اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
معجزات المسیح

معجزات المسیح

منیس عبد النور

2023


Table of Contents

تعارف
پہلا معجزہ: پانی کو مے میں تبدیل کرنا
دوسرا معجزہ: بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو شفا دینا
تیسرا معجزہ: مچھلیوں کا بڑا شکار
چوتھا معجزہ: پطرس کی ساس کو شفا دینا
پانچواں معجزہ: کوڑھی کو شفا دینا
چھٹا معجزہ: مفلوج کو شفا دینا
ساتواں معجزہ: بیت حسدا کے حوض پر ایک بیمار شخص کی شفا
آٹھواں معجزہ: سوکھے ہاتھ والے شخص کی شفا
نواں معجزہ: رومی صوبہ دار کے نوکر کو شفا
دسواں معجزہ: نائین نامی شہر کے بیوہ کے بیٹے کو زندہ کرنا
گیارہواں معجزہ: طوفان کو تھما دینا
بارہواں معجزہ: بد ارواح کے شکنجے میں جکڑے شخص کی شفا
تیرہواں معجزہ: یائیر کی بیٹی کو زندہ کرنا
چودھواں معجزہ: اُس عورت کی شفا جس سے خون جاری تھا
پندرہواں معجزہ: دو اندھے اشخاص کی شفا
سولہواں معجزہ: پانچ ہزار سے زیادہ کو کھانا کھلانا
سترہواں معجزہ: پانی پر چلنا
اٹھارہواں معجزہ: سورفینیکی عورت کی بیٹی کو شفا دینا
اُنیسواں معجزہ: ایک اندھے شخص کی شفا
بیسواں معجزہ: مچھلی کے مُنہ میں سے ملنے والا سِکّہ
اکیسواں معجزہ: ایک جس نے شکر گزاری کی
بائیسواں معجزہ: جنم کے اندھے شخص کو شفا
تئیسواں معجزہ: لعزر کو زندہ کرنا
چوبیسواں معجزہ: کبڑی عورت کی شفا
پچیسواں معجزہ: اندھے شخص برتِمائی کی شفا
چھبیسواں معجزہ: اِنجیر کے درخت پر لعنت
ستائیسواں معجزہ: ملخُس کے کان کو شفا دینا
اٹھائیسواں معجزہ: 153 مچھلیوں کا شکار

تعارف

یسوع مسیح ایک معجزہ کار ہیں۔ آپ نے معجزات کئے، اور اَب بھی معجزات کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمارے درمیان معجزات کئے ہیں۔ آپ زندہ ہیں، اور اَب بھی معجزات کام کر رہے ہیں، کیونکہ بنی نوع انسان کےلئے آپ کی محبّت تبدیل نہیں ہوئی، اور نہ ہی بنی نوع انسان کی ضروریات ختم ہوئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یسوع جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، لیکن آپ اپنی رُوح میں ہمارے درمیان، اپنی کلیسیا میں، اُن لوگوں کے دِلوں میں ہیں جو آپ کی پیروی کرتے ہیں اور پوری دنیا میں موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا: "آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مُجھے دیا گیا ہے ۔۔۔ دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تُمہارے ساتھ ہُوں" (اِنجیل بمطابق متی 28: 18، 20)۔ یسوع مسیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 8)۔

مسیح کے معجزات آپ کی قدرت کے ساتھ ساتھ آپ کی محبّت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ لوگ پہلے تو طاقت سے ہمیشہ مرعوب ہوتے ہیں۔ مسیح کے معجزات ہمیشہ ہمیں حیران کر دیتے ہیں کیونکہ یسوع مسیح کی طاقت آپ کی محبّت کی خدمت میں کام کرتی ہے۔ یوں یسوع کی بابت ہمارا تعجب گہرا ہوتا اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، اِس لئے ہم خوشی سے نعرہ لگاتے ہیں:

دِن مبارک خوشی کا ہے
جب یسوع نے فدیہ دیا میرا
بیدار رہنا، دُعا کرنا دیا سِکھا
کیسے ہر دِن جینا خوشی سے ہے
دِن مبارک خوشی کا ہے
جب یسوع نے فدیہ دیا میرا

مَیں نے یسوع کے معجزات کو کئی مرتبہ پڑھا ہے، اور اُن پر بطور سچے تاریخی واقعات کے غور کیا ہے۔ مَیں نے اُنہیں اپنی زندگی میں اور اُن لوگوں کی زندگی میں ایک زندہ حقیقت کے طور پر بھی دیکھا ہے جنہیں مَیں جانتا اور اُن کی خدمت کرتا ہوں۔ اَب مَیں مشرق اور مغرب میں بسنے والے قارئین کو یسوع کی شاندار محبّت کی خوشخبری پیش کر رہا ہوں۔

مَیں نے چاروں اِنجیلی بیانات میں مذکور یسوع کے معجزات پر گیان دھیان کرتے ہوئے، اِن پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا فرد۔ ایسا فرد خُداوند کے سامنے ہماری ضرورت کی عکاسی کرتا ہے۔ معجزہ وہ کام ہے جو ہماری بساط سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خُدا ہمارے لئے معجزہ کرتا ہے۔

  2. وہ جنہوں نے معجزہ دیکھا: اِس میں ایماندار اور بے ایمان دونوں شامل ہیں، وہ جو معجزہ سے خوش تھے اور وہ بھی جنہوں نے اُس کی مخالفت کی۔ اِس سے ہمیں خُدا کی قدرت نظر آتی ہے، اور وہ اُن ضرورت مندوں کی زندگی میں کام کرتا ہے جو اُس کا انتظار کرتے ہیں، اور اُن کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دیتا ہے۔ تاہم، مسیح کے معجزات اُس روشنی کی مانند بھی ہیں جو بیمار آنکھ کو پریشان کر دیتی ہے۔ اِس روشنی سے بے ایمان پریشان ہو جاتے ہیں اور اُنہیں غصہ آتا ہے۔

  3. پھر ہم یسوع کی شخصیت پر غور کریں گے جس نے عجیب کام کئے۔ کئی مرتبہ ہم بچوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں جو تحفہ لیتے ہیں اور دینے والے کو بھول جاتے ہیں۔ جب ہم مسیح پر گیان دھیان کرتے ہیں تو ہم اُس کا شکریہ ادا کریں، اُس کے قریب رہیں اور محبّت میں اس کی پیروی کریں۔

یہ مصنف کی اپنے لئے اور اپنے قارئین کےلئے دِلی خواہش اور دعا ہے۔

منیس عبد النور

قاہرہ، فروری 1994ء

پہلا معجزہ: پانی کو مے میں تبدیل کرنا

"پھر تیسرے دِن قانایِ گلِیل میں ایک شادی ہُوئی اور یسوع کی ماں وہاں تھی۔ اور یسوع اور اُس کے شاگردوں کی بھی اُس شادی میں دعوت تھی۔ اور جب مَے ہو چُکی تو یسوع کی ماں نے اُس سے کہا کہ اُن کے پاس مَے نہیں رہی۔ یسوع نے اُس سے کہا، اَے عورت مجھے تُجھ سے کیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔ اُس کی ماں نے خادِموں سے کہا، جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔ وہاں یہودیوں کی طہارت کے دستور کے موافق پتھر کے چھ مٹکے رکھے تھے اور اُن میں دو دو تین تین من کی گنجایش تھی۔ یسوع نے اُن سے کہا، مٹکوں میں پانی بھر دو۔ پس اُنہوں نے اُن کو لبالب بھر دِیا۔ پھر اُس نے اُن سے کہا، اب نِکال کر میرِ مجلس کے پاس لے جاؤ۔ پس وہ لے گئے۔ جب میرِ مجلس نے وہ پانی چکّھا جو مَے بن گیا تھا اور جانتا نہ تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے (مگر خادِم جنہوں نے پانی بھرا تھا جانتے تھے) تو میرِ مجلس نے دُلہا کو بُلا کر اُس سے کہا۔ ہر شخص پہلے اچھی مَے پیش کرتا ہے اور ناقِص اُس وقت جب پی کر چھک گئے مگر تُو نے اچھی مَے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔ یہ پہلا معجزہ یسوع نے قانایِ گلِیل میں دِکھا کر اپنا جلال ظاہر کیا اور اُس کے شاگرد اُس پر اِیمان لائے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 2: 1۔ 11)

یہ معجزہ ایک شادی کی تقریب میں قانا نامی گاؤں میں ہُوا جو ناصرت سے تقریباً دس کلومیٹر دُور ہے۔ یسوع اور اُس کے شاگردوں دونوں کو شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ اِس بات کا قوِی امکان ہے کہ جس گھر میں شادی تھی وہ یسوع کے رشتہ دار تھے۔ جب مہمانوں کو پیش کی جانے والی مے ختم ہو گئی تو میزبانوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اگر وہ مدعو کئے گئے مہمانوں کو مے پیش نہ کرتے تو بڑی بدنامی ہوتی۔ یسوع کی ماں مریم آپ کے پاس آئیں اور کہا، "اُن کے پاس مے نہیں رہی۔" اِس پر آپ نے خادموں کو مَٹکوں میں پانی بھرنے کےلئے کہا، اور پھر میزبانوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے اُن میں موجود پانی کو مے میں بدل دیا۔ اور مسیح کی شخصیت ہمیشہ ایسے ہی ہے۔

یسوع نے یہ پہلا معجزہ کسی غریب فرد کی سادہ سے شادی کی تقریب میں کیا۔ اِس واقعہ کا بیان یوں شروع ہوتا ہے، "پھر تیسرے دِن قانایِ گلِیل میں ایک شادی ہُوئی۔" اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ اِس تیسرے دِن سے پہلے دو اہم دِن گزرے تھے۔ اِن میں سے پہلے دِن کا تذکرہ یوحنّا 1: 35 میں ہے جب یوحنّا اور اندریاس کی یسوع سے ملاقات ہوئی اور وہ یوحنّا اِصطباغی کی یسوع کی بابت گواہی کی وجہ سے یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ پھر اندریاس اپنے بھائی شمعون کو یسوع کے پاس لایا۔ جہاں تک دوسرے دِن کا تعلق ہے، اِس کا ذِکر یوحنّا 1: 43 میں ہے جب مسیح نے فِلپُّس کو اپنے پیچھے چلنے کےلئے کہا اور پھر فِلپُّس نے نتن ایل کو مسیح کے بارے میں بتایا۔ اِس کے بعد تیسرے دِن یسوع اور آپ کے شاگردوں کو قانائے گلیل میں ایک شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ یہ پانچوں افراد اپنے دِلوں میں نجات کی شادمانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یسوع کے ساتھ شادی کی ضیافت میں گئے۔ یسوع ہماری خوشیوں میں شریک ہوتا ہے، اور وہ رُوحانی خوشیوں میں جو یسوع کو نجات دہندہ قبول کرنے سے ملتی ہیں اور سماجی خوشیوں جیسے شادی وغیرہ میں فرق نہیں کرتا۔ وہ خاندانوں کی خوشیوں میں بھی شریک ہوتا ہے۔

وہاں شادی کی ضیافت میں مے ختم ہو گئی۔ کچھ مفسّرین نے کہا ہے کہ یسوع اور آپ کے پانچ شاگردوں کے شادی میں جانے سے مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہُوا، جس کی وجہ سے اُن کی مے ختم ہو گئی، اِسی لئے اِس مسئلہ کی بابت یسوع کو بتایا گیا۔ یہ تشریح اِس بنیاد پر قابل قبول نہیں ہے کہ یسوع اور آپ کے شاگردوں کو تو شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ لوگ غریب تھے، اور اُنہیں امّید تھی کہ اُن کے پاس موجود مے مہمانوں کےلئے کافی ہو گی۔ لیکن مہمانوں نے اُن کے اندازے سے زیادہ مے پی۔

1۔ معجزہ کی احتیاج رکھنے والے افراد

الف۔ دُلہن اور دُلہا

شادی کی تقریب شادی شدہ جوڑے کےلئے سب سے زیادہ خوشی کا وقت ہے۔ یہودی دُلہے کو "بادشاہ" اور دُلہن کو "ملکہ" کہتے تھے۔ اُن کی کِسی بھی خواہش کو فوراً پورا کر دیا جاتا تھا۔ غالب امکان یہ ہے کہ کِسی نے بھی دُلہے کو یہ نہیں بتایا تھا کہ مے ختم ہو گئی ہے، کیونکہ وہ شادی کی خوشی کو خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ دُلہا محتاج تھا پھر بھی اُسے علم نہ تھا۔ کتنی ہی مرتبہ ہم محتاج ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی اپنی احتیاج کا احساس نہیں کرتے! لیکن ہمیں زندگی کا پانی مانگنے سے پہلے پیاس اور زندہ روٹی مانگنے سے پہلے بھوک لگنی چاہئے۔ ہمیں معافی اور نجات کےلئے خُدا کی طرف رجوع کرنے سے پہلے اپنے گناہ کا احساس کرنا ہو گا۔ اُس فرد کی حالت کتنی خطرناک ہے جو محتاج ہے لیکن اپنی محتاجی کو نہیں جانتا! بعض اوقات ہمارے قریبی افراد ہم سے پیار کرنے کی وجہ سے ہمیں احساس نہیں ہونے دیتے کہ ہم ضرورت مند ہیں۔ لیکن اگر وہ واقعی ہم سے دِلی پیار کرتے ہیں تو ہمیں فوراً بتا دیں گے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے ربّ سے مانگ سکیں۔

ب۔ شادی شدہ جوڑے کے مہمان

اُنہوں نے ضرورت محسوس کی اور مقدّسہ مریم سے درخواست کی اور پھر مقدّسہ مریم، یسوع کی ماں نے یسوع سے کہا، "اُن کے پاس مَے نہیں رہی۔" مقدّسہ مریم کے یہ الفاظ حکم نہیں ہیں بلکہ اُنہوں نے درخواست کو بیان کے طور پر پیش کیا۔ یہ وہی انداز ہے جو ہمیں دو دیگر پیاری بہنوں یعنی مریم اور مرتھا میں مسیح کے تعلق سے نظر آتا ہے، جب اُن کا بھائی لعزر بیمار تھا۔ اُنہوں نے مسیح کو ایک پیغام بھجوایا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 11: 3)۔ یہ جاننا کتنا خوبصورت ہے کہ مسیح ہمارے مانگنے سے پہلے ہی اِس سے واقف ہے کہ ہمیں کِس چیز کی ضرورت ہے، اور یہ کہ ہم اُس کے سامنے اپنی ضروریات کو ایک بیان کے طور پر پیش کر سکتے ہیں: "خُداوند، ہمارے پاس اپنی کوئی نجات نہیں ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہمارے بچوں کے امتحانات ہیں۔ خُداوند، میرا بیٹا بیمار ہے۔ میرا رشتہ دار مشکل میں ہے۔" دُلہے کے عزیز جانتے تھے کہ اُنہیں مہمانوں کا اچھی طرح سے خیال رکھنا تھا۔ مے ناگزیر تھی! ربّی کہا کرتے تھے، "مے کے ساتھ متوالے بننا باعثِ شرم ہے لیکن مے پیئے بغیر شادی نہیں ہوتی۔ ہم پیتے ہیں، لیکن متوالے نہیں ہوتے۔"

2۔ گواہان اور معجزہ

الف۔ کنواری مریم

مقدّسہ مریم یہ دیکھ کر کہ کچھ غلط ہو گیا ہے، یسوع کے پاس گئیں۔ اِس سے ہم یسوع کی طرف رجوع کرنا سیکھتے ہیں، کیونکہ وہ ہماری حقیقی پناہ اور بنیادی مدد ہے۔ اِس سے پہلے کہ ہم کِسی طبیب کو ڈھونڈیں، آئیے مسیح کے طالب ہوں۔ کِسی وکیل کے پاس جانے سے پہلے آئیے ہم مسیح کے متمنی ہوں۔ لوگوں کی صلاح مانگنے سے پہلے، آئیے عظیم صلاح کار سے مشورہ کریں، کیونکہ لکھا ہے کہ اُس کا نام "عجیب مشیر" ہو گا (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 9: 6)، کیونکہ وہ قادر خُدا ہے۔ وہ سلامتی کا شہزادہ ہے جو ہمارے دِلوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اور پھر ہم مدد کےلئے اُن لوگوں کے پاس جا سکتے ہیں جنہیں اُس نے مقرر کیا ہے اور ہماری مدد کرنے کے قابل بنایا ہے۔

مقدّسہ کنواری مریم جانتی تھیں کہ مسیح کون تھا، اور وہ مسیح کی بابت بتائی گئی باتوں کو دِل میں رکھ کر اُن پر سوچتی رہیں (اِنجیل بمطابق لوقا 2: 32، 51)۔ اور جب آپ نے اُس شادی والے گھر کی درخواست مسیح کے سامنے رکھی، آپ نے اُنہیں جواب دیا، "اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔" ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے مقدّسہ مریم کو مسیح کی طرف سے کوئی براہ راست جواب نہ ملا، لیکن وہ آپ کی بات کا مطلب سمجھ گئیں، اور کامل ایمان کے ساتھ اُنہوں نے نوکروں سے کہا، "جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔"

سو، یسوع کا اپنی والدہ سے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا، "اَے عَورت مجھے تُجھ سے کیا کام ہے؟" ارامی زبان میں کہے گئے اِن الفاظ کے معنٰی کا انحصار کافی حد تک بولنے والے کے لہجے پر منحصر ہے۔ اگر بولنے والا سختی سے کہتا ہے، تو وہ جس سے مخاطب ہوتا ہے اُسے ملامت کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ نرمی سے بات کرے تو اُس کے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "فکر نہ کرو۔ تم نہیں جانتے کہ مَیں کیا کروں گا۔ لیکن معاملہ میرے ہاتھ میں چھوڑ دو، مَیں اِس سے اپنے طریقے سے نمٹوں گا۔ مَیں اِسے دیکھ لیتا ہوں۔" اور بلا شک و شبہ جناب مسیح اپنی مقدّس ماں کو سختی سے جواب نہیں دے سکتے تھے، بلکہ گویا پوری محبّت اور شفقت سے، آپ اُن سے کہہ رہے تھے کہ "ماں، آپ کو اِس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ مُجھ پر چھوڑ دیں، اور بھروسا رکھیں۔ میرا مسائل کو حل کرنے کا اپنا طریقہ ہے۔ اَب اِس کے بارے میں مزید نہ سوچیں۔"

جہاں تک اِظہار "اَے عَورت ۔۔۔" کی بات ہے، یہ ہمیں ہتک آمیز محسوس ہو سکتا ہے۔ تاہم، حقیقت اِس کے برعکس ہے، اِس میں احترام و تعریف موجود ہے۔ یسوع نے اِسی انداز میں مقدّسہ مریم کو صلیب پر سے بھی مخاطب کیا: "اَے عَورت ۔۔۔،" اور تب آپ اُنہیں اپنے پیارے شاگرد یوحنّا کے سپرد کر رہے تھے (یوحنّا 19: 26)۔ اِس اظہار میں بےعزتی نہیں بلکہ عزت و احترام موجود تھا۔

تب آپ نے اپنی والدہ سے کہا، "ابھی میرا وقت نہیں آیا۔" آپ کا یہ وقت آپ کے جلال کو ظاہر کرنے کا وقت ہے، جو بالآخر آپ کی مصلوبیّت کا باعث بننا تھا۔ اُس وقت آپ گویا مقدّسہ مریم سے یہ کہہ رہے تھے، "ابھی تک وہ وقت نہیں آیا مَیں اپنے آپ کو لوگوں پر ظاہر کروں، وہ مکاشفہ مجھے صلیب پر لے جانے والا ہے۔" کیونکہ ابنِ آدم کا جلال اُس کی مصلوبیّت ہے۔ اور اُس سے پہلے کے معجزات اور تعلیمات نے یہودیوں کے بزرگوں کو ناراض کیا، اِس لئے اُنہوں نے آپ کو مصلوب کرنے کا فیصلہ کیا (یوحنّا 12: 23، 24)۔

کنواری مقدّسہ مریم اِس مسئلہ کا حل نہیں جانتی تھی، لیکن آپ نے خادموں کو حکم دیا، "جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔" اِس ایمان میں ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق موجود ہے، کیونکہ مسیح آپ کو جو بھی حکم اور ہدایات دیتا ہے وہ آپ کےلئے بہترین ہیں، چاہے وہ آپ کو منطقی دِکھائی نہ دیں۔

ب۔ شاگرد

"یہ پہلا معجزہ یسوع نے قانایِ گلیل میں دِکھا کر اپنا جلال ظاہر کیا اور اُس کے شاگِرد اُس پر اِیمان لائے" (یوحنّا 2: 11)۔ پانچوں شاگرد پچھلے دو دنوں میں مسیح پر ایمان لائے تھے۔ تو پھر یہ کیوں لکھا ہے کہ اُس نے اپنا جلال ظاہر کیا اور اُس کے شاگرد اُس پر ایمان لائے؟ اِس کا جواب یہ ہے: ایمان ایک حد تک پہنچ کر رُک نہیں جاتا، یہ ہر روز بڑھتا اور مضبوط اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ وہ پانچوں یسوع پر ایمان لائے اور آپ کی پیروی کی، اور سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پیچھے ہو لئے، لیکن اُنہیں اپنے ایمان کی مضبوطی کی ضرورت تھی۔ "مَیں اِعتقاد رکھتا ہُوں۔ تُو میری بے اِعتقادی کا عِلاج کر" (مرقس 9: 24)۔ ایک خُدا پرست شخص نے کہا: "ایک ایماندار سائیکل چلاتے ہوئے شخص کی مانند ہے۔ تب سائیکل نہیں رُکتی یا پیچھے نہیں جاتی، بلکہ اُسے ہر وقت آگے جانا ہوتا ہے۔" ایمانداروں کو اِس سائیکل سوار کی طرح ہونا ہے جو ہمیشہ مسیح کی طرف آگے بڑھتے جاتے ہیں۔

ج۔ خادم:

"وہاں یہودِیوں کی طہارت کے دستُور کے موافِق پتھر کے چھ مٹکے رکھّے تھے اور اُن میں دو دو تین تین من کی گنجایش تھی۔" یہ مٹکے پتھر کے بنے تھے اور پانی سے بھرے ہوئے تھے تا کہ جب بھی وہ باہر سے اندر آئیں تو اپنے آپ کو دھو سکیں۔ دھونے کی دو اقسام تھیں: جب بھی راستے کی گرد و غبار سے ہو کر اندر آئیں تو پاؤں کو دھوئیں، اور رسمی طہارت کےلئے ہاتھ دھوئیں۔ اِس رسمی طہارت کے بغیر نہ وہ کھانا کھا سکتے تھے اور نہ دُعا کر سکتے تھے۔ مہمانوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے سارا پانی استعمال ہو چکا تھا۔ ہر پتھر کے مٹکے میں تیس من کی گنجایش تھی۔

مسیح نے خادموں کو حکم دیا کہ وہ مٹکوں کو کنارہ تک بھر دیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پانی کے مٹکے تھے، مے کے نہیں۔ لہٰذا کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے سے کوئی مے باقی تھی، یا اُنہیں مے کی کوئی بو آئی تھی۔ آپ نے اُنہیں مٹکے کنارے تک بھرنے کےلئے کہا تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے اُن میں کچھ مے ڈالی تھی۔ وہ اتنے بڑے تھے کہ بغیر دیکھے کوئی اُن میں مے نہیں ڈال سکتا تھا۔ ثبوت تمام لوگوں کے سامنے واضح ہے: خالی برتن شاگردوں نے نہیں بلکہ خادموں نے بھرے تھے۔

خادموں نے کنواری مریم کے حکم کی تعمیل کی، اور سب سے پہلے اُس معجزے کو دیکھا۔

د۔ مہمان

مسیح نے خادموں کو حکم دیا کہ مہمانوں کو مے پیش کریں، اور میرِ مجلس (مہمانِ خصوصی) نے پہلے مے چکھ کر اطمینان کا اظہار کیا۔

آج ہم مے کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ہم خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اِسے پینے والا اِس پر قابو نہیں پا سکتا بلکہ یہ اُس پر قابو پا لیتی ہے، جیسا کہ ایک جاپانی کہاوت ہے کہ "لوگ (مے کا) پیالہ پیتے ہیں اور پیالہ پیالہ پیتا ہے اور پیالہ لوگوں کو پیتا ہے۔" شروع میں مے آپ کی غلام معلوم ہوتی ہے، لیکن پھِر آپ کو اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ ہم اپنے چھوٹے بچوں کےلئے خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں مے پیتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ بھی بےقابو ہو کر پئیں گے اور اپنا ہوش و حواس کھو دیں گے۔ ہم مے پینے سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے آس پاس والوں کےلئے ٹھوکر کا سبب بن سکتی ہے۔

ہ۔ میرِ مجلس

جب میرِ مجلس نے مے کو چکھا تو کہا: "ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقِص اُس وقت جب پی کر چھک گئے مگر تُو نے اچھی مَے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔" یہ میرِ مجلس کی طرف سے دیا گیا ایک شاندار بیان ہے، لیکن اُسے اِس کے مفہوم کی گہرائی کا احساس نہیں تھا کہ مسیح لوگوں کی زندگی میں کیا کرتا ہے۔ مسیح کے ساتھ بہترین ہمیشہ آخر میں آتا ہے۔ خُدا کے کلام کے مطالعہ کے تعلق سے اہم بات یہ ہے کہ آپ جتنا زیادہ مطالعہ کریں گے اُتنی ہی گہرائی آپ کو ملے گی۔ آپ کلام کی خوراک کھانا شروع کرتے ہیں اور اُسے "چھتّے کے ٹپکوں سے بھی شیرِین" پاتے ہیں (زبور 19: 10)۔ "تیرا کلام مِلا اور مَیں نے اُسے نوش کیا اور تیری باتیں میرے دِل کی خُوشی اور خُرمی تِھیں ۔۔۔" (یرمیاہ 15: 16)۔

ایسا اُس وقت بھی ہوتا ہے جب آپ خُدا کی اطاعت کرتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ اُس کی اطاعت کرتے ہیں، اُتنی ہی زیادہ برکت آپ کو ملتی ہے۔ اُس کی اطاعت شروع میں مشکل ہو سکتی ہے، لیکن اطاعت کی برکات آپ کو دکھاتی ہیں کہ بہترین آخر میں آتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ اُس کی طرف سے اپنی تادیب کو خوشی کے طور پر نہیں بلکہ غم کے طور پر لیں، تاہم وہ اُن لوگوں کو جو اُس سے تربیت پاتے ہیں راستبازی کا پُرسکون پھل عطا کرتا ہے (عبرانیوں 12: 11)۔ تادیب کا نتیجہ ہمیشہ بہترین ہوتا ہے۔ مسیح کے ساتھ آخری حصہ ہمیشہ بہتر ہوتا ہے: "ہر نئی صبح میرے لئے کل سے بہتر ہوتی ہے۔"

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح نے اُس شادی میں شرکت کر کے اپنا پہلا معجزہ کیا اور گویا ہمیں پیغام دیتے ہیں، "بیاہ کرنا سب میں عزّت کی بات سمجھی جائے" (عبرانیوں 13: 4)۔

کچھ لوگ مسیح کے پیغام کو صرف گناہ پر غم کے پیغام کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے اردگرد غم پھیلاتے ہیں۔ لیکن مسیح ہمیں بادشاہی کی مسرور کر دینے والی خوشخبری پیش کرتا ہے۔ جب آپ کی پیدایش ہوئی تو فرشتہ نے اعلان کیا: "ڈرو مت کیونکہ دیکھو مَیں تُمہیں بڑی خُوشی کی بشارت دیتا ہُوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہو گی" (لوقا 2: 10)۔ مسیح کی اِنجیل کا مطلب خوشی کی خبر ہے، کیونکہ ہماری ایمانی زندگی خوشی کی زندگی ہے۔ جب کوئی ہمارے چہروں پر خوشی دیکھے گا تو وہ ہماری خوشی میں شریک ہونا چاہے گا۔

بیت السلام، العجمی، اسکندریہ، مصر میں ہونے والی ایک کلیسیائی کانفرنس میں ذہنی امراض کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ماہر نفسیات نے کہا، "اگر ہم اپنے مریضوں کو بیت السلام، العجمی میں لائیں، تو مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ آپ کو خوشی اور دِل کی سادگی سے کھاتے، کھیلتے اور مل کر دُعا کرتے، اور خُداوند کا کلام خوشی سے سُنتے دیکھ کر صحت یاب ہو جائیں گے۔"

مسیح نے اُن کے درمیان موجود رہ کر زندگی کی خوشیوں کو مقدّس کیا، اور وہ خوشی لوٹائی جو زندگی کی سخت دشواریوں کے باعث کھو چکی تھی۔ مسیح نے روزمرہ زندگی کو برکت دی تا کہ زندگی کے روزمرہ کے کام بھی مقدّس اور خوشنما ہو جائیں۔ کیا یہ وہی نہیں جس نے شریعت کو فضل کے عہد میں بدل دیا؟ "اِس لئے کہ شرِیعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچّائی یسوع مسیح کی معرفت پُہنچی" (یوحنّا 1: 17)۔ اُس نے جو اچھا ہے (شریعت)، اُسے بہترین (فضل) میں بدل دیا۔

یہ وہ عظیم مسیح ہے جس نے اپنے معجزات کا آغاز شادی کی ضیافت میں کیا، برکت بخشی، مہیا کیا اور ضروریات کو پورا کیا۔

ب۔ مسیح نے یہ معجزہ قانا کے ایک غریب گھرانے میں کیا:

آپ عام لوگوں، گنہگاروں کے ساتھ اُٹھے بیٹھے، اور عام چیزیں استعمال کیں جیسے پتھر کے بنے پانی کے برتن۔

آپ نے مٹکوں کو بھرنے اور مہمانوں کو پلانے کےلئے اپنے ساتھ خادموں کا تعاون طلب کیا۔

یہ مسیح ہے جو چرنی میں پیدا ہو کر ہمارے پاس آیا تا کہ ہم سب وہ راستہ پائیں جو غریبوں اور امیروں، گنہگاروں اور متقیوں کو اُس کے پاس لے جاتا ہے۔ مسیح کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی اُنہیں ضرورت ہے۔

لیکن مسیح کے ہاتھوں میں عام چیز معجزے میں بدل جاتی ہے! اگر آپ اپنی زندگی مسیح کی سپردگی میں دے دیں، تو وہ آپ کی زندگی میں اور اُس کے ذریعے ایک معجزہ دکھائے گا۔ اپنا آپ مکمل طور پر اُسے سپرد کرنے کی کوشش کریں، اور آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ساتھ آئے دن معجزات ہوں گے۔

ج۔ مسیح اچھی چیز کو بہترین میں بدل دیتا ہے:

میرِ مجلس نے گواہی دی کہ بعد والی مے بہترین تھی۔ جب آپ اپنی زندگی مسیح کو پیش کرتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ بھی یہی کرتا ہے۔ اُس کے ساتھ آپ کا آخری وقت پہلے سے بہتر ہو گا۔

مسیح نے پرانے عہدنامہ کی علامتوں کو نئے عہدنامہ کی سچائیوں میں بدل دیا۔ آپ نے پرانے عہدنامہ کی قربانیوں کو اُس وقت تبدیل کر دیا جب آپ ہمارے پاس خُدا کے برّہ کے طور پر آئے جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے، اور ایسا ایک ہی قربانی میں، اُس کی اپنی قربانی میں ہُوا، جس کے ذریعے ہمارے لئے ابدی فدیہ و مخلصی مہیا کی گئی ہے۔

آپ نے پانی کے بپتسمہ کو، جس کے ساتھ یوحنّا نے بپتسمہ دیا تھا، رُوح القُدس کے بپتسمہ میں بدل دیا۔ یوحنّا کا بپتسمہ توبہ کےلئے تھا۔ توبہ اچھی بات ہے، لیکن مسیح نے اُسے رُوح القُدس کے بپتسمہ میں بدل دیا تا کہ ایمانداروں کی زندگیاں اُس کے اختیار میں بسر ہوں۔

مجھے امّید ہے کہ وہ اپنے کلام کو، جسے ہم ہمیشہ سُنتے ہیں، ہمارے لئے بہتر چیز یعنی نجات کے پیالہ میں بدل دے گا، تا کہ ہم نجات کا پیالہ اُٹھا کر خُداوند سے دُعا کریں (زبور 116: 13)۔

دُعا

اَے ہمارے آسمانی باپ، ہم تیرا شکر کرتے ہیں کہ مسیح ہماری خوشیوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوتا ہے، ہماری ضروریات کو محسوس کرتا ہے اور ہماری زندگی کے تمام حالات میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ہماری دعاؤں کا جواب دیتا ہے، اور ضرورت کے وقت ہماری مدد کرتا ہے۔

ہمیں بغیر کسی تردّد کے اُس کی طرف رجوع کرنا سکھا، اور بخش کہ ہم اپنی زندگی پورے توکّل کے ساتھ اُسے نذر کریں اور اُس کے اِس شیریں حکم کو پورا کریں کہ "جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔" مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. اِس معجزے سے دو دِن قبل اہم دِن میں کیا ہُوا تھا؟

  2. پانی کو مے میں تبدیل کرنے سے ایک دِن قبل اہم دِن میں کیا ہُوا تھا؟

  3. مسیح کا اپنی ماں سے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا کہ "اَے عَورت مجھے تُجھ سے کیا کام ہے؟"

  4. آپ مقدّسہ مریم کے اِس بیان سے کہ "جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو" کیا سیکھتے ہیں؟

  5. مسیح نے شادی کی ضیافت میں کیوں شرکت کی؟

  6. مسیح کے ساتھ آخری کیسے پہلے سے بہتر ہو سکتا ہے؟

  7. دو چیزوں کی نشاندہی کریں جنہیں مسیح نے بہترین میں بدل دیا۔

دوسرا معجزہ: بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو شفا دینا

"پس وہ پھر قانایِ گلِیل میں آیا جہاں اُس نے پانی کو مَے بنایا تھا اور بادشاہ کا ایک ملازِم تھا جس کا بیٹا کفرنحوم میں بیمار تھا۔ وہ یہ سُن کر کہ یسوع یہودیہ سے گلیل میں آ گیا ہے اُس کے پاس گیا اور اُس سے درخواست کرنے لگا کہ چل کر میرے بیٹے کو شفا بخش کیونکہ وہ مرنے کو تھا۔ یسوع نے اُس سے کہا، جب تک تُم نِشان اور عجیب کام نہ دیکھو ہرگز اِیمان نہ لاؤ گے۔ بادشاہ کے مُلازِم نے اُس سے کہا، اَے خُداوند میرے بچّہ کے مرنے سے پہلے چل۔ یسوع نے اُس سے کہا، جا تیرا بیٹا جِیتا ہے۔ اُس شخص نے اُس بات کا یقین کیا جو یسوع نے اُس سے کہی اور چلا گیا۔ وہ راستہ ہی میں تھا کہ اُس کے نَوکر اُسے ملے اور کہنے لگے کہ تیرا بیٹا جِیتا ہے۔ اُس نے اُن سے پُوچھا کہ اُسے کس وقت سے آرام ہونے لگا تھا؟ اُنہوں نے کہا کہ کل ساتویں گھنٹے میں اُس کی تپ اُتر گئی۔ پس باپ جان گیا کہ وُہی وقت تھا جب یسوع نے اُس سے کہا تھا تیرا بیٹا جِیتا ہے اور وہ خُود اور اُس کا سارا گھرانا اِیمان لایا۔ یہ دُوسرا معجزہ ہے جو یسوع نے یہودیہ سے گلیل میں آ کر دِکھایا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 4: 46۔ 54)

یہ دوسرا معجزہ ہے جو یسوع نے دِکھایا۔ پہلا معجزہ (پانی کو مے میں تبدیل کرنا) شادی کی تقریب میں ہُوا، جبکہ دوسرا معجزہ موت اور جنازے کے سائے میں ہُوا۔ پہلا معجزہ کچھ غریب لوگوں کی خاطر کیا گیا تھا، جبکہ دوسرا ایک رئیس کےلئے۔

غریب کے اپنے مسائل ہیں اور امیر کے بھی مسائل ہیں۔ درخت جتنا اونچا ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی زیادہ طوفانوں کی شدّت کو محسوس کرتا ہے۔ اَب بھی وہ وبا موجود ہے جو اندھیرے میں چلتی ہے اور وہ ہلاکت جو دوپہر کو وِیران کرتی ہے (زبور 91: 6)۔

یہ ایک بیمار بیٹے کو شفا دینے کا معجزہ ہے، جس کے والد نے کفرنحوم سے قانا تک تقریباً تیس کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ اُس وقت یہ سفر کرنے میں پورا دِن لگتا تھا۔ چنانچہ، اُس باپ نے معجزہ کرنے والے سے ملنے کےلئے پورا دن سفر کیا ہو گا۔

ہم نہیں جانتے کہ یہ امیر شخص کون تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہیرودیس کا دیوان خوزہ ہو (لوقا 8: 3)، یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ مناہیم ہو جو ہیرودیس کے ساتھ پروان چڑھا تھا (اعمال 13: 1)۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ ایک باپ تھا جو اپنے بیٹے سے پیار کرتا تھا، اور اُسے ہمیشہ کےلئے کھونے کا خطرہ محسوس کر رہا تھا۔

اِس معجزے پر گیان دھیان کرتے وقت آئیے اِن پہلوؤں پر غور کریں:

  1. وہ فرد جسے معجزے کی ضرورت تھی

  2. گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ وہ فرد جسے معجزے کی ضرورت تھی

الف۔ وہ جسے معجزے کی شِدّت سے ضرورت تھی، بیمار بیٹا تھا:

(1) وہ بیمار تھا اور موت کے قریب، اور حرکت کرنے سے قاصر تھا۔ وہ اپنے والد کی ذمہ داری میں تھا۔ اگرچہ اُسے اِس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے اِردگرد کیا ہو رہا ہے، لیکن اُس کے والد نے اپنا فرض ادا کیا۔ کیا آپ یہ جانتے ہوئے، اپنے آسمانی باپ پر بھروسا کرنے والے فرزند ہیں کہ وہ آپ کے تمام معاملات کا مالک ہے اور آپ کی زندگی پر تمام اختیار رکھتا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں آپ کا باپ کامل محبّت ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اُس کی محبّت، اختیار، اور جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ آپ کی خدمت کےلئے ہے؟

خُدا اکثر ہماری زندگی میں ایسے صدمات آنے کی اجازت دیتا ہے جو ہمیں مفلوج کر دیتے ہیں اور ہم حرکت کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں، تا کہ ہم اپنے تمام معاملات اُس کے سپرد کر دیں۔ کئی بار ہم سوچتے ہیں کہ ہم میں صلاحیت ہے، ہمیں اُس پر انحصار کی ضرورت نہیں، اور ہم اُس کی طرف رجوع کئے بغیر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ سو، وہ ہم سے محبّت کرنے کی وجہ سے ہمیں صدمہ پہنچاتا ہے تا کہ ہم پناہ لینے کےلئے اُس کے پاس دوڑے چلے آئیں۔

(2) تاہم، بیمار بیٹا ہمیں ایک اَور سبق سکھاتا ہے۔ کئی بار ہم اپنی بیماری کی شدت کی وجہ سے اپنی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بیٹا اِس قدر بیمار تھا کہ اُسے طبیب کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ لیکن ہمارا بھلا خُدا ہماری توجہ ہماری روحانی بیماری، کمزوری اور ایک نجات دہندہ کی ضرورت کی جانب مبذول کرواتا ہے تا کہ ہم محصول لینے والے کے الفاظ میں فریاد کریں: "اَے خُدا! مُجھ گنہگار پر رحم کر" (لوقا 18: 13)۔

ب۔ جس دوسرے شخص کو معجزے کی ضرورت تھی وہ بادشاہ کا ملازم تھا:

اِنجیل مقدّس میں ماں کا تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن جیسے باپ نے کیا تھا، ویسے ہی اُسے بھی اپنے بیٹے کی شفا کےلئے مسیح کی ضرورت تھی۔ ماں بیمار بیٹے کے بستر کے پاس رہی، جبکہ باپ مسیح سے مدد لینے چلا گیا۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک جسم ہیں (متی 19: 5)۔ چونکہ وہ ایک ہیں، اِس لئے انجیل نے صرف اِس باپ کا ذِکر کرنا مناسب سمجھا جو مسیح کی منّت کرنے اور اُس کے سامنے اپنی درخواست پیش کرنے کےلئے گیا۔

ماں اور باپ دونوں غم سے نڈھال تھے۔ لیکن اگر یہ مصیبت اُن پر نہ آتی تو وہ مسیح کے پاس جانے کے بارے میں نہ سوچتے۔ خُدا نے اُنہیں ناصرت کے بڑھئی کا سہارا لینے کے بارے میں سوچنے کےلئے مصیبت میں ڈالا جو معجزے کرنے والے کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔ "اچھّا ہُؤا کہ مَیں نے مُصِیبت اُٹھائی تا کہ تیرے آئِین سیکھ لوں" (زبور 119: 71)۔ خدا ایک محبّت کرنے والا اور مہربان باپ ہے جو ہمیں کبھی بھی صرف مصیبت کی خاطر تکلیف نہیں دیتا، بلکہ وہ ایسا ہمیں سکھانے اور اپنے قریب لانے کےلئے کرتا ہے۔

(1) شاہی دربار سے تعلق رکھنے والے فرد نے اپنا غرور ختم کیا اور اُس نے مسیح سے ملاقات کی غرض سے کفرنحوم کے ایک بڑے شہر سے ایک چھوٹے سے گاؤں تک سفر کیا تا کہ مسیح سے اپنے بیٹے کی شفا کی درخواست کرے۔ اُسے اِس بات کی پرواہ نہ تھی کہ لوگ کیا کہیں گے، کیونکہ اُس کی بڑی تکلیف نے اُسے مسیح کے سامنے حلیم کر دیا تھا۔

(2) اُس نے عاجزی سے مسیح کی ڈانٹ کو قبول کیا، چنانچہ وہ اِیمان کے امتحان میں کامیاب ہُوا۔ اُس نے مسیح سے کہا، "چل کر میرے بیٹے کو شفا بخش کیونکہ وہ مرنے کو تھا۔" لیکن مسیح نے اُسے بظاہر سخت جواب دیا: "جب تک تُم نِشان اور عجِیب کام نہ دیکھو ہرگز اِیمان نہ لاؤ گے۔" مسیح نے اُس آدمی کو ڈانٹا، اور اُس نے عاجزی کے ساتھ اِسے قبول کیا۔ آپ اُس آدمی کے اِیمان سے واقف تھے، اِس لئے آپ نے یہ آزمایش کی تا کہ اُس کا اِیمان کامیاب ہو سکے۔ "۔۔۔ خُدا سچّا ہے۔ وہ تُم کو تُمہاری طاقت سے زِیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پَیدا کر دے گا تا کہ تُم برداشت کر سکو" (1۔ کرنتھیوں 10: 13)۔

(3) باپ اپنے بیٹے کی خاطر مسیح کے پاس آیا، اور اُس کےلئے شفا کا متمنّی ہُوا۔ باپ اپنے بچوں کی خاطر کتنا کچھ کرتے ہیں! ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ایسا بیٹا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے باپ کو مسیح کی طرف لے آئے۔ کیا ہم رُوحانی طور پر اپنے خاندان کے افراد کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا ہم اپنے خاندانوں میں بزرگوں کے بارے میں سوچتے ہیں، اُن کےلئے دُعا کرتے ہیں اور اُن کے بارے میں مسیح سے بات کرتے ہیں، جیسا کہ اِس باپ نے مسیح کو اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا؟

بہت سے خاندانوں میں بوڑھے والدین ہوتے ہیں۔ کاش ہم اُن کی دیکھ بھال کریں، جیسا ہمارے والدین نے ہمارے لئے پرواہ کی اور دُعا کی یہاں تک کہ ہم نجات دہندہ مسیح کو پہچان گئے۔ آئیے، ہم اپنے عزیز و اقارب اور اپنے سے بزرگ افراد کے بارے میں سوچیں اور اُنہیں مسیح کے سامنے پیش کریں۔

(4) بادشاہ کے ملازم نے وقت کی کمی کے باوجود مسیح پر اپنا پورا بھروسا رکھا: "میرے بچّہ کے مرنے سے پہلے چل۔" اور جب مسیح نے اُسے کہا، "جا تیرا بیٹا جِیتا ہے،" تو اُس نے اِس بات کا یقین کیا اور اپنے گھر چلا گیا جبکہ اُس نے ابھی تک کچھ نہیں دیکھا تھا۔ اُس نے اُن الفاظ کا یقین کیا، اور محسوس کیا کہ اُس کا بیٹا ٹھیک ہو گیا ہے۔ وہ کچھ دیکھے بغیر گھر لوٹ آیا جس سے اُس کے دل کو سکون ملتا۔ لیکن، کیا یہ ایمان نہیں ہے؟ یہ اَن دیکھی چیزوں پر اعتماد کا نام ہے (عبرانیوں 11: 1)۔ جناب ابرہام کے بارے میں کہا گیا "وہ نا امّیدی کی حالت میں امّید کے ساتھ اِیمان لایا" (رومیوں 4: 18)، اور اُس نے وہ حاصل کیا جس کی امّید کی تھی۔ بادشاہ کے ملازم نے یہ نہیں کہا "شاید مسیح نے جو کہا ہے وہ سچ ہو۔" اُس نے یقیناً کہا ہو گا کہ "بےشک مسیح نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور وہ اپنی بات کا پکا تھا۔" ہمیں ایسے اِیمان کی ضرورت ہے جو ہمیں مسیح میں گنہگاروں کے طور پر اپنا بھروسہ رکھنے پر ابھارتا ہے جنہیں اُس کی معافی کی ضرورت ہے، اور یہ احساس دلاتا ہے کہ مسیح کی صلیب کا کفارہ ہمیں پاک کرنے کےلئے کافی ہے۔

ہر اِیمان کا ایک نقطہ آغاز ہوتا ہے، اور ہر اِیمان میں ترقی اور اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کا آغاز سُننے سے ہوتا ہے، جو ہمیں پوچھنے پر مجبور کرتا ہے۔ بادشاہ کے ملازم کے دِل میں اِیمان اُس وقت شروع ہوا جب اُس سے کہا گیا ہو گا کہ "مسیح تمہارے بیٹے کو شفا دے سکتا ہے۔ اُس نے قانا میں پانی کو مے میں بدل کر ایک معجزہ کیا ہے۔ مسیحا آ گیا ہے!"

یہاں اُس کا ایمان بڑھ گیا۔ وہ تیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے مسیح کے پاس گیا جس کےلئے اُسے پورا دِن لگا، تا کہ وہ اپنے بیٹے کی شفایابی کےلئے مسیح سے اِلتجا کرے۔ اُس کے اِیمان کا بڑھنا اُس وقت ظاہر ہُوا جب اُس نے مسیح کے الفاظ کا یقین کیا کہ "تیرا بیٹا جِیتا ہے" اور پھر اِس کلام پر عمل کیا۔ اُس کا اِیمان عمل اور تجربے میں مکمل ہُوا جب اُس نے مسیح کی عطا کی ہوئی شفا کو حاصل کیا۔ وہ سمجھ گیا کہ جس وقت یسوع نے کہا "تیرا بیٹا جِیتا ہے" تب اُس کا بیٹا ٹھیک ہو گیا تھا۔ اُس کے اِیمان میں اُس وقت بھی اضافہ ہُوا جب وہ اور اُس کا پورا گھرانا خُداوند پر ایمان لایا۔ اِیمان کا کمال یہ ہے کہ آپ اپنا دِل مسیح کےلئے کھولیں کہ وہ آپ کی زندگی کو بدل دے تا کہ آپ دوسروں کو نجات دہندہ مسیح کی طرف لے جا سکیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ خُدا کی محافظت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور خُدا کو جانتے اور پیار کرتے ہیں جو ہمارا خیال رکھتا ہے۔ بہرحال یہ وہ انداز ہے جس سے ایک فقیر اپنے محسن کے ساتھ پیش آتا ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ تعلق ایک بیٹے کا اپنے باپ کے ساتھ رشتے جیسا ہو۔ "لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں" (یوحنّا 1: 12)۔ یوں ہم ایک غلام کی حیثیت سے اپنے محسن سے بھیک مانگنے والے کی جگہ بیٹے کی امتیازی حیثیت تک پہنچ جاتے ہیں جو اپنے باپ سے مانگتا ہے۔

ہمارے اِیمان کو خُدا کے وعدوں سے پروان چڑھانا چاہئے تا کہ ہم اُن پر قائم رہیں۔ یوں اِیمان ترقی کرتا جاتا ہے کیونکہ جِتنی اچّھی باتیں خُداوند نے ہم سے کہی ہیں اُن میں سے ایک بھی ادھوری نہ رہے گی (یشوع 21: 45)۔

اِیمان کو ہمیشہ احساسات کی عدم موجودگی میں عمل کرنا چاہئے۔ یہ باپ کے جذبات نہیں تھے جنہوں نے اُسے کفرنحوم میں واپس آنے پر مجبور کیا، بلکہ یہ اِس حقیقت پر اُس کا اِیمان تھا کہ مسیح کے الفاظ سچ ہوں گے، اُس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا، اُس کا حکم ٹلے گا نہیں۔ مسیح نے اُس سے کہا تھا، "تیرا بیٹا جِیتا ہے۔"

کیا مسیح میں آپ کا اِیمان آپ کو مسیح سے بات کرنے کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ بادشاہ کے ملازم نے اپنے بیٹے کے بارے میں بات کی؟ کیا اِس سے آپ کو تسلی ملتی ہے؟ جب وہ آپ سے کہتا ہے، "تیرا بیٹا جِیتا ہے" تو کیا آپ اُس کے کہے ہوئے کلام پر یقین رکھتے ہیں اور اُس کے مطابق عمل کرتے ہیں؟ مسیح میں آپ کا اِیمان آپ کو اور آپ کے خاندان کو برکت دیتا ہے، کیونکہ حقیقی اِیمان ایسی برکت کا باعث بنتا ہے۔

2۔ گواہان اور معجزہ

الف۔ وہ جنہوں نے اُس بادشاہ کے ملازم کی التجا سُنی:

جب بادشاہ کے ملازم نے یسوع سے اپنے بیٹے کو شفا دینے کی درخواست کی تو وہاں موجود افراد نے وہ بات سُنی جو یسوع اُن سے کہنا چاہتا تھا۔ مسیح نے اُن سے کہا: "جب تک تُم نِشان اور عجیب کام نہ دیکھو ہرگز اِیمان نہ لاؤ گے۔" غالباً مسیح اِن الفاظ میں اپنے اِردگرد کھڑے افراد سے مخاطب ہوئے کیونکہ وہ اُس معجزے کو دیکھنا چاہتے تھے جو مسیح کرنے جا رہا تھا۔ وہ اِیمان لانے سے پہلے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے، جبکہ مسیح تو مضبوط اِیمان چاہتا ہے جو دیکھنے سے پہلے ہی یقین کر لے، جیسا کہ آپ نے توما سے کہا، "تُو تو مجھے دیکھ کر اِیمان لایا ہے۔ مُبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے اِیمان لائے" (یوحنّا 20: 29)۔

مسیح نے یہ لفظ قانائے گلیل کی صورتحال سے نمٹنے کےلئے کہے۔ آپ چاہتے تھے کہ وہ بڑھئی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے آپ پر ایمان نہ لائیں، یا اِس بنیاد پر نہیں کہ آپ کے تمام بھائی اُن میں موجود تھے، بلکہ اِس لئے کہ آپ آسمان سے آئے تھے۔ یہ تائب ڈاکو کا اِیمان تھا جس نے کہا، "اَے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا" (لوقا 23: 42)۔ اُس نے مسیح مصلوب کو بادشاہی کے خُداوند کے طور پر دیکھا، جبکہ اِنسانی آنکھ کے اعتبار سے وہ اُسے صرف ایک ساتھی مجرم کے طور پر دیکھتا۔ تائب ڈاکو نے اندیکھی حقیقت کو دیکھا۔ لہٰذا، مسیح نے اُسے اُس اِیمان سے نوازا جو ابدی زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔

ب۔ بادشاہ کے ملازم کے نوکر

اُنہوں نے واپس پہنچنے والے والد کو اُس خوشخبری کے ساتھ خوش آمدید کہا جس سے وہ اُس گھڑی حالات کی وجہ سے واقف تھے۔ اُنہوں نے دیکھا اور یہ خبر اپنے مالک تک پہنچائی۔ وہ خوشخبری کا باعث نہ تھے، بلکہ اُنہوں نے صرف خوشخبری پہنچائی۔ "کل ساتویں گھنٹے میں اُس کی تپ اُتر گئی۔" ساتواں گھنٹہ ہمارے وقت کے مطابق دوپہر کا ایک بجے ہے، جو کہ وقت ماپنے کے یہودی طریقہ کے مطابق طلوعِ آفتاب کے بعد ساتواں گھنٹہ ہے۔ پس باپ نے جان لیا کہ یہ وہی گھڑی تھی جب یسوع نے اُس سے کہا تھا کہ "تیرا بیٹا جیتا ہے۔"

ہم ایماندار اکثر اپنے درمیان خُدا کے کام اور لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی کے معجزات اور عظیم الٰہی پروردگاری دیکھتے ہیں جس میں خُدا ہمارے تصور سے بڑھ کر حیرت انگیز کام کرتا ہے۔ "اب جو اَیسا قادِر ہے کہ اُس قُدرت کے موافِق جو ہم میں تاثیر کرتی ہے ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے" (افسیوں 3: 20)۔

خُدا ہماری زندگیوں میں معجزات کرتا ہے۔ ہم نے اُن معجزات کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ ہم صرف اُنہیں دیکھتے ہیں اور اُن کی برکات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سو آئیے باہر نکلیں اور بتائیں کہ خُداوند نے کیا کیا کِیا ہے اور کیسے اُس نے ہم پر رحم کیا!

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ ہم مسیح کی فوری شفقت دیکھتے ہیں:

ہم مسیح کی کامل شفقت اُس باپ پر بھی دیکھتے ہیں جس نے مسیح کے آگے اپنی درخواست رکھی، اور اُس کے بیمار بیٹے پر بھی جو کفرنحوم میں بہت دُور بیمار پڑا تھا۔ باپ کا اِیمان کمزور تھا۔ ہم اُس پر الزام نہیں لگاتے، اگر ہم اُس کی جگہ ہوتے تو شاید ہم اُس کے کہنے سے بدتر کچھ کہتے! یہ کہنا کمزور اِیمان ہے کہ "چل کر میرے بیٹے کو شفا بخش کیونکہ وہ مرنے کو تھا۔" یہ ایسے تھا کہ جیسے اُس نے مسیح سے کہا "اگر تو نے تاخیر کر دی تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔" یسعیاہ نے مسیح کی بابت کہا تھا: "وہ نہ چِلاّئے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اُس کی آواز سُنائی دے گی" (یسعیاہ 42: 3؛ متی 12: 20)۔

یوحنّا خراسستم نے اپنے ایک وعظ میں کہا: "کیوں مسیح رومی صوبہ دار کے گھر گیا، لیکن بادشاہ کے ملازم کے گھر نہیں گیا؟" اُس نے اپنے سوال کا جواب یہ کہتے ہوئے دیا، "صوبہ دار کا اِیمان بڑا تھا، لیکن بادشاہ کے ملازم کا اِیمان کمزور تھا۔ مسیح اُس آدمی کے اِیمان کو مضبوط کرنا چاہتا تھا، اِس لئے مسیح نے اُس کے بیٹے کو دُور ہی سے شفا بخشی، تا کہ وہ جان جائے کہ مسیح کو ہر چیز پر اختیار و قدرت حاصل ہے۔"

جناب مسیح ہمارے ساتھ مختلف طریقوں سے پیش آتے ہیں جس کا انحصار ہماری صورتحال، حالات اور اِیمان پر ہوتا ہے۔ ہم مسیح سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ "تُو نے اُس شخص کے ساتھ ایسا کیوں کیا، لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں کیا؟" خُداوند کے پاس ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہمارے حالات کے مطابق نمٹنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آپ کے ساتھ بہت سے اور مختلف طریقوں سے پیش آتا ہے۔

ب۔ مسیح کی قدرت

باپ نے کہا، "چل کر میرے بیٹے کو شفا بخش کیونکہ وہ مرنے کو تھا۔" لیکن مسیح نے اُس سے کہا، "تیرا بیٹا جیتا ہے۔" مسیح کا کلام نظر آنے والی حقیقت سے بالکل متصادم تھا! لیکن مسیح کے کلام میں اُس کا اختیار ہے، کیونکہ مسیح کے "کلام" کا یہی مطلب ہے، کیونکہ وہ خُداوند کا تمام اختیار رکھتا ہے۔ لہٰذا، یسوع نے کہا، "جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (یوحنّا 14: 9)۔

"خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اِکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا" (یوحنّا 1: 18)۔ ہمارے پاس بائبل مقدّس میں خُدا کا لکھا ہُوا کلام موجود ہے۔ اِس میں رُوح القُدس کے کام کی بدولت رُوحوں کو بچانے کا الہٰی اختیار موجود ہے۔ ہمارے پاس زندہ کلام خُداوند یسوع مسیح بھی ہے جو زندہ نجات دہندہ ہے۔ نجات دہندہ اور اُس کا کلام ہمارے درمیان کام کرتا ہے۔

مسیح کے الفاظ "تیرا بیٹا جیتا ہے" نے کم از کم دو معجزات دکھائے: پہلا، بادشاہ کے ملازم کے اِیمان کی کمزوری کی شفا، اور دوسرا اُس بیمار بیٹے کی کمزوری سے شفا جو بسترِ مرگ پر پڑا تھا۔ مسیح کا کلام صرف ایک معجزہ نہیں بلکہ بہت سے معجزات کا آغاز کرتا ہے۔ ہر معجزہ جو ہم دیکھتے ہیں درحقیقت معجزات کا ایک گروہ ہے۔ ہم جتنا زیادہ اُن پر غور کریں گے، اتنا ہی ہمارے دِل میں ہمارا اِیمان مضبوط ہو گا اور بڑھے گا، اور ہم اپنی بیماری سے شفا پائیں گے۔

مسیح کے پاس دوری کے باوجود اختیار ہے۔ 30 کلومیٹر کے فاصلے پر، اُسی لمحے دوپہر ایک بجے بیمار بیٹا شفا یاب ہو گیا۔

ج۔ مسیح کی حکمت

باپ نے مسیح سے اپنے بیٹے کو ایک خاص طریقے سے شفا دینے کو کہا، لیکن مسیح نے اُسے مختلف طریقے سے شفا دی۔ اُس کی درخواست تھی: "میرے بچّہ کے مرنے سے پہلے چل۔" تاہم، جناب مسیح کفرنحوم میں نہ گئے، بلکہ قانا سے ہی اُس کے بیٹے کو شفا بخشی تا کہ ہمیں ایک بڑا سبق سکھایا جائے: کیسے ہم اپنے آپ کو اُس کی حکمت کے تابع کریں اور اُس سے کہیں؟ "یہ میری مرضی کے مطابق نہیں بلکہ تیری مرضی کے مطابق ہو جو بھلی، پسندیدہ اور کامل ہے۔ اگر تُو مجھے میری درخواست کا جواب میری مرضی کے مطابق دے گا تو مَیں خسارے میں ہوں گا۔ لیکن اگر آپ تُو میری درخواست کا جواب اپنی مرضی کے مطابق دے گا تو مَیں سب کچھ حاصل کر لوں گا!"

آئیے ہم مسیح کی شفقت، قدرت اور حکمت پر بھروسا کرنا سیکھیں۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، ہماری زندگی میں ہماری تمام بیماریوں سے شفا کا معجزہ سر انجام دے تا کہ ہم معافی کی بدولت گناہ کی بیماری سے، اطمینان کی بدولت قلق کی بیماری سے، اور خُداوند کے انتظار کی بدولت جلدبازی کی بیماری سے شفا پائیں۔

ہمیں روحانی صحت عطا فرما، اور بخش کہ ہمارے بدن ہمیشہ رُوح القُدس کی ہیکل ہوں۔ یسوع مسیح کے نام میں، آمین۔

سوالات

  1. پانی کو مے میں بدلنے کے معجزے اور اِس معجزے کے درمیان دو فرق بیان کریں۔

  2. کیوں اِنجیل مقدّس میں بیمار بیٹے کو شفا دینے کے واقعہ میں ماں کا ذِکر نہیں کیا گیا؟

  3. ہماری ہمارے خاندان کے بزرگوں کے تئیں کیا ذمہ داری ہے؟

  4. بادشاہ کے ملازم کا اِیمان کیسے شروع ہُوا، بڑھا اور کیسے مکمل ہُوا؟

  5. مسیح نے بادشاہ کے ملازم کے اِیمان کو بُجھا نہیں دیا بلکہ اُسے روشن کر دیا۔ کیسے؟

  6. کیوں مسیح صوبہ دار کے گھر گئے لیکن بادشاہ کے ملازم کے گھر نہیں گئے؟

  7. مسیح نے بیمار بیٹے کو اُس کے باپ کی درخواست سے مختلف انداز میں شفا دی۔ آپ اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟

تیسرا معجزہ: مچھلیوں کا بڑا شکار

"جب بِھیڑ اُس پر گری پڑتی تھی اور خُدا کا کلام سُنتی تھی اور وہ گنّیسرت کی جھیل کے کنارے کھڑا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے جھیل کے کنارے دو کشتیاں لگی دیکھیں لیکن مچھلی پکڑنے والے اُن پر سے اُتر کر جال دھو رہے تھے۔ اور اُس نے اُن کشتیوں میں سے ایک پر چڑھ کر جو شمعون کی تھی اُس سے درخواست کی کہ کنارے سے ذرا ہٹا لے چل اور وہ بیٹھ کر لوگوں کو کشتی پر سے تعلیم دینے لگا۔ جب کلام کر چُکا تو شمعون سے کہا گہرے میں لے چل اور تُم شکار کےلئے اپنے جال ڈالو۔ شمعون نے جواب میں کہا اَے اُستاد ہم نے رات بھر محنت کی اور کچھ ہاتھ نہ آیا مگر تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہُوں۔ یہ کیا اور وہ مچھلیوں کا بڑا غَول گھیر لائے اور اُن کے جال پھٹنے لگے۔ اور اُنہوں نے اپنے شریکوں کو جو دُوسری کشتی پر تھے اِشارہ کِیا کہ آؤ ہماری مدد کرو ۔ پس اُنہوں نے آ کر دونوں کشتیاں یہاں تک بھر دیں کہ ڈوبنے لگیں۔ شمعون پطرس یہ دیکھ کر یسوع کے پاؤں میں گرا اور کہا اَے خُداوند! میرے پاس سے چلا جا کیونکہ مَیں گنہگار آدمی ہُوں۔ کیونکہ مچھلِیوں کے اِس شکار سے جو اُنہوں نے کیا وہ اور اُس کے سب ساتھی بہت حیران ہُوئے۔ اور ویسے ہی زبدی کے بیٹے یعقوب اور یوحنّا بھی جو شمعون کے شریک تھے حیران ہُوئے۔ یسوع نے شمعون سے کہا خوف نہ کر۔ اب سے تُو آدمیوں کا شکار کیا کرے گا۔ وہ کشتیوں کو کنارے پر لے آئے اور سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 5: 1۔ 11؛ مزید دیکھئے اِنجیل بمطابق متی 4: 18۔ 22، اور مرقس 1: 16۔ 20)

مسیح نے اپنا پہلا معجزہ شادی کے موقع پر کیا، دوسرا موت کے سائے کی موجودگی میں، اور تیسرا گنیسرت کی جھیل کے کنارے پر کیا۔ اِس جھیل کے نام کا مطلب "باغوں کی شہزادی" ہے، کیونکہ اِس کے اِردگرد پھل دار باغات کے ساتھ کثیر آبادی والے دس خوشحال شہر موجود ہیں۔ یہ خوشی اور شادمانی کی جگہ ہے۔

اِس جھیل کو "گلیل کا سمندر" یا "تبریاس کی جھیل" بھی کہا جاتا ہے۔ اِس کی لمبائی 20 کلومیٹر، چوڑائی 13 کلومیٹر ہے اور یہ سطح سمندر سے 230 میٹر نیچے واقع ہے۔ لہٰذا، یہ ایک گرم مرطوب علاقہ کی آب و ہوا والا علاقہ ہے۔ اِس پر چلنے والی ہوائیں بغیر کسی انتباہی علامات کے مکمل طور سے اور غیر متوقع طور پر بدل جاتی ہیں۔

مسیح نے اِس جھیل کے اِردگرد ایک کنارے سے دوسرے کنارے جاتے ہوئے اپنے بہت سے معجزات انجام دیئے۔ آپ نے وہاں طوفان کو ساکن کیا اور اپنے شاگردوں کو مچھلیوں کا بڑا شکار فراہم کیا۔ اُس جھیل میں ایک چھوٹی کشتی میں کھڑے ہو کر آپ نے اُس کے کنارے جمع لوگوں سے خطاب کیا۔ آپ نے کشتی کے مالک پطرس کو بہت سی مچھلیاں فراہم کیں۔ درحقیقت، پطرس کے ساتھ مسیح کی خدمت کا تعلق یہاں مچھلیوں کے بڑے شکار کے معجزے سے شروع ہُوا، اور مسیح کا زمین پر اپنی موجودگی کے دوران خدمت کے اِس تعلق کا اختتام مچھلی کے ایک اَور معجزے کے ساتھ ہُوا (یوحنّا 21 باب)، جب آپ نے اُسے مقرر کیا کہ وہ آپ کی بھیڑوں کی گلہ بانی کرے۔

اِس معجزے میں ہم دو افراد پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے:

  1. وہ جسے معجزے کی ضرورت ہے

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ وہ جسے معجزے کی ضرورت ہے

الف۔ محتاج شخص کے اثاثے:

پطرس جھیل کے کنارے کھڑی ایک کشتی کا مالک تھا۔ ماہی گیر اُس سے اتر چکے تھے اور ساری رات شکار کی غرض سے محنت کرنے کے باوجود کچھ نہ پکڑ سکے تھے اور اَب اپنے جال دھو رہے تھے۔ یہ مایوسی اور تھکن کی صورت حال ہے۔ کشتی مسیح کو اِس لئے دی گئی تھی کہ آپ اُسے پُلپٹ کے طور پر استعمال کریں اور وہاں سے لوگوں سے مخاطب ہوں۔ ایک مفسّر نے کہا ہے: "رُوحوں کا شکار کرنے والا جھیل میں کشتی میں موجود تھا اور جن رُوحوں کا وہ شکار کر رہا تھا وہ جھیل کے کنارے زمین پر کھڑی تھیں۔ آسمانی مبلغ رُوحوں کو موت سے زندگی تک اپنی بادشاہی میں جمع کرنے کےلئے خوشخبری کا جال ڈالتا ہے۔" ہم مسیح کو پیش کی جانے والی کشتی میں پطرس کا ایک خاموش اظہار دیکھ سکتے ہیں، گویا وہ یوں کہہ رہا ہے: "تُو جس کلام کی منادی کشتی میں سے اور اُس سے باہر کرتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی دیتا ہے۔"

ایک خالی کشتی مسیح کو دی گئی تھی، اور دیکھو! وہ مچھلیوں سے بھر گئی، اِس قدر کہ جال پھٹنے ہی والے تھے، اور ماہی گیروں کو دوسری کشتی سے مدد کےلئے کہنا پڑا۔ وہ آئے اور دونوں کشتیوں کو یہاں تک بھر دیا کہ وہ ڈوبنے لگیں۔ مسیح کو دی گئی ایک خالی کشتی پطرس کی توقع سے زیادہ بھر گئی۔ کیا ہم سب کی حالت ایسے ہی نہیں ہے؟ جب ہمارے ہاتھ خالی ہوتے ہیں تو ہم اُنہیں مسیح کے سامنے پھیلاتے ہیں اور وہ اُنہیں بھر دیتا ہے۔ کاش کہ ہم اپنی ہر چیز اُس کو پیش کر دیں، اِس لئے نہیں کہ وہ اُن کا محتاج ہے، بلکہ اِس لئے کہ وہ اُن کو برکت دے۔ اگر ہم کسی اعتبار سے ناکام ہو جائیں تو آئیے اُسے خُداوند کے سپرد کر دیں۔ جب ہماری صحت ناکام ہو جائے تو اپنے بدن کو رُوح القُدس کی ہیکل بننے کےلئے خُداوند کو نذر کریں۔ اگر ہمارا کام ناکام ہو جائے تو اُسے خُداوند کے حضور پیش کر دیں کہ وہ اُس میں برکت دے اور یہ اُس کا کام بن جائے۔ پطرس کی کشتی میں سب کچھ مکمل طور پر پطرس کا تھا۔ لیکن جب اُس نے وہ سب مسیح کے سامنے پیش کیا تو سب کچھ مسیح کا ہو گیا۔ پھر پطرس، مسیح کا کامیاب ساتھی بن گیا۔ اگر ہمارے حصے کی چیزیں ہماری ہیں تو ہم کامیاب نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر ہم یہ سب کچھ مسیح کو دیں گے تو وہ ہمیں برکت دے گا، اور ہم اُس کی کامیابی میں اُس کے شریک بن جائیں گے۔

آئیے ہم اپنے بدن زندہ، پاک اور پسندیدہ قربانی کے طور پر اُس کے سامنے نذر کریں، تا کہ وہ ٹھیک اور بابرکت ہوں اور رُوح القُدس کی معموری سے معمور ہو جائیں (رومیوں 12: 1)۔

ب۔ محتاج شخص کا ایمان:

(1) پطرس نے مسیح میں اپنی زندگی کا آغاز مسیح کے پیروکار بننے سے کیا۔ جب اُس کے بھائی اِندریاس نے اُس سے کہا: "ہم کو مسیح مل گیا" تو اُس نے فوراً ہی مسیح کی پیروی شروع کی۔ اگرچہ پطرس مسیح کے پیروکاروں کی جماعت میں شامل ہُوا، لیکن وہ اپنے گھر میں رہتا تھا اور ماہی گیر کے طور پر اپنے پیشہ کو جاری رکھے ہوئے تھا۔

لیکن جس دن مسیح نے اُس سے کہا، "کنارے سے ذرا ہٹا لے چل،" اُس نے کچھ نیا تجربہ کیا۔ وہ مسیح کا شاگرد بن گیا۔ یسوع نے پطرس کی کشتی میں بیٹھ کر لوگوں کو تعلیم دی۔ پھر آپ نے اُس سے کہا: "خَوف نہ کر۔ اب سے تُو آدمیوں کا شکار کیا کرے گا۔" اِس لئے اُس نے سب کچھ چھوڑ دیا اور مسیح کے پیچھے ہو لیا۔ پہلے وہ ایک پیروکار تھا، لیکن اب وہ مسیح کا کل وقتی شاگرد بن گیا۔ پطرس نے مسیح کی پیروی کرنے کےلئے سب کچھ چھوڑ دیا۔ بعد ازاں اُس نے مسیح کا رسول بن کر اپنے ایمان میں مزید ترقی کی۔

(2) جب پطرس نے اپنے اِیمانی سفر کا آغاز کیا تو وہ اِس معجزے کے باعث حیرت زدہ تھا۔ اُس نے کہا: "اَے خُداوند! میرے پاس سے چلا جا کیونکہ مَیں گنہگار آدمی ہُوں۔" بعد ازاں، اپنے اِیمان میں ترقی کرتے ہوئے اُس نے کہا: "اَے خُداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زِندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں" (یوحنّا 6: 68)۔ شروع میں وہ مسیح اور اُس کی پاکیزگی سے ڈرا۔ لیکن پھر مسیح نے اُسے سکھایا کہ "مُجھ سے اور میری پاکیزگی سے مت ڈر، کیونکہ مَیں تجھے دھوؤں گا اور تیرے دِل کو صاف کروں گا۔" پطرس نے جو سبق سیکھا اُس کے بعد گویا وہ مسیح سے کہنے لگا: "میری کشتی کو مت چھوڑنا۔ میرے ساتھ رہ۔" پطرس کی رُوحانی زندگی میں یقیناً ترقی ہوئی تھی۔ پھر پطرس نے گویا مسیح سے کہا: "مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں اور میری کشتی تیری خدمت میں رہیں۔ میری کشتی میں رہ، کیونکہ مجھے تیری طرف سے روزانہ پاکیزگی اور رُوحانی تازگی کی ضرورت ہے۔" کشتی اور کشتی کے مالک دونوں کی صورتحال میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ کشتی اور اُس کا مالک مسیح کی ملکیت بن گئے۔

(3) پطرس اور اُس کے ساتھ موجود افراد مچھلی کے بڑے شکار پر حیران رہ گئے۔ ہمیں مسیح کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے تا کہ ہم ہمیشہ اپنے ساتھ اُس کے سلوک سے حیران رہیں، اور ہر وقت ہر چیز کےلئے اُس کا شکریہ ادا کرنے کےلئے تیار رہیں۔ آئیے ہم پطرس سے سیکھیں کہ خُدا کی طرف سے ہر تحفہ کی تابانی کو دیکھنا ہے۔ خُدا کے ساتھ اپنی زندگی کی بدولت خُدا کے تحفوں پر ہماری حیرت تابناک ہو۔ وہ مسلسل برکت کے ساتھ اپنا ہاتھ ہماری طرف بڑھاتا ہے اور "سب اِیمان لانے والوں کے سبب سے تعجب کا باعث ہونے کے لئے آئے گا" (2۔ تھسلینیکیوں 1: 10)۔

(4) اِس حیرت کے بعد الٰہی وعدہ آتا ہے: "خَوف نہ کر۔ اب سے تُو آدمِیوں کا شکار کیا کرے گا۔" جو کوئی بھی مسیح سے گہرے طور پر واقف ہو جاتا ہے، وہ ماہی گیر سے آدم گیر بننے کی طرف بڑھتا ہے۔ پودوں کی مثال پر غور کریں، جب جانور اُنہیں کھاتے ہیں، تو پودے حیوانی مملکت کا حصہ بن جاتے ہیں، اور جب اِنسان ایک جانور کو کھاتا ہے تو وہ اِنسانی جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو خُدا کے سپرد کر دیتے ہیں اور اپنی زندگی کا تمام حق اُسے دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں: "اب مَیں زِندہ نہ رہا بلکہ مسیح مُجھ میں زندہ ہے" (گلتیوں 2: 20)۔ ہم الٰہی فطرت میں شریک ہوتے ہیں (2۔ پطرس 1: 4)۔ آئیے ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر خُدا کے حوالے کر دیں اور ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اُس کے سپرد کر دیں تا کہ ہم پر اُس کا اختیار کامل ہو، اور وہ ہمیں اِنسانی بادشاہی سے الٰہی بادشاہی میں لے جائے، جس میں مسیح ہمیں لانا چاہتا ہے۔

مسیح ہمیں محض "روزی روٹی کی تلاش کرنے والے" سے "خُدا کی مرضی پر چلنے والے" کے درجے پر لے جانا چاہتا ہے۔ ایسی بھی اولاد موجود ہے جو اپنے والد کی بابت شکایت کرتی ہے کہ وہ اُن کی دیکھ بھال کے تعلق سے اُن کی مادی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت مصروف رہتے ہیں! ایسی بیویاں ہیں جو اپنے شوہروں کے بارے میں شکایت کرتی ہیں کیونکہ وہ صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں، رات گئے دیر سے واپس آتے ہیں اور مشقت کی روٹی کھاتے ہیں (زبور 127: 3)۔ جبکہ خُدا اُنہیں پاک لوگ بنانا چاہتا ہے، کیونکہ اُنہوں نے اُس اچھے حصے کا انتخاب کیا جو اُن سے نہیں لیا جائے گا (لوقا 10: 42)۔ یہ اچھا حصہ اُنہیں دنیا سے الگ نہیں کرتا اور نہ ہی اُن کو ناکام بناتا ہے، بلکہ اُن کےلئے سب کچھ کثرت سے فراہم کرتا ہے (متی 6: 33)۔

(5) پطرس کی تقدیس اُس وقت مکمل ہوئی جب اُس نے سب کچھ چھوڑ کر مسیح کی پیروی کی۔ ہو سکتا ہے کہ آپ دُنیا میں یہاں وہاں مصروف ہوں، مگر خُدا آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ آپ عبادت میں زیادہ وقت گزاریں، یا کسی ایسے شخص کے بارے میں زیادہ سے زیادہ گہرائی سے سوچیں جسے نجات کی ضرورت ہے اور آپ کو اُس سے اِس بارے میں بات کرنی ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں بھرپوری چاہتے ہیں، تو مسیح کے وفادار پیروکار بنیں۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح لوگوں کی توجہ کھینچ لیتا ہے:

بھِیڑ خُدا کا کلام سُن کر مسیح کے گرد جمع ہوتی جا رہی تھی۔ مسیح میں ایک خاص کشش موجود ہے۔ میری زندگی کے سب سے خوشگوار سال وہ تھے جو مَیں نے "سیرت المسیح" کی کتابوں کی سلسلہ کی اشاعت کےلئے، اور پھر اُن کو نشریاتی طور پر پیش کرنے کی تیاری میں گزارے۔ میری مسیح کی پُرجلال خوبصورت شخصیت کے ساتھ گہری رفاقت پروان چڑھی جو آج بھی میرے دِل کو متاثر کرتی ہے۔ جب مسیح آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، تو آپ اُس پر غور کرتے ہیں اور اُس کے پاس آتے ہیں۔ یہ مسیح کی کشش ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا: "اور مَیں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا" (یوحنّا 12: 32)۔

آپ جانتے ہیں، مقناطیسیت دھات کو اپنی طرف کھینچتی ہے پتھر کو نہیں۔ اَب ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو پتھر کی طرح محسوس کریں، تو ایسی صورتحال میں خُدا سے اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی لانے کےلئے کہیں جس کے باعث آپ میں سے ہر وہ چیز ختم ہو جائے گی جو آپ کے خُدا کی طرف متوجہ ہونے میں رکاوٹ بنتی ہے، تا کہ آپ اُس کے گرد فراہم ہو سکیں۔

ب۔ مسیح کی ضرورت:

آپ کو پطرس کی کشتی کی ضرورت تھی کہ اُس میں بیٹھ کر لوگوں کو تعلیم دیں۔ آپ کو کشتی کو جھیل میں لے جانے کےلئے ماہی گیر کے تجربے کی ضرورت تھی۔ آپ ایک کشتی خلق کرنے اور اُسے خشکی سے نکال کر پانی میں لانے کےلئے ایک لہر کو حکم دینے کے قابل تھے، لیکن آپ پطرس کو عزت اور برکت دینا چاہتا تھے۔ جب خُداوند ہم سے کچھ طلب کرتا ہے تو وہ اِس لئے طلب نہیں کرتا کہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتا ہے، بلکہ اِس لئے کہ وہ ہمیں اپنی خدمت میں شریک کرنا چاہتا ہے۔ آئیے ہم یہ کہتے ہوئے دانائی کا مظاہرہ کریں: "مَیں اپنی زندگی کی کشتی خُداوند کو دوں گا، اور اگر وہ خالی ہے تو وہ مجھے بھر کر واپس کر دے گا۔ وہی میری تھکی ماندی رُوح کو سکون بخش سکتا ہے اور میرے دِل کی پیاس بجھا سکتا ہے۔"

ج۔ مسیح، صاحب اختیار:

(1) آپ پطرس پر اختیار رکھتے تھے۔ آپ نے اُس سے کہا: "گہرے میں لے چل۔" پھِر آپ نے اُسے حکم دیا: "تُم شکار کےلئے اپنے جال ڈالو۔" اور پطرس نے آپ کی فرمانبرداری کی۔ یسوع میں قدرت اور کشش ہے۔ اگر آپ اُس کی آواز سُنیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ مسیحا کی فرمانبرداری نہ صرف اِس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ اِس میں آپ کا فائدہ ہے، بلکہ اِس لئے بھی کہ مسیح کے کلام میں اختیار ہے، "کیونکہ خُدا کا کلام زِندہ اور مؤثِر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زِیادہ تیز ہے" (عبرانیوں 4: 12)۔ آئیے ہم خُدا کے کلام کو پڑھیں اور ہم اپنی زندگی میں اُس کا اختیار دیکھیں گے۔

(2) مچھلیوں پر مسیح کا اختیار: جس جگہ وہ مچھلیاں پکڑ رہے تھے وہاں کوئی مچھلی نہیں تھی۔ مزید یہ کہ مچھلی کا شکار رات کو کیا جاتا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود مسیح کے حکم پر مچھلیاں جمع ہوئیں۔

مچھلی پکڑنے میں پطرس کی کامیابی سازگار حالات کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ صاحبِ اختیار مسیح کے کلام کی فرمانبرداری کی وجہ سے تھی۔ آپ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا حالات کے سازگار ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ خُداوند کی بخشی ہوئی برکت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ آپ اپنے لئے مسیح کی ہر بات سے اتفاق کریں گے۔ برکت ہمیشہ فرمانبرداروں پر ہوتی ہے۔ خُدا نے ایلیاہ کو کریت کے نالے میں جانے کا حکم یہ کہتے ہوئے دیا: "اور تُو اُسی نالہ میں سے پِینا اور مَیں نے کوّوں کو حکم کیا ہے کہ وہ تیری پرورش کریں" (1۔ سلاطین 17: 4)۔ یہاں لفظ "اُسی" اہم ہے: جہاں آپ چاہتے ہیں وہاں نہیں، بلکہ جہاں وہ چاہتا ہے جائیں۔

د۔ مسیح کی محبّت

(1) مسیح نے پطرس کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ نے اُسے کہا: "خَوف نہ کر۔ اب سے تُو آدمیوں کا شکار کیا کرے گا۔" پطرس مچھلی کے پکڑے جانے سے حیران رہ گیا، اور اپنے گناہ کی وجہ سے خوفزدہ ہو گیا۔ تب مسیح نے محبّت بھرے الفاظ سے اُسے تسلی دی اور گویا کہا: "مت ڈر۔ مَیں تیرے دِل کو صاف کروں گا۔ مَیں تجھے سر بلندی بخشوں گا۔" جب ہم کسی امتحان کا سامنا کرتے ہیں، یا نوکری کےلئے انٹرویو دیتے ہیں، یا کسی سرجری سے گزرنے لگتے ہیں، یا جب ہم پہلی بار والدین بنیں گے، یا پھر جب ہم اپنے بچوں کو پہلی بار اسکول بھیجتے ہیں، یا جب اُن کی شادی ہو جائے اور وہ اپنے گھر کا گھونسلہ چھوڑنے لگیں، یا جب ہم اپنی نوکری سے فارغ ہونے والے ہوں تو یہ الفاظ مسلسل ہمارے لئے بھی ہیں۔ ہمیں اِن الفاظ کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم ہر طرح کے نئے امتحان میں اپنے کانوں میں یہ محبّت بھری سرگوشی سُنتے ہیں: "خَوف نہ کر۔ اب سے تُو ۔۔۔"

(2) الفاظ "اب سے تُو ۔۔۔" مسیح کی محبّت کا ایک اَور ثبوت پیش کرتے ہیں۔ یہ الٰہی مقررہ وقت ہے۔ مسیح نے پطرس سے یہ الفاظ کہ "اَب سے تُو آدمیوں کا شکار کیا کرے گا" اُس وقت کیوں نہیں کہے جب اندریاس نے پطرس کو مسیح کے پیچھے آنے کےلئے بلایا تھا؟ جواب یہ ہے کہ جناب مسیح، پطرس کو مناسب لمحے کےلئے تیار کر رہے تھے۔

(3) جب مسیح نے پطرس کو ایک خاص خدمت، آدمیوں کا شکار کرنے کےلئے بلایا تو یہ اُس سے آپ کی محبّت کا اظہار تھا۔ تب اُس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہُوا۔ خاندان اور معاشرے میں اُس کا وقار بلند ہُوا۔ خُدا نے اُسے آسمان کی بادشاہی میں بڑا مقام عطا کیا۔

(4) پھر مسیح نے پطرس کو بہت سی مچھلیاں فراہم کر کے اپنی محبّت کا اظہار کیا: کیا پطرس نے چند گھنٹوں کےلئے کشتی کو کرایہ پر دے کر بڑا معاوضہ پایا تھا؟ اگر مسیح نے وہ کشتی جس سےمنادی کی کرائے پر لی ہوتی تو آپ اُسے ایک دینار کے برابر رقم ادا کرتے، لیکن آپ نے پطرس کی کشتی کو مچھلیوں سے بھر دیا۔ آپ نے جالوں کو پھٹنے اور دونوں کشتیوں کو ڈوبنے سے روکا۔ جو کوئی مسیح کے نام پر ٹھنڈے پانی کا ایک پیالہ بھی پلاتا ہے اپنا اجر ہرگز نہ کھوئے گا (متی 10: 42)۔ کیا آپ نے کبھی کسی اچھے کام پر پچھتاوا محسوس کیا ہے اور آپ کو اجر اور تشکر نہیں ملا؟ افسوس نہ کریں، کیونکہ آپ کو خُداوند کی طرف سے اجر ملے گا۔

(5) سو، آئیے ہم مسیح پر غور کریں جو مستقبل کو دیکھتا ہے۔ مسیح نے فرمایا: "پھر آسمان کی بادشاہی اُس بڑے جال کی مانند ہے جو دریا میں ڈالا گیا اور اُس نے ہر قِسم کی مچھلیاں سمیٹ لیں۔ اور جب بھر گیا تو اُسے کنارے پر کھینچ لائے اور بیٹھ کر اچّھی اچّھی تو برتنوں میں جمع کر لیں اور جو خراب تھیں پھینک دِیں۔ دُنیا کے آخر میں اَیسا ہی ہو گا" (متی 13: 47۔ 49)۔ ہم اِس معجزے میں ایک نبوّتی تمثیل دیکھتے ہیں: ماہی گیر وہ رسول ہیں جو ہر دور میں خُدا کے کلام کو پہنچاتے ہیں۔ کشتی کلیسیا ہے۔ جال اِنجیل ہے۔ سمندر دُنیا ہے۔ ساحل ابدیت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے ہیں جو مر جاتی ہیں، جبکہ مسیح کے خادم لوگوں کو پکڑتے ہیں تا کہ وہ زندہ رہیں۔ ایک دِن جال کھینچ لیا جائے گا۔ اُس میں اچھے اور برے لوگ ہوں گے، کیونکہ کلیسیا مقدّسین کا میوزیم نہیں، بلکہ گنہگاروں کا ہسپتال ہے۔ بُرے لوگوں کو الگ کر کے اچھے بادشاہی کےلئے لے لئے جائیں گے۔ اَب آپ کا تعلق کس طرف والے لوگوں میں ہے؟

کیا آپ نے اپنا آپ، اپنی کشتی اور اپنے خاندان کو مسیح کی سپردگی میں دے دیا ہے؟

دُعا

اَے آسمانی باپ، ہم پورے دِل سے تیرا شکر کرتے ہیں کیونکہ تُو ہم سے پیار کرتا ہے اور اِس سے پہلے کہ ہم اپنی ضرورت سے واقف ہوں تُو ہماری فکر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تُو ہمارے مانگنے سے پہلے ہی ہمیں دے دیتا ہے۔ اور تیری بخشش فیّاضی پر مبنی ہے جس میں ملامت نہیں۔

ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم ہمیشہ تیری طرف صحیح راستہ پائیں، تا کہ ہم اپنی جان تیرے سپرد کر دیں اور اپنی مرضی کو تیری مرضی کے تابع کر دیں تا کہ ہم نعمتوں اور فضل سے معمور ہو جائیں، اور تجھ سے فضل پر فضل حاصل کریں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. گلیل کی جھیل کی کچھ تفصیل بتائیں۔

  2. جب ہم اپنے آپ کو مسیح کے سپرد کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

  3. جب ہم اپنے پاس موجود اشیاء کو مسیح کے حوالے کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

  4. پطرس کے اِیمان میں رونما ہونے والی ترقی کا ذِکر کریں۔

  5. مسیح نے پطرس کو کیا کام تفویض کیا تھا؟

  6. مسیح نے کشتی بنانے کے بجائے پطرس کی کشتی کیوں مستعار لی؟

  7. مسیح کی طرف سے پطرس کےلئے کیا اجر تھا؟

چوتھا معجزہ: پطرس کی ساس کو شفا دینا

"اور یسوع نے پطرس کے گھر میں آ کر اُس کی ساس کو تپ میں پڑی دیکھا۔ اُس نے اُس کا ہاتھ چُھؤا اور تپ اُس پر سے اُتر گئی اور وہ اُٹھ کھڑی ہُوئی اور اُس کی خدمت کرنے لگی۔" اِنجیل بمطابق متی 8: 14، 15؛ مزید دیکھئے مرقس 1: 29، اور لوقا 4: 38)

مسیح نے اپنا پہلا معجزہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے سامنے، مہمانوں سے بھرے گھر میں شادی کی تقریب کے دوران کیا۔

آپ کا دوسرا معجزہ (بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو دُور سے شفا دینا) قانا میں ہُوا جبکہ مریض کفرنحوم میں پڑا تھا۔

جہاں تک پطرس کی ساس کو شفا دینے کے معجزے کا تعلق ہے تو یسوع نے یہ معجزہ کفرنحوم کے ایک گھر میں، صرف چند دوستوں اور رشتہ داروں کی موجودگی میں اُس کے بستر کے پاس کھڑے ہوئے انجام دیا۔

یسوع مسیح سبت کے ایک دن شہر کفرنحوم میں جو گنیسرت کی جھیل کے کنارے واقع تھا، عبادت خانہ میں مذہبی خدمت اور منادی سے فارغ ہونے کے بعد پطرس کے گھر واپس آئے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اِس شاگرد کے پاس اپنا گھر تھا، جبکہ استاد کے پاس سر دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی، لیکن پھر بھی وہ آسمان اور زمین پر صاحبِ اختیار ہے۔ جب پطرس نے اپنے استاد کو گھر کی پیشکش کی تو مسیح نے اُس کے گھر میں شفا کا معجزہ کر کے اُسے عزت بخشی۔ پطرس نے اپنی کشتی مسیح کو دی تا کہ آپ وہاں سے منادی کر سکیں، اور آپ نے کشتی کو مچھلیوں سے بھر دیا۔ اور جب پطرس نے آپ کو اپنے گھر میں رکھا تو آپ نے اُس گھر میں شفا کا معجزہ کر کے پطرس کو عزت بخشی جس سے اُن کے دِل خوش ہو گئے۔ پطرس کی ساس کو تیز بخار تھا، لیکن مسیح نے اُس کا ہاتھ پکڑا، اُسے اُٹھایا اور وہ فوراً ٹھیک ہو گئی اور خدمت کرنے لگی۔ اِنجیل نویس متی کہتا ہے، "تا کہ جو یسعیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پُورا ہو کہ اُس نے آپ ہماری کمزوریاں لے لیں اور بیماریاں اُٹھا لیں" (دیکھئے یسعیاہ 53: 4)۔ یہ ایک ایسی پیشین گوئی تھی جو مسیح کی پیدایش سے سات سو سال پہلے کہی گئی تھی اور پطرس کے گھر میں پوری ہوئی۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کے گھر میں بھی پوری ہو سکتی ہے۔

اِس معجزہ پر گیان دھیان کرتے وقت ہم غور کریں گے:

  1. وہ جسے معجزے کی ضرورت ہے

  2. معجزے کے گواہان

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ وہ جسے معجزے کی ضرورت ہے

الف۔ پطرس کی ساس بستر پر پڑی تھی اور مسیح کے پاس اپنا مسئلہ خود لانے کے قابل نہ تھی:

اُس کے بدن میں "بڑی تپ" تھی جیسا کہ لوقا نے بیان کیا ہے۔ اُس کے کمزور بدن پر کپکپی طاری ہو گی، اور غالباً اُس نے سوچا کہ وہ اتنی اہم نہیں کہ وہ یسوع کو شفا دینے کےلئے کہے۔ بہت سے بوڑھے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اَب اہم نہیں ہیں، لیکن خُداوند کی نگاہ میں کوئی بھی غیر اہم نہیں ہے۔ ایک چھوٹا بچہ بھی یسوع کی نظر میں اہم ہے۔ جب شاگردوں نے اُن والدین کو جھڑکا جو اپنے بچوں کو یسوع کے پاس لائے تو آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا، "بچّوں کو میرے پاس آنے دو" (متی 19: 14)۔ کسی بھی بوڑھے فرد کو اپنے تعلق سے یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ اہم نہیں ہے، کیونکہ مسیح اُس پر برکت اور فضل نازل کرتا ہے۔ وہ اُنہیں تب بھی سنبھالتا ہے جب سر کے بال سفید ہو جائیں (یسعیاہ 46: 4)۔

اُس وقت بخار کی تین معلوم اقسام موجود تھیں۔ اُن میں سے پہلی قسم کو "مالٹیز بخار" کہا جاتا تھا۔ یہ کمزوری اور خون کی کمی کا سبب بنتا ہے جو مہینوں تک رہتا ہے، اور موت کا باعث بنتا ہے۔ ایک اَور قسم بھی تھی جو ہمارے ٹائیفائیڈ بخار سے ملتی جلتی تھی۔ اِن کے علاوہ ملیریا کا بخار تھا جو مچھروں سے پھیلتا تھا جن کی افزایش اُس علاقے میں ہوتی تھی جہاں دریائے یردن، گلیل کی جھیل سے ملتا ہے۔ کفرنحوم اور تبریاس دونوں میں ہر قسم کا بخار پھیل چکا تھا۔

ب۔ سخت بخار کے باعث وہ نڈھال ہو کر بولنے کے قابل نہ تھی، اِس لئے کسی اَور نے اُس کےلئے درخواست کی:

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی ضرورت کا اِدراک نہیں ہوتا لیکن اُنہیں مسیح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس چیز کے وہ محتاج ہوتے ہیں وہ مسیح کے پاس میسر ہے، لیکن کوئی بھی اُنہیں راستہ نہیں دِکھاتا۔ یہ مسیحیوں کی ذمہ داری ہے۔ شاید ہم اپنے معاشرے کی ضروریات کے بارے میں بےحس ہیں؛ کیونکہ بہت سے لوگ ہمارے اِیمان کے بارے میں پوچھتے ہیں، لیکن ہم جواب دینے سے گریز کرتے ہیں، یا تو اِس لئے کہ ہم جواب دینے کے عادی نہیں ہیں یا اِس لئے کہ ہم جواب دینا نہیں جانتے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنے اِردگرد کے بارے میں حساس ہونا چاہئے، تا کہ ہم ہر اُس شخص کو جواب دینے کےلئے مستعد رہیں جو ہم سے ہماری امّید کی وجہ دریافت کرے (1۔ پطرس 3: 15)۔ میرا نہیں خیال کہ کسی دفتر میں کوئی مسیحی شخص کام کرتا ہو اور اُس کا ساتھی اُس سے یہ نہ پوچھے کہ "تم نے برے سلوک کے باوجود یہ اچھا سلوک کیوں کیا؟" غالباً ایسا سوال کرنے والے فرد کو مسیحی کی طرف سے تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ اور اگر وہ کوئی جواب سُنتا بھی ہے تو وہ سطحی یا ناکافی ہوتا ہے۔

ج۔ مسیح نے اُس کا ہاتھ چھؤا، وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور خدمت کرنے لگی:

مَیں حیران ہوں کہ پطرس کی ساس نے کیا خدمت کی ہو گی؟ یہ ہارون کی بہن مریم کی خدمت جیسی عظیم اور مشہور خدمت نہیں تھی جس نے گیت گانے میں راہنمائی کی تھی (خروج 15: 20)۔ یہ اسرائیل کی قاضیہ دبورہ کی خدمت کی طرح نہیں تھی، کیونکہ اُس نے اپنے لوگوں کی قاضیہ بننے کےلئے نہ کوئی تربیت لی تھی اور نہ ہی کوئی الٰہی بلاوا تھا (قضاۃ 4: 4)۔ میرا نہیں خیال کہ اُس نے روت یا حنّہ (سموئیل کی والدہ) کی خدمت جیسی خدمت کی، یا اُس کی خدمت ملکہ آستر جیسی تھی۔ مشہور لوگوں کی تعداد کم ہے۔ لیکن عام ایمانداروں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی خدمات اگرچہ مشہور نہیں لیکن وہ عام خدمات اہم اور ضروری ہیں۔ خُداوند نے اِنجیل مقدّس میں پطرس کی ساس کی خدمت کا اندراج کروایا جس نے باورچی خانے میں یا گھر کی صفائی میں، یا مہمانوں کے کھانے کے بعد برتن دھونے میں مدد کی۔ یہ ایک سادہ سا کام ہے جسے بائبل مقدّس میں سراہا گیا ہے کیونکہ ہمارا روزمرہ کا کام مقدّس ہے۔ وہ عورت جو اپنے گھر والوں کےلئے کھانا تیار کرتی ہے، یا اپنے بچے کے کپڑے بدلتی ہے اور اُسے مسیحی محبّت میں سرانجام دیتی ہے، درحقیقت کلیسیا کے پاسبان کے برابر ایک مقدّس خدمت کرتی ہے جو لوگوں میں منادی کرتا اور اُنہیں پاک عشاء دیتا ہے۔ یہ تمام کام اہم اور ضروری ہیں، کیونکہ یہ دُنیا پر خُدا کی محبّت کو ظاہر کرتے ہیں جو ہمارے دِلوں میں، رُوح القُدس کے وسیلہ جو ہم کو بخشا گیا، ڈالی گئی ہے (رومیوں 5: 5)۔ اعمال کی کتاب تبیتا کے بارے میں بتاتی ہے جو غریبوں کےلئے کپڑے بناتی تھی (اعمال 9: 36۔ 42)۔ یہ یوحنّا مرقس کی ماں مریم کے بارے میں بھی بتاتی ہے جس نے اپنے گھر کو عبادت کرنے کےلئے فراہم کیا تھا (اعمال 12: 12)۔ یوحنّا رسول اپنے دوسرے خط میں اُس برگزیدہ خاتون کے بارے میں بات کرتا ہے جس کی خدمت اپنے فرزندوں کی تربیت کرنا تھا۔ بہت سی سادہ خدمات ہیں جن کی لوگ شاید تعریف نہیں کرتے، اور ہو سکتا ہے کہ اُنہیں سرانجام دینے والے اُن کا تذکرہ کرنا اہم نہ سمجھیں۔ لیکن الٰہی فضل اُن کا ذِکر کرتا ہے کیونکہ یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی قدر کریں اور دوسرے مومنوں کی بھی قدر کریں۔ سب سے بڑھ کر، آئیے ہم اِس بات کو پہچانیں کہ خُدا اُس خدمت کی، جو ہم کرتے ہیں جس کا محرک مسیح کی محبّت اور اُس کےلئے عقیدت ہو، قدر کرتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔

بہت سی اَور خدمات بھی ہیں جو ہم کر سکتے ہیں، مثلاً گھر میں خدمت کرنا، بچوں کی پرورش کرنا، بیماروں اور بوڑھوں کی خدمت کرنا جو تنہا ہیں۔ مسیح کے ایما پر حوصلہ افزائی کے الفاظ کہیں۔ مسیح کے نام پر مسکراہٹ پھیلائیں (پڑھیں متی 25: 34۔ 40)۔

پطرس کی ساس بہت اچھی تھی کیونکہ اُس نے اپنی بحال شدہ صحت کو مسیح کی خدمت میں استعمال کیا۔

آئرش شاعر آسکر وائلڈ (مُتوفّی 1900ء) نے ایک مختصر کہانی لکھی جسے اُس نے دُنیا کی سب سے خوبصورت مختصر کہانی قرار دیا۔ اِس کہانی میں اُس نے کہا:

مسیح سفید وادی سے سرمئی شہر میں گیا، اور ایک شرابی کو سڑک پر پڑا دیکھا۔ اُس نے اُس سے پوچھا، "تم شراب پی کر اپنی زندگی کیوں برباد کرتے ہو؟" اُس نے جواب دیا، "مَیں کوڑھی تھا اور تُو نے مجھے شفا دی۔ لیکن جب تُو نے میری صحت بحال کی تو مجھے کرنے کو کچھ نہ ملا!" ۔۔۔ پھر مسیح اُسی شہر کی ایک اَور گلی میں گیا، اور ایک نوجوان کو ایک طوائف کا تعاقب کرتے دیکھا، اور اُس سے پوچھا، "تم اپنی زندگی بدحالی میں کیوں برباد کرتے ہو؟" اُس نے جواب دیا، "مَیں اندھا تھا، اور تُو نے میری آنکھیں کھول دیں۔ جو کام مَیں ابھی کر رہا ہوں اِس کے علاوہ اپنی آنکھیں کس کام میں استعمال کر سکتا ہوں؟" پھر مسیح نے ایک بوڑھے آدمی کو زمین پر بیٹھا روتے دیکھا۔ اُس نے اُس سے پوچھا، "تُو کیا کرتا ہے اور کیوں رو رہا ہے؟" اُس نے جواب دیا، "تُو نے مجھے مُردوں میں سے جِلایا۔ اور مَیں رونے کے سِوا کیا کر سکتا ہوں؟"

میرا خیال ہے کہ اُس کی دردناک کہانی ہمیں بہت سے لوگوں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے خُدا کی نعمتیں حاصل کیں اور اُن کا غلط استعمال کیا۔ لیکن ہم خُدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ پطرس کی ساس اُن میں سے نہیں تھی!

2۔ معجزے کے گواہان

الف۔ پطرس

پطرس پہلے ہی مسیح کا شاگرد تھا، اور اُس کا اپنا ایک گھر تھا۔ اُس نے پہلے اپنا آپ، پھر اپنی کشتی، اور آخر میں اپنا گھر مسیح کو پیش کیا۔ وہ شخص کتنا مبارک ہے جس کی پوری زندگی مسیح کی ہے! کیونکہ تب مسیح ایک بہتر زندگی ودیعت کرتا ہے، اور وہ اُس زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ وہ شخص مبارک ہے جو اپنا آپ مکمل اور غیر مشروط طور پر خُداوند کے حوالے کر دیتا ہے، کیونکہ تب خُداوند اُس کی زندگی کا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ وہ اُس ذمہ داری کو اُٹھاتا ہے جسے ہم نہیں اُٹھا سکتے۔ اِس کے بعد، وہ ہماری فکریں اُٹھاتے ہوئے، ہمارے گناہ معاف کرتے ہوئے اور ہمیں ابدی زندگی عطا کرتے ہوئے ہمارے معاملات کی باگ ڈور اپنے پاس رکھتا ہے۔

خُداوند نے پطرس کے گھر میں بیماری کو آنے دیا۔ اُس کی حکمت ہمارے جسموں کو بیمار ہونے یا ہماری رُوحوں کو تھکنے دیتی ہے۔ وہ اپنی الٰہی حکمت میں کچھ تکلیف دہ چیزوں کی اجازت دیتا ہے کیونکہ وہ ہماری زندگیوں کو ایک خاص انداز میں ڈھالنا چاہتا ہے اور درد اُس تشکیل کا ایک حصہ ہونا چاہئے! یہ ہمارے اِدراک یا وضاحت سے پرے ہے، لیکن بحران کے گزر جانے کے بعد ہم جان جاتے ہیں کہ یہ سب سے اہم چیزوں میں سے ایک تھا جس نے ہماری زندگیوں کو الٰہی مرضی کے مطابق ڈھالا۔ اگرچہ بیماری ناپسندیدہ ہے، لیکن جب یہ کسی گھر میں آتی ہے تو اُس گھر کے افراد میں ہمدردی کا باعث بنتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک باپ اپنے کام کے دباؤ کی وجہ سے دُعا کرنا بھول جائے، لیکن اُس کے بیٹے کی بیماری اُسے دُعا میں جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ باپ جو اپنا سارا وقت پیسہ کمانے میں صرف کرتا ہے، جب اُس کا بیٹا بیمار پڑ جائے تو وہ اپنی کمائی ہوئی تمام رقم اپنے بیٹے کی صحت بحال کرنے کےلئے خرچ کرتا ہے۔ بیماری اِنسان کو یہ سمجھنے کےلئے بیدار کرتی ہے کہ اِنسان صرف روٹی اور پیسے سے نہیں بلکہ خُدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے۔

بیماری ہمارے اندر موجود اچھی خوبیوں کو سامنے لاتی ہے۔ اکثر ہمارے اندر صفات طیّبہ موجود ہوتی ہیں، لیکن فکر، مصروفیت، روزی روٹی کی تلاش اور روزمرہ کے مسائل کے حل کی جستجو اُنہیں خاک میں ملا دیتی ہے۔ بیماری اُس غبار کو دور کرنے کےلئے آتی ہے اور ہم میں ممکنہ بھلائی سامنے آتی ہے۔ تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ خُدا ہی تھا جس نے یہ بھلائی ہم میں رکھی تھی، اور یہ کہ وہی ہے جو اِسے اُس وقت اپنے رُوح القُدس کے وسیلہ سے پروان چڑھاتا ہے جب ہم اُسے اپنے اندر ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

پطرس کا خاندان بیماری کے عالم میں آپس میں جڑا اور ایک ہو گیا، کیونکہ پطرس کی بیمار ساس کو دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ بیماری پوری طرح سے برائی نہیں ہے۔ یہ اپنی ذات میں اچھی نہیں، لیکن یہ بہت بھلائی پیدا کرتی ہے۔ اگر ہمیں یہ احساس ہو کہ وہ سب جس سے ہم گزرتے ہیں خُدا کی طرف سے مقرر ہے، تو ہم کہہ سکیں گے کہ "راستبازوں کی بابت کہو کہ بھلا ہو گا" (یسعیاہ 3: 10)، "اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کےلئے بھلائی پیدا کرتی ہیں" (رومیوں 8: 28)۔ یہ پطرس ہے، مسیح کا شاگرد، جس نے اپنے آپ کو، اپنی کشتی اور اپنے گھر کو خداوند کو پیش کیا۔ لیکن خُداوند نے بیماری کو آنے دیا تا کہ پطرس کو مزید برکت دے، اور جب ہم پطرس کے ساتھ پیش آئے اِس واقعہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں بھی برکت دے۔

ب۔ دیگر ایماندار جو پطرس کے ساتھی تھے:

یہ واقعہ جیسا کہ مقدّس مرقس نے بیان کیا، اِس طرح ہے: "شمعون کی ساس تپ میں پڑی تھی اور اُنہوں نے فی الفور اُس کی خبر اُسے دی" (مرقس 1: 30)۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کی محبّت اور قدرت سے واقف تھے۔ اگر آپ قدرت کے بغیر محبّت کرتے تو آپ کے پاس شفا دینے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ اور اگر آپ محبّت کے بغیر قدرت والے ہوتے تو آپ کو شفا دینے کی پرواہ نہ ہوتی۔ لیکن چونکہ آپ میں قدرت اور محبّت دونوں موجود ہے، اِس لئے آپ کی قدرت ہمیشہ آپ کی محبّت کے تابع تھی۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس گئے اور اُنہوں نے فی الفور اُس کی خبر آپ کو دی۔

درد اور بیماری ہمیں مسیح کو اپنی حالت کے بارے میں بتانے کا سبب بنتی ہے۔ بعض اوقات ہم اپنی کامیابی کو خود سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی مصیبتیں کس کے پاس لے کر جائیں؟ ہو سکتا ہے کہ ہم کامیابی حاصل کرنے پر مغرور ہو کر اپنی کامیابی کو اپنے آپ سے منسوب کریں۔ لیکن جب ہم ناکام ہو جاتے ہیں اور مشکل میں پڑتے ہیں، تو اُس کے مبارک الفاظ ہمیں سُنائی دیتے ہیں: "مصیبت کے دِن مُجھ سے فریاد کر۔ مَیں تجھے چھڑاؤں گا اور تُو میری تمجید کرے گا" (زبور 50: 15)۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح کی حلیمی

آپ نے غریب ماہی گیر کے گھر میں جہاں مچھلی کی بو آتی تھی، بخار سے کانپتے جسم والی خاتون کے سامنے معجزہ کر دکھایا۔ عام طور پر ہم یہ پسند کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں ایک عظیم کام کرتے ہوئے دیکھیں، لیکن مسیح کی تمام تر فکر ضرورت مندوں کےلئے ہے، کیونکہ وہ خدمت لینے کےلئے نہیں آیا بلکہ خدمت کرنے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلہ فدیہ میں دینے کےلئے آیا (مرقس 10: 45)۔

مسیح کو معجزہ سرانجام دینے کےلئے کچھ کاوش کرنی پڑی۔ اُس میں طاقت موجود تھی جو شفا دینے کےلئے اُس میں سے نکلی۔ مسیح پطرس کی ساس کو اپنی قدرت کی برکات عطا کرنے کےلئے تیار تھا، کیونکہ مسیح کسی کام کو "بہت معمولی" یا کسی شخص کو "شفا پانے کےلئے غیر اہم" کہہ کر نظر انداز نہیں کرتا۔

ب۔ مسیح کی قدرت

وہ ہر کام میں مہارت رکھتا ہے۔ "اُس کے پاس بہت سے لوگوں کو لائے جن میں بد رُوحیں تھیں۔ اُس نے رُوحوں کو زبان ہی سے کہہ کر نکال دیا، اور سب بیماروں کو اچھا کر دیا" (متی 16: 8)۔

مسیح نے گھر میں لوگوں کے ایک چھوٹے سے ہجوم کے سامنے بھی معجزہ کیا اور بہت سوں کے لئے گلیوں میں یا کھلے عام بھی معجزے کئے۔ اِس سے مسیح کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ محنت کرنے والوں اور بوجھ سے دبے ہوئے سب لوگوں کو اپنے پاس بلاتا ہے تا کہ اُنہیں آرام دے (متی 11: 28)۔ آپ جہاں کہیں بھی ہیں اور آپ کی حالت جیسی بھی ہے، مسیح آپ کی مدد کرنے پر قادر ہے۔

ج۔ مسیح کا خاندان

مسیح نے ایک مرتبہ پوچھا، "کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی؟ ۔۔۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وُہی میرا بھائی اور میری بہن اور ماں ہے" (متی 12: 48۔ 50)۔ مسیح نے پطرس کو اپنی پیروی کرنے اور پھر اُسے اپنے لئے ایک رسول ہونے کےلئے بلایا۔ آپ نے پطرس کو اپنی بیوی چھوڑنے کےلئے نہیں کہا، اور وہ پطرس کے خدمت کے دوران اُس کے ساتھ سفر کرتی رہی (1۔ کرنتھیوں 9: 5)۔

اسکندریہ کے الٰہیاتی مدرسہ کے بانی اسکندریہ کے کلیمنٹ (150ء ۔ 220ء) نے کہا کہ پطرس اور اُس کی بیوی کو ایک ساتھ شہید کیا گیا تھا، اور اُنہوں نے اُسے پطرس کو قتل کرنے سے پہلے مار ڈالا۔ پطرس نے اُسے نام لے کر پکارا اور کہا، "خُداوند کو یاد رکھ۔"

مسیح نے خاندان، شادی اور گھر کو پاک کیا، اور ایمانداروں کو اپنا خاندان، اپنے گوشت میں سے گوشت اور اپنی ہڈیوں میں سے ہڈی بنایا (افسیوں 5: 30)۔

د۔ مسیح کا ترس

مقدّس مرقس کے مطابق بیمار عورت کے گھر والوں کی درخواست سُن کر مسیح "نے پاس جا کر اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھایا اور تَپ اُس پر سے اُتر گئی اور وہ اُن کی خِدمت کرنے لگی" (مرقس 1: 31)۔ آپ نے اپنی شفقت اور قدرت دکھانے، اور اُسے یہ یقین دلانے کےلئے اُس کا ہاتھ پکڑا کہ آپ اُس کی شفا کا ذریعہ ہیں۔ بسا اوقات، خُدا کی طرف سے بہت سی نعمتیں حاصل کرنے کے بعد، ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے اُنہیں کسی اَور ذریعہ سے حاصل کیا ہے۔ اِس کے بعد وہ مداخلت کرتا ہے اور ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ ہمارا خیال رکھتا ہے، اور ہم پر شفقت کرتا ہے تا کہ جب ہمیں بعد میں اُس کی ضرورت ہو تو ہم اُس کی طرف رجوع کر سکیں۔ آئیے ہم یہ یاد رکھیں کہ جو کوئی اُس کے پاس آتا ہے، وہ اُسے ہرگز نہ نکالے گا (یوحنّا 6: 37)۔

ہ۔ مسیح کا مکاشفہ

مسیح کی موجودگی ہمیں اپنی ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔ اگر مسیح وہاں موجود نہ ہوتے تو وہ لوگ اُس خاتون کی بیماری سے شفا پانے کے بارے میں نہ سوچتے۔ بیماری ہمیں افسردہ کرتی ہے، لیکن مسیح کی موجودگی ہمیں مثبت سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہماری گہرائیوں میں چھپے ایک پہاڑ کو عیاں کرتی ہے، جس کا ہم نے صرف بالائی حصہ ہی دیکھا ہے یعنی مسائل کا ایک پہاڑ، اور پھر وہ ہمارے لئے اپنی محبّت کا پہاڑ بھی دکھاتا ہے اور ہماری محبّت بھی عیاں کرتا ہے۔ پھر ہم اپنی پریشانیوں سے بچنے اور اُس کی محبّت پانے کےلئے اُس کے پاس پناہ لینے دوڑے چلے آتے ہیں۔

پطرس کی کشتی میں مسیح کی موجودگی نے پطرس کے گناہ کو ظاہر کیا۔ اُس نے مسیح کو کشتی سے جانے کےلئے کہا۔ پطرس کے گھر میں مسیح کی موجودگی پطرس پر شفا بخش قدرت کے وجود کے منکشف ہونے کا باعث بنی، جس کی وجہ سے اُنہوں نے اُسے شفا دینے کےلئے کہا۔

مسیح نے پطرس نامی ایک شادی شدہ آدمی کو بلایا، اور اُس کے پورے گھر کو برکت دی اور اُس کی ساس کو شفا بخشی۔ بعد ازاں آپ نے پورے شہر کو اُس گھر میں اپنی موجودگی سے برکت دی (مرقس 1: 33)۔ آپ نے پطرس کو راست باز ٹھہرایا، اور ایک راست باز آدمی کے ذریعے آپ نے اپنے آس پاس کے سبھی لوگوں کو برکت دی۔ مسیح کے مکاشفہ کےلئے اُس کا شکریہ۔

اب، اِن تمام تعلیمات کا ذاتی طور پر آپ کےلئے کیا مطلب ہے؟

دُعا

اَے آسمانی باپ، تُو مجھے ایک برکت بنانا چاہتا ہے۔ تُو مجھے اپنا فضل عطا فرما۔ مجھے اپنا شاگرد بنا، میرے ذریعے میرے گھر کو برکت دے، میرے گھر کے ذریعے میرے ملک کو برکت دے۔ مجھے رُوحانی طور پر حساس رویہ بخش دے جس سے مجھے اپنے معاشرے کی ضرورت کا احساس ہو، تا کہ مَیں اِس خوشخبری کو سب تک پہنچا سکوں، اور تیرا جلال تمام زمین پر بلند ہو۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. مسیح نے یہ معجزہ کہاں سر انجام دیا؟ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟

  2. کلام مقدّس کی ایک آیت درج کیجئے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خُدا بوڑھے لوگوں کی فکر کرتا ہے۔

  3. پطرس کی ساس نے شفا پانے کے بعد کون سی خدمت سر انجام دی؟

  4. بیماری کےلئے خُدا کا کیا مقصد ہے؟

  5. ہم پطرس کے ساتھیوں سے کیا سیکھتے ہیں؟

  6. یسوع کے رُوحانی خاندان کے افراد کون ہیں؟

  7. کیسے یسوع کی برکت پطرس سے اُس کے شہر کے لوگوں تک گئی؟

پانچواں معجزہ: کوڑھی کو شفا دینا

"اور ایک کوڑھی نے اُس کے پاس آ کر اُس کی منّت کی اور اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اُس سے کہا اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ اُس نے اُس پر ترس کھا کر ہاتھ بڑھایا اور اُسے چھو کر اُس سے کہا مَیں چاہتا ہُوں۔ تُو پاک صاف ہو جا۔ اور فی الفَور اُس کا کوڑھ جاتا رہا اور وہ پاک صاف ہو گیا۔ اور اُس نے اُسے تاکید کر کے فی الفور رُخصت کِیا۔ اور اُس سے کہا خبردار کسی سے کُچھ نہ کہنا مگر جا کر اپنے تئیں کاہن کو دِکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت اُن چیزوں کو جو موسیٰ نے مقرّر کیں نذر گذران تا کہ اُن کےلئے گواہی ہو۔ لیکن وہ باہر جا کر بہت چرچا کرنے لگا اور اِس بات کو ایسا مشہور کیا کہ یسوع شہر میں پھر ظاہراً داخل نہ ہو سکا بلکہ باہر ویران مقاموں میں رہا اور لوگ چاروں طرف سے اُس کے پاس آتے تھے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 1: 40۔ 45؛ مزید دیکھئے متی 8: 2۔ 4، اور لوقا 5: 12۔ 16)

اِس معجزے میں یسوع نے کوڑھ کی بیماری میں گرفتار ایک شخص کو شفا بخشی جس کے بارے میں اِنجیل نویس لوقا طبیب یہ بیان کرتا ہے کہ وہ "کوڑھ سے بھرا ہُوا" شخص تھا، اور یہ اِس بیماری کا آخری درجہ تھا۔ کوڑھ اُس کے سارے جسم میں پھیل چکا تھا۔ کوڑھ ایک جلدی بیماری ہے جو ایک فرد کے اعضاء کو اِس طرح متاثر کرتی ہے کہ مریض کے ہاتھ، انگلیوں کے جوڑ، ناک اور تالو سے گوشت ٹوٹ کر گرنے لگتا ہے۔ کوڑھ شروع میں جسم کی جِلد میں ورم یا پپڑی یا سفید چمکتا ہُوئے داغ کے طور پر دکھائی دیتا ہے جو دیکھنے میں کھال سے گہرا دکھائی دیتا ہے اور اُس جگہ کے بال سفید ہو جاتے ہیں (احبار 13 باب)۔

کوڑھ ایک لعنت تھی، جسے یہودی خُدا کی طرف سے سزا تصور کرتے تھے۔ ہارون کی بہن مریم اِس کا شکار ہوئی (گنتی 13 باب) اور الیشع کا خادم جیحازی بھی کوڑھ کا شکار ہُوا (2۔ سلاطین 5 باب)۔ اگر کوئی کوڑھی سمجھتا کہ وہ شفا پا گیا ہے تو اُسے معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے سے پہلے کاہن سے شفا کا سرٹیفیکیٹ لے کر آنا ہوتا تھا۔ ایک کوڑھی کو معاشرہ رد کرتا تھا، اور اُسے مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ شہر سے باہر نکل کر اکیلا رہے یا پھر کوڑھ سے متاثر لوگوں کے گروہ میں رہے۔ جب بھی کوئی تندرست آدمی کوڑھ کے شکار مریض کے پاس آنے لگتا تو کوڑھی کو اونچی آواز میں پکارنا ہوتا تھا کہ "کوڑھی! کوڑھی!" تا کہ تندرست آدمی اُس سے دور ہو جائے۔ اِس لئے یہودی ہمیشہ گناہ اور کوڑھ کو ایک دوسرے سے منسلک سمجھتے تھے، کیونکہ کوڑھ ناپاکی تھی جو انسان کو معاشرے اور خُدا کے گھر سے دور رکھتی تھی۔ کوڑھ کا کوئی معروف علاج نہیں تھا۔ لہٰذا ایک کوڑھی اپنا وقت آبادی کے باہر مایوسی کے ساتھ گزارتا، اور اپنے اعضاء کے گرنے اور مرنے کا انتظار کرتا۔ ایسے شخص کو کبھی بھی چھؤا نہیں جاتا تھا۔

کوڑھ سے بھرا یہ شخص مسیح کے پاس آیا اور آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کہا، "اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔" اُسے مسیح کی قدرت پر کوئی شک نہیں تھا، لیکن اُس نے مسیح کی محبّت پر شک کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر مسیح چاہے تو وہ اُسے پاک صاف کر سکتا تھا۔ مسیح کو اُس پر ترس آیا اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے چھؤا۔ مسیح نے اُس شفا پانے والے کوڑھی کو کاہن کے پاس جانے کےلئے کہا، جس کا عہدہ آج کے حفظانِ صحت کے ماہر سے مشابہت رکھتا تھا تا کہ وہ اُسے شفایابی کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے اور وہ اُس معاشرے میں واپس جا سکے جس نے اُسے رد کیا تھا۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی، اُسے کاہن کے پاس اپنی شفایابی کےلئے شکر گزاری کے طور پر، اپنی بیماری سے پاک ہونے کےلئے قربانی پیش کرنی تھی۔ مریض کاہن کے پاس گیا اور اُس سے شفایابی کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔

اِس معجزے پر گیان دھیان کرتے وقت ہم غور کریں گے:

  1. وہ جسے معجزے کی ضرورت ہے

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ وہ جسے معجزے کی ضرورت ہے

الف۔ اُس کا ضرورت کا احساس

اُس کی ضرورت کے احساس نے اُسے مسیح کی طرف راغب کیا۔ وہ جانتا تھا کہ دوا اُسے ٹھیک نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اُس وقت ایسے مریضوں کا علاج ممکن نہ تھا۔ وہ آدمی کام کرنے سے قاصر تھا کیونکہ معاشرہ کسی کوڑھی کو اپنے درمیان آنے اور کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ وہ بےحد غریب شخص تھا۔ وہ اپنی صحت بھی کھو چکا تھا اور اپنی آمدنی کا ذریعہ بھی! حفظِ ما تقدّم کے طور پر معاشرے نے اُسے مسترد کر دیا تھا۔ وہ سب کی طرف سے ناپسندیدہ تھا۔ ایسی حالت میں آدمی اپنی عزت نفس کھو بیٹھتا ہے اور خود کو حقیر سمجھتا ہے۔

یہ ضرورت کا احساس ہے جو ہمیں مسیح کے پاس لاتا ہے، کیونکہ جو ٹھیک ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں طبیب کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا، مسیح اُن لوگوں کو بلانے کےلئے نہیں آیا جو اپنے آپ کو راست باز سمجھتے ہیں، بلکہ اُنہیں جو دیکھتے ہیں کہ وہ گنہگار ہیں اور اُنہیں توبہ کی ضرورت ہے (مرقس 2: 17)۔

یہ کوڑھی ہمارے سامنے اُس گنہگار کی واضح تصویر پیش کرتا ہے جو خُداوند سے بہت دُور ہے، جو اپنی عزت نہیں کرتا، اور اپنے اردگرد کوئی علاج نہ پا کر واحد طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے جو اُس کا علاج کر سکتا ہے۔ کوڑھ کی طرح گناہ بھی شرمندگی ہے۔ کوڑھ کی طرح گناہ کا شکار ہونے والا فرد خطرہ میں ہے۔ جیسے کوڑھ کا نتیجہ امّید کے بغیر موت تھا، اُسی طرح گناہ کا نتیجہ موت ہے۔

ب۔ معالج کی بابت اُس کا درست تجزیہ:

اُس شخص میں مسترد ہونے کے خوف نے اُسے مسیح کے سامنے اپنی درخواست پیش کرنے سے نہیں روکا۔ بہت سے لوگ اپنے آپ کو بہت برا سمجھتے ہیں، اور یہ سوچ اُنہیں نجات دہندہ کی طرف رجوع کرنے سے روکتی ہے۔ لیکن کیسی بھی صورتحال ہو، ہمیں مسیح کے پاس جانے سے نہیں رُکنا چاہئے، چاہے ہم یہ سوچیں کہ وہ ہمیں رد کر دے گا۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کوڑھی نے طبیب کی شخصیت کا اندازہ کیسے لگایا۔ اُس نے محبّت اور رحم کے خُدا کے بارے میں سنا تھا، (یہ واقعات کی ترتیب کے لحاظ سے مسیح کا پانچواں معجزہ ہے)۔ اُس نے مسیح کے اِس سے پہلے کئے گئے چار معجزات کے بارے میں سُنا ہو گا، اور اُس نے محسوس کیا کہ وہ محبّت اور شفقت کے خُدا کے سامنے ہے، جو آسمان کا نمائندہ ہے، جو وہ کرتا ہے وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔

سو، وہ مسیح کی طرف متوجہ ہُوا۔ اُس نے عاجزی کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر مسیح کے آگے سجدہ کیا، حالانکہ سجدہ کرنے سے اُسے اپنے بیمار، تقریباً مفلوج پٹھوں میں بہت زیادہ تکلیف ہوئی ہو گی۔

اُس نے مسیح کی قدرت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا اور ایک واضح درخواست پیش کی کہ "مَیں اپنا علاج نہیں کر سکتا، کوئی دوسرا مجھے ٹھیک نہیں کر سکتا، لیکن اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔" اُس نے مسیح کے پاس آنے کا فیصلہ کیا، اور اُس کو قبول کیا گیا اور اُسے شفایابی کا تجربہ ہُوا۔

اُس شخص نے ایمانداری سے مسیح کے سامنے اپنا حال بیان کیا جب اُس نے کہا، "اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔" اُس نے اپنی ناپاک حالت کو محسوس کیا اور پاکیزگی کےلئے درخواست کی۔ اُس نے اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا: "تُو ۔۔۔ کر سکتا ہے۔" اُس نے اُس مشکل کا اقرار کیا جو اُس کے اور مسیح کے درمیان حائل تھی: "اگر تُو چاہے۔" اُس نے اپنے تعلق سے دیانتداری کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ وہ ناپاک ہے، نیز اُس نے مسیح کی قدرت پر اپنے اعتماد کا اور اپنے لئے اُس کی محبّت پر شک کا اظہار کیا۔

اِس شخص کا اپنی حقیقی حالت کا اظہار عملی تھا۔ ہم غم کو رحمت کی موجودگی میں، کمزوری کو فضل کے سامنے گھٹنے ٹیکتے، اور بیماری کو طبیب کے سامنے جھکتے دیکھتے ہیں، نیز محبّت کی درخواست کرنے والے ایمان کو دیکھتے ہیں۔

ج۔ کوڑھی شفا پا گیا:

مسیح کو کوڑھی پر ترس آیا، آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے چھؤا، اور اُس سے کہا، "مَیں چاہتا ہُوں۔ تُو پاک صاف ہو جا۔" جیسے ہی آپ نے یہ الفاظ کہے، وہ شخص کوڑھ سے شفا پا گیا۔ مسیح کے پاس بیماری، فطرت، موت اور بد ارواح پر اختیار ہے۔ یہاں، مسیح نے اپنے مکمل اختیار کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جس بات سے ہمارے دِلوں کو خوشی ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ کوڑھی نے حالات کی باگ ڈور مسیح کے حوالے کر دی تھی، کیونکہ اُس نے مسیح کے آگے سجدہ ریز ہو کر اُس سے التجا کی۔

د۔ تاہم، کوڑھی نے مسیح کی ہدایات کی فرمانبرداری نہ کی:

کوڑھی نے وہ کیا جو اُسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ مسیح نے اُسے اپنی شفا کے معجزہ کے بارے میں کسی کو بھی بتانے سے منع کیا، لیکن اُس نے جا کر سب کو بتایا کہ مسیح نے اُس کے ساتھ کیا کیا۔ اُس کی نافرمانی کی وجہ سے مسیح کو کفرنحوم سے، جہاں آپ کو جسمانی آرام کی جگہ ملی تھی، بیابان میں جانا پڑا۔ مسیح کے کام کے بارے میں کوڑھی کے مسلسل اعلان نے بھیڑ کو مسیح کے گرد جمع کر دیا، جس کی وجہ سے آپ وہاں سے چلے گئے۔ مسیح کے اُس شخص کو خاموش رہنے کےلئے کہنے میں حکمت پوشیدہ تھی، لیکن وہ اُس کی وجہ سمجھ نہ سکا۔ اُس نے وہی کیا جو اُسے اپنی دانست میں درست معلوم ہُوا۔ وہ کسی دوسرے شخص کو اپنے ساتھ پیش آئے واقعہ کی گواہی دینے کا موقع دے سکتا تھا، لیکن وہ یہ خود کرنا چاہتا تھا۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح کی بےساختہ اور فوری محبّت جو کسی کو بھی مدد مانگنے سے نہیں روکتی:

ایسا کبھی نہیں ہُوا کہ کوئی شخص مسیح کے پاس آیا ہو اور خالی ہاتھ چلا گیا ہو۔ آپ نے فرمایا، "جو کوئی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگز نکال نہ دُوں گا" (یوحنّا 6: 37)۔ کوڑھی مسیح کی رضامندی کے بارے میں سوچ رہا تھا، اور مسیح نے اُسے پیار سے جواب دیا، "مَیں چاہتا ہُوں۔ تُو پاک صاف ہو جا۔" آپ درخواست کرتے ہیں، اور مسیح آپ کے اور اپنے درمیان حائل رکاوٹوں کو دُور کر کے جواب دیتا ہے، کیونکہ پھر مسیح اور گنہگار کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ اگرچہ رکاوٹ ہمیشہ گنہگار اور مسیح کے درمیان موجود ہوتی ہے، لیکن خُدا چاہتا ہے کہ ہماری اُس کے ساتھ صلح ہو۔ اُس نے ہماری مخالفت نہیں کی۔ اُس نے کبھی ہم سے نفرت نہیں کی، ہمارے گناہوں کے باوجود ہمیں ترک نہیں کیا، لیکن یہ ہم ہیں جو اپنے گناہوں کی وجہ سے اُس کے پاس جانے میں تاخیر کرتے ہیں۔

ب۔ مسیح کا چھونا:

(1) آپ نے اُسے الٰہی قدرت کے لمس سے چھو لیا۔ ایک انگریزی نظم "A Touch of the Master's Hand" میں ہم ایک پرانے وائلن کی کہانی پڑھتے ہیں جسے فروخت کےلئے پیش کیا گیا تھا، اور لوگ اُس کے پرانے ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اچانک ایک موسیقار آیا اور اُس نے وائلن کی طرف دیکھا اور اُس نے پہچان لیا کہ یہ تو اُس کے وائلن سکھانے والے اُستاد کا ہے۔ چنانچہ اُس نے اُسے لے کر ایک شاندار دُھن بجائی تو اُس کی قیمت فوراً بڑھ گئی اور بہت سے لوگ پرانا وائلن خریدنے آئے۔ "اُستاد کے ہاتھ کا لمس" قیمت میں اِس فرق کی وجہ تھا۔ مسیح کا اِس کوڑھی کو چھونا ایسا ہی لمس رکھتا تھا جس نے مسترد شدہ کوڑھی کی قدر بڑھا دی اور اُسے ایک صحت مند جسم کے ساتھ ایک نیا انسان بنایا۔

(2) مسیح کا بیمار آدمی کو چھونا ایک ظاہری علامت تھی جس نے بیمار آدمی کو مسیح کی محبّت کا یقین دلایا۔ کیونکہ جب سے وہ اِس مرض کا شکار ہُوا تھا، کوئی بھی تندرست شخص اُسے چھونا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن مسیح نے اُسے یقین دلایا، "لوگوں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ لیکن جہاں تک میری بات ہے، مَیں تم سے محبّت کرتا ہوں۔ کوئی بھی تجھے چھونا نہیں چاہتا۔ لیکن مَیں تجھے برکت دینے کےلئے چھوتا ہوں۔" ہر بار جب ہم کسی شخص کو باپ، بیٹے اور رُوح القُدس کے نام پر بپتسمہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور جب بھی ہم پاک عشاء کےلئے خُداوند کی میز کے پاس بیٹھتے ہیں، تو ہم کچھ ایسا دیکھتے اور حاصل کرتے ہیں جسے چھؤا جا سکے جو ہمیں خُدا کی محبّت دکھاتا ہے۔ مسیح ہمیشہ ہمارے ذہنوں اور دِلوں کو اپنی محبّت کا یقین دلانے کےلئے چھوتا ہے۔ یہ برکت کا حقیقی لمس ہے، کیونکہ اِس میں موجود مسیح کی قدرت ہمیں برکت اور فضل عطا کرتی ہے۔

(3) مسیح کا لمس آلودگی سے پاک کرتا ہے۔ مسیح نے کوڑھی کو چھؤا مگر آپ ناپاک نہ ہوئے، ایسے ہی آپ نے موت کی سرد مہری سے متاثر ہوئے بغیر اپنے گرم ہاتھ سے جو محبّت سے مالامال ہے مُردوں کو چھؤا۔ یسوع مسیح آلودہ ماحول سے گزرنے والی روشنی کی ایک کرن کی مانند تھے، جو کامل پاکیزہ تھی۔

یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک اطالوی راہبہ نے ایک فرشتہ کو خواب میں دیکھا جو اُس کے پاس آیا اور اُس نے اُس کی آنکھیں کھولیں تو اُس نے لوگوں کو ویسے دیکھا جیسے وہ واقعی ہیں۔ اُس نے کہا، "کاش فرشتے نے ایسا نہ کیا ہوتا، کیونکہ جو کچھ مَیں نے دیکھا مجھے اُس سے نفرت ہے۔" لیکن اچانک مسیح اپنے زخموں کے ساتھ آیا، اور جس کسی نے بھی مسیح کو چھؤا وہ پاک ہو گیا، اور اُس نے کہا: "اب مَیں سمجھ گئی ہوں کہ مَیں نے کیا دیکھا!" یہ لوگوں کے گناہ کی ایک بری تصویر تھی، لیکن مسیح کا فضل کتنا خوبصورت ہے جو ایک بیمار شخص کو صحت یاب کر دیتا ہے! مسیح اب بھی لوگوں کے ہاتھ چھوتا ہے تا کہ وہ بھلائی کریں، اُن کے ہونٹوں کو چھوتا ہے تا کہ وہ واضح کلام کریں، اُن کی آنکھوں کو چھوتا ہے تا کہ وہ دوسروں کی ضرورتوں کو دیکھیں، اُن کے کانوں کو چھوتا ہے تا کہ وہ اُس کی حوصلہ افزا آواز سُنیں، اور اُن کے پاؤں چھوتا ہے تا کہ وہ اُن جگہوں پر جا سکیں جہاں خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس کا لمس اب بھی تجربے، طاقت اور محبّت سے مالا مال ہے، کیونکہ وہ اُن لوگوں کو چھوتا ہے جو گناہ سے گمراہ ہو چکے ہیں اور اُنہیں اپنی محبّت کی بادشاہی میں واپس لاتا ہے۔

ایک مقدّس نے کہا، "خُدا نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور انسانی فطرت کو اپنے تجسم سے چھؤا۔ وہ ہمارے درمیان ایک آدمی کے طور پر آیا۔" "پس جس صُورت میں کہ لڑکے خُون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خُود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہُوا تا کہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قُدرت حاصل تھی یعنی اِبلیس کو تباہ کر دے۔ اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چھڑا لے" (عبرانیوں 2: 14، 15)۔

ج۔ مسیح کی قدرت:

مسیح خُدا کا کلام ہے، اور کلمہ میں ہمیشہ متکلم کا اختیار ہوتا ہے: "مَیں چاہتا ہُوں۔ تُو پاک صاف ہو جا۔" اور جیسے ہی مسیح نے یہ الفاظ کہے، فوراً کوڑھ اُس شخص سے جاتا رہا اور وہ بیمار شفا پا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ مسیح نے بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو دُور سے صرف کہہ دینے سے شفا بخشی (یوحنّا 4 باب)، اور پطرس کی ساس کو اُس کے قریب ہونے سے شفا دی (متی 8 باب)۔ مسیح کے پاس اختیار ہے جو مختلف طریقوں سے کام کرتا ہے۔ یہاں، آپ نے ترس ظاہر کیا، اپنا ہاتھ بڑھایا، اور چھؤا، اور آپ کے چھونے اور کلام کرنے سے کوڑھی ٹھیک ہو گیا۔

مسیح نے جب بھی بیماروں کو شفا بخشی اُس سے بیماری، گناہ اور موت پر آپ کا اظہارِ ناپسندیدگی واضح ہوتا ہے۔ خُدا نے ہمیں پیدا کیا کہ ہم اُس میں زندگی گزاریں، اور پھر گناہ دُنیا میں داخل ہُوا اور خُدا کی بنائی ہوئی ہر چیز میں بگاڑ پیدا کیا۔ مسیح اب چیزوں کو اُن کی اصل حالت میں بحال کرنے کےلئے آیا۔ وہ اِس لئے آیا کہ ہم زندگی پائیں اور کثرت کی زندگی پائیں۔ اگر ہم اُس مقصد کو کھو چکے ہیں جس کےلئے خُدا نے ہمیں وجود بخشا ہے، اور اگر ہم اپنے اندر فردوس کی امّید کھو چکے ہیں، تو مسیح ہمیں صحت اور خُدا کی مرضی پوری کرنے میں بڑھنے کےلئے ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے۔

د۔ مسیح کی درخواست:

آئیے ہم مسیح کے اُن الفاظ پر غور کریں جو آپ نے کوڑھ سے شفا پانے والے فرد سے کہے کہ وہ کسی کو اپنی شفایابی کے بارے میں نہ بتائے۔ لیکن مسیح نے اُس شخص کو، جسے آپ نے بد اروح سے رہائی دی تھی، کہا "اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور اُن کو خبر دے کہ خُداوند نے تیرے لئے کیسے بڑے کام کئے اور تُجھ پر رحم کیا" (مرقس 5: 19)۔ کیوں مسیح نے اُس کوڑھی کو جسے آپ نے شفا بخشی بات کرنے سے منع کیا، جبکہ آپ نے اُس آدمی کو بولنے کا حکم دیا جیسے آپ نے بد اروح سے شفا بخشی؟ مسیح ہر ایک شخص کو وہ کام تفویض کرتا ہے جو اُس پر واجب ہے، اور وہ کر سکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کیوں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ مسیح کے جسم کے اعضاء اُس کی طرف سے ودیعت کردہ مختلف نعمتوں کے مطابق مختلف کام کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے کچھ کرنے کےلئے کہے اور آپ کے پڑوسی کو وہی کام کرنے سے منع کرے، یا اِس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے لئے لازم ہے کہ اپنے آپ کو رُوح القُدس کے احکامات کےلئے کھلا رکھیں تا کہ یہ جان سکیں کہ خُدا ہمیں کیا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جان خراسستم نے ایک بار کہا: "شاید مسیح نہیں چاہتا تھا کہ کوڑھی اپنی صحت یابی کا اعلان کرے، تا کہ وہ اپنی خوبیوں پر فخر کرنے اور اُنہیں چھپانے سے باز رہے۔ یا پھر شاید اُس وقت وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کا ہجوم اُس کی طرف دوڑا چلا آئے اور اُس کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کرے۔" ہمارا فرض ہے کہ وہ ہمیں جو کچھ کرنے کو کہے اُس کا انتظار کریں۔ ہم ویسا ہی کرتے ہیں جیسا وہ چاہتا ہے۔ "جو کچھ یہ تُم سے کہے وہ کرو" (یوحنّا 2: 5)۔

ہ۔ مسیح شریعت کو پورا کرتا ہے:

مسیح شریعت سے بالاتر ہے۔ آپ نے رسمی طور پر ناپاک ہوئے بغیر کوڑھی کو چھؤا۔ لیکن پھر بھی آپ شریعت کے تابع رہے، کیونکہ آپ شریعت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ اُسے پورا کرنے کےلئے آئے تھے۔ آپ نے کوڑھی سے کہا کہ وہ کاہن کے پاس جائے اور اپنی شفا یابی کےلئے اُن چیزوں کو نذر گزرانے جن کا موسیٰ نے لوگوں کی گواہی کےلئے حکم دیا تھا (احبار 14: 9، 10، 21۔ 23)۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ آدمی معاشرے کے سامنے اپنی شفا یابی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔

ہم اِس معجزے پر اپنے مطالعہ کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ گناہ اور کوڑھ میں بڑی مماثلت ہے۔ کوڑھ ایک لاعلاج بیماری ہے، اور گناہ ایسی چیز ہے جس کا علاج لوگوں کے پاس نہیں۔ کوڑھ ایک شخص کو معاشرے سے الگ کر دیتا ہے، اور گنہگار ایک جزیرے کی مانند ہے جو اپنے اردگرد رہنے والوں سے کٹ جاتا ہے۔ جب ہمارے جدِ امجد آدم نے حوّا کو دیکھا تو اُس کےلئے شاعری لکھی، لیکن جب گناہ اُس کے دل میں داخل ہُوا تو وہ اُس شاعری کو بھول گیا اور کہا، "جِس عَورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے۔" اُس نے سارا الزام اُس پر لگایا! گناہ اِنسان کو خود غرض اور دوسروں سے بے پرواہ بنا دیتا ہے۔ اور یہ خُداوند ہے جو ہمیں شفا دینے اور معاشرے میں واپس لانے، اور دُنیا میں نور اور زمین کے نمک کے طور پر مفید بنانے پر قادر ہے۔

کیا آپ اپنا گناہ دیکھتے ہیں؟ کیا آپ اپنے خُدا کی محبّت دیکھتے ہیں؟ کیا آپ معافی کےلئے اُس کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں؟

دُعا

اے آسمانی باپ، تُو محبّت کرنے والا، بھلا اور قدّوس ہے۔ تُو اپنا ہاتھ کھول کر ہمیں بھلائی سے بھر دے۔ جب ہم تیرے پاس آئے ہیں تو ہمارے دِلوں کو راحت سے بھر دے۔ جب ہم تیری محبّت کا لمس پاتے ہیں تو ہمارے جسموں کو اطمینان عطا فرما؛ تا کہ ہم اپنی بیماریوں سے شفا پائیں، اپنے ضعف میں مضبوطی پائیں، اور بخش کہ ہم تیری رضا پر چلیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. کوڑھ کی تفصیل لکھیں۔

  2. اِس جملہ کو مکمل کریں: کوڑھی نے مسیح کی ۔۔۔ پر بھروسا کیا، لیکن اُس نے مسیح کی ۔۔۔ پر شک کیا۔

  3. کوڑھ اور گناہ میں پائی جانے والی تین مماثلتوں کو بیان کریں۔

  4. کوڑھی نے مسیح کے تئیں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اِس اظہار کو بیان کرنے والے تین جملے لکھیں۔

  5. مسیح نے کوڑھی کو کیوں کہا کہ وہ کسی کو اپنی شفا یابی کے بارے میں نہ بتائے؟

  6. مسیح کے کوڑھی کو چھو کر شفا دینے سے کن باتوں کا اظہار ہوتا ہے؟

  7. اِس بات کی وضاحت کریں کہ اِس معجزے میں مسیح کی قدرت کیسے ظاہر ہوئی۔

چھٹا معجزہ: مفلوج کو شفا دینا

"کئی دِن بعد جب وہ کفرنحوم میں پھر داخل ہُوا تو سُنا گیا کہ وہ گھر میں ہے۔ پھر اِتنے آدمی جمع ہو گئے کہ دروازہ کے پاس بھی جگہ نہ رہی اور وہ اُن کو کلام سُنا رہا تھا۔ اور لوگ ایک مفلوج کو چار آدمیوں سے اُٹھوا کر اُس کے پاس لائے۔ مگر جب وہ بِھیڑ کے سبب سے اُس کے نزدیک نہ آ سکے تو اُنہوں نے اُس چھت کو جہاں وہ تھا کھول دِیا اور اُسے اُدھیڑ کر اُس چارپائی کو جس پر مفلوج لیٹا تھا لٹکا دیا۔ یسوع نے اُن کا اِیمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا تیرے گناہ معاف ہُوئے۔ مگر وہاں بعض فقیہہ جو بیٹھے تھے۔ وہ اپنے دِلوں میں سوچنے لگے کہ یہ کیوں اَیسا کہتا ہے؟ کُفر بکتا ہے خُدا کے سوا گناہ کون معاف کر سکتا ہے؟ اور فی الفور یسوع نے اپنی رُوح سے معلوم کر کے کہ وہ اپنے دِلوں میں یوں سوچتے ہیں اُن سے کہا تُم کیوں اپنے دِلوں میں یہ باتیں سوچتے ہو؟ آسان کیا ہے؟ مفلوج سے یہ کہنا کہ تیرے گُناہ معاف ہُوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھر؟ لیکن اِس لئے کہ تُم جانو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گُناہ معاف کرنے کا اختیار ہے (اُس نے اُس مفلوج سے کہا) مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔ اور وہ اُٹھا اور فی الفور چارپائی اُٹھا کر اُن سب کے سامنے باہر چلا گیا۔ چُنانچہ وہ سب حیران ہو گئے اور خُدا کی تمجید کر کے کہنے لگے ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 2: 1۔ 12؛ مزید دیکھئے اِنجیل بمطابق متی 9: 1۔ 8، اور لوقا 5: 17۔ 26)

واقعات کی تواریخی ترتیب کے مطابق، اکثر مفسّرین کا خیال ہے کہ یہ مسیح کا چھٹا معجزہ ہے۔ یہ ایک مفلوج کو شفا دینے کا معجزہ ہے جسے چھت سے نیچے اُس جگہ پر اُتارا گیا جہاں یسوع مسیح بیٹھے تھے۔ یہ معجزہ کفرنحوم میں غالباً پطرس کے گھر میں ہُوا۔ مسیح کی بیت لحم میں پیدایش ہوئی، اور آپ نے ناصرت میں پرورش پائی جہاں آپ کو رد کیا گیا، اور پھر آپ رہنے کےلئے اپنے شاگرد پطرس کے گھر چلے گئے۔ اِس گھر کو جس نے مسیح کی میزبانی کی، کتنی بڑی برکتیں حاصل ہوئیں، لیکن ساتھ ہی پطرس اور اُس کے خاندان نے مسیح کےلئے اپنا گھر کھول کر بہت بڑی قیمت ادا کی۔ یہ گھر عوامی خدمت کی جگہ میں بدل گیا، یہ ایک تعلیم گاہ، ایک ہسپتال اور ایک چرچ بن گیا۔

جب مسیح نے کوڑھی کو شفا دی تو آپ نے اُسے حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا۔ تاہم، شفا پانے والے کوڑھی نے مسیح کے حکم پر عمل نہیں کیا، بلکہ ہر جگہ اعلان کیا کہ مسیح نے اُسے شفا بخشی۔ اِس اعلان کے نتیجے میں، جو کوڑھی کے اپنے طبیب کےلئے شکر گزاری سے پیدا ہُوا، لوگ ہر طرف سے وہاں آئے جہاں یسوع کا قیام تھا۔ جب یسوع کی تعلیمات اور معجزات کی خبر یروشلیم کے یہودی بزرگوں کے کانوں تک پہنچی تو اُنہوں نے فقیہوں کے ایک گروہ کو مسیح کو دیکھنے اور اُس کے بارے میں خبر دینے کےلئے بھیجا کہ وہ کون تھا؟ کیا وہ جادوگر تھا؟ کیا وہ شیطان کی مدد سے بد روحوں کو نکالتا تھا؟ وہ کون تھا؟ پطرس کا گھر فقیہوں، دوستوں، ضرورت مندوں اور شاگردوں سے کھچا کھچ بھرا ہُوا تھا۔ وہاں مسیح کے پیروکاروں کے ساتھ آپ کے مخالف بھی موجود تھے۔ اِس لئے مفلوج کو شفا دینے کا معجزہ ہمیں لوگوں کا ایک بڑا گروہ دکھاتا ہے جس پر غور کرنا چاہئے کہ آیا یہ محض متجسس لوگ تھے یا مخالفین۔

ہم اِس معجزہ میں غور کریں گے:

  1. ایماندار اور معجزہ

  2. گواہان اور معجزہ

  3. معجزہ کی احتیاج رکھنے والا شخص

  4. مسیح اور معجزہ

1۔ ایماندار اور معجزہ

الف۔ شمعون پطرس، گھر کا مالک:

اُس نے اپنا گھر خُداوند کو دے دیا تو خُداوند نے اُسے برکت دی اور اُس کی ساس کو شفا بخشی۔ لیکن ہم شاذ و نادر ہی بیٹھ کر اِس گھر کے بارے میں سوچتے ہیں جو مسیح کی خدمت کےلئے کھلا۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہُوا تھا، اِس لئے پطرس کو اپنے خاندان کے ساتھ اکیلے رہنے کا موقع بھی نہ ملا۔ مفلوج کی شفا کا واقعہ کچھ اِس طرح سے پیش آیا کہ ایک گروہ اُس مریض کو لے کر آیا۔ اُنہوں نے چھت کھول دی۔ پطرس اور اُس کے گھر کے افراد مسیح کی تعلیم پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے کہ اُنہیں اپنے گھر کی چھت کی طرف سر اُٹھانا پڑا جسے کھولا جا رہا تھا! اور دیکھو ایک چارپائی پر ایک آدمی نیچے آ رہا تھا!

مسیح کی پیروی کرنے کی ہمیشہ قیمت ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اُس کی پیروی کرنے میں خوشی اور مسرت ہے، لیکن اس کی ایک قیمت ہے جو کبھی کبھی بہت زیادہ ہو سکتی ہے! پطرس نے کھلی چھت اور اُس سے نیچے گرنے والی مٹی کو دیکھا۔ اور دیکھو ایک مفلوج جسے وہ نہیں جانتا تھا، اُس کا مہمان بن رہا تھا، حالانکہ وہ چھت سے داخل ہُوا تھا کیونکہ وہ دروازے سے داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ پطرس اِن سب باتوں کے باوجود خوش تھا۔ یسعیاہ نبی کہتا ہے، "اَے یروشلیم مَیں نے تیری دِیواروں پر نگہبان مقرّر کئے ہیں۔ وہ دِن رات کبھی خاموش نہ ہوں گے۔ اَے خُداوند کا ذِکر کرنے والو خاموش نہ ہو" (یسعیاہ 62: 6)۔ کیا ہم نے اِن نگہبانوں کے بارے میں سوچا ہے؟ وہ ہمیشہ موقع پر موجود لوگوں کی خدمت کرتے۔ یہ نگہبان شہر کے اندر نہیں جا سکتے تھے، لیکن پھاٹک کے قریب اِس کی دیواروں پر ٹھہرے رہتے تا کہ دُور والوں کو جو قریب آنا چاہتے، اور جو باہر جانا چاہتے، اُن کی حفاظت کرتے۔ اُن کو دِن رات آرام نہیں ملتا تھا۔ یہ پطرس کا گھر تھا جو مسیح کےلئے دِن رات کھلا رہتا تھا۔

اگر مسیح ہم سے کہتا کہ ہم اپنا گھر اُس کےلئے کھول دیں تو کیا ہم پطرس کی طرح کرتے؟

پطرس کی اُس وقت کتنی خوشی ہوئی جب مفلوج مہمان اپنا بستر اُٹھائے اُس کے گھر سے بالکل ٹھیک چلا گیا! پطرس کا ہسپتال، جسے طبیب یسوع نے چلایا، کامیابی سے ہمکنار ہُوا۔

ب۔ مفلوج کو اُٹھا کر لانے والے، اُس کے دوست:

(1) اُن چاروں افراد نے اپنے پیارے دوست کو اُس جگہ لے جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ شفا دینے والے طبیب سے مل سکتا تھا۔ وہ مفلوج کو اُٹھا کر وہاں لے گئے۔ یہ محبّت کرنے والے وہ مرد ہیں جنہوں نے محبّت کی خاطر قربانی دی اور صرف نیک خواہشات پر قناعت نہیں کی۔ وہ مسیح کی شفا بخش قدرت پر بھی یقین رکھتے تھے۔ وہ جو کچھ کر رہے تھے اُس بارے میں بھی پرعزم تھے کیونکہ اُنہیں اُس کا یقین تھا۔ جب وہ ہجوم کی وجہ سے مسیح تک نہ پہنچ سکے تو بیمار شخص سے معافی مانگ کر کہہ سکتے تھے، "ہم تمہیں یہاں تک اُٹھا کر لائے ہیں، اور تم خود دیکھ سکتے ہو کہ جو کچھ ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا ہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہُوا!" وہ اپنے بیمار دوست کو مسیح کے پاس لے کر جانے پر ڈٹے رہے۔

(2) وہ تخلیقی بھی تھے۔ مشکل انسان کو تخلیقی بناتی ہے۔ اُس شخص کو مسیح کے پاس لے جانے کےلئے اپنے عزم کی وجہ سے اُنہوں نے مسیح تک پہنچنے کےلئے ایک جرأت مندانہ اور انوکھا طریقہ سوچا۔ اُنہوں نے گھر کی بیرونی سیڑھیوں پر چڑھنے کا فیصلہ کیا جو چھت تک جاتی تھیں۔ فلسطین میں گھر اکثر کمروں سے گھرے ایک بڑے ہال کی شکل میں ہوتے تھے اور ایک بیرونی سیڑھی بالاخانہ کی طرف جاتی تھی جو چھت پر مہمان خانہ کے طور پر کام دیتا تھا۔ چاروں آدمی مفلوج کو بیرونی سیڑھیوں سے چھت پر لے گئے۔ جب اُنہوں نے ہال کی طرف دیکھا تو مسیح کو وہاں بیٹھے نہ پایا، کیونکہ آپ ایک چھت کے نیچے بیٹھے تھے۔ لہٰذا، اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ چھت کو کھول کر مفلوج کو براہِ راست مسیح کے سامنے نیچے پہنچائیں گے۔ کچھ چھتیں ساتھ ساتھ رکھی ہوئی اینٹوں سے بنی ہوتی تھیں جنہیں ہٹا کر کر دوبارہ اپنی جگہ پر رکھا جا سکتا تھا۔ سو، اُن چاروں افراد نے چھت سے اُن اینٹوں کو ہٹانا شروع کر دیا، جس سے بیمار آدمی کو نیچے پہنچانے کےلئے کافی جگہ مل گئی۔

ہم مفلوج کو یسوع کے پاس پہنچانے والے اِن چاروں افراد کے مقروض ہیں کیونکہ اُنہوں نے ہمیں ایک اہم سبق سکھایا ہے کہ جو افراد مسیح نجات دہندہ کے پاس لوگوں کو لاتے ہیں اُنہیں محبّت کرنے والا اور فعال ہونا چاہئے، جو محض الفاظ کی حد تک محبّت نہ کریں بلکہ اُنہیں تخلیقی، پُرعزم اور قربانی دینے والا ہونا چاہئے۔

(3) لیکن ایک اَور خوبی بھی تھی جو اُن چاروں کےلئے ضروری تھی: اُنہیں تعاون کرنے کی ضرورت تھی تا کہ مفلوج کی چارپائی توازن کے ساتھ نیچے جا سکے اور بیمار آدمی اُس سے گر نہ جائے۔ اگر اُن میں سے کوئی ایک جلدی میں ہوتا اور اُس کی چارپائی اُتارنے کی رفتار باقی تینوں کی رفتار کے مطابق نہ ہوتی تو مفلوج نیچے گر جاتا اور اُس کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں اور مسیح کو پھر دو معجزے دکھانا پڑتے، یعنی اُسے فالج سے شفا دینے کے ساتھ اُس کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو بھی ٹھیک کرنا پڑتا! یہ چاروں ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہمیں کلیسیا کے ارکان کے طور پر، اور مختلف کلیسیائی جماعتوں کے گروہ کے طور پر کیسے تعاون کرنا چاہئے۔ مسیح سے محبّت کرنے والے تمام افراد کے دِل میں ایک خواب ہے، جو ہماری دُنیا کی خدمت اور رُوحوں کی خدمت کےلئے مسیحی جماعتوں کا تعاون کرنا ہے۔ اور چونکہ اِس خواب کا پورا ہونا ہمارے تصور سے کہیں بڑا ہے، اِس لئے ہم کہتے ہیں کہ ایک فرقے کے کلیسیائیں مل کر تعاون کریں۔ لیکن یہ خواب بھی پورا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے، اِس لئے ہم یہ دُعا کرنے پر قناعت کرتے ہیں کہ خُدا ایک مقامی کلیسیائی جماعت کے اراکین کو محبّت میں تعاون کرنے والا بنائے۔ اور شاید اِس ایک کلیسیائی جماعت کو بھی محبّت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو آئیے شروع سے آغاز کریں اور اپنے اندر خُدا کا اطمینان مانگیں تا کہ اِنسان اور اُس کے درمیان جُدائی نہ ہو۔ جب ایک انسان اپنے باطن میں خُدا کے ساتھ صلح میں ہوتا ہے تو وہ اپنے خاندان میں بھی اطمینان پاتا ہے، اور جس مقامی کلیسیا کے ساتھ اُس کا تعلق ہوتا ہے وہاں بھی اطمینان پاتا ہے، اور اُس گروہ میں جس کے ساتھ اُس کی کلیسیا کا تعلق ہوتا ہے، اور پھر دُنیا کے تمام مسیحی گروہوں میں یہ اطمینان پھیلتا جاتا ہے۔

(4) مفلوج کو یسوع کے پاس پہنچانے والے یہ چاروں افراد بہت تعاون کرنے والے تھے، اور اپنے کام میں سرگرم رہے، جس کا اختتام خوش اسلوبی کے ساتھ ہُوا: مسیح نے مفلوج کو شفا دی۔ وہ مفلوج کو محبّت سے اُٹھا کر لے گئے، ایمان کے ساتھ اُسے اپنے ساتھ چھت پر لے گئے، دلیری سے چھت کو کھولا، اور مسیح کی محبّت پر بھروسے کے ساتھ مفلوج کو نیچے اُتارا۔ یہاں اُن کا کردار ختم ہو گیا، وہ مسیح کے سامنے خاموش رہے اور اُس کا انتظار کرنے لگے۔ مسیح کے سامنے اُن کی درخواست ٹھوس اور عملی تھی۔ یہ کاغذ پر سیاہی سے نہیں لکھی گئی تھی، بلکہ ایک زندہ اِنسان کی صورت میں مسیح کے سامنے پیش کی گئی تھی جسے ایک چارپائی پر چاروں طرف سے رسیوں سے باندھ کر مسیح کے سامنے لایا گیا تھا اور وہ گویا مسیح سے کہہ رہا تھا "اے خُدا، مجھ پر رحم کر۔"

(5) میرا خیال ہے کہ ایک اَور کام جو اِن چاروں نے کیا جس کا ذِکر اِس واقعہ میں نہیں کیا گیا، یہ تھا کہ غالباً وہ پطرس کے گھر کی چھت کو کھولنے سے پہلے کی اصل حالت میں لے آئے۔ اُنہوں نے اپنی بڑی محبّت کی بنا پر چھت کو کھولا تھا، اور مجھے یقین ہے کہ کھلی چھت کو اُس کی اصل حالت میں بحال کرنے کےلئے اُن میں اتنی ہی خلوصِ دِلی بھی موجود تھی۔

2۔ گواہان اور معجزہ

الف۔ فقِیہ:

وہ یروشلیم سے یہ تحقیق کرنے کےلئے آئے تھے کہ یسوع کون تھا: آیا وہ آنے والا نجات دہندہ تھا، یا جھوٹا جادوگر۔ جب مسیح نے مفلوج اور چار آدمیوں کے ایمان کو دیکھا تو آپ نے کہا، "بیٹا تیرے گناہ معاف ہُوئے۔" وہاں موجود کچھ فقیہ اپنے دِل میں یہ سوچنے لگے کہ "یہ کیوں اَیسا کہتا ہے؟ کفر بکتا ہے خُدا کے سوا گناہ کون معاف کر سکتا ہے؟" یہ فقیہ صاحبِ علم تھے، وہ جانتے تھے کہ اُن کی عبرانی تورات میں کتنے "الف" موجود تھے۔ وہ اپنی کتاب کو اچھی طرح جانتے تھے، لیکن اُن کے دِل فضل سے خالی تھے! اُنہوں نے مسیح پر توہین کرنے کا الزام لگایا، جس کا مطلب بدنام کرنا ہے (1۔ کرنتھیوں 13: 4)۔ لیکن کلام مقدّس کے مطابق اِس کا استعمال اُس شخص کےلئے ہوتا ہے جو خُداوند تعالیٰ کےلئے مخصوص جلال کو اپنے لئے لیتا ہے۔ گناہوں کی معافی میں جلال صرف خُدا کے لائق ہے، اور یہاں مسیح کہتا ہے: "تیرے گناہ معاف ہُوئے۔" سو، اُن کا کہنا یہ تھا کہ مسیح نے خُداوند کا جلال لے لیا تھا اور کفر کا مرتکب ہُوا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ جب مسیح نے اپنے آپ کو خُدا باپ کے ساتھ برابر کیا، تو آپ نے ایسا دھوکے سے نہیں کیا (فلپیوں 2: 6)۔

ب۔ پطرس کے گھر میں مہمان:

وہ حیران ہو گئے اور خُدا کی تمجید کرتے ہوئے کہنے لگے، "ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔" وہ بچوں کی طرح حیران رہ گئے۔ ہمیں مسیح کے ساتھ اپنے معاملات میں بچے کے سے جذبہ کی ضرورت ہے، تب ہم الٰہی فضل کا گہرا تجربہ کریں گے۔ ہم خُداوند کی سکھائی ہوئی دُعا کو اُس کے معنٰی کے بارے میں سوچے بغیر پڑھنے کے عادی ہیں، اور اِسی طرح ہم ایک معمول کی عادت کے طور پر عشائے ربانی میں شریک ہوتے ہیں۔ خُدا ہمیں توفیق عنایت کرے کہ ہم ایسے رویہ پر غالب آئیں، اور خُداوند کی عشاء میں سطحی طور پر شامل نہ ہوں، اور نہ ایسے الفاظ میں دُعا کریں جن کے ہم عادی ہوتے ہیں اور جو ہمارے دِلوں کو تحریک نہیں بخشتے۔

اپنی حیرت میں، اُنہوں نے خُدا کی تمجید کی اور اُس کا شکریہ ادا کیا، کیونکہ وہ ایک خاص رُوحانی تجربے سے گزرے تھے جس نے اُنہیں مسیح کےلئے تعظیم کے جذبات سے بھر دیا۔ جب ہم ایسے امتحان سے گزرتے ہیں، تو ہم پرانے جانے پہچانے گیت نئے جذبے کے ساتھ گاتے ہیں اور پرانی معلومات پر ایک نئے انداز میں ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ الفاظ وہی ہیں، لیکن گانے والا اَب پہلے جیسا نہیں رہا، کیونکہ وہ ایک نئے اِنسان میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اُنہوں نے مسیح کو کہتے سنا، "لیکن اِس لئے کہ تُم جانو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے" اور اُنہوں نے اُس میں آدمِ ثانی کو پہچان لیا۔ آدمِ اوّل کے باعث ہم گناہ میں کھو گئے، جبکہ آدمِ ثانی ہماری رُوحوں کو واپس بحال کرتا ہے۔ وہ ہمیں خُدا کے ساتھ اُس تعلق میں واپس لاتا ہے جسے گناہ نے تباہ کر دیا تھا۔ آدمِ ثانی، ابنِ آدم ہے جس نے ہمیں ہماری پہلی شان واپس دلائی! صلیب کے کفارہ کے ذریعہ سے "بیٹا تیرے گناہ معاف ہُوئے۔" جو کچھ ہم نے اپنے پہلے نمائندے میں کھویا وہ ہمیں اپنے دوسرے نمائندے خُداوند یسوع مسیح میں پھر سے مل گیا۔

3۔ معجزہ کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ وہ شخص مفلوج تھا:

اُس کے پاس زندگی تھی لیکن وہ زندہ نہیں تھا۔ وہ اپنے پھیپھڑوں کے ذریعہ سانس تو لیتا تھا لیکن یہ اُسے اُٹھنے اور اپنے روزمرہ کے کام کرنے کی طاقت نہیں دیتا تھا۔ وہ کھاتا پیتا تھا مگر کارآمد نہ تھا۔ اُسے صحت یاب ہونے کی کوئی امّید نہیں تھی۔ کیا یہی کچھ گناہ نہیں کرتا؟ ہمیں خُداوند کی نعمتیں ملتی ہیں، لیکن ہم اُس کی خدمت نہیں کرتے۔ زندگی کا دم جو خُداوند نے ہمیں بخشا، ہم میں اُس کی خدمت کےلئے کچھ کرنے کی طاقت یا توانائی پیدا نہیں کرتا۔ بہت سے لوگ ماضی کی الجھنوں، احساسِ کمتری، طرح طرح کے خوف، پریشانیوں اور عدم تحفظ کی وجہ سے مفلوج ہو چکے ہیں، لیکن مسیح اُنہیں ماضی کی غلامی سے آزاد کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ ایک نئے مستقبل میں بلا خوف و خطر زندگی گزار سکیں۔

ب۔ سب اُس مفلوج کی بیماری سے واقف تھے:

رسول کہتا ہے: "بعض آدمیوں کے گناہ ظاہر ہوتے ہیں اور پہلے ہی عدالت میں پہنچ جاتے ہیں اور بعض کے پیچھے جاتے ہیں" (1۔ تیمتھیس 5: 24)۔ یعنی بعض لوگوں کے گناہ صریح ہوتے ہیں، اور بعض کے گناہ پوشیدہ ہوتے ہیں، لیکن وہ سب گنہگار ہونے کے باعث خُدا کے فضل کے محتاج ہیں۔ اِس مفلوج آدمی کا گناہ اور بیماری واضح تھی۔

ج۔ یہ مفلوج ایک گنہگار تھا جس نے اپنی گنہگار حالت کو محسوس کیا اور جانا کہ اُس نے گناہ کیا تھا:

جسم اور رُوح دونوں کے طبیب نے مفلوج میں جسمانی بیماری سے زیادہ گہری تشخیص کی۔ جب آپ نے اُسے لانے والے چاروں افراد کا ایمان دیکھا تو آپ نے مفلوج سے کہا، "بیٹا تیرے گناہ معاف ہُوئے۔" اِس معاملہ میں، گناہ فالج کا سبب تھا۔ تاہم، کچھ دوسری مثالوں میں بیماری گناہ کا نتیجہ نہیں تھی، مثلاً مسیح نے جنم کے اندھے شخص کے بارے میں کہا، "نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لئے ہُوا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں" (یوحنّا 9: 3)۔ یہاں مفلوج کا گناہ اُس کی بیماری کا سبب تھا اور بیمار شخص اِس بات سے واقف تھا۔ مسیح صرف ظاہری علامات کو ٹھیک نہیں کرتا بلکہ پہلے جڑ کو ٹھیک کرتا ہے۔

د۔ اِس مفلوج کے پہلے گناہ معاف ہوئے، اور پھر اُس نے شفا پائی:

مقدّس یعقوب نے کہا، "اگر تُم میں کوئی بِیمار ہو تو کلیسیا کے بزُرگوں کو بُلائے اور وہ خُداوند کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کےلئے دُعا کریں۔ جو دُعا اِیمان کے ساتھ ہو گی اُس کے باعِث بِیمار بچ جائے گا اور خُداوند اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا اور اگر اُس نے گناہ کئے ہوں تو اُن کی بھی معافی ہو جائے گی" (یعقوب 5: 14۔ 15)۔ یہ دو آیات بیان کرتی ہیں کہ شفا یاب ہونے والے مفلوج کے ساتھ کیا ہُوا: اُس نے پہلے معافی حاصل کی اور پھر شفا پائی۔ بہت سے لوگوں نے مسیح سے جسمانی شفا حاصل کی، لیکن اُنہوں نے اپنے گناہوں کی معافی حاصل نہیں کی۔ لیکن دوسری طرف، آج کچھ لوگ گناہوں کی معافی حاصل کر لیتے ہیں لیکن بیمار رہتے ہیں۔ خُداوند اپنی خاص حکمت کے تحت ہمارے ساتھ اپنے نیک ارادہ کو پورا کرتا ہے۔

مفلوج خُداوند کے اُس کلام سے راستباز ٹھہرا جو اُس سے کیا گیا اور وہ اُس کا حصہ بن گیا، اور چونکہ اُس نے اِس کلام کرنے والے پر یقین کیا تو فوراً شفا پا گیا۔ پہلے چارپائی اُسے اُٹھائے ہوئے تھی، لیکن اَب وہ اپنی چارپائی اُٹھائے ہوئے تھا۔ اُس کی بیماری کی علامت اُس کی صحت و سلامتی کی دلیل بن گئی۔ اُسے مسیح کے پاس پہنچانے کی کوشش کے دوران جنہوں نے اُسے مسیح تک پہنچنے کا راستہ دینے سے انکار کیا تھا، اَب اُنہوں نے اُس کے صحت یاب ہونے کے بعد اُس کےلئے راستہ بنایا تا کہ وہ چل کر یہ اعلان کر سکے کہ "اُس نے مجھے شفا دی ہے۔" اُسے اُٹھا کر اندر لایا گیا تھا، اور وہ خُدا کے فضل کے نشانات اور اُس کی قدرت کا ثبوت لے کر وہاں سے روانہ ہُوا۔

4۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح جانتا ہے:

آپ نے مفلوج کو لے کر آنے والے چاروں افراد کا اِیمان دیکھا، مفلوج کا گناہ دیکھا، اور کہا "بیٹا تیرے گناہ معاف ہُوئے۔" اُنہوں نے جسمانی شفا کی بابت درخواست کی، لیکن خُداوند نے اِس سے پہلے ایک اَور ضرورت دیکھی جو گناہ کی معافی ہے، اور آپ نے اُسے معاف کر دیا۔

وہاں موجود فقیہوں نے اپنے دِل میں یہ کہتے ہوئے سوچا کہ "یہ کیوں اَیسا کہتا ہے؟ کفر بکتا ہے خُدا کے سوا گناہ کون معاف کر سکتا ہے؟" اور مسیح نے اپنی رُوح میں محسوس کیا کہ وہ اپنے دِلوں میں ایسا سوچ رہے ہیں (آیات 6۔ 8)۔ مسیح اُن کے دِلوں کی پوشیدہ حالت سے واقف تھا، کیونکہ وہ ہمارے راز اور جو کچھ ہمارے اندر چل رہا ہوتا ہے اُسے جانتا ہے۔ اگر آپ خوفزدہ ہیں تو وہ جانتا ہے اور وہ آپ کو اطمینان دینا چاہتا ہے۔ اگر آپ کو اُس کی محبّت کا یقین نہیں ہے، تو وہ آپ کو اِس کا یقین دلاتا ہے۔ اگر آپ گنہگار ہیں تو وہ آپ کو مکمل طور پر ٹھیک کرنے کےلئے آپ کا گناہ ظاہر کرتا ہے اور ایک سرجن کی طرح صحت کو بحال کرنے کےلئے خرابی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ وہ جانتا اور ظاہر کرتا ہے، کیونکہ وہ شفا دینا چاہتا ہے۔

ب۔ مسیح تعلیم دیتا ہے:

آپ فقیہوں کی سوچ کو جانتے تھے۔ فقیہ شریعت کے الفاظ کو اُس کی رُوح سمجھے بغیر جانتے تھے، اِس لئے اُنہوں نے اُس کا اطلاق نہیں کیا۔ مفلوج کو شفا دینے سے آپ اُن کے اندرونی سوالات کو خاموش کروا سکتے تھے۔ لیکن ایک عظیم اُستاد کے طور پر آپ اُن کو شریعت کی رُوح سمجھانا چاہتے تھے۔ مسیح نے کوئی بھی معجزہ اپنے دفاع کےلئے یا اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کےلئے نہیں کیا، بلکہ اِس کی وجہ آپ کی بنی نوع اِنسان کے ساتھ محبّت تھی۔ آپ نے اُن سے پوچھا: "آسان کیا ہے؟ ۔۔۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہُوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پِھر؟" دونوں ہی اہم ہیں، تاہم لوگوں کے سامنے گناہوں کی معافی کے بارے میں بات کرنا آسان ہے، کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں دیکھ سکتا کہ آیا واقعی گناہ کا آسمانی اندراج مٹا دیا گیا ہے یا ابھی باقی ہے۔ لیکن لوگوں کے سامنے بیماری سے شفا دینا مشکل ہے، کیونکہ اِس کےلئے فوری طور پر نظر آنے والے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر مسیح نے اُنہیں سکھایا کہ آپ کے پاس دونوں موجود ہیں، اِس لئے آپ نے مفلوج کو شفا بخشی اور اُس کے گناہوں کو معاف کر دیا۔

ج۔ مسیح محبّت کرتا ہے:

آپ نے اپنے لئے فقیہوں کے دِلوں میں تنقید دیکھی۔ آپ نے اُنہیں سمجھایا کہ کیا مشکل تھا، اور اُن کی تنقید کو اپنی محبّت میں رکاوٹ بننے نہیں دیا جس سے سچائی کی وضاحت اور مشکل کی تشریح ہوئی۔ آپ پطرس کے گھر میں موجود تھے اور آپ نے لوگوں کو تمام وقت اپنے پاس آنے دیا، یہاں تک کہ آپ کے پاس کھانے اور آرام کرنے کا وقت نہ تھا۔ اور جب مفلوج کو وہاں لانے والے چاروں افراد نے چھت کو کھولا تو آپ پر گھر کی چھت سے مٹی گری تو آپ نے محبّت اور شفقت سے اُن چاروں افراد کی درخواست کو قبول کیا۔ مسیح نے جسم اور رُوح دونوں کی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے اپنا آپ فیاضی کے ساتھ دیا۔ اور شفا دینے کےلئے آپ میں سے قوت نکلی، اور گنہگاروں کے گناہوں کا کفارہ دینے کےلئے آپ کو قیمت ادا کرنا پڑی۔

د۔ مسیح کے پاس اختیار ہے:

مسیح نے فرمایا: "آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دِیا گیا ہے" (متی 28: 18)۔ یہ معجزہ ہمیں بیماری اور گناہ پر آپ کا اختیار دکھاتا ہے۔

پولس رسول نے کہا کہ مسیح نے اپنے آپ کو خُدا کے برابر قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا (فلپیوں 2: 6)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب مسیح نے اپنے آپ کو باپ کے برابر کیا، تو آپ ایسی چیز کو چُرا نہیں رہے تھے جو آپ کا حق نہیں تھی، کیونکہ یہ آپ کا فطری حق تھا۔ آپ کے پاس اختیار ہے کہ کتابِ حیات میں شفا یاب مفلوج کا نام درج کریں۔ آپ کے پاس مفلوج کو مکمل صحت پر بحال کرنے کےلئے اِنسانی جسم پر اختیار ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ آپ کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں، جبکہ آپ حقیقت میں اپنا فطری حق استعمال کر رہے تھے۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، ہم تیرا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ مسیح میں ہمیں اپنی کامل نجات، اپنی بیماریوں سے شفا اور گناہوں کی معافی ملتی ہے۔ ہم تیری محبّت کے طالب ہیں، ہمیں اپنے فضل و کرم کی نعمتیں عطا فرما، تا کہ ہم تیری عنایت کی بدولت اپنی بیماری سے شفایابی کی طرف، اور اپنی پریشانی کی علامات سے سلامتی کے ثبوت کی طرف بڑھ سکیں کیونکہ تُو نے ہماری زندگیوں کو چھؤا ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. کیسے پطرس کا گھر پورے قصبہ کےلئے عوامی خدمت کی جگہ بن گیا؟

  2. پطرس نے مسیح کی پیروی کرنے کی کیا قیمت ادا کی؟

  3. جب پطرس نے اپنا گھر مسیح کو دیا تو اُسے کیا اجر ملا؟

  4. اُن چار آدمیوں کی چار خوبیاں لکھیں جو مفلوج کو وہاں لے کر آئے۔

  5. وضاحت کریں کہ چاروں آدمیوں نے کس طرح تعاون کیا، اور ہم اُن سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟

  6. مسیح کا اپنے اوپر تنقید کرنے والے فقیہوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟

  7. اِس معجزے میں مسیح کا اِختیار مختلف پہلوؤں میں ظاہر ہُوا۔ وہ کیا تھے؟

ساتواں معجزہ: بیت حسدا کے حوض پر ایک بیمار شخص کی شفا

"اِن باتوں کے بعد یہودیوں کی ایک عید ہُوئی اور یسوع یروشلیم کو گیا۔ یروشلیم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتا ہے اور اُس کے پانچ برآمدے ہیں۔ اِن میں بُہت سے بیمار اور اندھے اور لنگڑے اور پژمردہ لوگ جو پانی کے ہلنے کے منتظر ہو کر پڑے تھے۔ کیونکہ وقت پر خُداوند کا فرشتہ حوض پر اُتر کر پانی ہلایا کرتا تھا۔ پانی ہلتے ہی جو کوئی پہلے اُترتا سو شِفا پاتا اُس کی جو کُچھ بیماری کیوں نہ ہو۔ وہاں ایک شخص تھا جو اڑتیس برس سے بیماری میں مبتلا تھا۔ اُس کو یسوع نے پڑا دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ بڑی مدّت سے اِس حالت میں ہے اُس سے کہا کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟ اُس بِیمار نے اُسے جواب دِیا۔ اَے خُداوند میرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب پانی ہلایا جائے تو مُجھے حوض میں اُتار دے بلکہ میرے پہنچتے پہنچتے دُوسرا مُجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پِھر۔ وہ شخص فوراً تندرست ہو گیا اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چلنے پِھرنے لگا۔ وہ دِن سبت کا تھا۔ پس یہودی اُس سے جس نے شِفا پائی تھی کہنے لگے کہ آج سبت کا دِن ہے۔ تُجھے چارپائی اُٹھانا روا نہیں۔ اُس نے اُنہیں جواب دِیا جِس نے مُجھے تندرست کِیا اُسی نے مُجھے فرمایا کہ اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پِھر۔ اُنہوں نے اُس سے پُوچھا کہ وہ کون شخص ہے جس نے تُجھ سے کہا چارپائی اُٹھا کر چل پِھر؟ لیکن جو شِفا پا گیا تھا وہ نہ جانتا تھا کہ کون ہے کیونکہ بِھیڑ کے سبب سے یسوع وہاں سے ٹل گیا تھا۔ اِن باتوں کے بعد وہ یسوع کو ہیکل میں ملا۔ اُس نے اُس سے کہا دیکھ تُو تندرست ہو گیا ہے۔ پِھر گناہ نہ کرنا۔ اَیسا نہ ہو کہ تُجھ پر اِس سے بھی زیادہ آفت آئے۔ اُس آدمی نے جا کر یہودیوں کو خبر دی کہ جِس نے مُجھے تندرست کِیا وہ یسوع ہے۔ اِس لئے یہودی یسوع کو ستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام سبت کے دِن کرتا تھا۔ لیکن یسوع نے اُن سے کہا کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہُوں۔ اِس سبب سے یہودی اَور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا بلکہ خُدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خُدا کے برابر بناتا تھا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 5: 1۔ 18)

یہ ایک ایسے شخص کو شفا دینے کا معجزہ ہے جو اڑتیس سال سے بیمار تھا، جسے مسیح نے عید کے دِن بیت حسدا کے حوض کے پاس شفا بخشی، جب یہ شخص عید کا منتظر نہیں تھا۔ مختلف عیدوں کے اڑتیس سال گزر چکے تھے، لیکن وہ ایک بھی عید منانے کے قابل نہ تھا۔ وہ مسلسل اُداسی میں تھا۔ لیکن اُس عید کے دِن جب مسیح نے اُس سے ملاقات کی تو اُس کےلئے وہ دِن واقعی عید بن گیا! ہو سکتا ہے کہ بہت سی عیدیں ہمارے لئے حقیقی عید ہوئے بغیر گزر گئی ہوں کیونکہ مسیح پوری طرح سے ہماری زندگی کا مالک نہیں تھا۔ لیکن اگر ہم آج اپنی زندگی، دِل، دماغ اور جسم اُس کے حوالے کر دیتے ہیں، تو یہ ہمارے لئے ایک حقیقی عید کا دن ہو گا!

اُس دِن یہودیوں کی ایک عید تھی۔ لہٰذا، مسیح یروشلیم کو گیا، اور بھیڑ دروازہ سے شہر میں داخل ہُوا، جہاں سے قربانی کے برّوں کو ہیکل میں لایا جاتا تھا۔ پھر یسوع بیت حسدا کے حوض کی طرف متوجہ ہُوا جس کا مطلب ہے "رحم کا گھر،" اور وہاں آپ نے غریب بیمار پر رحم کیا۔

مسیح ہمارا فسح ہے جو ہمارے لئے قربان ہُوا۔ وہ "رحم کے گھر" کی طرف جاتے ہوئے بھیڑ دروازہ سے داخل ہُوا۔ کیا یہ الٰہی رحمت نہیں ہے کہ ہمارا نجات دہندہ ہمارے پاس چرنی میں پیدا ہُوا، صلیب اُس کا انتظار کر رہی تھی اور پھر قیامت، تا کہ وہ ہمیں اپنی رحمت اور نجات بخش معافی عطا کرے۔

یوحنّا اِنجیل نویس حوض کی تفصیلات بیان کرتا ہے۔ اُس میں پانی تھا، غالباً معدنی پانی۔ وقتاً فوقتاً یہ پانی ہلتا تھا۔ یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ پانی کے ہلنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک فرشتہ پانی کو ہلانے کےلئے آتا تھا۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ اُنہوں نے فرشتے کو دیکھا تھا۔ وہ صرف اپنے عقیدے کا اظہار کرتے تھے۔ اور جو بیمار سب سے پہلے تالاب میں اُترتا وہ شفا پا جاتا تھا۔

یہ معجزہ دو باتوں کا ثبوت پیش کرنے کےلئے ہُوا: خُدا اپنے لوگوں سے محبّت کرتا ہے، اور یہ کہ وہ اَب بھی معجزات کرتا ہے۔ بیمار لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع تھی: اندھے، لنگڑے، سوکھے اعضاء والے، حوض کے پاس پانچ راہداریوں میں موجود تھے۔ وہاں وہ بارش، دھوپ اور ہوا سے محفوظ ہوتے تھے، جبکہ اُن کی نظریں پانی پر جمی ہوتیں کہ یہ کب ہلے گا۔

"رحم کا گھر" کہلانے والی اُس جگہ میں رحم کی کمی تھی۔ کیونکہ جب بھی پانی ہلتا ​​تھا، ہر کوئی اپنے آپ کو پہلے پانی میں اُترنے کےلئے آگے بڑھتا یا اپنے خاندان میں سے کسی کو آگے بڑھ کر اُتارتا۔ کوئی بھی دوسرے کے بارے میں نہیں سوچتا تھا، کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اپنا موقع کھو دے گا!

اِسی وجہ سے یہ بیمار شخص وہاں اڑتیس برس سے ایسی حالت میں تھا۔ اُس کےلئے عید اُس وقت آئی جب مسیح نے اُس کے پاس آ کر کہا: "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" اُس نے جواب دیا: "اَے خُداوند میرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب پانی ہلایا جائے تو مُجھے حوض میں اُتار دے۔" تب یسوع نے کہا: "اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پِھر۔" وہ فوراً اُٹھا، اپنی چارپائی کندھے پر اُٹھائی اور چل دیا۔

اُس دن سبت کا دن تھا۔ یہودی مذہبی راہنما شریعت کے تقاضوں کی پابندی کرنے میں بہت سخت تھے، جس میں یہ بھی شامل تھا کہ سبت کے دِن ایک فرد کچھ بھی اُٹھا کر ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا۔ اِس لئے اُنہوں نے شفا پانے والے اُس بیمار شخص کو ملامت کی اور مسیح پر تنقید کی، اور آپ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کیونکہ آپ نے سبت کا حکم توڑا تھا۔

آئیے اب ہم اِن نکات پر توجہ مرکوز کریں:

  1. معجزہ کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. یہودی اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزہ کی احتیاج رکھنے والا شخص

جب بھی حوض کا پانی ہلتا تو اڑتیس برس سے یہ بیمار شخص تیزی سے اُس کی جانب رینگتا ہُوا جاتا، مگر وہ ہمیشہ وہاں دیر سے پہنچتا۔ سیکڑوں لوگ حوض کی طرف گئے۔ کچھ پانی میں اُترے اور صحت یاب ہو کر گھر چلے گئے۔ باقی، اندر نہ جا سکنے کی وجہ سے مر گئے اور دفن ہوئے۔ جہاں تک اُس کا تعلق ہے، وہ وہیں موت اور زندگی کے درمیان رہتا رہا۔ وہ زندہ مردہ تھا۔ وہ نہ تو مرنے والوں کے ساتھ آرام کر رہا تھا، نہ شفا پانے والوں کے ساتھ خوشی منا رہا تھا۔ اُس نے یقیناً یہ دیکھا تھا کہ بنی نوع اِنسان کتنے خود غرض ہیں۔ شاید بہت سے لوگوں نے اُسے درجنوں بار دھکیل دیا ہو کہ وہ اُس کی جگہ لے لیں اور اُس سے پہلے تالاب میں اُتر جائیں۔ نہ کسی تندرست کو اُس پر رحم آیا اور نہ کسی بیمار کو۔

کوئی شفا نہ ملی!

کوئی دوست نہیں تھا!

اور سب سے بڑھ کر کوئی امّید نہ تھی، حالانکہ شفا اُس کے بہت قریب تھی!

کئی بار ہم اِسی طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ دوسروں کو فائدہ ہوتا ہے اور ہمیں نہیں۔ دوسرے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہمیں موقع نہیں ملتا۔ کچھ کو آگے بڑھنے میں مدد دینے والے افراد ملتے ہیں اور ہمیں نہیں۔ "میرے پہنچتے پہنچتے دُوسرا مُجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہے۔"

لیکن یہ صورتحال اُس وقت بالکل بدل گئی جب اُس کی مسیح کے ساتھ ملاقات ہوئی اور آپ نے اُس سے پوچھا: "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟"

کچھ لوگ اِس سوال کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں: "لیکن یہ آدمی بیت حسدا کے حوض پر کیوں تھا جبکہ اِسے شفا نہیں ملی تھی؟" تاہم، حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو بیمار رہنے اور دوسروں کی طرف سے دیکھ بھال کروانے کی عادت پڑ جاتی ہے، اور وہ توجہ کا مرکز بن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بیماری تکلیف دہ اور افسردہ کرنے والی ہوتی ہے، لیکن اِس میں ترک کرنا اور بےحسی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ خاندان کو ہمیشہ بیمار کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ اِس بیمار شخص کو جسے اُس کے گھر والے چھوڑ گئے تھے، بلاشبہ دوسرے بیمار لوگوں سے جو اُس سے بہتر تھے یا اُن سے ملنے کےلئے آنے والے رشتہ داروں سے مدد ملی۔ یہ اُسے کھانے پینے کےلئے کچھ دے دیتے کیونکہ جانتے تھے کہ کوئی اَور اُس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ اب اگر اُسے صحت یاب ہونا تھا تو اُسے دوبارہ اپنی ذمہ داری اُٹھانی تھی۔ کیا وہ ایسا کرنے کےلئے تیار تھا؟ اِس لئے خُداوند نے پوچھا، "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" آپ جاننا چاہتے تھے کہ کیا وہ واقعی اپنی حالت بدلنا چاہتا تھا۔

خُدا ہمیں تب تک کوئی نعمت نہیں دیتا جب تک کہ ہم اُس کے بھوکے نہ ہوں۔ "مُبارک ہیں وہ جو راست بازی کے بُھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے" (متی 5: 6)۔ جب ہم بھوکے ہوتے ہیں، اور اُس بھوک کو محسوس کر کے خُداوند سے مانگتے ہیں تو وہ ہمیں سیر کرتا ہے۔ اگر کسی کو ایسی نعمت ملتی ہے جو اُس نے نہیں مانگی تو وہ اُس سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوتا۔ لیکن وہ نعمت جو ہمیں آرزو رکھنے اور مسلسل مانگنے کے بعد ملتی ہے، ہمارے لئے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔

بیمار شخص نے جواب دیا: "میرے پاس کوئی آدمی نہیں۔" برسوں کی بیماری نے اُسے صرف لوگوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اُس نے خُدا کو نہیں بلکہ صرف اِنسان کو یاد رکھا۔ اُس کے ذہن میں کسی معجزے کے ہونے کا امکان نہیں تھا، لیکن اُس میں مسلسل مایوسی موجود تھی۔ وہ الٰہی محبّت کو نہیں دیکھ سکا تھا، کیونکہ اُس نے صرف اِس بات کا ذِکر کیا کہ اُس کے پاس کوئی اِنسان نہیں تھا جو اُسے پانی کے ہلنے پر حوض میں جانے میں مدد دے۔ مسیح نے بیمار شخص کی توجہ اِنسان سے خُدا کی طرف لگوائی تا کہ وہ اپنے جدّ امجد داؤد کے ساتھ کہہ سکے: "مَیں نے صبر سے خُداوند پر آس رکھّی۔ اُس نے میری طرف مائل ہو کر میری فریاد سُنی" (زبور 40: 1)۔

الف۔ اُٹھنے کا حکم:

اِس بیمار آدمی کو ایک عجیب حکم ملا: "اُٹھ ۔۔۔ اُٹھا ۔۔۔ چل پھِر۔" وہ کیسے کچھ اُٹھا کر چل سکتا تھا جبکہ وہ اصل میں اُٹھنے کے قابل بھی نہیں تھا؟ اگر وہ اُٹھنے کے قابل ہوتا تو بہت پہلے ایسا کر چکا ہوتا!

اِس حکم میں بیمار شخص سے اِیمان اور فرمانبرداری طلب کی گئی۔ اِیمان امّید کی ہُوئی چِیزوں کا اعتماد اور اَن دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے (عبرانیوں 11: 1)۔ بیمار آدمی اِیمان لایا جبکہ ابھی تک اُس نے اپنے جسم کے پٹھوں میں کوئی شفا یابی یا تبدیلی نہیں دیکھی تھی۔ اگرچہ ابھی تک اُس کی جسمانی حالت کے تعلق سے کچھ نیا نہیں ہُوا تھا، لیکن اُس نے آنے والی چیزوں کو دیکھا۔ یہ کلام پر ایمان اور بھروسا ہے۔ اُس آدمی کو یہ اعتماد کس نے دیا؟ یہ رُوح القُدس تھا جس نے اُس کی آنکھیں کھولیں۔ اِس سے خُداوند کے کلام پر بہت سے لوگوں کی طرف سے ردعمل کی کمی کی وضاحت ملتی ہے، کیونکہ اُن میں کلام کو اِیمان کے ساتھ تعامل کرنے کی اجازت نہیں ملی ہوتی۔

کیا آپ کو وہ ڈاکو یاد ہے جس نے توبہ کی، کیونکہ اُس نے وہ دیکھا جو اُس کے آس پاس کے لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے؟ اُس نے ایک خُداوند اور ایک بادشاہی کو دیکھا (لوقا 23: 42)، جبکہ تمام شواہد نے اشارہ کیا کہ مسیح مصلوب خادم ہے۔ لیکن اُس کی اِیمان کی آنکھ نے ایک بادشاہی کے خُداوند کو دیکھا۔ خُدا ہمیں اِیمان کی آنکھیں عطا کرے تا کہ ہم مسیح خُداوند، آسمان اور زمین پر اختیار رکھنے والے کو دیکھ سکیں، اور یہ دیکھ سکیں کہ جو ہمارے ساتھ ہیں وہ اُن سے زیادہ ہیں جو ہمارے مخالف ہیں، اور خُدا ہمیشہ ہمارے لئے اپنی الٰہی دیکھ بھال کے ساتھ موجود ہے، چاہے تمام بیرونی حالات اِس سے متصادم معلوم ہوں۔

سچا ایمان ہمیشہ فرمانبرداری پیدا کرتا ہے، اور اِنسان جہاں بھی جاتا ہے اُسے مسیح کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ہے، کیونکہ سارا بھروسا خُداوند پر رکھا گیا ہوتا ہے۔ جب بیمار شخص کا اِیمان فرمانبرداری میں ظاہر ہُوا، تو اُس کے جسم نے مسیح کا حکم مانا، اِس لئے وہ شفا پا گیا اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چلا گیا۔

ب۔ چارپائی اُٹھانے اور چلنے کا حکم:

اِس ثبوت کو اُس کے آس پاس موجود ہر شخص نے دیکھا کہ وہ واقعی ٹھیک ہو گیا ہے۔ کتنے ہیں جو دیکھ کر بھی شک کرتے ہیں! مسیح چاہتا ہے کہ رُوحانی اندھوں کی آنکھیں یہ دیکھنے کےلئے کھل جائیں کہ خُداوند کا سالِ مقبُول آ گیا ہے (لوقا 4: 19)۔ اور یہ وہ سال ہے جس میں قیدیوں کو رہا کیا جاتا تھا۔

ج۔ بیمار شخص شفا پانے کے بعد ہیکل میں گیا (آیت 14):

اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خُدا کا شکر ادا کرنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے کس نے شفا دی ہے، کیونکہ مسیح بھیڑ میں غائب ہو گیا تھا۔ آپ کے شاگردوں میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں تھا، وگرنہ بیمار آدمی ضرور آپ کو پہچان لیتا! مسیح نے ہیکل میں اُس سے دوبارہ ملاقات کی۔

"مَیں خُوش ہُوا جب وہ مُجھ سے کہنے لگے آؤ خُداوند کے گھر چلیں" (زبور 122: 1)۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ خُداوند کے گھر میں شکر ادا کرنے، نجات دہندہ سے دوبارہ ملنے جاتے ہیں، تا کہ وہ ہماری زندگی کو کثرت کی برکت بخشے۔ سو آئیے ہم دوبارہ یہ کہتے ہوئے لوٹیں: "تُو نے میرے بندھن کھولے ہیں۔ مَیں تیرے حضور شکر گزاری کی قربانی چڑھاؤں گا اور خُداوند سے دُعا کروں گا ۔۔۔ خُداوند کے گھر کی بارگاہوں میں" (زبور 116: 16۔ 19)۔

2۔ یہودی اور معجزہ

الف۔ رُوح کے مقابلے میں لفظ

وہ سبت کا دِن تھا، اور اِس تعلق سے حکم یہ تھا کہ "یاد کر کے تُو سبت کا دِن پاک ماننا۔ چھ دِن تک تُو محنت کر کے اپنا سارا کام کاج کرنا۔ لیکن ساتواں دِن خُداوند تیرے خُدا کا سبت ہے اُس میں نہ تُو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غُلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا چَوپایہ نہ کوئی مسافر جو تیرے ہاں تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو۔ کیونکہ خُداوند نے چھ دِن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دِن آرام کیا۔ اِس لئے خُداوند نے سبت کے دِن کو برکت دی اور اُسے مقدّس ٹھہرایا" (خروج 20: 8۔ 11)۔ یہودیوں کے بزرگوں نے شفا پانے والے شخص کو ملامت کی، کیونکہ اُس نے حکم توڑا تھا اور سبت کے دن اپنی چارپائی اُٹھائی تھی۔ اُس شخص نے جواب دیا: "جس نے مجھے تندرست کیا اُسی نے مجھے فرمایا کہ اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پِھر۔" اور جب اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ اُسے کس نے ٹھیک کیا تھا، تو اُسے معلوم نہیں تھا!

یہودی اکابرین شریعت، قربانیوں، نذرانوں اور رسومات میں مصروف رہتے تھے۔ وہ شریعت کی رُوح کو نہیں سمجھتے تھے۔ اُنہیں صرف اُس کے الفاظ سے سروکار تھا، اِس لئے اُنہوں نے شریعت کو رحم سے زیادہ اہمیت اور ترجیح دی! اُنہیں اِس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ بیمار ٹھیک ہو گیا تھا۔ اُنہیں سب سے پہلے اُس کی صحت یابی کی برکت پر اُسے مبارکباد دینا چاہئے تھی جو خُدا نے اُسے عید پر عطا کی تھی، لیکن اُنہوں نے اُسے ملامت کرتے ہوئے اِس آیت کو فراموش کر دیا جو کہتی ہے: "تُو اپنے بھائی کا گدھا یا بیل راستہ میں گرا ہُوا دیکھ کر اُس سے رُوپوشی نہ کرنا بلکہ ضرور اُس کے اُٹھانے میں اُس کی مدد کرنا" (اِستثنا 22: 4)۔ دوستوں کو گدھے کے مالک کی مدد کےلئے جمع ہونا چاہئے اور اُس کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھانا چاہئے، کیونکہ وہ اکیلا اُسے نہیں نکال سکتا۔ لیکن یہودی بزرگ شریعت کے ایک حصے پر قائم رہے اور دوسرے حصے کو چھوڑ دیا، جبکہ خُداوند چاہتا ہے کہ ہم کلام کا مطالعہ مکمل طور پر کریں، کیونکہ "تیرا کلام میرے قدموں کےلئے چراغ اور میری راہ کےلئے روشنی ہے" (زبور 119: 105)۔

ب۔ خُدا مسلسل کام کرتا ہے:

اِس شخص کو مارنے کے بعد وہ یسوع کو مارنا چاہتے تھے کیونکہ اُس نے سبت کے حکم کو توڑا تھا (آیات 15، 16)۔ مسیح نے اُن سے کہا: "میرا باپ اَب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہُوں" (آیت 17)۔ اِن الفاظ نے یقینی طور پر اُنہیں پھر سے مشتعل کر دیا، کیونکہ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ خُدا جس نے خلق کرنا چھٹے دن ختم کیا، بنی نوع انسان کی بھلائی کےلئے اَب بھی کام کر رہا ہے۔ اُس نے آسمانی اجسام کو خلق کیا اور اُنہیں اُن کی جگہ پر رکھا: "تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہُوئیں" (مکاشفہ 4: 11)۔ سبت کا دن خُدا کے کام کا اختتام نہیں تھا، کیونکہ وہ اب بھی آسمانوں کو سنبھالے ہُوا ہے اور ستاروں کو اُن کے مدار میں رکھتا ہے! اور مسیح اَب بھی لوگوں کے جسموں کو بحال کرتا اور شفا دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سبت خلق کرنے کے کام کا اختتام تھا، لیکن یہ پروردگاری اور سنبھالنے کے کام کا اختتام نہیں تھا۔

یہ آیت ہمارے دِل کو خوشی سے بھر دیتی ہے، کیونکہ ہمارا خُدا مسلسل ہم میں کام کرتا ہے: "دیکھو خُداوند کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہو گیا کہ بچا نہ سکے اور اُس کا کان بھاری نہیں کہ سُن نہ سکے" (یسعیاہ 59: 1)۔ "دیکھ! اِسرائیل کا محافظ نہ اونگھے گا نہ سوئے گا" (زبور 121: 4)۔ کیونکہ وہ ہمیں عطا کرتا اور برکت دیتا ہے اور پدرانہ محبّت نچھاور کرتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

یہودی بزرگ غصے میں تھے کیونکہ وہ الفاظ "میرا باپ" (آیت 17) کا مطلب سمجھ گئے تھے۔ مسیح نے اپنے آپ کو خُدا کے برابر قرار دیا۔ "اِس سبب سے یہودی اَور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔ بلکہ خُدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خُدا کے برابر بناتا تھا" (آیت 18)۔ آپ نے خود فرمایا: "مَیں اور باپ ایک ہیں" (یوحنّا 1: 30)۔ فلپُّس سے آپ نے کہا: "جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (یوحنّا 14: 9)۔ پولس رسول کے نزدیک مسیح نے خُدا کی صورت پر ہونے کے ناطے کسی ایسے حق کا دعویٰ نہیں کیا جس کا وہ حقدار نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے کردار کے بارے میں ایک سچائی ظاہر کی (فلپیوں 2: 6)۔ تو پھر کیوں لوگ سچائی سے نفرت کرتے ہیں؟

3۔ مسیح اور معجزہ

"اُس کو یسوع نے پڑا دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ بڑی مدّت سے اِس حالت میں ہے اُس سے کہا کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" (آیت 6)۔ آئیے، جو کچھ یسوع نے کیا، اُس پر غور کریں: مسیح نے دیکھا۔ مسیح جانتا تھا۔ مسیح نے پوچھا۔ مسیح نے اپنی محبّت کو ظاہر کیا۔ آپ نے حکم دیا اور اُس آدمی کو توبہ پر اُبھارا۔

الف۔ مسیح نے دیکھا:

آپ نے اُس بیمار شخص کو دیکھا جس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ آپ نے اُس پر نگاہ کی جس کے ٹھیک ہونے کے تعلق سے لوگ مکمل طور پر نا امّید تھے۔ لیکن آپ نے اُسے اِنسانی عقل کے خلاف دیکھا۔ عموماً ایک طبیب اُس شخص پر توجہ دیتا ہے جس کی حالت پہلے بہتر ہوتی ہے، کیونکہ طبیب کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ جہاں تک مسیح کا تعلق ہے، آپ کےلئے سب کچھ ممکن ہے، اور آپ ناممکنات میں مہارت رکھتے ہیں۔

ب۔ مسیح جانتا ہے:

جب خُداوند ہمیں دیکھتا ہے تو وہ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ ہماری کمزوری اور ہماری حقیقی ضرورت کو جانتا ہے، اور جو کچھ ہمیں درکار ہے وہ ہمیں سخاوت سے بغیر ملامت کئے عطا کرتا ہے۔

ج۔ مسیح نے پوچھا:

"کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" یہ مسیح کی عنایت ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے اور ہماری ضروریات کے بارے میں پوچھتا ہے۔ یسوع کے فضل کو حاصل کرنا ہم پر منحصر ہے: کیا ہم چاہتے ہیں؟

د۔ مسیح نے اپنی محبّت ظاہر کی:

آپ نے اپنی محبّت اُس شخص پر ظاہر کی جس نے ہر شے اور اِنسان کے تعلق سے امّید چھوڑ دی تھی! "۔۔۔ وہ شفقت کرنا پسند کرتا ہے۔ وہ پھر ہم پر رحم فرمائے گا۔ وُہی ہماری بدکرداری کو پایمال کرے گا ۔۔۔" (میکاہ 7: 18، 19)۔

ہ۔ مسیح نے حکم دیا:

"اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پِھر" ایک حکم ہے جو عام رواج اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ اِنسانی جسم کی حقیقی حالت سے متصادم ہے کیونکہ جسم کو شفا اور صحت یابی کی ضرورت ہے، لیکن خُداوند اِسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔

بعض اوقات ہم اپنے آپ پر بھروسا کرتے ہوئے رُوحانی طور پر سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن خُداوند ایک نیا جنم دیتا ہے: "اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلُوق ہے" (2۔ کرنتھیوں 5: 17)۔ یہ ایک مکمل تبدیلی ہے، اِنسانی عقل جس کا ادراک نہیں کر سکتی، وہ معجزات کرنے والی الٰہی قدرت و محبّت انجام دیتی ہے۔

و۔ مسیح نے اُسے توبہ کرنے کا حکم دیا:

"دیکھ تُو تندرست ہو گیا ہے۔ پِھر گناہ نہ کرنا۔ اَیسا نہ ہو کہ تُجھ پر اِس سے بھی زِیادہ آفت آئے" (آیت 14)۔ یوں لگتا ہے کہ اِس آدمی کی بیماری گناہ کا نتیجہ تھی، حالانکہ ہر بیماری گناہ کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ مسیح نے اندھے پیدا ہونے والے شخص کے بارے میں کہا: "نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لئے ہُوا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں" (یوحنّا 9: 3)۔ سو یہاں اِس بیمار شخص کا صحت مند رہنا توبہ کے ساتھ مشروط ہے۔ گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرنا اُس کےلئے بدتر ہونا تھا، کیونکہ اِس کے نتیجہ میں وہ اپنی نئی زندگی سے محروم ہو کر موت کا شکار ہو جاتا (1۔ کرنتھیوں 11: 30)۔

مسیح کی طرف سے شفا پانے والے اِس بیمار شخص کو دیئے گئے حکم سے ہم تین سچائیاں سیکھتے ہیں:

(1) بیماری گناہ کے نتیجے میں آسکتی ہے۔

(2) صحت مند رہنے کےلئے توبہ شرط ہے۔

(3) گناہ کی طرف لوٹنا بدتر نتائج پیدا کرتا ہے۔

ز۔ مسیح نے اپنی الوہیت ظاہر کی:

مسیح نے کہا کہ خُدا اُس کا باپ تھا (آیت 17)۔ آپ نے خود کو خُدا کے مساوی قرار دیا (آیت 18)۔ مسیح نے اپنی الوہیّت کو کئی مرتبہ ظاہر کیا:

(1) مسیح نے بتایا کہ وہ باپ کے طرح کام کرتا ہے: "جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے" (آیت 19)۔

(2) مسیح نے بتایا کہ وہ باپ کی فکر سے واقف ہے: "باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خُود کرتا ہے اُسے دِکھاتا ہے" (آیت 20)۔

(3) مسیح نے بتایا کہ وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے: "کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زِندہ کرتا ہے" (آیت 21، 24۔ 26)۔

(4) مسیح نے بتایا کہ وہ دُنیا کا انصاف کرتا ہے: "کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے" (آیت 22)۔

(5) مسیح نے بتایا کہ اُسے عزت ملتی ہے: "تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزّت کریں جِس طرح باپ کی عزّت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزّت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزّت نہیں کرتا" (آیت 23)۔

(6) مسیح نے کہا کہ باپ اُس کی گواہی دیتا ہے: "اگر مَیں خُود اپنی گواہی دُوں تو میری گواہی سچی نہیں۔ ایک اَور ہے جو میری گواہی دیتا ہے اور مَیں جانتا ہُوں کہ میری گواہی جو وہ دیتا ہے سچی ہے ۔۔۔ باپ جِس نے مجھے بھیجا ہے اُسی نے میری گواہی دی ہے" (آیات 31، 32، 37)۔

(7) مسیح نے بتایا کہ یوحنّا بپتسمہ دینے والے نے اُس کی گواہی دی: "تُم نے یوحنّا کے پاس پَیام بھیجا اور اُس نے سچّائی کی گواہی دی ہے" (آیت 33)۔

(8) مسیح نے بتایا کہ اُس کے کاموں نے اُس کی گواہی دی: "لیکن میرے پاس جو گواہی ہے وہ یوحنّا کی گواہی سے بڑی ہے کیونکہ جو کام باپ نے مجھے پورے کرنے کو دِئے یعنی یِہی کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے" (آیت 36)۔

(9) پاک صحائف نے مسیح کی گواہی دی: "تم کتابِ مقدّس میں ڈُھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے" (آیت 39)۔

یہ ہمارا قادر مطلق خُدا ہے، عظیم نجات دہندہ ہے، جو ہمیں ہماری کمزوریوں سے نجات دیتا ہے اور ہم پر رحم کرتا ہے۔ آئیے ہم ہمیشہ اُس کے سامنے جھکیں تا کہ اُس سے اپنی زندگیوں کےلئے کثرت کی برکت مانگیں۔

دُعا

اے یسوع! قدرت کے مالک، تُو جو کہتا ہے، جیسا حکم دیتا ہے ویسے ہی ہو جاتا ہے۔ تیرا شکر ہو، تیری تعریف و تمجید ہو۔ تُو اِس لائق ہے کہ مَیں تیری فرمانبرداری کروں، تیری سپردگی میں اپنے آپ کو دے دوں۔ مَیں تجھ پر بھروسا کر سکتا ہوں اور تُو ہی میری مدد ہے۔

ہمیں توفیق عنایت کر اپنے تھکے ماندے سر تیرے محبّت بھرے سینے پر رکھیں، تا کہ ہم تجھ سے وہ سب حاصل کر سکیں جس کی ہمیں آج اور کل ضرورت ہے، جب تک کہ ہم تیری بارگاہ میں نہ پہنچ جائیں جہاں نہ بیماری ہے، نہ حاجت اور نہ ہی آہ و نالہ۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. ہماری لئے حقیقی عید کا دِن کون سا ہے؟

  2. مسیح کے بھیڑ دروازہ سے داخل ہونے اور بیت حسدا جانے کا علامتی معنٰی کیا ہے؟

  3. یہودی بزرگوں نے بیمار آدمی کو چارپائی اُٹھانے پر کیوں ملامت کی؟

  4. اڑتیس برس سے بیمار رہنے والے فرد کا مسئلہ کیا تھا اور مسیح نے اُسے کیسے حل کیا؟

  5. مسیح نے بیمار شخص کو حکم دیا کہ وہ اُٹھے، اپنی چارپائی اُٹھائے اور چلا جائے۔ اِس کےلئے بیمار شخص سے دو چیزوں درکار تھیں۔ وہ کیا ہیں؟

  6. بیمار شخص شفا یاب ہونے کے بعد ہیکل میں کیوں گیا؟

  7. اِس معجزے کے وقت مسیح نے اپنی الوہیّت کا کئی مرتبہ اظہار کیا۔ تفصیل بیان کریں۔

آٹھواں معجزہ: سوکھے ہاتھ والے شخص کی شفا

"اور وہ عِبادت خانہ میں پھر داخل ہُوا اور وہاں ایک آدمی تھا جِس کا ہاتھ سُوکھا ہُوا تھا۔ اور وہ اُس کی تاک میں رہے کہ اگر وہ اُسے سبت کے دِن اچّھا کرے تو اُس پر اِلزام لگائیں۔ اُس نے اُس آدمی سے جس کا ہاتھ سوکھا ہُوا تھا کہا بِیچ میں کھڑا ہو۔ اور اُن سے کہا سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا قتل کرنا؟ وہ چُپ رہ گئے۔ اُس نے اُن کی سخت دِلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف اُن پر غصّہ سے نظر کر کے اُس آدمی سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھا دیا اور اُس کا ہاتھ درست ہو گیا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 3: 1۔ 5؛ مزید دیکھئے متی 12: 9۔ 14، اور لوقا 6: 6۔ 11)

نئے عہدنامہ کے مفسّرین میں معجزات کی تواریخی ترتیب پر اختلاف موجود ہے کیونکہ اِنجیلی بیانات کے مصنّفین نے مسیح کے معجزات کا ترتیب سے اندراج نہیں کیا، بلکہ صرف چند معجزات کا انتخاب کیا ہے۔ تاہم، مفسّرین نے درج معجزات کی ایک تواریخی ترتیب بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اِس ترتیب کے مطابق مسیح کے معجزات کے سلسلے میں یہ آٹھواں معجزہ ہو سکتا ہے۔

اِنجیل نویس، لوقا بیان کرتا ہے کہ یہ اُس شخص کا دایاں ہاتھ تھا جو سوکھ گیا تھا۔ دیگر اِنجیلی مصنّفین اِس بات پر متّفق ہیں کہ یہ معجزہ سبت کے دن عبادت گاہ میں مسیح اور یہودی بزرگوں کے درمیان بحث کے بعد ہُوا تھا۔ اِس بحث کی وجہ یہ تھی کہ شاگردوں نے سبت کے دن کھیتوں میں سے اناج کی بالیں چن لیں تھیں۔ یہودی بزرگوں نے اُنہیں ڈانٹا، اِس لئے نہیں کہ وہ اناج کی بالیں توڑ رہے تھے۔ موسیٰ کی شریعت نے مسافروں کو اجازت دی تھی کہ وہ کھیتوں یا باغات سے توڑ کر کچھ بھی کھا سکتے تھے بشرطیکہ وہ اپنے ساتھ کچھ لے کر نہ جائیں (اِستثنا 23: 25)۔ یہودی بزرگوں نے اعتراض اِس لئے کیا کہ شاگردوں نے سبت کے دن اناج کی بالیں توڑی تھیں۔ اُن کے خیال میں یوں شاگردوں نے کٹائی، غلّہ سے بھوسا الگ کرنے، اناج پیسنے اور پھر کھانے کا عمل انجام دیا تھا۔

یہودیوں کے بزرگوں نے شاگردوں کے رویہ کو اِسی انداز سے سمجھا کیونکہ اُنہوں نے مسیح سے کہا: "دیکھ تیرے شاگرد وہ کام کرتے ہیں جو سبت کے دِن کرنا روا نہیں۔" مسیح نے اُنہیں چار جوابات دیئے، جن پر ہم معجزات کی بابت یہودی بزرگوں کے موقف پر بحث کرتے ہوئے غور کریں گے۔

اِن چار بیانات کے بعد یسوع مسیح عبادت خانہ میں داخل ہوئے، جہاں آپ نے سوکھے ہاتھ والے شخص کو دیکھا۔ متی اِنجیل نویس کے مطابق، یہودی بزرگوں نے آپ سے پوچھا: "کیا سبت کے دِن شفا دینا روا ہے؟" یوں وہ شاگردوں کی خطا کے ساتھ مسیح کی طرف سے کی گئی خطا کا اضافہ کرنا چاہتے تھے تا کہ یہ الزام مسیح کے خلاف ہو جائے۔ متی کہتا ہے کہ "۔۔۔ اُنہوں نے اُس پر الزام لگانے کے ارادہ سے یہ پوچھا۔۔۔" مسیح نے اُنہیں شریعت کی رُوح سمجھائی، اور پھر اُس آدمی سے کہا: "اپنا ہاتھ بڑھا۔" اور جب اُس نے ایسا کیا تو اُس کا وہ ہاتھ ٹھیک ہو کر دوسرے ہاتھ کی طرح ہو گیا۔

آئیے ہم اِس معجزہ میں اِن باتوں پر غور کریں:

  1. معجزہ کی احتیاج رکھنے والا فرد

  2. گواہان اور معجزہ

  3. خُداوند یسوع اور معجزہ

1۔ معجزہ کی احتیاج رکھنے والا فرد

یہ بیمار شخص کا دہنا ہاتھ تھا جو سوکھ گیا تھا۔ یہ وہ ہاتھ ہے جس سے کام کیا جاتا ہے، دوسروں کے ساتھ سلام کرنے کےلئے ہاتھ ملایا جاتا ہے، کچھ دیا اور وصول کیا جاتا ہے۔

الف۔ اِس سوکھے ہاتھ والے شخص کی شفا ہمیں سکھاتی ہے کہ خُداوند ہمیں نیک اعمال کرنے سے قاصر ہونے سے شفا دینا چاہتا ہے:

مسیح ہم میں نیکی کرنے کی صلاحیت کو بحال کرتا ہے۔ جو شخص خُداوند سے دُور ہے وہ اچھے کام کرنے سے قاصر ہے، لیکن خُداوند ہمیں اچھے کاموں کو کرنے کی ترغیب دینا چاہتا ہے۔

ہم اِنجیل بمطابق متی، باب 21 میں ایک باپ کے بارے میں پڑھتے ہیں جس کے دو بیٹے تھے۔ اُس نے پہلے بیٹے سے کہا: "بیٹا جا آج تاکستان میں کام کر۔" اُس نے جواب دیا: "مَیں نہیں جاؤں گا،" لیکن بعد میں اُسے افسوس ہُوا اور چلا گیا۔ باپ نے دوسرے بیٹے سے کہا: "بیٹا جا آج تاکستان میں کام کر۔" بظاہر وہ اِن الفاظ کی پیروی کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے، لیکن اُس نے یہ کام نہ کیا۔ ہم سب کےلئے بھی یہی حکم ہے۔ خُداوند چاہتا ہے کہ ہم اُس کے تاکستان میں کام کریں کیونکہ ہم اُس کے فرزند ہیں۔ وہ ہم سے اپنے تاکستان میں کام کرنے کی توقع رکھتا ہے۔ تاہم، سوکھے ہاتھ والا آدمی کام کرنے سے قاصر تھا۔ اِس لئے مسیح نے اُس سے کہا: "اپنا ہاتھ بڑھا" جس کا گویا یہ مطلب تھا کہ میرے ساتھ کام کر۔

ب۔ سوکھے ہاتھ والا شخص لوگوں سے ملنے کے بھی قابل نہ تھا:

اُس کا ہاتھ ہل نہیں سکتا تھا۔ ہماری دُنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کا دایاں ہاتھ اخلاقی، رُوحانی اور ذہنی طور پر مرجھا چکا ہے۔ وہ محبّت میں اپنے ہاتھ نہیں پھیلاتے کیونکہ وہ خود محبّت کے محتاج ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے خود کبھی اِس کا تجربہ نہیں کیا ہوتا، اِس لئے وہ اِسے نہیں دے سکتے۔ ہمیں یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ خُدا ہم سے پیار کرتا ہے اور وہ اچھا چرواہا ہے، جو محبّت کے ساتھ مسلسل اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے، اور ہم کہیں بھی ہوں یا جو بھی ہوں اُس کی محبّت ہم تک پہنچتی ہے۔ خُدا کا ہاتھ ہمیشہ صلح کےلئے بڑھا ہُوا ہے۔ وہ اپنی محبّت میں ہماری طرف اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ ہماری اپنے ساتھ صلح کرائے۔ اور اِس کے بعد وہ چاہتا ہے کہ ہم صلح کے پیامبر بنیں جو لوگوں کی خُدا کے ساتھ صلح کرائیں۔ وہ ایک طرح سے کہتا ہے کہ اے ایماندار شخص، لوگوں کو خُدا سے ملانے کےلئے اپنا ہاتھ بڑھا (2۔ کرنتھیوں 5: 18۔ 20)۔

ج۔ سوکھے ہاتھ دے نہیں سکتے:

ہم فطرتاً خود غرض ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے پیارے خُدا پر غور کرنا چاہئے جو اپنا سورج ہر ایک پر چمکاتا ہے اور اپنی بارش نیکوں اور بدوں دونوں پر برساتا ہے (متی 5: 45)۔ ہمیں اُس کی طرح کے رویہ کا حامل ہونا چاہئے۔ شاید ہم اِس کے عادی نہیں ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نے کبھی اچھا کام کیا ہو اور بدلے میں ہمیں برا ملا ہو تو ہمیں نیکی کرنے سے ڈر لگنے لگ گیا ہو۔ ہم ماضی کے قیدی اور برے تجربات کے غلام بن گئے۔ ہمیں ماضی سے ایک بہتر حال اور مستقبل کی طرف جانا چاہئے جو مسیح کے ساتھ ہونے سے بہترین ہوتا ہے۔

پولس رسول نے خُداوند کی جانب سے ملنے والی نئی زندگی اور تبدیلی کے بارے میں کہا ہے: "چوری کرنے والا پِھر چوری نہ کرے بلکہ اچھّا پیشہ اِختیار کر کے ہاتھوں سے محنت کرے تا کہ محتاج کو دینے کےلئے اُس کے پاس کچھ ہو" (افسیوں 4: 28)۔

خُداوند یہ بھی کہتا ہے: "۔۔۔ پر تُم مُجھ کو ٹھگتے ہو اور کہتے ہو ہم نے کس بات میں تُجھے ٹھگا؟ دَہ یکی اور ہدیہ میں" (ملاکی 3: 8)۔ ہمیں اپنے سوکھے دائیں ہاتھ کےلئے جو دیتا نہیں، شفا کی ضرورت ہے۔ آئیے، ہم سیکھیں کہ کس طرح ہمیں دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینی ہے۔

د۔ سوکھے ہاتھ کچھ وصول کرنے کےلئے نہیں بڑھ سکتے:

لوگ خُداوند کی نجات کے بارے میں سُنتے ہیں، لیکن وہ اُسے اِس احساس کی وجہ سے رد کرتے ہیں کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں، یا پھر وہ اپنے لئے نجات کی ضرورت نہیں دیکھتے، یا پھر وہ اپنی برائی کے تعلق سے مایوس ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خُدا اُنہیں قبول نہیں کرے گا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، ایک گنہگار فرد جو خُداوند سے دُور ہوتا ہے، برکت حاصل کرنے کےلئے اِیمان کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا۔ ہمیں اپنے سوکھے ہاتھوں کے شفا یاب ہونے کےلئے معجزے کی ضرورت ہے تا کہ وہ کچھ پانے کےلئے اعتماد اور اِیمان کے ساتھ آگے بڑھائے جا سکیں۔

ہ۔ ایک پیدایشی نُقص یا غفلت کا نتیجہ:

ہاتھ اِس لئے سوکھ گیا تھا کہ اُس میں زندگی سرایت نہیں کر رہی تھی، شاید اِس کی وجہ کوئی پیدائشی نقص تھا، یا پھر اُس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ دونوں وجوہات رُوحانی لحاظ سے ہمارے اندر پائی جاتی ہیں۔ جہاں تک پیدایشی نقص کا تعلق ہے، زبور نویس کہتا ہے، "دیکھ! مَیں نے بدی میں صورت پکڑی اور مَیں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا" (زبور 51: 5)۔ پولس رسول کہتا ہے: "پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا" (رومیوں 5: 12)۔ ہم اپنی فطرت اور اپنے اعمال کے اعتبار سے گنہگار ہیں، اور مسیح دونوں کا شافی ہے۔

و۔ بیمار شخص کو حکم کی پیروی کرنا لازم تھا:

(1) ایمان: مسیح نے اُس بیمار آدمی سے کہا: "اپنا ہاتھ بڑھا" اور اُس نے یہ جانتے ہوئے کہ اُس کا ہاتھ سوکھا تھا اور اِس سے پہلے کبھی ہلا نہیں تھا، اُسے پھیلا دیا۔ وہ کہہ سکتا تھا: "مَیں نہیں کر سکتا، مَیں معذور ہوں۔" لیکن چونکہ اُس نے کلام کا یقین کیا، اِس لئے اُس نے اپنا ہاتھ بڑھایا حالانکہ وہ ابھی تک سوکھا ہُوا تھا، یوں اُسے خداوند کے حکم پر پورا بھروسا تھا۔

(2) فرمانبرداری: جہاں دِلی اِیمان ہوتا ہے وہاں فرمانبرداری بھی ہوتی ہے۔ لیکن فرمانبرداری نہ کرنے والا اِیمان عقلی اِیمان ہوتا ہے جس نے زندگی کو تبدیل نہیں کیا ہوتا۔ یہ شیاطین کے اِیمان کی طرح ہوتا ہے (یعقوب 2: 19)۔ اِس کے برعکس، حقیقی اِیمان فرمانبرداری والا ہوتا ہے۔

(3) ہمت: بہت سے یہودی بزرگ وہاں کھڑے مسیح کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اُنہوں نے آپ پر الزام لگانے کی غرض سے پوچھا: "سبت کے دِن شفا بخشنا روا ہے یا نہیں؟" اِس بات کا امکان تھا کہ بیمار شخص مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے ساتھ مشکل میں پڑنے کے بجائے اپنے ہاتھ کو سوکھا رہنے کو ترجیح دیتا! لیکن، اپنے اِیمان اور فرمانبرداری کے علاوہ، اُس کے پاس ہمّت تھی جس نے اُسے مسیح کی پیروی کرنے اور آپ کے احکامات پر عمل کرنے کے قابل بنایا۔

خُدا ہمیں مضبوط اِیمان اور فرمانبرداری عطا فرمائے تا کہ ہمارا اِیمان موثر اور پھلدار ہو۔ نیز وہ ہمیں مسیح کی فرمانبرداری کرنے اور آپ کے احکام پر عمل کرنے کی ہمّت دے، کیونکہ یہ ہماری زندگیوں کےلئے بہترین ہیں۔

2۔ گواہان اور معجزہ

یہودی بزرگوں کی طرح ایسے لوگ بھی ہیں جو شریعت کی رُوح کی نسبت شریعت کے الفاظ کی زیادہ پرواہ کرتے ہیں۔ وہ غلام ہیں، مالک نہیں، کیونکہ شریعت غلام پیدا کرتی ہے، جبکہ فضل مالکوں کو پیدا کرتا ہے۔ شریعت کے تحت آدمی ڈرتا ہے، جبکہ فضل میں وہ اطمینان میں ہوتا ہے، کیونکہ خُداوند آزادی، آرام اور محبّت ودیعت کرتا ہے۔ اِس لئے مسیح کی پیروی سارے دِل و ساری جان سے کرنی چاہئے۔ یوں وہ مسیح کے فضل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو اُنہیں حقیقی آزادی بخشتا ہے۔ "اِس لئے کہ شریعت تو موسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی" (یوحنّا 1: 17)۔

مسیح نے پہلے ہی یہودی بزرگوں کے اِس سوال کا کہ "سبت کے دِن شفا بخشنا روا ہے یا نہیں؟" چار طرح سے جواب دے دیا تھا۔

الف۔ آپ نے فرمایا کہ ضرورت نے داؤد کو ممنوع کام کرنے کی اجازت دی:

"اُس نے اُن سے کہا کیا تُم نے یہ نہیں پڑھا کہ جب داؤد اور اُس کے ساتھی بھوکے تھے تو اُس نے کیا کیا؟ وہ کیونکر خُدا کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹیاں کھائیں جن کو کھانا نہ اُس کو روا تھا نہ اُس کے ساتھیوں کو مگر صرف کاہنوں کو؟" (متی 12: 3، 4)۔ یہاں، مسیح 1۔ سموئیل 21: 3۔ 6 میں درج داؤد کے واقعہ کا حوالہ دے رہے تھے۔ موسیٰ کی شریعت میں کاہنوں کے تعلق سے ایسی ہدایات کا ذِکر احبار 24: 5۔ 9 میں درج ہے۔ اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کاہن نے شریعت کے حکم کے برخلاف داؤد کو روٹی دی، کیونکہ ضرورت نے اُس کام کی اجازت دی جو منع تھا۔

ب۔ تب مسیح نے واضح کیا کہ شریعت کا مطمع نظر اُس کے الفاظ نہیں بلکہ اُس کی رُوح تھی:

"کاہِن سبت کے دِن ہیکل میں سبت کی بے حُرمتی کرتے ہیں اور بے قصور رہتے ہیں" (متی 12: 5)۔ کاہِن سبت کے دِن شریعت کو توڑتے ہیں کیونکہ کاہِن ہر سبت کے دِن "دو بے عیب یکسالہ نر برّے اور نذر کی قُربانی کے طور پر اَیفہ کے پانچویں حِصّہ کے برابر مَیدہ جِس میں تیل مِلا ہو تپاون کے ساتھ" گزرانتے ہیں، اور یہ "دائِمی سوختنی قُربانی اور اُس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر سبت کی سوختنی قُربانی ہے" (گنتی 28: 9، 10)۔

ج۔ مسیح نے بتایا کہ شاگردوں کے ساتھ اور اُن میں آپ کی حضوری ہیکل سے بڑی ہے:

"مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہاں وہ ہے جو ہَیکل سے بھی بڑا ہے" (متی 12: 6)۔ آپ نے اپنے آپ کو ہیکل کے طور پر بیان کیا، کیونکہ آپ نے رُوح القُدس سے بھرے ہوئے اُس کی راہنمائی میں تعلیمات دیں: "خُداوند کا رُوح مُجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خُوشخبری دینے کےلئے مسح کیا" (لوقا 4: 18)۔

د۔ مسیح نے کہا کہ اُس کے پاس شریعت پر اختیار تھا:

"کیونکہ اِبنِ آدم سبت کا مالک ہے" (متی 12: 8)۔ جناب مسیح شریعت دینے والے کے طور پر آئے: "تُم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ ۔۔۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں" (متی 5: 21، 22، 27، 33)۔ یہاں، ہم مسیح کی عظمت اور اختیار کو دیکھتے ہیں۔ یقیناً، موسیٰ کو خُدا کی طرف سے شریعت ملی، لیکن مسیح نے ہمیشہ کہا، "مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں" کیونکہ یسوع مسیح پیام اور پیامبر، کلام اور متکلم ہیں۔ آپ اپنے سے پہلے آنے والوں میں لاثانی ہیں اور کوئی بھی فرد آپ کے مقام کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اِس پر اتفاق ہے کہ دِین داری کا بھید بڑا ہے کیونکہ خُدا جسم میں ظاہر ہُوا (1۔ تیمتھیس 3: 16)۔

اِس کے بعد مسیح نے یہودی بزرگوں سے پوچھا: "تُم میں ایسا کون ہے جس کی ایک ہی بھیڑ ہو اور وہ سبت کے دِن گڑھے میں گر جائے تو وہ اُسے پکڑ کر نہ نکالے؟ پس آدمی کی قدر تو بھیڑ سے بہت ہی زیادہ ہے۔ اِس لئے سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے" (متی 12: 11، 12)۔ اِس تشریح سے ہم مسیح کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں جو نئی شریعت دیتا ہے جس نے پرانی شریعت کو مکمل کیا۔

یہودی بزرگ ناخوش تھے کیونکہ وہ شریعت کے الفاظ کے غلام تھے۔ لیکن عام لوگ بےحد خوش تھے کیونکہ مسیح نے اُنہیں آزادی کی منادی کی۔ "پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے" (یوحنّا 8: 36)۔ لوگ شریعت کی رُوح چاہتے ہیں۔ سبت اِنسان کی خاطر بنا، نہ کہ اِنسان سبت کی خاطر بنا۔ کیونکہ خُداوند نے اپنے قوانین ہمیں غلام بنانے کےلئے نہیں دیئے بلکہ ہماری خدمت کےلئے دیئے ہیں۔

3۔ خُداوند یسوع اور معجزہ

الف۔ مسیح کا مطمع نظر جوہر ہے:

یسوع مسیح چاہتے ہیں کہ ہم شریعت کی رُوح کا خیال رکھیں۔ آپ ظاہری صورت پر نہیں بلکہ دِل پر نگاہ کرتے ہیں۔ آپ میں یہ قول پورا ہُوا: "اِنسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خُداوند دِل پر نظر کرتا ہے" (1۔ سموئیل 16: 7)۔ مسیح میں ایمانداروں کے طور پر یہ ہماری زندگی کی خوبصورتی ہے کہ ہم شریعت کی رُوح کے بارے میں فکرمند ہیں۔ "کیونکہ مَیں قُربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہُوں اور خُدا شناسی کو سوختنی قُربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں" (ہوسیع 6: 6)۔

ہم مسیح کے مجسم محبّت ہونے کی حقیقت میں اصل نکتہ کےلئے فکر کو دیکھتے ہیں۔ مسیح کی شریعت محبّت کی شریعت ہے۔ مسیح ہمیں یہ کہنے کی ترغیب دیتا ہے: "اگر مَیں آدمیوں اور فرِشتوں کی زُبانیں بولوں اور محبّت نہ رکھوں تو مَیں ٹھنٹھناتا پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ ہوں" (1۔ کرنتھیوں 13: 1)۔ حقیقی مسیحی کہتے ہیں: "میری کامیابیاں چاہے وہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں، اور میرے الفاظ چاہے وہ کتنے ہی فصیح اور دلکش کیوں نہ ہوں، محبّت کے بغیر وہ خالی آوازیں ہیں، جن کی کوئی قیمت نہیں!"

ب۔ مسیح بھلائی کرنے والے کے طور پر:

مسیح لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاتا، خواہ وہ مسیح کے مخالف ہوں یا اُس سے محبّت کرنے والے۔ بھلائی کرنے کےلئے مسیح کی رضامندی اِس حقیقت سے پھوٹتی ہے کہ وہ محبّت ہے۔ خُداوند ہمیشہ محبّت کا کام کرتا ہے۔ ہمیں کبھی بھی زِندگی کے حالات میں سے چاہے وہ کڑوے ہوں یا خوشگوار، خُدائے رحیم اور اپنے لئے اُس کی گہری اور کامل محبّت کا تجربہ کئے بغیر نہیں گزرنا پڑے گا۔

ج۔ مسیح بطور انسان

یسوع نے پوچھا: "سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا قتل کرنا؟" وہ خاموش رہے۔ سو، "اُس نے اُن کی سخت دِلی کے سبب سے غمگین ہو کر اور چاروں طرف اُن پر غصّہ سے نظر کر کے" دیکھا (مرقس 3: 5)۔ مسیح نے اپنی انسانیت میں اپنے جذبات کا اظہار کیا، اور وہ احساسات آپ کے چہرے پر صاف ظاہر ہوئے۔

جب ایک گونگے بہرے شخص کو مسیح کے پاس لایا گیا، تو آپ نے "آسمان کی طرف نظر کر کے ایک آہ بھری اور اُس سے کہا اِفّتّح یعنی کُھل جا" (مرقس 7: 34)۔ مسیح نے بنی نوع اِنسان کے دُکھوں پر آہ بھری۔ ایک امیر آدمی نے مسیح سے ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں پوچھا، تو مسیح نے اُس کی طرف دیکھا، اور آپ کو اُس پر پیار آیا اور آپ نے کہا: "ایک بات کی تُجھ میں کمی ہے۔ جا جو کچھ تیرا ہے بیچ کر غریبوں کو دے۔ تُجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آ کر میرے پیچھے ہو لے" (مرقس 10: 21)۔ یہاں ہم مسیح کے جذبات دیکھتے ہیں: دِلوں کی سختی پر غم اور ضرورت مندوں کےلئے محبّت۔

د۔ مسیح جو ناممکن کو ممکن کر دِکھانے کے قابل ہے:

جب ہمیں لگتا ہے کہ کسی مسئلہ کو حل کرنا ناممکن ہے، اور کسی مخمصے سے نکلنا ناممکن ہے، تو ہم مسیح کو پاتے ہیں جو ناممکن کو ممکن کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ سوکھا ہُوا ہاتھ ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا حل ناممکن تھا لیکن مسائل کے حل کرنے والے قادر مطلق نے اُسے حل کر دیا! وہ ہمیشہ آپ سے کہتا ہے: اِیمان کا ہاتھ بڑھاؤ اور بڑی برکت حاصل کرو۔ "اب تک تُم نے میرے نام سے کچھ نہیں مانگا۔ مانگو تو پاؤ گے تا کہ تُمہاری خوشی پُوری ہو جائے" (یوحنّا 16: 24)۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، ہم یسوع کےلئے تیرا شکر کرتے ہیں جس نے شریعت کو پورا کیا اور ہم پر اُس کی رُوح کو واضح کیا، اور ہم پر وہ محبّت ظاہر کی جو گنہگار کےلئے معافی اور بیماروں کےلئے صحت کے ساتھ ترس ظاہر کرتی ہے۔ مسیح نے بغیر کسی حساب کے، ہر درخواست اور توقع سے کہیں زیادہ عنایت کیا۔

میری مدد فرما کہ آج مَیں مسیح کے کام کا ویسے ہی تجربہ کروں جیسے سوکھے ہاتھ والے شخص نے کیا۔ وہ اَب بھی اپنی رُوح القُدس کے وسیلہ ہمارے درمیان ہے، اور ہماری خواہش یا توقع سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. یہودی بزرگوں نے مسیح کے شاگردوں کو کیوں ملامت کی؟

  2. اِس حقیقت کے روحانی معانی بیان کریں کہ سوکھا ہاتھ کام نہیں کر سکتا، سلام کےلئے بڑھایا نہیں جا سکتا، نہ دے سکتا ہے اور نہ وصول کر سکتا ہے۔

  3. خُدا کے یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ "تُم مُجھ کو ٹھگتے ہو" (ملاکی 3: 8)؟

  4. یسوع نے بیمار آدمی کو حکم دیا "اپنا ہاتھ بڑھا۔" اِس کےلئے ہمّت کی ضرورت تھی۔ بیمار آدمی نے اِس کا اظہار کیسے کیا؟

  5. اِس معجزے سے ثابت کریں کہ مسیح شریعت ساز تھا۔

  6. یسوع نے اصل نکتہ کےلئے فکر کی۔ یسوع نے اِس معجزے میں یہ کیسے ظاہر کیا؟

  7. اِس معجزے میں ہم مسیح کی اِنسانیت دیکھتے ہیں۔ اِس کی وضاحت کریں۔

نواں معجزہ: رومی صوبہ دار کے نوکر کو شفا

"جب وہ لوگوں کو اپنی سب باتیں سُنا چُکا تو کفرنحوم میں آیا۔ اور کسی صوبہ دار کا نوکر جو اُس کو عزیز تھا بیماری سے مرنے کو تھا۔ اُس نے یسوع کی خبر سُن کر یہودیوں کے کئی بزرگوں کو اُس کے پاس بھیجا اور اُس سے درخواست کی کہ آ کر میرے نوکر کو اچھّا کر۔ وہ یسوع کے پاس آئے اور اُس کی بڑی منّت کر کے کہنے لگے کہ وہ اِس لائق ہے کہ تُو اُس کی خاطر یہ کرے۔ کیونکہ وہ ہماری قوم سے محبّت رکھتا ہے اور ہمارے عبادت خانہ کو اُسی نے بنوایا۔ یسوع اُن کے ساتھ چلا مگر جب وہ گھر کے قریب پہنچا تو صوبہ دار نے بعض دوستوں کی معرفت اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اَے خُداوند تکلیف نہ کر کیونکہ مَیں اِس لائق نہیں کہ تُو میری چھت کے نیچے آئے۔ اِسی سبب سے مَیں نے اپنے آپ کو بھی تیرے پاس آنے کے لائق نہ سمجھا بلکہ زُبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پائے گا۔ کیونکہ مَیں بھی دُوسرے کے اختیار میں ہُوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں اور جب ایک سے کہتا ہُوں جا تو وہ جاتا ہے اور دُوسرے سے آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔ یسوع نے یہ سُن کر اُس پر تعجّب کیا اور پھر کر اُس بِھیڑ سے جو اُس کے پیچھے آتی تھی کہا مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ مَیں نے اَیسا ایمان اِسرائیل میں بھی نہیں پایا۔ اور بھیجے ہُوئے لوگوں نے گھر میں واپس آ کر اُس نوکر کو تندرست پایا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 7: 1۔ 10؛ مزید دیکھئے متی 8: 5۔ 13)

متی کہتا ہے کہ صوبہ دار مسیح کے پاس گیا اور اُس سے اپنے نوکر کےلئے شفا کی درخواست کی، جب کہ لوقا کہتا ہے کہ صوبہ دار نے یہودی بزرگوں کو مسیح کے پاس بھیجا تا کہ آپ سے ایسا کرنے کو کہیں۔ تاہم، اِن دونوں بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ یہودی بزرگوں نے مسیح کے سامنے صوبہ دار کی نمائندگی کی۔ اُنہوں نے مسیح کو اُس کے بارے میں بتایا: "وہ ہماری قوم سے محبّت رکھتا ہے اور ہمارے عبادت خانہ کو اُسی نے بنوایا۔" یقیناً اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صوبہ دار نے اُسے واقعی اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، بلکہ یہ کہ معماروں اور بڑھئیوں نے اُس کی نمائندگی کی تھی۔ ایک فرد کہہ سکتا ہے کہ اُس نے اِسے اپنے ہاتھوں کے بغیر بنایا تھا! اِسی طرح، صوبہ دار مسیح کے پاس حقیقت میں موجود ہوئے بغیر آیا۔ یہودی بزرگوں نے اُس کی نمائندگی کی۔

متی اِنجیل نویس نے بیمار نوکر کی اِن الفاظ میں کامل تصویر کشی کی ہے: "میرا خادِم فالج کا مارا گھر میں پڑا ہے اور نہایت تکلیف میں ہے،" جبکہ لوقا اِنجیل نویس کہتا ہے: "کسی صوبہ دار کا نوکر جو اُس کو عزیز تھا بیماری سے مرنے کو تھا۔

اِس باب میں، مسیح کی شخصیت ہمیں ایک خاص انداز میں اپنی جانب کھینچتی ہے، کیونکہ وہ زندہ نجات دہندہ ہے، جس نے اُس وقت معجزہ دکھایا، اور جو آج بھی معجزے دکھا رہا ہے، کیونکہ وہ کل، آج اور ابد تک یکساں ہے (عبرانیوں 13: 8)۔ اِس معجزاتی بیان میں صوبہ دار اپنے اخلاق، حلیمی اور اِیمان سے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے۔ ہماری دُعا ہے کہ خُدا ہمیں صوبہ دار کی طرح محبّت کرنے والا، حلیم اور وفادار بنائے، تا کہ ہم اپنے، اپنے گھروں اور اپنے لوگوں کےلئے خُداوند سے برکت حاصل کر سکیں۔

یہ صوبہ دار ہمیں ایک اَور نیک صوبہ دار کارنیلیئس کی یاد دلاتا ہے (اعمال 10 باب)۔ وہ جس مذہب میں پیدا ہُوا تھا اُس کے مطابق بت پرست تھا۔ تاہم، اُسے اِس میں اطمینان نہ ملا تھا، اور اُس نے سچائی کی تلاش شروع کر دی تھی، بالکل اُسی طرح جیسے حبشی خوجہ نے کی تھی جو وزیر اور خزانہ کا مختار تھا (اعمال 8 باب)، اور تھواتیرہ کی قرمز بیچنے والی لدیہ نے کی تھی جو خُدا کی عبادت کر رہی تھی اور اُس کے نزدیک ہونا چاہتی تھی۔ وہ بالآخر مسیح نجات دہندہ کو جان گئی (اعمال 16 باب)۔

یوحنّا اِنجیل نویس کے مطابق مسیح خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کرنے کےلئے آیا (یوحنّا 11: 52)۔ آپ اطالیہ سے آئے ہوئے اُس صوبہ دار کو اپنی طرف متوجہ کرنے آئے تھے، تا کہ وہ خُداوند اور اُس کے گلہ کے قریب لایا جائے اور اُس کے ساتھ ایک ہو جائے۔ ہم اُس بیمار نوکر کی قومیت نہیں جانتے جو موت کے دہانے پر تھا اور جسے مسیح نے شفا دی تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ اُسے کہاں سے پکڑا گیا تھا یا اُسے قید کر کے کفرنحوم میں صُوبہ دار کے ہاں بیچ دیا گیا تھا۔ لیکن مسیح اِنسانیت کے درمیان جُدائی (دشمنی) کی درمیانی دیوار مٹانے کےلئے آیا ہے، تا کہ مختلف قومیتوں سے خُدا کے فرزندوں کو اکھٹا کرے (افسیوں 2: 14)۔ اُس کے الفاظ کتنے خوبصورت ہیں: "اور میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑ خانہ کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سُنیں گی۔ پھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا" (یوحنّا 10: 16)۔ ہم اُن تمام لوگوں کےلئے خُدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہر گروہ اور پس منظر سے زندہ مبارک نجات دہندہ کو ڈھونڈنے اور جاننے آتے ہیں۔

اور آئیے اَب ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ بیمار نوکر:

اِس شخص کو حقیقت میں معجزے کی احتیاج تھی، لیکن وہ مسیح کے پاس آنے سے قاصر تھا کیونکہ وہ مفلوج تھا۔

اُس کی حالت اُسے مسیح کے پاس لے جانے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ وہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک حالت میں تھا۔ لیکن صوبہ دار نے اُس کا مسئلہ لیا اور اُس کی جگہ (یہودیوں کے بزرگوں کے ذریعے) مسیح سے بات کرنے گیا۔ ہم یہاں ایک بےبس شخص کو دیکھتے ہیں جو اپنی مدد کرنے سے قاصر ہے، جس کی مدد ایک اَور بےبس شخص صوبہ دار کر رہا ہے، جو دوسرے عاجز لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ اُسے اُس ہستی کے پاس لے جائیں جو ہر چیز پر قادر ہے!

ہمارے اپنے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو اِس بےبس اِنسان کی طرح نظر آتے ہیں۔ اُنہیں مسیح کی ضرورت ہے، لیکن وہ اِس ضرورت کو نہیں دیکھتے کیونکہ وہ گناہ کی وجہ سے مفلوج ہو چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو مسیح کے سامنے اُن کا ترجمان ہو۔ خُداوند ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم بہت سے لوگوں کے مسائل کو جو اُس سے دُور ہیں اپنے اوپر لیں۔ آئیے ہم اُن سے محبّت کریں اور یہ امّید رکھتے ہوئے اُن کےلئے دُعا کریں کہ خُدا اُنہیں گناہ کی بیماری سے بچانے کےلئے اُن میں کام کرے گا۔

ب۔ رومی صوبہ دار:

(1) وہ محبت کرنے والا شخص ہے: اُسے اپنا نوکر "عزیز تھا" (آیت 2)۔ اُس زمانے میں نوکروں کو پیسے دے کر خریدا جاتا تھا۔ اُسے ایک شخص نہیں بلکہ ایک چیز سمجھا جاتا تھا۔ کسی غلام کی موت محض ایک مادی نقصان تھا اور اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن صوبہ دار نے اپنے نوکر کی قدر اپنے ہم عصروں سے مختلف انداز میں کی۔ اُس نے اُسے ایک شخص اور عزیز کے طور پر دیکھا۔ صوبہ دار تمام شہریوں سے بھی محبّت کے ساتھ پیش آتا تھا کہ یہودیوں نے اُس کے بارے میں کہا: "وہ ہماری قوم سے محبّت رکھتا ہے" (آیت 5)۔ اُس کی محبّت محض الفاظ یا جذباتی اُلفت نہیں تھی بلکہ عملی تھی کیونکہ اُس نے اُن کےلئے ایک عبادت گاہ بنوائی تھی۔ اپنے کام کے اعتبار سے رومی صوبہ دار قتل و غارت، جنگ اور خونریزی میں مہارت رکھتا تھا۔ یہودی قوم بہت زیادہ انقلاب پسند اور بغاوت کا شکار تھی، اِس لئے اُس علاقے میں آنے والے رومی سپاہی اُن کی بہت سی بغاوتوں کو دبانے کےلئے بہت سخت اور متشدد تھے۔ یہ شخص صوبہ دار کے اعلیٰ عہدے پر اپنی مضبوطی اور بغاوتوں کو موقوف کرنے کی وجہ سے پہنچا ہو گا۔ اِس کے باوجود ہم اُس میں بڑی محبّت اور نرمی دیکھتے ہیں۔ اُس کے کام کی نوعیت اُس پر اثر انداز نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اپنے معاشرے سے متاثر ہُوا تھا۔ اِس کے برعکس اُس نے اپنے معاشرے کو متاثر کیا، اپنے ماحول پر اثر ڈالا، جس کا اُس پر کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اپنے کام میں مضبوط شخصیت تھا۔ بہت سے لوگ اپنی غلطیوں سے اپنے آپ کو یہ کہہ کر بری الذّمہ قرار دیتے ہیں کہ اُن کے عہدے نے اُنہیں غلطی کرنے پر مجبور کیا ہے، لیکن یہ رومی صوبہ دار اپنے عہدہ میں بھلائی اور محبّت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے شاندار رویہ کا حامل تھا۔ یہ ہمیں اپنے ارد گرد کے منفی ماحول کی پرواہ کئے بغیر اپنے اِیمان اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے بارے میں بہت کچھ سکھاتا ہے۔

صوبہ دار کا نوکر اپنے مالک کا وفادار اور مخلص ہو گا۔ آئیے یاد رکھیں کہ ہم خُداوند کے بندے ہیں کیونکہ ہم اُس کی مخلوق ہیں اور اُس کی محبّت نے ہمیں اپنا اسیر کر لیا ہے۔ ہم اُس کے پیارے ہیں، اِس لئے ہمیں اُس کے وفادار رہنا چاہئے۔ آئیے اُس کا شیریں کلام سُنیں: "اَے اچّھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ مَیں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا۔ اپنے مالک کی خُوشی میں شریک ہو" (متی 25: 23)۔ ہمیں اپنے خُداوند کی خوشی میں داخل ہونے کےلئے اپنی زمینی زندگی کے اختتام کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہم اَب اور یہاں اُس کی خوشی میں داخل ہو سکتے ہیں، کیونکہ ہم اُس کی خدمت، فرمانبرداری اور محبّت کرتے ہوئے اُس کی حضوری میں داخل ہوتے ہیں۔

(2) وہ ایک حلیم آدمی ہے: یہودی بزرگوں نے کہا: "وہ اِس لائق ہے کہ تُو اُس کی خاطر یہ کرے" (آیت 4)۔ جبکہ اُس نے خود اپنے بارے میں کہا: "مَیں اِس لائق نہیں کہ تُو میری چھت کے نیچے آئے۔ اِسی سبب سے مَیں نے اپنے آپ کو بھی تیرے پاس آنے کے لائق نہ سمجھا" (آیت 6، 7)۔ وہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنے گھر اور اپنی ذات دونوں میں کتنا نالائق ہے۔ مقدّس اگستین نے کہا: "رومی صوبہ دار کے اِس احساس نے کہ وہ اِس لائق نہیں تھا کہ مسیح اُس کے گھر میں داخل ہُوا، اُسے اِس لائق بنا دیا کہ مسیح اُس کے دِل میں داخل ہو۔"

جناب مسیح بہت سے متکبر لوگوں کے گھروں میں داخل ہوئے، لیکن اُنہیں کسی بھی طرح کی برکت نہیں ملی کیونکہ آپ اُن کے دِلوں میں داخل نہیں ہوئے۔ جہاں تک اِس صوبہ دار کا تعلق ہے، آپ اُس کے گھر میں تو داخل نہیں ہوئے، لیکن اُس کے دِل میں داخل ہوئے اور اُس کی ضرورت کو پورا کیا۔ حلیم اِنسان وہ ہے جو اپنے آپ کو درست انداز سے دیکھے اور جانچے۔ صوبہ دار نے خُداوند یسوع سے کہا: "مَیں نے اپنے آپ کو بھی تیرے پاس آنے کے لائق نہ سمجھا بلکہ زُبان سے کہہ دے تو میرا خادِم شفا پائے گا۔ کیونکہ مَیں بھی دُوسرے کے اِختیار میں ہُوں" (آیت 8)۔ "اِختیار میں" کا مطلب ہے کہ جیسے اُس کی کمان میں سپاہی تھے، ویسے ہی وہ دوسروں کے اِختیار کے تابع تھا۔ سو ایماندار وہ ہے جو اپنے آپ کو اُس سے زیادہ نہیں سمجھتا جیسا اُسے سمجھنا چاہئے (رومیوں 12: 3)، اور نہ ہی وہ خود کو بہت اچھا سمجھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سمجھداری کے مطابق درست طریقے سے جانچتا ہے، جیسے خُدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق اِیمان تقسیم کیا ہے۔ حلیم اِنسان اپنی اصل قدر، اپنی مضبوطی اور کمزوری، اپنی صلاحیت اور عدم صلاحیت کو جانتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو صحیح طریقے سے جانچیں تو تبھی حلیم ہو سکتے ہیں۔

ایک دفعہ ایک طالب علم گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران قاہرہ سے اپنے دادا کو ملنے دیہی علاقہ میں گیا جو ایک کسان تھا۔ وہ لڑکا گندم کے کھیتوں میں سے گزرا، تو کہنے لگا: "دادا، وہاں اونچے سر والے گندم کے ڈنٹھل دیکھیں! وہ کتنے مضبوط ہیں! لیکن یہ ڈنٹھل جھکے ہوئے ہیں۔ اِنہیں شرم آنی چاہئے!" دادا نے اپنے پوتے کی درستی کرتے ہوئے کہا: "گندم کے سیدھے ڈنٹھل میں زیادہ اناج نہیں ہوتا، لیکن جھکنے والے ڈنٹھل میں بہت زیادہ اناج موجود ہوتا ہے۔ خالی خوشے سر اُٹھاتے ہیں جب کہ بھرے ہوئے جھک جاتے ہیں۔" ہمارا خُدا ہمیں وہ حلیمی عنایت کرے کہ ہم اُس کے سامنے جھک جائیں اور خُداوند کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے کہیں: "مَیں اپنے آپ کو تیرے پاس آنے کے قابل نہیں سمجھتا، اور مَیں اِس لائق نہیں ہوں کہ تُو میری چھت کے نیچے آئے۔"

(3) وہ ایک ایماندار شخص ہے: اُس نے کہا، "زُبان سے کہہ دے تو میرا خادِم شفا پائے گا۔" یہ عسکری آدمی، جو حکم دینے کا عادی تھا اور ہمیشہ اُن پر عمل کرواتا تھا، اِس بات سے واقف تھا کہ آسمان اور زمین پر تمام اختیار مسیح کو دیا گیا تھا، اِس لئے وہ مسیح کے کلام کی قدرت پر اِیمان لایا۔ وہ اپنے آپ کو ادنیٰ مقام پر رکھ کر اعلیٰ مقام والی شخصیت سے مخاطب ہُوا، اور ناممکن کام کو اُس کے سامنے رکھا جو اُسے کرنے پر قادر ہے۔ ابنِ مریم، ناصرت کے بڑھئی میں صوبہ دار نے معجزہ ساز اور صاحب اختیار کو دیکھا، جس کا کلام سفر کر کے اُس جگہ جا سکتا تھا جہاں بیمار نوکر مرنے کے قریب تھا۔

صوبہ دار نے مسیح سے اپنے خادم کی شفا یابی کی کوئی نشانی نہیں مانگی بلکہ اُس کا یقین تھا کہ مسیح کے کلام سے معجزہ ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی ہُوا۔ مسیح نے اُس کے اِیمان کو سراہتے ہوئے کہا، "مَیں نے اَیسا اِیمان اِسرائیل میں بھی نہیں پایا۔" عظیم ایمان، عظیم شخصیت پر مرکوز ہوتا ہے، اِس لئے ہمارے اِیمان کا مرکز اہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صوبہ دار نے کسی اِنسانی طبیب پر اپنا ایمان رکھا ہو لیکن وہ اُس کے خادم کو شفا دینے سے قاصر تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اُسے دُعا کی غرض سے یہودی بزرگوں میں سے کسی کے پاس لے گیا ہو، مگر وہ ٹھیک نہ ہُوا۔ لیکن جب وہ اُس شخصیت پر اِیمان لایا جو اِیمان رکھے جانے کے قابل ہے، تو شفا مل گئی۔ ہم کہتے ہیں کہ دعائیں مسائل کو حل کرتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ صرف وہ ذریعہ ہیں جو ہمیں حقیقی مسئلہ حل کرنے والے سے رابطہ میں لاتی ہیں، جو اِس لائق ہے کہ اُس پر اعتماد رکھا جائے۔

ایک بار نپولین اپنی فوجوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ اُس کے گھوڑے کی لگام نیچے گر گئی اور گھوڑا بھاگ گیا۔ ایک سپاہی ہمّت سے آگے آیا، اُسے روکا اور لگام واپس بادشاہ کو دے دی، جس نے اُس سے کہا، "کمان دار، آپ کا شکریہ۔ میں آپ کا مقروض ہوں۔" سپاہی نے اپنے ردعمل کا اظہار یہ پوچھتے ہوئے کیا: "میرے مالک، کس ڈویژن کا کمان دار؟" نپولین اِس پر حیران ہوا اور کہنے لگا، "میرے نجی محافظوں کی ڈویژن کا کمان دار۔" تب سپاہی نے اپنی بندوق نیچے پھینک دی اور کہا، "جو چاہے لے سکتا ہے۔" اور وہ نپولین کے نجی محافظوں کی ڈویژن کی کمان لینے چلا گیا کیونکہ اُس نے بادشاہ کی بات پر یقین کیا تھا۔

صوبہ دار کا ایمان بہت بڑا تھا کیونکہ اُسے یقین تھا کہ اُس کا نوکر بتدریج نہیں بلکہ فوری طور پر ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم اُس کے اِیمان کی عظمت کا یہودیوں کے اِیمان سے موازنہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اُس جیسا اِیمان اِسرائیل میں موجود نہیں تھا۔

2۔ یہودی بزرگ اور معجزہ

یہودی بزرگوں کی تمام تر توجہ رومی صوبہ دار پر مرکوز تھی۔ نہ ہی بیمار خادم اور نہ ہی مسیح اُن کےلئے کچھ معنٰی رکھتے تھے۔ اُنہوں نے کہا، "وہ اِس لائق ہے کہ تُو اُس کی خاطر یہ کرے۔ کیونکہ وہ ہماری قوم سے محبّت رکھتا ہے اور ہمارے عبادت خانہ کو اُسی نے بنوایا۔" بہت سے لوگ صرف سطحی طور پر دیکھتے ہیں اور گہرائی تک نہیں جاتے۔ یہ بزرگ رومی صوبہ دار کی درخواست پیش کرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے، کیونکہ اُنہوں نے صوبہ دار کےلئے اپنے ذِمہ واجب کام کر دیا تھا۔ اُن کا برتاؤ اپنے اُن ساتھیوں کی طرح تھا جن سے ہیرودیس نے مسیح کی جائے پیدایش کی بابت پوچھا تھا، اور اُنہوں نے جواب دیا، "یہودیہ کے بیت لحم میں" (متی 2: 5)۔ تاہم، اُن میں سے کوئی بھی اُس نوزائیدہ بچے کو دیکھنے کےلئے قریبی علاقہ بیت لحم کی طرف نہیں گیا، جس کے بارے میں وہ تمام پیشین گوئیاں یاد کر چکے تھے۔ سطحی اندازِ فکر کو کوئی برکت نہیں ملتی۔ اُنہوں نے اِس معجزے کےلئے یسوع پر تنقید نہیں کی، بلکہ وہ محض صوبہ دار کی درخواست پیش کرنے والے افراد تھے۔ اُن کا کردار اُس بےبس شخص کو اُس ہستی کے پاس لانے سے ختم ہُوا جو مدد کر سکتی تھی۔ جہاں تک اُن کا تعلق ہے، اُنہیں کوئی فائدہ نہیں ہُوا۔ وہ اُس نوکر کی شفا میں مدد کرنے والا ایک عنصر تھے۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح کی حلیمی:

مسیح نے صوبہ دار سے کہا: "مَیں آ کر اُس کو شفا دُوں گا" (متی 8: 7)۔ یہودی بزرگوں کے توسط سے صوبہ دار کی درخواست کو خوش اسلوبی اور محبّت سے قبول کیا گیا۔ یسوع مسیح جانے کےلئے تیار تھے، اور آپ حقیقت میں وہاں گئے: "یسوع اُن کے ساتھ چلا" (لوقا 7: 6)۔ جناب مسیح ہمارے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کی زندگی میں کتنا زیادہ کام کیا!

مسیح کی دو عظیم آمدیں ہیں۔ پہلی جب آپ چرنی میں ہمارے پاس آئے، اور دوسری دُنیا کے آخر میں جس کا ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن اِن دو عظیم آمدوں کے درمیان مسیح ایمانداروں کے پاس ہزاروں بار آتا ہے: دفتر میں وہ ایماندار کے کام میں کسی مسئلے کو حل کرنے کےلئے مدد فراہم کرنے آتا ہے، اُس کے بستر پر اُس کی بیماری میں ساتھ دینے آتا ہے، اُس کی تنہائی میں یا اُس کی بےچینی میں اُسے اطمینان فراہم کرنے آتا ہے، اُس کی زندگی میں جب طوفانی لہریں پیدا ہو رہی ہوں تو وہ اُنہیں تھمانے کےلئے آتا ہے۔ اور خوشی کے وقت میں وہ پہلے ہی آ چکا ہے، کیونکہ وہ خوشی اور شادمانی کا منبع ہے۔ وہ ہمیشہ آتا ہے اور کبھی دیر نہیں کرتا: اُس کی تلاش کرنا اور اُسے نہ پانا ناممکن ہے، کیونکہ جب ہم مانگتے ہیں تو نہ صرف ہمیں مادی اشیاء ملتی ہیں، بلکہ اُس کی شیریں اور پُر فضل شخصیت کی رفاقت بھی ملتی ہے جو سب سے اہم ہے۔

ب۔ مسیح کی سُرعت:

"مَیں آ کر اُس کو شفا دُوں گا۔" مسیح نے ہمارے لئے دیر نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب آپ نے دو بہنوں مریم اور مرتھا کو انتظار کروایا، اور آپ اُن کے بھائی لعزر کی موت کے بعد پہنچے، تو اِس کا مقصد صرف ایک بیماری کے علاج سے زیادہ اُن کو ایک بڑی برکت دینا تھا۔ وہ دیر نہیں کرتا جیسا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ صحیح وقت پر آتا ہے تا کہ زیادہ مہربان ہو اور ایک بڑی برکت عنایت کرے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اُس سے شکوہ کریں، لیکن وہ ہمارے پاس جلد آ کر اپنے میٹھے الفاظ سے اب بھی ہمارے دِلوں کو تسلی دیتا ہے۔

ج۔ مسیح کی قدرت:

آپ کے کلام میں اختیار ہے۔ "سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں" (یوحنّا 1: 3)۔ مسیح ہر چیز کا بنانے والا ہے۔ مسیح کمزوری کی جگہ پر براہ راست ہاتھ بڑھاتا ہے تا کہ اُس کا علاج کیا جا سکے اور پریشان کن مسئلہ کو حل کیا جا سکے۔ اکثر ہم اپنے مسائل کی غلط تشخیص کرتے ہیں، لیکن مسیح صحیح تشخیص کرتا ہے اور کامل محبّت کے ساتھ صحیح علاج کی پیشکش کرتا ہے۔

مسیح کھوئے ہوؤں کو بچانے کےلئے آیا۔ آپ نے خود موت کو موت دے دی۔ بیماری موت کی پہلی علامت ہے۔ جناب مسیح ہماری بیماریوں کو شفا دینے اور ہماری مصیبتوں کو برداشت کرنے آئے۔ ہمارا بدن مسیح کے نزدیک اہم ہے کیونکہ یہ وہ ہیکل ہے جس میں رُوح القُدس بستا ہے، اور اِس بدن کو وہ آخری دِن زندہ کرے گا۔

د۔ مسیح کی طرف سے انتباہ:

"مَیں نے اَیسا اِیمان اِسرائیل میں بھی نہیں پایا" (آیت 9)۔ یہ صوبہ دار کےلئے تعریفی الفاظ ہیں، جبکہ اِسرائیل کی قوم کےلئے سرزنش ہیں۔

جب بھی ہم کسی شخص کو کسی دوسرے گروہ سے مسیح کے پاس آتے دیکھتے ہیں، جو خُداوند کے ساتھ رہتا ہے، اُس سے محبّت کرتا ہے اور مسیح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانی دیتا ہے، ہم اُس شخص کےلئے شکر گزاری پیش کرتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ جو لوگ اِس بھیڑ خانہ کے ہیں کیا وہ اِن افراد کی طرح خُداوند سے محبّت رکھتے، خدمت کرتے اور اُس کےلئے قربانی دیتے ہیں (یوحنّا 10: 16)۔

آئیے ہم اپنے آپ کو اِس محبّت کرنے والے حلیم خُداوند کے سپرد کر دیں جس کے پاس تمام اِختیار ہے تا کہ وہ اِیمان، محبّت اور حلیمی کی طاقت سے ہمیں اپنے بندے بنا دے۔

دُعا

اے آسمانی باپ، مَیں تیری عظیم قدرت اور بے پناہ محبّت کےلئے تیرا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تُو میری ضرورت میں مجھے عنایت کرتا ہے۔ جب میرے وسائل ختم ہو جاتے ہیں تو تُو اپنے فضل سے معجزہ کرنے کےلئے مداخلت کرتا ہے جسے میرے الفاظ بیان نہیں کر سکتے، اور جس کا میری زبان تیرا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. رومی صوبہ دار کی مسیح کے سامنے اپنے نوکر کی شفا کےلئے درخواست کے تعلق سے متی اور لوقا کے اِنجیلی بیان کے بظاہر نظر آنے والے تضاد کی آپ کیسے وضاحت پیش کریں گے؟

  2. مسیح نے اِس معجزے کے ذریعے خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو کیسے اکھٹا کیا؟

  3. آپ کسی ایسے شخص کے مسئلے کی کیسے فکر کرتے ہیں جو مسیح کے پاس آنے سے قاصر ہے؟

  4. صوبہ دار کی حلیمی کیسے ظاہر ہوئی؟

  5. صوبہ دار کی محبّت کیسے ظاہر ہوئی؟

  6. آپ اِس معجزے میں مسیح کی حلیمی کیسے دیکھتے ہیں؟

  7. اِس معجزے میں مسیح نے ہمیں کون سا اِنتباہ کیا ہے؟

دسواں معجزہ: نائین نامی شہر کے بیوہ کے بیٹے کو زندہ کرنا

"تھوڑے عرصہ کے بعد اَیسا ہُوا کہ وہ نائین نام ایک شہر کو گیا اور اُس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اُس کے ہمراہ تھے۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدِیک پہنچا تو دیکھو ایک مُردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اِکلوتا بیٹا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اُس کے ساتھ تھے۔ اُسے دیکھ کر خُداوند کو ترس آیا اور اُس سے کہا مت رو۔ پھر اُس نے پاس آ کر جنازہ کو چُھؤا اور اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے اور اُس نے کہا اَے جوان مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔ وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُس کی ماں کو سونپ دِیا۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور وہ خُدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہُوا ہے اور خُدا نے اپنی اُمّت پر توجّہ کی ہے۔ اور اُس کی نسبت یہ خبر سارے یہودیہ اور تمام گرد و نواح میں پھیل گئی۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 7: 11۔ 17)

وہ محبّت کتنی زبردست ہے جو انتہائی حقیر جگہوں پر انتہائی پست لوگوں تک پہنچتی ہے تا کہ گہری مایوسی کو زبردست خوشی میں بدل دے! کفرنحوم کے قریب نائین نامی گاؤں مسیح کے معجزہ کی وجہ سے تاریخ میں امر ہو گیا ہے کیونکہ یہاں مسیح نے ایک مُردہ نوجوان کو زندہ کیا جو اپنی بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نائین، شونیم کے قریب واقع تھا، جہاں الیشع نبی نے شونیمی عورت کے بیٹے کو خُدا کی مرضی اور قدرت سے زندہ کیا تھا، اور یہ واقعہ نائین کی بیوہ کے بیٹے کے زندہ کرنے سے نو سو سال پہلے ہُوا تھا (2۔ سلاطین 4 باب)۔ مسیح نے اپنے کلام کے اِختیار سے بیوہ کے بیٹے کو زندہ کیا جب اُس سے کہا: "اَے جوان مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔"

مسیح اپنے پیروکاروں کی ایک جماعت کے ساتھ نائین نامی گاؤں میں اُس وقت داخل ہُوا جب اُس کے دروازے سے لوگوں کا ایک ہجوم جنازہ لے کر باہر نکل رہا تھا۔ اور یکدم زندگی کے خُداوند اور بانی کا موت کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ ہُوا۔ اور گویا شیطان مسیح کو للکارتے ہوئے کہہ رہا تھا: "مَیں نے اِس نوجوان کو اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اِسے میرے ہاتھوں سے کون بچا سکتا ہے؟ اِنسان کو اپنے گناہ کی مزدوری لازماً ادا کرنی ہے۔ تم کیا کر سکتے ہیں؟ تم خود میری گرفت میں آ جاؤ گے اور مر کر قبر میں دفن ہو جاؤ گے!"

یہ ٹکراؤ ہم پر نہ صرف ایک معجزہ یعنی بیوہ کے بیٹے کا مُردوں میں سے زندہ ہونا ظاہر کرتا ہے، بلکہ مسیح کی پوری زندگی کے معجزہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ مسیح جو ایک مرد کے طور پر ہمارے پاس آیا، ایک عورت سے شریعت کے ماتحت پیدا ہُوا، ہمارے درمیان رہا اور ہر چیز کا تجربہ کیا جس کا ہم نے تجربہ کیا ہے (سوائے گناہ کے)۔ وہ مر گیا اور دفن ہُوا۔ تاہم، وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ مسیح کی پوری خدمت مُردوں کو زندہ کرنے پر مشتمل تھی، جنہیں گناہ نے مار ڈالا تھا، اور جن کی زندگیاں اُس نے تباہ کر دی تھیں۔ مسیح کا فرمان ہے: "چونکہ مَیں جِیتا ہُوں تُم بھی جیتے رہو گے" (یوحنّا 14: 19)۔ جب آپ نے لعزر کو زندہ کیا تو آپ نے کہا: "قِیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں۔ جو مُجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زِندہ ہے اور مُجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا" (یوحنّا 11: 25، 26)۔ آپ نے یہ الفاظ کہے اور یہ لعزر کو زندہ کرنے سے ثابت ہوئے۔ آپ نے اِن الفاظ کو خود مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے بھی ثابت کیا۔ آج آپ یہ الفاظ ہم میں سے بھی ہر ایک سے کہتے ہیں۔ اور اِن کا ثبوت ہمیں گناہ کی موت سے زندہ کرنے سے ہوتا ہے، تا کہ آپ کا یہ قول سچ ثابت ہو: "مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حُکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔ بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لئے کہ وہ آدم زاد ہے" (یوحنّا 5: 24۔ 27)۔

یہ ہمارے گناہوں کی موت سے پہلی قیامت ہے: "وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے" جب گناہ میں مرے افراد خُدا کے بیٹے کی آواز سُنتے ہیں، اور جو اُسے سنتے ہیں اور اُس کےلئے اپنے کان اور دِل کھولتے ہیں، وہ زندہ ہوں گے، کیونکہ خُداوند اُن کے ساتھ وہی معجزہ کرتا ہے جو اُس نے نائین میں بیوہ کے بیٹے کے ساتھ کیا تھا، اِس کی وجہ یہ ہے کہ مسیح اپنے اندر زندگی رکھتا ہے۔ مستقبل میں ایک اَور گھڑی آئے گی، کیونکہ مسیح کو عدالت کرنے کا اِختیار دیا گیا ہے۔ "وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قَبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے" (یوحنّا 5: 28، 29)۔

نو سو برس سے کوئی بھی مُردوں میں سے نہیں جی اُٹھا تھا (قب 2۔ سلاطین 4 باب)، تو مسیح نے اِس بیوہ کو اُس کے بیٹے کو زندہ کرنے کےلئے کیوں چنا؟ کیا اُس دِن فلسطین میں کسی اَور نوجوان کی وفات نہیں ہوئی تھی؟

اِس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ہم الٰہی فضل کے بھیدوں سے ناواقف ہیں، لیکن جب بھی الٰہی عنایت ہمیں برکت کےلئے چُنتی ہے، اور خُدا ہمیں اردگرد کے بہت سے لوگوں سے ممتائز انداز میں ذاتی طور پر چھوتا ہے تو آئیے ہم اُس کے شفقت بھرے الفاظ کو سُنیں: "تُم نے مجھے نہیں چُنا بلکہ مَیں نے تمہیں چُن لیا اور تُم کو مقرّر کیا کہ جا کر پھل لاؤ اور تمہارا پھل قائم رہے" (یوحنّا 15: 16)۔ یہاں ہمیں حلیمی کے ساتھ شکر گزاری کی دعا مانگنی چاہئے، کیونکہ ہمارا کسی چیز پر کوئی حق نہیں ہے، لیکن ہم اُس فضل سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو خُدا نے اپنی محبّت میں ہم پر کیا ہے۔

آئیے اَب ہم اِن پہلوؤں پر غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

اِس واقعہ میں وہ ماں ضرورت مند فرد تھی جس کا بیٹا کھو گیا تھا:

الف۔ یہ عورت بغیر امّید کے تھی:

اُس کا شوہر مر چکا ہے، اور اَب اُس کا اکلوتا بیٹا بھی مر گیا ہے۔ اکلوتا بیٹا اُس کی محبّت کا مرکز، اُس کی اولاد اور اُس کا خیال رکھنے والا تھا۔ ایک بیوہ کے طور پر اُس کے پاس (جسمانی اعتبار سے) مستقبل کی کوئی امّید نہ تھی۔ اُس کےلئے پہلا صدمہ اُس کے شوہر کی موت تھی۔ یہ گہرا صدمہ تھا! اور پھر دوسرا صدمہ، اُس کے اکلوتے بیٹے کی موت مہلک ترین صدمہ تھا! وہ مصیبت اور غم سے دوچار تھی۔ خُدا اپنی محبّت میں جانتا ہے کہ اِس قسم کی شدید مصیبت ایک شخص کےلئے کتنی تکلیف کا باعث بن سکتی ہے، اور اِن الفاظ میں اُس بیوہ کی جھلک نظر آتی ہے: "مَیں داؤد کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی رُوح نازل کروں گا اور وہ اُس پر جس کو اُنہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اُس کےلئے ماتم کریں گے جیسا کوئی اپنے اِکلوتے کےلئے کرتا ہے اور اُس کےلئے تلخ کام ہوں گے جیسے کوئی اپنے پہلوٹھے کےلئے ہوتا ہے" (زکریاہ 12: 10)۔ یہ اُس نفسیاتی جذباتی درد کی تحریری تفصیل ہے جس کا سامنا اُس بیوہ نے کیا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو دیا۔

ب۔ یہ عورت سخت تکلیف میں تھی:

یہ گناہ کا سنگین ترین نتیجہ تھا۔ "پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یُوں موت سب آدمِیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا" (رومیوں 5: 12)۔ نائین نامی شہر کی بیوہ کے پیالے میں غم کو اُنڈیلا گیا تھا۔ اُس نے دو بار گناہ کے بدترین نتائج دیکھے۔

ج۔ وہ دُکھ اُٹھا رہی تھی:

بعض اوقات ہمارے درد کی آواز ہماری دعاؤں کی آواز سے زیادہ بلند ہوتی ہے۔ اور خُداوند کا دِل ہمارے غم میں ہم پر مرکوز ہوتا ہے، اور وہ ہمارے آنسوؤں اور ہماری شکستہ رُوحوں اور غم کو دیکھتا ہے جو ہمارے دِلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ہم ہمیشہ نہیں جانتے کہ وہ کیوں ہمیں اِن تجربات سے گزرنے دیتا ہے۔ شاید یہ ہمارے کاموں کی مزدوری ہوتی ہے یا پھر دوسروں کے ہمارے ساتھ برتاؤ کا برا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان تمام حالات میں وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ درد کی پوری حد جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اُس کو برداشت کرنے کی ہماری صلاحیت کتنی محدود ہے۔ اِس معجزہ کے دوران آس پاس کے لوگوں نے یہی محسوس کیا، کیونکہ اُنہوں نے یہ کہہ کر غمزدہ بیوہ کےلئے مسیح کے کام کو بیان کیا کہ "خُدا نے اپنی اُمّت پر توجّہ کی ہے" (لوقا 7: 16)۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہم سے ملنے اور ہمارے بارے میں دریافت کرنے آیا ہے۔ ہم ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ خُدا ہمیں نہیں چھوڑتا۔ وہ ہماری فکر کرتا ہے، ہمارے پاس آتا ہے اور ہمارے درد کو دُور کرنے اور ہماری مدد کرنے کےلئے ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

الف۔ جب مسیح نے جنازہ کو چھؤا تو اُسے اُٹھانے والے ایک جگہ کھڑے ہو گئے:

آئیے ہم صورت حال کو تصور میں لانے کی کوشش کریں: ایک ماں اپنے بیٹے کے تابوت کو قبرستان کی طرف لے جانے والے ایک گروہ کے پیچھے رو رہی ہے، پھر ہم لوگوں کے ایک اَور گروہ کو جن کے ساتھ یِسوع مسیح موجود تھے شہر میں داخل ہوتے دیکھتے ہیں۔ وہاں کے رواج کے مطابق اِس گروہ کو بیوہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے جنازہ میں شامل لوگوں کے ساتھ قبرستان کی طرف جانا چاہئے تھا۔ لیکن مسیح نے اُنہیں روک لیا۔ جنازہ کے گروہ کےلئے مسیح کی راہ میں رکاوٹ بننا فطری تھا تا کہ وہ اپنے راستے پر جا کر مُردے کو دفن کرنے کے کام کو مکمل کر سکے۔ لیکن بائبل مقدّس ہمیں بتاتی ہے: جنازہ "اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے۔" مسیح کے چہرے کی عظمت اور اُس کی آواز کے لہجے نے اپنی پوری محبّت اور اِختیار کے ساتھ اُن کی توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔

اکثر، جب ہم سوچتے ہیں کہ ہم ایک اہم فرض پورا کر رہے ہیں، تو مسیح خوشخبری کے کلام سے یا ذاتی بات چیت سے یا ایک رُوحانی لمس سے ہمارا راستہ روک دیتا ہے، اور جو کچھ ہم کر رہے ہوتے ہیں اُس سے ہمیں روک دیتا ہے۔ نتیجتاً ہماری زندگی ایک نئی اور بہتر سمت اِختیار کرتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں اُس کے ہاتھ کے لمس اور اُس کے کلام کی راہنمائی کےلئے حساس ہونا چاہئے، تا کہ ہم اُس کی ہدایت کے مطابق اپنی سمت بدل سکیں، اور اُس کا کلام سُننے کےلئے تیار رہیں۔

ب۔ جنازہ اُٹھانے والوں نے خُدا کی تمجید کی:

جب وہ مُردہ شخص جی اُٹھا اور بولا تو مسیح نے اُسے اُس کی ماں کے حوالے کیا، تو "سب پر دہشت چھا گئی اور وہ خُدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہُوا ہے اور خُدا نے اپنی اُمّت پر توجّہ کی ہے۔" اُنہوں نے الیشع کو یاد کیا ہو گا جب اُس نے شونیمی عورت کے بیٹے کو زندہ کیا تھا، اور اُنہوں نے ایلیاہ کو بھی یاد کیا ہو گا جب اُس نے بیوہ کے بیٹے کو مُردوں میں سے زندہ کیا تھا۔ جب اُنہوں نے مسیح کے "ایک بڑا نبی" ہونے کے بارے میں بات کی تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے مسیح کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو دریافت نہیں کیا تھا۔ کیونکہ مسیح کی شخصیت کا ایک اَور پہلو بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے اپنے آپ کو نبی کہا جب آپ نے کہا: "کوئی نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا۔" لیکن آپ ایک نبی سے بڑھ کر بھی ہیں! آپ نبوّت کا موضوع ہیں۔ نبوّتوں میں آپ کے بارے میں بتایا گیا تھا اور آپ کی گواہی دی گئی تھی، اِسی لئے آپ یہ کہہ سکے: "تم کتابِ مقدّس میں ڈھونڈتے ہو ۔۔۔ اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے" (یوحنّا 5: 39)۔

مزید برآں، مسیح نبوّت کا بانی بھی کی۔ آپ نے بہت سی نبوّتیں کیں جن میں سے کچھ پوری ہوئیں اور کچھ ابھی پوری ہونا ہیں۔ آپ نے پیشین گوئی کی کہ آپ مصلوب ہو کر مریں گے، آپ نے کہا: "ابنِ آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُسے قتل کریں گے اور وہ قتل ہونے کے تین دِن بعد جی اُٹھے گا" (مرقس 9: 31)۔ اور ایسا ہی ہُوا۔ مزید برآں، ہم ابھی تک آپ کی دوسری آمد کے پورے ہونے کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی کے منتظر ہیں۔

مسیح ہم میں اپنی رُوح کے ساتھ کام کر رہا ہے تا کہ ہم آپ کی شخصیت کے گہرے پہلوؤں کو دریافت کر سکیں اور سمجھ سکیں کہ "اِس میں کلام نہیں کہ دِین داری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہُوا" (1۔ تیمتھیس 3: 16)۔

ج۔ اِردگرد موجود افراد نے کہا، "خُدا نے اپنی اُمّت پر توجّہ کی ہے":

اُن کا مطلب تھا کہ خُدا نے اُن کی زندگیوں میں مداخلت کی تھی، جیسا کہ پرانے عہدنامہ میں نعومی کے بارے میں کہا گیا ہے: "تب وہ اپنی دونوں بہوؤں کو لے کر اُٹھی کہ موآب کے ملک سے لوٹ جائے اِس لئے کہ اُس نے موآب کے ملک میں یہ حال سُنا کہ خُداوند نے اپنے لوگوں کو روٹی دی اور یوں اُن کی خبر لی" (روت 1: 6)۔ نائین میں خُدا نے اپنے لوگوں سے ملاقات کی کیونکہ اُس نے اُنہیں زندگی بخشی۔

یہ کس قدر دِل پذیر ہے کہ وہاں آس پاس کے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ مسیح کے ساتھ دُنیا میں رُوحانی حیات نو آ گئی تھی۔ مسیح میں خُدا بنی نوع اِنسان سے ملنے اور اُن کی ضروریات کے بارے میں دریافت کرنے کےلئے قریب آیا تھا۔ مسیح نے کتنی ہی مرتبہ ہمارے پاس آ کر ہماری مدد کی، جب ہم بستر پر بیمار تھے اور ہمیں شفا دی، جب ہم مشکل میں تھے ہمیں ہماری پریشانیوں سے رہائی دی، جب ہم خوف کا شکار تھے ہمارے خوف کو دُور کیا۔ جب مسیح اپنے اطمینان کے ساتھ ہمارے پاس آتا ہے تو کئی بار ہم دیکھتے ہیں کہ ہم کسی ایسی چیز سے ڈرتے رہے جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ ہمارے خوف صرف ہمارے اندر تھے اور یہ ہمارے آس پاس نہ تھے۔ خُداوند یسوع حقیقی اور تصوراتی خطرات دونوں صورتوں میں ہمارے پاس آتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے پاس آتا ہے۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح حالات بدل دیتا ہے:

مسیح کے ہم سے ملنے، ہمارے سامنے آنے سے ہماری تمام صورتحال بدل جاتی ہے۔ جب آپ کی اُس بیوہ سے جو اپنے بیٹے کی موت پر رو رہی تھی ملاقات ہوئی تو وہ ماں شادمان ہو گئی کیونکہ آپ نے اُس کا بیٹا اُسے دوبارہ عطا کیا تھا۔ "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (2۔ کرنتھیوں 5: 17)۔ ہم سب مسیح کے اپنے پاس آنے کے محتاج ہیں: "ہمارے درمیان آ۔ ہم میں کھڑا ہو جا، ہمارے دِلوں کو اپنا مسکن بنا" (ایک عربی مسیحی گیت کے الفاظ)۔ سو آئیے ہم اُس کا کلام سُنیں: "تسلّی دو تُم میرے لوگوں کو تسلّی دو۔ تُمہارا خُدا فرماتا ہے۔ یروشلیم کو دِلاسا دو اور اُسے پکار کر کہو کہ اُس کی مصیبت کے دِن جو جنگ و جدل کے تھے گزر گئے۔ اُس کے گناہ کا کفّارہ ہُوا اور اُس نے خُداوند کے ہاتھ سے اپنے سب گناہوں کا بدلہ دو چند پایا" (یسعیاہ 40: 1، 2)۔ پولس رسول کے الفاظ ہم میں پورے ہوں کہ "ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے خُدا اور باپ کی حمد ہو جو رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلّی کا خُدا ہے۔ وہ ہماری سب مصیبتوں میں ہم کو تسلّی دیتا ہے تا کہ ہم اُس تسلّی کے سبب سے جو خُدا ہمیں بخشتا ہے اُن کو بھی تسلّی دے سکیں جو کسی طرح کی مصیبت میں ہیں۔ کیونکہ جس طرح مسیح کے دُکھ ہم کو زیادہ پہنچتے ہیں اُسی طرح ہماری تسلّی بھی مسیح کے وسیلہ سے زیادہ ہوتی ہے" (2۔ کرنتھیوں 1: 3۔ 5)۔ وہ ہمیں زندگی کا پانی عطا کرتا ہے، تو ہمارے اندر سے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہو جاتی ہیں۔ وہ ہمیں شخصی طور پر تسلّی دیتا ہے تا کہ ہم دوسروں کو تسلّی دے سکیں۔

یہ ہمارے ساتھ آخری دن بھی ہو گا جب ہم اُس کے حضور ہوں گے، اور آسمان سے ایک زبردست آواز سنیں گے کہ "دیکھ خُدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خُدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خُدا ہو گا۔ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں" (مکاشفہ 21: 3، 4)۔ اُس کے اپنے لوگوں کے پاس آنے سے پرانی چیزیں جاتی رہتی ہیں۔

ب۔ مسیح مہربان ہے:

بحران کے ختم ہونے پر بصارت یہ کہتی ہے کہ "مت رو"، مگر اِیمان مشکل صورتحال کی موجودگی میں ایسا کہتا ہے۔ اور مسیح ہمارے اندر اِیمان کو زندہ کرنا چاہتا ہے، کیونکہ اِس سے پہلے کہ ہم برکت پائیں، وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ نہ روئیں کیونکہ اُس کی مدد نزدیک ہوتی ہے۔ بیوہ پہلے مسیح کی حکمت کو نہ سمجھ سکی، لیکن اُس نے اُسے بعد میں سمجھا۔ "جو مَیں کرتا ہوں تُو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا" (یوحنّا 13: 7)۔

جب ہم اندھیرے میں گھرے ہوتے ہیں تو مسیح اپنا ہاتھ ہمارے کندھے پر رکھتا ہے تا کہ ہماری حوصلہ افزائی کرے۔ اُس کے کلام کی حوصلہ افزائی مضبوط ہے چاہے حالات اِس کے بالکل برعکس ہوں۔ لیکن ہم اُس کے کلام کے معنٰی سے واقف ہیں اور ہمیں اُس پر بھروسا ہے۔ ہم اُس کے کلام پر پورے اعتماد کے ساتھ "جال پھینکتے ہیں۔"

مسیح نے ضرورت مندوں کی درخواست پر اپنے معجزات دکھائے، جیسا کہ آپ نے کوڑھی کو شفا بخشی (لوقا 5: 12)۔ آپ نے ایک شخص کی درخواست کے نتیجے میں کسی دوسرے کےلئے بھی معجزے دکھائے، جیسا کہ صوبہ دار کے نوکر کی شفا یابی میں ہُوا (لوقا 7: 1)۔ اور پھر آپ نے اپنی محبّت کی بناء پر بھی معجزے دکھائے، کیونکہ بیوہ نے کچھ نہیں مانگا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود آپ نے اپنی محبّت کی گہرائی کی وجہ سے معجزہ کیا (لوقا 7: 13)۔

کبھی ہم خود دُعا کرنے اور کبھی دوسروں کی دُعاؤں کی وجہ سے مصیبت سے بچ جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات وہ ہماری آہیں سنتا اور ہماری تکلیف کو دیکھتا ہے اور اپنی شفقت کا ہاتھ ہم پر بڑھاتا ہے کیونکہ آسمانی آنکھ ہمارے لئے کھلی ہوتی ہے۔

ج۔ مسیح زورآور ہے:

(1) مسیح نے اپنے اِختیار سے حکم دیا: "مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔" جناب مسیح اِس بات سے واقف ہیں کہ آپ کی محبّت کی طاقت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ "اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نُور تھی۔ اور نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا" (یوحنّا 1: 4، 5)۔ آپ وہ شخصیت ہیں جو مُردوں کو زندہ کرتی ہے۔ وہ اُن چیزوں کو جو نہیں ہیں اِس طرح بُلا لیتا ہے کہ گویا وہ ہیں (رومیوں 4: 17)۔ ایک بار پھر اِس نوجوان کے جسم میں زندگی داخل ہوئی کیونکہ مسیح نے اُسے وہیں واپس بلایا جہاں سے وہ اُس کے جسم کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ "آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مجھے دیا گیا ہے" (متی 28: 18)؛ آسمان جہاں اُس کی رُوح چلی گئی تھی، اور زمین جہاں مُردہ جسم پڑا تھا۔ آسمان نے رُوح واپس دی اور زمین نے اُسے وصول کیا تا کہ بیٹا اپنی ماں کے پاس واپس آ جائے۔

(2) ایلیاہ اور الیشع نے اپنے آپ کو خُدا کے حضور دُعا کےلئے وقف کیا اور مُردہ کو زندہ کرنے کےلئے خُدا سے کام کرنے کی درخواست کی، جبکہ جیحازی شونیمی عورت کے بیٹے کو زندہ کرنے میں ناکام رہا۔ جہاں تک زندگی کے خُداوند مسیح کی بات ہے، آپ نے براہ راست زندگی کو اِس نوجوان کے بدن میں واپس آنے کا حکم دیا۔ اور یہ واپس آ گئی!

(3) جلال کے خُداوند نے جسے تمام اِختیار دیا گیا ہے تین مُردہ افراد کو زندہ کیا۔ پہلا واقعہ یائیر کی بیٹی کو زندہ کرنے کا واقعہ ہے جو گھر میں موجود تھی جہاں آپ نے کہا: "اَے لڑکی مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ" اور وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ہم میں سے کچھ یائیر کی بیٹی کی مانند ہیں کہ ہمارے گناہ باطنی، پوشیدہ ہیں۔ جناب مسیح ہمیں ہمارے گناہوں کی موت سے زندہ کرنے کےلئے تیار ہیں، چاہے وہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کیوں نہ ہوں۔

پھر آپ نے بیوہ کے بیٹے کو شہر کے پھاٹک پر زندہ کیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے اپنے گناہ دروازے پر ہیں جو ہمارے ہاتھوں میں نظر آتے ہیں، جنہیں ہماری زبانوں پر سُنا جاتا ہے۔ چاہے ہمارے گناہ سب کے سامنے عیاں ہوں لیکن جناب مسیح ہمیں زندہ کرنا چاہتے ہیں۔

آپ نے لعزر کو چار دِن تک قبر میں سڑنے کے بعد زندہ کیا۔ بہت سے لوگ طویل عرصے تک اپنے گناہوں میں پڑے رہنے سے بدبو دار ہو چکے ہیں۔ مسیح اُنہیں زندگی بخشنے کےلئے اپنی قدرت سے موت کی تباہی سے زندہ کرنے کےلئے تیار ہے۔

ہماری رُوحانی موت کی حالت کچھ بھی ہو، یسوع مسیح ہمیں اپنے ساتھ زندہ کرنا اور ہمیشہ کی زندگی دینا چاہتے ہیں۔ آئیے ہم اُس سے مانگیں، کیونکہ وہ زندگی کا مالک ہے۔

اگر ہم مسیح کے وسیلہ سے زندگی پا چکے ہیں، تو آئیے ہم کسی اَور کی خاطر جو اپنے گناہوں میں مر چکا ہے، درخواست کریں کہ خُداوند اُسے زندہ کرے۔ آئیے ہم دُعا کریں کہ اُس کی کلیسیا زندہ رہے، اور اُس نور سے چمکتی رہے جو تمام دُنیا کو روشن کرتا ہے تا کہ اُس کے نام کا جلال ظاہر ہو اور اُس کی بادشاہی آئے۔

دُعا

اَے آسمانی باپ، مَیں تیرا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مسیح کی رحمت مجھ تک میرے مصائب کی گہرائیوں میں پہنچی، مجھے میرے مصائب کے اتھاہ گڑھے میں سے پکڑا، مجھے اوپر اُٹھایا اور میری امّید بحال کی، مجھے چھؤا اور میری رُوح میں ہمّت پیدا کی۔ میرے دِل کو اپنی سلامتی کےلئے مزید کھول دے، اور جب مَیں تیرے احسانات کے عوض اپنی زندگی تشکر کے طور پر تیرے حضور نذر کرتا ہوں تو اُسے قبول کر لے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. الیشع کے شونیمی عورت کے بیٹے کو زندہ کرنے کے واقعہ کا موازنہ مسیح کے نائین کی بیوہ کے بیٹے کو زندہ کرنے کے واقعہ سے کریں۔

  2. یوحنّا 5: 24۔ 29 میں مسیح نے ایک ایسے وقت کے بارے میں بات کی جو "ابھی ہے" اور ایک ایسا وقت جو مستقبل میں آئے گا۔ مسیح کے مطابق اِن دونوں وقتوں میں کیا ہو گا؟

  3. مسیح نے بیوہ کے بیٹے کو زندہ کرنے کےلئے کیوں چنا؟

  4. بیوہ کو دو طرح سے صدمہ پہنچا تھا۔ کیسے؟

  5. جب مسیح نے جنازہ اُٹھانے والوں کو رُکنے کا حکم دیا تو وہ کیوں رُک گئے؟

  6. اِس کا کیا مطلب ہے کہ "خُدا نے اپنی اُمّت پر توجّہ کی ہے"؟

  7. اپنی زندگی کے کسی ایک تجربے کا ذِکر کریں جہاں خُدا آپ کے پاس آیا۔

گیارہواں معجزہ: طوفان کو تھما دینا

"اُسی دِن جب شام ہُوئی تو اُس نے اُن سے کہا آؤ پار چلیں۔ اور وہ بِھیڑ کو چھوڑ کر اُسے جس حال میں وہ تھا کشتی پر ساتھ لے چلے اور اُس کے ساتھ اَور کشتیاں بھی تھیں۔ تب بڑی آندھی چلی اور لہریں کشتی پر یہاں تک آئِیں کہ کشتی پانی سے بھری جاتی تھی۔ اور وہ خُود پیچھے کی طرف گدّی پر سو رہا تھا۔ پس اُنہوں نے اُسے جگا کر کہا اَے اُستاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں؟ اُس نے اُٹھ کر ہوا کو ڈانٹا اور پانی سے کہا ساکت ہو! تھم جا! پس ہوا بند ہو گئی اور بڑا امن ہو گیا۔ پھر اُن سے کہا تُم کیوں ڈرتے ہو؟ اب تک اِیمان نہیں رکھتے؟ اور وہ نہایت ڈر گئے اور آپس میں کہنے لگے یہ کون ہے کہ ہوا اور پانی بھی اُس کا حُکم مانتے ہیں؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 4: 35۔ 41؛ مزید دیکھئے متی 8: 23۔ 27، اور لوقا 8: 22۔ 25)

مسیح نے بحیرہ گلیل میں اُٹھنے والے طوفان کو ساکن کر دیا۔ اِس کے دیگر نام تبریاس کی جھیل یا گنّیسرت کی جھیل ہیں۔ یہ ایک بڑی، بیضوی جھیل ہے جو تقریباً 20 کلومیٹر لمبی اور 13 کلومیٹر چوڑی ہے۔ شمال سے دریائے یردن کا پانی اِس میں آ کر ملتا ہے اور اِسے تازہ پانی سے بھر دیتا ہے۔ اِس کا مشرقی ساحل بھورے پہاڑوں سے ڈھکا ہے جن کی اونچائی 700 میٹر تک ہے۔ اِس کے شمال میں برف سے ڈھکی چوٹیاں اور حرمون پہاڑ ہے۔ کفرنحوم کا قصبہ مغربی کنارے پر (بحیرہ روم کی طرف) واقع تھا۔ اِس شہر نے مسیح کے بہت سے معجزات دیکھے۔

مسیح نے کفرنحوم کی طرف مغربی کنارے پر لوگوں کو منادی کرنے میں ایک طویل دن گزارا۔ ہجوم ہر طرف سے آپ کے گرد جمع ہو گیا، کیونکہ آپ نے بہت سے لوگوں کو تعلیم دی اور شفا بخشی۔ شام ہوئی تو آپ تھک چکے تھے۔ آپ نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ آرام کرنے کےلئے جھیل کو پار کر کے اُس کے مشرقی کنارے پر پہاڑی علاقے میں جائیں۔ چنانچہ شاگردوں نے ہجوم کو رخصت کیا اور مسیح کو اپنے ساتھ ایک کشتی میں لے گئے جس کے ساتھ چھوٹی کشتیاں ایسے لوگوں کو لے جا رہی تھیں جو مسیح سے محبّت کرتے تھے یا جنہیں ابھی بھی راہنمائی یا شفا کی ضرورت تھی۔

سب کچھ پرسکون تھا، لیکن گلیل کی جھیل کی نوعیت کے مطابق اچانک طوفان آ سکتا تھا، کیونکہ یہ سطح سمندر سے 200 میٹر نیچے ہے۔ اِس لئے یہ ایک بہت گرم جگہ ہے جہاں اچانک طوفان آتے تھے۔ تب ایک زبردست طوفان آیا، جس کی وجہ سے لہریں کشتی پر یہاں تک آئیں کہ اُس کے پانی سے بھرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

کفرنحوم سے ہونے کی وجہ سے، کشتی چلانے والے اِس جھیل سے بخوبی واقف تھے۔ اُنہوں نے بہت سی راتوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ ہنگامہ خیز لہروں کو دیکھا ہو گا، تاہم یہ رات سب سے بری تھی۔ اُنہوں نے ایسا خراب موسم کبھی نہیں دیکھا تھا۔ غالب امکان ہے کہ یہ چھوٹی کشتیاں طوفان کے آغاز میں مغربی کنارے پر کفرنحوم کی طرف مڑ گئی ہوں گی۔ آپ کے شاگرد تیز ہواؤں کے باوجود جھیل کو پار کرنے کے آپ کے حکم پر عمل کر رہے تھے اور مسیح اُس وقت کشتی میں سوئے ہوئے تھے۔ شاگردوں نے اپنے تھکے ماندے اُستاد کو آرام کرنے کےلئے چھوڑ دیا تھا۔

لیکن جب طوفان شدّت اختیار کر گیا اور اِس قدر طاقتور ہو گیا کہ وہ اُس سے نمٹ نہ سکے تو اُنہیں یاد آیا کہ اُن کا اُستاد کشتی میں اُن کے ساتھ ہے۔ اُنہوں نے آپ کو جگایا اور آپ سے سخت الفاظ میں مخاطب ہوئے: "کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں؟" اپنے خوف کی وجہ سے انہوں نے صیغہ جمع میں بات کی، اور مسیح کو اپنے ساتھ ہلاک ہونے کے خطرے کو بیان کیا۔ مسیح نے اُٹھ کر ہوا کو ڈانٹا، اور بڑا امن ہو گیا۔

ہوائیں لہروں کا باعث بنتی ہیں۔ جب ہوائیں تھم جائیں تو لہریں بھی پرسکون ہو جاتی ہیں۔ جب لہریں تھم گئیں تو شاگردوں کو اِیمان کا سبق سیکھنے کا ایک موقع ملا، کیونکہ آپ نے اُن سے پوچھا: "تُم کیوں ڈرتے ہو؟" یقیناً یہ طوفان کسی بھی اُس طوفان سے زیادہ طاقتور اور شدید تھا جس سے شاگرد کبھی گزرے تھے، لیکن اِس بار مسیح اُن کے ساتھ تھا، اِس لئے صورتحال مختلف تھی۔ لیکن اپنے کمزور اِیمان کی وجہ سے اُنہوں نے آپ کی موجودگی کی قدرت محسوس نہیں کی، اِس لئے وہ ڈر گئے۔ مسیح کی بابت اُن کا علم ابھی مکمل نہیں ہُوا تھا۔ اُنہیں مسیح کے بارے میں بہتر طور پر جاننے کی ضرورت تھی! ہم اُن پر الزام نہ لگائیں کیونکہ ہم بھی اُن جیسے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم مسیح کو الٰہیاتی اور تعلیمی اعتبار سے جانتے ہوں، لیکن اُسے خُداوند اور ذاتی نجات دہندہ کے طور پر نہ جانتے ہوں۔

یہ زندگی ایک طوفان ہے، اِس لئے مسیح کی طرف رجوع کرنا نجات اور امن ہے۔ تب ہم ایک سبق سیکھتے ہیں جو ہمارے اِیمان کو مضبوط بناتا ہے تا کہ ہم مستقبل کی آزمایشوں کا زیادہ طاقت اور اِیمان کے ساتھ سامنا کر سکیں۔ ہمیں اِس کا بیان زبور کی کتاب میں ملتا ہے: "جو لوگ جہازوں میں بحر پر جاتے ہیں اور سمندر پر کاروبار میں لگے رہتے ہیں وہ سمندر میں خُداوند کے کاموں کو اور اُس کے عجائب کو دیکھتے ہیں کیونکہ وہ حکم دے کر طوفانی ہوا چلاتا ہے جو اُس میں لہریں اُٹھاتی ہے۔ وہ آسمان تک چڑھتے اور گہراؤ میں اُترتے ہیں۔ پریشانی سے اُن کا دِل پانی پانی ہو جاتا ہے۔ وہ جھومتے اور متوالے کی طرح لڑکھڑاتے اور حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ تب وہ اپنی مصیبت میں خُداوند سے فریاد کرتے ہیں اور وہ اُن کو اُن کے دُکھوں سے رہائی بخشتا ہے۔ وہ آندھی کو تھما دیتا ہے اور لہریں موقوف ہو جاتی ہیں۔ تب وہ اُس کے تھم جانے سے خُوش ہوتے ہیں۔ یُوں وہ اُن کو بندرگاہِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ کاش کہ لوگ خُداوند کی شفقت کی خاطر اور بنی آدم کےلئے اُس کے عجائب کی خاطر اُس کی ستایش کرتے! وہ لوگوں کے مجمع میں اُس کی بڑائی کریں اور بزرگوں کی مجلس میں اُس کی حمد" (زبور 107: 23۔ 32)۔

آئیے، اَب ہم غور کریں:

  1. وہ جنہیں معجزے کی احتیاج تھی

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ وہ جنہیں معجزے کی احتیاج تھی

  1. الف۔ مشرق کی طرف جانے والی کشتی میں سوار شاگرد ضرورت مند تھے۔

  2. ب۔ اِس کشتی کے ساتھ موجود دیگر چھوٹی کشتیوں میں سوار افراد بھی اِس معجزہ کی احتیاج رکھتے تھے جو طوفان کو شروع ہوتے دیکھ کر مغرب کی طرف لوٹ گئے۔

  3. ج۔ مزید برآں، بظاہر یہ لگتا ہے کہ مسیح خود بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جنہیں معجزے کی ضرورت تھی، کیونکہ وہ خطرے سے دوچار کشتی میں سو رہا تھا! ہم کئی بار تصور کرتے ہیں کہ خُدا کی بادشاہی خطرے میں ہے اور چلّاتے ہیں، "ہم ہلاک ہُوئے جاتے ہیں" اور بھول جاتے ہیں کہ "خُدا اُس میں ہے۔ اُسے کبھی جنبش نہ ہو گی۔ خُدا صبح سویرے اُس کی کمک کرے گا" (زبور 46: 5)۔

یاد رہے کہ چھوٹی کشتیاں واپس آ چکی تھیں۔ اکثر لوگ مسیح کی پیروی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن جب طوفان آتا ہے تو ساحل کو زیادہ محفوظ سمجھ کر اُس طرف پلٹتے ہیں، اور اُس کنارے کو ترک کر دیتے ہیں جس کی طرف مسیح کی کشتی رواں دواں ہوتی ہے، اور سوچتے ہیں کہ وہ وہاں ہلاک ہو جائیں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ پیروی کرنے سے زیادہ اپنی حفاظت کی فکر کرتے ہیں۔

ہم کئی طرح کے طوفانوں کا سامنا کرتے ہیں:

الف۔ خوف کا طوفان:

ہماری زندگی میں کتنے طوفان برپا ہوتے ہیں! زندگی پرسکون نظر آتی ہے اور پھر اچانک مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جو ہمارے سکون کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مسیح کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اُسے اپنی ضرورت سے آگاہ کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اور اپنی پریشانی کو اُس کے سپرد کرتے ہوئے اُس کے ساتھ اپنی مشکل کا سامنا کریں تا کہ ہم اُس کے ہاتھوں میں رہتے ہوئے اِس بات کا یقین کر لیں کہ وہ مقتدر، عظیم نجات دہندہ قادر مطلق ہے۔ آئیے ہم اپنی زندگی اُس کے سپرد کر دیں تا کہ وہ ہماری جگہ ہماری مشکل کا سامنا کرے۔ آئیے ہم اچھے چرواہے کی جانب دیکھیں جو ہمیں ہمارے خوف سے بچاتا ہے، اپنے کندھوں پر اُٹھاتا ہے اور پھر جشن مناتا ہے۔ شاگردوں کے ساتھ ایسا ہی ہُوا، مسیح نے اُن کی پریشانی کا سامنا کیا اور اُن کے ساتھ اُن کی نجات کا جشن منایا!

ب۔ غمگینی کا طوفان:

اگر ہمارا کوئی عزیز مر جائے اور تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کالے بادِل چھا گئے ہوں۔ اور جو لوگ خوفزدہ، بےچین اور امّید کے بغیر غمگین ہیں وہ ایسے رویہ کا ایک طرح سے جواز رکھتے ہیں۔ لیکن جن کے پاس امّید ہے وہ اپنی مشکلات کا مقابلہ پریشانی کے ساتھ کیوں کرتے ہیں گویا اُن کا زندہ نجات دہندہ، جس نے موت کو شکست دی اور ابدیت کو تابناکی بخشی، موجود نہیں ہے؟ اُن کے خوف کے باوجود وہ اُن کے ساتھ رہے گا، اور اُن کے ابدیت میں داخلے تک اُن کی زندگی کو روشن کرتا رہے گا، تا کہ اُنہیں اِس بات کا یقین ہو کہ اُس کے وعدے سچے ہیں۔

ج۔ غصے کا طوفان:

ایسا غصہ کسی ایسے شخص کی طرف ہو سکتا ہے جس نے ہمیں تکلیف دی ہو یا ہمارے بارے میں جھوٹ بولا ہو، جس سے ہم غضب ناک ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں مسیح اِس طوفان کو یہ کہتے ہوئے روکتا ہے: "غُصّہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سُورج کے ڈُوبنے تک تُمہاری خفگی نہ رہے" (افسیوں 4: 26)۔

د۔ شکوک کا طوفان:

کبھی کبھار شک کا طوفان ہم پر چھا جاتا ہے اور ہم اُس سے پوچھتے ہیں: "کیا تجھے پرواہ نہیں ہے؟" یہ سوال اُس کی محبّت پر شک کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے اُس کی بڑی فکر پر بھی شک کا اظہار ہے۔ ایسا رویہ آسمانی باپ پر بھی شک کا اظہار ہے۔ آئیے ہم اُسے مخاطب کریں، اُس سے بات کریں۔ یہ سب سے خوبصورت کام ہے جو شاگردوں نے کیا، کیونکہ وہ آپ کے بارے میں اپنی شکایت لے کر آئے۔ وہ آپ کے پاس آئے تا کہ آپ اُنہیں اپنے بنائے ہوئے طوفان سے بچا لیں! کیونکہ وہ ہواؤں کا مالک ہے جو لہروں پر چلتی ہیں۔ وہ ہواؤں کو اُن کے مخزنوں میں جمع کرتا ہے، تا کہ اُس کی لہریں پرسکون ہو جائیں، اور اُس کے فرزند محفوظ محسوس کریں، اور اُس کی کامل محبّت خوف دُور کرتی ہے۔

ہ۔ احساسِ جرم کا طوفان:

جب ہم میں احساس گناہ ہو تو یسوع ہمارے گناہوں کو معاف کر کے اور ہمارا خُدا سے میل کرا کے ہمیں آرام دیتا ہے۔ لہٰذا اگر دِل غلطی کی فکر سے بوجھل ہے تو مسیح کی پناہ لینے سے ہمیں گناہ سے نجات ملتی ہے اور خُدا کے ساتھ تعلق بحال ہوتا ہے۔ شاگرد ابھی تک مسیح کو پورے طور پر نہ پہچانتے تھے۔ جب مسیح نے اپنے آپ کو ابنِ آدم کے طور پر ظاہر کیا اور بتایا کہ آپ مصلوب ہونے اور مار ڈالے جانے کےلئے سردار کاہنوں کے حوالے کئے جانے کو ہیں، تو آپ کے شاگردوں نے آپ سے کہا: "اَے خُداوند خُدا نہ کرے۔ یہ تُجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔" وہ ابھی تک آپ کا پیغام نہیں سمجھ پائے تھے، اور اُنہیں مزید ہدایات کی ضرورت تھی۔ اُنہیں تجرباتی علم کی ضرورت تھی "اور مَیں اُس کو اور اُس کے جی اُٹھنے کی قُدرت کو ۔۔۔ معلوم کروں" (فلپیوں 3: 10)۔ یہ گہرا عرفان ہے۔ "ہمارے خُداوند اور مُنجی یسوع مسیح کے فضل اور عرفان میں بڑھتے جاؤ" (2۔ پطرس 3: 18)۔ آئیے ہم زندگی کی مشکلات اور پریشانیوں کے درمیان مسیح کو جاننا سیکھیں۔

2۔ مسیح اور معجزہ

ہم نے دیکھا ہے کہ مسیح نے تعلیم دی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چل کر گئے، آپ نے تھک کر آرام کیا، بھوک لگنے پر کھایا، خوش ہوئے اور روئے، مصلوب ہوئے اور مرنے کے بعد پھر جی اُٹھے۔ یہاں ہم آپ کو کشتی میں گدّی پر سوئے ہوئے دیکھتے ہیں، کیونکہ آپ ایک کامل اِنسان ہیں۔ تاہم، اگر ہم اِس مقام پر رُک جائیں تو صرف آدھی سچائی ہے۔ کیونکہ یہ سویا ہُوا اِنسان فطرت پر اختیار رکھنے والا خُدا بھی ہے۔ وہ ہواؤں اور طوفان کو تھمانے کےلئے اُٹھا۔ "دِین داری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہُوا" (1۔ تیمتھیس 3: 16)۔ مسیح کامل اِنسان، کامل خُدا ہے، حالانکہ اُس کے جسم نے اُس کی الوہیت پر پردہ ڈال دیا تھا تا کہ صرف کچھ لوگ اُسے دیکھ سکیں۔ لیکن آپ کے کام نے آپ کی ابدی قدرت اور الوہیت کو ظاہر کیا، کیونکہ آپ نے ہواؤں کو ساکن کر دیا۔ آئیے ہم عملی اور تجرباتی طور پر مسیح پر بھروسا رکھتے ہوئے اِس حقیقت کا اطلاق کریں، کیونکہ وہ اپنی محبّت کے مطابق ہمارے حال اور مستقبل کا حکم دیتا ہے۔

ہم اِس معجزہ میں مسیح کی بابت تین سچائیاں دیکھتے ہیں:

الف۔ مسیح ہماری درخواستوں سے پریشان نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے ایمان کی کمی سے ہوتا ہے:

مسیح کتنا شفیق اور نرم مزاج ہے۔ آپ نے طوفان کے درمیان اِیمان کی کمزوری پر سرزنش نہیں کی بلکہ پہلے طوفان کو تھمایا اور پھر ڈانٹا۔ آپ کی خواہش ہے کہ ہم درخواست کریں۔ کاش کہ ہم میں ایک بھروسا مند اور پُر اعتماد اِیمان ہو!

ب۔ ہم مسیح کو اُس کے فوری اختیار کے ساتھ دیکھتے ہیں:

موسیٰ نے عصا کا استعمال کیا (خروج 14: 15، 16، 21، 26)۔ الیشع نے ایلیاہ کی چادر استعمال کی (2۔ سلاطین 2: 13، 14)۔ مسیح، خُدا کے کلام نے ہوا کو ڈانٹا اور پانی سے کہا، "ساکت ہو! تھم جا!" آپ کے حکم سے ہوا تھم گئی اور امن ہو گیا۔

ج۔ مسیح بظاہر سویا ہُوا اور بے پروا نظر آتا ہے، لیکن وہ بچانے کےلئے بیدار ہے:

ہو سکتا ہے کہ ہم اُس سے اُس کے بارے میں شکایت کریں، لیکن وہ کچھ بھی ایسا نہیں کرتا جس سے ہمیں اُس کے بارے میں شکایت کرنے کی معقول وجوہات ملیں۔

آئیے ہم خُداوند سے بات کریں اور اُس کی طرف متوجہ ہوں، اُس سے لپٹے رہیں اور اُس میں رہیں تا کہ ہم اُس میں برکت پا سکیں۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، ہماری زندگی کا سمندر کبھی پرسکون ہوتا ہے، اور بعض اوقات اُس میں تلاطم خیز طوفان آ جاتے ہیں۔ لیکن اِن سب کے درمیان، ہمیں اُس کی مدد سے فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے جس نے انتہائی گہری، بے بیاں محبّت سے پیار کیا جسے ناپا نہیں جا سکتا۔ یہ سب تیری ہی وجہ سے ہے، کیونکہ تُو نے ہم سے پہلے محبّت کی، اور ہم تیری محبّت میں محفوظ ہیں، اور تیری رحمت سے ہم آرام و اطمینان پاتے ہیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. گلیل کی سمندر کے تین نام کون سے ہیں؟

  2. مسیح نے شاگردوں کو جھیل پار کرنے کو کیوں کہا؟

  3. چھوٹی کشتیوں میں سوار لوگوں نے کیا کیا؟

  4. مسیح نے کب شاگردوں کے کمزور اِیمان کی سرزنش کی؟

  5. یسوع مسیح ہمارے کسی عزیز کی موت پر ہمارے اندر غم کے طوفان کو کیسے پرسکون کرتے ہیں؟

  6. یسوع مسیح ہمارے اندر شکوک و شبہات کے طوفان کو کیسے پرسکون کرتے ہیں؟

  7. یسوع مسیح ہم میں احساسِ جرم کے طوفان کو کیسے پرسکون کرتے ہیں؟

بارہواں معجزہ: بد ارواح کے شکنجے میں جکڑے شخص کی شفا

"اور وہ جھیل کے پار گراسینیوں کے علاقہ میں پہنچے۔ اور جب وہ کشتی سے اُترا تو فی الفور ایک آدمی جس میں ناپاک رُوح تھی قبروں سے نِکل کر اُس سے ملا۔ وہ قبروں میں رہا کرتا تھا اور اب کوئی اُسے زنجیروں سے بھی نہ باندھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے باندھا گیا تھا لیکن اُس نے زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں کو ٹُکڑے ٹُکڑے کیا تھا اور کوئی اُسے قابو میں نہ لا سکتا تھا۔ اور وہ ہمیشہ رات دِن قبروں اور پہاڑوں میں چلاّتا اور اپنے تئِیں پتّھروں سے زخمی کرتا تھا۔ وہ یسوع کو دُور سے دیکھ کر دوڑا اور اُسے سجدہ کِیا۔ اور بڑی آواز سے چلاّ کر کہا اَے یسوع خُدا تعالےٰ کے فرزند مُجھے تُجھ سے کیا کام؟ تُجھے خُدا کی قَسم دیتا ہُوں مُجھے عذاب میں نہ ڈال۔ کیونکہ اُس نے اُس سے کہا تھا اَے ناپاک رُوح اِس آدمی میں سے نکل آ۔ پھر اُس نے اُس سے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا میرا نام لشکر ہے کیونکہ ہم بہت ہیں۔ پھر اُس نے اُس کی بہت منّت کی کہ ہمیں اِس علاقہ سے باہر نہ بھیج۔ اور وہاں پہاڑ پر سؤروں کا ایک بڑا غول چر رہا تھا۔ پس اُنہوں نے اُس کی منّت کر کے کہا کہ ہم کو اُن سؤروں میں بھیج دے تا کہ ہم اُن میں داخل ہوں۔ پس اُس نے اُن کو اجازت دی اور ناپاک رُوحیں نکل کر سؤروں میں داخل ہو گئیں اور وہ غول جو کوئی دو ہزار کا تھا کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھیل میں جا پڑا اور جھیل میں ڈوب مرا۔ اور اُن کے چرانے والوں نے بھاگ کر شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی۔ پس لوگ یہ ماجرا دیکھنے کو نکل کر یسوع کے پاس آئے اور جس میں بد رُوحیں یعنی بد رُوحوں کا لشکر تھا اُس کو بیٹھے اور کپڑے پہنے اور ہوش میں دیکھ کر ڈر گئے۔ اور دیکھنے والوں نے اُس کا حال جس میں بد رُوحیں تھیں اور سؤروں کا ماجرا اُن سے بیان کیا۔ وہ اُس کی منّت کرنے لگے کہ ہماری سرحد سے چلا جا۔ اور جب وہ کشتی میں داخل ہونے لگا تو جس میں بد رُوحیں تھیں اُس نے اُس کی منّت کی کہ مَیں تیرے ساتھ رہوں۔ لیکن اُس نے اُسے اجازت نہ دی بلکہ اُس سے کہا کہ اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور اُن کو خبر دے کہ خُداوند نے تیرے لئے کیسے بڑے کام کئے اور تُجھ پر رحم کیا۔ وہ گیا اور دِکَپُلِس میں اِس بات کا چرچا کرنے لگا کہ یسوع نے اُس کےلئے کیسے بڑے کام کئے اور سب لوگ تعجّب کرتے تھے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 5: 1۔ 20؛ مزید دیکھئے متی 8: 28۔ 34، اور لوقا 8: 26۔ 39)

مقدّس متی کے مطابق مسیح نے "لشکر" کو گدرینیوں کے ملک میں شفا بخشی، جبکہ مقدّس مرقس اور مقدّس لوقا کے مطابق ایسا گراسینیوں کے علاقہ میں ہُوا تھا۔ اِس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ گلیل کی جھیل سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر دو بڑے قصبے گدرینے اور گراسینے واقع تھے۔ کسی نے اُس علاقہ کو ایک قصبے کے نام سے پکارا تو کسی نے دوسرے کے نام سے۔ سو، اِس علاقہ کو گدرینیوں کا ملک یا گراسینیوں کا علاقہ دونوں کہا جا سکتا ہے۔

مقدّس متی بیان کرتا ہے کہ مسیح نے دو بد رُوح گرفتہ افراد کو شفا بخشی، جبکہ مرقس اور لوقا دو شفا پانے والے افراد کا ذِکر کرتے ہیں۔ اِس میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ مسیح نے درحقیقت دو افراد کو شفا بخشی تھی جس کا ذِکر مقدّس متی نے کیا ہے، جبکہ مقدّس مرقس اور لوقا نے اُن دونوں میں سے زیادہ نمایاں فرد پر توجہ مرکوز کرنے پر اکتفا کیا۔ اگر متی یہ کہتا کہ مسیح نے دو بد رُوح گرفتہ افراد کو شفا بخشی، اور مرقس اور لوقا کہتے کہ آپ نے صرف ایک ہی شخص کو شفا دی تھی، تو یہ تضاد ہوتا۔

اِس معجزے میں ہم ایک مخبوط الحواس شخص کو شفا پاتے دیکھتے ہیں جسے یسوع مسیح دوبارہ ہوش و حواس میں لے کر آئے۔ یہ شخص بہت سی بد رُوحوں کے قبضے میں تھا، اور پھر مسیح اِس کے دِل پر قبضہ جمانے آ گیا! جب ہم اِنجیل مقدّس پڑھتے ہیں تو ہم تاریخ میں خُدا کے کاموں کا بیان پڑھتے ہیں۔ اور جب رُوح القُدس ہم میں کام کرتا ہے، تو ہم اُس کے کام کو اپنے دِلوں میں لکھا ہُوا دیکھتے ہیں! اِس معجزے میں کلام مقدّس ہمارے لئے نجات دہندہ مسیح کو پیش کرتا ہے، جس نے مخبوط الحواس شخص کا اپنے ساتھ اور اُس کے معاشرے کے ساتھ میل کرایا۔ جب ہم مسیح کا سامنا کرتے ہیں اور وہ ہم سے ملتا ہے، تو وہ ہماری زندگیوں کو بدل کر بہترین اور اتم درجہ پر لے جاتا ہے۔ یوں جو تاریخ میں ہُوا وہ روز کا ذاتی تجربہ بن جاتا ہے۔ ہمیں مسیح کی بدولت اپنے آپ سے اور اپنے معاشرے کے ساتھ صلح کرنے کی کتنی زیادہ ضرورت ہے!

سو، آئیے اَب ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ بہت سی بد ارواح نے اُسے اپنی گرفت میں لیا ہُوا تھا:

جس شخص کو معجزے کی ضرورت تھی اُس نے اپنے آپ کو ’’لشکر" کہا، جس کا مطلب ہے رومی فوج میں ایک ڈویژن یا بٹالین۔ اِس میں چھ ہزار کے قریب سپاہی ہوتے تھے۔ اِس شخص پر بد ارواح کے ایک پورے لشکر کا قبضہ تھا۔ اگر اِس شخص کا دیوانہ پن عام پاگل پن ہوتا تو اِس کے شفا یاب ہونے کے نتیجے میں سؤر ہلاک نہ ہوتے۔ اِس شخص کا پاگل پن اِس میں بد رُوحوں کی موجودگی کا نتیجہ تھا۔

ب۔ اِس بد رُوح گرفتگی کے نتائج:

(1) پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے اپنے آپ کو اذیت دی، کیونکہ بد ارواح کے قیام نے اُسے عقل اور اور منطقی سوچ سے محروم کر دیا تھا، اِس لئے وہ الگ تھلگ ہو کر قبروں میں رہنے لگا، اپنے آپ کو پتھروں سے زخمی کرتا تھا۔ وہ غریب آدمی شیزوفرینیا کا شکار تھا، کیونکہ ہم اُس میں دو متضاد شخصیتیں دیکھتے ہیں: ایک جس نے اُسے مسیح کے سامنے جھکایا، اور دوسری وہ جس نے اُسے چلّانے پر مجبور کیا: "اَے یسوع خُدا تعالےٰ کے فرزند مجھے تُجھ سے کیا کام؟ تجھے خُدا کی قسم دیتا ہُوں مجھے عذاب میں نہ ڈال۔" جو کوئی خُداوند سے دُور ہے اپنے اندر ویرانی اور خانہ جنگی پاتا ہے، جیسا کہ ہم رومیوں 7 اور گلتیوں 5 میں اپنے اندر دو فطرتوں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ یہ مخالفت جسم اور رُوح کے درمیان ہے۔ جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور رُوح جسم کے خلاف۔ دونوں ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اِنسان اپنے آپ کو وہ کرتا دیکھتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتا۔

یہ غریب آدمی شفا یابی اور نجات کی اپنی خواہش اور اپنے اندر بسنے والی بد ارواح کی خواہش کے درمیان دب گیا تھا!

(2) یہ شخص اپنے لئے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کےلئے بھی اجنبی بن گیا تھا۔ اُس نے علاقے کے لوگوں پر حملہ بھی کیا، اِس لئے اُنہوں نے اُسے غریب مریض نہیں بلکہ ایک بپھرے ہوئے جانور اور تباہ کن وحشی کی طرح سمجھا اور اُسے زنجیروں سے جکڑ دیا۔ جب گناہ ہماری زندگی میں داخل ہوتا ہے، تو یہ ہمیں اپنے لئے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کےلئے اجنبی بنا دیتا ہے۔ جب ہم اچھا بننا چاہتے ہیں، تو گناہ ہمیں خود سے اور دوسروں سے نفرت کرنے کا سبب بنتا ہے۔

آدم نے حوّا کی تعریف کرتے ہوئے دُنیا کی پہلی محبّت کی شاعری کہی۔ اُس نے کہا: "یہ تو اَب میری ہڈّیوں میں سے ہڈّی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی" (پیدایش 2: 23)۔ لیکن جب گناہ اُس کے دِل میں داخل ہُوا تو یہ شاعر اِس عورت کے خلاف ہو گیا جس سے وہ پیار کرتا تھا۔ اُس نے خُداوند سے کہا: "جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے اُس نے ۔۔۔" اور یہ کہہ کر سارا الزام اُس پر ڈال دیا، حالانکہ وہ خود اُسی کی طرح بلکہ اُس سے بھی زیادہ ذمہ دار تھا، کیونکہ وہ گھر کا سربراہ تھا۔ شیطان یوں اِنسانی خاندان کی زندگی میں داخل ہو کر اُسے برے کردار، غرور، فریب اور جھوٹ سے بھر دیتا ہے، تا کہ اِنسان کے اپنے اردگرد رہنے والے افراد سے تعلقات ٹوٹ جائیں۔

(3) اِس شخص میں بد رُوحوں کے قبضے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے مسیح سے اجتناب کیا۔ جب اُس نے مسیح کو اپنی طرف آتے دیکھا تو آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ جو کچھ مسیح اِس مخبوط الحواس شخص سے چاہتے تھے اُس نے اُس سے بچنے کی کوشش کی۔ اُس نے مسیح کی فکر، علم، اثر اور برکت کو رد کر دیا۔ نتیجتاً اُس نے اپنے لئے مسیح کی توقعات کو پورا نہ کیا۔ یسوع مسیح اُسے بہتر زندگی دینے کےلئے آئے تھے، لیکن وہ قبروں میں رہنے کےلئے اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کےلئے چلا گیا، اور یوں وہ اُن اعمال صالح سے دُور ہُوا جو خُدا نے اُس کےلئے پہلے سے ہی تیار کر رکھے تھے۔

(4) وہ اُس وقت مکمل طور پر بدل گیا جب مسیح نے اُس کا سامنا کیا اور اُس میں کام کیا جیسے آپ نے بعد میں ترسس کے ساؤل کے ساتھ کیا تھا۔ ساؤل کا بھی ایسا ہی رویہ تھا، پَینے کی آر پر لات مار رہا تھا، اپنے آپ کو بھی ستا رہا تھا اور کلیسیا کو بھی ستا رہا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود، مسیح نے اُس کے سامنے آ کر اُسے تبدیل کیا اور اُسے ایک نئی زندگی بخشی (ساؤل کی تبدیلی کا واقعہ اعمال 9، 22، 26 باب میں موجود ہے)۔

کیا آپ کے خیال میں اِنسان خُدا کو چُنتا ہے، یا خُدا اِنسان کو چُنتا ہے؟ ہمیں بائبل مقدّس میں دونوں طرح کے خیالات ملتے ہیں۔ خُدا ہمیں چنتا ہے، کیونکہ وہ پہل کرتا ہے۔ اور اِنسان اُس الٰہی انتخاب کا جواب دیتا ہے۔ خُدا پہلا قدم اٹھاتا ہے، اور ہم اِنسان دوسرا قدم اُٹھاتے ہیں۔ اِنسان اپنے گناہوں میں مُردہ ہونے کی وجہ سے توبہ کی جانب اپنا پہلا قدم اُٹھانے سے قاصر ہوتا ہے، اور یہ نہیں سمجھتا کہ یہ خُدا تعالٰی کی ہستی ہے جس نے پہلا قدم اُٹھایا ہے۔ کیونکہ یہ رُوح القُدس ہے جو مُردوں کو زندگی بخشتا ہے۔ گناہوں میں مُردہ فرد رُوح القُدس کے کام کا جواب دیتا ہے۔ "خُدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذِمہ نہ لگایا" (2۔ کرنتھیوں 5: 19)۔

کتنے ہی ذرائع ہیں جن کے ذریعے مسیح "اپنے نام کی خاطر" رُوح کو راستبازی کی راہوں پر لاتا ہے (زبور 23: 3)! اُس بد رُوح گرفتہ شخص کے ساتھ پیش آنے والی تبدیلی کتنی بڑی تھی! وہ اپنے ہوش و حواس میں آ گیا، کپڑے پہن کز مسیح کے پاس بیٹھ گیا جس نے اپنی نجات کی قدرت سے اُس کے دِل کو اپنی محبّت کےلئے مضبوط کیا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے ذہن ہوشمند ہو جاتے ہیں۔ جب ہم مسیح کی عقل سے سوچنا شروع کرتے ہیں، تو ہم دیکھ پاتے ہیں کہ ہماری بہتری کےلئے کیا ہے۔ ایک لمبی دوڑ کی بعد اطمینان کی وجہ سے ہم بیٹھ جاتے ہیں۔ اُس کی کامل محبّت نے ہمارا خوف دُور کر دیا ہے، اور ہم راستبازی اور نجات کے لباس سے ملبّس ہیں۔

(5) اِس شخص کے ساتھ پیش آنے والے ماجرے کا کمال یہ تھا کہ خُداوند نے اُسے اپنے لوگوں تک نجات کی خوشخبری پہنچانے کےلئے اپنا پیامبر منتخب کیا۔ وہ مسیح کے ساتھ جانا چاہتا تھا، لیکن آپ نے اُس سے کہا: "اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور اُن کو خبر دے کہ خُداوند نے تیرے لئے کیسے بڑے کام کئے اور تُجھ پر رحم کیا۔" اُس کے عزیز اُس سے ڈرتے تھے، اِس لئے اُنہوں نے اُسے زنجیروں میں جکڑ دیا تھا، لیکن وہ اُنہیں توڑ کر اُنہیں مارنے کےلئے اُن کے پیچھے بھاگتا تھا۔ اَب شفا یابی کے بعد وہ اُنہیں خوفزدہ کرنے کےلئے نہیں بلکہ اُنہیں تسلی دینے کےلئے اُن کے پاس گیا۔ اور وہ لوگ اُس سے بھاگے نہیں، بلکہ وہ اُس کے ساتھ اُس نجات دہندہ کے پاس آئے جسے وہ جان گیا تھا۔

یہ مسیح کا حکم تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو خوشخبری سنائے، لیکن وہ کچھ اَور چاہتا تھا۔ یہ کس قدر خوبصورت ہے کہ مسیح ہماری زندگیوں کو چھو کر ہمیں اپنے پیامبر کے طور پر مقرر کرتا ہے، جو اُس کے بارے میں حیرت انگیز ترین پیغام سناتے ہیں، کیونکہ وہ ہمارے منہ میں خوشخبری کا سب سے خوبصورت پیغام "یسوع مسیح کی خوشخبری" ڈالتا ہے۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

ہمارے نزدیک اُس علاقے کے لوگوں کو اِس بد رُوح گرفتہ شخص کی شفا سے خوش ہونا چاہئے تھا جو اُن کا راستہ روکا کرتا تھا، کیونکہ اُنہیں اُس کی شفا یابی سے فائدہ ہُوا تھا۔ اور اِس شفا یابی نے اِس مخبوط الحواس شخص کے پاگل پن کو جو اُسے تباہ کر رہا تھا، ختم کر دیا تھا۔ لیکن افسوس کہ وہ خوش نہ تھے، کیونکہ اُن کی سوچ اِس سے کم اہم چیز یعنی سؤروں کے اُس غول پر مرکوز تھی جو جھیل میں جا پڑا تھا اور ڈوب گیا تھا۔

یہ مسیح کے دو معجزوں میں سے ایک ہے جو کچھ نقصان کا باعث بنے: پہلا، آپ کے کہنے پر انجیر کے درخت کا سوکھ جانا، اور دوسرا آپ کے کہنے پر سؤروں کا ہلاک ہو جانا۔

ہم حیران ہوتے ہیں کہ کیوں آپ نے سؤروں کو ہلاک ہونے دیا۔ کیا آپ شفا کا معجزہ سرانجام دینے کے ساتھ اِن جانوروں کو نہیں بچا سکتے تھے؟ ہاں، آپ ایسا کر سکتے تھے۔ لیکن یہاں ایک الٰہی مقصد موجود ہے۔ سؤروں کو ہلاک ہونے دینے کا مقصد لوگوں کو اِس حقیقت سے روشناس کرانا تھا کہ وہ سؤروں کو پالنے سے موسیٰ کی شریعت کو توڑ رہے تھے (اِستثنا 14: 8)۔ اِس کا مقصد اُنہیں دولت کی محبّت اور جسمانی طور پر سوچنے کے انداز سے شفا دینا بھی تھا جس میں شفا پانے والے شخص کےلئے رحم موجود نہیں تھا۔ اُس شخص کو اُس کی بیماری سے بچانے کے ساتھ یہ مقصد بھی تھا۔ اُنہیں اِس غریب حال شخص کی نسبت اپنے دُنیوی معاملات کی زیادہ فکر تھی۔ کوئی بھی شخص دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا، خُدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کی جا سکتی (متی 6: 24)۔

مسیح لوگوں کو یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ شیطان کی غلامی کس قدر خوفناک ہوتی ہے۔ وہ سؤر بد ارواح کے داخل ہونے کی وجہ سے تمام صورتحال کو برداشت نہ کر سکے اور ڈوب مرے۔ جو کوئی بھی شیطان اور اُس کی بُری راہوں کی پیروی کرنے پر راضی ہوتا ہے، وہ اُس کی ابدی منزل پر کس قدر اثر ڈالتا ہے!

مسیح کو اپنی سچائی کا اعلان کرنے کےلئے علامتی ذرائع استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ نے انجیر کے درخت پر لعنت بھیجی اور وہ سوکھ گیا (متی 21: 20) اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ ریاکاری کی مذّمت کی جا سکے۔ یہاں آپ ناپاکی کی مذّمت کرتے ہیں۔ اُس زمانے میں لوگ سؤر کو بری خواہشات اور فساد کی علامت سمجھتے تھے، جیسے آج ہم اپنے زمانے میں لومڑی کو مکاری اور فریب کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہودی سؤر کو اُس کا گوشت کھانے سے صحت کو لاحق خطرات، موسیٰ کی شریعت کے مطابق اِس کے ناپاک ہونے اور اِس کی وحشیانہ درندگی کی وجہ سے اِسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح ہمیشہ کام کرتا ہے:

"میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہُوں" (یوحنّا 5: 17)۔ آپ گلیل کی جھیل کو پار کر کے گدرینیوں کے علاقے میں اِس غریب حال شخص سے ملنے اور اُسے شفا دینے کےلئے گئے۔

جب بھی ہم دُنیا میں بدی کو پھیلتے اور غلبہ پاتے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ خُدا ہماری دُنیا میں کام نہیں کر رہا۔ بنی اسرائیل نے صفنیاہ نبی کے زمانے میں شریروں کو کامیاب ہوتے اور ایمانداروں کو مشکلات میں سے گزرتے دیکھا تو کہا: "خُداوند سزا و جزا نہ دے گا" (صفنیاہ 1: 12)۔ لیکن ہمیں پورا بھروسا رکھنا چاہئے کہ خُداوند بھلائی کرے گا، اور یہ کہ خُدا کی بادشاہی مسلسل متحرک ہونے کی حالت میں ہے، اور خُدا بد اعمالی کی سزا دے کر شریر کو بھی زخم لگاتا ہے۔

یسوع مسیح وہاں گئے جہاں بیمار شخص موجود تھا، کیونکہ آپ اچھا چرواہا ہیں جو کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش کرتا ہے جب تک کہ وہ اُنہیں ڈھونڈ نہ لے۔ پھر آپ نے اُس بد رُوح گرفتہ شخص کے اندر اپنا کام کیا، اور اُسے خوشخبری سُنانے اور اُس کا پرچار کرنے کےلئے بھیجا۔

ب۔ مسیح سب کو رہائی بخشنے کےلئے آیا ہے:

بد ارواح نے مسیح سے کہا: "اَے خُدا کے بیٹے ہمیں تُجھ سے کیا کام؟ کیا تُو اِس لئے یہاں آیا ہے کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالے؟" مسیح نے کہا کہ جب سب سے زور آور آتا ہے تو وہ زور آور کو باندھتا ہے اور اُس کی غنیمت لوٹ لیتا ہے (متی 12: 29)۔ جب شیطان جو زور آور ہے کسی اِنسان کی زندگی پر قبضہ کر لیتا ہے تو وہ اُسے بے توقیر کر دیتا ہے اور اُس کی اِنسانیت تباہ کر دیتا ہے۔ لیکن مسیح، جو اُس سے زیادہ زور آور ہے، شیطان کو زنجیروں میں جکڑ کر شکار کو بچاتا ہے، اور شفا پانے والے شخص کو اُس کی پہلی حالت کے برعکس خُدا کے جلال کےلئے متحرک کرتا ہے۔

مسیح نے شفا یافتہ شخص کو چلنے کےلئے آزاد کر دیا۔ وہ آپ کی قدرت سے آپ کے سامنے جھکا، آپ نے اُسے شفا دی، اور پھر اُسے اُس کے لوگوں کے پاس بھیج دیا۔ کیونکہ جب مسیح ہماری زندگیوں میں داخل ہوتا ہے تو وہ ہمیں اپنی خدمت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب ہم نجات حاصل کرتے ہیں، تو ہم ایک عظیم آغاز کرتے ہیں جس کےلئے مسلسل لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنا وقت، اپنی دولت اور اپنے بدن ایک زندہ، پاک اور پسندیدہ قربانی کے طور پر اُس کے حضور نذر کرتے ہیں، تا کہ ہم ہمیشہ مسیح کے اِختیار میں رہیں (رومیوں 12: 1، 2)۔

ج۔ مسیح نے بد ارواح اور سُؤروں کے مالکوں کی درخواست کو قبول کیا، جبکہ شفا پا جانے والے بیمار شخص کی درخواست کو قبول نہ کیا۔

(1) بد ارواح نے مسیح سے کہا کہ وہ اُنہیں علاقہ سے دُور نہ بھیجے، اور آپ نے ایسا ہی کیا۔ ہم اِس درخواست میں پنہاں مقصد نہیں جانتے۔ غالباً وہ اُس علاقے میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو مسیح کے خلاف اکسانا چاہتی تھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بد ارواح کے پاس زمین پر عدالت کے دِن تک کام کرنے کا موقع ہے (یہوداہ، آیت 6)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں سے ہر گروہ کی ایک جگہ ہے جہاں وہ کام کرتے ہیں۔ اُس علاقے کے لوگوں کے رسم و رواج اور کمزوریوں کو جانتے ہوئے وہ اُن پر بہتر حملہ کر سکتی ہیں۔ مسیح نے اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت دی تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ "بیشک اِنسان کا غضب تیری ستایش کا باعث ہو گا اور تُو غضب کے بقیہّ سے کمربستہ ہو گا" (زبور 76: 10)۔ یسوع نے اِس بات کی اجازت اُن پر یہ ظاہر کرنے کےلئے بھی دی کہ اُن کی تباہی کتنی ہولناک ہو گی، اور اُس شخص کی نجات کس قدر زبردست ہے جسے آپ نے اُن کے چنگل سے نجات دلائی تھی۔

مزید برآں، مسیح نے ملک کے لوگوں کی درخواست سے بھی اتفاق کیا کہ وہ وہاں سے چلا جائے اور اُنہیں تنہا چھوڑ دے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مسیح کی طرف سے اپنے دوسرے گناہوں کی سرزنش کرنے کے امکان سے نفرت کر رہے ہوں، اِس لئے اُنہوں نے آپ کو وہاں سے جانے کو کہا، "کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ اَیسا نہ ہو کہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے" (یوحنّا 3: 20)۔ یوں وہ بات پوری ہوئی جو خُدا نے ہوسیع نبی کی معرفت کہی تھی: "جب مَیں بھی اُن سے دُور ہو جاؤں تو اُن کی حالت قابِل افسوس ہو گی" (ہوسیع 9: 12)۔

(2) دوسری طرف مسیح نے شفا پانے والے شخص کی درخواست کو رد کر دیا جو آپ کے ساتھ جانا چاہتا تھا۔ یسوع مسیح چاہتے تھے کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کے سامنے مسیح کے فضل کی گواہی دے جنہوں نے مسیح کو رد کیا تھا۔

کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ مسیح بد ارواح اور ملک کے لوگوں کی درخواست کو قبول کرتا ہے، اور شفا یاب ہونے والے شخص کی درخواست کو رد کرتا ہے؟

خُدا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ اُس کی پیروی کرے کیونکہ محبّت میں کوئی زبردستی نہیں ہوتی۔ لیکن بطور خُدا کے فرزند ہمارا ایک فرض ہے۔ جب خُدا ہمارے دِل میں کوئی ایسی خواہش دیکھتا ہے جو اِس آسمانی فرض کے برعکس ہو، تو وہ اُس سے انکار کر دیتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی بادشاہی کو آگے بڑھانے کےلئے اپنی ذمہ داری کو پورا کریں۔ کیونکہ خُدا اپنی بادشاہی کی خدمت کی ذمہ داری اجنبیوں کو تفویض نہیں کرتا، بلکہ صرف اپنے فرزندوں کو سونپتا ہے۔

خُدا ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اپنے خاندان، اپنے گھروں اور اپنے معاشرے میں جہاں نجات کی خوشخبری کی ضرورت ہے اُس کے ارادے کو پورا کریں۔

دُعا

اَے ہمارے آسمانی باپ، ہم تیرا شکر کرتے ہیں تُو ہمارے تمام حالات میں ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ تیرا دِل ہمارے مصائب، ہمارے المیوں اور ہماری غلامی کےلئے ترس سے بھرا ہے، اِس لئے تیرا شکر ہو۔ جب ہم حواس کھو بیٹھتے ہیں تو اُس وقت تُو ہمارے پاس آتا ہے، اور ہمیں شفا یابی بخشتا ہے جو ہم گناہ کے باعث کھو چکے تھے۔ اے خُداوند، ہمیں اپنی طرف لے کر آ، تا کہ ہم توبہ کریں، تیری طرف رجوع لائیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. آپ اِس بات کی وضاحت کیسے کریں گے کہ مقدّس متی کے بیان کے مطابق مسیح نے بد رُوح گرفتہ شخص کو گدرینیوں کے ملک میں شفا بخشی جبکہ مقدّس مرقس اور مقدّس لوقا کے مطابق آپ نے اُسے گراسینیوں کے علاقہ میں شفا بخشی؟

  2. بد رُوح گرفتہ شخص نے اپنے آپ کو "لشکر" کیوں کہا؟

  3. یہ مخبوط الحواس شخص کس طرح اپنے اور اپنے معاشرے کےلئے اجنبی تھا؟

  4. دنیا کی پہلی محبّت کی نظم کون سی ہے؟ اور اُس شاعر نے اُس میں جو کچھ کہا، اُس بارے میں اُس کے ذہن کو کس چیز نے بدل دیا؟

  5. مسیح نے سؤروں کو کیوں ہلاک کیا؟

  6. مسیح نے اِس شفا یاب شخص میں کون سی نئی تحریک پیدا کی؟

  7. آپ کے خیال میں وہ ذمہ داری کیا ہے جو مسیح نے آپ کو سونپی ہے؟

تیرہواں معجزہ: یائیر کی بیٹی کو زندہ کرنا

"جب یسوع پھر کشتی میں پار گیا تو بڑی بِھیڑ اُس کے پاس جمع ہُوئی اور وہ جھیل کے کنارے تھا۔ اور عبادت خانہ کے سرداروں میں سے ایک شخص یائیر نام آیا اور اُسے دیکھ کر اُس کے قدموں پر گرا۔ اور یہ کہہ کر اُس کی بہت منّت کی کہ میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے ۔ تُو آ کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھ تا کہ وہ اچّھی ہو جائے اور زندہ رہے۔ پس وہ اُس کے ساتھ چلا اور بہت سے لوگ اُس کے پیچھے ہو لئے اور اُس پر گرے پڑتے تھے۔"

"وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عبادت خانہ کے سردار کے ہاں سے لوگوں نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مر گئی۔ اب اُستاد کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟ جو بات وہ کہہ رہے تھے اُس پر یسوع نے توجّہ نہ کر کے عبادت خانہ کے سردار سے کہا خوف نہ کر۔ فقط اعتقاد رکھ۔ پھر اُس نے پطرس اور یعقوب اور یعقوب کے بھائی یوحنّا کے سوا اور کسی کو اپنے ساتھ چلنے کی اجازت نہ دی۔ اور وہ عبادت خانہ کے سردار کے گھر میں آئے اور اُس نے دیکھا کہ ہُلّڑ ہو رہا ہے اور لوگ بہت رو پِیٹ رہے ہیں۔ اور اندر جا کر اُن سے کہا تُم کیوں غُل مچاتے اور روتے ہو؟ لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ وہ اُس پر ہنسنے لگے لیکن وہ سب کو نکال کر لڑکی کے ماں باپ کو اور اپنے ساتھیوں کو لے کر جہاں لڑکی پڑی تھی اندر گیا۔ اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اُس سے کہا تلیتا قُومی۔ جس کا ترجمہ ہے اَے لڑکی مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔ وہ لڑکی فی الفور اُٹھ کر چلنے پھرنے لگی کیونکہ وہ بارہ برس کی تھی۔ اِس پر لوگ بہت ہی حیران ہُوئے۔ پھر اُس نے اُن کو تاکید سے حکم دِیا کہ یہ کوئی نہ جانے اور فرمایا کہ لڑکی کو کُچھ کھانے کو دیا جائے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 5: 21۔ 24، 35۔ 43؛ مزید دیکھئے متی 9: 18۔ 26، اور لوقا 8: 41۔ 56)

کفرنحوم کے شہر نے مسیح کے بہت سے معجزات دیکھے۔ یہ معجزہ، یعنی یائیر کی بیٹی کو مُردوں میں سے زندہ کرنا، اِسی شہر میں ہُوا۔

مسیح نے تین افراد کو مختلف جگہوں پر اور اُن کی موت کے بعد مختلف اوقات میں زندہ کیا۔ آپ نے یائیر کی بیٹی کو گھر میں اور نائین کی بیوہ کے بیٹے کو شہر کے دروازے پر اُس دِن زندہ کیا، جس دن وہ مرے تھے۔ لیکن لعزر کو جب مسیح نے زندہ کیا تو وہ اپنی قبر میں تھا، اور اُسے مرے ہوئے چار دن ہو چکے تھے۔

یہ تینوں معجزات ہمیں گنہگار فرد کی تین مختلف صورتیں دکھاتے ہیں جو مسیح سے بہت دُور ہے۔ پہلی صورت ایک ایسے فرد کی ہے جو اندرونی گناہ کا شکار ہے، جس کا گناہ باہر والے لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ گھر میں ہے، لیکن اِس کے باوجود وہ اپنے گناہوں میں مُردہ ہے اور اُسے مسیح کے حکم کی ضرورت ہے: "تلیتا قُومی۔ جِس کا ترجمہ ہے اَے لڑکی مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ" (مرقس 5: 41)۔

ایک گنہگار شخص کی دوسری تصویر "شہر کے پھاٹک" پر ہے۔ اُس کے گناہ ہر کسی کو نظر آتے ہیں، جیسے زبان، کان، ہاتھ یا آنکھ کے گناہ۔ یہ ایک ایسی رُوح ہے جسے مسیح کے اِس حکم کی ضرورت ہے "اَے جوان مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔"

پھر اِنسان کا گناہ تیسرے درجہ کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ بدبو دار، گندا اور دائمی ہو جاتا ہے، ہر ایک پر ظاہر ہوتا ہے، جیسے لعزر جسے قبر میں پڑے ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔ یہ ایسا فرد ہے جسے مسیح کے اِس حکم کی ضرورت ہے: "نکل آ" (یوحنّا 11: 43)۔

اِن تمام واقعات میں ہم مسیح کو ایک ایسے فرد کے طور پر دیکھتے ہیں جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے، ہم زندگی کو جی اُٹھتے دیکھتے ہیں، کیونکہ مسیح ہی راہ، حق، قیامت اور زندگی ہے۔

سو، آئیے اَب ہم اِس معجزے پر گیان دھیان کرتے ہوئے غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ اِس معجزے میں سب سے پہلا ضرورت مند فرد وہ لڑکی ہے جو مر گئی تھی:

مقدّس متی کی اِنجیل بیان کرتی ہے کہ یائیر نے یسوع کو کہا کہ "میری بیٹی ابھی مری ہے،" جبکہ مقدّس مرقس کی اِنجیل کہتی ہے کہ یائیر نے کہا: "میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے۔" حقیقت یہ ہے کہ جب یائیر اپنے گھر سے نکلا تو وہ مرنے ہی والی تھی اور جب وہ اُس مقام پر پہنچا جہاں مسیح موجود تھا تو اُسے معلوم نہیں تھا کہ اُس کی بیٹی زندہ ہے یا مر گئی ہے۔ چنانچہ اُس نے اُسے ایک بار مُردہ قرار دیا، اور ایک بار یوں کہ جیسے وہ موت کے دہانے پر تھی کیونکہ اُس نے کہا "میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے۔ تُو آ کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھ تا کہ وہ اچّھی ہو جائے اور زندہ رہے۔" وہ الفاظ "اچّھی ہو جائے" اِس لئے استعمال کرتا ہے کہ وہ بیمار ہے، اور الفاظ "زندہ رہے" جن کا یونانی مفہوم "زندہ رہے گی" اِس لئے استعمال کرتا ہے کہ وہ غالباً مر چکی ہے۔ یائیر اُس وقت اپنی بیٹی کی حالت کے بارے میں واضح نہ جانتا تھا، اِس لئے ایک طرف اُس نے اُس کی سنگین حالت کے بارے میں بات کی اور دوسری طرف اُس کی ممکنہ موت کے بارے میں بتایا۔

یائیر کی بیٹی کی طرح اکثر مسیح کی احتیاج رکھنے والا فرد اپنی ضرورت کو بیان کرنے یا اُس کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اِس لئے خُداوند اُس کی حالت کو بیان کرنے کےلئے کسی اَور کو اُس کے متبادل کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہاں ہمارے سامنے ایک ایسا گنہگار ہے جو جانتا ہے کہ اُسے مسیح کی رحمت کی ضرورت ہے۔ جن گنہگاروں کو اپنے گناہ کا احساس نہیں ہوتا وہ بہت گناہ کرتے ہیں اور ربّ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں، یا شاید اُن کی آنکھیں اندھی ہو چکی ہوتی ہیں کہ اُنہیں اپنے گناہ نظر نہیں آتے، اِس لئے اُنہیں کسی کی ضرورت ہے کہ وہ اُن کی احتیاج بیان کرے اور اُنہیں خُداوند کے تخت کے سامنے پیش کرے۔

خُدا، ہمیں لوگوں کی مسیح کےلئے ضرورت کا اظہار کرنے کی توفیق دے، تا کہ ہم اُن سے خُداوند کے بارے میں بات کر سکیں، اور اُن کےلئے دُعا کرنے سے خُداوند سے اُن کے بارے میں بات کر سکیں۔

ب۔ دوسرا ضروت مند فرد یائیر ہے:

(1) یائیر درخواست لے کر آنے والا فرد: اِس معجزے کی احتیاج رکھنے والا دوسرا فرد یائیر تھا، جس نے اپنی بیٹی کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ عبرانی نام "یائیر" کی یونانی صورت "جائیرس" ہے، جیسے عبرانی نام "ایلیاہ" کی یونانی صورت "اِیلائس" ہے، اور عبرانی نام "یوناہ" کی یونانی صورت "جونس" ہے۔ عبرانی نام "یائیر" کا مطلب ہے "وہ روشن کرتا ہے۔" یہ اسرائیل کے قاضیوں میں سے ایک کا نام بھی ہے، جو "جلعادی یائیر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

(2) یائیر جس نے دیکھا اور ایمان لایا: یائیر کفرنحوم میں یہودیوں کے عبادت خانہ کے متعدد سرداروں میں سے ایک تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اُن لوگوں میں سے ہو جو اُس صوبہ دار کی نمائندگی کرتے ہوئے جو یہودیوں سے محبّت کرتا تھا اور جس نے اُن کا عبادت خانہ بنایا تھا، مسیح کے پاس گئے تا کہ صوبہ دار کے نوکر کی شفا یابی کی درخواست کریں (لوقا 7: 3)۔ یائیر نے بیمار آدمی کی شفا یابی کا معجزہ دیکھا ہو گا۔ مسیح نے اُسے دُور ہی سے شفا دی تھی اور یائیر پھر مسیح کے اِختیار کی قدرت کو سمجھ گیا تھا۔ جب اُس کی بیمار بیٹی کی مدد کرنے میں طبیبوں کی کوششیں ناکام ہوئیں، تو اُس نے ذاتی طور پر مسیح کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ آپ کو اپنی اکلوتی مرنے والی بارہ سالہ بیٹی کے بارے میں بتائے۔

(3) یائیر بے بس اور غمگین شخص: کئی بار خُداوند ہمیں سخت حالات یا مشکل حالات سے گھیر لیتا ہے، جس سے ہمیں مسیح کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ اپنی محبّت میں ہمیں مشکلات سے گزرنے دیتا ہے اور ہمیں بے اختیار محسوس کرنے دیتا ہے تا کہ ہم اُس کی الٰہی رحمتوں میں پناہ لے سکیں۔ غم اور بے بسی دو ایسے ذرائع ہیں جنہیں خُداوند ہمیشہ ہماری بھلائی کےلئے استعمال کرتا ہے۔

(4) یائیر ایک عاجز ایماندار: یائیر مسیح کے سامنے عاجزی سے پیش آیا۔ "اُسے دیکھ کر اُس کے قدموں پر گرا۔" یہودی مذہبی راہنماؤں نے مسیح میں صرف ایک مقبول مبلغ کو دیکھا، جس کے پاس "استاد" کے لقب کےلئے مناسب مذہبی تربیت نہیں تھی۔ تو پھر یائیر جیسا متمدن اور تعلیم یافتہ آدمی، ناصرت کے ایک مشہور مبلغ کے قدموں میں کیسے سجدہ کر سکا تھا؟ یہ حقیقی عاجزی تھی۔

(5) یائیر نے مسیح میں ایک ایماندار کے طور پر برتاؤ کیا: اُس نے مسیح سے کہا: "تُو آ کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھ تا کہ وہ اچّھی ہو جائے اور زِندہ رہے۔" اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس نے کفرنحوم میں مسیح کو معجزات کرتے دیکھا تھا۔

(6) اُس کی درخواست پُرعزم تھی: "اُس کی بُہت مِنّت کی۔" اپنی بیٹی کےلئے اُس کا غم فوری تھا، اِس لئے اُس نے مسیح کے سامنے اپنی درخواست مسلسل رکھی۔

(7) یائیر نے دلیری کا مظاہرہ کیا: وہ مسیح کے قدموں کے سامنے گرا، اور سب لوگوں کے سامنے آپ سے التجا کی، جبکہ یہودیوں کے راہنما پہلے ہی مسیح کو قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ اُس نے ایسا اِس لئے کیا کیونکہ اپنی بیٹی کے ساتھ اُس کی محبّت نے اُسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

الف۔ یائیر کے دوست:

جب یائیر بول رہا تھا تو اُس کے دوست اُس کے گھر سے آئے اور اُس سے کہا: "تیری بیٹی مر گئی۔ اب اُستاد کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟" (مرقس 5: 35)۔ یہ دوست جھوٹ نہیں بول رہے تھے۔ وہ سچی خبر لا رہے تھے۔ لیکن وہ ایک غلط نتیجے پر پہنچے تھے: "اب اُستاد کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟" تاہم، استاد پریشان نہیں ہوتا اور بھلائی کرنے سے باز نہیں رہتا۔ الفاظ "اَب ۔۔۔ کیوں" کا اطلاق اُس پر نہیں ہوتا، کیونکہ مسیح ماضی، حال اور مستقبل کا خُداوند ہے۔ مسیح نے اپنے الفاظ سے یائیر کی فوری حوصلہ افزائی کی جس نے اُس کے دِل میں امّید کو بحال کیا جو اُس کے دوستوں نے ختم کر دی تھی۔ مسیح نے اُس سے کہا: "خوف نہ کر۔ فقط اعتقاد رکھ" (مرقس 5: 36)۔

اکثر ہم اپنے اردگرد موجود افراد سے بہت معقول باتیں سنتے ہیں۔ لیکن اگر ہم مسیح کو ملحوظِ خاطر نہ رکھیں تو اُن کی سوچ ہمیں مایوسی اور تلخی سے بھر دیتی ہے۔ لیکن خُدا کا شکر ہو، کیونکہ مسیح ہم میں اعتماد بحال کرتا ہے۔ وہ ہماری رُوحوں میں نئے سرے سے امّید پیدا کرتا ہے۔

ب۔ ماتم کرنے والے اور کرائے کے رونے پیٹنے والے:

"اور وہ عبادت خانہ کے سردار کے گھر میں آئے اور اُس نے دیکھا کہ ہُلّڑ ہو رہا ہے اور لوگ بہت رو پِیٹ رہے ہیں" (مرقس 5: 38)۔ مقدّس متی کہتا ہے: "اور جب یسوع سردار کے گھر میں آیا اور بانسلی بجانے والوں کو اور بِھیڑ کو غُل مچاتے دیکھا۔ تو کہا ہٹ جاؤ" (متی 9: 23)۔ اُس وقت مرنے والوں کےلئے ماتم کی غرض سے عورتوں اور موسیقاروں کی خدمات حاصل کرنے کا رواج تھا۔ یائیر کے گھر میں اُن کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو ماتمی دھنیں بجا رہے تھے، اور کپڑے پھاڑ کر اور تھپڑ مار کر غم کے جذبات کو بیدار کرنے کےلئے ماتم اور نوحہ خوانی کرتے تھے۔ جب مسیح نے اُنہیں بتایا کہ لڑکی مری نہیں بلکہ سو رہی تھی تو اُن کا غم اور رونا مسیح کا مذاق اڑانے میں بدل گیا۔ اُن کا دُکھ مخلصانہ نہیں تھا بلکہ کرائے کا تھا۔ اُن کی تعزیت تکلیف دہ تھی۔ کچھ افراد کے تبصرے مشکل حالات میں کتنے بےرحم اور کھوکھلے ہوتے ہیں!

مسیح نے اُن کرائے کے افراد کے سامنے اپنے جلال کا اعلان نہیں کیا، بلکہ آپ نے اُن سب کو نکال باہر کیا۔ ٹھٹھا اُڑانے والے توبہ اور ایمان سے کوسوں دُور ہیں!

ج۔ تربیت پانے والے شاگرد:

پطرس، یوحنّا اور یعقوب اِس معجزے کے چشم دید گواہوں میں سے تھے، اور یہ وہی تین ہیں جنہیں یسوع مسیح اپنے ساتھ تبدیلی صورت کے پہاڑ پر (مرقس 9: 2)، اور باغِ گتسمنی میں لے کر گئے (مرقس 14: 33) کیونکہ آپ نے اُن کو بڑے پیمانے پر تربیت دی تا کہ وہ باقی شاگردوں کو تربیت دیں، اور یوں مسیح کی طاقت، اختیار اور محبّت کے بارے میں علم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اور آج تک ہم سنتے ہیں: "اور جو باتیں تُو نے بہت سے گواہوں کے سامنے مُجھ سے سُنی ہیں اُن کو اَیسے دیانت دار آدمیوں کے سپرد کر جو اَوروں کو بھی سکھانے کے قابل ہوں" (2۔ تیمتھیس 2: 2)۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح محبّت کرنے والا:

کفرنحوم میں یائیر کی بیٹی کو زندہ کرنے کا معجزہ کرنے سے پہلے ہی مسیح نے وہاں موجود عبادت خانہ میں، سبت کے دِن جب یہودی لوگ کام نہیں کرتے، سوکھے ہاتھ والے ایک شخص کو شفا بخشی۔ "پھر فریسی فی الفور باہر جا کر ہیرودیوں کے ساتھ اُس کے برخلاف مشورہ کرنے لگے کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں" (مرقس 3: 6)، کیونکہ مسیح نے سبت کے دِن کو مقدّس رکھنے کے حکم کو توڑا تھا۔ کفرنحوم میں عبادت خانہ کا ایک سردار یائیر ضرور اُن راہنماؤں میں شامل تھا۔ لیکن یسوع نے یائیر اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف ماضی کی سازشوں کی وجہ سے اُن سے نفرت نہیں کی۔ آپ یائیر سے کہہ سکتے تھے: "جب سب کچھ تمہارے لئے ٹھیک تھا تو تم مجھے مارنا چاہتے تھے۔ اب جب تمہارے لئے حالات خراب ہو چکے ہیں تو کیوں تم میری مدد مانگ رہے ہو؟" لیکن یسوع مسیح ایسے نہیں ہیں بلکہ آپ محبّت کرتے ہیں، اور ہماری خراب حالت میں ہمیں ردّ نہیں کرتے۔ یہ سچ ہے کہ ہم اپنے حالات کے بارے میں شکایت کرنے کےلئے اُس کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں، لیکن جب حالات بہتر ہو جائیں تو شاید ہم اُس سے دُور ہو جائیں۔ تاہم، آپ ہر طرح کے صورتحال میں ہمیں کہتے ہیں: "مصیبت کے دِن مُجھ سے فریاد کر۔ مَیں تجھے چُھڑاؤں گا اور تُو میری تمجید کرے گا" (زبور 50: 15)۔

یائیر کی مُردہ بیٹی کو زندہ کرنے کےلئے اُس کے گھر جاتے ہوئے، یسوع مسیح ایک ایسی عورت کی طرف متوجہ ہوئے جسے شفا کی ضرورت تھی اور وہ خون بہنے کے مرض میں مبتلا تھی۔ اُس کی شفا کے بعد آپ کی اُس سے گفتگو ہوئی، جس کا مقصد اُس کے اِیمان کو مضبوط کرنا تھا اور ساتھ ہی یائیر کے گھر میں جا کر اُس کی بیٹی کو زندہ کرنے سے پہلے اُس کے اِیمان کو بھی مضبوط کرنا تھا۔ یائیر کی فوری ضرورت کے باوجود مسیح وہاں رُک گئے کیونکہ آپ کے تمام اعمال محبّت ہیں۔ آپ خدمت لینے نہیں بلکہ خدمت کرنے اور اپنی جان بہت سے لوگوں کےلئے فدیہ کے طور پر دینے کےلئے آئے۔ خُداوند کے کام محبّت کے مسلسل کام ہیں، اور یہ اُس چشمہ سے جو کبھی خشک نہیں ہوتا اچھے لمس کا ایک مسلسل سلسلہ ہیں۔

ب۔ مسیح حوصلہ افزائی کرنے والا:

مسیح نے یائیر کے دِل میں اِیمان کی ایک چنگاری دیکھی تو آپ نے اُسے کہا: "خوف نہ کر۔ فقط اِعتقاد رکھ۔" مسیح کی شخصیت کس قدر حیران کن ہے، کیونکہ آپ اِنسان کی رُوح کو نقصان پہنچانے والے نشانات مٹا دیتے ہیں! ہم متی کی اِنجیل میں پڑھتے ہیں: "اِس پر فریسیوں نے باہر جا کر اُس کے برخلاف مشورہ کیا کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں۔ یسوع یہ معلوم کر کے وہاں سے روانہ ہُوا اور بہت سے لوگ اُس کے پیچھے ہو لئے اور اُس نے سب کو اچّھا کر دیا۔ اور اُن کو تاکید کی کہ مجھے ظاہر نہ کرنا۔ تا کہ جو یسعیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پُورا ہو کہ دیکھو یہ میرا خادم ہے جِسے مَیں نے چُنا۔ میرا پیارا جِس سے میرا دِل خُوش ہے۔ مَیں اپنا رُوح اِس پر ڈالوں گا اور یہ غَیر قَوموں کو اِنصاف کی خبر دے گا۔ یہ نہ جھگڑا کرے گا نہ شور اور نہ بازاروں میں کوئی اِس کی آواز سُنے گا۔ یہ کُچلے ہُوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور دُھواں اُٹھتے ہُوئے سَن کو نہ بُجھائے گا جب تک کہ اِنصاف کی فتح نہ کرائے۔ اور اِس کے نام سے غَیر قَومیں امّید رکھیں گی" (متی 12: 14۔ 21، یسعیاہ 42: 1۔ 4 کا اقتباس)۔ مسیح نے یائیر کے گھر کی جانب جاتے ہوئے اُس عورت کو شفا دینے سے جس کے خون جاری تھا یائیر کے کمزور اِیمان کو جِلا بخشی تا کہ وہ مضبوط ہو۔

خُداوند نے موت کو "نیند" کہا، آپ نے فرمایا: "لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے" (متی 9: 24)۔ لعزر کی موت کی بابت بھی آپ نے ایسی ہی بات کی: "ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے لیکن مَیں اُسے جگانے جاتا ہُوں" (یوحنّا 11: 11)۔

قبرستان کےلئے یونانی لفظ کا مطلب "سونے کی جگہ" ہے۔ یونانی موت کے بعد جس آرام کے متمنی تھے اُسے حاصل نہ کر سکے۔ مسیح نے اُسے ہمارے لئے حقیقت بنایا۔ آپ ہمیں مُردوں کے جی اُٹھنے اور موت کے بعد کی زندگی کا انتظار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ج۔ مسیح زندگی دینے والا:

آپ نے چھوٹی مُردہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور اُس سے کہا: "تلیتا قُومی" جس کا مطلب ہے "اَے لڑکی مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔" یہ وہ محبّت بھرے الفاظ ہیں جن سے ماں ہر صبح اپنی بیٹی کو جگاتی تھی۔ زندہ کرنے والا مسیح مُردہ لڑکی کے ساتھ کتنی نرمی اور شفقت سے پیش آیا!

اور مسیح زندہ کرنے والا، ایک گنہگار کے ساتھ جو اپنے گناہوں اور خطاؤں میں مُردہ ہوتا ہے، کس قدر مہربان ہے! "وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے" (یوحنّا 5: 25)۔ اِس کے ساتھ پولس رسول کے یہ الفاظ بھی پورے ہوتے ہیں: "اور اُس نے تمہیں بھی زِندہ کیا جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مُردہ تھے ۔۔۔ مگر خُدا نے اپنے رَحم کی دَولت سے اُس بڑی محبّت کے سبب سے جو اُس نے ہم سے کی ۔۔۔ ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا ۔۔۔" (افسیوں 2: 1۔ 10)۔

زندگی بحال کرنے والا مسیح کس قدر شفیق ہے جب وہ ہر روز اِیماندار کو گناہ کی گری حالت سے اُٹھاتا ہے تا کہ "اگر وہ گر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا کیونکہ خُداوند اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھالتا ہے" (زبور 37: 24)۔ وہ اُسے کھانے کےلئے رُوحانی خوراک دیتا ہے جو اُسے سنبھالتی اور آسودہ کرتی ہے، تا کہ وہ اُس خوراک کی طاقت سے آگے بڑھ سکے (1۔ سلاطین 19: 8)۔

زندگی بحال کرنے والا مسیح کس قدر شفیق ہے جب وہ دوبارہ آئے گا تو "جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زِندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے" (یوحنّا 5: 28)۔

آگے بڑھیں اور مسیح کا ہاتھ تھام لیں، تا کہ وہ آپ کو آپ کی موت سے ایک زبردست کام کےلئے زندہ کرے!

دُعا

اَے آسمانی باپ، ہم مسیح کےلئے تیرا شکر کرتے ہیں جس نے مُردوں کو زندہ کیا، اور اَب بھی گناہ میں مرے افراد کو نئی پیدایش کے ذریعہ ہمیشہ کی زندگی دینے سے زندہ کرتا ہے، اور جو اپنی دوبارہ آمد پر دُنیا کی عدالت کرنے اور ہر ایک کو اُس کے کاموں کے مطابق بدلہ دینے کےلئے مُردوں کو زندہ کرے گا۔ ہمیں اُس میں تجدید شدہ ابدی زندگی عطا فرما۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. وہ تین افراد کون ہیں جنہیں مسیح نے مُردوں میں سے زندہ کیا؟

  2. ہم اُن تینوں افراد میں جنہیں مسیح نے مُردوں میں سے زندہ کیا، اِنسانی رُوح کے تین درجے دیکھتے ہیں جو مسیح سے دُور ہے۔ وہ کیا ہیں؟

  3. آپ اِس بات کی وضاحت کیسے کریں گے کہ متی کی اِنجیل کے مطابق یائیر کہتا ہے: "میری بیٹی ابھی مری ہے،" جبکہ مرقس کی اِنجیل کے مطابق وہ کہتا ہے: "میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے،" اور لوقا کہتا ہے کہ وہ "مرنے کو تھی۔"

  4. "یائیر" نام کا کیا مطلب ہے؟

  5. خُدا ہمیں سخت حالات سے کیوں گزرنے دیتا ہے؟

  6. جب مسیح نے کہا کہ یائیر کی بیٹی "سوتی ہے" تو کن افراد نے مسیح کے اِن الفاظ کا مذاق اُڑایا؟

  7. وضاحت کریں کہ کس طرح مسیح نے یائیر کو اپنی محبّت دکھائی۔

چودھواں معجزہ: اُس عورت کی شفا جس سے خون جاری تھا

"پھر ایک عورت جِس کے بارہ برس سے خُون جاری تھا۔ اور کئی طبیبوں سے بڑی تکلیف اُٹھا چکی تھی اور اپنا سب مال خرچ کر کے بھی اُسے کُچھ فائدہ نہ ہُوا تھا بلکہ زِیادہ بیمار ہو گئی تھی۔ یسوع کا حال سُن کر بھیڑ میں اُس کے پیچھے سے آئی اور اُس کی پوشاک کو چھؤا۔ کیونکہ وہ کہتی تھی کہ اگر مَیں صِرف اُس کی پوشاک ہی چھو لُوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی۔ اور فی الفور اُس کا خُون بہنا بند ہو گیا اور اُس نے اپنے بدن میں معلوم کیا کہ مَیں نے اِس بیماری سے شفا پائی۔ یسوع نے فی الفور اپنے میں معلوم کر کے کہ مُجھ میں سے قوّت نکلی اُس بھیڑ میں پیچھے مُڑ کر کہا کس نے میری پوشاک چھوئی؟ اُس کے شاگردوں نے اُس سے کہا تُو دیکھتا ہے کہ بھیڑ تُجھ پر گری پڑتی ہے پھر تُو کہتا ہے مُجھے کس نے چھؤا؟ اُس نے چاروں طرف نگاہ کی تا کہ جس نے یہ کام کیا تھا اُسے دیکھے۔ وہ عورت جو کُچھ اُس سے ہُوا تھا محسوس کر کے ڈرتی اور کانپتی ہُوئی آئی اور اُس کے آگے گر پڑی اور سارا حال سچ سچ اُس سے کہہ دیا۔ اُس نے اُس سے کہا بیٹی تیرے اِیمان سے تُجھے شفا ملی۔ سلامت جا اور اپنی اِس بیماری سے بچی رہ۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 5: 25۔ 34؛ مزید دیکھئے متی 9: 20۔ 22، اور لوقا 8: 43۔ 48)

جب مسیح یہودی عبادت خانہ کے ایک سردار یائیر کی بیٹی کو موت سے زندہ کرنے کےلئے کفرنحوم جا رہے تھے تو اُس راستے میں ایک ایسی عورت کھڑی تھی جس کے بارہ سال سے خون جاری تھا۔ اُس عورت نے اپنے آپ سے کہا کہ "اگر مَیں صرف اُس کی پوشاک ہی چھو لُوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی" اور سوچا کہ کسی کو خبر نہیں ہو گی کہ اُس نے چھؤا۔ لیکن مسیح نے یہ محسوس کیا، بھِیڑ کو روکا اور پوچھا: "کس نے میری پوشاک چھوئی؟" آپ کے شاگرد اِس سوال پر حیران رہ گئے، کیونکہ ہجوم نہ صرف اُسے چھو رہا تھا بلکہ ہر طرف سے اُس پر گرا پڑتا تھا۔ یسوع مسیح جانتے تھے کہ جس عورت کے خون جاری تھا اُس کے اِیمان کے نتیجہ میں آپ سے شفا یابی کےلئے قوت نکلی تھی۔ جب اُس عورت کو معلوم ہُوا کہ اُس کی حقیقت کھل گئی ہے تو وہ آپ کے پاس آئی اور آپ کے آگے گر پڑی اور آپ کو تمام حقیقت بتا دی۔ آپ نے اُسے جسمانی شفا دینے سے بڑھ کر برکت دی۔ اُسے ابدی زندگی اور اُس کے دِل میں اطمینان بھی بخشا۔ یوں آپ نے اُسے ایک ہی وقت میں جسمانی اور رُوحانی شفا دونوں عنایت کیں۔

اُس عورت کو جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا، شفا دینے کے اِس معجزے میں ہم مسیح کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہمیشہ ان تھک کام میں مصروف ہے۔ یائیر کی بیٹی کی زندہ کرنے کےلئے جاتے وقت راستے میں، آپ نے اِس عورت کی شفا بخشی۔ پطرس رسول نے خُداوند کے کام کی گواہی دی جب اُس نے کرنیلیس کے گھرانے کو بتایا کہ "خُدا نے یسوع ناصری کو رُوح القُدس اور قُدرت سے کس طرح مسح کیا۔ وہ بھلائی کرتا اور اُن سب کو جو اِبلیس کے ہاتھ سے ظُلم اُٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا کیونکہ خُدا اُس کے ساتھ تھا" (اعمال 10: 38)۔

مسیح نے بھی اپنے بارے میں گواہی دی: "میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہُوں" (یوحنّا 5: 17)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: "جِس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرور ہے ۔ وہ رات آنے والی ہے جِس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔ جب تک مَیں دُنیا میں ہُوں دُنیا کا نور ہُوں" (یوحنّا 9: 4، 5)۔ ہیکل کی زیارت کے ایک زبور میں لکھا ہے: "دیکھ! اِسرائیل کا محافظ نہ اُونگھے گا نہ سوئے گا۔ خُداوند تیرا محافظ ہے" (زبور 121: 4، 5)، سو اُس کے ساتھ ہمیشہ دِن کا وقت ہوتا ہے، کیونکہ وہ نور ہے، اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔

آئیے اِس معجزے پر غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ اُس عورت کی حالت جس سے خون جاری تھا:

(1) جسمانی بیماری: اُس کی جسمانی بیماری بارہ سال سے شدید اور لاعلاج تھی۔ وہ اپنی بیماری کے تمام سالوں سے امّید لگائے بیٹھی تھی کہ وہ علاج تلاش کر کے صحت یاب ہو جائے گی۔ تاہم، وہ اپنی بیماری کا کوئی بھی علاج تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اُس کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ اِنجیل مقدّس اُس کے خون بہنے کو گویا ایسے بیان کرتی ہے کہ جیسے اُس سے خون چشمہ کی طرح جاری تھا،سو یہ ایک سنگین بیماری تھی۔ لیکن خُدا کا شکر ہے کہ وہ سب سے بڑے طبیب سے ملی۔

(2) نفسیاتی بیماری: وہ مایوس اور غمزدہ تھی۔ اِنجیل مقدّس کہتی ہے، وہ "تکلیف اُٹھا چُکی تھی" اور "زیادہ بیمار ہو گئی تھی۔" وہ اپنی بیماری کے بارے میں بات کرنے سے شرماتی تھی۔ ہم حیرت سے سوچتے ہیں کہ اُس کے شوہر نے اُس کے بارے میں کیا سوچا ہو گا؟ کیا اِس عورت کو اپنی احتیاج کے وقت میں اپنے شوہر سے کوئی مدد ملی ہو گی؟ یا کیا اُس نے کسی اَور سے شادی کی؟ اور اگر ایسا ہُوا تھا تو یہ اُس کی نسوانیت پر کیسا وار تھا!

(3) رسمی بیماری: موسیٰ کی شریعت اُس کے خلاف تھی، جو اُسے کسی بھی شخص یا چیز کو چھونے سے منع کرتی تھی تا کہ وہ اُسے ناپاک نہ کرے۔ "اور اِس جریانِ خُون کے کُل ایّام میں جس جس بستر پر وہ سوئے گی وہ حیض کے بستر کی طرح ناپاک ہو گا اور جس جس چیز پر وہ بیٹھے گی وہ چیز حیض کی نجاست کی طرح ناپاک ہو گی" (احبار 15: 26)۔ "اور اگر کسی عورت کو ایسا جریان ہو کہ اُسے حیض کا خُون آئے تو وہ سات دن تک ناپاک رہے گی اور جو کوئی اُسے چھوئے وہ شام تک ناپاک رہے گا" (احبار 15: 19)۔

(4) مالی غربت: اُس نے اپنا سب کچھ بیکار میں خرچ کر دیا تھا۔ وہ مالی طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ غالباً، لوگوں نے اُس کے علاج کے اخراجات میں مدد کرنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اُن کے نزدیک اِس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اُس کی خراب صحت نے اُسے کام کرنے کی اجازت نہ دی، اور کوئی بھی یہودی اُسے کوئی کام سونپنے کو تیار نہ تھا کہ کہیں ناپاک نہ ہو جائے!

ہمیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم سخت مشکلات کا شکار ہو جائیں، یہاں تک کہ ہماری نفسیاتی حالت بگڑ جائے، اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں کسی مذہبی یا سماجی ذریعہ سے کوئی مدد نہ ملے، اور تمام دروازے بند ہو جائیں۔ لیکن ہمیں امّید ہے کہ ایک اَور دروازہ جو تمام دروازوں سے مختلف ہے، ہمارے لئے پورا کھلے گا، کیونکہ جب بھی ہم مصیبت میں ہوتے ہیں تو خُدا اُس میں سے نکلنے کی راہ پیدا کرتا ہے۔

ب۔ اُس عورت میں ایمان:

اِس عورت کا مسیح کی قدرت پر اِیمان حقیقی تھا، اِس لئے اُس نے اپنے دِل میں سوچا: "اگر صرف اُس کی پوشاک ہی چھو لوں گی تو اچّھی ہو جاؤں گی" (متی 9: 21)۔ مسیح نے اُس کے اِیمان کی گواہی دی۔ وہ اپنے اور مسیح کے درمیان ملاقات کی راہ میں حائل کسی بھی مشکل پر قابو پانے کےلئے پُر امّید اور عزم سے بھری تھی۔ اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اِس عورت کی تکلیف اُس کےلئے ایک رُوحانی نعمت تھی۔ اِس تکلیف نے ہی اُسے نجات پانے کےلئے مسیح کی طرف رجوع کرایا۔

ایک تاجر نے جسے 45 دن تک اپنی کمر کے بل لیٹنا پڑا کہا: "45 سال سے زائد عرصہ ہُوا مَیں دُعا کرنا بھول گیا تھا۔ مَیں نے ربّ کو مخاطب کرنا چھوڑ دیا۔ مَیں اپنے حساب کتاب اور اپنے کاروبار میں مصروف تھا، اِس لئے ربّ نے مجھے میری کمر کے بل لٹایا تا کہ میری نگاہ اُس کی طرف پھِرے، اور اُس نے مجھے شفا بخشی۔" آمین، یہ خُدا ہے جو ہمیں ہماری طاقت سے بڑھ کر آزمایش میں نہیں پڑنے دیتا، لیکن وہ ہمیں اپنی طرف لے جانے کےلئے آزماتا ہے۔

ج۔ وہ عورت شفا پانے کے بعد:

(1) شفا پانے کے بعد وہ فقیہوں کی ڈانٹ سے ڈرتے ہوئے اور اِس ڈر سے کہ اُس نے مسیح کو رسمی طور پر ناپاک کر دیا تھا، آپ کے پاس آئی۔ یسوع نے اُسے تسلی دی، حوصلہ دیا اور اُسے اُس کی درخواست سے زیادہ دیا!

(2) وہ ایک عابدہ کے طور پر آپ کے پاس آئی، کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو آپ کے سامنے سجدہ میں گرا دیا۔

(3) وہ اقرار کرتے ہوئے آئی، اُس نے "سارا حال سچ سچ اُس سے کہہ دِیا۔" مسیح وہ ہستی ہے جو کُچھ بھی ہونے سے پہلے سب کُچھ جانتا ہے۔ ہمارا اعتراف اُس کی معلومات میں کچھ اضافہ نہیں کرتا، لیکن وہ ہمیں اپنی پاکیزگی کی جانب جانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

(4) وہ ایک نجات یافتہ عورت کے طور پر آپ کے پاس سے گئی کیونکہ آپ نے اُس سے کہا: "سلامت جا اور اپنی اِس بیماری سے بچی رہ۔" اُس نے ایک ہی وقت میں رُوحانی اور جسمانی بیماری سے نجات پائی۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

الف۔ یائیر، ایک جلدباز شخص:

یائیر کو ایک بڑی مصیبت کا سامنا تھا، کیونکہ جب وہ اپنے گھر سے نکلا تھا تو اُس کی بیٹی مرنے کے قریب تھی۔ جب مسیح نے رُک کر یہ پوچھا کہ "کس نے میری پوشاک چھوئی؟" تو بلاشبہ اُس نے اپنے دِل میں تنقید کی ہو گی۔ اُس نے اپنے مسئلے کو دُنیا کا واحد مسئلہ سمجھا۔ اُس کا مسئلہ کافی بڑا تھا جس کے مقابلہ میں ہر مشکل چھوٹی محسوس ہوئی!

تاہم، زمین و آسمان کا ربّ تمام اِنسانیت کا ربّ ہے، اور ہر ایک کےلئے اُس کے دِل میں جگہ اور اُس کے وقت میں ایک حصہ ہے۔ جب ہم کسی مسئلے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو ہمیں اُس مسئلے کے سِوا کچھ اَور نظر نہیں آتا۔ لیکن یسوع مسیح چاہتا ہے کہ ہم لوگوں کو اُس کی آنکھوں سے اور دنیا کو اُس کے اختیار کے ذریعے دیکھیں، تا کہ ہماری بصارت ٹھیک ہو اور ہمارا ذہنی رویہ درست ہو سکے۔ اِس طرح مسائل اپنے فطری حجم میں رہتے ہیں۔ یوں ہم مسلسل صرف اپنے بارے میں نہیں بلکہ دوسروں کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ کیونکہ مسیح کے پاس ہر ایک کےلئے کافی وسائل ہیں۔ ہمیں اپنے ساتھ مسیح کے برتاؤ کا دوسروں کےلئے آپ کے برتاؤ کے ساتھ موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ صرف محبّت ہے جو بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ جب بھی یہ لوگوں سے بانٹی جاتی ہے، یہ بڑھتی اور ترقی کرتی ہے۔

ب۔ شاگردوں کا یسوع سے ناراضگی میں سوال پوچھنا:

شاگردوں نے ناراضگی کا اظہار کیا "تُو دیکھتا ہے کہ بِھیڑ تُجھ پر گری پڑتی ہے پھر تُو کہتا ہے مجھے کس نے چھؤا؟" ہجوم کا یسوع مسیح کو چھونا ایک معمول تھا۔ شاگردوں نے یسوع کے سوال کو رد کر دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ آپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ وہ یہ جان لیتے کہ مسیح اُن سے زیادہ جانتا ہے، اُنہوں نے مسیح کی مذمت کی۔ تاہم، وہ نہیں بلکہ مسیح صاحب مشکل اور صاحب سوال ہے۔ اُس کا کلام کس قدر خوبصورت ہے: "عیب جوئی نہ کرو کہ تُمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے" (متی 7: 1)۔

ہم بعض اوقات مسیح سے ایسے سوالات پوچھتے ہیں جیسے ہم سب کچھ جانتے ہیں، گویا ہم مسیح کے اہداف کو حاصل کرنے کے طریقوں سے اُس سے زیادہ واقف ہیں، اور گویا ہم اُس کی بادشاہی کے مفاد کو اُس سے زیادہ جانتے ہیں! ہم اکثر خُدا پر بہت زیادہ الزام لگاتے ہیں، گویا ہم اُس کے طرزِ فکر کی اِصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ خُدا ہمیں ہماری عدم حلیمی کی وجہ سے معاف کرے اور فضل بخشے کہ ہم اُس کے کلام کو پوری توجہ سے یہ یقین رکھتے ہوئے سُنیں کہ اُس کے کہے گئے ہر ایک لفظ کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ کیونکہ جب مسیح نے جاری خون والی عورت کے بارے میں پوچھا تو آپ اُسے اپنے ساتھ شخصی تعلق میں لانے سے مزید برکت دینا چاہتے تھے۔

شاگردوں نے بِھیڑ کے چھونے اور اِیمان سے بامقصد چھونے میں فرق نہیں سمجھا۔ اُنہوں نے اُس ہجوم کے بارے میں بات کی جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے، جبکہ مسیح نے اُس لمس کے بارے میں بات کی جو قربت، محبّت اور ضرورت کا لمس تھا، جو شفا اور تسکین کا باعث بنتا ہے۔ شاید یوحنّا رسول نے اِسی لمس کے بارے میں سوچا جب یہ لکھا: "اُس زِندگی کے کلام کی بابت جو اِبتدا سے تھا اور جسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھؤا۔ یہ زِندگی ظاہر ہُوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اِسی ہمیشہ کی زِندگی کی تُمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہر ہُوئی" (1۔ یوحنّا 1: 1، 2)۔

ہمیں اعتماد اور یقین کے ساتھ مسیح کو چھونے کی ضرورت ہے، جو بے ربط اور الجھا دینی والی عبادت پر مشتمل نہ ہو جو توجہ اور غور و فکر سے خالی ہوتی ہے۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ یسوع ایک مشہور شخصیت:

جب اُس عورت نے یسوع کے آنے کے بارے میں سُنا تو وہ بھِیڑ میں شامل ہو گئی اور پیچھے سے آپ کے پاس آئی اور آپ کے کپڑوں کو چھؤا، کیونکہ آپ کی شہرت پھیل گئی تھی: "اور لوگ چاروں طرف سے اُس کے پاس آتے تھے" (مرقس 1: 45)۔ آپ کی شخصیت منفرد ہے؛ آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔ آپ کی پیدایش کنواری سے ہوئی تا کہ کلام مقدّس کا پہلا وعدہ پورا ہو، یعنی عورت کی نسل کے وسیلہ سے سانپ کا سر کچلا جائے گا (پیدایش 3: 15)۔ آپ نے بےگناہ زندگی گزاری۔ آپ کی قبر کا بھاری پتھر آپ کی قدرت سے لڑھک گیا اور آپ مُردوں میں سے جی اُٹھے کیونکہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ موت کے قبضہ میں رہتے۔ آپ نے خود ہی قبر کو فتح کیا اور عالم بالا پر کبریا کے دہنے ہاتھ جا بیٹھے۔ صرف آپ ہی ہماری شفاعت کرنے کے لائق ہیں، اور اِس کی دو وجوہات ہیں: (1) آپ کو کسی شفاعت کی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ نے کبھی گناہ نہیں کیا۔ (2) آپ ہی وہ ہستی ہیں جس نے گناہ کی مزدوری ادا کی اور ہمارا قرض ختم کیا۔ آپ ہمارے لئے فدیہ دینے کے باعث ہماری شفاعت کرتے ہیں۔

معجزانہ شفا کےلئے آپ کی بڑی شہرت کی وجہ سے جاری خون والی عورت نے آپ کی "پوشاک کا کنارہ" چھونے کے بارے میں سوچا (لوقا 8: 44)۔ موسیٰ کی شریعت نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ جھالر والا لباس پہنیں، تا کہ وہ اپنے لئے خُداوند کے احکام کو یاد رکھیں (گنتی 15: 37۔ 41)۔ بیمار عورت کا خیال تھا کہ صرف پوشاک کے کنارہ کو چھونا ہی شفا کےلئے کافی ہو گا۔

ب۔ یسوع قدرت والا:

مسیح نے محسوس کیا کہ آپ میں سے طاقت نکلی، جس کے نتیجہ میں بیمار عورت کا خون بہنا بند ہو گیا۔ "ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے خُدا اور باپ کی حمد ہو جس نے ہم کو مسیح میں آسمانی مقاموں پر ہر طرح کی رُوحانی برکت بخشی" (افسیوں 1: 3)۔ "اَے خُداوند! آسمان میں تیری شفقت ہے۔ تیری وفاداری افلاک تک بلند ہے۔ تیری صداقت خُدا کے پہاڑوں کی مانند ہے تیرے احکام نہایت عمیق ہیں۔ اَے خُداوند! تُو اِنسان اور حیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ (کیونکہ خُداوند اپنی شفقت میں اپنی تمام مخلوقات کی فکر کرتا ہے) اَے خُدا! تیری شفقت کیا ہی بیش قیمت ہے۔ بنی آدم تیرے بازوؤں کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں۔ وہ تیرے گھر کی نعمتوں سے خوب آسودہ ہوں گے۔ تُو اُن کو اپنی خوشنودی کے دریا میں سے پلائے گا۔ کیونکہ زِندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔ تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے۔ تیرے پہچاننے والوں پر تیری شفقت دائمی ہو اور راست دِلوں پر تیری صداقت" (زبور 36: 5۔ 10)۔

ج۔ یسوع جاننے والا:

یسوع مسیح جانتے تھے کہ آپ میں سے طاقت نکلی تھی اور اُس سے عورت کو فائدہ ہُوا تھا، اِس لئے آپ نے پوچھا: "کس نے میری پوشاک چُھوئی؟" اکثر باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے بچوں میں سے کس نے کچھ کیا ہے، لیکن وہ پوچھتا ہے کہ یہ کس نے کیا ہے، اِس لئے نہیں کہ وہ لاعلم ہوتا ہے، بلکہ اِس لئے کہ جس نے یہ کیا ہو وہ اعتراف کرنے کےلئے سامنے آئے تا کہ وہ اُسے معاف کر کے اپنا اطمینان اُسے دے سکے۔ مسیح نے یہ سوال اِس لئے نہیں پوچھا کہ آپ کچھ جانتے نہ تھے، بلکہ اِس لئے کہ آپ چاہتے تھے کہ وہ عورت آپ کے سامنے آئے تا کہ آپ اور اُس کے درمیان براہ راست رابطہ ہو۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ وہ محض ایک گداگر کی طرح آپ سے بھیک مانگے، بلکہ آسمانی باپ کی بیٹی بن کر اُس سے کہیں زیادہ حاصل کرے جو اُس نے مانگا تھا یا وہ سوچ سکتی تھی۔

آپ چاہتے تھے کہ وہ آپ کے ساتھ شخصی تعلق کے ذریعے حوصلہ اور فضل کے تخت تک رسائی پائے، تا کہ اُس کی زندگی آپ کے گھر کی نعمتوں سے خوب آسودہ ہو۔

اِسی آگہی کی بابت مسیح نے نتن ایل سے کہا: "اِس سے پہلے کہ فِلپّس نے تجھے بُلایا جب تُو انجیر کے درخت کے نیچے تھا مَیں نے تجھے دیکھا" (یوحنّا 1: 48)۔ یوحنّا اِنجیل نویس آپ کے بارے میں کہتا ہے: "اور اِس کی حاجت نہ رکھتا تھا کہ کوئی اِنسان کے حق میں گواہی دے کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ اِنسان کے دِل میں کیا کیا ہے" (یوحنّا 2: 25)۔

د۔ یسوع نجات دہندہ:

مسیح نے یہ سوال پوچھنے کے بعد کہ "کس نے میری پوشاک چھوئی؟" اُس بیمار عورت سے کہا: "تیرے اِیمان سے تجھے شفا مِلی۔ سلامت جا۔" خُداوند نے آدم سے پوچھا: "تُو کہاں ہے؟" (پیدایش 3: 9) کیونکہ وہ اُسے بچانا اور معاف کرنا چاہتا تھا۔ اِسی طرح خُداوند نے پیدایش 4: 9 میں قائن سے پوچھا: "تیرا بھائی ہابل کہاں ہے؟" کیونکہ وہ اُس کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر اُسے توبہ کرنے کا موقع دینا چاہتا تھا۔ اِسی طرح الیشع نے جیحازی سے اُس کے ضمیر کو بیدار کرنے کےلئے پوچھا: "تُو کہاں سے آ رہا ہے؟"

خُدا ہم سے سوالات پوچھتا ہے تا کہ ہم اقرار کر سکیں۔ وہ ہمیں اپنی نعمتیں اور برکات کثرت سے عطا کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی خامیوں کو اُس کے نور میں پہچانیں، اور پھر وہ ہمیں علاج، شفا اور معافی کی پیشکش کرتا ہے۔

ہ۔ یسوع عطا کرنے والا:

مسیح نے اُس عورت کو جس سے خون جاری تھا، تین تحائف دیئے:

(1) اعتماد: مسیح نے اُسے یہ یقین دلانے کےلئے کہ اُس کی مستقبل کی ضروریات کی ضمانت دی گئی ہے، کہا "خاطر جمع رکھ" (متی 9: 22)۔ مسیح نے کہا: "اب تک تُم نے میرے نام سے کچھ نہیں مانگا" (یوحنّا 16: 24)۔ ہم اکثر خُدا کے سامنے معمولی درخواستیں رکھتے ہیں جیسے کامیابی اور جسمانی شفا یابی۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ گہری برکات موجود ہیں، یعنی رُوحانی برکات، جن کےلئے ہمیں اعتماد کے ساتھ درخواست کرنی چاہئے۔

(2) آپ نے اُسے لےپالک بیٹی بنایا: "بیٹی تیرے اِیمان سے تجھے شفا ملی۔" "لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں" (یوحنّا 1: 12)۔

(3) آپ نے اُسے اطمینان بخشا: "سلامت جا۔" آپ نے اُسے شفا دینے کے علاوہ اطمینان بخشا۔ "پس جب ہم اِیمان سے راست باز ٹھہرے تو خُدا کے ساتھ اپنے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں۔ جس کے وسیلہ سے اِیمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہُوئی جس پر قائم ہیں" (رومیوں 5: 1، 2)۔

مسیح کے پاس کثرت کی نعمتیں ہیں۔ ہم صرف اُس کی پوشاک کا کنارہ نہیں چھونا چاہتے بلکہ مسیح میں رہنا چاہتے ہیں، تا کہ وہ ہمارا مالک ہو، اور ہم اپنی زندگی کو غیر مشروط طور پر اُس کے سپرد کرتے ہیں تا کہ وہ ہماری زندگی پر ہمیشہ بادشاہ ہو۔

دُعا

اَے آسمانی باپ، ہمارا مسئلہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اُس کا بہترین حل تیرے پاس ہے۔ چاہے ہم ناکامی کے باعث کتنے ہی مایوس کیوں نہ ہوں، تُو پریشانی اور مایوسی کی وادی میں امّید کا دروازہ بناتا ہے۔ ہم اپنے سر تیرے سامنے جھکاتے ہیں، اور اپنی زندگی کی باگ ڈور تیری سپردگی میں دیتے ہیں تا کہ وہ بہتر اور باوقار زندگی بن سکے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. کوئی سی دو آیات کا حوالہ دیں جو واضح کرتی ہیں کہ مسیح ہمیشہ کام کرتا ہے۔

  2. وہ عورت جس کے خون جاری تھا، وہ نفسیاتی اور رسمی طور پر کیوں اذیت میں مبتلا تھی؟

  3. کیوں خُدا نے تاجر کو 45 دِن تک کمر کے بل لیٹنے پر مجبور کیا؟

  4. یائیر کے گھر جانے میں مسیح کی تاخیر کی کیا برکتیں ہیں؟

  5. بےمقصد چھونے اور اِیمان سے بامقصد چھونے میں کیا فرق ہے؟

  6. یسوع مسیح اُس عورت سے کیوں چاہتے تھے کہ وہ خون جاری رہنے والی بیماری سے شفا پانے کے بعد آپ کے سامنے آئے؟

  7. اُن تین برکات کا ذِکر کریں جو مسیح نے اِس عورت کو عطا کیں۔

پندرہواں معجزہ: دو اندھے اشخاص کی شفا

"جب یسوع وہاں سے آگے بڑھا تو دو اندھے اُس کے پیچھے یہ پُکارتے ہُوئے چلے کہ اَے اِبن داؤد ہم پر رحم کر۔ جب وہ گھر میں پہنچا تو وہ اندھے اُس کے پاس آئے اور یسوع نے اُن سے کہا کیا تُم کو اعتقاد ہے کہ مَیں یہ کر سکتا ہُوں؟ اُنہوں نے اُس سے کہا ہاں خُداوند۔ تب اُس نے اُن کی آنکھیں چھو کر کہا تُمہارے اِعتقاد کے موافق تُمہارے لئے ہو۔ اور اُن کی آنکھیں کُھل گئیں اور یسوع نے اُن کو تاکید کر کے کہا خبردار کوئی اِس بات کو نہ جانے۔ مگر اُنہوں نے نکل کر اُس تمام علاقہ میں اُس کی شہرت پھیلا دی۔" (اِنجیل بمطابق متی 9: 27۔ 31)

مسیح نے دو اندھے افراد کو بینائی عطا کرنے سے پہلے جاری خون کی بیماری میں مبتلا عورت کو شفا بخشی اور پھر یائیر کی بیٹی کو زندہ کیا۔ یائیر کی بیٹی کو زندہ کرنے کے بعد آپ شمعون پطرس کے گھر کےلئے روانہ ہوئے۔ جب آپ اپنے راستے پر تھے تو دو اندھے افراد نے بلند آواز سے پکار کر کہا: "اَے ابنِ داؤد ہم پر رحم کر۔" اُنہوں نے اُس علاقے میں آپ کے معجزات کی خبر سُنی ہو گی اور آپ کے قریب آنے کے بارے میں جان لیا ہو گا۔ اُنہوں نے جان لیا ہو گا کہ مسیح، ابنِ داؤد نجات دہندہ تھا۔ وہ سمجھ گئے کہ آپ کے پاس بیماریوں، فطرت، بد ارواح اور موت پر زبردست اختیار تھا، اور ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو آپ کے تابع نہ تھی۔ آپ نے فرمایا: "آسمان اور زمین کا کل اِختیار مجھے دیا گیا ہے۔" آپ کا آسمان پر اِختیار گناہوں کی معافی، ابدی زندگی عطا کرنے، دُعا کا جواب، اور شفاعت کرنے میں واضح ہے۔ جبکہ زمین پر آپ کا اِختیار شفا یابی اور تحفظ میں واضح ہے کیونکہ آپ آسمان سے اپنے فرشتوں کو ایمانداروں کی دیکھ بھال کےلئے بھیجتے ہیں، کیونکہ "خُداوند سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اُس کا فرشتہ خیمہ زن ہوتا ہے اور اُن کو بچاتا ہے" (زبور 34: 7)۔

مسیح یائیر کے گھر سے کفرنحوم میں پطرس کے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ دو اندھے گھر میں آپ کے پیچھے آئے۔ یسوع نے اُن سے پوچھا: "کیا تُم کو اِعتقاد ہے کہ مَیں یہ کر سکتا ہوں؟" اُنہوں نے جواب دیا: "ہاں خُداوند۔" تب آپ نے اُن کی آنکھوں کو چھو کر کہا: "تمہارے اِعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو۔" تب اُن کی آنکھیں کھل گئیں۔ پھر یسوع نے اُن سے کہا کہ وہ یہ خبر کسی کو نہ بتائیں، لیکن اُنہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل نہ کی، اور گھر سے نکلتے ہی یہ خبر سب تک پہنچا دی۔

آئیے اِس معجزے میں اِن پہلوؤں پر غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ دو اندھے آدمی:

بائبل مقدّس میں اندھا پن گناہ کی علامت ہے جو کہ رُوحانی اندھا پن ہے، کیونکہ گنہگار نہ تو اپنی بُری حالت دیکھتا ہے اور نہ ہی مسیح کا کفارہ۔ اندھا پن جہالت کی بھی علامت ہے، کیونکہ جہالت چیزوں کی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتی۔

یہ دو اندھے آدمی پوری اِنسانیت کی علامت ہیں، جن کی آنکھیں خُدا کی محبّت اور اپنے گناہ کے تعلق سے اندھی ہیں، جس کا بیان کتاب اِستثنا میں ہے: "اور جیسے اندھا اندھیرے میں ٹٹولتا ہے ویسے ہی تُو دوپہر دِن کو ٹٹولتا پھرے گا اور تُو اپنے سب دھندوں میں ناکام رہے گا اور تُجھ پر ہمیشہ ظلم ہی ہو گا اور تُو لُٹتا ہی رہے گا اور کوئی نہ ہو گا جو تُجھ کو بچائے" (اِستثنا 28: 29)۔ یسعیاہ نبی اِسے یوں بیان کرتا ہے: "تُمہاری بد کرداری نے تُمہارے اور تُمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے اور تُمہارے گناہوں نے اُسے تُم سے رُوپوش کیا اَیسا کہ وہ نہیں سُنتا ۔۔۔ اِس لئے اِنصاف ہم سے دُور ہے اور صداقت ہمارے نزدیک نہیں آتی۔ ہم نور کا انتظار کرتے ہیں پر دیکھو تاریکی ہے اور روشنی کا پر اندھیرے میں چلتے ہیں۔ ہم دیوار کو اندھے کی طرح ٹٹولتے ہیں۔ ہاں یوں ٹٹولتے ہیں کہ گویا ہماری آنکھیں نہیں۔ ہم دوپہر کو یوں ٹھوکر کھاتے ہیں گویا رات ہو گئی۔ ہم تندرستوں کے درمیان گویا مُردہ ہیں" (یسعیاہ 59: 1۔ 10)۔

کلام مقدّس گناہ سے نجات کو آنکھیں کھولنے کے طور پر بیان کرتا ہے، جیسا کہ یسعیاہ کے صحیفہ میں ہے: "اور اُس وقت بہرے کتاب کی باتیں سُنیں گے اور اندھوں کی آنکھیں تاریکی اور اندھیرے میں سے دیکھیں گی۔ تب مسکین خُداوند میں زیادہ خُوش ہوں گے اور غریب و محتاج اِسرائیل کے قدّوس میں شادمان ہوں گے" (یسعیاہ 29: 18، 19)۔ پولس رسول کہتا ہے: "کیونکہ تُم پہلے تاریکی تھے مگر اب خُداوند میں نور ہو" (افسیوں 5: 8)۔ نجات کا دِن وہ دِن ہے جب کان مسیح کی آواز سننے کےلئے کھل جائیں گے اور آنکھیں اُس کے نور کو دیکھنے کےلئے کھل جائیں گی۔ یسوع نے کہا: "دُنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (یوحنّا 8: 12)۔

ب۔ ضرورت نے اُنہیں اکھٹا کر دیا تھا:

مشترکہ مصیبت نے اُن دونوں آدمیوں کو اکٹھا کر دیا تھا۔ خُداوند اکثر ہم پر ایسی مشکلات بھیجتا ہے جن سے اکیلے نمٹنا ہمارے لئے مشکل ہوتا ہے، اِس لئے ہماری آپس میں ملاقات ہوتی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ جب کسی ساتھی کے ساتھ ایک ہی بات کےلئے دُعا میں باہمی اتفاق ہو، جیسا کہ مسیح کا فرمان ہے: "اگر تُم میں سے دو شخص زمین پر کسی بات کےلئے جسے وہ چاہتے ہوں اِتفاق کریں تو وہ میرے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے اُن کےلئے ہو جائے گی" (متی 18: 19)۔ جب دِل ہم آہنگی اور باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ خُدا کے حضور درخواستیں پیش کرنے میں ایک ہوتے ہیں، تو اُنہیں آسمان سے جواب ملتا ہے۔

ج۔ دونوں آدمیوں کی واضح بصیرت:

اُن کی آنکھیں اندھی تھیں، لیکن اُن کی بصیرت صاف تھی! کیونکہ اُنہوں نے مسیح، ابنِ داؤد کو آنے والے نجات دہندہ کے طور پر پہچانا۔

جب مسیح نے اپنے معجزات دکھائے تو یہودی مذہبی راہنماؤں نے کہا کہ وہ بد رُوحوں کے سردار بعل زبوب کی مدد سے بد رُوحیں نکالتا تھا (مرقس 3: 22)۔ لیکن دونوں اندھے افراد نے پکار کر کہا: "اَے ابنِ داؤد ہم پر رحم کر" کیونکہ وہ یقین رکھتے تھے کہ وہی متوقع نجات دہندہ، موت کو فتح کرنے والا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے معجزات کے بارے میں سُنا تھا، اِس لئے اُنہوں نے محسوس کیا کہ یہ وہی ہستی ہے جس کے بارے میں یسعیاہ نے پیشین گوئی کی تھی: "اور یسّی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہو گی۔ اور خُداوند کی رُوح اُس پر ٹھہرے گی۔ حِکمت اور خِرد کی رُوح مصلحت اور قُدرت کی رُوح معرفت اور خُداوند کے خوف کی رُوح" (یسعیاہ 11: 1، 2)۔ حزقی ایل نبی نے کہا: "اور مَیں اُن کےلئے ایک چوپان مقرّر کروں گا اور وہ اُن کو چرائے گا یعنی میرا بندہ داؤد۔ وہ اُن کو چرائے گا اور وُہی اُن کا چوپان ہو گا۔ اور مَیں خُداوند اُن کا خُدا ہُوں گا اور میرا بندہ داؤد اُن کے درمیان فرمانروا ہو گا" (حزقی ایل 34: 23، 24)۔ سو، اِن دونوں آدمیوں کے پاس ایسی بصیرت تھی جو مذہبی راہنماؤں کے پاس نہیں تھی!

د۔ دونوں آدمیوں کا توکل کرنے والا بھروسا:

جب مسیح نے اُن سے پوچھا، "کیا تُم کو اِعتقاد ہے کہ مَیں یہ کر سکتا ہُوں؟" تو اُنہوں نے جواب دیا "ہاں خُداوند۔" تھوڑی توقع رکھنے والا اِیمان کم حاصل کرتا ہے، اور جو ناکامی کی توقع رکھتا ہے وہ ناکامی پاتا ہے۔ اِن دونوں آدمیوں کے اِیمان کو بینائی ملنے کی امّید تھی اور اُنہیں بینائی ملی!

اِیمان وہ ڈول ہے جسے ہم زندگی کا پانی نکالنے کےلئے گہرے کنویں میں ڈالتے ہیں۔ یہ اُس بٹوہ کی مانند ہے جو اپنے مالک کو امیر نہیں بناتا بلکہ اُس میں رکھی ہوئی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اِیمان بذات خود اہم نہیں ہے بلکہ جس پر رکھا جائے وہ اہم ہے۔ اِیمان وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت ہم مسیح کی طرف سے عطا کی گئی برکت کو حاصل کرتے ہیں۔ مسیح بذات خود برکات کا عطا کرنے والا ہے۔ وہی ہے جو زندگی کو غنی بنا دیتا ہے، اور جو دِل کی پیاس بجھاتا ہے۔ حقیقی اِیمان اِنسانی وعدوں پر نہیں بلکہ خُدا کے کلام پر اُستوار ہوتا ہے۔ دونوں اندھے افراد نے یہی کیا جب وہ اِیمان لائے کہ پرانے عہدنامہ کی مسیحانہ پیشین گوئیاں یسوع ناصری میں پوری ہو چکی ہیں۔

اُن کا اِیمان سرگرم تھا۔ اُنہوں نے دُعا کی "اَے اِبنِ داؤد ہم پر رحم کر۔" یہ ثابت قدم تھا، کیونکہ اُنہوں نے بڑی کوشش کی، اور آپ کے پیچھے ہو لئے اور چلتے رہے جب تک کہ اُس گھر تک نہ پہنچ گئے جس میں آپ داخل ہوئے تھے۔ وہ دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن اِس کے باوجود اُنہیں نے یہ سب کیا۔ یہ وہ اِیمان ہے جو مایوس نہیں ہوتا بلکہ انتظار کرتا ہے: "مَیں نے صبر سے خُداوند پر آس رکھی۔ اُس نے میری طرف مائل ہو کر میری فریاد سُنی" (زبور 40: 1)۔

اُن کے اِیمان میں تعاون بھی موجود تھا۔ اُن میں سے ہر ایک دوسرے کےلئے فکرمند تھا۔ وہ اکھٹے ساتھ رہے، اور اُنہوں نے خُداوند سے رحم کی درخواست کی۔

مسیح نے اُن کی آنکھیں کھول کر اُن کے ایمان کو عزت بخشی تا کہ وہ اُس زندہ ہستی کا روشن چہرہ دیکھ سکیں جو محبّت، بھلائی اور فضل سے تابناک ہے!

ہ۔ اُن کا اپنی شفا کا چرچا کرنا:

جب مسیح نے دونوں اندھوں کو شفا بخشی تو آپ نے اُن سے کہا "خبردار کوئی اِس بات کو نہ جانے۔" لیکن اُنہوں نے یہ خبر پورے علاقے میں پھیلا دی۔ ہم اِسے "محبّت کی نافرمانی" کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اُن کا مقصد کوئی برائی نہیں تھا، بلکہ اپنی شفا یابی پر بڑی خوشی اور مسیح کےلئے محبّت کی وجہ سے وہ اِسے خفیہ رکھنے سے قاصر تھے۔ جو کچھ اُن کے ساتھ پیش آیا تھا وہ اُس پر حیرت زدہ تھے اور خاموش نہ رہ سکتے تھے، حالانکہ وہ سموئیل نبی کی نصیحت جانتے تھے: "دیکھ فرمانبرداری قُربانی سے اور بات ماننا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے" (1۔ سموئیل 15: 22)۔

اِس سے ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مسیح نے اِس صورتحال میں خاموش رہنے کا حکم کیوں جاری کیا جبکہ دیگر واقعات میں آپ نے تشہیر کا حکم دیا؟

مسیح نے اپنے شاگردوں کو پہاڑ پر تبدیلی صورت کے بارے میں خاموش رہنے کا حکم دیا (متی 17: 9)؛ اور کوڑھی کو کہا کہ وہ اپنی شفا یابی کے بارے میں کسی کو نہ بتائے (مرقس 1: 44)؛ اور یائیر کے خاندان کو تاکیداً کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی خبر نہ پھیلائیں (مرقس 5: 43)۔ لیکن اِس کے برعکس آپ نے بد ارواح کے بڑے لشکر سے شفا پانے والے شخص سے کہا کہ وہ اپنی شفا یابی کی خبر کھلے عام بیان کرے (مرقس 5: 19)۔

اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ خُدا کے رُوح کے کام میں آزادی ہے۔ رُوح القُدس سرگرم، کام کرنے والا اور متحرک ہے۔ اِس بنا پر ہم رُوح الٰہی کے کام کو کسی سخت سانچے میں نہیں ڈھالتے، نہ اُس کے کام کو محدود کرتے ہیں، نہ اُس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، بلکہ اُس کی جانب اپنے ردعمل میں اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ کیونکہ معجزے کے بارے میں خاموشی فرمانبرداری کا عمل ہو سکتا ہے۔ مسیح نے پہاڑ پر دیئے گئے اپنے خطبہ میں فرمایا: "پاک چیز کتّوں کو نہ دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ ڈالو۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ اُن کو پاؤں تلے روندیں اور پلٹ کر تُم کو پھاڑیں" (متی 7: 6)۔ دیگر حالات میں یہ نافرمانی ہو سکتی ہے، کیونکہ مسیح نے فرمایا: "پس تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القُدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تُم کو حکم دِیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخِر تک ہمیشہ تُمہارے ساتھ ہُوں" (متی 28: 19، 20)۔

ہر ایماندار کا خُداوند کے ساتھ براہ راست رابطہ ہونا چاہئے تا کہ وہ قدم بہ قدم اُس کی راہنمائی پر عمل کر سکے، جیسے خُدا ہمارے حالات کو دیکھتا ہے اُس کے مطابق ہر قدم پر راہنمائی پائے۔ حالات اور نتائج سے قطع نظر یہ رابطہ مسلسل اور بلا تعطل ہونا چاہئے۔ جس طرح کل کا کھانا آج کےلئے کافی نہیں، اُسی طرح کل کےلئے ہدایت اور رُوحانی راہنمائی آج کےلئے کافی نہیں ہے۔ ہمیں دُعا میں خُدا کے ساتھ رابطہ کرنے، اُس کے کلام کو پڑھنے، اور ہر روز اپنی زندگی میں اُس کی حقیقی موجودگی کا اِدراک کرنے کی ضرورت ہے۔ خُدا نے بنی اسرائیل کو ہر صبح آسمانی من بخشا تا کہ وہ ہر صبح شکر کے ساتھ اُس کی محبّت کی برکت کے طالب ہوں۔ رُوح القُدس کا کام ایسا ہے۔ زندہ خُدا کی بادشاہی کے بڑھنے کی نوعیت ایسی ہے جو سرگرمی سے مصروف عمل ہے، کیونکہ یہ خُدا کے زندہ فرزندوں پر مشتمل ہے۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ اِس معجزہ کےلئے مسیح نے وقت اور جگہ کا انتخاب کیا:

دونوں اندھے شخص چاہتے تھے کہ شفا راستے میں ہی فوراً مل جائے۔ چنانچہ وہ راستے میں چلّا کر شفا مانگتے رہے۔ تاہم، مسیح اُس راستے پر چلتے رہے، یہاں تک کہ آپ گھر میں پہنچ گئے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی شفا یابی کا وقت اور جگہ اُن کے مفاد میں تھی، کیونکہ جناب مسیح اُن کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اُنہیں اپنے پیچھے چلنے دیا جب تک کہ وہ گھر کے اندر آپ کے سامنے نہ آ گئے۔

اکثر ایسا لگتا ہے کہ خُدا جواب دینے میں دیر کر رہا ہے، لیکن وہ تاخیر نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے ساتھ گہرا اور مضبوط رشتہ قائم کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا کرتا ہے تا کہ جسم کے اُس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے پہلے دِل اُس کے فضل سے بھر جائے۔ مسیح نے شفا یابی کو اُس وقت تک مؤخر کیا جب تک کہ آپ گھر نہ پہنچ گئے تا کہ معجزہ کو سب کے سامنے کرنے کے بجائے پوشیدگی میں انجام دے سکیں۔ اِس کی تصدیق مسیح کی طرف سے اُن شفا پانے والے دونوں اندھے افراد سے کی گئی درخواست سے ہوتی ہے کہ وہ اپنی شفا یابی کی خبر کی تشہیر نہ کریں۔

ب۔ مسیح نے اُن کی حالت کے مطابق اپنی نرمی کا اظہار کیا:

مسیح نے بہت سے لوگوں کو صرف کہنے سے شفا بخشی، لیکن اِن دو اندھے افراد کو چھونے سے شفا بخشی۔ جو دیکھ نہیں سکتا، وہ لمس کو محسوس کر سکتا ہے۔ مسیح نے جنم کے اندھے (یوحنّا 9: 6) اور بیت صیدا میں اندھے شخص (مرقس 8: 23) کو اِسی طرح شفا دی۔

خُدا ہمیشہ ہم سے اُس زبان میں بات کرتا ہے جسے ہم سمجھ سکتے ہیں، اور ہمارے ساتھ ہماری سوچ اور ہماری ضرورت کے مطابق پیش آتا ہے، جس کا تعین وہ اپنی حکمت میں، ہماری حالت اور سماجی صورتحال جس میں ہم رہتے ہیں اُسے مدنظر رکھتے ہوئے کرتا ہے۔

مسیح نے یہ معجزات قدیم زمانے میں کئے، لیکن آپ آج بھی اُنہیں انجام دینے کےلئے تیار ہیں۔ یسوع مسیح آپ کی آنکھیں کھولنا چاہتے ہیں کہ آپ اُس کی محبّت اور اپنے گناہوں کی معافی کی راہ کو دیکھ سکیں، اور نجات اور ابدی زندگی حاصل کر سکیں۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، دو اندھوں کو شفا دینے اور اُن کی آنکھیں کھولنے کےلئے تیرا شکر ہو۔ پہلی چیز جو اُنہوں نے دیکھی وہ مسیح کا خوبصورت چہرہ تھا۔

ہم پر اپنے چہرے کے نور کو جلوہ گر فرما، تا کہ ہم تیرے نور کی بدولت روشنی دیکھیں۔ ہماری آنکھیں مسیح کےلئے کھول دے جو دُنیا کا نور ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. لقب "ابنِ داؤد" کا کیا مطلب ہے جس سے دونوں اندھوں نے مسیح کو پکارا؟

  2. بائبل مقدّس میں اندھے پن سے کیا مراد ہے؟

  3. کس چیز نے دونوں اندھے افراد کو اکٹھا کر رکھا تھا؟ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟

  4. اِیمان کو بیان کرنے والی دو مثالوں کا تذکرہ کریں جنہیں ہم نے اِس معجزہ کی وضاحت میں بیان کیا ہے۔

  5. دونوں اندھے افراد کے اِیمان کی دو خوبیاں بتائیں۔

  6. دونوں اندھے افراد کو پہلا اجر کیا ملا؟

  7. کیوں اُن دونوں اندھے افراد نے مسیح کے حکم کی نافرمانی کی اور اپنی شفا کی خبر پھیلائی؟

سولہواں معجزہ: پانچ ہزار سے زیادہ کو کھانا کھلانا

"اِن باتوں کے بعد یسوع گلیل کی جھیل یعنی تبریاس کی جھیل کے پار گیا۔ اور بڑی بِھیڑ اُس کے پیچھے ہولی کیونکہ جو معجزے وہ بیماروں پر کرتا تھا اُن کو وہ دیکھتے تھے۔ یسوع پہاڑ پر چڑھ گیا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں بیٹھا۔ اور یہودیوں کی عِید ِفسح نزدِیک تھی۔ پس جب یسوع نے اپنی آنکھیں اُٹھا کر دیکھا کہ میرے پاس بڑی بِھیڑ آ رہی ہے تو فِلپّس سے کہا کہ ہم اِن کے کھانے کےلئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟ مگر اُس نے اُسے آزمانے کےلئے یہ کہا کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ مَیں کیا کروں گا۔ فِلپّس نے اُسے جواب دِیا کہ دو سو دِینار کی روٹِیاں اِن کےلئے کافی نہ ہوں گی کہ ہر ایک کو تھوڑی سی مِل جائے۔ اُس کے شاگردوں میں سے ایک نے یعنی شمعون پطرس کے بھائی اندریاس نے اُس سے کہا۔ یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جَو کی پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں مگر یہ اِتنے لوگوں میں کیا ہیں؟ یسوع نے کہا کہ لوگوں کو بٹھاؤ اور اُس جگہ بہت گھاس تھی۔ پس وہ مرد جو تخمیناً پانچ ہزار تھے بیٹھ گئے۔ یسوع نے وہ روٹیاں لیں اور شُکر کر کے اُنہیں جو بیٹھے تھے بانٹ دِیں اور اِسی طرح مچھلیوں میں سے جس قدر چاہتے تھے بانٹ دیا۔ جب وہ سیر ہو چُکے تو اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ بچے ہُوئے ٹکڑوں کو جمع کرو تا کہ کُچھ ضائع نہ ہو۔ چُنانچہ اُنہوں نے جمع کیا اور جَو کی پانچ روٹیوں کے ٹکڑوں سے جو کھانے والوں سے بچ رہے تھے بارہ ٹوکریاں بھریں۔ پس جو معجزہ اُس نے دِکھایا وہ لوگ اُسے دیکھ کر کہنے لگے جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا فی الحقیقت یہی ہے۔ پس یسوع یہ معلوم کر کے کہ وہ آ کر مُجھے بادشاہ بنانے کےلئے پکڑا چاہتے ہیں پھر پہاڑ پر اکیلا چلا گیا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 6: 1۔ 15؛ مزید دیکھئے متی 14: 13۔ 21؛ مرقس 6: 30۔ 44، اور لوقا 9: 10۔ 17)

اِس معجزہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ واحد معجزہ ہے جس کا چاروں اِنجیلی بیانات میں پوری تفصیل کے ساتھ ذِکر موجود ہے۔ یہ معجزہ اُس وقت وقوع پذیر ہُوا جب مسیح کے شاگرد منادی کےلئے بھیجے جانے کے بعد آپ کے پاس اپنی خدمت کا احوال بیان کرنے کےلئے لوٹے کہ کس طرح خُدا نے اُنہیں برکت دی اور رُوح القُدس نے اُنہیں استعمال کیا۔

اُس وقت یوحنّا بپتسمہ دینے والے کے کچھ شاگرد مسیح کو بتانے آئے تھے کہ ہیرودیس نے اُن کے اُستاد کا سر قلم کر دیا ہے۔ اِس لئے مسیح نے ایسی صورتحال میں ہیرودیس کی بادشاہی کے دائرے سے دُور جانے کے بارے میں سوچا۔ یوں آپ خدمت سے واپس آنے والے اپنے شاگردوں کو بھی آرام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا، آپ نے اپنے شاگردوں کو مشورہ دیا کہ وہ ایک چھوٹی کشتی لے کر گلیل کی جھیل کے مشرقی کنارے پر بیت صیدا تک جائیں، تا کہ اُنہیں آرام کرنے کا موقع ملے۔ یہ عید فسح سے کچھ دیر پہلے، بہار کا وقت تھا۔

بِھیڑ اپنی شدید ضرورت کی وجہ سے مسلسل مسیح کی تلاش میں تھی۔ اُن میں سے کچھ بیمار تھے، کچھ بےبس تھے، اور کچھ زندہ کلام کے اور فقیہوں کی تعلیم سے مختلف اختیار والی تعلیم سے ہدایت کے پیاسے تھے۔ جب اُنہیں پتا چلا کہ مسیح جھیل کے راستہ دوسری طرف جا رہے تھے تو وہ سب وہاں آپ سے ملنے کےلئے خشکی پر چل پڑے۔

جب کشتی کنارے پر پہنچ گئی تو مسیح اپنے شاگردوں کو لے کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ بھیڑ آپ کی طرف آ رہی تھی، اور وہ اپنے بیماروں کو جتنا جلدی ہو سکتا لے کر آ رہے تھے۔ آپ نے تمام دِن اُنہیں تعلیم دینے میں گزارا۔ جب شام ہوئی تو آپ نہیں چاہتے تھے کہ وہ بھوکے رہیں، اِس لئے آپ نے اُن پانچ ہزار سے زائد افراد کو پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے آسودہ کیا۔

آئیے اِس معجزے میں اِن پہلوؤں پر غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والے اشخاص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والے اشخاص

اِس معجزہ میں پانچ ہزار مرد اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ ضرورت مند تھے۔ وہ ہدایت اور دیکھ بھال کے محتاج تھے۔

الف۔ اُنہیں ہدایت کی ضرورت تھی:

وہ مختلف شہروں سے پیدل آئے، خُدا کےلئے بھوکے تھے، زندہ روٹی کھانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اکثر، ایماندار سوچتے ہیں کہ لوگ رُوحانی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ کیونکہ جب لوگ رُوحانی خوراک پاتے ہیں تو اُن کی خواہش بڑھ جاتی ہے اور وہ بھوک محسوس کرتے ہیں۔ جب وہ ایسے ایماندار کو دیکھتے ہیں جو اپنے کردار سے خُداوند کا جلال ظاہر کرتا ہے تو وہ اُس سے پوچھیں گے کہ اُس میں پائی جانے والی امّید اور اُس کے طرزِ زندگی کی وجہ کیا ہے۔ جو لوگ، مایوسی، غصے یا فرار کے ساتھ ردعمل ظاہر کرنے کے عادی ہیں وہ حیران رہ جائیں گے۔ جب وہ کسی ایماندار کو رُوح کے پھل سے لطف اندوز ہوتے دیکھیں گے، جو کہ محبّت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم، پرہیزگاری ہے، تو وہ اُسی نعمت کی درخواست کریں گے (گلتیوں 5: 22، 23)۔ "مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں، کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے" (متی 5: 6)۔

ب۔ اُنہیں نگہداشت کی ضرورت تھی:

مسیح نے اُنہیں ایسی بھیڑوں کے طور پر دیکھا جن کا چرواہا نہ ہو۔ آج بھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہے، اُن پر پریشانیوں اور اُلجھنوں کا بوجھ ہے۔ ایسے لوگ تو بہت ہیں لیکن چرواہے کم ہیں۔ ہمیں چرواہوں کی اشد ضرورت ہے جو مسیح کے خون سے خریدے گئے خُدا کے گلّے کی گلّہ بانی کریں۔

بِھیڑ نے مسیح کی منادی سُنی۔ شام کا وقت آ پہنچا تو اُنہیں بھوک لگ گئی۔ اِس موقع پر مسیح، اچھے چرواہے، بھیڑوں کے عظیم چرواہے کا کام اپنی کامل فکر کی پیشکش کے ساتھ سامنے آیا۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

آئیے مسیح کے شاگردوں، خاص کر فلپّس اور اندریاس پر غور کریں، اور اِس کے ساتھ اُس لڑکے پر بھی جس کے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں تھیں:

الف۔ فلپّس:

مسیح نے فلپّس کو آزمانے کےلئے ایک سوال پوچھا: "ہم اِن کے کھانے کےلئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟" فلپّس نے جواب دیا: "دو سو دِینار کی روٹیاں اِن کےلئے کافی نہ ہوں گی کہ ہر ایک کو تھوڑی سی مِل جائے" (یوحنّا 6: 7)۔ ایک دینار ایک مزدور کی ایک دِن کی اُجرت تھی۔ ہو سکتا ہے کہ شاگردوں کے پاس دو سو دینار کی مشترکہ رقم رہ گئی ہو۔ فلپّس کی رائے میں وہ غریب تھے، اور اُن کے پاس زیادہ موجود نہیں تھا۔

یہ فطری ہے، اِنسانی حساب کتاب کو عقلمند، درست منطق سمجھا جاتا ہے۔ شاگردوں نے صرف اپنے تعلق سے اور اپنی قوت خرید کے حوالے سے اخراجات کا حساب لگایا۔ اِس میں مسیح کی قدرت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ لیکن مسیح، فلپّس کو اُس کے پہلے گہرے اِیمان کی طرف واپس لانا چاہتے تھے، جب آپ کی اُس کے ساتھ دسمبر 26ء میں دریائے یردن کے قریب ملاقات ہوئی تھی، اور آپ نے اُس سے کہا تھا: "میرے پیچھے ہو لے" (یوحنّا 1: 43۔ 46)۔ چنانچہ فلپّس نے مسیح کی پیروی کی، اور پھر نتن ایل کو بھی مسیح کی پیروی کرنے کی دعوت دی۔ یسوع مسیح فلپّس کو نجات پانے کی ابتدائی خوشی اور اُس کی ابتدائی سپردگی کی قوت واپس عطا کرنا چاہتے تھے، تا کہ فلپّس اپنے اِیمان کےلئے ایک نئی طاقت حاصل کرے۔

مسیح نے فلپّس کے اِیمان کا امتحان لیا تا کہ وہ دیکھے کہ مسیح کی شخصیت موسیٰ سے کم نہیں ہے، جس نے سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کو روزانہ من کے ساتھ کھلایا اور آسودہ کیا۔ اور نہ ہی آپ الیشع سے کم ہیں جس نے ایک سو آدمیوں کو بیس روٹیوں کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کھلایا: "خُداوند یوں فرماتا ہے کہ وہ کھائیں گے اور اُس میں سے کچھ چھوڑ بھی دیں گے" (2۔ سلاطین 4: 43)۔

اکثر ہمارا ایمان کمزور اور متزلزل ہو جاتا ہے اور ہم پوچھتے ہیں کہ "کھانا کہاں سے آئے گا؟" تاہم، جب خُداوند ہم سے کچھ کرنے کےلئے کہتا ہے، تو وہ محض ہمارے اپنے وسائل سے اُس کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ ہمیں عطا کرتا ہے تا کہ ہم دوسروں کو دیں۔ وہ ہمیں برکت دیتا ہے تا کہ ہم دوسروں کو برکت دیں۔ جب ہم اُس سے پا کر دوسروں سے بانٹتے ہیں تو ہم برکت دیتے ہیں اور خود بھی مبارک ہوتے ہیں۔

ب۔ اندریاس:

وہ ہمیشہ لوگوں کو مسیح سے متعارف کرانے کےلئے مشہور ہے۔ وہ اپنے بھائی پطرس کو مسیح کے پاس لے کر آیا (یوحنّا 1: 35۔ 42)۔ جب چند یونانی فلپّس کے پاس مسیح کے ساتھ ملاقات کرانے کی درخواست لے کر آئے تو فلپّس نے اُن کے بارے میں اندریاس کو بتایا (یوحنّا 12: 22)، کیونکہ اندریاس لوگوں کو وہاں لے جانے میں ماہر تھا جہاں وہ برکت پا سکتے تھے۔ سری لنکا کے بشپ ڈی ٹی نائلز نے ایک مبشر کا بیان اِن الفاظ میں کیا ہے: "ایک بھکاری جو دوسرے بھکاری کو بتاتا ہے کہ اُسے روٹی کہاں سے مل سکتی ہے۔"

اندریاس نام کے معنٰی "مردِ حق" کے ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس نے واقعی مسیح کو پا لیا تھا، اور جس نے دوسروں کی مسیح کو پہچاننے کےلئے راہنمائی کی۔ اندریاس لڑکے کو مسیح کے پاس لانے میں کامیاب ہو گیا، اور اُسے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں پیش کرنے پر آمادہ کیا۔ اندریاس کا دِل محبّت اور شفقت سے بھرا ہو گا۔ اُس نے لڑکے کو اتنا اعتماد دیا کہ جب وہ اُسے مسیح کے پاس لے گیا تو وہ آپ سے ڈرا نہیں۔ جب اندریاس نے اُس سے اُس کی روٹی اور مچھلی لی تو اُس نے خوشی سے اُسے پیش کیا۔

اندریاس مسیح کے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں کچھ تَرَدُّد کے ساتھ لایا کیونکہ اُس نے کہا: "۔۔۔ مگر یہ اِتنے لوگوں میں کیا ہیں؟" (یوحنّا 6: 9)۔ اُس کا "مگر" کہنا اُس کے احساس کی نشاندہی کرتا ہے کہ اُس کا مسئلہ مسیح پر اُس کے بھروسے سے بڑا تھا۔ ہمارا اِیمان ہمارے ماضی کے اِیمانی تجربات کے باوجود کمزور ہو سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ ہم بھی "مگر" کہیں۔ تاہم، مسیح نے کمزور اِیمان کو اُس وقت تقویت بخشی جب آپ نے کہا: "وہ یہاں میرے پاس لے آؤ ۔۔۔ برکت دی اور روٹیاں توڑ کر شاگردوں کو دِیں" (متی 14: 18، 19)۔

ج۔ چھوٹا لڑکا:

وہ وہاں ہونے والے معجزات پر غور کرتے ہُوا حیران رہ گیا ہو گا، اور مسیح کے لبوں سے فضل کی باتیں سُن کر اپنا کھانا بھول گیا اور صبح سے اُس میں سے کچھ نہ کھایا۔ جب ہم یسوع کو اِیمان کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو وہ ہمارے دِلوں پر راج کرتا ہے اور ہم اپنی پریشانیوں اور مشکلات کو بھول جاتے ہیں۔ تب جسم کی تباہ کن قوت غالب نہیں آتی، کیونکہ مسیح ہمیں رفعت بخشتا ہے اور اعلٰی سطح پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

جب وہ لڑکا مسیح سے ملا تو آپ نے اُسے محبّت سے بھر دیا، تا کہ اُس کے پاس جو کچھ تھوڑا سا تھا وہ سب ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹ دے۔

د۔ شاگرد:

مسیح نے شاگردوں کو اختیار دینے کے بعد اُنہیں منادی کرنے کےلئے بھیجا تھا، اور اب وہ آپ کے پاس آ کر تمام ماجرا یہ کہہ کر بیان کر رہے تھے: "اَے خُداوند تیرے نام سے بد رُوحیں بھی ہمارے تابع ہیں۔" تاہم، جب بِھیڑ آئی، تو اُنہوں نے آپ سے کہا: "بِھیڑ کو رُخصت کر" (لوقا 9: 12)۔ وہ رُوحانی طاقت حاصل کر چکے تھے، لیکن پھر بھی اُنہیں زیادہ محبّت کرنے اور لوگوں کی مدد کرنے کی مضبوط خواہش کی ضرورت تھی۔

شاگردوں نے مسیح کو محبّت کرنے اور قدرت والی ہستی کے طور پر دیکھا۔ عام طور پر، ہم پہلے طاقت سے متاثر ہوتے ہیں، اور پھر ہم محبّت سے متاثر ہوتے ہیں۔ شاگردوں کو مزید محبّت سیکھنے اور اُس پر مزید عمل کرنے کی ضرورت تھی، کیونکہ مسیح نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ بِھیڑ کو کھانے کو دیں، اور جو کچھ اُنہیں ملا وہ دوسروں کو دیں۔ اُنہوں نے روٹی نہیں بنائی تھی اور نہ ہی لوگوں کو اُس کے لینے پر آمادہ کیا تھا بلکہ اُنہوں نے صرف وہی دیا جو مسیح نے اُنہیں دیا تھا۔ آج، ہم لوگوں کو توبہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، لیکن ہم مسیح کی فرمانبرداری کر سکتے ہیں اور لوگوں کو زندگی کی روٹی پیش کر سکتے ہیں، اور خُدا کا رُوح القُدس خود اُنہیں توبہ کے بارے میں قائل کرے گا۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح آرام بخشتا ہے:

آپ وہ ہیں جس نے فرمایا: "اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تُم کو آرام دُوں گا" (متی 11: 28)۔ آپ آرام کےلئے ہمارے جسموں کی ضرورت سے واقف ہیں۔ ایک ایماندار کا بدن رُوح القُدس کا مسکن ہے، اور خُدا کا رُوح اُس میں بستا ہے۔ رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور، اِس لئے مسیح صرف ہماری رُوح کے بارے میں نہیں بلکہ ہمارے جسم کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ اِسی لئے آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا: "تُم آپ الگ وِیران جگہ میں چلے آؤ اور ذرا آرام کرو" (مرقس 6: 31)۔

ب۔ مسیح ضرورت کو محسوس کرتا ہے:

جب آپ نے اپنی آنکھیں اُٹھا کر اپنے اردگرد بِھیڑ کو دیکھا تو آپ نے فلپّس سے پوچھا: "ہم اِن کے کھانے کےلئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟" (یوحنّا 6: 5)۔ اِس سے پہلے کہ ضرورت مند اپنی احتیاج کو پہچانیں آپ اُن کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ آسمانی باپ "تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تُم کن کن چیزوں کے محتاج ہو" (متی 6: 8)۔

ج۔ مسیح اِیمان کا امتحان لیتا ہے:

اِس لئے آپ نے فلپّس سے پوچھا: "ہم اِن کے کھانے کےلئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟" لیکن یہ بھی لکھا ہے: "مگر اُس نے اُسے آزمانے کےلئے یہ کہا کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ مَیں کیا کرُوں گا" (یوحنّا 6: 6)۔ خُدا اپنے فرزندوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے اُنہیں آزمانے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ اُنہیں مایوسی کا شکار نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُنہیں مزید سیکھنے کی توفیق دینا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنے کمزور پہلوؤں کو جان سکیں اور اُس پر زیادہ بھروسا کریں۔

فلپّس کی بابت مسیح کا ردعمل ایک سرزنش ہو سکتا ہے، کیونکہ فلپّس نے مسیح کے بہت سے معجزات دیکھے تھے، اور اُسے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ مسیح بھیڑ کو کھانا کھلانے کے قابل تھا۔ تاہم، مسیح نے اُسے اپنی کمزوری اور آپ پر بھروسا رکھنے کی مسلسل ضرورت کا احساس دلایا۔ فلپّس مسیح سے جُدا ہو کر کچھ نہیں کر سکتا تھا، لیکن آپ کے ساتھ وہ سب کچھ کر سکتا تھا۔

د۔ مسیح منظم کرتا ہے:

یسوع نے کہا: "لوگوں کو بٹھاؤ ۔۔۔ بچے ہُوئے ٹکڑوں کو جمع کرو" (یوحنّا 6: 10۔ 12)۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم منظم ہوں: "مگر سب باتیں شایستگی اور قرینے کے ساتھ عمل میں آئیں" (1۔ کرنتھیوں 14: 40)۔

مزید برآں، آپ نہیں چاہتے کہ ہم صرف اپنے ذاتی فائدے کے بارے میں سوچیں، بلکہ ایک اِیمانی رفاقت کے طور پر بھی سوچیں۔ آپ نہیں چاہتے کہ ہم غیر منظم ہو کر ایک دوسرے کو پریشان کریں، جس میں ایک شخص اپنی ضرورت سے زیادہ لے لیتا ہے، جبکہ اُس کے پڑوسی کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ ہمارا مسئلہ پیداوار کا نہیں تقسیم کا ہے۔ لوگوں کو منظم کرنے اور کھانا تقسیم کرنے کے بعد مسیح نے باقی ماندہ ٹکڑوں کو جمع کرنے کےلئے کہا تا کہ بعد میں اُنہیں کھانا مل سکے اور ہری گھاس کو صاف اور ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔ ہمارا اپنے بعد آنے والوں کےلئے اپنی جگہ کو صاف کرنا اچھا ہے، تا کہ جب وہ ہمارے لئے جگہ چھوڑیں تو ہم بھی اُسے صاف پا سکیں۔

ہ۔ مسیح خلق کرتا ہے:

"سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہُوئیں اور جو کچھ پیدا ہُوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہُوئی۔ اُس میں زِندگی تھی" (یوحنّا 1: 3، 4)۔ مسیح نے ایک لمحے میں وہ چیز بنائی جسے بنانے، بونے، اُگانے، کٹائی، پیسنے اور پکانے میں کئی مہینے لگتے ہیں۔ آپ نے اپنے پہلے معجزے میں بھی ایسا ہی کیا، جب آپ نے پانی کو مے میں تبدیل کیا (یوحنّا 2: 1۔ 11)۔ آپ نے طبعی عمل اور اُس کی عطا کو تیز کیا۔ آپ حکم دیتے ہیں اور وہ عمل میں آتا ہے، کیونکہ آپ فطرت کے مالک اور صاحب اختیار، خالق عظیم اور وقت کے لحاظ سے لامحدود ہیں۔

و۔ مسیح رُوح اور دِل کو آسودگی بخشتا ہے:

یہودیوں نے مسیح کو سیاسی نجات دہندہ تصور کیا جس کی اُنہیں توقع تھی۔ اُنہوں نے آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کی کوشش کی تا کہ آپ اُنہیں رومیوں کے جوئے سے بچائیں اور اُنہیں روٹی سے آسودہ کریں۔ تاہم، مسیح کی سوچ ایسی نہ تھی، اِس لئے آپ اُن کے درمیان سے نکل گئے۔ آپ ایک زمینی بادشاہ نہیں بننا چاہتے تھے (یوحنّا 6: 15)۔ جن کے پاس دنیوی طاقت ہے وہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو صرف مختصر سے وقت کےلئے خوش کرتے ہیں۔ لیکن رُوحانی بادشاہی میں برکت سب تک پھیلی ہوئی ہے اور ابد تک قائم رہتی ہے۔ جب موجودہ دور ختم ہو جائے گا تو آنے والی بادشاہی ہو گی۔ جب لوگوں نے مسیح کو بادشاہ بنانے کی کوشش کی تو آپ نے کہا: "مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو اِیمان لاتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے۔ زِندگی کی روٹی مَیں ہُوں ۔۔۔ اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا بلکہ جو روٹی مَیں جہان کی زِندگی کےلئے دُوں گا وہ میرا گوشت ہے" (یوحنّا 6: 47۔ 51)۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، تُو اُس وقت بھی ہمارے بارے میں سوچتا ہے جب ہم خود کو بھول جاتے ہیں۔ تُو ہم میں اپنی بھوک اور پیاس پیدا کر، تا کہ ہمیں تجھ سے زندہ روٹی ملے جو ہمیں تسکین اور طاقت بخشتی ہے۔ تب مسیح کا کلام ہمارے لئے پورا ہو جائے گا: "مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے۔" مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. مسیح نے اپنے شاگردوں سے کیوں کہا کہ وہ گلیل کی جھیل کو پار کر کے بیت صیدا تک جائیں؟

  2. کیا یہ بیان درست ہے یا غلط کہ "لوگ زندہ روٹی کی بھوک نہیں رکھتے؟" ثابت کریں کہ آپ کا جواب درست ہے۔

  3. مسیح نے اپنے شاگرد فلپّس سے یہ سوال کیوں کیا؟ "ہم اِن کے کھانے کےلئے کہاں سے روٹیاں مول لیں؟

  4. نام "اندریاس" کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ مناسب نام کیوں تھا؟

  5. لڑکا صبح سے اپنی روٹی اور مچھلی کھانا کیوں بھول گیا؟

  6. اِس معجزے میں ہم مسیح کو خالق کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بتائیں کیسے؟

  7. پانچ ہزار سے زائد افراد کو کھانا کھلانے کے بعد مسیح اُن کے درمیان سے کیوں نکل گیا؟

سترہواں معجزہ: پانی پر چلنا

"اور اُس نے فوراً شاگردوں کو مجبور کیا کہ کشتی میں سوار ہو کر اُس سے پہلے پار چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رُخصت کرے۔ اور لوگوں کو رُخصت کر کے تنہا دُعا کرنے کےلئے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہُوئی تو وہاں اکیلا تھا۔ مگر کشتی اُس وقت جھیل کے بیچ میں تھی اور لہروں سے ڈگمگا رہی تھی کیونکہ ہوا مخالف تھی۔ اور وہ رات کے چوتھے پہر جھیل پر چلتا ہُؤا اُن کے پاس آیا۔ شاگرد اُسے جھیل پر چلتے ہُوئے دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ بُھوت ہے اور ڈر کر چلاّ اُٹھے۔ یسوع نے فوراً اُن سے کہا خاطر جمع رکھّو۔ مَیں ہُوں۔ ڈرو مت۔ پطرس نے اُس سے جواب میں کہا اَے خُداوند اگر تُو ہے تو مُجھے حُکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں۔ اُس نے کہا آ۔ پطرس کشتی سے اُتر کر یسوع کے پاس جانے کےلئے پانی پر چلنے لگا۔ مگر جب ہوا دیکھی تو ڈر گیا اور جب ڈُوبنے لگا تو چلاّ کر کہا اَے خُداوند مُجھے بچا! یسوع نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لِیا اور اُس سے کہا اَے کم اِعتقاد تُو نے کیوں شک کیا؟ اور جب وہ کشتی پر چڑھ آئے تو ہوا تھم گئی۔ اور جو کشتی پر تھے اُنہوں نے اُسے سجدہ کر کے کہا یقیناً تُو خُدا کا بیٹا ہے۔" (اِنجیل بمطابق متی 14: 22۔ 33؛ مزید دیکھئے مرقس 6: 45۔ 51، اور یوحنا 6: 15۔ 21)

جب مسیح نے پانچ ہزار سے زائد افراد کو پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے آسودہ کیا تو وہ آپ کو اپنا سیاسی بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ پھر مسیح نے لوگوں کو روانہ کیا اور اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ اپنی کشتی میں سوار ہو کر گلیل کی جھیل کی دوسری طرف بیت صیدا کے پار کفرنحوم کے پاس جائیں۔ اور آپ خود اکیلے پہاڑ پر دُعا کرنے چلے گئے۔ مسیح کی دُعا اقرار پر مشتمل دُعا نہیں تھی، کیونکہ آپ گناہ سے مبرّا تھے۔ یہ خُدا سے طاقت پانے کی دُعا نہیں تھی کیونکہ آپ خود اختیار کے حامل تھے، جسے آسمان اور زمین کا کُل اختیار دیا گیا تھا۔ آپ کی دُعا شاگردوں کےلئے شفاعت تھی، تا کہ وہ آپ کے رُوحانی پیغام اور دِلوں پر حاکمیت کا مطلب سمجھ سکیں۔

گلیل کی جھیل کی چوڑائی تقریباً پینتالیس فرلانگ ہے (ایک فرلانگ ایک میل کا آٹھواں حصہ یا ایک کلومیٹر کا پانچواں حصہ ہے)۔ جب شاگرد کھیتے کھیتے تقریباً 25 فرلانگ کے قریب گئے تو مغرب کی طرف سے تیز آندھی اُن پر چلی۔ گلیل کی جھیل اپنے اچانک اُٹھنے والے شدید طوفانوں سے جانی جاتی ہے۔ یہ طوفان اتنا شدید تھا کہ شاگرد جھیل کے اپنے تجربے کے باوجود اکیلے اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

رات کے چوتھے پہر، مسیح اپنے شاگردوں کو بچانے کےلئے آئے۔ آپ نے اُنہیں دُور سے دیکھا، اُن کی ضرورت کو جانا، اور پھر اُن کی مدد کےلئے جلدی کی۔ کیا ہمارے ساتھ یہ نہیں ہوتا؟ "اُن کی تمام مصیبتوں میں وہ مصیبت زدہ ہُوا اور اُس کے حضور کے فرشتہ نے اُن کو بچایا" (یسعیاہ 63: 9)۔

رومیوں نے رات کو چار پہروں میں تقسیم کیا ہُوا تھا: شام، آدھی رات، مرغ کے بانگ دینے کا وقت اور صبح سویرے۔ یہ چوتھا پہر، طلوع آفتاب سے تقریباً تین گھنٹے پہلے کا وقت تھا۔ چوتھے پہر کے قریب مسیح اپنے شاگردوں کو پانی میں ڈوبنے کے خطرے سے بچانے کےلئے پانی پر چلتے ہوئے آئے، تو آپ کی راستبازی کا سورج اُن پر نجات کے نور کے ساتھ طلوع ہُوا۔

خُدا دُور سے ہماری دُعائیں سُنتا ہے، ہماری کوتاہیوں کا احساس کرتا ہے اور ہماری مدد کےلئے متحرک ہوتا ہے۔ خُدا وقت اور تاریخ میں سرگرم ہے، وہ آسمان پر بھی بسیرا کرتا ہے اور زمین پر بھی۔ وہ آسمان پر اپنی مرضی پوری کرتا ہے، کیونکہ اُس کے فرشتے دِن رات اُس کی خدمت کرتے اور اُس کی تمجید کرتے ہیں، اور جہاں وہ چاہے اُنہیں بھیجتا ہے۔ خُدا ہمارے پاس خود یا اپنے فرشتوں کے ذریعے، یا اپنے لوگوں اور اپنے بندوں کے ذریعے آتا ہے جو ہماری طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

تاہم، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ شاگردوں نے مسیح کو ایک بھوت تصور کیا! وہ اُس وقت اَور بھی ڈر گئے جب اُنہوں نے اُسے اپنی طرف آتے دیکھا۔ پہلے وہ لہروں سے خوفزدہ تھے، اور اب اِس سے بھی بڑھ کر وہ اُس شخصیت سے خوفزدہ تھے جو اُن کی مدد کےلئے آئی تھی! لیکن مسیح نے دونوں طرح کے خوف کو فوراً اُس وقت دُور کر دیا جب آپ نے اُن سے کہا: "خاطِر جمع رکھو۔ مَیں ہُوں۔ ڈرو مت" (متی 14: 7)۔ اِس پر پطرس نے کہا: "اَے خُداوند اگر تُو ہے تو مجھے حکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں" (آیت 28)۔ جب مسیح نے اُسے ایسا کرنے کا حکم دیا تو پطرس کشتی سے اُتر کر پانی کی سطح پر چلنے لگا۔ لیکن جیسے ہی اُس نے اپنی نگاہیں مسیح سے ہٹا کر اپنے اِردگرد بپھرے ہوئے پانی کی طرف موڑیں، وہ ڈوبنے لگا۔ تب پطرس نے وہی کیا جو ہر ایک ایماندار کو کرنا چاہئے۔ اُس نے چلّا کر کہا: "اَے خُداوند مجھے بچا!" (آیت 30)۔ یسوع نے فوراً اپنا ہاتھ بڑھایا اور اُسے پکڑ لیا اور اُسے بچانے کے بعد اُس سے کہا: "اَے کم اِعتقاد تُو نے کیوں شک کیا؟" اور جب وہ ایک ساتھ کشتی پر چڑھ آئے تو ہوا تھم گئی (آیات 31، 32)۔

یہ دوہرا معجزہ ہے: مسیح نے اپنے تمام شاگردوں کےلئے جھیل کو پرسکون کیا، اور پطرس کو پانی پر چلایا اور اُسے ڈوبنے سے بچایا۔ آپ ہمارے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ ایک معجزہ نہیں بلکہ کئی معجزے کرتے ہیں، اتنے زیادہ کہ ہم اکثر بڑے معجزے سے ششدر ہو کر چھوٹے معجزات کو بھول جاتے ہیں۔ سو، آئیے ہم داؤد کی طرح کہیں: "اَے میری جان! خُداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مُجھ میں ہے اُس کے قدّوس نام کو مبارک کہے" (زبور 103: 1)۔

مسیح نے خشک زمین اور پانی پر معجزے کئے۔ وہ خشکی اور تری دونوں کا خُداوند ہے، اور دونوں جگہوں پر کام کرنے پر قادر ہے۔ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کی قدرت کا ہاتھ پھیلا نہ ہو۔ آپ نے بھوکوں کو کھانا کھلایا۔ آپ نے جھیل کے بپھرے پانی کو پرسکون کر دیا۔ آئیے ہم مسیح سے کہیں: "خُداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی۔ وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے" (زبور 23: 1، 2)۔ اِن دونوں معجزات میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے کیسے اُنہیں کھانا کھلایا، اور پھر پانی کو ساکن کر کے اُنہیں راحت بخشی!

آئیے، غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. مسیح اور معجزہ

معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ شاگرد:

(1) اُنہوں نے ایک گہرے رُوحانی تجربے کے بعد ہوا کو تھمانے کا معجزہ دیکھا۔ شاگردوں نے دیکھا تھا کہ اُن کا نجات دہندہ پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے پانچ ہزار کی بِھیڑ کو کھلانے کے قابل تھا۔ یہ وہ آسمانی میز ہے جس سے آپ نے اپنے شاگردوں اور ضرورت مندوں کو سیر کیا اور بچے ہوئے ٹکڑوں سے بارہ ٹوکریاں بھر گئیں۔

بعض اوقات، لوگ یہ سوچتے ہوئے اپنی رُوحانی صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک زبردست رُوحانی تجربے کے بعد بہت کچھ سیکھا ہے! لیکن ہمارے عظیم ترین تجربات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم زندگی کی مشکلات سے محفوظ ہیں، کیونکہ ہم جتنا زیادہ رُوحانی ترقی اور بلندی حاصل کرتے ہیں شیطان ہم پر اپنے حملوں کو اتنا ہی بڑھاتا ہے۔ لہٰذا، ہم جتنا زیادہ رُوحانی تجربہ حاصل کرتے ہیں، ہمیں اتنا ہی زیادہ دھیان رکھنا چاہئے کہ ہم گر نہ جائیں، اور خُداوند پر مستقل اپنا اعتماد رکھیں۔ ہم اپنی ذات میں اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں، بلکہ ہماری طاقت کا انحصار اُس قدرت پر ہے جو ہمیں اُس کی طرف سے ملتی ہے۔

(2) جب شاگردوں نے سفر شروع کیا تو ہوا سازگار تھی اور پانی پرسکون تھا۔ تاہم، جھیل کے وسط میں، ہوا ناموافق ہو گئی: "کشتی اُس وقت جھیل کے بیچ میں تھی اور لہروں سے ڈگمگا رہی تھی کیونکہ ہوا مخالف تھی" (آیت 24)۔ کشتی جہاں سے آئی تھی وہاں جانے سے قاصر تھی، اور نہ ہی وہ کنارے تک پہنچنے کےلئے اپنا سفر جاری رکھ سکے تھے۔ یہ ہمارے ساتھ ہر وقت ہوتا ہے، کیونکہ خُدا ہمارے آزمائے جانے کی اجازت دیتا ہے تا کہ ہم اُس کی ذات سے روشناس ہوں اور اُس پر بھروسا کرنا سیکھیں۔

(3) شاگردوں کی کشتی کو سنبھالنے کی کوششیں رات کے چوتھے پہر میں کافی دیر تک جاری رہیں۔ "اور وہ رات کے چوتھے پہر جھیل پر چلتا ہُوا اُن کے پاس آیا" (آیت 25)۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: "مسیح نے اپنے شاگردوں کو پانی پر کیوں چھوڑ دیا تھا؟"

ہم ہمیشہ الٰہی حکمت کو نہیں سمجھتے۔ ہم اکثر خُدا سے پوچھتے ہیں، "تُو نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟" لیکن اِس کے برعکس ہمیں ہمیشہ اُس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگرچہ ہم اُس کی حکمت کو نہیں سمجھتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ وہ ہم سے محبّت کرتا ہے۔

(4) جب آپ اپنے شاگردوں کے پاس آئے تو اُنہوں نے اپنے اُستاد کو نہ پہچانا۔ اُنہوں نے سوچا کہ بھوت ہے، کیونکہ اُنہیں اِس انداز سے اپنے بچائے جانے کی توقع نہ تھی۔ وہ گھبرا گئے۔ "شاگِرد اُسے جھیل پر چلتے ہُوئے دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ بُھوت ہے اور ڈر کر چلاّ اُٹھے" (آیت 26)۔ خُدا ہماری مدد کےلئے اُن دروازوں سے آتا ہے جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے، نہ توقع رکھتے ہیں، اور نہ ہی اُن کے بارے میں سُنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات آنے والا بچاؤ اِس قدر شاندار ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو ایک قسم کا سراب ہے!

اگرچہ اِیماندار اپنے اِیمان میں ترقی کرتے ہوئے خُدا کے کام کرنے کے طریقوں کے بارے میں سیکھتے ہیں، لیکن خُدا کے حیران کن معجزے اور عملی تعلیمات ہر صبح نئی ہیں۔ لہٰذا، خُدا ہمیں مسلسل اپنے رُوح سے راہنمائی بخشے تا کہ ہم سیکھنے اور اُس کے حیرت انگیز کاموں کو دیکھنے کےلئے تیار ہوں۔

(5) شاگرد چلّا اُٹھے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ایک اِیماندار اِس بات کا اظہار کرنے کےلئے پکارے کہ وہ بہت کمزور اور بےبس ہے اور اپنے آپ کو بچانے کےلئے حکمت اور طاقت سے محروم ہے۔ اور پھر الٰہی مدد کے آنے پر وہ سُن پائے گا "خاطِر جمع رکھو۔ مَیں ہُوں۔ ڈرو مت۔"

ب۔ پطرس کی بڑی ضرورت:

(1) ایک مضبوط اعتماد: "اَے خُداوند اگر تُو ہے تو مُجھے حُکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں" (آیت 28)۔

پطرس دوسرے شاگردوں کی طرح خوفزدہ تھا۔ لیکن اُس دِن وہ مزید آزمایا گیا تھا۔ اُسے بہت اعتماد تھا۔ اُس نے شک کا اظہار کرنے کےلئے یہ نہیں کہا کہ "اگر تُو ہے" بلکہ وہ مزید یقین دہانی چاہتا تھا۔ گویا وہ کہہ رہا تھا: "مَیں جانتا ہوں کہ یہ تُو ہے۔ سو مُجھے اپنے پاس آنے کا حکم دے۔" پطرس نے مسیح سے کہا کہ "مُجھے حُکم دے" جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پطرس ایک فرمانبردار شخص ہے۔

پطرس باقی شاگردوں سے اِس لحاظ سے ممتاز تھا کہ وہ کافی پھرتیلا تھا، اِس لئے اُسے کبھی کبھار "جلدباز" کہتے ہیں۔ اُس نے مسیح کو فوراً پہچانا اور سب کے سامنے بتایا کہ مسیح کون تھا۔ وہ ایک موقع پر جھیل میں کود پڑا تا کہ باقی شاگردوں سے پہلے کنارے پر پہنچ کر مسیح کے ساتھ ملاقات کر سکے۔

(2) تاہم، اُس کا مضبوط اعتماد متزلزل ہو گیا۔ "پطرس کشتی سے اُتر کر یسوع کے پاس جانے کےلئے پانی پر چلنے لگا۔ مگر جب ہوا دیکھی تو ڈر گیا اور جب ڈوبنے لگا تو چلاّ کر کہا، اَے خُداوند مُجھے بچا" (آیات 29، 30)۔ خُداوند کتنی ہی بار اُس "پانی" کو جس پر کوئی نہیں چلا ہوتا ایک مضبوط، مستحکم اور ٹھوس سڑک بنا دیتا ہے! لیکن پطرس نے حالات کے مالک سے اپنی توجہ حالات پر مرکوز کر دی۔ اُس نے اُس ہستی سے دُور دیکھا جو اُس کی اپنی نااہلی میں اُس کی مدد کرنے کے قابل تھی اور اپنے سامنے کی بڑی مشکلات کو دیکھا! جب ہم اپنی نگاہیں مسئلہ حل کرنے والے سے مسئلہ کی طرف لگا لیں تو ڈوب جاتے ہیں، کیونکہ وہ مسئلہ ہم سے بڑا ہوتا ہے اور ہمارے اندر کچھ ایسا نہیں ہوتا جو ہمیں اُس کے خلاف فتح دلائے۔

عزیز قاری، جب آپ خُدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں، تو اپنے گناہوں پر نہیں، بلکہ اُس پر توجہ مرکوز کریں جو گناہ معاف کرتا ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنے آپ کو گناہ کرنے پر ملامت کرتے ہیں، اتنا ہی ہم اُن کے بارے میں سوچتے ہیں، اِس لئے ہمارے خیالات منفی ہو جاتے ہیں اور ہمارا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ تاہم، جب ہم گناہ کے معاف کرنے والے کے بارے میں سوچتے ہیں جس نے صلیب پر کفارہ دیا، محبّت کرنے والا جو ہمیں قبول کرتا ہے، تو ہم اپنی توجہ مسئلے سے نجات دہندہ کی طرف لگا دیتے ہیں۔

اگرچہ پطرس تیراکی میں اچھا تھا، لیکن اِس کے باوجود وہ تقریباً ڈوب گیا۔ غالباً جس خوف نے اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اُس نے اُس کی جسمانی طاقت کو مفلوج کر دیا۔ خوف عموماً خُدا کی عطا کردہ مضبوطی اور صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے۔ لیکن ہمیں خُداوند کی ضرورت ہے جو فطرت سے بالاتر ہے، کیونکہ ہماری فطری صلاحیتیں ناکافی اور محدود ہیں۔

(3) پطرس کی پُر اعتماد درخواست: "اَے خُداوند مُجھے بچا" (آیت 30)۔ یہ ایک بہت مختصر لیکن جامع دُعا ہے۔ اِس میں کمزوری کا اعتراف کیا گیا ہے، لیکن نجات دہندہ پر یقین کا اظہار ہے۔ اُسے اُس اعتماد کا جواب ملا جس میں اُس نے کہا تھا کہ "مُجھے حکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں۔" اُس کا متزلزل، خوفزدہ اعتماد مضبوط ہو گیا اور اپنی مشکل میں دوبارہ چلّا اُٹھا کیونکہ اُسے خُداوند پر بھروسا تھا جو دُعا کا جواب دیتا ہے۔ اُسے فوری جواب ملا، مسیح نے اپنا قادر، مضبوط اور بچانے والا ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیا۔

ہمیں جاننا چاہئے کہ مسیح ہمارے نجات دہندہ کی محبّت پر ہمارا اعتماد ہمیں ڈوبنے سے بچاتا ہے۔ اِنجیل مقدّس یہ نہیں کہتی کہ "شاگرد جو یسوع سے محبّت رکھتا تھا،" بلکہ یہ کہتی ہے کہ "شاگرد ۔۔۔ جس سے یسوع محبّت رکھتا تھا۔" اُس کےلئے ہماری محبّت متزلزل اور کمزور ہے، اور ہم اپنے کانپتے ہاتھ پر بھروسا نہیں کر سکتے جو اُسے تھامے ہوئے ہے۔ ہم صرف مسیح کے ہاتھ پر بھروسا کر سکتے ہیں جو ہمارا ہاتھ پکڑتا ہے۔ اُس کی قدرت زبردست ہے، اِس لئے ہم کہتے ہیں: "اپنی مصیبت میں مَیں نے خُداوند کو پُکارا اور اپنے خُدا سے فریاد کی۔ اُس نے اپنی ہیکل میں سے میری آواز سُنی اور میری فریاد جو اُس کے حضور تھی اُس کے کان میں پہنچی" (زبور 18: 6)۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ دُعا کرنے والا مسیح:

یہ معجزہ پہاڑ پر مسیح کی دُعا کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔

آپ نے معافی یا طاقت نہیں مانگی۔ لیکن چونکہ آپ باپ کے ساتھ ایک ہیں، آپ نے شاگردوں کےلئے دُعا کی، جیسا کہ آپ نے کہا: "مَیں صِرف اِن ہی کےلئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اُن کےلئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مُجھ پر اِیمان لائیں گے" (یوحنّا 17: 20)۔ یوں مسیح نے بارہ کےلئے دُعا کی اور اُن کےلئے جو اُن کے کلام کے ذریعے ایمان لانے کو تھے۔ آپ ہمیشہ ہمیں شفاعت میں خُدا کے حضور پیش کرتے ہیں۔ صرف آپ کی شفاعت قابل قبول ہے، کیونکہ تمام بنی نوع اِنسان گنہگار ہیں اور ایک شفیع کے محتاج ہیں۔ دوسری طرف، مسیح واحد کامل شخصیت ہے۔ صرف آپ ہی شفاعت کرنے کے لائق ہیں کیونکہ آپ کسی دوسرے کی شفاعت کے محتاج نہیں ہیں۔ مزید برآں، آپ وہ کر سکتے ہیں جو ایّوب نبی کی درخواست تھی کہ کوئی خُدا اور ہمارے درمیان ثالث ہو جو اپنا ہاتھ ہم دونوں پر رکھے (ایّوب 9: 33)۔ ایک کامل اِنسان کے طور پر آپ کی اِنسانی فطرت نے یہ ممکن کیا کہ آپ اپنا ہاتھ ہم پر رکھتے ہیں: "پس جس صورت میں کہ لڑکے خُون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خُود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہُوا" (عبرانیوں 2: 14)۔ پس مسیح ہماری طرح گوشت اور خون ہے کیونکہ آپ اپنی اِنسانیت میں کامل ہیں، مقدّسہ کنواری مریم سے پیدا ہوئے، صلیب پر مر گئے اور دفن ہوئے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی آپ کامل خُدا ہیں۔ آپ ہماری زمین پر آئے، اپنی پیدایش سے پہلے وجود رکھتے ہیں، آپ پیدا ہوئے خلق نہیں، "مصنوع نہیں بلکہ مولود" ہیں۔ اپنی مصلوبیت اور تدفین کے بعد، آپ قبر سے جی اُٹھے، کیونکہ قبر میں زندگی نہیں ہوتی، اور آپ زندگی کے مالک ہیں، آپ وہ ہستی ہیں جس کے وسیلہ سے سب چِیزیں پیدا ہُوئیں اور جو کچھ پیدا ہُوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی آپ کے بغیر پیدا نہیں ہُوئی۔ یہ کامل اِنسان ہم پر اپنا ہاتھ رکھتا ہے، اور یہ کامل خُدا میرا ہاتھ خُدا کے ہاتھ میں رکھتا ہے تا کہ میل کرایا جا سکے۔ یوں اِنجیل جلیل کے الفاظ پورے ہوتے ہیں: "خُدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذِمہ نہ لگایا" (2۔ کرنتھیوں 5: 19)۔

ب۔ نرم دِل مسیح:

رات کی تاریکی میں پہاڑ سے مسیح نے اپنے شاگردوں کو جھیل میں مشکل میں دیکھا (مرقس 6: 48)۔ محبّت کی آنکھوں نے اندھیروں کے پردوں کو چھید دیا، کیونکہ وہی غیب کا جاننے والا ہے۔ آپ کو پہاڑ سے جھیل کے بیچ میں جانے اور پانی پر چلنے میں کوئی دیر نہ ہوئی۔ کیونکہ خُداوند کا فرمان ہے: "مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصر میں ہیں خُوب دیکھی اور اُن کی فریاد جو بیگار لینے والوں کے سبب سے ہے سُنی اور میں اُن کے دُکھوں کو جانتا ہُوں۔ اور مَیں اُترا ہُوں کہ اُن کو مصریوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں" (خروج 3: 7، 8)۔

ج۔ قدرت والا مسیح:

وہ خُداوند ہے جو پانی پر چلتا ہے: "وہ آسمانوں کو اکیلا تان دیتا ہے اور سمندر کی لہروں پر چلتا ہے" (ایّوب 9: 8)۔

د۔ مسیح جلدباز نہیں:

آپ رات کے چوتھے پہر میں آئے۔ بہت سے اِیماندار خُدا کے بارے میں شکایت کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُنہیں مصیبت میں چھوڑ دیتا ہے۔ تاہم، خُدا کا تحمّل اُن کی زندگیوں کو تعمیر کرتا ہے اور اُنہیں اُن کی آزمایشوں کے ذریعے سکھاتا ہے۔ وہ ہمارے وقت کے مطابق نہیں آتا، بلکہ بصیرت پر مبنی اپنے وقت پر آتا ہے۔ یہ خُداوند کا وقت ہے، باپ کا وقت ہے۔ وہ ڈوبنے والے شخص کےلئے بچانے والے کی مانند ہے۔ جب کوئی ڈوبنے والا ہوتا ہے، تو وہ اُس غریب کو چند لمحات کےلئے چھوڑ دیتا ہے جب تک کہ وہ شخص سپردگی کےلئے تیار نہ ہو جائے۔ پھر وہ اُسے نجات کے ساحل پر لے آتا ہے۔

ایک بار مسیح نے طوفان کو اُس وقت تھمایا جب آپ چھوٹی کشتی میں شاگردوں کے ساتھ تھے۔ اِس مرتبہ آپ اُن کے ساتھ نہ تھے۔ آپ اُنہیں یہ سکھانا چاہتے تھے کہ اگرچہ آپ جسمانی طور پر اُن کے درمیان موجود نہ تھے، مگر اپنی رُوح میں اُن کے ساتھ تھے۔ پہلی بار جب آپ نے اُنہیں بچایا، اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے آپ کو طوفان کو تھماتے دیکھا۔ لیکن دوسری مرتبہ، اُنہوں نے آپ کو دُور سے آتے دیکھا۔ "مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے اِیمان لائے" (یوحنّا 20: 29)۔

عزیز قارئین، یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ آپ اُسے دیکھتے ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ مسیح آپ کو دیکھتا ہے۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ آپ اُسے چھوئیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ وہ آپ کو چھوتا ہے۔ جب وہ آپ کے دِل کو اطمینان اور خوشی سے معمور کرتا ہے، تب آپ اُسے دیکھ اور چھو سکیں گے۔

ہ۔ مسیح جو بلائے جانے کا انتظار کرتا ہے:

مسیح نے کشتی سے آگے جانے کی کوشش کی: "وہ جھیل پر چلتا ہُوا اُن کے پاس آیا اور اُن سے آگے نکل جانا چاہتا تھا" (مرقس 6: 48) کیونکہ آپ شاگردوں کی طرف سے بچاؤ کی درخواست سُننا چاہتے تھے۔ آپ نے اِماؤس کی راہ پر دو شاگردوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا، تا کہ وہ آپ کو ساتھ ٹھہرنے کی دعوت دیں: "اِتنے میں وہ اُس گاؤں کے نزدیک پہنچ گئے جہاں جاتے تھے اور اُس کے ڈھنگ سے اَیسا معلوم ہُوا کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے" (لوقا 24: 28)۔ یہاں ہم مسیح کی نجات کی عظمت کو دیکھتے ہیں۔ یہاں ہم اِنسانی ذمہ داری اور الٰہی عمل کو دیکھتے ہیں: اِنسان مسیح کو دِل میں داخل ہونے کی دعوت دینے کا ذمہ دار ہے، اور الٰہی ذمہ داری دِل میں داخل ہونا ہے: "دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُوا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ" (مکاشفہ 3: 20)۔

و۔ حوصلہ افزائی کرنے والا مسیح:

خُداوند ہمیشہ اپنے بچوں کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتا ہے: "مَیں ہُوں۔ ڈرو مت" (مرقس 6: 50)۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ اطمینان میں رہیں: "مَیں تمہیں اِطمینان دِئے جاتا ہُوں۔ اپنا اِطمینان تمہیں دیتا ہُوں۔ جس طرح دُنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا" (یوحنّا 14: 47)۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا جو اطمینان دے سکتی ہے وہ محدود ہے اور پریشانی کے ساتھ ملا ہُوا ہے۔ لیکن خُداوند کا اطمینان مختلف ہے، کیونکہ یہ خالص ہے۔ یہی اطمینان ہے جس نے پطرس کو اپنی گرفت میں لیا: "یسوع نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیا" (آیت 31)۔ یسوع نے اپنے شاگرد کے کمزور اِیمان کو اُس وقت تک ملامت نہیں کیا جب تک کہ آپ اُسے بپھرے پانیوں میں سے نکال نہ لائے! آپ نے اُس سے یہ نہیں کہا: "تُو میرے پاس کیوں آیا؟" پطرس کو خُداوند کے پاس آنے کا حق تھا۔ آپ نے اُس سے کہا: "اَے کم اِعتقاد تُو نے کیوں شک کیا؟" (آیت 30)۔ اِیماندار کو خُدا سے مانگنے کا حق ہے لیکن اُسے خُدا کی محبّت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں۔

"مَیں اِعتقاد رکھتا ہُوں۔ تُو میری بے اِعتقادی کا علاج کر۔"

دُعا

اَے آسمانی باپ، جب ہماری زندگی کے سمندر میں تلاطم برپا ہوتا ہے، اور جب ہم اپنی صورتحال سے گھبرا جاتے ہیں، تو قدرت کا مالک مسیح اُن لہروں کو پرسکون کرنے کےلئے ہمارے پاس اُن لہروں پر چلتا ہُوا آتا ہے، کیونکہ لہریں بھی اُس کے قدموں تلے تابع ہوتی ہیں۔ ہم تجھ میں پناہ لیتے ہیں، تجھ پر بھروسا کرتے ہیں تا کہ زندگی کا سمندر کتنا ہی غضب ناک کیوں نہ ہو، ہم اپنے اندر گہرا اطمینان پائیں اور مزید پریشان نہ ہوں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. مسیح نے پہاڑ پر اکیلے کیا دُعا مانگی؟

  2. "چوتھے پہر" کا کیا مطلب ہے؟

  3. جب مسیح شاگردوں کے پاس پانی پر چل کر آ رہے تھے تو شاگردوں نے یہ کیوں سوچا کہ کوئی بھوت ہے؟

  4. ہم پطرس کی درخواست سے کہ "مُجھے حُکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آؤں" دو باتیں سیکھتے ہیں۔ اُن کا ذِکر کریں۔

  5. ہم مسیح کے پانی پر چلنے سے کیا سیکھتے ہیں؟

  6. ہم اِن الفاظ سے کہ "وہ ۔۔۔ اُن سے آگے نکل جانا چاہتا تھا" کیا سیکھتے ہیں؟

  7. کسی ایک رُوحانی تجربے کا ذِکر کریں جہاں آپ کو پطرس کے پانی پر چلنے کی طرح کچھ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اٹھارہواں معجزہ: سورفینیکی عورت کی بیٹی کو شفا دینا

"پِھر یسوع وہاں سے نِکل کر صُور اور صَیدا کے علاقہ کو روانہ ہُوا۔ اور دیکھو ایک کنعانی عورت اُن سرحدّوں سے نکلی اور پکار کر کہنے لگی اَے خُداوند اِبنِ داؤد مُجھ پر رحم کر۔ ایک بد رُوح میری بیٹی کو بہت ستاتی ہے۔ مگر اُس نے اُسے کچھ جواب نہ دِیا اور اُس کے شاگردوں نے پاس آ کر اُس سے یہ عرض کی کہ اُسے رخصت کر دے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاّتی ہے۔ اُس نے جواب میں کہا کہ مَیں اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے سِوا اَور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ مگر اُس نے آ کر اُسے سجدہ کیا اور کہا اَے خُداوند میری مدد کر۔ اُس نے جواب میں کہا لڑکوں کی روٹی لے کر کتّوں کو ڈال دینا اچّھا نہیں۔ اُس نے کہا ہاں خداوند کیونکہ کتّے بھی اُن ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گرتے ہیں۔ اِس پر یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اَے عورت تیرا اِیمان بہت بڑا ہے۔ جیسا تُو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو اور اُس کی بیٹی نے اُسی گھڑی شفا پائی۔" (اِنجیل بمطابق متی 15: 21۔ 28؛ مزید دیکھئے مرقس 7: 24۔ 30)

مسیح نے تمام لوگوں، افراد اور گروہوں کو خوش آمدید کہا۔ ایک مرتبہ آپ کی ملاقات ایک یہودی مذہبی راہنما نیکدیمس سے ہوئی اور آپ نے اُس سے نئی پیدایش کے بارے میں بات کی۔ ایک اَور موقع پر آپ نے گناہ میں گری ہوئی ایک سامری عورت کے ساتھ شخصی گفتگو کی، اور اُسے زندہ پانی کی پیشکش کی (یوحنّا 3، 4)۔

مسیح نے یہودیوں اور غیر قوموں دونوں کو شفا دی۔ آپ نے صوبہ دار کے نوکر کو شفا بخشی (متی 8 باب) اور بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو بھی شفا بخشی (یوحنّا 4 باب)۔

اب ہم جس معجزے پر غور کریں گے وہ ایک غیر قوم عورت کی بیٹی کی شفا ہے، جو بد رُوح گرفتہ تھی۔ اُس کی ماں مسیح کے پاس آئی اور آپ سے اُسے شفا دینے کےلئے کہا۔ بیٹی کا دُکھ ماں کا دُکھ تھا۔

مقدّس متی نے اِس عورت کو "کنعانی" کے طور پر بیان کیا۔ مقدّس مرقس کے نزدیک وہ ایک غیر قوم خاتون تھی، یہودی نہیں تھی۔ وہ اُسے "سُورُ فینیکی" عورت کے طور پر بیان کرتا ہے کیونکہ رومی اُس کے ملک کو شام کے دائرہ اختیار کا حصہ سمجھتے تھے۔

اِس فینیکی عورت نے مسیح کے بارے میں پہلے سُن رکھا تھا (متی 4: 24)، کیونکہ خوشبو کبھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ وہ آپ کے پاس آئی، لیکن مسیح نے اُسے جھڑک دیا۔ یہ معجزہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، کیونکہ مسیح نے اُس ماں کے ساتھ جو گفتگو کی وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کی گفتگو سے مختلف تھی جنہوں نے آپ سے شفا یا برکت کی درخواست کی تھی۔ ہم اِس معجزے پر غور و فکر کرنے سے یہ سیکھیں گے کہ مسیح کا مقصد ہمیشہ بنی نوع اِنسان کےلئے اپنی محبّت کو اپنے الفاظ اور اپنے کاموں سے ظاہر کرنا ہے، چاہے بظاہر آپ کے الفاظ سے یہ لگے کہ آپ ہم سے کافی اور واضح طور پر محبّت نہیں کرتے۔

اِس معجزے میں یوں لگتا ہے کہ مسیح نے کنعانی عورت کی بیٹی کو شفا دینے میں ہچکچاہٹ دکھائی۔ سب سے پہلے ہمیں یہ تاثر اِس لئے ملتا ہے کہ آپ نے اُسے جواب نہیں دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کے شاگردوں نے آپ سے کہا، "اُسے رُخصت کر دے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاّتی ہے" (آیت 23، یعنی مسیح اُس کی بیٹی کو شفا دے تا کہ وہ اُن کو اکیلا چھوڑ دے)، تب آپ نے جواب دیا، "مَیں اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہُوئی بھیڑوں کے سِوا اَور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا" (آیت 24)۔

جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو یہ عورت آپ کے پیچھے گئی، آپ کو سجدہ کیا اور آپ سے اپنی بیٹی کو شفا دینے کےلئے کہا۔ تب آپ نے اُسے ایک جواب دیا، جو ہمارے لئے ویسے ہی صدمے کا باعث بنتا ہے جیسے اُس عورت کےلئے بنا ہو گا۔ آپ نے کہا: "لڑکوں کی روٹی لے کر کتّوں کو ڈال دینا اچّھا نہیں" (آیت 26)۔ یہ ایک حیران کن رویہ ہے، جو مسیح کے عمومی رویہ سے برعکس ہے۔ ہم نے پہلے دیکھ لیا ہے کہ آپ مختلف قسم کے بہت سے لوگوں سے ملے اور اُنہیں شفا بخشی۔ اَب یہ سوال بڑا واضح ہے کہ کیوں مسیح نے اُسے اور شاگردوں کو اِس طرح جواب دیا۔ آپ کے اِس طرح سے برتاؤ کی کوئی وجہ ضرور ہو گی۔

اِس عورت نے سُنا تھا کہ مسیح نے تمام بیماریوں سے شفا بخشی ہے، اِس لئے اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ آپ سے اپنی بیٹی کو شفا دینے کےلئے کہے گی۔ جب آپ نے اُسے اُس کی توقع کے برعکس جواب دیا، حالانکہ اِس سے پہلے آپ ایسا جواب دے چکے تھے، وہ مایوس نہ ہوئی۔ اُس میں عزم مصمّم موجود تھا کہ جب تک وہ آپ سے اپنی بیٹی کی شفا حاصل نہیں کرتی وہاں سے نہیں جائے گی۔ وہ آپ کے پیچھے گھر میں داخل ہوئی، آپ کو سجدہ کیا اور اپنی درخواست دُہرائی۔ تب آپ نے اُس کی درخواست منظور کر لی کیونکہ وہ اپنی دِلی درخواست پیش کرنے میں ثابت قدم رہی۔ مزید برآں، مسیح نے اُس کے اِیمان کی تعریف بھی کی۔

آئیے، اِس معجزے پر غور کریں:

  1. عورت جسے معجزہ کی ضرورت تھی

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ عورت جسے معجزہ کی ضرورت تھی

الف۔ فینیکی لڑکی:

وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس میں ایک بری رُوح تھی (مرقس 7: 25)۔ شیطان اُن افراد کے ذہن کو تباہ کر دیتا ہے جو اپنے آپ کو اُس کے تابع کرتے ہیں۔ اِس کی وضاحت کےلئے دو تاجروں کی کہانی آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ دونوں تاجروں کی اپنی اپنی دکان تھی۔ اُن میں سے ایک کامیاب جبکہ دوسرا ناکام تھا، اِس لئے وہ اپنے کامیاب پڑوسی سے نفرت کرتا تھا۔ اِس حاسد شخص نے اپنے پڑوسی کو گرانے کی سازش کی اور ایک ایسے شخص کو بھیجا جس نے سامان کی قیمتیں بدل دیں، چنانچہ اُس نے سستے سامان کی زیادہ قیمت لگا دی اور قیمتی اشیاء کی قیمت کم لگا دی۔ کامیاب پڑوسی اِس سازش کا پتہ لگانے سے پہلے کافی بڑا نقصان اُٹھا بیٹھا! شیطان ہمارے ساتھ بھی یہی چال چلتا ہے۔ وہ معمولی چیزوں پر بہت زیادہ قیمت لگاتا ہے، اور قیمتی اشیاء پر معمولی قیمت لگاتا ہے، تا کہ ہم عارضی چیزوں کے پیچھے بھاگیں اور ہمیشہ کی زندگی تک قائم رہنے والی چیزوں کو بھول جائیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی قدر اپنی دنیوی دولت کے حوالے سے دیکھتے ہیں جو ایک دِن ختم ہو جائے گی، لیکن صاحبِ عقل یہ کہیں گے: "ننگا مَیں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا" (ایّوب 1: 21)، "کنگالوں کی مانند ہیں مگر بہتیروں کو دولت مند کر دیتے ہیں" (2۔ کرنتھیوں 6: 10)۔

شیطان نے اِس غریب حال لڑکی میں بسیرا کر کے اُس کا ہوش و حواس اُس سے چھین لیا۔ شیطان اب بھی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اُن کی صحیح، معقول اور منطقی سوچ کو تباہ کرتا ہے۔ شیطان چیزوں کو الٹ پلٹ دیتا ہے، یوں وہ لوگوں کو عارضی چیزوں کے پیچھے دوڑاتا ہے اور زیادہ اہم چیزوں کو نظرانداز کراتا ہے۔ پھر وہ ایسا ہی کرتے ہیں حالانکہ آسمان کی بادشاہی اُس سوداگر کی مانند ہے جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا، اور جب اُسے ایک بیش قیمت موتی مِلا تو اُس نے جا کر اپنا سب کچھ بیچ ڈالا اور اُسے مول لے لیا (متی 13: 45، 46)۔

ب۔ درخواست لے کر آنے والی ماں:

(1) اُس ماں نے ایک مضبوط اِیمان کے ساتھ یقین کیا (آیت 28)۔ رُوح القُدس نے اُس کی زندگی میں اپنا کام کر کے اُسے یہ پہچان بخشنے کےلئے اُس کا دِل کھولا کہ اُس کی تمام ضرورت مسیح کی طرف سے پوری ہو سکتی ہے۔ یہ بڑا اِیمان اِس قدر ثابت قدم تھا کہ اِس میں اپنی احتیاج کو پورا کروانے اور خالی ہاتھ نہ لوٹنے کا عزم تھا۔ وہ جانتی تھی کہ مسیح طاقت اور محبّت سے مالا مال ہے، اور دینے اور تقسیم کرنے میں فیاض ہے۔ جب اُس نے آپ کا چہرہ دیکھا تو اُسے احساس ہُوا کہ اُس نے آپ کے بارے میں جو کچھ سنا تھا وہ سچ تھا۔ آپ یقینی طور پر اُسے وہی دیں گے جس کی اُسے ضرورت تھی۔ مسیح نے اُس کے اِیمان کی تعریف کرتے ہوئے کہا، "اَے عورت تیرا اِیمان بہت بڑا ہے۔ جیسا تُو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو" (متی 15: 28)۔ مسیح نے اِس سے پہلے سِوائے صوبہ دار کے (متی 8: 10) اَور کسی کے اِیمان کی تعریف نہیں کی۔ اِنجیل مقدّس میں اِس بات کا ذِکر نہیں ملتا کہ آپ نے اِن دو افراد کے علاوہ جو غیر قوم کے تھے کسی اَور کے اِیمان کی تعریف کی ہو!

اُس میں اپنے بت پرستانہ پس منظر کے باوجود یہ اِیمان تھا۔ اُس کے خاندان میں بت پرستی تھی، لیکن وہ آنے والے نجات دہندہ کا انتظار کر رہی تھی۔ اُس نے مسیح سے کہا، "اَے خُداوند ابنِ داؤد مُجھ پر رحم کر" کیونکہ وہ جان گئی کہ نجات اُسی کی طرف سے اور اُس میں ہے، اور وہی مسیح موعود ہے۔

اُس نے اُس مشکل صورتحال کے باوجود جس میں مسیح نے اُسے ڈالا اِیمان رکھا۔ جب اُس نے مسیح کو پکارا تو آپ نے اُسے جواب نہ دیا۔ جب شاگردوں نے آپ سے اُس کی بات ماننے کی درخواست کی تو آپ نے اِنکار کر دِیا۔ پھر وہ جواب آیا جس کی اُسے توقع نہیں تھی: "لڑکوں کی روٹی لے کر کتّوں کو ڈال دینا اچّھا نہیں" (متی 15: 26)۔ اِس کے باوجود، وہ اِس یقین پر قائم رہی کہ وہ مسیح سے اپنی بیٹی کےلئے شفا حاصل کر لے گی۔ مقدّس یوحنّا خراسستم نے کہا: "اُسے کلمہ خُدا سے حوصلہ افزائی کا کلمہ نہ ملا۔ شفقت کا در بند تھا۔ طبیب نے علاج روک دیا۔" لیکن اُس نے کامیاب ہونے تک جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے مسیح کے سامنے مسلسل اپنی درخواست رکھی جب تک کہ وہ اُس کے فضل کی بدولت کامیاب نہ ہو گئی۔ جیسا کہ اُس نے خود پر اور اپنے غرور پر قابو پا لیا۔ اِیمانی ہونٹ مانگنا ختم نہیں کریں گے، یہاں تک کہ اگر مسیح اُس اِیماندار شخص کےلئے اپنا منہ اور کان بند کر دے، خواہ شاگرد غلط روّیہ اختیار کریں: "اُسے رُخصت کر دے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاّتی ہے" (آیت 23)، اور چاہے اِیمان رکھنے والا فرد سوچے کہ برکت چند لوگوں کےلئے ہے اور وہ اُس کے لائق نہیں۔ فینیکی عورت اِس سب کے باوجود درخواست کرنے سے باز نہیں آئی۔

فینیکی عورت نے رُوح القُدس سے اِیمان مصمّم سیکھا۔ یہ وہ اِیمان ہے جو دروازے پر دستک دیتا ہے اور اُس وقت تک خاموش نہیں رہتا جب تک کہ گھر کا مالک آدھی رات کے باوجود ضرورت پوری کرنے کےلئے بیدار نہ ہو جائے (لوقا 11: 8)۔ یہ یعقوب کا سا اِیمان ہے جس نے فرشتے کے ساتھ جدوجہد کی اور اُس وقت تک دُعا کی جب تک کہ اُسے برکت نہ مل گئی (پیدایش 32: 24۔ 32)۔ یہ رحم کی درخواست کرنے والے حلیم شخص کی جدوجہد ہے (ہوسیع 12: 3، 4)۔

فینیکی عورت کی جدوجہد فرمانبرداری کی جدوجہد تھی۔ اُس نے پولس کے الفاظ کو پورا کیا: "اور اِسی لئے مَیں اُس کی اُس قوّت کے موافق جانفشانی سے محنت کرتا ہُوں جو مُجھ میں زور سے اثر کرتی ہے" (کلسّیوں 1: 29)۔ یہاں ہم عاجز دِل میں خُداوند کی طاقت دیکھتے ہیں جو مسیح کے ساتھ جانفشانی کرتے ہوئے اُس سے کہتا ہے: "ہاں خُداوند کیونکہ کتّے بھی اُن ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گرتے ہیں" (آیت 28)۔

(2) اِس ماں نے خود کو حلیم کیا۔ یہ پرعزم خاتون حلیم تھی۔ اُس نے مسیح کے ساتھ لڑائی نہیں کی، بلکہ دُعا اور سپردگی کے ساتھ آئی۔ جو کچھ مسیح نے اُس سے کہا، وہ اُس سے متفق تھی۔ اگرچہ مسیح کے الفاظ اُس کےلئے تکلیف دہ تھے، اُس نے کہا: "ہاں خُداوند" (آیت 27)۔ اُس نے مسیح کی باتوں میں سچائی تلاش کی، اور جواب دیا: "کیونکہ کتّے بھی اُن ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گرتے ہیں،" گویا آپ سے کہہ رہی ہو "اَے مالک، تیرے گرے ہوئے ٹکڑوں میں سے چھوٹا سا ٹکڑا بھی میری بیٹی کی بد رُوح کو نکالنے کےلئے کافی ہے۔ جو معجزہ تُو میری بیٹی میں کر سکتا ہے وہ اُن معجزات کے مقابلے میں سادہ ہے جو تُو نے یہودیوں میں کئے ہیں، اِس لئے تیرے دسترخوان کے ٹکڑے میرے لئے کافی ہیں۔" اُس وقت ٹکڑوں کو روٹیوں سے علیحدہ کیا جاتا تھا اور اُنہیں کھانے کے بعد روغن دار غذا والے ہاتھوں کو صاف کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا، پھر پالتو کتوں کو پھینک دیا جاتا تھا۔ یہ ایسا ہے کہ گویا وہ یسوع سے کہہ رہی ہے: "اگر تیرے ٹکڑے اتنی آسودگی بخشتے ہیں، تو تیری روٹی کتنی آسودہ بخش ہو گی!" وینس کے پہلے بطریق لارنس جسٹینیئن نے مرتے وقت یہ دُعا کی: "مَیں کون ہوں، اَے خُداوند کہ تیری بادشاہی میں تیری میز پر بیٹھوں اور ثالوث اقدس کا جلال دیکھوں! میرے لئے یہی کافی ہے کہ تیرے مقدّسین کے قدموں میں بیٹھوں، اور تیری میز سے گرنے والے ٹکڑوں میں سے کھاؤں۔" یہ یقیناً ایک حلیم شخص تھا۔

(3) اِس ماں نے جو مانگا، وہ اُسے مل گیا۔ اُس نے بادشاہی کو زبردستی چھین لیا "اور زور آور اُسے چھین لیتے ہیں" (متی 11: 12)۔ اُس نے حلیمی میں جانفشانی کرتے ہوئے اور ایسے اِیمان سے درخواست کی جو ماندہ نہیں ہوتا۔ مارٹن لوتھر نے کہا، "فینیکی عورت نے مسیح کے ہاتھ سے تلوار لی اور اُسی کے کلام سے یہ کہتے ہوئے اُس کے ساتھ جدوجہد کی 'ہاں خداوند کیونکہ کتّے بھی اُن ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گرتے ہیں۔' سو، اُسے مسیح کی طرف سے ایک تعریفی جواب ملا: 'اَے عورت تیرا اِیمان بہت بڑا ہے۔' (آیت 28)۔" اُس نے وہ فضل حاصل کیا جو مسیح کے اُس کی درخواست کے انکار کے پیچھے پنہاں تھا۔ مارٹن لوتھر نے یہ بھی کہا، "خُدا کی ہر بات میں اُس کے نقطہ نظر کے ساتھ متفق ہوں۔ اُس وقت تک دُعا کرنا بند نہ کریں جب تک کہ آپ فینیکی عورت کی طرح جیت نہ جائیں، اور اپنے خلاف تمام ثبوتوں کو اپنے مقدمہ میں بدل دیں، تا کہ آپ کو مسیح کی طرف سے برکت ملے۔" اُس نے مسیح، اُس کے فضل اور رُوح القُدس کی بدولت فتح حاصل کی۔

فینیکی عورت کی درخواست پوری ہو گئی کیونکہ وہ فضل کے دائرہ کار میں داخل ہوئی، آسمانی میز کے پاس آئی، اگرچہ وہ اُس کے نیچے کتوں کے ساتھ ٹکڑوں کو کھا رہی تھی۔ اُس میں کھوئے ہوئے بیٹے کے سے جذبات تھے، جس نے اپنے باپ سے یہ کہنے کا تہیّہ کیا تھا: "مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے" (لوقا 15: 19)۔ اُس نے خُداوند کی فیّاضی میں سے ٹکڑے مانگے، اور اُس کی رحمت کی گواہی دیتی ہوئی وہاں سے گئی۔

2۔ مسیح اور معجزہ

ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں: کیوں مسیح نے فینیکی عورت سے بات کرنے سے انکار کیا جبکہ آپ نے سامری عورت سے بات کی؟ کیوں آپ نے حوض پر موجود بیمار شخص کو یہ پوچھ کر شفا دی کہ "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" (یوحنّا 5: 6) جبکہ یہ معجزہ کرنے سے آپ نے انکار کیا؟ کیوں آپ بہت سے بیمار لوگوں کے پاس گئے اور اُنہیں جسمانی اور رُوحانی شفا دینے کی پیشکش کی؟ اور کیوں آپ نے فینیکی عورت کی مخالفت کی، جو اُس عورت کےلئے اور ہمارے لئے بھی غیر متوقع ہے؟ اِس کی کوئی وجہ ضرور ہو گی۔

الف۔ مسیح فینیکی عورت سے صرف الفاظ کے اعتبار سے سختی سے پیش آیا:

یہ یوسف کی اپنے بھائیوں کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آنے کی طرح تھا جب وہ کنعان کے ملک سے جناب یوسف کے پاس آئے تھے۔ اُس نے اُن کےلئے اپنی بے پناہ محبّت کے باوجود اُن کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا۔ "یوسف اپنے بھائِیوں کو دیکھ کر اُن کو پہچان گیا پر اُس نے اُن کے سامنے اپنے آپ کو انجان بنا لیا اور اُن سے سخت لہجہ میں پُوچھا ۔۔۔ اُن سے کہنے لگا کہ تُم جاسوس ہو" (پیدایش 42: 7۔ 9)۔ "تب وہ اُن کے پاس سے ہٹ گیا اور رویا اور پھر اُن کے پاس آ کر اُن سے باتیں کیں اور اُن میں سے شمعون کو لے کر اُن کی آنکھوں کے سامنے اُسے بندھوا دِیا" (آیت 24)، پھر یوسف نے اُنہیں اناج دیا اور جو نقدی اُنہوں نے بطور قیمت ادا کی تھی وہ واپس اُن کے بوروں میں ڈلوا کر اُنہیں لوٹا دی۔ یوں یوسف اپنے بھائیوں کی توبہ اور ایک دوسرے کےلئے اُن کی محبّت کا تجربہ کر کے پہلے کی پیشین گوئیوں کو پورا کر رہا تھا۔ اِس فینیکی عورت کے ساتھ مسیح کا برتاؤ بھی ویسا ہی تھا جیسا برتاؤ یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔

ب۔ کسی شخص کے بولتے وقت ہمیں اُس کے الفاظ کو سمجھنے کےلئے اُس کے چہرے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے:

جب مسیح نے فینیکی عورت سے کہا، "لڑکوں کی روٹی لے کر کتّوں کو ڈال دینا اچّھا نہیں" تو ہمیں مسیح کے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ الفاظ کہتے وقت مسیح کا چہرہ سخت، غیر ہمدردانہ یا دُرُشت ہوتا، تو وہ یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئی ہوتی۔ تاہم، آپ کے چہرے کے تاثرات ضرور ہمدردی اور نرمی کی عکاسی کر رہے ہوں گے، جس نے اُسے حوصلہ دیا، اور اِس صدمے نے اُس کی سوچ میں مایوسی پیدا نہیں کی۔ اُس نے وہ سُنا جس کی اُسے توقع نہ تھی، لیکن اِس کے ساتھ آپ کے چہرے کے تاثرات نے اُس کے دِل و دماغ کو آپ سے یہ کہنے پر اُبھارا، "ہاں خُداوند، جو تُو کہہ رہا ہے مَیں اُس سے متفق ہوں، اور جو کچھ تُو نے کہا ہے مَیں اُسی کی بنیاد پر درخواست کرتی ہوں۔ مجھے ٹکڑے دے دے، اور یہ میرے لئے کافی ہو گا۔" ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کتوں کے بارے میں بات کرنے کے بعد، مسیح نے کہا، "اَے عَورت" (آیت 28)۔ اصل متن میں یہ ایک نرم خو لفظ ہے، جسے مسیح نے پہلے اپنی ماں کو مخاطب کرنے کےلئے استعمال کیا تھا (یوحنّا 2: 4)۔

مسیح کو سمجھنے کےلئے ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم مسیح کے چہرے کو دیکھیں اور آپ کے چہرے کو دیکھنے کےلئے ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں، خشوع و خضوع کے ساتھ آپ کے سامنے سجدہ کریں، آپ سے دُعا کریں، اور پھر اعتماد، سکون، یقین دہانی اور خوشی کے ساتھ رخصت ہوں اور اِیمان کے ساتھ خُداوند کے کام کے منتظر رہیں۔

عورت کو جواب دینے کے مسیح کے عجیب انداز کی جو بظاہر سخت معلوم ہوتا ہے، دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: مسیح نے فینیکی عورت کے ایمان کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ مضبوط اور ثابت قدم ہے۔ اگر اُس کا اِیمان کمزور ہوتا تو آپ کبھی بھی اِس طرح سے اُس کے ساتھ بات نہ کرتے۔ "خُدا سچّا ہے۔ وہ تُم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا" (1۔ کرنتھیوں 10: 13)۔ مسیح نے اُس کے اِیمان کی طاقت کے مطابق اُس کے سامنے آزمایش رکھی۔

خُدا ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہیں ڈالتا۔ ہمارے لئے ہماری آزمایشیں کبھی بھی ہماری برداشت سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ آئیے ہم اطمینان رکھیں اور پرسکون رہیں کیونکہ ہمارے پاس طاقت کا ایک بھرپور ذریعہ ہے۔ ہمارے پاس کثرت کے فضل کی فراہمی ہے جو ہمارے لئے ہمیشہ تروتازہ ہے۔ خُدا ہر ایک اِیماندار کو بڑے اِیمان کی کثرت سے سنبھالتا ہے۔ "اِس کے سبب سے تُم خُوشی مناتے ہو۔ اگرچہ اب چند روز کےلئے ضرورت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمایشوں کے سبب سے غم زدہ ہو۔ اور یہ اِس لئے ہے کہ تمہارا آزمایا ہُوا اِیمان جو آگ سے آزمائے ہُوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیش قیمت ہے یسوع مسیح کے ظہور کے وقت تعریف اور جلال اور عزّت کا باعث ٹھہرے" (1۔ پطرس 1: 6، 7)۔ مسیح نے فینیکی عورت کو وہی بات سکھائی جو آپ ہمیں سکھاتے ہیں کہ سب سے پہلے بغیر تھکے اور مایوس ہوئے دعا کرنا جاری رکھیں۔ دوّم، آپ نے اُسے سکھایا، جیسا کہ آپ ہمیں سکھاتے ہیں کہ بلا شک و شبہ جواب آئے گا۔

دوسری وجہ: مسیح اپنے شاگردوں کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔

وہ غیر قوموں کو کتّوں کی طرح سمجھتے تھے، اِس لئے آپ اُن کی سوچ بدلنا چاہتے تھے۔ آپ اِس معجزے سے گویا اُن سے کہہ رہے تھے کہ "تم غیر قوموں کی عزت نہیں کرتے لیکن اُن میں بعض ایسے بھی ہیں جو ایسے اِیمان کے ساتھ بھروسا رکھیں گے جس کی مثال تمام اسرائیل میں نہیں ملتی۔" پطرس نے جلد یہ جان لینا تھا کہ وہ کسی شخص یا چیز کو ناپاک نہ کہے اور اُسے غیر اقوام کے پاس خوشخبری کو پہنچانا تھا (اعمال 10 باب)۔ یہ سچ ہے کہ منادی کا آغاز یہودیوں سے شروع ہُوا، لیکن مقصد یہ تھا کہ یہ پیغام تمام دُنیا تک پہنچ جائے۔ پولس رسول نے کہا: "مَیں کہتا ہُوں کہ مسیح خُدا کی سچائی ثابت کرنے کےلئے مختونوں کا خادم بنا تا کہ اُن وعدوں کو پُورا کرے جو باپ دادا سے کئے گئے تھے۔ اور غیر قومیں بھی رَحم کے سبب سے خُدا کی حمد کریں۔ چُنانچہ لکھا ہے کہ اِس واسطے میں غیر قوموں میں تیرا اِقرار کروں گا اور تیرے نام کے گیت گاؤں گا۔ اور پھر وہ فرماتا ہے کہ اَے غیر قومو! اُس کی امّت کے ساتھ خوشی کرو۔ پھر یہ کہ اَے سب غیر قومو! خُداوند کی حمد کرو اور سب امّتیں اُس کی ستایش کریں۔ اور یسعیاہ بھی کہتا ہے کہ یسّی کی جڑ ظاہر ہو گی یعنی وہ شخص جو غیر قوموں پر حکومت کرنے کو اُٹھے گا اُسی سے غیر قومیں امّید رکھیں گی" (رومیوں 15: 8۔ 12)۔ پس یہ برکت یہودیوں اور غیر اقوام دونوں کےلئے ہے۔ اور جب شمعون نے نومولود یسوع کو اُٹھایا (لوقا 2: 29۔ 32)، تو اُس نے کہا کہ وہ اسرائیل کےلئے نجات اور غیر قوموں کےلئے نور ہے۔ مسیح نے اپنے بارے میں یہ بھی کہا کہ وہ اچھا چرواہا ہے، جس کی "اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑ خانہ کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سُنیں گی۔ پھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا" (یوحنّا 10: 16)۔ مسیح نے اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں سے آغاز کیا، تا کہ وہ کلیسیا کا آغاز ہو، جس میں آخرکار تمام اقوام شامل ہوں گی (متی 13: 31، 32)۔

ہماری خواہش ہے کہ ہر کوئی خُداوند کی طرف سے یہ الفاظ سُنے: "تیرا اِیمان بہت بڑا ہے۔" خُداوند ہمیں امّید اور بھروسے والا اِیمان عطا فرمائے، وہ اِیمان جو خالی ہاتھ نہیں جاتا۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، جب ہم مسیح کے محبّت بھرے چہرے کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ مجسم محبّت ہے۔ ہمیں اِس یقین کے ساتھ دُعا کرتے رہنا سکھا کہ مصیبت کا ٹلنا اور سیاہ بادلوں کا چھٹنا ضرور ہے، کیونکہ تیرے پاس لڑکوں کی روٹی ہے، اور تیرے ہی پاس ہم مشکل میں مدد کےلئے دوڑے چلے آتے ہیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. آپ کیسے واضح کریں گے کہ اِس ماں کو کنعانی، سُورُ فنیکی اور غیر قوم کی بیان کیا گیا ہے؟

  2. کیوں شاگردوں نے مسیح سے اِس ماں کو رخصت کرنے کےلئے کہا؟

  3. ٹکڑوں سے کیا مراد ہے؟

  4. کیسے شیطان ہم پر بد ارواح کے ساتھ حملہ کرتا ہے؟

  5. کیسے فینیکی عورت نے اپنا اِیمان ظاہر کیا، اور کیسے اُس نے اپنی حلیمی دکھائی؟

  6. جب مسیح نے "کتّوں کو ڈال دینا اچّھا نہیں" کہا، تو فینیکی عورت کے تعلق سے اِس کی ایک وجہ تھی۔ وہ وجہ بتائیے۔

  7. جب مسیح نے "کتّوں کو ڈال دینا اچّھا نہیں" کہا، تو شاگردوں کے تعلق سے اِس کی ایک وجہ تھی۔ وہ وجہ بتائیے۔

اُنیسواں معجزہ: ایک اندھے شخص کی شفا

"پھر وہ بیت صیدا میں آئے اور لوگ ایک اندھے کو اُس کے پاس لائے اور اُس کی منّت کی کہ اُسے چھوئے۔ وہ اُس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گاؤں سے باہر لے گیا اور اُس کی آنکھوں میں تُھوک کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھے اور اُس سے پوچھا کیا تُو کچھ دیکھتا ہے؟ اُس نے نظر اُٹھا کر کہا مَیں آدمیوں کو دیکھتا ہُوں کیونکہ وہ مجھے چلتے ہُوئے اَیسے دکھائی دیتے ہیں جیسے درخت۔ پھر اُس نے دوبارہ اُس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور اُس نے غور سے نظر کی اور اچّھا ہو گیا اور سب چیزیں صاف صاف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے اُس کو اُس کے گھر کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ اِس گاؤں کے اندر قدم بھی نہ رکھنا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 8: 22۔ 26)

ہم نے دیکھا ہے کہ مسیح بیماروں کو فوراً اور مکمل طور پر ٹھیک کر دیتے تھے۔ تاہم، یہ واحد معجزہ ہے جس میں مسیح نے دو مراحل میں شفا بخشی، کیونکہ جب مسیح نے بیت صیدا میں اندھے شخص کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھا تو "اُس نے نظر اُٹھا کر کہا مَیں آدمِیوں کو دیکھتا ہُوں کیونکہ وہ مجھے چلتے ہُوئے اَیسے دکھائی دیتے ہیں جیسے درخت" (آیت 24)۔ پھر مسیح نے دوبارہ اُس شخص کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھا، اور جب اُس نے اوپر دیکھا تو وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا اور اُس نے سب کچھ صاف دیکھا۔

بیت صیدا کے قصبے نے مسیح کے بہت سے معجزات دیکھے تھے۔ وہاں بہت سے لوگوں کی رُوحانی آنکھیں کھلیں اور اُنہوں نے نجات دہندہ کو دیکھا۔ وہاں، کچھ نے جسمانی آنکھوں کی شفا بھی پائی اور اُنہوں نے اِس دُنیا کو دیکھا۔ بیت صیدا ایک ایسا قصبہ ہے جو گلیل کی جھیل کے دونوں کناروں پر واقع ہے جہاں دریائے یردن اُس میں آ گر گرتا ہے۔ یہ اندریاس کا قصبہ ہے جس نے مسیح کو پایا، اور اپنے بھائی پطرس کی مسیح تک راہنمائی کی۔ مسیح کا شاگرد فلپّس بھی یہاں کا تھا، جب اُس کی مسیح سے ملاقات ہوئی تو اُس نے نتن ایل کو بُلا کر اُسے مسیح کے بارے میں بتایا اور کہا "چل کر دیکھ لے۔"

اندھا شخص جسے بتدریج شفا ملی، خود مسیح کے پاس نہیں آیا تھا۔ اُس کے دوست اُسے مسیح کے پاس لے کر گئے اور کہا کہ مسیح اُسے چھو کر شفا بخشے۔ مسیح نے اُن کے اِیمان کا خیال رکھا، لیکن اُن کے مجوزہ طریقے کے مطابق شفا نہیں دی۔ اِس کے بجائے آپ نے اندھے شخص کا ہاتھ پکڑا اور اُسے شہر سے باہر لے گئے تا کہ اُس کے ساتھ اکیلے ہوں۔ وہاں آپ نے اُس کی آنکھوں میں تھوکا اور دو بار اُن پر ہاتھ رکھا۔ تب اچانک اُس کی آنکھیں اچھی ہو گئیں اور وہ سب کچھ صاف دیکھنے لگا۔

آئیے اِس معجزے میں اِن پہلوؤں پر غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. دوست اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ اندھا شخص مسیح کے پاس اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا:

اُسے دوسروں نے مسیح کے سامنے پیش کیا (آیت 22)۔ لوگ بہت سے طریقوں سے مسیح کے پاس آتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ اپنی مرضی سے آتے ہیں کیونکہ وہ رُوحانی بھوک اور پیاس محسوس کرتے ہیں۔ وہ آسودہ ہونے اور اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کچھ کو اپنی ضرورت کا احساس نہیں ہوتا، اور کوئی اَور اُنہیں لاتا ہے، جیسا کہ اندھے شخص کے ساتھ ہُوا۔

ہم نے ایسے معجزات کا جائزہ لیا ہے جن میں یسوع مسیح خود کسی بیمار شخص کے پاس گئے، مثلاً بیت حسدا کے حوض پر بیمار شخص کے پاس گئے (یوحنّا 5 باب)۔ ایسے بھی معجزات ہیں جن میں بیمار کو مسیح کے پاس اُٹھا کر لے جایا گیا، جیسا کہ مفلوج کے ساتھ ہُوا (مرقس 2 باب)۔ پھر، ایسے بھی معجزات ہیں جب بیمار شخص کی مسیح کی طرف راہنمائی کی گئی، جیسے ہم یہاں دیکھتے ہیں۔

ب۔ یہ واحد شخص ہے جس نے بتدریج شفا پائی:

(1) اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس میں جوش و جذبے کی کمی تھی۔ اُس کے دوست اُسے لائے تھے۔ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُس نے مسیح کے ساتھ گفتگو شروع نہیں کی۔ اُس نے صرف ایک سوال کا جواب دیا۔ جب مسیح نے پہلی بار اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُس نے کچھ دیکھا؟ اندھے شخص نے جواب میں صرف یہ کہا "مَیں آدمیوں کو دیکھتا ہُوں کیونکہ وہ مجھے چلتے ہُوئے اَیسے دکھائی دیتے ہیں جیسے درخت" (آیت 24)۔ اُس نے بڑی برکت حاصل کرنے کےلئے کوئی جوش نہیں دکھایا۔ یہ اُس اندھے شخص سے بہت مختلف تھا جس نے چلّا کر کہا تھا: "اَے ابنِ داؤد، مجھ پر رحم کر۔"

لیکن جب مسیح نے دوسری بار اِس اندھے شخص پر ہاتھ رکھا تو وہ "اچّھا ہو گیا اور سب چیزیں صاف صاف دیکھنے لگا" (آیت 24)۔ اِس کے باوجود، اُس نے اپنی خوشی خاطر خواہ طور پر ظاہر نہیں کی، اور جو معجزہ مسیح نے اُس میں کیا اُس کے بارے میں بات نہ کی۔ وہ نہ تو حیران تھا، اور نہ پرجوش! اکثر، ہم مسیح کے ہاتھوں سے اپنی درخواست اور سوچ سے زیادہ حاصل کرتے ہیں، لیکن ہمارے پاس اُس کا شکریہ ادا کرنے کی طاقت اور جوش و جذبے کی کمی ہوتی ہے کہ ہم یہ بات کہہ سکیں کہ خُداوند نے ہمارے لئے کتنا کچھ کیا اور وہ ہم پر کتنا مہربان رہا ہے، گویا اُس نے ہم پر جو فضل کیا ہے وہ اُس کا پابند ہے۔

(2) اِس کی وجہ معرفت کی کمی تھی: یسوع نے بیت صیدا میں پہلے بھی بہت سے معجزے دکھائے تھے، لیکن یوں لگتا ہے کہ اِس اندھے شخص نے اُن کے بارے میں نہیں سُنا تھا۔ لیکن اُس کے دوستوں نے اِن کے بارے میں سُنا تھا، اِس لئے وہ اُسے اپنے ساتھ لے گئے اور اُسے نجات دہندہ کے سامنے پیش کیا، جس کے بارے میں اُس نے نہیں سُنا تھا۔ لیکن اِس لاعلمی نے محبّت کرنے والے مسیح کو اِس اندھے، لاعلم شخص کو پوری طرح سے بینائی فراہم کرنے کےلئے اُس پر دو بار ہاتھ رکھنے سے نہیں روکا۔ کتنے ہی خستہ حال گنہگار "عدم معرفت سے ہلاک ہُوئے" (ہوسیع 4: 6)۔

(3) اِس کی ایک وجہ اِیمان کی کمی بھی تھی: اُس میں جوش و جذبے کی کمی کے باعث سیکھنے کا فقدان تھا، اور اُس میں معرفت کی کمی کے باعث اِیمان کا فقدان تھا، کیونکہ "اِیمان سُننے سے پیدا ہوتا ہے اور سُننا مسیح کے کلام سے" (رومیوں 10: 17)۔

ج۔ اِس شخص کی بتدریج شفا اُسے ایک بہتر حالت میں لے آئی:

جب اُس نے آدمیوں کو درختوں کی طرح چلتے ہوئے دیکھا تو اُسے واضح طور پر دیکھنے کی احتیاج تھی۔ مسیح نے اُسے اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اُسے بینائی نہ مل گئی۔

ہم میں سے بعض کو تھوڑی سی نعمت ملتی ہے اور ہم اُس پر مطمئن ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارا ربّ ہمیں زیادہ عطا کرنا چاہتا ہے۔ جب ایک یہودی فقیہ مسیح کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا کہ پہلا اور سب سے اہم حکم کیا ہے، تو مسیح نے اُسے بتایا کہ یہ خُدا اور اپنے پڑوسی سے محبّت کرنا ہے۔ تب اُس نے جواب دیا، "اَے اُستاد بہت خُوب! تُو نے سچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اُس کے سِوا اَور کوئی نہیں۔ اور اُس سے سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے محبّت رکھنا اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھنا سب سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے بڑھ کر ہے" (متی 12: 32، 33)۔ اُس کے جواب سے، ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے ایک نیا رُوحانی سبق سیکھا۔ یہودی ذبیحوں اور سوختنی قربانیوں کو ہر چیز سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ تاہم، جو کچھ اُس نے سیکھا تھا وہ اُس کی نجات کےلئے کافی نہیں تھا، کیونکہ مسیح نے اُس سے کہا، "تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہیں۔" بادشاہی سے دُور نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے لوگوں کو درختوں کی طرح چلتے ہوئے دیکھنا۔ فقیہ زیادہ دُور نہیں تھا، مگر وہ ابھی بادشاہی کے اندر نہیں تھا۔ اُسے خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کےلئے اور مکمل برکت پانے کےلئے ایک اَور قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔ مسیح کی دِلی آرزو ہے کہ وہ آپ کو مکمل برکت عطا کرے۔ جہاں آپ پہنچے ہیں وہاں مت رُکے رہیں۔

2۔ دوست اور معجزہ

الف۔ اندھے شخص کے دوست اُسے مسیح کے پاس لائے:

(1) اِس سے نابینا آدمی کےلئے اُن کی شفقت کا اظہار ہوتا ہے: اُنہوں نے ایسے فرد پر جو نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی جانتا تھا اِس انداز سے رحم کیا کہ اُن کی ہمدردی جذبات سے عمل میں بدل گئی۔ "مبارک ہیں وہ جو رحمدِل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کیا جائے گا" (متی 5: 7)۔

(2) یہ مسیح کی قدرت پر اِیمان کو بھی ظاہر کرتا ہے: مسیح نے کہا، "دُنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (یوحنّا 8: 12)۔ وہ مکمل بھروسا رکھتے ہوئے اندھے آدمی کو اپنے ساتھ لے کر آئے کہ مسیح اُسے شفا دینے کے قابل تھا۔

(3) مزید برآں، یہ حکمت کو ظاہر کرتا ہے: "جو دانِش مند ہے دِلوں کو موہ لیتا ہے" (امثال 11: 30)۔ سب سے بڑا کام جو آپ کر سکتے ہیں وہ حکمت کی معراج تک پہنچنا ہے، جو کہ خُدا کا خوف رکھنا اور پھر دوسروں کو خُدا کا خوف رکھنے کی طرف راغب کرنا ہے۔ آسمان پر ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث خوشی ہوتی ہے (لوقا 15: 7، 10)، کیونکہ جو کوئی کسی گنہگار کو اُس کی گمراہی سے پھیر لاتا ہے، وہ ایک جان کو موت سے بچاتا ہے اور بہت سے گناہوں کو ڈھانکتا ہے (یعقوب 5: 20)۔

جب اُس اندھے شخص کی آنکھیں کھل گئیں اور اُس کی بینائی ٹھیک ہو گئی تو اُس کے دوستوں نے بڑی خوشی کا تجربہ کیا۔

ب۔ اندھے شخص کے دوستوں نے یسوع سے کہا کہ وہ اندھے شخص کو چھو کر شفا دے:

کئی بار ہم کسی شخص کےلئے اپنے زبردست جوش و جذبہ اور محبّت کی وجہ سے خُداوند کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اُس کےلئے ہماری تجویز کے مطابق عمل کرے۔ اِن دوستوں نے مسیح سے کہا کہ وہ اندھے شخص کو ایک مخصوص انداز سے شفا دے۔ لیکن درحقیقت ہمیں باغِ گتسمنی میں اپنے خُداوند کی دُعا سے سیکھنے کی ضرورت ہے: "تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔" ہمیں خُداوند کو یہ حکم نہیں دینا چاہئے کہ وہ کیسے کام کرے اور کیسے ہمارا خیال رکھے۔ خُداوند نے اُن کی تجاویز کو نظر انداز کیا اور اُن کے ایمان کا خیال رکھا، اور اُس اندھے شخص کو اپنے طریقے سے شفا بخشی۔

مسیح اُس اندھے شخص کو اُس کے دوستوں سے دُور گاؤں کے باہر لے گئے۔ وہاں آپ نے شفا بخشنے کا معجزہ کیا۔ آپ نے اُسے ایک بار نہیں بلکہ دو بار چھؤا اور برکت دی۔ آپ نے اُس پر دوگنا فضل کیا۔ خُداوند نے معذور شخص سے اُس کے دوستوں سے زیادہ پیار کیا جو اُسے لائے تھے۔ اُس کی روح کےلئے خُداوند کی عنایات اُس کے ایما پر درخواست کرنے والے اُس کے دوستوں کی توقعات سے زیادہ بڑی تھیں۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ "وہ اُس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گاؤں سے باہر لے گیا" (آیت 23)

آپ اُس کے ساتھ اکیلے وقت گزارنا چاہتے تھے۔ آپ نے اُسے اَور وقت دیا۔ کبھی کبھی، خُداوند ہمیں ہمارے دوستوں اور دُنیوی دلچسپیوں سے دُور کر دیتا ہے اور ہمیں اُن لوگوں سے علیحدہ کر دیتا ہے جنہیں ہم جانتے ہیں، تا کہ ہم اُس کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں۔ آپ نے اندھے آدمی کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ آپ نے اُسے اُس کے معاشرے، اُس کے ماضی اور اُس کی بت پرستی سے الگ تھلگ کر دیا!

جب خُداوند دمشق جاتے ہوئے ترسس کے ساؤل پر ظاہر ہُوا تو خُداوند نے اُسے زمین پر گرا دیا۔ پھر خُداوند ساؤل کو اُس جگہ لے گیا جہاں اُس کی ملاقات ایسے شخص سے ہوئی جس نے اُس کےلئے دُعا کی تھی۔ خُداوند نے اُس کی آنکھیں اور دِل کھول دیا۔ اِس کے بعد، ساؤل خُداوند کے ساتھ اکیلے وقت گزارنے کےلئے صحرا میں چلا گیا، تا کہ وہ سب کچھ جو اُس نے پہلے سیکھا تھا اُس کا دوبارہ جائزہ لے سکے۔ جب اُس نے تورات کو ایک نئی روشنی میں پڑھا تو اُسے معلوم ہُوا کہ اِس کی پیشین گوئیاں یسوع ناصری میں پوری ہوئی ہیں۔ وہ مسیح کی گواہی دینے کو تھا اور اُس کی بابت اپنے فہم میں وسعت کےلئے اُس نے زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور دُعا کی۔ خُدا کے بارے میں بات کرنے والے کسی فرد کو پہلے خُدا کے ساتھ بات کرنی چاہئے اور اُس میں شادمان ہونا چاہئے۔ تب وہ اُس کی گواہی دینے کےلئے باہر جا سکتا ہے۔

ب۔ مسیح نے اُس کی آنکھوں میں تھوک کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھے (آیت 23)

خُداوند نے ایک عام سی چیز لی اور اُس کے ساتھ کچھ غیر معمولی کام کیا! مسیح نے ایک قدرتی چیز کو مافوق الفطرت لباس پہنایا! اِس سے پہلے، آپ نے قوس قزح کو لیا، جو طوفانِ نوح کے بعد نمودار ہوئی تھی، اور اُسے بنی نوع انسان کے ساتھ ایک عہد کا نشان بنایا تھا کہ سب جاندار طوفان کے پانی سے پھر ہلاک نہ ہوں گے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 9: 11)۔ آپ نے ختنہ لیا، جو مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک میں رائج تھا، اور اُسے ابرہام اور اُس کی اولاد کے ساتھ ایک عہد کا نشان بنایا (پیدایش 17: 10)۔ آپ نے روٹی اور پیالہ لیا اور اُنہیں نئے عہد کا ایک نشان بنایا (اِنجیل بمطابق متی 26: 26۔ 29)۔ مزید یہ کہ آپ نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لے کر پانچ ہزار کو کھانا کھلایا (اِنجیل بمطابق یوحنا 6: 1۔ 14)۔ اِس لئے ہمیں چاہئے کہ وہ سب کچھ جو ہمارے پاس ہے اور اپنی محنت کا پہلا پھل اُس کو پیش کریں، تا کہ وہ اِن معمولی چیزوں کو غیر معمولی نعمتوں میں بدل دے۔

ج۔ مسیح نے اندھے شخص کو بتدریج شفا دی:

آپ نے اُسے اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ اُس کی شفا مکمل نہ ہو گئی۔ مسیح ہمیں اُس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک کہ وہ ہماری نجات کو مکمل نہ کر لے، کیونکہ وہ ہمارے ایمان کی ابتدا اور تکمیل ہے۔ ہم پولس رسول کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، "جب مَیں بچّہ تھا تو بچّوں کی طرح بولتا تھا۔ بچّوں کی سی طبیعت تھی۔ بچّوں کی سی سمجھ تھی۔ لیکن جب جوان ہُؤا تو بچپن کی باتیں ترک کر دیں۔ اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت رُوبرُو دیکھیں گے۔ اِس وقت میرا عِلم ناقص ہے مگر اُس وقت ایسے پورے طور پر پہچانوں گا جیسے مَیں پہچانا گیا ہُوں" (1۔ کرنتھیوں 13: 11، 12)۔ خُداوند کی محبت ہمیں اُس کی مبارک معرفت کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے جو ہمیں بچاتی ہے اور ہمیشہ کےلئے آزاد کرتی ہے۔

د۔ مسیح نے اندھے شخص کو گاؤں میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا:

اندھے شخص کا ایمان کمزور تھا۔ اُس کا جوش و جذبہ صفر درجے پر تھا۔ تو وہ اُس گاؤں کے لوگوں کو کیا بتا سکتا تھا؟

لیکن اِس سے پہلے کہ وہ اِس کا اعلان کرنے جاتا، یا اُس کے علاقے کے لوگ اُس سے اِس بارے میں پوچھتے، کیا اُس کےلئے یہ بہتر نہ تھا کہ وہ کچھ دیر وہاں سے باہر رہ کر یہ سوچتا کہ خُداوند نے اُس کےلئے کتنا کچھ کیا ہے اور اُس نے اُس پر کتنا رحم کیا ہے؟

ہمیں مسیح کے بارے میں بہتر طور پر بات کرنے کےلئے اُسے مزید جاننے اور اُس سے زیادہ محبت کرنے کی ضرورت ہے!

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، ہم مسیح کےلئے تیرا شکر کرتے ہیں جس نے اندھے شخص کی آنکھیں کھولیں، اور اُس کے ساتھ تحمل والا برتاؤ کیا، یہاں تک کہ اُس نے سب کو واضح طور پر دیکھنا شروع نہ کر دیا۔ جب تک کہ ہم بصیرت نہ پا لیں اور تیری جلالی عظمت اور تیرے سیدھے رستے کو نہ دیکھ لیں، تُو ہمارے ساتھ تحمل سے پیش آتا ہے۔ لہٰذا، ہم تیری پیروی کرتے ہوئے تیری فضیلت کا اعلان کرتے ہیں، جس نے ہمیں تاریکی میں سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. وہ کون شخص تھا جس کا دِل بیت صیدا میں مسیح کےلئے کُھلا، اور اُس کی آنکھیں بھی کُھلیں؟

  2. شفا یابی کے اُس معجزے کا ذکر کریں جس میں یسوع مسیح بیمار شخص کے پاس گئے۔ حوالہ بھی بتائیں۔

  3. بیت صیدا کا نابینا شخص ہر چیز کے بارے میں پُرجوش کیوں نہ تھا؟

  4. مرقس 12 باب میں مذکور فقیہ اور بیت صیدا کے اندھے شخص کے درمیان کیا یکسانیت پائی جاتی ہے؟

  5. اندھے شخص کے دوستوں نے اپنے عمل سے تین باتیں ظاہر کیں۔ اُن کا تذکرہ کریں۔

  6. تین عام چیزوں کا ذِکر کریں جنہیں مسیح نے غیر معمولی چیزوں میں بدل دیا۔

  7. مسیح نے اندھے شخص کو شفا پانے کے بعد گاؤں میں جانے سے کیوں منع کیا؟

بیسواں معجزہ: مچھلی کے مُنہ میں سے ملنے والا سِکّہ

"اور جب کفرنحوم میں آئے تو نِیم مِثقال لینے والوں نے پطرس کے پاس آ کر کہا کیا تُمہارا اُستاد نِیم مِثقال نہیں دیتا؟ اُس نے کہا ہاں دیتا ہے اور جب وہ گھر میں آیا تو یسوع نے اُس کے بولنے سے پہلے ہی کہا اے شمعون تُو کیا سمجھتا ہے؟ دُنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے؟ جب اُس نے کہا غیروں سے تو یسوع نے اُس سے کہا پس بیٹے بری ہُوئے۔ لیکن مبادا ہم اُن کےلئے ٹھوکر کا باعث ہوں تُو جھیل پر جا کر بنسی ڈال اور جو مچھلی پہلے نکلے اُسے لے اور جب تُو اُس کا مُنہ کھولے گا تو ایک مِثقال پائے گا۔ وہ لے کر میرے اور اپنے لئے اُنہیں دے۔" (اِنجیل بمطابق متی 17: 24۔ 27)

مُقدّس متی واحد اِنجیل نویس ہے جس نے اِس معجزہ کا ذِکر کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اُس نے یہ اِنجیلی بیان یہودی پس منظر کے حامل ایمانداروں کےلئے تحریر کیا تھا، تا کہ اُن کےلئے خوشخبری کی تصدیق کی جا سکے کہ مسیح جسم میں منکشف خُدا تھا، کہ وہ نجات دہندہ تھا جو پرانے عہدنامہ کے تمام تقاضے پورا کرنے آیا تھا، اور یہ کہ وہ مسیح تھا جس کی یہودی لوگ توقع کر رہے تھے۔

یہ معجزہ ہمیں مسیح کی فطرت کو کامل انسان اور کامل خُدا کے طور پر دکھاتا ہے۔ بطور انسان آپ نے پرانے عہدنامہ، موسیٰ کی شریعت کے تقاضوں کی تعمیل کی۔ اِس لئے، آپ نے ایک عام یہودی شہری پر عائد محصول ادا کیا، حالانکہ بطور بیٹا آپ کو وہ محصول ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم، آپ نے خُداوند ہونے کے باوجود اپنے آپ کو شریعت کے تابع کیا۔ آپ کو پیسے درکار تھے، حالانکہ آپ کے پاس تمام طاقت تھی۔ جب آپ نے وہ معجزہ دکھایا جس نے خشکی اور تری پر آپ کا اختیار ظاہر کیا تو اِس سے آپ کی الوہیت ظاہر ہوئی۔ "کیونکہ تم ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے فضل کو جانتے ہو کہ وہ اگرچہ دولت مند تھا مگر تمہاری خاطر غریب بن گیا تا کہ تم اُس کی غریبی کے سبب سے دولت مند ہو جاؤ" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 8: 9)۔

مسیح کفرنحوم میں پہنچے جہاں آپ رہتے تھے، اور یہ سالانہ ہیکل کا محصول جمع کرنے کے وقت تھا، جو نصف چاندی کی مثقال (یعنی چھ گرام) تھا۔ مسیح کے وقت آدھے مثقال کی قیمت دو درہم بنتی تھی، جو بیس برس کی عمر کو پہنچنے والے ہر یہودی کو اپنی جان کے فدیے اور کفارہ کے طور پر اپنے لئے ادا کرنا ہوتا تھا (پرانا عہدنامہ، خروج 30: 11۔ 16؛ 2۔ تواریخ 24: 6، 9)۔

اُن تمام ممالک میں جہاں یہودی منتشر تھے، یہ محصول صندوقچی میں جمع کیا جاتا تھا، جسے قابل اعتماد افراد یروشلیم لے جاتے تھے۔ جب مسیح سے اِس کی ادائیگی کےلئے کہا گیا، تو آپ نے ایسا ہی کیا، اور اپنے لئے اور پطرس کےلئے اِسے ادا کیا۔ آپ نے یہ معجزہ محصول ادا کرنے کےلئے کیا، حالانکہ آپ اِس سے مستثنیٰ تھے۔

آئیے ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا فرد

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا فرد

سطحی طور پر دیکھا جائے تو مسیح ایک ضرورت مند شخص معلوم ہوتے ہیں، جبکہ درحقیقت پطرس ضرورت مند ہے جسے ہیکل کا لازمی محصول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس محصول کی ادائیگی کےلئے اُسے تین رُوحانی اسباق سیکھنے تھے۔

الف۔ اُسے مسیح کے خدا کا بیٹا ہونے کے معنٰی کو جاننے کی ضرورت تھی:

آپ کو خُدا کے بیٹے کے طور پر یہ محصول ادا نہیں کرنا تھا۔ جب مسیح نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کہ "تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟" تو شمعون پطرس نے جواب میں کہا، "تُو زِندہ خُدا کا بیٹا مسیح ہے۔" تب مسیح نے اُنہیں کہا، "مُبارک ہے تُو شمعون بر یوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خُون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تُجھ پر ظاہر کی ہے" (اِنجیل بمطابق متی 16: 15۔ 17)۔ یوں لگتا ہے کہ پطرس اپنے کہے ہوئے الفاظ کے معنی کی تمام جہتوں سے واقف نہیں تھا۔ اُسے اِن الفاظ کی گہری سمجھ حاصل کرنے کےلئے رُوح القُدس کی مدد کی ضرورت تھی۔

اِسی طرح، پطرس مسیح کے نام "خُدا کا بیٹا" کے تمام مضمرات سے واقف نہ تھا۔ یہ نام جسے پطرس خود جانتا تھا اور جس کا اُس نے اعلان کیا تھا، مطلب یہ تھا کہ مسیح "ہیکل کا خُداوند" تھا، جسے ہیکل کا محصول ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔

جب محصول لینے والوں نے پطرس سے پوچھا، "کیا تُمہارا اُستاد نِیم مِثقال نہیں دیتا؟" (آیت 24)، تو پطرس نے مسیح کا حوالہ دیئے بغیر اثبات میں جواب دیا، کیونکہ اُسے یقین تھا کہ اُس کا متقی استاد شریعت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اور جب وہ گھر پہنچا تو یسوع نے اُس کے بولنے سے پہلے پوچھا، "اے شمعون تُو کیا سمجھتا ہے؟ دُنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے (یعنی جو اُن کے اپنے قبیلہ سے باہر کے ہوں)؟" (آیت 25)۔ فطری جواب یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹوں سے نہیں، غیروں سے لیں گے۔ اِس لئے مسیح نے پطرس کو کہا، "پس بیٹے بری ہُوئے" (آیت 26)۔ یہ الفاظ یہ کہنے کے مترادف ہیں کہ "مَیں محصول نہیں دیتا، کیونکہ تم نے خود مجھ سے کہا ہے، 'تُو زندہ خُدا کا بیٹا مسیح ہے۔'"

خُدا نے موسیٰ کو خیمہ اجتماع کی تعمیر کےلئے ہدایات دیں۔ سلیمان بادشاہ کو بھی ہدایات دی گئی تھیں، جن کے مطابق اُس نے ہیکل تعمیر کی۔ اِس ہیکل کی تباہی کے بعد اُنہی ہدایات کے مطابق تعمیرِ نو کی گئی۔ تاہم، بیٹے، ہیکل کے مالک اور وہاں خدمت کرنے والوں کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ "چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خُدا ہے۔ موسیٰ تو اُس کے سارے گھر میں خادم کی طرح دیانت دار رہا تا کہ آیندہ بیان ہونے والی باتوں کی گواہی دے۔ لیکن مسیح بیٹے کی طرح اُس کے گھر کا مختار ہے اور اُس کا گھر ہم ہیں بشرطیکہ اپنی دلیری اور امّید کا فخر آخر تک مضبوطی سے قائم رکھّیں" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 3: 4۔ 6)۔

مسیح ہیکل ہے اور ہیکل کا خُداوند بھی، جبکہ موسیٰ ہیکل کا خادم تھا۔ اِس لئے یسوع مسیح موسیٰ سے برتر ہیں۔

ب۔ پطرس کو جاننے کی ضرورت تھی کہ مسیح خُدا کی ہیکل ہے، اِس لئے نیم مثقال ادا کرنے کی ضرورت نہ تھی:

محصول ہیکل میں ادا کیا جاتا تھا۔ مسیح ہیکل ہے، تو وہ کیسے اپنے آپ کو محصول ادا کر سکتا ہے؟ مسیح نے اُس وقت اپنے آپ کو خُدا کی ہیکل قرار دیا جب آپ نے کہا: "اِس مقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا۔ یہودیوں نے کہا چھیالیس برس میں یہ مقدِس بنا ہے اور کیا تُو اُسے تین دن میں کھڑا کر دے گا؟ مگر اُس نے اپنے بدن کے مقدِس کی بابت کہا تھا۔ پس جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اُس نے یہ کہا تھا اور اُنہوں نے کتابِ مقدّس اور اُس قول کا جو یسوع نے کہا تھا یقین کیا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 2: 19۔ 22)۔ درحقیقت، اُنہوں نے مسیح کو صلیب پر ہلاک کر دیا، اور آپ تین دن کے بعد جی اُٹھے۔

"کیونکہ الوہیّت کی ساری معموری اُسی میں مجسّم ہو کر سکونت کرتی ہے" (نیا عہدنامہ، کُلسّیوں 2: 9)۔

"اور کلام مجسّم ہُؤا اور فضل اور سچّائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا اَیسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اِکلوتے کا جلال" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 14)۔

ج۔ پطرس کو مسیح کے فدیہ ہونے کے معنٰی کو سمجھنے کی ضرورت تھی:

اِس اعتبار سے مسیح کو محصول ادا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ نصف مثقال پر مشتمل مطلوبہ محصول خُدا کے حضور کفارہ دینے اور ہیکل کی خدمت کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے بطور نذرانہ تھا۔ یہ محصول بنی اسرائیل سے "کفارہ کے فدیہ" کے طور پر وصول کیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ محصول خُداوند کے حضور فدیہ تھا، مسیح کو اِسے ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ آپ نجات دہندہ، مخلصی اور ہمارے لئے کفارہ دینے والی ہستی ہیں۔

خُدا نے فرمایا: "دیکھ سب جانیں میری ہیں جیسی باپ کی جان ویسی ہی بیٹے کی جان بھی میری ہے۔ جو جان گناہ کرتی ہے وُہی مرے گی" (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 18: 4)۔ پس ہر ذی رُوح خلق کے اعتبار سے اُس کی مخلوق ہے، اور وہ خالق ہے۔ اور وہ فدیہ کے باعث بھی اُس کی ہے کیونکہ وہ فادی ہے۔ وہ فضل کے عنایات کے باعث نئی زندگی عطا کرتا ہے، کیونکہ وہ نجات دہندہ ہے۔ وہ یقینی موت اور تباہی سے نجات ہے۔ مسیح نے اپنا فدیہ نہیں دیا بلکہ ہمارا فدیہ دیا ہے۔

جب پطرس نے مسیح کے خُدا کا بیٹا ہونے کا اقرار کیا تو مسیح نے اُس مخلصی و کفارہ کے بارے میں بات کی جو آپ دینے کو تھے۔ "اُس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جائے اور بزُرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بُہت دُکھ اُٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دن جی اُٹھے" (اِنجیل بمطابق متی 16: 21)۔ "اُس وقت یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے" (انجیل متی 16: 24)۔

خُداوند یسوع وہ ہستی ہے جو ایک ہی بار اپنی کامل اور کافی قربانی کے ساتھ پاک ترین مقام میں داخل ہوا، اور یوں ہمارا ابدی فدیہ دیا، تا کہ سال بہ سال قربانی پیش کرنے کی نوبت نہ رہے۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح کی حیرت انگیز محبّت:

(1) یہ محبّت پطرس اور محصول جمع کرنے والوں پر ظاہر ہوئی۔ اِس حقیقت کے باوجود کہ آپ کو محصول ادا کرنے کی ضرورت نہ تھی، مسیح نے اپنے اور پطرس کےلئے اِسے ادا کیا تا کہ وہ مایوس نہ ہو۔ کئی بار ہم مسیح کی خدمت ایسے طریقے سے کرنے کا عہد کرتے ہیں جو ہماری طاقت سے باہر ہوتا ہے، لیکن مسیح ہمارے ایمان کی قدر کرتا ہے اور اپنی دولت اور محبّت کے مطابق عنایت کرتا ہے۔

(2) جناب مسیح بہت اچھی طرح سے محصول جمع کرنے والوں کے ساتھ بحث کر کے ثابت کر سکتے تھے کہ آپ محصول ادا کرنے سے مستثنیٰ تھے۔ تاہم، آپ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ٹھوکر کھائیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آپ نے شریعت کو توڑا تھا۔ وہ ابھی مخلصی اور مسیح کی الٰہی فرزندیت کے معنٰی کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ کوئی بھی رُوح القُدس کے بغیر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یسوع خُداوند ہے (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 12: 3)۔ ابھی تک رُوح القُدس کا نزول نہیں ہوا تھا کیونکہ خُداوند مسیح ابھی تک اپنے جلال کو نہیں پہنچے تھے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 7: 39)۔ یہاں ہم محصول لینے والوں کے ساتھ مسیح کی محبّت اور نرمی دیکھتے ہیں۔

ب۔ مسیح، ہمہ دان:

(1) جب پطرس گھر پہنچا، تو یسوع نے اُس کے بولنے سے پہلے اُس سے پوچھا: "دُنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے؟" (آیت 25)۔ یہ سوال پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ جانتے تھے کہ پطرس کی محصول لینے والوں سے بات ہوئی تھی۔ آپ کی نظر کے سامنے سب کچھ کھلی کتاب کی مانند ہے۔ آپ اُن سوالات اور اعتراضات کو جانتے ہیں جو ہمیں درپیش ہیں اور جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ آپ ہماری جذباتی، جسمانی اور رُوحانی ضروریات سے واقف ہیں۔

(2) مسیح نے پطرس کو بتایا کہ جو پہلی مچھلی وہ پکڑے گا، اُس کے منہ میں اُسے مسیح اور اپنے لئے محصول ادا کرنے کےلئے درکار رقم ملے گی۔ یہ محض علم نہیں بلکہ اختیار کے ساتھ علم ہے! مقررہ مچھلی عین وقت پر ٹھیک اُسی جگہ پہنچی جہاں پطرس مچھلی پکڑنے کےلئے بنسی پھینکنے کو تھا۔ جب مچھلی کانٹے میں پکڑی گئی تو سِکہ اُس کے منہ سے باہر نہیں گرا، اور اُس وقت تک وہیں رہا جب تک کہ پطرس نے مچھلی کو پکڑ کر اپنے پاس نہ کر لیا۔

ج۔ مسیح نے بیٹے کے اختیار کا اعلان کیا:

فرشتہ نے مریم کو پیغام دیا کہ وہ خُدا کے بیٹے کو جنم دے گی: "اور دیکھ تُو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہو گا اور خُدا تعالےٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خُداوند خُدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا۔ اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہو گا" (اِنجیل بمطابق لوقا 1: 31، 32، 35)۔

باپ نے خود اِسی بات کا اعلان دریائے یردن میں مسیح کے بپتسمہ کے موقع پر کیا، جب کہا: "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہُوں" (اِنجیل بمطابق متی 3: 17)۔ مسیح نے بھی اِسی حقیقت کا اعلان کیا۔ جب آپ بارہ برس کی عمر میں ہیکل میں گئے تو آپ نے کہا: "مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے" (اِنجیل بمطابق لوقا 2: 49)۔ آپ نے اِس بات کا اعلان اُس وقت بھی کیا جب آپ نے پہلی مرتبہ ہیکل کو صاف کیا۔ آپ نے کبوتر فروشوں سے کہا کہ "اِن کو یہاں سے لے جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناؤ" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 2: 16)۔

مسیح نے خُدا کے تعلق سے اپنی فرزندیت اور ہماری فرزندیت کو فرق طور پر بیان کیا ہے۔ مسیح کی فرزندیت اصل ہے۔ دوسری طرف، خُدا کے پیروکاروں کی فرزندیت اُس کے فضل کے نتیجہ میں لے پالک بنائے جانے کے نتیجہ میں ملنی والی فرزندیت ہے۔ مسیح کی فرزندیت تمام زمانوں سے پہلے سے موجود ہے جبکہ ہماری فرزندیت ہمیں اُس دِن ملتی ہے جب ہم اپنی زندگی اُس کی سپردگی میں دیتے ہیں اور نئے سرے سے پیدا ہوتے ہیں۔ مسیح نے پطرس سے کہا، "تُو ۔۔۔ ایک مِثقال پائے گا۔ وہ لے کر میرے اور اپنے لئے اُنہیں دے" (آیت 27)۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ "اُنہیں ہمارے لئے دے۔" ایک اَور صورتحال میں آپ نے کہا، "مَیں اپنے باپ اور تُمہارے باپ اور اپنے خُدا اور تُمہارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہوں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 17)۔ آپ نے یہ نہیں کہا، "ہمارے خُدا کے پاس۔" یہاں ہم مخلصی دینے والے اور مخلصی یافتہ، نجات دہندہ اور نجات پانے والوں کو دیکھتے ہیں۔

دوسرے زبور میں بیٹے کےلئے باپ کے الفاظ کس قدر خوبصورت ہیں! اُس نے کہا، "تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مُجھ سے پیدا ہُؤا" (زبور 2: 7)۔ یسوع اپنی پیدایش کے بعد باپ کا بیٹا نہیں بنے۔ آپ ہمیشہ سے بیٹا تھے۔ وقت کے پورا ہونے پر آپ کنواری مریم سے پیدا ہوئے۔ آپ کی فرزندیت دُنیا میں پیدایش سے پہلے تھی۔ بحیثیت انسان ہماری فرزندیت ہماری پیدایش کے بعد شروع ہوتی ہے۔ جہاں تک یسوع کا تعلق ہے، خُدا کے تعلق سے آپ کی فرزندیت کنواری سے معجزانہ پیدایش سے پہلے ازل سے تھی۔

خدا ہمیں ایک سبق سکھانا چاہتا ہے کہ ہم اُس پر مکمل طور پر بھروسا رکھیں اور یوں رُوحانی طور پر مالا مال ہو جائیں۔ جب ہم اپنی تمام کمزوریوں سمیت اپنے آپ کو اُس کے حضور پیش کرتے ہیں تو وہ ہماری کمی کو دور کرے گا اور ہماری کمزوری میں مضبوطی بخشے گا اور اپنے فضل سے ہمیں کامل بنائے گا۔ یوں خُداوند ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ وہ صاحب السلطان ہے جس کے پاس ہمارے تمام مسائل کا، جو ختم ہوتے دِکھائی نہیں دیتے، حتمی حل موجود ہے۔ وہ اخراجات کا حساب لگاتا ہے، اور اپنی بادشاہی کی توسیع اور اپنے کلام کے پھیلاؤ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرتا ہے، اور اپنے فرزندوں کی کمزوری میں تقویت فراہم کرتا ہے۔

د۔ مسیح نے اپنے آپ کو فطرت کے خُداوند کے طور پر منکشف کیا:

جب مسیح نے ایک معجزے سے محصول ادا کیا تو آپ نے ظاہر کیا کہ جب آپ شریعت کے تابع تھے تو ٹھیک اُسی وقت فطرت کے خُداوند بھی تھے۔ اِس معجزے کے نتیجہ میں ضرورت پوری ہوئی اور خُداوند کا اختیار بھی ظاہر ہُوا۔ اِس مشکل صورتحال میں مسیح نے پطرس کی حالت اُس پر عیاں کی۔ اکثر ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ مسیح کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے، لیکن مسیح میں ہم سب کچھ کر سکتے ہیں جو ہمیں طاقت بخشتا ہے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 15: 5؛ فلپیوں 4: 13)۔ اگرچہ مشکلات کے مقابلے میں ہم بہت چھوٹے معلوم ہو سکتے ہیں، مگر ہم مسیح کے فضل سے اُنہیں حل کرنے کے قابل ہیں۔

خُداوند نے پطرس کی بنسی کو پہلی ہی کوشش میں مطلوبہ مچھلی کو پکڑنے کے قابل بنایا۔ اور جب اُس نے مچھلی کے منہ سے سکہ نکالا تو وہ بالکل وہی رقم تھی جو درکار تھی، اور پھر اُس نے اُسے ہیکل کی ضروریات پوری کرنے کےلئے ادا کیا۔

خُداوند شیطان کے منہ میں کانٹا ڈالتا ہے تا کہ ہر اُس شخص کو پکڑے جسے اُس نے اپنی خدمت کےلئے چُنا ہے۔ پھر وہ اُس ایماندار کو جو اُس کے کانٹے سے پکڑا جاتا ہے آدم گیر بناتا ہے۔

پطرس مچھلی کے منہ میں سکے کی طرح چھپا ہوا تھا۔ مسیح نے اُسے باہر نکالا اور اُسے اُس وقت آدمیوں کو پکڑنے کےلئے استعمال کیا، جب اُسے اور دوسرے شاگردوں کو کہا، "میرے پیچھے چلے آؤ تو مَیں تُم کوآدم گیر بناؤں گا" (اِنجیل بمطابق متی 4: 19)۔ اِس طرح، آپ نے اُس کی زندگی کو ایک عظیم اور گہرا معنٰی بخشا، اور اُس کی زندگی کےلئے آسمانی مقصد کو پورا کیا۔

آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔

دُعا

اے آسمانی باپ، پانی میں تیرنے والی مچھلی بھی تیرے مقاصد کو پورا کرتی ہے، اور کُل عالم تیرے منصوبے پورے کرتے ہیں۔ تُو ہمارے قرض وہاں سے ادا کرتا ہے جہاں سے ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی، اور ہماری تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔

بخش کہ ہم مکمل طور پر تیرے حضور سر تسلیم خم کریں، اور تیرے احکام کی مکمل اطاعت کریں، تا کہ ہماری زندگی میں تیرا نیک مقصد پورا ہو۔ مسیح کے نام میں، آمین۔

سوالات

  1. اُن تینوں اسباق کا ذِکر اور وضاحت کریں جو مسیح اِس معجزے کے ذریعے سے پطرس کو سکھانا چاہتے تھے۔

  2. کیسے مسیح نے اِس معجزے میں پطرس کی طرف اپنی محبّت ظاہر کی؟

  3. مسیح نے ہیکل کا محصول جمع کرنے والوں کےلئے اپنی محبّت کا اظہار کیسے کیا؟

  4. آپ پطرس کی پہلی ہی کوشش میں صحیح مچھلی پکڑنے کی حقیقت سے کیا سیکھتے ہیں؟

  5. کس طرح سے پطرس مچھلی کے منہ میں موجود سِکّے کی طرح تھا، اور مسیح نے اُس کے ساتھ کیا کیا؟

اکیسواں معجزہ: ایک جس نے شکر گزاری کی

"اور اَیسا ہُؤا کہ یروشلیم کو جاتے ہُوئے وہ سامریہ اور گلیل کے بیچ سے ہو کر جا رہا تھا۔ اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس کوڑھی اُس کو ملے۔ اُنہوں نے دُور کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا اَے یسوع! اَے صاحب! ہم پر رحم کر۔ اُس نے اُنہیں دیکھ کر کہا جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دِکھاؤ اور ایسا ہُؤا کہ وہ جاتے جاتے پاک صاف ہو گئے۔ پھر اُن میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ مَیں شفا پا گیا بُلند آواز سے خُدا کی تمجید کرتا ہُؤا لوٹا۔ اور مُنہ کے بل یسوع کے پاؤں پر گر کر اُس کا شکر کرنے لگا اور وہ سامری تھا۔ یسوع نے جواب میں کہا کیا دسوں پاک صاف نہ ہُوئے؟ پھر وہ نو کہاں ہیں؟ کیا اِس پردیسی کے سِوا اَور نہ نکلے جو لوٹ کر خُدا کی تمجید کرتے؟ پھر اُس سے کہا اُٹھ کر چلا جا۔ تیرے اِیمان نے تُجھے اچھّا کیا ہے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 17: 11۔ 19)

یہ معجزہ سامریہ اور گلیل کے درمیان ایک گاؤں میں ہُوا۔ اُس گاؤں کا نام انجیل میں مذکور نہیں ہے۔ مسیح نے وہاں دس کوڑھیوں کو شفا بخشی جو چھوٹے لیکن آبادی والے گاؤں کی دیواروں کے باہر بیٹھے لوگوں سے بھیک مانگ رہے تھے۔ جب اُنہوں نے سنا کہ مسیح آ رہا ہے تو وہ اُس کے استقبال کےلئے ایک فاصلے پر کھڑے ہو گئے، کیونکہ شریعت کے مطابق کوڑھ کے مریضوں کو صحت مند شخص سے کم از کم پچاس میٹر کے فاصلے پر کھڑا ہونا ہوتا تھا۔ اِن مریضوں نے بلند آواز سے مسیح کو پکارا تا کہ فاصلے پر موجود شافی اُنہیں سُن سکے۔

پرانے عہدنامہ کی شریعت کے مطابق کوڑھی کو اپنے کپڑے پھاڑنا، سر ننگا رکھنا، مونچھیں ڈھانپنا اور آبادی سے باہر رہنا ہوتا تھا۔ مزید برآں، اگر کوئی اُس کے پاس آتا تو اُسے چلّا کر بتانا ہوتا تھا "ناپاک! ناپاک!" (احبار 13: 45)۔ لوگ سمجھتے تھے کہ ایک کوڑھی خُدا کے غضب کے تحت ہے اور اِس لئے اِس لعنتی اور لا علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے جس کے باعث جسم کے اعضا بتدریج گر جاتے اور وہ موت کا شکار ہو جاتا۔ ایک کوڑھی دوبارہ ٹھیک ہونے کی امّید کے بغیر ہوتا تھا۔ اِس لئے یہ دس کوڑھی کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر پکار رہے تھے اور مسیح سے رحم کی درخواست کر رہے تھے۔

مسیح نے اِن دسوں کو چھؤا نہیں جیسا کہ آپ نے دوسروں کے ساتھ کیا تھا، لیکن آپ نے اُنہیں ایک حکم دیا جو عجیب سا لگتا ہے: "جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دکھاؤ" (آیت 14)۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ وہ یروشلیم جاتے ہوئے ٹھیک ہو جائیں گے، کیونکہ اگر کوئی بیمار صحت یاب نہ ہوتا تو وہ یروشلیم میں کاہنوں کے پاس صحت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کےلئے نہیں جاتا تھا جس کے ساتھ وہ دیگر لوگوں کے درمیان معمول کے مطابق زندگی گزار سکتا تھا، اور مطلوبہ قربانی پیش کرتا تھا۔

جب مسیح نے اِن دس آدمیوں کو جانے کا حکم دیا تو اُنہوں نے اپنے جسم میں کوئی تبدیلی محسوس کئے بغیر اُس حکم پر عمل کیا، کیونکہ وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔ تاہم، وہ مسیح کے کہنے پر یروشلیم کےلئے روانہ ہوئے۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ "صحت یاب ہونے سے پہلے سفر کرنے کا کیا فائدہ؟" لیکن انہوں نے مسیح کے کلام پر بھروسا کرتے ہوئے ایک طویل سفر شروع کیا۔ اُنہوں نے ایسا اِس بھروسے اور پختہ یقین کے باعث کیا کہ کچھ ایسا ہو گا جو ابھی تک نہیں ہُوا تھا۔ کیونکہ ایمان وہ دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے! وہ دسوں شفا پا گئے، لیکن اُن میں سے صرف ایک شکر ادا کرنے کےلئے واپس آیا جو سامری تھا۔ وہ اپنے منہ کے بل مسیح کے قدموں پر گرا۔ مسیح نے اُس سے کہا، "اُٹھ کر چلا جا۔ تیرے اِیمان نے تُجھے اچھّا کیا ہے" (آیت 19)۔ اُس نے جسمانی برکت کے ساتھ رُوحانی برکت بھی حاصل کی۔

آئیے ہم اِس معجزے پر غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا فرد

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا فرد

الف۔ دس کوڑھی:

اُن سب کو مسیح سے شفا کی ضرورت تھی، کیونکہ وہ سب ایک جیسی بیماری کا شکار تھے۔ وہ مسیح کے قریب آنے کے لائق نہیں تھے، اِس لئے وہ آپ سے دوری پر کھڑے تھے۔ یہ اُن گنہگاروں کی طرح کی صورت حال ہے جنہیں توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم کوڑھ اور گناہ کے درمیان مماثلت کے کئی پہلو دیکھ سکتے ہیں:

(1) خُدا نے اِنسان کو نیک فطرت پر پیدا کیا، مگر پھر گناہ انسانوں میں داخل ہُوا۔ کوڑھ کا مرض بھی ایک صحت مند شخص کے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ خُدا نے اِنسان کو راست بنایا پر اُنہوں نے خُدا کی مرضی کے خلاف بہت سی بندشیں تجویز کیں (پرانا عہدنامہ، واعظ 7: 29)۔ "ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا پر خُداوند نے ہم سب کی بد کرداری اُس پر لادی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 6)۔

(2) دونوں عمر کے ساتھ زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔ کوڑھ آغاز میں خفیف سا ہوتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک ایسی بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو بالآخر اپنے شکار کو مار ڈالتی ہے۔ اِسی طرح، گناہ ہم میں شروع میں چھوٹا سا ہوتا ہے۔ شیطان کبھی بھی ہماری آزمایش کا آغاز ایک سنگین گناہ کے ساتھ نہیں کرتا۔ اگر وہ ایسا کرے تو ہم اُسے رد کر دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ چھوٹے گناہوں سے شروع کرتا ہے، تو ہم اُن کو قبول کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں، تو یوں ہم اِس سے بھی بڑے گناہ کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہم آخرکار گناہ کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں، اور اُس کے غلام بن کر مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔

(3) دونوں کے نتیجے میں قابل نفرت ناپاکی پیدا ہوتی ہے، جو ہمیں خُدا کی جماعت سے الگ کرتی ہے۔ کوڑھ کا اثر گناہ کے اثر سے ملتا جُلتا ہے۔ ناپاکی انسان کو جو کبھی صحیح تھا ایمانداروں سے الگ کر دیتی ہے۔ گناہ کے باعث اِنسان خُداوند سے کہتا ہے، "ہمارے پاس سے چلا جا۔ کیونکہ ہم تیری راہوں کی معرفت کے خواہاں نہیں" (پرانا عہدنامہ، ایّوب 21: 14)۔

(4) سخت کوڑھ اور گناہ دونوں کی خُدا کے سوا کوئی شفا نہیں۔ یہ بُری بیماری اِس لحاظ سے گناہ کی مانند ہے کہ کسی انسانی طبیب کے ذریعے اِس کا علاج ممکن نہیں۔ ایسا صرف الہٰی مداخلت سے ہی ہو سکتا ہے۔ نعمان سوریانی، ارامی فوج کا سپہ سالار ایک کوڑھی تھا۔ اُس کے بادشاہ نے اُسے یہ پیغام دے کر اِسرائیل کے بادشاہ کے پاس بھیجا: "مَیں نے اپنے خادِم نعمان کو تیرے پاس بھیجا ہے تا کہ تُو اُس کے کوڑھ سے اُسے شفا دے" (پرانا عہدنامہ، 2۔ سلاطین 5: 6)۔ اِسرائیل کے بادشاہ نے سوچا کہ ارام کا بادشاہ اُسے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن الیشع نبی نے کہا: "اب اُسے میرے پاس آنے دے اور وہ جان لے گا کہ اِسرائیل میں ایک نبی ہے" (2۔ سلاطین 5: 8)۔ شاہی طبیب اِس طاقتور فوج کے سپہ سالار کو شفا نہ دے سکا جس نے بہت سی فتوحات حاصل کی تھیں۔ یہ سپہ سالار ایک بہادر ہیرو تھا، لیکن وہ ایک کوڑھی تھا۔ وہ صرف مردِ خُدا سے، آسمانی دوا کے ذریعے، شفا یابی کی امّید کر سکتا تھا۔

(5) دونوں ناگزیر طور پر موت کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ دونوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ گنہگار اپنی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ کوئی اَور اُس کی مدد نہیں کر سکتا۔ تاہم، ایک نجات دہندہ ہے، "کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسِیلہ سے ہم نجات پا سکیں" (نیا عہدنامہ، اعمال 4: 12)۔ وہ محبت کرنے والی ہستی ہے، جس نے اپنے آپ کو کلوری کی صلیب پر ہمارے لئے دے دیا اور یوں وہ موت پر فاتحانہ طور پر غالب آیا۔

ب۔ نو کوڑھی جو ناشکری کے مرض میں بھی مبتلا تھے:

تمام دس کوڑھیوں نے مسیح سے بلند آواز میں درخواست کی: "اَے صاحب! ہم پر رحم کر" (آیت 13)، اور وہ سب جسمانی طور پر شفا پا گئے۔ لیکن اُن میں سے نو شکر ادا کرنے کےلئے واپس نہیں آئے!

ناشکری کا گناہ ہم میں پھیلا ہُوا ہے۔ یہ ہمارے روزمرہ کے بہت سے عملی حالات میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً، بہت سے بچے اپنے والدین کی محبّت اور اُن کی خدمت کےلئے شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ ہم اکثر اُن لوگوں کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں جنہیں مسیح ہماری رُوحوں کو بچانے کےلئے استعمال کرتا ہے۔ ریاست، کلیسیا اور گھر میں کتنے ہی لوگ ہماری خدمت کرتے ہیں، مگر ہم اُن سے شکریہ کا ایک لفظ نہیں کہتے۔ اگر ہم اُن کی کارکردگی میں کسی چیز کو سُستی سمجھیں گے تو وہ صرف ہماری شور مچاتی بُڑبُڑاہٹ کو سُنیں گے۔ اپنے کسی دوست کے بارے میں سوچیں۔ اپنے استاد کے بارے میں سوچیں۔ اپنے ڈاکٹر کے بارے میں سوچیں۔ اپنے مذہبی راہنما کے بارے میں سوچیں! کیا آپ نے کبھی اُن میں سے کسی کی خدمات کا شکریہ ادا کیا ہے؟

کتنی ہی مرتبہ ہم مہربانی اور عنایات کو بھول جاتے ہیں۔ اِسی لئے داؤد نے اپنے آپ سے کہا: "اَے میری جان! خُداوند کو مبارک کہہ اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر" (زبور 103: 2)۔

اُنہوں نے ناشکری کیوں کی؟

(1) غالباً اِن نو افراد کا ناشکرا پن اُن کے اِس اعتقاد کی وجہ سے تھا کہ اُنہوں نے کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہونے کے مستحق تھے۔ جب خُداوند نے اُن کی بیماری کو دور کر دیا تو اُنہیں شکر کے لائق کوئی چیز نظر نہ آئی۔ مسیح نے اُن کے ساتھ صرف وہی کیا تھا جو آپ کرنے کے پابند تھے! آپ نے اُن کی پیٹھ سے وہ بوجھ اُٹھایا تھا جو وہاں نہیں ڈالنا چاہئے تھا۔

(2) غالباً اُن کا ناشکرا پن اپنی شفا کے مستقل ہونے پر اُن کے اعتماد کی کمی کی وجہ سے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے وہ یہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ اُن کی نئی ملنے والی صحت برقرار رہے گی، اور تب ہی وہ اگلے قدم کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے، کہ شاید وہ تب شکریہ ادا کریں!

(3) یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واپسی پر سامری کی صحبت میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ یہودیوں سامریوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ بیماری اور مشکل نے اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا تھا، چنانچہ وہ سماجی اور نسلی تفریق کو بھول گئے تھے اور اپنی بیماری کے دُکھ میں اکھٹے تھے۔ اُنہوں نے باآواز بلند ایک ساتھ شفا کےلئے درخواست کی تھی۔ لیکن جب وہ صحت یاب ہو گئے تو اُن کی اچھی صحت اور حالات نے اُنہیں الگ کر دیا! مشکل نے اُنہیں ایک کیا تھا اور اُن کی شفا نے اُنہیں جُدا کر دیا!

(4) ممکن ہے کہ وہ اپنے دل میں شکر گزار ہوں، اور سوچتے ہوں کہ یہی کافی ہے، حالانکہ زبور نویس کہتا ہے: "مَیں اپنے بھائیوں سے تیرے نام کا اِظہار کروں گا۔ جماعت میں تیری ستایش کروں گا" (زبور 22: 22، نیا عہدنامہ، عبرانیوں 2: 12)۔

ہم کیوں شکر ادا نہیں کرتے؟

(1) لینے کی عادت: جو فرد صرف مانگنے پر اِکتفا کرتا ہے، وہ شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے۔ جب خُدا فراخ دِلی سے عنایت کرتا ہے اور مصیبت کے وقت اپنی برکت کو نہیں روکتا تو ہم خود غرض اور ناشکرے ہو جاتے ہیں۔ ہم الٰہی عنایت کو پہچانے بغیر وصول کرتے ہیں۔ ہم ناشکری سے مانگتے رہتے ہیں۔ خُدا ہمیں تشکر کے بغیر وصول کرنے کی عادت ڈالنے کے گناہ سے بچائے!

(2) عطا میں محو ہو کر دینے والے کو بھول جانا: ہم ضرورت کے تعلق سے فکرمند رہتے ہیں، اور جب خُدا ہمیں کچھ عطا کرتا ہے تو ہم اُس عنایت میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ ہم بچوں کی طرح نظر آتے ہیں: آپ اپنے بچے کےلئے کوئی تحفہ لاتے ہیں، اور وہ آپ سے بھاگ کر تحفہ کے ساتھ کھیلنے یا اُسے کھانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جب اُس کی ماں اُسے آپ کا شکریہ ادا کرنے کےلئے کہتی ہے، تو وہ لاپرواہی سے منہ میں بولتا ہے، کیونکہ اُسے صرف تحفے کی فکر ہوتی ہے! خدا ہمیں رُوحانی بچگانہ پن سے بچائے!

(3) دینے والے سے ہمارا دور رہنا: غالباً ہمارے ناشکرے پن کی وجہ خُداوند سے دُور کھڑے ہونا ہوتا ہے، جو کہتا ہے: "خُدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تُمہارے نزدیک آئے گا" (نیا عہدنامہ، یعقوب 4: 8)۔ حقیقی رُوحانی زندگی میں مسرور ہونے کی تمنا رکھنے والا فرد اپنے اور خُداوند کے درمیان فاصلے کو کم کرتا ہے، یہاں تک کہ یہ فاصلہ ختم ہو جائے۔ وہ زبور نویس کے ساتھ کہتا ہے: "خُداوند مجھے سنبھال لے گا" (زبور 27: 10)۔ وہ الٰہی نگہداشت کے حصار میں رہے گا۔ مسیح نے فرمایا، "تُم مُجھ میں قائم رہو اور مَیں تُم میں۔ جِس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تُم بھی اگر مُجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 15: 4)۔

شکر گزار ایماندار الٰہی عطا سے اُس شخص کی نسبت زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے جو شکر ادا نہیں کرتا، کیونکہ وہ خُداوند کی قربت کا طالب ہوتا ہے۔ خُدا تعالیٰ کی رفاقت میں رہنے والوں کو کسی چیز کی کمی نہیں ہو گی۔

ج۔ شکر گزاری کرنے والے کی زندگی سے ایک سبق:

اُس کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اُس نے خُداوند سے فریاد کی، جس نے اُس کی فریاد سُنی اور اُسے شفا دی۔ جب وہ شکر ادا کرنے کےلئے واپس آیا تو اُسے اَور بھی بڑی برکتیں ملیں۔

(1) اُس نے مسیح کی ودیعت کردہ نئی رُوحانی نجات کے فضل سے ملنے والی شفا کا لطف اٹھایا۔ "سلامتی کے ساتھ خُشک نوالہ اِس سے بہتر ہے کہ گھر نعمت سے پُر ہو اور اُس کے ساتھ جھگڑا ہو" (پرانا عہدنامہ، امثال 17: 1)۔ آپ خُداوند کے ساتھ میل ملاپ ہو جانے کے نتیجہ میں دیکھیں گے کہ "خُداوند ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا" (امثال 10: 22)۔

(2) اُس نے مسیح کی عبادت کی جس نے مسیح کے ساتھ اُس کا تعلق مضبوط کیا۔

کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خُدا کو پروردگار کے طور پر جانتے ہیں مگر مخلصی بخشنے والے خُدا کے طور پر نہیں جانتے۔ شفا پانے والے اِس سامری کوڑھی نے عظیم طبیب کی بڑی عنایت اور پھر فیاض نجات دہندہ کی نجات کا تجربہ کیا۔ لہٰذا، اُس نے بلند آواز سے خُدا کی حمد کی، اور اُس کی پکار شفا کےلئے اُس کی درخواست سے زیادہ بلند تھی۔ وہ مسیح کے قدموں پر گر گیا اور شکریہ ادا کرنے لگا۔ بےشک مسیح نے اطمینان بھری مسکراہٹ سے اُسے دیکھا ہو گا، اور یہ کتنا بڑا اعزاز ہے!

(3) اِس نے اُسے شکر گزاری کی زندگی اور آسمان پر تمجید و ستایش کےلئے تیار کیا۔ "لیکن جو لوگ اِس لائق ٹھہریں گے کہ اُس جہان کو حاصل کریں اور مُردوں میں سے جی اُٹھیں اُن میں بیاہ شادی نہ ہو گی۔ کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں اِس لئے کہ فرشتوں کے برابر ہوں گے اور قیامت کے فرزند ہو کر خُدا کے بھی فرزند ہوں گے" (اِنجیل بمطابق لوقا 20: 35، 36)۔ وہ دن رات خُدا کی حمد کرتے ہوئے کہتے ہیں، "قدّوس، قدّوس، قدّوس۔" جب ہم یہاں خُدا کی تمجید اور شکر کرتے ہیں، تو ہم اپنے آپ کو اُس وقت کےلئے تیار کر رہے ہوتے ہیں جب ہم اُس کے تخت کے گرد جمع ہوں گے اور اُس کی حمد و تمجید کریں گے۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ ہمارے ساتھ اُس کے تعامل کے انداز میں تنّوع:

ہماری زندگیوں میں خُدا تعالیٰ کا کام کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اِسے ایک سانچے میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ خُدا کے ہم سے بات کرنے اور تعامل کے بہت سے طریقے ہیں۔

اِس واقعہ میں مسیح نے کوڑھیوں کو نہیں چھؤا، بلکہ اپنے اختیار والے کلام سے اُنہیں شفا بخشی۔ اِس کے بعد آپ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ جا کر کاہنوں سے اپنی شفا یابی کی تصدیق کرائیں، جو شریعت کے احکام کے مطابق لازم تھا (پرانا عہدنامہ، احبار 13: 17)۔ اِس سے پہلے جب آپ نے ایک کوڑھی کو شفا دی تھی تو اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے چھؤا تھا (اِنجیل بمطابق مرقس 1: 41)۔

ہم نے اب تک معجزات کے اپنے مطالعہ میں دیکھا ہے کہ کس طرح مسیح نے لوگوں کے ساتھ اُن کے ایمان اور حالات کے مطابق بات چیت کی، تا کہ "وہ زِندگی پائیں اور کثرت سے پائیں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 10)۔

آپ نے فینیکی عورت کے مضبوط ایمان کو اَور زیادہ مضبوط بنانے کےلئے چیلنج کیا (اِنجیل بمطابق متی 15: 23۔ 26)۔

آپ نے یائیر کے متزلزل ایمان کو مضبوط کیا تا کہ وہ آزمایش کا سامنا کرنے میں ناکام نہ ہو (اِنجیل بمطابق مرقس 5: 36)۔

آپ نے پہلے شفا دی اور پھر معاف کیا، جیسا کہ ہم نے بیت حسدا کے حوض پر بیمار شخص کے واقعہ میں دیکھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 5: 8، 14)۔

آپ نے پہلے معاف کیا اور پھر شفا بخشی جیسا کہ ہم نے مفلوج شخص کی شفا میں دیکھا جسے چھت اُدھیڑ کر نیچے اُتارا گیا تھا (اِنجیل بمطابق مرقس 2: 5، 9)۔

تاہم، مسیح ہمارے ساتھ چاہے کتنے ہی مختلف طرح سے پیش آئے، اُس کی محبّت کبھی نہیں بدلتی۔ اُس کی وفاداری کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں رہتی ہے (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 8)، "خُداوند خُدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادرِ مُطلق فرماتا ہے کہ مَیں الفا اور اومیگا ہُوں" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 1: 8)۔

آئیے ہم کھلے ذہن اور ہشیار سوچ کے ساتھ اُن طریقوں پر غور کریں جن کے ذریعے وہ ہم سے بات چیت کرتا ہے، اور یہ جان لیں کہ وہ ہماری مدد کےلئے آتا ہے، خواہ یہ دُور سے ہو یا قریب سے، چاہے اِس میں تھوڑا زیادہ وقت لگے یا پھر کم۔ وہ رات کے آخری یا پہلے پہر میں آ سکتا ہے، لیکن وہ یقینی طور پر آئے گا۔ اِس لئے، آئیے ہم پورے بھروسے کے ساتھ خُداوند کا انتظار کرتے رہیں۔

ب۔ آپ نے پوچھا: "وہ نَو کہاں ہیں؟"

جناب مسیح عطا کرنے میں بُخل نہیں کرتے تھے۔ آپ اپنے سورج کو ہر ایک پر چمکاتے ہیں۔ آپ ہر محتاج کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تاہم، یسوع مسیح ہم سے پوچھتے ہیں: "وہ نَو کہاں ہیں؟" (آیت 17) کیونکہ آپ ہم سے شکر گزاری کے الفاظ کی توقع کرتے ہیں، اور یہ آپ کا حق ہے۔

مسیح نے یہ سوال اِس لئے پوچھا کیونکہ آپ اُن نَو کو کچھ اَور بھی عنایت کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے پاس فانی خوراک سے بڑھ کر دینے کےلئے برکت موجود ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ شفا پانے والے آدمی آپ کے پاس واپس آئیں تا کہ آپ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہنے والی خوراک سے آسودہ کر سکیں اور اُنہیں اُس زندگی بخش پانی کے بارے میں بتائیں جس کا پینے والا پھر کبھی پیاسا نہیں ہوتا، بلکہ وہ اُس میں سے دوسروں تک جاری رہتا ہے۔

خُدا ہمیں اُس شفا پانے والے آدمی جیسا بنائے جس نے شکر ادا کیا!

دُعا

اے ہمارے آسمانی باپ، تُو شکریہ کا انتظار کئے بغیر ہمیں عطا کرتا ہے۔ ہم تیرے احسانوں کے بدلہ میں تجھے کیا دیں؟ ہم تیری نجات کا پیالہ اٹھائیں گے، اور تیرے نام میں دُعا کریں گے، اور دِل کی گہرائیوں سے تیری شکر گزاری کریں گے۔

ہمیں معاف کر دے کہ تیرے مہربان ہاتھ سے بھلائی کا تجربہ کرنے کے باوجود ہم نے تیرے بارے میں نہیں سوچا۔ ہمیں وہ پختگی عطا فرما جو تحفہ سے زیادہ تحفہ دینے والے سے محبّت کرتی ہے تا کہ ہم تیری محبّت میں ذی شعور افراد جیسی پختگی کے حامل ہوں، جو تیری اطاعت میں پختہ ہیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. مسیح کا دس کوڑھیوں کو دیا جانے والا یہ حکم کہ "جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دِکھاؤ" کیوں عجیب معلوم ہوتا ہے؟

  2. اُن پانچ پہلوؤں کی نشاندہی کریں جن میں کوڑھ اور گناہ میں مشابہت موجود ہے۔

  3. اُن تین وجوہات کا ذکر کریں جنہوں نے ممکنہ طور پر شفا پانے والے نو افراد کو مسیح کا شکریہ ادا کرنے سے روکا۔

  4. آج کیوں لوگ خُدا کا شکر ادا نہیں کرتے؟

  5. اُن تین برکات کا ذِکر کریں جو خُدا نے شکر گزاری کرنے والے فرد کو عنایت کیں۔

بائیسواں معجزہ: جنم کے اندھے شخص کو شفا

"پھر اُس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔ اور اُس کے شاگردوں نے اُس سے پُوچھا کہ اَے ربیّ! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہُؤا۔ اِس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لئے ہُؤا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں۔ جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا۔ جب تک مَیں دُنیا میں ہُوں دُنیا کا نور ہوں۔ یہ کہہ کر اُس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹّی سانی اور وہ مٹّی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر اُس سے کہا، جا شِیلوخ (جس کا ترجمہ "بھیجا ہُؤا" ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اُس نے جا کر دھویا اور بینا ہو کر واپس آیا۔ پس پڑوسی اور جن جن لوگوں نے پہلے اُس کو بھیک مانگتے دیکھا تھا کہنے لگے کیا یہ وہ نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا؟ بعض نے کہا یہ وہی ہے اَوروں نے کہا نہیں لیکن کوئی اُس کا ہم شکل ہے۔ اُس نے کہا مَیں وہی ہُوں۔ پس وہ اُس سے کہنے لگے پھر تیری آنکھیں کیوں کر کُھل گئیں؟ اُس نے جواب دیا کہ اُس شخص نے جس کا نام یسوع ہے مٹّی سانی اور میری آنکھوں پر لگا کر مجھ سے کہا شِیلوخ میں جا کر دھو لے۔ پس مَیں گیا اور دھو کر بینا ہو گیا۔ اُنہوں نے اُس سے کہا وہ کہاں ہے؟ اُس نے کہا مَیں نہیں جانتا۔ لوگ اُس شخص کو جو پہلے اندھا تھا فریسیوں کے پاس لے گئے۔ اور جس روز یسوع نے مٹّی سان کر اُس کی آنکھیں کھولی تھیں وہ سبت کا دن تھا۔ پھر فریسیوں نے بھی اُس سے پوچھا تُو کس طرح بینا ہُؤا؟ اُس نے اُن سے کہا اُس نے میری آنکھوں پر مٹّی لگائی۔ پھر مَیں نے دھو لیا اور اب بینا ہُوں۔ پس بعض فریسی کہنے لگے یہ آدمی خُدا کی طرف سے نہیں کیونکہ سبت کے دن کو نہیں مانتا مگر بعض نے کہا کہ گنہگار آدمی کیونکر اَیسے معجزے دکھا سکتا ہے؟ پس اُن میں اختلاف ہُؤا۔ اُنہوں نے پھر اُس اندھے سے کہا کہ اُس نے جو تیری آنکھیں کھولیں تُو اُس کے حق میں کیا کہتا ہے؟ اُس نے کہا وہ نبی ہے۔ لیکن یہودیوں کو یقین نہ آیا کہ یہ اندھا تھا اور بینا ہو گیا ہے۔ جب تک اُنہوں نے اُس کے ماں باپ کو جو بینا ہو گیا تھا بُلا کر اُن سے نہ پوچھ لیا کہ کیا یہ تمہارا بیٹا ہے جسے تُم کہتے ہو کہ اندھا پیدا ہُؤا تھا؟ پھر وہ اب کیوں کر دیکھتا ہے؟ اُس کے ماں باپ نے جواب میں کہا ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمارا بیٹا ہے اور اندھا پیدا ہُؤا تھا۔ لیکن یہ ہم نہیں جانتے کہ اب وہ کیونکر دیکھتا ہے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کس نے اُس کی آنکھیں کھولیں۔ وہ تو بالغ ہے۔ اُسی سے پُوچھو۔ وہ اپنا حال آپ کہہ دے گا۔ یہ اُس کے ماں باپ نے یہودیوں کے ڈر سے کہا کیونکہ یہودی ایکا کر چکے تھے کہ اگر کوئی اُس کے مسیح ہونے کا اِقرار کرے تو عبادت خانہ سے خارج کیا جائے۔ اِس واسطے اُس کے ماں باپ نے کہا کہ وہ بالغ ہے اُسی سے پوچھو۔ پس اُنہوں نے اُس شخص کو جو اندھا تھا دوبارہ بُلا کر کہا کہ خُدا کی تمجید کر۔ ہم تو جانتے ہیں کہ یہ آدمی گنہگار ہے۔ اُس نے جواب دیا مَیں نہیں جانتا کہ وہ گنہگار ہے یا نہیں۔ ایک بات جانتا ہوں کہ مَیں اندھا تھا۔ اب بینا ہُوں۔ پھر اُنہوں نے اُس سے کہا کہ اُس نے تیرے ساتھ کیا کیا؟ کس طرح تیری آنکھیں کھولیں؟ اُس نے اُنہیں جواب دِیا مَیں تو تُم سے کہہ چکا اور تُم نے نہ سُنا۔ دوبارہ کیوں سُننا چاہتے ہو؟ کیا تُم بھی اُس کے شاگرد ہونا چاہتے ہو؟ وہ اُسے بُرا بھلا کہہ کر کہنے لگے کہ تُو ہی اُس کا شاگرد ہے۔ ہم تو موسیٰ کے شاگرد ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خُدا نے موسیٰ کے ساتھ کلام کیا ہے مگر اِس شخص کو نہیں جانتے کہ کہاں کا ہے۔ اُس آدمی نے جواب میں اُن سے کہا یہ تو تعجب کی بات ہے کہ تُم نہیں جانتے کہ وہ کہاں کا ہے حالانکہ اُس نے میری آنکھیں کھولیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خُدا گنہگاروں کی نہیں سُنتا لیکن اگر کوئی خُدا پرست ہو اور اُس کی مرضی پر چلے تو وہ اُس کی سُنتا ہے۔ دُنیا کے شروع سے کبھی سُننے میں نہیں آیا کہ کسی نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں۔ اگر یہ شخص خُدا کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا۔ اُنہوں نے جواب میں اُس سے کہا تُو تو بالکل گناہوں میں پیدا ہُؤا۔ تُو ہم کو کیا سکھاتا ہے؟ اور اُنہوں نے اُسے باہر نکال دیا۔ یسوع نے سُنا کہ اُنہوں نے اُسے باہر نکال دیا اور جب اُس سے ملا تو کہا کیا تُو خُدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا اَے خُداوند وہ کون ہے کہ مَیں اُس پر ایمان لاؤں؟ یسوع نے اُس سے کہا تُو نے تو اُسے دیکھا ہے اور جو تجھ سے باتیں کرتا ہے وہی ہے۔ اُس نے کہا اَے خُداوند مَیں اِیمان لاتا ہوں اور اُسے سجدہ کیا۔ یسوع نے کہا مَیں دُنیا میں عدالت کےلئے آیا ہُوں تا کہ جو نہیں دیکھتے وہ دیکھیں اور جو دیکھتے ہیں وہ اندھے ہو جائیں۔ جو فریسی اُس کے ساتھ تھے اُنہوں نے یہ باتیں سُن کر اُس سے کہا کیا ہم بھی اندھے ہیں؟ یسوع نے اُن سے کہا کہ اگر تُم اندھے ہوتے تو گنہگار نہ ٹھہرتے۔ مگر اب کہتے ہو کہ ہم دیکھتے ہیں۔ پس تمہارا گناہ قائم رہتا ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحّنا 9: 1۔ 41)

مقدّس یوحنّا نے اپنا اِنجیلی بیان متی، مرقس اور لوقا کے انجیلی بیانات کے لکھے جانے کے بعد تحریر کیا۔ اِنجیل (جس کا مطلب خوشخبری ہے) ایک ہی ہے جو مسیح کے ہماری دُنیا میں آنے کے بارے میں ہے، لیکن خوشخبری کے بارے میں بتانے والے ایک سے زائد ہیں جب یوحنّا نے مسیح کی زندگی کی بابت اپنا بیان تحریر کیا، تو مسیح کے بہت سے معجزات اور تعلیمات پہلے سے ہی وسیع پیمانے پر مشہور تھے۔ لہٰذا، یوحنّا نے مسیح کے اُن معجزات اور تعلیمات کا ذکر کرنا چاہا جن کا ذِکر دیگر اِنجیلی بیانات کے مصنفین نے نہیں کیا تھا۔ جب وہ کسی ایسے معجزے کا ذِکر کرتا ہے جس کے بارے میں دوسروں نے بھی لکھا ہے تو وہ اُس سے منسلک تعلیم اور اپنے تبصرے بھی شامل کرتا ہے۔

یوحنّا گلیل میں رونما ہونے والے چار معجزات کا ذکر کرتا ہے: پانی کا مے میں تبدیل ہونا (یوحنّا 2 باب)؛ بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کی شفا یابی (یوحنّا 4 باب)؛ پانچ ہزار کو کھانا کھلانا اور مسیح کا پانی پر چلنا (یوحنّا 6 باب)۔ اُس نے یہودیہ میں رونما ہونے والے مسیح کے چار معجزات کا بھی ذکر کیا ہے: اڑتیس برس سے بیمار شخص کی شفا یابی (یوحنّا 5 باب)؛ جنم کے اندھے آدمی کی شفا یابی (یوحنّا 9 باب)؛ لعزر کا زندہ ہونا (یوحنّا 11 باب) اور مچھلیوں کا بڑا شکار (یوحنّا 21 باب)۔

جس معجزے پر ابھی ہم غور کر رہے ہیں اِس کا ذِکر دیگر اِنجیلی بیانات کے مصنفین نے نہیں کیا۔ یہ معجزہ یروشلیم میں ہیکل کے دروازے پر ہُوا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں بھکاری جمع ہوتے تھے، اور یہ معجزہ سبت کے دِن ہُوا۔ یہودی سبت کے دن کسی کو بھی کوئی کام کرتے ہوئے دیکھنے کے عادی نہیں تھے، خواہ وہ کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ ہو۔ جب مسیح نے یہ معجزہ کیا تو یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی پوری ہوئی: "اُس وقت بہرے کتاب کی باتیں سُنیں گے اور اندھوں کی آنکھیں تارِیکی اور اندھیرے میں سے دیکھیں گی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 29: 18)۔ جن اندھوں کو آپ نے شفا بخشی، اُنہوں نے آپ کی خوشخبری کے پیغام کو سُنا اور اُن کی جسمانی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اُن کے دِلوں کی آنکھیں کھل گئیں تا کہ وہ آپ کو جان جائیں آپ کی نجات کو قبول کریں۔

مبشران اِنجیل اندھوں کے بینائی پانے کے کئی معجزات کا ذکر کرتے ہیں: بیت صیدا میں اندھے کی شفا، جس کی شفا یابی دو مراحل میں ہوئی (مرقس 8 باب)؛ دو اندھوں کی شفا (متی 9 باب)؛ برتمائی کی شفا (مرقس 10 باب) اور جنم کے اندھے کی شفا (یوحنّا 9 باب)۔

آئیے، ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ پیدایشی اندھا:

جنم کا یہ اندھا آدمی ہم سب کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہمارے رُوحانی اندھے پن کی علامت ہے۔ ہم نے بدی میں صورت پکڑی اور ہم گناہ کی حالت میں اپنی ماؤں کے رحم میں پڑے (پرانا عہدنامہ، زبور 51: 5)۔ ہم رُوحانی طور پر اندھے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم سب بھیڑوں کی طرح بھٹک گئے ہیں، اور ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 6)۔ انجیل کی تاثیر "پر پردہ پڑا ہے تو ہلاک ہونے والوں ہی کے واسطے پڑا ہے۔ یعنی اُن بے ایمانوں کے واسطے جن کی عقلوں کو اِس جہان کے خُدا نے اندھا کر دیا ہے تا کہ مسیح جو خُدا کی صورت ہے اُس کے جلال کی خُوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 4: 3، 4)۔ غرض، انسان اپنے بیہودہ خیالات کے موافق چلتے ہیں "کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اُس نادانی کے سبب سے جو اُن میں ہے اور اپنے دِلوں کی سختی کے باعث خُدا کی زندگی سے خارج ہیں" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 17، 18)۔

ب۔ لوگوں نے اُسے جِھڑکا:

اِس اندھے شخص کی مصیبت صرف اُس کی بیماری تک محدود نہ تھی، کیونکہ جب اُس کے اِردگرد موجود لوگوں نے اُس کی بیماری کو اُس کے گناہ کا نتیجہ سمجھا تو اِس سے اُسے جسمانی تکلیف کے علاوہ ہتک آمیز رویہ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اُس کی طرف سے اپنے دفاع کی کوئی بھی کوشش بیکار تھی اور شاید اِس سے اُس کےلئے حالات مزید خراب ہوئے۔ اُنہوں نے اُس کی بیماری کو اُس کے والدین کے گناہ سے بھی منسوب کیا۔ اِس غریب آدمی کےلئے ایک طرف اندھا پن تھا، اور دوسری طرف اردگرد کے لوگوں کی طرف سے بے رحمی! لوگ ہمیشہ دوسروں پر پھینکنے کےلئے پتھر اُٹھاتے ہیں تا کہ دوسرے اُن کی خاطر تبدیل ہوں، اور اپنی کوتاہیوں کا الزام دوسروں کے سر پر ڈالتے ہیں۔

مسیح نے اپنی محبّت میں اِس آدمی کے اندھے پن کے ساتھ ساتھ اُس پر لگائے جانے والے غیر منصفانہ الزام کو بھی دُور کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اندھے آدمی کے والدین گنہگار تھے۔ ہم بھی گنہگار ہیں، کیونکہ کون سا انسان بغیر گناہ کے ہے؟ تاہم، مسیح نے یہ کہتے ہوئے جنم کے اندھے شخص کا دفاع کیا: "نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لئے ہُؤا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں" (آیت 3)۔ اُس کا اندھا ہونا نہ تو اُس کے اپنے اور نہ ہی اُس کے والدین کے گناہ کا نتیجہ تھا۔

گناہ بیماری کا سبب بن سکتا ہے، جیسا کہ ہم مفلوج شخص کے واقعہ میں دیکھتے ہیں جسے اُس کے دوستوں نے چھت سے نیچے اُتارا تھا۔ "یسوع نے اُن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا تیرے گناہ معاف ہُوئے" (اِنجیل بمطابق مرقس 2: 5)۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیماری کا براہ راست گناہ کے ساتھ تعلق نہ ہو، جیسا کہ ہم ایّوب راستباز کے معاملے میں دیکھتے ہیں۔ وہ متقی تھا اور بدی سے بچتا تھا (پرانا عہدنامہ، ایّوب 1: 8)۔ جب مسیح نے سننے والوں کے سامنے یہ سچائی بیان کی تو آپ نے اِس آدمی کی عزت نفس بحال کی اور ناقدین کے منہ بند کرا دیئے۔ وہ ناقدین جو کچھ کہہ رہے تھے اُس سے بےخبر تھے، اور لوگوں کی بیماریوں کو اُن کے گناہوں سے منسوب کر رہے تھے جبکہ وہ اُن لوگوں کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ اکثر مصیبتیں خُدا کی رحمت کا اعلان کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔

ج۔ وہ ایمان لایا اور فرمانبرداری کی:

مسیح نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹّی سان کر اُس اندھے شخص کو شفا بخشی۔ آپ نے وہ مٹّی اُس کی آنکھوں پر لگا کر اُسے حکم دیا کہ وہ شِیلوخ کے حوض میں جا کر اپنے آپ کو دھو لے۔ اندھا شخص اِس حالت میں ایمان کے ساتھ حوض کی طرف گیا۔ اگرچہ وہ اِس بات سے ناواقف تھا کہ مسیح کون ہے، مگر اُس نے آپ کی اطاعت کی اور چلا گیا۔ اِسی لئے اُسے برکت ملی۔ فرمانبرداری کرنے والا ہمیشہ برکت سے سرفرازی پاتا ہے۔

آئیے اِس شخص کے ایمان پر غور کریں:

اُس کا ایمان بتدریج بڑھا۔ آیت 11 کے مطابق اُس نے مسیح کے بابت کہا: "اُس شخص نے جس کا نام یسوع ہے۔" بعد ازاں، اُسے مسیح کی اَور بھی پہچان حاصل ہوئی (آیت 17) جب اُس نے صدر عدالت کے اِس سوال کا جواب دیا کہ "اُس نے جو تیری آنکھیں کھولیں تُو اُس کے حق میں کیا کہتا ہے؟" اُس کا جواب یہ تھا: "وہ نبی ہے۔" کچھ سوچ بچار کے بعد وہ اِس نتیجہ پر پہنچا کہ یسوع محض ایک عام انسان نہیں ہو سکتا۔ سو، آیت 33 کے مطابق اُس نے کہا: "اگر یہ شخص خُدا کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا۔" کچھ جھوٹے نبی تھے جنہوں نے شیطان کی طاقت سے معجزے دکھائے لیکن یہ نبی اوپر سے خدا کی طرف سے تھا۔ ہاں، وہ اُوپر سے ہے، کیونکہ "جو اُوپر سے آتا ہے وہ سب سے اُوپر ہے" (یوحنّا 3: 31)۔

اُس کے تدریجی ایمان کی معراج آیت 38 سے عیاں ہے۔ جب مسیح نے اُس سے پوچھا "کیا تُو خُدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟" اور جب یسوع نے اُس کے سوال کے جواب میں کہ وہ کون ہے، اپنی طرف اشارہ کیا تو اُس نے کہا، "اَے خُداوند مَیں اِیمان لاتا ہوں،" اور پھر اُس نے یسوع کو سجدہ کیا۔

اِس بھکاری نے پہلے جسمانی طور پر بینائی پائی، پھر اِس نے الہٰی فرزندیت میں جانے کا پُرفضل تجربہ کیا۔ اُسے خُدا کی طرف سے جو عنایت ملی وہ بھکاری نہیں بلکہ بیٹے پاتے ہیں۔ کچھ خُدا سے دُور ہوتے ہیں، پھر وہ اُس سے مانگتے ہیں اور اُس کی عنایت کا تجربہ کرتے ہیں۔ جب خُدا اپنے فضل میں اُنہیں اپنی فرزندیت میں لیتا ہے تو وہ نجات کا بھی تجربہ کرتے ہیں۔

د۔ اُس نے مسیح کی بابت اپنے تجربہ کی گواہی دی:

ایک کہاوت ہے، "تھوڑا سا تجربہ نظریے کی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔" اِس اندھے آدمی کو ایک گہرا تجربہ حاصل ہُوا تھا، اِس لئے اُس نے مسیح کی قدرت اور محبّت کی زبردست گواہی دی۔ اُس کے ٹھیک ہونے کے بعد فریسیوں نے اُسے خُدا کے لوگوں سے الگ کرنے کی دھمکی دی۔ وہ غریب فقیر جس نے کبھی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، ستر مذہبی علماء کے سامنے اُن کے سوالوں کے جواب دینے کےلئے ڈٹ کر کھڑا تھا۔ وہ اپنے آپ کو جانتا تھا اور اپنے تجربے کا گواہ تھا: "مَیں اندھا تھا۔ اب بینا ہُوں" (آیت 25)۔ بعد ازاں، اُس نے کہا، "مَیں تو تُم سے کہہ چُکا اور تُم نے نہ سُنا۔ دوبارہ کیوں سُننا چاہتے ہو؟ کیا تُم بھی اُس کے شاگرد ہونا چاہتے ہو؟" (آیات 27، 28)۔ پھر اُس نے کہا، "یہ تو تعجب کی بات ہے کہ تُم نہیں جانتے کہ وہ کہاں کا ہے حالانکہ اُس نے میری آنکھیں کھولیں" (آیت 30)۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اُس کی شفا کا ذریعہ الٰہی تھا، تاہم وہ اِسے شیطان کے کام یا جادو سے تعبیر کرنا چاہتے تھے۔ صدر عدالت کے سامنے اندھے آدمی کی گواہی عقلی اور منطقی تھی۔ اُس نے مسیح کو پہلے نہیں دیکھا تھا۔ تاہم، جیسے ہی اُسے معلوم ہُوا کہ مسیح ایک نبی، خُدا کا بیٹا ہے، تو اُس نے سب کے سامنے اُس کی پرستش کی۔ یہ ایک زندہ گواہی تھی اور اُس کے پیروکار ہونے کا اعلان تھا۔ مسیح نے اُس کی طرف سے سجدہ کو قبول کیا کیونکہ آپ ایسی پرستش کے لائق تھے۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

الف۔ پڑوسی:

اندھے شخص کے پڑوسیوں نے اُس کے ساتھ پیش آیا ماجرا سُنا۔ وہ گپ شپ کرنا پسند کرتے تھے اور ایک شخص کے طور پر اُس میں ذرا سی بھی دلچسپی لئے بغیر وہ اُس کے ساتھ پیش آئے واقعہ پر بحث کرنے لگے!

اُنہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا، "کیا یہ وہ نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا؟" (آیت 8)۔ بعض نے کہا کہ یہ وہی ہے۔ دوسروں نے کہا کہ یہ اُس کا کوئی ہم شکل تھا۔ اُس نے خود اصرار کیا کہ وہ واقعی وہی شخص ہے۔ غالباً یہ پڑوسی اِس لئے اُلجھے ہوئے تھے کہ اِس شخص کی آنکھیں کھل گئی تھیں جس کی وجہ سے اُس کے چہرے میں ایک طرح کی تبدیلی آ گئی تھی۔ مزید برآں، اُس کی دِلی خوشی اُس کے چہرے کے خدوخال سے عیاں تھی، جس کی وجہ سے وہ خدوخال بدل گئے تھے۔

یہ پڑوسی اُن بہت سے لوگوں کی طرح ہیں جو اپنا تمام وقت گپ شپ میں گزارنا پسند کرتے ہیں، اور زیادہ اہم چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ اُن میں سے کسی کو بھی اُس شخص میں دلچسپی نہ تھی۔ اُنہوں نے اُس کی شناخت کے بارے میں کچھ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی۔ صرف سطحی بحث کے بعد وہ اُسے فریسیوں کے پاس لے آئے۔

ب۔ فریسی:

وہ تنگ نظری کے حامل افراد تھے۔ اُنہوں نے ہر اُس چیز کو رد کیا جو اُن کے خیالات کے برعکس تھی، یہاں تک کہ جب اُن کی اپنی سوچ اِن عقائد کے خلاف ہوتی۔ وہ نیکی کرنا پسند نہیں کرتے تھے، اور جب اُن کو منظور ہوتا وہ تبھی نیکی کرتے۔ اُن کا مسئلہ اُن کی مرضی میں پوشیدہ تھا، کیونکہ اُن میں مسیح پر ایمان لانے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔

اُن میں پھوٹ پڑ گئی۔ ایک گروہ نے کہا، "یہ آدمی خُدا کی طرف سے نہیں کیونکہ سبت کے دن کو نہیں مانتا" (آیت 16)، جبکہ موسیٰ کی شریعت نے اجازت دی تھی کہ جس شخص کا بیل سبت کے دِن کنویں میں گر جائے تو وہ اُسے نکال لے۔ تاہم، فریسیوں نے مسیح کے کام کو رد کر دیا جو ایک رُوح کو بچانے اور جسم کو شفا دینے کا کام تھا، اور اِس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایسا سبت کے دِن ہُوا تھا۔ وہ کہنے لگے، "ہم جانتے ہیں کہ خُدا نے موسیٰ کے ساتھ کلام کیا ہے مگر اِس شخص کو نہیں جانتے کہ کہاں کا ہے" (آیت 29)۔ اُنہیں مسیح کے معجزات دیکھ کر واضح یقین ہو جانا چاہئے تھا کہ آپ خُدا کی طرف سے تھے، مگر اِس کے باوجود اُنہوں نے یہ سب کہا۔

فریسیوں نے اُس اندھے شخص کی بھی مذمت کی جو شفا یاب ہو گیا تھا۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، "تُو تو بالکل گناہوں میں پیدا ہُوا۔ تُو ہم کو کیا سکھاتا ہے؟" (آیت 34)۔ اُنہوں نے اُس کے تجربے کو رد کیا۔ گویا وہ نہیں جانتے تھے کہ تعلیم صرف نظریات کا نام نہیں ہے، بلکہ سب سے بڑھ کر یہ روزمرہ کی زندگی کے تجربات کا نام ہے۔

ج۔ والدین:

فریسیوں نے جنم کے اندھے کے والدین سے تین سوالات پوچھے:

(1) کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ اُس کے والدین نے اِس سوال کا جواب ہاں میں دیا۔

(2) کیا یہ اندھا پیدا ہُوا تھا؟ اِس کا بھی جواب اُنہوں نے ہاں میں دیا۔

(3) وہ اب کیوں کر دیکھتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا، "ہم نہیں جانتے کہ اب وہ کیونکر دیکھتا ہے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کس نے اُس کی آنکھیں کھولیں۔ وہ تو بالغ ہے۔ اُسی سے پُوچھو۔"

وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اعلان کریں گے کہ وہ مسیح کو جانتے ہیں اور گواہی دیں گے کہ اُس نے معجزہ کیا ہے تو فریسی اُنہیں سزا دیں گے۔

اُس وقت سزا کے تین درجے تھے:

(1) رشتہ داروں سے تیس دن تک رابطہ سے محروم کر دینا۔

(2) ہنگامی حالات کے سوا، رشتہ داروں کے ساتھ رابطے سے زندگی بھر کےلئے محرومی۔

(3) تمام لوگوں سے تاحیات اخراج، اگر ممکن ہو تو مجرم کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ اور چونکہ سزائے موت صرف رومیوں کے ہاتھ میں تھی، اِس لئے یہودی عموماً مجرموں کو الگ تھلگ کر کے مطمئن ہو جاتے تھے۔

یہودیوں نے اندھے آدمی کے معاملہ میں جس نے بینائی پائی، تیسری اور سخت سزا کا اطلاق کیا: "اُنہوں نے اُسے باہر نکال دیا" (آیت 33)۔

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح نے اندھے شخص کو دیکھا اور اُسے شفا دینے میں پہل کی:

"پھر اُس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا" (آیت 1)۔ آپ نے دیکھا کہ اُسے بصارت پانے کی احتیاج تھی۔

اِس اندھے شخص نے اپنے آپ کو محض ایک بیکار بھکاری کے طور پر دیکھا، لیکن مسیح نے اُس کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا اور اُسے اپنا گواہ بنایا۔ یوں وہ بھکاری رُوح کے بھوکوں کو زندگی کی روٹی دینے لگا۔ اُس کی زندگی بہت زیادہ مفید بن گئی۔

شاگردوں نے اندھے آدمی کو دُنیا میں بیماری اور تکلیف کی وجہ کے تعلق سے دانشورانہ بحث کےلئے ایک موضوع کے طور پر دیکھا۔

تاہم، مسیح نے اُسے خُدا کی محبّت کا اعلان کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ آپ اُس کی طرف متوجہ ہوئے تا کہ اُس اندھے آدمی کے پوچھے بغیر اُسے شفا دیں۔ ایسا ہی آپ نے بیت حسدا کے حوض پر بیمار شخص کے ساتھ کیا تھا (یوحنّا 5 باب)۔ کتنی ہی مرتبہ ہم اُن نعمتوں سے ناواقف ہوتے ہیں جن سے ہم محروم رہتے ہیں۔ خدا اُن کی اہمیت کو دیکھنے کےلئے ہماری آنکھیں کھولتا ہے۔ وہ ہمیں وہ نعمتیں عطا کرتا ہے۔ پھر وہ ہمیں اُن نعمتوں کے پانے کے بعد اُن کی اہمیت دکھاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے لئے خُداوند کی طرف سے بہت بڑی سعادت ہے۔ پھر وہ ہم سے کہتا ہے: "تُم نے مجھے نہیں چُنا بلکہ مَیں نے تُمہیں چُن لیا اور تُم کو مقرّر کیا کہ جا کر پھل لاؤ اور تُمہارا پھل قائم رہے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 15: 16)۔

ب۔ مسیح کے اِس آدمی کو شفا دینے کی وجوہات تھیں:

(1) تا کہ خُدا کا جلال ظاہر ہو۔ مسیح نے کہا، "نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے بلکہ یہ اِس لئے ہُوا کہ خُدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں" (آیت 3)۔ مسیح نے ہمیشہ خُدا کے کاموں کو ظاہر کیا۔ آپ نے جو اعلان کیا اُسی کو عملی جامہ پہنایا: "جو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہے وہ اپنی عزّت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزّت چاہتا ہے وہ سچّا ہے اور اُس میں ناراستی نہیں" (یوحنّا 7: 18)۔

(2) کیونکہ وقت کم تھا۔ مسیح نے کہا، "جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا" (آیت 4)۔ یوں آپ نے اپنے الفاظ کی تصدیق کی: "تھوڑی دیر تک نور تمہارے درمیان ہے۔ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔ اَیسا نہ ہو کہ تاریکی تمہیں آ پکڑے اور جو تاریکی میں چلتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کدھر جاتا ہے" (یوحنّا 12: 35)۔

(3) دُنیا تک پیغام پہنچانے کےلئے۔ مسیح نے کہا، "جب تک مَیں دُنیا میں ہُوں دُنیا کا نور ہوں" (آیت 5)۔ آپ نے یہ کہتے ہوئے اِس بات کی تصدیق کی، "دُنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (یوحنّا 12: 35)۔ یہ الفاظ آج بھی سچ ہیں۔ یسوع مسیح اب بھی دِلوں کو منور کرتے ہیں۔ "لیکن تُم پر جو میرے نام کی تعظیم کرتے ہو آفتابِ صداقت طالع ہوگا اور اُس کی کرنوں میں شفا ہو گی ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، ملاکی 4: 2)۔

دُعا

آسمانی باپ، گناہ نے ہماری پیدایش کے وقت سے ہی ہماری آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے اور ہمیں ایک بھکاری بنا دیا ہے جو دُنیا سے تھوڑی سی بھیک مانگتے ہیں جو ہماری ضروریات کےلئے کافی نہیں، اِس لئے ہم پھر سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حق کو دیکھنے کےلئے میری آنکھیں کھول دے، کیونکہ مسیح ہی راہ، حق اور زندگی ہے۔ بخش کہ مسیح میرا نجات دہندہ، طبیب، استاد اور دوست ہو! اُسی کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. یوحنّا نے چار ایسے معجزات کا ذِکر کیا ہے جو مسیح نے گلیل میں دکھائے اور چار جو آپ نے یہودیہ میں کئے۔ اِن معجزات کا ذِکر کلام مقدّس کے حوالہ جات کے ساتھ کریں۔

  2. ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اندھا آدمی ہماری نمائندگی اور علامت ہے؟

  3. مسیح نے اِس الزام کو کیسے رد کیا کہ اندھا پن اندھے آدمی کے گناہ یا اُس کے والدین کے گناہ کا نتیجہ تھا؟

  4. یہ بتائیے کہ اِس اندھے آدمی کا ایمان بتدریج کیسے بڑھتا گیا اور پھر مکمل ہُوا۔

  5. ایک چھوٹا سا تجربہ نظریے کی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ وضاحت کریں کہ یہ حقیقت مسیح کےلئے اندھے آدمی کی گواہی میں کیسے ظاہر ہُوئی۔

  6. اندھے آدمی کے والدین یہودیوں کی عدالت کے سامنے مسیح کی گواہی دینے سے کیوں ڈرے جس نے اُن کے بیٹے کو شفا بخشی تھی؟

  7. مسیح نے جنم کے اندھے کو شفا دینے میں پہل کیوں کی؟

تئیسواں معجزہ: لعزر کو زندہ کرنا

"مریم اور اُس کی بہن مرتھا کے گاؤں بیت عنِیّاہ کا لعزر نام ایک آدمی بیمار تھا۔ یہ وُہی مریم تھی جِس نے خُداوند پر عِطر ڈال کر اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے۔ اِسی کا بھائی لعزر بیمار تھا۔ پس اُس کی بہنوں نے اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اَے خُداوند! دیکھ جسے تُو عزیز رکھتا ہے وہ بیمار ہے۔ یسوع نے سُن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کےلئے ہے تا کہ اُس کے وسیلہ سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔ اور یسوع مرتھا اور اُس کی بہن اور لعزر سے محبّت رکھتا تھا۔ پس جب اُس نے سُنا کہ وہ بیمار ہے تو جس جگہ تھا وہیں دو دِن اَور رہا۔ پھر اُس کے بعد شاگردوں سے کہا آؤ پھر یہودیہ کو چلیں۔ شاگردوں نے اُس سے کہا اَے ربیّ! ابھی تو یہودی تُجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور تُو پھر وہاں جاتا ہے؟ یسوع نے جواب دِیا کیا دِن کے بارہ گھنٹے نہیں ہوتے؟ اگر کوئی دِن کو چلے تو ٹھوکر نہیں کھاتا کیونکہ وہ دُنیا کی روشنی دیکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی رات کو چلے تو ٹھوکر کھاتا ہے کیونکہ اُس میں روشنی نہیں۔ اُس نے یہ باتیں کہیں اور اِس کے بعد اُن سے کہنے لگا کہ ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے لیکن مَیں اُسے جگانے جاتا ہُوں۔ پس شاگردوں نے اُس سے کہا اَے خُداوند! اگر سو گیا ہے تو بچ جائے گا۔ یسوع نے تو اُس کی موت کی بابت کہا تھا مگر وہ سمجھے کہ آرام کی نیند کی بابت کہا۔ تب یسوع نے اُن سے صاف کہہ دِیا کہ لعزر مر گیا۔ اور مَیں تُمہارے سبب سے خوش ہُوں کہ وہاں نہ تھا تا کہ تُم اِیمان لاؤ لیکن آؤ ہم اُس کے پاس چلیں۔ پس توما نے جسے توام کہتے تھے اپنے ساتھ کے شاگردوں سے کہا کہ آؤ ہم بھی چلیں تا کہ اُس کے ساتھ مریں۔ پس یسوع کو آ کر معلوم ہُوا کہ اُسے قبر میں رکھّے چار دِن ہُوئے۔ بیت عنِیّاہ یروشلیم کے نزدیک قریباً دو مِیل کے فاصلہ پر تھا۔ اور بہت سے یہودی مرتھا اور مریم کو اُن کے بھائی کے بارے میں تسلّی دینے آئے تھے۔ پس مرتھا یسوع کے آنے کی خبر سُن کر اُس سے ملنے کو گئی لیکن مریم گھر میں بیٹھی رہی۔ مرتھا نے یسوع سے کہا اَے خُداوند! اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔ اور اب بھی مَیں جانتی ہُوں کہ جو کچھ تُو خُدا سے مانگے گا وہ تُجھے دے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔ مرتھا نے اُس سے کہا مَیں جانتی ہُوں کہ قیامت میں آخری دِن جی اُٹھے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا قیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں۔ جو مُجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زِندہ ہے اور مُجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تُو اِس پر اِیمان رکھتی ہے؟ اُس نے اُس سے کہا ہاں اَے خُداوند مَیں اِیمان لا چکی ہُوں کہ خُدا کا بیٹا مسیح جو دُنیا میں آنے والا تھا تُو ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور چپکے سے اپنی بہن مریم کو بُلا کر کہا کہ اُستاد یہیں ہے اور تُجھے بُلاتا ہے۔ وہ سُنتے ہی جلد اُٹھ کر اُس کے پاس آئی۔ (یسوع ابھی گاؤں میں نہیں پہنچا تھا بلکہ اُسی جگہ تھا جہاں مرتھا اُس سے ملی تھی)۔ پس جو یہودی گھر میں اُس کے پاس تھے اور اُسے تسلّی دے رہے تھے یہ دیکھ کر کہ مریم جلد اُٹھ کر باہر گئی۔ اِس خیال سے اُس کے پیچھے ہو لئے کہ وہ قبر پر رونے جاتی ہے۔ جب مریم اُس جگہ پہنچی جہاں یسوع تھا اور اُسے دیکھا تو اُس کے قدموں پر گر کر اُس سے کہا اَے خُداوند اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔ جب یسوع نے اُسے اور اُن یہودیوں کو جو اُس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دِل میں نہایت رنجیدہ ہُوا اور گھبرا کر کہا۔ تُم نے اُسے کہاں رکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا اَے خُداوند! چل کر دیکھ لے۔ یسوع کے آنسو بہنے لگے۔ پس یہودیوں نے کہا دیکھو وہ اُس کو کیسا عزیز تھا۔ لیکن اُن میں سے بعض نے کہا کیا یہ شخص جس نے اندھے کی آنکھیں کھولیں اِتنا نہ کر سکا کہ یہ آدمی نہ مرتا؟ یسوع پھر اپنے دِل میں نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ وہ ایک غار تھا اور اُس پر پتّھر دھرا تھا۔ یسوع نے کہا پتّھر کو ہٹاؤ۔ اُس مرے ہُوئے شخص کی بہن مرتھا نے اُس سے کہا۔ اَے خُداوند! اُس میں سے تو اب بدبو آتی ہے کیونکہ اُسے چار دِن ہو گئے۔ یسوع نے اُس سے کہا کیا مَیں نے تُجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تُو اِیمان لائے گی تو خُدا کا جلال دیکھے گی؟ پس اُنہوں نے اُس پتّھر کو ہٹا دیا۔ پھر یسوع نے آنکھیں اُٹھا کر کہا اَے باپ مَیں تیرا شکر کرتا ہُوں کہ تُو نے میری سُن لی۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سُنتا ہے مگر اِن لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے یہ کہا تا کہ وہ اِیمان لائیں کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔ اور یہ کہہ کر اُس نے بلند آواز سے پکارا کہ اَے لعزر نکل آ۔ جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہُوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ رومال سے لپٹا ہُؤا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔ پس بہتیرے یہودی جو مریم کے پاس آئے تھے اور جنہوں نے یسوع کا یہ کام دیکھا اُس پر اِیمان لائے۔ مگر اُن میں سے بعض نے فریسیوں کے پاس جا کر اُنہیں یسوع کے کاموں کی خبر دی۔ پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دِکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر اِیمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اور اُن میں سے کائفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہن تھا اُن سے کہا تُم کچھ نہیں جانتے۔ اور نہ سوچتے ہو کہ تُمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔ مگر اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اُس سال سردار کاہِن ہو کر نبوّت کی کہ یسوع اُس قوم کے واسطے مرے گا۔ اور نہ صرف اُس قوم کے واسطے بلکہ اِس واسطے بھی کہ خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کر کے ایک کر دے۔ پس وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے۔ پس اُس وقت سے یسوع یہودیوں میں علانیہ نہیں پھرا بلکہ وہاں سے جنگل کے نزدیک کے علاقہ میں اِفرائیم نام ایک شہر کو چلا گیا اور اپنے شاگردوں کے ساتھ وہیں رہنے لگا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 11: 1۔ 54)

یہ معجزہ یروشلیم سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر بیت عنیاہ نامی گاؤں میں ہُوا۔ اِس معجزہ کی وجہ سے، اِس کا موجودہ نام اللعازرية ہے، جو لعزر نام کی عربی صورت سے ماخوذ ہے۔

یہ معجزہ ایک ایسے خاندان کے اندر ہُوا جو مسیح سے محبّت کرتا تھا اور آپ بھی اُن سے محبّت کرتے تھے۔ اِس خاندان میں لعزر اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اُس کے نام کا مطلب ہے "خُدا مدد ہے،" اور خُدا واقعی اُس کی زندگی میں مدد کر رہا تھا، جس نے اُسے اپنے آپ سے روشناس کرایا اور اُسے نئی زندگی بخشی۔ یسوع نے جسمانی طور پر اُس کی مدد کی جب آپ نے اُسے مُردوں میں سے زندہ کر کے اُس کی جسمانی زندگی اُسے واپس دی۔ جب یسوع نے اُس کے گھر میں ایک دن مہمان کے طور پر گزارا تو آپ نے اُسے اپنی رفاقت عنایت کی۔ مرتھا لعزر کی بڑی بہن تھی۔ اُس کا نام ارامی نام ہے جس کا مطلب ہے "مالکن، معزز خاتون۔" یہ یونانی زبان کے نام Kyria کی طرح ہے۔ گھر کی مالکن کی حیثیت سے وہ اُس کی ذمہ دار تھی۔ اُس نے اکثر مسیح کی میزبانی کی (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 40)۔ مریم لعزر کی چھوٹی بہن تھی۔ اُس کے نام کا مطلب ہے "مُر" یا "تلخ۔" اِس نے خُداوند کو خوشبودار تیل سے مسح کیا تھا اور اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے (اِنجیل بمطابق متی 26: 6۔ 13؛ اِنجیل بمطابق یوحنّا 12: 1۔ 8)۔ گلیل سے تعلق رکھنے والی ایک گنہگار عورت نے بھی مسیح کےلئے ایسا ہی کیا تھا (لوقا 7: 37، 38)۔ لعزر کی بہن مریم، مگدلہ کی مریم نہیں تھی جس کا ذِکر لوقا 8: 2، 3 میں کیا گیا ہے۔

اِس معجزے کے تعلق سے آئیں ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

  2. آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والا شخص

الف۔ لعزر

ایسا لگتا ہے کہ لعزر کو معجزے کی احتیاج تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لعزر تو آسمانی باپ کی حضوری میں لطف اندوز ہونے کےلئے انتقال کر گیا تھا۔ وہ اپنے مالک کی خوشی میں داخل ہو گیا تھا اور وہ تجربہ کیا تھا جس کی پولس رسول خواہش رکھتا تھا کہ "میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ کُوچ کر کے مسیح کے پاس جا رہُوں کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہے" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 1: 23)۔ لعزر پولس کی طرح کہہ سکتا تھا: "مَیں اچھی کُشتی لڑ چُکا۔ مَیں نے دَوڑ کو ختم کر لیا۔ مَیں نے اِیمان کو محفُوظ رکھا۔ آیندہ کےلئے میرے واسطے راست بازی کا وہ تاج رکھا ہُوا ہے جو عادِل منصف یعنی خُداوند مجھے اُس دِن دے گا اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ اُن سب کو بھی جو اُس کے ظہور کے آرزو مند ہوں" (نیا عہدنامہ، 2۔ تیمتھیس 4: 7، 8)۔

لعزر کا فائدہ مسیح کے ساتھ ہونا تھا۔ وہ اپنی زمینی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر اپنے ابدی آرام میں داخل ہو گیا تھا۔

لہٰذا، لعزر معجزے کی احتیاج نہ رکھتا تھا۔ اِس معجزے کی جنہیں واقعی ضرورت تھی وہ اُس کی بہنیں مرتھا اور مریم تھیں۔

ب۔ دو بہنیں:

(1) دونوں بہنیں جو خُداوند سے محبّت کرتی تھیں: اُن میں سے مریم وہ عورت تھی جس نے خُداوند کو خوشبودار تیل سے مسح کیا تھا اور اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے تھے (آیت 2)۔ دوسری بہن مرتھا نے مسیح کی مہمان نوازی کا فرض ادا کیا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 38۔ 42)۔

(2) جو جانتی تھیں کہ خُداوند اُن سے محبّت کرتا تھا: یسوع اُس خاندان سے محبّت کرتا تھا، اور وہ اِس بات سے واقف تھے۔ یوحنّا گواہی دیتا ہے، "پس اُس کی بہنوں نے اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اَے خُداوند! دیکھ جسے تُو عزیز رکھتا ہے وہ بیمار ہے ۔۔۔ اور یسوع مرتھا اور اُس کی بہن اور لعزر سے محبّت رکھتا تھا" (آیات 3، 5)۔ مسیح نے خود فرمایا: "ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے لیکن مَیں اُسے جگانے جاتا ہُوں" (آیت 11)۔ جب یسوع نے اپنے پیارے لعزر کی موت کے بارے میں سُنا تو آپ اُس کی قبر پر روئے (آیت 35)۔ جہاں تک یہودیوں کی بات ہے، اُنہوں نے بھی یہ کہتے ہوئے اِس محبّت کی گواہی دی، "دیکھو وہ اُس کو کیسا عزیز تھا" (آیت 36)۔

(3) اُنہوں نے خُداوند کے سامنے نرمی سے گِلہ کیا: محبّت بہت زیادہ توقع رکھتی ہے۔ جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو گِلے شروع ہو جاتے ہیں۔ دونوں بہنوں نے مسیح سے گِلہ کیا کیونکہ اُنہوں نے آپ کے پاس اِس پیغام کے ساتھ ایک قاصد بھیجا تھا کہ "اَے خُداوند! دیکھ جسے تُو عزیز رکھتا ہے وہ بیمار ہے۔" لیکن اِس کے باوجود مسیح نے پیغام کا اُن کی توقع کے مطابق جواب نہ دیا اور لعزر مر گیا۔ مرتھا نے آپ کو کہا، "اَے خُداوند اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا" (آیات 21، 32)۔

یہ گِلہ محبّت اور لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ بچے اپنے باپ سے محبّت کرتے ہیں لیکن اُنہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اُن سے کتنی محبّت کرتا ہے۔ وہ اُس سے گِلہ کرتے ہیں کہ اُس نے اُنہیں بالکل وہی چیز نہیں دی جو اُنہوں نے مانگی تھی۔ تاہم وہ ہمیشہ اُس سے کہیں بہتر دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں۔ مسیح ہمیں گِلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بعض اوقات وہ ہم پر وہ حکمت ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے طریقے سے اور اپنے وقت پر ہمارے ساتھ کام کرتا ہے، جو ہماری توقعات سے مختلف ہوتا ہے۔ اِس سے ہماری رُوح کو اطمینان ملتا ہے۔

(4) اُنہوں نے خُداوند پر ایمان رکھا: یہ خاندان اپنے ماضی اور حال میں ایک مضبوط ایمان کا مالک تھا۔ بےشک یہ ایک پُر اعتماد ایمان تھا۔ مرتھا نے کہا، "اب بھی مَیں جانتی ہُوں کہ جو کچھ تُو خُدا سے مانگے گا وہ تُجھے دے گا" (آیت 22)۔ یہ ایمان مستقبل کے اعتبار سے بھی عظیم تھا۔ مرتھا نے اپنے بھائی کی بابت کہا، "مَیں جانتی ہُوں کہ قیامت میں آخری دِن جی اُٹھے گا" (آیت 24)۔ جب خُداوند نے مرتھا کو بتایا کہ "قیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں۔ جو مُجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا،" تو مرتھا نے جواب دیا، "ہاں اَے خُداوند مَیں اِیمان لا چُکی ہُوں کہ خُدا کا بیٹا مسیح جو دُنیا میں آنے والا تھا تُو ہی ہے" (آیات 25۔ 27)۔

2۔ آنکھوں دیکھے گواہان اور معجزہ

الف۔ شاگرد:

وہ مسیح کو عزیز رکھتے تھے۔ جب آپ نے اُنہیں کہا، "آؤ پھر یہودیہ کو چلیں" (آیت 7)، تو اُنہوں نے آپ سے کہا، "اَے ربیّ! ابھی تو یہودی تُجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور تُو پھر وہاں جاتا ہے؟" (آیت 8)۔ اِس کا ایک پس منظر ہے: "یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کےلئے پھر پتّھر اُٹھائے ۔۔۔ اُنہوں نے پھر اُسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اُن کے ہاتھ سے نکل گیا" (یوحنّا 10: 31، 39)۔ اِس لئے شاگرد مسیح کےلئے خوفزدہ تھے اور اُنہوں نے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن جب اُن پر واضح ہو گیا کہ آپ اُس خطرناک جگہ میں جانے کےلئے پُرعزم تھے تو توما نے کہا، "آؤ ہم بھی چلیں تا کہ اُس کے ساتھ مریں" (آیت 16)۔ یوں اُنہوں نے اپنی تقدیر کو مسیح کے ساتھ وابستہ کیا، اور اُنہوں نے مسیح کی فکر کو اپنی فکر بنایا۔

ب۔ تسلی دینے والے:

"بہت سے یہودی مرتھا اور مریم کو اُن کے بھائی کے بارے میں تسلّی دینے آئے تھے" (آیت 19)۔ جو لوگ تعزیت کےلئے آتے تھے، اُن میں سے اکثر تھکا دینے والے ہوتے تھے، جیسا کہ ایّوب نے اپنے دوستوں کو کہا، "تُم سب کے سب نکمّے تسلّی دینے والے ہو" (پرانا عہدنامہ، ایّوب 16: 2)۔

وہاں موجود یہودیوں کا شک اُن ​​کے ایمان سے زیادہ مضبوط تھا۔ چار مہینے گزر چکے تھے کہ مسیح نے جنم کے اندھے کو شفا بخشی تھی، اِس لئے کچھ نے پوچھا، "کیا یہ شخص جس نے اندھے کی آنکھیں کھولیں اِتنا نہ کر سکا کہ یہ آدمی نہ مرتا؟" (آیت 37)۔ اُن کا شک مسیح کے ساتھ اُن کے سطحی رابطے کی وجہ سے تھا۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ مسیح نے پہلے بھی لوگوں کو مُردوں میں سے زندہ کیا تھا، لیکن اُنہیں یقین نہیں تھا کہ آپ مُردہ لعزر کے ساتھ کوئی معجزہ کرنے کے قابل تھے۔

ج۔ یہودی راہنما:

عینی شاہدین میں صدر عدالت کے ارکان بھی شامل تھے جنہوں نے یہودی مجلس کا انعقاد کیا اور کہا، "ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دِکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر اِیمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے" (آیات 47، 48)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے نزدیک رُوحانی دلچسپیوں سے زیادہ اہم سیاسی دلچسپیاں تھیں۔ اور وہ خوفزدہ تھے کہ لوگ مسیح کو بطور متوقع مسیحا، اسرائیل کے بادشاہ کے طور پر لیتے ہوئے بادشاہ مقرر کریں گے، جس کے نتیجہ میں رومی اُن کی بغاوت کو دبا دیں گے، اور اُن کی سرزمین کو تباہ کرتے ہوئے اُنہیں قتل کر دیں گے۔ تب کائفا سردار کاہن نے کہا، "تُمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو" (آیت 50)۔

کائفا نے غیر ارادی طور پر یہ پیشین گوئی کی کہ یسوع کو نہ صرف قوم کے واسطے بلکہ خُدا کے پراگندہ فرزندوں کے واسطے مرنا ہے۔ کائفا کی یہ پیشین گوئی اُس کی سوچ کے مطابق ایک سیاسی نقطہ نظر ہے جو رُوحانی معنٰی سے خالی ہے، لیکن اب ہماری نظر میں اِس میں ایک گہرا رُوحانی مفہوم موجود ہے۔ کائفا کے الفاظ بلعام کی طرح تھے، جب اُس نے مسیح کے بارے میں کہا، "مَیں اُسے دیکھوں گا تو سہی پر ابھی نہیں" (پرانا عہدنامہ، گنتی 24: 17)۔ جب یہودی مذہبی راہنماؤں نے کائفا کے سیاسی الفاظ کو سُنا تو وہ مسیح کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی سازش کرنے لگے۔ بعد ازاں اُنہوں نے لعزر کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنانا شروع کیا، جس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا مسیح کے مشن اور آپ کے مسیحا ہونے کا ثبوت تھا۔ اِس لئے "سردار کاہنوں نے مشورہ کیا کہ لعزر کو بھی مار ڈالیں کیونکہ اُس کے باعث بہت سے یہودی چلے گئے اور یسوع پر اِیمان لائے" (یوحنّا 12: 10، 11)۔

خُداوند ہمیں مسیح کو حقیقت میں شخصی طور پر جانے بغیر صرف مسیح کے بارے میں علمی طور پر جاننے سے بچائے، یعنی ہم اُس شخص کی مانند نہ ہوں جس کے پاس معلومات کا خزانہ تو ہوتا ہے مگر معمولی سا تجربہ بھی مفقود ہوتا ہے۔

کاش کہ ہمارے پاس عقیدہ کی دولت سے زیادہ مسیح کو جاننے کا تجربہ ہو!

3۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح دیکھتا ہے کہ زندگی کی مشکلات کے پیچھے کیا ہے:

جب مسیح نے سُنا کہ لعزر بیمار ہے، آپ نے کہا، "یہ بِیماری موت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کےلئے ہے تا کہ اُس کے وسیلہ سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو" (آیت 4)۔ آپ جانتے تھے کہ وہ دونوں بہنیں تھک چکی تھیں اور تکلیف میں تھیں۔ کوئی بھی فرد اِس پریشانی پر اُنہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا تھا۔ اِس کے باوجود، مسیح نے اُن کی پکار کا جواب نہیں دیا، کیونکہ آپ جانتے تھے کہ لعزر کی بیماری موت کےلئے نہیں تھی، بلکہ اِس لئے تھی کہ آپ اُسے مُردوں میں سے جگائیں (آیت 11)۔ آپ اُن دونوں بہنوں کی آنکھیں بھی کھولنے کو تھے تا کہ وہ آپ کی زندگی بخش قوت کو دیکھ سکیں۔ لعزر کو زندہ کئے جانے کے نتیجہ میں ہم جانتے ہیں کہ مسیح حقیقت میں کون ہے۔

یسوع مسیح جانتے ہیں کہ ہم جس بھی بحران سے گزرتے ہیں اُس کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔ آپ بحرانوں کو پیدا ہونے دیتے ہیں کیونکہ آپ ہم میں جلال پانا اور ہمیں بھی جلال میں شامل کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمیں پاک کر کے اُس خالص سونے اور چاندی کی طرح بیش قیمت بنانا چاہتے ہیں جسے سات بار صاف کیا گیا ہو (زبور 12: 6)۔ آپ کے کام میں حکمت ہے۔ جیسے آپ نے جھیل میں طوفان کو تھمایا، ویسے ہی آپ ہماری زندگی کے بحرانوں کو موقوف کرتے ہیں۔ اگر بحران اِس قدر طاقتور ہو کہ ہمیں مغلوب کرنے لگے تو آپ اُسے تھما دیتے ہیں۔ اگر آپ اُسے جاری رہنے کی اجازت دیتے ہیں تو ساتھ ہی ہمیں اُس کا مقابلہ کرنے کی زیادہ طاقت دیتے ہیں۔ ہم آپ کی قدرت میں فتح پاتے ہیں۔

اے عزیز قاری، اگر ہم مشکلات میں سے گزر رہے ہیں تو اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خُدا ہمیں سزا دے رہا ہے۔ مشکلات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی نیند سے بیدار ہوں اور خُداوند کی آمد کا انتظار کریں۔

ب۔ بسا اوقات مسیح جواب ملتوی کر دیتا ہے:

بعض اوقات، خُداوند ہمارے مانگنے سے پہلے ہی دُعا کا جواب دیتا ہے، کیونکہ ہمارا آسمانی باپ ہمارے مانگنے سے پہلے جانتا ہے کہ ہم کن چیزوں کے محتاج ہیں (اِنجیل بمطابق متی 6: 8)۔ لیکن بسا اوقات، جواب میں تاخیر ہوتی ہے۔ "پس جب اُس نے سُنا کہ وہ بیمار ہے تو جس جگہ تھا وہیں دو دِن اَور رہا" (آیت 6)۔ اُس وقت مسیح پیریہ میں تھا۔ وہاں ضرور ایسے لوگ موجود ہوں گے جنہیں آپ کی خدمت کی ضرورت تھی۔ ہم صرف اپنی ضروریات دیکھتے ہیں، جبکہ مسیح ہماری اور دوسروں کی ضروریات کو دیکھتا ہے۔ آپ سب کا خیال رکھتے ہیں، سب کو عطا کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں سب کےلئے فکر کرتے ہیں۔ اِسی لئے آپ نے اپنے دوست کی خاطر فوراً پیریہ کو نہیں چھوڑا، کیونکہ آپ کی پیریہ میں خدمت ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔

یہ تاخیر لعزر کے خاندان کےلئے ایک نعمت تھی اور ہمارے لئے بھی ایک نعمت ہے۔ اگر مسیح لعزر کی بیماری کے دوران ہی پہنچ جاتے تو آپ ایک شفا بخش معجزہ دکھاتے جیسا کہ آپ نے پہلے سیکڑوں لوگوں کو شفا بخشی تھی۔ اب جب لعزر مر چکا تھا، تو آپ کو مُردوں میں سے زندہ کرنے کا معجزہ کرنا تھا۔ لعزر کا خاندان کتنا خوش ہو گیا! اُنہوں نے ایک عارضی قیمت ادا کی جس کے نتیجہ میں اُنہیں اور تمام نسلوں کی کلیسیا کےلئے ایک ابدی فائدہ حاصل ہُوا، جب مسیح نے یہ اعلان کیا کہ "قیامت اور زِندگی تو مَیں ہُوں" (آیت 25)۔

ج۔ مسیح نے اپنے الفاظ کو اپنے اعمال سے ثابت کیا:

ایک جھوٹا نبی بولتا ہے لیکن عمل نہیں کرتا، جبکہ ایک سچا نبی اپنے عمل سے اپنے کلام کی تصدیق کرتا ہے۔ مسیح نے فرمایا، "دُنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ رہے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (یوحنّا 8: 12)۔ آپ نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھول کر یہ ثابت کیا کہ آپ کا کلام قابلِ اعتبار ہے، اور اِس کے نتیجہ میں اُس شخص نے کہا، "مَیں اندھا تھا۔ اب بِینا ہُوں" (یوحنّا 9: 25)۔ اور مسیح نے فرمایا، "قیامت اور زِندگی تو میں ہُوں۔ جو مُجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تَو بھی زِندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زِندہ ہے اور مُجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا" (آیات 25، 26)۔ آپ کے اِس دعوے کی تصدیق اُس وقت ہوئی جب آپ نے یہ حکم دیا، "اَے لعزر نکل آ۔" تب جو مرچکا تھا، زندہ باہر نکل آیا (آیات 43، 44)۔

مسیح کی تعلیمات اور طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں تھا۔ آپ نے اپنے پیروکاروں کو کبھی بھی وہ کام کرنے کا حکم نہیں دیا جو آپ نے خود نہیں کیا۔ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی اصول سے مستثنٰی نہیں رکھا جس کا آپ نے مطالبہ کیا۔

د۔ مسیح کامل انسان ہے:

(1) آپ دِل میں نہایت رنجیدہ ہُوئے اور گھبرائے: "جب یسوع نے اُسے اور اُن یہودِیوں کو جو اُس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دِل میں نہایت رنجیدہ ہُوا" (آیت 33)۔ "یسوع پھر اپنے دِل میں نہایت رنجِیدہ ہو کر قبر پر آیا" (آیت 38)۔

"رنجیدہ" کےلئے یونانی لفظ غم کا مفہوم رکھتا ہے۔ یسوع مسیح غمگین ہوئے کیونکہ موت دُنیا میں آئی اور تمام انسانوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گناہ کیا۔ اب آپ اُنہیں بچانے آئے تھے۔ "رنجیدہ" میں غصہ کا بھی مفہوم موجود ہے۔ یسوع مسیح تسلی دینے والوں اور یہودی راہنماؤں کی منافقت کی وجہ سے ناراض تھے، جنہیں لعزر اور اُس کی بہنوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ اِس کا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ وہ لعزر کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُسے مارنا چاہتے تھے۔

(2) آپ نے پتھر کو ہٹانے کا حکم دیا: آیت 39 میں ہم آپ کی انسانیت کو بھی دیکھتے ہیں جہاں آپ کہتے ہیں، "پتّھر کو ہٹاؤ۔" آپ اگرچہ اپنے کلام سے پتھر کو ہٹا سکتے تھے، لیکن آپ کو پتھر ہٹوانے کےلئے ایک انسان کی ضرورت تھی تا کہ یہ ظاہر کر سکیں کہ معجزہ واقعی ہُوا تھا اور یہ کہ لعزر بےہوش نہیں تھا، بلکہ واقعی مر گیا تھا۔ مزید برآں، آپ چاہتے تھے کہ پورا ہجوم معجزہ دیکھے اور اُس پر یقین کرے، تا کہ کوئی یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ آپ کے اور لعزر کے خاندان کے درمیان لوگوں کو دھوکہ دینے کےلئے ایک معجزہ گھڑنے کی سازش کی گئی تھی۔

(3) آپ نے دُعا کی: ہم مسیح کو دُعا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، "اَے باپ مَیں تیرا شکر کرتا ہُوں کہ تُو نے میری سُن لی۔ اور مجھے تو معلوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سُنتا ہے مگر اِن لوگوں کے باعِث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے یہ کہا تا کہ وہ اِیمان لائیں کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا ہے" (آیات 41، 42)۔ یہاں ہم بیٹے اور اُس کے آسمانی باپ کے درمیان خوبصورت رشتہ دیکھتے ہیں۔ بیٹا باپ کی عزت کرتا ہے اور باپ بیٹے کی عزت کرتا ہے۔ بیٹے کی اپنے باپ کے ساتھ دُعاؤں میں رفاقت ہے جو ہمیشہ سُنی اور جواب دی جاتی ہیں۔

ہ۔ مسیح خُدا ہے۔

آپ نے کہا، "اَے لعزر نکل آ" (آیت 43) اور وہ مُردہ آدمی فوراً باہر نکل آیا۔ کسی متقی شخص کا کہنا ہے: "اگر مسیح نے لعزر کا نام لئے بغیر صرف کہا ہوتا 'نکل آ' تو تمام مُردے قبروں سے جی اُٹھتے! تاہم، آپ نے صرف لعزر کو بلایا، اِس لئے صرف وہی جی اُٹھا۔"

رُوحوں پر مسیح کا اختیار لعزر کی رُوح کی فردوس سے اُس جسم میں واپسی سے ظاہر ہُوا جس سے نکلے اُسے چار دِن ہو گئے تھے۔ اِس سے مسیح کا جسموں پر بھی اختیار واضح ہُوا۔ جسم گلنا سڑنا شروع ہونے کے بعد بِن سڑے جی اُٹھا! نور تاریکی میں چمکا، اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا (یوحنّا 1: 5)۔

کون ہے جو ساری دنیا، آسمان و زمین پر حکم رکھتا ہے؟ وہی جس نے اپنے بارے میں کہا، "آسمان اور زمین کا کل اِختیار مجھے دِیا گیا ہے" (متی 28: 18)۔

اِس آسمانی اختیار کے ساتھ یسوع مسیح اب آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ اپنے گناہوں کی موت سے اُس کے ساتھ نئی زندگی میں جی اُٹھیں۔ آپ نے فرمایا، "مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زِندگی میں داخل ہو گیا ہے" (یوحنّا 5: 24)۔

دُعا

اے ہمارے آسمانی باپ، وہ وقت آ پہنچا بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی عظیم آواز سُنیں گے، اور یہ آواز سُننے والے جئیں گے۔ ہمیں سُننے والوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما، تا کہ ہم تیری بدولت گناہ میں موت کی حالت سے حقیقی زندگی میں زندہ ہوں، کیونکہ مسیح قیامت اور زندگی ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. "لعزر" نام کا کیا مطلب ہے؟ مسیح نے اِس نام کا مطلب کیسے پورا کیا؟

  2. "مرتھا" نام کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ معنٰی کیسے اُس کےلئے حقیقت بن گیا؟

  3. کیوں لعزر کو اِس معجزے کی احتیاج نہ تھی؟

  4. شاگردوں نے مسیح کے ساتھ اپنی محبّت کا اعلان کیسے کیا؟

  5. کیا کائفا نبی تھا؟ کیسے لوگوں کےلئے ایک فرد کے مرنے کے تعلق سے اُس کے الفاظ پورے ہوئے؟

  6. مسیح نے مریم اور مرتھا کی پکار کو قبول کرنے میں تاخیر کیوں کی؟

  7. مسیح نے قبر سے پتھر ہٹانے کو کیوں کہا؟

چوبیسواں معجزہ: کبڑی عورت کی شفا

"پھر وہ سبت کے دِن کِسی عبادت خانہ میں تعلیم دیتا تھا۔ اور دیکھو ایک عورت تھی جس کو اٹھارہ برس سے کسی بد رُوح کے باعث کمزوری تھی۔ وہ کُبڑی ہو گئی تھی اور کسی طرح سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ یسوع نے اُسے دیکھ کر پاس بُلایا اور اُس سے کہا اَے عورت تُو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی۔ اور اُس نے اُس پر ہاتھ رکھّے۔ اُسی دم وہ سیدھی ہو گئی اور خُدا کی تمجید کرنے لگی۔ عبادت خانہ کا سردار اِس لئے کہ یسوع نے سبت کے دِن شفا بخشی خفا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا چھ دِن ہیں جن میں کام کرنا چاہیے پس اُنہی میں آ کر شفا پاؤ نہ کہ سبت کے دِن۔ خُداوند نے اُس کے جواب میں کہا کہ اَے ریاکارو! کیا ہر ایک تُم میں سے سبت کے دِن اپنے بیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پلانے نہیں لے جاتا؟ پس کیا واجب نہ تھا کہ یہ جو ابرہام کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھّا تھا سبت کے دِن اِس بند سے چُھڑائی جاتی؟ جب اُس نے یہ باتیں کہیں تو اُس کے سب مخالف شرمندہ ہُوئے اور ساری بِھیڑ اُن عالی شان کاموں سے جو اُس سے ہوتے تھے خوش ہُوئی۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 13: 10۔ 17)

یہ معجزہ پیریہ میں سبت کے دِن ایک عبادت خانہ میں ہُوا۔ یہودیوں کی ایک ہی ہیکل تھی جو یروشلیم میں واقع تھی جہاں وہ اپنی قربانیاں پیش کرتے تھے۔ اُنہیں کسی اَور ہیکل کو تعمیر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ تاہم، دوسرے علاقوں میں اُن کے بہت سے عبادت خانے اور تعلیمی مراکز موجود تھے۔ مسیح نے پیریہ کے یہودی عبادت خانوں میں سے ایک میں اٹھارہ برس سے کبڑی ایک عورت کو شفا بخشی۔ مسیح نے اِس سے پہلے بھی ایک عبادت خانہ میں، جو کفرنحوم میں واقع تھا، ایک شخص کو شفا بخشی تھی جو بد رُوح گرفتہ تھا (اِنجیل بمطابق مرقس 1: 23)۔

آئیں، اِس معجزے کے تعلق سے ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والی عورت

  2. عبادت خانہ کا سردار اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والی عورت:

الف۔ اُس کی بیماری:

لوقا اِنجیل نویس اِس کُبڑی عورت کا بیان اِس الفاظ میں کرتا ہے: "ایک عورت تھی جس کو اٹھارہ برس سے کسی بد رُوح کے باعث کمزوری تھی۔ وہ کُبڑی ہو گئی تھی اور کسی طرح سیدھی نہ ہو سکتی تھی" (آیت 11)۔ اُس کی کمر میں لچک ختم ہو چکی تھی، اور اُس کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آ گیا تھا۔ وہ اٹھارہ برس سے خود کو اُوپر نہ اُٹھا سکی تھی۔ شیطان نے اُسے اتنے برسوں سے ایسے ہی باندھ رکھا تھا۔ اُسے اِس بندھن سے آزاد ہونا تھا۔

خُدا اپنی محبّت میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی انسان اُس حالت کا تجربہ کرے جس سے وہ عورت گزری تھی۔ "انسان" کےلئے یونانی لفظ اینتھروپاس کا مطلب ہے "سیدھا آدمی" کوئی ایسا شخص جو آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھا سکے۔ یہ انسانوں کےلئے خُدا کا منصوبہ ہے۔ انسانوں کا مقصد یہی ہونا چاہئے۔ وہ جو اپنی انسانیت سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہوتا ہے وہی ہے جو اُس طرف دیکھتا ہے جہاں مسیح بیٹھا ہے (نیا عہدنامہ، کُلسّیوں 3: 1)۔

اِس غریب عورت کو شیطان نے ایک ایسی بیماری میں مبتلا کر دیا تھا جس سے اِس کی انسانیت معذوری کا شکار ہو گئی۔ وہ ایک جانور کی طرح ہو گئی جو نیچے دیکھتی تھی۔ لیکن اِس کے باوجود، اُس کی روح اوپر خُدا کی طرف دیکھ رہی تھی کہ خُدا نے اُسے کس لئے بنایا تھا اور وہ اُس سے کیا چاہتا تھا۔ مردِ دانا سلیمان نے کہا تھا، "لو مَیں نے صرف اتنا پایا کہ خُدا نے اِنسان کو راست بنایا" (پرانا عہدنامہ، واعظ 7: 29)۔

ب۔ اُس کا ایمان:

مسیح کی اِس کبڑی عورت سے ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ خُدا کی عبادت کےلئے یہودی عبادت خانہ میں معمول کے مطابق آئی۔ وہ خُدا کی وفادار تھی۔ وہ مسلسل بیماری کا شکار تھی، لیکن اِس کے باوجود وہ باقاعدگی سے خُدا کے گھر جا رہی تھی۔

اُس کی جسمانی معذوری نے اُس کی رُوح پر اثر نہیں کیا۔ وہ حسبِ معمول عبادت خانہ میں آئی تو اُس نے برکت حاصل کی۔ مسیح نے اُس کی زندگی کو اُس وقت مکمل طور پر بدل دیا جب آپ نے اُس پر ہاتھ رکھا، اور "اُسی دم وہ سیدھی ہو گئی اور خُدا کی تمجید کرنے لگی" (آیت 13)۔ یوں اُس نے اپنی زندگی کا مقصد جان لیا اور آسمان کی طرف دیکھا۔ اِس عورت کے عبادت خانہ میں جانے کو مُردہ، بے فائدہ معمول نہیں کہا جا سکتا۔ مسیح نے اُسے "ابرہام کی بیٹی" کہہ کر پکارا (آیت 16)، کیونکہ وہ ابرہام کا سا ایمان رکھتی تھی۔ وہ تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ عبادت کرتی اور خُدا میں پناہ مانگتی تھی۔ جب ہم خُدا کے گھر جاتے ہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ بیماری، خاندانی پریشانیوں یا سرگرمیوں یا کام کے دباؤ کی وجہ سے انتشارِ فکر کا شکار ہوتے ہیں۔ یوں ہم بہت سے ایسے شاندار مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں جن میں ہم خُداوند سے مل سکتے تھے یا بڑی برکت حاصل کر سکتے تھے۔

ج۔ اُس کی شفا اور شکر گزاری:

اِس بیمار عورت نے شفا کی درخواست نہیں کی، لیکن عبادت خانہ میں اُس کی موجودگی اُس کی شفا یابی کی خواہش کی علامت تھی۔ یہ اُس کی ایک طرح کی خاموش درخواست تھی۔ خواہ انسان کتنا ہی خاموش کیوں نہ ہو، لیکن یسوع مسیح دِل کی گہرائیوں میں موجود کراہ کو سُنتے ہیں۔ چاہے ہم نہ چلّائیں، نہ بلند آواز سے درخواست کریں، لیکن ہمارے آنسو آپ کی نگاہوں میں ہیں۔ آپ ہمارے مانگنے سے پہلے جانتے ہیں کہ ہمیں کن چیزوں کے محتاج ہیں۔ "کیونکہ اُس نے اپنے مقدِس کی بلندی پر سے نگاہ کی۔ خُداوند نے آسمان پر سے زمین پر نظر کی۔ تا کہ اسیر کا کراہنا سُنے اور مرنے والوں کو چھڑا لے" (پرانا عہدنامہ، زبور 102: 19، 20)۔

جب اِس عورت نے اپنی کمر سیدھی کی تو یہ شفا پانے والے دس کوڑھیوں میں سے ایک سامری کی ساتھی بن گئی (اِنجیل بمطابق لوقا 17: 15)۔ اِس عورت نے خُدا کی تمجید کی۔ وہ اِنجیل بمطابق لوقا 18: 43 میں مذکور اُس اندھے شخص کی بھی ساتھی بن گئی جسے یریحو میں شفا ملی۔ اُس کی شکر گزاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں موجود ایماندار خوشی سے معمور ہو گئے: "ساری بِھیڑ اُن عالی شان کاموں سے جو اُس سے ہوتے تھے خوش ہُوئی" (آیت 17)۔

2۔ عبادت خانہ کا سردار اور معجزہ:

آیت 15 میں مسیح نے اُسے "ریاکار" کہا۔ یہ ایک سخت لفظ ہے، لیکن یہ اُس آدمی کی درست انداز میں ترجمانی کرتا ہے۔ جب اُس نے اُس کبڑی عورت کی شفا یابی کو دیکھا جو عام طور پر ہر سبت کے دن عبادت خانہ میں آتی تھی، تو بہت ناراض ہُوا کیونکہ مسیح نے اُسے سبت کے دن شفا دی تھی۔ اگر وہ بیمار عورت اُس کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہوتی تو وہ اِس واقعہ پر مختلف انداز سے تبصرہ کرتا۔ اگر اُسے اِس عورت کی مشکل کی فکر ہوتی تو وہ اُس کے حق میں شریعت کی تشریح مختلف انداز میں کرتا! اب عبادت خانہ کے سردار کے گناہوں کا تذکرہ کیا جائے گا:

الف۔ اُس نے بظاہر لوگوں سے بات کی، جبکہ مسیح کا براہ راست سامنے کئے بغیر اُس کے الفاظ کا ہدف مسیح تھا:

اُس نے کہا، "چھ دِن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے پس اُنہی میں آ کر شفا پاؤ نہ کہ سبت کے دِن" (آیت 14)۔ اگر اُس میں ہمّت ہوتی تو وہ براہ راست مسیح پر الزام لگاتا، کیونکہ آپ نے سبت کو توڑا اور بیمار عورت کو شفا دی تھی۔ لیکن اِس کے برعکس عبادت خانہ کے سردار نے اپنا غصہ عبادت کےلئے جمع ہونے والے بےقصور ہجوم پر نکالا۔

ب۔ اِس شخص نے موسیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کئے بغیر یا موسیٰ کی تعلیم سکھائے بغیر موسیٰ کی گدی سنبھال رکھی تھی:

"موسیٰ کی توریت میں لکھا ہے کہ دائیں میں چلتے ہوئے بیل کا منہ نہ باندھنا۔ کیا خُدا کو بیلوں کی فکر ہے؟ یا خاص ہمارے واسطے یہ فرماتا ہے؟ ہاں یہ ہمارے واسطے لکھا گیا" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 9: 9، 10)۔ موسیٰ کی شریعت کے مطابق سبت کے دن جانوروں پر رحم کیا جاتا تھا، اور عبادت خانہ کے سردار نے سبت کے دن ایک انسان پر رحم سے انکار کیا۔

ج۔ اُس نے رحم کے اصولوں کو توڑ دیا تھا جن کے اِطلاق کی کوئی بھی عام اِنسان توقع کرے گا:

اُس نے سبت کے تعلق سے غیرت رکھنے کا دعویٰ کیا، اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسیح سے نفرت کرتا تھا اور آپ کی شہرت اور آپ کےلئے لوگوں کی محبّت اور دلچسپی سے حسد کرتا تھا۔ اِس لئے اُس نے رحم کے اصولوں کو توڑ ڈالا جن پر ایسی صورتحال میں کوئی بھی شخص عمل کرے گا۔

د۔ وہ چاہتا تھا کہ بھلائی کا کام اُس کی مرضی کے مطابق ہو:

اُس کا برتاؤ ایک راہنما کا برتاؤ نہیں تھا۔ وہ ایک سخت قانون کی غلامی میں زندگی گزار رہا تھا۔ وہ حیات ابدی کی بادشاہی کا حصہ نہیں تھا۔ وہ رحم و محبّت کی نسبت موسیٰ کی شریعت کی اپنی تنگ نظری پر مبنی تشریح کا وفادار تھا۔ نیکی کرنے کے بارے میں اُس کا اپنا نظریہ تھا۔ جب مسیح نے آ کر مختلف طریقے سے نیکی کی اور نیکی کرنے کے بارے میں ایک نئی سمجھ کی وضاحت کی تو عبادت خانہ کا سردار حسد سے بھر گیا۔ مسیح کے عظیم کام اور عمّانوایل یعنی خُدا ہمارے ساتھ، میں خُدا کی قدرت کو دیکھ کر شکر گزاری اور حیرت سے معمور ہونے کے بجائے وہ چاہتا تھا کہ اُس کی مرضی کے مطابق بھلائی کا کام ہو۔

ہ۔ اُس نے دوسروں کو مسیح کے خلاف اپنا ساتھ دینے کےلئے اُکسایا:

افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں موجود بہت سے افراد نے اُس کے الفاظ اور اُس کی طرف سے مسیح کی مخالفت پر اتفاق کیا۔ تاہم، اُنہیں مسیح اور اُس کبڑی متقی عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا احساس ہُوا۔ جب مسیح نے اپنے قائل کرنے والے جواب سے عبادت خانہ کے سردار کو خاموش کر دیا، تو "اُس کے سب مخالف شرمندہ ہُوئے" (آیت 17)۔

3۔ مسیح اور معجزہ:

الف۔ مسیح نے پہلے عورت کی بیماری کی تشخیص کی اور پھر اُسے شفا دی:

(1) آپ نے اُسے دیکھا (آیت 12)۔ وہ غریب عورت کبڑی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بیماری کے باعث مسیح کو نہ دیکھ سکی ہو، لیکن آپ نے اُسے دیکھا۔ اکثر ہماری آنکھیں آنسوؤں سے اِس قدر بھر جاتی ہیں کہ ہم مسیح کو نہیں دیکھتے، لیکن یسوع مسیح کا شکر ہو کہ ہم آپ کی نگاہ میں ہیں۔ سب سے اہم اور بنیادی چیز ہمارے لئے آپ کی محبّت ہے۔ ہم اپنے لئے مسیح کی محبّت کا احساس کرتے ہوئے یوحنّا اِنجیل نویس کے ساتھ کہتے ہیں، "ہم اِس لئے محبّت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبّت رکھی" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 4: 19)۔ جب مسیح ہم پر نگاہ کرتا ہے تو ہم اُس سے کہہ سکتے ہیں: "تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھیں گے" (پرانا عہدنامہ، زبور 36: 9)۔

(2) آپ نے اُسے بلایا: "یسوع نے اُسے دیکھ کر پاس بُلایا اور اُس سے کہا اَے عورت تُو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی" (آیت 12)۔ آپ نے اُسے دیکھ کر نظرانداز نہیں کیا بلکہ اُسے بلایا اور اُس کی کمزوری کی تشخیص کی۔ آپ کو اُس کی حالت کا اِدراک تھا اور آپ جانتے تھے کہ وہ کس مشکل سے گزر رہی ہے۔ آپ کو اُسے دیکھ کر ترس آیا اور آپ اُس کے غم گسار بنے۔ آپ نے اُس پر شفقت ظاہر کی اور اُسے اُس کی کمزوری سے نجات بخشی۔

مسیح آپ کے دِل کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ کیا آپ اُس کی عطا کو قبول کریں گے اور دروازہ کھولیں گے؟

(3) آپ نے اُسے چھؤا اور شفا بخشی: مسیح نے اُس پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور یہ آپ کی طرف سے اُس پر اپنی شفقت اور اُس کی قبولیت کا اظہار تھا۔ اور فوراً ہی اِس کا نتیجہ سامنے آ گیا۔ وہ عورت سیدھی ہو گئی اور اُس نے اپنی شفا کےلئے خُدا کی تمجید کی۔

(4) آپ نے اُس کی شفا یابی کا دفاع کیا: جب اُسے شفا ملی تو عبادت خانہ کے سردار نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ سبت کے دِن اُس کی شفا یابی کے خلاف بات کی۔ مسیح نے اُسے اپنے دفاع کےلئے اکیلا نہیں چھوڑ دیا۔ آپ نے اُس کا دفاع کیا اور عبادت خانہ کے سردار سے کہا، "کیا ہر ایک تُم میں سے سبت کے دِن اپنے بیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پلانے نہیں لے جاتا؟ پس کیا واجب نہ تھا کہ یہ جو ابرہام کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھّا تھا سبت کے دِن اِس بند سے چُھڑائی جاتی؟" (آیات 15، 16)۔ اِس طرح مسیح نے اُسے صحت یابی کی برکت کے ساتھ ساتھ اُس کا دفاع بھی کیا۔

ب۔ مسیح نے موسیٰ کی شریعت کی تشریح کی:

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مسیح نے توریت کی مخالفت کی اور اُسے منسوخ کر دیا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ خُدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی ایک کتاب کو کوئی دوسری ودیعت کی گئی کتاب منسوخ نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل مقدّس پرانا اور نیا عہدنامہ دونوں پر مشتمل ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں، کیونکہ اُن کا ایک ہی ماخذ ہے: خُدا۔ مسیح نے توریت کی کئی طریقوں سے تصدیق کی:

(1) اِس کا اقتباس کرنے سے: ایسی ہی ایک صورتحال میں آپ نے کہا، "کیا تُم نے یہ بھی نہیں پڑھا کہ جب داؤد اور اُس کے ساتھی بھوکے تھے تو اُس نے کیا کیا۔ وہ کیوں کر خُدا کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹیاں لے کر کھائیں جن کو کھانا کاہنوں کے سِوا اَور کسی کو رَوا نہیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی دیں؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 6: 3، 4)۔

(2) مسیح نے موسیٰ کی شریعت کی تشریح کی: آپ نے اُن افراد سے جو آپ کو سُن رہے تھے، پوچھا: "آیا سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا ہلاک کرنا؟" (لوقا 6: 9)۔ اِس سوال کے ذریعے آپ اپنے سامعین کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں، وہ اُس سچائی کے کلام کو اپنی زندگی میں خلوص اور سمجھداری سے لاگو کریں۔

(3) مسیح نے اپنے اختیار کے بارے میں بات کی: آپ نے کہا: "میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہُوں۔" "اِس سبب سے یہودی اَور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا بلکہ خُدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خُدا کے برابر بناتا تھا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 5: 17، 18)۔

(4) مسیح نے سبت کے تعلق سے موسیٰ کی شریعت کی تشریح کرتے ہوئے معقول منطق کا استعمال کیا: آپ نے یہ واضح کیا کہ وہ کبڑی عورت عورت مویشیوں سے زیادہ اہم تھی۔ لوگ اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کےلئے کھول دیتے ہیں، جبکہ بیل کے برعکس بیمار عورت ابرہام کی بیٹی تھی۔ تو ایسے میں کیا یہ درست تھا کہ اُس عورت کو نظر انداز کر دیا جاتا جسے شیطان نے اٹھارہ برس سے بیماری میں جکڑ رکھا تھا اور جو معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہ تھی؟ اُس کی بیماری ایک بدتر قید کی مانند تھی، کیونکہ بیل یا دیگر جانور بھی اصطبل میں کم وقت کےلئے باندھے جاتے ہیں، لیکن وہ ایک طویل عرصہ سے بیمار تھی۔

ج۔ مسیح کا خواتین کے ساتھ رویہ:

تاریخی حقائق کا بغور جائزہ لینے سے ہم پر واضح ہوتا ہے کہ یہ مسیح کی شخصیت تھی جس نے واقعی عورتوں کے ساتھ انصاف کیا۔ آپ نے عورت کو وہ مقام دلوایا جو خُدا اُن کےلئے چاہتا تھا۔ مسیح میں "نہ کوئی یہودی رہا نہ یُونانی۔ نہ کوئی غُلام نہ آزاد۔ نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تُم سب مسیح یسوع میں ایک ہو" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 28)۔ کبڑی عورت کےلئے مسیح کی طرف سے شفا ہمیں مسیح کے عمومی طور پر خواتین کے ساتھ برتاؤ کی یاد دلاتی ہے۔

(1) آپ نے سامری عورت کے زخموں کو علم، محبّت اور وفادار طریقے سے مندمل کیا: آپ اُسے اپنے الفاظ سے تکلیف دینے کے بجائے اُس کے ساتھ نرمی اور محبّت سے پیش آئے۔ آپ نے اُسے اُس کی گناہ میں گری ہوئی حالت اور زندگی بخش پانی کے بارے میں آگاہی بخشی جو اُس کی پیاس بجھا سکتا تھا۔ اُس نے مسیح سے زندگی بخش پانی حاصل کیا، توبہ کی اور اپنے گاؤں میں مسیح کی مبلغ بن گئی (اِنجیل بمطابق یوحنّا 4)۔

(2) آپ نے یائیر کی مُردہ بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کہا، "تلیتا قُومی" جس کا مطلب ہے "اَے لڑکی مَیں تجھ سے کہتا ہُوں اُٹھ۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 5: 35۔ 43)۔ "تلیتا" وہ لفظ ہے جو ایک ماں اپنی بیٹی کو صبح سویرے نیند سے بیدار کرنے کےلئے پکارتے وقت استعمال کرتی تھی۔

(3) آپ نے نائین کی بیوہ کو تسلی دی۔ وہ رو رہی تھی کیونکہ اُس کا اکلوتا بیٹا، جس پر اُس نے اپنی ساری امّیدیں لگا رکھی تھیں، مر گیا تھا۔ مسیح اُس عورت کے پاس آئے اور اُس سے کہا، "مت رو۔" پھر آپ نے اُس کے بیٹے کو زندگی بخشی اور اُسے اُس کی ماں کے حوالے کیا (اِنجیل بمطابق لوقا 7: 11۔ 17)۔

(4) آپ نے فریسی کے گھر میں گنہگار عورت کو معاف کیا۔ آپ نے اُسے وہ برکت عطا کی جو گھر کا مالک جس نے آپ کو کھانے پر مدعو کیا تھا حاصل نہ کر سکا۔ چونکہ مسیح نے اُس کے کثرت کے گناہوں کو معاف کیا تھا، اِس لئے اُس عورت نے مسیح سے بہت محبّت کا اظہار کیا (لوقا 7: 36۔ 50)۔

(5) آپ نے گناہ میں پکڑی گئی عورت کو معاف کیا، جبکہ اُن لوگوں کے نام زمین پر لکھے جنہوں نے اُس پر الزام لگایا تھا، یہاں تک کہ وہ اُس عورت کو چھوڑ کر چلے گئے۔ تب آپ نے اُس عورت کی توبہ کی جانب راہنمائی کی (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 1۔ 11)۔

(6) آپ نے لعزر، مرتھا اور مریم کے گھرانے سے دوستی کی (اِنجیل بمطابق لوقا 10: 38۔ 42)۔

(7) اور یہاں آپ ایک کبڑی عورت کو شفا دے رہے ہیں۔ مسیح نے جنس یا نسل کی بناء پر لوگوں کے درمیان تفریق نہیں کی، کیونکہ آپ سب کے نجات دہندہ ہیں۔ "وہ اِس لئے سب کے واسطے مؤا کہ جو جیتے ہیں وہ آگے کو اپنے لئے نہ جئیں بلکہ اُس کےلئے جو اُن کے واسطے مؤا اور پھر جی اُٹھا" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 5: 15)۔

مسیح کی محبّت بھری شخصیت، جس نے اپنے محبّت بھرے ہاتھ بڑھا کر کبڑی عورت پر رکھے تا کہ وہ سیدھی کھڑی ہو سکے، اب اپنا ہاتھ آپ کی طرف بھی بڑھاتا ہے تا کہ آپ کے معاملات درست ہو جائیں، اور سب سے بڑھ کر مسیح کے ساتھ آپ کا تعلق درست ہو جائے۔

دُعا

اے ہمارے آسمانی باپ، تُو جھکے ہوؤں کو اُٹھا کھڑا کرتا ہے، اِس لئے ہم تیرے پاس آتے ہیں کہ ہمارے کندھوں سے ہر وہ بوجھ ہٹ جائے جو ہمیں جھکائے ہوئے ہے، اور ہم اور ہمارے تمام معاملات سیدھے ہو جائیں۔ ہمیں تیرے شفقت بھرے لمس کی کتنی ضرورت ہے جو ہماری مشکل وقت میں ہم تک پہنچتا ہے اور ہمیں اُٹھا کھڑا کرتا ہے تا کہ ہم تیرے چہرے کے جمال کو دیکھ سکیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین

سوالات

  1. کبڑی عورت کی بیماری نے اُس کا کیا حال کیا تھا؟ وہ کتنے عرصہ سے اِس حالت کا شکار تھی؟

  2. کون سا فرد اپنی انسانیت سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہو سکتا ہے؟

  3. کبڑی عورت نے شفا یاب ہونے کی اپنی خواہش کا اظہار کیسے کیا تھا؟ اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟

  4. پیریہ میں عبادت خانہ کے سردار کے دو گناہوں کا تذکرہ کریں۔

  5. چار پہلوؤں کا ذکر کریں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کو کبڑی عورت کی فکر تھی۔

  6. موسیٰ کی شریعت کی تشریح کےلئے معقول منطق کے اصول کا ذکر کریں۔

  7. تین خواتین کا تذکرہ کریں جن کی اہمیت مسیح نے بڑھائی اور کیسے آپ نے ہر ایک کا مقام بلند کیا؟

پچیسواں معجزہ: اندھے شخص برتِمائی کی شفا

"اور وہ یریحو میں آئے اور جب وہ اور اُس کے شاگرد اور ایک بڑی بھیڑ یریحو سے نکلتی تھی تو تِمائی کا بیٹا برتِمائی اندھا فقیر راہ کے کنارے بیٹھا ہُؤا تھا۔ اور یہ سُن کر کہ یسوع ناصری ہے چلاّ چلاّ کر کہنے لگا اَے اِبنِ داؤد! اَے یسوع! مجھ پر رحم کر۔ اور بہتوں نے اُسے ڈانٹا کہ چُپ رہے مگر وہ اَور بھی زیادہ چلاّیا کہ اَے اِبنِ داؤد مجھ پر رحم کر! یسوع نے کھڑے ہو کر کہا اُسے بلاؤ۔ پس اُنہوں نے اُس اندھے کو یہ کہہ کر بلایا کہ خاطر جمع رکھ۔ اُٹھ وہ تجھے بلاتا ہے۔ وہ اپنا کپڑا پھینک کر اچھل پڑا اور یسوع کے پاس آیا۔ یسوع نے اُس سے کہا تُو کیا چاہتا ہے کہ مَیں تیرے لئے کروں؟ اندھے نے اُس سے کہا اَے ربّونی! یہ کہ مَیں بینا ہو جاؤں۔ یسوع نے اُس سے کہا جا تیرے ایمان نے تجھے اچّھا کر دیا۔ وہ فی الفور بِینا ہو گیا اور راہ میں اُس کے پیچھے ہو لیا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 10: 46۔ 52؛ مزید دیکھئے متی 20: 29۔ 34)

یہ یرِیحو کے نزدیک ایک اندھے شخص کو شفا دینے کا معجزہ ہے۔ ایک اندھا شخص روزی کمانے کےلئے اپنے آپ پر بھروسا نہیں کر سکتا، نہ وہ راستہ دیکھ سکتا ہے نہ لوگوں کے چہرے، نہ وہ جانتا ہے کہ اُس کے اردگرد سب کچھ کیسا نظر آتا ہے۔ اُسے زندہ رہنے کےلئے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

یسوع نے یرِیحو میں تین اندھے آدمیوں کو شفا بخشی۔

مقدّس لوقا نے اِن میں سے ایک کا ذکر کیا ہے۔ وہ یرِیحو کے قریب ایک جگہ کھڑا تھا (لوقا 18: 35)۔

مقدّس متی نے دو اندھے آدمیوں کا ذکر کیا ہے۔

مقدّس مرقس نے ایک کا تذکرہ کیا ہے، جس کا نام برتِمائی تھا، اور غالباً اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اُن دو اندھوں میں سب سے اہم تھا جنہیں یسوع نے شفا بخشی تھی۔ وہ غالباً بعد میں ایک مسیحی راہنما بنا جو اپنے زمانے کی کلیسیاؤں میں اِس نام سے جانا جاتا ہے۔

یرِیحو میں اندھے افراد کی شفا یابی کے تعلق سے اِنجیلی بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جب مقدّس متی نے بتایا کہ مسیح نے دو اندھوں کو شفا دی تھی، تو اِس کے مقابلے میں اگر مقدّس مرقس نے کہا ہوتا کہ مسیح نے صرف ایک اندھے کو شفا دی تھی، تو یہ ایک تضاد ہوتا۔ درحقیقت، اِنجیلی بیانات کے مصنفین میں سے ہر ایک دوسرے کے لکھے ہوئے الفاظ کی تکمیل کرتا ہے، نہ کہ یہ ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں۔

ہم برتِمائی کی شفا یابی پر غور کریں گے۔ اپنے اندھے پن کے باوجود، برتِمائی مسیح تک پہنچنے کےلئے جدوجہد کرتے ہوئے ثابت قدمی سے جما رہا۔ اُس نے مسیح پر توکل کیا۔ مسیح نے اُس کی آنکھیں کھولنے سے اُسے وہ دیکھنا عنایت کیا جو بصارت کے حامل بہت سے لوگ نہ دیکھ سکے تھے۔ اُس نے "ابنِ داؤد" موعودہ نجات دہندہ مسیح کو دیکھا۔

آئیے ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والی عورت

  2. عبادت خانہ کا سردار اور معجزہ

  3. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والی عورت:

اندھا بھکاری، برتِمائی ایک معجزہ کا محتاج تھا۔ آئیے ہم جائزہ لیں کہ اُس نے کیا کیا اور اُس کے ساتھ کیا ہوا:

الف۔ وہ چلّایا:

برتِمائی اپنی بینائی کھو چکا تھا، لیکن اُس کی ایک طاقتور آواز تھی جسے وہ راہگیروں کی توجہ مبذول کرنے کےلئے استعمال کرنے کا عادی ہو چکا تھا تا کہ وہ اُسے کچھ مالی امداد فراہم کر سکیں۔ اُس نے جو کچھ اُس کے پاس نہیں تھا اُسے حاصل کرنے کےلئے اپنی آواز کا استعمال کیا۔ وہ چلّایا، "اَے اِبنِ داؤد مجھ پر رحم کر" (آیت 47)۔ خُدا ہمیشہ ہمیں کوئی نہ کوئی تحفہ دیتا ہے۔ ہمیں اُس تحفے کو استعمال کرنا ہے اور اپنے اندر موجود توانائی کے ساتھ عمل کرنا چاہئے تا کہ ہماری کمی پوری ہو سکے۔

ب۔ وہ ایمان لایا:

برتِمائی نے مسیح میں "ابنِ داؤد" متوقع نجات دہندہ کو دیکھا جو دُنیا میں آنے والا تھا۔ جب اُس نے پوچھا کہ اِس شور اور ہنگامے کی وجہ کیا ہے تو لوگوں نے جواب دیا کہ یسوع ناصری یریحو سے نکل رہا ہے۔ تاہم، اندھا آدمی "ناصری" کے بارے میں مردِ معجزات ہونے سے زیادہ جانتا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یسوع "ابنِ داؤد" خود نجات دہندہ تھا۔ اِس لئے اُس نے یسوع سے درخواست کی کہ وہ اُس پر رحم کرے۔ برتِمائی نے یسوع میں وہ دیکھا جو یریحو کے بہت سے لوگوں نے نہیں دیکھا۔

ہم اکثر یسوع ناصری کے بارے میں بطور ایک نبی اور رسول، خُدا کے خادم یا انسان کے طور پر بہت کچھ سُنتے ہیں، اور یہ سچ ہے کیونکہ "کلام مجسم ہُوا اور ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا جلال دیکھا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 14)۔ لیکن جب رُوح القدس ہماری بصیرت کو روشن کرتا ہے، تو ہم مسیح کی الوہیت اور انسانیت دونوں دیکھتے ہیں۔ ہم یسوع مسیح میں انسانیت کے ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آپ خُدا ہیں، دُنیا کے نجات دہندہ اور بنی نوع انسان کا فدیہ دینے والے ہیں۔ ہم مسیح کا جلال دیکھتے ہیں، باپ کے اکلوتے بیٹے کا جلال جو فضل اور سچائی سے معمور ہے۔ یسوع مسیح کی معموری میں سے ہم سب فضل پر فضل حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ خُدا ہے جو جسم میں ظاہر ہُوا (اِنجیل یوحنّا 1: 16؛ 1۔ تیمتھیس 3: 16)۔

ج۔ وہ ثابت قدم تھا:

وہ چلّایا، "اَے اِبنِ داؤد! اَے یسوع! مجھ پر رحم کر۔" بہت سے لوگوں نے اُسے خاموش کرانے کےلئے ڈانٹا۔ لیکن اُس نے اپنی درخواست پر اصرار کیا، اور اَور بھی زیادہ چلاّیا۔ ممکن تھا کہ وہ خاموش ہو جاتا کیونکہ بطور بھکاری اُسے اپنی درخواستیں لوگوں کی طرف سے رد کئے جانے کا تجربہ تھا۔ اُس کے پاس کسی کو مجبور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ وہ اُسے کچھ دے ۔ تاہم، اِس بار وہ اپنی طرف ہجوم کی مخالفت کے باوجود ڈٹا رہا، منّت سماجت کی اور چلّایا۔ اُس نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کی پرواہ نہ کی۔ اُس نے یسوع ابن داؤد کے سامنے جس پر اُس کا توکل تھا اپنی درخواست رکھی۔

ہمیں بھی آسمان کے دروازے پر دستک دینی چاہئے اور جب ہم مسیح کی آواز سُنیں تو اُس کی اطاعت کرنی چاہئے، کیونکہ آپ کی ہدایات پر لازمی عمل کرنا چاہئے۔

د۔ وہ جیت گیا:

مسیح نے برتِمائی کی درخواست سُنی اور اُسے جواب دیا۔ دیکھنے والوں نے اُسے بلایا اور اُسے مسیح کے پاس لے گئے۔ جب اُس نے دیکھا کہ اُس کا کپڑا اُٹھنے میں رکاوٹ کا باعث ہے تو اُس نے اُسے ایک طرف پھینک دیا۔ اُس نے اپنا قیمتی اثاثہ ایک طرف پھینک دیا جس کی اُسے ضرورت تھی، اور جس کا آسانی سے کوئی نعم البدل نہ مل سکتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اُس نے دیکھا کہ یہ چیز اُسے روک رہی ہے، اُس نے اُسے ایک طرف پھینک دیا اور مسیح کے پاس آیا۔ مبارک ہے وہ آدمی جو اُس چیز پر قابو پاتا ہے جو اُسے ٹھوکر کھلا سکتی ہے یا خُداوند ذوالجلال کے پاس آنے میں رکاوٹ ہے۔ ہماری رُوحانی زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہمیں مسیح کے پاس آنے سے روکتی ہیں۔ ہمیں اُنہیں ایک طرف پھینک دینا چاہئے۔ ہم شخصی راستبازی کا ذکر کر سکتے ہیں، جو ہمیں یقین دلاتی ہے کہ ہمارے نیک اعمال ہمیں مسیح کے قریب لے جائیں گے، جیسا کہ فریسی نے کہا کہ اے خُدا، مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ باقی آدمیوں کی طرح نہیں ہوں۔ مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا ہوں (اِنجیل بمطابق لوقا 18: 11، 12)۔ آئیے، ہم اِس کے برعکس، مسیح سے جو راستبازی کا لباس عطا کرتا ہے، درخواست کریں، "اے خُدا، مجھ گنہگار پر رحم کر" (لوقا 18: 13)۔ "آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے، دُور کر کے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 12: 1)۔

ہ۔ اُسے اپنی احتیاج کے بارے میں پتا تھا:

جب مسیح نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے تو وہ اِس بارے میں واضح طور پر جانتا تھا۔ اپنی غربت کی وجہ سے وہ رقم مانگنے کے بارے میں سوچ سکتا تھا تا کہ سرمایہ کاری کرے اور اُس کے منافع سے زِندگی گزارے۔ تاہم، اُس نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ اُس نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور پہلے ہی جانتا تھا کہ اُسے کیا چاہئے، یعنی یہ کہ وہ دیکھنے کے قابل ہو جائے۔ اُس نے ایسا ہی کیا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ بینائی پانے سے اُس کا بھیک مانگنے کا کام ختم ہو جائے گا، اور وہ خیرات سے گزر بسر نہیں کر سکے گا۔

و۔ اُس نے اپنی آنکھ اور دِل میں واضح رویا پائی:

جو اُس نے مانگا، مسیح نے اُسے وہ دیا۔ آپ نے اُسے حکم دیا، "جا تیرے ایمان نے تجھے اچّھا کر دیا" (آیت 52)۔ برتِمائی مبارک تھا، کیونکہ اُسے صرف بینائی نہیں بلکہ بصیرت بھی ملی۔ اُسے مسیح کا چہرہ دیکھنے کا شرف اور اپنی رُوح کی نجات حاصل ہوئی۔

ز۔ وہ راہ پر یسوع کے پیچھے ہو لیا:

اپنی بینائی اور بصیرت پانے کے فوراً بعد، برتِمائی نے ایک انتہائی اہم فیصلہ کیا کہ وہ ہمیشہ کےلئے مسیح کا شاگرد بنے گا۔ وہ راہ میں یسوع کے پیچھے ہو لیا۔

مسیح کا راستہ تنگ ہے۔ جو شخص اُس پر چلتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اپنی خودی سے انکار کرے اور مسیح کی پیروی کرنے کےلئے اپنی صلیب اٹھا لے (اِنجیل بمطابق متی 7: 13؛ 10: 38)۔ یہ پاکیزگی کا راستہ بھی ہے جس کے بغیر کوئی بھی خُداوند کو نہیں دیکھ سکے گا (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 12: 14)۔

کبھی کبھار مسیح کی راہ ہمیں تبدیلی صورت کے پہاڑ پر لے جائے گی، جہاں ہم مسیح کو اُس کی جی اُٹھنے کی قدرت میں دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں بعض اوقات آنسوؤں اور موت کے سائے کی وادی میں بھی لے جا سکتی ہے۔ بہرحال، دونوں صورتوں میں، مسیح ہمارے آگے جائے گا اور اپنے نام کی خاطر ہمیں صداقت کی راہوں پر لے جائے گا (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 10؛ زبور 23: 3)۔

برتِمائی نے مسیح کی پیروی کی کیونکہ مسیح مالک ہے۔ اُس نے مسیح کو "ربّونی" یعنی "میرے آقا، خُداوند" کہہ کر پکارا (آیت 51)۔ اُس نے مسیح کو خُداوند اور آقا کے طور پر تسلیم کیا جس کے پاس عطا کرنے کا اختیار ہے، اور وہ تحفہ کو بدل کر اُس سے بھی بہتر تحفہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برتِمائی نے اپنے آپ کو واحد حکیم، ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے اختیار کے تحت کر دیا۔

2۔ چشم دید گواہان اور معجزہ:

یہاں چشم دید گواہ مسیح کے گرد جمع ہونے والا ہجوم ہے۔ ہم اِس ہجوم کے افراد کو آج کلیسیا کی تصویر کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

آئیے غور کریں کہ اُنہوں نے کیا کیا:

الف۔ اُنہوں نے برتِمائی کو چُپ کرانے کےلئے جھڑکا:

اُنہوں نے مسیح کی کاوشوں اور وقت کے بارے میں فکرمندی کا اظہار کیا۔ مسیح نے یریحو میں موجودگی کے دوران منادی کی اور معجزے کئے۔ اُن کا خیال تھا کہ آپ کے پاس برتِمائی کےلئے وقت نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے یہ بھی سوچا کہ وہ برتِمائی کو مسیح کو پریشان کرنے سے روک کر مسیح کےلئے اپنی محبّت کا اظہار کر رہے تھے۔ کلیسیا بھی کبھی کبھار ایسا ہی کرتی ہے۔ جب یہ مسیح سے برکات حاصل کرتی ہے تو یہ اُنہیں دوسروں کے ساتھ نہیں بانٹتی۔ ہمارے ارد گرد کی دُنیا مسیح کی تلاش میں ہے۔ ہم بسا اوقات مسیح کو اپنے تک محدود رکھتے ہیں، یا پھر ہم اُن لوگوں کی راہ میں بطور ٹھوکر کھڑے ہوتے ہیں جنہیں مسیح کی ضرورت ہے!

ب۔ اُنہوں نے اُسے کہا، "خاطِر جمع رکھ۔ اُٹھ وہ تُجھے بُلاتا ہے۔"

جناب مسیح سب کےلئے خصوصاً ضرورت مندوں کےلئے آئے۔ اِس لئے مسیح نے بھیڑ کو روکا اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ برتِمائی کو بلائیں۔ وہاں موجود کچھ لوگوں نے مسیح کی نیک خواہش کو سمجھا۔ برتِمائی کو خاموش کرنے کےلئے ڈانٹے کے بعد اُنہوں نے مسیح کی فرمانبرداری میں برتِمائی کی طرف اپنا رویہ بدل لیا۔ اُنہوں نے برتِمائی سے کہا، "خاطر جمع رکھ۔ اُٹھ وہ تجھے بلاتا ہے۔"

وہاں کھڑے افراد ہمیں ایک اہم سبق سکھاتے ہیں۔ وہ اپنا ذہن بدلنے کےلئے تیار تھے تا کہ وہ مسیح کے ساتھ متفق ہو جائیں، اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں الٰہی فکر کا ادراک ہُوا تھا۔

داؤد بادشاہ نے ناتن نبی کو بتایا کہ وہ خُداوند کا گھر بنانا چاہتا ہے۔ ناتن نے اپنی منطقی سوچ کے مطابق داؤد بادشاہ کی تجویز کا جواب دیا اور خُداوند سے مشورہ کئے بغیر اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ تب خُداوند نے ناتن کو حکم دیا کہ وہ داؤد سے کہے کہ وہ یہ گھر نہ بنائے کیونکہ اُس کا بیٹا ہی اُسے بنائے گا۔ ناتن ایک عظیم شخص تھا کیونکہ وہ اپنے پہلے جواب کےلئے داؤد کے پاس معذرت کرنے گیا اور اُسے اپنا دوسرا جواب پیش کیا جو خُدا کی طرف سے تھا (2۔ سموئیل 7 باب)۔ سچا پیامبر مسیح کے ذہن کے مطابق ہونے کےلئے اپنا ذہن بدلتا ہے، اور جو کچھ مسیح سے حاصل کرتا ہے وہی لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔

ج۔ اُنہوں نے اُس کی راہنمائی کی۔

کچھ لوگوں نے اُسے ہجوم میں سے مسیح تک پہنچایا۔ چونکہ وہ اندھا تھا، اِس لئے اگر اُس نے اپنے طور پر مسیح تک پہنچنے کی کوشش کی ہوتی تو لوگوں سے ٹکرا جاتا۔ اُسے مسیح تک پہنچانے والوں نے اُس سے اور مسیح سے اپنی محبّت کا اظہار کیا۔

مسیح کی ہم سے توقع ہے کہ ہم اُس کی آواز کو پہچانیں اور اُس کا کلام ہمارے لبوں پر ہو۔ ہمیں ٹھوکر کھانے والے شخص کا ہاتھ پکڑ کر اُسے وہاں لے جانا چاہئے جہاں اُس کی مسیح سے ملاقات ہو سکے۔ کیونکہ لوگ مسیح کے بندوں کی تلاش نہیں کرتے بلکہ اُس کے بندوں کے ذریعے مسیح کو ڈھونڈتے ہیں۔ خُدا ہمیں بطور کلیسیا اپنی حدود کو جاننے کی توفیق بخشے۔ ہم صرف مسیح کے کلام کو لے جانے والے خادم ہیں، جن کا مالک مسیح ہے۔

3۔ مسیح اور معجزہ:

الف۔ مسیح ایک مشہور شخصیت

اُس نے یہ سُنا کہ وہاں یسوع ناصری ہے (اِنجیل بمطابق مرقس 10: 47): مسیح کی شخصیت انتہائی پُرکشش ہے۔ جو بھی آپ کے بارے میں سُنتا ہے، آپ کو جاننا اور آپ کے الفاظ کا مطالعہ کرنا پسند کرتا ہے۔ آپ ہر لحاظ سے بےمثل اور کامل ہیں۔ جب ہم مسیح کا اپنے دِل میں نجات دہندہ کے طور پر تجربہ کرتے ہیں، تو ہم زبور نویس کے ساتھ کہتے ہیں، "میرے دِل میں ایک نفیس مضمون جوش مار رہا ہے۔ مَیں وُہی مضامین سناؤں گا جو مَیں نے بادشاہ کے حق میں قلم بند کئے ہیں۔ میری زُبان ماہِر کاتب کا قلم ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 45: 1)۔

ب۔ مسیح ابنِ داؤد، رحم دِل:

"اَے اِبنِ داؤد! اَے یسوع! مجھ پر رحم کر" (آیت 47)۔ مسیح کی رحمت کتنی عظیم ہے! آپ نے اپنی خدمت لینے کےلئے ایک بھی معجزہ نہیں کیا۔ آپ کے تمام معجزات ضرورت مندوں کے لئے محبّت، ہمدردی اور شفقت کی وجہ سے تھے۔ "اُس نے بہت لوگوں کو اچھا کیا تھا۔ چنانچہ جتنے لوگ سخت بیماریوں میں گرفتار تھے اُس پر گرے پڑتے تھے کہ اُسے چھو لیں۔ اور ناپاک رُوحیں جب اُسے دیکھتی تھیں اُس کے آگے گر پڑتی اور پکار کر کہتی تھیں کہ تُو خُدا کا بیٹا ہے" (اِنجیل بمطابق مرقس 3: 10، 11)۔

ج۔ مسیح لاثانی:

ہجوم میں بہت سے لوگوں نے اندھے کو ڈانٹا۔ اُنہوں نے اُسے خاموش رہنے کی تلقین کی۔ لیکن مسیح نے اُس سے مختلف طرح کا سلوک کیا۔ "یسوع نے کھڑے ہو کر کہا اُسے بلاؤ" (آیت 49)۔ جناب مسیح ہر طرح سے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے مختلف تھے۔ پاک ہونے کا مطلب مختلف ہونا ہے۔ مسیح کا سوچنے کا انداز اور آپ کے ردعمل دوسروں سے مختلف تھے۔ انسانوں میں محدود صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں۔ وہ تھک جاتے ہیں اور اپنے آس پاس ہر فرد کی ضروریات کا خیال نہیں رکھ سکتے۔ جبکہ مسیح کی ہستی غیر محدود ہے، اور وہ اپنا در کھلا رکھتا ہے۔ جو کوئی آپ کے پاس آتا ہے، آپ اُسے ہرگز نہیں نکالیں گے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 6: 37)۔

د۔ مسیح کِسی کو مجبور نہیں کرتا:

مسیح نے برتِمائی سے پوچھا: "تُو کیا چاہتا ہے کہ مَیں تیرے لئے کروں؟" (آیت 51)۔ آپ نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے حالانکہ آپ اُس کی ضرورت جانتے تھے! آپ اب بھی ہم سے وہی سوال پوچھتے ہیں تا کہ ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ ہمیں انتخاب کرنے کی آزادی حاصل ہے اور آپ ہم پر جبر نہیں کرتے۔

آپ کہتے ہیں، "اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 3: 20)۔ "اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے۔۔۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 9: 23)۔ آپ کبھی کسی پر بوجھل مہمان نہیں تھے۔ آپ قدرت کے حامل ہیں، لیکن نرم دِل بھی ہیں اور انسان کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ آپ ہمیں محبّت کی ڈوریوں سے کھینچتے ہیں (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 11: 4)۔ اِس لئے ہم مسیح سے محبّت کرتے ہیں، کیونکہ اُس نے پہلے ہم سے محبّت کی (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 4: 19)۔

ہ۔ مسیح نجات دیتا ہے اور لائقِ پیروی ہے:

مسیح نے کہا، "جا تیرے ایمان نے تجھے اچّھا کر دیا۔" وہ فی الفور بِینا ہو گیا اور راہ میں یسوع کے پیچھے ہو لیا (آیت 52)۔ مسیح نے اُسے جسمانی اور رُوحانی شفا بخشی اور اُسے جانے دیا۔ لیکن برتِمائی نے مسیح کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسیح کی شخصیت میں بہت کشش موجود ہے جو ہمیں آپ سے محبّت اور احترام سے پیش آنے پر مجبور کر دیتی ہے اور ہم آپ کی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔ جب بھی ہم مسیح پر غور کرتے ہیں، تو ہم اُس کی صورت پر بننا چاہتے ہیں، کیونکہ اُس میں کوئی غلطی نہیں ہے جس کےلئے ہم معذرت خواہ ہوں یا نہ ہی کوئی عیب ہے جس کا ہم دفاع کریں یا لوگوں سے اُسے چھپاتے پھریں، یا پھر وضاحت دیتے رہیں! جب بھی ہم لوگوں کو مسیح کی عظمت دکھاتے ہیں تو وہ خُدا کو دیکھ کر شادمان ہوتے ہیں۔ آپ نے خود کہا، "جِس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 14: 9)۔

وہ "راہ میں اُس کے پیچھے ہو لیا۔" مسیح کی پیروی کرنا کسی خاص سوچ، فلسفے، یا عقیدے کی پیروی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک زندہ شخص کی پیروی کرنا ہے۔ یسوع ایک طرز زندگی ہے۔ اِسی لئے قدیم مسیحیت کو "طریق" کہا جاتا تھا (نیا عہدنامہ، اعمال 9: 2)۔

کیا آپ نجات دہندہ مسیح کو جان چکے ہیں؟ کیا آپ کی آنکھیں اُس کی محبّت کی عظمت کو دیکھ کر کھل گئی ہیں؟ آئیں راہ پر اُس کے پیچھے ہو لیں!

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، جب لوگ ہماری توہین کرتے ہیں، تُو ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب لوگ ہمیں نظرانداز کرتے ہیں، تُو ہمارا خیال رکھتا ہے۔ جب لوگ ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، تُو ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ جب لوگ ہمیں سُننا نہیں چاہتے، تُو مدد کےلئے ہماری فریاد سُنتا ہے۔ تُو ہماری پناہ گاہ ہے اور تجھ میں ہم محفوظ ہیں۔

ہم تیری پیروی کرتے ہیں کیونکہ تیری محبّت ہمارے دِلوں کو موہ لیتی ہے۔ اِس لئے ہم صلیب کے راہ پر تیری پیروی کرتے ہیں، جو قیامت اور صعود کی طرف لے جاتی ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. مسیح نے یریحو میں کتنے اندھے لوگوں کو شفا دی؟ کیوں مرقس صرف برتِمائی کا ذکر کرتا ہے؟

  2. برتِمائی نے مسیح تک پہنچنے کےلئے جو کچھ اُس کے پاس تھا اُسے کیسے استعمال کیا؟

  3. کیسے ایک فرد کو برتِمائی کے شفا یابی کےلئے اصرار میں اُس کی مالی حالت کےلئے خطرہ نظر آ سکتا ہے؟

  4. وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں ہمیں لازماً چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ وہ ہماری رُوحانی شفا میں رکاوٹ ہوتی ہیں؟

  5. برتِمائی نے شفا پانے کے بعد کیا اہم فیصلہ کیا؟ اور ہم اُس سے کیا سیکھتے ہیں؟

  6. کیسے ہم آج کی کلیسیا کا برتِمائی کی شفا یابی کے معجزے کے چشم دید گواہان سے موازنہ کر سکتے ہیں؟

  7. "مسیح بےمثل ہے۔" اِس خیال کی وضاحت کریں۔

چھبیسواں معجزہ: اِنجیر کے درخت پر لعنت

"اور وہ یروشلیم میں داخِل ہو کر ہیکل میں آیا اور چاروں طرف سب چیزیں ملاحظہ کر کے اُن بارہ کے ساتھ بیت عنیاہ کو گیا کیونکہ شام ہو گئی تھی۔ دُوسرے دِن جب وہ بیت عنیاہ سے نکلے تو اُسے بھوک لگی۔ اور وہ دور سے اِنجیر کا ایک درخت جس میں پتّے تھے دیکھ کر گیا کہ شاید اُس میں کچھ پائے۔ مگر جب اُس کے پاس پہنچا تو پتّوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ اِنجیر کا موسم نہ تھا۔ اُس نے اُس سے کہا آیندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھائے اور اُس کے شاگردوں نے سُنا۔ پھر وہ یروشلیم میں آئے اور یسوع ہیکل میں داخل ہو کر اُن کو جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے باہر نکالنے لگا اور صرّافوں کے تختوں اور کبوتر فروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیا۔ اور اُس نے کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔ اور اپنی تعلیم میں اُن سے کہا کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کےلئے دُعا کا گھر کہلائے گا؟ مگر تُم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔ اور سردار کاہن اور فقیہ یہ سُن کر اُس کے ہلاک کرنے کا موقع ڈُھونڈنے لگے کیونکہ اُس سے ڈرتے تھے اِس لئے کہ سب لوگ اُس کی تعلیم سے حیران تھے۔ اور ہر روز شام کو وہ شہر سے باہر جایا کرتا تھا۔ پھر صبح کو جب وہ اُدھر سے گذرے تو اُس اِنجیر کے درخت کو جڑ تک سوکھا ہُوا دیکھا۔ پطرس کو وہ بات یاد آئی اور اُس سے کہنے لگا اَے ربیّ! دیکھ یہ اِنجیر کا درخت جس پر تُو نے لعنت کی تھی سوکھ گیا ہے۔ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا خُدا پر ایمان رکھو۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اِس پہاڑ سے کہے تُو اُکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ اور اپنے دِل میں شک نہ کرے بلکہ یقین کرے کہ جو کہتا ہے وہ ہو جائے گا تو اُس کےلئے وُہی ہو گا۔ اِس لئے مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو کچھ تُم دُعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تُم کو مل گیا اور وہ تُم کو مل جائے گا۔ اور جب کبھی تُم کھڑے ہُوئے دُعا کرتے ہو اگر تمہیں کسی سے کچھ شکایت ہو تو اُسے معاف کرو تا کہ تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہارے گناہ معاف کرے۔ (اور اگر تُم معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے تمہارے گُناہ بھی معاف نہ کرے گا)۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 11: 11۔ 26)

"پھر اُس نے یہ تمثیل کہی کہ کسی نے اپنے تاکستان میں ایک اِنجیر کا درخت لگایا تھا۔ وہ اُس میں پھل ڈھونڈنے آیا اور نہ پایا۔ اِس پر اُس نے باغبان سے کہا کہ دیکھ تین برس سے مَیں اِس اِنجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا ہُوں اور نہیں پاتا۔ اِسے کاٹ ڈال۔ یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے؟ اُس نے جواب میں اُس سے کہا اَے خُداوند اِس سال تو اَور بھی اُسے رہنے دے تا کہ مَیں اُس کے گرد تھالا کھودوں اور کھاد ڈالوں۔ اگر آگے کو پھلا تو خیر نہیں تو اُس کے بعد کاٹ ڈالنا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 13: 6۔ 9؛ مزید دیکھئے متی 21: 18۔ 22)

یہ معجزہ ہمیں عجیب لگتا ہے، کیونکہ ہم مسیح کو بیماروں کو شفا دیتے، مُردوں کو زندہ کرتے اور ہر طالبِ برکت کو برکت دیتے ہوئے دیکھنے کے عادی ہیں۔ تاہم، اِس معجزے میں، ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے ایک بےپھل انجیر کے درخت پر لعنت بھیجی۔

ہم اِس معجزے سے اپنی رُوحانی زندگی کےلئے خُداوند کی توقعات کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، تا کہ جب ہم اُس کی محبّت پر انحصار کرتے ہیں تو ساتھ ہی اپنے ایمان کی عملی مشق سے غافل نہ ہو جائیں۔ یہ سچ ہے، وہ محبّت کا خدا ہے، لیکن وہ منصفِ اعلیٰ بھی ہے!

خُدا تعالیٰ نے اِنجیر کے اِس درخت کو پھل لانے کےلئے جو کچھ درکار تھا وہ سب دیا۔ لیکن اُس نے صرف سبز پتے پیدا کئے، جنہیں دیکھ کر کوئی بھی اُس درخت میں پھل ملنے کی امّید کرتا ہے۔ جناب مسیح اِس توقع کے ساتھ درخت کے پاس آئے کہ وہ پھل دے گا جس کےلئے لگایا گیا تھا۔ لیکن آپ نے اُس پر پتوں کے سِوا کچھ نہیں پایا، سو آپ نے اپنا فیصلہ صادر کیا، "آیندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھائے" (آیت 19)۔ تب اِنجیر کا وہ درخت فوراً سوکھ گیا۔

یہ معجزہ مقدّس ہفتہ میں پیر کو ہُوا۔ آئیے یاد رکھیں کہ اِس سے پہلے اتوار کا دِن، یروشلیم میں مسیح کے فاتحانہ داخلے کا دن تھا، جب آپ نے اُن لوگوں سے ہیکل کو صاف کیا جو وہاں کاروبار کر رہے تھے۔ ہیکل اپنے نظارے اور عمارتوں کے لحاظ سے بہت خوبصورت تھی، جو عبادت گزاروں سے بھری ہوتی تھی جو خُداوند کے حضور اپنی قربانیاں اور دہ یکی پیش کرنے آتے تھے۔ تاہم، اِس بیرونی منظر کے باوجود، یہ رُوح اور سچائی میں عبادت سے خالی تھی۔ لہٰذا جناب مسیح وہاں خرید و فروحت کرنے والوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آئے، اُنہیں وہاں سے باہر نکال دیا اور صرّافوں کے تختے اور کبوتر فروشوں کی چوکیاں اُلٹ دیں۔ آپ نے اُن سے کہا، "لکھا ہے کہ میرا گھر دُعا کا گھر کہلائے گا مگر تُم اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو" (اِنجیل بمطابق متی 21: 13)۔

اگلے دِن، پیر کو جناب مسیح پتوں بھرے اِس درخت کے پاس سے گزرے۔ یہ عبادت سے بھرپور ہیکل کی طرح تھا، جو رُوح کے بغیر تھی۔ یہ درخت پتوں سے بھرا تھا لیکن اِس میں کوئی پھل نہ تھا! جس طرح مسیح نے ہیکل کے بارے میں سزا کا اعلان کیا اور کہا کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے گا، اور پھر آپ کی نبوّت پوری ہوئی، اِسی طرح انجیر کے درخت کے ساتھ ہُوا کہ جب آپ نے اُس کی مذمّت کی تو وہ فوراً سوکھ گیا۔

متقی یہودی اِنجیر کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر خُدا کے کلام اور رحمتوں پر غور و فکر کرتے تھے۔ نتن ایل اِنجیر کے درخت کے نیچے بیٹھا غور و فکر کر رہا تھا، اور بعد میں جب مسیح کی اُس سے ملاقات ہوتی تو آپ نے اُس سے کہا، "اِس سے پہلے کہ فلپّس نے تجھے بلایا جب تُو اِنجیر کے درخت کے نیچے تھا مَیں نے تجھے دیکھا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 48)۔ اِنجیر کے درخت کو دیکھ کر تقویٰ اور عبادت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ لیکن جس اِنجیر کے درخت پر مسیح نے لعنت کی اُس کی حالت اِس کے برعکس تھی۔

انجیر کا درخت امن اور فراوانی کی علامت بھی ہے۔ اِس لئے کامیابی اور امن کے زمانے میں بنی اسرائیل کی حالت کا بیان اِس طرح سے کیا گیا ہے: "ایک ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے اِنجیر کے درخت کے نیچے دان سے بیرسبع تک امن سے رہتا تھا" (پرانا عہدنامہ، 1۔ سلاطین 4: 25)۔ جس اِنجیر کے درخت پر ہم یہاں غور کر رہے ہیں، وہ امن اور سلامتی کا تاثر دیتا ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

اِنجیر کا درخت بنی اسرائیل کی علامت بھی ہے۔ خُداوند کو اپنے انجیر کے درخت سے توقع تھی کہ وہ تمام اقوام کےلئے پھلدار ہو گا۔ لیکن اسرائیلی قوم پرستش کے جذبے کے بغیر عبادت کے خارجی ظہور سے مطمئن تھی، اِنجیل مقدّس اُن کے بارے میں کہتی ہے، "وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 11)۔ اِس لئے، وہ اُنہیں چھوڑ کر غیر قوموں کی طرف متوجہ ہُوا جو اُس کےلئے پھل لائیں۔ اِنجیر کے ملعون درخت نے واضح طور پر اسرائیلی قوم کی حالت کو بیان کیا، جس نے اپنے لئے خُداوند کی توقعات کو پورا نہ کیا۔

آئیں، ہم غور کریں:

  1. معجزہ کی احتیاج رکھنے والے لوگ

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزہ کی احتیاج رکھنے والے لوگ:

یہاں ضرورت مند لوگ وہ شاگرد ہیں جنہوں نے معجزہ دیکھا۔ اُنہوں نے دیکھا کہ اِنجیر کے بےپھل درخت پر لعنت ہوئی اور کیسے یہ سوکھ گیا۔ اُنہوں نے رُوحانی طور پر بہت سے مفید اسباق سیکھے۔ آئیے ہم چار اسباق پر غور کریں جن کی آج ہمیں شاید شاگردوں سے بھی زیادہ ضرورت ہے!

الف۔ بےکاری تباہی لاتی ہے:

اگرچہ اِنجیر کا درخت پتوں سے بھرا تھا اور زمین میں جس جگہ موجود تھا وہاں سے اُس نے رس حاصل کیا تھا، لیکن اِس کے باوجود اُس نے پھل نہ دیا جس کی اُس سے توقع تھی۔ اُس کی بےکاری اُس کے مرجھانے کی وجہ تھی۔

خُدا نے ہمیں زمین پر رکھا ہے تا کہ ہم پھل لائیں۔ "کیونکہ ہم اُسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہُوئے جن کو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کےلئے تیّار کیا تھا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 10)۔ ہم اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مُردہ تھے، لیکن مسیح نے ہمیں زندگی بخشی اور ہمیں ہمارے گناہوں کی مُردہ حالت سے زندہ کیا اور ہم اُس کے ساتھ آسمانی مقاموں میں بٹھائے گئے، تا کہ نیک اعمال کا پھل ظاہر کریں۔ مسیح ہمارے پھل کی تلاش میں ہمارے پاس آتا ہے۔ کیا ہم واقعی پھلدار ہیں، یا وہ روشنی جو ہم میں ہے تاریکی ہے؟ جناب مسیح ہم سے پوچھیں گے کہ ہم اُس کی بادشاہی اور دُنیا کےلئے کیسے فائدہ مند بنے۔ لہٰذا ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں کےلئے فائدہ مند ہو کر اپنے وجود کا جواز پیش کرنا چاہئے۔

ب۔ ریاکاری کا نتیجہ:

درخت میں بظاہر لگا کہ پھل موجود ہے، لیکن حقیقت میں اُس میں صرف پتے تھے۔ اُس میں پھل نہیں لگا تھا، کیونکہ اُس میں ایسا کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ اِس طرح سے یہ زبانی جمع خرچ اور ریاکاری کی علامت بن گیا۔

عظیم ہندوستانی راہنما گاندھی شاید مسیحیت کو قبول کر لیتے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں، وہ ساؤتھ افریقہ میں ایک گرجے میں دُعا کےلئے جایا کرتے تھے۔ جب گاندھی نے انگلستان میں تعلیم حاصل کی تو اِس دوران بھی وہ باقاعدگی سے گرجے جاتے تھے۔ تاہم، اُن گرجوں میں جا کر گاندھی نے کیا دیکھا؟ ساؤتھ افریقہ کے جس گرجے میں وہ گئے وہ ایک سماجی کلب کی طرح تھا جہاں لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ لطف اندوز ہونے جاتے تھے۔ اُس میں نجات کا کوئی پیغام نہیں تھا اور دوسرے لوگوں کےلئے کوئی فکر نہ تھی! انگلستان میں وہ ایک دِن گرجے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں کا وارڈن گاندھی کے پاس آیا اور کہا، "یہ جگہ تمہارے لئے نہیں ہے۔" پھر وہ گاندھی کو غیر سفید فام لوگوں کےلئے مختص جگہ پر لے گیا! تب گاندھی نے کہا، "اگر مسیحیوں کا یہ حال نہ ہوتا تو مَیں مسیحی بن گیا ہوتا!" اگر گاندھی حقیقت میں مسیحی ہو گئے ہوتے تو پورے ہندوستانی معاشرے پر اُن کا بہت بڑا اثر ہوتا، لیکن وہ اُن مسیحیوں سے رابطے میں آئے جو اِنجیر کے بےپھل درخت کی طرح تھے۔ بہت سے مسیحیوں کے پاس دین داری کی وضع ہوتی ہے، لیکن وہ اُس کے مطابق زندگی نہیں گزارتے (2۔ تیمتھیس 3: 5)۔

یسوع نے فرمایا، "جو ڈالی مُجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تا کہ زیادہ پھل لائے ۔۔۔ تُم مُجھ میں قائم رہو اور مَیں تُم میں۔ جِس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تُم بھی اگر مُجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے ۔۔۔ اگر کوئی مُجھ میں قائم نہ رہے تو وہ ڈالی کی طرح پھینک دیا جاتا اور سُوکھ جاتا ہے اور لوگ اُنہیں جمع کر کے آگ میں جھونک دیتے ہیں اور وہ جل جاتی ہیں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 15: 2۔ 6)۔

یہوداہ رسول نے بے پانی کے بادلوں کی بات کی ہے (نیا عہدنامہ، یہوداہ، آیت 12)۔ اُس بادل کا کیا فائدہ جو بارش نہ لائے کہ زمین پیداوار دے؟ یہ محض دھوکہ ہے کہ موسلادھار بارش کی امّیدیں پیدا کی جائے، لیکن بارش نہیں آئے! یہ سردیس کی کلیسیا کی سی حالت ہے، جس کے فرشتہ سے مسیح نے کہا، "مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہوں کہ تُو زندہ کہلاتا ہے اور ہے مُردہ" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 3: 1)۔ وہ ایک نام اور صورت رکھتے تھے، مگر حقیقت میں وہ زندگی سے عاری تھے۔ وہ اِنجیر کے درخت کی مانند تھے جس کی صورت تو تھی لیکن پھل نہ تھا۔

ج۔ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش بربادی کی طرف لے کر جاتی ہے:

جب ہمارے اوّلین والدین نے باغ عدن میں گناہ کیا اور اُس درخت کا پھل کھایا جس کا پھل اُنہیں کھانے سے منع کیا گیا تھا تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہیں معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اُنہوں نے اِنجیر کے پتوں کو ایک ساتھ سی کر اپنے لئے لُنگیاں بنائیں (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 7)۔ تاہم، یہ ناممکن تھا کہ وہ پتے اُنہیں چھپاتے کیونکہ اُنہوں نے سوکھ جانا تھا۔ تب خُدا نے یہ دکھانے کےلئے اُن کی آنکھیں کھولیں کہ اُنہیں تقویٰ کے لباس اور نجات کی خلعت کی ضرورت ہے۔ "خُداوند خُدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے" (پیدایش 3: 21)۔ ہمارے اوّلین والدین کو یہ سوچنے سے بچانے کےلئے کہ وہ اپنے آپ کو چمڑے کے کرتوں کے نیچے چھپانے سے (یعنی جانوروں کی قربانی کے ذریعے سے) معافی پا لیں گے، خُدا نے وعدہ کیا کہ عورت کی نسل سانپ کے سر کو کچل دے گی (پیدایش 3: 15)۔ "عورت کی نسل" کفارہ دینے والی اُس شخصیت کی طرف اشارہ ہے جو ہمارے گناہوں کو معاف کرتی اور ڈھانکتی ہے۔ اُس کی قربانی کے باعث اب بار بار قربانیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مسیح نے اپنے آپ کو قربان کرتے ہوئے، ایک ہی بار ہمیشہ کےلئے ابدی خلاصی بخشی۔ راستباز شخصیت نے گنہگاروں کےلئے اپنی جان دی۔ سو ہم آدم اور حوا کی اِنجیر کے پتوں سے خود کو ڈھانپنے کی کوشش میں ایک انسانی کاوش دیکھتے ہیں جو مکمل طور پر ناکام ہے۔

جب مسیح نے بےپھل اِنجیر کے درخت پر لعنت کی تو آپ ہم سب کو بتانا چاہتے تھے کہ کوئی بھی اپنی کوششوں سے راستباز نہیں ٹھہر سکتا۔ گناہوں سے راستباز ٹھہرنا صرف مسیح کی قربانی کی بدولت ہے، جس نے صلیب پر کہا، "تمام ہُوا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 30)۔ انسان کی اپنے آپ کو ڈھانکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی، کیونکہ یہ ایک ناکام گنہگار کا پھل ہیں۔ واحد نجات دہندہ مسیح ہے جس میں ہمیں اُس کے خون کے وسیلے سے مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے (نیا عہدنامہ، افسیوں 1: 7)۔

د۔ موثر دُعا:

متی اِنجیل نویس بتاتا ہے کہ "شاگردوں نے یہ دیکھ کر تعجب کیا اور کہا، یہ اِنجیل کا درخت کیونکر ایک دم میں سوکھ گیا۔ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر ایمان رکھو اور شک نہ کرو تو نہ صرف وہی کرو گے جو اِنجیر کے درخت کے ساتھ ہُوا بلکہ اگر اِس پہاڑ سے بھی کہو کہ تُو اکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ تو یوں ہی ہو جائے گا" (اِنجیل بمطابق متی 21: 20، 21)۔ مصری مسیحیوں کی تاریخ میں اِس آیت کا ایک خاص مقام ہے۔ فاطمی سلطنت کے دوران ایک یہودی شخص نے خلیفہ العزیز باللہ کو اِس آیت کے بارے میں بتایا۔ خلیفہ نے مصری بطریق کو بلوایا اور اُسے اپنی انجیل کی سچائی کو ثابت کرنے کےلئے جبل المقطم کو ہلانے کےلئے کہا۔ دُعا اور روزے کے بعد پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا۔ اِس واقعہ نے فاطمی حاکم کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔

آئیے، مسیح کے فضل سے ہم مسلسل گہری دُعائیہ زندگی بسر کریں تا کہ ہمیں دُعاؤں کا جواب ملے۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک زبردست وعدہ کیا: "اور جو کچھ تُم میرے نام سے چاہو گے مَیں وُہی کروں گا تا کہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے مُجھ سے کچھ چاہو گے تو مَیں وُہی کروں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 14: 13، 14)۔ مؤثر دُعا رکاوٹوں کے پہاڑوں کو ہٹا دیتی ہے۔ یہ خُدا کا کام سرانجام دینے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ یہ ہمیں خُدا کے فضل اور تبدیلی کو قبول کرنے کے قابل بناتی ہے۔ چاہے کیسی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں، یہ ہمیں اُنہیں برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ اِنجیر کے درخت پر لعنت کی وجہ سے مسیح پر تین اعتراضات کئے جاتے ہیں:

(1) کیسے مسیح کو اِنجیر کے درخت تک پہنچنے سے پہلے معلوم نہ تھا کہ وہ بے پھل ہے؟ ہم اِس کا جواب یہ کہتے ہوئے دے سکتے ہیں کہ اِنجیلی مصنفین نے کبھی بھی مسیح کے بارے میں اِس بات کا ذِکر نہیں کیا کہ آپ اِس حقیقت سے ناواقف تھے کہ اِنجیر کے درخت نے آپ کے پہنچنے سے پہلے کوئی پھل نہیں دیا تھا۔ آپ یہ جانتے تھے، لیکن آپ اپنے شاگردوں کو کچھ اسباق سکھانا چاہتے تھے۔ خُدا نے آدم سے پوچھا کہ "تُو کہاں ہے؟" اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خُدا جانتا نہ تھا کہ آدم کہاں ہے، بلکہ اِس لئے کہ آدم کو اپنی کی جانے والی غلطی کا احساس ہو جائے۔ خُدا انسان کے پیدا کرنے سے پہلے جانتا تھا کہ وہ گناہ کرے گا۔ لیکن اِس آگہی نے آدم سے گناہ نہیں کرایا۔ اِس علمِ سابق کی وجہ سے، خُدا نے مسیح کے فدیہ کے کام کو ترتیب دیا، جس کا علم بنایِ عالم سے پیشتر سے تھا (نیا عہدنامہ، 1۔ پطرس 1: 20)۔

(2) دوسرا اعتراض: جب اِنجیر کا موسم نہیں تھا تو مسیح کو اِنجیر کے درخت پر اِنجیر ملنے کی امّید کیسے ہُوئی (اِنجیل بمطابق مرقس 11: 13)؟ جواب: یہ اِنجیر کے پہلے پھل کا موسم تھا۔ پہلے پھل پکے ہوئے پھلوں سے حجم میں چھوٹے ہوتے تھے لیکن بہت میٹھے ہوتے تھے۔ پھل آنے سے پہلے اِنجیر کے درخت میں پتوں کی موجودگی کا عام طور پر مطلب یہ ہے کہ اُس میں پہلا پھل موجود ہو گا جس کی مسیح نے اُس میں توقع کی تھی۔

(3) مسیح نے اِنجیر کے درخت کو پھل دینے کا موقع دیئے بغیر اُس پر لعنت کیوں کی؟ اِس سوال کا جواب ہمیں اُس تمثیل میں ملتا ہے جو مسیح نے اِنجیر کے درخت پر لعنت بھیجنے سے پہلے کہی تھی۔ آپ نے کہا، "کسی نے اپنے تاکستان میں ایک اِنجیر کا درخت لگایا تھا۔ وہ اُس میں پھل ڈھونڈنے آیا اور نہ پایا۔ اِس پر اُس نے باغبان سے کہا کہ دیکھ تِین برس سے مَیں اِس اِنجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا ہُوں اور نہیں پاتا۔ اِسے کاٹ ڈال۔ یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے؟ اُس نے جواب میں اُس سے کہا، اَے خُداوند اِس سال تو اَور بھی اُسے رہنے دے تا کہ مَیں اُس کے گِرد تھالا کھودوں اور کھاد ڈالوں۔ اگر آگے کو پھلا تو خیر نہیں تو اُس کے بعد کاٹ ڈالنا" (اِنجیل بمطابق لوقا 13: 6۔ 9)۔

ہم اِس اِنجیر کے درخت کے حالات کے بارے میں نہیں جانتے۔ تاہم، مسیح کو معلوم ہو گا کہ اُس کے ساتھ صبر سے کام لیا گیا تھا، مگر وہ پھر بھی متوقع پھل نہیں لایا تھا۔ اِس لئے مسیح نے اُسے لعنتی قرار دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ درخت سوکھنے پر درد محسوس نہیں کرتے۔ مزید برآں، درخت کا کوئی مالک نہیں تھا جسے اُس کے سوکھنے سے نقصان پہنچ سکتا، کیونکہ یہ راہ کے کنارے موجود تھا۔ مسیح نے اِس معجزے سے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہمیں ریاکاری کی مذمّت کرنے کا بہت بڑا سبق سکھایا۔

ب۔ مسیح کی بابت ہمارے تین مشاہدات ہیں:

(1) مسیح کی طاقت: اِس طاقت نے شاگردوں کو حیران کر دیا۔ یہ طاقت ہمیں بھی حیران کر دیتی ہے، چاہے ہم مسلسل اِسے اپنے درمیان کام کرتے دیکھیں۔ بعض اوقات ہم اپنے درمیان ہونے والے مسیح کے معجزات کو دیکھنے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ہم اُنہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن جب بھی ہم اپنے درمیان خُدا کی طاقت کو کام کرتے ہوئے دیکھیں تو ہمیں حیران ہونا سیکھنے کی ضرورت ہے۔

(2) مسیح کا انصاف: بے پھل اِنجیر کا درخت لعنت کا مستحق تھا۔ یہ مسیح کا انصاف ہے۔ آپ نے اُسے مناسب موقع دیا تھا، لیکن اُس میں نہ تو پھل لگا اور نہ ہی پہلا پھل پیدا ہُوا۔ لہٰذا یہ خُدا کی طرف سے جو وفادار اور عادل ہے، آسمانی انصاف کی سزا کا مستحق تھا۔

(3) مسیح کا تحمّل: آپ نہیں چاہتے کہ کوئی ہلاک ہو، بلکہ چاہتے ہیں کہ ہم توبہ کریں۔ "یا تُو اُس کی مہربانی اور تحمّل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خُدا کی مہربانی تُجھ کو توبہ کی طرف مائل کرتی ہے؟ بلکہ تُو اپنی سختی اور غیر تائب دِل کے مطابق اُس قہر کے دِن کےلئے اپنے واسطے غضب کما رہا ہے جس میں خُدا کی سچی عدالت ظاہر ہو گی۔ وہ ہر ایک کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دے گا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 2: 4۔ 6)۔

آئیے ہم خُدا سے دُعا کریں کہ وہ ہمیں پھلدار بنائے، اور ہم اُس کے تحمّل کی بدولت پھل لانے اور زیادہ پھل لانے کےلئے کوشاں ہوں۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، ہم تیرا شکر کرتے ہیں کیونکہ تُو نے ہمیں اُن تمام چیزوں سے آراستہ کیا ہے جن کی ہمیں پھلدار بننے کےلئے ضرورت ہے۔ ہماری کمزوری کو معاف فرما جس کی وجہ سے ہم اپنے لئے تیری توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ تُو ہر اُس چیز پر اپنا قدرت بھرا ہاتھ رکھ جو ہمارے پھلنے پھولنے اور پھل لانے میں تاخیر کا باعث بنتی ہے، اور ہمیں اِن چیزوں کو دُور کرنے کی طاقت عطا فرما تا کہ ہم پھل لائیں اور ہمارا پھل بڑھے اور قائم رہے۔ آمین

سوالات

  1. ہم مسیح کے ہیکل کی صفائی اور اِنجیر کے درخت پر آپ کی لعنت سے کیا مشترک سبق سیکھ سکتے ہیں؟

  2. کس طرح سے ملعون اِنجیر کا درخت اسرائیلی قوم سے مشابہت رکھتا ہے؟

  3. واضح کریں کہ کس طرح بےکاری تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔

  4. یہ بیان کریں کہ ریاکاری کس طرح سزا کی جانب لے جاتی ہے۔

  5. مسیح پر تین اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ اُن کا ذِکر کریں اور جواب دیں۔

ستائیسواں معجزہ: ملخُس کے کان کو شفا دینا

"وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک بِھیڑ آئی اور اُن بارہ میں سے وہ جس کا نام یہوداہ تھا اُن کے آگے آگے تھا۔ وہ یسوع کے پاس آیا کہ اُس کا بوسہ لے۔ یسوع نے اُس سے کہا اَے یہوداہ کیا تُو بوسہ لے کر اِبنِ آدم کو پکڑواتا ہے؟ جب اُس کے ساتھیوں نے معلوم کیا کہ کیا ہونے والا ہے تو کہا اَے خُداوند کیا ہم تلوار چلائیں؟ اور اُن میں سے ایک نے سردار کاہن کے نوکر پر چلا کر اُس کا دہنا کان اُڑا دیا۔ یسوع نے جواب میں کہا اِتنے پر کفایت کرو اور اُس کے کان کو چھو کر اُس کو اچھا کیا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 47۔ 51؛ مزید دیکھئے متی 26: 51۔ 54؛ مرقس 14: 47، اور یوحنا 18: 10، 11)

یہ معجزہ بالکل منفرد ہے، معنٰی اور گہرے اسباق سے بھرا ہُوا ہے، حالانکہ یہ اپنے اردگرد بہت زیادہ اہم واقعات، یعنی مسیح کی گرفتاری اور آپ کے مقدمے کے پیش نظر پھیکا سا لگتا ہے۔ یہ واحد وہ معجزہ ہے جس میں مسیح نے ایک ایسے شخص کو شفا بخشی جسے کسی نے زخمی کیا تھا، اور یہ مسیح کا آخری شفا بخش معجزہ بھی ہے جب آپ جسم میں زمین پر تھے۔

ملخُس ہیکل کی حفاظت کرنے والے سپاہیوں کے ساتھ تھا، جو یہوداہ اسکریوتی کی راہنمائی میں مسیح کو گرفتار کرنے کےلئے جا رہے تھے۔ پطرس نے مسیح کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو اُس نے ملخُس کو اپنی تلوار سے مارا اور اُس کا کان اُڑا دیا۔ لیکن مسیح نے پطرس کے عمل پر اعتراض کیا اور ملخُس کا کان ٹھیک کر دیا۔ اپنی گرفتاری کے دوران بھی مسیح نے معجزہ کیا اور محبّت کی تعلیم دی۔ یہ معجزہ ہمارے لئے مسیح کی اپنے دشمنوں کےلئے محبّت اور اُن کےلئے مسیح کی کامل نیکی کو ثابت کرتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی یہ ہم پر آپ کی زبردست طاقت اور الوہیّت کو ظاہر کرتا ہے۔

مسیح کے اِس معجزے کے بارے میں پڑھتے ہوئے، صلیب پر مسیح کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جن میں آپ نے اپنے مصلوب کرنے والوں کےلئے دُعا کی: "اے باپ، اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)۔ ایسے وقت میں مسیح کے علاوہ کون ایسی درخواست کر سکتا ہے؟ بےشک، مسیح معلم محبّت ہے جو ہمیشہ محبّت پر عمل پیرا ہوتا ہے۔

چاروں اِنجیلی مصنفین نے اِس معجزے کا ذِکر کیا ہے۔ مقدّس لوقا طبیب جس نے مسیح کی فکر اور لوگوں کےلئے محبّت بیان کی، وہ واحد مصنف ہے جس نے مسیح کے الفاظ کا کہ "اِتنے پر کفایت کرو" حوالہ دے کر ذِکر کیا کہ مسیح نے اُس کان کو شفا بخشی جو کٹ چکا تھا (لوقا 22: 51)۔ ہم نہیں جانتے کہ مسیح نے یہ الفاظ کس سے کہے، شاگردوں سے یا اُن سے جو آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ اگر یہ الفاظ شاگردوں سے کہے گئے تھے تو آپ کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ "وہیں رک جاؤ، مزید حملہ نہ کرو۔ صبر سے کام لو اور بدی کا مقابلہ بدی کے ساتھ نہ کرو۔" اگر آپ نے یہ الفاظ سپاہیوں سے کہے تھے تو آپ کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ "سب شاگردوں کو اُن میں سے ایک کے کئے کی سزا نہ دو۔ اُنہیں معاف کر دو، اور میرے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دو کہ مَیں زخمی کان کو ٹھیک کر دوں۔"

مقدّس یوحنّا وہ واحد مصنف ہے جس نے سردار کاہن کے نوکر پر تلوار چلانے والے شاگرد کا نام درج کیا ہے جو پطرس تھا، اِسی طرح اُس نے اُس شخص کا نام بھی بتایا ہے، ملخُس، جس کا کان اُڑ گیا تھا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مقدّس یوحنّا، مسیح کی زندگی کا احوال درج کرنے والا آخری اِنجیلی مصنف تھا۔ اِس اِنجیلی بیان کے لکھنے سے پہلے پطرس رسول کی شہادت ہو چکی تھی، اِس لئے پطرس کا نام بتانے میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ مزید برآں، یوحنّا اعلیٰ حلقوں کے قریب تھا اور سردار کاہن سے واقف تھا (یوحنّا 18: 15)۔ وہ سردار کاہن کے نوکر کا نام جانتا تھا اور اُس نے ہمارے لئے اُس کے نام کا اندراج کیا۔ یوحنّا ایک عینی شاہد تھا۔ وہ کان اُڑانے والے کو بھی جانتا تھا اور اُسے بھی جس کا کان کٹ گیا تھا۔ وہ تصدیق کرتا ہے کہ جو کچھ اُس نے دیکھا ہے وہ سچا اور قابل بھروسا ہے، تا کہ ہم محبّت کرنے والے، معاف کرنے والے اور مرد معجزات، مسیح پر ایمان لائیں۔

چاروں اِنجیلی مصنفین نے اِس معجزے کے بعد مسیح کے مختلف تبصروں کو درج کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مسیح نے اپنے شاگردوں اور اُن لوگوں کے ساتھ جنہوں نے آپ کو گرفتار کیا، پطرس کے عمل کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ ہر ایک اِنجیلی مصنف نے مسیح کی کسی نہ کسی بات کو درج کیا ہے، جبکہ متی نے دوسروں کی نسبت اِس واقعہ کا زیادہ اندراج کیا ہے۔

ملخُس کے کان کو شفا دے کر، مسیح نے اِس شخص کی مصیبت کو ختم کر دیا۔ ساتھ ہی آپ نے پطرس کی غلطی کو بھی درست کر دیا۔ آپ نے اُس نقصان دہ اثر کو بھی روکا جو اِس واقعے سے شاگردوں پر پڑ سکتا تھا۔ آپ نے اُنہیں اپنے ساتھ گرفتار ہونے سے بچایا، اور تمام مقدمہ کا سامنا خود ہی کیا۔ آپ نے اِس غلطی کی پوری ذمہ داری اٹھائی تا کہ وہ بچ جائیں۔ یوں جنہوں نے آپ کو گرفتار کیا وہ آپ کو صلیب پر لے گئے۔

آئیں مسیح کے سامنے، جو حیرت انگیز شخصیت ہے، اپنا سر جُھکائیں، اور اِس معجزے کے تعلق سے درج ذیل باتوں پر غور کریں:

  1. وہ افراد جنہیں معجزے کی ضرورت تھی

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ وہ افراد جنہیں معجزے کی ضرورت تھی

پہلی نظر میں یوں لگتا ہے کہ جسے معجزے کی ضرورت تھی وہ ملخُس ہے، کیونکہ اُس کا دہنا کان کٹ گیا تھا۔ لیکن اِس معجزے کی پہلی احتیاج پطرس کو تھی، اور ساتھ ہی ہمیں بھی ہے۔ اپنے جوش میں پطرس نے تشدد کے جواب میں تشدد کا استعمال کیا۔ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، حالانکہ ہمارے اعمال کے نتیجے میں ہونے والے نقصان اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہوتے جتنا جلدی پطرس کی غلطی کا نتیجہ ٹھیک کیا گیا۔ ہم کتنی ہی بار مسیح کی محبّت، فکر اور معافی سے دُور ہونے کی وجہ سے وہ کام کرتے ہیں جو غلط اور تباہ کن ہوتا ہے۔

آئیے ہم ملخُس پر غور کریں جسے اِس معجزے کی احتیاج تھی، اور پطرس پر بھی جو ہماری ترجمانی کرتا ہے کیونکہ اُسے بھی اِس معجزے کی احتیاج تھی۔

الف۔ ملخُس:

اُس کے نام کا مطلب "بادشاہ" ہے، لیکن اُس کا طرزِ عمل گناہ کے غلام جیسا تھا۔ وہ خود فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں تھا، اور ایک نوکر ہونے کے ناطے وہ اپنے آقا، سردار کاہن کی خواہشات کے تابع تھا۔ وہ اُن لوگوں سے مختلف تھا جو مسیح کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ وہ سپاھیوں کے طور پر اپنی اجرت کا دعویٰ کر سکتے تھے، جبکہ اُس نے اپنے آقا سے مسیح کے بارے میں بہت کچھ سُنا تھا، اِس لئے اُس نے مسیح کو سردار کاہن کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ اور اِس کے مطابق اُس نے سوچا کہ مسیح حکومت کےلئے خطرہ ہے کیونکہ لوگ اُسے بادشاہ کے طور پر مقرر کرنا چاہتے تھے۔ اور اگر ایسا ہُوا تو رومی اِسے اپنے خلاف بغاوت سمجھیں گے اور ملک پر حملہ کر کے اُسے تباہ کر دیں گے۔ اِس لئے سردار کاہن نے کہا تھا، "تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی امّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو" (یوحنّا 11: 50)۔ اِس کا مطلب تھا کہ مسیح کو مرنا پڑے گا! جب ملخُس اِس بات کا قائل ہو گیا تو وہ پوری قوم کی خدمت کے مقصد سے مسیح کو گرفتار کرنے کےلئے سپاہیوں کے ساتھ نکلا۔ جیسے ہی پطرس نے حملہ آوروں کو آتے دیکھا، اُس نے اپنی تلوار نکالی، ملخُس پر چلائی اور اُس کا کان اُڑا دیا!

چاروں اِنجیلی بیانات کے مصنفین میں سے کوئی بھی اِس بات کا ذِکر نہیں کرتا کہ ملخُس شفا پانے کے بعد، جو کچھ کرنے آیا تھا اُس سے پیچھے ہٹ گیا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملخُس کس قدر ناشُکرا تھا۔ اُسے مسیح کی طرف سے ایک نعمت حاصل ہوئی تھی، لیکن اُس نے مسیح کا کوئی شکریہ ادا نہ کیا، نہ ہی آپ کے کام کو تسلیم کیا۔ اُس نے توبہ کا اظہار نہیں کیا۔ اُس نے مسیح کی محبّت کےلئے غیر جوابدہ رہ کر مسیح کے خلاف شیطان کے مقدمے کو اپنا بنا لیا۔

بہت سے ہیں جن پر احسان ہوتا ہے، لیکن بہت ہی کم ہیں جو اُسے پہچانتے ہیں اور شکر گزار ہوتے ہیں!

ب۔ پطرس:

(1) شاگردوں کو ایک مخمصے کا سامنا تھا، وہ مسیح کا دفاع کرنے کےلئے تلوار کا استعمال کرنے اور عدم تشدد کی مسیح کی تعلیم پر عمل کرنے کے درمیان جدوجہد کر رہے تھے۔ آپ نے ایک بار اپنے شاگردوں سے کہا تھا، "جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے" (لوقا 22: 36)۔ وہ مسیح کے الفاظ کا رُوحانی مفہوم نہ سمجھے تو اُنہوں نے جواب دیا "دیکھ یہاں دو تلواریں ہیں۔" تب آپ نے اُن سے کہا "بہت ہیں۔" آپ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دو تلواریں کافی تھیں، بلکہ آپ اُنہیں اِس بات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ اِس موضوع پر کافی بات ہو چکی تھی جو اُنہیں سمجھ نہیں آئی تھی۔ آپ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا تھا کہ جو کچھ آپ نے کہا تھا وہ کافی تھا کیونکہ وہ آپ کی طرف سے مطلوبہ رُوحانی معنٰی کچھ دیر بعد سمجھیں گے۔

یوں لگتا ہے کہ دو تلواروں میں سے ایک پطرس کے پاس تھی۔ جب بھیڑ باغ میں مسیح کو گرفتار کرنے آئی تو مسیح کے شاگردوں نے اُن سے پوچھا، "اے خُداوند کیا ہم تلوار چلائیں؟" (لوقا 22: 49)۔ پطرس نے جواب کا انتظار نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح جذباتی تھا۔ اُس نے تحمّل کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اپنی تلوار نکالی اور عدم توازن کے نتیجہ میں اُس نے ملخُس کا کان اُڑا دیا۔ پطرس کے عمل کے پیچھے مقصد درست تھا، لیکن اُس کا عمل بلاشبہ غلط تھا۔

اکثر ہم دباؤ میں عجلت سے کام لیتے ہیں یہاں تک کہ ہم خُداوند کی آواز سننے کا انتظار نہیں کرتے۔ اِس لئے ہم غلطیاں کرتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں ہمیشہ خُداوند کی ہدایات کا انتظار کرتے ہوئے اُس کے حضور دِلی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ آئیے ہم سوال کریں، "اے خُداوند، مَیں کیا کروں؟" (نیا عہدنامہ، اعمال 22: 10)۔

پطرس نے جو کچھ کیا اُس پر مسیح کا تبصرہ یہ تھا "اپنی تلوار کو میان میں کر لے، کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (متی 26: 52)۔ اِن الفاظ کے دو معانی ہیں:

  • اُنہیں سزا نہ دو۔ اُنہیں آسمانی انصاف پر چھوڑ دو۔ اُنہوں نے تلوار اُٹھائی ہے اور تلوار سے ہلاک ہو جائیں گے۔ سب تلوار چلانے والوں کے ساتھ یہی ہُوا ہے۔ اُن کی زندگی تلوار سے ختم ہوئی، کیونکہ وہ آسمانی سوچ کے برعکس جنگ کرنے والے تھے۔

  • مسیح کو اپنے دفاع کےلئے انسانی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پاس فرشتوں کے بارہ سے زیادہ لشکر ہیں جو ایسا کر سکتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ الہٰی انصاف غالب ہو گا، جو کہتا ہے، "انتقام لینا میرا کام ہے، بدلہ مَیں ہی دوں گا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 19)۔

درحقیقت، چالیس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ مسیح کو گرفتار کرنے والے یروشلیم میں صلیبوں پر لٹکائے گئے۔ اُس دِن پتھر پر پتھر باقی نہ رہا جو گرایا نہ گیا۔ یوں مسیح کی پیش گوئی پوری ہوئی (مرقس 13: 2)۔

(2) پطرس ملخُس کو مارنا چاہتا تھا، لیکن الہٰی عنایت نے اُسے ایک آدمی کو مارنے سے بچا دیا۔ مسیح نے ملخُس کو شفا دے کر پطرس کے ساتھ ساتھ باقی شاگردوں پر بھی مہربانی کی۔ اگر ملخُس مر جاتا تو پطرس اور دوسرے شاگرد گرفتار ہو جاتے۔ اِس طرح سے خُداوند نے اُنہیں اِس خطرے سے محفوظ رکھا۔

مسیح نے ملخُس کے ساتھ بھی مہربانی کی۔ اگر پطرس نے اُسے قتل کر دیا ہوتا تو وہ توبہ کرنے کا موقع ملے بغیر مر جاتا۔ جناب مسیح، اُسے ٹھیک کرنے کےلئے اُس کے کان کو چھوتے ہوئے، اُسے توبہ کرنے کا ایک اَور موقع فراہم کر رہے تھے۔

(3) پطرس، صلیب اور دکھوں کے بارے میں مسیح کے الفاظ اور مصلوب ہونے کےلئے مسیح کے پکڑوائے جانے کی ضرورت کو بھول گیا تھا۔ مسیح نے یہ کہہ کر پطرس کو ہوش دلایا کہ "یہ سب کچھ اِس لئے ہُوا کہ نبیوں کے نوِشتے پورے ہوں" (متی 26: 56)۔ پطرس نے پہلے بھی مسیح کو مصلوب کرنے کے خیال کو رد کر دیا تھا، اور مسیح نے اُسے خبردار کیا تھا کہ وہ شیطان کا ساتھ دے رہا ہے، حالانکہ وہ مسیح سے محبّت کا اظہار کر رہا تھا (مرقس 8: 31۔ 33)۔ مسیح گنہگاروں کی خاطر اپنا آپ قربان کرنے آیا تا کہ اُنہیں بچایا جا سکے (مرقس 10: 45؛ لوقا 19: 10)۔ پطرس مسیح کےلئے شدید غیرت رکھتا تھا، مگر اُس کا جوش معرفت کے بغیر تھا۔

(4) پطرس نے تشدد کا استعمال کیا، حالانکہ تشدد کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تشدد کا استعمال کرنا بیکار، غیر ضروری اور غیر منطقی ہے، کیونکہ مسیح کے پاس آسمان اور زمین کا کُل اختیار موجود ہے۔ صرف اُسی کے اختیار سے ہم لوگوں کو بچا سکتے ہیں اور بادشاہی کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ آئیے ہم سیکھیں کہ کس طرح اپنے آپ کو مسیح کے ذہن کے تابع کرنا ہے، اور اُن طریقوں کا استعمال کریں جو اُس کو پسند ہیں، کیونکہ جو لوگ اپنے مالک کی تعظیم کرتے ہیں انہیں اُس کے سوچنے کے انداز اور اُس کی روح پر غور کرنا چاہئے، تا کہ وہ اُس کے مطابق عمل کر سکیں۔

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح کے تعلق سے چار اہم باتیں:

(1) مسیح زورآور ہے: مسیح کی شخصیت اُس وقت کمزور دکھائی دیتی ہے جب آپ کے شاگردوں میں سے ایک آپ کے دشمنوں کو لے کر آپ کے پاس آیا کہ مسیح کو گرفتار کریں۔ لیکن مسیح کی ظاہری کمزوری آپ کی کامل باطنی طاقت کو چھپا نہیں سکتی تھی۔ اگرچہ مسیح کی قدرت اُس کے جسم یعنی پردہ کے پیچھے چھپی تھی، لیکن مسیح نے اُس کے کٹے ہوئے کان کو شفا بخشی (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 10: 20)۔

(2) مسیح معاف کرتا ہے: مسیح نے ایک ایسے شخص کے کان کو چھؤا جو آپ کو مار ڈالنے کےلئے آپ کو گرفتار کرنا چاہتا تھا! اُن لوگوں کے دِل کتنے سخت تھے جو آپ کو مارنا چاہتے تھے! جبکہ مسیح کا دل کتنا نرم ہے! مسیح نے اپنی تکلیف اور اُن کے ناشکر رویے کو بُھلا دیا۔ آپ نے اُس غریب ملخُس کے بارے میں سوچا جس کے زخم سے خون بہہ رہا تھا! آپ نے اُسے بطور ایک گنہگار کے طور پر لیا جسے توبہ کی ضرورت تھی، اور ساتھ ہی آپ نے اُسے ایک بیمار شخص کے طور پر بھی لیا جسے طبی مدد کی ضرورت تھی! آپ نے اُس کے کان اور دِل کو چھؤا کہ شاید وہ توبہ کر لے!

ملخُس کا مسیح کے ساتھ برتاؤ برا اور تشدد بھرا تھا، جبکہ مسیح نے اُس کے ساتھ نرمی اور شفا بخش لمس کے ساتھ سلوک کیا۔ یسوع مسیح اَب بھی اپنے مخالفین کے ساتھ اِسی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ آپ اُنہیں محبّت کے لمس سے چھوتے ہیں تا کہ وہ آپ کی طرف لوٹیں اور اپنے گناہوں کا اقرار کریں تا کہ آپ اُنہیں نجات اور کثرت کا اطمینان اور فضل عطا کریں، جس میں اُن کی کسی قابلیت کا کوئی عمل دخل نہیں۔

(3) مسیح تعلیم دیتا ہے: مسیح نے ہمیں سکھایا ہے کہ جو تلوار استعمال کرتا ہے وہ اُس سے مرے گا۔ آپ نے کہا، "جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (متی 26: 52)۔ تورات کے الفاظ یہ ہیں: "جو آدمی کا خون کرے گا اُس کا خون آدمی سے ہو گا" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 9: 6)۔ بائبل مقدّس کی آخری کتاب بھی یہی اعلان کرتی ہے: "جو کوئی تلوار سے قتل کرے گا وہ ضرور تلوار سے قتل کیا جائے گا" (مکاشفہ 13: 10)۔ تلوار کتابوں کے مقابلے میں ابلاغ کا ایک کمزور ذریعہ ہے۔ اِس کا رُوح القُدس کے مقابلے میں کمزور اثر ہے۔ رُوح القُدس اپنی قائل کرنے والی قدرت اور دِلوں میں اپنے کام سے اِنجیل پھیلانے میں مصروف ہے، نہ کہ تلوار کی طاقت سے۔ رُوح خوشخبری کے کلام کی سچائی کے قابل اعتبار ہونے سے قائل کرتا ہے۔ وہ ہمارے دِلوں کو مسیح کےلئے کھولتا ہے جس نے فرمایا، "مَیں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا" (یوحنّا 12: 32)۔

(4) نبوّتوں کی تکمیل کےلئے صلیب کی ضرورت: مسیح نے اعلان کیا کہ آپ اپنے آسمانی باپ سے فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ فراہم کرنے کےلئے کہہ کر صلیب سے بچ سکتے تھے۔ تاہم، اِس سے وہ پیشین گوئیاں پوری نہیں ہونی تھیں جن کا پورا ہونا ضروری تھا۔ مسیح نے پوچھا، "مگر وہ نوِشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے؟" (متی 26: 54)۔ پولس رسول نے قدیم ترین اقرار الایمان میں کہا، "چنانچہ مَیں نے سب سے پہلے تُم کو وہی بات پہنچا دی جو مُجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتابِ مقدّس کے مطابق ہمارے گناہوں کےلئے مؤا۔ اور دفن ہُوا اور تیسرے دن کتابِ مقدّس کے مطابق جی اُٹھا" (1۔ کرنتھیوں 15: 3، 4)۔

کسی نے بھی مسیح کی جان نہیں لی، بلکہ مسیح نے یہ جانتے ہوئے اُسے خود قربان کیا کہ وہ نجات دہندہ اور اپنے لوگوں کا چرواہا ہے (یوحنّا 10: 11)۔

ب۔ ہم ملخُس کے کان کی شفا کے معجزہ سے بہت سی باتیں سیکھ سکتے ہیں:

(1) گرفتار ہونے والا شخص درحقیقت خود مسیح تھا۔ وہ مسیح کی طرح نظر آنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں تھا۔ یہ بات اِس حقیقت سے ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے کامل محبّت اور زبردست قدرت سے ملخُس کے کان کو ٹھیک کیا۔ وہاں کوئی دوسرا شخص ملخُس کے کان کو ٹھیک نہیں کر سکتا تھا اور نہ اِس طرح کی محبّت اور معافی کے ساتھ پیش آ سکتا تھا۔

(2) ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اعمال اور سلوک سے خُداوند کا مقابلہ کریں، لیکن وہ ہم سے محبّت کرتا ہے اور ہمیں بچانا چاہتا ہے۔

(3) ہمیں مسیح کےلئے اپنی محبّت کا اظہار اُس کے طریقے سے، اور اُس کی سوچ کے مطابق کرنا چاہئے۔ خُدا کرے کہ ہم میں مسیح کا مزاج ہو۔

(4) ہم سب مسیح کی صلیب کی بدولت نجات پاتے ہیں۔ پولس رسول کے الفاظ ہمارا نصب العین ہونا چاہئے: "خُدا نہ کرے کہ مَیں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خُداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دُنیا میرے اعتبار سے مصلوب ہُوئی اور مَیں دُنیا کے اعتبار سے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 14)۔

دُعا

ہمارے آسمانی باپ، اُس فرد کےلئے تیری محبّت، جو محبّت کی راہ میں مزاحمت کرنے کےلئے آیا تھا، ہمارے دِلوں کو حیرت اور تعظیم میں جُھکا دیتی ہے۔ جب ہم ملخُس کے حملہ اور پطرس کی جلدبازی میں شریک ہوں تو ہمیں معاف کر دے۔ ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم تیری قدرت اور محبّت بھرے ہاتھ کی بدولت وہ سب کچھ واپس پائیں جو تیری راہ سے بھٹکنے کے دوران ہم سے کھو گیا ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. دو وجوہات کا تذکرہ کریں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ہی وہ شخص تھا جسے اُنہوں نے گرفتار کیا تھا، نہ کہ کوئی اَور۔

  2. ملخُس کے کان کی شفا کے نتیجے میں سامنے آنے والی چار برکات کا ذِکر کریں۔

  3. نام "ملخُس" کا کیا مطلب ہے، اور کیسے اُس کا نام اُس کے کاموں سے متصادم نظر آتا ہے؟

  4. کیا مسیح کے معجزے نے ملخُس کا مسیح کے بارے میں رویہ بدل دیا؟ اگر نہیں تو کیوں؟

  5. جب شاگردوں نے مسیح سے کہا کہ "دیکھ یہاں دو تلواریں ہیں،" تو جواب میں آپ کے الفاظ "بہت ہیں" کا کیا مطلب تھا؟

  6. مسیح کے اِس قول پر ایک تبصرہ لکھیں: "جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔"

  7. اِس معجزے سے صلیب کی ضرورت کی وضاحت کریں۔

اٹھائیسواں معجزہ: 153 مچھلیوں کا شکار

"اِن باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تِبریاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اِس طرح ظاہر کیا۔ شمعون پطرس اور توما جو تواَم کہلاتا ہے اور نتن ایل جو قانایِ گلیل کا تھا اور زبدی کے بیٹے اور اُس کے شاگردوں میں سے دو اَور شخص جمع تھے۔ شمعون پطرس نے اُن سے کہا مَیں مچھلی کے شکار کو جاتا ہُوں۔ اُنہوں نے اُس سے کہا ہم بھی تیرے ساتھ چلتے ہیں۔ وہ نکل کر کشتی پر سوار ہُوئے مگر اُس رات کچھ نہ پکڑا۔ اور صبح ہوتے ہی یسوع کنارے پر آ کھڑا ہُوا مگر شاگردوں نے نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ پس یسوع نے اُن سے کہا بچّو! تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اُس نے اُن سے کہا کشتی کی دہنی طرف جال ڈالو تو پکڑو گے۔ پس اُنہوں نے ڈالا اور مچھلیوں کی کثرت سے پھر کھینچ نہ سکے۔ اِس لئے اُس شاگرد نے جس سے یسوع محبّت رکھتا تھا پطرس سے کہا کہ یہ تو خُداوند ہے۔ پس شمعون پطرس نے یہ سُن کر کہ خُداوند ہے کُرتہ کمر سے باندھا کیونکہ ننگا تھا اور جھیل میں کود پڑا۔ اور باقی شاگرد چھوٹی کشتی پر سوار مچھلیوں کا جال کھینچتے ہُوئے آئے کیونکہ وہ کنارے سے کچھ دُور نہ تھے بلکہ تخمیناً دو سو ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ جس وقت کنارے پر اُترے تو اُنہوں نے کوئلوں کی آگ اور اُس پر مچھلی رکھّی ہُوئی اور روٹی دیکھی۔ یسوع نے اُن سے کہا جو مچھلیاں تُم نے ابھی پکڑی ہیں اُن میں سے کچھ لاؤ۔ شمعون پطرس نے چڑھ کر ایک سو ترپن بڑی مچھلیوں سے بھرا ہُوا جال کنارے پر کھینچا مگر باوجود مچھلیوں کی کثرت کے جال نہ پھٹا۔ یسوع نے اُن سے کہا آؤ کھانا کھا لو اور شاگردوں میں سے کسی کو جرأت نہ ہُوئی کہ اُس سے پوچھتا کہ تُو کون ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خُداوند ہی ہے۔ یسوع آیا اور روٹی لے کر اُنہیں دی۔ اِسی طرح مچھلی بھی دی۔ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہُوا۔ اور جب کھانا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا اَے شمعون یوحنّا کے بیٹے کیا تُو اِن سے زیادہ مجھ سے محبّت رکھتا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا ہاں خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا، تُو میرے برّے چرا۔ اُس نے دوبارہ اُس سے پھر کہا اَے شمعون یوحنّا کے بیٹے کیا تُو مجھ سے محبّت رکھتا ہے؟ اُس نے کہا ہاں خُداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ مَیں تجھ کو عزیز رکھتا ہُوں۔ اُس نے اُس سے کہا تُو میری بھیڑوں کی گلّہ بانی کر۔ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا اَے شمعون یوحنّا کے بیٹے کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ چونکہ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے اِس سبب سے پطرس نے دلگیر ہو کر اُس سے کہا اَے خُداوند! تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ مَیں تجھے عزیز رکھتا ہُوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُو میری بھیڑیں چرا۔ مَیں تجھ سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تُو جوان تھا تو آپ ہی اپنی کمر باندھتا تھا اور جہاں چاہتا تھا پھرتا تھا مگر جب تُو بوڑھا ہو گا تو اپنے ہاتھ لمبے کرے گا اور دوسرا شخص تیری کمر باندھے گا اور جہاں تُو نہ چاہے گا وہاں تجھے لے جائے گا۔ اُس نے اِن باتوں سے اشارہ کر دیا کہ وہ کس طرح کی موت سے خُدا کا جلال ظاہر کرے گا اور یہ کہہ کر اُس سے کہا میرے پیچھے ہو لے۔ پطرس نے مڑ کر اُس شاگرد کو پیچھے آتے دیکھا جس سے یسوع محبّت رکھتا تھا اور جس نے شام کے کھانے کے وقت اُس کے سینہ کا سہارا لے کر پوچھا تھا کہ اَے خُداوند تیرا پکڑوانے والا کون ہے؟ پطرس نے اُسے دیکھ کر یسوع سے کہا اَے خُداوند! اِس کا کیا حال ہو گا؟ یسوع نے اُس سے کہا اگر مَیں چاہوں کہ یہ میرے آنے تک ٹھہرا رہے تو تجھ کو کیا؟ تُو میرے پیچھے ہو لے۔ پس بھائیوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ شاگرد نہ مرے گا لیکن یسوع نے اُس سے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ نہ مرے گا بلکہ یہ کہ اگر مَیں چاہوں کہ یہ میرے آنے تک ٹھہرا رہے تو تجھ کو کیا؟" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 21: 1۔ 23)

یہ معجزہ ہمیں ایک اَور معجزہ کی یاد دلاتا ہے جو تین سال پہلے ہُوا تھا اور اِس کا تذکرہ اِنجیل بمطابق لوقا کے پانچویں باب میں ہے، جب شاگردوں نے پوری رات مچھلی پکڑنے کی کوشش میں گزاری تھی مگر وہ کچھ بھی پکڑ نہ سکے تھے۔ پھر مسیح نے اُن سے کشتی گہرے میں لے جانے اور وہاں اپنے جال ڈالنے کےلئے کہا۔ اِس کے بعد کشتی اتنی مچھلیوں سے بھر گئی کہ اُنہیں دوسروں کو مدد کےلئے بلانا پڑا۔

جس معجزے پر ہم اب غور کریں گے وہ مسیح کے مُردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد، آپ کے ساتویں ظہور کے دوران ہُوا۔ شاگردوں میں سے سات افراد نے اپنے آپ کو کُل وقتی طور پر خُدا کی خدمت کےلئے وقف کر دینے کے بعد ماہی گیری میں واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ تب یسوع مسیح اُن کے سامنے ظاہر ہوئے تا کہ اُن کی زندگی کو برکت دیں اور اُنہیں اُن کے ماضی کے رُوحانی تجربات کی یاد دہانی کرائیں۔ مسیح نے اُن کے اعتماد کو پھر سے بحال کیا جو وہ آپ پر اور اپنے آپ پر رکھتے تھے۔ آپ نے اُنہیں پھر سے مقرر کیا کہ وہ آپ کی خدمت کریں اور آپ کی خوشخبری کی منادی کریں۔

یسوع مسیح اپنے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں پر دس مرتبہ ظاہر ہوئے:

  1. عورتوں پر جب وہ قبر کو دیکھنے کے بعد واپس آ رہی تھیں (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 1۔ 11)۔

  2. مریم مگدلینی پر (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 11۔ 18)۔

  3. پطرس پر (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 15: 5)۔

  4. اِماؤس کی راہ پر جانے والے دو شاگردوں پر (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 13۔ 35)۔

  5. بالاخانہ میں رسولوں پر جہاں توما موجود نہیں تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 36۔ 49)۔

    یہ پانچ ظہور ہفتہ کے پہلے دِن جب آپ مُردوں میں سے جی اُٹھے یروشلیم میں یا اُس کے پاس ہوئے۔

  6. بالاخانہ میں شاگردوں پر جہاں توما موجود تھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 24۔ 29)۔

  7. گلیل کی جھیل پر سات رسولوں پر، جہاں پر مچھلیاں پکڑنے کا معجزہ ہُوا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 21: 1۔ 24)۔

  8. گلیل میں ایک پہاڑ پر گیارہ شاگردوں پر جہاں پانچ سو ایماندار موجود تھے (اِنجیل بمطابق متی 28: 16۔ 20؛ 1۔ کرنتھیوں 15: 6)۔

  9. یعقوب پر (1۔ کرنتھیوں 15: 7)۔

  10. اپنے صعود کے وقت یروشلیم میں گیارہ شاگردوں پر (اعمال 1: 3۔ 8)۔

گلیل کی جھیل کے کنارے مسیح کا ساتواں ظہور آپ کے گلیل میں اپنے شاگردوں سے ملنے کے وعدے کی تکمیل تھی۔ اِس کے ساتھ ہی یہ اکھٹے شاگردوں پر آپ کا تیسرا ظہور تھا۔ آپ کا پہلا اور دوسرا ظہور یروشلیم میں بالاخانہ میں ہُوا تھا، ایک مرتبہ تب جب توما موجود نہیں تھا، اور دوسری مرتبہ جب وہ باقی سب شاگردوں کے ساتھ تھا۔

گلیل کی جھیل کے مختلف نام تھے، جیسے تبریاس کی جھیل یا گنیسرت کی جھیل۔ اِس کا نام "تبریاس کی جھیل" شہنشاہ تبریاس کے نام پر اِس کے ساحل پر موجود قصبے تبریاس سے پڑا تھا۔ اِس جھیل کے پانیوں پر کئی معجزات اور قابل ذِکر واقعات پیش آئے۔

  • مسیح نے اِس کے پانیوں میں موجود ایک کشتی میں کھڑے ہو کر بیج بونے والے کی تمثیل سُنائی (اِنجیل بمطابق متی 13: 1۔ 9)۔

  • مسیح نے اِس کے کنارے پر موجود علاقے میں پانچ ہزار لوگوں کو کھانا کھلایا (متی 14: 14۔ 21)۔

  • آپ نے اپنے کلام سے وہاں طوفان کو ساکن کر دیا (اِنجیل بمطابق مرقس 4: 35۔ 41)۔

  • آپ اُس کے پانی پر چلے اور پطرس کو بھی اُس پر چلایا (متی 14: 22۔ 36)۔

  • پطرس نے اِس میں سے ایک مچھلی نکالی اور اُس کے منہ میں ایک سِکّہ پایا (متی 17: 24۔ 27)۔

  • مسیح نے اِس کے کنارے اُس شخص کو شفا بخشی جو لشکر نامی بد ارواح کی گرفت میں تھا (مرقس 5: 1۔ 20)۔

  • اِس کے ساحل پر خُرازین، بیت صیدا اور کفرنحوم کے قصبے تھے، جن میں مسیح کے بہت سے معجزات رونما ہوئے۔

  • اپنی خدمت کے آغاز میں، جس دِن مسیح نے اپنے چار شاگردوں کو بلایا، آپ نے کثرت سے مچھلیوں کے شکار کا معجزہ دکھایا (اِنجیل بمطابق لوقا 5: 1۔ 11)۔

مسیح آج بھی ہم میں جہاں ہم ہیں کام کرتا ہے اور ہر ضرورت میں ہماری مدد کرتا ہے، معجزے پر معجزہ کرتا ہے، کیونکہ وہ زندہ ہے جو مُردوں میں سے جی اُٹھا، خُدا کی طرف سے آسمان پر اُٹھایا گیا، اور ہم اُس کی زمین پر دوسری آمد کے منتظر ہیں۔

آئیے ہم غور کریں:

  1. معجزے کی احتیاج رکھنے والے افراد

  2. مسیح اور معجزہ

1۔ معجزے کی احتیاج رکھنے والے افراد

پطرس کے کہنے پر، ساتوں شاگرد گلیل کی جھیل میں مچھلیاں پکڑنے کےلئے واپس گئے، کیونکہ یہ اُن کا پیشہ تھا۔ پولس رسول بھی اُن کی طرح ایک پیشہ کے ساتھ وابستہ تھا جو کہ خیمہ دوزی تھا۔ اُس نے کہا: "ہم تُم میں بے قاعدہ نہ چلتے تھے۔ اور کسی کی روٹی مُفت نہ کھاتے تھے بلکہ محنت مشقّت سے رات دِن کام کرتے تھے تا کہ تُم میں سے کسی پر بوجھ نہ ڈالیں" (نیا عہدنامہ، 2۔ تھسلینیکیوں 3: 7، 8)۔

ساتوں شاگردوں کا ماہی گیری کی طرف لوٹنا کوئی مذہبی پسپائی یا خدمت سے فرار نہیں تھا، لیکن وہ اپنا وقت سُستی یا کاہلی میں گزارنا نہیں چاہتے تھے، اِس لئے اُنہوں نے اُس بوریت کو ختم کرنے کےلئے کام کرنے کا فیصلہ کیا جو غالباً انتظار کرنے سے اُن کی زندگی میں داخل ہو سکتی تھی، کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ مسیح کب اُن سے دوبارہ ملنے آئے گا۔ وہ گزر بسر کےلئے کچھ پیسے بھی کمانا چاہتے تھے۔

الف۔ اُنہوں نے تمام رات مچھلی پکڑنے میں بیکار گزاری:

تاہم، وہ اکیلے نہیں تھے۔ خُداوند کی آنکھیں اُنہیں دیکھ رہی تھیں۔ ہم اپنے دُکھ، تکلیف اور ناکامی میں سوچ سکتے ہیں کہ ہم اکیلے ہیں، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ ہمارے پیارے خُداوند کی آنکھیں ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ ایک شاندار صبح ضرور آئے گی۔ وہ جانتا ہے کہ ہم کس حال سے گزر رہے ہیں۔ وہ مناسب وقت پر برکت کے ساتھ اپنا دہنا ہاتھ بڑھائے گا۔ لیکن جب وہ اِس میں کچھ تاخیر کرتا ہے تو اِس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ہمیں نظرانداز کر رہا ہوتا ہے، بلکہ اِس لئے کہ اُس کے پاس ایک بابرکت اور دانشمندانہ وقت ہے۔

ب۔ اُنہوں نے مسیح کے پاس آنے پر آپ کو نہیں پہچانا:

مقدّس یوحنّا کہتا ہے: "اور صبح ہوتے ہی یسوع کنارے پر آ کھڑا ہُوا مگر شاگردوں نے نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے" (آیت 4)۔

یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد آپ کے ظاہری جسم میں تبدیلی آئی، کیونکہ آپ کا بدن جلالی ہو گیا۔ ایسا ہی جلالی بدن مسیح کے چاہنے والوں کو روزِ آخر دیا جائے گا۔ مسیح وہ شخصیت ہے جو "اپنی اُس قوت کی تاثیر کے موافِق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کر سکتا ہے ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پر بنائے گا" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 21)۔ یہی وجہ ہے کہ مریم مگدلینی نے جب مسیح کو قبر کے پاس دیکھا تو آپ کو پہچان نہ پائی: "وہ پیچھے پِھری اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے" (یوحنّا 20: 14)۔ اِسی وجہ سے، اِماؤس کی راہ پر دو شاگردوں نے مسیح کو اُس وقت نہ پہچانا جب آپ راہ پر اُن کے ساتھ ہو لئے: "جب وہ بات چیت اور پُوچھ پاچھ کر رہے تھے تو ایسا ہُوا کہ یسو ع آپ نزدیک آ کر اُن کے ساتھ ہو لیا۔ لیکن اُن کی آنکھیں بند کی گئی تھیں کہ اُس کو نہ پہچانیں" (لوقا 24: 15، 16)۔

ج۔ اُنہوں نے مسیح کے کہنے پر جال ڈالا:

جب مسیح نے اپنا حکم جاری کیا تو اُنہوں نے اطاعت کی اور کثرت سے مچھلیاں پکڑیں۔ "رات کو شاید رونا پڑے پر صُبح کو خُوشی کی نوبت آتی ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 30: 5)۔ شاگردوں کے ساتھ ایسا ہی ہُوا۔ زبور 143: 8 میں داؤد کہتا ہے، "صُبح کو مجھے اپنی شفقت کی خبر دے کیونکہ میرا توکل تُجھ پر ہے۔ مجھے وہ راہ بتا جس پر مَیں چلوں کیونکہ مَیں اپنا دِل تیری ہی طرف لگاتا ہُوں۔" کیونکہ اُس نے فرمایا ہے: "مَیں نہ تُجھ سے دستبردار ہوں گا اور نہ تجھے چھوڑوں گا۔" اِس واسطے ہم دِلیری کے ساتھ کہتے ہیں کہ "خُداوند میرا مددگار ہے۔ مَیں خوف نہ کروں گا۔ اِنسان میرا کیا کرے گا؟" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 6)۔

شاگردوں کو یروشلیم کے سفر کےلئے اخراجات کی ضرورت تھی۔ اِس لئے مسیح نے اُن کی ضرورت کےلئے کثرت سے مچھلیاں فراہم کیں جو اُنہوں نے پکڑیں۔

د۔ شاگردوں نے 153 بڑی مچھلیاں پکڑیں:

اِنجیل مقدّس میں اُن مچھلیوں کی ٹھیک ٹھیک تعداد کا ذِکر ہے جو اُنہوں نے پکڑی تھیں۔ اِس عدد کی وضاحت کےلئے بہت سی تشریحات پیش کی جاتی ہیں:

(1) یونانی شاعر اوپیان نے اپنی ایک نظم میں جو اِس معجزہ کے رونما ہونے کے وقت لکھی گئی تھی، ذِکر کیا کہ دُنیا میں مچھلیوں کی انواع کی معلوم تعداد 153 تھی۔ بہت سے مفسرین کے نزدیک اتنی تعداد میں مچھلیاں پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ خُداوند اپنے شاگردوں سے کہہ رہا تھا کہ اُن کے رُوحانی جال ہر قسم کے لوگوں کو پکڑیں ​​گے۔ "پس تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ" (متی 28: 19)۔ مکاشفہ کی کتاب اِن الفاظ کے پورا ہونے کی تصدیق کرتی ہے: "اِن باتوں کے بعد جو مَیں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہُوں کہ ہر ایک قوم اور قبیلہ اور امّت اور اہلِ زُبان کی ایک اَیسی بڑی بِھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا سفید جامے پہنے اور کھجور کی ڈالیاں اپنے ہاتھوں میں لئے ہُوئے تخت اور برّہ کے آگے کھڑی ہے۔ اور بڑی آواز سے چلاّ چلاّ کر کہتی ہے کہ نجات ہمارے خُدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برّہ کی طرف سے" (مکاشفہ 7: 9، 10)۔

(2) مقدّس اگستین نے اِس عدد کی ایک اَور تشریح پیش کی ہے۔ 10 کا عدد دس احکام کو ظاہر کرتا ہے، اور 7 کا عدد رُوح القُدس کے کامل فضل کی علامت ہے۔ اگر ہم رُوح القُدس کے کامل فضل میں احکام کی تعداد کو شامل کرتے ہیں، تو ہمیں 17 کا عدد ملتا ہے۔ 1 + 2 + 3 ۔۔۔ + 17 کا حاصل جمع بنتا ہے 153۔ یوں یہ تعداد اُن تمام لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے جو الہٰی فضل کے نتیجے میں خُدا کے پاس لائے جاتے ہیں۔ اگستین نے کہا کہ یہ پرانے اور نئے عہدنامے کے تمام چُنے ہوئے لوگوں، شریعت کے عہد کے چنے ہوؤں اور فضل کے عہد کے چنے ہوؤں کی علامت ہے۔

(3) دریا میں ڈالا گیا بڑا جال جو اچھی اور بری مچھلیاں سمیٹ لایا (متی 13: 47۔ 49) دیدنی کلیسا کی تصویر کشی کرتا ہے جس میں ایماندار اور غیر ایماندار دونوں شامل ہیں۔ تاہم یہ جال جس نے ایک سو ترپن اچھی مچھلیاں پکڑیں، غیر دیدنی کلیسیا کی علامت ہے، جس کے تمام ارکان تقدیس شدہ حقیقی ایماندار ہیں۔ یومِ آخر، ایمانداروں سے بھرا ہُوا یہ جال کھینچا جائے گا اور اِن میں سے ایک بھی ضائع نہ ہو گا! پس تمام کلیسیا کامل ہو گی کہ "ایک ایسی جلال والی کلیسیا بنا کر اپنے پاس حاضر کرے جس کے بدن میں داغ یا جُھرّی یا کوئی اَور ایسی چیز نہ ہو بلکہ پاک اور بےعیب ہو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 27)۔

ہ۔ اُنہوں نے مسیح کو پہچانا:

جب شاگردوں نے مچھلیاں پکڑیں تو وہ مسیح کو پہچان گئے۔ جس فرد نے سب سے پہلے آپ کو پہچانا وہ یوحنّا تھا، آپ کا وہ شاگرد جسے آپ عزیز رکھتے تھے۔ اور پطرس وہ پہلا شاگرد تھا جس نے مسیح سے ملنے کےلئے پانی میں چھلانگ لگائی! یہاں ہم رسولوں کے تحفوں کے درمیان فرق دیکھتے ہیں: یوحنّا میں خُداوند کے بارے میں گہری معرفت کی وجہ سے دِلی پہچان کا تحفہ تھا۔ وہ یسوع کی آواز اور عمل کو پہچان سکتا تھا۔ دوسری طرف، پطرس نے فوراً پانی میں چھلانگ لگائی تا کہ تیرتا ہُوا مسیح کے پاس پہنچے۔ خُداوند ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق جو اُس کی نگاہ میں بھلا ہے، نعمتیں عطا کرتا ہے تا کہ مقدّس لوگ کامل بنیں، خدمت گزاری کا کام کیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔ "نعمتیں تو طرح طرح کی ہیں، مگر رُوح ایک ہی ہے" (1۔ کرنتھیوں 12: 4)۔

و۔ اُنہوں نے سیکھا:

(1) شاگرد اُس رات سمجھ گئے کہ وہ مسیح کے بغیر کچھ بھی نہیں پکڑ سکتے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسیح کے بغیر ہمارے لئے رُوحوں کو پکڑنا ناممکن ہے۔ ہم ناکام اُس وقت ہوتے ہیں جب ہم اپنی ہی طاقت میں، اپنی ذہانت کے ساتھ، اپنے منصوبے کے مطابق، اپنی صلاحیتوں اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم شاگردوں کے ساتھ اُس ناکامی کی رات اور کامیابی کی اُس صبح کا سبق سیکھتے ہیں۔ ہم سیکھتے ہیں کہ مسیح کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے، لیکن اُس کے ساتھ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں طاقت بخشتا ہے (یوحنّا 15: 5؛ فلپیوں 4: 13)۔

(2) شاگردوں کا جال کو دریا کے کنارے کھینچ کر لانا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اُس دِن ہمارے ساتھ کیا ہُوا تھا جب مسیح نے ہمیں تباہی کے پانیوں سے نکال کر نئی زندگی میں اپنے پاس حفظ و امان کے ساحل تک پہنچایا۔ ایسا ہی اُن تین ہزار رُوحوں کے ساتھ ہُوا، جنہیں اِنجیل (خوشخبری) کے جال نے پینتیکست کے دن اپنی طرف متوجہ کیا، اور وہ کلیسیا کی طرف کھنچے آئے۔ ایسا ہم ہر اُس اجتماع میں دیکھتے ہیں جہاں کھوئی ہوئی رُوحیں، رُوحوں کے سردار گلہ بان ہمارے خُداوند یسوع مسیح کو پہچانتی ہیں۔

(3) جال کا کنارے پر کھینچ کر لانا ہمیں یومِ آخر کی یاد دلاتا ہے، جب اچھی مچھلیاں برتنوں میں جمع کی جائیں گی، لیکن خراب مچھلیوں کو پھینک دیا جائے گا (متی 13: 47۔ 50)۔ ابدیت کے ساحل پر ہم میں سے ہر ایک کو اپنا حساب دینا پڑے گا۔

اُس دن آپ کی حالت کیسی ہو گی؟

2۔ مسیح اور معجزہ

الف۔ مسیح نے اُن کے ساتھ گفتگو شروع کی:

"بچّو! تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟" (آیت 5)۔ یہاں کھانے سے مسیح کی مراد مچھلی تھی جو روٹی کے ساتھ کھائی جاتی تھی۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ رابطے میں پہل کی۔ جب ہم نے اپنی زندگی خُداوند کے سپرد کی اور نئی زندگی کا تجربہ کیا تو اِس میں پہل خُداوند کی طرف سے تھی۔ یہ اُس کی محبّت تھی جو ہمیں ہمارے گناہوں سے بچانے کےلئے عالم بالا سے ہم تک پہنچی۔ اُس نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہمیں اوپر اٹھایا، یوں ہماری نجات کی طرف راہنمائی ہوئی۔

خُداوند کا ہاتھ اب بھی لامحدود رحمت کے ساتھ بڑھا ہُوا ہے، اور وہ ہمارا انتظار کرتا ہے کہ ہم تیار کردہ برکت حاصل کرنے کےلئے اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ "مَیں نجات کا پیالہ اُٹھا کر خُداوند سے دُعا کروں گا" (زبور 116: 13)۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم برکت پائیں۔ وہ کہتا ہے: "اب تک تُم نے میرے نام سے کچھ نہیں مانگا۔ مانگو تو پاؤ گے تا کہ تُمہاری خُوشی پُوری ہو جائے" (یوحنّا 16: 24)۔

ب۔ مسیح سب کچھ جانتا ہے:

"بچّو! تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟" (آیت 5)۔ وہ ہمیشہ ہماری ضرورت کو واضح طور پر عیاں کرتا ہے۔ ہماری کوئی بھی ضرورت ہو، وہ ہمارے مانگنے سے پہلے اُسے جانتا ہے، اِس لئے وہ ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے اور ہر مصیبت اور ناکامی سے نجات دیتا ہے۔ ہمارے لئے اُس کی عنایات کثرت کی ہیں تا کہ ہم اُن سے لطف اندوز ہوں۔

جب شاگردوں نے جواب دیا کہ اُن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تو آپ نے کہا، "کشتی کی دہنی طرف جال ڈالو تو پکڑو گے" (آیت 6)۔ یہ مچھلی پکڑنے میں ماہر تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی گلیل کی جھیل میں گزاری تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ مچھلی کہاں سے ملے گی۔ لیکن خُداوند یسوع وہ شخصیت ہے جو ہر ضرورت کو جانتا ہے اور یہ بھی کہ اُن کی ضرورت کہاں سے پوری ہو سکتی تھی! جب ہم مسیح کی آواز سنتے ہیں اور اُس کی باتوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، اور اپنے لئے اُس کی ہدایات کا انتظار کرتے ہیں، تو وہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہمیں جس نعمت کی ضرورت ہے وہ ہمیں کہاں مل سکتی ہے۔ مسیح کی برکت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

ج۔ مسیح شفیق و مہربان:

شاگرد رات بھر کام کر کے تھک چکے تھے، اور صبح کے وقت بھوکے تھے۔ دُنیا نے اُنہیں کچھ نہیں دیا تھا۔ لیکن محبّت کرنے والے مسیح نے اُنہیں جھیل سے وافر مقدار میں مچھلیاں مہیا کیں۔ جب وہ جھیل کے کنارے پہنچے، "تو اُنہوں نے کوئلوں کی آگ اور اُس پر مچھلی رکھّی ہُوئی اور روٹی دیکھی" (آیت 9)۔ یہ تھکے ہوئے شاگردوں کےلئے واقعی محبّت کا نشان تھا!

اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح نے ہر طرح سے اُن کی تمام فوری ضرورتوں کا خیال کیا۔ آپ نے اُن کی تمام طویل مدتی ضروریات کو مدنظر رکھا، اور جب ہم کسی اعتبار سے ضرورت کے وقت کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے ہماری درخواست یا سوچ سے بھی بڑھ کر ہر چیز کو پہلے ہی سے تیار کیا ہوتا ہے!

زبور نویس اُس سوال کا ذِکر کرتا ہے جو بنی اسرائیل نے پوچھا تھا: "کیا خُدا بیابان میں دسترخوان بچھا سکتا ہے؟" (زبور 78: 19)۔ ہم بھی یہی سوال پوچھتے ہیں۔ کیا زندگی بذات خود ایک بیابان نہیں؟

ہمیں اِس کا جواب خُدا کی رحمت اور شفقت سے ملتا ہے۔ اِس کا نمونہ ہمیں خُدا کے اپنے نبی ایلیاہ کے ساتھ برتاؤ میں ملتا ہے۔ جب یہ بہادر نبی شریر ملکہ ایزبل کے خطرے کے سامنے کمزور ہُوا، تو اپنی خدمت کے میدان سے بھاگ کر بیابان میں چلا گیا۔ خُداوند کو اُس پر ترس آیا اور اُس نے اُس کے پاس ایک فرشتہ کو کھانے کے ساتھ بھیجا: "اُس نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھا کہ اُس کے سرہانے انگاروں پر پکی ہُوئی ایک روٹی اور پانی کی ایک صراحی دھری ہے۔ سو وہ کھا پی کر پھر لیٹ گیا۔ اور خُداوند کا فرشتہ دوبارہ پھر آیا اور اُسے چھؤا اور کہا اُٹھ اور کھا کہ یہ سفر تیرے لئے بہت بڑا ہے۔ سو اُس نے اُٹھ کر کھایا پیا" (پرانا عہدنامہ، 1۔ سلاطین 19: 1۔ 9)۔ اِس خوراک نے اُسے تقویت بخشی یہاں تک کہ وہ حورِب کے پہاڑ تک گیا۔

عزیز قاری، خُدا کی محبّت و شفقت کا لمس آپ کےلئے بھی حقیقت بن سکتا ہے، لیکن اِس کےلئے آپ کو اپنی زندگی اُس کی سپردگی میں دینی ہو گی۔

د۔ یسوع ہماری عزتِ نفس کا خیال رکھتا ہے:

جب شاگردوں نے کوئلوں کی آگ اور اُس پر مچھلی رکھّی ہُوئی اور روٹی دیکھی تو مسیح نے اُن سے کہا، "جو مچھلیاں تُم نے ابھی پکڑی ہیں اُن میں سے کچھ لاؤ" (آیت 10)۔ آپ نے ایسا اُنہیں یہ محسوس کرانے کےلئے کیا کہ اُنہوں نے واقعی کچھ حاصل کیا تھا۔ خُداوند ہمیں ہماری عاجز حالت میں عطا کرتا ہے، لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم کامیابی اور خود اعتمادی محسوس کریں۔ وہ ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جو کچھ اُس نے ہمیں پہلے ہی عطا کیا ہے وہ اُس کو پیش کریں۔ داؤد نبی نے اِس سچائی کا ادراک کیا، کیونکہ اُس نے خُداوند سے کہا، "سب چیزیں تیری طرف سے مِلتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تُجھے دیا ہے" (1۔ تواریخ 29: 14)۔ یہ سچ ہے کہ خُداوند سب کچھ کرتا ہے، لیکن وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے کام میں اُس کے ساتھ شامل ہوں تا کہ ہم اپنے آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور خود اعتمادی حاصل کریں۔

آیت 13 بیان کرتی ہے "یسوع آیا اور روٹی لے کر اُنہیں دی۔ اِسی طرح مچھلی بھی دی۔" جب ہم مسیح کے پاس جانے میں ہچکچاتے ہیں، تو وہ ہمارے پاس آتا ہے اور ہمیں وہ چیز عنایت کرتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہم مطمئن ہوں اور امان پائیں۔

ہ۔ مسیح ہمیں سکھاتا ہے:

(1) ہم اُس کے بغیر کوئی اطمینان نہیں پا سکتے۔

(2) جب ہم اُس کی محبّت اور قدرت کا ادراک کر لیتے ہیں تو ہمارے دِل اُس کےلئے محبّت کے جوش سے بھر جاتے ہیں۔

(3) مسیح جسمانی خوراک کے ساتھ ساتھ رُوحانی تسکین بھی فراہم کرتا ہے اور ہمارے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔

(4) مسیح کا صبح سویرے اپنے شاگردوں کے پاس جھیل کے کنارے پر آنا ہمیں اُس کی دوسری آمد کی یاد دلاتا ہے۔

"اور وقت کو پہچان کر اَیسا ہی کرو۔ اِس لئے کہ اب وہ گھڑی آ پہنچی کہ تُم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم اِیمان لائے تھے اُس وقت کی نسبت اب ہماری نجات نزدیک ہے۔ رات بہت گُذر گئی اور دِن نکلنے والا ہے۔ پس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔ جیسا دِن کو دستور ہے شایستگی سے چلیں نہ کہ ناچ رنگ اور نشہ بازی سے۔ نہ زِناکاری اور شہوت پرستی سے اور نہ جھگڑے اور حسد سے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 13: 11۔ 13)۔

دُعا

اے ہمارے آسمانی باپ، تیرا شکر ہو کہ تُو ہمیشہ ہماری ناکامی اور مایوسی میں ہمیں جذبہ، ہمّت اور امّید فراہم کرنے کےلئے ہمارے پاس آتا ہے۔ جو معجزات تُو نے ہماری زندگی میں کئے ہیں اُن کے بعد ہمیں ایک نیا معجزہ دکھا۔ بخش کہ ہم امّید بھری توقع اور بےلغزش اعتماد کی حامل زندگی بسر کریں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

سوالات

  1. کس طرح سے مسیح کا یہ ظہور جی اُٹھنے کے بعد آپ کا تیسرا ظہور ہے، اور کس طرح سے یہ ساتواں ظہور بھی ہے؟

  2. تین اہم باتوں کا تذکرہ کریں جو گلیل کی جھیل پر پیش آئیں۔

  3. سات شاگرد مچھلی پکڑنے کےلئے واپس کیوں گئے؟

  4. کیوں شاگردوں نے جھیل کے کنارے کھڑے مسیح کو نہیں پہچانا؟

  5. ایک سو ترپن بڑی مچھلیوں کے شکار سے سیکھنے والے ایک سبق کا ذِکر کریں۔

  6. جال کو کنارے تک کھینچ کر لانا ہمیں دو اسباق سکھاتا ہے۔ وہ کیا ہیں؟

  7. "کیا خُدا بیابان میں دسترخوان بچھا سکتا ہے؟" اپنا جواب وضاحت سے بیان کریں۔

اے عزیز قاری، اگر آپ نے اِس کتاب کا مطالعہ دھیان سے کیا ہے تو آپ ہر باب کے آخر میں دیئے گئے سوالات کے جوابات دے سکیں گے۔ اگر آپ ہر باب کے کم از کم 5 سوالات کا صحیح جواب دیں گے تو ہم آپ کو ایک اَور کتاب بھیجیں گے۔