اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصّہ 7، مسیح کی موت اور جلالی قیامت

سیرت المسیح، حصّہ 7، مسیح کی موت اور جلالی قیامت

جارج فورڈ

2023


1- باغِ گتسمنی سے مسیح کی گرفتاری

"اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا، یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ مَیں وہاں جا کر دُعا کروں۔ اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بیقرار ہونے لگا۔ اُس وقت اُس نے اُن سے کہا، میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 36۔ 38)

کسی بھی آگے بڑھنے والی شے کا جس کے عقب میں روشنی چمکتی ہو، سایہ آگے پڑتا ہے۔ اِسی طرح، قریب آنے والی صلیب کا، جس کے نتیجہ میں نجات کی روشنی چمکنے کو تھی، واقعتاً ایک گہرا سایہ ظاہر ہُوا؛ یہوداہ اِسکریوتی جب بالا خانہ سے نکلا تو رات تھی -- جو درحقیقت ایک تاریک ترین رات تھی۔ یہوداہ کے جانے کے بعد مسیح نے "عشائے ربّانی" کو مقرر کیا اور اُس کی مناسبت سے باتیں کیں۔ پھر آپ نے شاگردوں کے سامنے ایک جامع وعظ پیش کیا، جس کے بعد آپ کی سردار کاہن کے طور پر دُعا ہے۔ جب آپ کی دُعا ختم ہوئی تو یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا، اور تب شہر میں آپ کی موت کے مخالفانہ منصوبے باندھے جا رہے تھے۔ لیکن خُداوند یسوع مسیح اِس خوفناک گھڑی میں جو کچھ واقع ہونے کو تھا، اُس کی تیاری کےلئے باپ کے ساتھ دُعا میں وقت گزارنے کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔

مسیح اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ بالا خانہ سے رخصت ہوئے۔ اُن سب نے رات کی تاریکی میں تنگ گلیوں میں سے ہوتے ہوئے خاموشی سے اپنا راستہ بنایا، اور پھر چاند کی روشنی میں قِدرون کی وادی عبور کرتے ہوئے مشرق کی طرف کوہِ زیتون کے دامن میں ایک باغ کی طرف بڑھے۔ یہ باغ مسیح کے دوستوں میں سے ایک کا تھا جو گتسمنی نامی علاقے میں تھا جس کا مطلب ہے "تیل کا کولہو۔" روایت ہے کہ اِس باغ میں زیتون کے درخت تھے، اور ممکن ہے کہ مسیح نے گھنے درختوں والی اِس جگہ کو اِس لئے چنا کہ یہ اکیلے میں دُعا کرنے کےلئے مناسب جگہ تھی۔

مسیح نے باغ میں داخل ہونے کے بعد اپنے آٹھ شاگردوں کو وہاں بٹھایا، اور اُنہیں نصیحت کی کہ وہ دُعا کریں تا ایسا نہ ہو کہ وہ جلد آنے والی آزمایش کا شکار ہو جائیں۔ پھر آپ اپنے تین قریبی شاگردوں پطرس، یعقوب اور یوحنّا کے ساتھ باغ میں مزید آگے گئے۔ یہ تینوں شاگرد آپ کے ساتھ تبدیلی صورت کے پہاڑ پر بھی گئے تھے جہاں اُنہوں نے آپ کی الٰہی ابنیّت کا حقیقی جلال دیکھا تھا۔ وہاں آپ خوشی اور شوکت کی حالت میں تھے۔ تاہم، اب اُنہوں نے مسیح کو گہرے دُکھ میں جانکنی کی حالت میں دیکھا۔ لیکن زیتون کے پہاڑ کے قریب یہ نیا منظر ضروری تھا تا کہ وہ مسیح کی حقیقی انسانیت کو سمجھ سکیں۔ تبدیلی صورت کے واقعہ میں مسیح نے اپنی عظمت کی تابانی کو ویسے ظاہر کیا جیسے اُفق پر سورج کی چمک ہوتی ہے۔ لیکن گتسمنی میں آپ نے اپنے دُکھوں اور تذلیل کے آغاز کو ظاہر کیا۔ آپ کی تابانی کا سورج ایسے تاریک ہو گیا جیسے گرہن لگتا ہے، لیکن یہ مدھم ہونا گذشتہ شان سے کم حیرت انگیز نہیں تھا، کیونکہ یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہوئے تھے۔

مسیح نے شیطان کے ساتھ اپنی آخری جنگ، اپنے باپ کے ساتھ اپنی گہری ملاقات اور اُس کی مرضی کےلئے مکمل سپردگی کی خاطر مکمل تنہائی کا انتخاب کیا۔ یہ ماجرا ہمارے لئے حیرانی کا باعث ہے کہ مسیح، جو ایک گھنٹہ پہلے وعظ اور دعا کرتے ہوئے خوشی سے بھرا ہُوا تھا، اَب کہہ رہا تھا، "میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔" اِس بیان کی وجہ یہ تھی کہ وہ گھڑی آن پہنچی تھی جس کےلئے جناب مسیح آسمان سے تشریف لائے تھے۔ آپ نے اپنے تین ساتھیوں سے کہا کہ وہ آپ کے ساتھ جاگتے رہیں۔ آپ کوئی پتھر کا ٹپّہ آگے بڑھے اور گھٹنے ٹیک کر دُعا کرنی شروع کی۔ آپ کی یہ درخواست کس قدر حلیمی، خوبصورتی اور کرم سے پُر نظر آتی ہے کہ "تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔"

مسیح کا گتسمنی میں دُعا کرنا

"پھر ذرا آگے بڑھا اور مُنہ کے بل گر کر یُوں دُعا کی کہ اَے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پِیالہ مُجھ سے ٹل جائے۔ تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہُوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔ پھر شاگردوں کے پاس آ کر اُن کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا، کیا تُم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے؟ جاگو اور دُعا کرو تا کہ آزمایش میں نہ پڑو۔ رُوح تو مُستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔ پھر دوبارہ اُس نے جا کر یُوں دُعا کی کہ اَے میرے باپ! اگر یہ میرے پِئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پُوری ہو۔ اور آ کر اُنہیں پھر سوتے پایا کیونکہ اُن کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں۔ اور اُن کو چھوڑ کر پھر چلا گیا اور پھر وُہی بات کہہ کر تیسری بار دُعا کی۔ تب شاگردوں کے پاس آ کر اُن سے کہا اب سوتے رہو اور آرام کرو۔ دیکھو وقت آ پُہنچا ہے اور اِبنِ آدم گُنہگاروں کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ اُٹھو چلیں۔ دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پُہنچا ہے۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 39۔ 46)

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح جو آسمانی فاتح، خُدا کا اکلوتا بیٹا اور اُس کے ساتھ باہم مساوی ہے، اُس گھڑی سے بہت غمگین ہُوا جب اُس کے باپ کا چہرہ اُس سے پوشیدہ ہونے کو تھا۔ جب ہم یہ اِدراک کر لیں کہ مسیح کی کفارہ بخش موت تمام بنی نوع اِنسان کے گناہ کو اُٹھانے کےلئے تھی تو ہمیں مسیح کی بےچینی سمجھ میں آتی ہے۔ آپ اِس واقعے کو پُرسکون انداز میں برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اِسی وجہ سے مسیح نے جانکنی کی حالت میں اِلتجا کی کہ اگر ممکن ہو تو یہ گھڑی ٹل جائے۔ کاش کہ اِن ناقابل بیان مصائب کو برداشت کئے بغیر باپ کے پاس دُنیا کو بچانے کا کوئی اَور ذریعہ ہو۔ تین بار مسیح نے باپ سے درخواست کی کہ وہ آپ کو اُس گھڑی سے بچا لے۔ آپ ایک کشمکش کا سامنا کر رہے تھے، جانکنی میں دُعا کر رہے تھے، یہاں تک کہ آپ کا پسینہ خون کے قطروں کی طرح زمین پر گر پڑا۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے ایک لمحے کےلئے بھی اپنے باپ کی ناراضگی کا متحمل ہونے سے اِنکار کر دیا۔

جناب مسیح جانتے تھے کہ شیطان نہ صرف آپ پر بلکہ آپ کے شاگردوں پر بھی حملہ کر رہا تھا۔ اِن شرارت سے پُر حملوں کا مقصد مسیح کو صلیب پر نجات کے کام کو ترک کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔ لہٰذا، مسیح نے اپنے شاگردوں کو شیطان کے خلاف خبردار کیا، اور آپ نے اُن سے کہا کہ وہ جاگیں اور آپ کےلئے اور اپنے لئے دُعا کریں۔ شاید کوئی سوچے کہ ایسے وقت میں اُن کےلئے سُستی کا مظاہرہ کرنا ناممکن تھا۔ لیکن وہ فوراً ہی سو گئے، جیسا کہ اُنہوں نے تبدیلی صورت کے پہاڑ پر بھی کیا تھا۔

جب شاگرد سو رہے تھے، مسیح نے دُعا میں جُھک کر اپنے باپ کے ساتھ بات کی۔ آپ نے نہ صرف اپنی آنے والی آزمایش کے ٹل جانے کی بات کی، بلکہ مزید کہا، "... تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہُوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔" آپ یہ دُعا کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کے پاس واپس آئے۔ اُنہیں جگانے کے بعد، آپ نے پطرس سے شروع کرتے ہوئے نرمی سے اُنہیں ڈانٹا۔ آپ اُن کی سُستی پر افسُردہ ہوئے اور آپ نے اُن کے جسم کی کمزوری کی طرف اشارہ کیا۔

اِس کے بعد آپ نے مزید شِدّت سے دُعا کی۔ کچھ دیر بعد، آپ نے دیکھا کہ تینوں شاگِرد گہری نیند میں جواب دینے سے قاصر تھے۔ پھر آپ نے تیسری بار جا کر دُعا کی، اور وہی الفاظ استعمال کئے جو آپ نے پہلے دُعا میں کئے تھے۔ باپ کی طرف سے مسیح کی سب باتوں کا جواب نہ دینے سے ہم مسیح کےلئے اِس کٹھن گھڑی کو برداشت کرنے کی ضرورت کو دیکھ سکتے ہیں۔ خُدا اپنی لامحدود محبّت میں عموماً اپنے بیٹے کو ایسی اذیتیں برداشت کرنے کےلئے نہ چھوڑتا، جب تک کہ یہ بالکل ناگزیر نہ ہوتا۔ باپ جس نے گناہ میں گرے ہوئے بنی نوع انسان سے محبّت کی، اپنے اِکلوتے بیٹے ہی کو دریغ نہ کیا، بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 32)۔

جب مسیح نے اُن تینوں کو تیسری بار جگایا تو آپ نے اُنہیں بتایا کہ اُس وقت جاگنے اور دُعا کرنے کا موقع ہاتھ سے گیا۔ اب اُن کے جاگنے یا سونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ آپ کا وقت آ پہنچا تھا۔ اگرچہ جن سے مسیح کو محبّت تھی وہ سو چکے تھے، مگر غدار یہوداہ جاگ رہا تھا۔ اُسے جاگتے رہنے کےلئے کِسی کی تاکید کی ضرورت نہ تھی۔ گو یسوع نے اُسے راستبازی اور نجات کے اعتبار سے سکھانے کی کافی کوشش کی تھی، آپ نے پھر اُس شخص کےلئے اپنی فکرمندی کا اِظہار کیا جو چاندی کے تیس روپیوں کے عِوض اپنے آپ کو اور اپنے مالک کو دھوکہ دینے کو تھا۔

اِس سے پہلے کہ جناب مسیح باغ کے مدخل پر اپنے جسم کو اپنے دُشمنوں کے حوالہ کرتے آپ نے اُس باغ میں اپنے آپ کو باپ کی سپردگی میں دے دیا۔ اُس لمحہ میں نجات بنیادی طور پر مکمل ہو گئی۔ مصلوبیّت اور آپ کے جسمانی دُکھ، گتسمنی میں اِس بنیادی مکمل شدہ کام کا صرف عملی قدم تھے۔

"وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ یہوداہ جو اُن بارہ میں سے ایک تھا آیا اور اُس کے ساتھ ایک بڑی بِھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لئے سردار کاہنوں اور قَوم کے بزرگوں کی طرف سے آ پُہنچی۔ اور اُس کے پکڑوانے والے نے اُن کو یہ نشان دیا تھا کہ جِس کا مَیں بوسہ لوں وُہی ہے۔ اُسے پکڑ لینا۔ اور فوراً اُس نے یسوع کے پاس آ کر کہا اَے ربّی سلام! اور اُس کے بوسے لئے۔ یسوع نے اُس سے کہا میاں! جِس کام کو آیا ہے وہ کر لے۔ اِس پر اُنہوں نے پاس آ کر یسوع پر ہاتھ ڈالا اور اُسے پکڑ لیا۔ اور دیکھو یسوع کے ساتھیوں میں سے ایک نے ہاتھ بڑھا کر اپنی تلوار کھینچی اور سردار کاہِن کے نوکر پر چلا کر اُس کا کان اُڑا دیا۔ یسوع نے اُس سے کہا اپنی تلوار کو مِیان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔ کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے منّت کر سکتا ہُوں اور وہ فرِشتوں کے بارہ تُمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟ مگر وہ نوِشتے کہ یُونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے؟" (اِنجیل بمطابق متی 26: 47۔ 54)

جب فسح کے کھانے کے بعد باقی سب سو رہے تھے، یہوداہ، یہودی راہنماؤں کے ساتھ اپنے بنیادی منصوبہ کی حتمی تفصیلات طے کر رہا تھا۔ یہ تاریخ کی گواہی ہے کہ "اِس جہان کے فرزند اپنے ہم جنسوں کے ساتھ معاملات میں نُور کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیار ہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 16: 8)۔ کیا دُنیا میں بدی کی قوتوں کی سرگرمی کے تناظر میں بھلائی کی قوتوں کےلئے دُگنا خبردار ہونے کےلئے دعوت فکر و عمل نہیں ہے؟

مسیح اور اُس کے شاگرد باغ میں تھے۔ اِسکریوتی نے مسیح اور دیگر شاگردوں کو بالاخانہ میں چھوڑ دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُن کے پاس صرف دو تلواریں تھیں اور اُس وقت جب زیادہ تر لوگ سو رہے ہوں گے تو اُنہیں کوئی تحفظ نہیں ملے گا۔ اُس نے مسیح کی گرفتاری میں شامل یہودی منصوبہ سازوں کو یقین دلایا کہ مسیح اُن سے بچنے کےلئے اپنی معجزاتی طاقت کا استعمال نہیں کرے گا، کیونکہ اُس نے بارہا کہا تھا کہ وہ بزرگوں، سردار کاہنوں اور فقیہوں کے ہاتھوں بہت سی تکلیفیں اٹھائے گا اور اُن کے ہاتھوں مارا جائے گا۔

یہوداہ جب بالاخانہ میں تھا تو اُس نے مسیح کی گرفتاری میں کسی قسم کی پیچیدگی کا امکان نہ دیکھا۔ یوں اُس نے دیکھا کہ وہ لوگوں کے بیدار ہونے سے پہلے، مسیح کو صبح سویرے رومی حکام کے حوالے کر سکتا تھا۔ تاہم، خُداوند یسوع بالاخانہ میں نہ تھے، اِس لئے یہوداہ نے سوچا کہ وہ اور اُس کے ساتھی غالباً اُسے گتسمنی کے باغ میں پا لیں گے۔ اُس نے کچھ اَور آدمیوں کو ساتھ لیا اور اُنہوں نے شہر سے باہر اپنے برے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے اپنے آپ کو تیار کیا۔

ہم جانتے ہیں کہ باغ میں پہنچنے والے گروہ میں یہوداہ، ہیکل کے رومی محافظ جو یہودی پیشواؤں کو دستیاب تھے، سردار کاہن کے خادم، فقیہ اور فریسی اور یہودیوں کے بزرگ شامل تھے۔ وہ ایک بڑا گروہ تھا اور بلاشبہ اُن کے پاس اپنی تلواروں اور لاٹھیوں کے علاوہ مشعلیں، چراغ اور دیگر ہتھیار تھے۔ سپاہیوں کو اندھیرے میں غلط شخص کو پکڑنے سے روکنے کےلئے یہ طے پایا تھا کہ یہوداہ اُنہیں ایک واضح نشان دے گا: "جِس کا مَیں بوسہ لوں وُہی ہے۔ اُسے پکڑ لینا۔"

یہوداہ، مسیح کو سلام کرنے کےلئے آگے بڑھا اور کہا، "اَے ربّی سلام،" اور اُس کا بوسہ لیا جیسے کہ وہ گہرے ترین دوست ہوں۔ یسوع نے اِس امّید پر کہ وہ اُسے اُس کے دِل کے بگاڑ سے بچا سکے گا، اُس سے پوچھا، "اَے یہوداہ، کیا تُو بوسہ لے کر ابنِ آدم کو پکڑواتا ہے؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 48)۔ مسیح کے اِن الفاظ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بدترین گنہگار کےلئے بھی امّید ہے، کیونکہ نجات دہندہ اُس کی بہت سی برائیوں کے باوجود، اُسے بچانے کی کوشش ترک نہیں کرے گا۔ یہاں رُوحیں جیتنے والوں کےلئے بھی حوصلہ افزائی ہے کہ وہ کھوئی ہوئی رُوحوں کو بچانے کی کوششوں میں آخر تک قائم رہیں، چاہے ایسے لوگ گناہ میں کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہو گئے ہوں۔

یوں لگتا ہے کہ یہوداہ اور کچھ یہودی راہنما باغ میں داخل ہوئے، جبکہ باقی لوگ مزید ہدایات کے انتظار میں باہر ہی ٹھہرے رہے۔ جب یہوداہ نے یسوع کو سلام کیا تو آپ نے مسلح ہجوم دیکھا۔ آپ کی پہلی فکرمندی اپنے شاگردوں کو نقصان سے بچانا تھی۔ آپ نے اُن افراد سے پوچھا کہ وہ کسے ڈھونڈتے ہیں، اور پھر آپ نے اُنہیں اپنے بارے میں بتایا۔ یہ سُنتے ہی وہ پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 6)، یہ مسیح کی شخصیت کی قدرت تھی۔ اُن پر واضح تھا کہ وہ آپ کی رضامندی کے بغیر آپ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے۔ وہ اُٹھے تو آپ نے اُن سے وہی سوال پوچھا، مگر وہ پھر بھی سامنے نہ آ سکے۔ آپ نے اُن سے کہا کہ اگر وہ اُسے ڈھونڈتے ہیں تو اُس کے شاگردوں کو جانے دیں (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 7، 8)۔ جب مسیح نے ایسا کہا تو حُکم دینے والے آپ تھے اور پکڑنے والوں نے آپ کی بات مانی۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب مخالف ہجوم پر مسیح کا رعب چھا گیا، اور آپ نے اپنے خلاف اُن کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔ لیکن یہ واقعہ باقی سب واقعات سے بڑا اور عجیب تھا۔ مسیح نے اپنے جاگنے، دُعا کرنے، اور باپ کی مکمل تابع فرمانی سے بڑی قوت و ہیبت حاصل کی۔ جب مسیح کے دشمنوں کا سامنا آپ کی ہیبت سے ہُوا تو اُن کی بزدلی عیاں ہو گئی، کیونکہ اُن کے ضمیر اُن کے خلاف گواہی دے رہے تھے۔

جب مسیح نے اپنے دُشمنوں سے کہا کہ وہ آپ کے شاگردوں کو چھوڑ دیں تو شاگرد بھاگے نہیں۔ اُنہوں نے مسیح کا انکار نہ کرنے، اور ضرورت کے وقت قید ہونے اور مرنے کا اپنا وعدہ یاد رکھا۔ اُس شام کو پہلے، مسیح نے اُن سے کہا تھا کہ اگر اُن کے پاس تلوار نہیں ہے تو وہ اپنی پوشاک بیچ کر ایک تلوار خرید لیں۔ جب اُنہوں نے جواب دیا کہ اُن کے پاس دو تلواریں ہیں، تو آپ نے اُن سے کہا کہ بہت ہیں (لوقا 22: 36۔ 38)۔ اِس نے اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ طاقت سے مسیح کا دفاع کریں۔ چنانچہ جب اُنہوں نے دیکھا کہ پکڑنے والوں نے مسیح کو پکڑ کر اُس کے ہاتھ پُشت پر باندھ دیئے ہیں جیسا کہ بڑے مجرموں کے ساتھ کیا جاتا تھا تو وہ جوش میں آ گئے اور مسیح سے پوچھا "اے خُداوند کیا ہم تلوار چلائیں؟" (لوقا 22: 49)۔

پطرس نے دیکھا کہ اُس کے آقا کے خلاف سب سے شدید حملہ کرنے والا فرد سردار کاہن کا خادم تھا۔ مسیح کی طرف سے جواب کا انتظار نہ کرتے ہوئے، اُس نے اپنی تلوار نکالی اور اُس نوکر پر چلائی جس کا نام ملخُس تھا۔ یہ مُہلک وار سر اُڑانے کےلئے تھا۔ تاہم، پطرس اِس میں ناکام رہا، اور اِس کے برعکس اُس نے اُس کا کان اُڑا دیا۔ یسوع نے فوری طور پر اُن کے فائدے کےلئے پطرس کی غلطی کو سدھارنے کےلئے کام کیا۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی، آپ واضح طور پر اپنے دشمنوں کے سامنے اپنا حقیقی مقام واضح کرنا چاہتے تھے۔ وہ آپ کی رضامندی کے بغیر آپ کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔ آپ نے پطرس کے عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور اُسے ایک پرانی کہاوت یاد دِلاتے ہوئے اپنی تلوار کو میان میں واپس رکھنے کا حکم دیا: "اپنی تلوار کو مِیان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (اِنجیل بمطابق متی 26: 52)۔ آپ نے پطرس کو سکھایا کہ آپ کو اپنے بچاؤ کےلئے اِنسانی مدد کی ضرورت نہیں تھی، اور آپ اپنے شاگردوں سے یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ وہ طاقت کے ذریعے آپ کی مدد کریں۔ اگر مسیح کو مدد کی ضرورت ہوتی تو آپ اپنے باپ سے مِنّت کرتے اور وہ فرشتوں کے بارہ تُمن سے زیادہ بھیج دیتا۔ کیا پطرس اب تک یہ نہیں جانتا کہ کلامِ مقدّس کی پیشین گوئیوں کی تکمیل کےلئے اُس کے آقا کو گرفتار ہونا پڑے گا؟

مسیح نے ملخُس کو اپنے پاس لانے کےلئے کہا، جو اِس بات کی نشاندہی ہے کہ آپ کے دشمنوں کو آپ کے بندھے ہوئے ہاتھ کسی حد تک ڈھیلے کرنے پڑے ہوں گے۔ جب اُنہوں نے ایسا کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سردار کاہن کے نوکر کے کان کو اپنے حکم سے ٹھیک کر دیا۔ اِنجیل مقدّس میں درج ہے، "... اپنے دشمنوں سے محبّت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں اُن کا بھلا چاہو" (اِنجیل بمطابق لوقا 6: 27)۔ یہ آپ کی مصلوبیّت سے پہلے آپ کا آخری معجزہ تھا۔

جب شاگردوں نے محسوس کیا کہ مسیح کو اُن کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، اور اُن کے وہاں خطرے میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، تو اُنہوں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ یوں، بالاخانہ میں اُن کےلئے کی گئی آپ کی پیشین گوئی پوری ہوئی: "تُم سب اِسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے کیونکہ لکھا ہے کہ مَیں چرواہے کو مارُوں گا اور گلّہ کی بھیڑیں پراگندہ ہو جائیں گی" (اِنجیل بمطابق متی 26: 31)۔

2- یہودی بزرگوں کی طرف سے مسیح کا مُقدّمہ

صرف رومی حاکم ہی موت کی سزا کی توثیق کر سکتا تھا، اور حکومت عموماً مسائل کا تدارک کرنے کےلئے یہودی مذہبی راہنماؤں کے فیصلوں کو نافذ کرنے میں جلدی کیا کرتی تھی۔

اُس وقت یہودیوں کے دو سردار کاہن تھے۔ پہلا، حنّا، جو شرعی اعتبار سے سردار کاہن تھا، لیکن رومی حاکم نے بیس سال پہلے اُس کے داماد کائفا کے حق میں اُسے معزول کر دیا تھا۔ حنّا لوگوں پر اثر و رسوخ رکھتا تھا، اور وہ مسیح کے خلاف سب سے بڑا سازشی تھا۔

جب مسیح کو پکڑ لیا گیا اور آپ کے شاگرد بھاگ گئے تو سپاہی آپ کو حنّا کے گھر لے گئے۔ تاہم، آپ کا عزیز شاگرد یوحنّا واپس آیا اور باغ سے سردار کاہن کے گھر جانے والی بِھیڑ میں شامل ہو گیا۔ چونکہ وہ اُن میں معروف و مقبول تھا، اِس لئے داخل ہونے والوں کے ساتھ اندر چلا گیا۔ شمعون پطرس بھی واپس آیا، مگر وہ کچھ فاصلے سے اُن کے پیچھے ہو لیا۔ جب وہ اُن کے پاس پہنچا تو وہاں دربان عورت نے اُسے روکا، اور پطرس نے اُسے اپنے دوست اور ساتھی یوحنّا کو بلانے کو کہا۔ یوحنّا آیا اور اُس لونڈی سے جو دربان تھی کہہ کر پطرس کو گھر کے اندر لے گیا، لیکن سردار کاہن کے کمرے میں نہیں جہاں وہ داخل ہُوا تھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 15۔ 16)۔

یوں لگتا ہے کہ کائفا نے فقیہوں اور بزرگوں میں سے مخصوص افراد کو جن کی موجودگی وہ چاہتا تھا، فوراً طلب کیا تا کہ وہ ایک غیر رسمی مقدمے کی سماعت کریں جس میں وہ فوری طور پر سزائے موت دینے کےلئے باقاعدہ فیصلہ جاری کریں، تا کہ وہ مسیح کو صبح سویرے رومی حاکم کے حوالے کر سکیں۔ اِس طرح کائفا، فسح کی قربانی ہونے سے پہلے موت کی سزا کا اعلان کر سکتا تھا، کیونکہ موسیٰ کی شریعت نے اِس عید کے دن اور فسح کے باقی ایّام میں ایسی کارروائی سے منع کیا تھا۔

مسیح سردار کاہِن کے سامنے

"پھر سردار کاہِن نے یسوع سے اُس کے شاگردوں اور اُس کی تعلیم کی بابت پُوچھا۔ یسوع نے اُسے جواب دِیا کہ مَیں نے دُنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ عبادت خانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہیں کہا۔ تُو مُجھ سے کیوں پُوچھتا ہے؟ سُننے والوں سے پُوچھ کہ مَیں نے اُن سے کیا کہا۔ دیکھ اُن کو معلوم ہے کہ مَیں نے کیا کیا کہا۔ جب اُس نے یہ کہا تو پیادوں میں سے ایک شخص نے جو پاس کھڑا تھا یسوع کے طمانچہ مار کر کہا تُو سردار کاہِن کو ایسا جواب دیتا ہے؟ یسوع نے اُسے جواب دیا کہ اگر مَیں نے بُرا کہا تو اُس بُرائی پر گواہی دے اور اگر اچھا کہا تو مُجھے مارتا کیوں ہے؟ پس حنّا نے اُسے بندھا ہُوا سردار کاہِن کائفا کے پاس بھیج دِیا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 19۔ 24)

یہاں ہمارے سامنے واقعتاً ایک عجیب صورت حال پیش کی گئی ہے: خُدا کی طرف سے مقرر کردہ سچا، جائز سردار کاہن، بندھا ہُوا پہرے میں تھا، اور اُس شخص کے سامنے فیصلہ کا منتظر تھا جس نے ایک شریر، غیر قوم سے تعلق رکھنے والے حاکم کی منظوری سے، سردار کاہن کے عہدے پر قبضہ کیا تھا۔

چونکہ لوگ بڑے پیمانے پر مسیح کی پیروی کر رہے تھے، اور آپ بہت مشہور تھے، اِس لئے مسیح پر الزام لگایا گیا کہ وہ سازشیوں کے اُس گروہ کا راہنما تھا جو حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتا تھا۔ اِس لئے کائفا نے مسیح سے اُس کے شاگردوں اور تعلیمات کے بارے میں سوالات پوچھے۔ مسیح نے جواب دیا کہ یہ سب کچھ لوگ جانتے ہیں، اور جنہوں نے اُس کی باتیں سُنی ہیں یہ اُن سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسیح نے کائفا کی بات کو مانتے ہوئے اپنی تعلیمات کو بیان کیا ہوتا تو آپ کے جواب کا اِس مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا اور نہ ہی آپ اُسے قائل کر پاتے۔

مسیح کے الفاظ نے پیادوں میں سے ایک شخص کو غصہ دلایا۔ اُس نے مسیح کو تھپڑ مارا اور سردار کاہن کو اِس طرح جواب دینے پر ملامت کی۔ بلا شک و شبہ، یہاں ہمیں پہاڑی وعظ میں مسیح کی دوسرے گال کو بھی دُشمن کے سامنے پھیر دینے کی تعلیم یاد آتی ہے۔ لیکن چونکہ مسیح کے نزدیک اِس کا معنٰی لفظی نہیں تھا، اور نہ ہی اِس کا اطلاق تمام حالات پر ہوتا ہے، اِس لئے آپ نے طمانچہ مارنے والے فرد کے سامنے خاموشی سے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اُس کی سرزنش کی۔ کچھ دیر بعد بھی لوگوں نے آپ کو مارا، مگر آپ نے اُس پر بالکل بھی احتجاج یا مزاحمت نہیں کی۔

جھوٹے گواہ

"اور سردار کاہن اور سب صدر عدالت والے یسوع کو مار ڈالنے کےلئے اُس کے خلاف جُھوٹی گواہی ڈُھونڈنے لگے۔ مگر نہ پائی گو بُہت سے جُھوٹے گواہ آئے۔ لیکن آخرکار دو گواہوں نے آ کر کہا کہ اِس نے کہا ہے مَیں خُدا کے مقدِس کو ڈھا سکتا اور تین دِن میں اُسے بنا سکتا ہُوں۔ اور سردار کاہن نے کھڑے ہو کر اُس سے کہا تُو جواب نہیں دیتا؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟ مگر یسوع خاموش ہی رہا۔ سردار کاہن نے اُس سے کہا، مَیں تُجھے زندہ خُدا کی قَسم دیتا ہُوں کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اُس سے کہا، تُو نے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے بعد تُم اِبن آدم کو قادر مُطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ اِس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفر بکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟ اُنہوں نے جواب میں کہا، وہ قتل کے لائق ہے۔ اِس پر اُنہوں نے اُس کے مُنہ پر تُھوکا اور اُس کے مُکے مارے اور بعض نے طمانچے مار کر کہا۔ اے مسیح ہمیں نبوّت سے بتا کہ تُجھے کس نے مارا؟" (اِنجیل بمطابق متی 26: 59۔ 68)

یہودیوں کے راہنما جھوٹے گواہوں کو تلاش کرنے کےلئے سب سے زیادہ بےچین تھے، لیکن شہادتیں متفق نہیں تھیں۔ آخرکار اُنہیں اپنی کامیابی کا امکان اُس وقت نظر آیا جب اُنہیں دو گواہ ایسے ملے جو مسیح کے خلاف یہ گواہی دینے پر تیار ہوئے کہ اُس نے کہا تھا کہ مَیں ہیکل کو ڈھا دوں گا اور تین دِن میں اُسے بنا دوں گا۔ یہ آپ کے اُن الفاظ کو بگاڑ کر پیش کرنا تھا جو آپ نے تین سال پہلے ہیکل کو پہلی بار صاف کرتے ہوئے کہے تھے۔ تب آپ نے اپنے جسم کی ہیکل کی بات کی تھی۔سردار کاہن غصے میں تھا۔ وہ بیچ میں کھڑا ہُوا اور مسیح کو اِس الزام کا جواب دینے کو کہا، لیکن آپ خاموش رہے۔ یوں، یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی پوری ہوئی: "وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زُبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 7)۔

اِس موقع پر، سردار کاہن نے براہ راست آپ سے پوچھا کہ کیا وہ واقعی خُدا کا بیٹا مسیح ہے۔ اِس پر جناب یسوع خاموش نہیں رہ سکتے تھے، تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اِس سچائی کی بابت آپ کے پہلے بیانات کے اِنکار یا پھر آپ کو ستانے والوں سے خوف کی علامت کے طور پر تعبیر کیا جائے۔ لہٰذا، آپ نے فوراً اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ وہ اُسے خُدا کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔ یوں آپ اپنے الزام لگانے والوں کو ایک آنے والے دن کے بارے میں بتا رہے تھے، جب پانسہ پلٹ جائے گا، تب وہ مُنصف ہو گا، اور اُن کی اور اُن کی قوم کی عدالت کرے گا۔

ایک مقدمے کے دوران یہ اُس فرد کے کتنے ہی عجیب لیکن عظیم الفاظ ہیں -- جو اپنے الزام لگانے والوں سے مخاطب تھا، جبکہ اُس کی زندگی ان کے ہاتھ میں تھی! کیا کوئی معمولی آدمی ایسی باتیں کہہ سکتا ہے؟ سردار کاہن کو اِن الفاظ سے سخت غصہ آیا جو اُس کے نزدیک خدا تعالیٰ کے بارے میں کُفر تھے۔ اُس نے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہا: "دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟" (اِنجیل بمطابق متی 26: 65، 66)۔

کسی بھی سردار کاہن کو صدر عدالت کے حتمی فیصلے سے پہلے کسی معاملے پر اپنی رائے کے اظہار کرنے کا حق نہیں تھا، کیونکہ اِس کا ووٹنگ کے نتائج پر اہم اثر پڑتا تھا۔ صدر عدالت میں، یہودی نظام عدل کا تقاضا یہ تھا کہ چھوٹے ارکان کے ووٹ بڑے ارکان سے پہلے لئے جائیں۔ تاہم، کائفا نے اُس وقت منصف کے طور پر اپنے اختیار سے تجاوز کیا جب اُس نے یسوع کو کفر کا ارتکاب کرنے والا قرار دیا۔ اِس الزام کی سزا موت تھی، اور بعد میں سردار کاہن نے اِس فیصلے سے متعلق اپنے تمام ساتھیوں کی مکمل منظوری حاصل کر لی۔

جب وہاں موجود خادموں اور سپاہیوں نے دیکھا کہ یہودی راہنماؤں نے متفقہ طور پر مسیح پر سب سے بڑے ممکنہ مذہبی جرم کا الزام عائد کیا ہے، اور اُس پر بہت غصے ہیں تو اُنہوں نے یہ جانتے ہوئے اپنے وحشیانہ رجحانات کا کھل کر مظاہرہ کیا کہ ایسا کرنا اُن کے راہنماؤں کو خوش کرے گا۔ اگرچہ ابھی سرکاری طور پر مقدمہ شروع نہیں ہُوا تھا، اُنہوں نے مسیح کے منہ پر تھوکنا شروع کر دیا، اُسے مارا پیٹا، اور اُس کے ساتھ ہر طرح سے توہین آمیز طور پر پیش آئے۔ یوں، یسعیاہ نبی کی ایک اَور پیشین گوئی پوری ہوئی: "مَیں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ مَیں نے اپنا مُنہ رُسوائی اور تُھوک سے نہیں چُھپایا" (یسعیاہ 50: 6)۔

مسیح کا مقدمہ ایک ایسے کمرے میں ہُوا جو بیرونی صحن کی طرف سے کھلا تھا جہاں نوکر اور غلام جمع تھے۔ چونکہ اپریل میں عام طور پر طلوع فجر سے پہلے کافی سردی ہوتی ہے، اس لئے جمع ہونے والوں نے صحن کے بیچ میں آگ بھڑکائی۔ پطرس بھی اُن میں شامل تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے اپنے آقا کے خلاف اُن کے درمیان ہونے والے توہین آمیز الفاظ میں سے کسی پر اعتراض نہیں کیا۔ اِس طرح وہ اُن کی تنقید سے بچ گیا۔ تاہم، دروازے پر موجود لونڈی نے اُس کی طرف دیکھا اور پہچان لیا کہ وہ مسیح کے پیروکاروں میں سے ایک تھا۔ لیکن اُس نے اِس بات کی تردید کی۔

پطرس کا مسیح کا انکار کرنا

"جب پطرس نیچے صحن میں تھا تو سردار کاہن کی لونڈیوں میں سے ایک وہاں آئی۔ اور پطرس کو آگ تاپتے دیکھ کر اُس پر نظر کی اور کہنے لگی تُو بھی اُس ناصری یسوع کے ساتھ تھا۔ اُس نے اِنکار کیا اور کہا کہ مَیں تو نہ جانتا اور نہ سمجھتا ہُوں کہ تُو کیا کہتی ہے۔ پھر وہ باہر ڈیوڑھی میں گیا اور مرغ نے بانگ دی۔ وہ لونڈی اُسے دیکھ کر اُن سے جو پاس کھڑے تھے پھر کہنے لگی، یہ اُن میں سے ہے۔ مگر اُس نے پھر انکار کیا اور تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے جو پاس کھڑے تھے پطرس سے پھر کہا، بیشک تُو اُن میں سے ہے کیونکہ تُو گلیلی بھی ہے۔ مگر وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ مَیں اِس آدمی کو جِس کا تُم ذِکر کرتے ہو نہیں جانتا۔ اور فی الفور مرغ نے دُوسری بار بانگ دی۔ پطرس کو وہ بات جو یسوع نے اُس سے کہی تھی یاد آئی کہ مرغ کے دو بار بانگ دینے سے پہلے تُو تین بار میرا انکار کرے گا اور اُس پر غور کر کے وہ رو پڑا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 14: 66۔ 72)

مسیح کا پہلی مرتبہ انکار کرنے سے پطرس کے دِل میں گویا آگ بھڑک اُٹھی، اور وہ باہر ڈیوڑھی میں گیا، جہاں اُس نے مرغ کی بانگ سُنی۔ وہ لونڈی اُسے دیکھ کر پاس موجود لوگوں سے کہنے لگی کہ یہ مسیح کے پیروکاروں میں سے ایک ہے۔ ایک بار پھر، پطرس نے بڑے وثوق سے اِس بات کی تردید کی تا کہ اُس کا جھوٹ پکڑا نہ جا سکے۔ تھوڑی دیر بعد، اُن لوگوں کی طرف سے اُس کے خلاف الزام بڑھ گیا اور اُنہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یقیناً مسیح کا شاگرد ہے کیونکہ گلیل کا رہنے والا ہے۔ اُس وقت ملخُس جس کا کان پطرس نے اُڑا دیا تھا، منظر پر نمودار ہُوا۔ اُس نے بتایا کہ کیسے اُس نے پطرس کو پہلے مسیح کے ساتھ دیکھا تھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 26)۔ جب پطرس نے اپنے سامنے بڑے خطرے کو دیکھا تو اُسے احساس ہُوا کہ ایک اور سادہ انکار سے کچھ حاصل نہ ہو گا تو وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ مَیں مسیح کو نہیں جانتا۔

جیسے ہی پطرس نے شرمناک الفاظ میں مسیح کا اِنکار کیا تو دوسری مرتبہ مرغ کی بانگ سُنائی دی۔ جناب مسیح اِس موقع کا انتظار کر رہے تھے تا کہ اپنے شاگرد کو اُس کھائی سے نکالا جا سکے جس میں وہ گِر رہا تھا۔ آپ نے اپنے گِرے ہوئے شاگرد کی روح کے بارے میں دریافت کرنے کےلئے اپنے دُکھوں سے توجہ ہٹائی۔ آپ نے سردار کاہن اور یہودی راہنماؤں کی طرف سے اپنا چہرہ پھیر کر صحن میں پطرس کی طرف دیکھا۔ اُن کی نگاہیں اُسی وقت ملیں جب مرغ بانگ دے رہا تھا۔ اِس نگاہ نے پطرس کا دل پِگھلا دیا۔ اِس نگاہ میں افسُردگی کے ساتھ محبّت تھی۔ پطرس کے آنسو دریا کی مانند بہنے لگے اور اُس کے نیک جذبات اُس پر غالب آ گئے۔ ردّ و اِنکار کی جگہ خالص، دلی توبہ نے لے لی۔ وہ جان گیا کہ اُس کا گناہ معاف کر دیا گیا تھا اور یہ کہ اُس کےلئے مسیح کی دعا کہ "تیرا اِیمان جاتا نہ رہے" سُنی گئی تھی۔ پھر پطرس نے اِس بات پر غور نہیں کیا کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا کہیں گے یا وہ کس خطرے میں ہو گا۔ وہ صرف اپنے آقا، اپنی جان کے حبیب کی رضا کا طالب تھا۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ باہر گیا اور زار زار رونے لگا۔ اُسے بالکل معاف کر دیا گیا تھا۔

جناب مسیح، جنہوں نے پطرس پر ایک نگاہ ڈال کر اُسے بحال کر دیا، ہمیشہ اُن لوگوں کو بھی بچائے گا جو آپ کی طرف ایمان کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ وہ اُنہیں اُن کے برے اعمال اور اُن کے بعد آنے والے نتائج سے بچائے گا۔ بائبل مقدّس کے بھرپور وعدوں کے تناظر میں کیا ہم شک کو جگہ دے سکتے ہیں؟: "اب خُداوند فرماتا ہے آؤ ہم باہم حُجّت کریں۔ اگرچہ تُمہارے گناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہرچند وہ ارغوانی ہوں تَو بھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے" (یسعیاہ 1: 18)؛ "مَیں ہی وہ ہُوں جو اپنے نام کی خاطر تیرے گُناہوں کو مٹاتا ہُوں اور مَیں تیری خطاؤں کو یاد نہیں رکھوں گا" (یسعیاہ 43: 25)؛ "مُبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا" (پرانا عہدنامہ، زبور 32: 1)۔

صدر عدالت کے سامنے صبح کے وقت مُقدّمہ

"جب دِن ہُوا تو سردار کاہن اور فقیہ یعنی قوم کے بزرگوں کی مجلس جمع ہُوئی اور اُنہوں نے اُسے اپنی صدر عدالت میں لے جا کر کہا۔ اگر تُو مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ اُس نے اُن سے کہا، اگر مَیں تُم سے کہوں تو یقین نہ کرو گے۔ اور اگر پوچھوں تو جواب نہ دو گے۔ لیکن اب سے اِبن آدم قادر مُطلق خُدا کی دہنی طرف بیٹھا رہے گا۔ اِس پر اُن سب نے کہا، پس کیا تُو خُدا کا بیٹا ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، تُم خود کہتے ہو کیونکہ مَیں ہُوں۔ اُنہوں نے کہا، اب ہمیں گواہی کی کیا حاجت رہی؟ کیونکہ ہم نے خُود اُسی کے مُنہ سے سُن لیا ہے۔ پھر اُن کی ساری جماعت اُٹھ کر اُسے پِیلاطُس کے پاس لے گئی۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 66۔ 71؛ 23: 1)

رات کے وقت مقدمے کی سماعت غیر قانونی تھی، اور جیسے ہی جمعہ کی صبح طلوع ہوئی، یہودیوں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا فیصلہ سنائیں جس پر وہ رات کے وقت متفق ہوئے تھے۔ اُس مجلِس کے دوران اُن بزرگوں نے یسوع سے پوچھا کہ کیا وہ مسیح ہے۔ آپ نے کہا کہ اُس کے جواب دینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا، اور آپ نے خُدا کے دہنے ہاتھ بیٹھنے کے بارے میں اپنے پہلے الفاظ کو دہرایا۔ اُنہوں نے مسیح سے پوچھا کہ کیا وہ خدا کا بیٹا ہے، اور جب آپ نے اثبات میں جواب دیا تو اُنہوں نے کہا: "اب ہمیں گواہی کی کیا حاجت رہی؟ کیونکہ ہم نے خُود اُسی کے مُنہ سے سُن لیا ہے۔" اور یوں اِس انتہائی معزز مذہبی عدالت نے مسیح کو کُفر کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔ اِس فیصلے کے بعد اب صدر عدالت کیا کرنے کو تھی؟

اِس حکم کو نافذ کرنے کےلئے رومی گورنر پیلاطس کی توثیق درکار تھی۔ اور چونکہ اگلے دن فسح کی عید کا آغاز ہونا تھا جو ایک ہفتہ تک جاری رہنی تھی، اِس لئے یہودی بزرگوں کو پیلاطس کی منظوری حاصل کرنے میں جلدی تھی۔ اگر سزا دینے کا یہ فیصلہ جمعہ کو نہ ہوتا تو اِسے پورا ایک ہفتہ ملتوی کرنا ضروری تھا، اور کون بتا سکتا تھا کہ اگلے سات دِن میں کیا ہو سکتا تھا۔ شاید لوگ مسیح کو اُس کی ناجائز سزا سے بچانے کی کوشش کریں۔چنانچہ سب لوگ جلدی سے اُٹھے اور یسوع کو رومی حاکم پیلاطس کے محل میں لے گئے۔

کتنا افسُردہ کرنے والا منظر ہے! یہاں قوم کے راہنما، الہٰی شریعت کے معلم، مقدس شہر کی گلیوں میں ایک ہجوم کے سامنے چل رہے تھے، تا کہ اپنے مسیحا، اپنی اور دنیا کی واحد اُمید کو مصلوب ہونے کےلئے ایک ظالم، بےانصاف، غیر قوم کے حاکم کے حوالے کر سکیں۔

یہوداہ کا اپنی جان لے لینا

اِس موقع پر، یہوداہ اِسکریوتی نے محسوس کیا کہ اُس نے مسیح کے خلاف گناہ کیا تھا۔ شاید اُس نے سوچا کہ یسوع اپنی طاقت اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے دُشمنوں سے بچ جائے گا۔ تاہم، جب اُس نے دیکھا کہ مقدمہ چل رہا ہے، اور مسیح کو موت کا سامنا ہے، تو اُس نے یہودیوں کے بزرگوں کو یہ بتانے کےلئے جلدی کی کہ اُس نے بےقصور کو قتل کےلئے پکڑوا کر گناہ کیا ہے۔ وہ چاندی کے اُن تیس روپیوں کو واپس کرنا چاہتا تھا جو اُس نے مسیح کو اُن کے حوالے کر کے حاصل کئے تھے۔ لیکن یہودی بزرگوں کو منصفانہ مقدمے میں دلچسپی نہیں تھی، اِس لئے اُنہوں نے اُس کی بات کو نظر انداز کیا، اور اُسے بتایا کہ یہ معاملہ اُس کا اپنا مسئلہ ہے۔ یہوداہ چاندی کے روپے اُن کے قدموں میں پھینک کر چلا گیا۔ تاہم، ایسی رقم کی خزانے میں جمع کرنے کی ممانعت تھی، اِس لئے اُنہوں نے اُن چاندی کے روپیوں سے پردیسیوں کے دفن کےلئے کھیت خریدا۔ اور یوں زکریاہ نبی کی ایک اہم پیشین گوئی پوری ہوئی: "اگر تُمہاری نظر میں ٹھیک ہو تو میری مزدوری مُجھے دو، نہیں تو مت دو اور اُنہوں نے میری مزدوری کےلئے تیس رُوپے تول کر دِئے۔ اور خُداوند نے مُجھے حُکم دیا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے یعنی اِس بڑی قیمت کو جو اُنہوں نے میرے لئے ٹھہرائی اور مَیں نے یہ تیس رُوپے لے کر خُداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دِئے۔" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 11: 12، 13)۔

جب یہوداہ نے دیکھا کہ مسیح اپنی سزائے موت سے بچ نہیں پائے گا، تو اُس کا ضمیر تلخ ہو گیا۔ تاہم، اُس کا پچھتاوا پطرس سے مختلف تھا، کیونکہ اُس نے صرف اِنسان کے ساتھ معاملہ کو سیدھا کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے اپنی ناکامی پر ایک ایسے رویہ کا مظاہرہ کیا جس میں صرف اِنسان کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کیا جاتا ہے۔ اُس نے سوچا کہ وہ اپنے کئے کی اصلاح کر سکتا ہے، لیکن یہ ناممکن تھا۔ اُسے سب سے پہلے خُدا سے معافی مانگنی چاہئے تھی، اور اُس سے اپنی غلطی کو درست کرنے کےلئے کہنا چاہئے تھا۔

یہوداہ اِسکریوتی کا واقعہ کس قدر افسوسناک ہے؛ ایک امید افزا آغاز، پھر بھی ایک المناک انجام! اُس نے خود کو پھانسی لگا کر ہلاک کر دیا۔ بعد میں وہ مُنہ کے بل گرا اور اُس کی انتڑیاں بھی باہر نکل گئیں۔ یہ خوفناک نتیجہ اُس کی گھناؤنی دھوکہ دہی کے عین مطابق تھا۔ یہ واقعہ جہنم کی عذاب کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ یہ ہماری دنیا کےلئے ایک سبق اور مثال ہے۔ کون اِس سے سبق حاصل نہ کرے گا؟

3- رُومی گورنر کی جانب سے مسیح کا مُقدّمہ

جمعہ کی صبح سویرے، رومی حاکم پیلاطس کو سردار کاہن اور اُس کی مجلس کی آمد کی اطلاع موصول ہوئی، جو اپنے ساتھ ناصرت کے مشہور نبی اور معجزہ کار کو اِس دعوے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ کر لا رہے تھے کہ اُس نے سنگین جرم کیا تھا۔ رومی حکمران بھی یہودی راہنماؤں کو بہت زیادہ وقعت دیتے، اُن کا احترام کرتے اور اُن کے وسیع اختیارات اور بڑے اثر و رسوخ کو تسلیم کرتے تھے۔ وہ اُن کے مذہبی فیصلوں کو بغیر کِسی سوال کے نافذ کرتے تھے۔

یہودی راہنما پیلاطس سے توقع کر رہے تھے کہ وہ مُقدمہ کی جانچ کئے بغیر، روایتی انداز میں اُن کے ساتھ پیش آئے گا۔ مزید برآں، اُنہیں خدشہ تھا کہ کیس کی دوبارہ جانچ میں اُن کی طرف سے دی گئی غیر منصفانہ سزا کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے قانون کے مطابق غیر قوم کی عدالت میں داخل ہونے سے وہ ناپاک ہو جانے تھے، اور بڑی عید سے پہلے پاکیزگی کےلئے ناکافی وقت تھا۔ لہٰذا، رومی حاکم نرمی کا مظاہرہ کر رہا تھا، جو اُن سے ملنے کےلئے قلعہ سے باہر گیا۔ جب اُس نے یہودی راہنماؤں سے پوچھا کہ مسیح کو اُس کے پاس کیوں لایا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ اگر وہ بدکار نہ ہوتا تو ہم اُسے تیرے حوالہ نہ کرتے۔ وہ مسیح اور آپ کی حفاظت کرنے والے سپاہیوں کو قلعہ میں لے گیا۔ یہودیوں کو اپنے جواب سے اُمید تھی کہ پیلاطُس مقدمہ کی دوبارہ جانچ سے گریز کرے گا۔ لیکن رومی حاکم اپنے قانونی فرائض سے دستبردار نہ ہُوا۔ لہٰذا، اُنہوں نے اپنا الزام قانونی شکل میں اِس انداز سے پیش کیا کہ مسیح کو سزائے موت دینی پڑے۔

یہودیوں کا الزام

"پھر وہ یسوع کو کائفا کے پاس سے قلعہ کو لے گئے اور صُبح کا وقت تھا اور وہ خُود قلعہ میں نہ گئے تا کہ ناپاک نہ ہوں بلکہ فسح کھا سکیں۔ پس پیلاطُس نے اُن کے پاس باہر آ کر کہا، تُم اِس آدمی پر کیا الزام لگاتے ہو؟ اُنہوں نے جواب میں اُس سے کہا کہ اگر یہ بدکار نہ ہوتا تو ہم اِسے تیرے حوالہ نہ کرتے۔ پیلاطُس نے اُن سے کہا، اِسے لے جا کر تُم ہی اپنی شریعت کے مُوافق اِس کا فیصلہ کرو۔ یہودیوں نے اُس سے کہا، ہمیں روا نہیں کہ کسی کو جان سے ماریں۔ یہ اِس لئے ہُوا کہ یسوع کی وہ بات پُوری ہو جو اُس نے اپنی موت کے طریق کی طرف اشارہ کر کے کہی تھی۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 28۔ 32)۔

پہلا جرم جو یہودی راہنماؤں نے مسیح سے منسوب کیا، یہ تھا کہ وہ قوم کو بہکا رہا تھا؛ یعنی وہ حکومت کے خلاف بغاوت کو بھڑکا رہا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 2)۔ لیکن اگر واقعی ایسا ہوتا تو پیلاطس کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اِس کا علم ہوتا۔ اُسے ایسے راہنماؤں کی مداخلت کی ضرورت نہ تھی، جو بہرحال رومی حکام کے خلاف بغاوت کو برا نہ سمجھتے۔

مسیح کے خلاف دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ قیصر کو خراج کی ادائیگی سے منع کر رہا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 2)۔ یہ وہی الزام ہے جو اُنہوں نے پہلے یسوع کے مُنہ سے ثابت کروانے کی کوشش کی تھی، لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا: "پس جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کے ہے وہ خُدا کو دو" (اِنجیل بمطابق لوقا 20: 25)۔

تیسرا الزام یہ تھا کہ اُس نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 2)۔ لیکن اِس الزام میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو رومی حاکم پر اثر انداز ہوتی۔ پیلاطُس اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ یہودی، رومی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہر شخص پر فخر کرتے تھے، اِس لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی یہودی کو اِس الزام میں، خواہ وہ سچا ہی ہوتا، قتل کےلئے اُس کے حوالے کرتے۔

رومی حاکم نے نفرت، حقارت اور طنز کے ساتھ جواب دیا۔ اُس نے مشورہ دیا کہ وہ اُسے لے جا کر اپنی شریعت کے مطابق اُس کا فیصلہ کریں، باوجود کہ شریعت کا اِن الزامات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ یوں گویا وہ اُن سے کہہ رہا تھا: "تم میرے بغیر جو چاہو وہ نہیں کر سکتے، اور مَیں بغیر جانچ کے تمہاری خواہشات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کروں گا۔" یہودی راہنماؤں کو اپنی خواہش پوری کرنے کےلئے مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ "ہمیں روا نہیں کہ کسی کو جان سے ماریں۔"

پیلاطُس کا یسوع سے سوالات کرنا

"پس پیلاطُس قلعہ میں پھر داخل ہُوا اور یسوع کو بُلا کر اُس سے کہا، کیا تُو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دِیا کہ تُو یہ بات آپ ہی کہتا ہے یا اَوروں نے میرے حق میں تُجھ سے کہی؟ پیلاطُس نے جواب دِیا، کیا مَیں یہودی ہُوں؟ تیری ہی قوم اور سردار کاہنوں نے تُجھ کو میرے حوالہ کیا۔ تُو نے کیا کیا ہے؟ یسوع نے جواب دِیا کہ میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادِم لڑتے تا کہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔ پیلاطُس نے اُس سے کہا، پس کیا تُو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دِیا، تُو خُود کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہُوں۔ مَیں اِس لئے پیدا ہُوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہُوں کہ حق پر گواہی دُوں۔ جو کوئی حقّانی ہے میری آواز سُنتا ہے۔ پیلاطُس نے اُس سے کہا، حق کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ یہودیوں کے پاس پھر باہر گیا اور اُن سے کہا کہ مَیں اُس کا کُچھ جُرم نہیں پاتا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 33۔ 38)

مسیح کے خلاف الزامات کھلے عام، رومی حاکم کے قلعہ کے سامنے لگائے گئے جس نے آپ سے سوالات کئے۔ اُس کا پہلا استفسار معقول اور مناسب تھا کیونکہ یہودیوں نے مسیح پر الزام لگایا تھا کہ وہ اُس کے صوبہ میں مسیح، بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حاکم نے مسیح سے پوچھا کہ کیا وہ واقعی یہودیوں کا بادشاہ ہے۔ یِسُوع نے ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیا کیونکہ اُس کی سیاسی طور پر تشریح کی جا سکتی تھی۔ آپ جانتے تھے کہ یہودیوں نے پیلاطُس سے بات کی تھی، اِس لئے آپ نے پوچھا کہ "تُو یہ بات آپ ہی کہتا ہے یا اَوروں نے میرے حق میں تجھ سے کہی؟" یہ ایسے تھا کہ جیسے جناب یسوع اُس سے پوچھ رہے تھے: "کیا تم سچائی جاننا چاہتے ہو یا صرف اُن لوگوں کی ایمانداری کا تعین کرنا چاہتے ہو جنہوں نے مجھے تمہارے حوالے کیا؟" پیلاطُس کے جواب نے ظاہر کیا کہ وہ سچائی میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔

پیلاطُس کے ساتھ مزید بات کرتے ہوئے، یسوع نے اپنی روحانی بادشاہی کی نوعیت کا ایک شاندار بیان پیش کیا۔ آپ نے پیلاطُس کی توجہ اِس حقیقت کی طرف دِلائی کہ اگر آپ کی بادشاہی سیاسی نوعیت کی ہوتی تو آپ کے پیروکار آپ کے دفاع کےلئے ہتھیار استعمال کرتے۔ تاہم، یہ حاکم کےلئے ایک مبہم پیغام تھا جو براہ راست جواب چاہتا تھا۔ پیلاطُس کی طرف سے واضح جواب کی خواہش کو محسوس کرتے ہوئے یسوع نے اپنی بادشاہی کا اعلان کیا اور اپنی اصلیت، مشن اور حق سے وابستگی کے بارے میں کچھ وضاحتیں پیش کیں۔ اِس پر پیلاطُس نے پوچھا: "حق کیا ہے؟" وہ جاننا چاہتا تھا کہ متضاد مذہبی خیالات میں سے کون سا سچا ہے۔ کیا یونانی فلسفیوں کے خیالات حق تھے جو خوبصورتی کی پرستش کرتے تھے، یا رومیوں کے جو طاقت کی تعظیم کرتے تھے، یا پھر یہودیوں کے جو واحد خُدا، نادیدہ رُوح کی پرستش کرتے تھے؟ یا پھر مسیح حق تھا جسے یہودیوں نے یہ دعویٰ کرنے پر مسترد کر دیا تھا کہ وہ سچائی کی گواہی دینے کےلئے آسمان سے آیا تھا؟

پیلاطس نے پوچھا تھا کہ حق کیا ہے، لیکن اُس نے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ ہر زمانے اور ہر جگہ کے کتنے ہی لوگ اُس جیسے ہیں! وہ پیلاطس جیسا ہی سوال کرتے ہیں، لیکن خود حق کی طرف سے جواب کا انتظار نہیں کرتے، اور یوں وہ اُسے کبھی نہیں پاتے۔ یسوع نے کہا تھا، "اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 31، 32)۔

یسوع سے سوال کرنے کے بعد، پیلاطُس یہودیوں کی طرف متوجہ ہُوا اور کہا کہ "مَیں اُس کا کچھ جرم نہیں پاتا۔" کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پیلاطُس کی بیوی نے اُسے مسیح کے حق میں جھکایا ہو گا، کیونکہ ملزم کےلئے اُس کا گہرا احترام صاف ظاہر ہے۔ لیکن پیلاطُس کے واضح اعتراف کے باوجود، یہودیوں نے پھر سے مسیح کو سزا دلوانے کی کوشش کی، اور آپ پر لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کا شدید الزام لگایا اور کہا، "یہ تمام یہودیہ میں بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سکھا سکھا کر اُبھارتا ہے" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 5)۔

یہودیوں کے راہنماؤں نے گلیل کے ساتھ مسیح کے تعلق کا ذکر کیا، تا کہ رومی حاکم کو آپ کے خلاف کر دیا جائے اور وہ آپ کے قتل پر آمادہ ہو جائے۔ لیکن یہودی راہنماؤں کو یہ کہنے پر افسوس ہُوا کیونکہ اِس سے اُن کے منصوبوں میں تاخیر ہوئی، یعنی مسیح کا مقدمہ گلیل کے یہودی گورنر ہیرودیس کے حوالے کر دیا گیا۔

پیلاطُس نے یسوع کو یروشلیم میں ہیرودیس کے محل میں اُن لوگوں کے ساتھ بھیجا جنہوں نے آپ پر الزام لگایا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ منتقلی اُسے یہودیوں کی طرف اپنی ذمہ داری اور ساتھ ہی اُس کے اپنے ضمیر کے تڑپنے سے بھی آزاد کر دے گی۔ اُسے یہ بھی اُمید تھی کہ اِس منتقلی کو ہیرودیس کی طرف سے ایک مفاہمتی اشارے کے طور پر دیکھا جائے گا، جو اُن کے درمیان گہری ہوتی ہوئی دراڑ کو دور کرنے میں مدد کرے گا۔

پیلاطُس کے منصوبے کامیاب ہوتے دکھائی دئے؛ اُس دن وہ اور ہیرودیس دوست بن گئے۔ تاہم، وہ نہ یہودیوں کی تسلی کرا سکا اور نہ ہی اپنے ضمیر کو خاموش کرا سکا۔

مسیح، ہیرودیس کے سامنے

"یہ سُن کر پیلاطُس نے پوچھا کیا یہ آدمی گلیلی ہے؟ اور یہ معلوم کر کے کہ ہیرودیس کی عمل داری کا ہے اُسے ہیرودیس کے پاس بھیجا کیونکہ وہ بھی اُن دِنوں یروشلیم میں تھا۔ ہیرودیس یسوع کو دیکھ کر بُہت خُوش ہُوا کیونکہ وہ مدّت سے اُسے دیکھنے کا مُشتاق تھا۔ اِس لئے کہ اُس نے اُس کاحال سُنا تھا اور اُس کا کوئی مُعجزہ دیکھنے کا اُمیدوار تھا۔ اور وہ اُس سے بُہتیری باتیں پُوچھتا رہا مگر اُس نے اُسے کُچھ جواب نہ دیا۔ اور سردار کاہن اور فقیہ کھڑے ہُوئے زور شور سے اُس پر الزام لگاتے رہے۔ پھر ہیرودیس نے اپنے سپاہیوں سمیت اُسے ذلیل کیا اور ٹھٹّھوں میں اُڑایا اور چمک دار پوشاک پہنا کر اُس کو پیلاطُس کے پاس واپس بھیجا۔ اور اُسی دِن ہیرودیس اور پیلاطُس آپس میں دوست ہو گئے کیونکہ پہلے اُن میں دُشمنی تھی۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 6۔ 12)

ہیرودیس نہ صرف اِس بات سے خوش تھا کہ پیلاطُس نے مسیح کو اُس کے پاس بھیجا تھا، بلکہ اِس لئے بھی کہ اُسے اپنی گلیلی رعایا میں سے سب سے مشہور شخص مسیح کو خود دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا تھا۔ اُسے یہ بھی اُمید تھی کہ مسیح کچھ ایسے معجزات دکھائے گا جن کے بارے میں اُس نے بہت کچھ سنا تھا۔

ہیرودیس نے یسوع سے بہتیری باتیں پوچھیں، لیکن یسوع نے اُسے کچھ جواب نہیں دیا۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ مسیح کو زنجیروں سے جکڑا ہُوا دیکھ کر ہیرودیس کے ذہن میں یوحنّا بپتسمہ دینے والے کا سر قلم کرنے کی دردناک یادیں آئی ہوں گی۔ جب اُس نے پہلے مسیح کے بارے میں سُنا تھا، تو اُس نے سوچا تھا کہ یوحنّا بپتسمہ دینے والا قبر سے جی اُٹھا ہے۔ اب وہ کیا سوچ رہا تھا؟

چونکہ ہیرودیس کو یسوع کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا، اِس لئے اُس نے یسوع کو حقیر جانا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ آپ کو ٹھٹھوں میں اڑایا۔ پھر، اُس نے مسیح کو ایک چمکدار پوشاک پہنا کر بغیر کسی فیصلے کے پیلاطس کے پاس واپس بھیج دیا۔

پیلاطُس کا یسوع کو بچانے کی کوشش کرنا

"پھر پیلاطُس نے سردار کاہنوں اور سرداروں اور عام لوگوں کو جمع کر کے اُن سے کہا کہ تُم اِس شخص کو لوگوں کا بہکانے والا ٹھہرا کر میرے پاس لائے ہو اور دیکھو مَیں نے تُمہارے سامنے ہی اُس کی تحقیقات کی مگر جن باتوں کا الزام تُم اُس پر لگاتے ہو اُن کی نسبت نہ مَیں نے اُس میں کُچھ قصور پایا۔ نہ ہیرودیس نے کیونکہ اُس نے اُسے ہمارے پاس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اُس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہُوا جِس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرتا۔ پس مَیں اُس کو پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔ وہ سب مل کر چِلاّ اُٹھے کہ اسے لے جا اور ہماری خاطر برابّا کو چھوڑ دے۔ (یہ کِسی بغاوت کے باعث جو شہر میں ہُوئی تھی اور خُون کرنے کے سبب سے قید میں ڈالا گیا تھا۔) مگر پیلاطُس نے یسوع کو چھوڑنے کے ارادہ سے پھر اُن سے کہا۔ لیکن وہ چِلاّ کر کہنے لگے کہ اِس کو مصلُوب کر مصلُوب! اُس نے تیسری بار اُن سے کہا کیوں؟ اِس نے کیا بُرائی کی ہے؟ مَیں نے اِس میں قتل کی کوئی وجہ نہیں پائی۔ پس مَیں اِسے پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔ مگر وہ چِلاّ چِلاّ کر سر ہوتے رہے کہ وہ مصلُوب کیا جائے اور اُن کا چِلاّنا کارگر ہُوا۔ پس پِیلاطُس نے حُکم دِیا کہ اُن کی درخواست کے مُوافق ہو۔ اور جو شخص بغاوت اور خُون کرنے کے سبب سے قید میں پڑا تھا اور جِسے اُنہوں نے مانگا تھا اُسے چھوڑ دیا مگر یسوع کو اُن کی مرضی کے مُوافق سپاہیوں کے حوالہ کیا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 13۔ 25)

جب لوگ مسیح کے ساتھ پیلاطُس کے پاس واپس آئے تو اُنہوں نے بتایا کہ ہیرودیس نے اُس میں کوئی ایسا قصور نہیں پایا جس سے وہ موت کے لائق ٹھہرتا۔ پس پیلاطُس نے اُمید ظاہر کی کہ ہجوم سازشی یہودی بزرگوں کے خلاف اُس کی مدد کرے گا۔ چونکہ مسیح کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا تھا، پیلاطُس نے مشورہ دیا کہ "مَیں اُس کو پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔" اُس نے سوچا کہ وہ ایک ہی وقت میں مسیح کو بھی موت سے بچا لے گا اور یہودیوں کے غصہ کو بھی ٹھنڈا کر دے گا۔ پیلاطُس یسوع کو بے قصور قرار دینے کے بعد آپ کو سزا دینا چاہتا تھا۔ کتنا تضاد ہے! یہ اُس کی غلطی کا آغاز تھا جو اُسے بدتر خطا کی طرف لے گئی۔

چونکہ یہ تمام واقعات عیدِ فسح کے دوران رونما ہو رہے تھے، اِس لئے لوگوں کا دھیان تہوار کے دوران ایک روایتی عنایت کی طرف گیا، جب اُن کی پسند کے قیدی کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پیلاطُس نے اِسے مسیح کی رہائی کا موقع سمجھا، اِس لئے وہ اندر گیا، اپنے تختِ عدالت پر بیٹھا، اور لوگوں کو اپنا انتخاب کرنے کا وقت دیا۔ اُس نے ایک لمحے کےلئے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک عام مجرم، فتنہ انگیز اور قتل کے مجرم کو اِس نیک ربی پر ترجیح دیں گے جس نے اُن کے بہت سے بیماروں کو شفا بخشی تھی۔

پِیلاطُس کی بیوی کی صلاح

"اور جب وہ تختِ عدالت پر بیٹھا تھا تو اُس کی بیوی نے اُسے کہلا بھیجا کہ تُو اِس راستباز سے کُچھ کام نہ رکھ کیونکہ مَیں نے آج خواب میں اِس کے سبب سے بُہت دُکھ اُٹھایا ہے۔ لیکن سردار کاہنوں اور بُزُرگوں نے لوگوں کو اُبھارا کہ برابّا کو مانگ لیں اور یسوع کو ہلاک کرائیں۔ حاکِم نے اُن سے کہا کہ اِن دونوں میں سے کِس کو چاہتے ہو کہ تُمہاری خاطر چھوڑ دُوں؟ اُنہوں نے کہا، برابّا کو۔ پیلاطُس نے اُن سے کہا، پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں؟ سب نے کہا، وہ مصلُوب ہو۔ اُس نے کہا، کیوں اُس نے کیا بُرائی کی ہے؟ مگر وہ اَور بھی چِلاّ چِلاّ کر کہنے لگے، وہ مصلُوب ہو۔ جب پیلاطُس نے دیکھا کہ کچھ بَن نہیں پڑتا بلکہ اُلٹا بلوا ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے رُوبرُو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا، مَیں اِس راستباز کے خُون سے بری ہُوں۔ تُم جانو۔ سب لوگوں نے جواب میں کہا، اِس کا خُون ہماری اور ہماری اَولاد کی گردن پر! اِس پر اُس نے برابّا کو اُن کی خاطر چھوڑ دِیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا کہ مصلُوب ہو۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 19۔ 26)

مسیح کے بارے میں ایک ناخوشگوار خواب دیکھنے کے بعد، پیلاطُس کی بیوی نے اپنے شوہر کو خبردار کیا کہ "تُو اِس راستباز آدمی سے کچھ کام نہ رکھ۔" بلاشبہ، اِس پیغام نے اُس کے شوہر کو متاثر کیا، کیونکہ وہ غیر قوم کے دیگر افراد کی طرح توہم پرست تھا، اور وہ مسیح کی سزائے موت کی ذمہ داری قبول کرنے کے امکان سے خوفزدہ ہو گیا۔ پیلاطُس کے ہاں مسیح کے حق میں ثبوت بڑھتے گئے، تاہم باہر بالکل برعکس ہو رہا تھا۔ یہودی راہنما یہ دلیل دیتے ہوئے مسیح کے خلاف ہجوم کو متاثر کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے کہ الوہیت کا دعویٰ کر کے اُس کا کُفر کا جرم برابّا کے جرم سے بڑا تھا۔ جب پیلاطُس نے لوگوں سے اُن کا فیصلہ پوچھا تو سب نے برابّا کے حق میں نعرہ لگایا۔ لیکن پیلاطُس نے پھر بھی یسوع کو بچانے کی کوشش کی کیونکہ اُس نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں، ہو سکتا ہے کہ یہ جلدی میں یا غلط فہمی کی بنیاد پر ہُوا ہو۔ اگرچہ اُسے اُمید تھی کہ ہجوم اپنا ارادہ بدل دے گا، لیکن لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ برابّا کو اُن کےلئے رہا کر دے۔ پیلاطُس ایک بار پھر بھیڑ کے جواب سے مطمئن نہ ہُوا، اس لئے اُس نے ایک بار پھر پوچھا کہ لوگ اُس سے کیا چاہتے ہیں کہ مسیح کے ساتھ کرے؟ اور وہ دوبارہ چلّانے لگے، "وہ مصلُوب ہو۔"

لوقا 23: 22 میں ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں: "اُس نے تیسری بار اُن سے کہا، کیوں؟ اِس نے کیا بُرائی کی ہے؟ مَیں نے اِس میں قتل کی کوئی وجہ نہیں پائی۔ پس مَیں اِسے پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔" پیلاطُس نے مسیح کی بےگناہی کے حق میں دلیل دے کر تین بار آپ کو بچانے کی کوشش کی۔ اُس نے اپنی بات مسیح کو پِٹوا کر چھوڑ دینے کی اِستدعا کے ساتھ ختم کی۔ لیکن یسوع کی بےگناہی کا اعتراف کرنے کے بعد آپ کو پِیٹنے کی پیشکش ظاہر کرتی ہے کہ پیلاطُس کم از کم جزوی طور پر ہجوم کے جذبات کے تابع ہو گیا تھا۔ شاید اُسے امید تھی کہ مسیح کو کوڑے لگنے کے بعد یہودی کسی نہ کسی طرح مطمئن ہو جائیں گے، اور مصلوبیّت کے مطالبہ کو ترک کر دیں گے۔ لیکن معاملہ ایسا نہیں تھا۔

جیسے جیسے لوگوں کی آوازیں بلند ہوتی گئیں، پیلاطُس اُن کے ہاتھوں میں محض ایک آلہ بن گیا، جو ایک بے گناہ آدمی کو مصلوب کرنے کا مطالبہ کرنے والے ہجوم کے جنون کے آگے سر تسلیم خم کر رہا تھا۔ تاہم، اُس نے اپنے تحفظات کا اظہار کئے بغیر اُن کی بات نہیں مانی۔ لیکن اُس نے مسیح کی سزا کی ذمہ داری سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی، اور اِس کے اظہار کےلئے اُس نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کے رُوبرُو پانی سے اپنے ہاتھ دھوئے کہ "مَیں اِس راستباز کے خُون سے بری ہُوں۔ تُم جانو۔" اِس پر لوگوں نے جواب دیا کہ "اِس کا خُون ہماری اور ہماری اَولاد کی گردن پر!" یہ واقعی عجیب بات ہے کہ یہ لوگ جو اَب کھلم کھلا اور دلیری سے مسیح کی مصلوبیّت کی ذمہ داری قبول کر رہے تھے بعد میں اِس سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ اعمال کی کتاب میں، یہی لوگ یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد رسولوں کی منادی کی مذمت اِن الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں: "ہم نے تو تُمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا مگر دیکھو تُم نے تمام یروشلیم میں اپنی تعلیم پھیلا دی اور اُس شخص کا خُون ہماری گردن پر رکھنا چاہتے ہو" (نیا عہدنامہ، اعمال 5: 28)۔

مسیح کو کوڑے لگائے جاتے ہیں

"اِس پر اُس نے برابّا کو اُن کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا کہ مصلُوب ہو۔ اِس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اُس کے گرد جمع کی۔ اور اُس کے کپڑے اُتار کر اُسے قرمزی چوغہ پہنایا۔ اور کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھّا اور ایک سرکنڈا اُس کے دہنے ہاتھ میں دِیا اور اُس کے آگے گُھٹنے ٹیک کر اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑانے لگے کہ اَے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور اُس پر تُھوکا اور وُہی سرکنڈا لے کر اُس کے سر پر مارنے لگے۔ اور جب اُس کا ٹھٹّھا کر چکے تو چوغہ کو اُس پر سے اُتار کر پھر اُسی کے کپڑے اُسے پہنائے اور مصلُوب کرنے کو لے گئے۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 26۔ 31)

یہودیوں کے قانون کے مطابق مصلوبیّت کی سزا پانے والے کو پہلے کوڑے مارے جاتے تھے جن کی تعداد انتالیس تھی۔ لیکن رومی قانون کہیں زیادہ بے رحم تھا۔ سزا پانے والے مجرموں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ کوڑے مارے جاتے تھے جو لوہے، سیسہ یا ہڈیوں کے تیز دھار ٹکڑوں سے جڑے ہوتے تھے۔ نتیجہ کے طور پر، سزا پانے والا اکثر اِس عمل میں بے ہوش ہو جاتا، اور بعض صورتوں میں مر بھی جاتا تھا۔

رومی سپاہی مسیح کو لے گئے اور آپ کے ساتھ بہت بری طرح سے پیش آئے۔ اُنہوں نے یہ سُن کر کہ آپ کو یہودیوں کا بادشاہ کہا گیا ہے، آپ کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ آپ کو قلعہ کے اندر لے گئے اور ساری پلٹن آپ کے گرد جمع کی۔ پھر آپ کے کپڑے اُتار کر آپ کو قرمزی چوغہ پہنایا۔ اور اِس کے بعد کانٹوں کا ایک تاج بنا کر آپ کے سر پر رکھ دیا۔ اِس تضحیک میں اضافہ کرنے کےلئے اُنہوں نے ایک سرکنڈا آپ کے ہاتھ میں دیا اور آپ کے بادشاہ ہونے کے دعوے کا مذاق اُڑایا۔ اُنہوں نے آپ کے آگے گھٹنے ٹیک کر کہا، "اَے یہودیوں کے بادشاہ آداب۔" اُنہوں نے آپ کے ہاتھ سے وہ سرکنڈا چھین کر آپ کو مارا اور آپ پر تھوکتے ہوئے اپنا مذاق جاری رکھا۔

مسیح کو بچانے کی ایک آخری کوشش

"پیلاطُس نے پھر باہر جا کر لوگوں سے کہا کہ دیکھو مَیں اُسے تُمہارے پاس باہر لے آتا ہُوں تا کہ تُم جانو کہ مَیں اُس کا کچھ جُرم نہیں پاتا۔ یسوع کانٹوں کا تاج رکھے اور اَرغوانی پَوشاک پہنے باہر آیا اور پیلاطُس نے اُن سے کہا، دیکھو یہ آدمی! جب سردار کاہن اور پیادوں نے اُسے دیکھا تو چلاّ کر کہا، مصلُوب کر مصلُوب! پیلاطُس نے اُن سے کہا کہ تُم ہی اِسے لے جاؤ اور مصلُوب کرو کیونکہ مَیں اِس کا کچھ جُرم نہیں پاتا۔ یہودیوں نے اُسے جواب دِیا کہ ہم اہلِ شریعت ہیں اور شریعت کے مُوافق وہ قتل کے لائق ہے کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا بنایا۔ جب پیلاطُس نے یہ بات سُنی تو اَور بھی ڈرا۔ اور پھر قلعہ میں جا کر یسوع سے کہا، تُو کہاں کا ہے؟ مگر یسوع نے اُسے جواب نہ دِیا۔ پس پیلاطُس نے اُس سے کہا، تُو مُجھ سے بولتا نہیں؟ کیا تُو نہیں جانتا کہ مُجھے تُجھ کو چھوڑ دینے کا بھی اِختیار ہے اور مَصلُوب کرنے کا بھی اِختیار ہے؟ یسوع نے اُسے جواب دیا کہ اگر تُجھے اُوپر سے نہ دیا جاتا تو تیرا مُجھ پر کچھ اِختیار نہ ہوتا۔ اِس سبب سے جِس نے مُجھے تیرے حوالہ کیا اُس کا گُناہ زیادہ ہے۔ اِس پر پیلاطُس اُسے چھوڑ دینے میں کوشش کرنے لگا مگر یہودیوں نے چِلاّ کر کہا، اگر تُو اُس کو چھوڑے دیتا ہے تو قَیصر کا خیر خواہ نہیں۔ جو کوئی اپنے آپ کو بادشاہ بناتا ہے وہ قَیصر کا مخالف ہے۔ پیلاطُس یہ باتیں سُن کر یسوع کو باہر لایا اور اُس جگہ جو چبُوترہ اور عبرانی میں گبّتا کہلاتی ہے تختِ عدالت پر بیٹھا۔ یہ فسح کی تیّاری کا دِن اور چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔ پھر اُس نے یہودیوں سے کہا، دیکھو یہ ہے تُمہارا بادشاہ۔ پس وہ چِلاّئے کہ لے جا! لے جا! اُسے مصلُوب کر! پیلاطُس نے اُن سے کہا، کیا مَیں تُمہارے بادشاہ کو مصلُوب کرُوں؟ سردار کاہنوں نے جواب دِیا کہ قَیصر کے سِوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔ اِس پر اُس نے اُس کو اُن کے حوالہ کیا کہ مصلُوب کیا جائے۔ پس وہ یسوع کو لے گئے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 4۔ 16)

پیلاطُس، مسیح کو سپاہیوں سے دور لے گیا، اور انتظار کرنے والے ہجوم کے سامنے پیش کیا، اور مسیح کی بےگناہی کے بارے میں دوبارہ بات کی۔ یہ سُنتے ہی یہودیوں نے متحد ہو کر نعروں میں مسیح کی مصلوبیّت کا تقاضا کیا۔ اِس پر پیلاطُس نے دوبارہ مسیح کی بےگناہی کا اعلان کیا، اور ہجوم کو کہا کہ "تُم ہی اِسے لے جاؤ اور مصلُوب کرو۔" لیکن اُنہوں نے جواب دیا: "ہم اہلِ شریعت ہیں اور شریعت کے مُوافق وہ قتل کے لائق ہے۔"

پیلاطُس حکمت اور فضیلت میں مسیح کی برتری کا قائل تھا۔ جب اُسے معلوم ہُوا کہ یسوع نے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا کہا ہے تو اُس نے آپ سے آپ کی اصلیت کے بارے میں سوال کیا۔ لیکن جب یسوع نے اُسے کوئی جواب نہ دیا تو پیلاطُس نے آپ کو جھڑکتے ہوئے یاد دِلایا کہ "تُو مُجھ سے بولتا نہیں؟ کیا تُو نہیں جانتا کہ مُجھے تُجھ کو چھوڑ دینے کا بھی اِختیار ہے اور مصلُوب کرنے کا بھی اِختیار ہے؟" یسوع کی طرف ایسی معلومات کو ظاہر نہ کرنے سے پیلاطُس حیران ہُوا جن سے آپ کی رہائی میں مدد ملتی۔ اُس نے سوچا کہ مسیح اُن کوششوں کا ضرور لحاظ کرے گا جو وہ اپنی طرف سے کر رہا تھا۔ لیکن پیلاطُس کون تھا جو اِس طرح کے اختیار کا دعویٰ کر رہا تھا؟ کیا اُس کے پاس خوف کا مقابلہ کرنے اور اپنے ضمیر کی پکار پر عمل کرنے کی اَخلاقی طاقت تھی؟ کیا اُسے اپنے دورِ حکومت میں یہودیوں کے خیالات پر اختیار تھا؟ کیا اُس کے پاس مسیح کو اپنے مقصد سے ہٹانے کی طاقت تھی؟ پیلاطُس کےلئے یہ بہتر ہوتا کہ وہ اختیار کے بارے میں کچھ نہ کہتا، خاص طور پر جب اُس نے پہلے ہی اپنی رعایا کو خوش کرنے کےلئے مسیح کی بے گناہی کے بارے میں اپنے اعتقاد کے حوالہ سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔

اختیار کی بابت پیلاطُس کے دعوے کے جواب میں مسیح نے اپنی حقیقی عظمت اور اختیار کو اِن الفاظ میں بیان کیا: "اگر تُجھے اُوپر سے نہ دیا جاتا تو تیرا مُجھ پر کچھ اِختیار نہ ہوتا۔ اِس سبب سے جِس نے مُجھے تیرے حوالہ کیا اُس کا گُناہ زِیادہ ہے۔" جس نے مسیح کو پیلاطُس کے حوالے کیا تھا وہ سردار کاہن تھا۔ ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں مسیح نے سردار کاہن کے گناہ کو پیلاطُس کے گناہ پر بڑا کہا۔ پیلاطُس کو سردار کاہن نے گمراہ کیا تھا، لیکن سردار کاہن اپنے ہی بُرے دل کے باعث خود فریبی کا شکار ہو گیا تھا۔

یسوع کے جواب نے پیلاطُس کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب اُسے بدی کی قوتوں پر مسیح کے مکمل اختیار کا احساس ہو گیا تو ایک بار پھر وہ آپ کو رہا کرنا چاہتا تھا۔ آخرکار یہودی راہنماؤں کی تمام چالیں ختم ہوئیں اور اُنہوں نے دھمکیوں کا سہارا لیا۔ اگر پیلاطُس راستباز آدمی ہوتا، تو خطرہ انصاف اور سچائی کےلئے اُس کے عزم کو بڑھا دیتا، کیونکہ کوئی بھی چیز ایک بڑے، راستباز آدمی کو اُس کے راست ارادے میں دھمکی کی طرح مضبوط نہیں کر سکتی۔ لیکن بدقسمتی سے پیلاطُس کے روم میں قیصر کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اُس کے بارے میں کچھ حقیقی شکایات پہلے ہی قیصر تک پہنچ چکی تھیں جو اُسے کسی بھی معمولی سی غلطی پر معزول کرنے کےلئے تیار تھا۔ لہٰذا، یہودی راہنماؤں نے پیلاطُس کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے مسیح کو آزاد کرنے کی ہمت کی تو وہ غداری کرے گا۔ یہ پیلاطُس کو قیصر کا دشمن ظاہر کرے گا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ روم کو اُس کی وفاداری کے بارے میں خبر کا کیا مطلب ہونا تھا۔ اور اِس طرح، یہودیوں کی دھمکیوں نے پیلاطُس کو اُن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا۔ اُس نے اُن سے کہا، "دیکھو یہ ہے تُمہارا بادشاہ۔" لیکن اُن کا اصرار تھا کہ وہ مسیح کو مصلوب کرے۔ اِس پر پیلاطُس نے مزید اعتراض کیا "کیا مَیں تُمہارے بادشاہ کو مصلُوب کروں؟" اُنہوں نے فوراً جواب دیا، "قَیصر کے سِوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔" اُنہوں نے اپنا اثر و رسوخ ثابت کرنے کےلئے سیاسی حکمت کا استعمال کیا۔ اُن کے یہ الفاظ کلامِ مقدّس کی اِس نبوّت کے خلاف تھے: "یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اُس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہو گا۔ جب تک شیلوہ نہ آئے اور قومیں اُس کی مطیع ہوں گی" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 49: 10)۔

پیلاطُس کے پاس مسیح کو مصلوب کرنے کےلئے اُن کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی اَور چارہ نہ رہا۔ مسیح کو پکڑ کر اُس کا مزید ٹھٹھا اُڑایا گیا۔ پھر قرمزی چوغہ اُتار کر آپ کے کپڑے آپ کو پہنائے اور مصلُوب کرنے کو لے گئے۔

تاریخی اندراجات میں، پیلاطُس کو انتہائی ضدی شخص قرار دیا گیا ہے، اور اُس کی یہ خصلت یہودی راہنماؤں پر اُس کے اثر انداز ہونے کی مختلف کوششوں میں سامنے آئی۔ اپنی ضد سے اُس نے تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر ثابت کر دیا کہ مسیح بے گناہ ہے، اور یہ کہ یہودیوں کے راہنما بے انصاف ہیں۔ پیلاطُس کا مسیح کو مصلوبیّت کےلئے حوالے کر دینے سے مسیح کے یہ الفاظ سچ ثابت ہُوئے کہ آپ اونچے پر چڑھائے جائیں گے اور دُنیا کو زندگی بخشنے کےلئے اپنی جان دیں گے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 14۔ 16)۔

4- مسیح کی مصلوبیّت

"اِس پر اُس نے اُس کو اُن کے حوالہ کیا کہ مصلُوب کیا جائے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 16)۔ یہ الفاظ زمین پر مسیح کی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز ہیں، جب آپ تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ دینے کو تھے۔ اِس کفارہ کے کام کےلئے آپ کو وہ دُکھ برداشت کرنا تھا جس کی شدت پہلے کی تمام آزمایشوں اور مصیبتوں سے کہیں زیادہ تھی۔ یہودیوں کے راہنماؤں نے جو چاہا تھا وہ حاصل کر لیا، اور اب لوگ مردِ معجزات کو تھکا ہارا، لہولہان اپنے سامنے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جناب یسوع بنی نوع انسان کی بدیوں کےلئے قربان ہونے کو اپنی راہ پر گامزن تھے، اور آپ وہی ہیں جس کی بابت کہا گیا تھا: "دیکھو یہ خُدا کا برہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 1: 29)۔ آپ اپنی صلیب اُٹھائے ہوئے شہر کی گلیوں میں سے ویسے ہی گزرے جیسے آپ کے اجداد میں سے جناب اضحاق لکڑیاں اُٹھائے ہوئے قربان گاہ کی طرف گئے جہاں پر جناب ابراہام آپ کو سوختی قربانی کےلئے ذبح کرنے کو تھے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 22: 6)۔

مسیح کا صلیب کے بوجھ تلے لڑکھڑانا

"اور جب اُس کا ٹھٹّھا کر چُکے تو چوغہ کو اُس پر سے اُتار کر پھر اُسی کے کپڑے اُسے پہنائے اور مصلُوب کرنے کو لے گئے۔ جب باہر آئے تو اُنہوں نے شمعُون نام ایک کُرینی آدمی کو پا کر اُسے بیگار میں پکڑا کہ اُس کی صلِیب اُٹھائے" (اِنجیل بمطابق متی 27: 31۔ 32)

اُس دن مسیح کی جسمانی تھکن کے اسباب واضح ہیں۔ وہ ایسے تھے کہ آپ صلیب کے بوجھ تلے دب گئے۔ آپ کی روحانی اور جسمانی تکالیف نے آپ کی توانائی نچوڑ کر رکھ دی، اور آپ کو صلیب کےلئے لے کر جانے والے افراد نے ایک آدمی کو بیگار میں پکڑا کہ آپ کی صلیب اُٹھائے۔ جناب مسیح باغِ گتسمنی میں گرفتاری کے بعد سے بالکل نہیں سوئے تھے۔ وہاں سے آپ کو گرفتار کر کے سردار کاہن کے محل میں لے جایا گیا، پھر صدر عدالت میں اور آخر میں پیلاطس کے قلعہ میں لے جایا گیا۔ اِن پیشیوں کے دوران مسیح کو کافی طویل وقت تک کھڑا ہونا پڑا تھا، نیز آپ کو بار بار مارا پیٹا گیا اور کوڑے مارے گئے، اور اِس سب میں آپ کا یقیناً بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا۔

مسیح کی نرم، حساس اور محبّت کرنے والی رُوح کے رُوحانی دُکھ کس قدر بڑے تھے۔ ہم مختلف واقعات کی بناء پر مسیح کی مایوسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جن میں یہوداہ کی غداری، پطرس کا انکار، شاگردوں کا اِس بات پر تنازعہ کہ اُن میں بڑا کون ہے اور پھر بعد میں مسیح کی گرفتاری کے وقت بھاگ جانا، اور باغ میں مسیح کی جانکنی شامل ہے۔ اب مسیح پر مسلسل تشدد کے ساتھ ساتھ بھوک، تھکان اور سردی نے آپ کی اذیت میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ اِن تمام عوامل کی بناء پر آپ صلیب کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ اِن بہت سی مصیبتوں میں، جیسا کہ آپ کی بیابانی آزمایش میں ہُوا تھا، آپ کی انسانیت ایک بڑی آزمایش میں تھی۔

یسوع کو چار محافظ مصلوب کرنے کی جگہ کی طرف لے کر جا رہے تھے۔ جب اُنہوں نے آپ کو صلیب کے بوجھ تلے لڑکھڑاتے دیکھا، تو اُنہوں نے شمعُون نام ایک کُرینی آدمی کو بیگار میں پکڑا تا کہ آپ کی صلیب اُٹھائے۔ مصلوبیّت کے ساتھ وابستہ بڑی بےعزتی کی وجہ سے اُس تمام ہجوم میں سے کوئی بھی ایسی خدمت کےلئے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کرنے والا نہ تھا۔ تاہم، جو شرم کی بات سمجھی جاتی تھی، وہ ایک اعزاز بن گئی، اور یوں شمعون کُرینی مسیح کی صلیب کو اُٹھانے میں مدد کرتے ہوئے مقدسین میں ایک نمایاں مقام کا حامل بن گیا۔

ہجوم آٹھ محافظوں اور دو مجرموں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ دونوں مجرموں میں سے ہر ایک نے اپنے سر پر ایک نشان اٹھا رکھا تھا، جس میں اُس کا نام، آبائی شہر اور اُس جرم کی نشاندہی تھی جس کی اُسے سزا دی جا رہی تھی۔ جہاں تک مسیح کے نام والے کتابہ کا تعلق ہے، اُس پر تین زبانوں میں تحریر موجود تھی: (1) یہودی مذہب کی زبان عبرانی، کیونکہ وہ ابنِ داؤد اور ابنِ خُدا تھا (2) علم کی زبان یونانی، کیونکہ وہ دُنیا کی روشنی اور ابدی سچائی تھا، اور (3) سیاست کی زبان لاطینی، کیونکہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور خُداوندوں کا خُداوند تھا۔ اِس لئے اُس کتابہ پر لکھا تھا: "یہ یہودیوں کا بادشاہ یسوع ہے" (اِنجیل بمطابق متی 27: 37)۔ مسیح کا جرم یہ تھا کہ وہ قیصر کے خلاف بغاوت کر کے یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا۔

یروشلیم کی عورتیں کا مسیح کےلئے رونا

"اور لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ اور بُہت سی عَورتیں جو اُس کے واسطے روتی پِیٹتی تھیں اُس کے پیچھے پیچھے چلِیں۔ یسوع نے اُن کی طرف پھر کر کہا، اَے یروشلیم کی بیٹیو! میرے لئے نہ رو بلکہ اپنے اور اپنے بچّوں کےلئے رو۔ کیونکہ دیکھو وہ دِن آتے ہیں جِن میں کہیں گے، مُبارک ہیں بانجھیں اور وہ رحم جو باروَر نہ ہُوئے اور وُہ چھاتیاں جنہوں نے دُودھ نہ پلایا۔ اُس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چُھپا لو۔ کیونکہ جب ہرے درخت کے ساتھ اَیسا کرتے ہیں تو سُوکھے کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا جائے گا؟ اور وہ دو اَور آدمیوں کو بھی جو بدکار تھے لئے جاتے تھے کہ اُس کے ساتھ قتل کئے جائیں۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 27۔ 32)

پیلاطُس نے آخر تک مسیح کی بےگناہی کو برقرار رکھا۔ لیکن جب اُس نے آپ کو مصلوب ہونے کےلئے حوالے کیا تو وہ سب کو یہ دکھانے کا پابند تھا کہ مسیح کا جرم سزا کے مطابق ہے، اور اِس ضمن میں اُسے غلط بیانی کی اجازت نہ تھی۔ لیکن پیلاطُس نے اِس ناانصافی کو سرانجام دینے کےلئے اپنے اوپر یہودی دباؤ کے خلاف اِس لحاظ سے بدلہ لیا کہ اُس نے مسیح کے سر کے اوپر کتابہ پر یہ الفاظ کندہ کئے: "یہودیوں کا بادشاہ۔" یوں یہ رسوائی اُن یہودیوں پر پڑی جو اپنے ہی بادشاہ کو مصلوب کر رہے تھے۔ سردار کاہنوں نے اِس نوشتہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، "یہودیوں کا بادشاہ نہ لِکھ بلکہ یہ کہ اُس نے کہا، مَیں یہودیوں کا بادشاہ ہُوں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 21)۔ اُن کی تنقید کے باوجود، پیلاطُس نے یہ کہتے ہوئے اپنے فیصلے کو برقرار رکھا: "مَیں نے جو لِکھ دِیا وہ لِکھ دِیا" (یوحنّا 19: 22)۔ یہ وہی ہے جس نے پوچھا تھا کہ حق کیا ہے، اور اَب اُس نے حق کی خدمت کی تھی، اگرچہ اُسے اِس بات کا احساس نہیں تھا۔

اِس طرح کے نظارہ سے یروشلیم کی گلیوں میں ایک بہت بڑا ہجوم کھِنچا چلا آیا، اور جمع ہونے والی بہت سی عورتیں اُس المناک منظر پر غم سے نڈھال ہو گئیں۔ وہ زور زور سے رونے اور نوحہ کرنے لگیں۔ ظاہر ہے، اُنہیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ یہودی بزرگ اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے، اور نہ ہی اُنہیں اپنے جذبات کے کھلے عام اظہار پر ملامت کئے جانے کا خوف تھا۔ لیکن مسیح نے عورتوں کی طرف سے اِس رونے پر اعتراض کیا، حالانکہ یہ رونا ہی اُس صبح کو محبت بھرے جذبات کا کھلا اظہار تھا۔ اُنہیں مسیح کےلئے نہیں بلکہ اپنے لئے رونا چاہئے تھا۔ جو وہ نہیں دیکھ سکتی تھیں، آپ دیکھ سکتے تھے، ناقابل بیان ہولناکیاں جن کا یروشلیم کے باشندے جلد ہی تجربہ کرنے کو تھے۔ وہ ایک دن یہ خواہش کریں گے کہ کاش اونچے پہاڑ اُن پر گر پڑیں، تا کہ وہ اُن عظیم مصائب سے بچ جائیں جن کے مقابلہ میں موت لعنت نہیں بلکہ رحمت کی طرح محسوس ہو گی۔ آپ نے اُن سے پوچھا کہ جب اُنہوں نے رومیوں کو اجازت دی کہ آپ کو، جو نرم اور ہری شاخ کی مانند ہیں اور جس میں راستبازی کی زندگی بہتی ہے، مصلوب کریں، تو اُن کے ساتھ کیا کچھ ہو گا جو سوکھی ڈالی کی طرح ہیں اور نیکی سے خالی ہیں۔ جناب مسیح نے تصور میں وہ دِن دیکھا جب یروشلیم کی آنے والی بڑی تباہی کے دوران بےشمار صلیبیں کھڑی کی جائیں گی، اور اُن پر جو افراد کیلوں سے جڑے ہوں گے اُن میں سے کچھ آپ کو مصلوب کرنے والے اور اُن کے عزیز و اقارب ہوں گے۔ اُس وقت تمام رونا غیر ضروری تھا کیونکہ مسیح نے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔ اگرچہ وہاں موجود افراد نے مسیح کو شکست کی حالت میں دیکھا لیکن صرف آپ جانتے تھے کہ یہی فتح کا مقام ہے۔ اِس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آپ نے اپنی مصلوبیّت پر اُن عورتوں کے رونے پر اعتراض کیا۔

مسیح ایک شہید نہیں تھا

مسیح کی موت کو شہید کی موت نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ شہید اپنی مرضی کے برخلاف مارے جاتے ہیں۔ اگرچہ اُن کا نیک مقصد اپنے لئے خُدا تعالیٰ کی مرضی کی مخالفت کے بجائے موت کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو اپنے دشمنوں سے بچانے میں بےبس رہتے ہیں۔ تاہم، مسیح کا مقام واضح طور پر مختلف ہے۔ اگر آپ اپنے اختیار میں اپنے آپ کو اپنے دُشمنوں سے بچانے کا چناؤ کرتے تو ایسا ممکن ہو سکتا تھا۔ لیکن چونکہ نسلِ انسانی کی نجات آپ کی بہ رضا و رغبت مصلوبیت کی قبولیت پر منحصر تھی، اِس لئے اگر آپ نے اپنے آپ کو بچانے کا انتخاب کیا ہوتا تو بنی نوع انسان ابدی ہلاکت کا شکار ہو جاتے۔

مسیح کی مصلوبیّت کو محض ایک بااثر تاریخی واقعہ سمجھنا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا اہم واقعہ ہے جس پر ہماری موجودہ رُوحانی زندگی اور ابدی خوشی کا انحصار ہے۔ پولس رسول نے اِس اہم سچائی کو گہرے طور پر سمجھا اور نئے عہدنامہ میں اِس پر زور دیا۔ اِس اہم پیغام کا اظہار اِن آیات میں کیا گیا ہے: "مَیں مسیح کے ساتھ مصلُوب ہُوا ہُوں اور اب مَیں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مُجھ میں زندہ ہے اور مَیں جو اَب جسم میں زندگی گُزارتا ہُوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گُزارتا ہُوں جِس نے مُجھ سے محبّت رکھّی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 2: 20); "چُنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پُرانی انسانیّت اُس کے ساتھ اِس لئے مصلُوب کی گئی کہ گناہ کا بدن بیکار ہو جائے تا کہ ہم آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 6: 6); "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 5: 17)۔

مسیح کا درد کش مے پینے سے انکار کرنا

"اور اُس جگہ جو گُلگُتا یعنی کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے پُہنچ کر پِت ملی ہُوئی مَے اُسے پِینے کو دی مگر اُس نے چکھ کر پِینا نہ چاہا۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 33۔ 34)

یہودی خواتین مصلوبیّت کی سزا سہنے والے اپنے ہم وطنوں کی تکلیف کو کم کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا کرتی تھیں، اور جب یہ جلوس مصلوبیّت کی جگہ پر پہنچا تو اُنہوں نے مسیح کو درد کش مے پیش کی۔ اِن عورتوں نے امثال 31: 6 کی نصیحت پر عمل کیا تھا: "شراب اُس کو پِلاؤ جو مرنے پر ہے اور مَے اُس کو جو تلخ جان ہے۔" کچھ جڑی بوٹیاں بھی شراب کے ساتھ ملا دی جاتی تھیں تا کہ سکون بخش اثر کو بڑھانے میں مدد ملے۔ لیکن مسیح نے اذیت کے کڑوے پیالہ کو پینے کا مُصمّم ارادہ کیا ہُوا تھا، اِس لئے آپ نے اِس درد کش مے کو پینے سے انکار کر دیا۔ آپ چاہتے تھے کہ صلیب پر سے وہاں جمع افراد سے کچھ ضروری الفاظ کہیں اور ساتھ ہی اپنے آسمانی باپ کے حضور اپنی دُعائیں پیش کریں، اِس لئے آپ نے اپنی ذہنی صلاحیت میں معمولی سی کمی سے بھی انکار کر دیا، جو یقینی طور پر ایسی مے سے پیدا ہو سکتی تھی۔ آپ کےلئے اپنی ذہنی اور رُوحانی قوتوں کو برقرار رکھنا ضروری تھا، اِس لئے جب آپ نے اُس مشروب کا مزہ چکھ کر اُسے پہچان لیا تو پینے سے انکار کر دیا۔

مسیح کا دو ڈاکوؤں کے درمیان مصلُوب کیا جانا

"اور اُنہوں نے اُسے مصلُوب کیا اور اُس کے کپڑے قُرعہ ڈال کر بانٹ لئے۔ اور وہاں بیٹھ کر اُس کی نگہبانی کرنے لگے۔ اور اُس کا الزام لکھ کر اُس کے سر سے اُوپر لگا دیا کہ یہ یہودیوں کا بادشاہ یسوع ہے۔ اُس وقت اُس کے ساتھ دو ڈاکو مصلُوب ہُوئے۔ ایک دہنے اور ایک بائیں۔ اور راہ چلنے والے سر ہِلا ہِلا کر اُس کو لعن طعن کرتے اور کہتے تھے۔ اَے مقدِس کے ڈھانے والے اور تین دِن میں بنانے والے اپنے تئیں بچا۔ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اُتر آ۔ اِسی طرح سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر ٹھٹّھے سے کہتے تھے۔ اِس نے اَوروں کو بچایا۔ اپنے تئیں نہیں بچا سکتا۔ یہ تو اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اب صلیب پر سے اُتر آئے تو ہم اِس پر ایمان لائیں۔ اِس نے خُدا پر بھروسا کیا ہے اگر وہ اِسے چاہتا ہے تو اَب اِس کو چُھڑا لے کیونکہ اِس نے کہا تھا مَیں خُدا کا بیٹا ہُوں۔ اِسی طرح ڈاکو بھی جو اُس کے ساتھ مصلُوب ہُوئے تھے اُس پر لعن طعن کرتے تھے۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 35۔ 44)

مسیح کے ساتھ دو ڈاکوؤں کو بھی مصلوب کیا گیا، اور سپاہیوں نے آپ کی صلیب کو اُن کی صلیبوں کے درمیان رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بغاوت کرنے والے برابّا کے ساتھ ڈکیتی اور قتل میں ساتھی تھے، اور یہ درمیانی صلیب اصل میں اُن کے سردار برابّا کےلئے بنائی گئی تھی۔ یوں، جناب مسیح اُس کی جگہ پر مصلوب ہوئے۔ بعض قدیم تحریروں سے یہ پتا چلتا ہے کہ برابّا کا نام "یشوع" تھا جس کا مطلب ہے "نجات دہندہ،" جبکہ برابّا کا مطلب ہے "باپ کا بیٹا۔" یوں اُس نے اپنے نام کی وجہ سے یہ تصور کیا کہ وہ یہودی لوگوں کو روم کے جوئے سے بچائے گا۔ یہ اُن جرائم کی بنیاد تھی جس کی وجہ سے اُسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصلوبیّت کے ذریعے موت کی سزا سنائی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ ہجوم نے مسیح کی جگہ اُس کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

سپاہی کسی قیدی کو صلیب پر چڑھانے کی غرض سے اُسے اُس کی صلیب پر اُس وقت باندھتے تھے جب وہ زمین پر پڑی ہوتی۔ پھر، وہ اُس کی کلائیوں اور پیروں میں بڑے کیل ٹھونکتے، جس کے بعد وہ صلیب کو اٹھاتے اور اُسے زمین میں سیدھا گاڑھ دیتے۔ پھر وہ اُس شخص کے مرنے تک وہاں پر پہرہ دیتے تھے۔ نتیجتاً، مصلوب ہونے والے شخص کا کوئی بھی دوست یا رشتہ دار اُسے اُتار نہیں سکتا تھا۔ مصلوب شخص اکثر اپنے مصلوب ہونے کے بعد دو دن یا کم از کم ایک پورا دن زندہ رہتا تھا۔ اور چونکہ اُس کی موت یقینی ہوتی تھی تو یہ محافظ اکثر تفریح ​​کے طور پر تشدد کرتے تھے۔ قیدی کو جلد موت دینے کےلئے یہ اکثر لوہے کی سلاخ سے اُس کی ٹانگیں توڑ دیتے تھے۔ رومی قیدی کی لاش کو گِدّھوں اور دوسرے جنگلی درندوں کےلئے صلیب پر چھوڑ دیتے تھے، لیکن یہودی غروبِ آفتاب سے پہلے لاش کو اُتارنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ جہاں تک مصلوب شخص کے لباس کا تعلق ہے، یہ قانون کے مطابق محافظوں کے پاس چلا جاتا تھا۔

مسیح کی اپنے مصلُوب کرنے والوں کےلئے معافی

"یسوع نے کہا، اَے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔ اور اُنہوں نے اُس کے کپڑوں کے حِصّے کئے اور اُن پر قُرعہ ڈالا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)

جب سپاہیوں نے مسیح کو مصلوب کرنا شروع کیا تو دن کے تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ اِس عرصہ کے دوران، یسوع پر یہودی صدر عدالت، رومی حاکم اور ہیرودیس بادشاہ کے سامنے مقدمہ چلایا گیا، اور پھر آپ کو مصلوب کرنے کے مقام پر لے جایا گیا۔ سپاہی، مصلوب شدہ افراد کی غصہ بھری چیخوں، طعنوں اور گستاخانہ الفاظ سُننے کے عادی تھے۔ غالباً، اِس ضمن میں دونوں ڈاکو دیگر قیدیوں کی طرح تھے۔ جہاں تک مسیح کا تعلق ہے، صلیب پر آپ کے پہلے الفاظ کے ساتھ ہی آپ کو اپنے اذیت دینے والوں کےلئے محبت بھری دعا کرتے ہوئے سُنا گیا: "اَے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔" آپ نے یہ دُعا اِس لئے نہیں کی تھی کہ جو کچھ وہ کر رہے تھے اُس سے وہ ناواقف تھے، بلکہ اِس لئے کی کہ وہ پوری طرح سے نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہے جسے وہ صلیب پر چڑھا رہے تھے۔ پولس رسول نے کہا: "جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خُداوند کو مصلُوب نہ کرتے" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 2: 8)۔

مسیح کی دُعا کے الفاظ "اَے باپ! اِن کو مُعاف کر" ایک نئی بولی ہے جو ہم نے اِس سے پہلے نہیں سُنی۔ اِس سے پہلے آپ نے ایسے فرد کے طور پر معافی عطا فرمائی تھی جس کو ایسا کرنے کا حق تھا۔ لیکن اب آپ ایک ایسے شخص کے طور پر بات کرتے ہیں جو دوسروں پر اپنے حقوق کی وجہ سے معاف کرتا ہے اور جسے اِس بات کی فکر ہے کہ اُن کے اعمال کی وجہ سے آنے والا الٰہی غضب اُن پر سے دور ہو جائے۔

نبوّتیں پوری ہوتی ہیں

رومی سپاہی نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، کیونکہ وہ بت پرستی کے اندھیرے میں تھے، اور نہ ہی یہودی راہنماؤں کو معلوم تھا کیونکہ اُنہوں نے جان بوجھ کر نور کی طرف اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں، اِس لئے اُن پر ایسا اندھا پن آیا جو ہر اُس شخص پر آتا ہے جو طویل عرصہ تک اپنے آنکھیں بند کئے رکھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں اور جب اُنہوں نے اپنے ہونٹوں سے مسیح کا انکار کیا تو بغیر علم کے اور اپنی ناراستی میں اپنے مسیحا کے بارے میں پیشین گوئیوں کو پورا کیا۔ مثلاً، آپ کو صلیب پر کیلوں سے جڑنے میں مدد کرنے سے اُنہوں نے زبور 22: 16 کی پیشین گوئی کو پورا کیا جہاں لکھا ہے: "... کُتّوں نے مُجھے گھیر لیا ہے۔ بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرے ہُوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔" اور آپ کو صلیب پر دو ڈاکوؤں کے درمیان لٹکانے سے اُنہوں نے یسعیاہ 53: 9، 12 کی پیشین گوئی کو پورا کیا جہاں لکھا ہے: "اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ مُوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اُس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔ ... اِس لئے مَیں اُسے بزُرگوں کے ساتھ حصّہ دُوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے انڈیل دی اور وہ خطا کاروں کے ساتھ شُمار کیا گیا تَو بھی اُس نے بُہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی۔" جب رومی سپاہیوں نے پیلاطُس کی پہنائی ہوئی ارغوانی پوشاک کے آپس میں حصے کر لئے اور پھر آپ کے بِن سِلے بُنے ہُوئے کرتے کو لے کر اُس کےلئے قرعہ ڈالا تو اُنہوں نے اُس پیشین گوئی کو پورا کیا جو بیان کرتی ہے کہ "وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں" (زبور 22: 18)۔ آپ کے کپڑے اُتار کر اُنہوں نے ایک اَور نبوّت کو پورا کیا جس میں لکھا ہے: "مَیں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہُوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں" (زبور 22: 17)۔

مسیح مصلوب کو کانٹوں کا تاج پہنایا گیا، اور آپ کے سر پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے: ''یہودیوں کا بادشاہ۔'' بصیرت رکھنے والا ہر شخص آپ کے چہرے کی خوبصورتی اور آپ کی پیشانی پر سجے دیگر جلالی تاج دیکھ سکتا ہے جن میں بڑی حکمت، قدرت، اور آسمانی پاکیزگی کے تاج شامل ہیں۔ یہ سب تاج گویا مل کر ایک اَور بڑا تاج بناتے ہیں جو مسیح کی مخلصانہ محبّت ہے جس کا اظہار آپ کے مبارک الفاظ اور اعمال میں ہُوا۔

کتنی ہی ملامتیں تھیں جو مسیح نے صلیب پر سُنیں! وہاں موجود تماشائیوں نے آپ کے اُن الفاظ کو جو آپ نے اپنی پوری خدمت کے دوران کہے تھے، توڑ مروڑ کر اپنے آپ کو خوش کیا، یہاں تک کہ آپ کے اُن الفاظ کا بھی مذاق اُڑایا گیا جو آپ نے پیلاطُس کے سامنے اپنے مقدمہ کے دوران کہے تھے۔ مثلاً، اُنہوں نے مسیح کے اُن الفاظ کا مذاق اُڑایا جب آپ نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ آپ مقدِس کو ڈھانے اور تین دِن میں اُسے دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل ہیں۔ اُنہوں نے آپ کے خُدا کا بیٹا اور دُنیا کا نجات دہندہ ہونے، مسیح اور بادشاہ ہونے کے دعوے کا بھی مذاق اُڑایا۔ اُنہیں صلیب پر مسیح کی موجودہ صورتحال دیکھ کر آپ کے دعوے تضاد محسوس ہوئے۔ اُنہوں نے مسیح کو چیلنج کیا کہ وہ صلیب پر سے اُتر آئے تا کہ وہ یہ دیکھ کر ایمان لے آئیں۔ لیکن اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا، جو آپ کر سکتے تھے، تو یہ تمام بنی نوع انسان کو خُدا سے ابدی جُدائی کی وجہ سے مایوسی میں مبتلا کر دیتا۔ آپ نے صلیب کے پاس ہجوم کی طرف سے یہ تمام ملامتیں برداشت کیں جو نبوتوں کی تکمیل کی مزید تصدیق تھی، کیونکہ زبور 22: 7، 8 میں لکھا ہے: "وہ سب جو مجھے دیکھتے ہیں، میرا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ وہ مُنہ چڑاتے۔ وہ سر ہِلاہِلا کر کہتے ہیں: اپنے کو خُداوند کے سپُرد کر دے۔ وُہی اُسے چُھڑائے۔ جبکہ وہ اُس سے خُوش ہے تو وُہی اُسے چُھڑائے۔"

رومی سپاہیوں نے طعنہ زنی کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو کر مسیح کو سرکہ پیش کیا اور کہا "اگر تُو یہودیوں کا بادشاہ ہے تو اپنے آپ کو بچا" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 37)۔ ڈاکوؤں نے بھی مسیح پر لعنت ملامت کی، لیکن اُن کا طنز دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل معافی تھا کیونکہ اُن کی اذیت نے اُن کے دِلوں میں غم کو بڑھا دیا تھا۔ غالباً، اُن کا مقصد مسیح کو اپنے آپ کو اور اگر ممکن ہو تو اُنہیں بچانے کی ترغیب دینا تھا۔ مسیح پر کی جانے والے تمام طعنہ زنی ایک اَور نبوّت کے عین مطابق تھی جس کا ذِکر زبور 69: 9 میں ہے: "... تجھ کو ملامت کرنے والوں کی ملامتیں مجھ پر آ پڑیں۔"

ایک ڈاکو کا توبہ کرنا

"جو بدکار صلیب پر لٹکائے گئے تھے اُن میں سے ایک اُسے یُوں طعنہ دینے لگا کہ کیا تُو مسیح نہیں؟ تُو اپنے آپ کو اور ہم کو بچا۔ مگر دُوسرے نے اُسے جھڑک کر جواب دِیا کہ کیا تُو خُدا سے بھی نہیں ڈرتا حالانکہ اُسی سزا میں گرفتار ہے؟ اور ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئی بےجا کام نہیں کیا۔ پھر اُس نے کہا، اَے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا۔ اُس نے اُس سے کہا، مَیں تجھ سے سچ کہتا ہُوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 39۔ 43)

مسیح نے ایک بار کہا تھا: "اور مَیں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 12: 32)۔ جو لوگ مسیح کی صلیب سے اُس کی طرف کھِنچے چلے آتے ہیں، وہ مسیح کے دُکھوں کے تاریک فلک پر تاروں کی مانند ہیں۔ اُس لمحہ فوراً پہلا ستارہ ظاہر ہُوا، پہلا تائب ڈاکو، جس کے بارے میں بہت سے بائبلی مفسّرین کا خیال ہے کہ وہ مسیح کی صلیب کی دائیں طرف تھا، آپ کی طرف کھنچا چلا آیا۔ اُس نے مسیح کے طرز عمل، خاموشی، صبر اور اپنے اذیت دینے والوں کےلئے دعاؤں کا مشاہدہ کیا تھا۔ اُس شخص نے خاص طور پر ناقابل بیان ملامت کے درمیان مسیح کی تسکین کو دیکھا تھا، اور اُس نے اِس کا موازنہ مسیح کے بائیں ہاتھ مصلوب ہونے والے اپنے ساتھی کے ساتھ کیا۔ وہ مصلوب ہونے والے نجات دہندہ پر ایمان لایا، اپنے اعمال سے توبہ کی، اور ہر ممکن طریقہ سے مسیح کی خدمت کرنے لگا، اُس نے بھیڑ اور یہودی راہنماؤں کے سامنے اپنے ساتھی کی سرزنش کی۔ اُس نے اکیلے ہی کمال دلیری کے ساتھ مسیح کا دفاع کیا۔ یوں اُس نے وہ کام کیا جو مسیح کے شاگرد باغِ گتسمنی میں کرنے میں ناکام رہے تھے۔

توبہ کرنے والا ڈاکو، درحقیقت اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: "اگر یہ ہجوم جو عذاب اور موت کی زد میں نہیں ہے، ہمارے ساتھ مصلوب ہونے والے فرد کو ملامت کر رہا ہے، تو کیا ہمارے لئے، جو اِس سزا کو واجبی طور پر پا رہے ہیں، یہ جائز ہے کہ ہم بھی ویسے ہی کریں؟ ہمارے برعکس یہ شخص بےقصور ہے۔" صلیب کے نیچے جمع لوگوں کو یہ الفاظ کتنے عجیب لگے ہوں گے جب ایک ڈاکو دوسرے سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ خُدا سے نہیں ڈرتا؟ اور ساتھ ہی یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے مصلوب ہونے کے مستحق تھے۔ اُس نے اپنے ساتھ مصلوب مسیحا کو "خُداوند" کہہ کر پُکارا۔ اپنے ماضی پر ندامت کے اُس کے آنسو کسی رصدگاہ کے عدسے کی طرح بن گئے، جو اُسے دوسروں کی نظروں سے دُور دیکھنے کے قابل بنا سکے۔ اُس نے ایمان سے مسیح مصلوب کی رُوحانی بادشاہی دیکھی، اور کہا "اَے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا۔" اِس شخص کی مثال سے کتنے ہی ہزار ہا لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اُنہیں سچی توبہ کے ساتھ مسیح کو قبول کر کے معافی اور نجات حاصل ہوئی!

یہ واقعہ اُن لوگوں کی، جنہوں نے اپنی زندگی گناہ میں ضائع کر دی ہے، حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ موت کے وقت توبہ کر لیں۔ بہت سے گنہگار جنہوں نے اپنی زندگی خُدا سے دُور گزاری، ایک سچی اور قابلِ قبول توبہ اِس وجہ سے ظاہر کی ہے کہ مسیح نے ڈاکو کو صلیب پر معاف کر دیا تھا۔ لیکن یہ ایک یکتا واقعہ ہے، اور گنہگاروں کو اِس بنیاد پر موت کی گھڑی تک توبہ میں تاخیر کرنے کا گمان نہیں کرنا چاہئے۔

مسیح نے ڈاکو کو فوری جواب دیا، اور اُسے موت کے فوراً بعد خوشی بخشنے کا وعدہ کیا۔ تب وہ خود اُس کا ساتھی ہو گا۔ اِس وعدے میں مسیح نے ایک بار پھر اپنے الٰہی اختیار کو ظاہر کیا، اور اُس لمحے ایک اَور پیشین گوئی پوری ہوئی: "اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اٹھا لے گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 11)۔

مسیح کو بڑی عید کے وقت مصلوب کیا گیا تھا، اور جب آپ صلیب پر لٹکے ہوئے تھے، تو موسیٰ کی شریعت کے مطابق ہیکل کے کاہن فصل کے پہلے پھل پیش کر رہے تھے۔ جب کاہن فصل کے اُن پُولوں کو پیش کر رہے تھے، ہمارے سردار کاہن مسیح نے آسمانی باپ کو اُن لوگوں کی فصل کا پہلا پھل پیش کیا جنہیں وہ اپنی موت سے ایمان اور نجات کی طرف لے کر آیا۔ ایک گنہگار کے توبہ کرنے پر فردوس میں خوشی نے آپ کو اپنے دُکھ بُھلا دیئے۔ آپ نے اِس ایک جان کے حصول کو اُن تمام چیزوں کا انعام سمجھا جو آپ نے زمین پر آسمانی جاہ و جلال کو چھوڑنے کے بعد برداشت کیا۔ یوں، صلیب پر آپ نے اپنی زبان مبارکہ سے پہلی مرتبہ کی طرح دوسری مرتبہ بھی کہنے والے الفاظ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی محبت میں کہے، اور یہ آپ کے قریبی لوگوں کےلئے نہیں تھے بلکہ اُن کےلئے تھے جو اپنی رُوح، افکار اور خوبیوں میں آپ سے دُور تھے۔

یہ دونوں ڈاکو پوری نسل انسانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مصلوب نجات دہندہ کے بائیں طرف وہ ہیں جو ہلاک ہو رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے گناہوں میں مر رہے ہیں۔ جبکہ دائیں طرف وہ ہیں جو ہمیشہ کےلئے نجات پاتے ہیں، کیونکہ وہ توبہ کرتے اور واحد نجات دہندہ پر پورا توکّل کرتے ہیں۔

مسیح کی اپنی ماں کےلئے فکرمندی

"اور یسوع کی صلیب کے پاس اُس کی ماں اور اُس کی ماں کی بہن مریم کلوپاس کی بیوی اور مریم مگدلینی کھڑی تھیں۔ یسوع نے اپنی ماں اور اُس شاگرد کو جس سے محبّت رکھتا تھا پاس کھڑے دیکھ کر ماں سے کہا کہ اَے عورت! دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔ پھر شاگرد سے کہا، دیکھ تیری ماں یہ ہے اور اُسی وقت سے وہ شاگرد اُسے اپنے گھر لے گیا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 25۔ 27)

صلیب پر مسیح کی پہلی پکار اپنے آسمانی باپ کےلئے تھی، جبکہ دوسری مرتبہ آپ نے توبہ کرنے والے ڈاکو سے بات کی۔ اِس کے بعد آپ نے اپنی والدہ مقدّسہ مریم سے بات کی جن کی جان اُس وقت گویا تلوار سے چِھدی ہوئی تھی جس کے بارے میں بزرگ شمعون نے تینتیس برس پہلے اُس وقت پیشین گوئی کی تھی جب اُس نے ننھے بچے یسوع کو اپنی بانہوں میں لیا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 2: 35)۔ مسیح کی والدہ ماجدہ شِدّت غم سے نکلنے والے بےتحاشا گرم آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھیں، اور یہ منظر دِل چھو لینے والا تھا۔ درحقیقت، صرف سب کچھ جاننے والی ذاتِ پاک ہی اُس گھڑی آپ کے غم کی شِدّت کو جان سکتی تھی۔ اپنے عظیم رُوحانی مقصد پر مسیح کی توجہ اور آپ کے صلیب پر تمام رُوحانی اور جسمانی کرب نے آپ کو اپنی والدہ مقدّسہ مریم کی جسمانی ضروریات کےلئے محبّت بھری فکر سے دُور نہ کیا۔ آپ نے بڑی شفقت سے اُن کی طرف دیکھا، اور آپ کا شاگرد یوحنّا اُن کے پاس کھڑا تھا، اور آپ نے فرمایا: "دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔" پِھر آپ نے شاگرد سے کہا، "دیکھ تیری ماں یہ ہے۔" آپ جانتے تھے کہ آپ کا یہ محبّت کرنے والا وفادار شاگرد آپ کی والدہ کی ایک فرض شناس بیٹے کی طرح خوب خدمت کرے گا، اور یہ آپ کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے ممکنہ خدمت سے زیادہ ہونی تھی۔ یوں، آپ نے یوحنّا کو ایک خاص اعزاز سے نوازا، اور اُس وقت سے یوحنّا نے مسیح کی والدہ کو اپنی والدہ کے طور پر لے لیا۔ اِس عمل کے ذریعے، یسوع نے ظاہر کیا کہ کُل وقتی مذہبی خدمت بھی اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ صلیب پر مسیح کے اِن الفاظ کے بعد مقدّسہ مریم کا ذِکر نہ ہونے سے ہم نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یوحنّا آپ کو مسیح کی موت کے آخری لمحات اور اُس کے فوراً بعد کے منظر کو دیکھنے سے بچانے کےلئے فوراً وہاں سے لے کر چلا گیا ہو گا۔

اَے میرے خُدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دِیا؟

"جب دوپہر ہُوئی تو تمام ملک میں اندھیرا چھا گیا اور تیسرے پہر تک رہا۔ اور تیسرے پہر کو یسوع بڑی آواز سے چِلاّیا کہ اِلوہی اِلوہی لما شَبقَتنی؟ جِس کا ترجمہ ہے، اَے میرے خُدا! اَے میرے خُدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دِیا؟ جو پاس کھڑے تھے اُن میں سے بعض نے یہ سُن کر کہا، دیکھو وہ ایلیّاہ کو بُلاتا ہے۔ اور ایک نے دَوڑ کر سپنج کو سرکہ میں ڈبویا اور سرکنڈے پر رکھ کر اُسے چُسایا اور کہا، ٹھہر جاؤ۔ دیکھیں تو ایلیّاہ اُسے اُتارنے آتا ہے یا نہیں۔ پھر یسوع نے بڑی آواز سے چِلاّ کر دم دے دیا۔ اور مقدِس کا پردہ اُوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ اور جو صُوبہ دار اُس کے سامنے کھڑا تھا اُس نے اُسے یُوں دم دیتے ہُوئے دیکھ کر کہا، بیشک یہ آدمی خُدا کا بیٹا تھا۔ اور کئی عَورتیں دُور سے دیکھ رہی تھیں۔ اُن میں مریم مگدلینی اور چھوٹے یعقُوب اور یوسیس کی ماں مریم اور سلومی تھیں۔ جب وہ گلیل میں تھا یہ اُس کے پیچھے ہو لیتی اور اُس کی خِدمت کرتی تھیں اور اَور بھی بُہت سی عَورتیں تھیں جو اُس کے ساتھ یروشلیم میں آئی تھیں۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 15: 33۔ 41)

جب جناب مسیح دنیا میں داخل ہُوئے تو ایک ستارے نے بیت لحم کے میدانوں کو اپنی چمکیلی روشنی سے منور کرتے ہوئے آپ کی پیدایش کا اعلان کیا۔ اور جب آپ دُنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو سورج چھپ گیا، آپ کی واقع ہونے والی موت کا اعلان ناقابل بیان غم کے ساتھ کر رہا تھا جس نے پوری دُنیا کو گہرے کفن سے گرہن لگا دیا تھا۔ دوپہر سے تیسرے پہر تک ایسا تھا جیسے فطرت مسیح کے غم میں شریک تھی، اور اُس نے ماتمی لباس پہن لیا تھا۔ سورج کے دھندلے پن کے عجیب و غریب ہونے کی سمجھ صرف مسیح پر خُدا کے غضب کے گہرے اسرار سے ہوتی ہے، جو کامل اِنسان اور باپ کا محبوب اور اکلوتا بھی تھا۔

صلیب پر سے مسیح کا چوتھا کلمہ اِس اندھیرے کی وجہ کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے: "اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" لیکن ہم کبھی بھی اِس راز کو پوری طرح سے سمجھنے کے قابل نہیں ہوں گے کہ اصل میں اُن خوفناک گھنٹوں کے دوران کیا ہوا جب آپ صلیب پر لٹکے ہوئے تھے، جب خُدا کے بیٹے کے طور پر وہ اپنے باپ کی طرف سے چھوڑ دیا گیا تھا۔ آپ کے یہ الفاظ اُن الفاظ سے بالکل مختلف تھے جو آپ نے پہلے کہے تھے۔ اِس مرتبہ، آپ نے "باپ" نہیں کہا، بلکہ "اے میرے خُدا، اے میرے خُدا" کہا۔ بظاہر، آپ نے اپنے اور باپ کے درمیان رکاوٹ کو شِدّت سے محسوس کیا، کیونکہ باپ سے اِس طرح مخاطب ہونے کا آپ کا حق اُس لمحے کےلئے روکا گیا۔ باپ کی طرف سے چھوڑے جانے میں آپ نے زبور 22: 1 کی پیشین گوئی کو پورا کیا جہاں لکھا ہے: "اَے میرے خُدا! اَے میرے خُدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تُو میری مدد اور میرے نالہ و فریاد سے کیوں دُور رہتا ہے؟" اور صلیب پر لٹکے ہوئے، جہان کے گناہوں کی خاطر خون بہاتے ہوئے آپ یسعیاہ نبی کے صحیفہ کی ایک پیشین گوئی کو بھی پورا کر رہے تھے:

"تَو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہُوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہُوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانِند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا، پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بےزُبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔ ... لیکن خُداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قُربانی کےلئے گُزرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عُمر دراز ہو گی اور خُداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پُوری ہو گی۔ اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادِق خادِم بُہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصّہ دُوں گا اور وہ لوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطا کاروں کے ساتھ شُمار کیا گیا تَو بھی اُس نے بُہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 4۔ 7، 10۔ 12)

مسیح کو پیاس لگنا

"اِس کے بعد جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہُوئیں تا کہ نوِشتہ پُورا ہو تو کہا کہ مَیں پیاسا ہُوں۔ وہاں سرکہ سے بھرا ہُوا ایک برتن رکھا تھا۔ پس اُنہوں نے سرکہ میں بھگوئے ہُوئے سپنج کو زُوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے مُنہ سے لگایا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 28، 29)

یہاں ہم زندگی کا پانی دینے والے کو پینے کےلئے کچھ مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آپ نے ایک مرتبہ ایک کنویں کے پاس ایک سامری عورت سے یہ الفاظ کہے تھے: "... مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پئے گا جو مَیں اُسے دُوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دُوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کےلئے جاری رہے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 4: 14)۔

ہم جانتے ہیں کہ آپ نے جو پیاس محسوس کی وہ جسمانی تھی، اور جو پانی آپ دیتے ہیں وہ رُوحانی ہے۔ آپ کے پیاسا ہونے کا اظہار کرنے کے بعد ایک سپاہی نے سرکہ میں بھیگا ہوا اسفنج آپ کی طرف اُٹھایا۔ کچھ سخت دل لوگوں نے اُسے روکنے کی کوشش کی، اور کہا، "ٹھہر جاؤ۔ دیکھیں تو ایلیّاہ اُسے بچانے آتا ہے یا نہیں" (اِنجیل بمطابق متی 27: 49)۔ اُنہوں نے یہ اِس لئے کہا کہ جب مسیح نے پہلے ارامی زبان میں "الوہی، الوہی" کہا تھا تو ایلیاہ کے ساتھ اِس الفاظ کی مماثلت کی وجہ سے اُن کا خیال تھا کہ وہ ایلیاہ نبی کو پکار رہا تھا۔ مسیح نے کچھ سرکہ پیا، کیونکہ آپ کا جلد اپنی رُوح سپرد کر دینے کا اِرادہ تھا، اور ایسا کرتے ہوئے، صلیب سے آپ کا پانچواں قول ایک اَور پیشین گوئی کی تکمیل ثابت ہوا: "اُنہوں نے مجھے کھانے کو اِندراین بھی دیا اور میری پیاس بُجھانے کو اُنہوں نے مجھے سرکہ پِلایا" (پرانا عہدنامہ، زبور 69: 21)۔

مسیح کا اپنا کام مکمل کرنا

"پس جب یسوع نے وہ سرکہ پِیا تو کہا کہ تمام ہُوا اور سر جُھکا کر جان دے دی۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 30)

جب مسیح نے سرکہ میں سے کچھ پیا تو اُس کے بعد آپ نے صلیب پر سے چھٹا کلمہ ادا کیا: "تمام ہوا۔" اِن الفاظ کے ذریعے، آپ نے تمام انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعہ کی تکمیل کا اعلان کیا، یعنی پاک خُدا اور گنہگار بنی نوع انسان کے درمیان صلح صفائی۔ کُلسیوں 1: 19۔ 22 میں پولس رسول اِس حیرت انگیز کام کی وضاحت کرتا ہے: "کیونکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اُسی میں سکونت کرے۔ اور اُس کے خُون کے سبب سے جو صلیب پر بہا صُلح کر کے سب چیزوں کا اُسی کے وسیلہ سے اپنے ساتھ میل کر لے۔ خَواہ وہ زمین کی ہوں خَواہ آسمان کی۔ اور اُس نے اب اُس کے جسمانی بدن میں موت کے وسیلہ سے تُمہارا بھی میل کر لیا۔ جو پہلے خارج اور بُرے کاموں کے سبب سے دِل سے دشمن تھے تا کہ وہ تُم کو مقدّس، بےعیب اور بے الزام بنا کر اپنے سامنے حاضر کرے۔"

مسیح اپنی رُوح باپ کو سُپرد کرتا ہے

"پھر یسوع نے بڑی آواز سے پُکار کر کہا، اَے باپ! مَیں اپنی رُوح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہُوں اور یہ کہہ کر دم دے دیا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 46)

جب مسیح نے کہا، "اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" تو اِس سے آپ اور باپ کے درمیان خوفناک عارضی علیحدگی کا اظہار ہُوا۔ اِس کے بعد، آپ نے ہجوم کے سامنے اعلان کیا کہ یہ پچھلی رکاوٹ ختم ہو گئی، اور آپ نے صلیب پر اپنی موت کو مکمل اطمینان کے ساتھ دیکھا، جس کا ثبوت آپ کی دعا اور سپردگی کے آخری الفاظ سے ملتا ہے۔ صلیب پر سے آپ کی ساتویں اور آخری پکار کے الفاظ میں ایک اَور پیشین گوئی پوری ہوئی: "مَیں اپنی رُوح تیرے ہاتھ میں سونپتا ہُوں۔ اَے خُداوند! سچّائی کے خُدا! تُو نے میرا فدیہ دیا ہے" (زبور 31: 5)۔ یوں لفظ "باپ" کے استعمال سے آپ کی آسمان میں باپ کے ساتھ تعلق کی بحالی کا ثبوت ملتا ہے، اور اِن الفاظ کے ساتھ، جو آپ کے ہزاروں پیروکاروں نے اپنی زندگی کے اختتام پر بھی کہے ہیں، آپ نے ابنِ مریم اور ابنِ آدم کے طور پر، اِنسانوں کے درمیان اپنے زمینی قیام کو الوداع کہا، تا کہ آپ عالمِ ارواح میں اتریں جہاں آپ نے مختصر وقت قیام کرنا تھا۔

مسیح نے نجات کا ضروری کام مکمل کر کے رضاکارانہ طور پر اپنی رُوح سونپی۔ آپ کی موت اُن الفاظ کی تکمیل تھی جو آپ نے پہلے کہے تھے: "جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہُوں۔ ... مَیں بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہُوں۔ ... کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہُوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پِھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حُکم میرے باپ سے مجھے ملا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 14، 15، 18)۔ یوں، آپ نے اپنی رُوح سونپی کیونکہ آپ نے وہ کام مکمل کر لیا تھا جو آپ کرنے آئے تھے۔ اِس سے صلیب پر آپ کی مصلوبیت کے چھ گھنٹے کے بعد ہی آپ کی فوری موت کی وضاحت مدد ملتی ہے۔ آپ کو صبح کی قربانی کے وقت صلیب پر کیلوں سے جڑ دیا گیا، اور آپ نے شام کی قربانی کے وقت اپنی رُوح سونپی۔ مصلوبیّت کے ذریعہ موت کا شکار ہونے والے افراد عموماً اُس دِن نہیں مرتے تھے جب اُنہیں صلیب پر کیلوں سے جڑا جاتا تھا۔

مسیح نے موسیٰ کی شریعت کو مکمل طور پر پورا کیا، اور یوں پرانا عہد نئے میں پورا ہُوا۔ آپ نے مجسم خدا کے طور پر اِنسانوں کے درمیان اپنا وقت پورا کر لیا۔ اب سے، آپ نے لوگوں کے ساتھ ویسے رفاقت نہیں رکھنی تھی جیسے کہ پہلے رکھتے تھے، بلکہ آپ نے اپنے جی اُٹھنے کے بعد اپنے جلالی بدن میں وقفے وقفے سے اپنے شاگردوں کے سامنے ظاہر ہونا تھا۔

ایک زلزلہ یروشلیم کو ہِلا دیتا ہے

"اور مقدِس کا پردہ اُوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا اور زمِین لرزی اور چٹانیں تڑک گئیں۔ اور قبریں کھل گئیں اور بُہت سے جِسم اُن مقدّسوں کے جو سو گئے تھے جی اُٹھے۔ اور اُس کے جی اُٹھنے کے بعد قبروں سے نِکل کر مقدّس شہر میں گئے اور بُہتوں کو دِکھائی دِئے۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 51۔ 53)

جب مسیح نے اپنی جان دی تو فطرت زندگی کے بادشاہ کی موت پر لرز اُٹھی۔ اِس زلزلے کے نتیجے میں بہت سے مقدّسین جو مر چکے تھے، جی اُٹھے اور اپنی قبروں سے نکل کر مقدّس شہر میں داخل ہوئے اور بہت سے لوگوں پر ظاہر ہوئے۔ مسیح کے صلیب پر لٹکے ہونے کے دوران یہ اور دیگر معجزات جو ہوئے، اُن معجزات سے مشابہت رکھتے ہیں جو تقریباً 33 سال پہلے دنیا میں آپ کے داخلے پر ہوئے تھے۔ دونوں مثالوں میں، آپ نے یہ معجزات خود نہ کئے اور نہ ہی اِن میں کِسی اِنسان کا عمل دخل تھا۔ اِن معجزات سے مسیح کی لاثانی شخصیت کی تصدیق ہوتی ہے۔

ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ ہیکل میں پردے کا اوپر سے نیچے تک پھٹنا، مسیح کی موت اور اُس کے بعد کے معجزات میں سے ایک تھا۔ یہ پردہ اِس بات کی علامت تھا کہ اِنسانوں، یہاں تک کہ کاہنوں کے گناہوں کے باعث خُدا کی حمایت اِنسانوں کےلئے ناقابل رسائی تھی۔ سب کے سامنے خُدا کے حضور رسائی کا دروازہ بند تھا۔ تاہم، ہیکل میں سردار کاہن اِس قاعدے سے مستثنیٰ تھا کیونکہ وہ حقیقی سردار کاہن، خُدا کے پیارے بیٹے کی ترجمانی کرتا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود، وہ سال میں صرف ایک بار ہیکل کے پاک ترین مقام میں داخل ہو سکتا تھا، اور ایسا گناہوں کےلئے ضروری خون کی قربانی کے بغیر نہیں ہوتا تھا (عبرانیوں 9: 3)۔

ہیکل میں پردہ مسیح کی اِنسانی فطرت کی علامت بھی تھا جس نے اُس کی اِلٰہی فطرت پر بیک وقت پردہ ڈالا اور اُسے ظاہر کیا۔ غرض، جب مسیح کا بدن صلیب پر قربان ہُوا تو ہیکل کا پردہ جو اُس بدن کی علامت تھا پھٹ کر دو حصوں میں منقسم ہو گیا، اور نتیجتاً تمام بنی نوع اِنسان کےلئے فردوس کا دروازہ کُھل گیا۔ ہیکل کے پردے کے پھٹنے کے پیچھے ایک اَور گہرا مطلب بھی ہے کہ موسوی ضابطہ کی ہیکل کی رسومات، اِنسانی کہانت، جانوروں کی قربانیاں اور قدیم علامات ختم ہو گئی ہیں۔ یہ سب مسیح کی ذات اور کام میں پوری ہوئی ہیں۔

بیشک مسیح خُدا کا بیٹا ہے

"پس صُوبہ دار اور جو اُس کے ساتھ یسوع کی نِگہبانی کرتے تھے بَھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بُہت ہی ڈر کر کہنے لگے کہ بیشک یہ خُدا کا بیٹا تھا۔ اور وہاں بُہت سی عورتیں جو گلیل سے یسوع کی خدمت کرتی ہُوئی اُس کے پیچھے پیچھے آئی تھیں دُور سے دیکھ رہی تھیں۔ اُن میں مریم مگدلینی تھی اور یعقوب اور یوسیس کی ماں مریم اور زبدی کے بیٹوں کی ماں۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 54۔ 56)

بارہ محافظوں کے ساتھ صوبیدار کے عہدہ کا ایک افسر بھی تھا جس نے اُس دن مسیح اور دونوں ڈاکوؤں کو مصلوب کرنے کا انتظام کرنے میں مدد کی تھی۔ بلاشبہ، وہ اور اُس کے سپاہی مسیح کی موت سے وابستہ نااِنصافی سے واقف تھے، اور تاریکی اور زلزلے کے نتیجے میں وہ سب خُدا کے انتقام کی دہشت سے بھر گئے۔ لیکن اپنے خوف کے باوجود، اُنہوں نے مسیح پر الٰہی ہاتھ کو تسلیم کیا جس نے اُسے دوسرے اِنسانوں سے مختلف بنایا۔ اِس لئے، اُنہوں نے خُدا کی تمجید کی اور مسیح کی راستبازی کی گواہی دی۔ صوبیدار، مسیح کی بابت اپنی گواہی میں سبقت لے گیا اور اِقرار کیا کہ وہ یقیناً خُدا کا بیٹا تھا۔ اِس طرح، وہ اُن بہت سے لوگوں میں شمار کیا گیا جن کے بارے میں مسیح نے کہا تھا کہ وہ پُورب اور پچھّم سے آ کر ابرہام اور اِضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے (متی 8: 11)۔ مزید برآں، ہم پڑھتے ہیں کہ ہجوم میں موجود تمام لوگ یہ ماجرا دیکھ کر چھاتی پیٹتے ہوئے لوٹ گئے (لوقا 23: 48)۔

5- مسیح قبر میں

وہ فی الواقعی مر گیا

"پس چُونکہ تیّاری کا دِن تھا یہودیوں نے پیلاطُس سے درخواست کی کہ اُن کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اُتار لی جائیں تا کہ سبت کے دِن صلیب پر نہ رہیں کیونکہ وہ سبت ایک خاص دِن تھا۔ پس سپاہیوں نے آ کر پہلے اور دُوسرے شخص کی ٹانگیں توڑیں جو اُس کے ساتھ مصلُوب ہُوئے تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چُکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑِیں۔ مگر اُن میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اُس کی پَسلی چھیدی اور فی الفَور اُس سے خُون اور پانی بَہہ نِکلا۔ جِس نے یہ دیکھا ہے اُسی نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہے تا کہ تُم بھی اِیمان لاؤ۔ یہ باتیں اِس لئے ہُوئیں کہ یہ نوِشتہ پُورا ہو کہ اُس کی کوئی ہڈّی نہ توڑی جائے گی۔ پھر ایک اَور نوِشتہ کہتا ہے کہ جِسے اُنہوں نے چھیدا اُس پر نظر کریں گے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 31۔37)

چونکہ عظیم عید صرف دو گھنٹے کی دوری پر تھی، یہودی بزرگوں نے حاکم سے اُن کی جلد موت کےلئے اُن کی ٹانگیں توڑ دینے کی اجازت طلب کی۔ پیلاطُس نے یہ فرض کرتے ہوئے اجازت دی کہ اُن میں سے کوئی بھی ممکنہ طور پر ابھی تک نہیں مرا تھا۔ عظیم عید کے دوران فسح کے برّے کی تیاری میں ایک اصول یہ تھا کہ اُس کی کوئی بھی ہڈی ٹوٹی نہ ہو، اور مسیح کی فسح کے حتمی برّے کے طور پر کوئی بھی ہڈی نہ توڑی گئی۔ پرانے عہدنامہ کی ایک پیشین گوئی میں مذکور ہے: "وہ اُس کی سب ہڈّیوں کو محفُوظ رکھتا ہے۔ اُن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی" (زبور 34: 20)۔ لیکن پیلاطُس کے حکم کے بعد یہ پیشین گوئی کیسے پوری ہو سکتی تھی؟ جواب یہ ہے کہ جب سپاہیوں نے مسیح کی ٹانگیں توڑنا چاہیں تو آپ پہلے ہی مر چکے تھے، اِس لئے اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یوں، خُدا کے ہاتھ نے اُنہیں مسیح کی ہڈیاں توڑنے سے باز رکھا۔

اگر سپاہیوں نے اِس مقام پر مسیح کو چھوڑ دیا ہوتا، تو آپ کی موت کا قطعی یقین اب بھی سوالیہ نشان ہو سکتا تھا۔ درحقیقت، بتدریج ایک ایسا گروہ سامنے آیا جس نے مسیح کے جی اُٹھنے کی صداقت سے انکار کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ مسیح کو بےہوشی کی حالت میں قبر میں رکھا گیا تھا، اور وہ وہاں ہوش میں آ گیا۔ لیکن الٰہی پروردگاری نے ہمیں کافی ثبوت فراہم کیا ہے جس کی مدد سے مسیح کے صلیب پر مرنے کے تعلق سے کوئی بھی شک دُور ہو سکتا ہے، کیونکہ ہم پڑھتے ہیں کہ سپاہیوں میں سے ایک نے اپنے بھالے سے مسیح کی پسلی کو چھیدا اور اُس سے خون اور پانی بہہ نکلا۔ یہ ایک اَور پیشین گوئی کی تکمیل تھی: "وہ اُس پر جس کو اُنہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے ..." (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 12: 10)۔ اِس زخم کی حقیقت نے مسیح کو اپنے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شک کرنے والے شاگرد توما کے سامنے یہ الفاظ کہنے پر اُبھارا: "... اپنی اُنگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بےاعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 27)۔ مسیح کی موت کی سچائی پر زور دینے کےلئے، یوحنّا مبشر نے لکھا کہ اُس نے دیکھ کر گواہی دی ہے، اور وہ گواہی سچّی ہے۔ وہ بغیر کسی شک کے جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا، تا کہ ہم بھی ایمان لا سکیں۔

یوں، مسیح کی مصلوبیّت سے وابستہ واقعات اپنے اختتام کو پہنچے۔ مسیح جس نے دردناک اور مہلک بیماریوں کے شکار بدنوں کو مکمل طور پر بحال کیا، شرم و وحشیت کی لعنتی علامت صلیب کو عزّت اور فتح کے نشان میں بدل دیا، اور یہ عنایت، محبّت، رحم، جاں نثاری اور ابدی نجات کی علامت بن گئی۔ جب پولس رسول نے کہا کہ "... خُدا نہ کرے کہ مَیں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خُداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دُنیا میرے اعتبار سے مصلُوب ہُوئی اور مَیں دُنیا کے اعتبار سے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 14)، تو وہ اپنی شادمانی میں تقریباً اکیلا تھا۔ لیکن آج صلیب کی شان نسل در نسل بڑھتی جا رہی ہے، اور زیادہ سے زیادہ لوگ رسول کے فخریہ الفاظ میں شامل ہو رہے ہیں۔

دفنانے کی درخواست

"جب شام ہو گئی تو اِس لئے کہ تیّاری کا دِن تھا جو سبت سے ایک دِن پہلے ہوتا ہے۔ اَرِمَتیہ کا رہنے والا یُوسف آیا جو عزّت دار مُشِیر اور خُود بھی خُدا کی بادشاہی کا مُنتظِر تھا اور اُس نے جُرأت سے پیلاطُس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی۔ اور پیلاطُس نے تعجب کیا کہ وہ اَیسا جلد مر گیا اور صُوبہ دار کو بُلا کر اُس سے پُوچھا کہ اُس کو مرے ہُوئے دیر ہو گئی؟ جب صُوبہ دار سے حال معلوم کر لیا تو لاش یُوسف کو دِلا دی۔ اُس نے ایک مہِین چادر مول لی اور لاش کو اُتار کر اُس چادر میں کفنایا اور ایک قبر کے اندر جو چٹان میں کھودی گئی تھی رکھا اور قبر کے مُنہ پر ایک پتّھر لڑھکا دِیا۔ اور مریم مگدلینی اور یوسیس کی ماں مریم دیکھ رہی تھیں کہ وہ کہاں رکھا گیا ہے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 15: 42۔ 47)

مسیح کا ایک خفیہ شاگرد یوسف تھا جو اَرِمَتیہ کا رہنے والا تھا، اور یہودی صدر عدالت کا رُکن تھا۔ اُس کا شہرِ مقدّس یروشلیم کے پاس ایک باغ تھا جس میں ایک چٹان کو تراش کر ایک قبر بنائی گئی تھی جو غالباً اُس کے اپنے دفن کےلئے تھی۔ اِس آدمی کے پاس عزت، دولت تھی اور رومی حاکم پیلاطُس کے ساتھ اُس کے اچھے روابط تھے۔ جب اَرِمَتیہ کے رہنے والے یوسف کو پتا چلا کہ مسیح مر گیا ہے، اور اُس کے شاگرد بکھر گئے ہیں، تو اُسے خدشہ ہُوا کہ خُدا کے اکلوتے بیٹے کے مقدّس جسم کے ساتھ بُرا سلوک کیا جائے گا، اِس لئے اس نے دلیری سے لاش مانگی تا کہ اُس کی مناسب تدفین کی جا سکے۔ اگرچہ اَرِمَتیہ کا رہنے والا یوسف، مسیح کی خدمت کے دوران سب کے سامنے آپ کا شاگرد نہیں تھا، لیکن اُس نے مسیح کی مصلوبیّت کے بعد آپ کی پیروی کی، اور یوں حقیقی ایمان ظاہر کیا۔ پیلاطُس نے مصلوبیّت کے نگران رومی صوبیدار سے مسیح کی موت کی تصدیق کے بعد اَرِمَتیہ کے رہنے والے یوسف کو مسیح کی لاش لے جانے کی اجازت دی۔

مسیح کی لاش پر خوشبودار چیزیں لگانا اور دفن کرنا

"اِن باتوں کے بعد اَرِمتیہ کے رہنے والے یُوسف نے جو یسوع کا شاگرد تھا (لیکن یہودیوں کے ڈر سے خُفیہ طور پر) پیلاطُس سے اِجازت چاہی کہ یسوع کی لاش لے جائے۔ پیلاطُس نے اِجازت دی۔ پس وہ آ کر اُس کی لاش لے گیا۔ اور نِیکُدیمُس بھی آیا۔ جو پہلے یسوع کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مر اور عُود مِلا ہُوا لایا۔ پس اُنہوں نے یسوع کی لاش لے کر اُسے سُوتی کپڑے میں خُوشبُودار چِیزوں کے ساتھ کفنایا جِس طرح کہ یہودیوں میں دَفن کرنے کا دستور ہے۔ اور جِس جگہ وہ مصلوب ہُوا وہاں ایک باغ تھا اور اُس باغ میں ایک نئی قبر تھی جِس میں کبھی کوئی نہ رکھا گیا تھا۔ پس اُنہوں نے یہودیوں کی تیّاری کے دِن کے باعِث یسوع کو وہیں رکھ دیا کیونکہ یہ قبر نزدِیک تھی۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 38۔ 42)

اَرِمتیہ کا رہنے والا یوسف مسیح کی لاش کو کفنانے کےلئے عمدہ قسم کا سوتی کپڑا لے کر آیا، اور نیکدیمس جو یسوع کا ایک اَور خفیہ مدّاح تھا لاش کو دفنانے اور خوشبودار چیزیں لگانے میں یوسف کے ساتھ شامل ہُوا۔ نیکدیمس یہودیوں کا ایک سردار تھا جو تقریباً تین سال پہلے رات کو یسوع کے پاس آیا تھا، اور جس سے یسوع نے خُدا سے پیدا ہونے کی ضرورت پر بات کی تھی (یوحنّا 3 باب)۔ نیکدیمس اب خوشبو لگانے کےلئے کچھ قیمتی مصالحے لے کر آیا، جن کی مقدار اشرافیہ کے رُکن کی توفیق کے مطابق تھی۔ بلاشبہ، اِس مشکل کام کو سرانجام دینے میں مدد کرنے والے اَور بھی ہوں گے۔

کلامِ مقدّس کی نبوّت کی مطابق مسیح نے رد کئے ہوئے شخص کی موت سہی، لیکن نیکدیمس اور اَرِمتیہ کے یوسف کی عقیدت کے باعث مسیح کو ایک بادشاہ کے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اِس طرح، ایک اَور پیشین گوئی پوری ہوئی: "اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دَولت مندوں کے ساتھ مؤا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اُس کے مُنہ میں ہرگز چھل نہ تھا" (یسعیاہ 53: 9)۔ چونکہ اَرِمتیہ کا یوسف ایک دولتمند شخص تھا، اِس لئے اُس کی قبر کوٹھڑی نما تھی، جس میں ایک طرف لاش رکھنے کےلئے ایک چبوترہ بنا تھا۔ یہیں پر مرد مناسب تدفین کی رسومات سے گزرے جیسے لاش کو دھونا، اُسے مصالحوں کا لگانا، اور سوتی کپڑے سے لپیٹنا۔ اِس کام کو سرانجام دینے کے بعد اُنہوں نے قبر کے سامنے ایک بڑا پتھر لُڑھکا دیا۔ اِس تمام وقت میں، مسیح کی پیروکار وفادار عورتیں جو مسیح کی پیروی کر رہی تھیں، پاس کھڑی دیکھتی رہیں۔

قبر پر پہرہ کا لگایا جانا

"دُوسرے دِن جو تیاری کے بعد کا دِن تھا سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطُس کے پاس جمع ہو کر کہا۔ خُداوند! ہمیں یاد ہے کہ اُس دھوکے باز نے جیتے جی کہا تھا، مَیں تِین دِن کے بعد جی اُٹھوں گا۔ پس حکم دے کہ تیسرے دِن تک قبر کی نِگہبانی کی جائے۔ کہیں اَیسا نہ ہو کہ اُس کے شاگرد آ کر اُسے چُرا لے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا اور یہ پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بُرا ہو۔ پیلاطُس نے اُن سے کہا، تُمہارے پاس پہرے والے ہیں۔ جاؤ جہاں تک تُم سے ہو سکے اُس کی نگہبانی کرو۔ پس وہ پہرے والوں کو ساتھ لے کر گئے اور پتّھر پر مہر کر کے قبر کی نگہبانی کی۔" (اِنجیل بمطابق متی 27: 62۔ 66)

اب ہم اپنی توجہ نیکدیمس اور اَرِمتیہ کے یوسف سے نفرت انگیز یہودی بزرگوں کی طرف مبذول کریں گے جنہوں نے یہ خیال کیا کہ وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو گئے ہیں جو گذشتہ تین سالوں میں اُن کے ذہنوں پر قبضہ جمائے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے سمجھا کہ آخرکار اُنہوں نے مسیح سے جان چھڑا لی ہے، لیکن اُن کے دِلوں میں اطمینان کا ہونا غیر واضح ہے۔ کیا اُن کے دِل اُن کے اندر بےگناہ خون بہانے پر، ایسا کام کرنے پر جسے خُدا نے شریعت میں کرنے سے منع کیا تھا، مستعد نہ تھے؟ اُنہوں نے مسیح کے تیسرے دن دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں الفاظ کو یاد کیا، اور سوچنے لگے کہ کیا یہ واقعی سچ ہو گا۔ اِسے روکنے کےلئے، وہ پیلاطُس کے پاس گئے، اُسے اپنی تشویش کے بارے میں بتایا، اور قبر پر مُہر لگوانے کےلئے اُس کی منظوری حاصل کی، اور اُسے کسی بھی ممکنہ چھیڑ چھاڑ سے بچانے کو یقینی بنایا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے قبر کے سامنے رومی محافظوں کو ہدایت کی ہو کہ اگر مسیح اپنے کہنے کے مطابق واقعی دوبارہ جی اُٹھے تو اُسے مار ڈالیں۔

مصلوبیّت کے سلسلے میں، ہم لوقا 23: 49 میں پڑھتے ہیں کہ مسیح کے تمام جاننے والے ایک فاصلے پر کھڑے تھے، اور جو کچھ ہو رہا تھا اُسے دیکھ رہے تھے۔ وہ سب افسُردہ اور مایوس تھے۔ اُن کا چرواہا اُن سے لے لیا گیا تھا، اور وہ سوچ رہے تھے کہ مسیح کے گلّے کے طور پر اُن کے ساتھ کیا ہو گا۔ وہ مُہر لگی قبر کے سامنے کھڑے غالباً سوچ رہے تھے کہ کیا مسیح دوبارہ جی اٹھے گا یا وہ قبر میں ہی رہے گا اور ہر کسی کی طرح اُس کا بدن گل سڑ جائے گا۔ اگر وہ جی اُٹھتا تو ظاہر ہے کہ اِس میں اُس کےلئے کوئی انسانی مدد دستیاب نہ ہونی تھی۔ لعزر کی قبر پر، اُنہوں نے مسیح کو اپنے آپ کو قیامت اور زندگی کے طور پر بیان کرتے سنا تھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 11: 25)، اور اُنہوں نے اُسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا تھا کہ اُسے اپنی جان کے دینے اور اُسے دوبارہ لینے کا بھی اختیار حاصل ہے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 17، 18)۔ تاہم، اگر مسیح قبر میں ہی رہتا، تو آپ کو مصلوب کرنے والے اپنی اِس سوچ میں درست ثابت ہوتے کہ یسوع بنی نوع اِنسان کا نجات دہندہ ہونے کے لائق نہ تھا، اِس سوچ کا اظہار اُنہوں نے اُس وقت بھی کیا تھا جب جناب مسیح صلیب پر لٹکے ہوئے تھے اور آپ نے اپنے آپ کو مصلوبیّت کی شرمناک آزمایش سے نہ بچایا۔

ہفتہ کو غروب آفتاب سے مسیح کی موت کے بعد تیسرے دن کا آغاز ہُوا۔ اِس شام کو یہودی وقت کی ترتیب کے مطابق تیسرے دن کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مسیح کا جی اٹھنا اُس رات کے اختتام سے پہلے (اتوار کی صبح چھ بجے سے پہلے) ہُوا۔

مسیح کا بدن جس کپڑے میں کفنایا گیا تھا اُسے اُٹھائے یا ہلائے بغیر جی اُٹھا، اور یہ کپڑا جو پہلے آپ کے گرد لِپٹا ہُوا تھا کپڑے کے ایک ڈھیر کی مانند رہ گیا۔ کلام مقدّس میں مرقوم ہے کہ آپ کے سر پر لپٹا ہُوا رومال بھی موجود تھا۔ آپ کا بدن اُن بندھے کپڑوں سے آزاد ہو گیا، اور آپ بغیر کِسی رکاوٹ کے جلد اپنے شاگردوں پر ظاہر ہونے کو تھے۔

عورتوں کا قبر پر جانا

"جب سبت کا دِن گُزر گیا تو مریم مگدلینی اور یعقُوب کی ماں مریم اور سلومی نے خُوشبُودار چِیزیں مول لیں تا کہ آ کر اُس پر ملیں۔ وہ ہفتہ کے پہلے دِن بُہت سویرے جب سُورج نِکلا ہی تھا قبر پر آئیں۔ اور آپس میں کہتی تھیں کہ ہمارے لئے پتّھر کو قبر کے مُنہ پر سے کون لڑھکائے گا؟ جب اُنہوں نے نِگاہ کی تو دیکھا کہ پتّھر لڑھکا ہُوا ہے کیونکہ وہ بُہت ہی بڑا تھا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 16: 1۔ 4)

وہ عورتیں جو مسیح کی وفادار تھیں اُنہوں نے جمعہ کے دن خوشبودار چیزیں خریدیں، اور وہ اتوار کی صبح سویرے آپ کے بدن پر مزید خوشبودار چیزیں لگانے کی امّید پر قبر پر آئیں۔ وہ سوچتی تھیں کہ لاش وہیں موجود ہو گی۔ اِس مشکل صورتحال کا سامنا کرتی اِن خواتین کے جوش و جذبے اور وفاداری کا آسمان سے مشاہدہ کیا گیا، اور قبر تک اُن کا سفر شروع ہوتے ہی کُچھ فرشتے اُن سے پہلے قبر پر پہنچ گئے۔

ایک فرشتہ قبر کے پتھر کو لڑھکا دیتا ہے

"اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دِن پَو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دُوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں۔ اور دیکھو ایک بڑا بَھونچال آیا کیونکہ خُداوند کا فرِشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آ کر پتّھر کو لڑھکا دِیا اور اُس پر بَیٹھ گیا۔ اُس کی صُورت بجلی کی مانند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانند سفید تھی۔ اور اُس کے ڈر سے نگہبان کانپ اُٹھے اور مُردہ سے ہو گئے۔" (اِنجیل بمطابق متی 28: 1۔ 4)

جب جمعہ کے روز مسیح کے بدن کی تدفین کی گئی تو خواتین نے دیکھا کہ قبر کے مدخل پر ایک بڑا پتھر لُڑھکا دیا گیا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ ایسے پتھر کو کبھی نہیں ہلا سکتی تھیں، اور سوچ رہی تھیں کہ کون اُنہیں مسیح کے بدن تک رسائی دلائے گا۔ وہ اِس بات سے بےخبر تھیں کہ یہودی بزرگوں نے پیلاطُس کو قائل کر لیا تھا کہ وہ کچھ رومی سپاہیوں کو قبر پر تعینات کرے، اور قبر پر رومی حکومت کے اختیار کی مُہر لگی تھی۔ لہٰذا، قبر پر اُن کے آنے کو مسیح کے بدن کو چرانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانے کا امکان تھا، اور اُن کے ساتھ رومی سپاہیوں نے سختی سے پیش آنا تھا۔ تاہم، رومی سپاہیوں کی مسیح کی قبر پر تعینات ہونے کی حقیقت اُن سے پوشیدہ تھی، تا کہ وہ اپنے عظیم مقصد سے باز نہ آئیں۔ الٰہی پروردگاری اکثر کچھ چیزوں کو ہماری نگاہوں سے دُور رکھتی ہے۔ مسیح کےلئے اُن کی محبّت، اور اُس کے بدن کی حالت پر اُن کی فرض شناس عقیدت کو دیکھ کر ربّ نے دونوں مسائل کو حل کر دیا: پتھر کو ہٹا دیا گیا اور رومی سپاہیوں کا پہرہ ختم ہو گیا۔ خُدا کی طرف سے بھیجے گئے ایک فرشتہ نے پتھر ہٹا دیا۔ اِس سے ایک زلزلہ پیدا ہُوا جس نے سپاہیوں کو خوفزدہ کر دیا جو فرشتہ کو چمکدار سفید پوشاک میں دیکھ کر اور اپنے پیروں کے نیچے زمین ہلتی محسوس کر کے خوف سے کانپ اُٹھے۔

جب عورتیں قبر کی طرف روانہ ہوئی تھیں تب ابھی اندھیرا تھا۔ وہ چلتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس جگہ پر پہنچ گئیں، اور اُن کی نظریں دُور سے قبر پر جمی تھیں۔ مسیح کی والدہ محترمہ مقدّسہ مریم اُن کے ساتھ نہیں تھیں کیونکہ وہ پیارے شاگرد یوحنّا کے ساتھ چلی گئی تھیں۔ جہاں تک مریم مگدلینی کا تعلق ہے، وہ اُس گروہ میں سب سے آگے تھی کیونکہ اُس نے نجات دہندہ پر اپنے بڑے قرض کو شِدّت سے محسوس کیا تھا۔ اُس نے بہت محبّت رکھی کیونکہ اُسے بہت زیادہ معاف کیا گیا تھا، اور وہ اُس کی زیادہ خدمت اور تعریف نہ کر سکی تھی جس نے اُسے سات بدروحوں کے جوئے سے آزاد کیا تھا۔

پطرس اور یوحنّا کےلئے خوشی کی خبر

"ہفتہ کے پہلے دِن مریم مگدلینی اَیسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی اور پتّھر کو قبر سے ہٹا ہُوا دیکھا۔ پس وہ شمعُون پطرس اور اُس دُوسرے شاگرد کے پاس جسے یسوع عزِیز رکھتا تھا دَوڑی ہُوئی گئی اور اُن سے کہا کہ خُداوند کو قبر سے نکال لے گئے اور ہمیں معلوم نہیں کہ اُسے کہاں رکھ دِیا۔ پس پطرس اور وہ دُوسرا شاگرد نکل کر قبر کی طرف چلے۔ اور دونوں ساتھ ساتھ دَوڑے مگر وہ دُوسرا شاگرد پطرس سے آگے بڑھ کر قبر پر پہلے پہنچا۔ اُس نے جُھک کر نظر کی اور سُوتی کپڑے پڑے ہُوئے دیکھے مگر اندر نہ گیا۔ شمعون پطرس اُس کے پیچھے پیچھے پہنچا اور اُس نے قبر کے اندر جا کر دیکھا کہ سُوتی کپڑے پڑے ہیں۔ اور وہ رُومال جو اُس کے سر سے بندھا ہُوا تھا سُوتی کپڑوں کے ساتھ نہیں بلکہ لپٹا ہُوا ایک جگہ الگ پڑا ہے۔ اِس پر دُوسرا شاگرد بھی جو پہلے قبر پر آیا تھا اندر گیا اور اُس نے دیکھ کر یقین کیا۔ کیونکہ وہ اب تک اُس نوِشتہ کو نہ جانتے تھے جس کے مطابق اُس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا ضرور تھا۔ پس یہ شاگرد اپنے گھر کو واپس گئے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 1۔ 10)

جب مریم مگدلینی نے دیکھا کہ پتھر قبر سے ہٹا ہُوا ہے تو اُس نے سوچا کہ شاید کسی دشمن نے اُس کے خُداوند کی قیمتی لاش کو ہٹا دیا ہے۔ وہ اِس سوچ کو برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ کوئی دشمن ممکنہ طور پر اُس لاش کی بےحرمتی کرے، لہٰذا وہ پطرس اور یوحنّا کو خبر سنانے کےلئے شہر کی طرف دوڑی۔ جب اُن شاگردوں نے سُنا تو غصّے اور تشویش کے مارے قبر کی طرف بھاگے۔ یوحنّا پہلے وہاں پہنچا، اور پطرس بھی وہاں پہنچا جس نے قبر کے باہر سے دیکھنے پر اِکتفا نہ کیا بلکہ اُس نے اندر جا کر دیکھا۔ اُن دونوں نے یہ دریافت کرنے کےلئے کہ مسیح کی لاش کے ساتھ کیا ہُوا، قبر کے اندرونی حصّہ کو اچھی طرح سے دیکھا۔ دفن کے کپڑوں سے مسیح کی لاش کی پراسرار عدم موجودگی نے اشارہ کیا کہ اِس کام میں الٰہی ہاتھ کار فرما تھا، اور یہ سب دیکھ کر پطرس حیران ہو کر چلا گیا۔ تاہم، یوحنّا نے دیکھا اور یقین کیا کیونکہ وہ جان گیا کہ دفن کے کپڑوں سے مسیح کی لاش کی عجیب عدم موجودگی انسانی مداخلت کی وجہ سے نہیں بلکہ الٰہی کام کی وجہ سے تھی۔ دفن کے کپڑوں کی درست حالت اِس بات کا کافی ثبوت تھی کہ اِس میں کوئی دشمن یا بدخواہ کا ہاتھ ملوث نہ تھا۔ مسیح کے قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ مسیح کے چاہنے والوں میں سے کِسی نے لاش نہیں نکالی تھی۔

خالی قبر مسیح کے جی اٹھنے کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اگر یہودی بزرگ یا رومی مسیح کی لاش وہاں سے لے گئے ہوتے، تو وہ رسولوں کے اِس دعوے کو آسانی سے رد کر سکتے تھے کہ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا، کیونکہ اِس صورت میں اُن کے پاس مسیح کی لاش ہوتی۔ مسیح کے پیروکاروں میں سے بھی کوئی اپنی مایوسی، خوف اور کمزوری کی وجہ سے لاش کو وہاں سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ نیز، رومیوں نے حکومت کی اجازت سے قبر کے مدخل پر پڑے پتھر پر مُہر لگا دی تھی اور اُنہوں نے قبر کے باہر سپاہیوں کو مقرر کیا تھا تا کہ کوئی بھی قبر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ اگر مسیح کے شاگردوں نے لاش چُرا لی ہوتی جیسا کہ یہودی بزرگوں نے جھوٹا الزام لگایا تھا، تو ہم اُس اتوار کی رات یروشلیم کے بالاخانہ میں خوف کے مارے اُن کے چھپنے کی وضاحت کیسے کر سکتے ہیں، جب وہ یہ ماننے کے قابل نہ تھے کہ اُن کا خُداوند واقعی جی اٹھا ہے؟

6- بیشک مسیح جی اُٹھا ہے

"فرِشتہ نے عورتوں سے کہا، تُم نہ ڈرو کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ تُم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلوب ہُوا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابِق جی اُٹھا ہے۔ آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خُداوند پڑا تھا۔ اور جلد جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیکھو وہ تُم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے۔ وہاں تُم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو مَیں نے تُم سے کہہ دیا ہے۔ اور وہ خَوف اور بڑی خُوشی کے ساتھ قبر سے جلد روانہ ہو کر اُس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑیں۔" (اِنجیل بمطابق متی 28: 5۔ 8)

پطرس اور یوحنّا خالی قبر کو دیکھنے کے بعد شہر کو واپس لوٹ آئے۔ لیکن عورتیں پاس ہی رہیں، اور پھر اندر چلی گئیں۔ جب وہ گمشدہ لاش کے معاملے پر حیران تھی، ایک فرشتہ اُن پر ظاہر ہُوا، اور وہ ڈر گئیں۔ اُن کے خوف کو دیکھتے ہوئے، فرشتہ نے اُنہیں تسلی دی، اور اُن پر ظاہر کیا کہ وہ اُن کے مقصد کے بارے میں جانتا ہے، اور یہ کہ مسیح اپنے وعدہ کے مطابق واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ پھر، اُس نے اُنہیں خود وہ جگہ دیکھنے کی دعوت دی جہاں مسیح کو رکھا گیا تھا۔ جب وہ ابھی تک خوفزدہ تھیں، اور اُن کے چہرے اُترے ہوئے تھے، دو فرشتے برّاق پوشاک پہنے اُن کے سامنے آئے اور کہنے لگے: "زِندہ کو مُردوں میں کیوں ڈُھونڈتی ہو؟ وہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے۔ یاد کرو کہ جب وہ گلیل میں تھا تو اُس نے تُم سے کہا تھا۔ ضرور ہے کہ اِبن آدم گُنہگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جائے اور مصلوب ہو اور تیسرے دِن جی اُٹھے" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 5۔ 7)۔ اِن فرشتوں نے، پہلے کی طرح، عورتوں کو ہدایت کی کہ وہ مسیح کے جی اُٹھنے کی خبر شاگردوں تک پہنچائیں، خاص طور پر غمزدہ پطرس کو۔ یوں، وہ اپنے دلوں میں خوف اور خوشی دونوں کے ساتھ جلدی سے قبر سے گئیں- خوف کی وجہ وہ تمام عجیب ماجرا تھا جو اُنہوں نے دیکھا تھا، جبکہ خوشی کی وجہ یہ تھی کہ اُن کا خُداوند واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ اِن جذبات نے اُنہیں اُبھارا کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ شاگردوں کو خبر سُنائیں۔

جب مسیح اپنے جلالی بدن میں جی اُٹھا تو وہ کفنائے گئے کپڑوں میں نہیں تھا، کیونکہ وہ اُن سوتی کپڑوں میں تھوڑی دیر کےلئے سویا تھا۔ جنہوں نے اُسے اُن کپڑوں کے اندر ڈھونڈا، اُسے نہ پا سکے کیونکہ وہ تو دراصل اُن کے ساتھ موجود تھا۔ اِسی طرح جو لوگ مسیح کو صرف تاریخ کے صحیفوں میں تلاش کرتے ہیں وہ اُسے حقیقی طور پر نہیں پاتے کیونکہ اگرچہ وہ نظر نہیں آتا لیکن اِس وقت موجود ہے۔ جیسا وہ واقعی ہے تاریخ اُسے ویسے منکشف نہیں کر سکتی، لیکن صرف ایمان کی آنکھ اُس کے وجود کو توجہ میں لاتی ہے۔ اور کوئی بھی اُس کی مبارک شخصی حضوری کے بغیر اُسے جان نہیں سکتا۔

ماضی میں مسیح کا علم ہونا حال کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا، اِس لئے مسیح کے ساتھ ایک تجدید شدہ تجربہ ضروری ہے۔ ہم اِسے مسیح کے شاگردوں کے معاملے میں بھی دیکھتے ہیں۔ مسیح کی موت سے پہلے جو کچھ وہ آپ کے بارے میں جانتے تھے وہ موجودہ وقت میں اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے کافی نہ تھا۔ اُنہوں نے آخری مرتبہ مسیح کو قبر میں دیکھا تھا، سو اُنہیں مسیح کے جی اُٹھے، جلالی بدن میں اُس کی ذات کے ایک نئے تجربے کی ضرورت تھی۔

مسیح کا مریم مگدلینی پر ظاہر ہونا

"لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے قبر کی طرف جُھک کر اندر نظر کی۔ تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہُوئے ایک کو سرہانے اور دُوسرے کو پینتانے بیٹھے دیکھا جہاں یسوع کی لاش پڑی تھی۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، اَے عورت تُو کیوں روتی ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، اِس لئے کہ میرے خُداوند کو اُٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اُسے کہاں رکھا ہے۔ یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا، اَے عورت تُو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟ اُس نے باغبان سمجھ کر اُس سے کہا، میاں اگر تُو نے اُس کو یہاں سے اُٹھایا ہو تو مجھے بتا دے کہ اُسے کہاں رکھّا ہے تا کہ مَیں اُسے لے جاؤں۔ یسوع نے اُس سے کہا، مریم! اُس نے مڑ کر اُس سے عبرانی زُبان میں کہا، ربّونی! یعنی اَے اُستاد! یسوع نے اُس سے کہا، مجھے نہ چُھو کیونکہ مَیں اب تک باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائِیوں کے پاس جا کر اُن سے کہہ کہ مَیں اپنے باپ اور تُمہارے باپ اور اپنے خُدا اور تُمہارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہُوں۔ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ مَیں نے خُداوند کو دیکھا اور اُس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 11۔ 18)

پطرس اور یوحنّا کو یہ بتانے کے بعد کہ فرشتے نے اُسے قبر پر کیا کہا تھا، مریم واپس اُس جگہ پر آئی اور قبر کے مدخل پر کھڑی رو رہی تھی۔ اُس نے جُھک کر پہلی مرتبہ قبر کے اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو، اُس جگہ کے دونوں سروں پر جہاں مسیح کو رکھا گیا تھا، آمنے سامنے بیٹھے دیکھا۔ ہم یہ نہیں پڑھتے کہ وہ دیکھ کر حیران ہوئی یا خوفزدہ، لیکن اُس کے دِل میں شدید غم تھا۔ دونوں فرشتوں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے، تو اُس نے اُنہیں وہی پیغام دیا جو اُس نے پطرس اور یوحنّا کو دیا تھا۔ وہ قبر کے خالی ہونے پر رو رہی تھی، لیکن یہ بڑی خوشی کی وجہ بن سکتی تھی، اگر وہ صرف اُس حقیقت کو سمجھ لیتی جو فرشتوں نے اُسے پہلے بتائی تھی۔ مریم کی طرح ہم نے بھی کتنی بار اُن چیزوں پر غم کیا ہے جو مصیبت کے طور پر محسوس ہوئیں، لیکن حقیقت میں برکت تھیں!

مریم نے فرشتوں کو جواب دینا مشکل سے ختم کیا ہی تھا کہ اُس نے ایک عام سے آدمی کو دیکھا جسے اُس نے باغ کا نگران سمجھا۔ اُس شخص نے مریم سے پوچھا کہ وہ کیا کر رہی ہے، تو اُس نے جواب میں پوچھا کہ کیا اُس نے اُس کے خُداوند کی لاش کو اُٹھایا ہے۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اُسے کہاں رکھا گیا تھا تا کہ وہ اُس کےلئے کوئی اَور مناسب قبر تلاش کر سکے۔ وہ اُس شخص کے جواب کا اِنتظار کر رہی تھی کہ اُس نے ایک مانوس آواز سُنی "مریم۔" وہ اچھا چرواہا ہے جو اپنی بھیڑوں کو نام سے پکارتا ہے، اور وہ اُسے جانتی ہیں۔ جب اُس نے نرمی سے اُس کا نام پکارا تو اُس نے اُسے پہچان لیا اور محبّت بھرے دِل سے اُسے دیکھنے لگی۔ مریم نے اُسے "ربّونی" یعنی "استاد" کہہ کر مخاطب کیا۔ پھر یسوع نے اُس سے کہا کہ وہ اُسے پکڑے نہ رہے کیونکہ وہ اپنے جی اُٹھنے کے دوران مکمل جسمانی تبدیلی سے گزرا تھا۔ جناب مسیح چاہتے تھے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ اب سے، اُنہیں جسمانی طور پر نہیں، بلکہ روحانی طور پر آپ سے چمٹے رہنا تھا۔ آپ کے لوگوں کو یہ اہم سبق سیکھنا ہے کیونکہ "خُدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچّائی سے پرستش کریں" (یوحنّا 4: 24)۔ ہمیں ظاہری مافوق الفطرت ظہور یا ایسی الٰہی موجودگی کی تلاش نہیں کرنی جسے چھوا جا سکے۔

مسیح نے مریم سے کہا کہ وہ فوراً جائے اور اُس کے شاگردوں کو بتا دے کہ اُس نے مسیح کو دیکھا ہے، اور یہ کہ وہ واقعی جی اُٹھا ہے۔ عِلاوہ ازیں، مسیح نے اُسے یہ پیغام پہنچانے کےلئے کہا کہ وہ جلد ہی آسمان کو لوٹ جائے گا جہاں سے وہ آیا تھا۔ وہ اپنی الٰہی اور اِنسانی صلاحیتوں دونوں میں اپنے باپ اور اپنے خُدا کے پاس صعود کر جائے گا۔

یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک نئے لقب سے نوازا۔ پہلے، آپ نے اُنہیں "دوست" اور "شاگرد" کہہ کر پکارا تھا، لیکن اب، پہلی بار، آپ نے اُنہیں "بھائی" کہا۔ جب اِس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اُنہوں نے آپ کو باغ گتسمنی میں چھوڑ دیا تھا، تو آپ کی محبّت حقیقت میں کس قدر عظیم تھی جب آپ جلالی بدن میں جی اُٹھنے کے بعد اُنہیں بھائیوں کی طرح قبول کرنے پر تیار تھے۔ تاہم، آپ نے یہ ظاہر کیا کہ آپ اور اُن کے درمیان یگانگی کی نوعیت مختلف تھی کیونکہ آپ نے کہا، "مَیں اپنے باپ اور تُمہارے باپ اور اپنے خُدا اور تُمہارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہُوں۔" آپ نے "ہمارے خُدا" نہیں کہا کیونکہ خُدا سے شخصی طور پر مولود ہونے سے وہ آپ کا باپ تھا، جیسا کہ زبور میں کہا گیا ہے: "مَیں اُس فرمان کو بیان کروں گا۔ خُداوند نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مجھ سے پیدا ہُوا" (زبور 2: 7)۔ جبکہ خُدا مسیح کے پیروکاروں کو رُوحانی طور پر لے پالک بنانے سے باپ ہے، جیسا کہ رومیوں کی کتاب میں کہا گیا ہے: "کیونکہ تُم کو غُلامی کی رُوح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی رُوح ملی جِس سے ہم ابّا یعنی اَے باپ کہہ کر پُکارتے ہیں۔ رُوح خُود ہماری رُوح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خُدا کے فرزند ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 15۔ 16)۔ مسیح کی باپ کےلئے فرزندیت اصل فرزندیت ہے، جبکہ اِنسان کی خُدا کےلئے فرزندیت صرف مسیح کے کئے گئے کام کی وجہ سے ممکن ہے۔ یہ مسیح سے شخصی تعلق کے ذریعے ملتی ہے۔

مسیح کا عورتوں پر ظاہر ہونا

"اور دیکھو یسوع اُن سے مِلا اور اُس نے کہا، سلام! اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سِجدہ کیا۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا، ڈرو نہیں۔ جاؤ میرے بھائیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں۔ وہاں مجھے دیکھیں گے۔" (اِنجیل بمطابق متی 28: 9۔ 10)

جی اُٹھنے کے بعد مسیح کا دوسرا ظہور پہلے جیسا تھا۔ آپ مردوں پر نہیں بلکہ عورتوں پر ظاہر ہوئے جب وہ فرشتوں کے پیغام کے ساتھ روانہ ہوئی تھیں۔ لیکن گیارہ شاگردوں اور اُن کے ساتھ دوسرے لوگوں نے اُن کے پیغام پر یقین نہیں کیا۔ دراصل، اُنہیں اُن عورتوں کی بات کہانی معلوم ہوئی۔ لیکن الٰہی پروردگاری نے شاگردوں کے شکوک و شبہات کو سب سے بڑی نعمت میں بدل دیا، کیونکہ یہ جی اُٹھنے کی سچائی کے اہم ترین ثبوتوں میں سے ایک ثابت ہُوا۔ ایک مفسر نے کہا ہے کہ جب فیصلہ کن ثبوت یکے بعد دیگرے سامنے آتے گئے تو شاگردوں کے شبہات رفتہ رفتہ ختم ہو گئے۔ اِس طرح، اُن کا ابتدائی شک اور پھر اُن کا بعد میں یقین کرنا اُن کی گواہی پر ہمارے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے۔ اُنہوں نے تھوڑی دیر کےلئے شک کیا، تا کہ ہمیں کبھی شک نہ ہو۔

پہرے دار جی اُٹھنے کی خبر دیتے ہیں

"جب وہ جا رہی تھیں تو دیکھو پہرے والوں میں سے بعض نے شہر میں آ کر تمام ماجرا سردار کاہنوں سے بیان کیا۔ اور اُنہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر مشورہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دے کر کہا۔ یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سو رہے تھے اُس کے شاگرد آ کر اُسے چُرا لے گئے۔ اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچی تو ہم اُسے سمجھا کر تُم کو خطرہ سے بچا لیں گے۔ پس اُنہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا وَیسا ہی کیا اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے۔" (اِنجیل بمطابق متی 28: 11۔ 15)

یہودی بزرگوں نے اُس خبر پر بحث کرنے کےلئے جو رومی محافظوں نے اُن تک پہنچائی تھی ایک مجلس منعقد کی۔ اُنہوں نے سپاہیوں کو یہ کہنے کےلئے رشوت کی پیشکش کی کہ مسیح کے شاگردوں نے اُن کے سوتے ہوئے اُس کی لاش چرا لی تھی۔ یہودی بزرگوں کا گناہ بہت بڑا تھا کیونکہ اُنہوں نے مسیح کے جی اُٹھنے کو ایک چوری سے منسوب کیا جو وہ جانتے تھے کہ کبھی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن یہ جی اُٹھنا تو رُوح القُدس کی طاقت سے ہُوا تھا۔ اِس طرح وہ ویسے ہی رُوح القُدس کے خلاف کفر کے مرتکب ہوئے جب اُنہوں نے مسیح کے معجزات کو شیطان سے منسوب کر کے کفر کیا تھا۔ لیکن اُن کو جی اُٹھنے سے بڑھ کر کیا ثبوت دیا جا سکتا تھا، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر مسیح اُنہیں آسمان سے کوئی ثبوت دے گا تو وہ اُس پر ایمان لے آئیں گے؟ مسیح کی حقیقی شناخت کی اِس سے بڑھ کر اَور کیا تصدیق ہو سکتی تھی کہ آپ خود مُردوں میں سے جی اُٹھے اور اِس سے پہلے آپ نے بہت سے معجزات کئے تھے؟ کون سا نشان بڑا ہے؟ زندہ ہونے کی حالت میں صلیب سے نیچے اُتر آنا جیسا اُنہوں نے مسیح کو کرنے کےلئے کہا، یا پھر مرنے کے تین دن بعد قبر سے جی اُٹھنا؟

اگر یہودی بزرگوں کا ایمان واقعی ثبوت پر منحصر ہوتا تو وہ بلاشبہ یقین کرتے کیونکہ ثبوت بہت زیادہ تھے - مسیح کی تیس سال کی راست زندگی، اُس کے آخری تین سالوں کے دوران اُس کے حیرت انگیز معجزات، اور پھر اُس کا جی اٹھنا، جو سب سے بڑا مافوق الفطرت واقعہ تھا۔ کیا مسیح نے پہلے "امیر آدمی اور لعزر کی تمثیل" میں یہ نہیں کہا تھا کہ صحائف تک رسائی رکھنے والے افراد اگر ایمان نہیں لاتے، تو چاہے کوئی مُردوں میں سے جی اُٹھے وہ ایمان نہیں لائیں گے (لوقا 16: 30)؟ ایمان صرف ثبوتوں کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ اِس کے تعلق سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اِلٰہی تحفہ ہے۔ اِس لئے، دِل کی حالت اور اِس تحفہ کو قبول کرنے کی خواہش اِنتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ صرف منطق، چاہے وہ کتنی ہی درست اور حقیقی کیوں نہ ہو، ہمیں آسمان تک نہیں پہنچا سکتی۔ کوئی بھی شخص جس کے پاس قائل کرنے والے ثبوت ہوں، اور چاہے وہ وسیع علم، منطقی استعداد اور فصیح بیانی میں مہارت رکھتا ہو، اُسے کبھی یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ محض دلیل سے آسمان کےلئے روحیں جیت سکتا ہے۔

جی اُٹھنے کا سب سے بڑا ثبوت

مسیح کے جی اُٹھنے کا سب سے ٹھوس ثبوت آپ کے صعود کے بعد کے واقعات میں موجود ہے۔ ہم یسوع کے مصلوب ہونے کے صرف سات ہفتے بعد، شاگردوں کو یروشلیم میں ایک بڑے ہجوم کے سامنے، دلیری سے آپ کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی سچائی کا اعلان کرتے دیکھتے ہیں۔ اُنہوں نے صلیب پر مسیح کی موت میں یہودی بزرگوں کے آلہ کار بننے پر اُن کی کھلے عام سرزنش کی۔ ہم اعمال کی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ شاگردوں کی دلیری اور اُن کے دِکھائے جانے والے معجزات کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مسیح پر ایمان لائے، اور شاگردوں نے اِن معجزات کو مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے منسوب کیا۔ اگر مسیح کے جی اُٹھنے کی حقیقت کو رد کرنے کا ذرا بھی اِمکان ہوتا تو شاگرد اپنے اعلان میں اتنے بےخوف اور جرأت مند نہیں ہو سکتے تھے جتنے کہ وہ واقعتاً بنے تھے۔ مزید یہ کہ اُن کا استدلال محض قبر کے خالی ہونے کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ یہ مسیح کی فی الواقعی جسمانی قیامت تھی جس نے اُن کے استدلال کو تقویت بخشی۔

ہم تاریخ سے جانتے ہیں کہ مسیحیت کے دشمنوں کی طرف سے تنقید بہت جلد سامنے آئی تھی، کیونکہ جو لوگ معجزات پر یقین نہیں رکھتے وہ فطری طور پر سب سے بڑے معجزے قیامت کا اِنکار کریں گے۔ لہٰذا، رسولوں نے اپنی منادی میں ہمیشہ مسیح کے جی اٹھنے پر بطور ایک ایسے معجزہ کے زور دیا جو باقی معجزات سے نمایاں ہے۔ اگر کوئی فرد مسیح کے جی اُٹھنے کا یقین کرتا ہے تو وہ آپ کے دیگر معجزات پر بھی یقین کرے گا۔

مسیح کا جی اُٹھنا من گھڑت بات نہیں

اگر جی اُٹھنے کا بیان من گھڑت ہوتا، تو راوی صرف مسیح کے شاگردوں کے سامنے نہیں بلکہ دوسروں کے سامنے بھی مسیح کے ظہور کا ذِکر کرتے، تا کہ اُن کے دعوے کو تقویت ملتی۔ علاوہ ازیں، اگر شاگردوں نے واقعی مسیح کا لاش چُرا لی ہوتی، جیسا کہ یہودی بزرگوں نے جھوٹا الزام لگایا تھا، تو یہ بزرگ اتنے خاموش نہ رہتے جتنے وہ تھے، اور نہ ہی شاگرد مسیح سے کفن کو ہٹانے کا تردُّد کرتے اور اُنہیں ایک جگہ ترتیب سے رکھتے، کیونکہ رومی سپاہی تو قبر کے بالکل باہر تعینات تھے۔ اِس کے علاوہ، شاگردوں نے سپاہیوں (جن کو بزرگوں نے یہ کہنے کےلئے رشوت دی کہ وہ سو گئے تھے) کو جگائے بغیر قبر کے مدخل پر پڑے بھاری پتھر کو کیسے ہٹایا؟ اور کیوں وہ عورتیں جو مسیح کے پیروکاروں میں سے اوّلین اور عزیز ترین تھیں، یہ جانتے ہوئے صبح سویرے مسیح کی لاش کو خوشبودار چیزیں لگانے کےلئے گئیں کہ اُس کے شاگردوں نے اُسے چند گھنٹے پہلے ہی چُرا لیا تھا؟ مزید برآں، شاگردوں کا کردار، اعلیٰ اصول اور بعد ازاں مسیح کے جی اُٹھنے کی ناقابل متزلزل گواہی ایسے معاملات ہیں جو قیامت المسیح کے من گھڑت ہونے کے الزام سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔

بعض نے کہا ہے کہ شاگردوں نے اچھے اور دیانتدار آدمی ہونے کے ناطے، مسیح کے جی اُٹھنے کی خبر نہیں گھڑی، لیکن اُنہوں نے ایک رویا دیکھا جسے اُنہوں نے حقیقی سمجھ لیا۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مسیح کے جی اُٹھنے کا اِدراک اُس کی ذات کے مشاہدے سے شروع نہیں ہُوا تھا، بلکہ خالی قبر کے حسی ثبوت کے ساتھ شروع ہُوا تھا۔ لیکن واہمہ عام طور پر صرف ایک فرد کی امّیدوں کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن مسیح کے جی اُٹھنے کا تصور شاگردوں کے ذہنوں سے بہت دُور تھا۔ اُن میں سے کِسی نے کبھی بھی ایسی بات کی توقع نہیں کی تھی کیونکہ اُن کے دل اِس حقیقت پر سخت ہو چکے تھے۔ یسوع خود اکثر شاگردوں سے مایوس ہوتا تھا کیونکہ وہ اِس بات کو سمجھنے یا یقین کرنے سے قاصر تھے کہ وہ مرے گا اور دوبارہ جی اُٹھے گا۔ یوں، شاگردوں نے خود کو اُن حقائق تک محدود کر لیا تھا جو دیکھنے، سُننے اور چھونے کے حواس کے ذریعے سمجھے جاتے ہیں۔ جب مسیح اُن پر ظاہر ہُوا تو آپ نے توما سے کہا کہ وہ آپ کو چھوئے۔ آپ نے اُن سے کھانے کےلئے کچھ مانگا تا کہ وہ جان لیں کہ آپ حقیقت میں جسمانی طور پر جی اُٹھے تھے۔

7- مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد کے ظہور

اِمّاؤس کی راہ پر

"اور دیکھو اُسی دِن اُن میں سے دو آدمی اُس گاؤں کی طرف جا رہے تھے جِس کا نام اِمّاؤس ہے۔ وہ یروشلیم سے قرِیباً سات میل کے فاصلہ پر ہے۔ اور وہ اِن سب باتوں کی بابت جو واقع ہُوئی تھیں آپس میں بات چیت کرتے جاتے تھے۔ جب وہ بات چیت اور پُوچھ پاچھ کر رہے تھے تو اَیسا ہُوا کہ یسوع آپ نزدیک آ کر اُن کے ساتھ ہو لیا۔ لیکن اُن کی آنکھیں بند کی گئی تھیں کہ اُس کو نہ پہچانیں۔ اُس نے اُن سے کہا، یہ کیا باتیں ہیں جو تُم چلتے چلتے آپس میں کرتے ہو؟ وہ غمگین سے کھڑے ہو گئے۔ پھر ایک نے جِس کا نام کلیُپاس تھا جواب میں اُس سے کہا، کیا تُو یروشلیم میں اکیلا مسافر ہے جو نہیں جانتا کہ اِن دِنوں اُس میں کیا کیا ہُوا ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، کیا ہُوا ہے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، یسوع ناصری کا ماجرا جو خُدا اور ساری امّت کے نزدیک کام اور کلام میں قُدرت والا نبی تھا۔ اور سردار کاہنوں اور ہمارے حاکموں نے اُس کو پکڑوا دِیا تا کہ اُس پر قتل کا حُکم دیا جائے اور اُسے مصلُوب کیا۔ لیکن ہم کو امّید تھی کہ اِسرائیل کو مُخلصی یہی دے گا اور علاوہ اِن سب باتوں کے اِس ماجرے کو آج تیسرا دِن ہو گیا۔ اور ہم میں سے چند عورتوں نے بھی ہم کو حیران کر دِیا ہے جو سویرے ہی قبر پر گئی تھیں۔ اور جب اُس کی لاش نہ پائی تو یہ کہتی ہُوئی آئیں کہ ہم نے رویا میں فرشتوں کو بھی دیکھا۔ اُنہوں نے کہا، وہ زِندہ ہے۔ اور بعض ہمارے ساتھیوں میں سے قبر پر گئے اور جیسا عورتوں نے کہا تھا ویسا ہی پایا مگر اُس کو نہ دیکھا۔ اُس نے اُن سے کہا، اَے نادانو اور نبیوں کی سب باتوں کے ماننے میں سُست اِعتقادو! کیا مسیح کو یہ دُکھ اُٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟ پھر موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب نوِشتوں میں جتنی باتیں اُس کے حق میں لکھی ہُوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دیں۔ اِتنے میں وہ اُس گاؤں کے نزدیک پُہنچ گئے جہاں جاتے تھے اور اُس کے ڈھنگ سے اَیسا معلوم ہُوا کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اُنہوں نے اُسے یہ کہہ کر مجبور کیا کہ ہمارے ساتھ رہ کیونکہ شام ہُوا چاہتی ہے اور دِن اب بُہت ڈھل گیا۔ پس وہ اندر گیا تا کہ اُن کے ساتھ رہے۔ جب وہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تو اَیسا ہُوا کہ اُس نے روٹی لے کر برکت دی اور توڑ کر اُن کو دینے لگا۔ اِس پر اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہوں نے اُس کو پہچان لیا اور وہ اُن کی نظر سے غائب ہو گیا۔ اُنہوں نے آپس میں کہا کہ جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوِشتوں کا بھید کھولتا تھا تو کیا ہمارے دِل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟ پس وہ اُسی گھڑی اُٹھ کر یروشلیم کو لوٹ گئے اور اُن گیارہ اور اُن کے ساتھیوں کو اکٹھّا پایا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ خُداوند بیشک جی اُٹھا اور شمعون کو دِکھائی دِیا ہے۔ اور اُنہوں نے راہ کا حال بیان کیا اور یہ بھی کہ اُسے روٹی توڑتے وقت کس طرح پہچانا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 13۔ 35)

مسیح کا تیسرا ظہور اپنے گیارہ شاگردوں پر نہیں بلکہ اِمّاؤس سے تعلق رکھنے والے اپنے دو پیروکاروں پر تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس کی وجہ کلیسیا کی مستقبل کی قیادت کو شاگردوں کے اندرونی حلقے پر بےجا توجہ دینے سے روکنا تھا۔ یروشلیم سے اِمّاؤس تک دس کلومیٹر طویل سفر پر، جناب یسوع دو مسافروں کے پیچھے نمودار ہُوئے۔ اِس کے بعد آپ اُن کے پاس آئے اور اُن سے باتیں کرنے لگے۔ آپ نے اُن کی گفتگو کا موضوع دریافت کیا کیونکہ وہ اداس دکھائی دے رہے تھے۔ بِلاشُبہ، مسیح کی مصلوبیّت اور تدفین کے حالیہ واقعات کے باعث وہ دِل گرفتہ تھے۔ اُن کی گفتگو امّید اور مایوسی کا مرکب تھی اور ساتھ ہی مسیح کے جی اُٹھنے کا ذِکر بھی تھا، گفتگو کا کُچھ حصّہ بھروسہ پر مشتمل تھا جبکہ کُچھ حصّہ شک پر۔ اُن کی باہمی گفتگو سے یہ ظاہر تھا کہ وہ مسیح سے محبّت کرتے تھے اور اُس محبّت میں اتنے دلیر تھے کہ وہ کسی اجنبی کے سامنے اُس کے ساتھ اپنی رفاقت کو ظاہر کر سکتے تھے۔ جب کلِیُپاس نے مسیح کے اِستفسار کا جواب دیا تو وہ حیران رہ گیا کہ شہر سے آنے والا یہ فرد ایسے موضوع سے ناواقف ہے جس نے حال ہی میں ہر ایک کے خیالات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جب مسیح نے اُنہیں اپنی بات واضح بتانے کےلئے کہا تو اُنہوں نے پچھلے تین دنوں کے تمام واقعات کا جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ وہ نتائج سے کتنے مایوس تھے۔ کلِیُپاس نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اُن کا نیا ساتھی مسافر توجہ سے سُن رہا ہے، اُن امّیدوں کا بیان کیا جو اُسے اور اُس کے ساتھی کو مسیح میں تھیں، جو اَب ختم ہوتی دکھائی دیتی تھیں۔

یہودیوں کی زیادہ تر تاریخ اُن عظیم مخلصی کے واقعات کے گرد گھومتی ہے جو موسیٰ، یشوع، داؤد، حزقیاہ اور دیگر افراد کے ذریعے حاصل ہوئی تھی۔ اپنے زمانے کے بہت سے لوگوں کی طرح، اِن دونوں شاگردوں کی بھی خواہش تھی کہ مسیح روم سے سیاسی نجات دِلاتا۔ کلِیُپاس نے اعتراف کیا کہ مسیح کو فوت ہوئے تین دن ہو چکے ہیں، اور یوں وہ اپنی حوصلہ شکنی کا جواز پیش کر رہا تھا۔ کیا واقعی دونوں نے مسیح کے تیسرے دن جی اٹھنے کے حوالہ کو سنجیدگی سے لیا تھا؟ یا پھر کیا وہ تیسرے دن تک یروشلیم میں رہے اور اب گھر لوٹ رہے تھے، کیونکہ بظاہر مسیح کا جی اُٹھنا نہیں ہوا تھا؟

کلِیُپاس نے ذِکر کیا کہ وہ خواتین جو صبح سویرے قبر پر گئی تھیں اُنہوں نے اُسے خالی پایا۔ کیا اِمّاؤس کی راہ پر یہ افراد اِس گواہی کو کم تر کر رہے تھے کیونکہ یہ عورتوں کی طرف سے آئی تھی؟ کیا وہ شاید یہ سوچتے تھے کہ فرشتوں کو سب سے پہلے شاگردوں پر ظاہر ہونا چاہئے تھا، یا اگر واقعی فرشتے عورتوں پر ظاہر ہوئے ہیں تو کیا اُنہیں اِس کے بجائے مسیح کی غمزدہ ماں کے پاس نہیں جانا چاہئے تھا؟

اِس سے پہلے کہ مسیح خود کو اِن دونوں شاگردوں کے سامنے ظاہر کرتا، اُنہیں کچھ اہم سبق سکھانے کی ضرورت تھی۔ اِس لئے آپ نے اُنہیں جھڑکتے ہوئے کہا، "اَے نادانو اور نبیوں کی سب باتوں کے ماننے میں سُست اِعتقادو!" وہ نادان تھے کیونکہ اُنہوں نے پرانے عہدنامہ میں مسیح کی بابت لکھی گئی اِس بات پر یقین نہ کیا تھا کہ مسیح کو جلال پانے سے پہلے دُکھ اُٹھانا ہو گا۔ وہ صلیب پر آپ کی تکلیف کے بارے میں جانتے تھے کیونکہ یہ یروشلیم میں ہر ایک کی گفتگو کا موضوع تھا، لیکن اگر وہ واقعی صحائف کو جانتے، تو وہ سمجھ جاتے کہ آپ کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا اور پھر جلال ضرور ہی ہو گا۔ اِن افراد نے دیگر شاگردوں کی طرح سوچا کہ یسوع کے ساتھ جو کچھ ہُوا، وہ اُس کے مسیح ہونے کی نفی تھا۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ صلیب پر مسیح کا دُکھ ضروری تھا، کیونکہ وہ تو واقعی مسیحا تھا۔ یسوع نے اُن دونوں کو خالی قبر کے بارے میں عورتوں کی خبر یا فرشتوں کے پیغام کو نہ ماننے پر نہیں بلکہ خُدا کے الہام سے لکھے گئے صحائف کی سمجھ نہ رکھنے پر جھِڑکا جو کہ فہم حاصل کرنے کےلئے ایک یقینی بنیاد ہیں۔ صحائف میں انبیاء نے سکھایا ہے کہ مسیح کو جلال پانے سے پہلے دُکھ اُٹھانے کی ضرورت تھی۔

یسوع نے اِن دونوں آدمیوں کو ایک جامع تعلیم دی۔ آپ نے موسیٰ اور انبیاء سے شروع کیا، اور اُن باتوں کو سمجھانا شروع کیا جو صحائف میں آپ کی بابت لکھی تھیں۔ اگر ہم سے پوچھا جائے کہ مسیح کے اُن اقوال کے درج نہ کرنے میں سب سے بڑا نقصان کیا ہے، تو ہم جواب دیں گے کہ یہ وہ وضاحت ہے جس میں مسیح نے پرانے عہدنامہ کی تمام کتابوں میں اپنے لئے مذکور پیشین گوئیوں، نشانیوں اور علامات کو بیان کیا جن میں آپ کے مصائب، کفارہ بخش موت اور قیامت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ یہ عظیم توضیح سُن کر اُن دونوں افراد کو کتنا زیادہ تعجب ہُوا ہو گا جس سے پرانا عہدنامہ اُنہیں ایک نئی کتاب معلوم ہُوا۔ مسیح نے اُن کے ذہنوں کو کھولا اور اُن کے دِلوں کو اُبھارا تا کہ وہ آپ کی بات کو سمجھ سکیں۔ ایسا دوہرا کام رُوح القُدس کے ذریعے اُن لوگوں میں انجام پاتا ہے جو توجہ سے اُس کی سُنتے ہیں جب وہ اُن کےلئے صحائف کی تشریح کرتا ہے اور پیغام کو اُن کے دِلوں پر نقش کرتا ہے۔ کلِیُپاس اور اُس کے ساتھی نے مسیح کے ساتھ اپنی ملاقات کو اِس طرح بیان کیا: "جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوِشتوں کا بھید کھولتا تھا تو کیا ہمارے دِل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟

جیسے ہی یہ تینوں افراد اِمّاؤس کے گاؤں کے قریب پہنچے، یسوع نے دونوں کو الوداع کہا، اور ایسا ظاہر کیا کہ گویا وہ اُن سے آگے جانا چاہتا ہے۔ لیکن اُنہوں نے آپ کو اپنے ساتھ رہنے پر یہ کہہ کر راضی کیا کہ شام ہُوا چاہتی ہے۔ آپ اُن کے ساتھ رہنے پر رضامند ہُوئے، اور جب مسیح اُن کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تو آپ نے میزبان کا کردار سنبھالا، کیونکہ آپ نے روٹی لی، برکت دی اور توڑی، اور اُن کو دی۔ اُس وقت وہ جان گئے کہ وہ کون ہے؛ اُن کی آنکھیں کُھل گئیں اور اُنہوں نے جی اُٹھے خُداوند کو پہچان لیا۔ لیکن جیسے ہی اُنہوں نے اُسے پہچانا، وہ اُن کی نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ چُنانچہ وہ جلدی سے اُٹھے اور شاگردوں کو یہ خوشخبری سنانے کےلئے یروشلیم واپس آئے۔ اور اگر ہر وہ شخص جس کے سامنے مسیح رُوحانی طور پر ظاہر ہوتا ہے، اُس کے بچانے والے فضل اور رحمت کی گواہی دینے کےلئے دوسروں تک پہنچنے میں جلدی کرتا ہے، تو یہ اُس کےلئے اور اُس کی گواہی سننے والوں کےلئے ایک بڑی برکت ہو گی۔

مسیح کا پطرس پر ظاہر ہونا

جیسے ہی کلِیُپاس اور اُس کا ساتھی چاند کی روشنی میں یروشلیم واپس آئے، مسیح کا چوتھی مرتبہ ظہور ہُوا، اور اِس بار آپ پطرس پر ظاہر ہوئے۔ جب وہ دونوں افراد شاگردوں کو مسیح کو دیکھنے کے بارے میں بتانے پہنچے تو یروشلیم میں گیارہ شاگردوں نے اُن کا یہ کہتے ہوئے اِستقبال کیا "خُداوند بیشک جی اُٹھا اور شمعون کو دِکھائی دِیا ہے" (لوقا 24: 34)۔ تاہم، ہمیں اِس ملاقات کے مقام، وقت یا انداز کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی، اور نہ ہی ہم نجات دہندہ اور اُس کے اوّل ترین شاگرد کے درمیان گفتگو کا موضوع جانتے ہیں۔ لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ مسیح نے پطرس کےلئے اپنی محبّت کی تصدیق کی ہو گی اور اُسے بتایا ہو گا کہ آپ نے اُس کے بڑے گناہ کے بعد اُس کی توبہ قبول کر لی ہے۔ اِس ملاقات نے اُس تلخ واقعہ سے پیدا ہونے والی کسی بھی طرح کی مایوسی کو دور کر دیا ہو گا۔

مسیح کا دس شاگردوں پر ظاہر ہونا

"پھر اُسی دِن جو ہفتہ کا پہلا دِن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہُوا اور اُن سے کہا، تُمہاری سلامتی ہو! اور یہ کہہ کر اُس نے اپنے ہاتھوں اور پسلی کو اُنہیں دِکھایا۔ پس شاگرد خُداوند کو دیکھ کر خُوش ہُوئے۔ یسوع نے پھر اُن سے کہا، تُمہاری سلامتی ہو! جِس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے اُسی طرح مَیں بھی تمہیں بھیجتا ہُوں۔ اور یہ کہہ کر اُن پر پھونکا اور اُن سے کہا، رُوح القُدس لو۔ جِن کے گناہ تُم بخشو اُن کے بخشے گئے ہیں۔ جِن کے گناہ تُم قائم رکھو اُن کے قائم رکھے گئے ہیں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 19۔ 23)

اُس اتوار کی شام شاگرد اِس ڈر سے خفیہ طور پر ملے کہ یہودی بزرگوں نے جیسے اُن کے خُداوند کو مار دیا تھا ویسے ہی اُنہیں بھی مارنے کی کوشش کریں گے۔ مسیح کے جی اُٹھنے کی خبر نے یہودی راہنماؤں کو بہت پریشان کر دیا تھا، اِس لئے شاگردوں نے حفاظت کی غرض سے بند دروازوں کے پیچھے ملاقات کی۔ توما کِسی وجہ سے وہاں موجود نہیں تھا۔

اِس ملاقات سے کُچھ دیر پہلے پطرس نے دیگر شاگردوں کو بتایا کہ جی اُٹھا مسیح اُس پر ظاہر ہُوا ہے۔ اِس لئے جب کلِیُپاس اور اُس کا ساتھی مسیح کو دیکھنے کی خبر لے کر پہنچے تو باقی شاگردوں نے اُنہیں بتایا کہ پطرس کی بھی خُداوند سے ملاقات ہُوئی ہے۔ اِن دونوں نے اِمّاؤس کی راہ پر ہونے والے واقعات کے بارے میں بتایا، اور یہ بھی کہ اُنہوں نے کیسے یسوع کو روٹی توڑتے وقت پہچانا۔ لیکن وہاں موجود لوگوں میں یوں لگتا ہے کہ ابھی بھی کچھ ایسے تھے جو جی اُٹھنے کی حقیقت پر شک کر رہے تھے، اور مریم مگدلینی، دیگر عورتوں اور پطرس کے سامنے مسیح کے ظہور کو محض وہم کے طور پر سمجھتے تھے۔ یوں اُنہوں نے اِن دونوں کی بات پر بھی یقین نہ کیا۔

اُس شام شاگردوں کے اجتماع میں مسیح اچانک ظاہر ہُوا، اور وہاں کا دروازہ بند تھا۔ آپ نے اُن کے درمیان کھڑے ہو کر اُنہیں سلام کیا، اور یہ عمومی سلام "تم پر سلامتی ہو" نہیں تھا جو ظاہری، عارضی امن کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ آپ نے اُنہیں "تمہاری سلامتی ہو" کہا، کیونکہ اب آپ اُن کے خوف اور پریشانی کے درمیان اُنہیں باطنی، رُوحانی اطمینان دے رہے تھے۔ یہ اطمینان وہ ورثہ تھا جو آپ نے اپنے الوداعی خطاب میں اُن کےلئے چھوڑا تھا جب کہا تھا: "مَیں تُمہیں اِطمینان دِئے جاتا ہُوں۔ اپنا اِطمینان تُمہیں دیتا ہُوں۔ جِس طرح دُنیا دیتی ہے مَیں تُمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تُمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے" (یوحنّا 14: 27)۔ یوں آپ نے اپنے اطمینان سے اُن کے پریشان حال دِلوں کو پُرسکون کرنے کی کوشش کی جس طرح آپ نے طوفان کے دوران گلیل کے بپھرے ہوئے سمندر کو ساکن کر دیا تھا۔ ایک ایماندار کو خُدا کے ساتھ جس اطمینان کی ضرورت ہے، اور اپنے ضمیر کے ملامت کرنے کے دوران وہ جس چھٹکارے اور آرام کا متمنّی ہوتا ہے وہ صرف مسیح میں میسر ہے۔ اُس میں وہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو ہمیں دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنے کےلئے درکار ہے کیونکہ یہ رسولی حکم ہے: "جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل ملاپ رکھو" (رومیوں 12: 18)۔

تاہم، شاگرد اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے اِس اطمینان کےلئے تیار نہ تھے۔ وہ یہ سوچ کر گھبرا گئے کہ وہ کِسی رُوح کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہم اُنہیں اِس پر مورد الزام نہیں ٹھہراتے کیونکہ مسیح کا اچانک ظہور اُن کےلئے ایک صدمہ تھا۔ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد مسیح کے ظہور ہر مرتبہ ممتائز تھے، آپ اچانک آتے اور پھر چلے جاتے۔

چونکہ مسیح نے اُن سے اکثر تمثیلوں میں بات کی تھی، اِس لئے شاگردوں نے موت اور جی اُٹھنے کے بارے میں آپ کے بیانات کو علامتی سمجھا۔ یوں، اُنہوں نے آپ کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی، اور نہ ہی اُنہوں نے عورتوں کی گواہی پر دھیان دیا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ خواتین خاص طور پر اوہام کا شکار ہوتی ہیں۔ اِن حالات کو دیکھتے ہوئے، مسیح نے نرمی سے اُنہیں جِھڑکتے ہوئے کہا: "تُم کیوں گھبراتے ہو؟ اور کس واسطے تُمہارے دِل میں شک پیدا ہوتے ہیں؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 38)۔ لیکن پھر، آپ نے بڑی شفقت سے اُنہیں دعوت دی کہ وہ خود سے دیکھیں کہ اُس کے اصلی گوشت اور ہڈیاں ہیں، اور آپ نے اپنے ہاتھ، پاؤں اور پہلو اُنہیں دِکھائے۔ یہ ایک اَور مثال ہے جہاں مسیح نے حِسّی ثبوت کو حقیقت کی تصدیق کے طور پر اہمیت دی، اور آپ نے اہم ترین واقعہ یعنی اپنے جی اُٹھنے میں اِس پر زور دیا۔

"جب مارے خُوشی کے اُن کو یقین نہ آیا اور تعجّب کرتے تھے تو اُس نے اُن سے کہا، کیا یہاں تُمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اُنہوں نے اُسے بُھنی ہُوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اُس نے لے کر اُن کے رُوبرُو کھایا۔ پھر اُس نے اُن سے کہا، یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تُم سے اُس وقت کہی تھیں جب تُمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔ پھر اُس نے اُن کا ذہن کھولا تا کہ کتابِ مقدّس کو سمجھیں۔ اور اُن سے کہا، یوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا اور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اور یروشلیم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی مُنادی اُس کے نام سے کی جائے گی۔ تُم اِن باتوں کے گواہ ہو۔ اور دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازِل کروں گا لیکن جب تک عالم بالا سے تُم کو قوت کا لِباس نہ ملے اِس شہر میں ٹھہرے رہو۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 41۔ 49)

شاگردوں کے سامنے کچھ کھانا کھانے کے بعد، مسیح نے اُن کے ساتھ وہی کیا جو آپ نے اِمّاؤس سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے ساتھ کیا تھا: آپ نے اُن کے ذہنوں کو کھولا تا کہ وہ کتابِ مقدّس کو سمجھ سکیں، اُنہیں قدیم پیشین گوئیوں کی یاد دِلائی، اور اپنی اُن باتوں کو دُہرایا جو آپ بطور پیشین گوئیاں اُن کے سامنے پہلے بیان کر چکے تھے۔ آپ نے اپنے نام میں یروشلیم سے شروع ہونے والی تمام اقوام کےلئے توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی کی اہمیت پر زور دیا۔ ایسا کرنے سے وہ، جو کُچھ اُنہوں نے دیکھا، سُنا اور یقین کیا تھا، اُس کے چشم دید گواہ بننے کو تھے۔ آپ نے اُن سے رُوح القُدس بھیجنے کے اپنے وعدہ کو دُہرایا، جس کا باپ نے وعدہ کیا تھا، اور اُنہیں ہدایت کی کہ وہ یروشلیم کو نہ چھوڑیں جب تک کہ عالم بالا سے رُوح القُدس اُنہیں تقویت نہ دے۔ پھر آپ نے اُنہیں اِن الفاظ کے ساتھ بھیجا: "جِس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے اُسی طرح مَیں بھی تُمہیں بھیجتا ہُوں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 21)۔

یہ کہنے کے بعد، آپ نے اُن پر پھونکا اور کہا، "رُوح القُدس لو" (یوحنّا 20: 22)۔ یسوع وہ کلام ہے جو ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا (یوحنّا 1: 2)، اور وہ جس کے ذریعے سے خُدا نے عالم بنائے (عبرانیوں 1: 2)۔ یوں، جیسے آپ نے پہلے انسان آدم میں فطری زندگی کا دم پھونکا تھا، ویسے ہی آپ نے اپنے شاگردوں میں ایک نئی رُوحانی زندگی کا دم پھونکا۔

مسیح کا اِتوار کو مُقدّس ٹھہرانا

مسیح نے ہفتے کے پہلے دن یعنی اِتوار کو اپنے جی اُٹھنے کے ساتھ اور مختلف مواقعوں پر ہفتے کے اِس دِن میں اپنے پانچ ظہوروں سے اِسے مقدّس کیا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آپ کے پیروکار اِتوار کو مقدّس مانتے ہیں، کیونکہ اِس دن مسیح نے ایک نیا نظام قائم کیا، کلیسیا کی بُنیاد رکھی، اور رُوحانی لحاظ سے ایک نئی دُنیا قائم کی۔ آپ نے اِس دن کو اپنے پیروکاروں کےلئے نئی تخلیق کی یادگار کے طور پر مخصوص کیا جو آپ کی کفارہ بخش موت کا نتیجہ تھی۔ یوں، اِس دِن نے یہودی سبت کی جگہ لے لی جس میں اصل تخلیق کے مکمل ہونے کی یاد منائی جاتی تھی۔ جو حقیقت اِس یقین کی مزید تائید کرتی ہے، یہ ہے کہ مسیح اگلے اتوار کو چھٹی بار دوبارہ ظاہر ہونے سے پہلے پورا ہفتہ اپنے پیروکاروں سے غائب تھا۔ مزید برآں، مسیحی کلیسیا کی پیدایش پر رُوح القُدس کا نزول اتوار کو ہُوا، جو کہ یہودیوں کی عید پینتِکوست تھی (اعمال 2 باب)۔

مسیح کا توما پر ظاہر ہونا

"مگر اُن بارہ میں سے ایک شخص یعنی توما جِسے تواَم کہتے ہیں یسوع کے آنے کے وقت اُن کے ساتھ نہ تھا۔ پس باقی شاگرد اُس سے کہنے لگے کہ ہم نے خُداوند کو دیکھا ہے مگر اُس نے اُن سے کہا، جب تک مَیں اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے سُوراخ نہ دیکھ لوں اور میخوں کے سُوراخوں میں اپنی اُنگلی نہ ڈال لوں اور اپنا ہاتھ اُس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کروں گا۔ آٹھ روز کے بعد جب اُس کے شاگرد پھر اندر تھے اور توما اُن کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے یسوع نے آ کر اور بیچ میں کھڑا ہو کر کہا، تُمہاری سلامتی ہو۔ پھر اُس نے توما سے کہا، اپنی اُنگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اِعتقاد رکھ۔ توما نے جواب میں اُس سے کہا، اَے میرے خُداوند! اَے میرے خُدا! یسوع نے اُس سے کہا، تُو تو مجھے دیکھ کر اِیمان لایا ہے۔ مُبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے اِیمان لائے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 24۔ 29)

اگلے اتوار کو جب مسیح چھٹی بار ظاہر ہُوا تو شاگرد دوبارہ گھر کے اندر تھے، لیکن اب توما اُن کے ساتھ تھا۔ دروازے بند تھے، لیکن اِس کے باوجود مسیح اُن کے درمیان کمرے میں آ موجود ہُوا۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کا یہ ظہور خاص طور پر صرف توما کےلئے تھا، کیونکہ اِس شاگرد نے اُس وقت تک یقین کرنے سے انکار کر دیا تھا جب تک کہ وہ خود مسیح کو دیکھ اور چھو نہ لے۔ اُس نے اُن ثبوتوں کو رد کر دیا جن سے اُس کے ساتھی قائل ہوئے تھے، اور اِس بات پر اِصرار کیا کہ وہ مسیح کے زخموں میں اپنے ہاتھ ڈال کر خود دیکھے گا۔

جب ایک بار مسیح توما پر ظاہر ہُوا تو ہم نہیں جانتے کہ وہ اپنے الفاظ پر شرمندہ تھا یا نہیں، اور وہ یسوع کے زخموں میں ہاتھ ڈالنے سے پیچھے ہٹا یا نہیں، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اُس نے فوری طور پر شک کرنا چھوڑ دیا اور اپنے مکمل ایمان کا اعلان یہ کہتے ہوئے کیا: "اَے میرے خُداوند! اَے میرے خُدا!" مسیح بِلا شک و شبہ خوش ہوئے کہ توما نے آخرکار یقین کر لیا تھا، لیکن آپ نے حِسّی ثبوت پر اصرار کرنے پر اُس کی سرزنش کی۔ نیز آپ نے اُن لوگوں کے مقام اور بابرکت حالت کا ذِکر کیا جو کِسی بصری ثبوت کی موجودگی کے بغیر ایمان لاتے ہیں۔ یہ سعادت تمام ایمانداروں کےلئے ہے۔ اِس لئے، آئیے ہم اُن لوگوں کی پیروی نہ کریں جو اپنے ایمان کی بنیاد محض ظاہری شہادتوں پر رکھتے ہیں۔

اگرچہ توما کے ایمان کی کمی پر افسوس کیا جاتا ہے، لیکن ہم ایک بنیادی مذہبی سچائی کو قبول کرنے سے پہلے کافی ثبوت مانگنے پر اُس کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ نامناسب ہے کہ جو کچھ دوسروں نے دیکھا یا تجربہ کیا ہے اُس پر اپنی مذہبی قائلیت کو اُستوار کیا جائے۔ دانا شخص کو جو مذہبی یقین اپنے آباء و اجداد سے ملتا ہے وہ اُس کا جائزہ لیتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس تک جھوٹ پہنچا ہو، کیونکہ غلطی بھی آگے منتقل ہوتی جاتی ہے۔ اِسی طرح، کِسی بھی فرد کو اپنے ایمان کو علما کے پیش کئے گئے دعوؤں پر قائم کرنے پر بذاتِ خود پہلے اُس کے ثبوت کی تحقیق اور جانچ کئے بغیر مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ دینی معاملات میں شک درحقیقت یقین کا دروازہ ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ تحقیق کا باعث بنتا ہے جو اعتقاد کی مضبوطی کی طرف لے جاتا ہے۔ ذاتی تحقیق کے بغیر مذہبی معاملات میں کوئی حقیقی یقین یا قائلیت نہیں ہو سکتی۔

پھر مسیح نے توما کو کیوں جِھڑکا؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ثبوت مانگنے میں بہت آگے نکل گیا۔ اُس نے یقین کی طرف میلان کی کمی ظاہر کی، اور گویا اپنے اِنکار کا عُذر پیش کر رہا تھا۔ اُس نے حِسّی ثبوت کا مطالبہ کیا اور اخلاقی اور رُوحانی ثبوت کو حقیر سمجھا۔ ہم اُسے اِس بات پر اِلزام نہیں دیتے کہ جیسے دُوسروں نے دیکھا تھا وہ ویسے دیکھنے پر اِصرار کر رہا تھا، بلکہ اِس بات پر کہ وہ اُن کی گواہی قبول نہیں کر رہا تھا۔ اگر عدالت میں قاضی ایک فیصلہ تک پہنچنے میں توما کی طرح کے رویہ کا مظاہرہ کریں تو وہ کِسی بھی مقدمہ میں فیصلہ نہیں دے سکیں گے۔ ذرا تصور کریں کہ کمرہ عدالت میں موجود عینی شاہدین نے اپنے سامنے لائے گئے مقدمے کے بارے میں جو گواہی دی ہے، ایک قاضی خود اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر اصرار کر رہا ہو۔ اگر ایمانداروں نے توما کی مثال کی پیروی کی ہوتی، تو تمام منادی ختم ہو جاتی اور مسیحی کلیسیا اپنے قیام کے فوراً بعد ختم ہو جاتی۔

مسیح کا سات شاگردوں پر ظاہر ہونا

"اِن باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اِس طرح ظاہر کیا۔ شمعون پطرس اور توما جو تواَم کہلاتا ہے اور نتن ایل جو قانایِ گلیل کا تھا اور زبدی کے بیٹے اور اُس کے شاگردوں میں سے دو اَور شخص جمع تھے۔ شمعون پطرس نے اُن سے کہا، مَیں مچھلی کے شکار کو جاتا ہُوں۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، ہم بھی تیرے ساتھ چلتے ہیں۔ وہ نِکل کر کشتی پر سوار ہُوئے مگر اُس رات کچھ نہ پکڑا۔ اور صُبح ہوتے ہی یسوع کنارے پر آ کھڑا ہُوا مگر شاگردوں نے نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ پس یسوع نے اُن سے کہا، بچّو! تُمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اُنہوں نے جواب دِیا کہ نہیں۔ اُس نے اُن سے کہا، کشتی کی دہنی طرف جال ڈالو تو پکڑو گے۔ پس اُنہوں نے ڈالا اور مچھلیوں کی کثرت سے پِھر کھینچ نہ سکے۔ اِس لئے اُس شاگرد نے جس سے یسوع محبّت رکھتا تھا پطرس سے کہا کہ یہ تو خُداوند ہے۔ پس شمعون پطرس نے یہ سُن کر کہ خُداوند ہے کُرتہ کمر سے باندھا کیونکہ ننگا تھا اور جھیل میں کُود پڑا۔ اور باقی شاگرد چھوٹی کشتی پر سوار مچھلیوں کا جال کھینچتے ہُوئے آئے کیونکہ وہ کنارے سے کچھ دُور نہ تھے بلکہ تخمیناً دو سو ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ جس وقت کنارے پر اُترے تو اُنہوں نے کوئلوں کی آگ اور اُس پر مچھلی رکھی ہُوئی اور روٹی دیکھی۔ یسوع نے اُن سے کہا، جو مچھلیاں تُم نے ابھی پکڑی ہیں اُن میں سے کچھ لاؤ۔ شمعون پطرس نے چڑھ کر ایک سو ترِپن بڑی مچھلیوں سے بھرا ہُوا جال کنارے پر کھینچا مگر باوجود مچھلیوں کی کثرت کے جال نہ پھٹا۔ یسوع نے اُن سے کہا، آؤ کھانا کھا لو اور شاگردوں میں سے کسی کو جُرأت نہ ہُوئی کہ اُس سے پوچھتا کہ تُو کون ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خُداوند ہی ہے۔ یسوع آیا اور روٹی لے کر اُنہیں دی۔ اِسی طرح مچھلی بھی دی۔ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہُوا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 21: 1۔ 14)

یسوع نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی کہ وہ آپ سے پہلے گلیل میں جائیں، جو کہ دانشمندانہ تھا، کیونکہ وہاں زیادہ تر ایماندار موجود تھے، اور اُنہیں مسیح کے مصائب، موت، اور جی اُٹھنے کے بارے میں شاگردوں سے سُننے کی ضرورت تھی۔ گلیل کی جھیل پر، مسیح سات شاگردوں کے ایک گروہ کے سامنے ظاہر ہُوا۔ یہ جی اُٹھنے کے بعد مسیح کا ساتواں ظہور تھا۔ جہاں تک اِس آیت کا تعلق ہے جس میں لکھا ہے، "یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہُوا"، تو یوحنّا کا مطلب یہ تھا کہ دیگر افراد پر ظاہر ہونے سے ہٹ کر یہ تیسری بار تھا جب مسیح اپنے شاگردوں کے ایک گروہ کے سامنے ظاہر ہُوا۔

گلیل کی جھیل مقدّس سرزمین کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے اور اِس موقع پر یسوع اپنے سات شاگردوں کو دکھائی دیا جو سب ایک ہی کشتی میں تھے۔ یہ شاگرد زیادہ تر ماہی گیر تھے اور جب یسوع نے اُنہیں بلایا تھا تو وہ اپنے جال چھوڑ کر آپ کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ تاہم، مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد، وہ حوصلہ شکنی کی حالت کا شکار ہو گئے، اِس لئے وہ سب کچھ جو اُنہوں نے سیکھا تھا اُسے بھول کر اپنے سابقہ پیشہ کی جانب لوٹ گئے۔ لیکن اُس رات اُنہوں نے کُچھ نہ پکڑا۔ اِلٰہی پروردگاری نے اُنہیں مچھلیوں سے محروم کر دیا تا کہ اُن کی آنکھیں کہیں بڑی حقیقت کی طرف کھل سکیں۔ خُدا اکثر ہمارے ساتھ اِس طرح سے پیش آتا ہے۔

مسیح اُس رات اُن کی تمام محنت اور اُس کے نتیجے میں اُن کی بھوک سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ نے اپنی حکمت میں، سب سے پہلے اُن کی دنیاوی ضروریات کا خیال رکھا، اور اُنہیں کھانے کی دعوت دی۔ ایک بار پھر، یہ آپ ہی تھے جس نے اُن کی خدمت کی۔

مسیح کا پطرس کے دِل کو جانچنا

"اور جب کھانا کھا چُکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا، اَے شمعون یوحنّا کے بیٹے کیا تُو اِن سے زیادہ مجھ سے محبّت رکھتا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا، ہاں خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا۔ تُو میرے برّے چرا۔ اُس نے دوبارہ اُس سے پھر کہا، اَے شمعون یوحنّا کے بیٹے کیا تُو مجھ سے محبّت رکھتا ہے؟ اُس نے کہا، ہاں خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھ کو عزیز رکھتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا، تُو میری بھیڑوں کی گلّہ بانی کر۔ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا، اَے شمعون یوحنّا کے بیٹے کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ چُونکہ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا، کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے، اِس سبب سے پطرس نے دِلگیر ہو کر اُس سے کہا، اَے خُداوند! تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہُوں۔ یسوع نے اُس سے کہا، تُو میری بھیڑیں چرا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 21: 15۔ 17)

جھیل کے کنارے اپنے شاگردوں کو کھانا پیش کرنے کے بعد مسیح نے پطرس پر خصوصی توجہ مرکوز کی تا کہ اُسے اور دیگر شاگردوں کو یقین دلایا جائے کہ آپ نے گناہ میں اُس کی گراوٹ کے بعد اُس کی توبہ قبول کر لی ہے، اور یہ کہ اُس کا رسولی درجہ بدستور قائم ہے۔ تاہم، اِس میں اُن سب کےلئے خاص کر پطرس کےلئے مچھلیاں پکڑنے کی خاطر رُوحوں کی نگہداشت کو چھوڑنے پر ہلکی سی ڈانٹ کا ایک پہلو بھی موجود تھا۔

ایک رُوحانی جرّاح کی طرح، مسیح نے پطرس کو شفا دینے کی غرض سے چرکا لگاتے ہوئے پوچھا، "کیا تُو اِن سے زِیادہ مجھ سے محبّت رکھتا ہے؟" باالفاظ دیگر، جناب مسیح پطرس سے پوچھ رہے تھے کہ کیا وہ اپنے ساتھی شاگردوں سے زیادہ آپ سے محبّت رکھتا ہے؟ یہ وہ شاگرد تھے جو خوف کی وجہ سے مسیح کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، لیکن اُنہوں نے پطرس کی طرح کبھی آپ کا انکار نہیں کیا تھا۔ پطرس نے جواب میں کہا، "ہاں خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہُوں۔" لیکن اُس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ مسیح سے زیادہ محبّت کرتا ہے۔ چونکہ یسوع ہمارے تمام کاموں کے محرّک کے بارے میں پوچھتا ہے، اِس لئے آپ نے پطرس سے اُس کے اعمال، علم یا ارادوں کے بارے میں نہیں پوچھا، بلکہ اُس کی دلی حالت کے بارے میں پوچھا کہ اُس کے باطن کی کیا کیفیت تھی۔ اگر یسوع نے پطرس سے اُس کے اعمال کے بارے میں پوچھا ہوتا، تو یہ شرمندگی کا باعث ہوتا، کیونکہ اُس کی کارکردگی اتنی زیادہ متاثر کن نہیں تھی۔ لیکن اپنی خطا کے باوجود، پطرس ریاکار نہیں تھا، کیونکہ اُس کا باطنی محرّک درست تھا۔ وہ محض اپنے اعمال میں ناکام ہُوا تھا۔ جو شخص اپنے باطنی بگاڑ کو اچھے رویہ سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔ لیکن چونکہ یہ مسیح کی خواہش ہے کہ ظاہری اعمال ایک راست دل کی عکاسی کریں، اِس لئے آپ پطرس کے محض اپنے لئے محبّت کے اقرار سے مطمئن نہ تھے۔ آپ اُس سے مثالی کام بھی چاہتے تھے۔ پطرس کےلئے رُوحوں کی دیکھ بھال چھوڑ کر مچھلیوں کو پکڑنے کےلئے چلے جانا، اور دوسروں کی بھلائی کی فکر کرنے کے بجائے اپنے مفادات کےلئے لوٹ جانا غلط تھا۔ لہٰذا، مسیح نے اُس سے کہا، "تُو میرے برّے چرا۔" اِن الفاظ کے ذریعہ آپ نے پطرس کے رسولی کردار کو بحال کیا جسے وہ اپنے گناہ کے باعث کھو بیٹھا تھا۔ اِن الفاظ کے ساتھ مسیح نے پطرس کے کردار کو "آدم گیر" سے "رُوحوں کے نگہبان" میں بدل دیا۔ اور برّوں کی بابت اِس ذمہ داری میں ہم تمام رُوحانی ’’چرواہوں‘‘ کا حقیقی کام دیکھتے ہیں، جو کہ غریبوں، چھوٹوں، کمزوروں اور مایوسوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔

مسیح نے دوبارہ پطرس سے پوچھا: "کیا تُو مجھ سے محبّت رکھتا ہے؟" اور آپ کو اُس کی طرف سے دوبارہ وہی جواب ملا۔ لیکن اِس بار مسیح نے کہا، "تُو میری بھیڑوں کی گلّہ بانی کر۔" باغِ گتسمنی میں مسیح کے پکڑے جانے سے پہلے، پطرس نے مسیح سے تین بار کہا تھا کہ وہ آپ کا انکار نہیں کرے گا، لیکن پھر اُس نے تین بار آپ کا انکار کیا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے پطرس سے تین بار ایک چُھبنے والا سوال پوچھا، اور اِس نے پطرس پر گہرا اثر کیا۔ پطرس جذبات سے مغلوب ہو گیا اور اُس نے جذبات بھرے الفاظ میں کہا، "اَے خُداوند! تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ مَیں تجھے عزِیز رکھتا ہُوں۔" جو مسیح سے سچی محبّت کرتا ہے وہ ہمیشہ اُس کی فرمانبرداری کرے گا۔ نیز، ایک شخص اگر مسیح سے محبّت کرتا ہے تو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ صرف بھلائی کرے گا۔ اِس قسم کی محبّت ممکن ہے کیونکہ مسیح نے پہلے ہم سے محبّت کی ہے۔ وہ اب بھی ہم سے پوچھتا ہے کہ کیا ہم اُس سے محبّت کرتے ہیں؟ ہمارا جواب کیا ہو گا؟

یسوع پانچ سو سے زیادہ اشخاص پر ظاہر ہوتا ہے

"پِھر پانچ سَو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دِکھائی دِیا۔ جِن میں سے اکثر اب تک موجود ہیں اور بعض سو گئے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 15: 6)

اعمال کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ مسیح نے اپنے دُکھ سہنے کے بعد بہت سے معتبر ثبوتوں کے ساتھ خود کو زندہ ظاہر کیا، اور چالیس دن تک نظر آتا رہا اور اِس دوران آپ نے خُدا کی بادشاہی سے متعلق بات کی (اعمال 1: 3)۔ اپنی عوامی خدمت کے آغاز میں، مسیح نے بیابان میں شیطان سے نبرد آزما ہوتے چالیس دن گزارے تھے۔ اپنی خدمت کے اختتام پر چالیس دِنوں میں آپ نے شیطان اور تاریکی کی قوتوں پر اپنی فیصلہ کن فتح کا اعلان کیا۔ آپ نے یہ اپنے شاگردوں کےلئے کیا تا کہ اُنہیں اِس بات کا احساس ہو کہ اُس کی رُوحانی حضوری اُن کے ساتھ ہمیشہ رہے گی۔

مسیح کا جی اُٹھنے کے بعد آٹھواں ظہور سب سے اہم ہے، جو کہ آپ کے اپنے آبائی علاقہ گلیل میں دوسرا اور آخری ظہور تھا۔ اِس جگہ میں یسوع ایک ہی وقت پر پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو دِکھائی دیا، جن میں سے زیادہ تر اُس وقت تک زندہ تھے جب پولس رسول نے کرنتھس میں کلیسیا کے نام اپنا پہلا خط تحریر کیا۔ متی اِنجیل نویس ہمیں بتاتا ہے کہ جب اُنہوں نے اُسے دیکھا تو اُس کے آگے سجدہ کیا، مگر بعض نے شک کیا (اِنجیل بمطابق متی 28: 17)۔ اُن کے شک کو مسیح کی جلالی صورت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے اُنہیں یسوع کو پہچاننے میں اور یہ یقین کرنے میں مشکل پیش آئی کہ یہ واقعی یسوع تھا۔

پانچ سو لوگوں کا مجمع بڑا واقعہ ہے! حقیقت یہ ہے کہ اتنا ہجوم اکٹھا ہونا اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ملاقات پہلے سے طے کی گئی تھی۔ اِس ملاقات کے بیان میں، ہمارے پاس مسیح کے جی اُٹھنے کی حقیقت کا واضح ثبوت موجود ہے۔ کلامِ مقدّس اُن الفاظ کا ذکر کرتا ہے جو جناب مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہے -- اگر آپ قبر سے واقعی جی نہ اُٹھے ہوتے تو یہ الفاظ نہیں کہہ سکتے تھے۔ آنے والی سطور میں مسیح کے کچھ اہم اعلانات پر بحث کی جائے گی۔

"آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے" (متی 28: 18)۔ کیا کوئی منطقی طور پر اِس طرح کے دعوے کو ایک ایسے شخص سے منسوب کر سکتا ہے جسے حال ہی میں دنیا کے کئی حصوں سے جمع ہونے والے ہجوم کے پیش نظر شرمناک طور پر مصلوب کیا گیا تھا؟ مسیح نے اِس کے بعد جو کہا وہ بھی انتہائی اہم ہے: "پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القُدس کے نام سے بپتسمہ دو" (متی 28: 19)۔ زمانہ قدیم سے، یہودیوں نے اپنے آپ کو دوسری اقوام سے علیحدہ کیا ہوا تھا، اپنے عقائد اور ایمان سے وابستہ فوائد کو اپنے لوگوں تک محدود رکھا، اور مذہبی تعصب کی بِنا پر دوسرے لوگوں کو حقیر جانا۔ تو کیا اِس تناظر میں مسیح کے شاگردوں کا خُدائے ثالوث کے عقیدہ پر مبنی تعلیم پیش کرنا قابلِ فہم ہے، جبکہ یہودی تعلیم میں اُنہوں نے اِس کے بارے میں نہیں سیکھا تھا؟

مسیح کے عظیم ترین اقوال میں سے ایک، جو آپ کے جی اُٹھنے کے ثبوت کی سب سے زیادہ واضح تصدیق ہے، یہ ہے: "... اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہُوں" (متی 28: 20)؛ "جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مُجرم ٹھہرایا جائے گا" (اِنجیل بمطابق مرقس 16: 16)۔ اگر مسیح صحیح معنوں میں جی نہ اُٹھتا تو وہ ممکنہ طور پر اُن کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ واقعی جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کے ساتھ رہا تو اُس کے جی اُٹھنے کی حقیقت کے بارے میں کوئی بے یقینی باقی نہیں ہے۔ چونکہ مسیح کی اپنے شاگردوں کے ساتھ موجودگی رُوحانی تھی، اِس لئے اِسے آپ نے اُن کےلئے نشانوں کے ذریعے ثابت کیا، اور ایسا آپ نے آسمان پر اپنے صعود کے بعد ابتدائی سالوں میں اُنہیں تقویت دینے سے کیا کہ معجزات سرانجام دیں۔ جب اِن نشانوں اور عجائب کے واقعات کو ایمانداری کے ساتھ دستاویزی شکل دی گئی تو وہ دُنیا کےلئے کافی ثبوت بن گئے۔

مسیح نے رسولوں سے وعدہ کیا تھا کہ ایمانداروں کے درمیان کچھ نشان وقوع پذیر ہوں گے: "اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بد رُوحوں کو نکالیں گے۔ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اُٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو اُنہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہو جائیں گے" (مرقس 16: 17۔ 18)۔ مسیح کے نام پر رسولوں کے کمزور گروہ نے جو معجزات کئے وہ اِن الفاظ کی تصدیق کےلئے کافی تھے، کیونکہ اُنہوں نے بہت کم وقت میں بہت سے ممالک تک مسیحی پیغام کا پرچار کیا اور نتیجتاً غیر اقوام سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کلیسیا میں شامل ہو گئے۔ کلیسیا کی کامیابی کی مستند رودادیں مسیح کے جی اُٹھنے کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں، اور وہ اِن زبردست اقوال کے مسیح سے منسوب ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔

گلیل میں اپنے شاگردوں سے مسیح کا الوداعی خطاب ایک فلسفیانہ کُل کے طور پر مربوط ہے۔ آپ نے اعلان کیا کہ آپ کے پاس آسمان اور زمین کا تمام اختیار ہے، اور اِس کے ثبوت کے طور پر آپ نے اُن کے ذریعے معجزات کرنے کا وعدہ کیا۔ آپ کا اِس طرح کا دعویٰ اُن کے ساتھ مسلسل موجود رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ تینوں سچائیاں ایک دوسرے پر منحصر ہیں، ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے۔ جناب مسیح نے اگر جی اُٹھنے کے بعد آسمان پر نہ جانا ہوتا اور خُدا کے دہنے ہاتھ نہ بیٹھتے تو آپ اِس طرح کے اختیار کا دعویٰ کبھی نہ کر سکتے تھے۔ اِسی وجہ سے آپ نے رسولوں کو معجزات کرنے کے قابل بنایا اور پھر اُن کے ساتھ ہمیشہ موجود رہے۔

مسیح نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی کہ وہ دُنیا میں اُس کی خوشخبری کی منادی کریں، اور یہ آپ کے تمام پیروکاروں کےلئے ایک مستقل حکم ہے۔ اِس کا انحصار آپ کے اِس وعدے پر ہے کہ آپ منادی کرنے کے دوران اُن کے ساتھ ہوں گے۔ منادی کے اِس کام سے بڑھ کر کوئی عظیم، اعلیٰ اور اہم انسانی کام نہیں ہے۔ جس کامیابی کا مسیح نے وعدہ کیا تھا اُس کا تعلق خُدائے واحد کے تیسرے اقنوم رُوح القُدس کے کام پر انحصار سے تھا، جو پاک تثلیث کے مجسم اقنوم مسیح کے آسمان پر صعود کے بعد بخشا گیا۔

مسیح نے اپنے رسولوں کو ہدایت کی کہ وہ یروشلیم کو نہ چھوڑیں بلکہ باپ کی طرف سے رُوح القُدس کے وعدے کا انتظار کریں۔ آپ نے اُن سے کہا: "اُن وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تُمہارا کام نہیں۔ لیکن جب رُوح القُدس تُم پر نازل ہو گا تو تُم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے" (نیا عہدنامہ، اعمال 1: 7۔ 8)۔

مسیح کا یعقوب پر ظاہر ہونا

"پھر یعقوب کو دِکھائی دیا۔ پھر سب رسُولوں کو۔" (1۔ کرنتھیوں 15: 7)

جی اُٹھنے کے بعد مسیح کا نواں ظہور یعقوب رسول پر تھا۔ یہ قابل غور ہے کہ مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد کے تمام ظہور صرف آپ کے پیروکاروں تک ہی محدود تھے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ جناب مسیح جانتے تھے کہ آپ اپنے مخالفین پر ظاہر بھی ہو جائیں لیکن وہ آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ آپ نے پہلے کہا تھا کہ "جب وہ موسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سُنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئی جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہیں مانیں گے۔" یوں، رُوحانی معاملات میں ایمان پیدا کرنے کےلئے حِسّی ثبوت کافی نہیں ہے۔ اِس کی تائید میں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح یہودی راہنماؤں نے قبر کے باہر تعینات رومی سپاہیوں کے بتانے کے باوجود یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔

مسیح کا ترسیس کے ساؤل پر اپنے آپ کو ظاہر کرنا

"اور سب سے پیچھے مجھ کو جو گویا ادھورے دنوں کی پیدایش ہُوں دِکھائی دیا۔ کیونکہ مَیں رسُولوں میں سب سے چھوٹا ہُوں بلکہ رسُول کہلانے کے لائق نہیں اِس لئے کہ مَیں نے خُدا کی کلیسیا کو ستایا تھا۔" (1۔ کرنتھیوں 15: 8، 9)

مسیح کے جی اٹھنے کے بعد کے ظہور میں شامل ایک قابل ذکر واقعہ آپ کے صعودِ آسمانی کے بعد پیش آیا، جب یسوع نے اپنا آپ ترسُس کے ساؤل پر ظاہر کیا، وہ کلیسیا کا ایک ستانے والا تھا جو حیرت انگیز طور پر یسوع پر ایمان لایا۔ جی اُٹھے مسیح کا یہ آخری ظہور خاص طور پر فیصلہ کن ہے، کیونکہ یہ اُن نقادوں کے دعوے کو خاموش کر دیتا ہے جو کہتے ہیں کہ مسیح کے جی اٹھنے کے بعد کے ظہور کے بیانات باطل ہیں کیونکہ یہ محض اُن لوگوں کے تصورات تھے جو مسیح سے گہری محبّت کرتے تھے اور آپ سے جذباتی طور پر وابستہ تھے۔

مسیح کی رُوحانی بادشاہی

"اُس دِن تک جس میں وہ اُن رسولوں کو جنہیں اُس نے چُنا تھا رُوح القُدس کے وسیلہ سے حُکم دے کر اُوپر اُٹھایا گیا۔ اُس نے دُکھ سہنے کے بعد بُہت سے ثبوتوں سے اپنے آپ کو اُن پر زندہ ظاہر بھی کیا۔ چُنانچہ وہ چالیس دِن تک اُنہیں نظر آتا اور خُدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔ اور اُن سے مل کر اُن کو حُکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُس وعدہ کے پُورا ہونے کے مُنتظر رہو جس کا ذکر تُم مجھ سے سُن چکے ہو۔ کیونکہ یوحنّا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تُم تھوڑے دنوں کے بعد رُوح القُدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔ پس اُنہوں نے جمع ہو کر اُس سے یہ پُوچھا کہ اَے خُداوند! کیا تُو اِسی وقت اِسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کرے گا؟ اُس نے اُن سے کہا، اُن وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تُمہارا کام نہیں۔ لیکن جب رُوح القُدس تُم پر نازل ہو گا تو تُم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے۔" (اعمال 1: 2۔ 8)

مسیح کی موت نے شاگردوں کی ایک زمینی، یہودی، سیاسی بادشاہی کی ابتدائی امیدیں ختم کر دی تھیں۔ تاہم، آپ کے جی اُٹھنے نے اُن خواہشات کو زندہ کر دیا۔ لیکن مسیح کے جواب نے اُن کے غلط اندازے کو بےنقاب کر دیا، جبکہ اُن کے اندر امّید پیدا کی -- جس سے اُنہیں مسیح نجات دہندہ کے گواہ کے طور پر اپنے نئے کام میں کامیابی کی تسلی ملنی تھی۔ آپ نے اُنہیں ہدایت کی کہ وہ یروشلیم میں منادی شروع کریں، لیکن اُنہیں وہاں رُکنا نہیں تھا، بلکہ اُنہیں زمین کی انتہا تک جانا تھا۔

جی اُٹھنے کی صبح نور کی کرنیں

عربی بولنے والے مسیحی قیامت المسیح کی صبح کو صباح النور کے نام سے پکارتے ہیں، اور یہ الفاظ انتہائی پر معنٰی ہیں۔ اِس کا مطلب ہے "نور کی صبح"، یہ الفاظ اُس عظیم ترین نور کے چمکنے کو بیان کرتے ہیں جب جناب مسیح قبر میں سے جی اُٹھے۔ آپ نے خود یہ کہا تھا "مَیں دُنیا کا نور ہوں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 12)۔ واقعی، مسیح کی خالی قبر رُوحانی روشنی کا ایک عظیم ذریعہ ہے!

اِس نور کی پہلی کِرن تصدیق کرتی ہے کہ جناب مسیح آسمان سے تشریف لائے تھے، اور یہ نجات کے آپ کے کام کی تکمیل کی گواہی بھی ہے۔ یہ خُدا کے بیٹے اور ابن آدم کے طور پر آپ کے اختیار کی تصدیق بھی کرتی ہے۔ لہٰذا، آپ بنی نوع انسان کے واحد اور ضرورت کےلئے کافی نجات دہندہ ہیں۔

نور کی دوسری کرن وہ ہے جس نے قبر کی تاریکی کو روشن کیا، اور ایمانداروں کے دِلوں سے مایوسی کو دُور کر دیا۔ جناب مسیح ہم سے پہلے قبر میں اُترے تا کہ جب ہم اُس کے پیچھے جائیں تو ہمیں خوف نہ ہو۔ مسیح کے پہلے کہے گئے الفاظ اِس سچائی کے مطابق ہیں: "شاگرد اپنے اُستاد سے بڑا نہیں ہوتا اور نہ نوکر اپنے مالک سے" (اِنجیل بمطابق متی 10: 24)۔ ہمیں موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مسیح نے ہماری خاطر موت کو سہا۔

اِسی لئے پولس رسول نے اعلان کیا: "اَے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟" (1۔ کرنتھیوں 15: 55)۔ مسیح نے ہماری انسانیت میں شمولیت اختیار کی تا کہ اُسے جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کرے اور اُنہیں چھُڑا لے جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے (عبرانیوں 2: 14، 15)۔

قیامت المسیح سے آنے والی نور کی تیسری کرن ایمانداروں کے جلال میں جی اُٹھنے کی ضمانت ہے، کیونکہ مسیح کا اپنا جی اُٹھنا اِس سچائی کا نمونہ اور عہد ہے۔ اِسی لئے مسیح کو "مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلوٹھا" کہا گیا ہے (کلسیوں 1: 18)، کیونکہ وہ مر کر جی اُٹھا، اور پھر کبھی نہیں مرنے کا۔

قیامت المسیح کی چوتھی کرن مسیح کے اپنے جلالی بدن میں آسمان پر خُدا کے دہنے ہاتھ خُدا کے بیٹے اور ابن آدم کے طور پر ہمیشہ کےلئے بیٹھنے کا پیش خیمہ ہے، جہاں وہ درمیانی کے طور پر اپنی خدمت سرانجام دے رہا ہے، اور آسمانی مقاموں کو اپنے شاندار جلال سے روشن کرتا ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پولس رسول نے فلپی کی کلیسیا کو لکھا کہ وہ مسیح اور اُس کے جی اُٹھنے کی قدرت کو جاننے کے مقابلے میں ہر چیز کو نقصان میں شمار کرتا ہے (فلپیوں 3: 8)۔

پانچویں کرن اُن لوگوں کےلئے تسلی ہے جن کے پیارے وفات پا چکے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی تعریف اِن الفاظ میں کی گئی ہے: "مُبارک ہیں وہ مُردے جو اَب سے خُداوند میں مرتے ہیں۔ رُوح فرماتا ہے، بیشک! کیونکہ وہ اپنی محنتوں سے آرام پائیں گے اور اُن کے اعمال اُن کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 14: 13)۔ اِسی طرح غمزدوں کی تسلی کےلئے یہ مبارکبادی ہے: "مُبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے" (متی 5: 4)۔

رسولوں اور آبائے کلیسیا کے زمانے میں، مسیحی اپنے کسی عزیز کی موت پر سفید لباس پہنتے تھے، جو مرنے والے کے مستقبل کی جلالی قیامت کی گواہی ہوتا تھا۔ وہ ایک ایماندار کی موت کے دِن کو اُس کی "سالگرہ" سمجھتے تھے۔ مسیح کے شاندار وعدوں میں سے ایک وعدہ وہ ہے جس میں آپ نے ایمانداروں کی آنکھوں سے سب آنسو پونچھنے کا وعدہ کیا ہے (مکاشفہ 21: 4)۔ یوں، ہر مسیحی پولس رسول کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ "زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے اور مرنا نفع" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 1: 21)۔ مسیح کے جی اُٹھنے کے نتیجہ کے طور پر ایماندار جی اُٹھیں گے۔

8- مسیح کا آسمان پر صعود

"یہ کہہ کر وہ اُن کے دیکھتے دیکھتے اُوپر اُٹھا لیا گیا اور بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چھپا لیا۔ اور اُس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے اُن کے پاس آ کھڑے ہُوئے۔ اور کہنے لگے، اَے گلیلی مردو! تُم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تُمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آئے گا جس طرح تُم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔ تب وہ اُس پہاڑ سے جو زیتون کا کہلاتا ہے اور یروشلیم کے نزدیک سبت کی منزل کے فاصلہ پر ہے یروشلیم کو پِھرے۔" (اعمال 1: 9۔ 12)

مسیح نے اپنے کام کو، جس کےلئے اِنسانوں میں آپ کی ظاہری موجودگی کی ضرورت تھی، پورا کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کو جسم میں اپنی رخصتی کےلئے تیار کیا۔ جب شاگرد آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یروشلیم واپس جا رہے تھے، مسیح نے اپنا آپ اُن پر ظاہر کیا، اور آپ اُنہیں بیت عنیّاہ کی طرف لے گئے جو کہ زیتون کے پہاڑ پر ایک جگہ ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھ پھیلا کر اُنہیں برکت دی اور پھر آسمان پر صعود کر گئے۔ شاگرد آپ کو اُس وقت تک دیکھتے رہے جب تک کہ ایک بدلی نے آپ کو اُن کی نگاہوں سے چھپا نہ دیا۔ جب آپ اُن سے رخصت ہو رہے تھے تو سفید پوشاک پہنے دو فرشتے اُنہیں دِکھائی دیئے جنہوں نے اُن سے کہا: "اَے گلیلی مردو! تُم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تُمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آئے گا جِس طرح تُم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔" اِس سے اُن کے اندر عبادت کا گہرا احساس پیدا ہُوا، اور خُدا کے ساتھ مسیح کی واحدانیت پر اُن کا توکّل مضبوط ہُوا۔

شاگرد بڑی خوشی کے ساتھ یروشلیم شہر واپس آئے اور وہاں اپنا وقت خُدا کی عبادت میں گزارا۔ اگرچہ اَب یسوع مسیح اپنے جسمانی بدن میں اُن کے ساتھ موجود نہیں تھے، لیکن وہ اِس بات سے بہت خوش تھے کہ اُن کے آقا نے اہم مشن مکمل کر لیا تھا۔ جیسے جناب مسیح کو خود باپ نے بھیجا تھا، ویسے ہی اَب اُنہیں بھیجا جا رہا تھا، اور وہ ایسے کام کے سونپے جانے پر خوش تھے جس سے مسیح کے کام کو فروغ ملے۔ مسیح نے اُنہیں یقین دلایا تھا کہ آپ رُوحانی طور پر اُن کے ساتھ موجود رہیں گے، اور وہ آپ کے اِس وعدے کےلئے شکر گزار تھے کہ تمام دُنیا میں مسیح کی گواہی کےلئے اُنہیں کافی قوت ملے گی۔

اُس وقت شاگردوں کی خوشی کی سب سے بڑی وجہ فرشتوں کا یہ اعلان تھا کہ اُن کا آقا دُنیا میں واپس آئے گا۔ مسیح نے خود یہ بات اپنے شاگردوں سے کئی مرتبہ کہی تھی لیکن یوں لگتا ہے کہ شاگردوں پر اِن الفاظ کا کم اثر ہُوا تھا۔ اِس لئے، جُدائی کے اِس لمحہ میں فرشتوں کے پیغام کو سُننا اُن کی ضرورت تھا۔ آج کی کلیسیا کےلئے اہم ترین تعلیمات میں سے ایک موضوع مسیح کی جلالی آمد ہے۔ اگرچہ مسیح کے دوبارہ آنے کے حتمی وقت کے بارے میں نہیں پتا، لیکن یہ کلیسیا کی بڑی امّید ہے۔

مسیح کی دوسری آمد کی تفاصیل کے تعلق سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں کہ آپ کی واپسی سے متعلق اُن پیشین گوئیوں میں لفظی کلام کو مجازی کلام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اپنے خُداوند کے احکام پر توجہ دینے والے تمام وفادار ایماندار نئے عہدنامے کے آخر میں مذکور یہ دعا دُہرا سکتے ہیں: "... اَے خُداوند یسوع آ" (مکاشفہ 22: 20)۔

شاگردوں کا منادی کرنا

"غرض خُداوند یسوع اُن سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اُٹھایا گیا اور خُدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا۔ پھر اُنہوں نے نکل کر ہر جگہ مُنادی کی اور خُداوند اُن کے ساتھ کام کرتا رہا اور کلام کو اُن مُعجزوں کے وسیلہ سے جو ساتھ ساتھ ہوتے تھے ثابت کرتا رہا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 16: 19، 20)

مسیح کے صعود کے بعد، شاگرد ہر جگہ منادی کرنے کےلئے گئے، اور خُداوند نے معجزات کے ساتھ اُن کے کلام کی تصدیق کرتے ہوئے اُن کے ذریعہ سے کام کیا۔ خُداوند نے اپنے آسمانی تخت سے اُن پر ایک حفاظتی سائبان بچھایا، اور آپ نے اِس بات کی اجازت نہیں دی کہ دشمن اُس وقت اُن کے ساتھ ویسا برتاؤ کرے جیسا اُنہوں نے مسیح کے ساتھ کیا تھا۔ جب وہ بار بار ہیکل میں گئے تو ہم نہیں جانتے کہ یہودیوں کی عبادت کے کون سے انداز اُنہوں نے برقرار رکھے اور کن کو چھوڑ دیا۔ لیکن بلاشبہ اُنہوں نے زیادہ اہم نذریں اور قربانیاں پیش کیں جو خُدا کے نزدیک قابل قبول تھیں، یعنی شکستہ رُوح، حمد اور شُکر گزاری کی قربانی (زبور 51: 17؛ عبرانیوں 13: 15)۔

ہمارے پاس یوحنّا کی اِنجیل کے آخری حصہ میں ایک اہم آیت درج ہے تا کہ کہیں ہم ایسا نہ سوچیں کہ مسیحیت کی تاریخ میں یہی باتیں سب سے اہم ہیں: "اَور بھی بُہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے۔ اگر وہ جُدا جُدا لکھے جاتے تو مَیں سمجھتا ہُوں کہ جو کتابیں لکھی جاتیں اُن کےلئے دُنیا میں گنجایش نہ ہوتی" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 21: 25)۔ غرض، یہ آیت اِس بےمثل الٰہی ہستی کے زمین پر دیدنی حضوری کے احوال کو ایک اختتام کی طرف لے کر آتی ہے۔

آپ کی خدمت کے تقریباً تین سال کے دوران لوگ جس لقب سے آپ کو جانتے تھے وہ "اُستاد" تھا، اور آپ کی خدمت کا سب سے بڑا اور اہم ترین حصہ معجزات کے بجائے آپ کی تعلیمات تھیں۔ مسیح نے سکھایا کہ ایک خُدا، جو رُوح ہے، تمام آدمیوں کا باپ ہے، اور وہ اُن کی بدی کے باوجود اُن سے محبّت کرتا ہے۔ آپ نے زور دیا کہ دین میں اہم یہ نہیں ہے کہ اِنسان خُدا کےلئے کیا کرتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ خُدا اِنسان کےلئے کیا کرتا ہے، اور وہ ہمیں اپنی محبّت کی بناء پر کیا عطا کرتا ہے۔ اِنسان کے کام، چاہے وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، نجات کے لائق نہیں ہیں کیونکہ نجات صرف صلیب پر مسیح کی قربانی پر ایمان لانے کے وسیلہ سے ملتی ہے۔ لہٰذا، مذہب رسمی اور خارجی احکام پر مشتمل نہیں ہے جو صرف عقیدے کا ظاہری لباس ہیں۔ مذہب کا اصل جوہر باطنی اور رُوحانی ہے، اور اِس کا ماخذ دِل ہے۔ مسیح نے ریاکاری کی سنگینی کو عیاں کیا، کیونکہ یہ فریب ہے۔ اِس گناہ کے باعث ایک فرد اپنے آپ کو ویسا تصور کرتا ہے جیسا وہ نہیں ہوتا، اور یہ خُدا کی نظر میں برائی کی سب سے زیادہ نفرت انگیز شکلوں میں سے ایک ہے۔ اِس گناہ کے تعلق سے مسیح نے بتایا کہ ریاکار مذہبی پیشواؤں کی نسبت گنہگار آسمان کی بادشاہی کے زیادہ قریب ہیں۔ مسیح نے یہ بھی سکھایا کہ عزت متکبروں کےلئے نہیں بلکہ حلیموں کےلئے ہے، اور یہ کہ راستبازی اور الٰہی تحسین کے مقابلہ میں دُنیا اور اِس میں موجود تمام چیزوں کی قدر کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ نے یہ بھی سکھایا کہ حقیقی عظمت کی بنیاد ایک اِنسان کا دوسروں کی خدمت کرنا ہے، صحائف کی اصل اُس کی تعلیم کی رُوح ہے نہ کہ الفاظ، اور یہ کہ ضمیر کو تسکین دینے کےلئے اِنسانی روایات کو آسمانی تعلیمات میں شامل کرنا جائز نہیں۔

مسیح اَب بھی زندہ ہے

یسوع مسیح کی اِنجیل تمام دُنیا کےلئے اور زمانہ کے آخر تک تمام وقت کےلئے ہے۔ یہ ماضی کے کسی ایسے عظیم شخص کے واقعات کے بیان کی طرح نہیں ہے جو اَب ہمارے ساتھ موجود نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ موجود رہنے والے نجات دہندہ کے پرچار پر مشتمل ہے اور اِس کا تعلق سب اِنسانوں کےلئے موجودہ اہمیّت کے حامل معاملات کے ساتھ ہے۔ یہ مسیح ہے جس نے زِندگی کے طوفانوں میں گِھرے ہوئے ایمانداروں سے یہ وعدہ کیا: "خَوف نہ کر۔ مَیں اوّل اور آخِر، اور زِندہ ہُوں، جو تھا اور جو ہے اور جو آنے والا ہے۔ دیکھ مَیں ابدُالآباد زِندہ ہُوں۔ میرے بچّو، مُجھ پر اِیمان رکھّو۔ مَیں دُنیا پر غالِب آیا ہُوں۔ تُمہارے اِعتقاد کے موافِق تُمہارے لِئے ہو۔" ہم یہ جانتے ہوئے اُس کے قُدرت بھرے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ شفا اور زندگی عطا کرتا ہے۔ اُس کے عرفان میں ہم ابدی زندگی پا سکتے ہیں۔ ہم اِیماندار اپنے رفیق عِمّانوئیل میں تنہائی کے وقت تسلّی، مصیبت کے وقت راحت، خوف کی گھڑی میں حوصلہ، آزمایش کی گھڑی میں تنبیہ، ناکامی کے وقت اِصلاح، کام کے دوران تازگی، شک اور شکست کے وقت ہدایت اور تربیّت، توبہ کے وقت معافی اور فتح کے وقت تعریف کا تجربہ کر سکتے ہیں۔

یسوع مسیح کی سیرت کا مطالعہ کرنے والا کوئی بھی فرد دیکھ سکتا ہے کہ دُنیا کے بہت سے معیار غلط ہیں۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اِن معیاروں سے الگ ہونا اُس نئی رُوحانی فطرت کا لازمی نتیجہ ہے جو اُسے مسیح پر اِیمان رکھنے کی بدولت ودیعت کی گئی ہے۔

سیرت المسیح کے اپنے مطالعہ کی بدولت ہم نے دیکھا کہ مسیح کی پیدایش کے موقع پر فرشتوں نے حمد کا نغمہ گایا، ستارے نے مجوسیوں پر مسیح کی عظمت کو ظاہر کیا، آسمان کُھل جانے پر دریائے یردن میں رُوح القُدس مسیح پر نازل ہُوا، بیابان میں آزمایش پر غالب آنے کے بعد فرشتوں نے مسیح کی خِدمت کی، اور تبدیلی صورت کے جلالی واقعہ میں آپ کا چہرہ چمک اُٹھا اور موسیٰ اور ایلیاہ آپ کے پاس آئے، اور پھر آسمان سے یہ آواز آئی کہ "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جِس سے مَیں خُوش ہُوں اِس کی سُنو" (اِنجیل بمطابق متی 17: 5)۔ ہم نے تیسری مرتبہ آسمانی آواز کے بارے میں جانا جو مقدّس ہفتہ کے دوران ہیکل میں سُنائی دی: "مَیں نے اُس کو جلال دیا ہے اور پھر بھی دُوں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 12: 28)۔ نیز ہم نے باغِ گتسمنی میں فرشتوں کی مسیح کی خدمت، سورج کی روشنی کے جاتے رہنے، ایک زلزلے اور پھر چٹانوں کے تڑک جانے اور قبروں کے کُھل جانے، مسیح کے جی اُٹھنے کے وقت ایک اَور زلزلے کے بارے میں جس نے رومی سپاہیوں کو خوفزدہ کر دیا، فرشتہ کے قبر کے پتھر کو ہٹا دینے، اور قبر کی جگہ پر فرشتوں کے ظاہر ہونے، اور پھر جی اُٹھے کے بعد مسیح کے اپنے شاگردوں پر دس مرتبہ ظاہر ہونے کے بارے میں پڑھا۔

ہم اُس آسانی کو جس کے ساتھ آپ نے ایک بڑی تعداد میں اپنے معجزات کئے اور اُن کے خوشگوار نتیجے، آپ کی اخلاقی اور رُوحانی کاملیّت، بادِلوں میں آسمان پر آپ کے صعود، اور خُدا کے دہنے ہاتھ پر آپ کے بیٹھے ہونے کو یاد کرتے ہیں۔ ہم مسیح کی تعلیمات اور اُن کے پھل، مسیح کے صبر، ناقابل تسخیر محبّت، راست غصے، آپ کی براہ راست سرزنش، دوست اور دُشمن دونوں کےلئے حیرت انگیز اور بےبیاں صبر، اپنے دُشمنوں کے تمام منصوبوں پر آپ کی مکمل فتح، اور یہ سب کچھ جو انسانیت کی نجات کےلئے تھا، دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر، ہم یوحنّا کے مطابق انجیل کے دیباچہ کو سمجھ سکتے ہیں، جہاں عزیز شاگرد لکھتا ہے: "اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا۔ ... اور کلام مجسّم ہُوا اور فضل اور سچّائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا اَیسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اِکلوتے کا جلال" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 1، 14)۔ ہم اِس اِنجیلی بیان کے اختتامیہ کی تصدیق کےلئے ایک مناسب بنیاد بھی دیکھتے ہیں، جہاں مقدّس یوحنّا لکھتا ہے: "لیکن یہ اِس لئے لکھے گئے کہ تُم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خُدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاؤ" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 31)۔

سوالات

کتاب "سیرت المسیح (حصہ ہفتم)" کے سوالات کے جوابات تحریر کیجئے۔

اگر آپ نے اِس کتاب کا مطالعہ کر لیا ہے تو آپ آسانی سے اِن سوالات کے جوابات دے سکتے ہیں۔ اِن کے جوابات ہمیں ارسال کریں۔ براہ کرم اپنا پورا نام اور پتہ واضح طور پر لکھنا نہ بھولیں۔

  1. "گتسمنی" کا کیا مطلب ہے؟ وہاں پر مسیح کے ساتھ جو کچھ ہُوا، ہم اُس کے تعلق سے اِس کے معنٰی سے کیا سیکھتے ہیں؟

  2. مندرجہ ذیل بیان کو مکمل کریں: "تبدیلی صورت کے واقعہ میں مسیح نے اپنی عظمت کی تابانی کو ویسے ظاہر کیا جیسے اُفق پر سورج کی چمک ہوتی ہے۔ لیکن گتسمنی میں ۔۔۔"

  3. کیسے یہودیوں کے بزرگوں نے یہ یقینی بنایا کہ وہ کِسی اَور کو نہیں بلکہ مسیح کو پکڑیں؟

  4. گتسمنی کے باغ میں یہوداہ کےلئے مسیح کے درج ذیل الفاظ سے آپ نے کیا سیکھا ہے: "۔۔۔ کیا تُو بوسہ لے کر ابنِ آدم کو پکڑواتا ہے؟"

  5. پطرس نے ملخس کا کان اُڑا دیا، لیکن مسیح نے اُسے شِفا بخشی۔ ہم اِس واقعے سے کیا سیکھتے ہیں؟

  6. جب سردار کاہن نے یسوع سے پوچھا کہ کیا وہ مسیح خُدا کا بیٹا ہے تو یسوع کا کیا جواب تھا؟

  7. درج ذیل آیات کے الفاظ لکھیں: یسعیاہ1: 18؛ 43: 25; اور زبور 32: 1

  8. کیسے مسیح نے پیلاطس کو سمجھایا کہ اُس کی بادشاہی رُوحانی تھی؟

  9. ہم برابّا کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

  10. مسیح کے مقدّمے کے دوران پیلاطس کی بیوی نے اپنے شوہر سے کیا کہا؟

  11. صلیب پر مسیح کی طرف سے ادا کئے گئے سات کلمات میں سے چار کا بیان کریں۔

  12. کیوں مسیح نے یروشلیم کی عورتوں سے کہا کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کےلئے روئیں؟

  13. تائب ڈاکو نے مسیح میں کیا دیکھا جس کے نتیجہ میں اُس نے کہا، "اَے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا"؟

  14. مسیح نے کیوں پکار کر کہا: "اے میرے خدا، اے میرے خدا، تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا؟"

  15. مصلوبیّت کی نگرانی کرنے والے صُوبہ دار نے مسیح کے بارے میں کیا کہا؟

  16. کیسے پیلاطس اور یہودی راہنماؤں نے یقینی بنایا کہ مسیح واقعی صلیب پر مر گیا تھا؟

  17. جب مسیح کو ارمتیہ کے یُوسُف کی قبر میں دفن کیا گیا تو کون سی پیشین گوئی پوری ہوئی؟

  18. کیسے پطرس اور یوحنّا نے یقینی بنایا کہ مسیح واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا؟

  19. وہ پہلا شخص کون تھا جس نے مسیح کو مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا؟

  20. واضح کریں کہ کیوں شاگردوں کےلئے مسیح کی لاش کو چرانا ناممکن تھا۔

  21. اِماؤس کے دو شاگردوں نے مسیح کو کیسے پہچانا؟

  22. کیوں مسیح نے ہفتہ کی جگہ اتوار کو مقدّس کیا؟ ہمارے پاس اِس کے کیا ثبوت ہیں؟

  23. کیسے مسیح نے توما کے دِل سے شکوک دُور کئے؟

  24. مسیح کے جی اُٹھنے کی صبح کے نور سے جاری تین کرنوں کا بیان کریں۔

  25. مسیح کے صعود کے بعد فرشتوں نے شاگردوں سے کیا کہا؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany