قبیلہ میں سے حنّاہ نام فنوایل کی بیٹی ایک نبیّہ تھی۔ وہ بہت عمر رسیدہ تھی اور اُس نے اپنے کنوارپن کے بعد سات برس ایک شوہر کے ساتھ گزارے تھے۔ وہ چوراسی برس سے بیوہ تھی اور ہیکل سے جُدا نہ ہوتی تھی بلکہ رات دِن روزوں اور دُعاﺅں کے ساتھ عبادت کیا کرتی تھی۔ اور وہ اُسی گھڑی وہاں آ کر خدا کا شکر کرنے لگی اور اُن سب سے جو یروشلیم کے چھٹکارے کے منتظر تھے اُس کی بابت باتیں کرنے لگی۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 36-38)

شمعون کی گفتگو کے بعد، بزرگ نبّیہ بنام حنّاہ بھی آگے بڑھ کر خداوند کی حمد کرنے لگی۔ اِس طرح، درج اندراج کے مطابق حنّاہ وہ پہلی خاتون تھی جو مسیح کی ولادت کے بعد اُس پر ایمان لائی، وہ اُن بےشمار معزّز خواتین میں بھی پہلی خاتون تھی جو ہر زمانہ میں مسیح کی خدمت میں مصروف و معمور رہیں۔

ہیکل کی زیارت سے فارغ ہو کر تین افراد پر مشتمل یہ خاندان اپنے آبائی شہر کو واپس لوٹ گیا۔ اِسی اثناء میں مردم شماری کےلئے آئے ہوئے لوگوں کا ہجوم وہاں سے جا چکا تھا۔ لہٰذا، اُنہیں رہنے کےلئے جانوروں کے اصطبل سے بہتر قیام گاہ میسر ہو سکی۔

8- مجوسیوں کی بچّہ یسوع سے ملاقات

"جب یسوع ہیرودیس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو! کئی مجوسی پُورب سے یروشلیم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ کیونکہ پُورب میں اُس کا ستارہ دیکھ کر ہم اُسے سجدہ کرنے آئے ہیں۔ یہ سُن کر ہیرودیس بادشاہ اور اُس کے ساتھ یروشلیم کے سب لوگ گھبرا گئے۔ اور اُس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کر کے اُن سے پوچھا کہ مسیح کی پیدایش کہاں ہونی چاہئے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ نبی کی معرفت یوں لکھا گیا ہے کہ: اَے بیت لحم یہوداہ کے علاقے تُو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں۔ کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نِکلے گا جو میری اُمّت اسرائیل کی گلّہ بانی کرے گا۔ اِس پر ہیرودیس نے مجوسیوں کو چپکے سے بلا کر اُن سے تحقیق کی کہ وہ ستارہ کس وقت دکھائی دیا تھا۔ اور یہ کہہ کر اُنہیں بیت لحم کو بھیجا کہ جا کر اُس بچّے کی بابت ٹھیک ٹھیک دریافت کرو اور جب وہ ملے تو مجھے خبر دو تا کہ میں بھی آ کر اُسے سجدہ کروں۔ وہ بادشاہ کی بات سُن کر روانہ ہوئے اور دیکھو جو ستارہ اُنہوں نے پُورب میں دیکھا تھا وہ اُن کے آگے آگے چلا۔ یہاں تک کہ اُس جگہ کے اُوپر جا کر ٹھہر گیا جہاں وہ بچّہ تھا۔ وہ ستارے کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے۔ اور اُس گھر میں پہنچ کر بچّے کو اُس کی ماں مریم کے پاس دیکھا اور اُس کے آگے گر کر سجدہ کیا اور اپنے ڈبّے کھول کر سونا اور لُبان اور مُر اُس کو نذر کیا۔ اور ہیرودیس کے پاس پھر نہ جانے کی ہدایت خواب میں پا کر دُوسری راہ سے اپنے ملک کو روانہ ہوئے۔" (انجیل بمطابق متی 2: 1-12)

انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے شیطان ہمارے پہلے والدین کی باغِ عدن میں خوشی سے معمور پاک حالت کو برداشت نہ کر سکا۔ ابلیس نے آدم اور حوّا کو جھوٹا فریب دے کراُنہیں اور اُن کی اولاد کو گناہ کا غلام بنا دیا۔ اب کیا ابلیس "آدم ثانی" یعنی مسیح کی پیدایش پر جو پہلے آدم سے بے انتہا بڑا ہے خاموش رہ سکتا تھا؟ کیا یہ اُس کا ناقابل تسخیر دُشمن نہیں تھا جس کے بارے میں یوحنا رسُول نے کہا "خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کومٹائے" (1-یوحنا 3: 8)۔ اَب تو شیطان کےلئے ایسے وقت میں خاموش رہنا واقعی ممکن نہ تھا اور دوزخ میں ایک نئی ہلچل کا پیدا ہونا، ناگزیر ہو گیا۔

شیطان کو اِس بےمثال بچہ یسوع کو ہلاک کرنے اور اپنے اِرادہ کو پورا کرنے کےلئے عالمِ اَرواح سے کسی ایلچی کے بھیجنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ قوموں کے راہنما اُس وقت اُس کے قبضے میں تھے اور وہ اپنی ہلاک کرنے والی نیت کو پورا کرنے کےلئے اُنہیں استعمال کر سکتا تھا۔ ظالم اور خونی ہیرودیس بادشاہ نہایت شریر شخص تھا جو ابلیس کے ہاتھوں میں بہ رضا و رغبت ہتھیار بننے کو تیار تھا۔

ایک دن موسمِ سرما کے اختتام کے نزدیک مشرق سے آنے والے چند اجنبیوں کے سبب سارے یروشلیم اور شاہی محل میں کھلبلی مچ گئی۔ وہ مجوسی تھے اور غالباً وہ عالم اور عظیم مرتبت والے لوگ تھے۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ مجوسی کس ملک سے آئے تھے، لیکن غالباً وہ فارس، ہندوستان اور عرب سے آئے تھے۔ ہمیں اُن کی تعداد کے بارے میں بھی نہیں بتایا گیا، مگر عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تعداد میں تین تھے کیونکہ بچّے کو تین مختلف قسم کے تحفے پیش کئے گئے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تین مجوسی بنی نوع انسان کی تین شاخوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جو نوح کے تین بیٹوں سم، حام اور یافت سے نکلے، جبکہ بعض سوچتے ہیں کہ یہ جوانی، پختگی اور بڑھاپے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

غالباً وہ علم نجوم کا مطالعہ کرنے والے لوگ تھے اور اُنہوں نے ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں سے آنے والے مسیحا کا تذکرہ سُنا ہو گا۔ وہ اپنے زمانے کے اُن کئی غیر یہودی لوگوں کی طرح تھے جو یہودیوں کے ملک میں کسی عظیم شخصیت کے ظہور کے منتظر تھے۔

یروشلیم شہر کے مقامی لوگ بیرونی علاقوں سے آنے والے لوگوں کے بارے میں آشنا تھے اور اُن آنے والوں میں سے بیشتر کا تعلق اُن یہودیوں سے تھا جو 800 سے 600 ق م کے عرصے کے درمیان تمام دُنیا میں پھیل گئے تھے۔ اُن کا ملک یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں کےلئے سیر و سیّاحت اور تجارت کے حوالے سے مشہور تھا۔ تاہم، جب یہ مجوسی یروشلیم آئے تو اُن کے آنے کے مقصد اور اُن کے سوال نے ہر خاص و عام میں سخت بے چینی پیدا کر دی۔ اُنہوں نے دریافت کیا: "یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے؟ کیونکہ پُورب میں اُس کا ستارہ دیکھ کر ہم اُسے سجدہ کرنے آئے ہیں۔"

جنہوں نے یہ سوال سُنا، اُن کے دِلوں پر ایک بڑا خوف سا چھا گیا۔ ایک نئے بادشاہ کے ہیرودیس کی جگہ لینے کے امکان کو ذہن میں لاتے ہوئے لوگ شریر بادشاہ ہیرودیس کے ردعمل سے خوفزدہ تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہیرودیس کے غضب کا اوّل نشانہ کون بنے گا۔ شاہی جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے جو بادشاہ پر اَثراَنداز ہونے والی ہر بات کی خبر اُسے دیتے تھے۔ پس جب مجوسیوں کی آمد کی خبر بادشاہ تک پہنچی، تو وہ نہایت گھبرایا اور اُسے اپنی جان و تخت کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ تب بادشاہ نے سردار کاہنوں اور فقیہوں کو بلا کر اُن سے دریافت کیا کہ مسیح کی پیدایش کس شہر میں ہونی چاہئے، تو اُنہوں نے اُسے میکاہ نبی کے صحیفے میں سے 5: 2 کا اقتباس بتایا: "لیکن، اَے بیت لحم افراتاہ، اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے توَ بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایّام سے ہے۔"

اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہیرودیس نے اپنے اشتعال کے باوجود مجوسیوں کو اپنے محل میں مدعو کر کے اُنہیں عزت دی، کیونکہ اُس کا دِل یہ معلوم کر نے کےلئے بےتاب تھا کہ اُنہوں نے وہ ستارہ کب دیکھا تھا۔ یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ مجوسیوں کو بےعزت کر کے، اُنہیں اَذیّت دے کر ہلاک کر سکتا تھا اور اپنی مکار فطرت میں اُس نے مجوسیوں کو دھوکا دے کر اُن کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تا کہ وہ نومولود بچے کو ہلاک کر سکے۔ اپنے غصے کو چھپاتے ہوئے اُس نے مجوسیوں کو بیت لحم کی طرف یہ کہہ کر بھیجا کہ "بچے کی بابت ٹھیک ٹھیک دریافت کرو اور جب وہ ملے تو مجھے خبر دو" اور پھر اپنی فریبی چال کے ساتھ اُن سے مزید یہ کہا کہ "تا کہ میں بھی جا کر اُسے سجدہ کروں۔" اُس کا اندازہ تھا کہ ایک یا دو دن میں اُسے اہم خبر مل جائے گی اور وہ جا کر بیت لحم میں بچّے کو قتل کر سکے گا، اور ممکن ہے اُس نے مجوسیوں کو بھی پریشانی پیدا کرنے کی وجہ سے قتل کروا دینے کا ارادہ کیا ہو۔

ہم یہ جاننے کے خواہشمند ہوں گے کہ مجوسیوں نے اُس وقت کیا سوچا، جب یہودیوں کے مرکزی شہر یروشلیم میں پہنچ کر اُنہوں نے دیکھا کہ محل کے باشندوں سے لے کر گلیوں میں رہنے والے تمام غریب ترین لوگوں میں سے کوئی بھی اِس جلالی بادشاہ کی ولادت کی خبر سے واقف نہ تھا۔ اُس وقت مجوسی کیوں اپنے گھر جانے کےلئے واپس نہ لوٹ گئے؟ اُنہیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ شاید اُن کے ستارہ نے اُنہیں گمراہ کر دیا تھا؟ ممکن ہے اُنہیں ہیرودیس کی اِس بات سے تسلّی ہوئی ہو کہ وہ بھی آ کر نوزائیدہ بچّہ کو سجدہ کرنا چاہتا تھا، غالباً اِس خیال سے مجوسیوں کی ہمت بندھی۔ پس وہ ہیرودیس کی شرف یابی کے شکر گزار ہوتے ہوئے، اُس کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے بیت لحم کو روانہ ہو گئے۔

بیت لحم جانے کی راہ پر، اُنہوں نے پھر وہی ستارہ دیکھا اور اُس ستارے نے اُن کی راہنمائی کی۔ یہ ستارہ عین اُس جگہ پر جا کر ٹھہر گیا جہاں نو مولود بچہ تھا اور وہ نہایت خوش ہوئے۔ اگرچہ ستارے نے ابتدا میں مجوسیوں کی یروشلیم تک راہنمائی کی، مگر یہ صرف اُنہیں وہاں تک نہیں لے کر گیا۔ اب جبکہ یہ ستارہ پھر سے نمودار ہوا، اور اُنہیں اُن کی منزلِ مقصود تک لے آیا، تو وہ نہایت شادمان ہو گئے۔

چونکہ خاندان اور بچّے کی ظاہری حالت میں کوئی بھی چیز مسیح کی معجزانہ و آسمانی اصل کا اشارہ نہیں کر رہی تھی، اِسی لئے غالباً والدین نے بیت لحم کے لوگوں پر بچّے کی رُوحانی اصلیت کا راز افشاں نہ کیا۔ اِس لئے مجوسیوں کےلئے ستارے کی راہنمائی کے بغیر بچّے تک اپنی راہ کو پانا ممکن نہ تھا۔ جب مجوسی گھر میں داخل ہوئے، تو اُنہوں نے اُس بچّے کو سجدہ کیا، اور اُسے سونا، لُبان اور مُر کے تحفے نذر کئے۔ سونے کا نذرانہ اُس کے بادشاہ ہونے کی حیثیت کے شایانِ شان تھا، لُبان اُس کی کہانت کی خدمت کی طرف اشارہ تھا جبکہ مُر کا تحفہ اُس کی نبوتانہ حیثیت کے مطابق تھا۔

ماہرینِ فلکیات نے اِس ستارے کے فطرتی مظہر کا مطالعہ کر کے، اِس نادر و کمیاب ستارہ کے ظہور کی تاریخ و وقت کی گہرائی سے تفتیش کی ہے تا کہ وہ مسیح کی پیدایش کے وقت ظاہر ہونے والے اِس ستارہ کی بابت درستی سے نشان دہی کر سکیں۔ یوں انکشاف ہوا کہ یسوع کی ولادت کے وقت کچھ سیاروں کا ایک دوسرے سے باہمی اشتراک ہوا تھا۔ اور ایسا عمل سینکڑوں سال بعد صرف ایک مرتبہ ہی ہوتا ہے۔ اِس تحقیق کے پیشِ نظر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ عمل مجوسیوں کو بیت لحم تک لے جانے کا سبب بنا۔ یہ بھی ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ مسیح کی ولادت کے وقت ایک بےحد روشن ستارہ نمودار ہوا تھا، جو قلیل مدت تک نظر آیا اور پھر غائب ہو گیا۔ اِسی بنا پر کچھ لوگ مانتے ہیں کہ یہی وہ ستارہ تھا جس نے مجوسیوں کی بیت لحم تک پہنچنے میں راہنمائی کی۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک دُم دار ستارہ تھا جو ایک ہی مرتبہ ظاہر ہوا اور یہ اُن ستاروں کی مانند نہیں تھا جن کا محور چھوٹا ہوتا ہے اور جو جانے پہچانے وقفوں کے بعد نمودار ہوتے ہیں۔ تاہم، کسی کو بھی یقین کے ساتھ اِس ستارہ کی فطرت کا علم نہیں۔

جب مجوسیوں نے اُس بچّے کو دیکھا جس کے ستارے کو پہلے اُنہوں نے پُورب میں دیکھا تھا تو اُنہوں نے ایک نئی روشنی پائی جو کسی بھی اُس روشنی سے سبقت رکھتی تھی جس کا اُنہوں نے اپنی مذہبی جستجو میں کبھی مشاہدہ کیا تھا۔ مزید برآں، ہیرودیس بادشاہ کے پاس پھر نہ جانے کی ہدایت خواب میں پا کر مجوسی دُوسری راہ سے اپنے مُلک کو روانہ ہو گئے۔

الف- مُلکِ مصر کو بھاگ جانا

"جب وہ روانہ ہو گئے تو دیکھو خداوند کے فرشتہ نے یُوسُف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا، اُٹھ بچّے اور اُس کی ماں کو ساتھ لے کر مِصر کو بھاگ جا اور جب تک کہ میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا کیونکہ ہیرودیس اِس بچّے کو تلاش کرنے کو ہے تا کہ اِسے ہلاک کرے۔ پس وہ اُٹھا اور رات کے وقت بچّے اور اُس کی ماں کو ساتھ لے کر مِصر کو روانہ ہوگیا۔ اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا تا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مِصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا۔" (انجیل بمطابق متی 2: 13-15)

متی کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان کے مطابق مجوسیوں کے روانہ ہونے کے فوراً بعد خداوند کا فرشتہ دوسری بار خواب میں یُوسُف پر ظاہر ہوا، اور اُسے کہا کہ بچّے اور اُس کی ماں مریم کو لے کر مصر کو بھاگ جا اور جب تک میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا۔ یُوسُف نے جب محسوس کیا کہ بچّہ خطرہ میں تھا، تو فرشتہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یسوع اور اُس کی ماں کو لے کر فوراً ملک ِمصر کو روانہ ہو گیا۔

مجوسیوں کی نگاہ میں ننھا یسوع اسرائیل کا نیا بادشاہ تھا۔ مجوسیوں کے چلے جانے کے بعد بیت لحم کے باشندے بلا شک و شبہ اِس مُقدّس خاندان کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے تھے۔ عین ممکن ہے کہ وہ بھی مسیح کےلئے اہم اور قیمتی تحفے لائے ہوں۔ بچّے کو ملنے والے قیمتی نذرانوں کے بغیر یُوسُف کےلئے مِصر جانے کے لمبے سفر کا خرچ برداشت کرنا مشکل ہو سکتا تھا۔ جب خدا کی پاک مرضی کی تکمیل ضروری تھی تو اِن تحائف کی فراہمی خدا کی عجیب طور پر پروردگاری کا خوبصورت ثبوت تھی۔

ب- بیت لحم کے بچّوں کا قتل عام

"جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنسی کی تو نہایت غصّے ہوا، اور آدمی بھیج کر بیت لحم اور اُس کی سب سرحدوں کے اندر کے اُن سب لڑکوں کو قتل کروا دیا جو دو دو برس کے یا اِس سے چھوٹے تھے۔ اُس وقت کے حساب سے جو اُس نے مجوسیوں سے تحقیق کی تھی۔ اُس وقت وہ بات پوری ہوئی جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہی گئی تھی کہ۔ رامہ میں آواز سنائی دی۔ رونا اور بڑا ماتم۔ راخل اپنے بچّوں کو رو رہی ہے اور تسلّی قبول نہیں کرتی، اِس لئے کہ وہ نہیں ہیں۔" (انجیل بمطابق متی 2: 16-18)

اگر ہم مجوسیوں کے جانے کے بعد ہیرودیس کے محل میں گزرے واقعات کو تصور میں لانے کی کوشش کریں، تو ہم خیال کر سکتے ہیں کہ بادشاہ مجوسیوں کی واپسی کا بے صبری سے منتظر ہو گا کہ وہ بچہ (یسوع) کے مستقبل کی بابت کوئی فیصلہ کر سکتا، مگر مجوسی واپس نہ لوٹے۔ مجوسیوں کے ساتھ ہیرودیس کو مطلع کرنے کی مقررہ مدت گزر جانے کے بعد ضرور ہی بادشاہ نے اُن کے تعاقب میں ایلچی روانہ کئے ہوں گے۔ جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے اُس کے ساتھ ہنسی کی تو بچّے کے درست مقام کو دریافت کرنے کا موقعہ ہاتھ سے نکل جانے کے باعث وہ نہایت غضبناک ہوا۔

بادشاہ نے بیت لحم کے لوگوں سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ مجوسی کس مکان میں گئے تھے، مگر اُن لوگوں کے بیان کے مطابق وہ ایک گلیلی خاندان تھا جو کسی نامعلوم سمت کی جانب چلا گیا تھا۔ اِس جواب سے بادشاہ اَور بھی طیش میں آ گیا، کیونکہ اُسے شک گزرا کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو بچانے کی خاطر اُس سے کچھ چھپا رہے تھے۔ سو، اُس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ بچّہ (یسوع) کو ہر صورت میں ہلاک کرے گا، اور بیت لحم کے لوگوں کو اُن کے فریب اور مجوسیوں کے ساتھ ممکنہ سازش کی وجہ سے سزا دے گا۔ اِس لئے، اُس نے اپنے آدمی بھیج کر بیت لحم اور اُس کی سب سرحدوں کے اندر کے اُن سب لڑکوں کو قتل کروا دیا جو دو دو برس کے یا اِس سے چھوٹے تھے، تا کہ یہ بات یقینی ہو کہ کوئی بھی بچ نہ سکے۔

متی رسُول نے ہیرودیس کے اِس دہشتناک ظلم میں یرمیاہ نبی کی ایک نبوت کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا: "رامہ میں ایک آواز سنائی دی۔ نوحہ اور زار زار رونا۔... " (یرمیاہ 31: 15)۔ چونکہ بیت لحم کے یہ بچّے مسیح کے سبب قتل کئے گئے، اِس لئے کچھ لوگ اِنہیں پہلے مسیحی شہید سمجھتے ہیں۔

ج- ناصرة میں واپسی

"جب ہیرودیس مر گیا تو دیکھو خداوند کے فرشتہ نے مصر میں یُوسُف کو خواب میں دِکھائی دے کر کہا کہ اُٹھ، اِس بچّے اور اِس کی ماں کو لے کر اسرائیل کے ملک میں چلا جا کیونکہ جو بچّے کی جان کے خواہاں تھے وہ مر گئے۔ پس وہ اُٹھا اور بچّے اور اُس کی ماں کو ساتھ لے کر اسرائیل کے ملک میں آ گیا۔ مگر جب سُنا کہ اَرخِلاﺅس اپنے باپ ہیرودیس کی جگہ یہودیہ میں بادشاہی کرتا ہے تو وہاں جانے سے ڈرا، اور خواب میں ہدایت پا کر گلیل کے علاقہ کو روانہ ہو گیا۔ اور ناصرة نام ایک شہر میں جا بسا تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔" (انجیل بمطابق متی 2: 19-23)

کچھ ہی عرصہ بعد خونی، شریر اور ظالم بادشاہ ہیرودیس کو اُس کی معقول سزا مل گئی، اور وہ یریحو کے مقام پر اپنے محل میں مر گیا۔ کوئی بھی شخص تصوّر کر سکتا ہے کہ مرتے وقت اُس کا دِل کس قدر پریشان ہوا ہو گا۔ اُس نے تو سوچا تھا کہ بیت لحم کے بچوں کو قتل کر کے اُس کے تخت کےلئے خطرہ بننے والا بچّہ مر گیا ہو گا اور وہ خود زندہ رہے گا، لیکن اَب ہیرودیس اپنی قبر میں تھا اور یسوع زندہ اور محفوظ تھا۔ اور اُس وقت سے آج کے دن تک انسان کامل مسیح کی شہرت و تعظیم برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

مصر میں اِس مُقدّس خاندان کا قیام بہت مختصر تھا، کیونکہ خداوند کے فرشتہ نے مصر میں یُوسُف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا تھا کہ بچّے اور اُس کی ماں کو لے کر اسرائیل کے ملک میں چلا جا کیونکہ جو بچے کی جان کے خواہاں تھے وہ مر گئے۔ یُوسُف نے اِس حکم کی فوری تعمیل کی۔

ممکن ہے کہ یُوسُف اور مریم، اپنے جد امجد داﺅد بادشاہ کے خوبصورت اور مشہور شہر بیت لحم میں جو اُن کا آبائی شہر تھا سکونت اختیار کرنا چاہتے ہوں۔ یہ یروشلیم میں خداوند کی ہیکل اور نامور دینی مدرسوں کے قریب تھا اور اِسی جگہ غالباً اُنہوں نے داﺅد بادشاہ کے تخت کے وارث بچّے کی پرورش کرنا چاہی۔ لیکن جب یُوسُف کو خبر ملی کہ ہیرودیس کا بیٹا اَرخِلاﺅس اپنے باپ کی جگہ بادشاہ ہے تو اُسے خوف ہوا کہ وہ بچّے یسوع کو نقصان پہنچائے گا۔ اِس بادشاہ کا آغاز تو اچھا تھا لیکن جلد ہی یہ بھی اپنے باپ ہیرودیس کی مانند ظالم ہو گیا۔ مگر اِسی شش و پنج کی حالت میں یُوسُف نے پھر خواب میں ہدایت پائی اور ناصرة میں جا بسا۔ اِس فیصلہ کے تناظر میں انجیل نویس متی ایک اَور نبوت کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے: "وہ ناصری کہلائے گا" (انجیل بمطابق متی 2: 23)۔

د- ایک لاثانی بچپن

یسوع کا بچپن کئی لحاظ سے لاثانی ہے، مثلاً اُس کی پیدایش کے وقت کے لحاظ سے، قدیم نبوتوں کے لحاظ سے، زمینی اور آسمانی واقعات اور اُن کے ظہورکے لحاظ سے اور اُن کے ساتھ غیر معمولی بیانات کے لحاظ سے۔

فرشتوں کے اعلانات نے عہد عتیق کی نبوتوں کو معجزانہ طور پر مکمل طور سے پورا کیا جس میں فرشتوں نے اُس خوشی کی بشارت دی جو واقع ہونے کو تھی۔ اِس کے بعد غیر معمولی گواہیاں، اور الیشبع، زکریاہ اور مریم کے گیت ملتے ہیں۔

یسوع کی ولادت سے پہلے کئی غیر معمولی واقعات ظہور پذیر ہوئے، جن میں فرشتہ کا زکریاہ پر ظاہر ہونا اور زکریاہ کا ایمان نہ لانے پر عارضی طور پر گونگا ہو جانا شامل ہے۔ اِسی طرح مُقدّسہ مریم پر فرشتہ کا ظاہر ہونا، اور یُو سُف پر فرشتہ کا ظاہر ہونا اور مُقدّسہ مریم کی پاکیزگی کی گواہی دینا، بادشاہ کی جانب سے مردم شماری کا وقت، یُوسُف کا بیت لحم کا باشندہ ہونا (جو مسیحا کی ولادت کا نبوت شدہ مقام تھا)، چرواہوں پر فرشتوں کا ظاہر ہونا اور مشرق سے مجوسیوں کا ستارہ کی راہنمائی میں آنا بھی ایسے واقعات ہیں۔

مسیح کے استقبال میں سبھی طبقے کے لوگ شامل تھے۔ آسمانی مخلوقات کی نمائندگی فرشتوں نے کی، دینی راہنماﺅں کی نمائندگی کاہن نے کی، چرواہوں نے غربا کی نمائندگی کی، مریم اور الیشبع نے نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد کی نمائندگی کی، شمعون نے نیک ذات یہودیوں کی نمائندگی کی، حناہ نے نبیوں کی نمائندگی کی، مشرق سے ظاہر ہونے والے ستارے نے تخلیق کی نمائندگی کی، اور مجوسیوں نے دولتمند، اعلیٰ مرتبہ اور غیر اقوم کے دانشوروں کی نمائندگی کی۔

مسیح کی ولادت کے وقت نے عہد عتیق کی کئی نبوتوں کو پورا کیا، اور پولس رسُول نے اِس بارے میں لکھا: "جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا، اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 4)۔

اِنسانی تاریخ کی امن کی منفرد حالت میں سلامتی کے شہزادے یسوع کا ظہور ہوا۔ تمام رومی حکومت میں ذریعہِ نقل و حمل آسان اور محفوظ تھا جس سے مسیح کے شاگردوں کو انجیل کی بشارت دینے میں مقابلتاً آسانی ہوئی۔ رومی قانون کے تحت مذہبی آزادی حاصل تھی۔ یونانی تہذیب اور زبان سارے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اِن حالات نے خبر رسانی کے ذرائع کو آسان بنا دیا تھا، اور پھر اہم بات یہ تھی کہ یہودی مسیح سے قبل لکھے گئے پاک نوشتوں کے عبرانی نسخوں کا ترجمہ یونانی زبان میں پہلے ہی کر چکے تھے۔

نجات دہندہ مسیحا کی ولادت اُس وقت ہوئی جب اخلاقی اقدار کی حالت پست ترین تھی اور یہ بنی نوعِ انسان کےلئے ایک نجات دہندہ کی ضرورت کو نمایاں کرتی ہے جو ہر بشر کو اختیار کے ساتھ کامل نجات دے کر بچا سکتا ہو۔

چند دیندار یہودیوں کے دِل، مسیح ِموعود کی آمد کا انتظار کرتے کرتے نااُمیدی کا شکار ہو رہے تھے۔ یہودی لوگ تمام دُنیا میں پھیلے ہوئے تھے، جو آنے والے نجات دہندہ کے منتظر تھے اور اُس کی آمد کا اعلان کرتے تھے۔ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے صرف یہی لوگ تھے۔ یوں یسوع کے رسُولوں کو اچھا موقع فراہم ہوا کہ وہ مسیحی خوشخبری کا اِن یہودیوں سے آغاز کرتے اور بعد میں غیر قوموں کو بھی مسیح کی طرف راغب کرتے۔

اُس وقت انجیل کی منادی کو یہودیوں سے شروع کر کے غیر قوموں تک لے جانے کےلئے حالات بھی بالکل مناسب تھے۔ رومی سلطنت نے کسی حد تک ابتدائی کلیسیا کو شروع میں اُن یہودیوں کے تشدد سے محفوظ رکھا جو مسیحیت کو ویسے ہی ختم کرنا چاہتے تھے جیسے اُنہوں نے مسیحیت کے بانی کے ساتھ کیا تھا۔

اب اِس سارے مطالعہ کی روشنی میں یہ ہرگز تعجب انگیز نہیں کہ مرقس اپنے انجیلی بیان کا آغاز اِن الفاظ سے کرتا ہے "یسوع مسیح، ابنِ خدا کی خوشخبری کا شروع۔"

9- یسوع کا بچپن

یہ ایک بھید ہے کہ چاروں انجیلی بیانات میں مسیح کی ولادت سے لے کر اُس کی بارہ برس کی عمر تک حالاتِ زندگی کی بابت ذِکر نہیں ہے۔ لیکن پھر مسیح کی سوانح حیات کا ذِکر ہمیں تب ملتا ہے جب مسیح نے تیس برس کی عمر میں اپنی عوامی خدمت کو تعلیم دینے اور معجزات کرنے سے شروع کیا۔

مسیح کی ولادت کے بعد، بارہ برس کی عمر تک یسوع کے بچپن میں کی گئی یا کہی گئی کسی بات کو ہم کیسے پڑھنے کے قابل ہو سکتے جس کو الٰہی مکاشفہ کے مطابق صیغہ راز میں رکھا گیا ہے؟ اِن بارہ برسوں کو "پوشیدہ سال" کہا جاتا ہے۔

یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مسیح کی زندگی کے یہ بارہ برس دیگر یہودی لڑکوں کی مانند بسر ہوئے ہوں گے۔ وہ موسوی شریعت کا پابند رہا ہو گا، اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سکول گیا ہو گا اور مطالعہ و اخلاق میں ممتاز رہا ہو گا۔ مسیح کو اپنے ساتھیوں کی طرف سے آزمایشوں کا سامنا ہوا ہو گا، اور وہ اُن کی طرح آزمایا گیا ہو گا مگر اپنے ساتھیوں کی مانند، ہوتے ہوئے بھی مسیح گناہ سے مبرا تھا۔

الف- بارہ برس کی عمر میں

مسیح بارہ برس کی عمر میں مریم اور یُوسُف کے ہمراہ یروشلیم میں واقع ہیکل کو گیا۔ ہیکل کی اِس زیارت کے بعد اگلے اٹھارہ برس کے درمیانی وقفہ کی بابت الٰہی مکاشفہ پھر خاموش ہے۔ اور چاروں اناجیل میں موجود اِس خاموشی کی الٰہی رُوح کی تحریک کے بغیر تعبیر ممکن نہیں، وہی الہٰی رُوح جس نے بعد میں اِن نوشتوں کو تحریر کرنے کی تحریک دی۔ پانچویں سے دسویں صدی کے "تاریک زمانہ" کے دوران چند مسیحیوں کو یسوع کے بچپن سے لے کر تیس برس تک کی یہ خاموشی پسند نہ آئی۔ اُنہوں نے مسیح کی زندگی کے اِس خاموش عرصہ میں وقوع ہونے والی ممکنہ باتوں کی بابت اپنے ہی تصورات و خیالات کے مطابق فرضی کہانیاں گھڑ کر بناوٹی اناجیل لکھنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے سوچا کہ ایسا کرنے سے مسیح کے نام کو مزید عزت ملے گی۔ مگر حقیقت میں، اُن کی اِیسی جعلسازیاں اُن کی احمقانہ کوششوں کی عکاس ہے۔

لیکن یہ سوال اَب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ اُس وقت کے بارے میں دستیاب معلومات کی رسائی کے باوجود آخر یہ خاموشی کیوں ہے؟ جواب میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسیح کے ابتدائی بچپن کے واقعات اُس کے نجات دہندہ ہونے کے لازمی پہلوﺅں کو دکھاتے ہیں۔ پس اِن نمایاں کرنے والی خصوصیات کو مناسب عرصہ تک راز میں رکھنا ضروری ہوا کہ مسیح کی حقیقی انسانیت ظاہر ہو۔ علاوہ ازیں، مسیح کی تیاری کے تیس برس تک، اُس کی الوہیت اپنے لوگوں سے پوشیدہ تھی جب تک کہ وہ خدمت کےلئے لوگوں پر ظاہر نہ ہوا۔ بعد ازاں، مسیح کی زمینی زندگی کے ا یّام میں اُس کی الوہیّت کے نشانات ظہور پذیر ہوتے رہے۔

یہ خاموشی اِس غلط سوچ کے خلاف ثبوت بھی ہے کہ مسیح کا سب سے بڑا کام صرف لوگوں کےلئے ایک مثال بننا تھا کہ جس کی لوگ پیروی کرتے۔ اگر یہ سچ مان لیا جائے تو رسولوں کےلئے ضروری تھا کہ وہ ناصرة میں بڑھئی کی حیثیت سے مسیح کی عام زندگی کے ایّام میں کہی گئی باتوں اور کئے گئے کاموں کی تحقیق کر کے اُن کو قلمبند کرتے۔

چاروں انجیلی بیانات کے مصنفین کا مقصد ایک تواریخی سوانح ِحیات مرتّب کرنا نہیں تھا بلکہ اِس کا مقصد مسیح کی بطور ایک مصلح اور نجات دہندہ کے گواہی دینا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے بنیادی طور پر مسیح کی زندگی کے اُنہی حالات کو تحریر کیا جو اُس کی عوامی خدمت سے متعلق تھے۔ تاہم، مسیح کی زمینی زندگی کی وہ تمام باتیں جو تحریر میں نہیں آئیں اگر قلمبند کی جاتیں تو بےشک یہ تفصیلات لوگوں کی دلچسپی کا باعث ضرور ہوتیں۔

اگرچہ ناصرة مقابلتاً ایک چھوٹا شہر تھا مگر یسوع کے قیام کےلئے یہ بہترین مقام تھا۔ ناصرة کاہنوں کی جماعتوں کےلئے ملاقات و اجتماع کا مقام بنا ہوا تھا جہاں سے وہ یروشلیم میں واقع ہیکل کےلئے روانہ ہوا کرتے تھے۔ جو لوگ سفر نہیں کر سکتے تھے، وہ ناصرة ہی میں اپنا خدمتی ہفتہ پورا کرتے اور وہیں اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے تھے۔ یسوع نے ضرور اِن باتوں کا مشاہدہ کیا ہو گا اور اِن کو سیکھا ہو گا۔ ناصرة شہر فینیکے سے مصر تک، اور بحیرہِ روم اور خشکی کے دُور دراز کے علاقوں کے درمیان قافلوں کے گزرنے والی بنیادی شاہراہ پر واقع تھا۔ اِس سے یسوع کو مختلف ثقافتی رجحانات اور رِواج کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ناصرة جیسے چھوٹے شہر میں رہتے ہوئے، یسوع کی پرورش فروتنی اور مذہبی سادگی کی اخلاقی خوبیوں کے زیر اَثر ہوئی، یوں مسیح یہودیوں کی مذہبی زندگی کے مرکز یروشلیم سے دور تھا جہاں ریاکاری، فریب اور روایات پرستی کا زور تھا جس نے حقیقی خدا پرستی کا گلا گھونٹ رکھا تھا اور شریعت کی فقط لفظی پابندی نے دین کی رُوح کو دبا رکھا تھا۔ مگر حقیقت میں یہی وہ مقام تھا جہاں مستقبل میں مسیح کو اِنہی باتوں سے متعلق اپنے ٹھوس افکار پیش کرنا تھے اور سخت الفاظ سے راہنماﺅں کی عدالت کرنا تھی۔

مسیح کے لڑکپن کے سالوں کے دوران یُوسُف اور مریم کے ذہنوں سے اُس کی آسمانی اصل کی یاد ماند پڑ سکتی تھی۔ چونکہ ایک لڑکے کے طور پر یسوع کی زندگی دوسرے ہم عمر لڑکوں کی مانند ہی بسر ہو رہی تھی، اِس لئے اُس کے والدین نے اُسے صرف انسانی حیثیت ہی سے دیکھا۔ غالباً ایک طریقے سے یہ مناسب بات تھی کیونکہ ایسا نہ ہونے سے مسیح کو عام انسانی تجربات سے بےبہرہ رہنا پڑتا، خصوصاً اُس وقت جب مریم اور یُوسُف کو بچہ یسوع کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی جو کہ پرورش کرنے والے والدین کےلئے ایک غیر مناسب بات تھی۔ لہٰذا یسوع اُس وقت تک اپنے ہم عمروں کے ساتھ رہا اور اُن کے تجربات میں سے گزرا جب تک کہ اُس کی عوامی خدمت شروع نہ ہو گئی۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکپن ہی سے مسیح کے دِل میں دوسروں کی تکلیف کےلئے ہمدردی، فکر مندی اور رحم دِلی تھی۔ ناصرة کے خاموش عرصہ کے دوران جب مسیح اپنی زندگی کی خدمت جس کےلئے وہ آسمان سے اُترا، آغاز کا منتظر تھا تو اُس صبر و جذباتی ضبط پر حیرانی ہوتی ہے جسے مسیح نے اِس عرصے میں برداشت کیا۔

یسوع نے بڑھئی کے طور پر بھی مصروف رہ کر اپنا کچھ وقت بسر کیا۔ اِسی لئے بعض لوگوں نے مسیح کو فقط "ایک بڑھئی" یا "مریم کا بیٹا" ہی سمجھا۔ مسیح نے اپنی موجودہ حیثیت پر قناعت کرنا سیکھی اور وہ اپنے بزرگوں کے تابع رہا۔ اِس اَخذ شدہ نتیجہ کی کہ مسیح کی زمینی زندگی عام سی زندگی تھی، تائید اِس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ اُس کے بھائی اُس پر ایمان نہ لائے، اور اُس کی شہرت آس پاس کے دیہات تک بھی نہ پہنچی تھی۔ نزدیک ہی واقع علاقہ قانائے گلیل میں ایک شخص بنام نتن ایل نے اِن برسوں میں مسیح کی بابت کچھ نہیں سنا تھا، اور کچھ فاصلے پر واقع علاقوں کفر نحوم اور بیت صیدا کے لوگوں نے بھی کچھ نہ سُنا تھا۔ یسوع کی زندگی کی تاریخ کو لوقا انجیل نویس کے الفاظ میں اختصار سے بیان کیا جا سکتا ہے: "اور وہ لڑکا بڑھتا اور قوت پاتا گیا اور حکمت سے معمور ہوتا گیا اور خدا کا فضل اُس پر تھا" (انجیل بمطابق لوقا 2: 40)۔

لوقا کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع حکمت اور قد و قامت میں اور خدا اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ لوگ مسیح سے کس قدر محبت کرتے ہوں گے جب کہ وہ اُن لوگوں کی خدمت کےلئے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ اُس نے کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچائی اور برائی کا بدلہ محبت سے دیا۔ مسیح کےلئے شرارت و بدی کی قوتوں سے برملا مقابلے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ ایسا اُس وقت ہونا تھا جب یسوع کی شہرت و عظمت کے باعث اُس وقت کے شریر اور بڑے لوگوں میں نفرت و حسد کے جذبہ نے جوش مارنا تھا۔

ب- لڑکپن میں یسوع کی ہیکل میں آمد

"اُس کے ماں باپ ہر برس عید ِفسح پر یروشلیم کو جایا کرتے تھے۔ اور جب وہ بارہ برس کا ہوا تو وہ عید کے دستور کے موافق یروشلیم کو گئے۔ جب وہ اُن دِنوں کو پورا کر کے لوٹے تو وہ لڑکا یسوع یروشلیم میں رہ گیا اور اُس کے ماں باپ کو خبر نہ ہوئی۔ مگر یہ سمجھ کر کہ وہ قافلہ میں ہے ایک منزل نکل گئے اور اُسے اپنے رشتہ داروں اور جان پہچانوں میں ڈھونڈنے لگے۔ جب نہ ملا تو اُسے ڈھونڈتے ہوئے یروشلیم تک واپس گئے۔ اور تین روز کے بعد ایسا ہوا کہ اُنہوں نے اُسے ہیکل میں اُستادوں کے بیچ میں بیٹھے اُن کی سُنتے اور اُن سے سوال کرتے ہوئے پایا۔ اور جتنے اُس کی سُن رہے تھے اُس کی سمجھ اور اُس کے جوابوں سے دنگ تھے۔ وہ اُسے دیکھ کر حیران ہوئے اور اُس کی ماں نے اُس سے کہا، بیٹا! تُو نے کیوں ہم سے ایسا کیا؟ دیکھ تیرا باپ اور میں کُڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔ اُس نے اُن سے کہا، تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟ مگر جو بات اُس نے اُن سے کہی اُسے وہ نہ سمجھے۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 41-50)

ج- یسوع کا حکمت اور مقبولیت میں ترقی کرنا

"اور وہ اُن کے ساتھ روانہ ہو کر ناصرة میں آیا اور اُن کے تابع رہا اور اُس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دل میں رکھیں۔ اور یسوع حکمت اور قد و قامت میں اور خدا کی اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔" (انجیل بمطابق لوقا 2: 51-52)

جب یسوع بارہ برس کا ہوا تو اُس نے ناصرة سے یروشلیم تک کا سفر کیا۔ یُوسُف کا خاندان کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ہر سال یروشلیم کی ہیکل میں جانا ضروری ہوتا تھا، خصوصاً عیدِ فسح کے دوران۔ مریم اور عموماً خواتین سے وہاں جانے کی توقع نہ تھی، اور نہ ہی بارہ برس سے کم عمر لڑکے وہاں جاتے تھے کیونکہ وہ "شریعت کا جوا اُٹھانے" کے لائق نہ سمجھے جاتے تھے۔

اُس سال عیدِ فسح، ماہِ نیسان کی آٹھویں تاریخ کو (غالباً اپریل میں) تھی، سو اُس کے والدین اُسے یروشلیم لے کر گئے۔ اُس مسافت کی تیاری اور پھر اِس عجیب بچے کے سفر کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ یروشلیم کےلئے کارواں کے گزرنے کے دو راستے تھے، ایک راستہ سامریہ سے گزرتا تھا جہاں یہودیوں کو سامریوں کی مخالفت اور تشدد کا سامنا ہو سکتا تھا، یا وہ مشرق کی جانب سے دریائے یردن کو دو مرتبہ عبور کرنے والا لمبا راستہ اختیار کرتے۔ متقی و پرہیزگار یہودی لمبے راستے کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم دونوں ہی صورتوں میں یروشلیم تک کے سفر میں چار یا پانچ دن لگتے تھے۔

بلا شک و شبہ عظیم الشان ہیکل کو دیکھ کر اور دُنیا کے ہر خطّہ کے لوگوں کے یروشلیم جاتے ہوئے نغماتِ حمد اور مزامیر سُن کر یسوع کو بےانتہا خوشی ہوئی ہو گی۔ اِس کے بعد، توبہ کرنے والے گنہگاروں کی خاطر کاہنوں اور سردار کاہن کی خدمت کا منظر دیکھ کر مسیح نے اِس کام کو سراہا ہو گا۔ ہر شخص کو خدا سے صلح کی جستجو کی خاطر اِن کاہنوں کے ذریعے اپنی اپنی قربانیاں نذر کرنا ہوتی تھیں۔

یُوسُف، مریم اور مسیح نے دیگر زائرین کی طرح شہر میں نہایت محتاط ہو کر عبادت اور عید کے موقع پر ہیکل کی ساری رسومات میں شامل ہونے اور نذرانے و قربانی پیش کرنے میں اپنے دِن گزارے۔ یسوع یقیناً اِس بات سے واقف تھا کہ اِس عظیم عید کی تمام تر جزئیات اُس کی طرف اشارہ تھیں جو خدا کا برہ تھا۔ وہ لازماً اِس بات سے بھی واقف ہو گا کہ اُس کے ذریعے وہ تمام رسومات جو پچھلے پندرہ سو سال سے جاری تھی اب اختتام کو پہنچنے والی تھیں۔ یقیناً عید کی اِن رسومات میں پہلی بار حصہ لیتے ہوئے مسیح اپنی روح میں نہایت شادمان ہوا ہو گا۔

یروشلیم میں مسیح کے ساتھ باہمی میل جول رکھنے والے تمام لوگ اِس احساس سے کوسوں دُور تھے کہ یہی لڑکا اُن کا وعدہ شُدہ مسیحا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ لوگوں کو اِس لڑکے کی اصلیت کا علم نہ ہوا کیونکہ اگر اُنہیں علم ہو جاتا تو یہ لوگ مسیح کو عیدِ فسح کے بعد ناصرة نہ جانے دیتے اور یوں وہ مسیح کی عظیم خدمت کی تیاری میں دشواری پیدا کر سکتے تھے۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کچھ وقت کےلئے یسوع اپنے والدین سے جُدا رہا، مگر پھر بھی یُوسُف اور مریم، یسوع کے بارے میں پریشان نہ تھے کیونکہ اُنہیں اُس کے نیک کردار کی بابت پورا یقین تھا۔ مسیح نے ہیکل کی زیارت کا دِن، دینی سبق سکھائے جانے والے ماحول میں گزارا جہاں بہترین اساتذ ہ توریت کی تشریح کرتے تھے۔ یہاں مسیح کی بنیادی دلچسپی حالات سے آگاہی پانے اور لوگوں کو فیض پہنچانے کی تھی۔ مسیح کو اپنی سوچ اور اِن عظیم ربیوں کی سطحی و ظاہری تعلیمات میں بڑے فرق کو دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی ہو گی۔ اُس نے ضرور اِس بات کو محسوس کیا ہو گا کہ اِن لوگوں کو ایسی نئی رُوحانی اصلاح کی ضرورت تھی جو اُنہیں راست طرزِعمل اور سچی پرہیزگاری کی جانب لے جا سکتی۔

عید کے دن ختم ہوئے اور یہ خاندان ناصرة واپس جانے کےلئے روانہ ہوا، مگر یسوع کے ہمراہ نہ ہونے کے بارے میں بےخبر تھا۔ مسیح ربیوں کی باتیں سننے اور اُن سے سوال و جواب کرنے کےلئے ہیکل میں ٹھہر گیا۔ جب رات ہونے کو آئی اور مسیح کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا، تو مریم اور یُوسُف نہایت تشویش و اُلجھن کی حالت میں یروشلیم واپس گئے۔ اُنہوں نے تمام متوقع جگہوں پر مسیح کو تلاش کیا مگر وہ اُنہیں نہ مِلا۔ آخرکار تیسرے دِن اُنہوں نے مسیح کو اپنی قوم کے عالموں کے درمیان بیٹھے ہوئے اُسے ڈھونڈ لیا، جہاں وہ اُس کے حیران کن سوالات اور روشن افکار کے باعث اُسے بڑی توجہ دے رہے تھے۔ گرچہ مسیح کو پا کر فطرتی طور پر مریم کو تسلی ہوئی مگر اُس نے یہ کہتے ہوئے لڑکے کو تنبیہ بھی کی کہ "بیٹا تُو نے کیوں ہم سے ایسا کیا؟ د یکھ! تیرا باپ اور میں کڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔"

کوئی شخص اِس صورتِ حال میں اپنے بچے کی بابت کسی ماں کے ایسے بیان کو غیر مناسب خیال نہیں کرے گا۔ تاہم مسیح کی غیر معمولی ذہنی اور اخلاقی قوّت کے مدِّنظر مریم کو کسی طرح کی ڈانٹ سے گریز کرنا مناسب تھا، اِس لئے یسوع نے بغیر کسی شرمندگی یا معافی کے یوں جواب دیا کہ "کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرورہے؟" مسیح کا جواب بہت سادہ تھا کہ زمینی والدین کی مرضی سے پہلے اُسے اپنے آسمانی باپ کی مرضی کو پورا کرنا ضرور تھا۔ یُوسُف اُس کا حقیقی والد نہ تھا۔ مسیح کا باپ تو وہ تھا جس کی رُوح سے اُس نے جنم لیا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر مسیح کوئی عام بچہ ہوتا، تو وہ اِس رویہّ کے باعث اپنے والدین کی جانب سے اِس طرح کی پوچھ گچھ کا مستحق تھا۔ بارہ سال کے بچہ کو کسی اجنبی جگہ میں اِس وضع سے پیش آنے کے بجائے یروشلیم میں رُکنے کی بابت اپنے والدین کو مطلع کرنا چاہئے تھا اور اِس کے ساتھ ساتھ اُسے اپنی پریشان ماں کو یہ اِشارہ کرتے ہُوئے کہ وہ بےخبر تھی، یہ جواب نہیں دینا چاہئے تھا کہ "کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟"

یسوع مسیح کے اِس جواب کی بابت صرف مریم ہی کو علم تھا۔ اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے کے جواب کے مطلب کو پوری طرح نہ سمجھ سکی، لیکن اُس نے سب باتوں کو اپنے دِل میں رکھا۔ مگر کیا وجہ تھی کہ بعد میں مریم نے پریشانی پیدا کرنے والے اِس واقعے کو دوسروں کو بتایا؟ کیوں لوقا انجیل نویس ایسے لڑکے کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جو بظاہر اپنے والدین کا فرمانبردار نظر نہیں آتا؟

اگر اِس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ جس بچّے کا انجیل میں حقیقی بیان پایا جاتا ہے وہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ الٰہی بھی تھا تو ہمارے سامنے مشکل باقی نہیں رہتی۔ مریم کی جانب سے کہے جانے والے الفاظ "تیرا باپ اور میں" میں ہم بچّے کے ردِعمل کو سمجھ سکتے ہیں۔ یوں یسوع نے مریم کو یاد دِلایا کہ اُس کا باپ خدا تھا، نہ کہ یُوسُف۔ جس طرح عام دوسرے بچے اپنے زمینی والدین کے تابع ہوتے ہیں، مسیح کی حیثیت الٰہی اصل کی بنا پر ایسی نہ تھی۔ لوقا مبشر نے مسیح کے اِس طرح کے جواب سے ہمیں سمجھانا چاہا کہ یسوع کو علم تھا کہ وہ ابنِ خدا تھا، اور یہ وہ حقیقت تھی جسے غالباً یُوسُف اور مریم اُس وقت نہ پہچانتے تھے۔

یسوع کے اِن الفاظ پر ہمیں خوب غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ اُس کے اوّلین درج شدہ الفاظ ہیں۔ اِن الفاظ سے کہ "مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے" یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسیح کی تمام زندگی کےلئے یہ انتہائی مناسب تعارف ہے۔ اِس اصول کو مسیح نے اپنے لئے اختیار کیا، اور بچپن سے لے کر اپنی زمینی خدمت کی تکمیل اور صعودِ آسمانی تک ہمیشہ اِسی اصول کی پابندی کی۔

10- یوحنا اصطباغی کا راہ تیار کرنا

"اُن دنوں میں یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا اور یہودیہ کے بیابان میں یہ منادی کرنے لگا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ یہ وہی ہے جس کا ذِکر یسعیاہ نبی کی معرفت یوں ہوا کہ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو۔ اُس کے راستے سیدھے بناﺅ۔ یہ یوحنا اُونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا تھا اور اِس کی خوراک ٹڈّیاں اور جنگلی شہد تھا۔ اُس وقت یروشلیم اور سارے یہودیہ اور یردن کے گرد و نواح کے سب لوگ نکل کر اُس کے پاس گئے۔ اور اپنے گناہوں کا اِقرار کر کے دریائے یردن میں اُس سے بپتسمہ لیا۔ مگر جب اُس نے بہت سے فریسیوں اور صدوقیوں کو بپتسمہ کےلئے اپنے پاس آتے دیکھا تو اُن سے کہا کہ اَے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟ پس توبہ کے موافق پھل لاﺅ۔ اور اپنے دِلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابرہام ہمارا باپ ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا اِن پتھروں سے ابرہام کےلئے اَولاد پیدا کر سکتا ہے۔ اور اَب درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ میں تَو تم کو توبہ کےلئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زور آور ہے۔ میں اُس کی جوتیاں اُٹھانے کے لائق نہیں۔ وہ تم کو رُوح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا۔ اُس کا چھاج اُس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلیہان کو خوب صاف کرے گا اور اپنے گیہوں کو تو کھتّے میں جمع کرے گا مگر بھوسی کو اُس آگ میں جلائے گا جو بجھنے کی نہیں۔" (انجیل بمطابق متی 3: 1-12)

یسوع نے اپنے بارے میں یوں فرمایا: "دُنیا کا نور میں ہوں" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 12)۔ یسوع کے عظیم نور کے ظہور سے پہلے اُس کے ایک رشتہ دار یوحنا اصطباغی کی شخصیت میں نورِ سحر کی کرنیں نمودار ہوئیں جس نے یہ پیغام دیا کہ "میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زور آور ہے۔ میں اِس لائق نہیں کہ جُھک کر اُس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں" (انجیل بمطابق مرقس 1: 7)۔ یہ نورِ سحر جو مسیح کے ظہور سے پیشتر نمودار ہُوا، اُس کی بابت نبیوں نے صدیوں پہلے پیشین گوئی کی تھی، جیسے یسعیاہ 40: 3، ملاکی 3: 1 اور 4: 5 میں مرقوم ہے۔ یسوع نے یوحنا اصطباغی کو "جلتا اور چمکتا ہوا چراغ" کہہ کر مخاطب کیا (انجیل بمطابق یوحنا 5: 35)۔ یوحنا رسُول نے لکھا کہ یوحنا اصطباغی خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا تا کہ مسیح کی گواہی دے (انجیل بمطابق یوحنا 1: 8)۔

یوحنا اصطباغی کے رُوحانی مرتبہ کا تعین پہلے تو اِن پیشین گوئیوں نے، پھر اُس کی پیدایش سے منسلک معجزات نے اور آخر میں اُس کے پیغام اور بپتسمہ میں غیر معمولی قدرت نے کیا۔ وہ جلد ہی یہودیوں اور اُن کے راہنماﺅں اور حتیٰ کہ اُن کے شریر بادشاہ ہیرودیس انتپاس کے درمیان ایک روحانی اور اخلاقی پیشوا کی حیثیت اختیار کر گیا۔ یہودیوں نے یوحنا کی بابت کہنا شروع کر دیا کہ کیا وہ مسیح ہو سکتا تھا۔ یوحنا نے بغیر جلیل القدر نشانات اور کسی معجزہ کے یہ شہرت پائی جس کی یہودی آنے والے مسیحا سے توقع کر رہے تھے۔

تاہم اِس شخصیت کی مرتبت کے بارے میں اہم سند، خُود مسیح کی اپنی گواہیاں ہیں۔ یسوع نے اُس کے بارے میں اپنے لوگوں سے یوں کہا "تو پھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ایک نبی دیکھنے کو؟ ہاں میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو۔ یہ وہی ہے جس کی بابت لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا، لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے" (انجیل بمطابق متی 11: 9-11)۔ یوحنا کی عظمت کی ترجمانی دانی ایل نبی کے یہ الفاظ کرتے ہیں: "اور اہل دانش نورِ فلک کی مانند چمکیں گے اور جن کی کوشش سے بہتیرے صادق ہو گئے ستاروں کی مانند ابدالآباد تک روشن ہوں گے" (دانی ایل 12: 3)۔

یوحنا، ایلیاہ نبی کی رُوح اور قوّت میں یسوع کے پیش رَو کی حیثیت سے مسیح کی راہ تیار کرنے کےلئے اِس دُنیا میں آیا۔ ایلیاہ نبی کی طرح یوحنا کی خدمت خدا کے لوگوں کو اُس کے احکام سے منحرف ہونے اور اِردگرد کی اقوام سے سیکھے گئے بدچلن اثرات اور رسومات کے باعث ملامت کرنا تھا۔

انسانی طبیعت فطرتی طور پر اُس واعظ کی طرف راغب ہوتی ہے جو موسیٰ جیسے عظیم نبیوں کی رُوح میں کلام کرتا ہے، اور موسیٰ نبی وہ شخصیت تھی جسے زندہ کلام ملا کہ ہم تک پہنچا دے (نیا عہدنامہ، اعمال الرسل 7: 38)۔ پطرس نے اِس بات کی حمایت میں رُوح القدس کی تحریک سے یوں کہا: "اگر کوئی کچھ کہے تو ایسا کہے کہ گویا خدا کا کلام ہے" (نیا عہدنامہ، 1-پطرس 4: 11)۔ رُوح القدس سے معمور یوحنا جیسے واعظ کو سُننے کےلئے سامعین کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص فلسفیانہ خطبہ یا ذاتی یادداشت پیش نہیں کرتا۔ وہ پیسے کی خاطر منادی نہیں کرتا بلکہ وہ خدا کے کلام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے جو یوں فرماتا ہے: "سو اَب تُو جا اور میں تیری زبان کا ذمّہ لیتا ہوں اور تجھے سکھاتا رہوں گا کہ تُو کیا کیا کہے" (خروج 4: 12)۔ یوحنا اصطباغی یقیناً پولس رسُول کا سا احساس رکھتا تھا جس نے کہا: "مجھ پر افسوس ہے اگر خوشخبری نہ سُناﺅں" (نیا عہدنامہ، 1-کرنتھیوں 9: 16)۔

لڑکپن ہی میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کے والدین وفات پا چکے تھے، اور اُس کے بھائی یا بہنیں بھی نہ تھیں۔ جب یوحنا بالغ ہوا تو وہ اپنے والد کی طرح کاہن بھی نہ بنا۔ اُسے معلوم تھا کہ اُسے نذیر بننا تھا۔ اُس نے بیابان میں رہ کر تارک الدنیا طرزِ زندگی اختیار کی۔ وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا اور ٹڈیاں اور جنگلی شہد کھاتا تھا۔ اُس کی طرزِ زندگی مسیح سے مختلف تھی، جبکہ مسیح نے تیس برس تک ایک عام انسانی زندگی بسر کی۔ انجیل مُقدّس میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کی ابتدائی زندگی کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا، یہاں تک کہ وہ تیس برس کی عمر تک نہ پہنچ گیا۔ اِس عرصے سے متعلقہ اُس کی زندگی کا واحد تذکرہ انجیل بمطابق لوقا 1: 80 میں پایا جاتا ہے: "اور وہ لڑکا بڑھتا اور رُوح میں قوّت پاتا گیا اور اسرائیل پر ظاہر ہونے کے دن تک جنگلوں میں رہا۔"

مسیح اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کی ظاہری طرزِ زندگی مختلف ہونے کے باوجود دونوں نے زندگی کی رُوحانی اقدار کی سختی سے پابندی کی۔ دونوں میں لوگوں کی اصلاح کےلئے جوش و ولولہ تھا اور وہ سچّائی بیان کرنے سے ڈرتے بھی نہ تھے۔ یوحنا سب لوگوں میں مساوات کا حامی تھا۔ اُس نے سکھایا کہ پست کو بلند کیا جائے گا اور بلند کو پست کیا جائے گا اور ناہموار کو ہموار بنایا جائے گا۔ اُس کی آواز نیکی و راستبازی اور آسمان کی راہ ہموار کرنے کی پکار تھی، اِسی لئے وہ ہر وقت گناہوں سے توبہ کرنے پر زور دیتا رہا (یسعیاہ 40: 4) کہ معافی کوئی موت کے وقت ملنے والی بات نہیں اور نہ ہی یہ نیک اعمال کرنے کے بعد ملتی ہے، بلکہ معافی ایک الٰہی بخشش ہو گی جو گناہوں سے توبہ کرنے پر فوراً ملے گی اور گنہگار شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف مائل کرتی ہے۔

بلا شک و شبہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے پاس بھیڑ جمع ہونے کا سبب مسیحا کے اُس وقت جلد آنے کا ہر سو پھیلا ہوا عقیدہ تھا۔ جب یوحنا نے کھلے عام کہا کہ مسیح آ چکا ہے تو دینی سرگرمی نہایت بڑھ گئی اور لوگ اَور بھی زیادہ تعداد میں اُس کے پاس آنے لگے۔ تاہم اُن کی شرارت و بدی کے سبب یوحنا نے اُنہیں اعلانیہ ملامت کرنے سے گریز نہ کیا اور یوں اُس نے اپنے نبی ہونے کی تصدیق کی، وہ "بیابان میں پکارنے والے کی آواز" تھا۔ وہ لوگوں کےلئے ہدایت و راہنمائی کے ساتھ خدا کی طرف سے پیامبر تھا کہ وقت تھوڑا ہے اور عدالت جلد ہونے کو ہے: "اَب تو درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہے۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔" اُس نے متنبہ کیا کہ مسیح کا چھاج اُس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلیہان کو خُوب صاف کرے گا اور اپنے گہیوں کو تو کھتّے میں جمع کرے گا مگر بھوسی کو اُس آگ میں جلائے گا جو بجھنے کی نہیں۔

اصطباغی کی یہ آواز "بیابان میں پکارنے والے کی آواز" تھی۔ یہ کوہِ سینا پر موسیٰ کو ملنے والی شریعت کے وقت پیدا ہونے والی گرج دار آواز کی گونج تھی۔ یوحنا نے سختی سے اپنے سامعین سے دریافت کیا کہ "تمہیں کس نے جتایا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟" (انجیل بمطابق لوقا 3: 7)۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ اپنا چال چلن درست کرنے سے ہی وہ مخلصی پائیں گے۔ اُس نے اُنہیں سمجھایا کہ محض ابرہام کی نسل سے ہونا اِس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ اُس کی نسل سے کئے گئے برکت کے وعدے کو حاصل کر پائیں گے، کیونکہ خدا تو ابرہام کےلئے پتھروں سے بھی اولاد پیدا کر سکتا تھا۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ابرہام کی اولاد ہونے کا شرف نہیں دے سکتا تھا جنہوں نے ابرہام کی راستبازی کو نظر انداز کیا۔ یوحنا کی منادی اتنی موثر تھی کہ لوگ جوق در جوق اُسے سننے کےلئے جمع ہو جاتے تھے۔ اُس کی تعلیمات کا ہر مکتبہ فکر کے لوگوں پر اثر ہوا، اور اُس نے اُن کے سخت سوالات کے جواب حکمت سے دیئے۔

یوحنا نے مسیح کے اُن عظیم ترین کاموں کی پیش گوئی کی جو مستقبل میں واقع ہونے والے تھے، اور اُس کی منادی نے سامعین میں ہمیشہ خوف پیدا نہیں کیا۔ یوحنا نے کہا کہ اگرچہ میں تم کو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں مگر یہ تو محض رُوح القدس سے بپتسمہ کی علامت ہے جو صرف خدا دے سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوحنا نے کہا کہ مسیح ہی خدا تھا، کیونکہ محض کوئی انسان رُوح القدس سے بپتسمہ نہیں دے سکتا۔ جب اُس نے کہا کہ مسیح جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے پہلے تھا، تو یہ کہنے سے اُس نے ایک اَور ثبوت پیش کیا کہ مسیح ایک انسان سے کہیں بڑھ کر تھا۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ یوحنا اصطباغی نے مسیح کےلئے راہ تیار کی، کیونکہ اُس کی منادی کے ذریعہ بہت سے لوگ بعد میں یسوع کی تعلیم سننے اور اُسے قبول کرنے کےلئے تیار ہو گئے۔ یوحنا نے اپنی منادی کے شروع میں بالکل وہی الفاظ استعمال کئے، جو مسیح نے اپنی عوامی خدمت کے شروع میں استعمال کئے کہ "توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے" (انجیل بمطابق متی 4: 17)۔

خدا نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو کہانت کے فریق میں سے چنا کہ وہ نجات دہندہ مسیح کی راہ تیار کرے۔ یوحنا عہد عتیق اور عہد جدید کے درمیان ایک کڑی تھا۔ خداوند تعالیٰ نے اُسے ایک کاہن نہیں بلکہ ایک نبی کا مقام عطا کیا۔ خدا نے اُسے عہد عتیق کے انبیا میں آخری نبی اور عہد جدید کے مبشروں میں پہلا مبشر بننے کا شرف بخشا۔ خدا نے یوحنا کو یسوع کے زمینی رشتہ داروں میں سے چنا کہ خاندانی تعلقات کی تقدیس ہو۔ چونکہ خاندان معاشرہ کی بنیادی اکائی اور مضبوط ایمان کی بُنیاد ہے، لہٰذا ہر خاندان کا سربراہ ہی اُس خاندان میں کاہن اور دینی راہنما کے طور پر ہے۔ عبادت گاہوں اور سکولوں میں مذہب کا قبول کیا جانا خاندان میں سکھائی اور عمل میں لائی جانے والی دینی تعلیم سے وابستہ ہے۔

بیابان میں گونجنے والی یوحنا کی آواز اُس ملک کے ہر حصہ میں سُنائی دی۔ اُس کی نیک شہرت نے اُسے بادشاہ ہیرودیس انتپاس اور سب کی نظروں میں معزز بنا دیا۔ تیس سال کی عمر میں جب مسیح کی خدمت کی تیاری کا وقت پورا ہو گیا تو ایک دن مسیح دریائے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس آیا۔ مسیح کی ذات کا جوہراَب تک پنہاں تھا، مگر اَب زمین سے بیج کے پھوٹ کر نکلنے کی مانند صداقت کے ظہور کا وقت تھا۔

مسیح کا یوحنا کو بپتسمہ دینے کےلئے کہنا

"اُس وقت یسوع، گلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس اُس سے بپتسمہ لینے آیا۔ مگر یوحنا اُسے یہ کہہ کر منع کرنے لگا کہ میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تُو میرے پاس آیا ہے؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، اَب تُو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔ اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اُوپر گیا اور دیکھو! اُس کےلئے آسمان کھل گیا اور اُس نے خدا کے رُوح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اُوپر آتے دیکھا۔ اور دیکھو! آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔" (انجیل بمطابق متی 3: 13-17)

مسیح کی عملی خدمت کے ظہور کا وقت آ پہنچا تھا۔ مسیح بنی نوع انسان کی مخلصی و نجات کے کام کو شروع کرنے کو تھا۔ وہ ہجوم کے غریب لوگوں کے ساتھ شامل ہو گیا اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کے پاس آیا اور اُس سے بپتسمہ لینے کی درخواست کی۔

یسوع نے لوگوں کو اپنے گناہوں کا اقرار کرتے اور گناہوں کی معافی کے نشان کے طور پر یوحنا سے بپتسمہ لیتے دیکھا۔ اُس نے سُنا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا لوگوں کو اچھی نصحیت کر رہا تھا۔ اور دیکھا کہ لوگ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی عزت کرتے تھے۔ یسوع مسیح نے عام لوگوں کی طرح گناہوں کے اقرار و توبہ کی شرط کے بغیر یوحنا سے بپتسمہ لینے کی درخواست کی۔ یوحنا پر مسیح کی قدّوس کاملیّت آشکار تھی، اِس لئے وہ مسیح کو بپتسمہ دینے سے ہچکچایا۔ وہ کوشش کرنے لگا کہ مسیح اِس ارادہ کو ترک کرے، اِس لئے اُ س نے کہا "میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تُو میرے پاس آیا ہے؟" (انجیل بمطابق متی 3: 14)۔

یوحنا حسب و نسب کے اعتبار سے معزز شخص تھا۔ وہ ارضِ مُقدّس میں یہودیہ کے بڑے علاقہ کے ممتاز کاہنوں کے فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اِس رتبہ کے باوجود یوحنا کا مسیح کے ساتھ حلیمی سے مخاطب ہونا باعث تعجب نہیں۔ اُسے علم تھا کہ وہ اُسی مسیح سے گفتگو کر رہا تھا جس کی آمد کے بارے میں اُس نے خبر دی تھی۔ ا گرچہ یوحنا یہودی راہنماﺅں کے ساتھ سختی سے پیش آیا، مگر یسوع کے سامنے اُس نے فروتنی اختیار کی۔ ایک موقع پر یوحنا نے اُن راہنماﺅں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اَے سانپ کے بچو! تمہیں کِس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو" (انجیل بمطابق متی 3: 7)۔ مگر کیونکر یوحنا ایک معمولی بڑھئی کے رُوبرو اپنے آپ کو فروتن کرتے ہوئے کہہ سکا کہ وہ تو خود اُس سے بپتسمہ پانے کا محتاج تھا؟

اپنی پارسائی، جوش و جذبہ اور کامیاب خدمت کے باوجود یوحنا بپتسمہ دینے والے کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ گنہگار تھا۔ اُسے اِس ضرورت کا احساس تھا کہ کوئی اُسے توبہ کا بپتسمہ دے۔ ایسی حلیمی اُس کی عظمت کی دلیل ہے کیونکہ گناہ کا گہرا احساس بڑی خدا ترسی کا ثبوت ہوتا ہے۔ یسوع نے اُستاد ہوتے ہوئے یوحنا کو شاگرد کی حیثیت سے نہایت حکمت اور خلوص سے جواب دیتے ہوئے یوں کہا کہ "اَب تُو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے" (انجیل بمطابق متی 3: 15)۔

مسیح کے ایک جوان شخص کے طور پر یہ پہلا درج شدہ بیان ہے اور مناسب ہے کہ ہم یہاں توقف کر کے اِس بیان پر غور و خوض کریں۔ مسیح کے اِن الفاظ سے کہ "یہ مناسب ہے" ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسیح اِس لئے بپتسمہ نہیں لینا چاہتا تھا کہ اُسے اِس کی ضرورت تھی بلکہ اِس لئے لینا چاہتا تھا کہ ایسا کرنا درست قدم تھا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی مانند اُس نے یہ نہیں کہا کہ اُسے اُس سے بپتسمہ لینے کی ضرورت تھی، بلکہ اُس نے یوحنا کی خدمت کو تقویت دینے اور لوگوں پر اُس کے اثر کو بڑھانے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئے اپنے آپ کو اِس رسم کے تابع کیا تا کہ لوگ یوحنا کی منادی کو سُنیں اور اُس سے بپتسمہ لینے آئیں۔ یوں مسیح یوحنا کی مدد کر رہا تھا کہ وہ اُس کی راہ کی تیاری کے کام کو پورا کرے۔

یوحنا کا بپتسمہ دو طرح سے معنٰی خیز تھا: یہ گناہوں سے پاکیزگی کی علامت تھا، اور یسوع کے وسیلہ قائم کی جانے والی نئی آسمانی بادشاہی میں خدمت کی طرف اشارہ تھا کہ جو لوگ بپتسمہ لیں گے وہ نئی رُوحانی زندگی کا مزہ چکھیں گے۔

اگر پہلے معنٰی کو دیکھا جائے تو مسیح نے اپنے گناہوں کےلئے بپتسمہ نہ لیا، بلکہ عوضی اور علامتی طور پر لیا، کیونکہ جب اُس نے ہمارا گناہ کا بدن اپنے اوپر لے لیا تو اُس نے ہر گناہگار کی جگہ لے لی۔ لیکن اِس کے باوجود وہ بغیر گناہ کے تھا۔ یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق جب کوئی پاک چیز کسی ناپاک چیز سے چھو جاتی تھی تو اُسے بھی ناپاک تصور کیا جاتا تھا، اِسی طرح جب مسیح نے انسانی جسم کو اختیار کیا تو اُسے بھی گناہ گاروں کی صف میں شمار کیا گیا، اِسی لئے بائبل مُقدّس میں لکھا ہے: "وہ خطا کاروں کے ساتھ شمار کیا گیا" (یسعیاہ 53: 12)۔ یوں ہماری نمائندگی کرتے ہوئے مسیح ہمارے لئے توبہ کے بپتسمہ میں شامل ہوا۔ اِس سلسلہ میں پولس رسُول لکھتا ہے: "جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں" (نیا عہدنامہ، 2-کرنتھیوں 5: 21)۔

اِسی طرح اگر دوسرے معنٰی خدمت کےلئے مخصوصیت کو لیا جائے تو یہ بپتسمہ مسیح کےلئے موزوں تھا کیونکہ اب وہ اعلانیہ طور پر انسانیت کی اِس خدمت میں نجات دہندہ اور نئی بادشاہت کا سلطان ہوتے ہوئے اُس کو قائم کرنے اور حکمرانی کرنے کےلئے داخل ہو رہا تھا۔ مسیح کے وسیلہ انسان کی نجات کے کام کی تکمیل کے باعث اَب انسانیت بھی اِس نئی زندگی میں داخل ہو سکی ہے۔ مسیح کی سوانح ِحیات کے اِس نئے دَور کی اہمیت یہ تھی کہ اُس کے پاس لوگوں کو نئی زندگی دینے کا اختیار تھا۔ پس اِس بپتسمہ میں باضابطہ طور پر مسیح بادشاہ، کاہن اور نبی کے طور پر مسح کیا گیا۔

اگرچہ یوحنا سے دریائے یردن میں پانی کا بپتسمہ لینے کے بعد اپنی زمینی زندگی میں اُس وقت کی اہمیت اور انسانیت کے مستقبل سے خوب باخبر ہوتے ہوئے مسیح پانی سے اُوپر آیا، مگر مسیح کے خیالات ایک اَور بپتسمہ پر بھی مرکوز تھے۔ ابنِ آدم ہوتے ہوئے، یسوع کو بھی پاک رُوح کے بپتسمہ سے مسح ہونا تھا، تا کہ تمام مسیحیوں کےلئے رُوح القدس کے اِس بپتسمہ کی بنیاد قائم ہو۔ دُعا کی حالت میں اپنے آسمانی باپ کے ساتھ کامل طور پر ایک ہوتے ہوئے مسیح پانی سے اُوپر آیا۔ وقوع پذیر ہونے والے اِن واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسیح نے اپنے اُوپر رُوح القدس کے نزول کےلئے دُعا کی ہو گی، اور حقیقت میں یوں ہی ہوا کہ مسیح کی دُعا سے واقعی آسمان کھل گیا۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کو پہچاننے کےلئے یوحنا کو ایک نشان دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یوحنا نے اِس بارے میں بتایا کہ "میں تو اُسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کو بھیجا اُسی نے مجھ سے کہا کہ جس پر تُو رُوح کو اُترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی رُوح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا اور گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 33-34)۔ یہ وعدہ رُوح القدس کے کبوتر کی مانند اُترنے کی ایک واضح دلیل تھا۔ جیسے ہی یوحنا بپتسمہ دینے والے نے رُوح القدس کو کبوتر کی مانند مسیح پر اترتے دیکھا تو وہ بغیر کسی شک و شُبہ کے سمجھ گیا کہ جو شخص اُس کے سامنے کھڑا تھا یہ وہی تھا جو اُس کے بعد آنے والا تھا، وہی جو اُس سے پیشتر تھا اور جس نے رُوح القدس سے بپتسمہ دینا تھا۔

رُوح القدس کے کبوتر کی مانند ظہور کے ساتھ ہی آسمان سے ایک آواز یہ کہتی سنائی دی کہ "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں" (انجیل بمطابق متی 3: 17)۔ یہ اُن تین مختلف مواقعوں میں سے پہلا موقع تھا جب آسمان پر سے باپ کی آواز اپنے بیٹے کی گواہی دیتے ہوئے سُنائی دی۔ نجات دہندہ مسیحا کی مخصوصیت کے اِس موقع پر اِس آواز کے ساتھ تثلیث کے تینوں اقانیم واضح طور پر متحرک و موجود تھے۔ اور اِسی سبب سے یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ جو اُس پر ایمان لائیں گے اُنہیں اُنہوں نے باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دینا ہے (انجیل بمطابق متی 28: 19)۔

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب "سیرت المسیح، حصّہ 1، مسیح کی ولادت اور ابتدائی سال" کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. کیوں موسیٰ کی شریعت بنی نوعِ انساں کی اصلاح کرنے کے قابل نہ تھی؟

  2. دو اسباب بیان کیجئے جو ظاہر کرتے ہوں کہ ہمیں مسیح کی ضرورت ہے۔

  3. پیلاطس کی گواہی لکھئے جو یسوع کے بےگناہ ہونے کو بیان کرتی ہے۔

  4. مرقس کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان کے تعارف میں یسوع کو کن تین القاب سے نوازا گیا ہے اور اِن کے معنٰی کیا ہیں؟

  5. لوقا کا پیشہ کیا تھا اور اُس نے کس کو مخاطب کر کے انجیل لکھی تھی؟

  6. کیوں لفظ "کلمہ" (لوگاس) یسوع کےلئے موزوں ہے؟

  7. زکریاہ کیوں گونگا ہو گیا تھا؟

  8. کیوں خدا ہر دُعا کا جواب نہیں دیتا؟

  9. مسیح کے تجسّم کے ساتھ پہلا ہونے والا معجزہ کون سا تھا؟

  10. کنواری مریم کیسے حاملہ ہوئی؟

  11. جب یُوسُف کو علم ہوا کہ مریم حاملہ ہے تو اُس نے کیا فیصلہ کرنا چاہا؟

  12. کیسے خدا نے تمام صورتحال کو یُوسُف پر واضح کیا؟

  13. جب مریم الیشبع سے ملاقات کےلئے آئی تو الیشبع کے پیٹ میں موجود بچے نے کیا کیا؟ اور اِس کا کیا مطلب تھا؟

  14. اُس گیت کا نفسِ مضمون کیا تھا جو مریم نے الیشبع کے گھر میں گایا؟

  15. یسوع کی ولادت سے پہلے مریم اور یُوسُف نے ناصرة سے بیت لحم کا سفر کیوں کیا؟ اور اِس سے کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟

  16. فرشتے سب سے پہلے چرواہوں پر کیوں ظاہر ہوئے؟

  17. شمعون نے ہیکل میں مریم سے متعلقہ کیا نبوت کی تھی؟

  18. یسوع کی ولادت کے بارے میں پیشین گوئی لکھئے اور اُس کا حوالہ بھی دیں۔

  19. مجوسیوں کے آنے کا ہیرودیس بادشاہ، بیت لحم کے لوگوں، یُوسُف اور مریم پر کیا اثر ہوا؟

  20. یسوع کی زندگی کے بارہ سے تیس برس کی عمر کے درمیانی عرصے کے بارے میں بائبل مُقدّس کی خاموشی کا کیا امکانی سبب ہے؟

  21. یروشلیم کی ہیکل میں قربانیاں دیکھ کر یسوع نے کیا سوچا ہو گا؟

  22. آپ یسوع کے اِس بیان سے کہ "مجھے اپنے باپ کے گھر میں ہونا ضرور ہے" کیا سمجھتے ہیں؟

  23. یوحنا اصطباغی کے بارے میں جو کچھ یسوع نے کہا، اُس میں سے کوئی ایک بات بیان کریں۔

  24. مسیح کے یوحنا اصطباغی سے کہے گئے الفاظ سے کہ "ہمیں ساری راستبازی اِسی طرح پوری کرنی ہے" آپ کیا سیکھتے ہیں؟

  25. یسوع کے بپتسمہ کے وقت ہم پاک تثلیث کو کیسے دیکھتے ہیں؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany