اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
رُوح القدس کا پھل

رُوح القدس کا پھل

منیس عبد النور

2019


1- تعارف

مسیحیت ایسی زندگی کا نام ہے جو ہم مسیح میں بسر کرتے ہیں۔ ایک مسیحی یہ کہتا ہے کہ "زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 1: 21)۔ مسیحی شعار یہ ہے کہ "اَب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مُجھ میں زندہ ہے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 2: 20)۔ مسیح زندہ ہے اور ہر اُس فرد میں زندہ رہتا ہے جو اُس پر ایمان لاتا ہے اور اُس میں ویسے ہی قائم رہتا ہے جیسے ایک ڈالی انگور کے درخت میں قائم رہتی ہے اور بہت سا پھل لاتی ہے۔ مسیح نے فرمایا "میں انگور کا درخت ہوں، تم ڈالیاں ہو۔ جو مُجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مُجھ سے جُدا ہو کر تم کُچھ بھی نہیں کر سکتے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 15: 5)۔

مسیحیت کو پہلے پہل "طریق" کہا جاتا تھا (نیا عہدنامہ، اعمال 9: 2)، کیونکہ یہ زندگی گزارنے کا ایسا اسلوب تھا اور اَب بھی ہے جس میں مسیح زندگی کا مرکز ہوتا ہے۔ یہ محض عقائد، قوانین اور ضابطہ عمل کے مجموعہ پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ یہ محبت کی شریعت کے تحت بسر کی جانے والی زندگی کا نام ہے۔ جناب مسیح نے اپنی تمام شریعت کا خلاصہ اپنے اِن الفاظ میں بیان کیا: "اوّل یہ ہے، اے اسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ دوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 29-31)۔

اگر ہم اِس سوال کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ کیسے ہم تمام شریعت کو پورا کریں، تو مسیح کے الفاظ مبارکہ ہمیں جواب فراہم کرتے ہیں: "میں اِس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 10: 10)۔ یہ کثرت کی زندگی ہی وہی مقصد تھا جس کےلئے جناب مسیح مُقدّسہ کنواری مریم سے پیدا ہو کر اِس دُنیا میں تشریف لائے۔ جو کوئی بھی اپنا دِل مسیح کےلئے کھولتا ہے، مسیح اُسے کثرت کی زندگی عطا کرتے ہیں تا کہ مسیح اُس میں زندہ ہو، اور ایسا فرد رُوح القدس میں زندگی بسر کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سا قائم رہنے والا پھل سامنے آتا ہے۔

یہ کتاب ہمیں دِکھاتی ہے کہ کیسے جناب مسیح لوگوں کے دِلوں میں روح القدس کے کام کے ذریعے اُن کی زندگی تبدیل کرتے ہیں، پھِر کیسے ایک فرد کی زندگی کو اپنے تصرُّف و اختیار میں لے کر اُس کی زندگی پر راج کرتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسیح ایک فرد کی زندگی میں اُسے پھل پیدا کرنے کے قابل بناتے ہیں جس میں خُدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے اعتبار سے اُ سے محبت، خوشی اور اطمینان ملتا ہے، جبکہ دیگر انسانوں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اُس میں تحمل، مہربانی اور نیکی آ جاتی ہے، اور پھِر اُس فرد کی اپنی شخصی زندگی میں ایمانداری، حلم اور پرہیزگاری آ جاتی ہے۔

مصنف کی دُعا ہے کہ قاری اپنی شخصی زندگی میں رُوح القدس کے پھل کا بکثرت تجربہ کرے۔ آمین

2- حصہ اوّل: مسیحی زندگی ایک نئی زندگی ہے

الف۔ بے ایمانوں کی حالت

"اِس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ اور خُداوند میں جتائے دیتا ہوں کہ جس طرح غیر قومیں اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں، تم آیندہ کو اُس طرح نہ چلنا۔ کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اُس نادانی کے سبب سے جو اُن میں ہے اور اپنے دِلوں کی سختی کے باعث خُدا کی زندگی سے خارج ہیں۔ اُنہوں نے سُن ہو کر شہوت پرستی کو اختیار کیا تا کہ ہر طرح کے گندے کام حِرص سے کریں" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 17-19)۔

مسیحی ہونے والے بہت سے لوگ غیر قوم کا جاہلانہ پس منظر رکھنے والے افراد تھے، اور اپنے ساتھ غیر اقوام کے خواص اور جاہل عادات لے کر آئے۔ پولس رسول نے اُن سے التجا کی کہ وہ اَب باقی غیر اقوام کی طرح زندگی بسر نہ کریں جیسے وہ پہلے زندگی گزارا کرتے تھے۔ اُس نے اُن سے کہا: "میں ... خُداوند میں جتائے دیتا ہوں کہ جس طرح غیر قومیں اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں، تم آیندہ کو اُس طرح نہ چلنا" (آیت 17)۔

پولس رسول خُداوند کی مرضی سے واقف تھا کیونکہ خُداوند نے اپنی مرضی اُس پر ظاہر کی تھی، اِس لئے اُس نے خُداوند میں رہتے ہوئے اُس کی گواہی دی جس نے اُسے اپنا گواہ ہونے کےلئے کہا تھا۔ اُس نے خُداوند کے نام میں اور مسیح کے اختیار کے ساتھ کلام کیا تا کہ قارئین اور سامعین دونوں حکم کی اچھی طرح سے فرمانبرداری کر سکیں: "غرض اے بھائیو! ہم تم سے درخواست کرتے ہیں اور خُداوند یسوع میں تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ جس طرح تم نے ہم سے مناسب چال چلنے اورخُدا کو خوش کرنے کی تعلیم پائی اور جس طرح تم چلتے بھی ہو اُسی طرح اَور ترقی کرتے جاﺅ" (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 4: 1)۔

رسول نے اُن سے کہا کہ جس طرح غیر قومیں اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں، ویسے وہ نہ چلیں (آیت 17)۔ اِفسُس کے رہنے والے جہالت اور خطا کے مرتکب ہو رہے تھے، اِس لئے خُدا تعالیٰ نے پولس رسول کو مقرر کیا کہ وہ اُن تک نجات اور نور کا پیغام لے کر جائے۔ خُداوند یسوع نے اُسے واضح طور پر بتایا کہ "تُو اُن کی آنکھیں کھول دے تا کہ اندھیرے سے روشنی کی طرف اور شیطان کے اختیار سے خُدا کی طرف رجوع لائیں اور مجھ پر ایمان لانے کے باعث گناہوں کی معافی اور مُقدّسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں" (نیا عہدنامہ، اعمال 26: 18)۔ ایک مرتبہ جب اُن کی آنکھیں کھل گئیں تو اُنہیں اپنے آپ کو پرانے بگاڑ سے الگ کرنا تھا اور کسی بھی ناپاک چیز کو نہیں چھونا تھا (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 6: 17)۔ اُن کا نیا کردار ایک نیا طرزِ زندگی تھا جو اُس پرانی زندگی کے چال چلن سے مکمل طور پر مختلف تھا جس کے مطابق وہ چلا کرتے تھے۔ یہ نیا طرزِ زندگی ظاہری اور مخفی دونوں طرح کے اعمال کے حوالے سے نیا تھا۔ یہ اُن کےلئے مکمل طور پر نئی زندگی تھی۔

پولس رسول نے غیر اقوام کے بارے میں حقارت سے بات نہیں کی جیسے فریسی اور محصول لینے والے کی تمثیل میں فریسی نے محصول لینے والے کو نفرت سے پکارا (دیکھئے اِنجیل بمطابق لوقا 18: 9-14)۔ بیہودہ، غیر اقوام کے خیالات ابلیس کا کام ہیں، جبکہ پاکیزہ طرزِعمل دِل میں رُوح القدس کا کام ہے۔ ایمانداروں کے دِلوں میں تبدیلی اُن کی اپنی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ مسیح کی نجات کی مفت بخشش کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں رومی مصنف پلینی نے شہنشاہ تراجان کے نام ایک مکتوب میں لکھا "مسیحی فسادِ کثیر میں پاکیزگی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔" اپنے ماضی کی زندگی کے برعکس اَب جو کچھ وہ بن گئے تھے اُس میں بہت ہی بڑا فرق تھا۔ مسیح کے نئے بنانے والے فضل کےلئے شکر ہو۔

(1) بے ایمانوں کے بیہودہ خیالات

غیراقوام "اپنے بیہودہ خیالات" کے مطابق چلتی تھیں۔ یہاں "خیالات" سے رسول کی مراد دِل، عقل اور ضمیر ہے۔ یہ تینوں خُدا تعالیٰ کے بارے میں معرفت رکھتے ہیں، اور صحیح حکمت کی جانب لے کر جاتے ہیں۔ غیر اقوم کے "خیالات" بیہودہ تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بےمقصد خیالات تھے جو کسی بھی سچائی، عدل، شائستگی اور پاکیزگی سے خالی تھے۔ اُن کے خیالات اِس لئے بیہودہ تھے کہ اُنہوں نے خُدا تعالیٰ کی عطاکردہ عقلی قوت کو اچھے کام کرنے میں نہیں بلکہ برے کام کرنے میں استعمال کیا تھا۔ اُنہیں یسعیاہ نبی کے الفاظ پر دھیان دینا چاہئے تھا: "تم کِس لئے اپنا روپیہ اُس چیز کےلئے جو روٹی نہیں اور اپنی محنت اُس چیز کے واسطے جو آسودہ نہیں کرتی خرچ کرتے ہو؟" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 2)۔

اُن کے بیہودہ خیالات کچھ یوں ظاہر ہوئے کہ "اگرچہ اُنہوں نے خُدا کو جان تو لیا مگر اُس کی خُدائی کے لائق اُس کی تمجید اور شکرگزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور اُن کے بےسمجھ دِلوں پر اندھیرا چھا گیا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 1: 21)۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ "جس طرح اُنہوں نے خُدا کو پہچاننا ناپسند کیا اُسی طرح خُدا نے بھی اُن کو ناپسندیدہ عقل کے حوالہ کر دیا کہ نالائق حرکتیں کریں" (رومیوں 1: 28)۔ جو ایماندار باطل چیزوں سے کنارہ کر کے زندہ خُدا کی طرف پھرتے ہیں جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا، وہ ایسے کام نہیں کر سکتے (اعمال 14: 15)۔ جیسے غیر اقوام اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتی ہیں وہ کیسے اُس طرح چل سکتے ہیں؟ وہ اپنی عقل نئی ہو جانے سے تبدیل ہو جاتے ہیں۔

(2) غیر اقوام کی سات خصوصیات

آیات 18-19 میں رسول نے غیر اقوام کی سات خصوصیات کا بیان کیا ہے جو سب بطالت اور فساد ہیں۔ رسول نے لکھا: "کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اُس نادانی کے سبب سے جو اُن میں ہے اور اپنے دِلوں کی سختی کے باعث خُدا کی زندگی سے خارج ہیں۔ اُنہوں نے سُن ہو کر شہوت پرستی کو اختیار کیا تا کہ ہر طرح کے گندے کام حِرص سے کریں۔" آئیے اِن سات خصوصیات کا مطالعہ کریں۔

(الف) اُن کی عقل کی تاریک ہونا

غیر اقوام کی عقل گناہ کی وجہ سے تاریک تھی کیونکہ ایک فرد کا گناہ میں زندگی گزارنے کا نتیجہ عقل کی تاریکی اور جسم کی ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے۔ وہ فلسفہ کا علم رکھتے تھے جو کہ حکمت سے محبت ہے، لیکن اِس حکمت نے اُن کے دِلوں پر کوئی اثر نہ کیا اور اِس علم کے باوجود اُن کے دِلوں میں تاریکی کا اثر جاری رہا۔ رومی حاکم پیلاطس نے یسوع سے سوال کیا "حق کیا ہے؟" (اِنجیل بمطابق یوحنا 18: 38)۔ لیکن پھِر اُس نے جواب سُننے کا انتظار نہ کیا کیونکہ اُس کی عقل غیر اقوام کے بیہودہ خیالات کی وجہ سے تاریک ہو چکی تھی اور وہ سچائی کو قبول کرنے کےلئے تیار نہ تھا۔

غیر اقوام حکیم ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ جاہل اور احمق تھے۔ وہ علم کے جس نور کا اپنی زندگی میں ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، اصل میں وہ تاریکی تھی۔ غیر اقوام میں اتھینے کے لوگ بھی شامل تھے جو "اپنی فرصت کا وقت نئی نئی باتیں کہنے سُننے کے سوا اَور کسی کام میں صرف نہ کرتے تھے" (نیا عہدنامہ، اعمال 17: 21)۔

پولس رسول اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کیوں اُن کی عقل تاریک تھی کہتا ہے "مگر نفسانی آدمی خُدا کے رُوح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ رُوحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 14)۔ ایک نفسانی آدمی جو رُوح القدس کی بدولت تبدیل نہیں ہُوا ہوتا، رُوحانی باتیں قبول نہیں کرتا۔ وہ رُوح القدس کی بدولت بائبل مُقدّس میں منکشف سچائیوں کی قدر و قیمت نہیں جانتا۔ وہ اُن سچائیوں پر ایمان بھی نہیں رکھتا، بلکہ اُنہیں بےکار حماقت سمجھتا ہے۔ ایک نفسانی شخص رُوحانی باتوں کو پہچان نہیں سکتا اور نہ ہی اُن کی قدر کر سکتا ہے، کیونکہ جو تاریکی سے محبت رکھتے ہیں وہ نور کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ خُدا تعالیٰ کے رُوحانی مکاشفوں کو صرف رُوحانی شخص ہی سمجھ سکتا ہے جو رُوح القدس سے منور ہوتا ہے، اور جس کا دِل خُدا تعالیٰ نیا بنا دیتا ہے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کے واسطے خوشخبری پر پردہ پڑا ہے (2- کرنتھیوں 4: 3)۔

یہ درست ہے کہ غیر اقوام کی سمجھ فلسفہ اور سائنس سے ضرور روشن ہوئی تھی۔ لیکن اُن کی رُوحانی عقل گناہ اور شر کی وجہ سے تاریک ہو چکی تھی۔ ایک شخص کےلئے کیا فائدہ کہ وہ تمام دُنیا کو حاصل کرے لیکن مسیح کی معرفت سے محروم ہو کر اپنی جان کا نقصان اُٹھائے؟

(ب) اُن کا خُدا تعالیٰ کی زندگی سے خارج شدہ ہونا

غیر اقوام نے جانتے بوجھتے اپنے آپ کو اُس پاک اور بامعنٰی زندگی سے دُور رکھا تھا جو خُدا تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ سچ مچ وہ "اسرائیل کی سلطنت سے خارج" تھے کیونکہ خُدا نے اُنہیں یہودی قوم کا جنہیں اُس کی شریعت ملی تھی حصہ نہیں بنایا تھا، اور اِس میں اُن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ تاہم، جس خطا کے وہ مرتکب تھے یہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو جانتے بوجھتے اُس دینداری کی زندگی سے جو خُدا کو خوش کرتی ہے اَور دُور کر دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے دِل خُدا تعالیٰ کےلئے نہیں کھولے تھے اور اپنے آپ کو اُس کی معرفت سے دُور رکھا تھا۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو اُس کی رفاقت سے محروم کر دیا، اور یوں وہ خُدا تعالیٰ کی زندگی سے دُور ہو گئے۔

خُدا تعالیٰ نے جناب آدم میں زندگی کا دم پھونکا، اور گناہگاروں نے اپنے آپ کو اُس سے علیحدہ کر دیا۔ لیکن رُوحانی زندگی کے بغیر جسمانی، حیاتیاتی زندگی بےمعنٰی ہے۔ پولس رسول اُن کی آنکھیں کھولنے کےلئے مقرر ہُوا تھا، تا کہ وہ اندھیرے سے روشنی کی طرف اور شیطان کے اختیار سے خُدا کی قدرت کی طرف آئیں، اور گناہوں کی معافی اور مُقدّسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں (نیا عہدنامہ، اعمال 26: 18)۔

(ج) اُن میں موجود جہالت

"جہالت" سے رسول کی مراد رُوحانی جہالت ہے جس کے بارے میں مسیح نے فرمایا "کیا تم اِس سبب سے گمراہ نہیں ہو کہ نہ کتابِ مُقدّس کو جانتے ہو نہ خُدا کی قدرت کو؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 24)۔ اِنجیل بمطابق یوحنا 5: 39، 40 میں یسوع نے ایک بار پھِر اِس بات کی نشاندہی کی جب یہ کہا "تم کتابِ مُقدّس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔ پھِر بھی تم زندگی پانے کےلئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے۔" وہ لوگ صحائف کو عقل کے درجے پر تو جانتے تھے لیکن اُنہوں نے اُنہیں اپنے دِل میں نہ سمجھا۔ اُن کی جہالت رُوحانی نوعیت کی تھی جس کا منبع انسان کا بُرا قُرب و جوار یا پھِر اُس کا شریر دِل ہے۔

پطرس رسول نے اُن گناہگاروں کو جنہوں نے مسیح کو رد اور مصلوب کیا کہا "میں جانتا ہوں کہ تم نے یہ کام نادانی سے کیا" (نیا عہدنامہ، اعمال 3: 17)۔ اور پھِر پولس رسول نے کہا: "خُدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اَب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں" (اعمال 17: 30)۔ خُدا تعالیٰ نے نسلِ انسانی پر اپنی قدرت اپنی خلقت اور کاموں کے ذریعے سے ظاہر کی، لیکن اُن کے حماقت سے بھرے دِل اِس حد تک تاریک تھے کہ وہ اُس کی قدرت کو دیکھ نہ سکے۔

(د) اُن کے دِل کی سختی

ایک سخت دِل، چٹان کی طرح کا دِل ہے۔ یہاں پر یونانی زبان کا استعمال ہونے والا لفظ ایک ایسی چٹان کی بات کرتا ہے جو سنگِ مرمر سے زیادہ سخت ہو۔ یہ پاﺅں میں پڑنے والی چنڈیوں کےلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور جسم میں نامیاتی مادے کے سخت ہو کر جمع ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے جو جوڑوں اور جسم کے باقی حصوں کو متاثر کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ مُردہ یا بےحس ہو جاتے ہیں لیکن تکلیف اور تھکان کا باعث بنتے ہیں۔

سو، بائبل مُقدّس کے اِن الفاظ کا مطلب یقیناً یہ ہے کہ اُن لوگوں کے دِل چٹان کی طرح سخت، چنڈیوں کی طرح مُردہ اور تکلیف دہ اور جمع ہونے والے نامیاتی مادے کی طرح سخت تھے جو اُن کے نیکی اور سچائی کی راہ میں بڑھنے میں رکاوٹ تھے۔

دِل کا سخت ہونا اِس جہان کے خُدا شیطان کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے جس نے ایمان نہ لانے والوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے، تا کہ مسیح جو خُدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے (دیکھئے نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 4: 4)۔

دِل کی سختی ایک فرد کی اپنی ذات کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ فرعون نے اپنا دِل سخت کیا، سو خُدا تعالیٰ نے اُسے اُس کی سخت دِلی کی حالت میں چھوڑ دیا (پرانا عہدنامہ، خروج 8: 15، 32)۔

دِل کی سختی ایک فرد کےلئے سزا بھی ہو سکتی ہے جو خُدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر مُصر رہتا ہے۔ اِنجیل نویس کہتا ہے: "اور اگرچہ اُس نے اُن کے سامنے اتنے معجزے دکھائے تو بھی وہ اُس پر ایمان نہ لائے۔ تا کہ یسعیاہ نبی کا کلام پورا ہو جو اُس نے کہا کہ اے خُداوند ہمارے پیغام کا کس نے یقین کیا ہے؟ اور خُداوند کا ہاتھ کس پر ظاہر ہُوا ہے؟ اِس سبب سے وہ ایمان نہ لا سکے کہ یسعیاہ نے پھِر کہا۔ اُس نے اُن کی آنکھوں کو اندھا اور اُن کے دِل کو سخت کر دیا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آنکھوں سے دیکھیں اور دِل سے سمجھیں اور رجوع کریں اور میں اُنہیں شفا بخشوں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 12: 37-40)۔

(ہ) اُن کا سُن ہونا

اُن کا سخت دِل کی گئی بدی پر ندامت محسوس نہیں کرتا، نہ ہی اُن کا ضمیر اُنہیں مزید جگاتا ہے۔ وہ گناہ سے شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور شخصی اِصلاح کی ہر کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

وہ بتدریج گناہ میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر انسان شروع میں گناہ کرنے سے ڈرتا ہے، اور اگر گناہ کر بیٹھے تو اُس پر ندامت محسوس کرتا ہے۔ لیکن کئی مرتبہ گناہ کرنے کے بعد وہ اُس کے مکروہ پن کا عادی ہو جاتا ہے اور اُس کا ضمیر مر جاتا ہے۔ تب وہ اُس شرابی کی مانند ہوتا ہے جو پوشیدگی میں شراب پیتا ہو اور جب وہ شراب سے متوالا ہو جائے تو اُسے اِس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اگر لوگ اُسے گلیوں میں لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔

(و) اُن کا شہوت پرستی اختیار کرنا

شہوت پرستی کا مطلب ہے: توازن کی زندگی ترک کر دینا، شریعت کے خلاف بغاوت کرنا، کسی بھی طرح کی اخلاقی حد میں نہ رہنا، خُدا تعالیٰ کے خوف یا انسان سے کسی بھی طرح کی شرم محسوس کئے بغیر بدچلنی کے گناہوں کا ارتکاب کرنا۔ جس نے اپنا آپ شہوت پرستی کے سپرد کر دیا ہو اُسے اِس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کرتا ہے کیا اُس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے، اُسے تو اُس کام میں صرف اپنا لُطف نظر آتا ہے۔ یہوداہ اسکریوتی ایسا ہی شخص تھا جو اپنا توازن کھو بیٹھا، اُس نے خُدا تعالیٰ کے فضل کے خلاف بغاوت کی، اپنا آپ دولت کی محبت کےلئے دے دیا اور اپنے خُداوند کو چاندی کے تیس سکوں کے عوض بیچ ڈالا۔

(ز) اُن کا ہر طرح کے گندے کام حرص سے کرنا

گندے کام کرنا نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بدولت ناپاک ہو گئے تھے۔ ناپاکی اُن کا اوڑھنا بچھونا، اُن کی زندگی کا شغل بن چکی تھی۔ وہ اُن سب ناپاک کاموں کو حرص سے کرتے تھے۔ پولس رسول نے رومیوں 1: 29 میں اُن آدمیوں کو یوں بیان کیا ہے "وہ ہر طرح کی ناراستی، بدی، لالچ اور بدخواہی سے بھر گئے اور حسد، خونریزی، جھگڑے، مکاری اور بُغض سے معمور ہو گئے اور غیبت کرنے والے" ہو گئے۔

حرص کرنے کا مطلب ہے اپنے حق سے زیادہ کی تمنا کرنا۔ حرص دوسروں کی اشیاء پر قبضہ جمانے کی سخت لالچ پر مبنی خواہش ہے، اور یہ اِس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ ایک فرد کو جو کچھ چاہئے ہوتا ہے اُسے حاصل کرنے کےلئے وہ اپنے ساتھی انسانوں کو روند دیتا ہے۔

غیر اقوام کی سی جہالت کا تین نکات میں خلاصہ بیان کیا جا سکتا ہے:

1- اُن کے دِل چٹان کی طرح سخت ہوتے ہیں، اِس لئے اُنہیں اپنی غلط کاریوں کا احساس نہیں ہوتا۔

2- وہ گناہ میں اِس حد تک غرق رہتے ہیں کہ اِس تعلق سے تمام حیا اور خجالت کھو بیٹھتے ہیں۔

3- وہ اپنی حرص کی خواہشات کے جوئے تلے اِس حد تک دبے ہوتے ہیں کہ اُنہیں اِس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں کیا اُس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے، اُنہیں تو صرف اپنی خواہشات پوری کرنے کا پتا ہوتا ہے۔

ب۔ ایمانداروں کی حالت

"مگر تم نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی۔ بلکہ تم نے اُس سچائی کے مطابق جو یسوع میں ہے اُسی کی سُنی اور اُس میں یہ تعلیم پائی ہو گی کہ تم اپنے اگلے چال چلن کی اُس پرانی انسانیت کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔ اور اپنی عقل کی رُوحانی حالت میں نئے بنتے جاﺅ۔ اور نئی انسانیت کو پہنو جو خُدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 20-24)

غیر اقوام کے مکمل بگاڑ اور جہالت کی حالت کے بارے میں بات کرنے کے بعد پولس رسول نے اُن کے اور ایمانداروں کے مابین فرق کی نشاندہی کی۔ اِس نئے موضوع کے تعارف کے طور پر اُس نے کہا "مگر تم نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی۔" لفظ "مگر" یہاں پر ایک فرق کو بیان کرنے کےلئے استعمال ہُوا ہے۔ غیر اقوام ناپاکی میں زندگی گزارتی ہیں، لیکن ایماندار حقیقی پاکیزگی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ غیر اقوام نے بدی سیکھی تھی لیکن ایمانداروں نے مسیح میں ایسی تعلیم نہیں پائی تھی۔ اُنہوں نے اُس کی نئی بےمثل تعلیمات سُنی تھیں، اور اُسے محبت کے معجزات کرتے دیکھا تھا جنہوں نے زندگی کے تمام پہلوﺅں میں لوگوں کو چھوا تھا۔ سب سے بڑھ کر اُنہوں نے تجربہ سے سیکھا اور اُس کی تبدیل کرنے والی قدرت کو جانا جس نے اُن کے بُرے رویہ کا خاتمہ کیا۔

پولس رسول یہ نہیں کہتا کہ اُنہوں نے مسیح کے بارے میں ایسی تعلیم نہیں پائی، بلکہ کہتا ہے کہ اُنہوں نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی۔ صرف مسیح کے بارے میں جاننا کافی نہیں ہے، ہمیں شخصی طور پر اُسے جاننے کی ضرورت ہے۔ اُس کی تعلیم کو جاننا اتنا اہم نہیں ہے جتنا شخصی طور پر اُسے ایک نجات دہندہ کے طور پر جاننا اہم ہے۔ جو کچھ پولس رسول نے کہا ہمیں اُس کا تجربہ کرنے کی ضرورت ہے: "اور میں اُس کو اور اُس کے جی اُٹھنے کی قدرت کو اور اُس کے ساتھ دُکھوں میں شریک ہونے کو معلوم کروں اور اُس کی موت سے مشابہت پیدا کروں" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 10)۔

(1) ایماندار سیکھتے ہیں:

"تم نے ... اُسی کی سُنی اور اُس میں یہ تعلیم پائی ہو گی" (آیت 21)۔

"ہو گی" کا مطلب یہ نہیں کہ اِس حقیقت پر شک کیا جائے کہ اُنہوں نے پیغام سُنا تھا، بلکہ اِس کا مقصد اُس پیغام کے سُنے جانے کی حقیقت پر زور دینا اور اُسے نمایاں کرنا ہے۔ اُنہوں نے مسیح کے پیغام کو اُس کے رسولوں کے وسیلہ سے سُنا جنہوں نے اُنہیں سکھایا۔ یوں اُنہوں نے مسیح کے پیغام کو سُن کر اُسے اپنے دِلوں میں جگہ دی اور اُس نے تمام سچائی میں اُن کی راہنمائی کی۔ غرض، اُنہوں نے سچائی کے بارے میں سُنا اور سیکھا تھا۔ اب سچائی سے مراد دینِ حقیقی ہے۔ چونکہ اب وہ مسیح سے واقف ہیں، اِس لئے اُنہیں گناہ کو چھوڑنا ہے کیونکہ خُدا تعالیٰ حق اور پاکیزگی ہے۔ اُنہوں نے مسیح میں سُنا اور سیکھا تھا، اور نئی مخلوق بن گئے تھے۔ اب مسیح کے الفاظ کا اُن پر اطلاق ہو سکتا ہے: "میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 10: 27)۔

(2) ایماندار پرانی انسانیت کو اُتار ڈالتے ہیں:

"تم اپنے اگلے چال چلن کی اُس پرانی انسانیت کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے" (آیت 22)۔

ایماندار چونکہ سچائی سے واقف ہوتے ہیں، اِس لئے اُنہیں اپنے اگلے چال چلن کی پرانی انسانیت کو اُتار ڈالنا چاہئے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک فرد اپنے پرانے، گندے پھٹے ہوئے کپڑے اُتار دیتا ہے ویسے ہی اُنہیں اُن تمام اصولوں سے دستبردار ہونا ہے جن کے مطابق چلا کرتے تھے۔ پرانی پوشاک پر پیوند لگانا اچھا نہیں ہے، لازم ہے کہ ہم اُسے اُتار ڈالیں اور نئی پوشاک پہن لیں (دیکھئے اِنجیل بمطابق لوقا 5: 36-38)۔

"پرانی انسانیت" بگڑی ہوئی فطرت ہے جو رُوح القدس کے کام کی بدولت نئی نہیں ہوئی ہوتی۔ رسول نے اِسے "پرانی" اِس لئے کہا ہے کیونکہ یہ ضرر رسیدہ اور پھٹی پرانی ہے جو ڈھانپ نہیں سکتی۔ اور وہ اِسے "انسانیت" کہتا ہے کیونکہ اُس کے سامنے بگڑی ہوئی ناقابل علاج انسانی فطرت ہے جسے مکمل طور پر تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم خود سے اصلاح لانے کی کوشش کریں تو ہم اصل میں پیوند لگانے کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن "مسیح میں" ہم پرانی فرسودہ انسانیت (پرانے آدم) کو اُتار ڈالتے ہیں جو کہ بگڑی ہوئی فطرت ہے، جسے پولس رسول نے یوں بیان کیا ہے: "مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 7: 23)۔ جس طرح سے یہ فطرت کام کرتی ہے اُس کے بارے میں رسول نے کہا: "کیونکہ جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور رُوح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں تا کہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ کرو" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 17)۔

ہم میں موجود یہ بگڑی ہوئی فطرت ہمارے زوال کا باعث بنتی ہے۔ یہ اَور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتی جاتی ہے اور انسانی رُوح کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں اِس پرانی انسانیت کو اُتار ڈالنا ہے۔ یہ "فریب کی شہوتوں" کے مطابق برتاﺅ کرتی ہے کیونکہ یہ بگڑی ہوئی ہے اور اِس کا رجحان شہوتوں کی جانب ہے۔ یہ دھوکا دیتی اور مار ڈالتی ہے، جیسا کہ بائبل مقدّس میں لکھا ہے: "گناہ نے ... مجھے بہکایا ... مار بھی ڈالا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 7: 11)۔

دُنیا میں ناجائز نفع کی شہوت ہے، باطل عظمت اور اختیار کی شہوت ہے، اور جسمانی لذتوں کی شہوت ہے۔ یہ سب باطل، فضول اور بیکار ہیں۔

جھوٹی شان اور غرور کی شہوت نے آدم اور حوا کی آزمایش کی، تب اُنہوں نے سوچا کہ اگر وہ منع کئے گئے درخت کا پھل کھائیں گے تو خوش و خرم ہوں گے (پرانا عہدنامہ، توریت شریف، پیدایش 3: 6)۔ اِسی رویہ نے احمق امیر آدمی کو دھوکا دیا جس نے سوچا کہ وہ اناج ذخیرہ کرنے کےلئے پرانی کوٹھیاں ڈھا کر اُن سے بڑی بنائے گا اور ایک لمبی عمر جیئے گا۔ تاہم اُسی رات موت نے اُسے آ دبوچا (اِنجیل بمطابق لوقا 12: 20)۔ اِس رویہ نے مسرف بیٹے کو بھی دھوکا دیا جس نے سوچا کہ وہ اپنے باپ سے بہت دُور کے ملک میں جا کر خوشی و خرمی کی زندگی گزار سکے گا (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 14)۔

ایک ایماندار کو پرانی انسانیت "تاریکی کے کاموں" سمیت اُتار ڈالنی ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 13: 12) جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔

(3) ایماندار نئے بنتے جاتے ہیں:

"اور اپنی عقل کی رُوحانی حالت میں نئے بنتے جاﺅ" (آیت 23)۔

صرف گناہ کو ترک کر دینا کافی نہیں; ہمیں پاکیزگی کو بھی اختیار کرنا ہے۔ ایسا کرنے کا واحد طریقہ اُس تجدید اور تبدیلی کے ذریعے سے ہے جو رُوح القد س ہمارے دِلوں میں پیدا کرتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی کوششوں، عزم اور ذاتی راستبازی کے کاموں پر بھروسا کرتے ہوئے دینداری کی زندگی گزارنے کےلئے اپنا ذہن بناتے ہیں۔ لیکن وہ اِس میں کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک فرد اپنی کوششوں سے اپنی کچھ غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرے، لیکن اِس کے ساتھ ہی وہ دیکھ سکتا ہے کہ وہ ایک اَور غلطی کر رہا ہوتا ہے۔ اِس لئے ہمیں رُوح القدس کے کام کے ذریعے تجدید کی ضرورت ہے۔ کیونکہ "اُس نے ہم کو نجات دی ... نئی پیدایش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے" (نیا عہدنامہ، ططس 3: 5)۔ اِس نیا بنائے جانے کے نتیجہ میں انسان خُدا کی صورت پر بحال ہوتا ہے۔ نئی بنائی گئی چیزوں میں ہمیشہ مضبوطی اور خوبصورتی ہوتی ہے۔ اِس لئے ہم کہتے ہیں: "کیونکہ ہم اُسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کےلئے تیار کیا تھا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 10)۔

یہ تجدید "عقل کی رُوحانی حالت میں" واقع ہوتی ہے۔ مُقدس یوحنا خروسستم نے کہا کہ اِس کا مطلب ہے "رُوح القد س کے کام کے ذریعے اپنی عقل اور افکار کی تبدیلی"۔ یہ تجدید جو ایک ایماندار کے دِل اور عقل میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے، اُس کے تناظر اور اُن اصولوں میں بھی تبدیلی لے کر آتی ہے جن کے مطابق اُس نے ماضی میں زندگی بسر کی ہوتی ہے۔ مزید برآں، یہ اُس کے ردعمل اور چیزوں کے تجزیہ میں بھی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ پولس رسول نے اِس بات کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا ہے: "اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاﺅ تا کہ خُدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 2)۔

یہ ظاہری عادات اور صورت میں تبدیلی کا نام نہیں ہے، بلکہ زندگی کے باطنی اصولوں میں تبدیلی کا نام ہے جو عقل نئی ہو جانے سے صورت بدلنا ہے۔ اِس تبدیلی کا اثر ظاہری کاموں میں نظر آتا ہے، جیسے جسمانی خواہشوں اور رغبتوں کو صلیب پر چڑھا دینا، اپنی رُوحانی زندگی کی مضبوطی کےلئے دُعا کرنا اور خُدا تعالیٰ کے کلام کے مطالعہ میں ثابت قدمی، اور اپنی تمام زندگی میں مسیح کے اختیار کو تسلیم کرنا۔

"نئے بنتے جاﺅ" میں تسلسل کا مفہوم موجود ہے۔ انسان روز بروز نیا بنتا جاتا ہے۔ ہر دِن وہ خُدا تعالیٰ کے نزدیک آتا جاتا ہے اور پہلے سے بہتر حالت میں آگے بڑھتا ہے۔

(4) ایماندار نئی انسانیت کو پہنتے ہیں:

"اور نئی انسانیت کو پہنو جو خُدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے" (آیت 24)۔

جب ایماندار توبہ کرتے اور پرانی انسانیت کو ترک کرتے ہیں تو اُن کی تجدید ہوتی ہے اور وہ نئی انسانیت پہن لیتے ہیں۔ "نئی انسانیت" خُدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ نئی فطرت ہے، "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 5: 17)۔

یہ "نئی انسانیت" ہمارے اندر خُدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے۔ "خُدا کے مطابق ... پیدا کی گئی ہے" کا مطلب ہے یہ خُدا تعالیٰ کی صورت اور شبیہ پر ہے۔ رُوح القدس کے نیا بنانے کے نتیجہ میں جو نئی انسانیت ملتی ہے وہ خُدائے مہربان کی صورت پر ہے۔

خُدا تعالیٰ نے آدم اوّل کو "اپنی صورت پر پیدا کیا" (پیدایش 1: 27)، لیکن انسان اپنی راہ سے بھٹک گیا اور اپنی اصل صورت کھو بیٹھا۔ سو، خُدا نے اُس کی اصل صورت کے مطابق اُسے "مسیح میں" نئے سرے سے خلق کیا۔ اِس لئے پولس رسول کہتا ہے: "اور نئی انسانیت کو پہن لیا ہے جو معرفت حاصل کرنے کےلئے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 10)۔ اور پطرس رسول نے کہا: "بلکہ جس طرح تمہارا بلانے والا پاک ہے اُسی طرح تم بھی اپنے سارے چال چلن میں پاک بنو" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 1: 15)۔

نیا ایماندار "راستبازی اور پاکیزگی میں" خُدا کی صورت پر خلق ہوتا ہے۔ راستبازی تمام انسانوں کی طرف ایمانداری اور انصاف پر مبنی کردار ہے، اور ایک راستباز شخص انصاف پسند ہوتا ہے اور ہر صاحبِ حق کو اُس کا حق دیتا ہے۔ جو کچھ قیصر کا ہے وہ قیصر کو دیتا ہے۔ ایسا فرد "راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دِل سے سچ بولتا ہے" (زبور 15: 2)۔ رُوح القدس ہمیشہ ہم پر یہ ثابت کرتا ہے کہ مسیح کی راستبازی لاثانی نوعیت کی ہے۔ سب انسانوں نے گناہ کیا، لیکن جناب مسیح نے گناہ نہیں کیا کیونکہ صرف آپ ہی کامل انسان ہیں۔ آپ نے اپنے دشمنوں سے مخاطب ہو کر کہا: "تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟" (اِنجیل بمطابق یوحنا 8: 46)۔

حقیقی پاکیزگی وہ پاکیزگی ہے جو حق کی معرفت کے نتیجہ میں ملتی ہے، اور یہ حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ سچائی ہمیں گناہ سے آزاد کرتی ہے جس کے نتیجہ میں خوشی اور پاکیزگی ملتی ہے۔ مسیح راہ، حق اور زندگی ہے، اور صرف اُس کے وسیلہ سے ہم باپ کے پاس آتے ہیں اور پاکیزگی پاتے ہیں۔ خُدا نے ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور زکریاہ کاہن نے اِس مقصد کا بیان یوں کیا ہے کہ "اُس کے حضور پاکیزگی اور راستبازی سے عمر بھر بےخوف اُس کی عبادت کریں" (اِنجیل بمطابق لوقا 1: 75)۔ پولس رسول اِسی تعلق سے یہ کہتا ہے کہ "تم بھی گواہ ہو اور خُدا بھی کہ تم سے جو ایمان لائے ہو ہم کیسی پاکیزگی اور راستبازی اور بےعیبی کے ساتھ پیش آئے" (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 2: 10)۔

اِن آیات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایماندار:

1- پرانی انسانیت کو اُتار کر نئی انسانیت پہن لیتے ہیں۔

2- بگاڑ کو اُتار پھینکتے ہیں، اور جو کچھ خُدا تعالیٰ نے خلق کیا اُسے پہن لیتے ہیں۔

3- ہر اُس چیز کو اُتار ڈالتے ہیں جو فریب کی شہوتوں کے مطابق ہے، اور خُدا تعالیٰ کے مطابق راستبازی اور حقیقی پاکیزگی کو پہن لیتے ہیں۔

ج۔ ایمانداروں کی خوبیاں

"پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے کیونکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔ غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔ چوری کرنے والا پھِر چوری نہ کرے بلکہ اچھا پیشہ اختیار کر کے ہاتھوں سے محنت کرے تا کہ محتاج کو دینے کےلئے اُس کے پاس کچھ ہو۔ کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کےلئے اچھی ہو تا کہ اُس سے سُننے والوں پر فضل ہو۔ اور خُدا کے پاک رُوح کو رنجیدہ نہ کرو جس سے تم پر مخلصی کے دِن کےلئے مُہر ہوئی۔ ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شور و غُل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔ اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دِل ہو اور جس طرح خُدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 25-32)

پولس رسول نے غیر اقوام کی بگڑی ہوئی حالت کو بیان کیا جس میں ایمانداروں نے مسیح میں ایمان لانے سے پہلے زندگی بسر کی تھی۔ اُس نے ایمانداروں کی حالت کی وضاحت بھی کی جنہوں نے اُس بگاڑ کو اُتار ڈالا، تبدیل ہوئے اور نئی انسانیت کو پہن لیا۔ پھِر پولس رسول ایمانداروں کی خوبیوں کا تذکرہ کرتا ہے، اُن کاموں کی بات کرتا ہے جن سے اُنہیں بچنا ہے، اُن کاموں کا بھی ذِکر کرتا ہے جن کے مطابق اُنہوں نے اپنی زندگی بسر کرنی ہے اور اُس محرک کا بھی تذکرہ کرتا ہے جو اُنہیں بدی سے انکار کرنے اور بھلائی کرنے پر اُبھارتا ہے۔

(1) جھوٹ بولنا ترک کرنا اور سچائی میں زندگی بسر کرنا:

"پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے کیونکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔" (آیت 25)

ایک اَور موقع پر پولس رسول نے کہا: "ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولو کیونکہ تم نے پرانی انسانیت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار ڈالا۔ اور نئی انسانیت کو پہن لیا ہے جو معرفت حاصل کرنے کےلئے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 9، 10)۔

ہمیں لازماً جھوٹ بولنا ترک کرنا ہے کیونکہ یہ ابلیس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے، ابلیس کو جھوٹوں کا باپ بھی کہا گیا ہے (اِنجیل بمطابق یوحنا 8: 44)۔ زکریاہ نبی کہتا ہے: "تم سب اپنے پڑوسیوں سے سچ بولو اور اپنے پھاٹکوں میں راستی سے عدالت کرو تا کہ سلامتی ہو" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 8: 16)۔

یونانی معاشرے میں جھوٹ بولنا اگر فائدہ مند ہوتا تو اُس کی اجازت تھی۔

نبی اسلام نے کہا کہ تین حالات میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے: جنگ میں، دو اشخاص کی صلح کرانے میں، اور شوہروں اور بیویوں کے درمیان ۔ تاہم، بائبل مُقدّس ہمیں جھوٹ کو ترک کرنے اور ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دیتی ہے۔

لوگ کسی مسئلہ اور الزام سے بچنے کےلئے یا یہ دِکھانے کےلئے کہ وہ بہت اچھے ہیں جھوٹ بولتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ سب کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ بولیں اور اُسے "سفید جھوٹ" کہیں، یا پھِر ہو سکتا ہے کہ وہ خطاﺅں کو دیکھ کر خاموشی اختیار کریں اور سچائی کو ظاہر نہ کرنے سے جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوں۔ لیکن ایماندار جس نے پرانی انسانیت کو اُتار پھینکا ہوتا ہے اُسے تمام جھوٹ سے بھی کنارہ کر لینا چاہئے کیونکہ "کوئی جھوٹ سچائی کی طرف سے نہیں ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 2: 21)۔

ہم ایمانداروں کو جھوٹ سے کنارہ کر کے سچ بولنے کی ضرورت اِس وجہ سے ہے کہ ہم ایک دوسرے کے عضو ہیں۔ مُقدس یوحنا خروسستم نے کہا: "کیا آنکھ ہاتھ کو دھوکا دے سکتی ہے؟" ایک دانا شخص نے پوچھا "اگر اعصاب دماغ کو بتائیں کہ گرم شے ٹھنڈی ہے اور جسم اُسے بغیر کسی نقصان کے چھو لے تو کیا نتیجہ کے طور پر جسم نہیں جلے گا؟"

جھوٹ بولنا تمام بدن کو نقصان پہنچاتا ہے۔ بدن معاشرہ، کلیسیا اور خاندان ہے۔ ہم اِن سب بدنوں کا حصہ ہیں۔ اب جس بدن کا ہم حصہ ہیں اُسے کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں؟

(2) گناہ نہ کرنا اور جائز غصہ کرنا تا کہ ابلیس کو موقع نہ ملے:

"غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔" (آیات 26، 27)

اِس آیت کا مطلب ہو سکتا ہے: "اپنے غصہ کو گناہ میں لے کر جانے کا موقع نہ دو" یا "ایک ہی شرط پر غصہ کرو کہ تم گناہ نہ کرو"۔ اِس آیت میں غالباً یہی دوسری بات کہی گئی ہے۔

گنہگار غصہ بھی ہے اور جائز غصہ بھی ہے۔ جائز غصہ گناہ کی جانب ہوتا ہے، اور گنہگار غصہ گنہگار کی طرف ہوتا ہے۔ گنہگار غصہ بلاجواز ہوتا ہے۔ یہ حسد سے جنم لیتا ہے اور نقصان کی طرف لے کر جاتا ہے۔

جب مسیح نے اپنے وقت کے مذہبی راہنماﺅں کو خُدا کے گھر کو تجارت کرنے کےلئے استعمال کرتے ہوئے دیکھا تو جائز غصے کا اظہار کیا۔ اِس لئے مسیح نے رسیوں کا ایک کوڑا بنا کر تجارت کرنے والوں اور صرّافوں کو وہاں سے نکال دیا اور ہیکل کو صاف کیا (اِنجیل بمطابق یوحنا 2: 13-16)۔ جناب مسیح اپنے وقت کے مذہبی راہنماﺅں پر غصہ ہوئے کیونکہ اُنہوں نے بھلائی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ مسیح نے اُنہیں جھڑکا اور اُن پر غصہ اور افسوس سے نگاہ کی کیونکہ اُن کے دِل سخت تھے (اِنجیل بمطابق مرقس 3: 5)۔ اِسی لئے پولس رسول ہمیں حکم دیتا ہے کہ "غضب کو موقع دو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 19)۔

تاہم، ہمیں محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ پولس رسول کہتا ہے "غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔" ہم بہت جلدی غصہ ہو کر گناہ کر سکتے ہیں۔ آئیے ہم احتیاط کریں کہ اپنی دلچسپیوں کی وجہ سے یا اپنے خلاف دوسروں کے شخصی جارحانہ اقدام کی وجہ سے غصہ نہ ہوں کیونکہ یہ گنہگار غصہ ہے۔

"سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے" کا مطلب ہے: غصے کو اپنے دِلوں میں جگہ نہ دو کیونکہ "خفگی احمقوں کے سینے میں رہتی ہے" (پرانا عہدنامہ، واعظ 7: 9)۔ جس دِن آپ کا کسی سے جھگڑا ہو، یاد رکھیں اُسی دِن آپ کو اُس فرد کے ساتھ صلح صفائی بھی کر لینی چاہئے۔ ایک یہودی ربی نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ اُنہیں بستر پر جانے سے پہلے اُن تمام منفی سوچوں کو اپنی زندگی سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے جو وہ دوسروں کے خلاف رکھتے ہیں کیونکہ اگر وہ فوراً صلح صفائی کے متمنی نہیں ہوں گے تو شاید پھِر وہ کبھی بھی صلح صفائی کی طرف نہ آئیں۔ یونانی فلسفی فیثا غورث نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ جن لوگوں سے وہ غصے ہوں اُنہیں وہ غروبِ آفتاب سے پہلے سلام کریں۔

یہودی غروبِ آفتاب کے وقت کو اگلے دِن کے آغاز کے طور پر لیتے تھے۔ سو پولس رسول ہمیں کہتا ہے کہ ایک نئے دِن کا آغاز اپنے دِل میں غصہ رکھتے ہوئے نہ کریں۔

گنہگار غصہ کو دُور کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ابلیس کو موقع نہ دیا جائے۔ ایسا اِس لئے ہے کہ "تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرِ ببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کِس کو پھاڑ کھائے" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 5: 8)۔ اب اگر ہم غصہ ہونے سے اُسے ایک موقع دیتے ہیں تو وہ ہمیں پھاڑ کھائے گا۔ ایک محاورہ بھی ہے کہ انگلی پکڑے پکڑتے پائنچہ پکڑا۔ اگر آپ اُسے تھوڑی سی جگہ دیں گے تو وہ اَور زیادہ جگہ لے لے گا یہاں تک کہ ساری جگہ اُس کی ہو جائے گی۔ اِس لئے ہمیں شروع ہی سے اُسے کوئی بھی جگہ نہیں دینی چاہئے۔

اگر ہم غصہ ہو کر گناہ کریں تو بےانتہا گناہوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں، اور ابلیس کو موقع دیتے ہیں۔ گنہگار غصہ نے جو ابلیس کا استحصالی ہتھکنڈا ہے کتنے ہی خاندانوں کو تقسیم کیا ہے، دوستیاں توڑی ہیں اور کلیسیاﺅں کو کمزور کیا ہے!

زبور نویس نے زبور 4: 4 میں کہا "تھرتھراﺅ اور گناہ نہ کرو"۔ لفظ "تھرتھراﺅ" غصے کا مفہوم دیتا ہے۔ جب داﺅد نبی کے بیٹے ابی سلوم نے اُس کے خلاف ناکام بغاوت کی تو داﺅد نے یہ الفاظ اپنے لوگوں کو کہے۔ لیکن وہ سخت غصہ کا شکار ہوئے اور اُنہوں نے گناہ کیا اور قتل کرنے کے مرتکب ٹھہرے۔ اُنہوں نے اپنے درمیان ابلیس کو بہت سی جگہ دی۔ ایسا ہی موسیٰ نبی کے ساتھ بھی ہُوا، جس نے غصہ ہو کر اپنے لبوں سے خطا کی، لیکن پھِر وعدہ کی سرزمین میں داخلے کا موقع کھو بیٹھا (زبور 106: 33)۔

گناہ کرنے سے ابلیس کو اپنے اوپر الزام لگانے کا موقع نہ دیں۔ اگر اُس نے راستباز ایُّوب پر الزام لگایا جس نے گناہ نہ کیا تھا تو جب آپ غصہ ہو کر گناہ کریں گے تو وہ کس قدر آپ پر الزام لگائے گا؟ ابلیس کو موقع نہ دیں کہ وہ آپ کو گہرے غصہ اور بڑے گناہ کی طرف لے کر جائے۔ پہلی خطا کرنے سے محتاط رہیں کیونکہ پھِر یہ دوسرے اور تیسرے گناہ کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے خلاف ابلیس کے الزام کا یقین نہ کریں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ اُن سے نفرت کریں، اُن کے ساتھ غصہ ہوں اور اُن کے بارے میں بُرا بولیں۔

جو اپنے بھائی سے محبت نہیں کرتا ابلیس کو موقع دیتا ہے (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 2: 11)۔

غصہ ہونے والے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور اُس کا قہر خُدا کی راستبازی کا کام نہیں کرتا (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 20)۔

اِسی لئے پولس رسول کہتا ہے: "جسے تم کچھ معاف کرتے ہو اُسے میں بھی معاف کرتا ہوں کیونکہ جو کچھ میں نے معاف کیا اگر کیا تو مسیح کا قائم مقام ہو کر تمہاری خاطر معاف کیا۔ تا کہ شیطان کا ہم پر داﺅ نہ چلے کیونکہ ہم اُس کے حیلوں سے ناواقف نہیں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 2: 10، 11)۔

(3) چوری نہ کرنا بلکہ اچھے کام کرنا:

"چوری کرنے والا پھِر چوری نہ کرے بلکہ اچھا پیشہ اختیار کر کے ہاتھوں سے محنت کرے تا کہ محتاج کو دینے کےلئے اُس کے پاس کچھ ہو۔" (آیت 28)

چوری کرنا غیر اقوام کے درمیان ایک عام سی برائی تھی، اور خاص طور پر دو جگہوں میں ایسا ہوتا تھا: ایک بندرگاہوں پر جہاں جہاز لنگرانداز ہوتے، اور دوسرا عوامی غسل خانوں میں جہاں لوگ اپنے پرانے کپڑے اُتار کر دوسروں کے نئے کپڑے پہن لیتے تھے۔ وہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ایک شخص غریب کی مدد کرنے کےلئے بھی چوری کر سکتا ہے۔

پولس رسول کہتا ہے کہ جو کوئی بھی چوری کیا کرتا تھا اور اب نجات دہندہ مسیح کو جان چکا ہے، اُسے دوبارہ چوری کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ وہ پرانی انسانیت کو اُتار کر نئی انسانیت پہن لیتا ہے۔

معاشرے میں مختلف اقسام کی چوریاں موجود ہیں:

جب ایک آجر اپنے ملازم کو اُس کا پورا معاوضہ نہیں دیتا، تو دراصل وہ اُس کا قصوروار ہوتا ہے اور اُس کی چوری کر رہا ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک ملازم جب اپنے کام کو ویسے سرانجام نہیں دیتا جیسے اُسے وہ کام کرنا چاہئے تو وہ اُس وقت اپنے مالک کی چوری کرتا ہے۔

جب ایک شخص لوگوں کی ساکھ پر جھوٹے الزام لگاتا ہے تو وہ اُن کے اچھے نام اور کردار کی چوری کرتا ہے۔

جب ایک شخص رقم اُدھار لیتا ہے لیکن اُسے واپس نہیں دیتا تو وہ قرض دینے والے کی چوری کرتا ہے۔

جب ایک شخص جوا کھیلتا ہے اور جیت جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ جوا کھیلنے والے دیگر افراد کی چوری کرتا ہے۔

جب ایک فرد غریب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور مدد مانگتا ہے لیکن اپنی مدد خود کر سکتا ہے، تو وہ لوگوں کی خیرات اور مالی مدد کی چوری کرتا ہے۔

جب کوئی فرد دہ یکی نہیں دیتا تو اپنی رقم پرخُدا تعالیٰ کے اختیار کو چُراتا ہے۔ خُدا ایسے چور سے کہتا ہے: "تم مجھ کو ٹھگتے ہو ... دہ یکی اور ہدیہ میں" (پرانا عہدنامہ، ملاکی 3: 8)۔

"چوری کرنے والا پھِر چوری نہ کرے بلکہ اچھا پیشہ اختیار کر کے ہاتھوں سے محنت کرے"۔ مسیحیت میں کام کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ کام ایک فرض اور شرف ہے۔ "جسے محنت کرنا منظور نہ ہو وہ کھانے بھی نہ پائے" (نیا عہدنامہ، 2- تھسلنیکیوں 3: 10)۔ پولس رسول نے ہمارے لئے ایک اچھی مثال قائم کی اور کہا "تم آپ جانتے ہو کہ اِنہی ہاتھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی حاجتیں رفع کیں" (نیا عہدنامہ، اعمال 20: 34)۔ اُس نے تھسلنیکے کے رہنے والے ایمانداروں کو کہا "جس طرح ہم نے تم کو حکم دیا چُپ چاپ رہنے اور اپنا کاروبار کرنے اور اپنے ہاتھوں سے محنت کرنے کی ہمت کرو" (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 4: 11)۔

چوری چھوڑنے اور اچھا کام کرنے کی وجہ یہ ہے "تا کہ محتاج کو دینے کےلئے اُس کے پاس کچھ ہو۔" جو کوئی کام کر سکتا ہے اُس کے پاس کام ہونا چاہئے۔ صرف معذور افراد کو جو کام نہیں کر سکتے مدد کی ضرورت ہے اور صاحبِ استعداد لوگوں کو اُن کی مدد کرنی چاہئے۔ جو کوئی تندرست ہے اُسے کام کرنا چاہئے اور لاچار افراد کی مدد کرنی چاہئے، کیونکہ ہم میں سے کوئی اپنے لئے زندگی نہیں گزارتا: "جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خُدا کی محبت کیوں کر قائم رہ سکتی ہے؟" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 3: 17)۔ "پس جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاص کر اہلِ ایمان کے ساتھ" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 10)۔

(4) گندی بات نہ کرنا بلکہ اچھی بات کرنا:

"کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کےلئے اچھی ہو تا کہ اُس سے سُننے والوں پر فضل ہو۔ اور خُدا کے پاک رُوح کو رنجیدہ نہ کرو جس سے تم پر مخلصی کے دِن کےلئے مُہر ہوئی۔" (آیات 29، 30)

گندی گفتگو بُرے دِل سے نکلتی ہے۔ ہر نکمی بات جو لوگوں کے منہ سے نکلتی ہے، اُنہیں عدالت کے دِن اُس کا حساب دینا پڑے گا (دیکھئے اِنجیل بمطابق متی 12: 35، 36)۔ بُری گفتگو تلخ الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے جو سُننے والوں کو پریشان کر دیتی ہے (پرانا عہدنامہ، زبور 64: 3)، اور یہ ایک کج گو مُنہ اور دروغ گو لبوں سے نکلتی ہے (پرانا عہدنامہ، امثال 4: 24)۔

لفظ "گندا" کا اصل یونانی متن کے مطابق مطلب ہے: گلا سڑا، فاسد، استعمال کے قابل نہ ہونا اور برے معیار کا حامل (دیکھئے وائن ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف نیو ٹیسٹامنٹ ورڈز، ص 87)۔ اِسی وجہ سے زبور نویس دُعا کرتا ہے "اے خُداوند! میرے مُنہ پر پہرا بٹھا۔ میرے لبوں کے دروازہ کی نگہبانی کر" (پرانا عہدنامہ، زبور 141: 3)۔

ہمیں وہ الفاظ استعمال کرنے کےلئے کہا گیا ہے جو ترقی کےلئے اچھے ہوں۔ چونکہ ایُّوب نبی کے الفاظ ترقی کےلئے اچھے تھے، اِس لئے اُس کے دوست الیفز تیمانی نے اُسے کہا "تیری باتوں نے گرتے ہوئے کو سنبھالا اور تُو نے لڑکھڑاتے گھٹنوں کو پایدار کیا" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 4: 4)۔ آئیے ہمارے الفاظ اچھے ہوں تا کہ وہ سُننے والے کی شخصیت کی تعمیر کر سکیں، اور اُس کی رُوح، جان اور بدن کو تروتازہ کر سکیں۔ یوں ایسا فرد ہمارے الفاظ سُننے کے بعد اچھی حالت میں ہو گا۔

ہماری گفتگو "اچھی" ہونی چاہئے، یعنی یہ ضرورت کے مطابق اور کسی بھی صورتحال کےلئے موافق ہونی چاہئے۔ بائبل مُقدّس اِس بارے میں کہتی ہے کہ "باموقع باتیں رُوپہلی ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں" (پرانا عہدنامہ، امثال 25: 11)۔

اور پھِر اِس سے "سُننے والوں پر فضل ہو"۔ آئیے ہماری گفتگو اچھی ہو، سُننے والوں کے فائدہ اور اُن کی زندگیاں کو خوبصورت کرنے کے قابل ہو (پرانا عہدنامہ، زبور 45: 2)۔ تب ہم اِس رسولی حکم پر عمل کر سکتے ہیں کہ "تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُرفضل اور نمکین ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ جائے" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 4: 6)۔

ہمیں گندے الفاظ بولنے چھوڑ کر اچھے الفاظ اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ خُدا تعالیٰ کے پاک رُوح کو رنجیدہ نہ کریں۔ بائبل مُقدّس ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ رُوح القدس کی مخالفت نہ کریں (نیا عہدنامہ، اعمال 7: 51)، اور رُوح کو نہ بُجھائیں (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 5: 19)۔ یہاں بائبل مُقدّس ہمیں کہتی ہے کہ خُدا کے رُوح کو رنجیدہ نہ کریں، اور یہ ہمارے لئے ایک تنبیہ ہے کہ جیسے بنی اسرائیل نے اپنی نافرمانی اور بےاعتقادی سے اُسے غمگین کیا (پرانا عہدنامہ، زبور 78: 20)، ہم اُس کے رُوحِ قُدس کے خلاف نہ بغاوت کریں اورنہ اُسے غمگین کریں (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 63: 10)۔ ہمیں گندے الفاظ استعمال کرنے سے اُسے غمگین نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اِس کے برعکس ہمیں اچھے، دوسروں کی ترقی کرنے والے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت ہے جن سے ہم خُدا کے رُوح کی پرستش اور تعظیم کر سکتے ہیں۔

"کیا تم نہیں جانتے کہ تم خُدا کا مقدِس ہو اور خُدا کا رُوح تم میں بسا ہوا ہے؟ اگر کوئی خُدا کے مقدِس کو برباد کرے گا تو خُدا اُس کو برباد کرے گا کیونکہ خُدا کا مقدِس پاک ہے اور وہ تم ہو" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 3: 16، 17)۔

(5) بُرا ردعمل نہ دینا اور مہربانی کے رویہ کی ترویج:

"ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شور و غُل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔ اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دِل ہو اور جس طرح خُدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔" (آیات 31، 32)

ایک اَور موقع پر پولس رسول نے یہ بھی کہا: "پس خُدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حِلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خُداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 12، 13)۔

اِن دو آیات میں رسول ہمیں بُرے ردعمل کو دُور کرنے اور محبت بھرے رویہ کو پہننے کےلئے کہتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مسیح نے ہمیں پہلے ہی معاف کر دیا ہے۔ ہمیں ہر طرح کی "تلخ مزاجی" کو دُور کرنا ہے۔ تلخ مزاجی رنج کا احساس ہے جو ایک فرد کی زندگی میں اُس وقت ہوتا ہے جب وہ لوگوں کے جارحانہ عمل اور زندگی کی عدم مساوات کی طرف ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک فرد کو بد مزاج اور سنگدِل بنا دیتی ہے۔ یہ مٹھاس کا اُلٹ ہے۔ جیسے تیز نیزہ بہت خطرناک ہوتا ہے، ویسے ہی تلخ مزاجی ہماری زندگیوں کو خراب اور اکثر تباہ کرتی ہے۔ جب حزقیاہ بادشاہ نے اپنی زندگی میں تلخی سے رہائی پائی تو اُس نے کہا "دیکھ میرا سخت رنج راحت سے تبدیل ہُوا۔ اور میری جان پر مہربان ہو کر تُو نے اُسے نیستی کے گڑھے سے رہائی دی۔ کیونکہ تُو نے میرے سب گناہوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 38: 17)۔

آئیے ہم تمام قہر دُور کریں۔ قہر کو شدید بدلہ والا غصہ کہا جا سکتا ہے جو فوراً ویسے جلا ڈالتا ہے جیسے آگ خشک بھوسے کو جلا ڈالتی ہے۔ یہ عقل کو جلا ڈالتا ہے اور اُسے معقول طور پر سوچنے سے روکتا ہے۔

آئیے ہم غصہ بھی دُور کریں۔ غصہ لوگوں کی طرف سے بےعزتی کی جانب فوری ردعمل ہے جو ہمارے ذہن اور دِل میں ہوتا ہے اور پھِر یہ نفرت اور دُشمنی میں بدل جاتا ہے۔

ہمیں ہر طرح کے "شور و غُل" کو بھی دُور کرنا ہے۔ شور و غُل کا مطلب لوگوں کی بلند آوازیں ہیں جن میں سخت بحث و مباحثہ ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک دانا شخص نے ایک مرتبہ کہا: "جب آپ کی آواز بلند ہو جائے تو آپ کو بات کرنے سے باز آ جانا چاہئے۔" بائبل مُقدّس نے مسیح کے بارے میں بیان کیا ہے: "یہ نہ جھگڑا کرے گا نہ شور اور نہ بازاروں میں کوئی اِس کی آواز سُنے گا" (اِنجیل بمطابق متی 12: 19)۔

ہمیں خُدا تعالیٰ اور اپنے ساتھی انسانوں کے خلاف ہر طرح کی "بدگوئی" بھی دُور کرنی ہے۔ مُقدّس یعقوب نے کہا "ایک دوسرے کی بدگوئی نہ کرے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 4: 11)۔

ہمیں ہر قسم کی "بدخواہی" بھی دُور کرنی ہے۔ بدخواہی بگڑے ہوئے دِل کی حالت کا نام ہے جس سے ہر قسم کی برائی نکلتی ہے۔ خروسستم نے کہا کہ بدخواہی وہ آگ ہے جو باطن میں موجود ایندھن کو بھڑکاتی ہے، لوگ اُسے دیکھ تو نہیں سکتے لیکن وہ اُس کے تباہ کن اثر کو محسوس کرتے ہیں۔

جب ہم اِن بُرے ردعمل کو اُتار پھینکتے ہیں تو ہمیں محبت بھرے رویوں کو پہننا چاہئے۔

"اور ایک دوسرے پر مہربان ... ہو"۔ مہربانی کا مطلب ہے دوسروں کی مدد کرنا۔ یہ رُوح کا پھل ہے۔ اِس آیت میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ "مہربانی" کیا گیا ہے، یہ اِنجیل بمطابق متی 11: 30 میں بھی استعمال ہُوا ہے جس کا مطلب "ہلکا" ہے جو مسیح کے بوجھ کو بیان کرتا ہے۔

"نرم دِل ہو۔" نرم دِلی کا مطلب لوگوں کےلئے شفقت کا ہونا اور اُن کا خیال رکھنا ہے۔ اِس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو بھائی اور بہن جانتے ہوئے اُن سے برتاﺅ کرنا، جیسے کہ 1- پطرس 3: 8 میں لکھا ہے: "غرض سب کے سب یک دِل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرم دِل اور فروتن بنو۔" ایک نرم دِل شخص لوگوں کو اُن کی کمزوری میں ہمدردی دِکھائے گا اور بغیر کسی وجہ کے اُن کےلئے سخت الفاظ استعمال نہیں کرے گا۔

"ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔" دوسروں کو معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہم خود خُدا تعالیٰ سے معافی طلب کرتے ہیں، ویسے ہی ہم دوسروں کی خطاﺅں کو معاف کریں۔ دوسروں کو معاف کرنے کے بعد ہمیں اُن کے قصور کو بُھلا دینا ہے، جیسے خُدا تعالیٰ نے ہمیں معاف کیا ہے اور ہمارے گناہوں کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہے تا کہ وہ اُنہیں بھول جائے اور پھِر اُنہیں یاد نہ کرے۔

برے رویوں کو ترک کرنے اور محبت بھرے رویوں کو اپنانے کی وجہ آیت کے اِس حصہ میں بیان کی گئی ہے: "جس طرح خُدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں۔" جب ہم گنہگار اور دُشمن تھے، مکمل طور پر بُرے تھے تو مسیح نے ہمیں معاف کیا۔ اُس نے کسی طرح کی خود غرضی کے بغیر ہمیں معاف کیا۔ اِس لئے ہمیں مسیح کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے غصہ، شور و غُل اور بدخواہی سے بچتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنے کی ضرورت ہے اور اُن کی خطاﺅں سے درگزر کرنا ہے۔

کلیمنٹ نے اپنے ایک پیغام میں لکھا: "جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اُن سے بدلہ لینا انسانی عمل ہے، لیکن اُن سے بدلہ نہ لینا فلسفیانہ عمل ہے، جبکہ اُن کی بھلائی کےلئے کام کرنا الہٰی عمل ہے۔"

"رات بہت گزر گئی اور دِن نکلنے والا ہے۔ پس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 13: 12)

آئیے ہم پرانی فاسد انسانیت کو اُتار پھینکیں، اور ہر روز تبدیل ہوتے جائیں۔ آئیے ہم نئی انسانیت کو بھی پہنیں جو راستبازی اور حقیقی پاکیزگی میں خُدا کی صورت پر ہے۔

3- حصہ دوم: مسیحی زندگی رُوح القدس کے تابع رہ کر گزاری جاتی ہے

الف۔ رُوح القدس کون ہے؟

رُوح القدس کے بارے میں جاننا انتہائی اہم ہے۔ کیا وہ محض ایک الہٰی اثر ہے یا ایک عظیم رُوحانی قوت ہے یا پھر پاک تثلیث کا تیسرا اقنوم خُدا کا رُوح ہے؟

مسیحی اقرار الایمان یہ ہے: "ہم ایمان رکھتے ہیں ... رُوح القدس پر، جو خُداوند ہے اور زندگی کا بخشنے والا ہے، وہ باپ ... سے صادر ہے۔" اَب اگر رُوح القدس محض ایک الہٰی اثر یا قوت ہوتا تو ہم اُسے اپنی رُوحانی زندگی، کلیسیائی سرگرمیوں اور رُوحانی کام میں استعمال کرنے کے حق کے تحت پا سکتے تھے۔ لیکن چونکہ رُوح القدس خُدا کا رُوح ہے جو گناہوں میں مُردہ افراد کو زندگی بخشتا ہے، اِس لئے ہم پر لازم ہے کہ اُس کی پرستش کریں، اُس پر ایمان لائیں، اپنا آپ اُس کےلئے مخصوص کریں، اُس سے محبت کریں، اپنا آپ اُس کی سپردگی میں دے دیں، تا کہ وہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکے۔ رُوح القدس کا ہمیں استعمال کرنے اور ہمیں رُوح القدس کا استعمال کرنے میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔

بائبل مُقدّس پڑھنے والا ہر فرد واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ رُوح القدس ایک شخصیت ہے، جس میں الہٰی صفات ہیں، اور اُس کے کام بھی الہٰی کام ہیں۔ رُوح القدس نے اُن ایمانداروں کی زندگیوں کو بےشمار برکات سے نوازا جنہوں نے اُسے جانا اور اپنی زندگیاں پاک تثلیث کے اِس تیسرے اقنوم کی سپردگی میں دے دیں۔ بائبل مُقدّس رُوح القدس کی بطور شخصیت کئی صلاحیتوں کا ذِکر کرتی ہے، مثلاً عقل، علم، محبت اور غم کا احساس وغیرہ۔ اِسی طرح جب لوگ رُوح القدس کے خلاف رویے اپناتے ہیں تو اُس کے خلاف بغاوت، جھوٹ اور کفر کے مرتکب ہوتے ہیں، اُس کی توہین کرتے ہیں اور اُسے غمزدہ کرتے ہیں۔ سو، رُوح القدس نہ تو ایک تاثیر ہے اور نہ محض ایک قوت، بلکہ وہ خُدا تعالیٰ کی شخصیت ہے۔ وہ خُدا کا رُوح ہے، اور پاک تثلیث کے تین اقانیم میں سے ایک ہے: "اور گواہی دینے والے تین ہیں۔ رُوح اور پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 5: 8)۔

رُوح القدس کو بائبل مُقدّس میں کئی نام دیئے گئے ہیں۔ اُن میں سے کچھ نام یہ ہیں: "خُداوند کی رُوح ... حکمت اور خِرد کی رُوح، مصلحت اور قدرت کی رُوح، معرفت اور خُداوند کے خوف کی رُوح" (دیکھئے پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 11: 2)، "فضل اور مناجات کی رُوح" (زکریاہ 12: 10)، "مددگار" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 26)، "رُوحِ حق" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 17; 15: 26)، "پاکیزگی کی رُوح" (نیا عہدنامہ، رومیوں 1: 4)، "زندگی کے رُوح" (رومیوں 8: 2)، "مسیح کا رُوح" (رومیوں 8: 9)، "لے پالک ہونے کی رُوح" (رومیوں 8: 15)، "بیٹے کا رُوح" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 6)، "پاک موعودہ رُوح" (نیا عہدنامہ، افسیوں 1: 13)، "حکمت اور مکاشفہ کی رُوح" (نیا عہدنامہ، افسیوں 1: 17)، "یسوع مسیح کے رُوح" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 1: 19)، "جلال کا رُوح" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 4: 14)۔

رُوحِ الٰہی کو "رُوح القدس" پکارنا ہماری رُوحوں کےلئے اُس کے ناقابلِ دید منور کرنے، تجدید، تقدیس اور راہنمائی کے کام کی اہمیت ظاہر کرتا ہے۔ رُوح القدس ہی ہماری زندگی میں تمام نیک خوبیاں ودیعت کرتا ہے۔ اُس کو رُوح القدس پکارنا اُسے باقی تمام خلق کی گئی رُوحوں سے ممیز ٹھہراتا ہے جو لامحدود طور پر اُس سے کمتر پاک ہیں۔

(1) رُوح القدس باپ اور بیٹے کے ساتھ ایک جوہر رکھتا ہے:

بائبل مُقدّس خُدائے رُوح القدس کو خُدا باپ اور خُدا بیٹے کے مساوی بیان کرتی ہے۔ یہ بیان کرتی ہے کہ رُوح پانیوں کی سطح پر جنبش کرتی تھی (توریت شریف، پیدایش 1: 2)، جو تخلیق کے عمل میں اُس کے کام کو واضح کرتی ہے۔ اِس میں ذِکر ہے کہ موسیٰ نبی اور اُس کے ساتھیوں کو رُوحِ خُدا نے تقویت بخشی (توریت شریف، گنتی 11: 17، 25)۔ خُدا تعالیٰ نے اپنے لوگوں کو اپنے پاس پھِر سے واپس لانے کےلئے اُن پر اپنی رُوح انڈیلی (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 44: 3)۔ اپنی رُوح کے زور اور جلالی قدرت کے بارے میں خُدا تعالیٰ نے خود کہا کہ یہ "نہ تو زور سے اور نہ توانائی سے بلکہ میری رُوح سے" ہو جائے گا (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 4: 6)۔ پھِر مسیح نے فرمایا: "پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناﺅ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو" (اِنجیل بمطابق متی 28: 19)۔ مسیح نے یہ نہیں کہا کہ "باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے ناموں میں" بلکہ یہ کہا کہ "باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے۔" پولس رسول نے کلمات برکات میں یہ کہا: "خُداوند یسوع مسیح کا فضل اور خُدا کی محبت اور رُوح القدس کی شراکت تم سب کے ساتھ ہوتی رہے" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 13: 14)۔ یوحنا رسول نے مکاشفہ کی کتاب کا آغاز ایمانداروں کو سلام دُعا سے اور یہ کہتے ہوئے کیا: "اُس کی طرف سے جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے اور اُن سات روحوں کی طرف سے جو اُس کے تخت کے سامنے ہیں۔ اور یسوع مسیح کی طرف سے جو سچا گواہ اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلوٹھا اور دُنیا کے بادشاہوں پر حاکم ہے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 1: 4، 5)۔

آئیے بڑے خشوع کے ساتھ مسیح کے بپتسمہ کے وقت تینوں الہٰی اقانیم کو دیکھیں، باپ نے آسمان سے اعلان کیا کہ یہ اُس کا پیارا بیٹا ہے جس سے وہ خوش ہے، پیارے بیٹے نے زمین پر دریائے یردن کے پانی میں بپتسمہ لیا، جبکہ رُوح القدس اُس پر کبوتر کی مانند جسمانی صورت میں اُترا (اِنجیل بمطابق متی 3: 16، 17)۔ پھِر بڑی تعظیم و احترام کے ساتھ ہم اِن اقانیم کو دُعا کے تعلق سے ایک واقعہ میں دیکھتے ہیں، خُدا بیٹے نے خُدا باپ سے دُعا کی کہ وہ خُدائے رُوح القدس کو بھیجے (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 11، 16)۔ یسوع مسیح کی آزمایش کے وقت رُوح القدس اُسے بیابان میں لے گیا تا کہ وہ ابلیس سے آزمایا جائے (اِنجیل بمطابق متی 4: 1)۔ ناصرت کے عبادتخانہ میں مسیح نے بڑے واضح طور پر یہ اعلان کیا: "خُداوند کا رُوح مجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کےلئے مسح کیا" (اِنجیل بمطابق لوقا 4: 18)۔ جب یسوع پر یہودی بزرگوں نے بعلزبول کی طاقت سے بدروحیں نکالنے کا الزام لگایا تو آپ نے کہا: "اگر میں خُدا کی رُوح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں تو خُدا کی بادشاہی تمہارے پاس آ پہنچی" (اِنجیل بمطابق متی 12: 28)۔ عیدِ خیام کے آخری دِن مسیح نے پکار کر کہا: "اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آ کر پئے۔ جو مجھ پر ایمان لائے گا اُس کے اندر سے جیسا کہ کتابِ مُقدّس میں آیا ہے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی۔ اُس نے یہ بات اُس رُوح کی بابت کہی جسے وہ پانے کو تھے جو اُس پر ایمان لائے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 7: 37-39)۔ بعد ازاں، مسیح نے یہ کہتے ہوئے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ اُن کےلئے رُوح القدس بھیجے گا: "لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی رُوحِ حق جو باپ سے صادِر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 15: 26)۔

ہم نہایت عزت و تکریم کے ساتھ پطرس رسول کے الفاظ بھی دیکھتے ہیں جو اُس نے عیدِ پینتِکوست کے دِن تینوں الہٰی اقانیم کے بارے میں کہے: "پس خُدا کے دہنے ہاتھ سے سر بلند ہو کر اور باپ سے وہ رُوح القدس حاصل کر کے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اُس نے یہ نازل کیا جو تم دیکھتے اور سُنتے ہو" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 33)۔

سو ہم دیکھتے ہیں کہ رُوح القدس خُدا کا رُوح ہے، پاک تثلیث کا تیسرا اقنوم ہے جو ہماری طرف سے پرستش، تعظیم اور بڑائی کئے جانے کے لائق ہے۔ اِس لئے آئیے ہم اُس کے حضور مکمل تعظیم و تکریم کے ساتھ آئیں اور اپنا دِل اور زندگی اُس کے ہاتھوں میں دے دیں۔

لفظ "رُوح" کا مطلب "دم" یا "ہوا" بھی ہے۔ رُوح القدس قادر مطلق خُدا تعالیٰ کا دم ہے۔ جناب مسیح نے نیکُدیمس سے کہا: "ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تُو اُس کی آواز سُنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے۔ جو کوئی رُوح سے پیدا ہُوا ایسا ہی ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 3: 8)۔ یہاں مسیح نے رُوح کو ہوا کے ساتھ تشبیہ دی ہے جسے روکا نہیں جا سکتا جو جدھر چاہتی ہے چلتی ہے۔ ہوا کو دیکھا نہیں جا سکتا اور اِسی طرح رُوح ہے۔ ہوا کے بارے میں لکھا ہے کہ "تُو ... نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے"، اور ایسے ہی رُوح القدس ہے۔ ہوا کے بغیر ہم مر جاتے ہیں کیونکہ ہمیں سانس لینے کےلئے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اِسی طرح زندگی بخشنے والے رُوح القدس کی ضرورت ہے جو ہماری رُوحانی زندگی کو قائم و دائم رکھنے کےلئے ہمیں تقویت فراہم کرتا ہے۔ اِسی لئے مسیح نے اپنے شاگردوں پر پھونک کر کہا: "رُوح القدس لو" (اِنجیل بمطابق یوحنا 20: 22)۔

ہم میں رُوح القدس کا کام ایسے ہے جیسے جسم میں ذہن کا کام ہوتا ہے۔ ذہن ہمارے جسم کو قابو میں رکھتا ہے اور اِسے اپنی مرضی کے مطابق ایسے استعمال کرتا ہے کہ جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ یہ بات اُس فرد کے تعلق سے بھی صحیح ہو سکتی ہے جو کسی دوسرے کے ذہن پر حکم چلاتا ہے اور اُسے خاص کام کرنے کےلئے اُبھارتا ہے۔

اور اگر ابلیس ہمیں بہکانے اور بدی کی طرف راغب کرنے، ہمارے دِلوں اور ذہنوں کو بڑی آزمایشوں کی طرف لانے کے قابل ہے تو کیا خُدا تعالیٰ ہمیں اپنے رُوح القد س کے ذریعے توبہ کی طرف لانے، ہماری زندگیوں کو درست کرنے اور اچھے کام کرنے کی طرف لے کر جانے کے قابل نہیں ہے؟

رُوح القدس کی تاثیر اور آزاد انسانی مرضی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے مربوط ہیں کہ یہ ہمارے ادراک سے باہر ہے۔ جو کچھ وہ انسانوں کے ساتھ کرنا چاہتا ہے کرتا ہے، اور جو کچھ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کےلئے کریں اُس کےلئے اُنہیں اپنی آزاد مرضی کے تحت چناﺅ کرنے پر اُبھارتا ہے۔ وہ کبھی بھی اُنہیں ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا جسے وہ اپنی مرضی کے برخلاف کریں۔ رُوح القدس اپنے محبت بھرے اثر کے ذریعے اُن میں یہ لگن پیدا کرتا ہے کہ وہ اُس کی مرضی کے مطابق ایسے چناﺅ کریں جس سے اُن کی اپنی آزادی کی نفی نہ ہو یا پھِر وہ اپنے کاموں کی ذمہ داری لینے سے مبرا نہ ہو جائیں۔

(2) رُوح القدس تخلیق کرتا ہے:

ایُّوب نبی نے جو ہمارے لئے صبر کی مثال ہے کہا: "خُدا کی رُوح نے مجھے بنایا ہے اور قادرِ مطلق کا دم مجھے زندگی بخشتا ہے" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 33: 4)۔ جبکہ زبور نویس کہتا ہے: "تُو اپنی رُوح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں اور تُو رویِ زمین کو نیا بنا دیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 104: 30)۔

(3) رُوح القدس نئی پیدایش بخشتا ہے:

نئی پیدایش رُوحانی پیدایش ہے جس کے نتیجہ میں ہم مکمل طور پر بدل جاتے ہیں اور ایک نئی رُوحانی زندگی بسر کرنا شروع کر دیتے ہیں جس میں گناہ سے نفرت اور پاکیزگی کےلئے تڑپ موجود ہوتی ہے۔ اِسی لئے ہم کہتے ہیں کہ رُوح القدس زندگی بخشنے والا خُدا ہے۔ پولس رسول نے کہا: "اور اگر اُسی کا رُوح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مُردوں میں سے جِلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مُردوں میں سے جِلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اُس رُوح کے وسیلہ سے زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 11)۔

رُوح القدس ایک فرد کو اُس کی گنہگار حالت کے بارے میں قائل کرتا اور اُس پر خُدا تعالیٰ کے غضب سے بچنے کےلئے نجات دہندہ کی ضرورت کو عیاں کرتا ہے اور خُدا تعالیٰ سے دُور ہر شخص اِس غضب کا مستحق ہے۔ مسیح نے رُوح القدس کے آنے کے بارے میں فرمایا: "اور وہ آ کر دُنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 16: 8)۔ جب ایک گنہگار اپنے جرم کا قائل ہو کر توبہ کرتا ہے تو رُوح القدس اُسے نئی پیدایش بخشتا ہے، جیسا کہ مسیح نے نیکُدِیمس سے کہا: "جو جسم سے پیدا ہُوا ہے جسم ہے اور جو رُوح سے پیدا ہُوا ہے رُوح ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 6)۔ مُقدّس یوحنا رسول نے کہا: "جو کوئی خدا سے پیدا ہُوا ہے وہ دُنیا پر غالب آتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 5: 4)۔

(4) رُوح القدس زندگی کو پاک کرتا ہے:

رُوح القدس ہر اُس فرد کی زندگی کو پاک کرتا ہے جو اُسے اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں ایک فرد پاکیزگی اور معرفت میں آگے بڑھتا ہے۔ اور رسول کے الفاظ ایسے فرد کے حق میں سچ ثابت ہوتے ہیں: "تم خُداوند یسوع مسیح کے نام سے اور ہمارے خُدا کے رُوح سے دُھل گئے اور پاک ہوئے اور راستباز بھی ٹھہرے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 6: 11)۔ رُوح القدس ہمارے جذبات پر قابو پا کر اور ہمیں دائمی رفاقت اور راہنمائی فراہم کر کے ہمیں پاک کرنے کا کام کرتا ہے، تا کہ ہمارے بدن اُس کےلئے پاک مقدِس بن سکیں، اور جلال کا رُوح یعنی خُدا کا رُوح ہم پر سایہ کر سکے (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 4: 14)۔

(5) رُوح القدس کے الہام سے پاک صحائف لکھے گئے:

پولس رسول نے کہا: ہر ایک صحیفہ خُدا کے الہام سے ہے (نیا عہدنامہ، 2- تیمتھیس 3: 16)، "رُوح القدس نے یسعیاہ نبی کی معرفت تمہارے باپ دادا سے خوب کہا" (نیا عہدنامہ، اعمال 28: 25)۔ پطرس رسول نے کہا: "کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 1: 21)۔ مُقدّس لوقا اِنجیل نویس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے والد زکریاہ کاہن کے الفاظ کا ذِکر کرتے ہوئے اِسی پہلو پر زور دیا: "خُداوند اسرائیل کے خُدا ... نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کہا تھا" (اِنجیل بمطابق لوقا 1: 68، 70)۔ سو، یہ خُدائے رُوح القدس تھا جس نے پرانے انبیاء کے وسیلے سے کلام کیا تھا۔

(6) رُوح القدس ہمہ جا ہے:

زبور نویس کہتا ہے: "میں تیری رُوح سے بچ کر کدھر جاﺅں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جاﺅں تو تُو وہاں ہے۔ اگر میں پاتال میں بستر بچھاﺅں تو دیکھ! تُو وہاں بھی ہے۔ اگر میں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں جا بسوں تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کرے گا اور تیرا دہنا ہاتھ مجھے سنبھالے گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 139: 7-10)۔ مسیح نے بھی کہا: "یعنی رُوحِ حق جسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 17)۔ رُوح القدس ہر ایماندار میں سکونت کرتا ہے اور اپنی قدرت میں کلیسیا پر ٹھہرتا ہے۔

(7) رُوح القدس ہمہ دان ہے:

مسیح نے فرمایا: "لیکن مدد گار یعنی رُوح القد س جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دِلائے گا۔ ... لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دِکھائے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 26; 16: 13)۔ پولس رسول نے پرانے عہدنامہ کا اقتباس کرتے ہوئے کہا: "جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں نہ آدمی کے دِل میں آئیں۔ وہ سب خُدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کےلئے تیار کر دیں۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ سے ظاہر کیا کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خُدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سِوا انسان کی اپنی رُوح کے جو اُس میں ہے؟ اِسی طرح خُدا کے رُوح کے سِوا کوئی خُدا کی باتیں نہیں جانتا" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 9-11)۔

(8) رُوح القدس ازلی ہے:

رُوح القدس تخلیق کے وقت پانیوں کی سطح پر جنبش کر رہا تھا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 1: 2)۔ کلام مُقدّس ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ "اُس کے دم سے آسمان آراستہ ہوتا ہے" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 26: 13)۔ یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح نے "اپنے آپ کو ازلی رُوح کے وسیلہ سے خُدا کے سامنے بےعیب قربان کر دیا" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 14)۔ اَور کس کو ابدی کہا جا سکتا ہے سوائے اُس کے "جو عالی اور بلند ہے اور ابدالآباد تک قائم ہے جس کا نام قدوس ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 57: 15)۔

(9) رُوح القدس کے پاس اختیار ہے:

یہ رُوح القدس تھا جس نے شاگردوں کو حکم دیا کہ "میرے لئے برنباس اور ساﺅل کو اُس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے اُن کو بلایا ہے۔ ... پس وہ رُوح القدس کے بھیجے ہوئے ... گئے" (نیا عہدنامہ، اعمال 13: 2، 4)۔ شاگردوں کے تعلق سے نئے عہدنامہ میں اعمال 16: 6، 7 میں لکھا ہے کہ "رُوح القدس نے اُنہیں آسیہ میں کلام سُنانے سے منع کیا۔ اور اُنہوں نے ... بتونیہ میں جانے کی کوشش کی مگر یسوع کے رُوح نے اُنہیں جانے نہ دیا۔" رُوح القدس کی نعمتوں کے تعلق سے بائبل مُقدّس کہتی ہے: "ایک کو رُوح کی وسیلہ سے حکمت کا کلام عنایت ہوتا ہے اور دوسرے کو اُسی رُوح کی مرضی کے موافق علمیت کا کلام۔ کسی کو اُسی رُوح سے ایمان" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 12: 8-9)۔ یہ اختیار کے کام خُدا تعالیٰ کی شخصیت کو واضح کرتے ہیں جو واحد حکیم خُدا ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 16: 27)۔

کلام مُقدّس گواہی دیتا ہے کہ جن لوگوں نے ستفنس کے ساتھ بحث کی "وہ اُس دانائی اور رُوح کا جس سے وہ کلام کرتا تھا مُقابلہ نہ کر سکے" (نیا عہدنامہ، اعمال 6: 10)۔

پرانے عہدنامہ میں حزقی ایل نبی کے صحیفہ میں لکھا ہے: "تب اُس نے مجھے فرمایا کہ نبُوّت کر۔ تُو ہوا سے نبُوّت کر اَے آدم زاد اور ہوا سے کہہ خُداوند خُدا یوں فرماتا ہے کہ اَے دم تُو چاروں طرف سے آ اور اِن مقتولوں پر پھونک کہ زندہ ہو جائیں۔ پس میں نے حکم کے مطابق نبُوّت کی اور اُن میں دم آیا اور وہ زندہ ہو کر اپنے پاﺅں پر کھڑی ہوئیں۔ ایک نہایت بڑا لشکر" (حزقی ایل 37: 9، 10)۔

(10) رُوح القدس معجزے کرتا ہے:

بائبل مُقدّس بیان کرتی ہے کہ صرف خُدا تعالیٰ ہی عجیب و غریب کام کرتا ہے (پرانا عہدنامہ، زبور 72: 18)۔ اور پولس رسول کہتا ہے کہ نشان اورمعجزے "رُوح القدس کی قدرت سے" ہوئے (نیا عہدنامہ، رومیوں 15: 19)۔

آئیے ہم خُدائے رُوح القدس کے حضور تعظیم و تکریم میں اُس کا خوف رکھتے ہوئے آئیں اور اُس سے پوچھیں کہ کیسے ہم اُس سے معمور ہو سکتے ہیں۔

ب۔ رُوح القدس سے کیسے معمور ہُوا جائے؟

رُوح القدس سے معمور ہونے کا مطلب ہے کہ مکمل طور پر رُوح القدس کی گرفت میں ہونا۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے بدن، ذہن، جذبات، وقت اور رقم پر اختیار رکھے۔ اِس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ایک ایماندار میں بسے بلکہ اِس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ ایماندار اُسے اپنی زندگی کا مکمل طور پر مالک تسلیم کرے، اور رُوح سے معمور ایک فرد کی زندگی کی سب باتوں میں اوّل درجہ رُوح القدس کو ہی ملے (نیا عہدنامہ، کلسیوں 1: 18)۔

جب ہم مسیح کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتے ہیں تو ہماری زندگی کی تجدید ہوتی ہے اور رُوح القدس ہم میں سکونت کرتا ہے اور ہمیں اپنا مقدِس بناتا ہے۔ شروع میں خُداوند کی بابت ہمارا علم محدود ہوتا ہے، لیکن پھِر ایمان کے اعتبار سے نوزاد بچوں کی مانند ہم کلام کے خالص رُوحانی دودھ کے مشتاق ہوتے ہیں تا کہ بڑھتے جائیں (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 2: 2)۔ نوزاد ایماندار ایک چھوٹے بچہ کی مانند ہوتا ہے جسے بڑھنے کےلئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور خُدا تعالیٰ کا پاک کلام ایسی خوراک فراہم کرتا ہے۔

ہماری رُوحوں کی نجات اور تجدید، مسیح کے ساتھ ہماری رفاقت کا آغاز ہے۔ تاہم، دوستی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک دوست اکھٹے رفاقت نہ رکھیں اور ایک لمبے عرصہ کےلئے ایک دوسرے سے گہرے طور پر واقف نہ ہوتے جائیں۔ ایک نوزاد ایماندار کو پہچاننا چاہئے کہ اُسے پاکیزگی عطا ہوتی ہے۔ وہ اِس پاکیزگی کی راہ کے شروع میں ہوتا ہے، اور اُسے خُدا تعالیٰ کی گہری باتوں کو جاننے کےلئے ہمیشہ بڑھنے والی روحانی معرفت اور الہٰی ذات میں شریک ہونے کی ضرورت ہوتی ہے (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 1: 4)۔ نئی پیدایش ایمانی دریا کے کنارے پر کھڑے ہونے کی طرح ہے۔ سب سے پہلے، ایماندار فضل کے دریا میں قدم رکھتا ہے، یہاں تک کہ پانی اُس کے ٹخنوں تک ہوتا ہے۔ پھِر وہ دریا میں گہرا اُترتا جاتا ہے، یہاں تک کہ پانی اُس کے گھٹنوں تک آ جاتا ہے۔ جب وہ گہرے میں پہنچتا ہے تو پانی اُس کی کمر تک آ جاتا ہے۔ جلد ہی فضل کی لہریں اُسے دریا کی مزید گہرائی میں لے جاتی ہیں جسے عبور نہیں کیا جا سکتا (دیکھئے حزقی ایل 47: 3-5)۔ لہریں ایماندار کو گہرائی میں لے کر جاتی ہیں، اور وہ فرمانبرداری میں اپنی خدمت کرتا ہے; کیونکہ خُدا تعالیٰ کی مرضی اور اُس کی اپنی مرضی دونوں اکھٹے متفق ہو جاتی ہیں۔ یہی رُوح القدس کی معموری کا سمندر یا رُوحانی معموری کا دریا ہے۔

رُوح القدس سے معموری وہ استحقاق ہے جو خُدا تعالیٰ ہر ایک ایماندار کو ودیعت کرتا ہے۔ تاہم، بہت سوں کے پاس یہ نہیں، اور وہ اِس پھلدار، کثرت کی زندگی کا خود انکار کرتے ہیں جو خُدا تعالیٰ نے اپنے اوپر ایمان لانے والے سب افراد سے وعدہ کی ہوئی ہے۔ اِس استحقاق کو حاصل کرنے میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟ وہ اِسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

(1) رُوح القدس سے معمور ہونے میں رکاوٹیں

ایک دفعہ کا ذِکر ہے کہ ایک چھوٹے گاﺅں میں ایک چھوٹے سے پمپ کی مدد سے پانی نکالا جاتا تھا جو اکثر ٹوٹ جاتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں گاﺅں کے لوگوں کو کئی مرتبہ بغیر پانی کے رہنا پڑتا۔ اِس لئے اُنہوں نے ایک نزدیکی پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک جھیل سے پانی حاصل کرنے کے بارے میں سوچا۔ اُنہوں نے اپنے ہاں پانی لانے کےلئے ایک پائپ وہاں لگایا۔ ایک دِن گاﺅں کے ایک فرد نے دیکھا کہ پائپ سے بہت تیزی سے نکلنے والا پانی بجلی بنانے کےلئے کافی تھا۔ پھِر لوگوں نے اِس قوت کو کئی فیکٹریاں چلانے کےلئے استعمال کرنا شروع کیا۔ گاﺅں ترقی کرتا گیا اور ایک بڑے قصبے کی صورت اختیار کر گیا۔ تاہم، ایک دِن اُس پائپ سے پانی آنا رُک گیا۔ فیکٹریوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور لوگوں کے پاس پینے کےلئے بھی پانی نہ بچا۔ جب اُنہوں نے اِس امر کی تحقیق کی کہ کیا ہُوا تھا تو اُنہیں پتا چلا کہ کچھ پرانے چیتھڑوں نے پائپ میں پانی کے بہاﺅ کو روک دیا تھا۔

میں سوچتا ہوں کہ کون سی ایسی چیز ہے جو آپ کو رُوح القدس سے معمور ہونے سے روکتی ہے؟ وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو زندگی بخش پانی کو آپ کے دِل تک بہنے سے روکتی ہیں؟

جو کچھ بھی ہمیں رُوح القدس سے معمور ہونے اور ہماری زندگیوں میں برکات کو آنے سے روکتا ہے اُس میں سے کچھ کا بیان ذیل میں کیا گیا ہے:

(الف) توبہ کی عدم موجودگی

رُوح القدس کو پانے کی بنیادی شرط توبہ ہے، جیسے کہ پطرس رسول نے کہا: "توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کےلئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم رُوح القدس انعام میں پاﺅ گے" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 38)۔ رُوح القدس سے ہمارے معمور نہ ہونے کی ایک وجہ کبھی کبھار یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے گناہوں کو ترک نہیں کرتے۔

کیا یہ باعث تعجب نہیں کہ کچھ لوگ زندگی کے رُوح سے معمور ہونا چاہتے ہیں، لیکن اِس کے ساتھ ہی موت سے لپٹے ہوئے ہیں؟ کیا یہ امر حیران کن نہیں کہ جو پاکیزگی کے رُوح سے معمور ہونا چاہے وہ ناپاکی سے چپکا ہو؟ زبور نویس کہتا ہے: "اگر میں بدی کو اپنے دِل میں رکھتا تو خُداوند میری نہ سُنتا" (پرانا عہدنامہ، زبور 66: 18)۔

ایک مرتبہ ایک خُدا پرست شخص نے کہا: "فرض کریں، میں آپ کے گھر آیا ہوں، اور آپ مجھے اندر آنے کےلئے کہتے ہیں، لیکن آپ دروازے کے پیچھے ایک بھاری وزن رکھ دیتے ہیں۔ میں ایسے میں کس طرح سے اندر آ سکتا ہوں؟ آپ مجھے کہہ سکتے ہیں 'مہربانی سے اندر آ جائیں'، مجھے مستقل دعوت دیتے ہیں، اور ہر قسم کے متاثر کن الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میں اندر نہیں آ سکتا کیونکہ دروازہ کے پیچھے پڑا بھاری وزن مجھ پر عملی طور پر چِلّا رہا ہوتا ہے 'اندر نہ آﺅ'۔" بالکل ایسے ہی لوگ رُوح القدس کے ساتھ برتاﺅ کرتے ہیں، جب تک آپ اپنے دِل کے دروازہ کے پیچھے اپنے گناہ کو پڑے رہنے دیں گے تب تک رُوح القدس آپ کے دِل میں سکونت کرنے کےلئے نہیں آئے گا۔

جب خُدا تعالیٰ آپ کی زندگی میں کسی ایسی چیز کی نشاندہی کرتا ہے جو اُسے پسند نہیں تو فوراً اُسے چھوڑ دیں۔ جان لیں کہ رُوح سے معمور ہونے کےلئے آپ کو ایمان میں اُس کے پاس خالی ہاتھ آنے کی ضرورت ہے۔ اپنی زندگی میں موجود ہر گناہ کو ترک کر دیں تا کہ آپ رُوح القدس سے معمور ہو سکیں۔ کیا آپ نے نہیں سُنا کہ جب تک آپ کی زندگی میں عداوت کا گناہ موجود ہے آپ کی تو نذر بھی قبول نہیں ہو سکتی؟ (اِنجیل بمطابق متی 5: 23)۔ اب اگر آپ خُدا کے حضور قربان گاہ پر اپنی زندگی نذر گزارنتے ہیں، اور وہاں آپ کو یاد آئے کہ آپ نے اپنی زندگی میں کسی خاص گناہ کو جگہ دی ہوئی ہے، تو اپنی نذر وہیں قربان گاہ کے آگے چھوڑ دیں اور پہلے جا کر اپنے بھائی سے معاملہ درست کریں۔ پھِر واپس آ کر اپنی نذر گزرانیں۔

ایک دِن خُدا کا ایک خادم ایک بڑے مذہبی راہنما سے ملا اور اُس سے شکوہ کرنے لگا کہ اگرچہ میں نے رُوح القدس کی معموری کےلئے بہت سی دُعائیں کی ہیں لیکن میں اِس سے محروم ہوں اور رُوحانی طور پر کمزور ہوں۔ تب مذہبی راہنما نے اُس خادم سے کئی سوال کئے جن سے اُسے سمجھنے میں مدد ملی کہ اُس نے اپنی زندگی میں گناہ کو جگہ دی ہوئی تھی۔ اُس خادم نے فوراً اُس گناہ کو اپنی زندگی سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور یک دم اُس کا دِل رُوح القدس سے معمور ہو گیا۔ اُسی جگہ پر ایک اَور ایماندار بھی موجود تھا جو رُوح القدس سے معمور ہونے کا متمنی تھا لیکن وہ اُس وقت تک معمور نہ ہُوا جب تک کہ اُس نے ایک خاص رقم واپس نہ لوٹائی جو اُس نے قرض کے طور پر لی تو تھی لیکن پھِر واپس نہیں کی تھی۔ تب وہ بھی رُوح سے معمور ہو گیا۔

خُدا تعالیٰ کے سامنے گھٹنوں کے بل ہو جائیں اور اُس کے حضور اپنے دِل کی خاموشی میں آئیں۔ اُس سے کہیں کہ وہ اُس گناہ کو آپ پر عیاں کرے جو آپ کی زندگی میں رُوح القدس کی معموری میں رکاوٹ ہے۔ اُسے کہیں: "اے خُدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دِل کو پہچان۔ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے، اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روِش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل" (زبور 139: 23-24)۔

اگر آپ خلوص اور صدقِ دِلی سے یہ دُعا کریں گے تو خُدا تعالیٰ آپ پر آپ کی زندگی کی ہر باطل راہ عیاں کرے گا، کیونکہ پاکیزگی کے نور سے گناہ عیاں ہو جاتا ہے۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ "یہ وہ گناہ ہے جس نے آپ کو برکت سے دُور کیا ہُوا ہے۔ اِسے چھوڑ دو۔" وہ آپ کی زندگی کے ہر گناہ کو جسے آپ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ سمجھیں نور سے عیاں کرے گا۔ خُدا تعالیٰ کے حضور اِس دُعا کو پیش کریں جو الیہو نے کی: "جو مجھے دِکھائی نہیں دیتا وہ تُو مجھے سِکھا۔ اگر میں نے بدی کی ہے تو اَب ایسا نہیں کروں گا؟" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 34: 32)۔ خُداوند کریم سے کہیں کہ جو کچھ آپ دیکھنے کے قابل نہیں تھے وہ آپ کو دِکھائے تا کہ آپ اُن کاموں کو پھِر نہ کریں۔

(ب) مقصد کا پاک نہ ہونا

رُوح القدس اُس فرد کو کبھی بھی اپنی معموری عطا نہیں کرے گا جو صرف اِس وجہ سے رُوح القدس کا متمنی ہوتا ہے کہ لوگوں میں بلند مرتبہ حاصل کرے، بہترین واعظ بن جائے، لوگوں کے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرے، ایمانداروں میں امتیازی مقام حاصل کرے یا پھِر خود غرضی پر مبنی کسی بھی مقصد کو پورا کرے۔

سو، آپ کیوں رُوح سے معمور ہونا چاہتے ہیں؟ کیا اِس میں آپ اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں یا اُس کو جلال دینا آپ کے سامنے ہے؟ مُقدّس یعقوب نے کہا: "تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لئے کہ بُری نیت سے مانگتے ہو تا کہ اپنی عیش و عشرت میں خرچ کرو" (نیا عہدنامہ، یعقوب 4: 3)۔ جب تک ایک فرد خُدا تعالیٰ کو جلال دینے کا متمنی نہیں ہو گا اُسے رُوح القدس کی معموری حاصل نہیں ہو سکتی۔

"مسح کا تیل" جو رُوح القدس کی علامت ہے، ہیکل اور اُس کے ظروف کو مسح کرنے کےلئے مخصوص تھا تا کہ وہ پاکترین رہیں۔ یہ ہارون اور اُس کے بیٹوں کو مسح کرنے، اُن کی تقدیس کرنے کےلئے بھی مخصوص تھا تا کہ وہ خُدا تعالیٰ کی خدمت کر سکیں۔ مسح کا تیل کسی اَور آدمی کے جسم پر نہیں اُنڈیلا جانا تھا (توریت شریف، خروج 30: 22-33)۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ رُوح القدس کسی بھی ایسے فرد کو جو ناپاک مقصد رکھتا ہو معمور نہیں کرتا۔ شمعون جادوگر کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جب مقصد پاک نہ ہو، تو نہ صرف رُوح القدس کی معموری نہیں ملتی بلکہ خود غرضی سے اِس کی تمنا کرنے والا نقصان اُٹھاتا ہے (نیا عہدنامہ، اعمال 8: 9-25)۔

(ج) مکمل سپردگی کا فقدان

جب ہم اپنی زندگی میں کسی ایسی چیز کو رکھے ہوتے ہیں جو مسیح کے سپرد نہ کریں تو رُوح القدس سے معمور نہیں ہوتے۔ ہر وہ چیز جو ہم اپنے لئے رکھتے ہیں اور مسیح کی سپردگی میں نہیں دیتے وہ ہمارے لئے زوال کا باعث ہو گی۔ مسیح کےلئے سپردگی کا فقدان ہمارے سامنے آنے والی تمام شکست کی وجہ ہوتی ہے۔ اِس لئے، آئیے سب کچھ اُس کے سپرد کر دیں اور کچھ بھی ہو وہ اپنے لئے نہ رکھیں۔

ایک مرتبہ ایک متقی شخص دُعا کر رہا تھا اور اپنا آپ مکمل طور پر خُداوند کے حضور سپرد کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ دُعا میں گہرے طور پر مستغرق ہو گیا تو اُس نے اپنے آپ کو گویا خواب میں دیکھا کہ اُس نے اپنے ہاتھ میں چابیوں کا ایک گُچھا پکڑا ہُوا ہے۔ اُس میں اُس کی ہر اہم چیز کی چابی موجود ہے۔ اُس نے اپنے سامنے مسیح کو بھی کھڑے دیکھا جو چابیوں کا گُچھا مانگتا ہے۔ اُس آدمی نے چابیوں کے گُچھے میں سے ایک چھوٹی چابی نکالی اور باقی چابیاں مسیح کو دے دیں۔ لیکن اُسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ مسیح نے چابیوں کا گُچھا لینے سے انکار کر دیا۔ اور مسیح نے چابیوں کا وہ گُچھا تبھی لیا جب اُس شخص نے بڑی چابیوں کے ساتھ وہ چھوٹی چابی بھی دی۔ اُسی لمحے اُس شخص کا دِل خوشی سے بھر گیا کیونکہ رُوح القدس نے اُسے معموری بخشی تھی۔

"پس اے بھائیو! میں خُدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کےلئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خُدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 1)۔ مسیح آپ کی سپردگی کے نذرانے کو اُس وقت تک قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی رُوح القدس کی پاک کرنے والی آگ اُس پر اُس وقت تک نازل ہو گی، جب تک کہ قربانی پوری طرح سے پیش نہ کی جائے۔ اپنی زندگی کی چابیاں مسیح کے سپرد کر دیں: وقت کی چابی، نعمتوں کی چابی، خیالات کی چابی۔ اُسے سب کچھ دے دیں، اور تب آپ رُوح القدس سے معمور ہو جائیں گے۔

(د) ایمانی کیفیت سے بے بہری

مسیح کے شاگرد یروشلیم میں جمع ہوئے اور رُوح القدس کے نازل ہونے کے مسیح کے وعدہ کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کب اور کیسے یہ وعدہ پورا ہونا تھا، تاہم اُنہیں اِس بات کا یقین تھا کہ یہ پورا ہو گا۔ اُس موقع پر اُنہیں اپنے ایمان کےلئے یروشلیم میں انتظار نہیں کرنا تھا۔

بہت سے لوگ ایمان کو جذبات کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ وہ واضح محسوس کئے جانے والے احساسات اور علامات کا انتظار کرتے ہیں کہ اُن سے اُنہیں خُدا کے رُوح کی معموری کی تسلی ملے۔ ایمان کے تعلق سے اِس غلط فہمی نے بہت سے لوگوں کو رُوح کی معموری کے حتمی مقصد تک پہنچنے سے دُور رکھا ہُوا ہے۔ ہم جذبات سے نہیں، بلکہ خُدا تعالیٰ کے واضح وعدوں پر ایمان لانے سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایک ایماندار خُدا کے وعدوں پر ایمان نہ لانے کے بارے میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ خُدا رُوح ناپ ناپ کر نہیں دیتا (اِنجیل بمطابق یوحنا 3: 34)، اور اُس نے اُن سب کو رُوح القدس دینے کا وعدہ کیا ہے جو فرمانبرداری میں اِس کےلئے دُعا کرتے ہیں (اِنجیل بمطابق لوقا 11: 13; اعمال 5: 32)۔ اگر آپ نے سب کچھ خُدا تعالیٰ کی سپردگی میں دے دیا ہے تو آپ خُدا کے وعدے پر ایمان لا سکتے ہیں اور بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ آپ رُوح سے معمور ہیں اگرچہ کہ آپ میں کوئی جسمانی یا جذباتی احساسات نہ بھی ہوں۔ آپ کے اب تک رُوح القدس سے معمور نہ ہونے کی شاید وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے احساسات اور جذبات پر بھروسا کرتے ہیں جبکہ آپ کو آنکھوں دیکھے پر نہیں بلکہ ایمان پر چلنا چاہئے (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 5: 7)۔

ایک خاتون اپنی کلیسیا کے پاسبان کے پاس آئی اور اُس سے شکوہ کرنے لگی کہ رُوح القدس کی معموری کےلئے اُس کی دُعاﺅں کا جواب نہیں ملا۔ پاسبان نے اُس کے ہاں آنے اور اِس بارے میں بات کرنے کا وعدہ کیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ اُس سے ملنے اُس کے گھر گیا۔ خاتون نے چائے بنائی اور پاسبان نے اُس سے چائے کی ایک پیالی مانگی۔ خاتون نے چائے کی پیالی اُس کے آگے رکھ دی لیکن اُس نے اُسے نہیں پکڑا۔ اُس نے پھِر چائے کی پیالی مانگی، اور اِس بات کو دُہراتا رہا یہاں تک وہ خاتون پریشان ہو گئی۔ جب بھی اُس نے چائے مانگی، خاتون نے اُس کے آگے چائے کی پیالی رکھی لیکن اُس نے اُسے پکڑنے کےلئے اپنے ہاتھ نہیں بڑھائے۔ اُس خاتون کو اِس رویہ کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ پاسبان نے پہلے کبھی بھی اِس طرح سے برتاﺅ نہیں کیا تھا۔ تب پاسبان نے اُس خاتون کو سمجھایا کہ اُس نے بالکل اِسی طرح سے خُدا کے ساتھ برتاﺅ کیا تھا۔ اُس نے خُداوند تعالیٰ کے حضور درخواست کی تھی، اور جو کچھ اُس نے مانگا تھا خُداوند نے اُسے دیا، لیکن اُس نے کبھی ایمان میں آگے بڑھ کر اُسے نہیں پکڑا۔ وہ بس اپنی درخواست دُہراتی رہی تھی۔

خُداوند رُوح القدس کی معموری ہر اُس فرد کو عطا کرتا ہے جو اُس سے اِس کےلئے درخواست کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے فرزندوں کو مضبوط اور فتحمند بنانا چاہتا ہے۔ اِس لئے بےاعتقاد نہ ہوں، بلکہ ایمان لائیں۔ اگر آپ نے اپنے پورے دِل سے خُداوند کی فرمانبرداری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو رُوح القدس کی نعمت کو پانے کےلئے ایمان میں اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں۔

ایک چھوٹی لڑکی نے اپنے دادا سے ایک خاص ٹافی مانگی جو اُسے بہت پسند تھی۔ جو کچھ اُس نے مانگا اُس کے دادا نے اُسے لا کر دینے کا وعدہ کیا۔ اگلے دِن صبح سویرے اُس کے دادا اپنی گاڑی باہر لے کر گئے تا کہ کچھ ضروری کام کر سکیں۔ جب اُس کے دادا نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ نکلا جس پر شکستہ تحریر درج تھی۔ لکھا تھا: "دادا ابو، میں ٹافی لانے کےلئے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔" اُس چھوٹی لڑکی کا اپنے دادا کے وعدے پر بھروسا بہت بڑا تھا۔ آپ بھی خُدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایسا ہی بڑا بھروسا رکھیں۔

(ہ) رُوح القدس سے معموری کو دیگر درخواستوں کے ساتھ منسلک کرنا

کچھ لوگ رُوح القدس سے معمور ہونے کےلئے بعض شرائط عائد کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تصور کرتے ہیں کہ جب وہ رُوح سے معمور ہو جائیں گے تو جیسے مُقدّس پطرس پانی پر چلا تھا وہ بھی ویسے ہی پانی پر چلنے لگیں گے۔ جبکہ کچھ اپنے تصورات میں اِس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ سوچتے ہیں کہ جیسے حنوک اور ایلیاہ اُوپر اُٹھا لئے گئے تھے، رُوح سے معمور ہونے کے بعد وہ فضا میں بلند ہو جائیں گے۔ کچھ خُدا تعالیٰ سے رُوح القدس کی معموری اِس شرط پر مانگتے ہیں کہ وہ زُبانوں میں بولیں، ورنہ وہ اپنے آپ کو رُوح سے معمور نہیں سمجھیں گے۔ جو زُبانوں میں بولتے ہیں اور جو نہیں بولتے اُن سے میرا یہ سادہ سا سوال ہے "وہ سب جو رُوح القدس سے بھر گئے تھے، کیا اُن کےلئے زُبانوں میں بولنا لازمی تھا؟" نہیں، ایسا نہیں ہے۔ کچھ بولے اور دوسرے نہ بولے۔ ہمارے خُداوند یسوع نے اگرچہ خُدا کے بارے میں گہری باتیں بتائیں لیکن غیر زُبانیں نہیں بولیں۔ جب رسولوں نے دُعا مانگی تو جس جگہ وہ جمع تھے ہل گئی، اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے، اور دلیری کے ساتھ خُدا کا کلام سُنانے لگے، تاہم یہ نہیں لکھا کہ وہ زُبانوں میں بولے (نیا عہدنامہ، اعمال 4: 31)۔ جب حننیاہ نے ساﺅل پر اپنے ہاتھ رکھے کہ اُس کی بینائی پھِر سے لوٹ آئے اور وہ رُوح القدس سے بھر جائے تو وہ بینا ہو گیا۔ تب اُس نے بپتسمہ لیا اور کھانا کھایا۔ تاہم، یہ ذِکر نہیں ہے کہ وہ زُبانوں میں بولا (نیا عہدنامہ، اعمال 9: 17)۔

رُوح القدس ایمانداروں کو کئی طرح کی مافوق الفطرت نعمتیں اور خدمتیں عطا کرتا ہے۔ رُوح القدس ایک ایماندار کو جو کچھ دینا چاہے وہ دیتا ہے۔ کوئی بھی ایسا ایماندار نہیں جس کے پاس تمام نعمتیں ہوں، اور اِسی طرح نہ کوئی ایسا ایماندار ہے جس کے پاس کوئی نعمت بھی نہ ہو۔ اِن میں سے کچھ کا تعلق سماجی اور انتظامی خدمات سے ہے (رومیوں 12: 8; 1- کرنتھیوں 12: 28)، کچھ تعلیمی اور تنظیمی نعمتیں ہیں (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 11)، جبکہ کچھ رُوحانی ہیں۔ اِن کے علاوہ خُدا تعالیٰ نے سب کو فطری نعمتیں بھی عطا کی ہیں۔ ہمیں اِن نعمتوں کو بغیر کسی غرور اور خود غرضی کے استعمال کرنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی خاص نعمت ہو جو کسی اَور کی ضرورت ہو اور اُس کے پاس نہ ہو، یا پھِر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے بھائی کی ضرورت ہو کہ وہ اپنی نعمت سے جو آپ کے پاس نہیں آپ کی خدمت کرے۔ یوں ہم نعمتوں کے ذریعے ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہیں، اور ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے۔

خُداوند کے آگے شرائط رکھنے سے یا پھِر رُوح القدس سے معمور ہونے کے نشان کے طور پر خاص نعمتوں کو پانے کی خواہش رکھنے سے آپ رُوح القدس کے نزول میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اگر آپ ایک افسر کی طرح برتاﺅ کرتے ہیں اور اُسے اپنا خادم بناتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو بہت سی برکات سے محروم کر دیں گے۔

(و) عدم محبت

محبت اور فرمانبرداری کی زندگی رُوح القدس سے معمور ہونے کی شرط ہے۔ مسیح نے فرمایا: "اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 15)۔ جان ویسلی نے کہا: کامل پاکیزگی خُدا تعالیٰ، ایمانداروں اور گنہگاروں سے کامل محبت رکھنا ہے۔" ایک انسان سے محبت نہ رکھنا رُوح القدس کی معموری سے انکار کرنا ہے۔ غور کیجئے کہ محبت کا کامل ہونا بہت ضروری ہے، اور اُن سے بھی محبت رکھنی ہے جو آپ پر تنقید کرتے ہیں، بُرا بھلا کہتے ہیں اور آپ کی ساکھ کو خراب کرتے ہیں۔ کیا آپ میں ایسی محبت ہے؟ کیا آپ ایسی محبت رکھنے کےلئے تیار ہیں؟

اگر آپ لوگوں کو اُن کے قصور معاف نہیں کرتے، تو خُدا تعالیٰ آپ کو معاف نہیں کرے گا۔ مسیح نے دُعائے ربانی سکھانے کے بعد ہمیں اِس سچائی کے بارے میں سکھایا ہے (اِنجیل بمطابق متی 6: 14، 15)۔ محبت رُوح کے پھل میں سب سے پہلے ہے۔ جو لوگ آپ کو ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں اُن کے ساتھ آپ کی کینہ پروری آپ میں ایمان کی غیر موجودگی کو ثابت کرتی ہے۔ اُن کے ساتھ آپ کی نفرت ثابت کرتی ہے کہ آپ مسیح کے رُوح سے بہت دُور ہیں جس نے اپنے مصلوب کرنے والوں کےلئے دُعا کی کہ "اے باپ! اِن کو معاف کر" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)۔

خُداوند آپ کو ایک ایماندار کے طور پر دیکھتا ہے جو موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے، اِس لئے نہیں کہ آپ گناہ نہیں کرتے، کیونکہ کوئی بھی گناہ سے مبرا نہیں، بلکہ اِس لئے کہ آپ بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 3: 14)۔ محبت ہی خوشخبری ہے۔ یہ شریعت کی تعمیل ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 13: 10)۔ اور خُدا خود بھی محبت ہے (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 8، 16)۔

اب اپنے اندر جھانکئے اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں: کون سی چیز آپ کے رُوح القدس سے معمور ہونے میں رکاوٹ ہے؟

(2) رُوح القدس سے معمور ہونے کا طریقہ

رُوحانی معموری سب کےلئے ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ اِسے نظرانداز کرتے ہیں، تاہم یہ رُوحانی زندگی کے نغمہ میں اونچا سُر ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص بیتھوفن صوتی نغمہ کو لکھنے میں مصروف تھا کہ اُس نے غور کیا کہ ایک سُر بہت ہی اونچا تھا۔ اُس نے سوچا کہ یہ غلط ہے اور اُس نے اُسے محفوظ نہ کیا۔ نغمے کی ترتیب پر کام ختم کرنے کے بعد اُس نے نغمہ کے سُر بکھیرنے شروع کئے، لیکن پھِر اُسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اُس اونچے سُر کے بغیر نغمہ مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ اِسی طرح رُوحانی زندگی کا نغمہ رُوح القدس کی معموری کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتا۔ اِس لئے ایک رُوحانی شخص نے کہا: "ہمیں کس قدر خُدا کا شکر کرنے کی ضرورت ہے کہ رُوح کی معموری سب کےلئے ہے، کیونکہ اِس کے بغیر ہم فتحمند زندگی بسر نہیں کر سکتے!"

آپ کو رُوح القدس سے معمور ہونے کا حق حاصل ہے، مزید برآں اِس سے معمور ہونا آپ کا فرض ہے۔ مسیح نے رُوح کی معموری کےلئے جتنی اپنے شاگردوں کےلئے دُعا کی ہے اُتنی ہی آپ کےلئے بھی دُعا کی ہے۔ شاگردوں نے وعدے کو حاصل کیا، تو آپ کیوں اِسے حاصل نہیں کریں گے؟ جو ایماندار رُوح القدس کی معموری حاصل نہیں کرتے وہ "یتیم" ہیں (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 18)۔ آپ ایک یتیم کیوں رہیں جبکہ رُوح القدس آپ کو معمور کرنے کےلئے تیار ہے؟

بائبل مُقدّس رُوح القدس کی پہلی معموری کو "بپتسمہ" کہتی ہے، اور اِس کے بعد کے وقتوں کو رُوح سے بھرنا کہتی ہے۔ اِس کا ذِکر ہمیں اِن حوالہ جات میں ملتا ہے: اعمال 1: 5 ; 2: 17-21 ; 11: 16، 17۔ اِس بپتسمہ کے بعد ہم رُوح القدس سے کئی بار بھرنا دیکھتے ہیں۔ مثلاً پطرس اور پولس اپنے بپتسمہ کے بعد کئی مرتبہ رُوح القدس سے بھر گئے۔

اور اَب کیا آپ رُوح القدس سے بپتسمہ پا چکے ہیں؟ کیا آپ نے رُوح کی قوت کو حاصل کیا ہے؟ اُس لڑکی کی طرح مت بنیں جس نے کرسمس کے تحائف دیکھے اور اپنے بھائی سے کہا "یہ ہمارے لئے نہیں ہیں۔ یہ بہت مہنگے ہیں۔" بلکہ اِس کے برعکس ایمان میں قدم بڑھائیں اور کہیں "ہاں، میں اپنی میراث پانے کےلئے تیار ہوں۔"

انسان نے رُوح القدس سے معمور ہونے کے تعلق سے کئی شرائط عائد کر دی ہیں جو کسی بھی طالبِ سچائی کو اُلجھاتی ہیں اور اُس کے سامنے راہ کو غیر واضح کرتی ہیں۔ تاہم، بائبل مُقدّس میں اِس کےلئے صرف دو شرائط موجود ہیں: فرمانبرداری اور ایمان۔

(الف) پہلی شرط: فرمانبرداری

پطرس رسول نے کہا: " ... رُوح القدس بھی جسے خُدا نے اُنہیں بخشا ہے جو اُس کا حکم مانتے ہیں" (اعمال 5: 32)۔ محبت کا حقیقی ثبوت فرمانبرداری ہے، جو مجبوری کی بنا پر نہیں بلکہ محبت کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ فرمانبرداری کا مطلب ہے اپنی مرضی کو خُدا تعالیٰ کےلئے وقف کر دینا اور اپنا سب کچھ اُس کی سپردگی میں دے دینا۔

ایک ایماندار کے طور پر خُدا کے حضور اپنا آپ وقف کرنا آپ پر واجب ہے۔ جب آپ رضاکارانہ طور پر اپنا آپ اُس کے حضور نذر کریں گے تو وہ آپ کے نذرانے کو قبول کرے گا۔ سچائی یہ ہے آپ اپنے نہیں ہیں بلکہ مسیح کے ہیں۔ خلق کئے جانے کے اعتبار سے آپ اُس کے ہیں، کیونکہ وہ آپ کا خالق ہے: "سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہُوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی" (اِنجیل بمطابق یوحنا 1: 3)۔ خریدے جانے کے اعتبار سے بھی آپ اُس کے ہیں، کیونکہ اُس نے اپنے قیمتی خون سے آپ کی مخلصی کا انتظام کیا ہے۔ اِس تعلق سے مُقدّس پولس رسول کہتا ہے کہ تم "قیمت سے خریدے گئے ہو" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 6: 20)۔ آپ پروردگاری کے اعتبار سے اُس کے ہیں، کیونکہ اُس نے آپ کی سب ضرورتیں پوری کی ہیں۔ اِسی لئے آپ کہتے ہیں کہ "خُداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی" (پرانا عہدنامہ، زبور 23: 1)۔ آپ اُس کے ہیں کیونکہ باپ نے آپ کو اُس کے سپرد کر دیا ہے۔ اِس تعلق سے مسیح نے باپ سے ہمارے بارے میں کہا: "جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 17: 9)۔

یہ تصور اِس سچی کہانی میں بھی موجود ہے۔ ایک لڑکے نے ایک چھوٹی کشتی بنائی اور اُس کے ساتھ کھیلنے کےلئے اپنے گھر سے جھیل کی طرف گیا۔ تاہم، کشتی پانی میں ڈوب گئی۔ لڑکے کو اِس پر بڑا افسوس ہُوا۔ ایک دِن جب وہ قصبے میں سے گزر رہا تھا تو اُسے اپنی کشتی ایک دُکان میں فروخت کےلئے رکھی ہوئی نظر آئی۔ اُس نے دُکان میں جا کر دُکاندار سے اُس کشتی کا تقاضا کیا۔ بےشک اُس دُکاندار نے وہ کشتی اُسے خریدے بغیرنہیں دینی تھی۔ اِس لئے اُس لڑکے نے خوب محنت کی اور کچھ پیسے جمع کئے اور کشتی کو خرید لیا۔ جب وہ کشتی اُسے مل گئی تو اُس نے اُسے اپنے بازوﺅں میں پکڑ کر گلے لگا لیا اور کہنے لگا "میری پیاری کشتی، تم دو طرح سے میری ہو۔ ایک میں نے تمہیں بنایا، اور دوسرا تمہیں خرید لیا۔" مسیح آپ کو بلاتا اور کہتا ہے: "تم چار طرح سے میرے ہو۔ ایک میں نے تمہیں بنایا، دوسرا تمہیں خرید لیا، تیسرا میں نے تمہارا خیال رکھا، اور پھِر باپ نے تمہیں میرے سپرد کیا ہے۔"

سو، آپ قانونی طور پر مسیح کے ہیں، اور جب آپ اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر اُس کے سپرد کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ "میں تیرا ہوں، مجھے اپنا بنا لے" تو آپ اُس کے بن جاتے ہیں۔ ہاں، آپ قانونی طور پر مسیح کے ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنا آپ اُس کے سپرد نہ کیا ہو۔ رُوح القدس سے معمور ہونے کےلئے آپ کو فرمانبرداری میں اُس کے پاس آنے کی ضرورت ہے اور جو کچھ آپ کرتے ہیں یا ہیں اُسے اُس کے سپرد کر دیں۔

تاہم، بہت سے لوگ اپنی زندگی مکمل طور پر مسیح کے سپرد کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ اُن سے مشکل کام کرنے کا تقاضا نہ کر دے یا کوئی دشوار کام اُن کے سپرد نہ کر دے۔ لیکن زبور نویس کہتا ہے کہ "اپنی راہ خُداوند پر چھوڑ دے اور اُس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔ وہ تیری راستبازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 37: 5، 6)۔ رُوح القدس سے معمور ہونے کی متمنی ایک خاتون کو ایسا ہی مسئلہ درپیش تھا۔ وہ اپنی زندگی خُداوند کی سپردگی میں دینے سے خوفزدہ تھی۔ اُس کے پاسبان نے اُسے کہا: "فرض کریں آپ کا بیٹا آپ کے گلے لگ کر دیانتداری سے کہے کہ جو کچھ آپ اُسے کرنے کےلئے کہیں گی وہ کرے گا۔ کیا آپ اُسے صحرا میں بھیجنے یا سخت ترین کام کروانے کے بارے میں سوچیں گی؟" اُس وقت اُس عورت کو احساس ہُوا کہ جتنی محبت وہ اپنے بیٹے سے کرتی ہے خُدا اُس سے زیادہ محبت اُس سے رکھتا ہے۔ تب اُس عورت نے بغیر کسی خوف کے، خوشی کے ساتھ اپنی زندگی مکمل طور پر خُداوند کی سپردگی میں دے دی۔

جب ہم اپنی زندگی خُدا کےلئے وقف کر دیتے ہیں تو کس قدر عظیم برکات ہمیں ملتی ہیں! سب سے بڑی برکت رُوح القدس کی معموری ہے۔ اِس کا تجربہ کرنے کا طریقہ مسیح کے پاس آنا اور اُس کے چھلکتے ہوئے چشمہ میں سے پینا ہے تا کہ ہم معمور ہو جائیں اور زندگی کے پانی کی ندیاں ہم میں سے جاری ہوں (اِنجیل بمطابق یوحنا 7: 38)۔ ٹیگور ہندوستان میں بنگال کے علاقے کا ایک شاعر تھا، اُس نے ایک نظم لکھی جس میں اُس نے کہا کہ ایک بھکاری ایک شاہراہ پر گزرنے والے مسافروں سے بھیک مانگا کرتا تھا۔ ایک دِن اُس نے شاہی قافلہ گزرتے دیکھا۔ وہ بادشاہ کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اُسے کوئی بڑا تحفہ دے گا۔ اُس کے پاس سے گزرتے ہوئے شاہی قافلہ رُک گیا۔ بادشاہ بھکاری کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ جو کچھ بھی اُس کے پاس ہے وہ اُسے دے دے۔ وہ بھکاری بہت حیران ہُوا اور اُس نے اُسی حیرانی میں اپنی جیب میں سے گندم کے کچھ دانے نکال کر بادشاہ کو دے دیئے۔ بادشاہ نے وہ دانے لے کر اپنے وزیر کو دے دیئے اور اُسے کہا کہ وہ گندم کے دانوں کے وزن کے برابر بھکاری کو سونا دے دے۔ تب بھکاری غمزدہ ہو کر پکار اُٹھا "کاش کہ میں نے اُسے اپنی تمام گندم دے دی ہوتی!" وہ اپنا موقع کھو چکا تھا۔

جب بادشاہوں کا بادشاہ آپ کو سب کچھ اپنے سپرد کرنے کےلئے کہتا ہے، تو وہ آپ کو سونے سے بھی بہتر چیز بدلے میں دے گا۔ وہ آپ کو رُوح القدس کی معموری عطا کرے گا۔ حیل و حجت نہ کریں، بلکہ رُوح القدس سے معمور ہونے کےلئے سب کچھ فوراً اُس کے سپرد کر دیں۔

کیا آپ اِس دُعا کو دہرا سکتے ہیں؟ "اے خُداوند، مجھے اپنا خادم بنا، کیونکہ تبھی میں آزاد ہوں گا۔ بخش کہ میں اپنی تلوار تیرے سپرد کر دوں تا کہ فتحمند ٹھہروں۔ سرفرازی حاصل کرنے کےلئے مجھے اپنے تاج کو تیرے قدموں میں رکھنا ہے، اور فتحمندی میں اپنا سر اوپر اُٹھانے کےلئے مجھے تیرے سامنے جھکنا ہے۔"

احیائے دین کے تعلق سے ایک اہم نام جوناتھن ایڈورڈز کا ہے، اُس نے اپنی یادداشتوں میں جب وہ طالب علم ہی تھا یہ لکھا: "آج میں نے جو کچھ مجھ میں ہے خداوند کو دے دیا ہے، اپنا سب کچھ اُس کے سپرد کر دیا ہے۔ میں اپنا نہیں ہوں، کیونکہ میرا اپنے بدن پر کوئی حق نہیں۔ میں نے اپنی تمام مضبوطی خُداوند کے سپرد کر دی ہے۔ میں اب یا مستقبل میں اپنے لئے کسی بھی حق کو نہیں مانگوں گا۔"

زبور نویس کے ساتھ خُداوند کےلئے گائیں: "اے خُدا! تُو میرا بادشاہ ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 44: 4)۔ غزل الغزلات کی دُلہن کے ساتھ گائیں: "میرا محبوب میرا ہے اور میں اُس کی ہوں" (پرانا عہدنامہ، غزل الغزلات 2: 16)۔ رسول کے ساتھ کہیں: "خُدا جس کا میں ہوں اور جس کی عبادت بھی کرتا ہوں" (نیا عہدنامہ، اعمال 27: 23)۔ اُس مردِ خُدا کے ساتھ کہیں جس نے کہا "اے خُدا، میرا ہو، اور بخش کہ میں تیرا رہوں۔ میرے پاس نہ چاندی ہے اور نہ سونا۔ میرے پاس صرف اپنی زندگی ہے۔ اے خُدا، اُسے اپنی سپردگی میں لے۔"

فرانسس ریڈلے ہیورگیل ایک کتاب پڑھ رہی تھی جس کا عنوان تھا "سب کچھ مسیح کا ہے"، تب اُس نے اپنی زندگی کے تعلق سے مسیح کے تصرُّف کے بھید کو جانا اور اپنی زندگی مسیح کی سپردگی میں دینے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اُس نے اپنی زندگی مکمل طور پر خُداوند کی سپردگی میں دے دی۔ اُس کی بہن نے اُس کے بارے میں لکھا: "اِس تجربہ کے مقابلہ میں اُس کے پرانے تمام تجربے ماند ہونے والی موم بتی کی مانند تھے، لیکن اُس کا یہ تجربہ سورج کی طرح چمک کا حامل تھا۔" ہیورگیل نے یہ پُرجوش مذہبی گیت تحریر کیا:

میری زندگی تُو لے

اِس کی تقدیس کر دے

لے تُو میرے سب اوقات

تیری حمد ہو دِن اور رات

کر قبول اِن ہاتھوں کو

اِن سے تیری خدمت ہو

پاﺅں کر تُو تابعدار

اپنے کام میں تیز رفتار

میرے کانوں کو تُو کھول

تا میں سُنوں تیرے بول

میرے ہونٹ قبول فرما

اِن سے اپنی حمد کروا

دَھن اور دولت جتنی ہو

سب کچھ دیتا ہوں تُجھ کو

سب دماغی قوتیں

لے تُو اپنی خدمت میں

مرضی بھی میں دیتا ہوں

تیرے تابع کرتا ہوں

لے تُو میرا دِل مسکین

اِس میں ہو تُو تخت نشین

اپنے دِل کا سارا پیار

تجھ پر کرتا ہوں نثار

مجھ کو لے تُو سر تا پا

تیرا ہی میں ہوں سدا

اب آئیں اور اپنی تمام زندگی اُس کی سپردگی میں دے دیں: اپنا وقت، ہاتھ، پاﺅں، آواز، ہونٹ، مرضی، پیسہ، ذہانت، جذبات، نفس اور سب کچھ، تب آپ رُوح القدس سے معمور ہو جائیں گے۔

(ب) دوسری شرط: ایمان

پولس رسول نے کہا: "تا کہ ... ہم ایمان کے وسیلہ سے اُس رُوح کو حاصل کریں" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 14)۔

اپنا آپ مکمل طور پر خُداوند کے سپرد کرنے کے بعد، اور اپنے پورے دِل سے اُس کی فرمانبرداری کرنے کے عزم کے ساتھ، ایمان میں دُعا مانگیں اور رُوح القدس سے کہیں کہ وہ آپ کے دِل کو معمور کرے۔ مسیح نے فرمایا: "پس جب تم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوح القدس کیوں نہ دے گا؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 11: 13)۔ شاگرد جب بالا خانہ میں رُوح القدس کے نزول کےلئے دُعا کر رہے تھے تو رُوح القدس اُن پر نازل ہُوا۔ سو، اَب خُدا تعالیٰ سے دُعا کریں کہ اُس کی آگ جس کا اُس نے وعدہ کیا ہے، اُس سوختنی قربانی پر آئے جو آپ اُس کے پاک مذبح پر نذر کرتے ہیں، تا کہ آپ رُوح القدس اور آگ سے بپتسمہ پا سکیں (اِنجیل بمطابق متی 3: 11)۔ بھروسا رکھیں کہ خُدا تعالیٰ نے آپ کو معمور کرنے کےلئے رُوح القدس بھیج دیا ہے تا کہ آپ ایمان کے ذریعے رُوح کے وعدے کو حاصل کر سکیں۔ مسیح کہتا ہے کہ جو کوئی بھی اُس پر ایمان لائے گا اُس کے اندر سے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی، جو کہ رُوح القدس ہے (اِنجیل بمطابق یوحنا 7: 37-39)۔

جب آپ دُعا کریں تو یہ مت کہیں "اگر تُو مجھے بھرنا چاہتا ہے"، کیونکہ وہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس آپ دُعا کریں "اے میرے بادشاہ، مجھے اپنے رُوح سے بھر۔" اِس بات کو جانیں اور بھروسا رکھیں کہ وہ فوراً رُوح القدس سے بھرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کچھ محسوس نہ کریں، لیکن خوفزدہ نہ ہوں، کیونکہ احساس کا معاملہ نہیں ہے بلکہ الہٰی وعدوں کا معاملہ ہے۔ احساسات آپ کو دھوکا دے سکتے ہیں کیونکہ اُن کا تعلق جسم سے ہے، اور ہم جسم کے مطابق نہیں چلتے۔ دُنیا کے تمام احساسات خُدا تعالیٰ کے کلام کو بدل نہیں سکتے۔ جب خُدا ایک ایماندار پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ روح القدس سے معمور ہو گا، تو اُسے اپنے احساسات سے ہٹ کر یقین کرنا ہے کہ وہ رُوح القدس سے بھرا ہے۔

آپ یہ دُعا بھی کر سکتے ہیں:

"اے پیارے باپ، میرے مالک اور بادشاہ، میری جان و بدن اور سب کچھ جو میرا ہے اُس کے صاحبِ سُلطان، میں اپنا سب کچھ تیرے قدموں میں رکھ دیتا ہوں۔ مجھے اپنا بنا، تا کہ میں اپنی زندگی کے تمام ایام میں تیرا رہوں۔ جب میں تیرے حضور دُعا کرتا ہوں تو تُو اپنے مبارک وعدے کے مطابق رُوح القدس مجھ پر نازل کر اور مجھے اُس میں بپتسمہ دے۔ اور میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تُو نے میرے لئے اپنے وعدے کو پورا کیا، اور میں اَب رُوح القدس سے معمور ہوتے ہوئے شادمان ہو سکتا ہوں۔ میری دُعا کو یسوع کے نام میں قبول کر۔ آمین!"

اَب جبکہ آپ رُوح القدس سے معمور ہو چکے ہیں، تو ہر روز آپ اِس بات کا زیادہ سے زیادہ تجربہ کریں گے کہ رُوح القدس الہٰی ذات ہے جو آپ کے اندر بستا ہے۔ رُوح القدس کی معموری کا مطلب ہے کہ یہ تسلی بخش چشمہ آپ کی زندگی کے تمام پہلوﺅں کو اپنے اختیار میں رکھنے کےلئے جاری و ساری ہے۔ سو، اگر رُوح کے ذریعے نئی پیدایش آپ میں مسیح کی زندگی کا آغاز ہے، تو رُوح کی معموری آپ میں اِس زندگی کا مسلسل بہاﺅ ہے جب تک کہ مسیح آپ میں صورت نہ پکڑ لے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 19)۔ آپ رُوح کے مطابق چلیں گے تو رُوح کا پھل آپ میں بڑھتا جائے گا، اور پھِر آپ اپنے آپ میں رُوح القدس کے جاری رہنے والے کام کے ذریعے فاتحانہ طور پر ایمانی سفر کو جاری رکھیں گے۔

4- حصہ سوم: رُوح القدس کا پھل

الف۔ تعارف

"مگر رُوح کا پھل محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمان داری، حلم، پرہیزگاری ہے۔" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 22، 23)

مسیح کے جی اُٹھنے کے پچاس دِن بعد شاگردوں پر رُوح القدس نازل ہُوا، اور اُنہیں قوت اور دلیری سے معمور کر دیا۔ اُن کی زندگیاں مکمل طور پر بدل گئیں اور اُن کے تعلق سے سب کچھ نیا ہو گیا۔ پینتِکوست سے پہلے اور بعد میں کتنا فرق ہے! اگر آپ رُوح القدس کو اپنی زندگی کا مکمل اختیار لینے دیں گے تو آپ کی زندگی میں بھی ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔

کیا آپ اِس وقت اپنی رُوحانی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں؟ کیا آپ رُوحانی طور پر رفعت حاصل کرنے کے متمنی ہیں؟ کیا آپ بہتری کےلئے تبدیل ہونا چاہتے ہیں؟ کیا آپ مسیح کی خدمت کےلئے مزید فائدہ مند بننا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی زندگی کے تعلق سے خُداوند کی توقع کو پورا کرنا چاہتے ہیں؟

یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب آپ اپنے آپ پر رُوح القدس کے تصرُّف میں حائل رکاوٹوں کو دُور کریں گے، اور پھِر اپنا دِل کھولیں گے کہ وہ آپ کو معمور کرے۔ کیونکہ تب خُدا تعالیٰ آپ کےلئے اپنے وعدے کو پورا کرے گا: "لیکن جب رُوح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاﺅ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے" (نیا عہدنامہ، اعمال 1: 8)۔ مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اُس کی قیامت اور آسمان پر صعود کے بعد وہ اُنہیں یتیم نہیں چھوڑے گا: "اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ یعنی رُوحِ حق جسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ ... میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ میں تمہارے پاس آﺅں گا۔ ... لیکن مددگار یعنی رُوح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دِلائے گا۔ ... لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی رُوحِ حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 16-18، 26 ; 15: 26، 27)۔

1- ایک پھل

پولس رسول ہمارے سامنے نو پھلوں کو پیش کرتا ہے، جنہیں وہ ایک پھل کے طور پر بیان کرتا ہے۔ صیغہ واحد کا استعمال یگانگی اور یک رنگی کا اظہار ہے۔ کچھ مسیحی مفسرین نے اِن نو خوبیوں کو ایک خوشہ کے ساتھ لٹکے ہوئے نو انگوروں، یا ایک مالا میں پروئے ہوئے نو جگمگاتے موتیوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ غالباً اُنہوں نے مسیح کے اِن الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِس واحد استعمال کی تشریح کی: "انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تا کہ زیادہ پھل لائے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 15: 1-2)۔ مسیح چاہتا ہے کہ ہم بہت سا پھل لائیں اور ہمارا پھل قائم رہے۔ جتنا زیادہ ہم مسیح میں قائم رہتے ہیں اُتنا ہی رُوح القدس ہمیں اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور ہمارے دِلوں پر سکونت کرتا ہے کہ ہم اِس ایک ہم نوع پھل کو زیادہ سے زیادہ پیدا کریں۔

اَب ہم رُوح کے پھل پر گیان دھیان کریں گے جس کا تذکرہ پولس رسول نے یوں کیا ہے: "مگر رُوح کا پھل محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمان داری، حلم، پرہیزگاری ہے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 22، 23)۔ یہ نو خوبیاں فطری طور پر تین حصوں میں منقسم ہیں:

انسان کا خُدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق: محبت، خوشی، اطمینان

انسان کا اپنے دیگر انسانوں کے ساتھ تعلق: تحمل، مہربانی، نیکی

انسان کا اپنا آپ کے ساتھ تعلق: ایمانداری، حلم، پرہیزگاری

اگر ہم رُوح القدس کو اپنی زندگی کا اختیار دیں گے تو خُدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق محبت، خوشی اور اطمینان سے بھر جائے گا۔ دوسروں کے ساتھ ہمارا تعلق تحمل، مہربانی اور نیکی کی وجہ سے ایک مثالی تعلق ہو گا۔ اور پھِر اپنے ساتھ ہمارا تعلق ایمانداری، حلم اور پرہیزگاری سے بھرا ہو گا۔ وہ شخص کس قدر شادمان ہوتا ہے جو رُوح القدس کو اپنے دِل پر تصرُّف کرنے اور اپنی زندگی میں راج کرنے کا موقع دیتا ہے تا کہ ایسا عظیم پھل لا سکے۔

رُوح کے نو پہلوﺅں والے پھل کی فہرست دینے سے پہلے پولس رسول نے اُن لوگوں کے گناہوں کی ایک فہرست دی ہے جو رُوح القدس کے اختیار میں نہیں رہتے۔ اُس نے اِن گناہوں کو "جسم کے کام" کہا ہے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 19-21)۔ رُوح کا پھل اور جسم کے کام ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

پولس رسول نے جسم کے کاموں کو صیغہ جمع میں اِس لئے بیان کیا ہے کیونکہ وہ بہت سے اور متناقص ہیں۔ وہ انسانی زندگی کی ابتر حالت کی ترجمانی کرتے ہیں جس پر خُدا تعالیٰ کی مرضی سے متصادم اُس کے جسمانی رُجحانات حکومت کرتے ہیں۔ یہ اُس شخص کی زندگی سے بالکل برعکس ہے جو اپنی زندگی کا اختیار رُوح القدس کو دے دیتا ہے۔

ہماری دُنیا کو ایمانداروں کی نیکی بھری زندگی کی مثالوں کی اشد ضرورت ہے، یعنی ایسے ایماندار جو اپنی روزمرہ زندگی میں رُوح القدس کا پھل لاتے ہیں۔ دُنیا نیکی کے تعلق سے تقریریں، درس اور نظریے سُن سُن کر تھک چکی ہے۔ اِسے اِس نو پہلوﺅں والے پھل کو دیکھنے کی ضرورت ہے جس کا اطلاق ایمانداروں کی روزمرہ زندگی میں عملی طور پر ہو جو پھل پیدا کرتی ہے اور دُنیا کےلئے برکت کا سبب ہے۔

رُوح القدس ہم میں سے ہر ایک کو بلاتا ہے کہ ایسا پھل پیدا کریں اور چاہتا ہے کہ ہم دُعا کریں کہ یہ پھل ہم میں بڑھتا جائے۔

یہ نو پہلوﺅں والا پھل ایماندار میں رُوح القدس کے کام کی بدولت آتا ہے، یہ پرانے انسان کو خارجی خوبصورتی عطا کرنے کا نام نہیں ہے جیسے ثقافت، تہذیب اور شخصی کوششیں کرتی ہیں۔ یہ آدمی کی اپنے آپ کو خود بتدریج بدلنے کی کوشش سے ممکن نہیں ہوتا جس میں وہ اپنی بگڑی ہوئی رُوح پر کام کر رہا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ اپنی زندگی مکمل طور پر رُوح القدس کی سپردگی میں دے دینے سے ممکن ہوتا ہے، جو زندگی کو اپنے اختیار میں لے کر اُسے مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔ ایک فرد میں رُوح کے کام کا اٹل نتیجہ اُس کے اندر سے پھل پیدا ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ پھل سوسن کے پھولوں کی طرح خوبصورت ہوتا ہے جن کے بارے میں خُداوند یسوع نے فرمایا: "سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے اُن میں سے کسی کی مانند مُلبّس نہ تھا" (اِنجیل بمطابق متی 6: 29)۔ اِس سے مسیح کی مراد یہ نہیں تھی کہ سوسن کے پھولوں کے رنگ سلیمان نبی کے کپڑوں سے زیادہ مہنگے تھے کیونکہ سلیمان کے کپڑے بلا شک و شبہ زیادہ مہنگے تھے۔ نہ ہی مسیح کی مراد یہ تھی کہ سوسن کے پھولوں کے رنگ سلیمان کے کپڑوں کے رنگ سے زیادہ تھے کیونکہ یقیناً سلیمان کے کپڑوں میں زیادہ رنگ تھے۔ مسیح کا مطلب یہ تھا کہ سوسن کے پودے سلیمان سے زیادہ شان و شوکت والے لگتے ہیں کیونکہ سلیمان لباس میں ظاہری طور پر آراستہ تھا جنہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق اُتار اور پہن سکتا تھا، جبکہ سوسن کے رنگ فطری ہوتے ہیں اور اُڑتے نہیں۔ جب تک سوسن کا پھول کِھلا رہتا ہے وہ سورج یا فطری عوامل سے تبدیل نہیں ہوتا۔

ہم ظاہری خوبیوں کو پہن کر لوگوں کی نظر میں اچھے دِکھائی دے سکتے ہیں۔ تاہم، مسیح ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ پھل لائیں اور باطنی خوبصورتی رکھیں جو ہمارے روزمرہ کے رویہ میں فطری طور پر بغیر کسی بناوٹ کے ظاہر ہوتی ہے۔ آپ ایک سوکھی ٹہنی پر ظاہری ہریالی لگا سکتے ہیں اور اُس پر رنگ برنگے پھول لٹکا سکتے ہیں، لیکن جلد ہی وہ ہریالی مانند پڑ جائے گی، پھول مرجھا کر گر جائیں گے، اور سوکھی ٹہنی پھِر سے اپنی اصل بھدی صورت میں ظاہر ہو جائے گی۔ ایسا ایماندار جو ظاہر میں بناوٹی خوبصورتی سے مزین ہو کسی کام کا نہیں، لیکن رُوح القدس کی سرگرمی کےلئے کھلے دِل کا حامل شخص قابل قدر ہے جو رُوح کا تمام پھل لائے اور جس کا پھل خُدا تعالیٰ کی رُوح کی گرفت میں ہونے سے سامنے آئے۔

ب- رُوح القدس کا پھل: محبت

"خُدا محبت ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 8، 16)

"اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 35)

کیا عظیم اور قدوس خُدا تعالیٰ کمزور اور گنہگار شخص سے شفقت و محبت کر سکتا تھا؟ یہ خیال انسانی منطق سے بالاتر ہے، لیکن یہ دائرہ انسانیت تک پہنچا جب خُدا تعالیٰ نے اپنی محبت ہم پر ظاہر کی کہ "جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 8)۔ کیا خُدا تعالیٰ کی محبت کا تجربہ کرنے والا ایک فرد خُدا اور اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ محبت کرنے کے قابل ہو گا؟

خُدا تعالیٰ نے جب جناب آدم اور حوا کےلئے باغِ عدن فراہم کیا اور اُن کی تخلیق سے پہلے اُس میں سب کچھ رکھا جو زمین پر اُن کے دِلوں میں خوشی لا سکتا تھا، تو اُس نے لوگوں کےلئے اپنی محبت دِکھانے میں پہل کی۔ اور جب آدم اور حوا گناہ کا شکار ہو گئے تو اُس نے تقویٰ اور راستبازی کے لباس کی بدولت اُن کے ننگے پن کو ڈھانپنے سے اور اُنہیں نجات، معافی اور مخلصی کا وعدہ عطا کرنے سے اُن کےلئے اپنی محبت گہرے طور پر ظاہر کی۔ ہوسیع نبی کے اپنی بیوی جُمر کی گناہ میں گِری ہوئی حالت کے باوجود اُس سے محبت کے واقعہ سے خُدا تعالیٰ نے پرانے عہدنامہ کے لوگوں پر ظاہر کیا کہ وہ اُن کے گناہ میں سقوط اور دھوکے کے باوجود اُن سے کس قدر محبت رکھتا ہے (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 1، 2)۔ نئے عہدنامہ میں ہم محبت کی کامل مثال کو دیکھتے ہیں: "کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 3: 16)۔ اور اِس محبت کے نام میں خُدا ہمیں بلاتا ہے کہ اُس سے اور ایک دوسرے سے محبت کریں۔ کیونکہ خُدا تعالیٰ کی محبت ہمیں سکھاتی ہے کہ کیسے اُس سے اور اپنے اردگرد کے لوگوں سے محبت رکھیں۔

موسیٰ نبی کی شریعت کے ایک ماہر فقیہ نے مسیح سے پوچھا "سب حکموں میں اوّل کون سا ہے؟" یسوع نے اُسے جواب دیا: "اوّل یہ ہے اے اسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ دوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حکم نہیں" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 28-31)۔ پولس رسول نے کہا: "بلکہ محبت کی راہ سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔ کیونکہ ساری شریعت پر ایک ہی بات سے پورا عمل ہو جاتا ہے یعنی اِس سے کہ تُو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 13 ب، 14)۔

سو، محبت رُوح کے پھل کے اُس گچھے میں سب سے پہلے ہے جو مسیح یعنی انگور کے درخت کی ہر شاخ پر اُگتا ہے۔ ہمارے لئے خُداوند کی محبت اور رُوح القدس کی معموری کا ایک فطری نتیجہ خُداوند اور دوسروں سے محبت کرنا ہے۔

(1) رُوح کا پھل خُدا کی محبت ہے

رُوح القدس سے معمور ہر فرد خُدا تعالیٰ کی محبت کا پھل پیدا کرتا ہے جو کچھ اِس طرح سے ظاہر ہوتا ہے:

(الف) خُدا تعالیٰ کے ساتھ بات کرنے کی خواہش

جو کوئی بھی اپنا آپ خُداوند کے ہاتھوں میں دیتا ہے اُس سے محبت کرے گا اور اُس سے اکثر بات کرے گا کیونکہ وہ اُس سے ایک قریبی تعلق رکھنا چاہتا ہے۔ جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں، تو اُس سے رابطہ کرتے ہیں، بات کرتے ہیں، اُس کے ساتھ کافی وقت گزارتے ہیں، اور اُس کے بغیر گزارے ہوئے وقت کو اپنی زندگی کا ضائع شدہ وقت سمجھتے ہیں۔ جب آپ خُدا تعالیٰ کے ساتھ محبت رکھتے ہیں تو آپ کو اُس کے ساتھ کس قدر زیادہ بات کرنی ہے۔ اپنے پورے دِل سے خُدا تعالیٰ سے محبت کا مطلب اُس کے ساتھ مسلسل رابطہ اور بات چیت ہے۔ زبور نویس نے کہا: "اے خُداوند میری باتوں پر کان لگا! میری آہوں پر توجہ کر! اے میرے بادشاہ! اے میرے خُدا! میری فریاد کی آواز کی طرف متوجہ ہو کیونکہ میں تجھ ہی سے دُعا کرتا ہوں۔ اے خُداوند! تُو صبح کو میری آواز سُنے گا۔ میں سویرے ہی تجھ سے دُعا کر کے انتظار کروں گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 5: 1-3)۔

بائبل مُقدّس خُدا تعالیٰ کے ساتھ بات چیت کو "دُعا" کہتی ہے۔ دُعا ایک ایماندار کےلئے فرض عمل نہیں بلکہ یہ خُدا تعالیٰ کے ساتھ ایک دوستانہ، مسلسل اور زیادہ کی جانے والی گفتگو ہے۔ داﺅد نے اِسے یہ کہہ کر بیان کیا: "میں تو بس دُعا ہی کرتا ہوں" (پرانا عہدنامہ، زبور 109: 4)۔

آسمانی باپ کےلئے اپنی محبت کو ظاہر کرنے کی بہترین مثال مسیح میں ملتی ہے جس نے باپ کے ساتھ بات چیت کرنے سے اپنی محبت کو ظاہر کیا۔ کیونکہ جناب مسیح اپنے دِن کا آغاز صبح سویرے کرتے تھے۔ اِس تعلق سے لکھا ہے کہ "صبح ہی دِن نکلنے سے بہت پہلے وہ اُٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دُعا کی" (اِنجیل بمطابق مرقس 1: 35)۔

جناب مسیح اپنے دِن کا آغاز اپنے شاگردوں سے دُور اکیلے میں کرتے، تا کہ اپنے آسمانی باپ کے ساتھ خاموشی میں وقت گزار سکیں۔ جناب مسیح اپنے دِن کا اختتام بھی اِسی طرح سے کیا کرتے تھے: "شاگردوں ... کو رخصت کر کے پہاڑ پر دُعا کرنے چلا گیا۔ اور جب شام ہوئی تو کشتی جھیل کے بیچ میں تھی اور وہ اکیلا خشکی پر تھا" (اِنجیل بمطابق مرقس 6: 46، 47)۔ آپ نے ساری رات بھی دُعا کرنے میں گزاری (اِنجیل بمطابق لوقا 6: 12)۔ جب شاگردوں نے دیکھا کہ وہ باپ سے کس قدر زیادہ بات کرتا ہے تو اُنہوں نے اُس سے کہا کہ وہ اُنہیں بھی دُعا کرنا سکھائے (اِنجیل بمطابق لوقا 11: 1)۔ ابنِ آدم، مسیح نے ہمیں نمونے کی دُعا بتائی ہے تا کہ یہ سکھائے کہ ہمیں کتنی زیادہ خُدا تعالیٰ کی ضرورت ہے، کیونکہ جو ایماندار خُداوند سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اُس کے ساتھ اکیلے میں زیادہ وقت گزارے گا، اور اُس کے ساتھ گہرے طور پر مسلسل بات چیت کرے گا۔

اگر آپ خُداوند کے ساتھ اپنے گزارے جانے والے وقت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنے کسی بھی کام کو کرتے ہوئے جس کےلئے زیادہ توجہ درکار نہیں ہوتی دُعا کریں۔ مثلاً، جب آپ روزمرہ کے کام کرتے ہیں، جیسے گاڑی چلانا، ٹرین کا انتظار کرنا، باورچی خانہ میں کام کرنا یا گھر کو ٹھیک کرنا، تو میری صلاح یہ ہے کہ آپ اُس وقت کو آسمانی باپ کے ساتھ بات چیت کرنے میں گزاریں۔ یوں ذہنی فراغت کے یہ اوقات آپ کےلئے دُعا کرنے کے اوقات میں تبدیل ہو جائیں گے۔ آپ کی رُوحانی زندگی میں ترقی آتی جائے گی اور خُدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق گہرا ہو جائے گا۔ اُس کےلئے آپ کی محبت آپ کے پورے دِل، ذہن اور مرضی سے ہو گی، جیسا کہ آسف نے کہا: "لیکن میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خُدا کی نزدیکی حاصل کروں۔ میں نے خُداوند خُدا کو اپنی پناہ گاہ بنا لیا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 73: 28)۔ کیونکہ بہت سے شکوک، ذہنی سوالات اور کئی شکایات کے بعد آسف نے جانا کہ اُس کےلئے بھلا یہی تھا کہ وہ خُدا کے نزدیک جائے، اُس سے بات کرے اور اُس پر بھروسا رکھے۔

(ب) کلامِ خُدا کا مطالعہ کرنے کی خواہش

جب ہمیں اپنے کسی عزیز شخص کی طرف سے خط ملے تو ہم اُسے پڑھنے کے مشتاق ہوتے ہیں، اُسے دوبارہ پڑھتے ہیں اور اُس کے الفاظ کے بارے میں بار بار سوچتے ہیں۔ اور جب ہم اُسے ایک طرف رکھ دیں، تب بھی ہمارا ذہن اُس میں لکھی ہوئی باتوں پر لگا رہتا ہے کیونکہ ہم اُس خط لکھنے والے فرد سے محبت کرتے ہیں۔ اب کیا کوئی آسمانی باپ سے زیادہ ہمارے نزدیک ہے اور ہم سے زیادہ محبت رکھتا ہے؟ جس دِن آپ اپنے جیون ساتھی سے واقف ہوتے ہیں تو اُس سے محبت کرنا شروع کرتے ہیں، اور یہ محبت تمام عمر جاری رہتی ہے۔ تاہم، آسمانی باپ کی محبت ہمارے اُسے جاننے سے پہلے شروع ہوئی، اور یہ ہمیشہ جاری رہے گی۔ اُس کے ساتھ ہماری محبت کا آغاز تب ہُوا جب ہم نے توبہ کی اور اُس کی طرف لوٹے، اور یہ بھی ہمیشہ جاری رہے گی۔ "خُدا محبت ہے"، اور اُس نے ہمیں اپنا الہامی کلام بخشا ہے جسے اُس نے کسی بھی تحریف و تغیر سے بچایا ہُوا ہے تا کہ ہمارے قدموں کےلئے چراغ اور ہماری راہ کےلئے روشنی ہو (پرانا عہدنامہ، زبور 119: 105)۔ ہم زبور نویس کے ساتھ کہتے ہیں: "تیرے فرمان مجھے عزیز ہیں۔ میں اُن میں مسرور رہوں گا۔ ... آہ! میں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔ مجھے دِن بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔ ... تیرا کلام بالکل خالص ہے اِس لئے تیرے بندہ کو اُس سے محبت ہے" (زبور 119: 47، 97، 140)۔ اِن آیات کو راہنمائی کے نور کے طور پر لیں، جس سے خُداوند اور اُس کے کلام کےلئے ہماری محبت میں اضافہ ہو، تا کہ ہم اِسے بار بار پڑھیں، گیان دھیان کریں اور اِس کے مصنف کےلئے محبت کی وجہ سے اِس پر عمل کریں۔ ہم اِسے کامل اور خالص کلام کے طور پر پائیں گے، اور جیسے یرمیاہ نبی نے کیا ہم بھی ویسے ہی کریں گے: "تیرا کلام ملا اور میں نے اُسے نوش کیا اور تیری باتیں میرے دِل کی خوشی اور خُرّمی تھیں کیونکہ اے خُداوند ربُّ الافواج! میں تیرے نام سے کہلاتا ہوں" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 15: 16)۔ اور ہم حزقی ایل نبی کے ساتھ خُداوند کے حکم کو سُنیں گے کہ "اِس طومار کو جو میں تجھے دیتا ہوں کھا جا اور اُس سے اپنا پیٹ بھر لے۔ تب میں نے کھایا اور وہ میرے منہ میں شہد کی مانند میٹھا تھا" (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 3: 3)۔ جتنا زیادہ ہم خُدا تعالیٰ سے محبت کریں گے، اُتنا زیادہ ہم اُس کے کلام کو پڑھیں گے اور اُس پر گیان دھیان کریں گے۔ لیکن ایسا صرف کلام کو یاد کرنے یا محض اُسے اپنے لبوں پر دُہرانے سے نہیں ہو گا، بلکہ ہمیں اِس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ یہ ہماری رُوحوں کی روزانہ کی غذا اور ہماری روزمرہ زندگی کے تجربہ کی ایک سچی حقیقت ہو۔

(ج) خُدا کی پیروی کرنے کی خواہش

پولس رسول نے کہا: "پس عزیز فرزندوں کی طرح خُدا کی مانند بنو۔ اور محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو ... قربان کر دیا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 1-2)۔ پولس نے یہ بھی کہا: "تم میری مانند بنو جیسا میں مسیح کی مانند بنتا ہوں" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 11: 1)۔ اُس نے گلتیوں کے نام لکھا کہ اُس کی منادی کا تمام مقصد یہ تھا کہ مسیح اُن میں صورت پکڑے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 19)۔ اِس سے اُس کی مُراد یہ تھی کہ جو کوئی بھی اُنہیں دیکھے اُسے اُن میں مسیح نظر آئے۔

بلا شک و شبہ آپ نے اپنے والدین کی تقلید کی اور آپ کے بچے آپ کی تقلید کریں گے۔ یہ محاورہ واقعی درست ہے کہ جیسا باپ ویسا بیٹا۔ جتنا زیادہ ایک بیٹا اپنے باپ سے محبت کرتا ہے اتنا زیادہ وہ اُس کی تقلید کرے گا۔ جتنا زیادہ آپ یسوع کی تعلیمات پر گیان دھیان کریں گے اور اُس کی زمینی زندگی پر غور کریں گے اُتنا زیادہ آپ اُس کی مانند بنیں گے، کیونکہ آپ اُسے اپنے لئے ایک مثال کے طور پر لیں گے۔

(2) رُوح کا پھل لوگوں کےلئے محبت ہے

جن لوگوں کی زندگی میں رُوح کا پھل محبت ہو، وہ تمام انسانیت سے جسے خُدا تعالیٰ نے بنایا محبت کریں گے۔ وہ اُن کی نسل، مذہب یا جلد کی رنگت سے قطع نظر اُن کی زندگی کے تمام حالات میں اُن کےلئے احساس اور ہمدردی رکھیں گے۔ وہ سب لوگوں سے محبت کرتے ہیں، جیسے خُدا تعالیٰ اُن سے اپنی مخلوق کے طور پر محبت کرتا ہے: "کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے" (اِنجیل بمطابق متی 5: 45)۔

(الف) رُوح القدس ہم میں بھائیوں کےلئے محبت پیدا کرتا ہے

خُدا تعالیٰ سے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے اپنی محبت ثابت کرنے کےلئے ہمیں لوگوں سے محبت کرنا ہے جنہیں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ بھائی چارے والی محبت مسیح میں تمام زمانوں سے تعلق رکھنے والے ایمانداروں کی ممیزہ صفت تھی، یہاں تک کہ غیر اقوام نے کہا "دیکھو، مسیحی کیسے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔" مسیح نے اعلان کیا کہ حقیقی شاگردیت کا ثبوت محبت ہے، اور اِس تعلق سے کہا: "اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 35)۔ مُقدّس یوحنا نے فرمایا: "ہم جانتے ہیں کہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گئے ہیں کیونکہ ہم بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں۔ جو محبت نہیں رکھتا وہ موت کی حالت میں رہتا ہے۔ جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے اور تم جانتے ہو کہ کسی خونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 3: 14، 15)۔

ہم جانتے ہیں کہ مسیح میں نئی زندگی دِل میں رُوح القدس کے کام کا نتیجہ ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جو کوئی بھی توبہ کے وسیلہ سے موت میں سے نکل کر ابدی زندگی میں داخل ہُوا ہے، اپنے ساتھی ایمانداروں سے محبت رکھتا ہے جو خُدا کےلئے یکساں زندگی اور محبت میں شریک ہیں۔ اُن میں رُوح القدس یکساں شوق پیدا کرتا ہے، ایک جیسے اہداف کی طرف تحریک بخشتا ہے، اور اُن سب میں یکساں افکار پیدا کرتا ہے۔

(ب) رُوح القدس ہم میں غُربا کےلئے محبت پیدا کرتا ہے

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کھانے پینے کی اشیا کے محتاج ہیں۔ مسیح نے فرمایا: "کیونکہ غریب غُربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں" (اِنجیل بمطابق متی 26: 11)۔ اور پھِر یہ بھی کہا: "دینا لینے سے مبارک ہے" (نیا عہدنامہ، اعمال 20: 35)۔ مُقدّس پولس نے کہا: "خُدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 9: 7)۔

کسی محتاج کو کھانا کھانے یا کپڑے پہننے کا مشورہ دینا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں رسولی حکم کی اطاعت کرتے ہوئے جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے اُنہیں پیش کرنا چاہئے: "اگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو، اور اُن کو روزانہ روٹی کی کمی ہو۔ اور تم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاﺅ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کےلئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟" (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 15، 16)۔

مسیح نے بھوکوں کا خیال رکھنے کی ایک بڑی مثال قائم کی۔ اِس سے پہلے کہ شاگردوں پر رُوح القدس نازل ہوتا، ایک بڑا ہجوم مسیح کی منادی سُننے کےلئے اُس کے گرد جمع ہُوا، اُن میں پانچ ہزار مرد تھے، اور عورتوں اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ دِن کے اختتام پر شاگردوں نے مسیح سے کہا کہ اِن سب لوگوں کو اَب رخصت ہونا ہے تا کہ گھر جائیں اور کھانے کی تدبیر کریں۔ اُس وقت دِن ڈھل چکا تھا اور شاگردوں کے پاس اُنہیں کھانے کو دینے کےلئے کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن مسیح نے جواب دیا "تم ہی اِنہیں کھانے کو دو۔" اندریاس نے جواب دیا "یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جو کی پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں مگر یہ اتنے لوگوں میں کیا ہیں؟" حقیقی محبت میں مسیح نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں، اُنہیں برکت دی اور بھوکے ہجوم کو کھانا کھلایا، اور یوں اپنے شاگردوں کو اور ہمیں سکھایا کہ جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے وہ کریں اور اپنے تمام وسائل اُس کے ہاتھوں میں دے دیں تا کہ وہ اُن وسائل اور ہمارے ذریعے سے کام کر سکے اور ہم محتاجوں کی ضروریات کو پورا کر سکیں (اِنجیل بمطابق یوحنا 6: 1-15)۔

مُقدّس یوحنا رسول نے کہا: "جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو، اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خُدا کی محبت کیوں کر قائم رہ سکتی ہے؟ اے بچو! ہم کلام اور زُبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔ ... اے عزیزو! آﺅ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیونکہ محبت خُدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی محبت رکھتا ہے وہ خُدا سے پیدا ہُوا ہے اور خُدا کو جانتا ہے۔ جو محبت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا کیونکہ خُدا محبت ہے۔ ... اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں تو خُدا ہم میں رہتا ہے اور اُس کی محبت ہمارے دِل میں کامل ہو گئی ہے۔ چونکہ اُس نے اپنے رُوح میں سے ہمیں دیا ہے اِس سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اُس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 3: 17، 18 ; 4: 7، 8، 12، 13)۔ ناقابل دید خُدا سے محبت کی تصدیق کےلئے ہمیں انسانوں سے جو نظر آتے ہیں محبت رکھنے کی ضرورت ہے، اُن کی مصیبتوں میں ہمدردی کرنے کی ضرورت ہے، اور جب وہ ضرورتمند ہوں تو اُن کی مدد کےلئے اپنا ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

محتاج کی مدد کرنے کےلئے ہم جو بہترین کام کر سکتے ہیں وہ اُنہیں سکھانا ہے کہ کیسے وہ اپنی مدد کریں تا کہ وہ اپنے پسینے کی کمائی کے ساتھ اپنی آمدن کما سکیں۔ ایک کنگال شخص کو روپے پیسے دینا آسان ہے، لیکن اُس کی مدد کرنے کی کوشش میں اُسے اپنا وقت، سوچیں اور توانائیاں دینا مشکل ہے کہ وہ اپنا آپ بہتر بنائے۔ اگر آپ واقعی کسی محتاج سے محبت کرتے ہیں جیسے خُدا اُس سے محبت کرتا ہے تو آپ اُسے تعلیم و تربیت فراہم کرنے سے اُس کی مدد کریں گے کہ وہ اپنی قابلیتوں کو پروان چڑھائے۔

سو، آپ محتاج کی مدد کرنے کےلئے کیا کریں گے؟ بائبل مُقدّس آپ کو اُن کی مدد کرنے کےلئے کیا کہتی ہے؟

(ج) رُوح القدس ہم میں کمزوروں کےلئے محبت پیدا کرتا ہے

مسیح نے ہمارے سامنے ایسی مثال رکھی ہے جس کی ہمیں پیروی کرنی چاہئے۔ وہ محبت کرنے والا آقا ہے جو کمزوروں کی کمزوریوں اور ضرورتوں سے واقف ہے اور اُن کا خیال رکھتا ہے۔ وہ اُن کے دِل کی دھڑکنیں محسوس کرتا ہے۔ ایک مرتبہ مسیح نے بیت حسدا کے حوض میں بیمار افراد کو دیکھا، جو مانتے تھے کہ وقت پر ایک فرشتہ آ کر حوض کے پانی کو ہلائے گا اور پانی ہلتے ہی جو کوئی حوض میں اُترے گا وہ شفا پائے گا۔ مسیح نے ایک شخص کو دیکھا جو کسی کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ اُسے پانی ہلتے وقت حوض میں اُتار دے تا کہ وہ شفا پا جائے، مگر اُس کے پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ یہ شخص اڑتیس برس سے شفا کا منتظر تھا لیکن کوئی بھی اُس کی مدد کرنے والا نہ تھا، یہاں تک کہ وہ سوچنے لگ گیا کہ ہر طرف بےحسی کا راج ہے۔ لیکن مسیح اُس کے پاس گیا اور اُس پر ترس کھایا، اور کامل محبت میں اُس کے بیمار بدن اور گنہگار رُوح کو شفا بخشی (اِنجیل بمطابق یوحنا 5: 1-9)۔

ایک سبت مسیح کسی عبادت خانہ میں گیا اور ایک عورت کو دیکھا جو اٹھارہ برس سے کُبڑی تھی اور سیدھی کھڑی نہ ہو سکتی تھی۔ اُس نے یسوع سے شفا دینے کےلئے نہیں کہا، لیکن جب مسیح نے اُسے دیکھا تو آپ کو اُس پر ترس آیا، آپ نے اُسے بلایا، اپنے ہاتھ اُس پر رکھے، اور وہ اُسی گھڑی شفا پا گئی اور خُدا کی تمجید کرنے لگی۔ یہودی سبت کو پاک دِن سمجھتے تھے اور اُس دِن کسی بھی طرح کا کام نہیں کرتے تھے۔ مسیح اچھی طرح سے جانتے تھے کہ سبت کے دِن شفا کا ایسا معجزہ کرنے سے بہت سے لوگ اُن پر تنقید کریں گے۔ لیکن آپ نے کسی بھی طرح کی تنقید کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا اور اُسے ٹھیک کر دیا۔ عبادت خانہ کا سردار اُن لوگوں سے خفا ہونے لگا جو سبت کے دِن مسیح سے شفا پانا چاہتے تھے، تب مسیح نے کہا "اے ریاکارو! کیا ہر ایک تم میں سے سبت کے دِن اپنے بیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پلانے نہیں لے جاتا؟ پس کیا واجب نہ تھا کہ یہ جو ابرہام کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا سبت کے دِن اِس بند سے چھڑائی جاتی؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 13: 10-17)۔ ہمیں کس حد تک تمام انسانوں خاص طور پر حاجتمندوں کےلئے مسیح کے دِل میں محبت کے جذبات کے بارے میں سیکھنے کی ضرورت ہے!

رُوح القدس کی راہنمائی میں چلنے اور مسیح سے محبت کرنے والوں نے سیکھا ہے کہ کیسے کمزور کی مدد کرنی ہے: راہب ثالسیوس نے نابینا افراد کےلئے پہلا ادارہ قائم کیا، مسیحی تاجر اپولونیوس نے ادویات کی تقسیم کےلئے پہلا مفت مرکز قائم کیا، اور شہزادی فابیولا نے مسیحیت کو قبول کرنے کے بعد پہلا ہسپتال قائم کیا۔

(د) رُوح القدس انسانوں میں یکجہتی کی محبت پیدا کرتا ہے

پولس رسول نے ایمانداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ کام کریں اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کریں تا کہ جب حالات مخالف ہو جائیں تو ایک فرد اُن لوگوں سے مدد پا سکے جن کی پہلے اُس نے مدد کی تھی۔

ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس وسائل ہوں جب اُسے کسی محتاج کو دینے کےلئے کہا جائے تو وہ کچھ پریشان ہو جائے، اِس لئے پولس رسول نے نصیحت کی "یہ نہیں کہ اَوروں کو آرام ملے اور تم کو تکلیف ہو۔ بلکہ برابری کے طور پر اِس وقت تمہاری دولت سے اُن کی کمی پوری ہو تا کہ اُن کی دولت سے بھی تمہاری کمی پوری ہو، اور اِس طرح برابری ہو جائے" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 8: 13، 14)۔

محبت ہمیشہ جو کچھ اُس کے پاس ہو دوسروں سے بانٹتی ہے، اور یہ رسولی حکم کے عین مطابق ہے کہ "خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کرو۔ رونے والوں کے ساتھ روﺅ۔ آپس میں یک دِل رہو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 15، 16)۔ یوحنا خروسستم نے کہا "خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کرنے کی نسبت رونے والوں کے ساتھ رونا زیادہ آسان ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حسد ہمیں خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کرنے سے روکے۔" "محبت حسد نہیں کرتی" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 13: 4)، کیونکہ حسد کا مطلب دوسرے لوگوں کی کامیابی، اچھی صحت، عہدہ، دولت، شہرت یا ترقی سے پریشان ہو جانا ہے۔ لیکن ہمیں تمام لوگوں کے ساتھ اُن کی خوشیوں اور غموں میں برابر شریک ہونا چاہئے تا کہ وہ بھی ہماری ضرورت کے وقت میں ہمارے ساتھ شریک ہو سکیں۔

ہماری دُنیا کو حقیقی باہمی تعاون کی اشد ضرورت ہے، جس کا تذکرہ امام الحکماء سلیمان نے کیا: "اپنی روٹی پانی میں ڈال دے کیونکہ تُو بہت دِنوں کے بعد اُسے پائے گا" (پرانا عہدنامہ، واعظ 11: 1)۔ نئے عہدنامہ میں لکھا ہے: "کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔ ... ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بے دِل نہ ہوں گے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔ پس جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاص کر اہلِ ایمان کے ساتھ" (گلتیوں 6: 7-10)۔

(ہ) رُوح القدس ہم میں اپنے دُشمنوں کےلئے محبت پیدا کرتا ہے

افلاطون نے کہا: "ایک اچھا شخص نقصان برداشت کرتا ہے، لیکن دوسرے کا نقصان نہیں کرتا۔" اچھے لوگوں کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آنا، جو آپ سے محبت کرتے ہیں اُن سے محبت کرنا یا جو آپ کے ساتھ بھلائی کریں اُن کے ساتھ بھلائی کرنا آسان ہے۔ تاہم، جب لوگ ہماری مخالفت کریں یا ہمارے حق میں بدی کریں تو اُن کےلئے حقیقی محبت تب بھی جاری رہتی ہے۔ ہم اُس وقت تک اپنے دُشمنوں سے محبت نہیں رکھ سکتے، جب تک کہ ہم رُوح القدس سے معمور نہ ہوں، قوت نہ پائیں، ہمارا کردار اُس کے تابع نہ ہو، اور وہ ہمیں اِس حکم کی فرمانبرداری کےلئے مدد فراہم نہ کرے کہ "اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو" (اِنجیل بمطابق متی 5: 44)۔

رُوح القدس ہمیں تمام فرق نظرانداز کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم ممکنہ طور پر زندگی کی ہر چھوٹی تفصیل کے بارے میں ہر کسی سے متفق نہیں ہو سکتے، لیکن رُوح القدس ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہونے والے پہلوﺅں پر توجہ دیں۔ چونکہ رُوح القدس ہمیں برداشت اور تحمل عطا کرتا اور بھلائی کرنا سکھاتا ہے، اِس لئے ہم اُس کی بدولت تمام غرور سے رہائی پاتے ہیں۔ غرور کی وجہ سے ہی ہم فوراً دوسروں کو ضرر پہنچاتے ہیں اور نام نہاد عزت کےلئے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

لڑائی جھگڑا کرنے کےلئے دو یا اِس سے زائد لوگ درکار ہوتے ہیں، لیکن صلح صفائی کا کام ایک فرد بھی کر سکتا ہے! جب ہم اپنا آپ رُوح القدس کے اختیار میں دے دیتے ہیں تو وہ ہمیں دِل کی پاکیزگی اور سلامتی کےلئے محبت عطا کرتا ہے، یوں ہم جتنا ہو سکے سب کے ساتھ میل ملاپ رکھتے ہیں اور اِس تعلق سے کوئی گناہ نہیں کرتے جیسے کسی کے حقوق کا انکارکرنا یا اپنے ضمیر کے برعکس عمل کرنا (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 18)۔ وہ ہمیں سب لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنے اور اُس پاکیزگی کے طالب ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے جس کے بغیر کوئی خُداوند کو نہ دیکھے گا (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 12: 14)۔

(و) رُوح القدس ہم میں ہماری مدد کے طالب ہر فرد کےلئے محبت پیدا کرتا ہے

ایک مرتبہ ایک عالم شرع نے یسوع سے پوچھا "میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟" مسیح نے اُسے جواب دیا "توریت میں کیا لکھا ہے؟" اُس نے کہا "خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ" تب مسیح نے کہا "یہی کر تو تُو جیئے گا۔" اُس شخص نے پھِر سوال کیا "میرا پڑوسی کون ہے؟" تب یسوع نے اُسے نیک سامری کی تمثیل سُنائی جس نے راستے میں ایک یہودی کو زخمی پڑے دیکھا، اور اگرچہ اُس نے اُسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اُس کے زخموں کی مرہم پٹی کی، اُسے اپنے گدھے پر سوار کرا کے نزدیکی سرائے میں لایا اور وہاں اُس کی خبرگیری کےلئے خرچ ادا کیا جب تک کہ وہ زخمی شخص مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو گیا۔ مسیح نے فرمایا کہ سامری زخمی یہودی کا پڑوسی تھا، کیونکہ جسے بھی ہماری مدد کی ضرورت ہے وہ ہمارا پڑوسی ہے (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 25-37)۔ نیک سامری کی تمثیل میں ہمیں چار کردار ملتے ہیں:

٭ زخمی شخص: وہ یروشلیم سے یریحو کی طرف سفر کرنے والا ایک یہودی شخص تھا جو ڈاکوﺅں میں گھِر گیا جنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لئے، اُسے مارا، اُس کا سب کچھ چھین لیا اور ادھمُوا چھوڑ کر چلے گئے (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 30)۔ یہودی سامریوں سے نفرت کرتے تھے اور اُن کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی برتاﺅ نہ رکھتے تھے۔ اور اگر کوئی سامری کسی یہودی کو چھو لیتا تو وہ ناپاک سمجھا جاتا اور اُسے اپنے آپ کو پاک کرنے کےلئے طہارت کے دستور میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زخمی یہودی ہوش میں ہوتا تو وہ سامری کو اپنے آپ کو چھونے نہ دیتا!

٭ کاہن: وہ ہیکل میں اپنی مذہبی خدمت کو سرانجام دینے کےلئے زخمی شخص کے پاس سے گزرا۔ زخمی شخص اُس کی اپنی نسل اور مذہب سے تعلق رکھتا تھا، لیکن وہ اُسے دیکھ کر بغیر کوئی مدد کئے کترا کر نکل گیا (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 31)۔ کاہن کے اِس انداز سے برتاﺅ کرنے کی منطقی وجوہات تھیں:

کاہن کی زندگی خطرے میں تھی، کیونکہ کبھی کبھار ڈاکو اپنے ساتھیوں میں سے ایک پر بھیڑ کا خون لگا کر اُسے راستہ میں لٹا دیتے تھے کہ زخمی شخص کی طرح دِکھائی دے۔ جب کبھی کوئی فرد اُس پر ترس کھا کر مدد کرنے کی کوشش کرتا تو وہ ڈاکو اُسے اپنی گرفت میں لے لیتا اور پھِر باقی ڈاکو اُس کے اردگرد کی چٹانوں سے نکل کر مسافر شخص پر حملہ کر دیتے اور اُس کا سب مال و اسباب لوٹ لیتے۔

اِس بات کا بھی امکان تھا کہ زخمی شخص کاہن کے بازوﺅں میں دم توڑ دیتا جس کے نتیجہ میں وہ ناپاک ہو جاتا اور اپنے مذہبی فرائض ادا نہ کر سکتا۔ کاہن نے سوچا ہو گا کہ ایسا کیا ہے کہ میں اِس زخمی شخص کی مدد کرنے کو ترجیح دوں اور ناپاک ہو جاﺅں اور اپنے مذہبی فریضہ کو پورا کرنے کے قابل نہ رہوں، یا پھِر اُس نے اپنے مذہبی فریضہ کو پورا کرنے کے بارے میں سوچا ہو گا جس کا مطلب زخمی شخص کو اکیلا چھوڑ دینا تھا۔ اُس نے اپنے مذہبی فرائض کو اوّل درجہ دینے کا فیصلہ کیا۔

٭ لاوی: وہ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کاہن کا معاون تھا۔ لاوی نے کاہن کی نسبت زخمی شخص پر زیادہ توجہ کی کیونکہ وہ نزدیک آیا۔ لیکن لاوی نے بھی مدد نہ کی۔ شاید اُس نے اپنے آپ سے کہا ہو کہ "کاہن میرا اُستاد ہے۔ وہ میرے لئے ایک مثال ہے اور مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ چونکہ وہ اِس زخمی شخص کی مدد کئے بغیر آگے بڑھ گیا ہے تو اِس کی یقیناً کوئی وجہ ہو گی۔" ہو سکتا ہے کہ لاوی نے اپنے انسانی فرض کو پورا کرنے میں اِس بات کو ایک عُذر کے طور پر لیا ہو۔

٭ نیک سامری: وہ زخمی شخص کےلئے ایک اجنبی تھا، اور اُس کا عقیدہ بھی مختلف تھا۔ لیکن اُس نے یہودی شخص کے زخموں کی مرہم پٹی کی، اُسے اپنے جانور پر سوار کرا کے سرائے میں لایا، سرائے کے مالک کو دو دینار دیئے اور کہا "جو کچھ اِس سے زیادہ خرچ ہو میں پھِر آ کر تجھے ادا کر دوں گا۔"

مسیح نے اِس تمثیل میں ایک زخمی شخص کو بیان کیا ہے، لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو جسمانی طور پر زخمی افراد سے زیادہ بدحال ہیں۔ وہ گناہ کی وجہ سے زخمی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اُن کا خون نہیں بہہ رہا، لیکن اُن کی رُوحیں خطاﺅں سے زخمی ہو چکی ہیں اور وہ ابدی ہلاکت کے خطرے میں ہیں۔ ایمانداروں پر واجب ہے کہ وہ ایسے افراد تک مسیح کا پیغام لے کر جائیں اور اپنے رُوحانی تجربات اُنہیں بیان کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں اور نجات پا جائیں۔ خُدا تعالیٰ نے اپنے محبت کرنے والوں کو مقرر کیا ہے کہ وہ دوسروں سے محبت کریں اور اُنہیں اُن کے گناہوں سے بچانے کی کوشش کریں، چاہے وہ اُن کے ساتھ بُرا برتاﺅ ہی کیوں نہ کریں کیونکہ محبت صابر ہے اور مہربان، دوسروں کے بُرے برتاﺅ کو برداشت کرتی ہے، اور اِس رسولی حکم کی فرمانبرداری کرنے کے قابل ہے کہ "جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو۔ برکت چاہو۔ لعنت نہ کرو۔ ... اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 14، 20)۔

(ز) رُوح القدس ہم میں خاندان کےلئے محبت پیدا کرتا ہے

جب ہماری زندگی رُوح القدس کے تابع ہوتی ہے تو وہ ہم میں خاندان کے افراد کےلئے محبت پیدا کرتا ہے۔ شوہر بیوی سے محبت کرتا ہے اور بیوی شوہر سے محبت کرتی ہے، اور گھر کے ماحول میں محبت کا غلبہ ہوتا ہے۔ پولس رسول نے شادی شدہ زندگی میں ایسی محبت کو یوں بیان کیا ہے: "اے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کر کے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔ ... اِسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دُشمنی نہیں کی بلکہ اُس کو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسا کو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 25، 28، 29)۔ مُقدّس پطرس نے مردوں کو یوں نصیحت کی ہے: "اے شوہرو! تم بھی بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو، اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُس کی عزت کرو، اور یوں سمجھو کہ ہم دونوں زندگی کی نعمت کے وارث ہیں تا کہ تمہاری دُعائیں رُک نہ جائیں" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 3: 7)۔

وہ گھر کس قدر خوبصورت اور شادمان ہوتا ہے جس میں گھر کے افراد کا رویہ رُوح القدس کے تابع ہوتا ہے، اور یوں زبور نویس کے الفاظ پورے ہوتے ہیں: "دیکھو! کیسی اچھی اور خوشی کی بات ہے کہ بھائی باہم مل کر رہیں۔ ... کیونکہ وہیں خُداوند نے برکت کا یعنی ہمیشہ کی زندگی کا حکم فرمایا" (پرانا عہدنامہ، زبور 133: 1، 3)۔

ہمیں رُوح القدس کی معموری کےلئے دُعا کرنی چاہئے، اور اپنی زندگی اُس کی سپردگی میں دے دینی چاہئے تا کہ ہم اپنے پورے دِل سے خُدا آسمانی باپ سے محبت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ تب رُوح القدس کا پھل محبت ہمارے اندر پروان چڑھے گا، اور دوسرے لوگوں کے ہم سے محبت کرنے یا نہ کرنے کے باوجود ہمیں اُن سے محبت کرنے کے قابل بنائے گا۔ جب ہم دوسرے لوگوں سے محبت رکھتے ہیں تو وہ مسیح سے واقف ہوتے ہیں جس نے ہمیں حقیقی سچی محبت رکھنے کی تعلیم دی ہے جو دیتی ہے اور بدلے میں کسی بھی چیز کی توقع نہیں کرتی۔ تب غیر ایماندار ہم میں اِس رسولی بیان کا عملی اطلاق دیکھ سکیں گے کہ "حکم کا مقصد یہ ہے کہ پاک دِل اور نیک نیت اور بےریا ایمان سے محبت پیدا ہو" (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 1: 5)۔

دُعا

اے خُداوند، جب میں کمزور اور گنہگار ہی تھا تو تُو نے مجھ سے محبت رکھی۔ تُو نے اپنی رحمت مجھ پر نازل کی جس کا میں مستحق نہیں تھا۔ میرے دِل میں محبت کو پیدا کر، تا کہ میں تجھ سے، اپنے خاندان، دوستوں، معاشرے اور دشمنوں سے محبت رکھ سکوں۔ اِس پاک محبت کو مجھ میں گہرا کرتا جا۔ بخش کہ میرا روزمرہ کا طرزِعمل رُوح القدس کے ہاتھوں میں ہو، تا کہ میں محبت کا پھل پیدا کروں جس سے میرے اردگرد کے سب افراد کے دِل گرمجوشی سے بھر جائیں۔ آمین

ج- رُوح القدس کا پھل: خوشی

جب ہم خُدا تعالیٰ کی قدرت پر غور کرتے ہیں جس نے ہمارے رہنے کےلئے دُنیا کو خلق کیا، اور جب ہم اُس کی محبت پر گیان دھیان کرتے ہیں جس نے خُدا کے برّے عظیم کفارے مسیح کے وسیلہ سے ہماری رُوحوں کو مخلصی بخشی، تو ہمارے دِل گہری رُوحانی خوشی سے بھر جاتے ہیں اور ہم فرطِ انبساط سے یہ کہتے ہیں کہ "آﺅ ہم خُداوند کے حضور نغمہ سرائی کریں! اپنی نجات کی چٹان کے سامنے خوشی سے للکاریں۔ شکر گزاری کرتے ہوئے اُس کے حضور میں حاضر ہوں۔ مزمور گاتے ہوئے اُس کے آگے خوشی سے للکاریں" (پرانا عہدنامہ، زبور 95: 1، 2)۔ "اے سب اُمّتو! تالیاں بجاﺅ۔ خُدا کےلئے خوشی کی آواز سے للکارو" (زبور 47: 1)۔ جب ہم مسیح کی زمین پر دوبارہ آمد کے بارے میں سوچتے ہیں تو اُس کی آواز سُننے کی راہ دیکھتے ہیں جب وہ ہر وفادار ایماندار سے کہے گا: "اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناﺅں گا۔ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو" (اِنجیل بمطابق متی 25: 21)۔

لیکن جب ہم اپنے اردگرد لوگوں کے تکلیف دہ اور پُرجفا حالات پر غور کریں تو سخت حیرت ہوتی ہے کہ ہم کیسے خوش ہو سکتے ہیں جب "ساری دُنیا اُس شریر کے قبضے میں پڑی ہوئی ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 5: 19)۔ شریر ابلیس خُداوند کےلئے زندگی بسر کرنے والے ہر فرد کو ستاتا ہے، سو خُدا کی بادشاہی کے خلاف کمربستہ معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے ہم کیسے اپنے اندر خوشی کا پھل رکھ سکتے ہیں؟

پولس رسول کی نصیحت کے وہ الفاظ پڑھ کر ہمیں اَور بھی زیادہ حیرت ہوتی ہے جو اُس نے روم میں ایک قیدی کے طور پر فلپی میں رہنے والے ایذا کے شکار مسیحیوں کو لکھے کہ "خُداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پھِر کہتا ہوں کہ خوش رہو" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 4: 4)۔ وہ اُنہیں ایذارسانی کے درمیان خوش ہونے کےلئے کیسے کہہ سکتا تھا؟ کیسے وہ خود رومی قیدخانہ کے سخت حالات میں خوش رہ سکتا تھا؟ جواب یہ ہے: "مگر رُوح کا پھل ... خوشی" ہے۔

ہماری حیرت میں اُس وقت اَور بھی اضافہ ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قیدخانہ میں سے پولس رسول کی نصیحت محض الفاظ نہیں تھی، بلکہ پولس اور اُس کے ساتھی سیلاس کی حقیقی حالت کا بیان تھا جب اُنہیں فلپی شہر میں قیدخانہ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اُن کے ہاتھ پاﺅں کاٹھ میں ٹھونک دیئے گئے تھے جو لکڑی کے چار تختوں پر مشتمل ہوتی تھی، جن میں سے ہر ایک کی صورت نیم دائرہ نما ہوتی تھی۔ قیدی کے پاﺅں لکڑی کے دو تختوں کے سوراخوں میں ڈال دیئے جاتے اور اِسی طرح ہاتھ لکڑی کے دو اَور تختوں کے سوراخوں میں ڈال دیئے جاتے۔ ہاتھوں اور پاﺅں کو اندر بندرکھنے کےلئے لکڑی کا ایک اَور ٹکڑا اُن پر رکھا جاتا، اور یوں قیدی نہ حرکت کر سکتا، نہ اپنے جسم پر رینگنے والے کیڑوں کو ہٹا سکتا اور نہ ہی رفع حاجت کےلئے جا سکتا تھا۔ ایسے قیدیوں کی زندگی اِس حد تک تکلیف دہ ہوتی کہ دورِ جدید کا کوئی بھی مہذب شخص اِس کا تصور نہیں کر سکتا۔ تاہم، اِس سب کے باوجود رُوح القدس نے اِن دونوں قیدیوں کے دِلوں کو اِس حد تک خوشی سے سرشار کیا کہ اُنہوں نے سوچا کہ ہم مسیح کے نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔ اُنہوں نے اپنے شادمان دِل سے خوشی کے گیت اتنی اونچی آواز سے گائے کہ سونے والے قیدی بھی جاگ اُٹھے۔ اُس کے بعد ایک بڑا بھونچال آیا، سب دروازے کُھل گئے اور سب قیدیوں کی بیڑیاں کُھل گئیں۔ تب قیدخانہ کا داروغہ رسولوں کے پاس گیا اور کہنے لگا "اے صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پاﺅں؟" خُدا تعالیٰ نے پولس اور سیلاس کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ اُسے انجیل سُنائیں، سو وہ ایمان لایا اور اپنے گھر میں اُن کےلئے ایک ضیافت کی (اعمال 16 باب)۔ خُدا تعالیٰ پولس اور سیلاس کے ساتھ وفادار تھا، اور اُن کی طاقت سے زیادہ اُنہیں آزمایش میں نہ پڑے دیا، لیکن آزمایش کے ساتھ اُس نے اُنہیں نکلنے کی راہ اور خوشی عنایت کی (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 10: 13)۔

فرض کریں آپ اُس زمانے میں ہوتے اور اگر پولس اور سیلاس سے پوچھتے کہ وہ اپنی تکلیفوں کی شدت کے باوجود کیسے گانے کے قابل تھے، تو مجھے یقین ہے کہ اُن کا جواب یہ ہوتا کہ رُوح القدس کی قدرت نے جس کے اختیار میں وہ زندگی گزار رہے تھے اُنہیں غم کے درمیان خوشی بخشی۔ سو، اِس واقعہ میں دُنیا کے رویہ کے برعکس ہُوا، اور مسیح کے الفاظ پورے ہوئے کہ "مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے" (اِنجیل بمطابق متی 5: 4)۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ رُوحانی خوشی اُن حالات کا نتیجہ نہیں ہے جن میں ایک ایماندار زندگی بسر کرتا ہے، بلکہ یہ اُن حالات کے باوجود ایک ایماندار میں اور اُس کے حالات میں رُوح القدس کے کام کا نتیجہ ہے۔

پولس رسول رُوح کے پھل کی فہرست کو لفظ "مگر" سے شروع کرتا ہے جو کہ ایک فرق کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ یوں کہتا دِکھائی دیتا ہے کہ دُنیا میں ہم مصیبت سہیں گے، لیکن رُوح ہمارے اندر خوشی کا پھل پیدا کرتا ہے کیونکہ مسیح دُنیا پر غالب آیا ہے (اِنجیل بمطابق یوحنا 16: 33)۔ ہاں دُنیا میں غم ہیں، لیکن مسیح نے فرمایا: "تم غمگین تو ہو گے لیکن تمہارا غم ہی خوشی بن جائے گا۔ ... پس تمہیں بھی اَب تو غم ہے مگر میں تم سے پھِر ملوں گا اور تمہارا دِل خوش ہو گا اور تمہاری خوشی کوئی تم سے چھین نہ لے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 16: 20، 22)۔

ہمارے بیرونی حالات، مال و دولت، سماجی رُتبہ اور تعلیم دائمی خوشی نہیں دے سکتے۔ جب ہم رُوح القدس کے مکمل اختیار میں ہوتے ہیں تو یہ خوشی ہمارے باطن سے نکلتی ہے۔ امام الحکماء سلیمان نے اِس کی وضاحت یوں کی: "میں نے اپنے دِل سے کہا آ میں تجھ کو خوشی میں آزماﺅں گا۔ سو عِشرت کر لے۔ لو یہ بھی بُطلان ہے۔ میں نے ہنسی کو دیوانہ کہا اور شادمانی کے بارے میں کہا اِس سے کیا حاصل؟" سلیمان نے اپنی ملکیتی اشیاء کو گنتے ہوئے کہا "میں نے دِل میں سوچا کہ جسم کو مےنوشی سے کیوں کر تازہ کروں اور اپنے دِل کو حکمت کی طرف مائل رکھوں ... میں نے بڑے بڑے کام کئے۔ میں نے اپنے لئے عمارتیں بنائیں اور میں نے اپنے لئے تاکستان لگائے۔ ... میں نے غلاموں اور لونڈیوں کو خریدا اور نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوئے ... میں نے سونا اور چاندی ... اپنے لئے جمع کیا۔ ... میری حکمت بھی مجھ میں قائم رہی۔" اِس سب کا نتیجہ کیا تھا؟ "پھِر میں نے اُن سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے اور اُس مشقت پر جو میں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے اور دُنیا میں کچھ فائدہ نہیں" (پرانا عہدنامہ، واعظ 2: 1-11)۔ اُس نے یہ بھی کہا: "ایسی راہ بھی ہے جو اِنسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اُس کی انتہا میں موت کی راہیں ہیں۔ ہنسنے میں بھی دِل غمگین ہے اور شادمانی کا انجام غم ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 14: 12، 13)۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جب زبور نویس نے اپنا موازنہ اُن لوگوں سے کیا جو اپنی ملکیتی اشیاء سے خوشی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو کتنی خوبصورتی سے اپنے رویہ کے بارے میں کہا: "تُو نے میرے دِل کو اُس سے زیادہ خوشی بخشی ہے جو اُن کو غلہ اور مے کی فراوانی سے ہوتی تھی۔ میں سلامتی سے لیٹ جاﺅں گا اور سو رہوں گا کیونکہ اے خُداوند! فقط تُو ہی مجھے مطمئن رکھتا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 4: 7، 8)۔ یہ بڑا واضح ہے کہ کوئی بھی فرد اُس وقت تک سلامتی سے لیٹ اور سو نہیں سکتا جب تک کہ اُسے یقین نہ ہو کہ ابدی خُدا جسے اُس نے جانا اُس کی پناہ گاہ ہے اور نیچے دائمی بازو ہیں (توریت شریف، استثنا 33: 27)، اور اُس کا محکم بُرج خُداوند ہے، صادِق اُس میں بھاگ جاتا اور امن سے رہتا ہے (پرانا عہدنامہ، امثال 18: 10)۔ وہ مالک، مخلصی دینے والا اور قدوس ہے جس نے ایمانداروں کو قیمتی خون کے وسیلہ سے اُن کے گناہوں سے پاک کیا ہے، اور اُنہیں اپنے لئے بادشاہ اور کاہن مقرر کیا ہے۔ خُداوند کے ساتھ اُن کا گہرا شخصی تعلق اور رُوح القدس کی معموری اُنہیں یقین دلاتی ہے کہ خوشی کا پھل ہمیشہ اُن کے دِلوں سے چھلکے گا: "کیونکہ خُدا کی بادشاہی کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اور اُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 14: 17)۔

رُوح القدس کی دیرپا، مسلسل اور کامل خوشی کی وجہ سے حبقّوق نبی نے کہا "اگرچہ انجیر کا درخت نہ پُھولے اور تاک میں پھل نہ لگے اور زیتون کا حاصل ضائع ہو جائے اور کھیتوں میں کچھ پیداوار نہ ہو اور بھیڑخانہ سے بھیڑیں جاتی رہیں اور طویلوں میں مویشی نہ ہوں تو بھی میں خُداوند سے خوش رہوں گا اور اپنے نجات بخش خُدا سے خوش وقت ہوں گا" (پرانا عہدنامہ، حبقّوق 3: 17، 18)۔

جو خوشی ہم انسانوں یا مادی اشیاء سے حاصل کرتے ہیں وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ لیکن جو خوشی ہمیں رُوح القدس سے ملتی ہے وہ قائم دائم رہتی ہے اور ایک بڑی اور دیرپا برکت بن جاتی ہے۔

رُوح القدس ہمیں چار قسم کی خوشی عنایت کرتا ہے:

(1) نجات اور معافی کی خوشی

جب مسیح ہماری دُنیا میں کنواری مریم سے پیدا ہو کر تشریف لائے تو آپ نجات کی خوشی بھی لائے۔ اِس وجہ سے مبارک کنواری مریم نے گیت گایا: "میری جان خُداوند کی بڑائی کرتی ہے۔ اور میری رُوح میرے منجی خُدا سے خوش ہوئی" (اِنجیل بمطابق لوقا 1: 46، 47)۔ جب رُوح القدس نے قدیم وقتوں کے انبیاء پر اِس نجات کی عظمت کو منکشف کیا تو اُنہوں نے اِس نجات کے واقع ہونے سے پہلے اِس کی خوشی کی۔ مسیح نے یہودیوں سے کہا: "تمہارا باپ ابرہام میرا دِن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہُوا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 8: 56)۔ یہ خوشی ہر اُس فرد کےلئے میسر ہے جو مسیح کی نجات کو اُس وقت قبول کرتا ہے جب رُوح القدس اِنجیلی پیغام کی سچائی کے بارے میں اُسے قائل کرتا ہے (نیا عہدنامہ، افسیوں 1: 13)۔ ایک فرد کو اپنی زندگی مسیح کے سپرد کرنے سے جو خوشی ملتی ہے وہ بےبیان ہے اور صرف ایسا کرنے والا شخص ہی اِسے جان سکتا ہے۔ اِس تعلق سے پطرس رسول نے کہا: "تم ... ایسی خوشی مناتے ہو جو بیان سے باہر اور جلال سے بھری ہوئی ہے" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 1: 8)۔

مُقدّس لوقا کے اِنجیلی بیان کے پندرھویں باب میں مسیح نے ایک چرواہے کے بارے میں ایک تمثیل بیان کی جس کی سو بھیڑوں میں سے ایک بھیڑ کھو جاتی ہے جس کی وجہ سے چرواہا بہت پریشان ہو جاتا ہے۔ آپ نے ایک اَور تمثیل بھی سُنائی جس میں ایک عورت کے دس درہم کے سِکّوں میں سے ایک سِکّہ کھو جاتا ہے، اور اُس کھوئے ہوئے سِکّے کی وجہ سے وہ عورت بہت غمگین ہو جاتی ہے۔ پھِر آپ نے ایک ایسے شخص کی تمثیل سُنائی جس کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹا کھو جاتا ہے، اور کیسے وہ اُس کے نقصان پر غمزدہ ہو جاتا ہے۔ اِن تینوں تمثیلوں میں کچھ کھو گیا لیکن اِن کا اختتام غم پر نہیں بلکہ خوشی پر ہے۔ جب چرواہے کو اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ مل جاتی ہے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور اُس موقع پر بڑی خوشی کا اہتمام کرتا ہے۔ جب عورت کا کھویا ہوا درہم مل جاتا ہے تو وہ اپنی دوستوں اور پڑوسنوں کو بلاتی ہے کہ اُس کے ساتھ خوشی کریں۔ اور باپ اپنے کھوئے ہوئے بیٹے کی واپسی پر اِس حد تک خوش ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوکروں کو بہترین ضیافت کرنے کا حکم دیتا ہے اور وجہ بیان کرتا ہے کہ "میرا یہ بیٹا مُردہ تھا۔ اب زندہ ہُوا ہے۔ کھو گیا تھا۔ اَب ملا ہے۔" مسیح نے فرمایا: "ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہو گی" (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 7)۔

کتاب، رسولوں کے اعمال نجات کی خوشی کو ایک لاثانی انداز میں بیان کرتی ہے: "پس جو پراگندہ ہوئے تھے وہ کلام کی خوشخبری دیتے پھرے" (اعمال 8: 4)۔ ہو سکتا ہے کہ ہم لفظ "پراگندہ" کو پڑھ کر تیزی سے آگے بڑھ جائیں اور جو توجہ اِس لفظ پر دینی چاہئے وہ نہ دیں۔ لیکن اُن مسیحیوں کی صورتحال کو تصور میں لائیں جنہیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، اُن کی تمام اشیاء جبراً چھین لی گئی تھیں، اُن کے پاس رہنے یا کام کرنے کےلئے کوئی جگہ نہ تھی، اور وہ اپنے گھر اور خاندان سے دُور ہو گئے۔ اُس ایذارسانی کے فطری نتیجہ کے طور پر وہ لوگ اپنے گھروں سے بیدخل کرنے والے افراد سے لڑنے جھگڑنے کے بارے میں سوچ سکتے تھے، یا پھِر خُدا کے خلاف بُڑبُڑاتے کہ اُس نے ایذارسانی کی اجازت دی تھی۔ تاہم، ایسا کچھ واقع نہ ہُوا، کیونکہ اُن کی زندگیاں رُوح القدس کے اختیار میں تھیں۔ اُنہوں نے اپنی تلواریں باہر نہیں نکالیں، کیونکہ وہ سب جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (اِنجیل بمطابق متی 26: 52)۔ نہ ہی وہ خُدا تعالیٰ کے خلاف بُڑبُڑائے کیونکہ مسیح نے اُنہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جنہوں نے اُسے ستایا ہے وہ اُنہیں بھی ستائیں گے، اور سب خُدا پرست افراد کو دُکھ سہنے پڑیں گے (اِنجیل بمطابق یوحنا 15: 20)۔ سو، دُکھ سہنے والے ایماندار خُدا کے کلام کی منادی کرتے ہوئے ہر جگہ گئے۔ اُن کے پاس خُدا تعالیٰ کی محبت اور معافی کے بارے میں خوشخبری تھی، جس کی اُنہوں نے سُننے والوں اور نہ سُننے والوں دونوں کے سامنے منادی کی۔ یہ مافوق الفطرت اور فوق البشر رویہ تھا، یہ رُوح القدس کا پھل تھا (اعمال 8: 4-8)۔

جہاں کہیں اُنہوں نے منادی کی اِس رویہ کا نتیجہ بڑی خوشی کی صورت میں نکلا۔ یہ خوشی نجات کی خوشی تھی جس نے خوشخبری قبول کرنے والے ہر فرد کے دِل کو معمور کر دیا۔ جب خوشخبری کا پیغام سُنانے والوں نے دیکھا کہ اُن کی طرح دوسروں نے بھی اِنجیل کو قبول کیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اُن سب نے قدیم گیت گایا: "دیکھو خُدا میری نجات ہے۔ میں اُس پر توکل کروں گا اور نہ ڈروں گا کیونکہ یاہ یہوواہ میرا زور اور میرا سرود ہے اور وہ میری نجات ہُوا ہے۔ پس تم خوش ہو کر نجات کے چشموں سے پانی بھرو گے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 12: 2، 3)۔

دینداری کے لباس کو پہننا جو رُوح القدس نے ہمارے لئے تیار کیا ہے کس قدر خوبصورت بات ہے، اور یوں ہم یسعیاہ نبی کے الفاظ کو دُہرا سکتے ہیں: "میں خُداوند سے بہت شادمان ہوں گا۔ میری جان میرے خُدا میں مسرور ہو گی کیونکہ اُس نے مجھے نجات کے کپڑے پہنائے۔ اُس نے راستبازی کی خِلعت سے مجھے مُلبّس کیا" (یسعیاہ 61: 10)۔

(2) کتاب حیات میں نام لکھے جانے کی خوشی

خُدا تعالیٰ ہر اُس فرد کا نام کتابِ حیات میں لکھتا ہے جو اُس کی معافی کو قبول کرتا ہے۔ نتیجتاً، رُوحانی خوشی اُس کے دِل پر حاوی ہو جاتی ہے، جیسا کہ مسیح نے فرمایا: "اِس سے خوش ہو کہ تمہارے نام آسمان پر لکھے ہوئے ہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 20)۔ وہ اُس تکلیف سے بچ جاتا ہے جس کے بارے میں مسیح نے کہا: "مجھ کو ترک کرنے والے خاک میں مل جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے خُداوند کو جو آبِ حیات کا چشمہ ہے ترک کر دیا" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 17: 13)۔ رُوح القدس توبہ کرنے والے ہر فرد پر گواہی دیتا ہے کہ وہ خُدا کا فرزند ہے اور اُس کا نام برّے کی کتابِ حیات میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ "رُوح خود ہماری رُوح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خُدا کے فرزند ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 16)۔ ہماری ایک ہی رُوح میں آسمانی باپ کے پاس رسائی ہوتی ہے، جس کے نتیجہ کے بارے میں بائبل مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ "پس اب تم پردیسی اور مسافر نہیں رہے بلکہ مُقدّسوں کے ہم وطن اور خُدا کے گھرانے کے ہو گئے" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 18، 19)۔

رُوح القدس آپ کو یقین دلائے گا کہ آپ کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں اور آپ کا نام کتابِ حیات میں لکھا جا چکا ہے کیونکہ ایمان لانے سے آپ پر "پاک موعودہ رُوح کی مہر لگی۔ وہی خُدا کی ملکیت کی مخلصی کےلئے ہماری میراث کا بیعانہ ہے" (افسیوں 1: 13، 14)۔ اگر آپ نے اپنے دِل کو مسیح اور اُس کی نجات کےلئے کھولا ہے تو آپ پر رُوح کی مہر لگے گی جو آپ کے ایمان کی صداقت کی یقین دہانی ہے۔ اب جبکہ آپ خُدا کے فرزند بن چکے ہیں تو خُدا نے اپنے بیٹے کے رُوح کو آپ کے دِل میں بھیجا ہے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 6) جو مسیح کےلئے آپ کی سپردگی کی ضمانت ہے، اور تصدیق کرتا ہے کہ آپ کی آنے والی برکات ماضی کی برکات سے زیادہ ہیں۔

(3) خُداوند کی پوری حضوری کی خوشی

جب رُوح القدس آپ کے دِل کو معمور کرتا اور آپ کی زندگی پر راج کرتا ہے تو آپ اپنے ساتھ خُداوند کی مکمل موجودگی کا یقین رکھ سکتے ہیں، جیسا کہ مسیح نے وعدہ کیا: "کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکھٹے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں" (اِنجیل بمطابق متی 18: 20)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: "دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں" (اِنجیل بمطابق متی 28: 20)۔ صرف تبھی مسیح کا اپنے شاگردوں کے ساتھ کیا گیا وعدہ ہماری زندگیوں میں پورا ہو گا: "اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ یعنی رُوحِ حق ... میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ میں تمہارے پاس آﺅں گا۔ ... اگر تم مجھ سے محبت رکھتے تو اِس بات سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں خوش ہوتے ... لیکن جب وہ مددگار آئے گا ... رُوحِ حق جو باپ سے صادِر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ ... میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاﺅں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاﺅں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 16-18، 28 ; 15: 26 ; 16: 7)۔ مسیح کو آسمان پر صعود کر کے رُوح القدس بھیجنا تھا تا کہ اُس کے شاگرد خوشی سے بھر جاتے اور اپنے ساتھ خُدا تعالیٰ کی مسلسل حضوری کا تجربہ کر سکتے۔ رُوح القدس نے اُنہیں اُن کے غم میں تسلی دینا تھی، کمزوری میں مدد کرنا تھی، خوف میں حفاظت فراہم کرنا تھی اور اُن کے تذبذب میں راہنمائی کرنی تھی۔

ہر ایماندار کے پاس اپنے ساتھ خُدا کی حضوری کے کامل یقین میں زندگی بسر کرنے کا استحقاق ہے، جو اُسے گھیرے رہتا ہے اور آزمایشوں میں سنبھالتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب ایک ایماندار رُوح القدس کے اختیار میں رہنے اور اُس سے تعلق کی بدولت اُس سے معمور ہوتا ہے۔ اِس کا فطری نتیجہ رُوح القدس کے تمام پھل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ زبور نویس نے کہا: "تیرے حضور میں کامل شادمانی ہے۔ تیرے دہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 16: 11)۔ یہ خوشی ایماندار کو اپنی زندگی میں غم، آہوں، بُڑبُڑاہٹ اور تشویش پر غالب آنے کےلئے تقویت فراہم کرتی ہے کیونکہ خُداوند اُسے خوشی کے ساتھ گھیر لیتا ہے۔ تاہم، بادشاہ کے اُن فرزندوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے جو رُوح القدس کی معموری سے لُطف اندوز نہیں ہوتے، جو چیتھڑوں میں رہتے ہیں، فاقوں کی نوبت ہے اور مسرف بیٹے کی طرح ہیں جسے کھانے کےلئے بس سؤروں کی خوراک تک رسائی تھی جبکہ اُس کے باپ کے گھر میں نوکروں کے پاس اِفراط کے ساتھ خوراک موجود تھی۔

پولس رسول نے خُدا تعالیٰ کے بارے میں کہا: "اُس نے مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کئے اور تمہارے دِلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا" (نیا عہدنامہ، اعمال 14: 17)۔ جب رُوح القدس ہم پر راج کرتا ہے تو اُس کی مہربانیاں ہم پر ظاہر ہوتی ہیں اور وہ ہماری تمام ضروریات کو مہیا کرنے سے ہمارے دِلوں کو آسودہ کرتا ہے اور ہمارے اندر دیرپا اور گہری خوشی پیدا کرتا ہے۔

(4) مکمل خدمت کی خوشی

جب ہم رُوح القدس سے معمور ہو جاتے ہیں تو خُداوند کے بہتر خادم بن جاتے ہیں، کیونکہ ہم اُس سے قوت پاتے ہیں جو ہمیں ہمارے گناہوں اور کمزوریوں پر غالب آنے میں مدد فراہم کرتی ہے، اور ہمیں اپنے گھروں، کلیسیاﺅں اور معاشروں میں مسیح کے بہتر گواہ بناتی ہے (اعمال 1: 8)۔ یہ قوت ہمیں مسیح مصلوب کی منادی کرنے کے قابل بناتی ہے چاہے اِس کےلئے ہمیں ایک بھاری صلیب اُٹھانی پڑے، کیونکہ آنسوﺅں کے ساتھ بونے والے خوشی سے کاٹیں گے، جیسا کہ زبور نویس نے کہا "جو آنسوﺅں کے ساتھ بوتے ہیں وہ خوشی کے ساتھ کاٹیں گے۔ جو روتا ہوا بیج بونے جاتا ہے وہ اپنے پولے لئے ہوئے شادمان لوٹے گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 126: 5، 6)۔ جب ایک ایماندار خُداوند اور لوگوں کےلئے اپنی خدمت میں کامیابی کا تجربہ کرتا ہے، کھوئی ہوئی رُوحوں کو توبہ کرتے اور ابدی زندگی پاتے ہوئے دیکھتا ہے، مایوسی کے شکاروں کو اُمید سے بھرا ہُوا دیکھتا ہے، لوگوں کو اپنی کمزوریوں سے بلند ہو کر آسمانی مقاموں میں بیٹھے دیکھتا ہے تو اُس وقت اُس کے دِل پر کس قدر خوشی چھا جاتی ہے۔ جھگڑا کرنے والے ایک جوڑے کو صلح صفائی میں دیکھنا اور بگڑے ہوئے مسئلہ کا حل دیکھنا کس قدر خوبصورت ہے! "بیابان اور ویرانہ شادمان ہوں گے اور دشت خوشی کرے گا اور نرگس کی مانند شگفتہ ہو گا۔ ... وہ خُداوند کا جلال اور ہمارے خُدا کی حشمت دیکھیں گے۔ کمزور ہاتھوں کو زور اور ناتوان گھٹنوں کو توانائی دو۔ اُن کو جو کچ دِلے ہیں کہو ہمت باندھو مت ڈرو۔ ... ہاں خُدا ہی آئے گا اور تم کو بچائے گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 35: 1-4)۔

جب آپ خُداوند کو کامل خدمت پیش کرتے ہیں تو آپ اپنی زندگی کےلئے خُدا تعالیٰ کی مرضی پوری کرتے ہیں، اور آپ کا دِل خوشی سے معمور ہو جائے گا۔ زبور نویس نے کہا، "اے میرے خُدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 40: 8)۔ آپ اُس وقت نہایت شادمان ہوں گے جب یہ دُعا کریں گے: "جیسے تیری مرضی آسمان پر پوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو۔" خُدا تعالیٰ کی آپ کےلئے مرضی یہ ہے کہ دوسروں کو نجات کی خوشخبری سُنائیں، اُسے کلام، تحریر اور اچھی مثال کے ذریعے پھیلائیں۔ تب آپ یوحنا رسول کے ساتھ کہیں گے: "اور یہ باتیں ہم اِس لئے لکھتے ہیں کہ ہماری خوشی پوری ہو جائے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 1: 4)۔ آپ اُس وقت نہایت خوش ہوں گے جب اِس حکم کا عملی طور پر اطلاق کریں گے کہ "دینا لینے سے مبارک ہے" (نیا عہدنامہ، اعمال 20: 35)۔ بےشک پطرس رسول اُس وقت بڑا شادمان ہُوا ہو گا جب اُس نے کہا تھا کہ "چاندی سونا تو میرے پاس ہے نہیں مگر جو میرے پاس ہے وہ تجھے دیئے دیتا ہوں۔ یسوع مسیح ناصری کے نام سے چل پھر" (اعمال 3: 6)۔ تب لنگڑا شخص کود کر کھڑا ہو گیا اور چلنے لگا۔

دُعا

اے میرے خُدا، تیرا شکر ہو کہ تُو نے میری توجہ اِس حقیقت کی طرف مبذول کی ہے کہ دُنیا مجھے تکلیف پہنچائے گی، لیکن میں اِس بات کےلئے تیرا بہت شکر کرتا ہوں کہ تُو نے مجھے شادمانی عطا کی ہے، اور تیری شادمانی میری قوت ہے۔ میرے لئے تیرے نزدیک آنا کس قدر دِلکش ہے، کیونکہ تُو مجھے صلیب پر مسیح کے پورے کئے ہوئے کام کی بدولت نجات کی شادمانی عطا کرتا ہے اور ضمانت دیتا ہے کہ میرا نام برّے کی کتابِ حیات میں لکھا ہے۔ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو ہمیشہ یہاں تک کہ دُنیا کے آخر تک میرے ساتھ ہے۔ مجھ میں اور میرے ذریعے سے رُوحانی طور پر کام کر کے میرے دِل کو شادمانی بخشتا رہ۔ آمین

د- رُوح القدس کا پھل: اطمینان

ہر فرد اپنے اور دوسروں کے ساتھ اطمینان اور ہم آہنگی میں رہنا چاہتا ہے، لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیسے ہم حقیقی اور قائم رہنے والا اطمینان پاتے ہیں؟

مجھے ایک طالبہ کا خط ملا جو ایم۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کرنے کےلئے تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ نفسیاتی طور پر بیمار ہے، اُسے اپنے آپ سے نفرت ہے، وہ اپنے خاندان کے افراد سے لڑتی جھگڑتی ہے اور زندگی سے تنگ آ چکی ہے۔ اُس نے پوچھا "کیا میں پاگل ہوں؟ کیا اِس کا کوئی علاج ہے؟ آ پ کیسے میری مدد کر سکتے ہیں؟" میں نے اُسے لکھا کہ ایک فرد کی لازمی ضرورت خُدا تعالیٰ کے ساتھ اطمینان پانا ہے، جو اُسے باطنی اطمینان بخشتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ اپنے اردگرد کے افراد کے ساتھ بھی سلامتی پاتا ہے۔ حقیقی اطمینان خُدا تعالیٰ کے ساتھ امن و یگانگی سے شروع ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک فرد اپنے اور دوسروں کے ساتھ بھی سلامتی کی حالت میں ہوتا ہے۔

اپنے گہرے رُوحانی معنٰی کے اعتبار سے اطمینان کسی چیز کی اُس جگہ موجودگی کا نام ہے جہاں فطری طور پر اُس کا تعلق ہے، جیسے خُدا تعالیٰ نے آدم کو خلق کیا اور باغِ عدن میں رکھا تو اُنہیں وہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ باغ میں انسان اور خُدا کے درمیان اطمینان تھا، جس کا اظہار اُن کی دوستانہ گفتگو میں نظر آتا ہے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 8)۔ آدم اور اُس کی بیوی کے درمیان بھی اطمینان تھا جو اِس حقیقت میں محسوس کیا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلا گیت محبت کا نغمہ تھا جو آدم نے اپنی بیوی حوّا کےلئے کہا، جس میں اُس نے کہا "یہ تو اَب میری ہڈّیوں میں سے ہڈّی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی۔"

بلا شک و شبہ ہمارے جدّ امجد شاندار باغ میں خوش زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن جب گناہ دُنیا میں داخل ہُوا تو اطمینان ختم ہو گیا۔ تب آدم نے اپنے آپ کو خُدا تعالیٰ سے چھپانے کی کوشش کی کیونکہ وہ اپنے ننگے پن پر شرمندہ تھا، اور پھِر اُس نے اُس نافرمانی کا الزام حوّا کے سر لگا دیا جس میں وہ دونوں شریک تھے۔ ہم اُس وقت تک اپنا اطمینان نہیں پا سکتے جب تک کہ ہم خُدا میں اپنی فطری جگہ میں واپس نہ لوٹ آئیں، وہ جگہ جو اُس نے ہمارے لئے تیار کی ہے، اور ایسا کرنے سے ہم کھوئے ہوئے فردوس میں پھِر سے لوٹ آتے ہیں۔

پرانا عہدنامہ ہمارے سامنے تمام طرح کے بُرے حالات کے باوجود خُدا پر مبنی رُوحانی اطمینان کی زبردست مثال پیش کرتا ہے۔ یہ شونیمی عورت کا اطمینان ہے (پرانا عہدنامہ، 2- سلاطین 4 باب)۔ اُس کے ہاں اولاد نہ تھی، اور خُدا تعالیٰ نے اُسے ایلیاہ نبی کے ذریعے ایک معجزہ کر کے ایک بیٹا دیا۔ لیکن ایک دِن اچانک اُس کا بڑے عرصہ کے بعد پیدا ہونے والا بیٹا مر گیا۔ تاہم، وہ خُدا تعالیٰ کے اطمینان سے بھری ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اُس نے لڑکے کو نبی کے بستر پر لٹا دیا اور اپنے شوہر کو کہا کہ اپنے جوانوں میں سے ایک کو میرے ساتھ بھیج تا کہ میں نبی کے پاس جاﺅں۔ جب اُس کے شوہر نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں نبی سے ملنے جانا چاہتی ہے تو اُس نے جواب دیا: "اچھا ہی ہو گا۔" اور جب وہ نبی کے خادم سے ملی تو اُس نے پوچھا کہ کیا خیریت ہے؟ تو اُس نے وہی جواب دیا کہ "خیریت ہے" (اِس کا لفظی مطلب ہے: سلامتی ہے)۔ شونیمی عورت اُس وقت تک یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ خیریت سے ہے جب تک کہ اُس کے پاس واقعی غیر معمولی اطمینان نہ ہوتا، وگرنہ اُس کا یہ کہنا بےمقصد جواب ہوتا یا پھِر اپنے بیٹے کی فوری موت پر صدمہ کے نتیجہ میں اپنے آپ کو دھوکا دینا ہوتا۔ اگر آپ شونیمی عورت کی زندگی کے واقعہ کو پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ جو کچھ اُس کے پاس تھا وہ دُنیا اُسے نہیں دے سکتی تھی، اور یہ خُدا کا اطمینان تھا جو تمام سمجھ سے باہر ہے جس نے اُس کے دِل اور ذہن کو انتہائی پریشان کن وقت میں بھی اطمینان میں رکھا۔ سو، اُس صدمہ کے وقت میں وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کے قابل تھی جبکہ بہت سے لوگ ایسی صورتحال میں دہل جاتے ہیں۔ یہ اطمینان رُوح کا پھل ہے۔

ہمیں اِس اطمینان کی کس قدر زیادہ ضرورت ہے! لیکن ہم سب کےلئے ایک خوشخبری بھی ہے: اگر ہم اپنے اندر اطمینان کا پھل چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا آپ رُوح القدس کی سپردگی میں دینا ہو گا، تبھی ہم خُدا تعالیٰ کا کامل اطمینان پا سکتے ہیں۔ اِسی کا وعدہ خُدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں کیا ہے: "اور صلح کرانے والوں کےلئے راست بازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 3: 18)۔

سی۔ ایس۔ لوئس نے کہا کہ اطمینان بحری جہاز کے آلات کی اچھی حالت، جہاز رانوں کی ہم آہنگی اور اردگرد کے کشتیوں سے ٹکرانے سے بچنے کی حالت ہے جس میں ہم یہ بھی خیال رکھتے ہیں کہ دوسرے غلطیاں کریں گے۔

اطمینان میں زندگی بسر کرنے کےلئے ہمیں لازماً خُدا سے کہنا ہے کہ وہ ہمارے تمام داخلی انتشار کو ختم کرے اور ہمیں باطنی اطمینان بخشے تا کہ ہم ڈانواں ڈول نہ ہوں اور اپنے اردگرد کے افراد سے ٹکراتے نہ پھریں۔ اگر ہم اِن برکات کو اپنی زندگی میں حاصل کریں گے تو اطمینان میں رہنے کے قابل ہوں گے اور اپنے مقاصد کے پورا ہونے میں کامیابی حاصل کر کے اپنی منزل تک پہنچیں گے۔ ایسا صرف خُدا تعالیٰ کے فضل اور ہم میں رُوح القدس کے کام سے ممکن ہو سکتا ہے۔

(1) رُوح القدس انسانی بگاڑ کو درستی بخشتا ہے

زندگی کی ہر کامیابی خُدا تعالیٰ کے ساتھ اطمینان پر مبنی ہے، لیکن گناہ نے اِس اطمینان کو تباہ کر دیا اور انسان کی خُدا سے دُوری پیدا ہو گئی۔ جب ہمارے جدّ امجد آدم نے گناہ کیا اور شجر ممنوعہ سے کھایا، تو اُس نے اپنے آپ کو خُدا کی حضوری سے چھپانے کی کوشش کی اور پھِر رفاقت ٹوٹ جانے کی وجہ سے خُدا کے ساتھ بات کرنے کے قابل نہ رہا۔ تب انسان خُدا کے ہاتھوں خلق شدہ شاندار مخلوق نہ رہا، بلکہ ایک نافرمان مخلوق بن گیا جو ابلیسی دھوکے کا شکار ہو گیا تھا۔ اِس بارے میں پولس رسول نے کہا: "پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 12)۔ آدم نے گناہ کیا اور اُس کی نسل نے بھی اُس کے ساتھ گناہ کیا۔ اُسے باغ چھوڑنا پڑا اور اُس وقت سے انسان ایک دوسرے کے دُشمن بن گئے، یہاں تک کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کر ڈالا۔ یہ انسانی زندگی میں واقع ہونے والی سب سے بڑی بدنظمی تھی، جس کے نتیجہ میں انسان تمام اچھے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہُوا۔

لیکن ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ خُدا تعالیٰ نے گناہ میں گری ہوئی انسانیت کےلئے گناہوں کے کفارہ کے ذریعے نجات کا ایک منصوبہ ترتیب دیا جسے مسیح نے صلیب پر پورا کیا، اور اِسی منصوبہ کے تحت رُوح القدس ایمانداروں کی زندگی کی تقدیس کرتا ہے اور اُنہیں پھِر سے خُدا کے ساتھ اطمینان عطا کرتا ہے جو وہ کھو چکے تھے۔ ہمارے گناہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ سے جُدا کیا اور ہم ابدی موت کے مستحق تھے۔ لیکن خُدا تعالیٰ کا شکر ہو کہ اُس کا رُوح ہماری تخلیق نو کرتا ہے، جیسا کہ زبور نویس کہتا ہے "تُو اِن کا دم روک لیتا ہے اور یہ مر جاتے ہیں اور پھِر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ تُو اپنی رُوح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں اور تُو رویِ زمین کو نیا بنا دیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 104: 29-30)۔

یرمیاہ نبی نئے بنائے جانے کے اِس تصور کو ایک خوبصورت تشبیہ سے واضح کرتا ہے۔ خُدا نے اُسے کمہار کے گھر جانے کا حکم دیا۔ وہاں اُس نے دیکھا کہ کمہار مِٹّی کا ایک برتن بنا رہا تھا، جو اُس کے ہاتھ میں بگڑ گیا۔ تاہم کمہار نے اُسے پھینک نہیں دیا، اُس نے اُس مِٹّی کو پھِر سے لیا، خرابی کی وجہ کو دُور کیا۔ شاید کچھ مِٹّی باقی مِٹّی سے خشک تھی، یا پھِر کچھ مِٹّی میں باقی مِٹّی کی نسبت زیادہ نمی تھی۔ کمہار نے اُس مِٹّی کو لے کر ایک جیسا کیا اور پھِر سے چاک پر رکھ دیا اور اپنی مرضی کے مطابق اُس سے برتن بنایا (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 18 باب)۔ خُدا تعالیٰ نے یرمیاہ نبی سے کہا کہ جس طرح مِٹّی کمہار کے ہاتھ میں ہے اُسی طرح انسان خُدا کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ اُنہیں خوبصورت برتن بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے دِل کی سختی یا اپنے رویے میں لاپروائی سے کام خراب کر دیتے ہیں۔ اِس لئے خُدا نے اُنہیں پھِر سے صورت دینی ہے۔ وہ اپنا رُوح بھیجتا ہے اور بگڑے ہوئے انسان کو پھِرسے نئے سرے سے خلق کرتا ہے، اور اُس کی تمام زندگی اور رویہ تبدیل کر دیتا ہے، اور یوں رسولی الفاظ پورے ہوتے ہیں: "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں۔ ... مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذمہ نہ لگایا ... جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اُس میں ہو کر خُدا کی راست بازی ہو جائیں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 5: 17، 19، 21)۔ ہم ہر اُس فرد کے ساتھ جس کی زندگی خُداوند نے تبدیل کی ہے یہ کہہ سکتے ہیں: "کیونکہ ہم اُسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کےلئے تیار کیا تھا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 10)۔

خُدا تعالیٰ نے مسیح کے کفارہ کے ذریعے ہمارے لئے گناہوں کے ڈھانکے جانے کا انتظام کیا ہے، جس نے ہمیں اُس کے ساتھ صلح میں رہنے کے قابل بنا دیا ہے کیونکہ یہ عظیم آسمانی قربانی کے ذریعے فدیہ و مخلصی کی درست اساس پر مبنی تھا۔ اِس تعلق سے پولس رسول کہتا ہے "پس جب ہم ایمان سے راست باز ٹھہرے تو خُدا کے ساتھ اپنے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 1)۔ یسعیاہ نبی نے مسیح کی مصلوبیت سے تقریباً سات سو سال قبل اِس بارے میں پہلے ہی نبوت کی تھی اور اُس کے تعلق سے کہا تھا "وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھِرا، پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 5، 6)۔

پطرس رسول نے کرنیلیس کے گھر میں اپنے وعظ میں کہا: "اب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خُدا کسی کا طرفدار نہیں۔ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راست بازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔ جو کلام اُس نے بنی اسرائیل کے پاس بھیجا جب کہ یسوع مسیح کی معرفت جو سب کا خُداوند ہے صلح کی خوشخبری دی۔ ... اِس شخص کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے گا اُس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا" (نیا عہدنامہ، اعمال 10: 34-43)۔

مسیح یسوع کے فدیہ و کفارہ کے سبب سے ہمارے سب گناہ معاف ہو چکے ہیں اور خُدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق میں سلامتی کا راج ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کسی قسم کی بدنظمی دیکھتے ہیں جو آپ سے آپ کا اطمینان چُرا رہی ہے تو اُس میں پناہ لیں، اُس کے رحم کے طالب ہوں اور وہ آپ کے گناہ کو معاف کرے گا اور آپ کی خطاﺅں کو دھو ڈالے گا، اور آپ کے دِل اور ذہن کو کثرت کے اطمینان سے بھر دے گا۔

(2) رُوح القدس باطنی اطمینان کی ضمانت دیتا ہے

جو لوگ خُدا تعالیٰ سے دُور ہونے کی وجہ سے اُس کا اطمینان کھو گئے اُن سے خُدا نے یسعیاہ نبی کی معرفت کہا: "کاش کہ تُو میرے احکام کا شِنوا ہوتا اور تیری سلامتی نہر کی مانند ... ہوتی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 48: 18)۔ انسان مسلسل باطنی جنگ میں ہے، جس کے بارے میں پولس رسول نے اِن آیات میں بیان کیا ہے "کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو رُوحانی ہے مگر میں جسمانی اور گناہ کے ہاتھ بِکا ہُوا ہوں۔ ... جس کا میں اِرادہ کرتا ہوں وہ نہیں کرتا بلکہ جس سے مجھ کو نفرت ہے وہی کرتا ہوں۔ ... کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ اِرادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جس نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 7: 14-19)۔ پولس رسول نے ہمارے اندر ایک جاری رہنے والی جنگ کو ایک اَور جگہ یوں بیان کیا ہے: "جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور رُوح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں تا کہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ کرو" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 17)۔

جب رُوح القدس آپ کی زندگی اور عادات و اطوار پر سلطنت کرتا ہے تو آپ اِس باطنی جنگ کو جیت جائیں گے، خُدا کی طرف کھڑے ہوں گے اور پولس رسول کے اِس حکم کی پیروی کرنے کے قابل ہوں گے کہ "رُوح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کرو گے۔ ... اور جو مسیح یسوع کے ہیں اُنہوں نے جسم کو اُس کی رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچ دیا ہے۔ اگر ہم رُوح کے سبب سے زندہ ہیں تو رُوح کے موافق چلنا بھی چاہئے" (گلتیو ں 5: 15، 24، 25)۔ جب آپ رُوح القدس کے موافق چلتے ہیں تو آپ خُدا تعالیٰ کے ساتھ کثرت کے اطمینان میں زندگی گزارتے ہیں، تب آپ ایک چھلکتے ہوئے دریا میں گہرے طور پر غوطہ زن ہوتے ہیں اور اپنی باطنی جنگ میں فتحمندی پر خوشی کے مارے پُکار اُٹھتے ہیں: "کیونکہ زندگی کے رُوح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 2)۔

جب رُوح سے معمور ایک ایماندار مسیح میں قائم ہوتا ہے اور مکمل طور سے اُس پر بھروسا کرتا ہے، تو اُس کا اطمینان ایک رواں دواں دریا کی مانند جاری ہو جاتا ہے اور نبی کے الفاظ کا اُس پر اطلاق ہوتا ہے "جس کا دِل قائم ہے تُو اُسے سلامت رکھے گا کیونکہ اُس کا توکل تجھ پر ہے۔ ابد تک خُداوند پر اعتماد رکھو کیونکہ خُداوند یہوواہ ابدی چٹان ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 26: 3، 4)۔ رُوح سے معمور ایماندار دھنسنے والی ریت پر نہیں چلتا کہ جس میں وہ بےمقصد چلتے ہوئے دھنس جائے، بلکہ وہ مضبوط چٹان پر چلتا ہے۔ یوں وہ خُداوند کی حمایت کی بدولت اپنے مقصد تک پہنچ جاتا ہے۔ "وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خُدا اور بدی سے مبرّا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے" (توریت شریف، استثنا 32: 4)۔ رُوح سے معمور ایماندار دلدلی زمین پر جہاں اُس کے قدم پھسل سکتے ہیں نہیں چلتا، کیونکہ وہ اپنی زندگی میں زبور نویس کا سا تجربہ رکھتا ہے جس نے ایسی صورتحال میں سے گزرتے ہوئے کہا: "میں نے صبر سے خُداوند پر آس رکھی۔ اُس نے میری طرف مائل ہو کر میری فریاد سُنی۔ اُس نے مجھے ہولناک گڑھے اور دلدل کی کیچڑ میں سے نکالا اور اُس نے میرے پاﺅں چٹان پر رکھے اور میری روِش قائم کی۔ اُس نے ہمارے خُدا کی ستایش کا نیا گیت میرے مُنہ میں ڈالا۔ بہتیرے دیکھیں گے اور ڈریں گے اور خُداوند پر توکل کریں گے" (پرانا عہدنامہ، زبور 40: 1-3)۔

اگر آپ رُوح القدس سے معمور ہو چکے ہیں، اور آپ کے تمام کام اُس کے اختیار میں رہ کر سرانجام پاتے ہیں تو آپ خُدا تعالیٰ کے تمام بھلے وعدوں کو اپنی زندگی میں حاصل کریں گے جو مسیح نے اپنے شاگردوں سے کئے۔ یہاں میں ایسے دو وعدوں کا تذکرہ کروں گا، جو مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہودیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے اور اپنی مصلوبیت سے پہلے بالاخانہ میں کہے۔

مسیح نے فرمایا: "میں تمہیں اطمینان دیئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دُنیا دیتی ہے میں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 27)۔ پھِر مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ باپ کے پاس جا رہا ہے اور اُن کےلئے رُوح القدس بھیجے گا تا کہ وہ اُس سے معمور ہوں اور اُس کا کامل اطمینان پائیں۔

یہ بےحسی، منفیت یا فراریت نہیں ہے، بلکہ باطنی اطمینانِ قلب اور بھروسا ہے کہ ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات میں خُدا تعالیٰ قادرِ مطلق ہے جس کے پاس آسمان و زمین کا کُل اختیار ہے۔ مسیح کا اطمینان شاگردوں کےلئے صرف اپنی عقل سے سیکھنے والا ایک سبق نہیں تھا بلکہ ایک آسمانی تحفہ تھا جس کا نتیجہ ایک خاص طرح کے طرزِ زندگی کی صورت میں نکلا۔ یہ اطمینان مسیح میں ہے اوراُن سب کو ملتا ہے جو اُس کی پیروی کرتے ہیں، اپنا آپ اُس کے حوالے کرتے اور اپنے آپ کو رُوح القدس کے کام کےلئے فراہم کرتے ہیں۔

مسیح نے فرمایا: "میں نے تم سے یہ باتیں اِس لئے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاﺅ۔ دُنیا میں مصیبت اُٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دُنیا پر غالب آیا ہوں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 16: 33)۔ جب ہم اِن الہٰی وعدوں کو اپنی پوری طاقت سے تھام لیتے ہیں تو ہمیں یہ اطمینان ملتا ہے۔ جہاں تک مادی اشیاء کی بات ہے جنہیں لوگ اطمینان کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ ناپائدار اور مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔

یہ دو عظیم وعدے مسیح کے شاگردوں کی زندگی میں سچ ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر آئیے ذرا دیکھیں کہ پطرس رسول کے ساتھ کیا ہوا۔ ہیرودیس بادشاہ نے یوحنا رسول کے بھائی یعقوب رسول کو گرفتار کر کے قتل کر دیا جس کی وجہ سے یہودی بہت خوش ہوئے۔ اب چونکہ لوگ ہیرودیس سے نفرت کرتے تھے، اِس لئے وہ اپنے خلاف لوگوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنا اور اُن کی توجہ سیاسی معاملات سے دُور کرنا چاہتا تھا۔ اِس لئے اُس نے پطرس رسول کو بھی قربانی کا بکرا بنانا چاہا اور اُسے گرفتار کر لیا تا کہ عیدِ فسح کے بعد اُسے قتل کرے (نیا عہدنامہ، اعمال 12: 1-5)۔ جب پطرس رسول کو قتل کیا جانا تھا اُسی رات وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ اُس کی گہری نیند اِس پریشانی سے فرار نہ تھی بلکہ یہ تسلی اور اطمینان کا نتیجہ تھی۔ اُس نے مسیح کے اطمینان کا وعدہ پایا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ اور اپنے اوپر بیرونی دباﺅ کے درمیان توازن رکھنے کے قابل تھا۔ پطرس رسول نے خوف کی شریعت سے بڑھ کرمسیح میں زندگی کے رُوح کی شریعت کا تجربہ کیا جس نے اُسے خوف سے بالا رکھا، جیسے کہ یہ ہمیں گرانے والے تمام طرح کے دباﺅ میں سنبھالنے کے قابل ہے، اور یوں خُدا کا اطمینان ہمارے دِل اور ذہن کو محفوظ رکھتا ہے۔

(3) رُوح القدس ہمیں دوسروں کے ساتھ میل ملاپ کے قابل بناتا ہے

زندگی کے سمندر میں بہت سی کشتیاں ہمارے ساتھ محو سفر ہیں، سب کی مختلف سمت اور منزلیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی مشینری میں کچھ بےترتیبی ہو جس کی وجہ سے وہ ہم سے ٹکرا جائیں۔ خُداوند ہمیں اِس ٹکراﺅ کے خطرے سے خبردار کرتا ہے کیونکہ یہ ہمیں خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ بائبل مُقدّس کہتی ہے: "جہاں تک ہو سکے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل ملاپ رکھو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 18)۔ جو لوگ جارحانہ رویے کے حامل ہوتے ہیں ہمیں اُن کے ساتھ متصادم ہونے سے بچنا چاہئے۔

اگر ہم دوسرے لوگوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں تو ہم سے وعدہ ہے کہ نقصان پانے سے بچ جائیں گے۔ اِس لئے بائبل مُقدّس کہتی ہے: "بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آﺅ" (رومیوں 12: 21)۔ ہمارے سامنے یہ چیلنج ہے کہ دوسروں کے ساتھ اُلجھنے کی غلطی نہ کریں۔ بائبل مُقدّس کہتی ہے: "پس ہم اُن باتوں کے طالب رہیں جن سے میل ملاپ اور باہمی ترقی ہو" (رومیوں 14: 19)۔ جتنا زیادہ ہم رُوح القدس میں ہوتے ہیں اُتنا ہی خُدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق گہرا ہوتا ہے اور ہم دوسروں کے ساتھ تصادم جھگڑے کا شکار نہیں ہوتے۔

خُدا تعالیٰ توقع کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ امن و آرام سے رہنے کےلئے کوشاں ہوں، اور اُس نے ہمیں ابرہام کی شخصیت کی صورت میں صلح صفائی کی ایک عظیم مثال دی ہے۔ ابرہام کا بھتیجا لُوط یتیم تھا۔ ابرہام نے اُسے لےپالک لیا تھا اور اپنے ساتھ وعدے کی سرزمین کی طرف لے کر گیا۔ ابرہام کی مہربانی کی وجہ سے لُوط کے مال و دولت میں بہت اضافہ ہو گیا، لیکن پھر لُوط کے چرواہوں اور ابرہام کے چرواہوں کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ ابرہام نے پہچان لیا کہ یہ جھگڑا بہت خطرناک ہو سکتا تھا کیونکہ اِس سے لُوط اور ابرہام کو ایک ہی وقت میں خطرہ تھا۔ قریب ہی رہنے والے کنعانی اِس جھگڑے کا فائدہ اُٹھا سکتے تھے اور اُنہیں نگل جاتے۔ سو، ابرہام نے امن کی خاطر لُوط سے ملاقات کی اور اُسے کہا "میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہُوا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔ کیا یہ سارا مُلک تیرے سامنے نہیں؟ سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔ اگر تُو بائیں جائے تو میں دہنے جاﺅں گا اور اگر تُو دہنے جائے تو میں بائیں جاﺅں گا۔" ابرہام نے بڑی حکمت سے بات کی، جس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جھگڑے کی تمام وجوہات سے جغرافیائی طور پر اپنے آپ کوعلیحدہ کر دیں تا کہ پھِر ایسی صورتحال کے پیدا ہونے سے بچ جائیں۔ تاہم، اِس جغرافیائی جُدائی نے ابرہام میں اپنے بھتیجے کےلئے محبت کو کمزور نہ کیا۔ ابرہام نے لُوط کو اپنی مرضی کی جگہ میں رہنے کا چُناﺅ دے کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ لُوط نے زرخیز علاقے کا چُناﺅ کیا۔ بعد ازاں جب لُوط اور اُس کے خاندان کو قیدی بنا لیا گیا تو اُس کےلئے ابرہام کی محبت ایک بار پھِر ظاہر ہوئی اور ابرہام اُس کی مدد کےلئے فوری گیا۔ ابرہام اور اُس کے ساتھیوں نے لُوط کو حملہ آوروں کے ہاتھ سے چھڑانے کےلئے جلدی کی۔ ابرہام نے لُوط کے ساتھ پیش آنے والے اِس واقعے کو خُدا کی طرف سے سزا تصور نہ کیا، اور نہ ہی اُس نے اپنے بھتیجے کی بیوقوفی کا مذاق اُڑایا۔ ابرہام اور لُوط کے درمیان جُدائی صرف جُغرافیائی تھی۔ ابرہام نے نہ تو لُوط کو جذباتی طور پر چھوڑا اور نہ ہی اُسے اپنی سوچ و فکر سے باہر کیا۔ جب ابرہام نے لُوط کو چُھڑا لیا تو وہ دونوں اپنی چُنی ہوئی جگہ ہی میں رہے، کیونکہ ابرہام جھگڑے کو دُور رکھنا چاہتا تھا اور اُس میں صلح قائم رکھنے کی خواہش موجود تھی (توریت شریف، پیدایش 13، 14 باب)۔

خُدا تعالیٰ ہمیں باطنی اطمینان عطا کرتا ہے اور اُن لوگوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرنے کےلئے حکمت بھی دیتا ہے جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ رسولی نصیحت کس قدر خوبصورت ہے: "غرض سب کے سب یکدِل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرم دِل اور فروتن بنو۔ بدی کے عوض بدی نہ کرو اور گالی کے بدلے گالی نہ دو بلکہ اِس کے برعکس برکت چاہو کیونکہ تم برکت کے وارث ہونے کےلئے بُلائے گئے ہو۔ چنانچہ جو کوئی زندگی سے خوش ہونا اور اچھے دِن دیکھنا چاہے وہ زُبان کو بدی سے اور ہونٹوں کو مکر کی بات کہنے سے باز رکھے۔ بدی سے کنارہ کرے اور نیکی کو عمل میں لائے۔ صُلح کا طالب ہو اور اُس کی کوشش میں رہے۔ کیونکہ خُداوند کی نظر راستبازوں کی طرف ہے اور اُس کے کان اُن کی دُعا پر لگے ہیں۔ مگر بدکار خُداوند کی نگاہ میں ہیں" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 3: 8-12)۔

لوگ کبھی بھی ہر بات میں ہماری طرح نہیں ہوں گے۔ ابتدائی کلیسیا جن افراد پر مشتمل تھی اُن میں سے کچھ بائبلی یہودی پس منظر رکھتے تھے اور باقی غیر اقوام سے تھے۔ تاہم، دونوں پس منظر کے حامل مسیحی رُوح القدس کے کام کی بدولت مسیح میں اطمینان سے رہے۔ "کیونکہ وہی ہماری صُلح ہے جس نے دونوں کو ایک کر لیا اور جُدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھی ڈھا دیا۔ چُنانچہ اُس نے اپنے جسم کے ذریعہ سے دُشمنی یعنی وہ شریعت جس کے حُکم ضابطوں کے طور پر تھے موقوف کر دی تا کہ دونوں سے اپنے آپ میں ایک نیا انسان پیدا کر کے صُلح کرا دے۔ اور صلیب پر دُشمنی کو مٹا کر اور اُس کے سبب سے دونوں کو ایک تن بنا کر خُدا سے ملائے۔ اور اُس نے آ کر تمہیں جو دُور تھے اور اُنہیں جو نزدیک تھے دونوں کو صُلح کی خوشخبری دی" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 14-17)۔

"مبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خُدا کے بیٹے کہلائیں گے۔" (اِنجیل بمطابق متی 5: 9)

دُعا

اے خُداوند، میں تیرا بہت شکر کرتا ہوں کہ مسیح مجھے یہ کہتے ہوئے اپنے اطمینان میں شامل کرتا ہے: "میں تمہیں اطمینان دیئے جاتا ہوں۔" میری دُعا ہے کہ یہ اطمینان مجھے عنایت کر، تا کہ مجھ میں صلح ہو، میرے گناہوں کی وجہ سے تمام کھوئے ہوئے استحقاق مجھے پھِر سے عطا کر، مجھے میری رُوح میں گہرا باطنی اطمینان اور اردگرد کے افراد کے ساتھ باطنی اطمینان بخش۔ اپنا فضل مجھ پر ظاہر کر تا کہ میں صلح کرانے والا بن جاﺅں، چاہے اِس کےلئے مجھے بھاری قیمت چُکانی پڑے۔ آمین

ہ- رُوح القدس کا پھل: تحمل

انسان چاہے خُدا تعالیٰ پر ایمان لائیں یا نہ لائیں لیکن اُن کی طرف اُس کا تحمل کس قدر عظیم ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 2: 4)۔ یوئیل نبی نے اِس تعلق سے کہا: "خُداوند اپنے خُدا کی طرف متوجہ ہو کیونکہ وہ رحیم و مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے" (پرانا عہدنامہ، یوئیل 2: 13)۔ گنہگاروں کی جانب جنہوں نے اپنے دِل کے دروازے کو بند کر کے اپنے آپ کو اندر مُقیّد کیا ہوتا ہے، مسیح کا تحمل کس قدر عظیم ہے۔ وہ اُن کے دِل کے دروازے پر کھڑا ہو کر کھٹکھٹاتا ہے کہ شاید وہ آسمانی بُلاہٹ سُن کر دروازہ کھولیں۔ مسیح کہتا ہے: "دیکھ میں دروازہ پر کھڑا ہُوا کھٹکھٹاتا ہوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو میں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاﺅں گا اور وہ میرے ساتھ" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 3: 20)۔ ایک ایماندار جب گناہ کا شکار ہو جاتا ہے تو اُس کی جانب بھی خُداوند کا تحمل عظیم ہے کیونکہ وہ اُسے کہتا ہے: "میں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہو گا تجھے بتاﺅں گا۔ میں تجھے صلاح دوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہو گی" (پرانا عہدنامہ، زبور 32: 8)۔ مسیح کی تمثیل میں باغبان نے تاکستان کے مالک سے بےپھل انجیر کے درخت کے بارے میں کہا: "اے خُداوند اِس سال تو اَور بھی اُسے رہنے دے تا کہ میں اُس کے گرد تھالا کھودوں اور کھاد ڈالوں" (اِنجیل بمطابق لوقا 13: 8)۔

ایماندار کو الہٰی تحمل کی مثال کی پیروی کرنی چاہئے کیونکہ مشکلات، ایذارسانیاں اور آزمایشیں ثابت قدمی، خوشی اور اُمید سے برداشت کرنے میں شاگرد کو اپنے اُستاد کی طرح اور خادم کو اپنے مالک کی طرح ہونا چاہئے (اِنجیل بمطابق متی 10: 25)۔ اُسے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے دوسروں کی کمزوریوں میں نرمی اور برداشت سے پیش آنا چاہئے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 1)۔

اگر تحمل کا پھل لوگوں پر اثر ڈالے تو ہماری دُنیا فردوس بن جائے کیونکہ دوسروں کے ساتھ تحمل سے پیش آنے والا فرد دوسروں کے ساتھ اور اپنے ساتھ بھی اطمینان پاتا ہے۔ اگر ایک شوہر ایسا ہو تو وہ اپنی بیوی کے دیر سے کھانا پکانے یا کسی جگہ جانے میں تاخیر کا باعث بننے پر برداشت کا مظاہرہ کرے گا۔ اگر ایک ماں ایسی ہو تو وہ اپنی نصیحت کی نافرمانی کرنے، فرنیچر توڑنے یا پھر مشروب قالین پر گرانے والے بچہ کے ساتھ برداشت سے پیش آئے گی۔ اگر ایک اُستاد ایسا ہو تو وہ اچھا نتیجہ نہ لانے والے طالب کے ساتھ صبر سے پیش آئے گا اور جب تک اُسے سمجھ نہ آ جائے اسباق اُسے سکھانے کی کوشش کرے گا۔ اگر کسی کے ہاں کام کرنے والا فرد ایسا ہو تو وہ اپنے مالک کی بےتحاشا نصیحتوں کو بغیر کسی اُکتاہٹ اور بُڑبُڑاہٹ کے برداشت کرے گا۔ کیا یہ واقعی زمین پر فردوس نہیں ہے؟

ہمیں ناحق بہت سی لعن طعن برداشت کرنی ہے۔ سو، آئیے رُوح القدس کے پاس آئیں جو تحمل و برداشت سکھانے والا عظیم ترین اُستاد ہے، اور اُس سے کہیں کہ وہ ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق تحمل عطا فرمائے۔ ہم ایُّوب نبی کو صبر کی ایک کامل مثال کے طور پر لے سکتے ہیں۔ اُس پر بغیر کسی سبب کے ایک آفت کے بعد دوسری آفت آئی لیکن وہ اُن سے مغلوب نہیں ہُوا۔ اِس کے برعکس وہ سجدہ میں گیا اور اُس نے کہا: "ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاﺅں گا۔ خُداوند نے دیا اور خُداوند نے لے لیا۔ خُداوند کا نام مبارک ہو" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 1: 21، 22)۔ اُس کی تکلیفوں کی شِدّت دیکھ کر اُس کی بیوی نے اُس سے کہا: "کیا تُو اَب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا؟ خُدا کی تکفیر کر اور مر جا" ( ایُّوب 2: 9، 10)۔ یہاں تک کہ اُس کے دوستوں نے اُسے موردِ الزام ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ یقیناً اُس نے کافی خطائیں کی ہیں جس کی وجہ سے اُس پر اتنی مصیبتیں آئی ہیں۔ اُس کے دوست الیفز نے اُس سے کہا: "کیا تجھے یاد ہے کہ کبھی کوئی معصوم بھی ہلاک ہُوا ہے؟ یا کہیں راستباز بھی کاٹ ڈالے گئے؟" (ایُّوب 4: 7)۔ ایُّوب نے جواب دیا: "میں نے اُس قُدّوس کی باتوں کا انکار نہیں کیا" (ایُّوب 6: 10)۔ جو مسیح کے دُکھوں میں شریک ہیں اُس کی موت کے ساتھ مشابہت پیدا کرتے ہیں تا کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے درجہ تک پہنچیں (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 10، 11)۔ "... بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دُکھ اُٹھائیں تا کہ اُس کے ساتھ جلال بھی پائیں۔ ... اِس زمانہ کے دُکھ درد اِس لائق نہیں کہ اُس جلال کے مقابل ہو سکیں جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 17، 18)۔

جب رُوح القدس ہمیں تحمل کا پھل عطا کرتا ہے تو ہم حکمت میں بڑھتے جاتے ہیں۔ جو برکات خُدا تعالیٰ نے جناب سلیمان کو دیں اُن کے بارے میں بائبل مُقدّس ہمیں بتاتی ہے: "اور خُدا نے سلیمان کو حکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دِل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندر کے کنارے کی ریت ہوتی ہے۔ اور سلیمان کی حکمت سب اہلِ مشرق کی حکمت اور مصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی" (1- سلاطین 4: 29، 30)۔ "دِل کی وسعت" سے مُراد تحمل ہے۔ آئیے ہم تحمل کے پھل کو اپنی زندگی میں مانگیں تا کہ سلیمان نبی کی طرح حکمت سے زندگی بسر کریں۔

(1) تحمل کا پھل کیا ہے؟

لفظ "تحمل" کی چار تعریفیں پیش کی جا رہی ہیں:

(الف) تحمل کے پھل کا مطلب بھاری وزن کے دباﺅ تلے بغیر کسی غصے کے یا بدلے کے بارے میں سوچے بغیر مضبوطی اور ثابت قدمی سے کھڑے رہنا ہے۔

ہم سب دباﺅ میں زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن جس شخص کو خُدا تعالیٰ تحمل عطا کرتا ہے وہ بُڑبُڑائے، بھاگے، غصہ ہوئے یا بدلے کے بارے میں سوچے بغیر اِن دباﺅ میں مضبوطی سے قائم رہے گا۔

ایک خاندان میں کئی طرح کے دباﺅ ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے بہت سی باتوں کی توقع کرتے ہیں۔ ایک بچہ جب اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے تب سے پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کے دوران والدین پر کئی طرح کے دباﺅ کا باعث بنتا ہے۔ اِسی طرح کسی بھی فرد کا روزانہ کا کام کاج بھی ہے۔ تاہم اِس سب سے بھی زیادہ ایک کام مشکل ہے، یعنی ایک فرد سے اُن کاموں کی توقع کرنا جو وہ نہیں کر سکتا۔ کامیابی چاہنا، خُدا کے حضور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا اور آگے بڑھنا اور اِسی طرح دیگر انسان کئی طرح کے نہ ختم ہونے والے دباﺅ کا باعث بنتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس رُوح القدس کا پھل تحمل نہ ہو تو یہ تمام طرح کے دباﺅ ہماری کمر توڑ سکتے ہیں۔

پولس رسول نے اِن میں سے بعض دباﺅ کا سامنا کیا، لیکن وہ اِن کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہو گیا۔ اُس نے کہا: "ہم ہر طرف سے مصیبت تو اُٹھاتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہوتے (مطلب یہ ہُوا کہ ایذا رسانی کے دباﺅ اُسے خُداوند کےلئے اپنی خدمت کو جاری رکھنے سے نہ روک سکے); حیران تو ہوتے ہیں مگر نااُمید نہیں ہوتے (مطلب یہ ہُوا کہ وہ نہیں جانتا کہ رکاوٹوں سے کیسے جان چھڑانی ہے، لیکن خُدا تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی، مخلصی اور اِنجیل کےلئے دروازوں کے کھولے جانے سے نااُمید نہیں ہوتے); ستائے تو جاتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جاتے (مطلب یہ ہُوا کہ انسان تو اُنہیں ستاتے ہیں مگر خُدا تعالیٰ اُنہیں نہیں چھوڑتا); گرائے تو جاتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہوتے (مطلب یہ ہُوا کہ اُسے گرایا گیا، کوڑوں سے مارا گیا لیکن وہ پھِر بھی بشارت دیتا رہا); ہم ہر وقت اپنے بدن میں یسوع کی موت لئے پھرتے ہیں تا کہ یسوع کی زندگی بھی ہمارے فانی جسم میں ظاہر ہو (مطلب یہ ہے کہ اُس نے مسیح کی طرح دُکھ اُٹھایا لیکن مسیح اُس میں زندہ رہا)" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 4: 8-10)۔

اگر آپ نے (مسیح کی خاطر) ایک بھاری صلیب اُٹھائی ہوئی ہے، آپ کے ہاتھ اور پاﺅں اُس کے ساتھ کیلوں سے جڑے ہوئے ہیں اور آپ حرکت کرنے کے قابل نہیں تو بھروسا رکھیں کہ مسیح جس کی آپ خدمت کرتے ہیں آپ کو رُوح القدس کے وسیلہ سے تحمل عطا کرے گا تا کہ آپ بوجھ تلے ثابت قدم رہیں: "کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر یہ فضل ہُوا کہ نہ فقط اُس پر ایمان لاﺅ بلکہ اُس کی خاطر دُکھ بھی سہو" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 1: 29)۔ یہ بوجھ آخرکار آ پ سے دُور کر دیا جائے گا کیونکہ حتمی فتح مسیح کی اور اُن کی ہے جو اُس کے ساتھ ایک ہیں۔

(ب) تحمل کے پھل کا مطلب کسی ایسے فرد کے جُرم کو جس سے ہمیں بہت توقعات ہوں معاف کرنا ہے۔

جن افراد سے ہم محبت کرتے ہیں یا جن سے ہمیں بہت سی توقعات ہوں اُن کی نسبت اُن افراد کو معاف کرنا بہت زیادہ آسان ہے جنہیں ہم نہیں جانتے یا جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیں دِق کریں گے۔ خُدا تعالیٰ ہمیں فضل عطا کرے کہ ہم لوگوں سے بہت سی توقعات نہ لگائیں تا کہ مایوس نہ ہوں۔ صرف ایک شخصیت ہی ایسی ہے جس پر ہماری توقعات ہونی چاہئیں، اور وہ اپنا انتظار کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ یہ وہ دوست ہے جو بھائی سے زیادہ نزدیک ہے یعنی خُداوند یسوع مسیح۔ جہاں تک انسانوں کی بات ہے ہمیں اُن سے کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن دوسروں سے اپنی توقعات کو کم کرنے کا مطلب اُن کےلئے اپنی ذمہ داری کم کرنا نہیں ہے۔ اگرچہ لوگ آپ کی توقعات کے مطابق نہ رہے ہوں، لیکن وہ آپ کو ہمیشہ اپنی توقعات کے مطابق پائیں۔

تحمل کے پھل کا مطلب اُن افراد کو بھی معاف کرنا ہے جو آپ کے نزدیک ہیں اور اُن کو بھی معاف کرنا ہے جو دُور ہیں، یعنی وہ جن سے آپ محبت کرتے ہیں اور وہ جو آپ سے محبت نہیں رکھتے۔ ہمیں تحمل کی اشد ضرورت ہے۔ جو شادی شدہ ہیں اُنہیں اپنے جیون ساتھی کے ساتھ تحمل سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح بھائیوں اور بہنوں، اپنے بچوں اور دوستوں کے ساتھ تحمل سے پیش آنے کی بڑی ضرورت ہے، تا کہ اُن سے ویسے ہی محبت رکھ سکیں جیسے خود سے محبت کرتے ہیں، اور جن افراد سے ہمیں بہت سی توقعات ہیں اُن کی طرف سے تکلیف کو برداشت کریں۔

پولس رسول کو روم لے جایا گیا اور وہ دو سال وہاں رہا، اور نیرو بادشاہ کے سامنے اپنے مقدمے کے پیش کرنے کےلئے انتظار کرتا رہا۔ اُس نے وہ تمام وقت خدمت کرنے اور منادی کرنے میں گزارا۔ جب مقدمے کو دیکھے جانے کا وقت آیا تو پولس نے کہا: "میری پہلی جواب دہی کے وقت کسی نے میرا ساتھ نہ دیا بلکہ سب نے مجھے چھوڑ دیا۔" کیا پولس اِس لائق نہ تھا کہ پختہ ایمانداروں میں سے کوئی اُس کے ساتھ کھڑا ہوتا؟ کیا اُس نے مسیح کےلئے کسی کو جیتا نہ تھا کہ جو اُس کے ساتھ کھڑے ہونے پر رضامند ہوتا؟ لیکن اُس نے ہمیں اُن لوگوں کی ناشکری کو معاف کرنے کا ایک سبق دیا ہے جن سے ہمیں بہت سی توقعات ہوتی ہیں، اُس نے کہا: "کاش کہ اُنہیں اِس کا حساب دینا نہ پڑے۔ مگر خُداوند میرا مددگار تھا اور اُس نے مجھے طاقت بخشی تا کہ میری معرفت پیغام کی پوری مُنادی ہو جائے اور سب غیر قومیں سُن لیں اور میں شیر کے مُنہ سے چُھڑایا گیا" (نیا عہدنامہ، 2- تیمتھیس 4: 16-17)۔ بےشک اُس نے جو کچھ پہلے کہا تھا اُس کا اطلاق کیا: "مگر اُن سب حالتوں میں اُس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 37)۔

(ج) تحمل کے پھل کا مطلب نااُمیدی کے بغیر نیک کاموں کو کرنا جاری رکھنا ہے۔

تحمل کا حامل ایک فرد بغیر تھکے یا تشویش کا شکار ہوئے نیک کام کرنا جاری رکھے گا، اور صبر اور محبت میں زندگی گزارے گا۔ ایسے ہی مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ پیش آیا۔ اگر مسیح اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہوئے نااُمید ہو جاتا تو وہ اُنہیں تعلیم دینا چھوڑ دیتا، اور اِس کے نتیجہ میں اِنجیل کا فرحت بخش پیغام ہم تک نہ پہنچ سکتا۔ تبدیلی صورت کے پہاڑ سے نیچے اُترنے کے بعد مسیح نے اپنے نو شاگردوں سے کہا: "اے بےاعتقاد قوم میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں گا؟ کب تک تمہاری برداشت کروں گا؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 9: 19)۔ اُن کی ایمانی کمزوری کے باوجود مسیح نے اُنہیں برداشت کیا اور اُن کے ساتھ تحمل سے پیش آیا۔

مسیح نے پطرس کو متنبہ کیا کہ وہ تین مرتبہ اُس کا انکار کرے گا۔ پطرس نے اپنی ذات کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے مسیح سے کہا: "گو سب تیری بابت ٹھوکر کھائیں لیکن میں کبھی ٹھوکر نہ کھاﺅں گا۔" لیکن بدقسمتی سے اُس نے اپنے خُداوند کا تین مرتبہ انکار کیا (اِنجیل بمطابق متی 26: 69-75)۔ تاہم، مسیح پطرس سے مایوس نہ ہُوا۔ آپ نے ایک صبح پطرس کو گلیل کی جھیل پر بُلایا، اُس کی جسمانی بھوک مٹائی، اور اُس سے پوچھا کہ "اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تُو مجھ سے محبت رکھتا ہے؟" آپ نے یہی سوال پطرس سے تین مرتبہ پوچھا تا کہ اُس کے تین مرتبہ کے انکار کا اثر مکمل طور پر مٹ جائے (اِنجیل بمطابق یوحنا 21: 15-17)۔ خُدا تعالیٰ ہمارے ساتھ تحمل سے پیش آتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ کسی کی ہلاکت ہو بلکہ چاہتا ہے کہ سب کی نوبت توبہ تک پہنچے۔ سو، آئیے ہم اپنے خُداوند کے تحمل کو نجات کے طور پر لیں (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 4: 9، 15)۔

پولس رسول نے کہا کہ محبت صابر ہے اور مہربان (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 13: 4)۔ خُدا تعالیٰ کی محبت اُس کے ساتھ صبر سے پیش آئی، اور اَب ہمارے ساتھ بھی مہربان اور صابر ہے۔ رسول نے اِس تحمل کو اپنے تجربہ سے ثابت کیا۔ اُس نے کہا: "اگرچہ میں پہلے کُفر بکنے والا اور ستانے والا اور بےعزت کرنے والا تھا تو بھی مجھ پر رحم ہُوا اِس واسطے کہ میں نے بےایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کئے تھے۔ اور ہمارے خُداوند کا فضل اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوع میں ہے بہت زیادہ ہُوا۔ یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا میں ہوں۔ لیکن مجھ پر رحم اِس لئے ہُوا کہ یسوع مسیح مجھ بڑے گنہگار میں اپنا کمال تحمل ظاہر کرے تا کہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کےلئے اُس پر ایمان لائیں گے اُن کےلئے میں نمونہ بنوں" (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 1: 13-16)۔ جیسے خُدا تعالیٰ سب لوگوں کو بچانے کےلئے اُن کی جانب اپنا تحمل ظاہر کرتا ہے، ویسے ہی اُس نے اپنا تحمل پولس پر ظاہر کیا اور اُسے بچایا۔ جیسے ہی رسول بیان کرتا ہے کہ خُدا نے اُس کے اور باقی ایمانداروں کے ساتھ کیا کیا تو وہ پُکار اُٹھتا ہے: "اب ازلی بادشاہ یعنی غیرفانی نادیدہ واحد خُدا کی عزت اور تمجید ابدُالآباد ہوتی رہے۔ آمین" (1- تیمتھیس 1: 17)۔

(د) تحمل کے پھل کا مطلب نتائج کی فوری توقع کرنا نہیں ہے۔

لوگ آسان اور فوری کام کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ تھکان کا شکار نہیں ہونا چاہتے۔ تاہم، خُدا تعالیٰ اپنی محبت میں ہمارے ساتھ تحمل سے پیش آتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ ہم اپنے دِل کے دروازے کو اُس کےلئے کھولیں تا کہ وہ اندر آئے اور ہماری لازمی ضروریات کی تشفی کر سکے۔ ذرا غور کیجئے کہ خُدا نے ترسس کے ساﺅل کو کتنی مرتبہ تبدیل کرنے کی کوشش کی: اُس نے مسیح اور اُس کے معجزوں کے بارے میں کافی سُنا، پہلے مسیحی شہید ستفنس کو سنگسار ہوتے دیکھا اور یہ کہتے سُنا کہ "اے خُداوند! یہ گناہ اِن کے ذمہ نہ لگا" (نیا عہدنامہ، اعمال 7: 60)۔ اُس نے مسیح کو صلیب پر یہ کہتے سُنا ہو گا: "اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)۔ لیکن اِس کے باوجود اُس نے مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ستفنس کے قتل پر خوش تھا، اور مسیحیوں کو گرفتار کرنے میں مصروف تھا۔ تاہم، خُداوند نے اُس کی جانب تحمل ظاہر کیا، یہاں تک کہ اُس کے فضل نے اُسے دمشق کی راہ پر حیران کر دیا اور اُس پر اپنا نُور چمکایا جو سورج کے نُور سے بھی زیادہ روشن تھا۔ اُس نے ساﺅل کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا۔ یوں خُدا تعالیٰ کے تحمل اور رحم نے ساﺅل کو بچایا اور اُسے پولس رسول میں تبدیل کر دیا۔

خُدا تعالیٰ کے تحمل کی بدولت آپ کی زندگی میں بھی نجات کا کام ہونا چاہئے اور آپ مسیح کےلئے ایک عظیم شخص بن جائیں۔

اِسی طرح آپ کے تحمل کی بدولت دوسرے مسیح میں اور مسیح کےلئے بچ جائیں۔ تحمل رُوح القدس کا پھل ہے اور دوسروں سے مایوس ہوئے بغیر کوشش جاری رکھنا پولس رسول کی اپنے شاگرد کے نام نصیحت کے عین مطابق ہے: "تُو کلام کی منادی کر۔ وقت اور بےوقت مستعد رہ۔ ہر طرح کے تحمل اور تعلیم کے ساتھ سمجھا دے اور ملامت اور نصیحت کر" (نیا عہدنامہ، 2- تیمتھیس 4: 2)۔

پولس رسول نے تحمل خُداوند کی اپنی جانب برداشت سے سیکھا تھا، اور اِس لئے وہ گنہگاروں اور ایمانداروں کے ساتھ تحمل سے پیش آیا، خدمت کی اور خدمت کے کام کو جاری رکھا۔ اُس نے یہودیوں اور غیر اقوام کی طرف سے دُکھوں کو برداشت کیا، اور نامی اور کمزور مسیحیوں کی طرف سے بھی دُکھ سہے جنہوں نے اُس کی رسالت کا انکار کیا۔ پولس نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو نصیحت کی جس میں اُس نے کہا: "تم خود جانتے ہو کہ پہلے ہی دِن سے کہ میں نے آسیہ میں قدم رکھا ہر وقت تمہارے ساتھ کس طرح رہا۔ یعنی کمال فروتنی سے اور آنسو بہا بہا کر اور اُن آزمایشوں میں جو یہودیوں کی سازش کے سبب سے مجھ پر واقع ہوئیں خُداوند کی خدمت کرتا رہا۔ اور جو جو باتیں تمہارے فائدہ کی تھیں اُن کے بیان کرنے اور علانیہ اور گھر گھر سکھانے سے کبھی نہ جھجکا۔ بلکہ یہودیوں اور یونانیوں کے روبرو گواہی دیتا رہا کہ خُدا کے سامنے توبہ کرنا اور ہمارے خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لانا چاہئے" (نیا عہدنامہ، اعمال 20: 18-21)۔

(2) ہم کیسے تحمل کی خوبی کو پروان چڑھاتے ہیں؟

ہم میں سے کچھ ایسے خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں اور رہتے ہیں جہاں دوسروں کی نسبت تحمل کا زیادہ مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک فطری برکت ہے جو شخصی میلان، ثقافت اور پرورش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس طرح پروان چڑھنے والا فرد دباﺅ کے مقابلہ میں برداشت کرنے کی اپنی شخصی استعداد کی حدود کے اندر تو تحمل کی خوبی کی مشق کرتا ہے، لیکن جب دباﺅ بڑھ جائیں تو ایسا فرد اضطراب کا شکار ہو کر اپنا تحمل کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے لمحہ میں غیرمعمولی دباﺅ کا سامنا کرنے کےلئے غیرمعمولی فضل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں پر تین نصیحتیں کی جا رہی ہیں کہ کیسے تحمل کو رُوح القدس کے پھل کے طور پر پروان چڑھایا جائے؟

(الف) اپنا آپ مکمل طور پر رُوح القدس کے حوالے کریں

جتنا زیادہ ہم اپنا آپ رُوح القدس کے حوالے کرتے اور اپنے آپ کو اُس کی تعلیم کے تابع کرتے ہیں اُتنا ہی زیادہ وہ ہم میں کام کرتا ہے اور ہمیں صبر عطا کرتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو رُوح القدس کی لبریز کر دینے والی معموری کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے خیالات، الفاظ اور احساسات اُس کے اختیار میں ہوں۔ آئیے ہم اپنے آپ کو رُوح القدس کے سامنے خاموشی سے پیش کریں، تا کہ وہ ہم میں سے غصہ کو دُور کرے، ہمیں تعلیم دے اور ہم میں مسیح کی عقل ودیعت کرے جس کی وضاحت پولس رسول نے یہ کہتے ہوئے کی ہے: "اور تم اِسی کےلئے بُلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تا کہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔ نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سُپرد کرتا تھا" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 2: 21-23)۔

ہم میں سے سب کو چاہے پڑھے لکھے ہوں یا انپڑھ، قائدین ہوں یا عام پیروکار، محبت کے ساتھ، بغیر غصہ میں پھٹ پڑنے اور چیخنے چِلّانے کے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کےلئے تحمل کی ضرورت ہے۔ کتنا زیادہ ہم سب کو اُس رویے کی ضرورت ہے جس کے مطابق خُدا نوح کے وقت میں انسانوں کے ساتھ پیش آیا۔ کشتی کو بنانے میں ایک سو بیس سال لگے، اور اِس عرصے کے دوران نوح نبی نے لوگوں کو خطرے کے بارے میں متنبہ کرنا جاری رکھا اور اُن کی توبہ کےلئے حوصلہ افزائی کی، اور اُنہیں بتایا کہ خُدا تعالیٰ اُنہیں توبہ کا ایک موقع عطا کرنے کےلئے تحمل سے ٹھہرا رہا تھا (1- پطرس 3: 20)۔

(ب) خُدا کے وعدوں کو مانگیں

خُدا تعالیٰ نے ایمانداروں کو آرام دینے کا وعدہ کیا ہے، جیسا کہ مسیح نے فرمایا: "اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آﺅ۔ میں تم کو آرام دوں گا" (اِنجیل بمطابق متی 11: 28)۔ تاہم، پولس رسول جسم میں ایک کانٹا ہونے کا تذکرہ کرتا ہے جو غالباً اُس کی آنکھوں میں ایک بیماری تھی۔ جب اُس نے خُدا سے اِس بیماری کو دُور کرنے کےلئے کہا، تب خُدا نے ویسا نہیں کیا، بلکہ کہا: "میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 12: 9)۔ پولس رسول نے الہٰی وعدے کے اُس انداز میں پورا ہونے کا انتظار کیا جیسے خُدا نے اُس کا وعدہ کیا تھا۔

اپنی درخواست خُدا کے حضور پیش کریں اور الہٰی وعدوں کی خُدا کی مرضی کے مطابق تکمیل کےلئے صبر اور وفاداری کے ساتھ انتظار کریں، جنہیں خُدا نے اپنی حکمت میں مناسب وقت پر مقرر کیا ہُوا ہے۔ اِس انتظار کرنے کے دوران آپ تحمل کرنا سیکھ جائیں گے۔

(ج) یہ جانیں کہ ہماری مشکلات تھوڑی دیر کی ہیں، اور اِن کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلے گا

جب ہم جانتے ہیں کہ دُکھ اور محنتوں کا خاتمہ ہو جائے گا تو ہم زیادہ تحمل ظاہر کرتے ہیں اور اِس حقیقت کے بارے میں پُراعتماد ہوتے ہیں کہ آخرکار بادِل چھٹ جائیں گے اور خوش و خرم اختتام ہو گا۔ زبور نویس نے کہا: "بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گُزر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 23: 4)۔ اُس نے یہ نہیں کہا کہ وہ موت کے سایہ کی وادی میں رُک گیا تھا کیونکہ وہ اُس میں سے گزر کر باہر جا رہا تھا۔ اُس نے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ موت کے سایہ کی وادی سے بھاگ رہا تھا کیونکہ وہ خوفزدہ نہیں تھا۔ وہ محبت کرنے والے قادر خُدا کی رفاقت میں تھا۔ اُسے یقین تھا کہ رات لازمی ختم ہو گی: "کیونکہ اُس کا قہر دم بھر کا ہے۔ اُس کا کرم عمر بھر کا۔ رات کو شاید رونا پڑے پر صُبح کو خوشی کی نوبت آتی ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 30: 5)۔ "خُدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تا کہ تم برداشت کر سکو" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 10: 13)۔ "اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خُدا سے محبت کرنے والوں کےلئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کےلئے جو خُدا کے اِرادہ کے موافق بُلائے گئے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 28)۔

دُعا

اے خُداوند، مجھے سکھا کہ کیسے مایوسی کے وقت اور اطمینان دونوں میں تحمل سے پیش آﺅں۔ مشکل پیدا کرنے والے دِن میں میرا بوجھ کم کر، تا کہ میں اُسے برداشت کرنے کے قابل بن سکوں، یا پھِر اُس کا بوجھ سہنے کےلئے میری مضبوطی میں اضافہ کر کہ اُس کے تلے دب نہ جاﺅں۔ آمین

و- رُوح کا پھل: مہربانی

کسی نے مہربانی کو یوں بیان کیا ہے: "یہ معطر تیل سے بھرا ہُوا ایک چراغ ہے جو گھر کو روشنی اور مہک دونوں سے بھر دیتا ہے۔ یہ ایک موٹا قالین ہے جس پر آپ اپنے قدم رکھنے سے آرام پاتے ہیں اور جو گھر کے تمام شور کو جذب کر لیتا ہے۔ یہ ایک پردہ ہے جو گرمیوں میں سورج کی جُھلسا دینے والی گرمی اور سردیوں میں سخت سرد ہوائیں دُور رکھتا ہے۔ یہ ایک نرم سرہانہ ہے جس پر تھکا ہُوا سر آرام کرتا ہے۔"

ایسی مہربانی کا اطلاق کامل طور پر خُداوند یسوع پر ہوتا ہے جسے یسعیاہ نبی نے اُس کی پیدایش سے سات سو سال پہلے یہ کہتے ہوئے بیان کیا: "ایک شخص آندھی سے پناہ گاہ کی مانند ہو گا اور طوفان سے چھپنے کی جگہ اور خشک زمین میں پانی کی ندیوں کی مانند اور ماندگی کی زمین میں بڑی چٹان کے سایہ کی مانند ہو گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 32: 2)۔ مہربان یسوع سخت آٰندھی میں ہمارے چھپنے کی جگہ ہے، بڑے طوفانوں میں ہماری پناہ گاہ ہے، زندگی کے صحراﺅں میں پانی کا ایک چشمہ ہے، ایک بنجر خشک زمین میں ایک عظیم چٹان کا ایک سایہ ہے۔ آئیے ہم خُدا تعالیٰ سے کہیں کہ وہ ہمیں مسیح کی مانند بنائے تا کہ رُوح ہم میں مہربانی کا پھل پیدا کر سکے (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 29)۔

بائبل مُقدّس میں لفظ "مہربان" ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد کو بیان کرتا ہے، اور "خُدا کے گھرانے" سے بڑھ کر اَور اچھا کون سا خاندان ہے؟ (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 19)۔ خُدا تعالیٰ ہر ایماندار پر اپنا فضل ظاہر کرتا اور اُسے اپنا لےپالک فرزند بناتا ہے اِس لئے اُسے بھی مہربان ہونا چاہئے۔ ہمارا خُدا مہربان خُدا ہے اور لازم ہے کہ اُس کا گھرانا بھی مہربان ہو، کیونکہ اُس کے گھرانے کے افراد اُس سے سیکھتے ہیں اور اُسے اپنے لئے ایک مثال کے طور پر لیتے ہیں۔

خُدا کی اور ہماری مہربانی تین طرح سے ظاہر ہو سکتی ہے:

(1) معافی میں

پولس رسول نے ہمیں معاف کرنے میں خُدا تعالیٰ کی مہربانی کی بات کی، اور ہمیں ترغیب دی ہے کہ جیسے خُدا ہمارے ساتھ مہربان ہے ویسے ہی ہم بھی اپنے اردگرد کے افراد پر مہربانی اور معافی ظاہر کریں۔ اُس نے کہا: "پس خُدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں درمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خُداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 12، 13)۔ ہمارا اُستاد اور خُداوند ہماری مثال ہے۔ جتنا زیادہ ہم اُس سے محبت کریں گے اور اُس کے رُوح القدس کی راہنمائی کے تابع ہوں گے، اُتنا ہی زیادہ ہم اُس کی مثال کی پیروی کریں گے اور اُس کے نقشِ قدم پر چلیں گے، تا کہ سب یہ جان سکیں کہ ہم اُس کے شاگرد ہیں۔

جب گنہگار، کمزور، نیم گرم اور خُداپرست ایماندار کسی خطا کا شکار ہو جاتے ہیں تو خُدا تعالیٰ کی مہربانی اپنے آپ کو اُن پر ظاہر کرتی ہے۔ اِسی طرح ہماری مہربانی بھی گنہگاروں، کمزور اور مضبوط ایمانداروں پر ظاہر ہونی چاہئے، چاہے وہ اپنی مسیحی دوڑ میں لڑکھڑائیں اور کئی بار گر پڑیں۔

(الف) گنہگاروں کی جانب خُدا کی اور ہماری مہربانی

پولس رسول نے لکھا: "مگر جب ہمارے منجی خُدا کی مہربانی اور اِنسان کے ساتھ اُس کی اُلفت ظاہر ہوئی تو اُس نے ہم کو نجات دی مگر راست بازی کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدایش کے غُسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے۔ جسے اُس نے ہمارے منجی یسوع مسیح کی معرفت ہم پر اِفراط سے نازل کیا" (نیا عہدنامہ، ططس 3: 4-6)۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے پولس رسول کو اپنے منجی خُدا کی شخصی طور پر اپنی جانب مہربانی یاد تھی، کیونکہ جب وہ دمشق میں رہنے والے مسیحی ایمانداروں کو گرفتار کرنے جا رہا تھا تو راہ میں خُدا نے اُسے پکڑ لیا۔ خُدا تعالیٰ نے اُسے اُس کی شرارت میں چھوڑ نہیں دیا، بلکہ اُسے پکڑا اور بچایا۔ اُس وقت سے پہلے پولس یہ سوچا کرتا تھا کہ کلیسیا کی جسمانی حسد میں مخالفت کی وجہ سے وہ راستباز تھا۔ لیکن خُدا کی مہربانی نے اُس کی آنکھیں سچائی کی جانب کھول دیں، اور پھِر اُس نے اِنجیل کے پھیلاﺅ کےلئے خوب تگ و دو کرنی شروع کی۔ اُس نے کہا "اُس چیز کے پکڑنے کےلئے دوڑا ہُوا جاتا ہوں جس کےلئے مسیح یسوع نے مجھے پکڑا تھا" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 12)۔

خُدا تعالیٰ کی مہربانی ہمیں معاف کرنے میں بھی ظاہر ہوئی۔ ہمیں بچانے کےلئے اُس نے جو قیمت ادا کی وہ یہ تھی کہ اُس نے اپنے بیٹے کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا تا کہ ہمیں ہمارے گناہوں سے بچائے اور ہمارے لئے ابدی زندگی کی ضمانت دے۔ مسیح کے ساتھ اُس نے ہمیں سب کچھ بخشا ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 32)۔

جب ہمارا رویہ رُوح القدس کی راہنمائی کے مطابق ہوتا ہے تو وہ ہمیں اُن افراد کےلئے مہربان ہونا سکھاتا ہے جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک دِن میں دو بچوں کو دیکھ رہا تھا اور اُن سے میں نے ایک سبق سیکھا جو میں کبھی بھی نہیں بُھلا سکتا۔ بڑی عمر کے لڑکے نے اپنے چھوٹے بھائی کو غصے میں پکڑا اور بڑے زور سے اُسے ہلایا۔ فوراً اُس چھوٹے بھائی نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا، اُس میں سے ایک ٹافی نکالی اور اپنے بڑے بھائی کے مُنہ میں ڈال دی۔ بڑا بھائی شرمندہ سا ہو گیا۔ میں نے چھوٹے لڑکے سے اپنے خلاف بُرائی کرنے والے افراد کے ساتھ بھلائی کرنے کے فائدے کے بارے میں سیکھا، نیز بدی کے مقابلہ میں نیکی کرنے کی برکت کے بارے میں اور اپنے منجی خُدا کے مہربان ہونے کی وجہ سے مہربانی کا پھل پیدا کرنے کے فضل کے بارے میں بھی سیکھا۔

کوئی بھی ایسا فرد نہیں ہے جسے دُکھ نہیں پہنچتا، یہ تو نزدیک ترین افراد سے بھی پہنچتا ہے۔ بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں، یا بالکل بھی نہیں سمجھتے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے لئے ہماری خدمات کو سراہتے بھی نہیں، اور جب ہم اُن کے ساتھ بھلائی کریں تو وہ ہمیں برائی کے ساتھ بدلہ دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن سے ہم مدد کی توقع کرتے ہیں لیکن ہمیں صرف نقصان پہنچتا ہے۔ آئیے ہم لوگوں سے زیادہ توقع نہ کریں بلکہ خُداوند سے کریں جو بغیر ملامت کئے فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اُس کے نیک کاموں کا ظہور صبح کی مانند یقینی ہے، وہ ہمارے پاس برسات کی مانند یعنی آخری برسات کی مانند جو زمین کو سیراب کرتی ہے آئے گا (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 6: 3)۔ جب آپ کو لوگوں سے کسی بھلائی کی توقع ہو اور ایسا نہ ہو تو پریشان نہ ہوں۔ خُداوند کا انتظار کرنا اور صرف اُسی سے اپنی توقعات لگانا سیکھیں، کیونکہ آپ مہربانی، برکت اور فتحیابی پائیں گے۔

(ب) کمزور اور نیم گرم ایمانداروں کی جانب خُدا اور ہماری مہربانی

خُدا تعالیٰ نے ایک کمزور ایماندار لُوط پر اپنی مہربانی ظاہر کی جو سدوم اور عمورہ کے لوگوں کی شہوت پرستی کے بُرے رویہ کی وجہ سے شکست خوردہ، مغلوب اور افسردہ شخص تھا۔ خُدا تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے اُس کی راستباز رُوح ہر روز اُن کے بےشرع کاموں کو دیکھ کر اور سُن کر دِق ہوتی تھی (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 2: 7، 8)۔ لیکن خُدا تعالیٰ نے اُس کی کمزوری کے باوجود اُس پر رحم کیا، اُسے معاف کیا اور اُسے سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے انجام سے بچانے کےلئے اپنے دو فرشتے بھیجے۔ اور جب اُس نے شہر سے نکلنے میں دیر کی اور صبح ہو گئی تو "فرشتوں نے لُوط سے جلدی کرائی اور کہا کہ اُٹھ اپنی بیوی اور اپنی دونوں بیٹیوں کو جو یہاں ہیں لے جا۔ ایسا نہ ہو کہ تُو بھی اِس شہر کی بدی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو جائے۔ مگر اُس نے دیر لگائی تو اُن مردوں نے اُس کا اور اُس کی بیوی اور دونوں بیٹیوں کا ہاتھ پکڑا، کیونکہ خُداوند کی مہربانی اُس پر ہوئی اور اُسے نکال کر شہر سے باہر کر دیا" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 19: 15، 16)۔

لُوط دُنیوی شخص تھا، اُس نے خُدا سے بھی محبت کی اور دُنیا سے بھی۔ وہ خُدا کے ساتھ چلا، لیکن اُس کا دِل دُنیا میں لگا رہا۔ اُس کی کمزوری کے باوجود اُس کی رُوح شریروں میں دِق رہی، خُدا نے اُس پر رحم کیا۔ جو کچھ خُدا تعالیٰ نے لُوط کےلئے کیا اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے لُوط نے خُدا سے کہا: "دیکھ تُو نے اپنے خادم پر کرم کی نظر کی ہے اور ایسا بڑا فضل کیا کہ میری جان بچائی" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 19: 19)۔

اِسی طرح ہمیں بھی دُنیوی مسیحیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہئے جن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ وہ مناسب رُوحانی درجے پر نہیں ہیں۔ ہمیں یہ مہربانی رُوح القدس سے ملے گی جو ہماری کمزوریوں میں ہماری مدد کرتا ہے تا کہ ہم بھی کمزوروں کی اُن کی کمزوریوں میں مدد کر سکیں۔

(ج) خُدا اور ہماری مہربانی جب مضبوط ایماندار ٹھوکر کھا کر گر پڑیں

اِس دُنیا میں مسیح سے زیادہ پاک شخص کوئی بھی نہیں رہا۔ سب انسان گناہ کرتے ہیں، اور ہر ایماندار کبھی نہ کبھی گناہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کلام مُقدّس میں داﺅد نبی کو "اسرائیل کا چراغ" کہہ کر بیان کیا گیا ہے (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 21: 17)۔ جیسا کہ خُدا تعالیٰ نے اُس کے بارے میں یہ بھی کہا: "مجھے ایک شخص یسی کا بیٹا داﺅد میرے دِل کے موافق مل گیا" (نیا عہدنامہ، اعمال 13: 22)۔ تاہم، اُس نے غریب شخص کی بھیڑ اُس سے چھین لی۔ جب اُس نے اپنے گناہ کی قباحت کو محسوس کیا تو کہا "میں نے خُداوند کا گناہ کیا۔" تب ناتن نے داﺅد سے کہا: "خُداوند نے بھی تیرا گناہ بخشا۔ تُو مرے گا نہیں" (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 12: 13)۔ خُدا تعالیٰ کی مہربانی داﺅد کو توبہ کی طرف لے کر آئی (نیا عہدنامہ، رومیوں 2: 4)۔ مزامیر کی کتاب لکھنے والے داﺅد سے کوئی بھی ایسے گناہ میں گرنے کی توقع نہیں کر سکتا تھا، لیکن مضبوط ایماندار اکثر اپنی مضبوطی سے گراوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بائبل مُقدّس ہمیں حکم دیتی ہے کہ جب کسی پختہ مسیحی سے کوئی غلطی سرزد ہو تو اُس سے مہربانی سے پیش آئیں۔ پولس رسول کہتا ہے: "اے بھائیو! اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تم جو رُوحانی ہو اُس کو حلم مزاجی سے بحال کرو، اور اپنا بھی خیال رکھ۔ کہیں تُو بھی آزمایش میں نہ پڑ جائے۔ تم ایک دوسرے کا بار اُٹھاﺅ، اور یوں مسیح کی شریعت کو پورا کرو" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 1، 2)۔

اگر آپ نے خُدائے غفور و رحیم کی مغفرت کا تجربہ کیا ہے تو دوسروں کو ویسے ہی معاف کریں جیسے خُدا تعالیٰ نے آپ کو معاف کیا ہے۔

(2) نرم برتاﺅ میں

ایک مہربان شخص رسولی حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے سب لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے گا: "جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 17)۔

کتابِ مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ خُدا تعالیٰ یعقوب کے تمام عیبوں کے باوجود اُس کے ساتھ کس قدر مہربان تھا اور کیسے اُس سے نرمی سے پیش آیا اور کس طرح اُس نے اُسے اُس کے تمام مخالفوں سے بچایا۔ یعقوب صرف یہ کہہ سکا: "اے میرے باپ ابرہام کے خُدا، اور میرے باپ اضحاق کے خُدا! اے خُداوند جس نے مجھے یہ فرمایا کہ تُو اپنے ملک کو اپنے رشتہ داروں کے پاس لوٹ جا اور میں تیرے ساتھ بھلائی کروں گا۔ میں تیری سب رحمتوں اور وفاداری کے مقابلے میں جو تُو نے اپنا بندہ کے ساتھ برتی ہے بالکل ہیچ ہوں کیونکہ میں صرف اپنی لاٹھی لے کر اِس یردن کے پار گیا تھا اور اَب ایسا ہوں کہ میرے دو غول ہیں" (توریت شریف، پیدایش 32: 9-10)۔ یعقوب اپنے باپ کے گھر سے اپنے ماموں لابن کے گھر جانے کےلئے ایک اجنبی سرزمین کی طرف روانہ ہُوا، اور اُس نے دریائے یردن عبور کیا تو وہ خوفزدہ اور پریشان تھا اور اُس کے پاس اپنی لاٹھی کے سِوا کچھ بھی نہیں تھا۔ خُداوند نے اُسے برکت دی، اُس کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آیا اور پھِر اُسے اُس کے اپنے علاقے میں خیریت سے پہنچایا، اور اَب اُس کے پاس دو غول تھے۔ ہر ایک ایماندار کو خُداوند اور اُس کی مہربانی کےلئے تشکر، اعتماد اور بھروسے کے ساتھ اِس دُعا کو دُہرانا چاہئے۔

جیسے یعقوب نے خُدا تعالیٰ کی تمام رحمتوں کا تجربہ کیا، ویسے ہی اُس کی نسل میں سے داﺅد نبی نے خُدا تعالیٰ کی مہربانی سے تین برکات کا تجربہ کیا، اور کہا: "خُداوند مبارک ہو۔ کیونکہ اُس نے مجھ کو محکم شہر میں اپنی شفقت دِکھائی" (پرانا عہدنامہ، زبور 31: 21)۔ خُدا نے داﺅد کی ایک مضبوط محکم شہر یا سپر کی مانند حفاظت کی اور اُسے ہر طرح کے حملہ میں بچایا۔ اُس زمانے کی سِپر لکڑی کے ایک ٹکڑے پر مشتمل ہوتی تھی جس پر جانور کی کھال لگی ہوتی تھی جس سے ایک جنگجو دُشمن کی طرف سے آنے والے تیروں سے بچتا تھا تا کہ اُسے کچھ نقصان نہ پہنچے۔ خُدا تعالیٰ کے دہنے ہاتھ نے داﺅد کی مدد کی اور اُسے سنبھالے رکھا تا کہ وہ گر نہ جائے۔ خُدا تعالیٰ کی مہربانی نے اُسے بڑا بنایا، اُسے بھیڑ سالہ سے اُٹھایا اور سلطنت کے تخت پر بٹھا دیا (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 7: 8)۔ خُدا تعالیٰ کی مہربانی ایمانداروں پر بھی غالب آئی، سو اُنہوں نے اُس کی اور اُس کی مرضی کی فرمانبرداری کی اور نتیجتاً رُوح القدس نے اُنہیں معمور کر دیا۔

اے عزیز قاری، میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ آپ مہربانی کی زندگی بسر کریں، کیونکہ اِسی قسم کی زندگی آخر میں کامیابی پائے گی۔ ایک حکایت بیان کرنے والے نے کہا کہ سورج اور ہوا کے درمیان ایک مقابلہ ہُوا کہ اُن میں سے کون مسافر کو اُس کے کپڑے اُتارنے پر مجبور کر دے گا۔ ہوا کو پہلا موقع ملا اور وہ خوب شِدّت سے چلی۔ لیکن جتنی زیادہ تیزی سے ہوا چلی، اُتنا ہی مسافر اپنے کپڑوں میں چُھپتا گیا۔ جب ہوا ناکام ہو گئی تو سورج نے چمک کر آہستہ سے حِدّت دینی شروع کی; اور کوئی ایذا، شور اور مٹی کا اُڑنا نہیں تھا، اور پھِر مسافر نے اپنی کپڑے اُتار دیئے۔ اِس سے ہم سیکھتے ہیں کہ مہربانی دوسروں کو جیتنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر ہم اپنے گھرانے، پڑوسیوں، ساتھ کام کرنے والے افراد یہاں تک کہ اپنے دُشمنوں کو جیتنا چاہتے ہیں تو آئیے ہم اپنی مہربانی اور نرم رویہ سے اُنہیں اپنا اسیر کر لیں۔

ایک ماں ہمیشہ اپنے بچوں پر الزام لگانے اور جھڑکنے میں تیز تھی۔ وہ اُن سے خوب محبت رکھتی تھی، لیکن اُس کا اپنی محبت کا اظہار غلط تھا۔ ایک دِن پاسبان اُن کے گھر گیا تو اُس نے اپنے بچوں کی شکایت لگائی کہ اُس کے بچے کچھ بھی اچھی طرح سے نہیں کرتے۔ پاسبان نے اُسے ایک جلتی ہوئی موم بتی جتنی جلد ہو سکتی کمرے میں لانے کےلئے کہا۔ ایسا کرنے کے دوران موم بتی بُجھ گئی کیونکہ دھاگے نے ابھی پوری طرح سے آگ نہیں پکڑی تھی۔ پاسبان نے اُس سے کہا کہ "آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ تحمل اور مہربانی کی ضرورت ہے تا کہ وہ بہتری کی طرف جائیں اور آپ کی مرضی کے مطابق برتاﺅ کریں۔ کلام میں لکھا ہے: 'اے اولاد والو! تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دِلاﺅ' (نیا عہدنامہ، افسیوں 6: 4)۔ اگر آپ اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گی تو وہ آپ کی توقعات پر پورا اُتریں گے۔"

اگر ہم رُوح القدس کو اپنی زندگی پر اختیار کا موقع دیتے ہیں تو وہ ہمیں سکھائے گا کہ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ ویسے مہربانی، نرم دِلی اور معافی کے ساتھ پیش آئیں جیسے خُدا نے مسیح میں ہمیں معاف کیا ہے۔ تبھی ہم بہت سوں کے دِلوں کو ویسے جیت سکتے ہیں جیسے خُدا تعالیٰ نے یعقوب، داﺅد اور باقی ایمانداروں کے دِلوں کو جیتا۔

(3) مصیبت زدوں کی مدد کرنے میں

ہمارے خُدا کی مہربانی کس قدر عظیم ہے جس کے بارے میں یسعیاہ نبی نے کہا ہے: "اُن کی تمام مصیبتوں میں وہ مصیبت زدہ ہُوا، اور اُس کے حضور کے فرشتہ نے اُن کو بچایا۔ اُس نے اپنی اُلفت اور رحمت سے اُن کا فدیہ دیا۔ اُس نے اُن کو اُٹھایا اور قدیم سے ہمیشہ اُن کےلئے پھِرا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 63: 9)۔ جو ہم محسوس کرتے ہیں وہ محسوس کرتا ہے، جب ہم پریشان ہوں تو وہ پریشان ہوتا ہے، اور اپنی مہربانی کی وجہ سے وہ ہمیں بچاتا ہے، رہائی بخشتا ہے اور ہمیں سنبھالتا اور اُٹھا لیتا ہے۔ موسیٰ نبی نے جو خدا تعالیٰ کا مُنہ تھا، بنی اسرائیل سے کہا: "اور بیابان میں بھی تُو نے یہی دیکھا کہ جس طرح اِنسان اپنے بیٹے کو اُٹھائے ہوئے چلتا ہے اُسی طرح خُداوند تیرا خُدا اِس جگہ پہنچنے تک سارے راستے جہاں جہاں تم گئے تم کو اُٹھائے رہا" (توریت شریف، استثنا 1: 31)۔

جب فرعون کی بیوی نے یُوسُف پر الزام لگایا تو فوطیفار اُس پر غصہ ہو گیا اور اُسے اُس قیدخانہ میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا۔ "لیکن خُداوند یُوسُف کے ساتھ تھا۔ اُس نے اُس پر رحم کیا اور قیدخانہ کے داروغہ کی نظر میں اُسے مقبول بنایا۔" یُوسُف نے خُداوند کی وفاداری کرنے کی وجہ سے مصیبت سہی اور قیدخانہ میں ڈالا گیا۔ بلا شک و شبہ، یُوسُف نے ناانصافی کی شکایت خُدا تعالیٰ کے حضور میں رکھی، اُس سے مدد مانگی، اور خُداوند نے مہربانی دِکھانے سے اُس کی دُعا کا جواب دیا اور اُسے داروغہ کی نظر میں مقبولیت بخشی (توریت شریف، پیدایش 39: 19-23)۔

یُوسُف نے اپنے خُدا سے سیکھا تھا کہ کیسے دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا ہے، اِس لئے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنہوں نے اُسے ایک غلام کے طور پر بیچ دیا تھا عزت سے پیش آیا، اور جب تک اُس کا باپ یعقوب جیتا رہا اُس نے اپنے بھائیوں کو مصر میں مہمانوں کی طرح رکھا۔ لیکن یعقوب کی وفات پر اُس کے بھائیوں نے خطرہ محسوس کیا کہ یُوسُف اُن کی طرف سے کی گئی بدی کا بدلہ دے گا، اِس لئے وہ سب اُس کے پاس روتے ہوئے آئے اور معافی کے طلبگار ہوئے۔ یُوسُف نے اُن کی توقع کے برعکس اُن کے ساتھ برتاﺅ کیا اور اُن سے کہا: "مت ڈرو۔ کیا میں خُدا کی جگہ پر ہوں؟ تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا اِرادہ کیا تھا لیکن خُدا نے اُسی سے نیکی کا قصد کیا تا کہ بہت سے لوگوں کی جان بچائے چنانچہ آج کے دِن ایسا ہی ہو رہا ہے" (توریت شریف، پیدایش 50: 15-21)۔

بےشک خُدا تعالیٰ نے آپ کی جانب اپنے ہاتھ مہربانی اور فضل میں بڑھائے ہیں، اور اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ اِس لائق ہیں، بلکہ اِس کی وجہ آپ سے اُس کی بےانتہا محبت ہے۔ آپ کو بھی یُوسُف کی طرح اُن سب سے فضل و مہربانی سے پیش آنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ساتھ حماقت سے پیش آتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔

اگر آپ نے مسیح کے اِس بلاوے کو قبول کیا ہے کہ "اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آﺅ۔ میں تم کو آرام دوں گا"، اور اُس سے آرام پایا ہے تو آپ یقیناً اُس کے حکم کو بھی سُنیں گے: "میرا جُؤا اپنے اوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔ کیونکہ میرا جُؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا" (اِنجیل بمطابق متی 11: 28-30)۔ اُس کا جُؤا ملائم ہے کیونکہ یہ نرم ہے اور کندھوں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اور میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ اُس کا بوجھ ہلکا ہے کیونکہ وہ خود اُس بوجھ کو آپ کے ساتھ اُٹھاتا ہے۔ جب وہ آپ کو آرام دیتا ہے تو آپ کو بھی تھکے ماندوں کو آرام فراہم کرنے کےلئے کوشش کرنی چاہئے، اور اپنے اردگرد کے افراد کےلئے خوشی کا ذریعہ بننا چاہئے۔

یسعیاہ نبی نے اپنے لئے خُدا تعالیٰ کے فضل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "خُداوند خُدا نے مجھ کو شاگرد کی زُبان بخشی ۔" یہ خُدا کی عظیم مہربانی ہے۔ نبی نے اِس فضل کے اعتراف کا اظہار عملی طور بھی کیا۔ اُس نے کہا: "تا کہ میں جانوں کہ کلام کے وسیلہ سے کس طرح تھکے ماندے کی مدد کروں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 50: 4)۔ ہمارے اردگرد بہت سے تھکے ماندے لوگ موجود ہیں جنہیں اِس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خُداوند کی طرف سے ملنے والے کلام کو شاگرد کی زُبان سے ادا کریں۔ ہم اپنے والد، والدہ، جیون ساتھی اور کلیسیائی پاسبان کو شکرگزاری کے الفاظ کہنے کے قرضدار ہیں۔ ہم اکثر اپنے دِلوں میں محسوس کرتے ہیں کہ ہم کس قدر دوسروں کے قرضدار ہیں، لیکن ہم احساس کو اپنے لبوں پر نہیں آنے دیتے۔ آئیے ہم اپنے والدین، بھائیوں، بہنوں اور اُساتذہ کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں اور نرم کلامی سے اُن کی حوصلہ افزائی کریں جس کے وہ مستحق ہیں۔

جب پولس رسول کا جہاز تباہ ہُوا تو وہ اور اُس کے ساتھ سفر کرنے والے افراد بچ گئے۔ وہ ایک جزیرے پر پہنچے جس کے بارے میں اُنہیں بعد میں پتا چلا کہ یہ مِلِتے کا جزیرہ تھا۔ جزیرے کے حاکم کا نام پُبلِیُس تھا۔ لوقا اِنجیل نویس نے اُس کے بارے میں کہا: "اُس نے گھر لے جا کر تین دِن تک بڑی مہربانی سے ہماری مہمانی کی" (نیا عہدنامہ، اعمال 28: 8)۔ حقیقت میں تمام جزیرے کے رہنے والوں نے اُن پر خاص مہربانی کی اور اُنہیں گرمجوشی سے خوش آمدید کہا (اعمال 28: 2)۔ خُدا تعالیٰ نے جزیرے کے لوگوں کی مہربانی اور اُن کے سردار کی خوش خلقی کا اجر یوں دیا کہ اُس کے باپ کو پولس کے ہاتھوں شفا بخشی جو بُخار اور پیچش کی وجہ سے بیمار تھا۔ جب پولس نے اُس کےلئے دُعا کی اور اپنے ہاتھ اُس پر رکھے تو اُسی وقت وہ شفا پا گیا۔ بلا شک و شبہ خُدا تعالیٰ اُن سب کو اجر عطا کرتا ہے جو مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں اور اُنہیں مہربانی دِکھاتے ہیں۔

خُداوند ہمیں یہ عنایت کرے کہ ہم اپنا آپ قطعی طور پر رُوح القدس کے حوالے کر دیں تا کہ مہربانی کا پھل لا سکیں۔

دُعا

آہ! تُو نے اپنے ڈرنے والوں کےلئے کیسی بڑی نعمت رکھ چھوڑی ہے۔ اے خُداوند، میری کمزوری اور ضرورت کے وقت میں تیری شفقت کس قدر عظیم ہے۔ مجھ میں اپنے اردگرد کے افراد کےلئے چاہے وہ دوست ہوں یا دُشمن، خاندان کے افرد ہوں یا اجنبی، مہربانی کا پھل پیدا کر۔ اپنی مہربان رُوح کے وسیلہ سے مجھے مہربانی عنایت کر، تا کہ اُن سب لوگوں کےلئے جن سے میرا واسطہ پڑتا ہے آرام کا باعث بنوں۔ آمین

ز- رُوح کا پھل: نیکی

نیکی عملی محبت کا نام ہے۔ نیک شخص دوسروں کا خیال رکھے گا اور بیمار کو دوائی، بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑا اور غمزدہ کو تسلی دے گا۔ ایسا فرد نہ صرف دوسروں کا جسمانی طور پر بلکہ رُوحانی طور پر بھی خیال رکھتا ہے۔ وہ ایسے فرد کی تلاش میں رہتا ہے جس نے اب تک مسیح کو قبول نہیں کیا تا کہ اُسے نجات کی برکات سے آسودہ ہونے کےلئے بُلائے۔ وہ انپڑھ فرد کو بائبل مُقدّس پڑھ کر سُناتا ہے، ضرورتمند کے سامنے اِنجیل کے الفاظ کی تشریح کرتا ہے، اور کلیسیا میں خدمت کےلئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایسا فرد مسیح کے نقشِ قدم کی پیروی کرتا ہے جس نے لوگوں میں خود بھلائی کے کام کئے۔ ایسا فرد روزِ آخر بھلائی کے کام کرنے والے تمام ایماندار افراد کے ساتھ ہمارے خُداوند کے پُرمُسرّت الفاظ سُنے گا: "آﺅ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔ کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا۔ تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا۔ تم نے مجھے اپنے گھرمیں اُتارا۔ ننگا تھا۔ تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا۔ تم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا۔ تم میرے پاس آئے۔ تب راست باز جواب میں اُس سے کہیں گے اے خُداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا؟ ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا" (اِنجیل بمطابق متی 25: 34-40)۔

جب رُوح القدس ایک ایماندار کی زندگی میں راج کرتا ہے تو اُسے عملی طور پر محبت کو ظاہر کرتے ہوئے نیکی کا پھل پیدا کرنا چاہئے۔

ہماری نیکی دو طرح کے پہلوﺅں میں ظاہر ہو سکتی ہے:

(1) دوسروں کی خدمت کے تعلق سے

کلام مُقدّس ہمارے سامنے زبور نویس داﺅد کی زندگی میں پایا جانے والا نیکی کا نمونہ رکھتا ہے، جس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خُدا کے دِل کے موافق شخص تھا جس نے اُس کی تمام مرضی کو پورا کیا (نیا عہدنامہ، اعمال 13: 22)۔ ساﺅل نے داﺅد کا پیچھا کیا اور وہ اُسے قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن ساﺅل کی وفات کے بعد داﺅد کی نیکی ظاہر ہوئی۔ داﺅد نے اپنے آدمیوں سے پوچھا: "کیا ساﺅل کے گھرانے میں سے کوئی باقی ہے جس پر میں یونتن کی خاطر مہربانی کروں؟" اُس کے آدمی اُس کے سامنے ساﺅل کے محل میں کام کرنے والے ایک خادم بنام ضیبا کو لے کر آئے۔ داﺅد نے ضیبا سے کہا "کیا ساﺅل کے گھرانے میں سے کوئی نہیں رہا تا کہ میں اُس پر خُدا کی سی مہربانی کروں؟" ضیبا نے جواب دیا اور داﺅد کو بتایا کہ ساﺅل کے بیٹے یونتن کا بیٹا مفیبوست رہ گیا ہے جو کہ لنگڑا ہے۔ داﺅد نے اُسے بُلوایا اور اُس سے کہا: "مت ڈر کیونکہ میں تیرے باپ یونتن کی خاطر ضرور تجھ پر مہربانی کروں گا اور تیرے باپ ساﺅل کی ساری زمین تجھے پھیر دوں گا اور تُو ہمیشہ میرے دسترخوان پر کھانا کھایا کر" (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 9: 1-8)۔

داﺅد اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ وہ بھیڑوں کا چرواہا تھا۔ لیکن خُدا تعالیٰ نے اُسے بھیڑوں کی گلہ بانی کے کام سے ہٹا کر اپنے لوگوں پر ایک بادشاہ اور حاکم بنا دیا۔ داﺅد نے اپنے ساتھ خُدا تعالیٰ کی نیکی کو سراہا، اور اپنے دُشمن کو بھی مہربانی دِکھانی چاہی کیونکہ اُس نے خود خُدا کی مہربانی کا تجربہ کیا تھا۔ داﺅد ہمارے لئے نیکی کی ایک اچھی مثال ہے۔ اگر آپ اپنے لئے خُدا تعالیٰ کی نیکی کو سراہتے ہیں اور آپ نے خُداوند کےلئے اپنے دِل کو کھول دیا ہے کہ رُوح القدس آپ پر راج کرے، تو آپ بھی خُدا کے دِل کے موافق شخص ہوں گے، اُس کی مرضی پر عمل کریں گے، رُوح کا پھل لائیں گے جو کہ نیکی ہے جسے آپ اپنی مخالفت کرنے والے دُشمنوں پر بھی ظاہر کریں گے۔

کتابِ مُقدّس ہمیں نیکی کے پھل کی ایک اَور مثال پیش کرتی ہے جو تبیتا نام کی ایک نیکوکار خاتون کی مثال ہے۔ ہم پڑھتے ہیں کہ "یافا میں ایک شاگرد تھی تبیتا نام جس کا ترجمہ ہرنی ہے۔ وہ بہت ہی نیک کام اور خیرات کیا کرتی تھی۔" یہ خاتون رُوح القدس سے معمور تھی جس نے اُس میں نیکی کا پھل پیدا کیا۔ تبیتا بیمار ہو گئی اور کلیسیا نے اُس کےلئے بہت دُعا کی، لیکن وہ مر گئی۔ لوگوں نے اُسے نہلا کر بالاخانہ میں رکھوا دیا اور پطرس کو بلوایا۔ جب پطرس بالاخانہ میں پہنچا جہاں تبیتا کی لاش پڑی تھی تو سب بیوائیں روتی ہوئی اُس کے پاس آ کھڑی ہوئیں اور جو کپڑے تبیتا نے اُن کے ساتھ میں رہ کر بنائے تھے دِکھانے لگیں۔ پطرس رسول نے اُن سب کو باہر نکال دیا اور گُھٹنے ٹیک کر دُعا کی۔ پھِر اُس نے لاش کی طرف متوجہ ہو کر کہا "اے تبیتا اُٹھ!" اُس نے آنکھیں کھول دیں اور پطرس کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھی (نیا عہدنامہ، اعمال 9: 36-43)۔ تبیتا نے اپنی نیکی کُرتے اور کپڑے بنانے میں ظاہر کی، جو اُس نے کسی ایک بیوہ کےلئے یا بیواﺅں کے ایک گروہ کےلئے جو اُس کے دِل کے نزدیک تھا نہیں بنائے بلکہ سب بیواﺅں کےلئے بنائے۔ رُوح کے پھل نے اُس کی زندگی کو لبریز کر دیا اور ہر اُس فرد کو جو اُس کے نزدیک آیا اُس کے پس منظر یا عقیدہ سے قطع نظر آسودگی بخشی۔ اگر آپ کا دِل رُوح القدس سے معمور ہو گیا ہے تو سب کے ساتھ نیک کاموں کی مشق کریں گے، چاہے وہ آپ سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، کیونکہ رُوح القدس آپ کو نیک اور خیراتی کاموں سے بھر دے گا۔

کتابِ مُقدّس ہمارے سامنے نیکی کے حوالے سے ایک اَور مثال یُوسُف نامی ایک راستباز شخص کی پیش کرتی ہے جو شاگردوں میں سے ایک تھا۔ بائبل مُقدّس اُس کے بارے میں کہتی ہے: "اور یُوسف نام ایک لاوی تھا جس کا لقب رسولوں نے برنباس یعنی نصیحت کا بیٹا رکھا تھا اور جس کی پیدایش کپرُس کی تھی۔ اُس کا ایک کھیت تھا جسے اُس نے بیچا اور قیمت لا کر رسولوں کے پاﺅں میں رکھ دی" (اعمال 4: 36-37)۔ اُس نے قیمت لا کر رسولوں کے ہاتھوں میں نہیں دی بلکہ اُن کے پاﺅں میں رکھ دی تا کہ کوئی اِس ہدیہ پر دھیان نہ دے سکے۔ جو کچھ اُس کا دایاں ہاتھ کر رہا تھا وہ اُس نے اپنے بائیں ہاتھ کو بھی نہ جاننے دیا۔

یُوسُف کو نصیحت کے بیٹے کا لقب اِس لئے ملا کہ جب رُوح القدس نے اُسے شاگرد کی زُبان بخشی تو اُس کے پاس ہمیشہ ایک نڈھال فرد کو کہنے کےلئے نصیحت کا کلام ہوتا تھا۔ وہ اِس قابل تھا کہ تھکے ماندے سے کلام کرے، گھایل دِلوں کی حوصلہ افزائی کرے اور اُن جانوں کی مدد کرے جنہیں نجات کی ضرورت تھی۔ وہ گناہ پر فتح پانے یا ایذارسانی کا سامنا کرنے کے بھی قابل تھا۔

چونکہ برنباس سب کےلئے حوصلہ افزائی کا سبب تھا، اِس لئے رسولوں نے اُسے چُنا اور انطاکیہ بھیجا کہ وہاں منادی کے ذریعے ایمانداروں کی حوصلہ افزائی کرے۔ اُس نے وہاں جا کر ایمانداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ خُداوند میں مضبوطی سے قائم رہیں۔ اور چونکہ وہ نیک مرد اور رُوح القدس اورایمان سے معمور تھا، اِس لئے بہت سے لوگ خُداوند کی کلیسیا میں آ ملے (اعمال 11: 19-24)۔

میں 1982ء میں نیروبی، کینیا میں آل افریقہ کونسل آف چرچز کی ایک کانفرنس میں گیا۔ کونسل کی کچھ عمارات کی تعمیر ابھی باقی تھی۔ کینیا کے صدر ڈینئیل ارپ موئی ہدیہ اکھٹے کرنے والے پروگرام میں آئے۔ وہ باضابطہ استقبالیہ میں سُرخ قالین پر بنائے گئے ایک پلیٹ فارم پر آئے۔ اُس استقبالیہ میں تمام میڈیا کے لوگ بھی موجود تھے۔ وہاں اُنہوں نے ایک تقریر کی جس میں دو اہم نکات تھے:

(الف) خُداوند یسوع نے اُس خاتون کی تعریف کی جس نے ہدیہ کےلئے دو دَمڑیاں دیں۔ اِس تعریف کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اُن دو دمڑیوں کی قدر بہت زیادہ تھی، بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کے پاس جو کچھ تھا وہ اُس نے دے دیا تھا۔ دو دَمڑیاں دینے کے بعد اُس کے پاس کچھ نہیں بچا۔ اُس نے "جو کچھ اِس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 41-44)۔

(ب) یہ مت سوچیں کہ چرچ کی عمارت کےلئے ہدیہ دے دینے سے آپ آسمان میں داخل ہوں گے; کیونکہ ہم صرف برّے خُداوند یسوع مسیح کے خون کی بنیاد پر آسمان میں داخل ہوتے ہیں، صرف ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے ایسا ممکن ہے۔

یہ ایک خوبصورت تقریر تھی، خاص کر اِس وجہ سے کہ یہ ایک مُلک کے صدر کی تقریر تھی۔ صدر موئی نے اپنا ہدیہ دیا اور پھِر وہاں موجود سب افراد نے اپنے ہدیہ جات دیئے، ہزاروں اور سیکڑوں۔ پھِر ایک نوجوان آدمی ایک بھیڑ کو کھینچتا ہوا آیا اور وہ اُسے ہدیہ میں دینا چاہتا تھا۔ تب کینیا کے صدر کھڑے ہو گئے اور اُس شخص کو سُرخ قالین پر اپنی بھیڑ کے ساتھ کھڑے ہونے کےلئے کہا، اور پھِر مخاطب ہوئے "اِس بھیڑ کو لازماً بولی کے ذریعے بیچنا چاہئے۔" ایک خاتون نے اُس کےلئے کینیا کے دو ہزار شیلنگ ادا کئے جبکہ اُس وقت بھیڑ کی قیمت دو سو شیلنگ سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن ہم سب کو اُس وقت سخت حیرت ہوئی جب بھیڑ کی نئی مالکہ نے کہا "یہ بھیڑ ایک غریب خاتون کی واحد جمع پونچی ہے۔ اُس نے کلیسیا کے نوجوان افراد کے ہاتھ اِس بھیڑ کو یہاں خُداوند کے حضور ہدیہ میں دینے کےلئے بھیجا ہے۔ اور اَب میں اِسے اِس کی اصل مالکہ کو واپس لوٹاتی ہوں کیونکہ اُس کے پاس بس یہی ہے۔"

رُوح القدس ہر جگہ کام کر رہا ہے: ایک مُلک کے ایک صدر میں، اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس غریب خاتون کی زندگی میں جس نے اپنا سب کچھ دے دیا۔ صدر اور غریب خاتون کے درمیان خُداوند سے محبت کرنے والے لاکھوں ایماندار ہیں جو رُوح القدس کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں رُوح کا پھل نیکی پیدا ہوتی ہے۔

(2) کلیسیا کی خدمت کے تعلق سے

جب رُوح القدس ہمارے دِلوں کو معمور کرتا ہے اور ہمارے کام اُس میں رہ کر انجام پاتے ہیں تو ہم خُداوند کےلئے نیک کام کرنے شروع کر دیتے ہیں، اور اپنے آپ کو اُس کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ اِنجیلی بیانات اِس تعلق سے ایک خاتون کی مثال پیش کرتے ہیں جس نے ایک عِطردان میں سے نہایت ہی قیمتی عِطر اُس وقت مسیح کے سر پر اُنڈیلا جب وہ کھانا کھانے بیٹھا تھا۔ جب مسیح کے شاگردوں نے یہ دیکھا تو وہ نہایت خفا ہوئے اور کہنے لگے "یہ کس لئے ضائع کیا گیا؟ یہ تو بڑے داموں کو بِک کر غریبوں کو دیا جا سکتا تھا۔" لیکن یسوع نے اُس کا دِفاع کیا اور کہا "اِس عورت کو کیوں دِق کرتے ہو؟ اِس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے۔" اُس نے اپنا ہدیہ پیش کیا اور اُس کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ دیکھنے والے اُسے سراہیں گے یا تنقید کریں گے۔ اُس کی اپنی کوئی بھی سوچ اُس کے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی، کیونکہ اُس کا دِل اور ذہن مسیح کی محبت سے بھرپور ہو چکا تھا، اور یسوع سے ہٹ کر کوئی بھی اُس کی سوچوں یا احساسات کو متاثر نہیں کر سکتا تھا۔ جب اُس نے مسیح سے محبت کی تو اُس کےلئے ایک بڑا کام کیا (اِنجیل بمطابق متی 26: 7-13)۔

انسان اپنی فطرت اور اعمال کے لحاظ سے شریر ہے، اور اُس کا دِل تمام طرح کی نیکی سے خالی ہے کیونکہ اُس کا نفس اُسے برائی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ اُس وقت تک کوئی بھی نیکی نہیں کر سکتا جب تک کہ مسیح اُس کے دِل کو رُوح القدس سے تبدیل نہ کر دے۔ تاہم، نفسانی آدمی خُدا تعالیٰ کا متمنی نہیں ہوتا اور اُس کی شریعت سے خوش نہیں ہوتا، اِسی لئے یوں لکھا ہے: "کوئی راست باز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خُدا کا طالب نہیں۔ سب گمراہ ہیں، سب کے سب نکمے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 10-12)۔ یہ ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ مسیح کی نجات کو قبول کرے اور رُوح القدس کے کام کی بدولت رُوحانی طور پر اُوپر سے نئے سرے سے پیدا ہو۔ خُدا تعالیٰ اُوپر سے پیدا ہونے والوں کو اجر دے گا کیونکہ ایسے لوگ رُوح کا پھل پیدا کریں گے۔ خُدا "ہر ایک کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دے گا۔ جو نیکوکاری میں ثابت قدم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں اُن کو ہمیشہ کی زندگی دے گا۔ ... مگر جلال اور عزت اور سلامتی ہر ایک نیکوکار کو ملے گی" (رومیوں 2: 6، 7، 10)۔

ہم اپنے نیک اُستاد کےلئے کون سے نیک کام کریں گے؟ ہم اُسے کون سی خدمت پیش کریں گے جو خدمت لینے نہیں بلکہ خدمت کرنے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دینے کےلئے آیا (اِنجیل بمطابق مرقس 10: 45)؟

میں اُمید کرتا ہوں کہ پولس رسول کے الفاظ کا ہم سب پر اطلاق ہو: "تم سب کے بارے میں ہم خُدا کا شکر ہمیشہ بجا لاتے ہیں ... تمہارے ایمان کے کام اور محبت کی محنت اور اُس اُمید کے صبر کو بِلاناغہ یاد کرتے ہیں" (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 1: 2، 3)۔

خُداوند ہماری مدد فرمائے کہ ہم اپنا آپ اور اپنا سب کچھ اُس کے حضور نذر کر دیں، کیونکہ اچھا نوکر اپنے مالک کے دیئے ہوئے توڑوں کو نیک کام کرنے میں استعمال کرتا ہے اور اپنے مالک کے ستایشی الفاظ سُنتا ہے کہ "اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناﺅں گا۔ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو" (اِنجیل بمطابق متی 25: 21)۔ کیا خُداوند آپ کی اِسی طرح سے تعریف کرے گا؟ کیا وہ آپ سے بھی یہ کہے گا کہ "میں تیرے کام اور تیری مُشقّت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں ... اور تُو صبر کرتا ہے اور میرے نام کی خاطر مُصیبت اُٹھاتے اُٹھاتے تھکا نہیں" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 2: 2، 3)؟

دُعا

مجھے اپنی نیکی عطا فرما، تا کہ سب لوگ میرے کاموں کو دیکھ کر تیری تمجید کریں۔ بخش میں دوسروں کے بوجھ اُٹھاﺅں اور اُن کی فکر کروں اور اُن کا خیال رکھوں۔ میں تیرے اِن الفاظ کو اپنے لئے سُننا چاہتا ہوں کہ "اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش!" آمین

ح- رُوح کا پھل: ایمانداری

پولس رسول نے کہا: "ایمان سُننے سے پیدا ہوتا ہے اور سُننا مسیح کے کلام سے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 10: 17)۔ ایمان کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ "یہ خُدا تعالیٰ کے کلام اور وعدوں پر توکُّل اور اعتقاد ہے۔ جب ہم کسی پر اپنا توکُّل کرتے ہیں تو جو کچھ وہ کہے ہم اُس کا یقین کرتے ہیں۔ جب ہم خُداوند پر ایمان لاتے ہیں تو جو کچھ وہ اپنے کلام میں کہتا ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں۔ "ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اَندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 11: 1)۔ ایمان اِس بات کا یقین رکھنا ہے کہ جس کی آپ اُمید کرتے ہیں وہ سچ ثابت ہوگا، اور یہ اِس قائلیت کا نام ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے نہیں وہ حقیقت میں موجود ہے۔ ہم بغیر ایمان کے خُداوند کو پسند نہیں آ سکتے (عبرانیوں 11: 6)۔

جب ہم خوشخبری کو سُنتے اور قبول کرتے ہیں تو یہ رُوح القدس ہے جو ہمیں اُس کی صداقت کے بارے میں قائل کرتا ہے، ہمارے دِلوں کی تمام سچائی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ہمیں ایمان کا پھل پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے، اور اِس کا مطلب ہے جس شخصیت پر توکُّل کرنا روا ہے اُس پر توکُّل کرنا۔ اگر ہم اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو آئیے خُدا تعالیٰ کے مکاشفات کو اپنے توکُّل کےلئے ایک بنیاد کے طور پر لیں۔ "کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کےلئے لکھی گئیں تا کہ صبر سے اور کتابِ مُقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 15: 4)۔

ایمان کے تین معانی ہیں:

(1) ایمان خُدا تعالیٰ کی نجات بخش قُدرت پر بھروسا کرنا ہے۔ (2) ایمان خُدا تعالیٰ کی مہیا کرنے والی فکر پر بھروسا کرنا ہے۔ (3) ایمان خُدا تعالیٰ اور لوگوں کے ساتھ ایمانداری سے پیش آنا ہے۔

(1) ایمان خُدا تعالیٰ کی نجات بخش قُدرت پر بھروسا کرنا ہے

خُدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام ہونے کے دعوے کی سچائی کی تصدیق کون کرتا ہے؟ یہ رُوح القدس ہے۔ پولس رسول نے اپنی تبدیلی سے پہلے کلیسیا کو ستایا اور یہ سوچتے ہوئے مسیحی ایمان کی مخالفت کی کہ ایسا کرنے سے وہ خُدا کی خدمت کر رہا تھا۔ لیکن کس نے اُس کی سوچ کو بدلا کہ اُس نے کہا "یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا میں ہوں" (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 1: 15)؟ یہ اُس کے دِل اور ذہن میں رُوح القدس کا کام ہے کیونکہ "نہ کوئی رُوح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خُداوند ہے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 12: 3)۔

پطرس رسول نے پینتِکوست کے دِن اپنے پہلے وعظ میں مسیحی پیغام کا خلاصہ پیش کیا، جسے اُس نے بیان کرتے ہوئے اپنی بات یوں ختم کی "پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خُدا نے اُسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خُداوند بھی کیا اور مسیح بھی" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 36)۔ اُس نے یہ بات مسیح کی مصلوبیت کے ٹھیک پچاس دِن بعد اُس جگہ کہی جو کوہِ کلوری کے بہت نزدیک تھی جہاں مسیح مصلوب ہُوا تھا۔ اُس نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ خُدا نے اِس مصلوب یسوع کو خُداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔ "جب اُنہوں نے یہ سُنا تو اُن کے دِلوں پر چوٹ لگی اور پطرس اور باقی رسولوں سے کہا کہ اے بھائیو! ہم کیا کریں؟ پطرس نے اُن سے کہا کہ توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کےلئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم رُوح القدس انعام میں پاﺅ گے" (اعمال 2: 37، 38)۔ اُس دِن تقریباً تین ہزار کے قریب لوگوں نے مسیح کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رُوح القدس تھا جس نے سامعین کو اُن کی غلطی کا احساس دِلایا اور اُس پیغام کی سچائی کے بارے میں قائل کیا کہ اُن کے "دِلوں پر چوٹ" لگی اور وہ اُس کلام پر ایمان لائے جو رسول نے کیا تھا۔

ایک امیر آدمی نے یسوع سے پوچھا "میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 10: 17)۔ یہ اُسی سوال کی تکرار تھی جو یہودی مسیح سے پہلے پوچھ چکے تھے: "ہم کیا کریں تا کہ خُدا کے کام انجام دیں؟" یسوع نے جواب میں اُنہیں کہا "خُدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاﺅ" (اِنجیل بمطابق یوحنا 6: 28، 29)۔ پہلا کام جو ہمیں خُدا تعالیٰ کےلئے کرنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لائیں جسے باپ نے ہمارے لئے بھیجا، اور یہ ایمان لانا ہے کہ صرف وہی واحد نجات دہندہ ہے۔

صلیب پر تائب ڈاکو نے مسیح کے حضور اپنی دُعا پیش کرتے ہوئے کہا "اے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 42)۔ وہ ڈاکو اُس بات کو کیسے سمجھ سکا جسے یہودی علماء نہ سمجھ سکتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ رُوح القدس نے اُسے ہر اُس لفظ کے بارے میں قائل کیا تھا جو مسیح نے اپنے بارے میں کہا تھا، اور وہ اپنے ساتھ مصلوب ہونے والے شخص میں دیکھنے کے قابل تھا کہ وہ بادشاہی کا مالک خُداوند ہے جس کے پاس بادشاہی میں داخل کرنے کا اختیار ہے۔ اور یہ رُوح القدس ہے جو ہمیں اِنجیلی پیغام کی سچائی کے بارے میں قائل کرتا ہے، تا کہ جب ہم اِسے سُنیں تو ایمان لائیں اور یہ احساس کریں کہ یہ خُدا تعالیٰ کی طرف سے سچائی ہے۔ اِنجیل وہ خوشخبری ہے جو مسیح اِس دُنیا میں لے کر آئے، اور اِس خوشخبری کو قبول کرنے سے ہم نجات پاتے ہیں۔

رُوح القدس ہمیں اِنجیلی کلام کی سچائی کے بارے میں قائل کرنے کےلئے کئی ذرائع استعمال کرتا ہے: جیسے وعظ، لکھا ہُوا کوئی پیغام، یا پھِر ایک خُدا پرست شخص کی زندگی کی اچھی مثال۔ یہ ذرائع اہم ہیں، لیکن قائل اور تبدیل کرنے والی قدرت رُوح القدس سے ملتی ہے جو انسانی رُوحوں کو مسیح کی معرفت کے پاس لے کر آتا ہے۔

(2) ایمان خُدا تعالیٰ کی مہیا کرنے والی فکر پر بھروسا کرنا ہے

جب ہم اعتماد کرتے ہیں تو بھروسا کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ جب آپ کو اعتماد ہو کہ ایک گاڑی آپ کو منزلِ مقصود پر لے کر جائے گی تو آپ اُس میں سوار ہو جاتے ہیں اور اُس گاڑی چلانے والے ڈرائیور پر بھروسا کرتے ہیں۔ آپ ایمان لاتے اور پھِر توکُّل کرتے ہیں۔ ایمان کا مطلب تحفظ ہے، اور یہ ہمیں اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب ہم خُدا تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہیں اور اپنے پورے دِل سے اُس کے وعدوں کو تھامے رہتے ہیں۔ خُدا تعالیٰ نے یسعیاہ نبی کی معرفت کہا "اگر تم ایمان نہ لاﺅ گے تو یقیناً تم بھی قائم نہ رہو گے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 7: 9)۔ جب ہم ایمان لاتے ہیں تو یقین رکھتے ہیں اور ہمارے دِل ایمان سے بھر جاتے ہیں کیونکہ "جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خُدا کے ساتھ اپنے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں۔ جس کے وسیلہ سے ایمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خُدا کے جلال کی اُمید پر فخر کریں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 1-2)۔

کلام مُقدّس میں خُدا تعالیٰ ہمیں تنبیہ کرتا ہے کہ "شریروں کےلئے سلامتی نہیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 57: 21)۔ شریر وہ ہیں جو خُدا تعالیٰ کی باتوں پر شک کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ سانپ نے حوا سے کہا "کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟" (توریت شریف، پیدایش 3: 1)۔ ابلیس اُسے خُدا تعالیٰ کے الفاظ پر شک کرنے کی طرف لے کر گیا۔ ہمارے اوّلین آباﺅاجداد نے یقین کیا کہ ابلیس کا مشورہ اُن کےلئے بڑی خوشی اور کثرت کی بھلائی لائے گا، اِس لئے اُنہوں نے درخت کا پھل کھایا، اور پھِر خُدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا اطمینان کھو بیٹھے اور باغ سے نکال دیئے گئے۔

اطمینان صرف اُنہی لوگوں کے پاس ہے جو مسیح کے کفارے میں محفوظ ہیں، جو اپنی زندگی کےلئے رُوح القدس کی ہدایت و راہنمائی کی پیروی کرتے ہیں، صرف وہی ابرہام کے سے ایمان کا تجربہ کر سکتے ہیں جو خُدا تعالیٰ کے وعدے پر ایمان لایا تھا کہ خُدا اُسے سارہ سے جو بانجھ تھی ایک بیٹا عطا کرے گا۔ ابرہام کا ایمان بھروسا کرنے سے مضبوط ہُوا، اور خُدا تعالیٰ کو جلال دیتے ہوئے اُسے اعتقاد تھا کہ جو کچھ خُدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرنے پر بھی قادِر ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 4: 20، 21)۔ ابرہام کا ایمان کسی جسمانی سبب کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ مکمل طور پر خُدا تعالیٰ کے وعدوں پر مبنی تھا۔ جب خُدا کے وعدے کو 25 سال گزر گئے تب خُدا نے ابرہام کو سارہ کے ذریعے سے ایک بیٹا دیا جس کا نام اُنہوں نے "اضحاق" رکھا جس کا مطلب ہے "ہنسنا۔" تب سارہ کی عمر نوے برس تھی اور ابرہام تقریباً سو برس کا بوڑھا تھا۔ اضحاق ابرہام کا وہ اکلوتا فرزند تھا جس کا خُدا نے وعدہ کیا تھا، تاہم وہ خُدا تعالیٰ سے محبت اور اُس کی فرمانبرداری کی وجہ سے اُسے اپنے ہاتھوں سے قربان کرنے کےلئے لے کر گیا۔ ابرہام کا دِل اِس حد تک اطمینان سے بھرا تھا کہ اُس نے اِس مشکل کام کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شروع کرنے کےلئے قدم اُٹھایا۔ وہ جانتا تھا کہ خُدا تعالیٰ اضحاق کے قربان ہونے کے بعد اُسے مُردوں میں سے زندہ کر سکتا ہے (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 11: 19)۔ اضحاق نے اپنے باپ سے ایک سوال کیا جس نے اُس کے دِل کو تلوار کی طرح چیر دیا: "اے باپ ... دیکھ آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کےلئے برّہ کہاں ہے؟" اُس نے اپنے بیٹے کو یہ نہیں کہا کہ وہی سوختنی قربانی تھا، بلکہ محض یہ کہا "اے میرے بیٹے خُدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کےلئے برّہ مہیا کر لے گا" (توریت شریف، پیدایش 22: 7، 8)۔ اور پھِر واقعی خُدا تعالیٰ نے ایک سوختنی قربانی مہیا کی جس نے اضحاق کی جگہ لی، اور ایک عظیم قربانی سے اضحاق کا فدیہ دیا گیا۔

یہ خُدا تعالیٰ کی تیارکردہ مسیح کی عظیم ترین قربانی کی طرف ایک اشارہ تھا، جو تمام انسانوں کے کفارے کےلئے کافی تھی۔ یسعیاہ نبی نے اِس کے واقع ہونے سے سات سو سال پہلے اِس کے بارے میں بتایا تھا اور کہا تھا "وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 5)۔ ابرہام لوگوں کی نظر میں راستباز ٹھہرا، اور اُس کی فرمانبرداری اپنے بیٹے کو قربان کرنے میں رضامندی کے ذریعے ظاہر ہوئی۔ وہ مسیح کے عظیم فدیہ و کفارہ کی بنیاد پر خُدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی راستباز ٹھہرا۔ مُقدّس یعقوب نے اِس تعلق سے کہا "جب ہمارے باپ ابرہام نے اپنے بیٹے اضحاق کو قربان گاہ پر قربان کِیا تو کیا وہ اعمال سے راستباز نہ ٹھہرا؟ پس تُو نے دیکھ لیا کہ ایمان نے اُس کے اعمال کے ساتھ مل کر اثر کیا اور اعمال سے ایمان کامل ہُوا۔ اور یہ نوِشتہ پورا ہُوا کہ ابرہام خُدا پر ایمان لایا اور یہ اُس کےلئے راستبازی گنا گیا" (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 21-23)۔

جب رُوح القدس ہم میں کام کرتا ہے، جب ہم صرف اُسی کی طرف دیکھتے ہیں اور خُدا تعالیٰ کی مہیا کرنے والی فکر پر بھروسا کرتے ہیں، تو ہم ابرہام کی طرح چاہے قربانی دینی پڑے خُدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کریں گے، اور مسیح کے راست ٹھہرانے والے کامل فدیہ کے ذریعے راستباز ٹھہریں گے۔

پطرس نے دیگر ماہی گیروں کے ساتھ ساری رات مچھلی پکڑنے میں گزاری مگر کوئی مچھلی ہاتھ نہ آئی۔ صبح کے وقت مسیح نے پطرس کو گہرے میں جانے اور جال ڈالنے کےلئے کہا۔ پطرس نے جواب میں کہا "اے اُستاد، ہم نے رات بھر محنت کی اور کچھ ہاتھ نہ آیا مگر تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہوں" (اِنجیل بمطابق لوقا 5: 5)۔ تب وہ ایک طویل بےحاصل رات کے بعد مچھلیوں کا بڑا غول گھیر لائے، یہاں تک کہ اُن کے جال پھٹنے لگے۔ وہ ایمان کس قدر عظیم ہے جو ہمیں اپنے خُداوند پر بھروسا رکھنے کے فطری نتیجہ کے طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔

آئیے ہم خُدا تعالیٰ کے وعدوں کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اور خُداوند کی طرف سے اِن وعدوں کی تکمیل کو مانگنے کےلئے دلیری کا مظاہرہ کریں۔ وہ ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے (نیا عہدنامہ، افسیوں 3: 20)۔ آئیے ہم اپنے لئے خُداوند کے وعدے پورے ہونے سے پہلے اُن کےلئے خُداوند کے حضور شکر گزاری پیش کریں، جیسے داﺅد نبی نے دُعا کی تھی: "اَب اے خُداوند، وہ بات جو تُو نے اپنے بندہ کے حق میں اور اُس کے گھرانے کے حق میں فرمائی ابد تک ثابت رہے اور جیسا تُو نے کہا ہے ویسا ہی کر" (پرانا عہدنامہ، 1- تواریخ 17: 23)۔

پولس رسول نے اپنے ساتھ خُدا تعالیٰ کے وعدوں کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اور ڈوبتے ہوئے جہاز میں اپنے ساتھیوں سے کہا "کیونکہ خُدا جس کا میں ہوں اور جس کی عبادت بھی کرتا ہوں اُس کے فرشتہ نے اِسی رات کو میرے پاس آ کر کہا اے پولس! نہ ڈر۔ ضرور ہے کہ تُو قیصر کے سامنے حاضر ہو اور دیکھ جتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اُن سب کی خُدا نے تیری خاطر جان بخشی کی۔ اِس لئے اے صاحبو! خاطر جمع رکھو کیونکہ میں خُدا کا یقین کرتا ہوں کہ جیسا مجھ سے کہا گیا ہے ویسا ہی ہو گا" (نیا عہدنامہ، اعمال 27: 23-25)۔ جب ہم خُدا تعالیٰ کے وعدوں پر توکُّل کرتے ہیں تو ہم اُس کی مہیا کرنے والی فکر پر زیادہ بھروسا کرتے ہیں اور اِس حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں: "کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنّت کے وسیلہ سے شکرگزاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کی جائیں" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 4: 6)۔ "اور وہ جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکُّل کریں گے" (پرانا عہدنامہ، زبور 9: 10)۔

(3) ایمان خُدا تعالیٰ اور لوگوں کے ساتھ ایمانداری سے پیش آنا ہے

ہمارے اندر ایمان کے پیدا ہونے کےلئے ہمیں سچ مچ رُوح القدس کی سرگرمی کی ضرورت ہے جو ہمیں ہمارے سب کاموں میں وفادار بنائے گی اور یوں مسیح کے حکم کی پیروی ہو گی کہ "جان دینے تک بھی وفادار رہ تو میں تجھے زندگی کا تاج دوں گا" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 2: 10)۔

پرانا عہدنامہ کاریگروں کی ایمانداری کے تعلق سے ہمیں ایک بائبلی مثال فراہم کرتا ہے۔ جب یہوآس بادشاہ نے ہیکل کی مُرمّت کرنا چاہی تو یہویدع کاہن ایک صندوق لے کر آیا اور اُس کے سرپوش پر ایک سوراخ کیا اور اُسے مذبح کے پاس رکھا تا کہ لوگ اُس میں اپنے ہدیے ڈال سکیں۔ جب بھی صندوق نقدی سے بھر جاتا تو بادشاہ کے آدمی آ کر اُس نقدی کو گن لیتے اور خُداوند کے گھر کی بحالی کے کام کو مکمل کرنے کےلئے کاریگروں کو دے دیتے۔ "جن لوگوں کے ہاتھ میں وہ اِس نقدی کو سپرد کرتے تھے تا کہ وہ اُسے کاریگروں کو دیں اُن سے وہ اُس کا کچھ حساب نہیں لیتے تھے اِس لئے کہ وہ دیانت سے کام کرتے تھے" (پرانا عہدنامہ، 2- تواریخ 12: 14، 15)۔ اپنی دیانتداری کی وجہ سے اُنہیں کسی حساب کرنے والے یا خزانچی کی ضرورت نہ تھی۔

ایسا ہی یوسیاہ کے ایّام میں بھی ہُوا۔ اُس کی سلطنت کے اٹھارویں برس میں وہ نقدی جمع کی گئی جو خُداوند کے گھر کی بحالی کے کام کےلئے استعمال کی جانی تھی تا کہ "اُسے اُن کاریگروں کو دیں جو خُداوند کے گھر میں کام کرتے ہیں ... یعنی بڑھیوں اور راجوں اور معماروں کو دیں اور ہیکل کی مُرمّت کےلئے لکڑی اور تراشے ہوئے پتھروں کے خریدنے پر خرچ کریں۔ لیکن اُن سے اُس نقدی کا جو اُن کے ہاتھ میں دی جاتی تھی کوئی حساب نہیں لیا جاتا تھا اِس لئے کہ وہ امانتداری سے کام کرتے تھے" (2- تواریخ 22: 3-7)۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ کاریگر اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے، بلکہ وہ خُداوند اور اُس کے گھر کےلئے سب کچھ رضاکارانہ کرتے تھے۔ خُداوند کےلئے اُن کی محبت اِس قدر زیادہ تھی اور اُن کی وفاداری اِس قدر بڑی تھی کہ کسی نے بھی اُن سے کچھ حساب نہ لیا۔

جتنا زیادہ ہم اپنا آپ رُوح القدس کے حوالے کرتے ہیں، اُتنا ہی زیادہ ایمان کا پھل ہم میں افزوں ہوتا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجہ میں ہم خُدا تعالیٰ پر زیادہ ایمان رکھیں گے، اُس کے ساتھ ہمیں تحفظ اور سلامتی ملے گی، اور ہم اُس کے نام کے جلال کےلئے اپنے ہر کام میں زیادہ ایماندار ہوں گے۔

دُعا

یا ربّ، میں ایمانی نعمت کےلئے تیرا شکر کرتا ہوں جو رُوح القدس کا ایک پھل ہے۔ میرا ایمان تیری طرف سے ایک تحفہ ہے اور مجھ میں تیرے رُوح القدس کے کام کا نتیجہ ہے۔ مجھے اپنے کلام کا زیادہ مُشتاق بنا، کیونکہ میرا ایمان اُس وقت زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جب میں تیرے وعدوں سے آگاہی حاصل کرتا اور اُنہیں مضبوطی سے تھامے رکھتا ہوں۔ مجھے اطمینان بخش اور یہ عنایت کر کہ تیرے صادِق اور وفادار کلام پر بھروسا رکھوں، تا کہ میں جان دینے تک وفادار رہوں اور زندگی کا تاج حاصل کروں۔ آمین

ط- رُوح کا پھل: حِلم

حِلم دِل کی ایک باطنی خوبی ہے جو اپنا آپ روزمرہ کے کاموں میں ظاہر کرتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک ایماندار نے اپنے نرم دِل اور محبت کرنے والے راہنما سے کہا "جب آپ میرے ساتھ ہوتے ہیں تو میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ خُدا میرے حلق میں جیسے شہد اُنڈیل رہا ہوتا ہے۔" اِس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا نے اُس راہنما کو رُوح کے پھل سے برکت دی تھی۔

حِلم کا مطلب اپنے آپ کو حلیمی کے ساتھ خُدا کے تابع کرنا ہے۔ اِس کا مطلب اُس کے کلام کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ حِلم کا تعلق صبر، برداشت، سیکھنے کی قابلیت اور گناہ کے خلاف جائز غصہ سے ہے جو گنہگار کی طرف نہ ہو۔ یہ رُوح القدس کا ایک عظیم پھل ہے، کیونکہ یسوع نے اپنے آپ کو بیان کرنے کےلئے اِسے استعمال کیا اور کہا "مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دِل کا فروتن" (اِنجیل بمطابق متی 11: 29)۔ پولس رسول نے بھی مسیح کو اِس خوبی کے حوالے سے بیان کیا اور کہا "میں ... مسیح کا حِلم اور نرمی یاد دِلا کر خود تم سے التماس کرتا ہوں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 10: 1)۔ حِلم کی خوبی کو 1- کرنتھیوں 4: 12 میں محبت کے ساتھ، افسیوں 4: 2 میں فروتنی کے ساتھ، اور 1- تیمتھیس 6: 11 میں محبت اور صبر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اِس عظیم خوبی کا سب ایمانداروں کی زندگی میں تقاضا کیا گیا ہے، کیونکہ مسیح نے فرمایا "مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے" (اِنجیل بمطابق متی 5: 5)۔ نئے عہدنامہ میں پولس رسول بھی کہتا ہے: "پس خُدا کے برگُزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حِلم اور تحمل کا لباس پہنو" (کلسیوں 3: 12)، "تمہاری نرم مزاجی سب آدمیوں پر ظاہر ہو" (فلپیوں 4: 5)۔ یہ خُدا باپ کی خوبی بھی ہے۔ داﺅد نے خُدا کے تعلق سے کہا "تیری نرمی نے مجھے بُزرگ بنایا" (پرانا عہدنامہ، زبور 18: 35)۔ یہ خُدا بیٹے کی بھی خوبی ہے (انجیل بمطابق متی 11: 29)، اور خُدا روح القدس کی بھی (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 23)۔

حِلم کی خوبی نوجوان لوگوں میں بھی ہونی چاہئے کیونکہ پولس رسول اپنے شاگرد تیمتھیس کو کہتا ہے "راستبازی، دینداری، ایمان، محبت، صبر اور حِلم کا طالب ہو" (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 6: 11)۔ اِس کا عورتوں میں زیور کے طور پر تقاضا کیا گیا ہے "تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حِلم اور مزاج کی غربت کی غیر فانی آرایش سے آراستہ رہے کیونکہ خُدا کے نزدیک اِس کی بڑی قدر ہے" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 3: 4)۔ حِلم کی خوبی کا قائدین سے بھی تقاضا کیا گیا ہے، کیونکہ قائد "مار پیٹ کرنے والا نہ ہو بلکہ حلیم ہو۔ نہ تکراری نہ زر دوست" (1- تیمتھیس 3: 3)۔ یہ خوبی پولس رسول میں پوری طرح سے موجود تھی کیونکہ اُس نے تھسلنیکیوں کے نام لکھا "جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے اُسی طرح ہم تمہارے درمیان نرمی کے ساتھ رہے" (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 2: 7)۔

مسیح کی حلیمی ہونے کےلئے ہمیں اپنی زندگی پر رُوح القدس کے اختیار کی ضرورت ہے۔

آئیے ہم حِلم کے تین معانی کا مطالعہ کریں:

(1) ایک حلیم شخص اپنا آپ رُوح القدس کی سپردگی میں دیتا ہے

ایک حلیم شخص وہ فرد ہوتا ہے جو بڑی اطاعت گزاری اور خوشی سے اپنا آپ رُوح القدس کے حوالے کرتا ہے کہ خُدا کی مرضی پوری ہو۔ اِس تعلق سے سب سے بہترین مثال مسیح کی ہے۔ آپ نے فرمایا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا سِوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 5: 19)۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اِس حقیقت سے حیران ہوں کہ بیٹا باپ کے تابع ہوتا ہے، لیکن ہمیں لازماً یاد رکھنا ہے کہ مسیح نے انسانی صورت اختیار کی تھی۔ وہ کامل خُدا اور کامل بشر ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ مسیح خُدا ہے تو یہ سچ بات ہے کیونکہ مسیح مجسّم کلام ہے (اِنجیل بمطاق یوحنا 1: 14)۔ اور اگر ہم کہتے ہیں کہ مسیح انسان ہے تو یہ بات بھی بالکل سچ ہے کیونکہ مسیح خُدائے مجسم ہے (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 3: 16)۔ اَب یہ تو عیاں ہے کہ ایک عظیم شخصیت انکساری اختیار کر سکتی ہے، لیکن ایک حقیر فرد بلند مرتبہ پر نہیں ہو سکتا۔ کلام مُقدس بیان کرتا ہے کہ مسیح اگرچہ خُدا کی صورت پر تھا، اُس نے خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا، بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 6، 7)۔ جب ہم مسیح کی الوہیت کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اُس کی انسانیت کو بھول جائیں، یا پھِر جب ہم مسیح کی انسانیت کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اُس کی الوہیت کو بھول جائیں، تاہم ہمیں لازماً یاد رکھنا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں "ابنِ خُدا" اور "ابنِ آدم" دونوں ہے۔ انسانِ کامل ہوتے ہوئے اُس نے اپنا آپ باپ کی مرضی پر عمل کرنے کےلئے پوری رضامندی کے ساتھ پیش کر دیا، اور جو کچھ اُس نے باپ کو کرتے دیکھا اُس سے ہٹ کر کچھ بھی نہ کیا۔

اِنجیلی بیانات انسان کو خُدا تعالیٰ کے خلاف بغاوت کرتا ہوا بیان کرتے ہیں جو اُس کی مرضی پر عمل نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن رُوح القدس اُسے ترغیب دیتا ہے کہ وہ خوشی سے خُدا تعالیٰ کی مرضی پر عمل کرنے کےلئے اپنا آپ دے دے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رُوح القدس ایک باغی انسان کو سُدھارتا ہے اور اُسے حلیم اور خدمت کے لائق بناتا ہے۔ ہوسیع نبی نے اُس شخص کو جو خُدا تعالیٰ سے دُور ہے ایک "سرکش" کے طور پر بیان کیا ہے جو تربیت پذیر نہیں ہونا چاہتا، لیکن خُداوند اُس کی تربیت کرتا ہے اور اُسے کُشادہ جگہ میں برّہ کی مانند چرائے گا (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 4: 16)۔ یہ رُوح القدس ہے جو ایک سرکش شخص کو برّہ کی مانند تربیت پذیر بناتا ہے، اور وحشی شخص کو تبدیل کرتا ہے اور اُسے حلیم اور الہٰی مرضی کا تابع بناتا ہے۔ پھِر ہوسیع نبی کہتا ہے کہ "افرائیم بتوں سے مل گیا ہے۔ اُسے چھوڑ دو" (ہوسیع 4: 17)۔ بتوں نے اُسے جکڑ لیا تھا اور اُس کی زندگی تباہ کر دی تھی، لیکن خُدا تعالیٰ نصیحت کرتا ہے کہ وہ چھوڑ دیا جائے تا کہ الہٰی محبت اُس سے نبٹے، اور اُسے اِس قابل بنائے کہ وہ سختی، سرکشی اور بندھنوں کو ترک کر کے خُدا تعالیٰ کے تابع ہو جائے۔

میں آپ کے سامنے دو ایسے لوگوں کی مثالیں دینا چاہوں گا جو باغی تھے، لیکن رُوح القدس نے اُن میں کام کیا اور اُنہیں حلیم بنایا:

(الف) پولس: اُس نے اپنے بارے میں لکھا: "اگرچہ میں پہلے کُفر بکنے والا اور ستانے والا اور بےعزت کرنے والا تھا تو بھی مجھ پر رحم ہُوا اِس واسطے کہ میں نے بےایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کئے تھے۔ اور ہمارے خُدا کا فضل اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوع میں ہے بہت زیادہ ہُوا" (1- تیمتھیس 1: 13-16)۔ یوں ایک وحشی شخص تربیت پذیر، اور سرکش شخص فرمانبردار بن گیا، کیونکہ رُوح القدس نے اُس کی تربیت کی اور اُسے اپنی مرضی پر چلنے کے قابل بنایا (نیا عہدنامہ، اعمال 9: 6)۔

(ب) اُنیسمس: یہ ایک بھاگا ہوا غلام تھا جو اپنے مالک فلیمون کی چاندی چُرانے کے بعد وہاں سے بھاگ کر روم کو چلا گیا تھا۔ وہاں اُس نے پولس رسول کی منادی کی وجہ سے اپنا دِل مسیح کےلئے کھولا۔ خُداوند نے اُس کی تربیت کی اور اُس کی زندگی بدل دی۔ پولس رسول نے فلیمون کو خط میں اُس کے بارے میں لکھا "پہلے تو وہ تیرے کچھ کام کا نہ تھا مگر اَب تیرے اور میرے دونوں کے کام کا ہے" (نیا عہدنامہ، فلیمون آیت 11)۔ وہ اپنے مالک کےلئے فائدہ مند بن گیا جس کے ہاں اُس نے پہلے چوری کی تھی، اور وہ پولس کے بھی کام کا بن گیا، اور یہاں تک کہ اُس کے ساتھ مسیح کی خدمت کرنے کے قابل بھی ہو گیا۔

جب پولس نے کلیسیا پر حملہ کیا اور جب اُنیسمس نے اپنے مالک کے ہاں چوری کی تو وہ سرکش، فتنہ انگیز اور ایک تُند و تیز آبشار کی مانند تھے۔ لیکن جب رُوح القدس نے اُنہیں روکا تو وہ اُس آبشار کی مانند بن گئے جسے انجینئر بجلی پیدا کرنے اور لوگوں کے فائدہ کےلئے روشنی فراہم کرنے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ خُدا تعالیٰ سے دُور ہر فرد سرکش اور تباہ کُن ہے، لیکن جب وہ اپنا آپ خُدا تعالیٰ کو سونپ دیتا ہے تو حِلم کا پھل لاتا ہے، اور تباہ کُن ہونے کے بجائے تعمیری بن جاتا ہے، اُکھاڑنے کے بجائے لگاتا ہے، لعنت دینے کے بجائے برکت دیتا ہے، اور تاریکی پیدا کرنے کے بجائے روشنی دیتا ہے۔

(2) ایک حلیم شخص سیکھنے کےلئے اپنا دِل کھولتا ہے

یسوع بارہ برس کی عمر میں سیکھنے کے تعلق سے ایک بہترین مثال ہے۔ اُس کے ماں باپ اُسے ڈھونڈ رہے تھے کہ "اُنہوں نے اُسے ہیکل میں اُستادوں کے بیچ میں بیٹھے اُن کی سُنتے اور اُن سے سوال کرتے ہوئے پایا" (اِنجیل بمطابق لوقا 2: 46)۔ یہاں ہم مسیح کی الوہیت دیکھتے ہیں کہ جب اُس نے یہودی مذہبی راہنماﺅں سے سوال پوچھے تو وہ اُس کی سمجھ اور جوابوں سے دنگ ہو گئے، اِسی طرح ہم اُس کی انسانیت بھی دیکھتے ہیں کہ جب وہ اُن کی بات سُنتا ہے اور حکمت میں بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

مُقدّس یعقوب نے کہا "اُس کلام کو حلیمی سے قبول کرو جو دِل میں بویا گیا اور تمہاری رُوحوں کو نجات دے سکتا ہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 21)۔ ایک حلیم شخص اپنا دِل سیکھنے کےلئے کھولے گا، لیکن احمق شخص ایسا کرنے سے انکار کر دے گا۔ ایک حلیم شخص اسفنج کی مانند ہے جو پانی جذب کر لیتا ہے کیونکہ وہ پوری طرح سے بھرنا چاہتا ہے۔ "جوان اپنی روِش کس طرح پاک رکھے؟ تیرے کلام کے مطابق اُس پر نگاہ رکھنے سے۔ میں پورے دِل سے تیرا طالب ہُوا ہوں، مجھے اپنے فرمان سے بھٹکنے نہ دے۔ میں نے تیرے کلام کو اپنے دِل میں رکھ لیا ہے تا کہ میں تیرے خلاف گناہ نہ کروں۔ اے خُداوند! تُو مبارک ہے۔ مجھے اپنے آئین سکھا۔ میں نے اپنے لبوں سے تیرے فرمودہ احکام کو بیان کیا۔ مجھے تیری شہادتوں کی راہ سے ایسی شادمانی ہوئی جیسی ہر طرح کی دولت سے ہوتی ہے۔ میں تیرے قوانین پر غور کروں گا۔ اور تیری راہوں کا لحاظ رکھوں گا۔ میں تیرے آئین میں مسرور رہوں گا۔ میں تیرے کلام کو نہ بھولوں گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 119: 9-16)۔

رُوح القدس ہمیں سکھاتا ہے کہ کیسے کلام خُدا سے مستفید ہوں، پھِر یسوع کی کہی ہوئی ہر بات کی یاد دہانی کراتا ہے، اور ہماری تمام سچائی تک راہنمائی کرتا ہے (اِنجیل بمطابق یوحنا 16: 13)۔ اِسی لئے، ہم چھوٹے بچوں کے طور پر بائبل مُقدّس کے سامنے بیٹھتے ہوئے مزید سیکھنے کے متمنی ہیں، اپنی آنکھیں اور کان اور دِل کھول کر اُن واقعات کو سُنتے ہیں جو ہمیں خُدا تعالیٰ کے اپنے لوگوں کے ساتھ برتاﺅ کے بارے میں بتاتے ہیں، اور کسی اُکتاہٹ کے بغیر اُن باتوں کو پھِر سے سُننے کےلئے تیار ہوتے ہیں جو پہلے سُن چکے ہیں۔ خُدا تعالیٰ ہماری مدد فرمائے کہ ہم مرتھا کی بہن مریم کو ایک نمونے کے طور پر لے سکیں جس نے یسوع کے قدموں میں بیٹھ کر اُس کی باتیں سُنیں۔ دوسری طرف مرتھا نے اپنا وقت یسوع کےلئے کھانا تیار کرنے اور جسمانی طور پر مہمان نوازی کرنے کےلئے صرف کیا۔ جب مرتھا نے اپنی بہن مریم کی مسیح سے شکایت کی کہ اُس نے اُسے خدمت کرنے کےلئے اکیلا چھوڑ دیا ہے تو مسیح نے جواب دیا: "تُو تو بہت سی چیزوں کی فکر و تردُّد میں ہے۔ لیکن ایک چیز ضرور ہے اور مریم نے وہ اچھا حصہ چُن لیا ہے جو اُس سے چھینا نہ جائے گا" (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 38-42)۔

(3) ایک حلیم شخص کسی معقول وجہ سے غصہ ہوتا ہے

دانائی پر مبنی ایک مثل ہے "نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 15: 1)، اور ایک اَور مثل میں لکھا ہے "تحمل کرنے سے حاکم راضی ہو جاتا ہے اور نرم زُبان ہڈّی کو بھی توڑ ڈالتی ہے" (امثال 25: 15)۔ تاہم، ہمارے پاس یہ رسولی نصیحت بھی ہے کہ "غُصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 26)۔ یہ نصیحت زبور 4: 4 سے لی گئی ہے جہاں لکھا ہے "تھرتھراﺅ اور گناہ نہ کرو۔" سو، ایک غصہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے، اور ایک جائز غصہ ہے جس میں بھلائی، امن اور بہتری کی خاطر تھرتھرانے تک کی بات کی گئی ہے۔ حلیم شخص میں جائز غصہ تو ہو سکتا ہے لیکن وہ نہیں جس سے منع کیا گیا ہے۔

جائز پاک غصہ کےلئے ہماری مثال یسوع مسیح ہے:

مسیح نے دو مرتبہ تاجروں پر غصہ کیا جنہوں نے خُداوند کی ہیکل کو ناپاک کیا تھا اور اُسے تجارت گاہ بنا دیا تھا، اور اِس میں کاہن بھی برابر کے شریک تھے۔ پہلا واقعہ مسیح کی خدمت کے شروع میں پیش آیا اور دوسرا واقعہ آپ کی خدمت کے اختتام پر ہُوا (اِنجیل بمطابق یوحنا 2: 13-22; اِنجیل بمطابق لوقا 19: 45-48)۔ پہلی مرتبہ ہیکل کو صاف کرنے کے موقع پر یسوع نے رسیوں کا ایک کوڑا بنایا اور کہا "اِن کو یہاں سے لے جاﺅ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناﺅ۔" دوسرے واقعے میں آپ نے رسیوں کے کوڑے کا استعمال نہ کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ "لکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر ہو گا مگر تم نے اُس کو ڈاکوﺅں کی کھوہ بنا دیا۔" پہلے واقعے میں لوگوں نے اُس سے ہیکل کو صاف کرنے کے اختیار کے نشان کا تقاضا کیا، اور دوسرے واقعے میں وہ اُسے ہلاک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ہیکل کو صاف کرنے کے پہلے واقعے کے بعد مسیح یروشلیم سے یہودیہ میں چلا گیا، جبکہ دوسرے واقعے میں وہ صلیب پر چڑھایا گیا۔

اِسی طرح مسیح ایک مرتبہ تب غصے ہُوا جب یہودی ایک ایسے شخص کو سامنے لے کر آئے جس کا ہاتھ سوکھا ہُوا تھا، وہ اِس تاک میں تھے کہ اگر مسیح اُسے سبت کے دِن ٹھیک کرتا ہے تو اُس پر الزام لگائیں گے کہ اُس نے سبت کا حکم توڑا ہے۔ تب مسیح نے اُن سے کہا: "سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟" وہ چُپ رہ گئے۔ اِس لئے اُس نے اُن کی سخت دِلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف اُن پر غصہ سے نظر کی اور اُس آدمی سے کہا "اپنا ہاتھ بڑھا"۔ اُس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اُس کا وہ ہاتھ دوسرے ہاتھ کی طرح بالکل دُرست ہو گیا (اِنجیل بمطابق مرقس 3: 1-5)۔

ایک حلیم شخص اپنے کسی مفاد کےلئے غصہ نہیں ہوتا، وہ صرف سچائی کی خاطر غصہ ہوتا ہے۔ اِنجیلی بیانات ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہمیں مثبت اور خُداوند کی خدمت کےلئے سرگرم ہونا چاہئے۔ جہالت پر مبنی غیرت جو مسیح کے رُوح کے خلاف ہے اُس کے برعکس پاک غیرت بھی ہے جو حکمت کے عین مطابق ہے۔ اپنے بچوں کی تادیب کرنا حلیمی کی ایک اَور مثال ہے جس میں جائز غصہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جب ہمارے بچوں میں سے کوئی غلطی کرے تو ہم غصہ کا اظہار کرتے اور اُس غلطی کی سزا دیتے ہیں۔ لیکن ایسا اِس لئے نہیں کیا جاتا کہ ہم اُن سے نفرت کرتے ہیں بلکہ اِس لئے کہ ہم اُن کی مضبوطی اور اِصلاح کے خواہاں ہوتے ہیں۔

ایک نصیحت افروز بات یہ ہے کہ جب آپ غصہ ہوں تو اپنے بچہ کی تادیب نہ کریں کیونکہ جب باپ کو اپنے اعصاب پر قابو نہ ہو گا تو آپ کا بچہ بھی اپنے اعصاب پر قابو نہ پا سکے گا۔ اُس کو سزا دینے سے پہلے آپ کو ٹھنڈا ہو جانا چاہئے۔ والدین کو اِس بات پر اتفاق کرنا چاہئے کہ وہ کیسے اپنے بچے کی تادیب کریں گے۔ اِس لئے جب ایک بچہ غلطی کرے تو والدین کو اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے پُرسکون ہونا چاہئے اور پھِر بچے کو بتانا چاہئے کہ اُس نے کیا غلطی کی ہے اور اُس سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کیسے سزا پانا چاہے گا۔ اور اگر سزا کے دوران بچہ چِلّائے تو والدین کو اُسے اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیار کرنا چاہئے۔ باپ کو اُسے بتانا چاہئے کہ اُسے سزا اِس لئے ملی ہے کہ اُس سے محبت کی جاتی ہے۔ بچہ کو اُس وقت تک پکڑ کر رکھنا چاہئے جب تک کہ وہ پُرسکون نہ ہو جائے تا کہ وہ محسوس کرے کہ اُس سے محبت کی جاتی ہے، اُس کی فکر کی جاتی ہے اور اُسے قبول کیا جاتا ہے، اور اُسے سزا صرف اپنی کی گئی غلطی کی وجہ سے ملی ہے۔ باپ کو اُسے بتانا چاہئے کہ وہ اُس سے تو محبت کرتا ہے لیکن جو غلطی اُس نے کی ہے اُس سے اُسے نفرت ہے۔ ہر ماں باپ جن کی زندگیاں اور جذبات رُوح القدس کے تابع ہیں اِس تربیتی نصیحت پر عمل کر سکتے ہیں۔

غصہ کے جائز ہونے کے تعلق سے میں ایک بار پھِر آپ کو رسولی حکم یاد دِلانا چاہوں گا: "غُصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور اِبلیس کو موقع نہ دو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 26، 27)۔

اہم سوال یہ ہے کہ "کون ہے جو غصہ بھی کرے اور گناہ نہ کرے؟" اِس اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ "ایسا صرف وہ فرد کر سکتا ہے جس نے اپنا آپ مکمل طور پر رُوح القدس کی سرگرمی کےلئے وقف کر دیا ہے اور اپنا آپ اُس کی راہنمائی میں اطاعت کےلئے پیش کر دیا ہے۔"

دُعا

اے حلیم خُداوند، مجھے اپنی نیک مرضی کا تابع بنا اور ہر طرح کی نافرمانی کو مجھ سے دُور کر، تا کہ میں فروتنی اختیار کر وں اور تیرے کلام کو قبول کر سکوں جو میرے دِل میں بویا گیا ہے اور اُس پر عمل کروں۔ بخش کہ تیرے لئے میری سپردگی اور تیرے کلام کےلئے میری محبت بڑھتی جائے۔ اور اگر کبھی میں غصے ہوں تو وہ خودغرضی یا گنہگارانہ طیش کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف تیرے جلال کےلئے ہو۔ بخش کہ سورج ڈوبنے تک میری خفگی نہ رہے اور میں ابلیس کو کوئی موقع نہ دوں۔ آمین

ی- رُوح کا پھل: پرہیزگاری

پرہیزگاری کا مطلب اپنے نفس پر ضابط ہونا، اپنے جذبات کو رُوح القدس کی حکمت کی قدرت کے تابع کرنا ہے۔ فلسفی افلاطون نے کہا "ضبطِ نفس کرنے والا شخص اپنی خواہشوں پر فتح حاصل کرتا اور اپنی رغبتوں کےلئے محبت پر غالب آتا ہے۔" تاہم افلاطون نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ کیسے اپنے آپ پر قابو پایا جائے۔ پولس رسول کے وقتوں میں ستوئیکی فلسفیوں (زِینون کے پیروکاروں) نے اپنی قوتِ ارادی دِکھانے کےلئے اپنے نفس پر ضابط ہونے کی کوشش کی، لیکن اُنہوں نے کہا "جو کچھ ہم چاہتے ہیں جب وہ نہیں کر سکتے، تو جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ کرتے ہیں۔" ستوئیکی فلسفیوں نے نفس پر ضابط ہونے کےلئے خوب شخصی کوششوں اور قوتِ اِرادی کا استعمال کیا، لیکن جب اُن کے اِرادے اُن کی شہوتوں کو قابو میں کرنے میں ناکام ہوئے تو اُنہوں نے جو کچھ وہ کر سکتے تھے اُس پر اکتفا کیا۔

اِس کے برعکس بائبل مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی فطرت بگڑی ہوئی ہے، انسان اپنے گناہوں اور خطاﺅں میں مُردہ ہے، اور وہ اُس وقت تک اچھا پھل نہیں لا سکتا جب تک کہ یسوع اُسے نہ بچائے اور رُوح القدس اُس کی تقدیس نہ کرے اور اُس کی زندگی کا مالک نہ بن جائے ، صرف اِسی طرح ایک فرد پھلدار بنتا ہے۔ مسیح نے فرمایا: "تم نے مجھے نہیں چُنا بلکہ میں نے تمہیں چُن لیا اور تم کو مقرر کیا کہ جا کر پھل لاﺅ اور تمہارا پھل قائم رہے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 15: 16)۔ سو ہم یہ مبارک پھل لاتے ہیں کیونکہ مسیح نے ہمیں چُنا ہے اور ہمیں ہمارے گناہوں کی موت سے جِلایا ہے۔ ہر ایک ایماندار اُس وقت پرہیزگار ہو سکتا ہے جب وہ اپنے اندر رُوح القدس کی سرگرمی کی جانب مثبت ردعمل دِکھاتا ہے، اور رُو ح القدس جو اُس پر راج کرتا ہے اُس کی قدرت کی بدولت اپنے نفس پر غالب آ سکتا ہے۔

لفظ "پرہیز" بائبل مُقدّس میں ایسے پہلوان کے تعلق سے استعمال ہُوا ہے جو انعام جیتنے کےلئے سب باتوں میں اپنے آپ پر قابو پاتا ہے۔ بائبل مُقدّس کہتی ہے "ہر پہلوان سب طرح کا پرہیز کرتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 9: 25)۔

خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہر ایک ایماندار دوڑ میں دوڑنے والے کی مانند ہے، اور اُسے بہت سی باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے جن پر ایک عام شخص توجہ نہیں دے گا۔ اُسے محتاط ہونا پڑے گا کہ وہ کس قسم کی خوراک کھاتا ہے اور کتنی مقدار میں کھاتا ہے، تا کہ اُس کا وزن زیادہ نہ بڑھ جائے۔ متناسب جسم کےلئے اُسے اپنے آرام کے وقتوں کا خیال رکھنا پڑے گا، اور چاک و چوبند رہنے کےلئے اُسے باقاعدگی اور جانفشانی کے ساتھ ورزش کرنی پڑے گی۔ غرض، وہ سب باتوں میں پرہیز کرتا ہے۔

ہر مسیحی ایک مسلسل رُوحانی دوڑ میں شریک ہے، اپنے نشان کی طرف بھاگتا چلا جا رہا ہے، آسمانی انعام پانے کےلئے دوڑا جاتا ہے۔ اِس سبب سے اُسے اپنے نفس پر ضابط ہونا ہے اور رُوح کا پھل پرہیزگاری پیدا کرنا ہے (1- کرنتھیوں 9: 24-27)۔ پطرس رسول نے ایمانداروں کو لکھا "تم اپنی طرف سے کمال کوشش کر کے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت اور معرفت پر پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری اور دینداری پر برادرانہ اُلفت اور برادرانہ اُلفت پر محبت بڑھاﺅ۔ کیونکہ اگر یہ باتیں تم میں موجود ہوں اور زیادہ بھی ہوتی جائیں تو تم کو ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے پہچاننے میں بےکار اور بےپھل نہ ہونے دیں گی" (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 1: 5-8)۔

پولس رسول نے حکم دیا ہے کہ ایک ایماندار کو اپنی شہوت پر غالب آنا اور ضابط ہونا چاہئے (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 7: 9)۔ اُس نے ایمانداروں کی جماعت کو ایک کنواری کے ساتھ تشبیہ دی اور اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک پاکدامن کنواری کی مانند جو ناپاک نہ ہوئی ہو، اپنے شوہر اور نجات دہندہ کے پاس حاضر کی جائے (2- کرنتھیوں 11: 2)۔

کچھ ایسے کام ہیں جن کے تعلق سے ہمیں اپنے آپ پر قابو پانا چاہئے:

(1) گفتگو میں پرہیزگاری

ہم سب کو گفتگو میں اعتدال کی ضرورت ہے۔ ہم ایسا اپنی زُبان کو قابو میں رکھنے سے کر سکتے ہیں۔ ایک پرہیزگار شخص اپنی زُبان سے صرف دوسروں کی تعمیر کرنے والی بات کہے گا، تا کہ اُس سے سُننے والوں پر فضل ہو (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 29)۔

مُقدّس یعقوب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ آدمی بہت سی مخلوقات اور حیوانوں کو قابو کر کے اپنے لئے استعمال کر سکتا ہے، لیکن اپنی زُبان کو قابو میں نہیں کر سکتا۔ زُبان تمام اعضا میں شرارت کا ایک عالم ہے، دائرہ دُنیا کو آگ لگا دیتی ہے اور جہنم کی آگ سے جلتی رہتی ہے۔ یقیناً، ہم اُس وقت اپنی زُبان کو قابو میں نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اور ہماری زُبان رُوح القدس کے قابو میں نہ ہو۔

مُقدّس یعقوب کہتا ہے کہ زُبان اپنے حجم میں بہت چھوٹی ہوتی ہے، لیکن اپنی تاثیر کے اعتبار سے یہ بہت بڑی ہے۔ اُس نے زُبان کو تین چیزوں سے تشبیہ دی ہے: ایک چھوٹی سی لگام جسے ہم ایک بڑے گھوڑے کے مُنہ میں ڈالتے ہیں تا کہ جہاں اُسے لے کر جانا چاہتے ہیں لے کر جا سکیں; ایک چھوٹی سی پتوار جو ایک بہت بڑے جہاز کی سمت کا تعین کرتی ہے; اور تھوڑی سی آگ جس سے بہت بڑے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔ زُبان ایک چھوٹا سا عضو ہے جس کا بہت بڑا اثر ہے۔ اِس کے الفاظ سے تباہی بھی پیدا ہوتی ہے اور یہ برکت کا باعث بھی بنتی ہے۔ "موت اور زندگی زُبان کے قابو میں ہیں" (پرانا عہدنامہ، امثال 18: 21)۔ ایک ہی زُبان سے ہم خُدا باپ کی حمد کرتے ہیں اور اُسی سے آدمیوں کو بددُعا دیتے ہیں جو خُدا کی صورت پر پیدا ہوئے ہیں! کیسے چشمہ کے ایک ہی مُنہ سے میٹھا اور کھاری پانی نکل سکتا ہے؟ کیسے ایک ہی مُنہ سے مبارکباد اور بددُعا نکل سکتی ہے؟ بےشک طبعی عالم میں یہ ایک عجیب سی بات ہے، کیونکہ ایک پھلدار درخت ہمیشہ پھل لاتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک دِن وہ پھل لائے اور اگلے دِن کانٹے۔ ایک ہی چشمہ کے مُنہ سے میٹھا اور کھارا پانی اکھٹے نہیں نکل سکتا! تاہم، ایک شخص کے تعلق سے ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ابھی شیریں الفاظ بولے اور چند منٹ بعد کڑواہٹ بھرے الفاظ کہے!

خاندانی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پطرس رسول پہلے بیویوں سے مخاطب ہوتا ہے اور پھِر شوہروں سے۔ وہ شوہروں سے کہتا ہے کہ گھر میں ہونے والی لڑائیاں اُن کی دُعاﺅں کے جواب کو روک دیتی ہیں۔ پھِر وہ کہتا ہے: "غرض سب کے سب یکدِل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرم دِل اور فروتن بنو۔ بدی کے عِوض بدی نہ کرو، اور گالی کے بدلے گالی نہ دو بلکہ اِس کے برعکس برکت چاہو کیونکہ تم برکت کے وارث ہونے کےلئے بُلائے گئے ہو۔ چنانچہ جو کوئی زندگی سے خوش ہونا اور اچھے دِن دیکھنا چاہے وہ زُبان کو بدی سے اور ہونٹوں کو مکر کی بات کہنے سے باز رکھے۔ بدی سے کنارہ کرے اور نیکی کو عمل میں لائے۔ صلح کا طالب ہو اور اُس کی کوشش میں رہے۔ کیونکہ خُداوند کی نظر راستبازوں کی طرف ہے اور اُس کے کان اُن کی دُعا پر لگے ہیں۔ مگر بدکار خُداوند کی نگاہ میں ہیں" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 3: 7-12)۔

خُدا تعالیٰ ہمیں قابو پائی ہوئی زُبان کی نعمت سے برکت دینا چاہتا ہے، تا کہ ہم لعنت کے جواب میں برکت کے الفاظ ادا کریں، اور خُدا تعالیٰ ہمارے لئے لعنت کو برکت میں بدل دے۔ سلیمان نے کہا: "اپنے مُنہ کی نگہبانی کرنے والا اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے لیکن جو اپنے ہونٹ پسارتا ہے ہلاک ہو گا" (پرانا عہدنامہ، امثال 13: 3)۔ اُس نے یہ بھی کہا: "جو اپنے مُنہ اور اپنی زُبان کی نگہبانی کرتا ہے اپنی جان کو مصیبتوں سے محفوظ رکھتا ہے" (امثال 21: 23)۔

جس کی زُبان اُس کے قابو میں نہیں اُس کا نقصان کس قدر بڑا ہے! اور ایسے لوگوں کو اپنی زُبان کی بُھول چوک کی جو قیمت ادا کرنی ہے وہ کس قدر بڑی ہے! آئیے ہم رسولی حکم پر دھیان دیں: "ہر آدمی سُننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما ہو" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 19)۔ داناﺅں کا قول ہے کہ خدا نے ہمیں کان دو عدد دیئے ہیں اور زُبان ایک عدد، تا کہ بولنے سے دو گنا زیادہ سُنیں۔ اُن کا یہ بھی ایک قول ہے کہ خُدا نے کان جسم سے باہر رکھے ہیں اور زُبان کو دو جبڑوں کے دروازوں کے بیچ میں رکھا ہے، تا کہ آدمی کے پاس بولنے سے پہلے سوچنے کا وقت ہو۔ اِسی لئے زبور نویس کہتا ہے "میں نے کہا میں اپنی راہ کی نگرانی کروں گا تا کہ میری زُبان سے خطا نہ ہو۔ ... جب تک شریر میرے سامنے ہے میں اپنے مُنہ کو لگام دِئے رہوں گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 39: 1)۔ زبور نویس نے دُعا کی: "میرے مُنہ کا کلام اور میرے دِل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔ اے خُداوند! اے میری چٹان اور میرے فدیہ دینے والے!" (زبور 19: 14)۔

(2) کھانے میں پرہیزگاری

جب رُوح القدس ہماری زندگی پر اختیار رکھتا ہے تو وہ ہمیں کھانا تناول کرنے کے دوران بھی ضبط کرنے والا بناتا ہے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ کھاتے ہیں، جبکہ کچھ کے پاس کھانے کو پوری طرح سے نہیں ہوتا۔ جو اپنے جسم کی ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں، وہ بعدازاں وزن کم کرنے کی کوشش میں اپنی دولت خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جو رُوح القدس کے اختیار میں زندگی بسر کرتا ہے زندہ رہنے کےلئے کھاتا ہے، اور اپنے جسم کا خیال رکھتا ہے کیونکہ یہ خُداوند کا پاک مَقدِس ہے۔ ایسا فرد صرف کھانے کےلئے اور اپنے جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے نہیں کھاتا۔

امام الحکما سلیمان نے نصیحت کی ہے کہ ایک فرد کو کھانے کے دوران ضبطِ نفس اور اعتدال کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اُس نے کہا "اگر تُو کھاﺅ ہے تو اپنے گلے پر چُھری رکھ دے۔ ... کیا تُو نے شہد پایا؟ تُو اتنا کھا جتنا تیرے لئے کافی ہے مبادا تُو زیادہ کھا جائے اور اُگل ڈالے" (پرانا عہدنامہ، امثال 23: 2 ; 25: 16)۔ مسیح نے بھی اپنے شاگردوں سے اعتدال پسندی کا تقاضا کیا ہے اور اُنہیں اُن چیزوں سے متنبہ کیا ہے جو اُنہیں اُس کی دوبارہ آمد کی تیاری سے روکتی ہیں، جن میں دُنیا، عیش و عشرت اور جسمانی خوشیوں کےلئے محبت اور اِس زندگی کے معاملات میں کھوئے رہنا شامل ہے۔ آپ نے فرمایا: "پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دِل خُمار اور نشہ بازی اور اِس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دِن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے" (اِنجیل بمطابق لوقا 21: 34)۔

میں کھانے کے تعلق سے پرہیز کی بابت دو مثالیں پیش کرتا ہوں:

(الف) ریکابی: یہ یُوناداب بن ریکاب کی اولاد تھے۔ اُنہوں نے اپنے باپ کے ساتھ عہد باندھا کہ وہ مے نہیں پیئیں گے اور گھر نہیں بنائیں گے اور اپنے اُس عہد پر قائم رہے۔ خُدا تعالیٰ نے یرمیاہ نبی کو حکم دیا کہ وہ اُن کی اپنے باپ کے حکم کے ساتھ وفاداری کو جانچنے کےلئے اُنہیں ہیکل کی ایک کوٹھری میں بلائے اور اُن کے آگے پینے کےلئے مے رکھے۔ اگرچہ نبی نے اُن کے آگے یہ پیشکش رکھی، مگر اُنہوں نے انکار کر دیا اور اپنے آباﺅاجداد کے ساتھ کئے گئے عہد پر قائم رہے۔ خُدا تعالیٰ نے نبی کو بتایا کہ بنی اسرائیل کی خُداوند کے ساتھ کئے گئے عہد میں وفاداری کی نسبت ریکابیوں کی اپنے باپ کے ساتھ کئے گئے عہد کی وفاداری زیادہ تھی (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 35 باب)۔ اُنہوں نے مے پینے کی پیشکش کے جواب میں ضبط کا مظاہرہ کیا۔

(ب) دانی ایل: اُسے اسیر کر کے بابل میں بادشاہ کے محل میں لے جایا گیا۔ اُسے وہ خوراک کھانے پر مجبور کیا گیا جسے کھانا اُس کا ضمیر گوارا نہیں کر سکتا تھا، اور پینے کےلئے وہ چیزیں دی گئیں جن کی موسوی شریعت میں ممانعت تھی۔ اگر دانی ایل اُن چیزوں کو کھانا پینا چاہتا تو اُسے کوئی قائل کرنے والی معذرت مل جاتی۔ "لیکن دانی ایل نے اپنے دِل میں ارادہ کیا کہ اپنے آپ کو شاہی خوراک سے اور اُس کی مے سے جو وہ پیتا تھا ناپاک نہ کرے" (پرانا عہدنامہ، دانی ایل 1: 8)۔ دانی ایل نے خُدا تعالیٰ کی عزت کی، اور خُدا تعالیٰ نے بھی اُسے سرفرازی بخشی۔ ہمیں اپنی زندگی میں رُوح کے اِس پھل پرہیزگاری کی اشد ضرورت ہے۔ تب ہم خطا کرنے سے دُور رہیں گے اور اپنے آپ پر پوری طرح سے قابو پا سکیں گے۔

(3) دوسروں کے ساتھ برتاﺅ میں پرہیزگاری

بائبل مُقدّس ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے سب معاملات میں اعتدال کا مظاہرہ کریں اور جب غصہ ہوں تو اپنے آپ میں قابو رکھیں۔ سلیمان نے کہا "جو قہر کرنے میں دھیما ہے پہلوان سے بہتر ہے اور وہ جو اپنی رُوح پر ضابط ہے اُس سے جو شہر کو لے لیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 16: 32)۔ ایک فوجی راہنما ایک شہر پر حملہ کر سکتا ہے، اپنے دُشمنوں پر غالب آ سکتا ہے اور شہر پر قبضہ کر سکتا ہے۔ لیکن جب تک وہ اپنے نفس پر قابو نہ پائے اور اپنے غصہ اور مزاج پر غالب نہ آئے تب تک وہ شہر کو مسخر کرنے کے باوجود گھاٹے میں ہو گا۔

سلیمان نے یہ بھی کہا "جو اپنے نفس پر ضابط نہیں وہ بےفصیل اور مسمارشُدہ شہر کی مانند ہے" (امثال 25: 28)۔ اگر آپ کو اپنے نفس پر قابو نہیں تو آپ بغیر دیواروں کے منہدم شہر کی مانند ہیں جو کسی بھی وقت حملہ کی زد میں ہوتا ہے، اور محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے بغیر کسی مزاحمت کے شکست کھا جاتا ہے۔

رُوح القدس کے اختیار میں رہنے والے سب لوگ جنسی امور میں بھی پرہیزگار ہوتے ہیں۔ رسول نے حکم دیا "بیاہ کرنا سب میں عزت کی بات سمجھی جائے اور بستر بےداغ رہے کیونکہ خُدا حرامکاروں اور زانیوں کی عدالت کرے گا" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 4)۔ ایسا کرنا مشکل صورتحال میں بھی ممکن ہے۔ یُوسُف مصری جلَوداروں کے سردار فوطیفار کے گھر میں ایک غلام تھا، اور فوطیفار کی بیوی نے اُس کے ساتھ ہمبستری کرنا چاہی۔ لیکن یُوسُف نے اُس سے کہا "دیکھ میرے آقا کو خبر بھی نہیں کہ اِس گھر میں میرے پاس کیا کیا ہے اور اُس نے اپنا سب کچھ میرے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔ اِس گھر میں مجھ سے بڑا کوئی نہیں اور اُس نے تیرے سِوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تُو اُس کی بیوی ہے سو بھلا میں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خُدا کا گنہگار بنوں؟" (توریت شریف، پیدایش 39: 8، 9)۔ یُوسُف تو محض ایک قیدی اور غلام تھا، اگر وہ گناہ کرنا چاہتا تو اُسے اپنے ضمیر کو سُلانے اور عُذر پیش کرنے کی کافی وجوہات مل سکتی تھی۔ لیکن اُس کے اندر رُوح القدس کے کام نے اُسے گناہ کرنے سے باز رکھا۔

رُوح القدس کا پولس رسول کے کاموں پر تصرُّف نظر آتا ہے۔ جب وہ یہودی ہیکل کو ناپاک کرنے کے الزام میں فیلکس حاکم کے سامنے کھڑا تھا تو اُس نے اپنا دِفاع کیا اور حاکم کو راستبازی، پرہیزگاری اور آیندہ عدالت کے بارے میں بتایا جس سے فیلکس دہشت زدہ ہو گیا۔ وہ حاکم کے سامنے زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کے طور پر کھڑا تھا، لیکن اُس کی زنجیریں صرف اُسے باہر سے ہی جکڑ سکی تھیں۔ اپنے باطن میں وہ آزاد تھا کیونکہ خُدا کی سچائی سے واقف تھا، اور اِس سچائی نے اُسے آزاد کر دیا تھا (اِنجیل بمطابق یوحنا 8: 32)۔ فیلکس جس نے پولس کی عدالت کی، اُس کے ساتھ اُس کی یہودی بیوی درُوسِلّہ تھی، جسے اُس نے اپنی جانب راغب کر کے اُسے اُس کے قانونی شوہر سے لے لیا تھا۔ فیلکس شہوت، ظلم اور رشوت کا غلام تھا۔ اِس لئے وہ حاکم، پولس قیدی سے خوفزدہ ہو گیا۔ مگر قیدی کے قدم نہ ڈگمگائے۔ حاکم نے پولس کو قید میں رہنے دیا کیونکہ اُسے اُس سے کچھ روپے ملنے کی اُمید تھی، باوجود کہ اُس کے پاس پہلے ہی بہت کچھ تھا۔ حاکم مال و دولت کے اعتبار سے امیر تھا، مگر باطن کے لحاظ سے غریب تھا۔ فیلکس کو اپنے اوپر قابو نہ پانے کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا، اور پولس رسول الٰہی جلال میں ہمیشہ رہے گا کیونکہ اُس نے پہچان لیا تھا کہ پرہیزگاری رُوح کا پھل ہے (نیا عہدنامہ، اعمال 24: 24-26)۔

رُوح القدس نئے سرے سے پیدا ہونے والے ہر ایماندار میں بستا ہے، لیکن نئے سرے سے پیدا ہونے والا ہر ایماندار رُوح سے معمور نہیں ہوتا۔ اِس لئے، ایماندار رُوح کا پھل لانے کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، کچھ تیس گُنا پھل لاتے ہیں،کچھ ساٹھ گُنا پھل لاتے ہیں، اور کچھ سو گُنا پھل لاتے ہیں (اِنجیل بمطابق متی 13: 23)۔ جب خُدا تعالیٰ کےلئے ہماری سپردگی کم ہو جاتی ہے اور اُس کےلئے ہماری محبت نیم گرم ہو جاتی ہے تو ہمارا رُوحانی پھل بھی کم ہو جاتا ہے۔ لیکن آسمانی باپ ہمیشہ ہمیں دیکھتا ہے، ہمیں نصیحت کرتا ہے، اپنا کلام یاد دِلاتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ ہم رُوح کا نو پہلوﺅں والا پھل لائیں۔

دُعا

اے خُداوند، بخش کہ تیرے رُوح القدس کی قدرت سے میرے جذبات میری عقل کے تابع ہوں جو تیرے کلام اور تیرے رُوح القدس کی راہنمائی سے منور ہے۔ اے خُداوند تیرے بغیر میں اپنے غصہ کو روک نہیں سکتا اور نہ ہی اپنے احساسات کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ مجھے مسیح کی عقل عطا فرما، اور میرے دِل، زُبان اور جسم کو اپنے قابو میں کر کہ ہمیشہ تیری مرضی پر عمل کریں۔ آمین

سوالات

کتاب "رُوح القدس کا پھل" کے سوالات کے جوابات تحریر کیجئے۔

اگر آپ نے اِس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. مسیحیت کو "طریق" کیوں کہا گیا؟

  2. رُوحانی جہالت کیا ہے؟

  3. "دِل کی سختی" کا کیا مطلب ہے؟

  4. پرانی انسانیت کو اُتارنے کا کیا مطلب ہے؟

  5. عقل کا نیا بننا کیا ہے؟

  6. جھوٹ بولنے کے نقصانات کیا ہیں؟

  7. آپ گناہ کئے بغیر کیسے غصہ کر سکتے ہیں؟

  8. ایک چور چوری کرنے سے کیسے باز آ سکتا ہے اور کس وجہ سے دوسروں کی مدد کرنے کےلئے اچھے کام کر سکتا ہے؟

  9. رُوح القدس کے پانچ مختلف نام بائبل مُقدّس کے حوالہ جات کے ساتھ درج کریں۔

  10. ثابت کیجئے کہ رُوح القدس، باپ اور بیٹے کے ساتھ مساوی الہٰی شخصیت ہے۔

  11. رُوح اور ہوا کے مابین کیا یکسانیت موجود ہے؟

  12. رُوح القدس کیسے نئی پیدایش عطا کرتا ہے؟

  13. اعمال 2: 38 لکھئے اور اِس کی وضاحت کریں۔

  14. آپ کی زندگی کی وہ کون سی چابیاں ہیں جو آپ کو خُدا تعالیٰ کے سپرد کر دینی چاہئیں؟

  15. رُوح القدس سے معمور ہونے کی دو لازمی شرائط کون سی ہیں؟ بائبل مُقدّس میں سے حوالہ جات بھی بتائیں۔

  16. کون سا حکم سب سے بڑا ہے؟ حوالہ دیجئے اور واضح کریں کہ ایسا کیوں ہے۔

  17. خُدا تعالیٰ کو اپنی محبت دِکھانے کے تین طریقے کون سے ہیں؟

  18. آپ غریب شخص پر محبت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟

  19. آپ اپنے دُشمن کےلئے محبت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟

  20. رُوح القدس آپ میں آپ کے خاندان کےلئے کیسے محبت پیدا کرتا ہے؟

  21. پولس اور سیلاس قیدخانے میں کیسے حمد کے گیت گا سکے؟

  22. حبقّوق 3: 17، 18 لکھیں اور اِن دو آیات کی وضاحت کریں۔

  23. لوقا 10: 20 کے مطابق خوشی کرنے کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ ہم یہ خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

  24. زبور 125: 5، 6 لکھیں، اور اِن دو آیات میں خوشی کی وجوہات کی وضاحت کریں۔

  25. زندگی کے سمندر میں ہماری زندگی ایک کشتی کی مانند ہے۔ اِس کو درپیش تین خطرات کون سے ہیں؟ آپ اُن سے کیسے بچتے ہیں؟

  26. اِس بیان کی وضاحت کریں: "اگر تحمل کا پھل لوگوں پر اثر ڈالے تو ہماری دُنیا فردوس بن جائے۔"

  27. گنہگاروں کےلئے خُدا تعالیٰ کی مہربانی کیسے ظاہر ہوئی؟ ہم اِس کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟

  28. پیدایش 32: 9-12 کے مطابق کیسے خُدا تعالیٰ نے اپنے مہربانی یعقوب پر ظاہر کی؟

  29. نیکی عملی طور پر محبت کا نام ہے۔ آپ اپنی زندگی میں کیسے نیکی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟

  30. ایمان کے تین معانی ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ ہر ایک کےلئے کوئی مثال بیان کریں؟

  31. حلم کے تین معانی ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ ہر ایک کےلئے کوئی مثال بیان کریں؟

  32. آپ گفتگو میں میانہ روی کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں؟

  33. آپ کھانے میں اعتدال سے کیسے کام لے سکتے ہیں؟

  34. ریکابی کون تھے؟ اُن کی بڑی خوبی کا بیان کریں۔

  35. امثال 25: 28 درج کریں، اور اِس کے معنٰی کی وضاحت کریں۔


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany