اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصہ 6، مسیح کا یروشلیم میں داخلہ

سیرت المسیح، حصہ 6، مسیح کا یروشلیم میں داخلہ

جارج فورڈ

2021


1۔ مسیح کا کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنا

فریسیوں اور فقیہوں نے مسیح پر گنہگاروں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور اُن کے ساتھ کھانا کھانے کا الزام لگایا۔ اِس لئے، جناب مسیح نے اُن کے سامنے یہ بتانے کےلئے تین تمثیلیں رکھیں کہ گنہگاروں کی بدی خُدا تعالیٰ کو اپنی پدرانہ محبت اُن پر نچھاور کرنے سے نہیں روک سکتی، کیونکہ جب وہ اِبلیس کے پھندے میں بُری طرح سے گرتے ہیں، اُس کی پدرانہ محبت بڑھتی ہے اور وہ تب بھی اُنہیں بچانے کی خواہش رکھتا ہے۔ ہم اِسی قسم کا ردعمل اُن والدین میں دیکھتے ہیں جن کی اولاد بھٹک جاتی ہے۔ گناہ میں گرے ہوؤں کا واپس لوٹنا خُدا تعالیٰ اور سب راستباز لوگوں کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے۔

الف۔ کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل

"سب محصول لینے والے اور گنہگار اُس کے پاس آتے تھے تا کہ اُس کی باتیں سُنیں۔ اور فریسی اور فقِیہ بُڑبُڑا کر کہنے لگے کہ یہ آدمی گنہگاروں سے ملتا اور اُن کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ اُس نے اُن سے یہ تمثیل کہی کہ تم میں کون ایسا آدمی ہے جس کے پاس سو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک کھو جائے تو ننانوے کو بیابان میں چھوڑ کر اُس کھوئی ہوئی کو جب تک مل نہ جائے ڈھونڈتا نہ رہے؟ پھر جب مل جاتی ہے تو وہ خوش ہو کر اُسے کندھے پر اُٹھا لیتا ہے۔ اور گھر پہنچ کر دوستوں اور پڑوسیوں کو بُلاتا اور کہتا ہے، میرے ساتھ خوشی کرو کیونکہ میری کھوئی ہوئی بھیڑ مل گئی۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح نِنانوے راست بازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہو گی۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 1- 7)

یسوع نے یہ پہلی تمثیل ایک سوال کی صورت میں پیش کی۔ آپ نے پوچھا "تم میں کون ایسا آدمی ہے جس کے پاس سو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک کھو جائے تو ننانوے کو بیابان میں چھوڑ کر اُس کھوئی ہوئی کو جب تک مل نہ جائے ڈھونڈتا نہ رہے؟" یوں لگتا ہے کہ جیسے یسوع اُنہیں یعنی قوم کے چرواہوں کو اُن ننانوے بھیڑوں کے ساتھ جو محفوظ تھیں مطمئن ہونے اور کھوئے ہوؤں کو نظرانداز کرنے کےلئے جھڑک رہا تھا۔

مسیح نے اپنے آپ کو ایک صالح اور محبت کرنے والے چرواہے کے طور پر پیش کیا جو اپنی بڑی شفقت سے لغزشوں کے باعث کھوئی ہوئی جان کو ڈھونڈتا ہے، اور اِسے امتیازی طور پر دوسروں سے علیحدہ بیان کیا جو کھوئی نہ تھیں۔ وہ اِسے شفا دینے اور اپنے کندھوں پر اُٹھا کر خوشی کرتے ہوئے گھر میں لانے کی تمنا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ فرشتوں اور آسمان پر مُقدّسوں کو بھی اِس خوشی میں شریک ہونے کےلئے کہتا ہے۔ وہ سب اُن ننانوے راستبازوں کی نسبت جنہیں توبہ کی حاجت نہیں ہوتی ایک گنہگار کے توبہ کرنے پر بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں۔

آسمان پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت کو کون بیان کر سکتا تھا؟ سوائے مسیح کے کوئی اَور نہیں جو ازل سے باپ کی گود میں ہے اور آسمان سے زمین پر آیا! وہ کون ہیں جنہیں مسیح نے ننانوے راستبازوں کے طور پر بیان کیا جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے؟ وہ فرشتے یا صالح افراد نہیں ہو سکتے، کیونکہ پولس رسول نے کہا:

"کوئی راست باز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خُدا کا طالب نہیں۔ سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمے ہیں۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 10- 12)

اگر ننانوے راستباز فرشتے یا صالح لوگ نہیں، تو پھر یقیناً یہ وہ افراد ہیں جو اپنے آپ کو غلط طور پر راستباز سمجھتے ہیں۔ مسیح کے سامعین میں موجود فریسیوں نے یہی کیا اور ہر دور میں اپنی ہی نظر میں راستباز افراد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اگر ننانوے راستباز تھے اور کھو نہیں گئے تھے، اور محصول لینے والوں، گنہگاروں اور کھوئے ہوؤں کی نسبت سوگنا زیادہ قدر رکھتے تھے، تو بھی آسمانی چرواہا صرف اُن پر مطمئن نہیں ہے اور وہ قابل نفرت اور دُھتکارے ہوؤں کو نظرانداز نہیں کرتا۔ جب وہ ایک گنہگار کو توبہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اُس سے اُن تمام مذہبی افراد کی نسبت زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور خیرات دیتے ہیں۔ وہ آسمان سے گنہگاروں کو نجات دینے کے مقصد کے تحت ہی آیا تھا۔ وہ اِس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ ایک گنہگار پہلے اُس کے پاس آئے بلکہ وہ اُس کے پیچھے جاتا ہے، اُسے ڈھونڈتا ہے، خدا کے پاس اپنے باپ کے گھر میں واپس آنے کےلئے مِنّت کرتا ہے۔ اگر فریسی فردوس کے وارثوں کی طرح ہوتے تو وہ ستایش کے نغموں کے ساتھ شادمانی کرتے۔ ایک گنہگار کا یہ جاننا کہ اُس کی توبہ آسمان میں خوشی کا باعث بنتی ہے اُس کی نجات کے جلد ممکن ہونے کےلئے ایک زبردست اوراعلیٰ محرک ہے۔

ب۔ کھوئے ہوئے سِکّہ کی تمثیل

"یا کون ایسی عورت ہے جس کے پاس دس درہم ہوں اور ایک کھو جائے تو وہ چراغ جلا کر گھر میں جھاڑو نہ دے اور جب تک مل نہ جائے کوشش سے ڈھونڈتی نہ رہے؟ اور جب مل جائے تو اپنی دوستوں اور پڑوسنوں کو بُلا کر نہ کہے کہ میرے ساتھ خوشی کرو کیونکہ میرا کھویا ہُوا درہم مل گیا۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث خُدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 8- 10)

اِس حوالہ میں، مسیح نے اپنی سامع خواتین کےلئے ایک گھریلو صورتحال پیش کی ہے، جس میں کھوئے ہوئے اور دیگر افراد کے درمیان تناسب ایک اور دس کا ہے۔ غرض، یوں مسیح نے گنہگار کی قدر پر زور دیا ہے۔ آپ نے اِس بات کو واضح کیا کہ آسمانی بادشاہ جو زمین اور اُس کی معموری اور جہان کے تمام باشندوں کا مالک ہے (پرانا عہدنامہ، زبور 24: 1)، گنہگار کے کھونے پر نقصان کا احساس کرتا ہے۔ تمثیل میں، ایک عورت دس سِکّوں میں سے ایک سِکّہ کھو بیٹھتی ہے، اور پھر کوشش سے ڈھونڈنے کے بعد اُسے پا لیتی ہے، اور بھیڑ کے مالک کی طرح خوشی کرتی ہے اور دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک ہونے دیتی ہے۔

ایک فرد کہہ سکتا ہے کہ جیسے چرواہا کلیسیا کے سر مسیح کی ترجمانی کرتا ہے ویسے ہی عورت کلیسیا کو ظاہر کرتی ہے۔ مسیح کی حقیقی کلیسیا اُس کے منصوبے کی پیروی کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی رُوح سے اُن کی راہنمائی کرتا ہے جو گناہ کے بیابان میں کھوئے ہوؤں کو بڑی مستعدی سے ڈھونڈتی ہے۔ عورت کے ہاتھ میں روشن چراغ منکشف کتاب مُقدّس کی ترجمانی کرتا ہے جسے داؤد نبی نے اپنے قدموں کےلئے چراغ اور اپنی راہ کےلئے روشنی کے طور پر بیان کیا ہے (زبور 119: 105)۔ کلیسیا اِس تمثیل میں "میرا کھویا ہُوا درہم" کو کھویا ہُوا فرد کہنے میں حق بجانب ہے کیونکہ اُس کے بہت سے غیر وقف شدہ ارکان سے اُن کی ہلاکت کی پوچھ گچھ ہو گی۔

اِن دو تمثیلوں میں، مسیح نے سکھایا ہے کہ ایک گنہگار کی طرف سے نجات کےلئے درخواست اُس کے دِل میں خُدا تعالیٰ کے کام کا نتیجہ ہے۔ یہ مسیحیت کی عظیم ترین بنیادی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ حقیقی مذہب خُدا تعالیٰ کےلئے انسان کی کارگزاری پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اِس کا تعلق انسان کےلئے خدا تعالیٰ کے کام پر ہے۔

ج۔ کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل

"پھر اُس نے کہا کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ اُن میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا، اے باپ، مال کا جو حصہ مُجھ کو پہنچتا ہے مُجھے دے دے۔ اُس نے اپنا مال متاع اُنہیں بانٹ دیا۔ اور بہت دِن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دُور دراز کے مُلک کو روانہ ہُوا، اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دیا۔ اور جب سب خرچ کر چُکا تو اُس مُلک میں سخت کال پڑا، اور وہ محتاج ہونے لگا۔ پھِر اُس مُلک کے ایک باشندہ کے ہاں جا پڑا۔ اُس نے اُس کو اپنے کھیتوں میں سؤر چرانے بھیجا۔ اور اُسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سؤر کھاتے تھے اُنہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔ پھِر اُس نے ہوش میں آ کر کہا، میرے باپ کے بہت سے مزدوروں کو اِفراط سے روٹی ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں! میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اُس سے کہوں گا، اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہُوا۔ اَب اِس لائق نہیں رہا کہ پھِر تیرا بیٹا کہلاؤں ۔ مُجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے۔ پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دُور ہی تھا کہ اُسے دیکھ کر اُس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اُس کو گلے لگا لیا اور چوما۔ بیٹے نے اُس سے کہا، اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہُوا۔ اَب اِس لائق نہیں رہا کہ پھِر تیرا بیٹا کہلاؤں ۔ باپ نے اپنے نوکروں سے کہا، اچھے سے اچھا لباس جلد نکال کر اُسے پہناؤ اور اُس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ، اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں۔ کیونکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا۔ اَب زندہ ہُوا۔ کھو گیا تھا۔ اَب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 11- 24)

یہ تیسری کہانی، مسیح کی تمام تمثیلوں میں سے قیمتی ترین ہے۔ اِس میں ایک خاندان میں بچوں کے رویہ کی ترجمانی کی گئی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ مسیح نے اِسے اپنے سامعین میں موجود تمام بچوں کو خبرداری کا ایک پیغام دینے کےلئے سُنایا ہو۔ یہ تمثیل پہلی دو تمثیلوں سے کھوئے ہوؤں کےلئے قدر کے اعتبار سے فرق ہے: اِس تمثیل میں تناسب اَب پچاس فیصد ہے۔ یہ انسان کی ذمہ داری پر بھی زور دیتی ہے کہ توبہ کرنے اور خُدا تعالیٰ کے پاس واپس آنے سے اپنی آزاد مرضی کو عمل میں لائے۔ یہ ردعمل خُدا تعالیٰ کی طرف سے کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور اُن کی نجات کےلئے ایک دروازہ کھولنے کا نتیجہ ہے۔ جناب مسیح نے اِن تمثیلوں کو اکھٹے اِس لئے بیان کیا تا کہ ہم پر نجات کے معنٰی کو مکمل طور پر واضح کر سکیں۔

اِس تیسری تمثیل میں، مسیح نے یہودی قوم کو جس پر خُدا تعالیٰ کی خاص نظر تھی دو طرح کے لوگوں میں تقسیم کیا ہے، جنہیں ایک باپ کے دو بیٹوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بڑا بیٹا قانونی طور پر میراث کے دُہرے حصہ کا حقدار تھا، اور اُن لوگوں کی عکاسی کرتا ہے جو دین کی ظاہری صورت پر عمل کرتے ہیں اور اپنی اور دیگر افراد کی نگاہوں میں اہلِ دین اور خُدا کے وفادار ہیں۔ ایسے لوگ دین کے خارجی فرائض دھیان سے قائم رکھتے ہیں، اور گناہ و خطا کے بیابان میں کھلم کھلا آوارہ نہیں پھرتے۔ چھوٹا بیٹا قوم کی اُس بڑی اکثریت کی ترجمانی کرتا ہے جو اپنی خواہشوں میں دھنسی ہوئی ہے اور دین کے اصولوں پر کاربند نہیں ہے۔ وہ خُدا تعالیٰ کے رحم کا انکار کرتے ہیں اور اُس کے خلاف بغاوت میں اُس کی نعمتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ وہ کھلم کھلا جانتے بوجھتے خُدا سے دُور ہونے سے اپنی شاندار آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اِس لئے، وہ خُدا تعالیٰ کی کتاب، اُس کی پرستش اور اُس کے لوگوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ پاکیزگی، تحفظ اور خوشی سے دُور چلے جاتے ہیں، جس کا مطلب اپنے اور اپنے اردگرد موجود افراد کے بہترین مفاد سے دُوری ہے۔

چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ کے گھر کو اور اپنے اکلوتے بھائی کو چھوڑ دیا۔ اُس نے باپ کی عنایات، اپنے گھر کی برکات اور اچھی رفاقت سے دُوری اختیار کی۔ اُس نے اپنی میراث کو بڑھانے کےلئے کام کرنا چھوڑ دیا، والدین کے اختیار و پابندیوں سے ناراض ہُوا، اور خود سے اپنا مالک ہونے کی تمنا کرنے لگا۔ وہ اپنے گھر سے دُور جانا چاہتا تھا تا کہ شریروں کے ساتھ بگڑی لذّتوں میں شامل ہو کر اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔ اپنی تمام میراث کا تقاضا کرنے سے اُس نے فرزندیت کے رویہ کو ترک کر دیا جو یہ دُعا کرتا ہے کہ "اے باپ! … ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دیا کر" (اِنجیل بمطابق لوقا 11: 2، 3)۔ جیسے یہ احمق بیٹا بتدریج گھر سے دُور چلا گیا، ویسے ہی ایک گنہگار بتدریج خُدا کی راہ کو چھوڑ دیتا ہے۔

اِس بیٹے نے باپ کو اُس وقت چھوڑا جب وہ ابھی حیات تھا۔ یہ ایک گنہگار کی حالت ہے جو صرف اپنے لئے زندگی گزارتا ہے، اپنی آزادی پر اِتراتا ہے اور اُن باتوں پر فخر کرتا ہے جو خُدا تعالیٰ کو رنجیدہ کرتی ہیں۔ باپ جبر سے فرمانبرداری نہیں چاہتا تھا، اِس لئے اُس نے اپنے بیٹے کی خواہش کو پورا کرنے میں رضامندی ظاہرکی اور اُسے اُس کی میراث کا حصہ دے دیا۔ غرض، شریروں کے ساتھ خُدا تعالیٰ اپنے برتاؤ میں اُن کی خواہشات کے مطابق اکثر کثرت کی زمینی برکات عطا کرتا ہے، مگر اِن برکتوں کا ہونا اُس کی پدرانہ خوشی کا نشان نہیں ہے۔

یہ نوجوان شخص جس دُور کے مُلک کو روانہ ہُوا، وہاں وہ گھریلو حدود و قیود اور اپنے شاندار ماضی کی یادوں سے دُور تھا۔ وہاں اُس نے اپنی باگ ڈور بُری خواہشوں کے ہاتھوں میں دے دی، اور اپنی تمام دولت خرچ کر ڈالی، یہاں تک کہ پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا۔ اُس کی اِس مفلسی کی حالت کے دوران اُس علاقے میں قحط بھی آیا، اور اُس کے دوستوں کے دِل اُس کی جانب اِس قدرسخت ہو گئے کہ اُنہوں نے اُس کی مدد نہ کی۔ آخرکار وہ اِس حالت کو پہنچ گیا کہ اُس کے پاس زندگی کے بنیادی وسائل بھی موجود نہ تھے۔

ہم تصور کر سکتے ہیں کہ اُس نے اپنے آپ کو دولتمند ثابت کرنے کی کوشش کی ہو گی، لیکن جب اُس کی نوبت فاقوں کو پہنچ گئی تو وہ ایک کھیت میں جا کر سؤروں کو چرانے کا کام کرنے لگا۔ یوں اُس نے اپنی گزر بسر کرنے کےلئے پاکیزگی کی بابت اپنے مذہبی اصولوں کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ اُس نے ناپاکی کو برداشت کیا تا کہ وہ اپنے پیٹ کو اُن پھلیوں سے بھر سکے جو سؤر کھا رہے تھے۔ اِس تمام عرصہ میں اُس کے نام نہاد دوستوں میں سے کسی نے بھی اُسے کچھ نہ دیا۔

کئی مرتبہ، خُدا تعالیٰ لوگوں کو اپنے پاس واپس لانے کےلئے مشکلات کو استعمال کرتا ہے۔ تاہم، یہ مشکلات اُنہیں اُس سے دُور بھی کر سکتی ہیں۔ لیکن، اِس کھوئے ہوئے بیٹے نے اپنی تباہی کی گہرائی میں نجات کو پایا، اِسی طرح، ہم بھی بسا اوقات مایوسی کی دہلیز کو پار کرنے سے نجات کے دروازہ سے داخل ہو سکتے ہیں۔

مشکل کے باوجود اپنے باپ کے گھر میں واپس آنے والا بیٹا اپنی حقیقی فرزندیت کو ثابت کرتا ہے کیونکہ ایک کھویا ہُوا بیٹا پھر بھی بیٹا ہے، اور اُس کا باپ پھر بھی باپ ہی رہتا ہے۔ ہر گنہگار انسان کے دِل میں واضح طور پرخدا کے تعلق سے کھوئی ہوئی فرزندیت کی دُھندلی سی یاد موجود ہے۔ اِس لئے، چاہے ایک شخص بدی میں کتنا ہی کیوں نہ ڈوب جائے، یا چاہے ایک فرد کے گناہوں کی فہرست کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، فرزندیت کا یہ مبارک شعلہ مکمل طور پر بُجھ نہیں سکتا، جب تک کہ یہ رُوح القدس کے خلاف کفر بکنے سے مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا، یعنی جب ایک فرد توبہ کرنے سے انکار کر دیتا ہے، اور اپنا دِل سخت کر کے تاریکی میں رہنے کا چناؤ کرنے پر مُصر ہوتا ہے۔ صرف خُدا ہی اِس شعلے کو تقویت بخشتا ہے، تا کہ ایک گنہگار واحد نجات دہندہ میں نجات پاتے ہوئے پناہ لے۔

یہ نوجوان شخص بڑی مُفلسی کے نتیجہ میں اپنے ہوش میں آیا۔ جب اُس نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو وہ تائب اور حلیم ہو چکا تھا، اور اُسے اپنے باپ کی طرف سے رحم کرنے کا مکمل بھروسا تھا۔ اُس کی توبہ کا ثبوت اُن الفاظ میں موجود ہے جو اُس نے اپنے باپ سے ملتے وقت کہے، "اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہُوا۔" اِس نوجوان شخص نے احساس کر لیا کہ اُس کی خطا صرف اُس کے اپنے باپ کے خلاف نہیں تھی بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر خُدا تعالیٰ کے خلاف تھی۔ کسی بھی جرم کو محض انسان کے خلاف کیا جانے والا گناہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سب سے پہلے خُدا تعالیٰ کی برملا توہین ہے۔

اِس نوجوان شخص کی حلیمی کے خالص ہونے کا اظہار اِس بات سے ہُوا کہ اُسے اپنے پرانے حقوق بحال ہونے کی توقع نہیں تھی۔ اُس نے درخواست کی کہ اُسے ایک خادم کے طور پر قبول کیا جائے، اور وہ اپنے باپ کی طرف سے کسی بھی طرح کی قبولیت کو ایک مدد کے طور پر لے گا۔ اگرچہ وہ رد کئے جانے کے لائق تھا مگر اُس نے ایمان کا اظہار کیا۔ اُس کے ایمان کی حقیقت اِس بات سے ظاہر ہوئی کہ وہ اُٹھا اور اپنے باپ کی طرف سے رد کئے جانے کے خوف کے بغیر گھر چلا گیا۔ اِس قسم کا ایمان توبہ کےلئے ایک ضروری تقاضا ہے، اور توبہ بغیر ایمان کے کھوکھلی ہے جو نجات کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ اِس تمثیل میں بیٹے نے نہ صرف واپس آنے کے بارے میں سوچا بلکہ وہ حقیقت میں واپس لوٹ آیا۔ یاد رکھئے، اگرچہ ہم میں بہترین ارادے کیوں نہ ہوں مگر یہ اُس وقت تک بیکار ہیں جب تک اُن کے ساتھ عمل نہ ہو۔

جب گمراہ بیٹا اپنے باپ کے گھر کے نزدیک پہنچا، تو وہ دُور سے اپنے باپ کو ملنے کےلئے دوڑ کر آتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ باپ کی آنکھیں بڑے دھیان سے اُس راہ کا جائزہ لے رہی تھیں جس سے اُس کا بیٹا گیا تھا، اور اُسے اُمید تھی کہ ایک دِن وہ لوٹ آئے گا۔ اور اَب وہ دِن آخرکار آ پہنچا تھا! اپنے عزیز بیٹے کو دیکھنا باپ کےلئے بڑی خوشی کا باعث تھا۔ وہ اُسے جھڑکنا یا شرمندہ کرنا نہیں چاہتا تھا، بلکہ اُسے اُس پر بڑا ترس آیا۔

خالق کائنات سب باتوں میں تحمل سے کام لیتا ہے، مگر ایک تائب گنہگار کو قبول کرنے میں وہ جلدی کرتا ہے۔ اِس تمثیل میں ہم خُدا تعالیٰ کے کام کی ایک مثال دیکھتے ہیں، کیونکہ مسیح نے کہا کہ باپ دوڑتا ہُوا اپنے بیٹے سے ملنے گیا اور اُسے چوما۔ وہ محبت اور معافی کے ساتھ اُسے ملا، اُس کے شرمسار ماضی کو بُھلا دیا، اور اُس کی گندی حالت کے باوجود گرمجوشی کے ساتھ اُسے گلے لگایا۔ اُس نے اپنے اُس دوسرے بیٹے کی نسبت جو بھٹکا نہیں تھا اُس سے بہتر سلوک کرنے سے اُس کے ماضی کے نقصانات اور بدحالی کا ایک طرح سے ازالہ کیا۔ مزید برآں، باپ نے یہ انتظار نہیں کیا کہ بیٹا اپنے کاموں سے اپنی توبہ کے حقیقی ہونے کو ثابت کرے، بلکہ اُس نے فوراً اُس سے صلح صفائی کی۔ معاف کئے جانے کے بعد بیٹے کی اپنے باپ کےلئے مستقل فرمانبرداری، فرمانبردار ہونے کے واحد مقصد کے تحت اُس کی توبہ کا ایک بہتر ثبوت ہونا تھا، اوریہ فرمانبرداری محض باپ کی برکت کو حاصل کرنے کےلئے نہیں ہونا تھی۔ مکمل تابع فرمانی سے پہلے ایک گنہگار کو بخشی ہوئی غیر مشروط معافی الہٰی فضل اور فیاضی ہے، اور یہ فرمانبرداری کے اجر سے بھی بڑی ہے۔

نجات صرف الہٰی ترس کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ اِس کا انحصار باپ کی اپنے بیٹے کےلئے محبت پر ہے، جو رُوحانی ویرانی کے صحرا میں کھویا ہُوا، اور شیطان کی زنجیروں میں جکڑا ہُوا ہے۔ یہ بیٹا، چاہے کتنا ہی کیوں نہ بھٹک گیا اور اپنے باپ کے برعکس ہو گیا، اَب بھی اُس کا بیٹا تھا اور اُس کے نام سے کہلاتا تھا۔ وہ اپنے تمام حصے کو ضائع کرنے کے باوجود اَب بھی خاندان کا وارث تھا۔

یہ پُر محبت ملاپ کس قدر خوبصورت تھا جہاں باپ کی خوشی اپنے توبہ کرنے والے بیٹے کی وجہ سے بے انتہا تھی۔ بیٹے کے توبہ کرنے کے ارادہ کو تب تقویت ملی جب اُس نے اپنے باپ کی بڑی محبت اور مفت معافی دیکھی۔ اِسی طرح، ایک تائب گنہگار پر خُدا تعالیٰ کی مفت، فوری اورمکمل معافی کی بڑی عنایت سے گہرا اثر پڑتا ہے، اور گناہ کےلئے اُس میں حقیقی طور پر بڑی ندامت پیدا ہوتی ہے اور وہ خُدا تعالیٰ کی معافی سے تقویت پاتا ہے۔ اُس کےلئے یہ فرض کرنا ناممکن ہوتا ہے کہ خُدا تعالیٰ کا فضل اُس کو تبدیل کرنے میں تاخیر کرے گا کیونکہ اَب اِس کے نتیجہ میں ایک نیا بندھن پیدا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ہر اُس چیز سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو خُدا کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔

جب مُسرف بیٹے کی اپنے باپ سے ملاقات ہوئی، تو اُس نے وہ بات کرنی شروع کی جس کا اُس نے سؤروں کو چراتے وقت اپنے باپ سے کہنے کا اِرادہ کیا تھا۔ لیکن اِس سے پہلے وہ یہ کہتا کہ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے، اُس کے باپ نے اُسے یہ بات کہنے سے روک دیا۔ بیٹے کی توقعات کے برعکس، باپ نے اپنے خادموں سے کہا کہ وہ اُس سے پیارے بیٹے کے طور پر برتاؤ کریں جس کے خاندانی حقوق دوہرے بحال کئے گئے ہوں۔ وہ جن گندے کپڑوں کو پہنے ہوئے تھا اُس کی جگہ اُسے بہترین پوشاک دی گئی، اور یہ "راستی کی خلعت" اور "نجات کے کپڑوں" کی طرح ہے جس کے بارے میں یسعیاہ نبی نے خبر دی تھی (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 61: 10) ۔ وہ خُدا تعالیٰ کے سامنے نجات دہندہ کے جلال کےلئے راستباز، پاک صاف ٹھہرا۔ پھر باپ نے حکم دیا کہ اُس کی ہاتھ میں ایک انگوٹھی پہنائی جائے جو فرزندیت کے اختیار کا ایک نشان تھی، جس کی بنا پر وہ اپنے باپ کےلئے نائب بن سکا۔ یہ رُوحانی اختیار کی عکاسی ہے، یہ اختیار رُوح القدس ایک توبہ کرنے والے فرد میں اپنی سکونت سے عطا کرتا ہے۔ باپ نے اُسے جوتی پہنانے کا بھی حکم دیا تا کہ وہ اپنے خاندانی فرائض کو سنجیدگی سے ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔ یہ اُس رُوحانی حفاظت کی تصویر ہے جو حقیقی توبہ کرنے والے ہر فرد کو ملتی ہے۔ باپ نے اپنے بیٹے کےلئے جو گھر سے دُور رہ کر بھوک اور محرومی کا شکار تھا ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا، اور یوں اُس کے خیرمقدم کو تکمیل بخشی۔

باپ نے اپنے اِس عمل کی اپنے خادموں کو یہ کہتے ہوئے وضاحت دی کہ "میرا یہ بیٹا مُردہ تھا۔ اَب زندہ ہُوا۔" باپ نے اپنے بیٹے کی بدکاری میں گمراہی کو اخلاقی اور رُوحانی موت کے طور پر سمجھا۔ گھر سے اُس کی دُوری جسمانی موت کی بھی علامت ہے۔ غرض، اُس کا واپس لوٹنا کسی فرد کے موت سے زندہ ہونے کی مانند تھا کیونکہ جسمانی موت حقیقی موت نہیں ہے بلکہ گناہ حقیقی موت ہے۔

د۔ بڑا بیٹا

"لیکن اُس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آ کر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سُنی۔ اور ایک نوکر کو بُلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا، تیرا بھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہُوا بچھڑا ذبح کرایا ہے کیونکہ اُسے بھلا چنگا پایا۔ وہ غصے ہُوا اور اندر جانا نہ چاہا مگر اُس کا باپ باہر جا کر اُسے منانے لگا۔ اُس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا، دیکھ اتنے برسوں سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی مگر مُجھے تُو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا تو اُس کےلئے تُو نے پلا ہُوا بچھڑا ذبح کرایا۔ اُس نے اُس سے کہا، بیٹا! تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔ لیکن خوشی منانا اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا، اَب زندہ ہُوا۔ کھویا ہُوا تھا، اَب ملا ہے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 25- 32)

اِس دُنیا میں خوشیاں کبھی کبھار غم کے ساتھ ملی ہوتی ہیں، جو اکثر رشتہ داروں کی وجہ سے ملتا ہے۔ جب گھر میں ضیافت جاری تھی تو بڑا بیٹا کڑواہٹ کا شکار ہو گیا۔ کھیت سے واپس لوٹنے کے بعد، وہ بظاہر کسی وجہ کے بغیر خوشی شادمانی کی آواز سُن کر حیران تھا۔ اِس موقع پر اُس کا حقیقی بُرا کردار اُبھر کر سامنے آیا۔ ضیافت میں جا کر شامل ہونے کے بجائے اُس نے ایک خادم کو بلوایا اور بُغض پر مبنی عداوت بھرے رویہ کے ساتھ اُس سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وضاحت سُننے پر وہ غصے اور حسد سے بھر گیا، اور اُس نے اپنے باپ اور بھائی کی خوشی میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔

یسوع نے گمراہ بیٹے کی مثال میں محصول لینے والوں اور گنہگاروں کی تصویر پیش کی ہے۔ خُدا تعالیٰ نے اُن کےلئے نجات کا دروازہ کھولا اور وہ داخل ہوئے۔ جبکہ بڑے بیٹے میں مسیح نے اُن لوگوں کی عکاسی کی ہے جو اپنے آپ کو مذہبی لوگ سمجھتے ہیں مگر کھوئے ہوؤں کی واپسی پر شادمانی کرنے کے بجائے شکایت کرتے ہیں۔ بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی میں صرف عیب ہی دیکھ سکا۔ اُس نے اُس کا نام لینا تک گوارا نہ کیا، اور اپنے باپ سے بات کرتے ہوئے اپنے بھائی کی بابت یہ کہنے کو ترجیح دی کہ "تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا۔"

اگرچہ بڑے بھائی کی جانب سے اِس بیان میں کچھ سچائی موجود تھی، مگر اِس بیان نے سچائی کو مکمل طور پر پیش نہیں کیا۔ اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کی حقیقی توبہ کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اپنے غرور میں وہ صرف اپنی ہی خوبیاں دیکھ سکا، کیونکہ اُس نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے مخاطب کیا "دیکھ اتنے برسوں سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی۔" اُس نے پھر یہ خیال کیا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا، تاہم یہ مکمل سچائی نہیں تھی۔ اپنے باپ کی خدمت کی بابت اُس کے خیالات اُس کے الفاظ سے عیاں ہو گئے "مگر مُجھے تُو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔" اپنے باپ کی خوشی میں شریک ہونے کے بجائے وہ خود غرض ہو گیا، اور یہ رویہ اُس کی رُوح اور اعمال پر مکمل طور پر حاوی ہو گیا۔ نتیجہ کے طور پر، اُس کے اور اُس کے باپ کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو گئی، جو اُس خلیج سے بڑی تھی جو چھوٹے بیٹے کے گھر سے دُور کے مُلک میں جانے اور وہاں برائی کے کام کرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ تاہم، باپ نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ ویسا برتاؤ نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی گستاخی اور تلخ تنقید کے باوجود باہر اُس کے پاس گیا اور اُسے سمجھانے لگا۔ اُس نے بڑی محبت کے ساتھ کہا "تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔" باپ کے اِس رویہ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ خُدا تعالیٰ اپنی الہٰی محبت اور ترس، غرور اور سخت دِلی کے شکار لوگوں سے بھی جُدا نہیں کرتا۔ جیسے وہ دیگر گنہگاروں سے پیش آتا ہے ویسے ہی بلکہ بعض اوقات اُس سے بھی بڑی توبہ اور ایمان کی اُنہیں پیشکش کرتا ہے۔ اُنہیں فقط یہ کرنے کی ضرورت ہے کہ خُدا تعالیٰ پر بھروسا کریں اور اپنی بُری راہوں کو چھوڑ دیں جیسے یسوع کے زمانے میں محصول لینے والوں اور گنہگاروں نے کیا۔

یہ کہانی بڑے بیٹے کے اپنے رویہ پر ندامت کے اظہار کے بغیر ختم ہوتی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ بزرگوں اور فریسیوں نے، جس کی یہ بیٹا ترجمانی کرتا ہے، توبہ نہیں کی بلکہ اپنی خطا میں بڑھتے گئے اور آخرکار مسیح کو مصلوب ہونے کےلئے پیلاطس کے حوالے کر دیا۔ اُن کا توبہ نہ کرنا مسیح کے مقدمے کے وقت مزید عیاں ہُوا جب وہ مسیح کے ساتھ انتہائی ظالمانہ طور پر پیش آئے۔

ہم بڑے بیٹے کے بیان سے سیکھتے ہیں کہ جو مغرور افراد خُدا تعالیٰ کے سامنے راستباز ٹھہرنے کےلئے اپنے نیک کاموں پر بھروسا کرتے ہیں، وہ اُن گنہگاروں کی نسبت جو کسی نیکی کا دعویٰ نہیں کرتے خُدا اور فردوس سے بہت دُور ہیں۔ شریروں کی اِصلاح کرنے کےلئے زیادہ اُمید موجود ہے، کیونکہ نیکی کا ڈھونگ رچانے والے افراد کی ریاکاری اور غرور نجات کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہی وہ گناہ تھے جنہوں نے فریسیوں کو مسیح پر ایمان لانے اور نجات سے دُور رکھا۔ آج بھی بہت سے لوگ اِسی وجہ سے اِس سے محروم ہیں۔

مُسرف بیٹے کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ جب ایک گنہگار خُدا تعالیٰ سے دُور رہنے میں مُصِر رہتا ہے تو خُدا اِسے اپنے لئے ایک نقصان سمجھتا ہے۔ لیکن دُور کے مُلک سے ایک گنہگار کا واپس آنا خُدا تعالیٰ کےلئے فائدہ کی بات اور خوشی کا باعث بنتا ہے۔ اُس کی الہٰی محبت اور تحمل کس قدر زبردست ہے! اور اِس میں ہمارے لئے گناہ کو ترک کر دینے کا کتنا بڑا محرک موجود ہے!

2۔ مسیح کا دو تمثیلیں بیان کرنا

الف۔ بد دیانت مختار

"پھِر اُس نے شاگردوں سے بھی کہا کہ کسی دولت مند کا ایک مختار تھا۔ اُس کی لوگوں نے اُس سے شکایت کی کہ یہ تیرا مال اُڑاتا ہے۔ پس اُس نے اُس کو بلا کر کہا کہ یہ کیا ہے جو میں تیرے حق میں سُنتا ہوں؟ اپنی مختاری کا حساب دے کیونکہ آگے کو تُو مختار نہیں رہ سکتا۔ اُس مختار نے اپنے جی میں کہا کہ کیا کروں؟ کیونکہ میرا مالک مُجھ سے مختاری چھینے لیتا ہے۔ مِٹّی تو مُجھ سے کھودی نہیں جاتی اور بھیک مانگنے سے شرم آتی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ کیا کروں تا کہ جب مختاری سے موقوف ہو جائے تو لوگ مُجھے اپنے گھروں میں جگہ دیں۔ پس اُس نے اپنے مالک کے ایک ایک قرض دار کو بُلا کر پہلے سے پوچھا کہ تُجھ پر میرے مالک کا کیا آتا ہے؟ اُس نے کہا، سو من تیل۔ اُس نے اُس سے کہا، اپنی دستاویز لے اور جلد بیٹھ کر پچاس لکھ دے۔ پھِر دوسرے سے کہا، تجھ پر کیا آتا ہے؟ اُس نے کہا، سو من گیہوں۔ اُس نے اُس سے کہا، اپنی دستاویز لے کر اَسّی لکھ دے۔ اور مالک نے بےایمان مختار کی تعریف کی اِس لئے کہ اُس نے ہوشیاری کی تھی کیونکہ اِس جہان کے فرزند اپنے ہم جنسوں کے ساتھ معاملات میں نُور کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ اور میں تم سے کہتا ہوں کہ ناراستی کی دولت سے اپنے لئے دوست پیدا کرو تا کہ جب وہ جاتی رہے تو یہ تم کو ہمیشہ کے مسکنوں میں جگہ دیں۔ جو تھوڑے میں دِیانت دار ہے وہ بہت میں بھی دِیانت دار ہے اور جو تھوڑے میں بد دِیانت ہے وہ بہت میں بھی بد دِیانت ہے۔ پس جب تم ناراست دولت میں دِیانت دار نہ ٹھہرے تو حقیقی دولت کون تمہارے سپرد کرے گا؟ اور اگرتم بیگانہ مال میں دیانت دار نہ ٹھہرے تو جو تمہارا اپنا ہے اُسے کون تمہیں دے گا؟ کوئی نوکر دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خُدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 16: 1- 13)

مسیح نے ایک امیر شخص کی کہانی بیان کی جس نے اپنے مختار کو مال اُڑانے کی وجہ سے اُس کی مختاری سے ہٹا دیا، لیکن اِس سے پہلے اُسے اپنی مختاری کا حساب دینے کےلئے کہا۔ اُس حساب کتاب میں ایسی دستاویزات تھیں جن پر کسانوں نے دستخط کئے ہوئے تھے جن پر اِس بات کا اندراج تھا کہ وہ اُس کے مالک کےلئے کتنی فصل کے مقروض تھے۔ اِس بد دیانت مختار نے اپنی خطا کا اقرار کرنے اور اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے ایک ایسا منصوبہ بنانا شروع کیا جس کی مدد سے وہ اپنی مختاری کے موقوف ہونے کے بعد فائدہ اُٹھا سکتا۔ شیطانی طاقت جو خطا کاری پیدا کرتی ہے اُس میں سے مزید جرم پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اِس لئے، اِس مختار نے ایک نئی چال چلنے کا فیصلہ کیا جو اُس کی اصل بد دیانتی سے زیادہ بُری تھی، کیونکہ اُس نے اپنے ماتحت کام کرنے والے کسانوں کو اِس دھوکے میں شامل کیا۔ بائبل مُقدّس میں ہم پڑھتے ہیں کہ جو دوسروں کی بُری راہوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ زیادہ سزا کا مستحق ہو گا (اِنجیل بمطابق لوقا 17: 1)۔

اِس ناجائز سودے کو کرنے سے بد دیانت مختار نے اپنے مستقبل میں مدد حاصل کرنے کےلئے دوست خریدنے کی کوشش کی۔ اُ س نے اپنے مالک کے قرضداروں سے کہا کہ وہ اپنی دستاویزات میں اُس کے مالک کے ذمہ لکھے قرض کو کم لکھ دیں۔ اُس نے اُن دستاویزات کی توثیق کرنے اور اُنہیں مالک کے سامنے پیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اُس نے اپنے عمل کےلئے یہ عُذر پیش کیا کہ "مِٹّی تو مُجھ سے کھودی نہیں جاتی اور بھیک مانگنے سے شرم آتی ہے۔" جبکہ اِس کے برعکس اُسے حقیقت میں یہ کہنا چاہئے تھا کہ "مُجھے خُرد بُرد نہیں کرنی چاہئے۔"

جب مالک کو اِس نئے فریب کے بارے میں پتا چلا، تو وہ اُس مختار کی عیاری اور دلیری پر بہت حیران ہُوا۔ اُس نے ہشیاری سے پیش آنے پر اُس کی تعریف کی۔ اُس نے اُس کی بد دیانتی کی وجہ سے اُس کی تعریف نہیں کی۔ اگر اُس نے ایسا کیا ہوتا تو وہ اُسے "ہشیار و عیّار" نہ کہتا، اور نہ ہی اُسے اُس کے عہدے سے ہٹاتا۔

مسیح نے اِس تمثیل کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا کہ اِس جہان کے فرزند نُور کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ آپ نے اپنے سامعین کو نصیحت کی کہ اُن کے پاس جو بھی دُنیوی دولت ہے اُسے دوسروں کی خدمت میں خاص طور پر اُن کی ابدی رُوحانی بھلائی کےلئے استعمال کریں۔ یسوع نے ہمیں یہ اجازت نہیں دی کہ ہم بد دیانت ذرائع سے دولت کا انبار لگا دیں یا دھوکہ دہی سے کام لیں اور پھر اُس تمام دولت کو یا اُس کے کُچھ حصہ کو بھلائی کے کاموں میں خرچ کریں۔ تاہم، یہ مشورہ ضرور دیا گیا ہے کہ بد دیانتی کی دولت سے فوری جان چھڑانے کا بہترین طریقہ اُسے بھلائی کے مقاصد اور اُن کاموں کےلئے استعمال کرنا ہے جس سے دوسروں کی راہنمائی خُدا تعالیٰ کی راہوں کی طرف ہو۔

تمثیل میں مختار نے حرام کی کمائی کو اپنے لئے دوست بنانے کےلئے استعمال کیا جو ضرورت کے وقت اُس کے کام آ سکتے۔ اَب ایسا فرد جو غلط طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے، اُسے کتنا زیادہ اُس دولت کو دوست بنانے کےلئے استعمال کرنا چاہئے جو اُسے ہمیشہ کے مسکنوں میں جگہ دیں۔ اگر بد دیانت مختار نے غلط ذرائع سے اپنے زمینی مستقبل کو محفوظ بنانے کےلئے بڑی ہشیاری سے کام لیا، تو داناؤں کو اپنے آسمانی مستقبل کو یقینی بنانے کےلئے کتنی زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ جب ایک فرد دُنیوی معاملات میں جن کی زیادہ قدر و اہمیت نہیں دیانتداری سے کام لیتا ہے تو وہ اُس سے زیادہ قیمتی آسمانی خزانوں کو پانے کےلئے خُدا تعالیٰ کی طرف سے چُنا جا سکتا ہے۔

ب۔ امیر آدمی اور لعزر

"ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا۔ اور لعزر نام ایک غریب ناسُوروں سے بھرا ہُوا اُس کے دروازہ پر ڈالا گیا تھا۔ اُسے آرزو تھی کہ دولت مند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کُتّے بھی آ کر اُس کے ناسُور چاٹتے تھے۔ اور ایسا ہُوا کہ وہ غریب مر گیا اور فرشتوں نے اُسے لے جا کر اَبرہام کی گود میں پہنچا دیا اور دولت مند بھی مُوا اور دفن ہُوا۔ اُس نے عالم ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اُٹھائیں اور اَبرہام کو دُور سے دیکھا اور اُس کی گود میں لعزر کو۔ اور اُس نے پکار کر کہا، اے باپ اَبرہام مُجھ پر رحم کر کے لعزر کو بھیج کہ اپنی اُنگلی کا سِرا پانی میں بھگو کر میری زبان تر کرے کیونکہ میں اِس آگ میں تڑپتا ہوں۔ اَبرہام نے کہا، بیٹا! یاد کر کہ تُو اپنی زندگی میں اپنی اچھی چیزیں لے چکا اور اُسی طرح لعزر بُری چیزیں، لیکن اَب وہ یہاں تسلی پاتا ہے اور تُو تڑپتا ہے۔ اور اِن سب باتوں کے سِوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھا واقع ہے۔ ایسا کہ جو یہاں سے تمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی اُدھر سے ہماری طرف آسکے۔ اُس نے کہا، پس اے باپ! میں تیری مِنّت کرتا ہوں کہ تُو اُسے میرے باپ کے گھر بھیج، کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تا کہ وہ اُن کے سامنے اِن باتوں کی گواہی دے۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ بھی اِس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ اَبرہام نے اُس سے کہا، اُن کے پاس موسیٰ اور انبیاء تو ہیں۔ اُن کی سُنیں۔ اُس نے کہا، نہیں اے باپ اَبرہام۔ ہاں اگر کوئی مُردوں میں سے اُن کے پاس جائے تو وہ توبہ کریں گے۔ اُس نے اُس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سُنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئی جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہ مانیں گے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 16: 19- 31)

مسیح نے ایک امیر آدمی کی تمثیل سُنائی جو شان و شوکت کی زندگی گزارتا تھا جبکہ اُس کے گھر کے دروازے پر ایک مصیبت زدہ بھکاری پڑا تھا، اور بچے ہوئے ٹکڑوں سے اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ آخرکار، دونوں آدمی مر گئے، لیکن اُن دونوں کا مُقدّر فرق تھا۔ امیر آدمی کا جنازہ شان و شوکت والا تھا مگر وہ آسمانی میراث نہ پا سکا۔ مگر غریب آدمی کا جنازہ غیر رسمی سا تھا، لیکن وہ فوراً ابرہام کی گود میں پہنچایا گیا۔

امیر آدمی عذاب کی جگہ میں پہنچایا گیا، اور اُس نے جانا کہ وہ فردوس کے لائق نہیں۔ اُ س نے اپنی آنکھیں اُٹھائیں اور لعزر کی برکت کو دیکھا، اور اُمید کی کہ کسی طرح سے اُس کی تکلیف کچھ کم ہو جائے گی۔ اُس میں خُدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کی ہمت نہ تھی جسے اُس نے اپنی زندگی کے دوران نظرانداز کیا تھا، اور پھر اُس نے یہودی قوم کے جدِّ امجد اَبرہام سے مدد مانگی۔ اپنی زندگی کے دوران اُس نے لعزر سے نفرت کی تھی، مگر اَب وہ اِس بات کی خواہش کرتا ہے کہ لعزر اُس کی زبان کو کچھ پانی دے کر ٹھنڈک پہنچائے۔ یہ امیر شخص غریب لعزرکی بھیگی ہوئی انگلی کے سرے سے اپنی زبان تر کئے جانے کا متمنی تھا۔ یہ وہی لعزر تھا جو اُس کی میز سے بچے ہوئے ٹکڑوں کےلئے درخواست کرتا تھا۔

اَبرہام نے اُسے بتایا کہ جو کُچھ وہ چاہتا ہے ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی پرانی زندگی میں خُدا اور رُوحانی معاملات کے تعلق سے سنجیدہ نہیں تھا۔ اَب اُسے اپنی بڑی غلطی کو پہچاننا تھا جو اُس نے زمین پر کی تھی۔ لیکن اِس کے برعکس، جو زمین پر ابدی زندگی کےلئے شرائط کو پورا کرتے ہیں وہ دُنیا میں حقارت اور مصیبتوں سے نہیں گھبراتے۔ مزید برآں، جہنم اور فردوس کے درمیان اتنی بڑی خلیج موجود ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ناممکن ہے۔

جب امیر آدمی نے پہچان لیا کہ اُس کی اپنی سزا کم نہیں ہو سکتی، تو اُس نے اپنے پانچ بھائیوں کے بارے میں سوچا جو اَب بھی دُنیا میں زندہ تھے۔ وہ کسی طرح سے چاہتا تھا کہ اُنہیں متنبہ کیا جائے تا کہ اُس کی راہ کی پیروی کرتے ہوئے جہنم میں نہ آ جائیں۔ وہ سوچنے لگا، کیا یہ اِمکان موجود ہے کہ لعزر جا کر اُنہیں اُس کی شامتِ اعمال اور عذاب کے بارے میں بتائے اور اِس سزا سے بچنے کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کرے۔ اَبرہام نے جواب دیا کہ اُس کے بھائیوں کو کسی اَور عقلی ترغیب کی ضرورت نہیں کیونکہ جو بائبل مُقدّس میں موجود ایمانی ثبوت سے تسلی نہیں پاتے وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے چاہے اُنہیں کتنے ہی بڑے ثبوت کیوں نہ دیئے جائیں۔ بے اعتقادی رُوحانی اندھا پن ہے جسے نیا ثبوت ٹھیک نہیں کر سکتا۔ ایک اندھے شخص کو بہت بڑی روشنی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے سورج کتنا ہی روشن کیوں نہ چمکے وہ اُس کی روشنی کو دیکھنے کے قابل نہیں ہو گا۔

اِس احمق شخص نے سوچا کہ اُس کے بھائی جو زمین پر لعزر کی غریب حالی سے واقف تھے، جب اُسے آسمان سے جلالی حالت میں تنبیہ کرنے کےلئے نیچے آتے دیکھیں گے تو توجہ دیتے ہوئے توبہ کر لیں گے۔ مگر اَبرہام کے جواب نے اُس کے مفروضے کو غلط ثابت کر دیا۔ اِس تمثیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے انسان کی ابدی منزل اٹل طور پر اُس کے زمینی تجربہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ مزید یہ کہ آسمان کا دروازہ توبہ نہ کرنے والے افراد کےلئے موت کے بعد کھلا نہیں رہتا۔ آسمان پر مُقدّسوں سے شفاعت کی اُمید رکھنا بھی مکمل طور پر لاحاصل ہے۔

3۔ یسوع کا ایک شخص کو مُردوں میں سے زندہ کرنا

"مریم اور اُس کی بہن مرتھا کے گاؤں بیت عنیاہ کا لعزر نام ایک آدمی بیمار تھا۔ یہ وہی مریم تھی جس نے خُداوند پر عِطر ڈال کر اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے۔ اِسی کا بھائی لعزر بیمار تھا۔ پس اُس کی بہنوں نے اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اے خُداوند! دیکھ جسے تُو عزیز رکھتا ہے وہ بیمار ہے۔ یسوع نے سُن کر کہا کہ یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کےلئے ہے تا کہ اُس کے وسیلہ سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔ اور یسوع مرتھا اور اُس کی بہن اور لعزر سے محبت رکھتا تھا۔ پس جب اُس نے سُنا کہ وہ بیمار ہے تو جس جگہ تھا وہیں دو دِن اَور رہا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 11: 1- 6)

یہ لعزر پہلے بیان کی گئی تمثیل کے لعزر سے فرق ہے۔ بیت عنیاہ سے ایک پیامبر مسیح کے پاس یہ بتانے کےلئے آیا کہ مریم اور مرتھا کا بھائی جسے یسوع عزیز رکھتا ہے بیمار ہے۔ یہ درخواست مسیح کےلئے لعزر کی محبت کی وجہ سے نہیں بلک لعزر کےلئے مسیح کی محبت پر مبنی تھی۔ خوشی، اُمید اور نجات ایک گنہگار کی منجی کےلئے محبت پر مبنی نہیں ہے، بلکہ یہ تو گنہگار کےلئے نجات دہندہ کی محبت پر مبنی ہے۔

مریم اور مرتھا اُس خطرے سے واقف تھیں جو مسیح کے یروشلیم میں جانے کی صورت میں سامنے آنے کو تھا، اِس لئے اُنہوں نے آپ کو اپنے پاس آنے کےلئے نہیں بلوایا۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں یاد آیا ہو کہ ایک موقع پر مسیح نے ایک فاصلے سے شفا بخشی تھی۔ مسیح کےلئے اُن کے بھائی کی بیماری کا جاننا کافی ہو گا کہ دُور سے اُس کی شفا کا حکم دے۔

اِس پیغام کےلئے مسیح کا جواب مختصر تھا، اور آپ نے پیامبر کے ساتھ نہ جانے پر معذرت نہیں کی۔ آپ نے کہا "یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کےلئے ہے تا کہ اُس کے وسیلہ سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو۔" وہ پیامبر بیت عنیاہ کو واپس لوٹ آیا جہاں اُسے پتا چلا کہ لعزر تو مر چکا ہے۔ اُس نے کیا سوچا ہو گا؟ کیا اُس نے یہ نتیجہ نکالا ہو گا کہ یسوع نے تو جھوٹ بولا ہے کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ لعزر کی بیماری کا نتیجہ موت کی صورت میں نہیں نکلے گا؟ مریم اور مرتھا نے مدد پانے میں تاخیر کے تعلق سے کیا سوچا ہو گا؟ کیا اُنہوں نے اپنے لئے مسیح کی محبت پر شک کیا؟

"پھر اُس کے بعد شاگردوں سے کہا آؤ پھر یہودیہ کو چلیں۔ شاگردوں نے اُس سے کہا، اے ربی! ابھی تو یہودی تُجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور تُو پھر وہاں جاتا ہے؟ یسوع نے جواب دیا، کیا دِن کے بارہ گھنٹے نہیں ہوتے؟ اگر کوئی دِن کو چلے تو ٹھوکر نہیں کھاتا کیونکہ وہ دُنیا کی روشنی دیکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی رات کو چلے تو ٹھوکر کھاتا ہے کیونکہ اُس میں روشنی نہیں۔ اُس نے یہ باتیں کہیں اور اِس کے بعد اُن سے کہنے لگا کہ ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے لیکن میں اُسے جگانے جاتا ہوں۔ پس شاگردوں نے اُس سے کہا، اے خُداوند! اگر سو گیا ہے تو بچ جائے گا۔ یسوع نے تو اُس کی موت کی بابت کہا تھا مگر وہ سمجھے کہ آرام کی نیند کی بابت کہا۔ تب یسوع نے اُن سے صاف کہہ دیا کہ لعزر مر گیا۔ اور میں تمہارے سبب سے خوش ہوں کہ وہاں نہ تھا تا کہ تم ایمان لاؤ لیکن آؤ ہم اُس کے پاس چلیں۔ پس توما نے جسے توام کہتے تھے اپنے ساتھ کے شاگردوں سے کہا کہ آؤ ہم بھی چلیں تا کہ اُس کے ساتھ مریں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 11: 7- 16)

لعزر کی موت کی خبر سُننے کے تین دِن بعد مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ یہودیہ کی جانب چلیں، لیکن شاگردوں نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا "اے ربی! ابھی تو یہودی تُجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور تُو پھر وہاں جاتا ہے؟" وہ یسوع کے اِن الفاظ سے شش و پنج کا شکار ہو گئے۔ اگر لعزر کو شفا دینے کےلئے وہاں جانا ضروری تھا تو یسوع پہلے وہاں کیوں نہ گیا تھا؟ اور اگر یہ غیر ضروری تھا، تو وہ کیوں اپنے آپ کو اور اُنہیں خطرے میں ڈال رہا تھا؟

یسوع نے اپنے شاگردوں کے اعتراض کو استعمال کرتے ہوئے اُنہیں سکھایا کہ جو خُداوند سے راہنمائی پاتا ہے اُسے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ الہٰی راہنمائی نور ہے، جبکہ اِس کی عدم موجودگی تاریکی ہے۔ یسوع نے اُنہیں مزید بتایا کہ وہاں جانے میں اُس کا مقصد یہ ہے کہ لعزر کو اُس کی نیند سے جگائے۔ مسیح کے "ہمارا دوست" کے الفاظ کے استعمال سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ زبردست خوبیوں کا مالک ایک نوجوان شخص تھا جو مسیح اور اُس کے شاگردوں کا ایک خاص دوست تھا۔

جب یسوع نے دیکھا کہ وہ لفظ "نیند" کے اُس کے استعمال کو نہیں سمجھے، تو آپ نے اُن سے صاف کہہ دیا کہ لعزر مر چُکا تھا۔ تاہم ایماندار کےلئے موت نیند کی طرح ہے، اور جی اُٹھنا ابدی خوشی میں داخل ہونے کا نام ہے۔

یسوع نے اپنے شاگردوں پر ظاہر کیا کہ بیت عنیاہ جانے میں اُس کی تاخیر اُن کے فائدے کےلئے تھی ۔ شفا کی برکت روکنے سے آپ اَب ایک بڑی برکت، موت کی جگہ زندگی عنایت کرنے کو تھے۔ اِس سے شاگردوں کے ایمان کو تقویت ملنی تھی۔ خُدا تعالیٰ اکثر اپنا ڈر رکھنے والے افراد کے ساتھ یونہی پیش آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شاگردوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، لیکن پھر آخرکار توما نے بڑے جوش سے کہا "آؤ ہم بھی چلیں تا کہ اُس کے ساتھ مریں۔" اِن الفاظ سے اُس نے مسیح کےلئے اپنی بڑی محبت اور آپ کےلئے اپنی جان دینے کی رضامندی ظاہر کی۔ تب یسوع اور اُس کے شاگرد بیت عنیاہ کی جانب چل دیئے۔

"پس یسوع کو آ کر معلوم ہُوا کہ اُسے قبر میں رکھے چار دِن ہوئے۔ بیت عنیاہ یروشلیم کے نزدیک قریباً دو میل کے فاصلہ پر تھا۔ اور بہت سے یہودی مرتھا اور مریم کو اُن کے بھائی کے بارے میں تسلی دینے آئے تھے۔ پس مرتھا یسوع کے آنے کی خبر سُن کر اُس سے ملنے کو گئی لیکن مریم گھر میں بیٹھی رہی۔ مرتھا نے یسوع سے کہا، اے خُداوند! اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا؟ اور اَب بھی میں جانتی ہوں کہ جو کچھ تُو خُدا سے مانگے گا وہ تُجھے دے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔ مرتھا نے اُس سے کہا، میں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دِن جی اُٹھے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مُجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہے گا اور جو کوئی زندہ ہے اور مُجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تُو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟ اُس نے اُس سے کہا، ہاں اے خُداوند میں ایمان لا چکی ہوں کہ خُدا کا بیٹا مسیح جو دُنیا میں آنے والا تھا تُو ہی ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 11: 17- 27)

جب یسوع اور اُس کے شاگرد گاؤں کے نزدیک پہنچے تو مرتھا نے سُنا کہ وہ آ رہے ہیں۔ وہ اپنی بہن مریم کو گھر میں ماتم کرنے والوں کے ساتھ چھوڑ کر جلدی سے یسوع سے ملنے کو گئی۔ اُن کے گھر میں بہت سے ماتم کرنے والوں کی موجودگی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لعزر کا گھرانا امیر گھرانا تھا۔

جیسے ہی مرتھا مسیح کے پاس پہنچی تو اُس نے آپ کو بتایا کہ اگر وہ وہاں اُن کے پاس ہوتا تو اُس کا بھائی نہ مرتا۔ پھر اُس نے مزید کہا کہ اگرچہ لعزر مر چکا ہے مگر جو کچھ وہ خُدا سے مانگے گا خُدا اُسے دے گا۔ مسیح پر اُس کا ایمان یقیناً مضبوط تھا، تاہم کامل نہیں تھا کیونکہ جب مسیح نے اُسے بتایا کہ "تیرا بھائی جی اُٹھے گا،" تو وہ اِس کا مطلب یہ سمجھی کہ وہ باقی سب ایمانداروں کے ساتھ قیامت کے دِن جی اُٹھے گا۔ لیکن اِس کے باوجود جناب مسیح نے اُس کے ایمان کو ملحوظِ خاطر رکھا جیسا کہ ہمیشہ آپ کا طریقہ کار ہے۔ پھر مسیح نے ایک نہایت اہم اعلان کیا: "قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مُجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہے گا۔"

سوائے خُدا تعالیٰ کے اَور کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اُس پر ایمان لانا موت کے بعد ہمیشہ کی زندگی کی جانب لے کر جائے گا؟ اُس بڑی تسلی کو کون بیان کر سکتا ہے یا سمجھ سکتا ہے جو تمام زمانے کے ایمانداروں کو اِن الفاظ سے ملی ہے؟ یہی تسلی مسیح کے دوبارہ آنے تک ایمانداروں کی اُمید ہے، جس کے بارے میں بہت سوں کا ایمان ہے کہ یہ جلد واقع ہو گی۔ اُس وقت وہ اپنے الفاظ کے ذریعے سے حکم دے کر سب مُردوں کو زندہ کر دے گا۔ جب یسوع نے مرتھا سے پوچھا کہ کیا وہ اِس پر ایمان رکھتی ہے، تو اُس نے ہاں میں جواب دیا۔ ہم اُس میں ایمان کی کلی کھلتے ہوئے دیکھتے ہیں، جس کا اظہار اُس کے پہلے اور پھر دوسرے جواب سے ہوتا ہے جب اُس کا ایمان پختہ ہو گیا۔

"یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور چپکے سے اپنی بہن مریم کو بُلا کر کہا کہ اُستاد یہیں ہے اور تُجھے بُلاتا ہے۔ وہ سُنتے ہی جلد اُٹھ کر اُس کے پاس آئی۔ (یسوع ابھی گاؤں میں نہیں پہنچا تھا بلکہ اُسی جگہ تھا جہاں مرتھا اُس سے ملی تھی)۔ پس جو یہودی گھر میں اُس کے پاس تھے اور اُسے تسلی دے رہے تھے، یہ دیکھ کر کہ مریم جلد اُٹھ کر باہر گئی، اِس خیال سے اُس کے پیچھے ہو لئے کہ وہ قبر پر رونے جاتی ہے۔ جب مریم اُس جگہ پہنچی جہاں یسوع تھا اور اُسے دیکھا تو اُس کے قدموں پر گر کر اُس سے کہا، اے خُداوند اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔ جب یسوع نے اُسے اور اُن یہودیوں کو جو اُس کے ساتھ آئے تھے روتے دیکھا تو دِل میں رنجیدہ ہُوا اور گھبرا کر کہا، تم نے اُسے کہاں رکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا، اے خُداوند! چل کر دیکھ لے۔ یسوع کے آنسو بہنے لگے۔ پس یہودیوں نے کہا، دیکھو وہ اُس کو کیسا عزیز تھا۔ لیکن اُن میں سے بعض نے کہا، کیا یہ شخص جس نے اندھے کی آنکھیں کھولیں اِتنا نہ کر سکا کہ یہ آدمی نہ مرتا؟" (اِنجیل بمطابق یوحنا 11: 28- 37)

جب یسوع نے مریم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو جس جگہ آپ موجود تھے وہیں رہے، جبکہ مرتھا اپنی بہن کو لینے کےلئے جلدی سے اُٹھ کر گئی۔ جب مریم جلد اُٹھ کر گئی تو دوسرے لوگ یہ سوچ کر اُس کے پیچھے ہو لئے کہ اگر وہ رونے کو قبر پر جاتی ہے تو اُس کے نزدیک رہیں گے۔ اور اِسی جگہ پر مسیح کے دشمنوں کو آپ کے عظیم ترین معجزے کو دیکھنا تھا، جسے دیکھنے کے بعد آپ کے حیرت انگیز کاموں پر شک کرنے یا اُن کا انکار کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہنی تھی۔ بس ایک ہی بات باقی بچی تھی کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی آنکھیں سچائی کےلئے بند کر دیں۔

ایک فرد تصور میں لا سکتا ہے کہ قبر پر جانے والے یہ اُداس لوگ دو غمزدہ بہنوں کے پیچھے چل رہے تھے۔ ایک فرد مسیح کو دیکھنے پر یہودی راہنماؤں کی گھبراہٹ کو بھی ذہن میں لا سکتا ہے جو آپ سے بُغض رکھتے تھے اور آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے مریم کو یسوع کے قدموں میں گرے دیکھا اور وہ مرتھا ہی کے الفاظ دُہرا رہی تھی کہ کیسے اُسے یہاں پر پہلے ہونا چاہئے تھا۔ غالباً یہ سوچ دونوں بہنوں کے ذہن میں گذشتہ چار دِنوں کے دوران اکثر و بیشتر آئی ہو گی۔ اُن کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پہلے نہ آنے پر مسیح موردِ الزام تھا، کیونکہ اُن کا بھائی تو اُسی دِن مر گیا تھا جب پیغام رساں گیا تھا۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ "اگر تُو آ گیا ہوتا،" بلکہ یہ کہا "اگر تُو یہاں ہوتا۔" مریم نے بات کی اور پھر باقی سب لوگ رونے اور ماتم کرنے لگے۔

مسیح کے دِل میں محبت بھرے جذبات موجود تھے۔ آپ اپنے دِل میں رنجیدہ ہُوئے اور گھبرائے۔ گھبرانے کےلئے اصل یونانی لفظ کے معنٰی "ناخوش" ہونے کے ہیں۔ جناب مسیح اُس لمحے اپنے مخالف شیطان کا سامنا کر کے غصہ میں تھے جو دُنیا میں تمام بدحالی، رونے اور موت کی وجہ ہے۔ مسیح نے اُن سے پوچھا کہ لعزر کو کہاں دفن کیا ہے۔ اُنہوں نے جواب دیا، "اے خُداوند! چل کر دیکھ لے۔" جناب مسیح خاموشی سے اُس جگہ کی جانب گئے، جس کی بنا پر یہودیوں نے کہا کہ دیکھو وہ اُس کو کیسا عزیز تھا۔

آپ لعزر کو مُردوں میں سے زندہ کرنے اور اُسے اُس کے خاندان کے ساتھ واپس ملانے کےلئے راستہ میں جاتے ہوئے روئے۔ آپ اپنے عزیز دوستوں کے ماتم کرنے کے دوران کیسے خوش رہ سکتے تھے۔ غرض کہ آپ نے دُنیا کےلئے دِلی غم خواری کی بہترین مثال قائم کی، آپ رونے والوں کے ساتھ روئے اور خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کی۔ آپ نے لوگوں کی تمام مصیبتوں میں اُن کے ساتھ ہمدردی کی اور غمزدہ ہوئے۔ وہاں موجود یہودی بزرگ حیران ہو کر کہنے لگے کہ کیوں اِس موقع پر اُس نے ایسے فرد کو جسے بہت عزیز رکھتا تھا شفا دینے کےلئے اپنی قوت استعمال نہ کی۔ حال ہی میں تو اُس نے یروشلیم میں ایک ایسے اجنبی شخص کو شفا بخشی تھی جو اندھا پیدا ہُوا تھا۔ اُس نے اپنے عزیز دوست لعزر کو کیوں شفا نہ بخشی اور مرنے سے اُسے کیوں نہ بچایا؟

"یسوع پھِر اپنے دِل میں نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ وہ ایک غار تھا اور اُس پر پتھر دھرا تھا۔ یسوع نے کہا، پتھر کو ہٹاؤ۔ اُس مرے ہوئے شخص کی بہن مرتھا نے اُس سے کہا۔ اے خُداوند! اُس میں سے تو اَب بدبو آتی ہے کیونکہ اُسے چار دِن ہو گئے۔ یسوع نے اُس سے کہا، کیا میں نے تُجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تُو ایمان لائے گی تو خُدا کا جلال دیکھے گی۔ پس اُنہوں نے اُس پتھر کو ہٹا دیا۔ پھِر یسوع نے آنکھیں اُٹھا کر کہا، اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو نے میری سُن لی۔ اور مُجھے تو معلوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سُنتا ہے مگر اِن لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں میں نے یہ کہا تا کہ وہ ایمان لائیں کہ تُو ہی نے مُجھے بھیجا ہے۔ اور یہ کہہ کر اُس نے بلند آواز سے پُکارا کہ اے لعزر نکل آ۔ جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ رُومال سے لپٹا ہُوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا، اُسے کھول کر جانے دو۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 11: 38- 44)

جب وہ قبر پر پہنچے تو جناب یسوع اپنے رُوحانی مخالف کے نزدیک آ کر ایک بار پھر رنجیدہ ہوئے، اور جب یسوع شیطان کے مضبوط گڑھ قبر پر اُس کے سامنے تھے تو اُس وقت سخت رُوحانی جنگ واقع ہو رہی تھی۔

قبر کے مدخل پر ایک بھاری پتھر دھرا تھا جسے ہٹانے کی ضرورت تھی، اور چونکہ دیکھنے والے ایسا کر سکتے تھے، اِس لئے مسیح نے اِس تعلق سے معجزہ نہ کیا۔ یہاں ہمارے سامنے نجات کی ایک تصویر ہے۔ ایک گنہگار کو معجزاتی الہٰی مداخلت کی توقع کرتے ہوئے اُس کام کو کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہئے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔ جیسے مسیح نے وہاں موجود افراد سے توقع کی کہ وہ پتھر کو ہٹائیں، ویسے ہی آپ ایک گنہگار کو اُس کے گناہوں سے نجات دینے سے پہلے توقع کرتے ہیں کہ وہ توبہ کرے اور ایمان لائے۔

مرتھا خاندان کی نمائندہ خاتون نے پتھر کے ہٹائے جانے پر اعتراض کیا، کیونکہ وہ اپنے بھائی کے دفن کی عزت کرنا چاہتی تھی۔ اُسے اِس مرحلے پر یسوع کی شفا دینے کی صلاحیت پر بھی شک تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اپنے بھائی کی لاش کو اِس حالت میں دیکھے کہ جب گلنے سڑنے کا عمل شروع ہونے کے بعد اُس میں بدبو آ گئی ہو۔ مسیح نے اُس کے اعتراض پر ہلکی سی سرزنش کرتے ہوئے کہا: "کیا میں نے تُجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تُو ایمان لائے گی تو خُدا کا جلال دیکھے گی۔"

جب لوگوں نے قبر کے پتھر کو ہٹا دیا تو مسیح کا پہلا کام ہجوم میں موجود افراد کے خیالات کو قبر سے اپنے باپ پر منتقل کرنا تھا جو کائنات کے تخت پر بیٹھتا ہے جس کے ساتھ مسیح گہرے طور پر ایک تھا، اِسی لئے آپ نے یہ کہا، "میں اور باپ ایک ہیں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 10: 30) ۔ آپ وہاں موجود ہر شخص کو بتانا چاہتے تھے کہ آپ اپنے باپ کی مرضی سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرتے۔ مسیح نے اپنی آنکھیں اوپر اُٹھا کر کہا "اے باپ میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو نے میری سُن لی۔" تب آپ نے اِس غرض سے کہ کہیں کوئی ایسے نہ سمجھے کہ آپ نے انبیا میں سے کسی ایک کی مانند دُعا کی تھی جنہیں کبھی اپنی دُعا کا جواب ملا اور کبھی نہ ملا، یہ کہا: "اور مُجھے تو معلوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سُنتا ہے۔" اور پھر اِس غرض سے کہ لوگ یہ تاثر نہ لیں کہ آپ کی دُعا آپ میں موجود کسی کمی کی وجہ سے تھی، مسیح نے کہا: "اِن لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں میں نے یہ کہا تا کہ وہ ایمان لائیں کہ تُو ہی نے مُجھے بھیجا ہے۔" یہاں ہمارے سامنے ایک اہم سبق ہے کہ جو گناہوں اور خطاؤں میں رُوحانی مُردہ افراد کو مخاطب کرتے ہیں، اُنہیں اپنی دُعا میں سب سے پہلے ایسے افراد کے بارے میں خُدا تعالیٰ سے بات کرنی چاہئے، جیسا کہ اِس موقع پر مسیح نے کیا۔

اپنی دُعا کے آخر میں مسیح نے بلند آوا ز سے پُکارا، "اے لعزر نکل آ۔" با آوازِ بلند پکارنے سے آپ وہاں موجود افراد پر اُس کام کے حجم اور مشکل پن کو واضح کرنا چاہتے تھے۔ مسیح کی پُکار نے اُنہیں یاد دِلایا کہ رُوح قبر کے اندر موجود نہیں تھی، بلکہ قبر سے پرے بہت دُور سے بلائی جا رہی تھی۔ آپ کے پُر اختیار بلاوے کی آواز پر لعزر جو مر چکا تھا قبر سے باہر نمودار ہُوا جس کے کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور آزادی سے چل پھِر نہ سکتا تھا۔ مسیح نے اُنہیں اُسے کھولنے کےلئے کہا تا کہ وہ جا سکے۔ تب وہ نبُوَّت پوری ہوئی جو پہلے کہی گئی تھی: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خُدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 5: 25)۔

"پس بہتیرے یہودی جو مریم کے پاس آئے تھے اور جنہوں نے یسوع کا یہ کام دیکھا اُس پر ایمان لائے۔ مگر اُن میں سے بعض نے فریسیوں کے پاس جا کر اُنہیں یسوع کے کاموں کی خبر دی۔ پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدرعدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا، ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دِکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اور اُن میں سے کائفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہن تھا اُن سے کہا، تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔ مگر اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اُس سال سردار کاہن ہو کر نبُوت کی کہ یسوع اُس قوم کے واسطے مرے گا۔ اور نہ صرف اُس قوم کے واسطے بلکہ اِس واسطے بھی کہ خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کر کے ایک کر دے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 11: 45- 52)

اِس معجزے نے جناب مسیح کے آسمانی مشن اور آپ کی تعلیمات کی صداقت کی حقیقت کو ثابت کیا۔ اِس میں اُن سب کےلئے بھی ایک تصدیق تھی جو پہلے ہی سچائی پر ایمان لانے کےلئے مائل ہو چکے تھے۔ لیکن اِس سب کے باوجود، وہاں موجود زیادہ تر افراد آپ پر ایمان نہ لائے بلکہ اَور زیادہ سخت دِل ہو گئے۔ اُنہوں نے مسیح کے اِس بیان کی وقعت کو کم کرنے کےلئے کہ وہ قیامت اور زندگی ہے، آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ اِس لئے یہودی بزرگوں نے لعزر کے قبر میں سے حیرت انگیز طور پر زندہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے نئے حالات کا جائزہ لینے کےلئے ایک خاص مجلس کا انعقاد کیا۔ اُنہوں نے اِس بات کا اقرار کیا کہ یسوع بہت سے معجزات کر رہا تھا، اور اگر وہ اُسے چھوڑ دیتے ہیں تو سب اُس کی شخصیت، تعلیم اور معجزات کی وجہ سے اُس پر ایمان لے آئیں گے۔ نیز رُومی حکومت کے خلاف ایک سیاسی بلوہ پیدا ہو جائے گا، جس کے نتیجہ میں حکمران غصے ہو کر قوم کو تباہ کر دیں گے یا پھر اُن کے لوگوں کو اسیر کر لیں گے۔ یہ مجلس مسیحی پیغام کےلئے ایک بڑا فائدہ ثابت ہوئی کیونکہ اِس میں مسیح کے مخالفوں کی طرف سے آپ کے حق میں واضح گواہی دی گئی۔

اِس مجلس کے دوران کائفا سردار کاہن نے ایک نبوتی بیان دیا، اگرچہ وہ اِس بارے میں بےخبر تھا۔ اُس نے کہا: "تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔" اگرچہ کائفا نے کہا کہ یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی مرے نہ کہ ساری قوم، مگر رُوح القدس جس نے اُس کے ذریعے کلام کیا، ظاہر کیا کہ مسیح کی موت تمام قوم کی مخلصی کےلئے تھی، نہ صرف اُن کی مخلصی کےلئے بلکہ یہ خُدا کے تمام پراگندہ فرزندوں کی مخلصی کےلئے بھی تھی۔

کائفا اور دیگر سردار کاہن زیادہ تر صدوقی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے جو مُردوں کی قیامت اور عالم ارواح کا انکار کرتے تھے۔ اِس لئے، لعزر کا جی اُٹھنا اُن کے عقیدے پر ایک تکلیف دہ حملہ تھا کیونکہ اِس نے اُن کی غلطی کو عیاں کر دیا۔ اِس وجہ سے اُنہوں نے مسیح کو قتل کرنے کے منصوبے میں اپنے مخالفوں فریسیوں کا ساتھ دیا۔ لیکن لعزر کی موت نے لوگوں کو تیار کیا کہ وہ مسیح کی آنے والی قیامت پر ایمان لاسکیں۔ مسیح نے دو مہینے بعد خود مُردوں میں سے جی اُٹھنا تھا، لیکن آپ نے اتنی دیر قبر میں نہیں رہنا تھا جتنا لعزر رہا تھا۔

یہودی صدر عدالت ایک اَور مجلس کا انتظار نہیں کر سکتی تھی، اِس لئے اُنہوں نے فوراً یسوع کے قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔ اِس حکم کو صادر کرنے کی اُنہوں نے پہلے کئی بار کوشش کی تھی مگر کامیاب نہ ہوئے تھے۔ تاہم، اَب سے وہ اپنے اِس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے توجہ مرکوز کرنے لگے جسے ناقابل تنسیخ توثیق حاصل ہو گئی تھی۔

4۔ مسیح کی لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں اور گفتگو

الف۔ دس کوڑھیوں کی شفا

"اور ایسا ہُوا کہ یرشلیم کو جاتے ہوئے وہ سامریہ اور گلیل کے بیچ سے ہو کر جا رہا تھا۔ اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس کوڑھی اُس کو ملے۔ اُنہوں نے دُور کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا، اے یسوع! اے صاحب! ہم پر رحم کر۔ اُس نے اُنہیں دیکھ کر کہا، جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دِکھاؤ اور ایسا ہُوا کہ وہ جاتے جاتے پاک صاف ہو گئے۔ پِھر اُن میں ایک یہ دیکھ کر کہ میں شفا پا گیا بلند آواز سے خُدا کی تمجید کرتا ہُوا لَوٹا۔ اور مُنہ کے بل یسوع کے پاؤں پر گر کر اُس کا شکر کرنے لگا اور وہ سامری تھا۔ یسوع نے جواب میں کہا، کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے؟ پھِر وہ نو کہاں ہیں؟ کیا اِس پردیسی کے سِوا اَور نہ نکلے جو لَوٹ کر خُدا کی تمجید کرتے؟ پھِر اُس سے کہا، اُٹھ کر چلا جا۔ تیرے ایمان نے تُجھے اچھا کیا ہے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 17: 11- 19)

جناب مسیح یروشلیم کو واپس آئے کیونکہ عیدِ فسح جو مخلصی والی قربانی کی یادگاری کا موقع تھا نزدیک تھی۔ یوں لگتا ہے کہ کوڑھی اپنی ناگُفتہ بہ حالت کی وجہ سے اکھٹے تھے، یہاں تک کہ اُن میں یہودی اور ایک سامری بھی موجود تھا جو ایک دوسرے کے فطری دُشمن تھے۔ طہارت کے سماجی ضابطوں کے عین مطابق اِن دس کوڑھیوں نے دُور کھڑے ہو کر اپنی درخواست یسوع کے سامنے رکھی۔

اپنی خدمت کے شروع میں یسوع نے کوڑھیوں کو چھو کر شفا دینی شروع کی اور اِس سے طہارت کے بیرونی ضابطوں پر اپنی نرمی اور ترس کی بڑی اہمیت کو واضح کیا۔ لیکن اَب آپ اِس بات کےلئے خوب مشہور ہو چکے تھے، اِس لئے اِس قسم کے چھونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آپ نے اُن دس کوڑھیوں کو یروشلیم میں جا کر اپنی شفا کے ثبوت کے طور پر اپنا آپ کاہنوں کو دِکھانے کےلئے کہا۔ اُنہوں نے اپنے آپ میں شفا کے تعلق سے کچھ بھی دیکھے بغیر یسوع کے حکم کی فوراً فرمانبرداری کی۔ اِسی وجہ سے، مسیح نے اُن کے ایمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جس نے فرمانبرداری کا پھل پیدا کیا، اور راستہ میں جاتے وقت وہ شفا پا گئے۔ لیکن نو یہودیوں نے اُس شخصیت کے کام کا اعتراف کرنے کی زحمت نہ کی جس نے اُن پر یہ ترس ظاہر کیا تھا۔ وہ یروشلیم کی جانب اپنی راہ پر بڑھتے گئے اور شفا دینے والے کی شکرگزاری کرنے کی اپنی ذمہ داری بھول گئے۔ تاہم، یہ پردیسی سامری تشکر سے بھرا تھا۔ وہ واپس لوٹا اور مسیح کا شکر ادا کیا کہ اُس نے اُسے شرم، خطرے اور تنہائی سے رہائی بخشی۔ اجر کے طور پر اُسے یسوع کی طرف سے یہ قیمتی الفاظ سُننے کو ملے: "تیرے ایمان نے تُجھے اچھا کیا ہے۔" کیا یہ واقعہ عمومی اِنسانی تجربہ کی عکاسی نہیں کرتا؟ کیا وہ لوگ تعداد میں تھوڑے سے نہیں ہیں جو خُدا تعالیٰ کی بہت سی رحمتوں کے لئے اُس کا شکر کرتے ہیں؟

ب۔ بادشاہی کی بابت ایک سوال

"جب فریسیوں نے اُس سے پوچھا کہ خُدا کی بادشاہی کب آئے گی؟ تو اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ خُدا کی بادشاہی ظاہری طور پر نہ آئے گی۔ اور لوگ یہ نہ کہیں گے کہ دیکھو یہاں ہے یا وہاں ہے! کیونکہ دیکھو خُدا کی بادشاہی تمہارے درمیان ہے۔ اُس نے شاگردوں سے کہا، وہ دِن آئیں گے کہ تم کو ابنِ آدم کے دِنوں میں سے ایک دِن کو دیکھنے کی آرزو ہو گی اور نہ دیکھو گے۔ اور لوگ تم سے کہیں گے کہ دیکھو وہاں ہے! یا دیکھو یہاں ہے! مگر تم چلے نہ جانا نہ اُن کے پیچھے ہو لینا۔ کیونکہ جیسے بجلی آسمان کی ایک طرف سے کوند کر دوسری طرف چمکتی ہے ویسے ہی ابنِ آدم اپنے دِن میں ظاہر ہو گا۔ لیکن پہلے ضرور ہے کہ وہ بہت دُکھ اُٹھائے اور اِس زمانہ کے لوگ اُسے ردّ کریں۔ اور جیسا نوح کے دِنوں میں ہُوا تھا اُسی طرح ابنِ آدم کے دِنوں میں بھی ہو گا کہ لوگ کھاتے پیتے تھے اور اُن میں بیاہ شادی ہوتی تھی۔ اُس دِن تک جب نوح کشتی میں داخل ہُوا اور طوفان نے آ کر سب کو ہلاک کیا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 17: 20- 27)

فریسیوں نے مسیح سے پوچھا کہ خُدا کی بادشاہی کب آئے گی؟ جواب میں مسیح نے اپنی بادشاہی کے تعلق سے ایک بنیادی حقیقت بیان کی کہ یہ کوئی ایسی شے نہیں ہے جس کا تعلق ایک خاص جگہ یا وقت سے ہے۔ یہ کوئی جسم، کلیسیائی جماعت یا مخصوص کلیسیا نہیں ہے۔ بلکہ خُدا کی بادشاہی تو باطن میں ہے، یعنی اُس کی بادشاہی اُن دِلوں پر مشتمل ہے جن میں وہ رہتا اور راج کرتا ہے۔

اِس کے بعد یسوع اپنے شاگردوں سے مخاطب ہُوئے جو ایک زمینی یہودی بادشاہت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ایک بار پھر یسوع نے اپنے سامنے موجود دُکھوں اور رد کئے جانے کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے اُس غضب کے بارے میں بھی بات کی جو قوم پر آنے کو تھا۔ وہ واقعہ طوفانِ نوح کی دہشت اور سدوم و عمورہ کی تباہی کی خوفناکی کی طرح ہونا تھا۔ اِس واقعے نے یہودی قوم کو ایک گلی سڑی لاش میں بدل د ینا تھا جس پر رومی عقاب جھپٹنے اور کاٹنے پھاڑنے کو تیار تھے۔

ج۔ حلیمی پر مبنی دُعا کی اہمیت

"پھر اُس نے بعض لوگوں سے جو اپنے پر بھروسا رکھتے تھے کہ ہم راستباز ہیں اور باقی آدمیوں کو ناچیز جانتے تھے یہ تمثیل کہی کہ دو شخص ہیکل میں دُعا کرنے گئے۔ ایک فریسی۔ دوسرا محصول لینے والا۔ فریسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یوں دُعا کرنے لگا کہ اے خُدا! میں تیرا شکر کرتا ہوں کہ باقی آدمیوں کی طرح ظالم بے اِنصاف زِناکار یا اِس محصول لینے والے کی مانند نہیں ہوں۔ میں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دہ دیکی دیتا ہوں۔ لیکن محصول لینے والے نے دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہا، اے خُدا! مُجھ گنہگار پر رحم کر۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ شخص دوسرے کی نسبت راست باز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 18: 9- 14)

مسیح نے فریسیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تا کہ اُنہیں نظر آسکے کہ وہ کیسے تھے۔ آپ نے ایک ایسے فریسی کی مثال دی جو اپنی دانست میں راستباز تھا جس کی ہیکل میں دُعا اُس کی اپنی برتر خوبیوں پر مرکوز تھی۔ جبکہ محصول لینے والے کی دُعا اِس اعتبار سے مختلف تھی کہ یہ شِکستگی اور ندامت کی رُوح میں کی گئی۔ اُس نے دُعا کی، "اے خُدا! مُجھ گنہگار پر رحم کر۔" بائبل مُقدّس خود یہ بیان کرتی ہے کہ "شِکستہ رُوح خُدا کی قربانی ہے۔ اے خُدا تُو شِکستہ اور خستہ دِل کو حقیر نہ جانے گا" (زبور 51: 17)۔ محصول لینے والا راست باز ٹھہر کر اپنے گھر گیا جبکہ فریسی کے ساتھ ایسا نہ ہُوا۔ "کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا" (اِنجیل بمطابق لوقا 14: 11)۔

د۔ طلاق کی بابت ایک سوال

"اور فریسی اُسے آزمانے کو اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے، کیا ہر ایک سبب سے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جس نے اُنہیں بنایا اُس نے ابتدا ہی سے اُنہیں مرد اور عورت بنا کر کہا کہ اِس سبب سے مرد باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے؟ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اِس لئے جسے خُدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، پھِر موسیٰ نے کیوں حکم دیا ہے کہ طلاق نامہ دے کر چھوڑ دی جائے؟ اُس نے اُن سے کہا کہ موسیٰ نے تمہاری سخت دِلی کے سبب سے تم کو اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اِجازت دی مگر اِبتدا سے اَیسا نہ تھا۔ اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سِوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زِنا کرتا ہے اور جو کوئی چھوڑی ہوئی سے بیاہ کر لے وہ بھی زِنا کرتا ہے۔ شاگردوں نے اُس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں۔ اُس نے اُن سے کہا کہ سب اِس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جن کو یہ قدرت دی گئی ہے۔ کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہُوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جن کو آدمیوں نے خوجہ بنایا اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہی کےلئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا۔ جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے۔" (اِنجیل بمطابق متی 19: 3- 12)

فریسیوں نے طلاق کے موضوع پر ایک عداوت بھرا سوال مسیح کے سامنے رکھا۔ اگرچہ اُن کے پاس موسیٰ کی شریعت موجود تھی، مگر اُنہوں نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے اِس معاملے پر اپنے سوال کے ذریعے وہ آپ کی تعظیم کر رہے تھے اور آپ سے ہاں یا نہ میں آپ کا فیصلہ چاہتے تھے۔ مسیح نے شریعت کے موافق اپنا فیصلہ دیا۔ جب فریسیوں نے کہا کہ شریعت نے اِس شرط پر طلاق کی اجازت دی ہے کہ یہ باقاعدہ قانونی طور پر اندراج کر کے دِی جائے، تو مسیح نے جواب دیا کہ اُن کی سخت دِلی کی وجہ سے اُنہیں موسیٰ کی طرف سے یہ رعایت دی گئی تھی۔ خُدا نے پہلے اُنہیں ایک ایسی شریعت دی تھی جواُن باتوں تک محدود تھی جنہیں وہ برداشت کر سکتے تھے، تا کہ اُنہیں اردگرد کے لوگوں کے بگاڑ سے بچایا جا سکے، اور پھر اُنہیں بتدریج اصل الہٰی حکم کی جانب لایا جائے جس میں ایک مرد اور ایک عورت کی بات کی گئی تھی۔ تاہم، نئی بادشاہی کی شریعت سوائے حرامکاری کی وجہ کے طلاق کی اجازت نہیں دیتی۔ جب ایک طلاق اِس بنیاد پر نہیں ہوتی تو طلاق یافتہ افراد کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

جب شاگردوں نے شریعت کی ایسی تشریح سُنی اور اِس کا اپنی پہلی تعلیم سے موازنہ کیا تو اُنہوں نے یہ کہنے سے اپنے ردعمل کا اظہار کیا کہ تب تو بیاہ کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ مسیح نے اُن پر واضح کیا کہ تجرد پسندی صرف اُسی وقت مکمل طور پر قابل قبول ہے جب اُسے خُدا کی بادشاہی کی خاطر اختیار کیا جائے۔

ہ۔ بچوں کو برکت دینا

"اُس وقت لوگ بچوں کو اُس کے پاس لائے تا کہ وہ اُن پر ہاتھ رکھے اور دُعا دے مگر شاگردوں نے اُنہیں جِھڑکا۔ لیکن یسوع نے کہا، بچوں کو میرے پاس آنے دو اور اُنہیں منع نہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔ اور وہ اُن پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔" (اِنجیل بمطابق متی 19: 13- 15)

مسیح نے شادی شدہ تعلقات کے بارے میں اپنی گفتگو کے بعد بچوں کے تعلق سے کچھ خوبصورت خیالات کا اظہار کیا۔ اُس وقت بچوں کے ساتھ حقارت آمیز سلوک بہت عام تھا، اور چونکہ مسیح سب کا نجات دہندہ ہے، اِس لئے مسیح کی اُن کےلئے فکرمندی ناگزیر تھی۔

کچھ لوگوں نے اِس اُمید پر یسوع سے اپنے بچوں کو برکت دینے کی درخواست کی کہ اُس کی کامل پاکیزگی اور قدرت میں سے کچھ مسح اُنہیں بھی ملے گا۔ شاگردوں نے اِسے ایک جھنجھلاہٹ تصور کیا اور اُنہیں چلے جانے کےلئے کہا کیونکہ یسوع کے پاس کرنے کےلئے زیادہ اہم کام تھے۔

یسوع نے اِس سخت برتاؤ کو قبول نہ کیا جس نے آپ کے اپنے شاگردوں اور ہم عصر افراد کی سوچ کے مابین ایک بڑا فرق واضح کیا۔ اپنے غصہ اور خوشی دونوں میں مسیح نے الہٰی حکمت کے موتی آشکارا کئے۔ آپ نے شاگردوں کو سخت مگر محبت بھرے الفاظ سے یہ کہتے ہوئے سمجھایا "بچوں کو میرے پاس آنے دو اور اُنہیں منع نہ کرو۔" آپ نے یہ بھی واضح کیا کہ جب تک کوئی خُدا تعالیٰ کی بادشاہی کو بچے کی طرح قبول نہ کرے وہ اُس میں داخل نہیں ہو سکتا۔

ہم ایمان رکھتے ہیں کہ شیر خوارگی میں وفات پا جانے والے تمام بچوں کو اپنے خاندانوں کے مذہب اور سماجی صورتحال سے قطع نظر مسیح کی نجات حاصل ہوتی ہے۔ اَب ذرا تصور کیجئے کہ نوجوانوں کی اُس بڑی تعداد کے مقابلے میں جو اپنے گناہوں میں مر جاتے ہیں، شیرخوار بچوں کی تعداد کتنی ہو گی جو لوگوں کی بڑی آسمانی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔

و۔ امیر نوجوان آدمی

"اور دیکھو ایک شخص نے پاس آ کر اُس سے کہا، اے اُستاد میں کون سی نیکی کروں تا کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟ اُس نے اُس سے کہا کہ تُو مُجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے؟ نیک تو ایک ہی ہے لیکن اگر تُو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔ اُس نے اُس سے کہا، کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خون نہ کر۔ زِنا نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ اُس جوان نے اُس سے کہا کہ میں نے اِن سب پر عمل کیا ہے۔ اب مُجھ میں کس بات کی کمی ہے؟ یسوع نے اُس سے کہا، اگر تُو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا، اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔ تُجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آ کر میرے پیچھے ہو لے۔ مگر وہ جوان یہ بات سُن کر غمگین ہو کر چلا گیا کیونکہ بڑا مالدار تھا۔ اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولتمند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے۔" (اِنجیل بمطابق متی 19: 16- 23)

ایک امیر یہودی راہنما یسوع کے پاس بڑے ادب سے آیا، اور راہِ نجات کے بارے میں سیکھنے کی خواہش کی۔ اُس نے سوال کیا کہ نجات پانے کےلئے اُسے کون سی خاص نیکی کرنی چاہئے۔ مسیح نے جواب دیا کہ لوگ چاہے کتنے بہترین ہی کیوں نہ ہوں، اپنے اندر کامل نیکی نہیں رکھتے، اور ایک فرد حقیقی نیکی صرف خُدا تعالیٰ کی ذات ہی سے منسوب کر سکتا ہے۔ یا تو جناب مسیح کامل طور پر نیک تھے جس کا مطلب یہ ہُوا کہ وہ خُدائے مجسم ہے، یا پھر یہ امیر آدمی اپنی سوچ میں غلط تھا۔ مسیح نے ہمیشہ یہ وضاحت کی کہ آپ کی کاملیّت اور نیکی آپ کے خُدائے مجسم ہونے کی وجہ سے تھی ۔ کوئی بھی انسان کاملیّت یا نیکی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

یہ امیر نوجوان آدمی جاننا چاہتا تھا کہ ہمیشہ کی زندگی پانے کےلئے وہ کیا نیکی کرے۔ مسیح نے اُسے بتایا کہ صرف کامل نوعیّت کی نیکی ہی ہمیشہ کی زندگی کو پانے کےلئے درکار ہے۔ مُقدّس یعقوب نے لکھا: "کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اور ایک بات میں خطا کی وہ سب باتوں میں قصور وار ٹھہرا" (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 10)۔ جب اِس امیر آدمی نے دعویٰ کیا کہ اُس نے ہمیشہ ساری شریعت پر عمل کیا ہے، تو مسیح نے اُس کی طرف دیکھا اور اُس کی سرگرمی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ حقیقت اُس پر منکشف کرنی چاہی کہ شریعت پر عمل کرنے کا الہٰی معیار ظاہری طور پر اُس پر عمل کرنا نہیں بلکہ رُوحانی طور پر عمل کرنا ہے، اور صرف یہی معیار قابل قبول ہے۔ اِس لئے مسیح نے اُسے اپنی تمام دولت غریبوں میں بانٹ دینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ اپنی صلیب اُٹھائے اور اُس کی پیروی کرے۔

یسوع نے شریعت کا خلاصہ دو باتوں میں بیان کیا: سب سے بڑھ کر خُدا سے محبت کرنا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرنا۔ اگر اِس امیر آدمی نے تمام حکموں پر واقعی عمل کیا ہوتا تو اُسے مسیح کے الفاظ پر عمل کرنے میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یوں اُس کا دعویٰ غلط ثابت ہُوا۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ غمگین ہو گیا کیونکہ بڑا مالدار تھا۔ اُس نے دِکھایا کہ وہ خُدا تعالیٰ سے زیادہ اپنی دولت سے محبت کرتا تھا۔ اُس نے دولت کو مکمل طور پر اپنا مالک بنایا ہُوا تھا۔ چونکہ مسیح کے دِل میں اِس شخص کےلئے محبت تھی، اِس لئے آپ کو اُس کے آسمان کی بادشاہی کی نسبت اپنی دولت کو مُقدّم جاننے کے فیصلے سے گہرے طور پر افسوس ہُوا۔

خُدا تعالیٰ کی بادشاہی میں داخلہ اِسی دُنیا سے شروع ہو جاتا ہے۔ اِس میں داخل ہونے والے صاف صاف سمجھ لیتے ہیں کہ اُن کا تمام مال و اسباب بادشاہ کےلئے ہے۔ جب کبھی خُدا ایک ایماندار سے اُس میں سے کچھ کا تقاضا کرے تو اُنہیں رضامندی اور خوشی سے اُسے نذر کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ جب غربت یا مادی نقصان کا سامنا ہو تو کسی بھی طرح کی شکایت کرنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر کسی فرد کا دِل اِس دُنیا کی چیزوں میں لگا رہتا ہے، تو اُسے کوئی آسمانی خوشی نہیں ملے گی، اُس کا وہاں کوئی خزانہ نہیں۔ ایسے شخص کا آسمان میں داخلہ بعید از قیاس ہے۔ اور اگر یہ ممکن بھی ہوتا تو اُسے وہاں کوئی خوشی نہ ہوتی۔

"اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولتمند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے۔ اور پھِر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دولتمند خُدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔ شاگرد یہ سُن کر بہت ہی حیران ہُوئے اور کہنے لگے کہ پھِر کون نجات پا سکتا ہے؟ یسوع نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ آدمیوں سے تو نہیں ہو سکتا لیکن خُدا سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔" (اِنجیل بمطابق متی 19: 23- 26)

اِسی مناسبت سے مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ جو اپنی دولت پر بھروسا کرتے ہیں اُن کےلئے خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کس قدر مشکل ہو گا، اور اُن کی نسبت اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا آسان ہے۔ شاگردوں نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا "پھِر کون نجات پا سکتا ہے؟" تب مسیح نے اُن پر واضح کیا کہ انسانی لالچ اِس بات کو ناممکن بنا دیتا ہے کہ کوئی فرد دُنیا کی محبت کے سحر سے مکمل طور پر نکل سکے۔ تاہم، خُدا تعالیٰ سے سب کچھ ممکن ہے۔ جب رُوح القدس دولت سے محبت رکھنے والے افراد کے دِل بدلتا ہے تو وہ مسیح کی رُوحانی بادشاہی میں داخل ہونے کے قابل ہوتے ہیں، کیونکہ اُن کے نئے دِل دولت سے زیادہ خُدا سے محبت کریں گے۔

"اِس پر پطرس نے جواب میں اُس سے کہا، دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔ پس ہم کو کیا ملے گا؟ یسوع نے اُن سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابنِ آدم نئی پیدایش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہو لئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اِسرائیل کے بارہ قبیلوں کا اِنصاف کرو گے۔ اور جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اُس کو سو گُنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو گا۔ لیکن بہت سے اوّل آخر ہو جائیں گے اور آخر اوّل۔" (اِنجیل بمطابق متی 19: 27- 30)

دولت کے ذِکر نے پطرس کو یہ سوال پوچھنے پر اُبھارا: "دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔ پس ہم کو کیا ملے گا؟" مسیح نے اُسے بتایا کہ وہ اِس دُنیا میں خاص اجر پائیں گے، ایذا رسانی کے ساتھ اُن کا ایمان پرکھا جائے گا اور اجر میں اضافہ ہو گا۔ پھر آنے والے جہان میں وہ ہمیشہ کی زندگی کے وارث ہوں گے۔ اِس تعلق سے مسیح نے اُس بات کو دُہرایا جو آپ نے پہلے کہی تھی اور کچھ دیر میں پھر کہی: "لیکن بہت سے اوّل آخر ہو جائیں گے اور آخر اوّل۔"

ز۔ تاکستان کے مزدوروں کی تمثیل

"کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُس گھر کے مالک کی مانند ہے جو سویرے نکلا تا کہ اپنے تاکستان میں مزدور لگائے۔ اور اُس نے مزدوروں سے ایک دینار روز ٹھہرا کر اُنہیں اپنے تاکستان میں بھیج دیا۔ پھِر پہر دِن چڑھے کے قریب نکل کر اُس نے اَوروں کو بازار میں بیکار کھڑے دیکھا۔ اور اُن سے کہا، تم بھی تاکستان میں چلے جاؤ۔ جو واجب ہے تم کو دوں گا۔ پس وہ چلے گئے۔ پھِر اُس نے دوپہر اور تیسرے پہر کے قریب نکل کر ویسا ہی کیا۔ اور کوئی ایک گھنٹہ دِن رہے پھِر نکل کر اَوروں کو کھڑے پایا اور اُن سے کہا، تم کیوں یہاں تمام دِن بیکار کھڑے رہے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، اِس لئے کہ کسی نے ہم کو مزدوری پر نہیں لگایا۔ اُس نے اُن سے کہا، تم بھی تاکستان میں چلے جاؤ۔ جب شام ہوئی تو تاکستان کے مالک نے اپنے کارندہ سے کہا کہ مزدوروں کو بُلا کر اور پچھلوں سے لے کر پہلوں تک اُن کی مزدوری دے دے۔ جب وہ آئے جو گھنٹہ بھر دِن رہے لگائے گئے تھے تو اُن کو ایک ایک دینار ملا۔ جب پہلے مزدور آئے تو اُنہوں نے یہ سمجھا کہ ہم کو زیادہ ملے گا اور اُن کو بھی ایک ہی ایک دینار ملا۔ جب ملا تو گھر کے مالک سے یہ کہہ کر شکایت کرنے لگے کہ اِن پچھلوں نے ایک ہی گھنٹہ کام کیا ہے اور تُو نے اِن کو ہمارے برابر کر دیا جنہوں نے دِن بھر کا بوجھ اُٹھایا اور سخت دھوپ سہی۔ اُس نے جواب دے کر اُن میں سے ایک سے کہا، میاں میں تیرے ساتھ بے اِنصافی نہیں کرتا۔ کیا تیرا مُجھ سے ایک دینار نہیں ٹھہرا تھا؟ جو تیرا ہے اُٹھا لے اور چلا جا۔ میری مرضی یہ ہے کہ جتنا تُجھے دیتا ہوں اِس پچھلے کو بھی اُتنا ہی دُوں۔ کیا مُجھے روا نہیں کہ اپنے مال سے جو چاہوں سو کروں؟ یا تُو اِس لئے کہ میں نیک ہوں بُری نظر سے دیکھتا ہے؟ اِسی طرح آخر اوّل ہو جائیں گے اور اوّل آخر۔" (اِنجیل بمطابق متی 20: 1- 16)

جب پطرس نے پوچھا کہ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں، پس ہم کو کیا ملے گا؟ تو مسیح نے اُس کے سوال کے جواب میں تاکستان میں مزدوروں کی تمثیل بیان کی۔ مالک نے مزدوروں کو دِن کے مختلف وقت میں کام پر لگایا، جن میں سے کچھ کام ختم ہونے سے گھنٹہ پہلے کام پر لگائے گئے۔ جو سب سے پہلے کام پر مقرر کئے گئے تھے اُن کے ساتھ ایک دینار اُجرت ٹھہرائی گئی۔ جہاں تک بعد میں آنے والوں کی بات ہے، مالک نے اُنہیں کہا کہ جو واجب ہو گا وہ اُنہیں دیا جائے گا۔ دِن کے اختتام پر، اُس نے تمام مزدوروں کو یکساں اُجرت دی، اور اپنے کارندہ سے کہا کہ سب سے پہلے آخر میں کام پر لگائے گئے مزدوروں کو معاوضہ دے، اور اُنہیں پورے دِن کی اُجرت کے برابر ادا کرے۔ اِس فیاضی کو اُن افراد نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جو دِن بھر مزدوری پر لگائے گئے تھے، اِسے لئے وہ بڑبڑائے۔ مالک نے اُن کے ساتھ سختی سے بات کی اور یاد دِلایا کہ اُنہیں یہ بات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کیسے اپنی رقم کو خرچ کرتا ہے۔ مزید برآں، جسے اپنی پوری اُجرت ملی ہے اُسے اُن افراد سے حسد کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں جنہیں اپنی اُجرت سے زیادہ ملا۔

اِس تمثیل میں، ہم اُن افراد کی خطا کے بارے میں سیکھتے ہیں جو اپنے سے زیادہ ترقی کرنے والے دیگر افراد کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ ہمیں اُن لوگوں کی غلطی بھی نظر آتی ہے جو انسان کے ساتھ خُدا تعالیٰ کے معاملات میں عدم مساوات پر احتجاج کرتے ہیں۔ ہر معقول فرد یہ احساس کر سکتا ہے کہ دُنیا میں انتہائی ناگفتہ بہ شخص بھی جن زمینی برکات اور آسمانی ترس کا مستحق ہے اُسے اُس سے زیادہ ہی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں، جب بات الہٰی معاملات کی ہو، تو کوئی ایک جان بھی ایسی نہیں جو بُرے برتاؤ کا دعویٰ کر سکے۔

ح۔ صلیب کی بابت ایک اعلان

"اور یروشلیم جاتے ہوئے یسوع بارہ شاگردوں کو الگ لے گیا اور راہ میں اُن سے کہا، دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابنِ آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُس کے قتل کا حکم دیں گے۔ اور اُسے غیر قوموں کے حوالہ کریں گے تا کہ وہ اُسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں اور کوڑے ماریں اور مصلوب کریں اور وہ تیسرے دِن زندہ کیا جائے گا۔ اُس وقت زبدی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ اُس کے سامنے آ کر سجدہ کیا اور اُس سے کچھ عرض کرنے لگی۔ اُس نے اُس سے کہا کہ تُو کیا چاہتی ہے؟ اُس نے اُس سے کہا، فرما کہ یہ میرے دونوں بیٹے تیری بادشاہی میں تیری دہنی اور بائیں طرف بیٹھیں۔ یسوع نے جواب میں کہا، تم نہیں جانتے کہ کیا مانگتے ہو۔ جو پیالہ میں پینے کو ہوں کیا تم پی سکتے ہو؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، پی سکتے ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا، میرا پیالہ تو پیو گے لیکن اپنے دہنے بائیں کسی کو بٹھانا میرا کام نہیں مگر جن کےلئے میرے باپ کی طرف سے تیار کیا گیا اُن ہی کےلئے ہے۔ اور جب دسوں نے یہ سُنا تو اُن دونوں بھائیوں سے خفا ہُوئے۔ مگر یسوع نے اُنہیں پاس بُلا کر کہا، تم جانتے ہو کہ غیر قوموں کے سردار اُن پر حکم چلاتے اور امیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ تم میں ایسا نہ ہو گا بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چاہئے وہ تمہارا خادم بنے۔ اور جو تم میں اوّل ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے۔ چنانچہ ابنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔" (اِنجیل بمطابق متی 20: 17- 28)

مسیح کے یروشلیم کے نزدیک پہنچنے کے ساتھ اُن کے سامنے موجود صلیب اَور واضح ہوتی گئی، اور دُنیا کے جس گناہ کو آپ نے برداشت کرنا تھا جناب مسیح اُس کے بوجھ کو اَور زیادہ محسوس کرنے لگے۔ آپ اپنے شاگردوں کو ایک طرف لے گئے اور تیسری مرتبہ اُنہیں اپنے آنے والے دُکھوں اور موت کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ چونکہ اِن خوفناک واقعات کے پیش آنے کے دوران اُنہوں نے مسیح کے ساتھ ہونا تھا، اِس لئے آپ اُن سے چاہتے تھے کہ اِن حقائق کو جاننے کے بعد وہ اپنی رضامندی سے آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ نے اپنے شاگردوں پر واضح کیا کہ اُس کو سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالے کیا جائے گا جو اُس کے قتل کا حکم دیں گے۔ پھر مذہبی رواج کے برعکس، یہ لوگ اُس کو غیر قوموں کے حوالے کریں گے۔ جناب مسیح نے اُنہیں بتایا کہ اُسے کوڑے مارے جائیں گے، بے عزت کیا جائے گا، اُس پر تھوکا جائے گا، اُسے مصلوب کیا جائے گا اور پھر تین دِن کے بعد وہ مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔

اِن سب وضاحتوں کے باوجود، یوں لگتا ہے کہ آپ کے شاگرد آپ کے الفاظ کو نہ سمجھے۔ آپ کے شاگردوں میں سے دو، یعقوب اور یوحنا اپنی والدہ سلومی کے ساتھ آپ کے پاس آئے جس نے مسیح سے ایک خاص عنایت طلب کی۔ وہ یسوع کی خالہ تھی، اور اُس نے یسوع سے درخواست کی کہ وہ اُس کے دونوں بیٹوں کو اپنی بادشاہی میں سب سے زیادہ نمایاں مقام عطا کرے۔ وہ چاہتی تھی کہ ایک اُس کی دہنی طرف بیٹھے اور دوسرا اُس کی بائیں طرف بیٹھے۔ سلومی کو پورا بھروسا تھا کہ اُس کا بھانجا اِس خواہش کو پورا کرے گا، خاص کر جبکہ اُس نے اپنا گھر چھوڑا، اور شاگردوں کے ساتھ اُس کے سفر میں اُس کے ساتھ تھی۔ اُس نے اُن کے اخراجات کےلئے اپنی دولت بھی دی تھی، اور یہ بھی دیکھا تھا کہ یائیر کے گھر اور تبدیلی صورت کے پہاڑ پر اُس کے بیٹے نمایاں مقام کے حامل تھے۔

سلومی اور اُس کے بیٹوں نے بہت کم احساس کیا تھا کہ ایک فرد کو عزت محض مانگنے سے نہیں ملتی بلکہ اُسے اِس کے لائق ہونا چاہئے۔ غرض، لالچ اور شوق نہیں بلکہ قربانی اور خود انکاری الہٰی توثیق کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ اِس وجہ سے، مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: "تم نہیں جانتے کہ کیا مانگتے ہو۔ جو پیالہ میں پینے کو ہوں کیا تم پی سکتے ہو؟" جب اُنہوں نے جلدی سے جواب دیا کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں تو مسیح نے اِس خیال کو نظرانداز نہیں کیا، لیکن پھر اُن کے سامنے وضاحت پیش کی کہ اُس کی بادشاہی میں فوقیت صرف اُن کےلئے ہے جنہیں اُس کا آسمانی باپ یہ عطا کرتا ہے۔ آپ زمین پر ابنِ آدم ہوتے ہوئے یہ عنایت نہیں کر سکتے۔

باقی شاگرد یعقوب اور یوحنا کے اِس عمل سے پریشان سے ہو گئے، اِس لئے مسیح نے اُنہیں نصیحت کی۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ آپ کی بادشاہی میں عظمت کی راہ چھوٹا بن کر خدمت کرنے کے رویہ سے شروع ہوتی ہے۔ جب لوگ خُداوند یسوع مسیح کی فرمانبرداری میں خادموں کی خوبیاں اور کام اختیار کرتے ہیں، تو دوسرے جلد ہی دُنیا میں رُوحانی برکت اور دینداری کے پھیلاؤ کو دیکھیں گے۔

ط۔ مسیح کا زکائی کو نجات دینا

"وہ یریحو میں داخل ہو کر جا رہا تھا۔ اور دیکھو زکائی نام ایک آدمی تھا جو محصول لینے والوں کا سردار اور دولت مند تھا۔ وہ یسوع کو دیکھنے کی کوشش کرتا تھا کہ کون سا ہے لیکن بھِیڑ کے سبب سے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اِس لئے کہ اُس کا قد چھوٹا تھا۔ پس اُسے دیکھنے کےلئے آگے دوڑ کر ایک گُولر کے پیڑ پر چڑھ گیا کیونکہ وہ اُسی راہ سے جانے کو تھا۔ جب یسوع اُس جگہ پہنچا تو اُوپر نگاہ کر کے اُس سے کہا، اے زکائی جلد اُتر آ کیونکہ آج مُجھے تیرے گھر میں رہنا ضرور ہے۔ وہ جلد اُتر کر اُس کو خوشی سے اپنے گھر میں لے گیا۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو سب بُڑبُڑا کر کہنے لگے کہ وہ تو ایک گنہگار شخص کے ہاں جا اُترا۔ اور زکائی نے کھڑے ہو کر خُداوند سے کہا، اے خُداوند دیکھ میں اپنا آدھا مال غریبوں کو دیتا ہوں اور اگر کسی کا کچھ ناحق لے لیا ہے تو اُس کو چوگُنا ادا کرتا ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا، آج اِس گھر میں نجات آئی ہے۔ اِس لئے کہ یہ بھی ابرہام کا بیٹا ہے۔ کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 19: 1- 10)

جناب مسیح، زکائی کے گھر میں، جو محصول لینے والوں کا سردار تھا، توبہ اور ایمان کا پیغام لے کر جانے کےلئے یریحو میں داخل ہوئے۔ اِس شخص نے لازماً مسیح کی شہرت کے بارے میں سُن رکھا تھا جس نے محصول لینے والوں کےلئے توبہ اور نجات کا دروازہ کھولا تھا۔ وہ یسوع کو دیکھنا چاہتا تھا، اور جب وہ اپنے چھوٹے قد اور اردگرد موجود بڑے ہجوم کی وجہ سے یسوع کو نہ دیکھ سکا تو اُسے گولر کا ایک درخت نظر آیا جس کی ٹہنیاں زمین کی طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ دوڑ کر گیا اور اُس درخت کے اوپر چڑھ گیا۔ اُسے اِس بات کا کوئی خیال نہ تھا کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ جب مسیح اُس درخت کے نزدیک پہنچے تو آپ نے زکائی کو اِس کا صلہ یوں دیا کہ آپ نے ہجوم کو وہاں روکا اور زکائی کو اُس کے نام سے بلایا اور اُسے جلد نیچے اُتر آنے کےلئے کہا تا کہ وہ اپنے گھر میں آپ کو خوش آمدید کہے۔ ایسا کرنے سے مسیح خُداوند اُس میں ایک اہم رُوحانی کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اگرچہ اُس کے پیشہ، اہمیت، دولت، کردار اور ماضی کے طرزِ عمل نے اُسے ایسا شخص بنا دیا تھا جس کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کا امکان بہت کم تھا، لیکن اِس سب کے باوجود یسوع نے نجات کےلئے اِس محصول لینے والے کو چُنا، اور اِس عمل میں ہجوم کی ناپسندیدگی کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا۔

مسیح کی خوشی کا پیالہ اُس وقت لبریز ہو گیا جب زکائی نے موجود سب افراد کے سامنے اپنی توبہ اور اُس کے نتیجہ کا اعلان کیا: "اے خُداوند دیکھ میں اپنا آدھا مال غریبوں کو دیتا ہوں اور اگر کسی کا کچھ ناحق لے لیا ہے تو اُس کو چوگُنا ادا کرتا ہوں۔" جو کچھ امیر نوجوان آدمی نے کرنے سے انکار کر دیا تھا، وہ زکائی محصول لینے والے نے کیا۔ خُدا تعالیٰ نے اُس کا دِل بدل دیا، اُسے ناممکن کام کرنے کے قابل بنایا، اور اُس میں سے دولت کی محبت دُور کر دی، اور یوں ایک اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل کر آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو گیا۔ مسیح نے اعلان کیا کہ یہ شخص نجات یافتہ ہے، اور پھر بتایا کہ ابنِ آدم اِسی مقصد کے تحت آیا ہے کہ کھوئے ہوؤں کو نجات بخشے۔ زکائی اُن لوگوں کی ایک مثال ہے جو نجات دہندہ کے پاس آنے کےلئے اپنی راہ میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ وہ بغیر تاخیر کے فوراً تبدیل ہوتے ہیں، اور اپنی تبدیلی کی حقیقت کا ٹھوس ثبوت پیش کرتے ہیں کیونکہ اُن کا ایمان عمل میں نظر آتا ہے۔ اندھا برتلمائی اور زکائی یریحو میں کلیسیا کے پہلے پھل بن گئے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ یریحو سے نکلنے والی بھیڑ میں شامل تھے جو عید میں شامل ہونے کےلئے یروشلیم کو جا رہی تھی۔

ی۔ مسیح کا لعزر کے گھر جانا

"پھِر یسوع فسح سے چھ روز پہلے بیت عنیاہ میں آیا جہاں لعزر تھا جسے یسوع نے مُردوں میں سے جِلایا تھا۔ وہاں اُنہوں نے اُس کے واسطے شام کا کھانا تیار کیا اور مرتھا خدمت کرتی تھی مگر لعزر اُن میں سے تھا جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے۔ پھِر مریم نے جٹاماسی کا آدھ سیر خالص اور بیش قیمت عِطر لے کر یسوع کے پاؤں پر ڈالا اور اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے اور گھر عِطر کی خوشبو سے مہک گیا۔ مگر اُس کے شاگردوں میں سے ایک شخص یہوداہ اِسکریوتی جو اُسے پکڑوانے کو تھا کہنے لگا۔ یہ عِطر تین سو دِینار میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟ اُس نے یہ اِس لئے نہ کہا کہ اُس کو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اِس لئے کہ چور تھا اور چونکہ اُس کے پاس اُن کی تھیلی رہتی تھی اُس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔ پس یسوع نے کہا کہ اُسے یہ عِطر میرے دفن کے دِن کےلئے رکھنے دے۔ کیونکہ غریب غُربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں لیکن میں ہمیشہ تمہارے پاس نہ رہوں گا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 12: 1- 8)

مسیح اور آپ کے شاگرد بیت عنیاہ کے گاؤں میں پہنچے اور لعزر کے گھر میں ٹھہرے جو کچھ ہی دیر پہلے مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ پھِر اُنہیں شمعون کوڑھی کے گھر میں ایک ضیافت میں مدعو کیا گیا، جو ایک روایت کے مطابق مرتھا کا شوہر تھا۔ انجیل مُقدّس بیان کرتی ہے کہ جو یسوع کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اُن میں لعزر بھی موجود تھا، جبکہ مرتھا گھریلو تیاریوں میں مصروف تھی۔ مریم کا ذِکر بھی ہے، کیونکہ وہ بیش قیمت عِطر کی شیشی لے کر آئی اور اُسے توڑ کر عِطر یسوع کے سر اور پاؤں پر ڈالا۔ بعد ازاں، اُس نے اپنے بالوں سے آپ کے پاؤں پونچھے جو اپنے نجات دہندہ کےلئے تشکر اور عزت افزائی کا ایک نشان تھا۔ عِطر کی خوشبو سے وہ جگہ بالکل ویسے ہی مہک اُٹھی جیسے مسیح کی محبت میں کیا جانے والا چھوٹا ترین کام بھی اپنی بھینی خوشبو سے تمام جگہ کو مہکا دیتا ہے، چاہے وہ ٹھنڈے پانی کا ایک پیالہ ہی کیوں نہ ہو جو مسیح کے چھوٹے ترین شاگردوں میں سے کسی ایک کو پیش کیا جائے۔

بھلائی کے کام کرنے والے شاذ و نادر ہی دوسروں کی طرف سے کیڑے نکالنے کے عمل سے بچ سکتے ہیں، اور اِس موقع پر مریم کے بظاہر نظر آنے والے اسراف پر کچھ سخت تنقید سامنے آئی۔ زیادہ امکا ن یہ ہے کہ یہوداہ اسکریوتی نے اِس تنقید کو شروع کیا اور دوسروں کو اُبھارا، کیونکہ اُس کے پاس روپیوں کی تھیلی رہتی تھی جس میں سے غریبوں کو دیا جاتا تھا اور وہ خود اُس میں سے چُرا لیتا تھا۔ یوں اُس کی غریبوں کی حمایت میں دی جانے والی دلیل خلوص پر مبنی نہیں تھی۔ کچھ دوسرے شاگردوں نے بھولے پن میں اُس کے حملے کا ساتھ دیا، اور یہوداہ کے دعوے کی حمایت میں سامنے آ گئے کہ مریم کا یہ عمل ایک غیر ضروری ضیاع تھا، اور زیادہ بہتر ہوتا کہ اِس عِطر کی قیمت ضرورت مندوں کو دے دی جاتی۔

مسیح نے مریم کو حملہ کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بلکہ تنقید کرنے والوں کو جِھڑکا اور مریم کے عمل کو سراہا۔ یہ ایسے تھا کہ جیسے نبوت کی رُوح میں، چند دِن کے بعد مسیح کی لاش پر خوشبودار چیزیں لگانے کی تیاری کے طور پر اُس نے آپ کے بدن پر عِطر ڈالا تھا۔ اُس اعتراض کو رد کرتے ہوئے مسیح نے کہا وہ جلد ہی اُن کے پاس سے چلا جائے گا، اِس لئے اُن کےلئے ممکن نہیں ہو گا کہ اِس طرح سے اُسے تعظیم دیں۔ جہاں تک غریبوں کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ موجود رہیں گے اور اُن سے کسی بھی وقت خیرات پا سکتے تھے۔ یسوع نے اِن الفاظ سے مریم کو تسلی دی: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمام دُنیا میں جہاں کہیں اِس خوشخبری کی مُنادی کی جائے گی یہ بھی جو اِس نے کیا اِس کی یادگاری میں کہا جائے گا" (اِنجیل بمطابق متی 26: 13)۔

5۔ مسیح بادشاہ کا یروشلیم میں داخل ہونا

"اور جب وہ یروشلیم کے نزدیک پہنچے اور زیتون کے پہاڑ پر بیت فگے کے پاس آئے تو یسوع نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے سامنے کے گاؤں میں جاؤ۔ وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئی اور اُس کے ساتھ بچہ پاؤ گے اُنہیں کھول کر میرے پاس لے آؤ۔ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خُداوند کو اِن کی ضرورت ہے۔ وہ فی الفور اُنہیں بھیج دے گا۔ یہ اِس لئے ہُوا کہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ صِیُّون کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لادو کے بچے پر۔ پس شاگردوں نے جا کر جیسا یسوع نے اُن کو حکم دیا تھا ویسا ہی کیا۔ اور گدھی اور بچے کو لا کر اپنے کپڑے اُن پر ڈالے اور وہ اُن پر بیٹھ گیا۔ اور بھِیڑ میں کے اکثر لوگوں نے اپنے کپڑے راستہ میں بچھائے اور اَوروں نے درختوں سے ڈالیاں کاٹ کر راہ میں پھیلائیں۔ اور بھِیڑ جو اُس کے آگے آگے جاتی اور پیچھے پیچھے چلی آتی تھی پُکار پُکار کر کہتی تھی، ابنِ داؤد کو ہوشعنا۔ مبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام پر آتا ہے۔ عالم بالا پر ہوشعنا۔ اور جب وہ یروشلیم میں داخل ہُوا تو سارے شہر میں ہل چل پڑ گئی اور لوگ کہنے لگے یہ کون ہے؟ بھِیڑ کے لوگوں نے کہا، یہ گلیل کے ناصرۃ کا نبی یسوع ہے۔" (اِنجیل بمطابق متی 21: 1- 11)

مسیح بیت عنیاہ سے اپنے شاگردوں اور ایک بھیڑ کے ساتھ اِتوار کی صبح کو رُخصت ہوئے، اور یروشلیم کی جانب چل دیئے۔ شہر سے خوش آمدید کہنے والا ایک گروہ آپ سے ملنے آیا۔ مسیح نے اپنے دو شاگردوں کو ایک نزدیکی گاؤں میں بھیجا کہ وہ ایک گدھی اور اُس کے بچے کو لے کر آئیں جو اُنہیں واپس بھی لوٹانا تھا۔ اور اُنہیں بتایا کہ اگر اُن کا مالک کچھ سوال کرے تو اُنہیں یہ کہنا ہے کہ خُداوند کو اِن کی ضرورت ہے۔ یوں اُن کا مالک شاگردوں کو اُنہیں لے کر جانے کی اجازت دے گا۔ مسیح کی یہ بات پوری ہوئی، جس سے آپ کی عظمت اور مستقبل کی بابت آپ کے علم کی حقیقت ثابت ہوئی۔ اگر ہم فرض کریں کہ اُن دو گدھوں کا مالک ایک شاگرد یا عقیدت مند نہیں تھا تو مسیح کی افضلیت اَور بھی واضح ہوتی دِکھائی دیتی ہے، کیونکہ اِس سے اُس شخص کے خیالات اور مرضی کی بابت مسیح کا علم ظاہر ہوتا ہے۔

ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ کیوں مسیح نے اِس خاص لمحے کو اِس انداز میں یروشلیم میں داخلے کےلئے چُنا۔ جواب یہ ہے کہ یہودی ایک برّے کو نیسان کی دس تاریخ (تقریباً اپریل میں) علیحدہ کیا کرتے تھے جو مسیح کی علامت تھا، اور اُسے پانچ دِن بعد ہونے والی قربانی کےلئے تیار کرتے تھے جب اُنہوں نے اُسے کھانا ہوتا تھا۔ اِس لئے، یہ حیرت انگیز نہیں تھا کہ مسیح، خُدا کا برّہ جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے، اُس دِن سب کے سامنے اُن بہت سے برّوں کے ساتھ الگ کیا گیا جو اُس کی ترجمانی کرتے تھے۔ بعد ازاں اُسے اُسی وقت صلیب پر موت کے حوالے کیا جانا تھا جب پانچ دِن بعد دوسرے برّے ہیکل میں ذبح ہونے تھے۔

مسیح کی زمینی زندگی کا دورانیہ تقریباً تینتیس برس تھا، اور چاروں مبشروں نے اپنے اِنجیلی بیانات کا تقریباً چھٹا حصہ ایک دِن کےلئے وقف کیا ہُوا ہے جس میں مسیح کی موت اور اُس سے جُڑے ہوئے واقعات شامل ہیں۔ مسیح کی موت سے پہلے کے پانچ دِن اور بعد کے دو دِن "دُکھوں کا ہفتہ" کہلاتے ہیں، اور یہ اِنجیلی بیانات کے تقریباً ایک چوتھائی حصہ پر مشتمل ہیں۔

جب مسیح کے شاگردوں نے گدھی کے بچے پر کچھ کپڑے ڈالے تو آپ اُس پر بیٹھ گئے، اور جب شہر میں داخل ہونے والی اور باہر جانے والی بھیڑ اکھٹی ہو گئی، تو جوش و خروش خوب بڑھ گیا اور وہ مسیح کی تعظیم کرنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگے، اور لعزر کو مُردوں میں سے زندہ کرنے کے آپ کے معجزے کو تعریفی الفاظ سے یاد کرنے لگے۔ وہ کجھور کی ڈالیاں ہاتھ میں لئے ہوئے آگے پیچھے چلتے جاتے تھے اور یہ فتح کی علامت تھا، وہ ہوشعنا یعنی "ہمیں بچا لے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ڈالیاں اور کپڑے راستہ میں بچھاتے جاتے تھے۔

ہجوم مسیح کے کئے ہوئے تمام معجزوں کی وجہ سے بہت خوش تھا اور لوگوں نے خُدا تعالیٰ کی ستایش کی۔ اپنی خوشی میں ہجوم نعرے لگا رہا تھا: "ابنِ داؤد کو ہوشعنا۔ مبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام پر آتا ہے۔ عالم بالا پر ہوشعنا" (اِنجیل بمطابق متی 21: 9)۔ تعریف و توصیف کے یہ الفاظ زبور 118 سے لئے گئے تھے کیونکہ بھیڑ کا ایمان تھا کہ یسوع ہی موعودہ مسیح اور ابنِ داؤد ہے جس نے داؤد بادشاہ کی سیاسی سلطنت کی شان و شوکت کو بحال کرنا تھا۔ وہ اُس نجات کے رُوحانی معنٰی کو نہ سمجھ سکے جو جناب مسیح دینے کےلئے آئے تھے، کیونکہ یہ لوگوں کو اُن کے گناہ کی غلامی سے آزادی دینا تھا۔ اِس لئے، یہی لوگ جو آپ کو اپنا بادشاہ مانتے ہوئے خوش ہو رہے تھے، جلد ہی اپنا جوش و خروش کھونے کو تھے۔ آنے والے ہفتہ میں مسیح کو بےشک تاج پہنایا جانا تھا، مگر یہ تاج تمسخر آمیز انداز میں کانٹوں کا تاج ہونا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے ہاتھ میں ایک سرکنڈا پکڑانا تھا اور پھر بعد میں وہی سرکنڈا آپ کے ہاتھ سے لے کر آپ کو مارنا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ٹھٹھے اُڑاتے ہوئے آپ کو بادشاہ کہنا تھا، بے عزت کرنا تھا اور آپ پر تھوکنا تھا۔ اور پھر اُنہوں نے آپ کو صلیب پر کیلوں سے جڑ دینا تھا۔ جو نعرے لگا رہے تھے کہ "ابنِ داؤد کو ہوشعنا،" اُنہوں نے ہی بعد میں آپ کو رد کر کے نعرے لگانے تھے کہ "اُسے مصلوب کر۔ ... قیصر کے سِوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 9: 15)۔

جب جناب مسیح شہر میں داخل ہوئے تو فریسی اُس ہجوم کو نظرانداز نہ کر سکے، اِس لئے وہ اِس تمام ماجرے کو دیکھنے کےلئے ہجوم میں شامل ہو گئے۔ اُنہوں نے ایک دوسرے سے کہا "دیکھو سارا جہان اُس کا پیرو ہو چلا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 12: 19)۔ یسوع کی بابت اُن کے حکم اور باقاعدہ بیانات لوگوں نے نظر انداز کئے تھے، اور اِس سے یقیناً وہ بہت پریشان ہو گئے۔

فریسی قوم پر اپنا اختیار کھو بیٹھے تھے، اور اَب وہ مسیح کےلئے حسد اور نفرت سے بھرے تھے۔ وہ خوفزدہ تھے کہ لوگوں کی طرف سے ایسا استقبال رُومی ارباب ِ اختیار کی جانب سے ایک سازش تصور ہو گا، اور قوم کے راہنماؤں کو سزائیں دی جائیں گی۔ اور جب ایسا ہُوا تو رُومی گورنر قیصریہ سے یروشلیم میں آیا ہُوا تھا تا کہ عید کے دوران اپنی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوتی سرگرمیوں کو ڈھونڈے اور ختم کرے۔ اِسی وجہ سے کچھ فریسی یسوع کے پاس آئے اور آپ کو کہنے لگے کہ اپنے شاگردوں کو چُپ کرائے۔ لیکن خُدا تعالیٰ کے الہٰی مقصد کے تحت یہ مقرر ہو چکا تھا کہ اِس موقع پر ستایش لازمی ہو، کیونکہ اگر یہ روک لی جاتی تو پتھروں نے بھی چِلّا اُٹھنا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 19: 40)۔ اِس لئے، جناب مسیح نے یہودی راہنماؤں کی درخواست کو رد کر دیا اور ہجوم کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔

یسوع کا ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے لوگوں کے ستایش بھرے الفاظ کے درمیان یروشلیم میں داخل ہونا ناگزیر تھا، کیونکہ کلام مُقدّس میں زکریاہ نبی نے کہا تھا: "اے بنت صِیُّون تُو نہایت شادمان ہو۔ اے دُخترِ یروشلیم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادِق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 9: 9)۔ مسیح نے اپنے زبردست اختیار کا اظہار اُس وقت کیا جب آپ نے یہودی راہنماؤں کے تمام حیلوں بہانوں کے باوجود لوگوں کے ہجوم کو اِس نبوت کو لفظ بہ لفظ پورا کرنے میں اپنے ساتھ شمولیت اختیار کرنے دی۔

الف۔ مسیح کا یروشلیم پر رونا

"جب نزدیک آ کر شہر کو دیکھا تو اُس پر رویا اور کہا۔ کا ش کہ تُو اپنے اِسی دِن میں سلامتی کی باتیں جانتا! مگر اَب وہ تیری آنکھوں سے چُھپ گئی ہیں۔ کیونکہ وہ دِن تُجھ پر آئیں گے کہ تیرے دُشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تُجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے۔ اور تُجھ کو اور تیرے بچوں کو جو تُجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے اور تُجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑیں گے اِس لئے کہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تُجھ پر نگاہ کی گئی۔" (اِنجیل بمطابق متی 19: 41- 44)

جب بھِیڑ اُس مقام تک پہنچی جہاں سے مُقدّس شہر دیکھا جا سکتا تھا اور جب مسیح کی نگاہیں اُس پر پڑیں تو آپ کے سامنے یروشلیم کی خوبصورت حقیقت کے مکمل برعکس ایک نبوتی رویا تھا۔ یہ وہ بات تھی جسے آپ کے بعض شاگردوں نے ابھی دیکھنا تھا۔ شادمانی کے اِن لمحات میں آپ سے تمام خوشی جاتی رہی، اور آپ یروشلیم کےلئے زار زار روئے جو تباہ ہونے کو تھا۔ یہ ہمارے لئے ایک مثال ہے کہ اپنے مُلک سے محبت کریں، مگر اِس کے ساتھ گنہگاروں سے بھی محبت کریں اور اُن کے مُقدّر پر روئیں۔

وہ ہجوم آپ کو بغیر کسی ظاہری وجہ کے روتا دیکھ کر کس قدر حیران ہو گیا ہو گا۔ آپ کے تمام آنے والے دُکھ، یہاں تک کہ صلیب پر آپ کا کیلوں سے جڑ دینا، آپ کےلئے آنسو بہانے یا غمگین ہونے کا باعث نہ بنا تھا، لیکن اِس شہر اور اِس کے باغی لوگوں کےلئے آپ کی محبت نے آپ کو رونے پر مجبور کیا۔ اُن کے گناہوں اور آنے والی بڑی مصیبتوں نے آپ کے نرم دِل کو پگھلا دیا، اِس لئے آپ اُن کےلئے روئے۔ پانچ دِن میں جو کچھ وہ مسیح کے ساتھ کرنے کو تھے اُس کی بابت آگہی نے آپ کے درد کو زیادہ کر دیا اِس لئے آپ نے اَور آنسو بہائے۔ اپنی پیش بینی کی بدولت، آپ نے یروشلیم کو رُومی فوجوں سے گھرا ہُوا دیکھا، جس کے نتیجہ میں اُس کے لوگوں کےلئے بڑی ایذا رسانی ہونی تھی، اور شہر اور خُدا کی عظیم ہیکل دونوں نے مکمل طور پر تباہ ہو جانا تھا۔ آپ نے شہر کی دیواروں کو گرتے اور جلتے دیکھا۔ آپ نے قحط دیکھا جس کے نتیجہ میں کچھ ماؤں نے اپنے بچوں کو ذبح ہونے کےلئے بیچ دینا تھا، یہاں تک کہ کچھ نے اُنہیں بھوک کی وجہ سے کھا لینا تھا۔ آپ نے قوم کو مکمل طور پر منتشر ہوتے اور اُس کی مُقدّس رسوم کو ختم ہوتے دیکھا۔

یہ تباہی قیصر کے ہاتھوں ہونی تھی جسے اُنہوں نے آپ پر فوقیت دی تھی۔ یسوع نے رُومیوں کو اپنے مورچہ لگاتے اور شہر پر تباہ کن ہتھیاروں سے حملہ کرتے پہلے ہی دیکھ لیا۔ وہاں شہر کی دیواروں کے گرد اُنہوں نے ایک خندق کھودنی تھی جس سے ایک قدیم نبوت پوری ہونی تھی کہ "صِیُّون کھیت کی طرح جوتا جائے گا اور یروشلیم کھنڈر ہو جائے گا اور اِس گھر کا پہاڑ جنگل کے کی اُونچی جگہوں کی مانند ہو گا" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 26: 18)۔ جو کچھ یسوع نے دیکھا، بالکل ویسے ہی چالیس سال بعد واقع ہونا تھا۔ تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ اُس محاصرے کے دوران یہودیوں نے ایسے خوفناک حالات کا تجربہ کیا جن کا دُنیا کی تاریخ میں ذِکر نہیں ملتا۔ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب رُومی جرنیل ٹائٹس شہر میں داخل ہُوا، اور اُس نے گلیوں میں لاشوں کے ڈھیر دیکھے تو آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کئے اور اپنے دیوتاؤں کو یہ گواہی دینے کےلئے پکارا کہ وہ اِس تباہی کا ذمہ دار نہیں تھا۔ اُس نے الزام اُن لوگوں کے سر لگا دیا جنہوں نے اُسے یہ قتل عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

جناب مسیح اِن تکلیف دہ واقعات کے ہونے سے پہلے اِن کے بارے میں جانتے تھے۔ اُس گھڑی، آپ وطن پرستی، ترس اور اُن افراد کےلئے جو آپ کو قتل کرنے کو تھے، رحم اور معافی کے احساسات سے متحرک ہوئے۔ آپ نے ایک بڑے ہجوم کے جوش و جذبہ، اپنے شاگردوں کی خوشی، اور اِس خوشی کرنے والے شہر کی آنے والی تباہی کے بارے میں سوچا، اور آپ نے اپنے پیارے مگر بغاوت کرنے والے لوگوں پر تلخی کے آنسو بہائے۔ اور یروشلیم سے مخاطب ہوتے ہوئے آپ نے کہا "کا ش کہ تُو اپنے اِسی دِن میں سلامتی کی باتیں جانتا! مگر اَب وہ تیری آنکھوں سے چُھپ گئی ہیں۔" پھر آپ نے اپنی بات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا کہ "تُجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑیں گے اِس لئے کہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تُجھ پر نگاہ کی گئی۔"

یہ بھِیڑ ہیکل کے نزدیک موجود مشرقی پھاٹک سے یروشلیم شہر میں داخل ہوئی۔ مسلسل خوشی کی آواز اور ہر طرف موجود کھجور کی ڈالیوں سے سارے شہر نے جان لیا کہ ایک اہم واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ راہ گزرنے والے، مقامی لوگ اور دُکاندار سبھی یہ سوال کر رہے تھے کہ "یہ کون ہے؟" اُنہیں یہ جواب ملا: "یہ گلیل کے ناصرۃ کا نبی یسوع ہے" (اِنجیل بمطابق متی 21: 10، 11)۔

جب بھِیڑ ہیکل کے پاس پہنچی تو یہ دِن کا آخری حصہ تھا۔ یسوع نے اپنے اردگرد ہونے والی تمام سرگرمیوں کو دیکھا اور آپ اُس اہم اور خطرناک کام کے بارے میں پوری طرح سمجھ رکھتے تھے جو آپ کے سامنے تھا۔ لیکن آپ کو یہ کام اگلے دِن کرنا تھا کیونکہ ہیکل کے دروازے بند ہونے کو تھے۔ آپ شہر کے اندر رات گزارنا نہیں چاہتے تھے جہاں اربابِ اختیار آپ کو وقت سے پہلے پکڑنے کی آزمایش کا سامنا کر سکتے تھے، اِس لئے آپ بیت عنیاہ میں اپنے شاگردوں کے پاس دوبارہ آ گئے۔

ب۔ مسیح کا اِنجیر کے ایک سوکھے درخت پر لعنت کرنا

"دُوسرے دِن جب وہ بیت عنیاہ سے نکلے تو اُسے بھوک لگی۔ اور وہ دُور سے اِنجیر کا ایک درخت جس میں پتے تھے دیکھ کر گیا کہ شاید اُس میں کچھ پائے۔ مگر جب اُس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سِوا کچھ نہ پایا کیونکہ اِنجیر کا موسم نہ تھا۔ اُس نے اُس سے کہا، آیندہ کوئی تُجھ سے کبھی پھل نہ کھائے اور اُس کے شاگردوں نے سُنا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 11: 12- 14)

یروشلیم کی جانب جاتے وقت مسیح نے اِنجیر کا ایک درخت دیکھا جس میں پھل کے کچھ نشانات موجود تھے، اگرچہ یہ اِنجیر لگنے کا موسم نہیں تھا۔ آپ کی توجہ اِنجیر کے درخت کی جانب مبذول ہو گئی، اور آپ اُس کے نزدیک گئے کہ شاید اُس میں کچھ پھل پائیں۔ کچھ اِنجیر کے درخت پھل دینے کے وقت سے پہلے بھی پھل لاتے ہیں جو چھوٹا اور بہت میٹھا ہوتا ہے، اور چونکہ اِس درخت پر پتے تھے اِس لئے یسوع کو توقع تھی کہ اِس پر پہلے اِنجیر لگے ہوں گے، مگر آپ کو کوئی اِنجیر نہ ملے۔ اِس لئے یہ درخت، ریاکاری کے گناہ اور بھلائی کرنے میں ناکامی کی ایک مثال بن گیا جو یقیناً بے پھل ہونے کے برابر ہے۔ اِس لئے مسیح نے درخت سے کہا "آیندہ کوئی تُجھ سے کبھی پھل نہ کھائے۔" آپ نے یہ الفاظ اپنے شاگردوں اور ہمیں پھل لانے کی ضرورت کے بارے میں سکھانے کےلئے کہے۔ آپ کا یہ عمل ناقدری کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ یہ بات تو آپ کے کردار سے بالکل بھی میل نہیں کھاتی۔

آپ کے شاگردوں کو یہ معجزہ اپنی تمام عمر یاد رہنا تھا کیونکہ اِس میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کے الفاظ کی تصدیق موجود تھی: "اور اَب درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہُوا ہے۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے" (اِنجیل بمطابق متی 3: 10)۔ تاہم، ریاکاروں کی بدی کے باوجود یسوع نے اُن میں سے کسی کو سزانہ دی بلکہ اُنہیں صرف جھِڑکا۔ آپ دُنیا کی عدالت کرنے نہیں بلکہ اُسے نجات دینے آئے تھے۔

6۔ مسیح کا ہیکل کو صاف کرنا

ہیکل مسیح کی علامت تھی جو خُدا اور انسان کا درمیانی ہے۔ سب کےلئے لازم ہے کہ خُدا تک پہنچنے کےلئے اُس میں سے ہو کر گزریں کیونکہ مسیح نے خود یہ کہا: "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 6)۔ جناب یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ ہیکل میں پہنچے جہاں اصلاح کا اہم کام آپ کے سامنے تھا۔ آپ کی طرف سے ہیکل کی پہلی صفائی کے اثرات ختم ہو چکے تھے اور پرانے مکروہ طور طریقے پھر لوٹ آئے تھے۔ اِن کاموں میں غیر قوم کے احاطے کو خرید و فروخت کےلئے استعمال کرنا شامل تھا۔ ہیکل کا مالک ہونے کی وجہ سے یسوع نے اُسے صاف کیا تا کہ وہ شفا اور تعلیم کے دوہرے مقصد کےلئے استعمال کی جا سکے۔

جب کبھی مسیح نے شفا کے معجزات کئے تو ساتھ ہی کچھ سکھانے کا معجزہ بھی کیا۔ آپ نے دُنیا کو سکھایا کہ خُدا تعالیٰ انسان کو رحم پر مبنی کاموں، اپنی ہیکل اور سبت کے ذریعے برکت دیتا ہے۔ اِس لئے یہودی بزرگوں، بیماری اور جہالت پر غالب آنے سے آپ کے پیروکاروں میں اِضافہ ہُوا، اور اُن کی مسیح کے ساتھ وابستگی بھی بڑھی۔ ہم پڑھتے ہیں کہ لوگ آپ کی باتوں سے حیران ہوئے۔

الف۔ یسوع کا صرّافوں کو باہر نکالنا

"پھِر وہ یروشلیم میں آئے اور یسوع ہیکل میں داخل ہو کر اُن کو جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے باہر نکالنے لگا، اور صرّافوں کے تختوں اور کبوتر فروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیا۔ اور اُس نے کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔ اور اپنی تعلیم میں اُن سے کہا، کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کےلئے دُعا کا گھر کہلائے گا؟ مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔ اور سردار کاہن اور فقِیہ یہ سُن کر اُس کے ہلاک کرنے کا موقع ڈھونڈنے لگے کیونکہ اُس سے ڈرتے تھے اِس لئے کہ سب لوگ اُس کی تعلیم سے حیران تھے۔ اور ہر روز شام کو وہ شہر سے باہر جایا کرتا تھا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 11: 15- 19)

ہیکل کی دوسری صفائی کے موقع پر مسیح نے وہاں سے کسی کو بھی کوئی برتن باہر لے جانے نہ دیا، اور آپ نے پہلے کی نسبت زیادہ سخت زبان استعمال کی۔ پہلی مرتبہ آپ نے کہا تھا: "اِن کو یہاں سے لے جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناؤ" (اِنجیل بمطابق یوحنا 2: 16)۔ لیکن اِس مرتبہ آپ نے کہا: "کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کےلئے دُعا کا گھر کہلائے گا؟ مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔" آپ نے ہیکل کے احاطہ میں تاجروں کی بد دیانتی کے معمولات کو جائزہ لیا، اور دیکھا کہ قوم کے زیادہ تر افراد اپنے راہنماؤں سمیت جو کچھ خُدا تعالیٰ کےلئے کرنا روا تھا اُسے سرانجام نہیں دے رہے تھے۔

نبوت میں مسیح کو راستباز اور فاتح کے طور پر بیان کیا گیا ہے: "اے بنتِ صِیُّون تُو نہایت شادمان ہو۔ اے دُخترِ یروشلیم خوب للکار، کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادِق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 9: 9)۔ تجارت کرنے والوں کو نکالنے سے یسوع نے اپنا انصاف دکھایا، اور راہنما آپ کو روکنے کے قابل نہ تھے، اور چونکہ اُس ہفتے میں آپ نے اپنے آپ کو اپنے دُشمنوں کے حوالے کر دینے کا منصوبہ بنایا ہُوا تھا، تو آپ نے اپنا اختیار پوری طرح سے استعمال کیا جسے بعد میں آپ مخلصی کے کام کو پورا کرنے کےلئے استعمال کرنے کو تھے۔ تجارت کرنے والوں کو ہیکل کے احاطہ سے ایک بار پھر باہر نکالنے سے آپ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا۔

اُس رات، ہیکل کی دوسری بار صفائی کے بعد جناب یسوع شہر سے نکل گئے۔ اَب آپ نے منگل کی صبح کو دوبارہ اُس جگہ آنا تھا جو ڈاکوؤں کی کھوہ بن گئی تھی، اور پھر اُس دِن کے بعد دوبارہ آپ نے ہیکل میں کبھی نہیں آنا تھا۔

ب۔ ایمان کے تعلق سے ایک سبق

پھِر صُبح کو جب وہ اُدھر سے گزرے تو اُس اِنجیر کے درخت کو جڑ تک سُوکھا ہُوا دیکھا۔ پطرس کو وہ بات یاد آئی اور اُس سے کہنے لگا، اے ربّی! دیکھ یہ اِنجیر کا درخت جس پر تُو نے لعنت کی تھی سوکھ گیا ہے۔ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، خُدا پر ایمان رکھو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی اِس پہاڑ سے کہے، تُو اُکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ، اور اپنے دِل میں شک نہ کرے بلکہ یقین کرے کہ جو کہتا ہے وہ ہو جائے گا تو اُس کےلئے وہی ہو گا۔ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تم کو مل گیا اور وہ تم کو مل جائے گا۔ اور جب کبھی تم کھڑے ہوئے دُعا کرتے ہو، اگر تمہیں کسی سے کچھ شکایت ہو تو اُسے معاف کرو تا کہ تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہارے گناہ معاف کرے۔ اور اگر تم معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے تمہارے گناہ بھی معاف نہ کرے گا" (اِنجیل بمطابق مرقس 11: 20- 26)

اِس سے پہلے کہ یسوع اور آپ کے شاگرد ہیکل میں پہنچتے، وہ راستہ میں اُس جگہ پر پہنچے جہاں ایک دِن پہلے اِنجیر کے درخت پر لعنت کی گئی تھی۔ پطرس نے اپنے اُستاد کی توجہ اِس حقیقت کی جانب دِلائی کہ وہ سوکھ گیا تھا، اور مسیح نے اِس صورتحال کو اُنہیں ایمان کے بارے میں بالکل ایک نیا سبق سکھانے کےلئے استعمال کیا۔ اور پھر آپ نے دُعا کے جواب کو پانے کےلئے ایک بنیادی شرط بھی دُہرائی کہ دُعا مانگنے والے کو لازمی طور پر ہر اُس فرد کو اپنے پورے دِل سے معاف کرنے کی ضرورت ہے جس نے اُس کے خلاف گناہ کیا ہُوا ہے۔

ج۔ یسوع کے اختیار پر اعتراض کیا جانا

جب مسیح نے پہلی مرتبہ ہیکل کو صاف کیا تھا تو یہودیوں نے آپ سے ایک نشان طلب کیا۔ جب آپ ہیکل کو دوسری مرتبہ صاف کرنے کے بعد منگل کی صبح کو وہاں واپس آئے، تو اُنہوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو اِن کاموں کو کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔

"اور اُس سے کہنے لگے، تُو اِن کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہے؟ یا کس نے تُجھے یہ اختیار دیا کہ اِن کاموں کو کرے؟ یسوع نے اُن سے کہا، میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں، تم جواب دو تو میں تم کو بتاؤں گا کہ اِن کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہوں۔ یوحنا کا بپتسمہ آسمان کی طرف سے تھا یا اِنسان کی طرف سے؟ مُجھے جواب دو۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر ہم کہیں آسمان کی طرف سے تو وہ کہے گا پھِر تم نے کیوں اُس کا یقین نہ کیا؟ اور اگر کہیں اِنسان کی طرف سے تو لوگوں کا ڈر تھا، اِس لئے کہ سب لوگ واقعی یوحنا کو نبی جانتے تھے۔ پس اُنہوں نے جواب میں یسوع سے کہا، ہم نہیں جانتے۔ یسوع نے اُن سے کہا، میں بھی تم کو نہیں بتاتا کہ اِن کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہوں۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 11: 28- 33)

یہودی راہنماؤں کو یسوع کو شکست دینے کی کوئی راہ دِکھائی نہیں دے رہی تھی، اِس لئے اُنہوں نے قوم کے دِلوں کو آپ سے دُور کرنے کےلئے خاص سوالات کا سہارا لیا جو اُنہوں نے آپ کو پھنسانے کےلئے تیار کئے تھے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ آپ کے جواب کے انداز سے لوگوں کا ہجوم آپ کو ناپسند کرے گا۔ وہ چاہتے تھے کہ جب آپ کو پکڑا جائے تو لوگ کوئی مقابلہ نہ کریں۔ جب جناب مسیح ہیکل میں موجود تھے، تو راہنماؤں نے آپ سے پوچھا کہ ہیکل کو صاف کرنے کا اختیار آپ کو کہاں سے ملا ہے۔ وہ وہاں کے منتظم تھے اور اِس کام کےلئے مسح کئے گئے تھے اور اُنہیں اپنا اختیار اپنے باپ دادا سے باقاعدہ طور پر ملا تھا۔ مزید یہ کہ اُنہیں حکومت کی حمایت بھی حاصل تھی۔

نبُوّتی اختیار ہمیشہ براہ راست خُدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جس نے کسی سے مشورہ کئے بغیر یا کسی کی اجازت کے بغیر نبیوں کو برپا کیا۔ لیکن سیکڑوں برس سے کوئی نبی برپا نہیں ہُوا تھا اور پھر یوحنا بپتسمہ دینے والا آیا جس کا یہودی راہنماؤں نے یقین نہ کیا۔ یسوع نے سوال کرنے والوں سے پوچھا کہ پہلے وہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے اختیار کے منبع کے بارے میں بتائیں۔ اگر وہ کہتے کہ یہ آسمان کی طرف سے ہے تو وہ اپنے منصف خود ہوتے کیونکہ اُنہوں نے اُس کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف، اگر وہ اِس کا انکار کرتے تو خوفزدہ تھے کہ لوگ اُنہیں سنگسار کر دیں گے کیونکہ لوگ یوحنا بپتسمہ دینے والے کو ایک سچا نبی سمجھتے تھے۔ اپنے خوف میں اُنہوں نے ایک جھوٹ میں پناہ لینے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ نہیں جانتے۔ مسیح کے سوال نے اُنہیں غصہ دلایا، اور آپ نے اُن کے منکر دِلوں کے محرکات کو جانتے ہوئے اُنہیں یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ کس کے اختیار سے آپ یہ سب کر رہے تھے۔ تب مسیح نے اُن کے سامنے کچھ اَور تمثیلیں بیان کیں۔

د۔ دو بیٹوں کی تمثیل

"تم کیا سمجھتے ہو؟ ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ اُس نے پہلے کے پاس جا کر کہا، بیٹا جا آج تاکستان میں کام کر۔ اُس نے جواب میں کہا، میں نہیں جاؤں گا مگر پیچھے پچھتا کر گیا۔ پھِر دوسرے کے پاس جا کر اُس نے اِسی طرح کہا۔ اُس نے جواب دیا، اچھا جناب۔ مگر گیا نہیں۔ اِن دونوں میں سے کون اپنے باپ کی مرضی بجا لایا؟ اُنہوں نے کہا، پہلا۔ یسوع نے اُن سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول لینے والے اور کسبیاں تم سے پہلے خُدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں۔ کیونکہ یوحنا راستبازی کے طریق پر تمہارے پاس آیا اور تم نے اُس کا یقین نہ کیا، مگر محصول لینے والوں اور کسبیوں نے اُس کا یقین کیا اور تم یہ دیکھ کر پیچھے بھی نہ پچھتائے کہ اُس کا یقین کر لیتے۔" (اِنجیل بمطابق متی 21: 28- 32)

اِس سے پہلے یہودی راہنماؤں کے پاس کوئی الفاظ باقی نہ بچے تھے مگر یسوع کے ساتھ ایسا نہ تھا۔ آپ نے اُنہیں دو بیٹوں کی ایک تمثیل سُنائی جن کے باپ نے اُنہیں کھیت میں جا کر کام کرنے کےلئے کہا۔ پہلے نے انکار کر دیا، لیکن بعد میں پچھتایا اور چلا گیا۔ دوسرے بیٹے نے جانے کا وعدہ کیا مگر پھر گیا نہیں۔ پہلے بیٹے نے اپنے قول میں غلطی کی، مگر اُس نے درست طریقے سے عمل کیا۔ جہاں تک دوسرے بیٹے کی بات ہے تو عمل کرنے میں ناکامی اُس کا گناہ تھا، جو محض قول میں ناکام ہونے سے زیادہ خطرناک ہے۔ اِس سے مسیح کی مراد یہ تھی کہ اگرچہ یہودی راہنما اپنی باتوں میں بڑے اچھے تھے، مگر اُنہوں نے خُدا تعالیٰ کی مرضی پر عمل نہ کرنے سے اپنے الفاظ کو رد کیا۔ تاہم، دوسروں نے اپنے مذہبی ہونے کا دکھاوا نہیں کیا، لیکن اُنہوں نے اپنے راہنماؤں کی نسبت الہٰی شریعت پر عمل کیا۔ جب یسوع نے اُن سے پوچھا کہ دونوں بیٹوں میں سے کون اپنے باپ کی مرضی بجا لایا تو اُنہوں نے جواب دیا "پہلا۔" اِس لئے، مسیح نے اُنہیں دِکھایا کہ محصول لینے والے اور کسبیاں پہلے بیٹے کی مانند ہیں کیونکہ جب اُنہوں نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی سُنی تو اپنی بُری راہوں سے توبہ کی اور اُس سے بپتسمہ لیا۔ جبکہ فریسی دوسرے بیٹے کی مانند تھے کیونکہ اُنہوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کا زبانی دعویٰ کیا مگر اُن کا عمل اِس کے برعکس تھا۔ اِس بات سے مُتّفِق ہونے سے کہ پہلا بیٹا اپنے عمل میں درست تھا، اُنہوں نے اقرار کیا کہ محصول لینے والے اور کسبیاں اُن سے افضل تھے۔

ہ۔ تاکستان کے بُرے ٹھیکیداروں کی تمثیل

"ایک اَور تمثیل سُنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے تاکستان لگایا اور اُس کی چاروں طرف اِحاطہ گھیرا، اور اُس میں حوض کھودا، اور بُرج لگایا، اور اُسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا۔ اور جب پھل کا موسم قریب آیا تو اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کو بھیجا۔ اور باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کو قتل کیا اور کسی کو سنگسار کیا۔ پھِر اُس نے اَور نوکروں کو بھیجا جو پہلوں سے زیادہ تھے اور اُنہوں نے اِن کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا۔ آخر اُس نے اپنے بیٹے کو اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے۔ جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا، یہی وارث ہے۔ آؤ اِسے قتل کر کے اِس کی میراث پر قبضہ کر لیں۔ اور اُسے پکڑ کر تاکستان سے باہر نکالا اور قتل کر دیا۔ پس جب تاکستان کا مالک آئے گا تو اُن باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، اُن بدکاروں کو بُری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ دوسرے باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اُس کو پھل دیں۔ یسوع نے اُس سے کہا، کیا تم نے کتابِ مُقدّس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کر دیا۔ وہی کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خُداوند کی طرف سے ہُوا، اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خُدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ اور جو اِس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا۔ اور جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اُس کی تمثیلیں سُنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے حق میں کہتا ہے۔ اور وہ اُسے پکڑنے کی کوشش میں تھے لیکن لوگوں سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ اُسے نبی جانتے تھے۔" (اِنجیل بمطابق متی 21: 33- 46)

مسیح نے ایک تمثیل بیان کی جس نے اُن راہنماؤں کی شرارت کو عیاں کیا جو اُسی ہفتہ آپ کے خلاف منصوبہ بنا کر آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ تمثیل میں ٹھیکیداروں نے تاکستان کے مالک کے نوکروں کو مارنے کے بعد آخرکار میراث پر قبضہ کرنے کی کوشش میں اُس کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ جب مسیح نے اُن سے پوچھا کہ اُن کے خیال میں تاکستان کا مالک اُن کے ساتھ کیا کرے گا تو اُنہوں نے جواب دیا "اُن بدکاروں کو بُری طرح ہلاک کرے گا۔" یسوع نے اُن کے جواب کے ساتھ اتفاق کیا اور کہا "... خُدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی۔" آپ نے اُنہیں داؤد نبی کے الفاظ یاد دِلائے: "جس پتھر کو معماروں نے ردّ کر دیا وہی کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا" (پرانا عہدنامہ، زبور 118: 22)۔ اُس کی مخالفت کرنے والے گھایل ہو جائیں گے، لیکن جن کی وہ مخالفت کرے گا اُنہیں وہ پیس ڈالے گا۔ پطرس رسول نے اِس بات کو یاد رکھا اور جب مسیح کے آسمان پر صعود کے بعد یہودی راہنماؤں نے اُسے ایذا پہنچائی تو اُس نے اِس بات کو دُہرایا (اعمال 4: 11; 1- پطرس 2: 7)۔

و۔ شادی کی ضیافت کی تمثیل

"آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی مانند ہے جس نے اپنے بیٹے کی شادی کی۔ اور اپنے نوکروں کو بھیجا کہ بُلائے ہوؤں کو شادی میں بُلا لائیں، مگر اُنہوں نے آنا نہ چاہا۔ پھِر اُس نے اَور نوکروں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ بُلائے ہوؤں سے کہو کہ دیکھو میں نے ضیافت تیار کر لی ہے۔ میرے بیل اور موٹے موٹے جانور ذبح ہو چکے ہیں اور سب کُچھ تیار ہے۔ شادی میں آؤ۔ مگر وہ بے پروائی کر کے چل دِئے۔ کوئی اپنے کھیت کو کوئی اپنی سوداگری کو۔ اور باقیوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑ کر بے عزت کیا اور مار ڈالا۔ بادشاہ غضبناک ہُوا، اور اُس نے اپنا لشکر بھیج کر اُن خونیوں کو ہلاک کر دیا اور اُن کا شہر جلا دیا۔ تب اُس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ شادی کی ضیافت تو تیار ہے مگر بُلائے ہوئے لائق نہ تھے۔ پس راستوں کے ناکوں پر جاؤ، اور جتنے تمہیں ملیں شادی میں بُلا لاؤ۔ اور وہ نوکر باہر راستوں پر جا کر جو اُنہیں ملے کیا بُرے کیا بھلے سب کو جمع کر لائے اور شادی کی محفل مہمانوں سے بھر گئی۔ اورجب بادشاہ مہمانوں کو دیکھنے کو اندر آیا تو اُس نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا جو شادی کے لباس میں نہ تھا۔ اور اُس نے اُس سے کہا، میاں تُو شادی کی پوشاک پہنے بغیر یہاں کیونکر آ گیا؟ لیکن اُس کا مُنہ بند ہو گیا۔ اِس پر بادشاہ نے خادموں سے کہا، اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر اندھیرے میں ڈال دو۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا۔ کیونکہ بُلائے ہوئے بہت ہیں مگر برگزیدہ تھوڑے۔" (اِنجیل بمطابق متی 22: 2- 14)

تاکستان میں بُرے ٹھیکیداروں کی تمثیل نے راہنماؤں کو غصہ دِلا دیا کیونکہ مسیح نے اُن کی عدالت کرتے ہوئے یہ تمثیل کہی تھی۔ اُنہوں نے آپ کو پکڑنے کےلئے اپنی کوششوں میں تیزی دِکھائی، مگر لوگوں کے خوف نے اُنہیں باز رکھا، اِس لئے اُنہوں نے آپ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ جناب مسیح وہیں رہے کیونکہ آپ نے ہیکل میں ابھی اپنی حتمی بات ختم نہیں کی تھی۔ آپ نے ایک تیسری تمثیل بیان کی جس میں ایک بادشاہ نے اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں ایک ضیافت کی۔ اُس بادشاہ نے مدعو کئے گئے ہرشخص کو ایک شاہی لباس دیا، مگر جب وہ مہمانوں سے ملنے ضیافت میں آیا تو اُس نے ایک شخص دیکھا جو مناسب لباس نہیں پہنے تھا۔ یوں لگتا ہے کہ اِس شخص نے اپنے لباس کو زیادہ ترجیح دی، جس پر اُسے فخر تھا، اور اُس نے باقی سب لوگوں کی طرح لباس پہننے سے انکار کر دیا۔ علاوہ ازیں، شاید وہ اپنے لباس کےلئے بادشاہ کا احسان بھی نہیں لینا چاہتا تھا۔ جب بادشاہ نے اُس سے اپنی بات پر عمل نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو اُس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قصور وار تھا۔ اُسے اپنا اجر مل گیا، کیونکہ بادشاہوں کا کام اُن سب کو قتل کرنا ہے جو اُن کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اِس لئے، بادشاہ نے اپنے خادموں سے کہا، "اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر اندھیرے میں ڈال دو۔" اِس شخص کو سزا اپنی کی ہوئی کسی برائی کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ اچھا کام نہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ملی۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک فرد اپنی ہی دانست میں اور اَوروں کی نگاہ میں کس قدر راستباز شخص ہے، کیونکہ خُدا تعالیٰ ایسے فرد کو اپنی ہی نظر میں راستباز ہونے اور اُس راستی کی پوشاک کو پہننے سے انکار کرنے پر سزا دے گا جو صرف وہی عطا کرتا ہے۔

دو بیٹوں، بُرے ٹھیکیداروں اور شادی کی ضیافت کی تمثیل میں مسیح نے اعلان کیا کہ اگرچہ یہودی راہنماؤں نے آپ کو رد کیا ہے مگر محصول لینے والوں کی طرف سے آپ کو قبول کیا گیا ہے۔ یہودی قوم کی طرف سے آپ کو رد کرنے کے مقابلہ میں غیر اقوام کی طرف سے آپ کو قبول کیا گیا ہے۔ جہاں تک اِن الفاظ کا تعلق ہے کہ "کیونکہ بُلائے ہوئے بہت ہیں مگر برگزیدہ تھوڑے،" ہم نہیں مانتے کہ اِن کا اطلاق ہر زمانے پر ہوتا ہے، بلکہ یہ الفاظ خاص طور پر آپ کے زمانے کے لوگوں یعنی یہودی قوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

7۔ مسیح کا یہودی بزرگوں کو جواب دینا

اپنی لڑائی میں آگے بڑھنے کےلئے، ایک لشکر اپنے سابقہ دُشمنوں کے ساتھ الحاق کر کے اُنہیں اپنے دوست بنا سکتا ہے۔ اِسی طرح، یہودیوں کے راہنماؤں نے مسیح کے خلاف اپنی جنگ میں اپنے دشمنوں ہیرودیوں یعنی ہیرودیس بادشاہ کے حمایتیوں کے ساتھ ایکا کیا۔ صلاح مشورہ کے بعد، یہ سیاسی اور مذہبی اربابِ اختیار ایک نئے جارحانہ عمل پر مُتّفِق ہو گئے۔

الف۔ جو قیصر کا ہے وہ اُسے دو

"پھِر اُنہوں نے بعض فریسیوں اور ہیرودیوں کو اُس کے پاس بھیجا تا کہ باتوں میں اُس کو پھنسائیں۔ اور اُنہوں نے آ کر اُس سے کہا، اے اُستاد، ہم جانتے ہیں کہ تُو سچا ہے اور کسی کی پروا نہیں کرتا کیونکہ تُو کسی آدمی کا طرفدار نہیں بلکہ سچائی سے خُدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے۔ پس قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟ ہم دیں یا نہ دیں؟ اُس نے اُن کی ریاکاری معلوم کر کے اُن سے کہا، تم مُجھے کیوں آزماتے ہو؟ میرے پاس ایک دینار لاؤ کہ میں دیکھوں۔ وہ لے آئے۔ اُس نے اُن سے کہا، یہ صورت اور نام کس کا ہے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، قیصر کا۔ یسوع نے اُن سے کہا، جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو۔ وہ اُس پر بڑا تعجب کرنے لگے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 13- 17)

مذہبیت کے لبادے میں ہیرودیوں کا منصوبہ مسیح کو اُس کے الفاظ سے پکڑنا اور پھر اُسے حاکم وقت کے ہاتھوں میں سونپ دینا تھا۔ وہ خوشامد بھرے الفاظ کے ساتھ آپ کے پاس آئے اور پھر پوچھا کہ کیا اُنہیں رُومی حکومت کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں۔ اُنہیں اُمید تھی کہ آپ جو بھی جواب دیں گے، وہ آپ کو پھنسا لیں گے۔ اگر آپ ہاں کہتے تو لوگ آپ سے متنفر ہو جاتے کیونکہ وہ جزیہ دے دے کر تنگ آ چکے تھے جو اُن کی رُومی غلامی کی ایک علامت تھا، اور جس کے تعلق سے اُنہیں اُمید تھی کہ جب اُن کا مسیح آئے تو اُنہیں اِس سے رہائی دلائے گا۔ لیکن اگر آپ کہتے کہ جزیہ نہیں دینا چاہئے جس کے تعلق سے ہیرودیوں کو اُمید تھی کہ آپ ایسا ہی کہیں گے، تو اُن کے پاس آپ کو حکومت کے حوالہ کرنے کی ایک معقول وجہ ہونی تھی کہ یہ شخص قیصر کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اُس کے عائد کردہ جزیہ کو دینے سے منع کرتا ہے۔

جناب یسوع اُن کی دھوکے بھری، غیر مخلصانہ تعریف کو جانتے تھے، اور اِس بات سے واقف تھے کہ فریسیوں کے لئے خوشی کا باعث بننے والا جواب ہیرودیوں کو پسند نہیں ہو گا۔ مسیح نے اُن کے سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ اُن سے پہلے ایک سکہ دِکھانے کےلئے کہا جس پر قیصر کی شبیہ بنی ہوئی تھی۔ یوں اُن کے سامنے اُن پر قیصر کے اختیار کی بات آ گئی۔ یسوع نے جواب دیا: "جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو۔" با الفاظِ دیگر، آپ نے یہ کہا کہ جسے جو دینا روا ہے وہ اُسے دو۔ اپنے جواب سے، یسوع نے اُس منصوبہ کو ناکام بنا دیا جو آپ کے خلاف بنایا گیا تھا، اور آپ کے الفاظ مذہبی اور سماجی فرائض کے معاملات میں ایک اصول بن گئے ہیں۔ یہودی بزرگ، لوگوں کے سامنے آپ کے منہ سے ایک بھی ایسا لفظ نہ نکلوا سکے جس پر آپ کو مورد الزام ٹھہرائیں، اِس لئے وہ خاموشی سے اپنی راہ پر ہو لئے۔

خُدا تعالیٰ نے قیصر کو یہودیوں پر حکومت کرنے کی اجازت دی تھی، اِس لئے یہ اُن کی ذمہ داری تھی کہ اُس کے دائرہ کار میں تابع ہو کر رہیں۔ جیسے سکہ پر قیصر کی شبیہ اُنہیں یاد دِلاتی تھی کہ اُنہیں اُسے کیا دینا روا ہے، ویسے ہی ہر شخص میں خُدا کی شبیہ کو اُنہیں یاد دِلانا چاہئے تھا کہ خُدا تعالیٰ اُن سے کیا چاہتا ہے۔ مسیح کے اِن الفاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست کے تابع ہونا مکمل طور پر قابل قبول ہے، مگر خُدا کےلئے ہماری فرمانبرداری پر اِسے ترجیح نہیں دینی چاہئے۔ یہ سوال کہ ریاست کی فرمانبرداری کی جائے یا پھرخُدا کی، یہاں پر نہیں اُبھرتا، کیونکہ ہمیں دونوں کے تابع ہونا چاہئے۔ مزید برآں، ریاست کے تابع ہونا جب خُدا کے تقاضوں کے برعکس نہ ہو، ہماری عبادت کا ایک حصہ ہے۔

ب۔ مُردوں کا نہیں بلکہ زندوں کا خُدا

"پھِر صدوقیوں نے جو کہتے تھے کہ قیامت نہیں ہو گی، اُس کے پاس آ کر اُس سے یہ سوال کیا کہ اے اُستاد! ہمارے لئے موسیٰ نے لکھا ہے کہ اگر کسی کا بھائی بے اولاد مر جائے اور اُس کی بیوی رہ جائے تو اُس کا بھائی اُس کی بیوی کو لے لے تا کہ اپنے بھائی کےلئے نسل پیدا کرے۔ سات بھائی تھے۔ پہلے نے بیوی کی اور بے اولاد مر گیا۔ دوسرے نے اُسے لیا اور بے اولاد مر گیا اور اِسی طرح تیسرے نے۔ یہاں تک کہ ساتوں بے اولاد مر گئے۔ سب کے بعد وہ عورت بھی مر گئی۔ قیامت میں یہ اُن میں سے کس کی بیوی ہو گی؟ کیونکہ وہ ساتوں کی بیوی بنی تھی۔ یسوع نے اُن سے کہا، کیا تم اِس سبب سے گُمراہ نہیں ہو کہ نہ کتابِ مُقدّس کو جانتے ہو نہ خُدا کی قدرت کو؟ کیونکہ جب لوگ مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے تو اُن میں بیاہ شادی نہ ہو گی بلکہ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہوں گے۔ مگر اِس بارے میں کہ مُردے جی اُٹھتے ہیں کیا تم نے موسیٰ کی کتاب میں جھاڑی کے ذِکر میں نہیں پڑھا کہ خُدا نے اُس سے کہا کہ میں ابرہام کا خُدا اور اِضحاق کا خُدا اور یعقوب کا خُدا ہوں۔ وہ تو مُردوں کا خُدا نہیں بلکہ زندوں کا ہے۔ پس تم بڑے گمراہ ہو۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 18- 27)

صدوقی عموماً مافوق الفطرت باتوں کو رد کرتے تھے، وہ مُردوں کی قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی فرشتوں یا ارواح کو مانتے تھے۔ اپنے سوال سے اُنہوں نے یسوع کو ایک ایسے مقام پر لانے کی کوشش کی جہاں وہ آپ کا مذاق اُڑا سکتے۔ اُنہوں نے عالم ارواح سے متعلق جہاں مرنے والوں کی روحیں جاتی ہیں، ایک مسئلہ گھڑا۔ موسیٰ کی شریعت کے مطابق اِس بات کی اِجازت تھی کہ اگر ایک شادی شدہ شخص جس کے کوئی بچے نہ ہوں مر جائے تو اُس کا زندہ سب سے بڑا بھائی اُس کی بیوہ سے شادی کرے اور اپنے مرے ہوئے بھائی کےلئے نسل پیدا کرے۔

یسوع کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہوئے اُنہوں نے ایک ایسی عورت کی کہانی پیش کی جس کی ساتوں بھائیوں سے باری باری شادی ہوئی۔ اُن کا سوال یہ تھا کہ "قیامت میں یہ اُن میں سے کس کی بیوی ہو گی؟"

فریسی مسیح کی طرح مُردوں کی قیامت اور عالم ارواح پر ایمان رکھتے تھے۔ اِس لئے، صدوقیوں کے سامنے آپ کےلئے ایک شکست اُن کےلئے بھی شکست ہونی تھی۔ مگر بحث میں مسیح کی برتری نے فریسیوں کے نکتہ نظر کی حمایت کی۔ تاہم، فریسیوں کی یہ برتری حقیقت میں ایک شکست ثابت ہوئی، کیونکہ اِس سے لوگوں کے دِلوں میں مسیح کی عظمت اَور زیادہ ہو گئی جو آپ سے اَور زیادہ وابستہ ہو گئے۔

صدوقیوں کے ساتھ اِس تمام گفتگو میں، ہم دیکھتے ہیں کہ فریسیوں کی نسبت یہاں مسیح کا رویہ زیادہ نرم تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی نظر میں فریسیوں کی ریاکاری صدوقیوں کی بے اعتقادی سے زیادہ بُری تھی۔ مسیح نے صدوقیوں کے خلاف افسوس نہیں کہے، نہ ہی اُنہیں ریاکار کہہ کر مخاطب کیا، مگر آپ نے اُن سے یہ ضرور کہا کہ وہ گمراہ ہیں کیونکہ نہ وہ کتابِ مُقدّس کو جانتے تھے اور نہ خُدا کی قدرت کو۔ صدوقیوں کا گناہ فریسیوں کے مقابلہ میں کم تھا جو بہت کچھ جانتے تھے مگر اُس کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے۔

مسیح نے کتابِ مُقدّس میں سے اُن کے سامنے ثبوت رکھا کہ خُدا مُردوں کا خُدا نہیں بلکہ زندوں کا خُدا ہے، اور یوں مسیح نے قیامت کی حقیقت کی تصدیق کی۔ خُدا رُوح ہے، اور رُوحانی عالم مادی دُنیا سے بہت ہی بڑا ہے۔ اگر وہ کتابِ مُقدّس کو جانتے تو مُردوں کی قیامت کا انکار نہ کرتے۔ اگر وہ خُدا تعالیٰ کی قدرت کو جانتے تو وہ اُسے چھوٹی سی مادی دُنیا تک محدود نہ کر دیتے۔

مسیح نے اپنے سامعین کے سامنے وضاحت کی کہ عالم ارواح کو ویسے نہیں جانچا جا سکتا جیسے مادی دُنیا کو جانچا جاتا ہے۔ اِس لئے، وہاں پر کوئی جسمانی شادی بیاہ نہ ہو گا، کیونکہ راستبازوں کی قیامت میں شامل سب لوگ آسمان میں فرشتوں کی طرح ہوں گے۔ بھِیڑ آپ کی تعلیم سے حیران ہوئی، اور فقیہوں میں سے کچھ مسیح کے کامیاب جواب کی نسبت صدوقیوں کی ناکامی پر زیادہ خوش تھے۔ ایک فقیہ نے خاص اِس بات کا ذِکر کیا کہ یسوع نے اُنہیں خوب جواب دیا (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 28)، اور اِس وجہ سے آپ کے خلاف مخالفت کی لہر کچھ کمزور ہو گئی۔ اور پھِر کسی اَور نے آپ سے سوال کرنے کی جرأت نہ کی۔

ج۔ سب سے بڑا حکم

"اور فقیہوں میں سے ایک نے اُن کو بحث کرتے سُن کر جان لیا کہ اُس نے اُن کو خوب جواب دیا ہے۔ وہ پاس آیا اور اُس سے پوچھا کہ سب حکموں میں اوّل کون سا ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ اوّل یہ ہے، اے اسرائیل سُن۔ خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ اور تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ دوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حکم نہیں۔ فقِیہ نے اُس سے کہا، اے اُستاد بہت خوب! تُو نے سچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے اور اُس کے سِوا اَور کوئی نہیں۔ اور اُس سے سارے دِل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے محبت رکھنا اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنا سب سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے بڑھ کر ہے۔ جب یسوع نے دیکھا کہ اُس نے دانائی سے جواب دیا تو اُس سے کہا، تُو خُدا کی بادشاہی سے دُور نہیں۔ اور پھِر کسی نے اُس سے سوال کرنے کی جرأت نہ کی۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 28- 34)

ایک عالم شرع نے جو شریعت کے معاملات میں مسیح کا امتحان لینا چاہتا تھا، یسوع سے سب سے بڑے حکم کے بارے میں پوچھا۔ مسیح نے اُسے جواب دیا کہ یہ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل، اپنی ساری جان، اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھنا ہے۔ اور دوسرا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ تمام شریعت اور انبیا کے صحیفوں کا اِسی پر مدار ہے۔ عالم شرع نے مسیح کے جواب کو سراہا، اور یسوع نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ یہ آدمی خُدا کی بادشاہی سے دُور نہیں کیونکہ اُسے شریعت کی اچھی خاصی سمجھ تھی۔ غالباً اِس عالم شرع نے پہچان لیا تھا کہ جو بادشاہی سے بہت زیادہ دُور نہیں اُس کی حالت بہت دُور موجود فرد سے زیادہ بُری ہے۔ اُن کا نقصان کس قدر المناک ہے جو بادشاہی کے دروازے کے بالکل باہر آ جاتے ہیں مگر داخل ہونے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

د۔ داؤد کی نسل سے خُداوند

"پھِر یسوع نے ہیکل میں تعلیم دیتے وقت یہ کہا کہ فقِیہ کیونکر کہتے ہیں کہ مسیح داؤد کا بیٹا ہے؟ داؤد نے خود رُوح القدس کی ہدایت سے کہا ہے کہ خُداوند نے میرے خُداوند سے کہا، میری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے کی چوکی نہ کر دوں۔ داؤد تو آپ اُسے خُداوند کہتا ہے۔ پھِر وہ اُس کا بیٹا کہاں سے ٹھہرا؟ اور عام لوگ خوشی سے اُس کی سُنتے تھے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 35- 37)

ہیکل میں تعلیم دیتے وقت مسیح نے فریسیوں کو آزمانے کے موقع کا اِنتظار کیا کیونکہ اُنہوں نے بھی آپ کو آزمانے کےلئے سوال کئے تھے۔ آپ نے اُنہیں داؤد کے مزامیر میں سے ایک آیت کی وضاحت کرنے کےلئے کہا، جس میں خُدا ایک شخصیت سے مخاطب ہے جسے داؤد نے "میرے خُداوند" کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ شخصیت یہودی تشریح کے مطابق مسیح ہے، اور اِس کے ساتھ ہی وہ ابنِ داؤد بھی ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں خُداوند اور ابنِ داؤد کیسے ہو سکتا ہے؟ اِس بظاہر نظر آنے والے تضاد کا مسیح کی دوہری فطرت کے بھید کے علاوہ کچھ اَورحل نہیں ہے، جس کے مطابق وہ اپنی الوہیت میں خُداوند اور اپنی انسانیت میں ابنِ داؤد ہے۔ مکاشفہ کی کتاب مسیح کے تعلق سے یہی بات بیان کرتی ہے: "داؤد کی اصل و نسل" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 22: 16)۔ چونکہ فریسیوں نے آپ کی الوہیت کا انکار کیا تھا، اِس لئے اُن میں سے ایک بھی جواب نہ دے سکا، اور مسیح نے اپنے تمام مخالفوں کو خاموش کرا دیا اور بھِیڑ آپ کی باتوں سے خوش ہوتی تھی۔ کتابِ مُقدّس اکثر بیان کرتی ہے کہ لوگ مسیح کی باتوں سے حیران ہوتے تھے۔ اُس وقت سے لے کر اَب تک بے شمار لوگوں نے آپ کے کلام کی بدولت خوشی پائی ہے۔

ہ۔ مسیح کا ایک بیوہ کے نذرانے کی تعریف کرنا

"پھِر وہ ہیکل کے خزانہ کے سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ لوگ ہیکل کے خزانہ میں پیسے کس طرح ڈالتے ہیں اور بُہتیرے دولتمند بہت کُچھ ڈال رہے تھے۔ اتنے میں ایک کنگال بیوہ نے آ کر دو دَمڑیاں یعنی ایک دھیلا ڈالا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر اُن سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اِس کنگال بیوہ نے اُن سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ سبھوں نے اپنے مال کی بہتات سے ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جو کُچھ اِس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 12: 41- 44)

جناب یسوع ہیکل کے اندر کے صحن سے بیرونی صحن میں گئے جسے "خواتین کا احاطہ" بھی کہا جاتا تھا۔ یہاں ہیکل کی خدمت اور رحمدلی کے کاموں کےلئے ہدیہ جمع کرنے کے تیرہ نرسنگے نما برتن موجود تھے۔ عبادت گزار طویل عرصے کی غیر موجودگی کے بعد عظیم عید کے ایام میں آتے اور اِس بےمثل عبادت گاہ کی دیکھ بھال کےلئے بڑی رقمیں ہدیہ میں دیتے۔ مسیح اِس جگہ کے نزدیک بیٹھ گئے اور عبادت گزاروں کو ہیکل کے خزانہ میں اپنے نذرانے ڈالتے ہوئے دیکھنے لگے۔ جب بیوہ نے دو دَمڑیاں ڈالیں جو مختصر ترین نذرانہ تھا جو ڈالا جا سکتا تھا تو مسیح نے یہ دیکھنے کےلئے اپنے شاگردوں کو بُلایا اور کہا "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اِس کنگال بیوہ نے اُن سب سے زیادہ ڈالا۔" اپنی ناداری کی حالت میں اُس کے پاس گزر بسر کےلئے جو کچھ بھی تھا، وہ اُس نے ہدیہ میں ڈال دیا۔

مذہبی زندگی میں نذرانہ کی ایک خاص جگہ ہے۔ مسیح نے سکھایا کہ ایک شخص کے ہدیہ دینے کا پیمانہ نذر کی جانے والی رقم نہیں ہے بلکہ باقی بچ جانے والی رقم ہے۔ جو لوگ چھوٹے خیراتی ہدیے دیتے ہیں اور اُنہیں "بیوہ کی دَمڑی" کہہ کر پکارتے ہیں غلطی پر ہیں۔ اِس بیان کا اطلاق معمولی ہدیہ پر نہیں ہو سکتا، جب تک کہ یہ دینے والے کا تمام مال نہ ہو۔ بیوہ کے پاس جو کچھ تھا وہ اُ س نے دے دیا اور اپنی گزر بسر کےلئے الہٰی پروردگاری پر بھروسا کیا۔ اِس وجہ سے یسوع نے اُس کی تعریف کی کہ اُس میں خُدا تعالیٰ کےلئے محبت موجود تھی اور اُسے اُس کی طرف سے سنبھالے جانے کا بھروسا تھا۔

و۔ چند یونانیوں کا یسوع کی تلاش کرنا

"جو لوگ عید میں پرستش کرنے آئے تھے اُن میں بعض یونانی تھے۔ پس اُنہوں نے فِلپُّس کے پاس جو بیت صیدای گلیل کا تھا آ کر اُس سے درخواست کی کہ جناب ہم یسوع کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ فِلپُس نے آ کر اِندریاس سے کہا۔ پھِر اِندریاس اور فِلپُّس نے آ کر یسوع کو خبر دی۔ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، وہ وقت آ گیا کہ ابنِ آدم جلال پائے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔ جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ اُسے کھو دیتا ہے اور جو دُنیا میں اپنی جان سے عداوت رکھتا ہے وہ اُسے ہمیشہ کی زندگی کےلئے محفوظ رکھے گا۔ اگر کوئی شخص میری خدمت کرے تو میرے پیچھے ہو لے اور جہاں میں ہوں وہاں میرا خادم بھی ہو گا۔ اگر کوئی میری خدمت کرے تو باپ اُس کی عزت کرے گا۔ اَب میری جان گھبراتی ہے۔ پس میں کیا کہوں؟ اے باپ! مُجھے اِس گھڑی سے بچا لیکن میں اِسی سبب سے تو اِس گھڑی کو پہنچا ہوں۔ اے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔ پس آسمان سے آواز آئی کہ میں نے اُس کو جلال دیا ہے اور پھِر بھی دوں گا۔ جو لوگ کھڑے سُن رہے تھے اُنہوں نے کہا کہ بادل گرجا۔ اَوروں نے کہا کہ فرشتہ اُس سے ہمکلام ہُوا۔ یسوع نے جواب میں کہا کہ یہ آواز میرے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے آئی ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 12: 20- 30)

مسیح کی پیدایش کے بعد مشرق سے مجوسی آپ کو دیکھنے کےلئے آئے، اور اَب لوگوں کا ایک اَور گروہ مغرب کی طرف سے، یونان سے جو فلسفیوں کی زمین ہے مسیح کو آپ کی خدمت کے آخر میں دیکھنے کےلئے آیا۔ وہ ہیکل کے بیرونی احاطہ میں آئے، یہ جگہ غیر قوموں کےلئے مخصوص کی گئی تھی کہ واحد خُدا، اسرائیل کے خُدا کی پرستش کریں۔ اُنہوں نے مسیح کے شاگرد فِلپُّس کو بتایا کہ وہ یسوع کو دیکھنے کےلئے کتنے مشتاق تھے۔ فِلپُّس نے اندریاس کو اِس بارے میں بتایا، اور اُن دونوں نے خُداوند کو اِس بارے میں بتانے پر اتفاق کیا۔

جناب یسوع دیکھ سکتے تھے کہ وہ یونانی، غیر اقوام کی اَن گِنت تعداد کے ایک طرح سے پیش رو تھے جو ایمان سے آپ کے متلاشی ہوں گے، کیونکہ آپ نے کہا: "وہ وقت آ گیا کہ ابنِ آدم جلال پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 12: 23)۔ آپ اپنے تعلق سے اپنی قوم کے انکار کے باوجود سربُلند کئے جانے کو تھے۔ اُن کی طرف سے رد کرنا آپ یا آپ کے کام کےلئے ناکامی نہیں ہونا تھا۔

یسوع نے اُن یونانیوں سے ملاقات کی اور اُنہیں بتایا کہ جب تک ایک بیج زمین میں گر کر مر نہ جائے وہ پھل نہیں لا سکتا، سو ویسے ہی صرف وہی افراد جو اپنی گنہگار فطرت سے نفرت کرتے اور آپ پر ایمان رکھنے کے وسیلے سے اُس فطرت پر غالب آتے ہیں، ہمیشہ کی زندگی کےلئے بچائے جا سکتے ہیں۔ آپ نے اُنہیں زندگی کی طرف لے کر جانے والی اُس موت کے بارے میں بھی تعلیم دی یعنی آپ کی اپنی مخلصی بخش موت جو بے شمار رُوحوں کو دُنیا میں گناہ کی زندگی سے راستی کی زندگی کی طرف، اور قبر سے پرے ہمیشہ کی زندگی میں نجات دینے کو تھی۔

اِس موقع پر یسوع نے اقرار کیا کہ آپ کی ناگزیر موت کے سبب سے آپ کی جان گھبرا رہی تھی۔ آپ اِسی گھڑی کے سبب سے تو آسمان پر سے تشریف لائے تھے۔ کیا اَب آپ اِس سے بچ سکتے تھے؟ خُدا معاف کرے! آپ کی ایک خواہش اپنے باپ کے نام کو جلال دینا تھا، اِس لئے آپ نے ہیکل میں اپنی آخری اور مختصر ترین دُعا یہ کہتے ہوئے کی "اے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔" باپ نے آپ کی مکمل سپردگی اور خود انکاری کو سراہا اور آسمان سے ایک آواز سُنائی دی کہ "میں نے اُس کو جلال دیا ہے اور پھِر بھی دوں گا۔"

جب مسیح نے بیابان میں اپنی آزمایش کے دوران شیطان کو شکست دی تھی تو باپ نے آپ کی خدمت کرنے کےلئے فرشتے بھیجے۔ مگر صلیب سے خوف پر آپ کی نئی فتح بہت بڑی تھی، اِس لئے مسیح کی زمینی زندگی کے دوران تیسری مرتبہ باپ نے اپنی آواز سُنائی۔ آپ کے دُشمنوں نے سوچا کہ بادل گرجا، جبکہ آپ کے دوستوں نے سوچا کہ یہ ایک فرشتہ تھا۔ مگر مسیح جس نے اُس آواز کے پیغام کو سمجھا، سب سُننے والوں کو یقین دلایا کہ یہ آواز آپ کےلئے نہیں بلکہ اُن کے لئے تھی، اگرچہ وہ اُسے سمجھ نہ سکے تھے۔ خُدا تعالیٰ کی آواز آپ کی شخصیت اور تعلیمات کی تصدیق میں اُنہیں سُنائی دی تھی۔ یوں، اپنی اِس فتحمندی کے ذریعے مسیح نے ایک بار پھر اِس بات کو ثابت کیا کہ آپ صلیب پر لٹکائے جانے اور سب لوگوں کو اپنے پاس کھینچ لینے سے دُنیا کے نجات دہندہ ہونے کے لائق ہیں۔ صلیب کی کشش تمام انسانی توقعات سے پرے اَب بھی دُنیا میں سے بہت سوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ افراد اور اقوام کو اپنی جانب کھینچتی ہے، اور اِس کا کام اُس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کہ آسمان سے یہ آواز نہ آئے: "دُنیا کی بادشاہی ہمارے خُداوند اور اُس کے مسیح کی ہو گئی اور وہ ابدُالآباد بادشاہی کرے گا" (مکاشفہ 11: 15)۔

8۔ مسیح کا مستقبل کے واقعات کی بابت نبوت کرنا

"جب وہ ہیکل سے باہر جا رہا تھا تو اُس کے شاگردوں میں سے ایک نے اُس سے کہا، اے اُستاد۔ دیکھ یہ کیسے کیسے پتھر اور کیسی کیسی عمارتیں ہیں! یسوع نے اُس سے کہا، تُو اِن بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھتا ہے؟ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے۔ جب وہ زیتون کے پہاڑ پر ہیکل کے سامنے بیٹھا تھا تو پطرس اور یعقوب اور یوحنا اور اِندریاس نے تنہائی میں اُس سے پوچھا، ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور جب یہ سب باتیں پوری ہونے کو ہوں اُس وقت کا کیا نشان ہے؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 1- 4)

جب جناب مسیح ہیکل سے باہرجا رہے تھے تو آپ کے شاگردوں نے اُس عظیم عمارت کی خوبصورتی کے بارے میں اپنے خیالات بیان کئے۔ ہیرودیس بادشاہ نے اِسے ایسے پھاٹکوں کے ساتھ تعمیر کیا تھا جن پر چاندی اور سونے کی ملمع کاری کی گئی تھی۔ اُس کے پتھر بہت بڑے تھے، کچھ تو پینتالیس فٹ تک لمبے اور چھ فٹ تک چوڑے تھے۔ اُس کی تعمیر بہت شاندار تھی۔ مگر یسوع نے اُن کی طرف دیکھا اور کہا "تُو اِن بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھتا ہے؟ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے۔"

پھر مسیح اور آپ کے ساتھی کوہِ زیتون کی طرف گئے۔ وہاں آپ کے شاگردوں نے آپ سے دو سوال پوچھے: "ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور جب یہ سب باتیں پوری ہونے کو ہوں اُس وقت کا کیا نشان ہے؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 4)۔ یوں آپ کے شاگردوں نے اُس وقت اور اُس کے ساتھ ظاہر ہونے والے کچھ نشانات کو جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ سو، مسیح نے اُنہیں مستقبل کے بعض واقعات کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ سب سے پہلے آپ نے یروشلیم کی تباہی اور پھر اپنی دوبارہ آمد کے بارے میں بات کی۔

الف۔ یروشلیم کی تباہی کے نشانات

(1) ابتدائی نشانات

"یسوع نے اُن سے کہنا شروع کیا کہ خبردار کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔ بُہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ وہ میں ہی ہوں اور بہت سے لوگوں کو گُمراہ کریں گے۔ اور جب تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہیں سُنو تو گھبرا نہ جانا۔ اِن کا واقع ہونا ضرور ہے لیکن اُس وقت خاتمہ نہ ہو گا۔ کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی۔ جگہ جگہ بَھونچال آئیں گے اور کال پڑیں گے۔ یہ باتیں مصیبتوں کا شروع ہی ہوں گی۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 5- 8)

شاگردوں نے ہیکل کی تباہی کے وقت کے بارے میں سوال پوچھا، اور پھر اُنہوں نے اُس تباہی کی علامات کی بابت بھی دریافت کیا۔ یسوع نے دوسرے سوال کا جواب پہلے دیا۔

(الف) دھوکا: یروشلیم کی تباہی سے پہلے بہت سے دھوکے باز آئیں گے۔ ایسے جھوٹے مسیح حقیقت میں ظاہر ہوئے۔ اُنہوں نے یہودیوں کو بتایا کہ وہ اُنہیں رُومی غلامی سے آزاد کریں گے، مگر وہ جھوٹے تھے (دیکھئے اعمال 21، اور 38 باب)۔

(ب) جنگیں: یروشلیم کی تباہی سے پہلے یہودیوں اور دیگر اقوام کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئیں۔ 38ء میں اسکندریہ کے یہودیوں اور مصریوں کے درمیان ایک جنگ ہوئی۔ اِسی طرح شام میں سلوکیہ کے مقام پر بھی ایک جنگ ہوئی جس میں تقریباً پچاس ہزار کے قریب یہودی ہلاک ہوئے۔

(ج) زلزلے، قحط اور مصیبتیں: یہ سب بھی حقیقت میں واقع ہُوا۔ کریتے، روم اور یروشلیم میں زلزلے آئے; قحط بھی آئے مثلاً قیصر کلودیس کے ایام میں ایک قحط آیا جس کے بارے میں اگبس نے نبوت کی تھی (نیا عہدنامہ، اعمال 11: 28); اور مصیبتیں بھی آئیں جیسے یہودیوں اور سامریوں کے درمیان اور یہودیوں اور یونانیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں جن میں تقریباً بیس ہزار یہودی ہلاک ہوئے۔

یہ سب واقعات یروشلیم کی تباہی سے پہلے پیش آئے، اور یہ مصیبتوں کے شروع ہونے کی ابھی علامات ہی تھی۔

(2) فوری نشانات

"لیکن خبردار رہو کیونکہ لوگ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے اور تم عبادت خانوں میں پیٹے جاؤ گے اور حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کئے جاؤ گے تا کہ اُن کےلئے گواہی ہو۔ اور ضرور ہے کہ پہلے سب قوموں میں اِنجیل کی منادی کی جائے۔ لیکن جب تمہیں لے جا کر حوالہ کریں تو پہلے سے فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کہیں بلکہ جو کُچھ اُس گھڑی تمہیں بتایا جائے وہی کہنا کیونکہ کہنے والے تم نہیں ہو بلکہ رُوح القدس ہے۔ اور بھائی کو بھائی اور بیٹے کو باپ قتل کےلئے حوالہ کرے گا اور بیٹے ماں باپ کے برخِلاف کھڑے ہو کر اُنہیں مروا ڈالیں گے۔ اور میرے نام کے سبب سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔ پس جب تم اُس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو اُس جگہ کھڑی ہوئی دیکھو جہاں اُس کا کھڑا ہونا روا نہیں (پڑھنے والا سمجھ لے) اُس وقت جو یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ جو کوٹھے پر ہو وہ اپنے گھر سے کُچھ لینے کو نہ نیچے اُترے نہ اندر جائے۔ اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا کپڑا لینے کو پیچھے نہ لَوٹے۔ مگر اُن پر افسوس جو اُن دِنوں میں حاملہ ہوں اور جو دودھ پلاتی ہوں! اور دُعا کرو کہ یہ جاڑوں میں نہ ہو۔ کیونکہ وہ دِن ایسی مصیبت کے ہوں گے کہ خِلقت کے شروع سے جسے خُدا نے خلق کیا نہ اَب تک ہوئی ہے نہ کبھی ہو گی۔ اور اگر خُداوند اُن دِنوں کو نہ گھٹاتا تو کوئی بشر نہ بچتا مگر اُن برگزیدوں کی خاطر جن کو اُس نے چُنا ہے اُن دِنوں کو گھٹایا۔ اور اُس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا دیکھو وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور نشان اور عجیب کام دِکھائیں گے تا کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گُمراہ کر دیں۔ لیکن خبردار رہو۔ دیکھو میں نے تم سے سب کُچھ پہلے ہی کہہ دیا ہے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 9- 23)

یسوع نے اُن نشانات کے بارے میں بتایا جن سے یروشلیم کی تباہی کے نزدیک ہونے کی نشاندہی ہونی تھی:

(الف) پہلا نشان، ایذا رسانی (آیات 9- 13): یسوع نے اپنے شاگردوں کو اُن دُکھوں کے بارے میں خبردار کیا جو اُن کے بہت نزدیک تھے جن کے آخر میں جلال بھی ہونا تھا۔ ایذا رسانی سب سے پہلے باہر سے آنی تھی، جیسے یہودی صدر عدالت کے ارکان کی طرف سے جنہوں نے اُنہیں کوڑے مارنے تھے اور اُنہیں مسیح کےلئے گواہی دینے کی وجہ سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے مُقدموں کےلئے پیش کرنا تھا۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کی تا کہ وہ نہ فکر کریں اور نہ دفاع کےلئے اپنی ذات پر بھروسا کریں۔ یسوع نے واضح کیا کہ رُوح القدس اُن کے ذریعے سے بات کرے گا اور اُنہیں درست جواب عطا کرے گا۔ مگر ایذا رسانی اندر سے، خاندان کے افراد کی طرف سے بھی آنی تھی۔ مُقدّس متی کے اِنجیلی بیان میں یہ لکھا ہے کہ بہت سے ایمان سے پھِر جائیں گے اور اُس وقت کے دوران ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دوسرے سے عداوت رکھیں گے (متی 24: 10)۔ کچھ مسیحیوں کا ایمان کمزور ہو جائے گا اور وہ اپنے بھائیوں کو دھوکے سے پکڑوا کر اُن کی ایذا راسانی کا باعث بنیں گے۔ مسیح نے اُنہیں بتایا کہ اُس کے نام کے سبب سے ہر کوئی اُن سے عداوت رکھے گا۔

تاہم، ایذا رسانی کے درمیان حوصلہ افزائی بھی سامنے آئے گی یعنی قوموں کے سامنے اِنجیل کی منادی ہو گی۔ یہ ایذا رسانی یروشلیم کی تباہی سے پہلے واقع ہو گی۔ پولس رسول نے کلسیوں کے نام اپنے خط میں جو غالباً 60 ء - 64 ء کے درمیان کسی وقت لکھا گیا، بیان کیا کہ اِنجیل پہلے ہی پھل لاتی اور ترقی کرتی جاتی تھی (کلسیوں 1: 6)۔ اِسی باب کی تیئیسویں آیت میں وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ اِس اِنجیل کی منادی آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں کی گئی۔ اِس لئے، شاگرد اپنی ہمت بندھی رکھ سکتے تھے کہ اُن کی ایذا رسانی اور پراگندگی مسیح کے پیغام کو ہر کسی کے پاس لے کر جائے گی۔ حوصلہ رکھنے کی ایک اَور وجہ یہ ہونی تھی کہ آخر تک برداشت کرنے والوں نے نجات پانی تھی۔

(ب) دوسرا نشان، اُجاڑنے والی مکروہ چیز (آیات 14- 23): دانی ایل نبی نے اپنے صحیفہ میں اِس بارے میں بیان کیا تھا (9: 27; 11: 31; 12: 11)، اور نبوتی طور پر سلوقی بادشاہ انطاکس ایپیفینس (175 ق م - 164 ق م) کی طرف اشارہ کیا، جس نے ہیکل میں قربانیوں کو موقوف کر دیا تھا اور اُس کی جگہ بتوں کی پرستش شروع کر دی تھی۔ یہ واقعہ یسوع کی پیدایش سے بہت پہلے ہُوا تھا، تاہم یسوع مسیح یہ بتا رہے تھے کہ ایسا ہی کچھ دوبارہ واقع ہو گا۔ آپ کے الفاظ نے یروشلیم شہر میں رومی افواج کے داخل ہونے کی طرف اشارہ کیا جو اپنے ہاتھوں میں عقابوں اور اُن بادشاہوں کے مجسمے لے کر آئے جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ مُقدّس لوقا کے اِنجیلی بیان کے مطابق یسوع نے یہ الفاظ بھی کہے "پھِر جب تم یروشلیم کو فوجوں سے گھِرا ہُوا دیکھو تو جان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدیک ہے" (اِنجیل بمطابق لوقا 21: 20)۔ آپ نے واضح کیا کہ "مکروہ چیز" رومی افواج اور اُن کی علامتیں ہوں گی جنہیں مُقدّس ہیکل اور شہر مُقدّس میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔

یوں یہ یروشلیم کی تباہی کا ایک یقینی نشان ہونا تھا کہ شہر رُومی افواج سے گھِر جائے گا جو اُسے فتح کر لیں گی۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اُن ایام کے بارے میں خبردار کیا، اور بتایا کہ مسیحی جہاں کہیں ہوں اُنہیں دُور پہاڑوں پر بھاگ جانا چاہئے۔ جہاں تک حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں ہوں گی اُن کا بھاگنا یقیناً مشکل ہو گا۔ مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ دُعا کریں کہ یہ سب جاڑوں میں نہ ہو کیونکہ دُنیا کی تاریخ میں یروشلیم پر آنے والی مصیبت کی کوئی مثال نہ ہو گی۔

اِس پریشان کن تصویر کے باوجود مسیح نے تسلی کی ایک کِرن بھی بخشی (آیت 20): برگزیدوں کی خاطر وہ دِن چھوٹے کئے جائیں گے۔ لیکن یہ بڑی مصیبت بہت سوں کو غلط اُمید کی طرف لے جائے گی اور وہ چھٹکارے کی پیشکش کرنے والے جھوٹے نبیوں اور مسیحاؤں کا یقین کریں گے۔ یوں بہت سے دھوکا کھا جائیں گے، یہاں تک کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گُمراہ کر دیں۔

مسیح کی یہ تمام پیش گوئیاں اُس وقت سچ ثابت ہوئیں جب یروشلیم تباہ ہُوا۔ رُومی جرنیل گالُس نے 66 ء میں یروشلیم کا محاصرہ کر لیا، 68 ء میں ویسپیسئن نے بھی ایسا ہی کیا۔ بعد کے اِس محاصرے میں مسیح کے الفاظ سے واقف مسیحی شہر سے بھاگ گئے اور ایک بھی ہلاک نہ ہُوا۔ بعد ازاں، رُومی جرنیل ٹائٹس نے 70 ء میں یروشلیم پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں سقوطِ یروشلیم واقع ہُوا۔ اُس نے تقریباً پندرہ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا۔ بہت سے مصلوب کئے گئے یہاں تک کہ مزید صلیبوں کےلئے جگہ باقی نہ رہی۔ یوں مسیح کے الفاظ پورے ہوئے کہ "وہ دِن ایسی مصیبت کے ہوں گے کہ خِلقت کے شروع سے جسے خُدا نے خلق کیا نہ اَب تک ہوئی ہے نہ کبھی ہو گی۔"

ہیکل کو تباہ کر کے آگ لگا دی گئی۔ یہ محاصرہ دوسرے شہروں کی نسبت کم دورانیہ پر مشتمل تھا۔ یہ اختصار حیران کن ہے، خاص طور پر جب اِس حقیقت پر غور کیا جائے کہ پہاڑوں پر قائم ہونے کی وجہ سے یروشلیم قدرتی طور پر ناقابل تسخیر تھا۔ شہر کو فتح کرنے والے جرنیل ٹائٹس نے اِس کی تباہی کی شخصی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اُس نے خُدا کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرایا جس نے اُسے محاصرے میں فتح بخشی تھی۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خُدا نے ٹائٹس کو یہودیوں کے گناہوں کی وجہ سے یہ فتح بخشی۔

مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ کہتے ہوئے آنے والے واقعات کے بارے میں خبر دی "خبردار رہو۔ دیکھو میں نے تم سے سب کُچھ پہلے ہی کہہ دیا ہے۔" آپ کے الفاظ کو سمجھنے اور اُن پر غور کرنے سے وہ یروشلیم پر آنے والی بڑی مصیبت سے بچ گئے۔

ب۔ مسیح کی دوسری آمد

"مگر اُن دِنوں میں اُس مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا۔ اور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے اور جو قوتیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی۔ اور اُس وقت لوگ ابنِ آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے۔ اُس وقت وہ فرشتوں کو بھیج کو اپنے برگزیدوں کو زمین کی انتہا سے آسمان کی انتہا تک چاروں طرف سے جمع کرے گا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 24- 27)

یروشلیم کی تباہی کے بارے میں بیان کرنے کے بعد یسوع نے اپنی دوبارہ آمد کے بارے میں بات کرنی شروع کی۔ جب آپ نے کہا کہ "مگر اُن دِنوں میں اُس مصیبت کے بعد ..." تو یہ شہر مُقدّس کی تباہی کے بعد کے وقت کی طرف اشارہ تھا۔ آپ کی دوبارہ آمد کے حتمی وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ خُداوند کی نظر میں ایک دِن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دِن کے برابر ہے (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 3: 8)۔ آسمان پر واقعات کا ذِکر اِس طرح سے سمجھا گیا ہے کہ یہ عظیم لوگوں کے گرائے جانے اور بادشاہوں کے ہلائے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ اِس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ آسمان بڑی آگ میں فنا ہو جائیں گے۔ عناصر پگھل جائیں گے اور منتشر ہو جائیں گے، اور زمین اور اُس پر کے کام جل جائیں گے ( 2- پطرس 3: 10)۔ تب، ابنِ آدم مُردوں کو زندہ کرنے اور دُنیا کی عدالت کرنے کےلئے بادلوں پر آئے گا۔ وہ بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آئے گا، اور اپنے فرشتوں کو بھیج کر اپنے برگزیدوں کو زمین کی انتہا سے اکھٹا کرے گا۔

ج۔ یروشلیم کی تباہی کا وقت

"اَب اِنجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو۔ جونہی اُس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔ اِسی طرح جب تم اِن باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہو گی۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں نہ ٹلیں گی۔ لیکن اُس دِن یا اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ۔ خبردار! جاگتے اور دُعا کرتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 28- 33)

پہلے جب مسیح نے یروشلیم میں ہیکل کی تباہی کا ذِکر کیا تو آپ کے شاگرد جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کب ہو گا اور اِس سے قبل کیا علامات ظاہر ہوں گی۔ یسوع نے اُن کے دوسرے سوال کا پہلے جواب دیا اور اُنہیں نشانوں کے بارے میں بتایا۔ پھر آپ نے اِن واقعات کے وقت کے تعلق سے اُن کے پہلے سوال کا جواب فطرت کی ایک مثال کے ذریعے سے دیا: "اَب اِنجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو۔ جونہی اُس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔" اِس کے بعد آپ نے کہا کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہو گی۔ حیرت انگیز طور پر پہلی صدی عیسوی کے بہت سے مسیحیوں نے اپنی زندگی میں ہیکل کی تباہی دیکھی۔ مسیح کے الفاظ اپنے کلام کے مطابق پورے ہوئے کہ "آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں نہ ٹلیں گی۔" جہاں تک یروشلیم کی تباہی کے بالکل صحیح وقت کا تعلق ہے، یسوع نے کہا کہ اُس وقت کے بارے میں نہ وہ ابنِ آدم کے طور پر اور نہ ہی فرشتے جانتے ہیں، بلکہ صرف باپ جانتا ہے۔ اور پھر آپ نے اپنی بات کو خبردار رہنے، جاگنے اور دُعا کرتے رہنے کی نصیحت کے ساتھ ختم کیا۔

ہم حیرت سے سوچنے لگتے ہیں کہ کیوں مسیح اِس سے آگاہ نہ تھے۔ جواب یہ ہے کہ بےشک آپ الہٰ ہیں مگر آپ جسم میں ابنِ آدم کے طور پر آئے تھے (نیا عہدنامہ، 1- تیم 3: 16); اور ایسے کرتے ہوئے آپ نے اپنا آپ خالی کر دیا، خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گئے (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 7)۔ مسیح بطور خُداوند سب کچھ جانتے تھے، مگر بطور مسیح انسان یروشلیم کی تباہی کے دِن یا گھڑی کے بارے میں نہ جانتے تھے۔ اگرچہ ہم پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتے کہ یہ کیسے ممکن ہے، مگر ہم رُوح القدس کی مدد سے آپ پر ایمان لانے کا چناؤ کر سکتے ہیں۔ پولس رسول نے ایک ایماندار کے ایمان کےلئے رُوح القدس کو نہایت ضروری بیان کیا ہے جب اُس نے یہ لکھا کہ "نہ کوئی رُوح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خُداوند ہے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 12: 3)۔

د۔ جاگتے رہنا

"یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جو پردیس گیا اور اُس نے گھر سے رُخصت ہوتے وقت اپنے نوکروں کو اختیار دیا یعنی ہر ایک کو اُس کا کام بتا دیا اور دربان کو حکم دیا کہ جاگتا رہے۔ پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ گھر کا مالک کب آئے گا۔ شام کو یا آدھی رات کو یا مُرغ کے بانگ دیتے وقت یا صبح کو۔ ایسا نہ ہو کہ اچانک آ کر وہ تم کو سوتے پائے۔ اور جو کُچھ میں تم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 13: 34- 37)

مسیح نے یروشلیم کی تباہی کے بارے میں بات کی اور پھر اپنی دوبارہ آمد کے بارے میں بتایا۔ یہ سب باتیں اُس وقت واقع ہونا تھیں جن کے بارے میں کوئی آدمی نہیں جانتا تھا، اور آپ کے الفاظ "جاگتے رہو" سب کےلئے ہیں۔ جاگتے رہنے کی نصیحت کے تعلق سے تمثیل میں ایک شخص نے اپنے نوکروں کو کام بتا دیا اور دربان کو تاکید کی کہ جاگتا رہے کیونکہ اُس کی آمد اچانک ہو گی۔ اُن دِنوں میں، رات چار حصوں میں منقسم ہوتی تھی، جن میں سے ہر حصہ میں تین گھنٹے ہوتے تھے، اور نوکر اِس بات سے آگاہ نہ تھے کہ اُن کا مالک رات کے کس پہر میں آئے گا۔

عزیز قاری، خُدا تعالیٰ نے آپ کو کون سا کام سونپا ہے؟ آپ گھر میں ایک شوہر یا باپ کے طور پر کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟ کام کی جگہ پر اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کے ساتھ آپ کا طرزِ عمل کیسا ہے؟ یہ مت بھولیں کہ ہر ایک کو کام سونپا گیا ہے۔ آپ سے کس بات کا تقاضا کیا گیا ہے؟ کیا آپ اپنا کام دیانتداری کے ساتھ کر رہے ہیں؟ آج ہم جانتے ہیں کہ مسیح نے پھِر آنا ہے، لیکن ہم اُس دِن یا گھڑی کے بارے میں نہیں جانتے۔ مسیح نے ہمیں جاگنے کےلئے کہا ہے کیونکہ دُشمن نے ہمیں اندر اور باہر سے گھیر رکھا ہے۔ جاگتے رہیں، کیونکہ آپ کے پاس خُدا تعالیٰ کی خدمت کی ذمہ داری ہے۔ جاگتے رہیں، کیونکہ تھوڑے سے وقت میں آپ کا خُداوند واپس آئے گا اور آپ کو اجر دے گا۔ کاش کہ جب مسیح آئے تو ہمیں جاگتا ہُوا پائے!

ہ۔ دس کنواریوں کی تمثیل

"اُس وقت آسمان کی بادشاہی اُن دس کُنواریوں کی مانند ہو گی جو اپنی مشعلیں لے کر دُلہا کے استقبال کو نکلیں۔ اُن میں پانچ بیوقوف اور پانچ عقلمند تھیں۔ جو بیوقوف تھیں اُنہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کپّیوں میں تیل بھی لے لیا۔ اور جب دُلہا نے دیر لگائی تو سب اُونگھنے لگیں اور سو گئیں۔ آدھی رات کو دُھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آ گیا! اُس کے استقبال کو نکلو۔ اُس وقت وہ سب کُنواریاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعل درست کرنے لگیں۔ اور بیوقوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کُچھ ہم کو بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بُجھی جاتی ہیں۔ عقلمندوں نے جواب دیا کہ شاید ہمارے تمہارے دونوں کےلئے کافی نہ ہو۔ بہتر یہ کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو۔ جب وہ مول لینے جا رہی تھیں تو دُلہا آ پہنچا اور جو تیار تھیں وہ اُس کے ساتھ شادی کے جشن میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔ پھِر وہ باقی کُنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں، اے خُداوند! اے خُداوند! ہمارے لئے دروازہ کھول دے۔ اُس نے جواب میں کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تم کو نہیں جانتا۔ پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہ اُس دِن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو۔" (اِنجیل بمطابق متی 25: 1- 13)

دس کنواریوں کی تمثیل میں ایک دُلہا کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی شادی کی تقریب جاری تھی۔ اِس میں دو گروہوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ایک تیار تھا، جبکہ دوسرا تیار نہ تھا۔ جب شادی کی تقریب کا وقت آیا، تو بعد والے گروہ میں موجود کنواریوں نے سوچا کہ وہ اُن سے مدد طلب کر لیں گی جو تیار ہوں گی، یا پھر اُن کے پاس تیار ہونے کےلئے کافی وقت موجود ہو گا۔ مگر جب دُلہا پہنچا اور شادی کی تقریب شروع ہوئی تو اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہُوا۔ جب اُنہوں نے رحم طلب کیا تو مالک نے افسُردہ اور خوفناک الفاظ میں جواب دیا "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تم کو نہیں جانتا۔" یوں اُنہیں اُس ضیافت میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔

اِس تمثیل کے ذریعے، مسیح اپنی آمد اور یوم حساب کےلئے تیار ہونے کی اہمیت سکھانا چاہتے تھے۔ ایسا سوچنا بیکار ہے، جیسا کہ کچھ سکھاتے ہیں کہ معافی حاصل کرنے اور آسمان میں داخل ہونے کےلئے مُقدّسین کی نیکیاں کام آئیں گی اور مدد کےلئے دستیاب ہوں گی۔ اِسی طرح، یہ تمثیل اُن سب کی اُمید کو باطل ٹھہراتی ہے جو سوچتے ہیں کہ گنہگاروں کےلئے قبر سے پرے بھی توبہ اور معافی کا کوئی دروازہ کھلا ہُوا ہے۔

و۔ توڑوں کی تمثیل

"کیونکہ یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جس نے پردیس جاتے وقت اپنے گھر کے نوکروں کو بُلا کر اپنا مال اُن کے سپرد کیا۔ اور ایک کو پانچ توڑے دِئے۔ دوسرے کو دو، اور تیسرے کو ایک یعنی ہر ایک کو اُس کی لیاقت کے مطابق دیا اور پردیس چلا گیا۔ جس کو پانچ توڑے ملے تھے اُس نے فوراً جا کر اُن سے لین دین کیا اور پانچ توڑے اَور پیدا کر لئے۔ اِسی طرح جسے دو ملے تھے اُس نے بھی دو اَور کمائے۔ مگر جس کو ایک ملا تھا اُس نے جا کر زمین کھودی اور اپنے مالک کا روپیہ چھپا دیا۔ بڑی مُدّت کے بعد اُن نوکروں کا مالک آیا اور اُن سے حساب لینے لگا۔ جس کو پانچ توڑے ملے تھے وہ پانچ توڑے اَور لے کر آیا اور کہا، اے خُداوند! تُو نے پانچ توڑے مُجھے سُپرد کئے تھے۔ دیکھ میں نے پانچ توڑے اَور کمائے۔ اُس کے مالک نے اُس سے کہا، اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تُجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا۔ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔ اور جس کو دو توڑے ملے تھے اُس نے بھی پاس آ کر کہا، اے خُداوند! تُو نے دو توڑے مُجھے سُپرد کئے تھے۔ دیکھ میں نے دو توڑے اَور کمائے۔ اُس کے مالک نے اُس سے کہا، اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تُجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا۔ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔ اور جس کو ایک توڑا ملا تھا وہ بھی پاس آ کر کہنے لگا، اے خُداوند! میں جانتا تھا کہ تُو سخت آدمی ہے اور جہاں نہیں بویا وہاں سے کاٹتا ہے اور جہاں نہیں بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہے۔ پس میں ڈرا، اور جا کر تیرا توڑا زمین میں چُھپا دیا۔ دیکھ جو تیرا ہے وہ موجود ہے۔ اُس کے مالک نے جواب میں اُس سے کہا، اے شریر اور سُست نوکر! تُو جانتا تھا کہ جہاں میں نے نہیں بویا وہاں سے کاٹتا ہوں اور جہاں میں نے نہیں بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہوں۔ پس تُجھے لازم تھا کہ میرا رُوپیہ ساہوکاروں کو دیتا تو میں آ کر اپنا مال سُود سمیت لیتا۔ پس اِس سے وہ توڑا لے لو، اور جس کے پاس دس توڑے ہیں اُسے دے دو۔ کیونکہ جس کے پاس ہے اُسے دیا جائے گا اور اُس کے پاس زیادہ ہو جائے گا، مگر جس کے پاس نہیں ہے اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے لے لیا جائے گا۔ اور اِس نکمے نوکر کو باہر اندھیرے میں ڈال دو۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا۔" (اِنجیل بمطابق متی 25: 14- 30)

توڑوں کی تمثیل واضح کرتی ہے کہ خُدا تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف توڑے عطا کئے ہیں، تاہم جانفشانی اور وفاداری کےلئے اجر یکساں ہے۔ دونوں نوکروں کو جنہوں نے اپنے مالک کےلئے کمایا، یہاں تک کہ وہ جس نے پہلے کی نسبت کچھ کم کمایا تھا، ایک جیسی آفرین سُننے کو ملی۔ مگر جس نے کچھ بھی کمانے کی کوشش نہ کی تھی، موردِ الزام ٹھہرا اور باہر پھینکا گیا جہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہے۔ اُسے سزا چوری یا بدی کرنے کی وجہ سے نہیں ملی، بلکہ سُستی کا مظاہرہ کرنے اور اپنے توڑے نظرانداز کرنے کے باعث ملی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کےلئے خُدا تعالیٰ کی سب سے بڑی بخشش ابدی نجات ہے۔ اِس لئے، اُن افراد کےلئے جو اِس بیش قیمت بخشش کو نظر انداز کرتے ہیں جسے مسیح نے صلیب پراپنی جان دینے سے اُن کےلئے ممکن بنایا ہے بڑی عدالت اور تلخ ترین رونا اور دانتوں کا پیسنا ہو گا۔

ز۔ عدالت کا بڑا دِن

"جب اِبنِ آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔ اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔ اُس وقت بادشاہ اپنے دہنی طرف والوں سے کہے گا، آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔ کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مُجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا۔ تم نے مُجھے پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا۔ تم نے مُجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ ننگا تھا۔ تم نے مُجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا۔ تم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا۔ تم میرے پاس آئے۔ تب راستباز جواب میں اُس سے کہیں گے، اے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا، یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا؟ ہم نے کب تُجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب تُجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔ پھِر وہ بائیں طرف والوں سے کہے گا، اے ملعونو میرے سامنے سے اُس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو اِبلیس اور اُس کے فرشتوں کےلئے تیار کی گئی ہے۔ کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مُجھے کھانا نہ کھلایا۔ پیاسا تھا۔ تم نے مُجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تم نے مُجھے گھر میں نہ اُتارا۔ ننگا تھا۔ تم نے مُجھے کپڑا نہ پہنایا۔ بیمار اور قید میں تھا۔ تم نے میری خبر نہ لی۔ تب وہ جواب میں کہیں گے، اے خُداوند! ہم نے کب تُجھے بھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قید میں دیکھ کر تیری خدمت نہ کی؟ اُس وقت وہ اُن سے جواب میں کہے گا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم نے اِن سب سے چھوٹوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا تو میرے ساتھ نہ کیا۔ اور یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی۔" (اِنجیل بمطابق متی 25: 31- 46)

کوہِ زیتون پر اپنے شاگردوں کے ساتھ اِن باتوں کے آخری الفاظ تحریک بخشنے والے اور بہت زیادہ فائدہ مند تھے۔ مسیح نے روزِ عدالت انسانوں کے اکھٹا کئے جانے کو بیان کیا۔ اُس وقت، خُداوند منصف کے طور پر اپنے جلالی تخت پر اپنے جلال میں ظاہر ہو گا، اور اُس کے تمام پاک فرشتے اُس کے ساتھ ہوں گے۔ اقوام اُس کے سامنے اکھٹی ہوں گی، اور جیسا اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کو جانتا ہے، وہ بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرے گا، اور ایمانداروں کو اپنے دہنے ہاتھ قبولیت اور عزت کی جگہ میں کھڑا کرے گا، اور بے ایمانوں کو بائیں ہاتھ سزا کی جگہ پر کھڑا کرے گا۔ جب رد کئے جانے والے مسیح کو دیکھیں گے جو اپنے رحم اور بے انتہا محبت میں سب کے فدیہ کےلئے مر گیا، تو وہ نجات کےلئے اُس کے پاس آنے میں اپنی ناکامی کا کوئی عُذر نہ ڈھونڈ سکیں گے۔ اُس وقت وہ سوچیں گے کہ مسیح رحمدل سردار کاہن کے طور پر ہمیشہ اُنہیں قبول کرنے کو تیار ہے کیونکہ وہ انسانیت کی کمزوریوں کو مکمل طور پر سمجھتا ہے اور ہر اعتبار سے ہماری طرح آزمایا گیا ہے۔ تاہم، اُن کےلئے اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

تب منصف اپنے دائیں ہاتھ والوں کےلئے رکھے گئے اجر کا اعلان کرے گا۔ اُن کےلئے بنایِ عالم سے پیشتر سے تیار کی گئی میراث منتظر ہے، کیونکہ وہ باپ کے مبارک ہیں، اور اُس نے یہ میراث اُن کےلئے تیار کی ہے۔ وہ اپنے بائیں ہاتھ والوں کےلئے بھی حصہ کا اعلان کرے گا جو اصل میں اُن کےلئے تیار نہیں کیا گیا تھا یعنی ہمیشہ کی آگ جو شیطان اور اُس کے فرشتوں کےلئے تیار کی گئی ہے۔ اُنہوں نے خُدا تعالیٰ کے مقاصد اور اپنی نجات کےلئے اُس کے مہیا کردہ انتظام کی نسبت ابلیس کی راہنمائی میں چلنے کا چناؤ کیا تھا۔ غرض جب خُدا شیطان کےلئے تیار کی گئی جگہ میں اُنہیں بھیجے گا جس کی پیروی اُنہوں نے اپنی زمینی زندگی کے دوران کی تھی تو اُن کے پاس کوئی عُذر نہیں ہو گا۔ اُنہوں نے نجات دہندہ کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے شیطان کے ساتھ وفاداری کو ترجیح دی تھی۔ اُن کی عدالت کی بنیادی وجہ مسیح کو نجات دہندہ اور خُداوند کے طور پر قبول کرنے سے انکار کرنا ہے۔ چونکہ اُنہوں نے اِس انتہائی اہم ذمہ داری سے پہلوتہی کی تھی، اُنہوں نے اُس کام کو نہیں کیا تھا جس کی اُس کے پیروکاروں سے توقع تھی، اُس خاص کام کو نظرانداز کیا تھا جو اُن کے سپرد کیا گیا تھا کہ ضرورتمندوں کی مدد کریں، خاص کر اُس کے پیروکاروں کی جنہیں اُس نے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

اِس مثال کے ذریعے، مسیح نے واضح کر دیا کہ اُس کےلئے محبت کی وجہ سے بھوکوں کو کھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑے پہنانا، قیدیوں اور بیماروں کی خبر گیری کرنا، پردیسیوں کو گھر میں اُتارنا اور دیگر خیراتی سرگرمیوں کو سرانجام دینا ایسے ہی ہے کہ جیسے یہ کام مسیح کےلئے شخصی طور پر کئے گئے ہوں۔ ایسے کام کرنے والے کو نہ صرف اپنے کام کا بلکہ اُس کے پیچھے محرک کا بھی اجر ملے گا۔ اِسی طرح، جو مسیح کےلئے اپنی محبت کی کمی کی وجہ سے دوسروں کےلئے یہ کام کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، تو یہ ایسے ہی تصور ہو گا کہ جیسے وہ مسیح کےلئے یہ کام کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ جیسے خُدا ایک فرد کی طرف سے کی جانے والی بدی کو دیکھتا ہے، ویسی ہی نظر سے وہ اُس کی طرف سے بھلائی کے کام کرنے میں ناکامی کو دیکھتا ہے۔ دونوں کے نتیجہ میں سخت سزا ہے۔ یہ ایک مشکل ترین سبق ہے اور بہت کم اِسے سیکھتے ہیں۔

یہوداہ اِسکریوتی ایک ایسے فرد کی مثال ہے جس نے اپنا آپ مکمل طور پر شیطان کے اثر کے تابع کر دیا۔ اُس کا یہ عمل اُسے ناگزیر طور پر ابلیس اور اُس کے فرشتوں کےلئے تیار کی گئی آگ میں لے گیا۔ مسیح سے اُس کی باطنی دُوری تین دِن پہلے اُس وقت ظاہر ہوئی تھی جب اُ س نے بیت عنیاہ میں مریم کے یسوع کے پاؤں پر عِطر ڈالنے پر احتجاج کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے شاگردوں نے اپنے دِلوں میں نیکی کی بابت سوچتے ہوئے اُس کے عمل کو غور سے نہ دیکھا ہو۔ غالب امکان یہ ہے کہ یسوع جب اپنے شاگردوں سے زیتون کے پہاڑ پر بات کر رہے تھے تو یہوداہ اِسکریوتی نے وہاں سے رُخصت ہونے کی کوئی معقول وجہ گھڑی، اور یروشلیم کو لوٹ آیا تا کہ جو کچھ ابلیس نے اُسے کہا تھا اُس پر عمل کرے۔ ایک فرد تصور کر سکتا ہے کہ جب وہ سوچ رہا تھا کہ مسیح کے خلاف یہودیوں کی مخالفت کو اُن کا پیسہ اور حمایت حاصل کرنے میں کیسے استعمال کرے تو اُس کے ضمیر میں ایک بڑی جنگ جاری ہو گی۔ جب اُس کی دسترس روپیوں کی تھیلی تک نہ رہی اور اُس کے پاس اُس میں سے چُرانے کا موقع نہ رہا تو اُسے اُن کی مدد کی ضرورت تھی۔ اُس نے مسیح کے اِس دعویٰ سے کچھ بھی نہیں سیکھا تھا کہ اُس کی بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں اور اُس کے پیروکاروں کی قسمت میں مخالفت، لعن طعن اور ایذا رسانی ہو گی۔ کیا اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ مسیح اُس کے گہرے دِلی خیالات اور بھیدوں سے واقف تھا؟ چونکہ اُس کا توبہ اور راستبازی کی طرف جُھکاؤ نہ تھا، اِس لئے اُس کا رویہ اُسے مسیح سے دُور لے گیا۔ اور اُس لمحہ شیطان اُس میں سما گیا اور اُس کے دِل کا مالک بن گیا۔

ح۔ یہودی بزرگوں کا سازش کرنا

"اور جب یسوع یہ سب باتیں ختم کر چکا تو ایسا ہُوا کہ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا۔ تم جانتے ہو کہ دو دِن کے بعد عیدِ فسح ہو گی اور اِبنِ آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا۔ اُس وقت سردار کاہن اور قوم کے بزرگ کائفا نام سردار کاہن کے دیوان خانہ میں جمع ہوئے۔ اور مشورہ کیا کہ یسوع کو فریب سے پکڑ کر قتل کریں۔ مگر کہتے تھے کہ عید میں نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں بلوا ہو جائے۔ ... اُس وقت اُن بارہ میں سے ایک نے جس کا نام یہوداہ اسکریوتی تھا سردار کاہنوں کے پاس جا کر کہا کہ اگر میں اُسے تمہارے حوالے کرا دُوں تو مُجھے کیا دو گے؟ اُنہوں نے اُسے تیس روپے تول کر دے دِئے۔ اور وہ اُس وقت سے اُس کے پکڑوانے کا موقع ڈھونڈنے لگا۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 1- 5، 14- 16)

سردار کاہن کائفا کے گھر میں ہونے والی بیٹھک میں شیطان صاحبِ صدر تھا۔ وہاں سردار کاہن، فقیہ اور قوم کے بزرگ بھی موجود تھے جو اِس بات کا فیصلہ کر رہے تھے کہ کیسے یسوع کو گرفتار کر کے قتل کریں۔ چونکہ اَب وہ مسیح کو مزید برداشت نہ کر سکتے تھے، اِس لئے وہ اِس کام کو عید سے پہلے سرانجام دینا چاہتے تھے۔ لیکن اُن میں موجود عقلمند افراد نے محسوس کیا کہ اُن کے اِس مقصد میں قوم اُن کا ساتھ نہیں دے گی۔ اُنہوں نے عید کے بعد اُس وقت تک رُکنے کا فیصلہ کیا جب بھِیڑ خاص کر گلیل سے تعلق رکھنے والے مسیح کے پیروکار اپنے گھروں کو واپس نہ لوٹ جائیں۔ یہ یہودیوں کی صدر عدالت کا فیصلہ تھا۔ جہاں تک آسمانی عدالت کی بات ہے تو ابدیت سے اِس بات کا تعین ہو چکا تھا کہ خُدا کے برے کی قربانی عید فسح کے دوران واقع ہو۔ اِس لئے، اِس سے ہٹ کر صدر عدالت کے کسی اَور فیصلہ کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

وہ رقم جس پر اتفاق ہُوا تھا اُس کی خاطر یہوداہ نے وعدہ کیا کہ وہ عید سے پہلے یسوع کے خفیہ طور پر پکڑوانے میں مدد کرے گا۔ بلا شک و شبہ، یہودی راہنماؤں نے اُس کے ساتھ محتاط ہو کر اِس بات پر غور کیا ہو گا کیونکہ اُنہیں اِس بات کی توقع نہ تھی کہ مسیح کا ایک شاگرد اُسے پکڑوائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے لئے اُس کی وفاداری کا خاطر خواہ ثبوت مانگا ہو۔ جب اُس نے رقم مانگی تو اُس نے مسیح کو مکمل طور پر دھوکا دے دینے کا اظہار کیا۔ یہودی بزرگوں نے غالباً یہوداہ کے اِس عمل میں اپنے لئے ایک مثبت نشان دیکھا، اور سوچا کہ دوسرے شاگرد بھی اُس کی مثال کی پیروی کریں گے اور یسوع کو دھوکا دیں گے۔ وہ یہوداہ کے مسیح کو چپکے سے اُن کے ہاتھ میں حوالے کر دینے کے وعدے پر بہت خوش تھے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے مسیح کو فوراً رُومی ارباب اختیار کے حوالہ کر دینا تھا۔ اور یوں اُنہیں ہجوم کا بھی کچھ خوف نہ ہونا تھا کہ وہ اُس کا دِفاع کرنے کےلئے موجود ہوتا۔

چونکہ یہودی بزرگوں کو عید کے بعد یہوداہ کی مدد کی ضرورت نہ تھی، اِس لئے جس اُجرت کو دینے پر وہ مُتّفِق ہوئے وہ بہت کم تھی۔ اُنہوں نے وہ رقم یہوداہ کو اِس لئے دی کہ یسوع کو فوری پکڑا جا سکے۔ یہوداہ نے اِس معمولی اُجرت کو قبول کیا، اور سوچا کہ اِس عمل میں اُس کی شمولیت کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلے گا۔ تاہم، وہ بہت بڑی غلطی پر تھا اور جلد اُسے اِس بات کا احساس ہُوا۔ ہم اِس پر آگے چل کر بات کریں گے۔

9۔ مسیح کا پاک عشاء مقرر کرنا

شام کے وقت مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ بیت عنیاہ کو لوٹ گئے۔ یوں منگل کا دِن گزر گیا، اور کلام مُقدّس اِس بارے میں خاموش ہے کہ بدھ کے دِن کیا کچھ ہُوا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یسوع اور آپ کے شاگردوں نے بیت عنیاہ میں اِس دِن اور پھر جمعرات کے دِن بھی اپنا وقت خاموشی میں گزارا۔ چونکہ یہوداہ اُن کے ساتھ تھا، اِس لئے وہ یہودی بزرگوں کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے کو جلد پورا کرنے کے قابل نہ تھا۔ شاید اُنہیں شک ہُوا ہو کہ اُس کے واپس آنے میں کوئی چالبازی ہے، اور یہ کہ وہ اپنے وعدے کو پورا نہیں کرنا چاہتا۔ اِسی دوران، وہ لالچ اور دھوکے کا گہرے طور پر شکار ہو گیا اور اُس نے اپنے خُداوند اور دوست پر نظر رکھی اور اُسے دھوکے سے پکڑوانے کےلئے مناسب موقع کی تاک میں تھا۔

جب جمعرات کے دِن سورج طلوع ہُوا تو اَب مسیح کے پاس اپنی مصلوبیت سے پہلے بس ایک رات بچی تھی۔ آپ نے وہ شام اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کھانے میں گزاری، جسے تب سے "خُداوند کی عشاء" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اُس دِن کے اختتام پر آپ نے باغِ گتسمنی میں جانکنی کی حالت میں دُعا کی، اور اُس کے کچھ دیر بعد یہوداہ نے مسیح کو دھوکے سے پکڑوا دیا۔ پھر آپ کو غیر قانونی طور پر کائفا سردار کاہن کے گھر میں باندھ کر رکھا گیا۔ اِس رات کے بعد دو مزید راتیں آئیں جب مسیح کا قیمتی بدن قبر میں موجود تھا۔ اور پھر آخرکار آپ کی جلالی قیامت آئی۔

"اور عیدِ فطیر کے پہلے دِن شاگردوں نے یسوع کے پاس آ کر کہا، تُو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے کی تیاری کریں؟ اُس نے کہا، شہر میں فلاں شخص کے پاس جا کر اُس سے کہنا اُستاد فرماتا ہے کہ میرا وقت نزدیک ہے۔ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ تیرے ہاں عیدِ فسح کروں گا۔ اور جیسا یسوع نے شاگردوں کو حکم دیا تھا اُنہوں نے ویسا ہی کیا اور فسح تیار کیا۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 17- 19)

جمعرات کی صبح، مسیح نے یروشلیم میں جانے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ ایک فرد نتیجہ نکال سکتا ہے کہ آپ بیت عنیاہ میں فسح کھانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اِسے قمری مہینے نیسان (تقریباً اپریل) کی چودہ تاریخ کو منایا جاتا تھا اور یہ عید فسح کا پہلا دِن ہوتا تھا۔ اُس شام فسح کے کھانے کی تیاری کےلئے شاگردوں نے سب کچھ تیار کیا۔ برے، کڑوی جڑی بوٹیوں، انگور کے شیرے اور برتنوں کی تیاری میں کافی وقت لگتا تھا۔ یسوع نے پطرس اور یوحنا کو مبہم ہدایات دے کر بھیجا تا کہ یہوداہ کو اُس جگہ کے بارے میں نہ پتا چلے۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ جس گھر میں آپ جانا چاہتے ہیں وہ اُسی علاقہ میں موجود ہے، اور اُس کے مالک کو اِس بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔ شاگردوں نے جا کر ویسا ہی پایا جیسا اُنہیں بتایا گیا تھا، اور ایک فیاض شخص نے اُنہیں ایک بڑا، آراستہ بالا خانہ دکھایا۔ وہاں اُن دونوں نے موسیٰ کی شریعت کے مطابق سب کچھ تیار کیا۔

الف۔ مسیح کا اپنے شاگردوں کے پاؤں دھونا

"عیدِ فسح سے پہلے جب یسوع نے جان لیا کہ میرا وہ وقت آ پہنچا کہ دُنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاؤں تو اپنے اُن لوگوں سے جو دُنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔ اور جب اِبلیس شمعون کے بیٹے یہوداہ اِسکریوتی کے دِل میں ڈال چکا تھا کہ اُسے پکڑوائے تو شام کا کھانا کھاتے وقت یسوع نے یہ جان کر کہ باپ نے سب چیزیں میرے ہاتھ میں کر دی ہیں اور میں خُدا کے پاس سے آیا اور خُدا ہی کے پاس جاتا ہوں۔ دسترخوان سے اُٹھ کر کپڑے اُتارے اور رُومال لے کر اپنی کمر میں باندھا۔ اِس کے بعد برتن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھونے اور جو رُومال کمر میں بندھا تھا اُس سے پونچھنے شروع کئے۔ پھِر وہ شمعون پطرس تک پہنچا۔ اُس نے اُس سے کہا، اے خُداوند! کیا تُو میرے پاؤں دھوتا ہے؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا کہ جو میں کرتا ہوں تُو اَب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔ پطرس نے اُس سے کہا کہ تُو میرے پاؤں ابد تک کبھی دھونے نہ پائے گا۔ یسوع نے اُسے جواب دیا کہ اگر میں تُجھے نہ دھوؤں تو تُو میرے ساتھ شریک نہیں۔ شمعون پطرس نے اُس سے کہا، اے خُداوند! صرف میرے پاؤں ہی نہیں بلکہ ہاتھ اور سر بھی دھو دے۔ یسوع نے اُس سے کہا، جو نہا چکا ہے اُس کو پاؤں کے سِوا اَور کُچھ دھونے کی حاجت نہیں بلکہ سراسر پاک ہے اور تم پاک ہو لیکن سب کے سب نہیں۔ چونکہ وہ اپنے پکڑوانے والے کو جانتا تھا اِس لئے اُس نے کہا، تم سب پاک نہیں ہو۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 1- 11)

شام کے وقت، مسیح اور آپ کے دس شاگرد بالا خانہ میں پطرس اور یوحنا کے پاس گئے۔ کھانا کھانے بیٹھنے سے پہلے، اُنہیں اپنے پاؤں سے راستہ کی گرد صاف کرنی تھی، کیونکہ جس قسم کی جوتیاں وہ پہنتے تھے وہ بہت کم پاؤں کو چھپاتی تھیں۔ عموماً، خادم یہ کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ جہاں خادم نہ ہوتے، شاگرد خود ایک دوسرے کے پاؤں دھو دیتے تھے۔ تاہم، چونکہ یہ ایک باقاعدہ کھانا تھا، اور اہم کھانا بھی تھا، اِس لئے غالباً اُن میں خادم بننے کی خاص رضامندی موجود نہیں تھی، اور ہر ایک اپنے بارے میں برتر سوچ رہا تھا۔ اِس وجہ سے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑنے لگے کہ بڑا کون تھا (دیکھئے اِنجیل بمطابق لوقا 22: 24)۔ غالب امکان یہ ہے کہ اِس بحث کے پیچھے بنیادی شخص یہوداہ اِسکریوتی تھا جس نے اپنے لئے باقی سب پر فوقیت کا دعویٰ کیا، کیونکہ وہ یہوداہ سے تعلق رکھتا تھا اور پھر خزانچی بھی تھا۔ ہم پڑھتے ہیں کہ یہ بحث اُس وقت کے بعد شروع ہوئی جب شیطان مسیح کو گرفتار کرنے کےلئے یہوداہ کو اُبھار چُکا تھا۔

یوحنا رسول نے بیان کیا ہے کہ کیسے یسوع مسیح باپ کے ودیعت کردہ پورے اختیار سے مکمل طور پر واقف تھے۔ یہ علم آپ کی حلیمی کی مثال کو اَور زیادہ قابل قدر بنا دیتا ہے۔ بارہ شاگردوں نے پاؤں دھونے کے کام سے پہلوتہی کی، اِس لئے جب سب بیٹھ گئے تو مسیح نے اُٹھ کر اپنی پوشاک اُتاری، رومال لے کر اپنی کمر سے باندھا، اور شاگردوں کے پاؤں دھونے کےلئے آگے بڑھے، یہ وہ خدمت تھی جو اُنہوں نے ایک دوسرے کےلئے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اِس غرض سے کہ کوئی یہ نہ سوچے کہ آپ نے یہ کام غصہ میں کیا تھا، یوحنا نے اندراج کیا ہے کہ مسیح اپنوں سے آخر وقت تک ویسی ہی محبت کرتا رہا۔ یہ وہ عظیم ناقابل جنبش محبت تھی جس نے مسیح کو اُن کے پاؤں دھونے کی تحریک بخشی تھی۔ یوں مسیح نے اُنہیں پیروی کرنے کےلئے ایک مثال بخشی۔ اُن کےلئے آپ کی محبت تمام طرح کی آزمایشوں اور اُن کی ناکامیوں اور گراوٹوں کے باوجود آپ کی زمینی زندگی کے آخر تک قائم رہی۔ یہاں تک کہ آپ نے دھوکا دے کر پکڑوانے والے یہوداہ کے پاؤں بھی صاف کئے، تا کہ اِس سچائی کی مزید تصدیق کر سکیں۔ کیا یہ عمل ایک آخری حربہ نہیں تھا جسے نجات دہندہ نے سازشی یہوداہ کے ساتھ ایک کوشش کے طور پر استعمال کیا کہ اُس کے سخت دِل کو نرمائے اور اُسے توبہ اور نیکی کی طرف لے کر آئے؟

کلیسیائی بزرگوں میں سے ایک یوحنا خروسستم کا ماننا تھا کہ مسیح نے یہوداہ سے پاؤں دھونا شروع کئے کیونکہ وہ آپ کی بائیں طرف سب سے نزدیک تھا۔ جبکہ دہنی طرف غالباً سب سے آخر میں یوحنا تھا جس سے پہلے پطرس تھا۔ اِس لئے، پطرس کے پاس آنے سے پہلے مسیح نے سب کے پاؤں دھو لئے تھے سوائے اُس کے اور یوحنا کے۔ جب پطرس کی باری آئی، تو اُس نے بڑا اعتراض کیا، اور قائل نظر نہیں آتا جب مسیح نے اُسے بتایا کہ وہ اِس کی اہمیت بعد میں سمجھے گا۔ اُس نے پھر احتجاج کیا، اپنے خُداوند کے کام میں گویا کمی دیکھ رہا تھا، اور اِس خدمت کےلئے اپنے ساتھیوں کی تابع فرمانی کو ناپسند کیا۔ اُس نے بےشک سمجھ اور کردار میں باقیوں کو اپنے سے کمتر گردانا، اور اِس وجہ سے اُسے مسیح کی طرف سے ایک سخت تنبیہ سُننے کو ملی: "اگر میں تُجھے نہ دھوؤں تو تُو میرے ساتھ شریک نہیں۔" جب مسیح نے یہ کہا تو اُس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ پطرس نے اپنے ہاتھ اور سر بھی دھونے کےلئے کہا۔ یہاں اُس کی تابع فرمانی "باطل حلیمی" یا "غرور" کے طور پر بیان کی جا سکتی ہے، کیونکہ حقیقی حلیمی میں ایک فرد اپنے آپ کو بھول کر صرف دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے۔ مسیح نے پطرس کی غلطی کو درست کیا، اور سمجھایا کہ اُسے اپنے ہاتھوں اور سر کو دھلوانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

مسیح کے اِن الفاظ سے ہمارے سامنے گناہ کے تعلق سے ایک اہم سبق موجود ہے۔ وہ جس نے توبہ اور ایمان سے پہلے ہی معافی کو پا لیا ہے اُسے دوبارہ اُس عمل میں سے گزرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اُس کا نام کتابِ حیات میں لکھا ہے۔ وہ رُوحانی طور پر خُدا تعالیٰ کا لے پالک فرزند بن جاتا ہے۔ مگر چونکہ وہ کمزوری یا لاعلمی کی وجہ سے گناہ میں گرنے سے مکمل طور پر بچا نہیں ہوتا، اِس لئے اُسے معافی کی ضرورت پڑتی ہے جو پہلی معافی سے فرق ہوتی ہے جو پورے جسم کے بجائے صرف پاؤں کے دھوئے جانے سے مِلتی جُلتی ہے۔ سوائے یہوداہ اِسکریوتی کے باقی سب شاگرد نئے سرے سے پیدا ہو چکے تھے۔ اُس کے گناہ دوسروں سے مختلف تھے۔ اِسی وجہ سے مُقدّس یوحنا نے مسیح کے تعلق سے لکھا کہ "چونکہ وہ اپنے پکڑوانے والے کو جانتا تھا اِس لئے اُس نے کہا، تم سب پاک نہیں ہو" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 11)۔ حقیقی توبہ کرنے والا فرد اپنی پرانی عادتوں کی طرف نہیں جاتا بلکہ اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے فرد کی معافی محفوظ ہوتی ہے، اور اُس کی نجات کا فیصلہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے کاموں اور فرمانبرداری پر بھروسا نہیں کرتا بلکہ خُدا تعالیٰ کے وعدوں اور اُس کے مُفت رحم پر بھروسا کرتا ہے۔ اگر وہ اپنی پرانی راہوں کی طرف جائے تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی توبہ حقیقی نہیں تھی۔ یوحنا نے ایسے لوگوں کو اپنے پہلے خط میں بیان کیا ہے: "وہ نکلے تو ہم ہی میں سے مگر ہم میں سے تھے نہیں۔ اِس لئے کہ اگر ہم میں سے ہوتے تو ہمارے ساتھ رہتے لیکن نکل اِس لئے گئے کہ یہ ظاہر ہو کہ وہ سب ہم میں سے نہیں ہیں" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 2: 19)۔

"پس جب وہ اُن کے پاؤں دھو چکا اور اپنے کپڑے پہن کر پھِر بیٹھ گیا تو اُن سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ تم مُجھے اُستاد اور خُداوند کہتے ہو، اور خوب کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔ پس جب مُجھ خُداوند اور اُستاد نے تمہارے پاؤں دھوئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔ کیونکہ میں نے تم کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے تم بھی کیا کرو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا اور نہ بھیجا ہُوا اپنے بھیجنے والے سے۔ اگر تم اِن باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہو بشرطیکہ اُن پر عمل بھی کرو۔ میں تم سب کی بابت نہیں کہتا۔ جن کو میں نے چُنا، اُنہیں میں جانتا ہوں لیکن یہ اِس لئے ہے کہ یہ نوِشتہ پورا ہو کہ جو میری روٹی کھاتا ہے اُس نے مُجھ پر لات اُٹھائی۔ اَب میں اُس کے ہونے سے پہلے تم کو جتائے دیتا ہوں تا کہ جب ہو جائے تو تم ایمان لاؤ کہ میں وہی ہوں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرے بھیجے ہوئے کو قبول کرتا ہے وہ مُجھے قبول کرتا ہے اور جو مُجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 12- 20)

جب مسیح نے سب کے پاؤں دھونے ختم کر لئے اور آپ کھانے کےلئے اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، تو آپ نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ حقیقی بڑائی کا انحصار دولت، رُتبہ، حکمت، ذہانت یا علم پر نہیں ہے بلکہ دوسروں کی خدمت کرنے پر ہے۔ عظمت کا انحصار اِس بات پر ہے کہ ایک فرد کتنی بھلائی کرتا ہے۔ پھر مسیح نے یہوداہ اِسکریوتی کے دھوکے کی طرف ایک بار پھِر یہ کہتے ہوئے اشارہ کیا کہ اِس دھوکے نے الہامی کلام کی سچائی کی تصدیق کی ہے اور یہ الہٰی مرضی کے مطابق ہے، تا کہ کہیں کوئی ایسا نہ سوچے کہ یہوداہ کا عمل الہٰی منصوبے کے خلاف تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہوداہ نے دیگر شاگردوں کی طرح یوحنا سے بپتسمہ لیا تھا، اور یسوع نے گناہ کو دھونے کی علامت کے طور پر اُس کے پاؤں بھی دھوئے تھے۔ اِس سے نشاندہی ہوتی ہے کہ بہترین قسم کی ظاہری مذہبی رسومات جیسے سیکرامنٹ اور دیگر رسوم ہیں، اِن کاموں کی مشق کرنے والے افراد میں نجات کو پیدا نہیں کرتی، جب تک کہ اِن کے ساتھ حقیقی ایمان اور مسیح پر بھروسا نہ ہو۔

ب۔ مسیح کا فسح کھانا

"جب شام ہوئی تو وہ بارہ شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا۔ اور جب وہ کھا رہے تھے تو اُس نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک مُجھے پکڑوائے گا۔ وہ بہت ہی دلگیر ہوئے اور ہر ایک اُس سے کہنے لگا، اے خُداوند کیا میں ہوں؟ اُس نے جواب میں کہا، جس نے میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مُجھے پکڑوائے گا۔ اِبنِ آدم تو جیسا اُس کے حق میں لکھا ہے جاتا ہی ہے لیکن اُس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے اِبنِ آدم پکڑوایا جاتا ہے! اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اُس کےلئے اچھا ہوتا۔ اُس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے جواب میں کہا، اے ربّی کیا میں ہوں؟ اُس نے اُس سے کہا، تُو نے خود کہہ دیا۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 20- 25)

ہم نے مسیح کے اختیار کو یروشلیم میں مسیح کے ہیکل کو صاف کرنے، یہودی سبت کے دِن کو آزاد کرنے، اور کتاب ِ مُقدّس کی تشریح کرنے میں دیکھا ہے۔ اَب ہم عبرانی فسح کو تبدیل کرنے کے آپ کے اختیار کو دیکھتے ہیں۔ موسیٰ کی شریعت کے مطابق یہ ضروری تھا کہ ہر خاندان اکھٹے فسح کے کھانے میں شامل ہو۔ مگر مسیح اِسے جسمانی رشتوں سے بڑھ کر رُوحانی رشتوں کے درجے پر لے گیا، اور اپنے اِن الفاظ کے مطابق اپنے شاگردوں کو اپنے خاندان کے افراد بنایا: "کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور میری بہن اور ماں ہے" (اِنجیل بمطابق متی 12: 50)۔ مسیح کے جسمانی رشتہ دار فسح کے موقع پر یروشلیم میں تھے، مگر اُنہوں نے اُسے مسیح سے علیحدہ منایا۔ اِس سے اِن شاگردوں کا مسیح کی طرف سے عطا کردہ وہ پُروقار مقام ظاہر ہوتا ہے جو دوسروں کا نہ تھا۔

فسح کے کھانے کے دوران، مسیح کے دِل میں خوشی اور اُداسی دونوں موجود تھے۔ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے کہا: "مُجھے بڑی آرزو تھی کہ دُکھ سہنے سے پہلے یہ فسح تمہارے ساتھ کھاؤں" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 15)۔ فسح کے کھانے میں جو بہت پُر معنٰی تھا شمولیت کر کے مسیح نے خوشی کا اظہار کیا۔ اپنی جزئیات اور منائے جانے میں اِس کا مقرر کیا جانا نجات کے کام کی طرف اشارہ کرتا تھا جو جلد پورا ہونے کو تھا۔ جہنم کی قوتوں اور ابلیس پر مسیح کی فتح کا وقت نزدیک آ رہا تھا۔ آپ سانپ کے سر کو کُچلنے کو تھے جس نے آپ کی ایڑی پر کاٹنا تھا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 15)۔ آپ اِس وجہ سے بھی بہت خوش تھے کہ باپ کی گود میں لوٹنے کا آپ کا وقت نزدیک تھا۔ اِس سے آپ کے شاگرد بھی خوش ہوئے، کیونکہ اِس سے اُن کے رسول ہونے کی تصدیق ہونی تھی، اُنہوں نے بڑے کام کرنے کے قابل بن جانا تھا، اور اُنہیں اپنی زندگیوں میں کامیابی ملنی تھی۔

اپنی خوشی کے باوجود، یسوع مسیح افسُردہ بھی تھے کیونکہ آپ کو دھوکے سے پکڑوانے والے یہوداہ کی اِصلاح کےلئے آپ کی تمام کوششیں بے اثر گئی تھیں۔ یہ یہودی بزرگوں کی طرف سے مخالفت سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات تھی۔ مسیح اِس حقیقت کی وجہ سے بھی غمزدہ تھے کہ آپ کے شاگرد اُس رات آپ پر ایمان میں کمزور ہونے کو تھے، اور یوں کلام مُقدّس کی نبوت پوری ہونی تھی کہ "تُو میرے چرواہے یعنی اُس انسان پر جو میرا رفیق ہے بیدار ہو۔ چرواہے کو مار کہ گلّہ پراگندہ ہو جائے اور میں چھوٹوں پر ہاتھ چلاؤں گا" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 13: 7)۔ مزید برآں، آپ کا سب سے نزدیکی شاگرد شمعون پطرس اپنے لبوں سے آپ کا انکار کرنے کو تھا، اگرچہ کہ وہ انکار عارضی تھا۔ غرض، یسوع اپنے پیارے مگر کمزور شاگردوں پر غمزدہ تھے۔ یہ تکلیف دہ جُدائی کا لمحہ بھی تھا۔ ابنِ آدم کے طور پر آپ اُس لمحے سے گھبرا رہے تھے جو جسمانی تکلیف اور اُس سے بھی زیادہ رُوحانی اذیت کی صورت میں آپ کےلئے آنے کو تھا۔

مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اُن میں سے ایک آپ کو آپ کے دُشمنوں یہودی بزرگوں کے حوالے کرے گا۔

جب یہوداہ نے پوچھا کہ کیا وہ ایسا شخص ہے، تو یسوع نے جواب دیا "تُو نے خود کہہ دیا۔" پھر یسوع نے کڑوے ساگ پات میں نوالہ ڈبو کر اُسے دیا۔

یہودی فسح کا کھانا مسیح کی محبت کی پیشکش کی جانب یہوداہ کے انکار کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ کتابِ مُقدّس بیان کرتی ہے کہ شیطان اُس میں سما گیا، یعنی اُس نے یہوداہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ مسیح نے اُس سے کہا "جو کُچھ تُو کرتا ہے جلد کر لے۔" دوسرے اِس بات کو نہ سمجھے، اور اُنہوں نے سوچا کہ یہ الفاظ کسی خیراتی کام کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو یسوع مسیح چاہتے تھے کہ وہ جلد سرانجام دے۔ آخری نوالہ لے کر یہوداہ وہاں سے چلا گیا، اور یہ رات کا وقت تھا۔ اِس رات کے بعد ابدی عدالت کی تاریک ترین رات آنی تھیں۔ یہوداہ، مسیح کے شاگردوں کے درمیان برتر معزز مقام سے کس قدر نیچے دھوکے، بے رحمی، مایوسی اور عذاب، ابدی سزا کی آگ میں گر گیا۔

یہوداہ کی جہنم میں گراوٹ بتدریج واقع ہُوئی، جیسے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ وہ اِس لئے گر گیا کہ اُس نے لالچ اور ریاکاری سے بچنے کےلئے یسوع کے اِن الفاظ کو نظرانداز کیا تھا کہ جاگو اور دُعا کرو۔ وہ اُس جگہ گیا جہاں سے اُس کا تعلق تھا۔ اُس کی سخت دِلی میں اضافہ ہُوا کیونکہ اُس نے اپنی جانب مسیح کی پُر فضل پیشکش کو رد کر دیا۔ اُس نے اپنے بگڑے رُجحانات کی پیروی کی جبکہ وہ اُن پر غالب آ سکتا تھا اور اُنہیں ختم کر سکتا تھا۔ مگر وہ اُن سے مغلوب ہو کر اُن کے ہاتھوں تباہ ہو گیا۔

یہوداہ اپنے نئے ساتھیوں کی خاطر شاگردوں کو چھوڑ گیا، اور اُنہیں بتانے کو گیا کہ یسوع نزدیک موجود ہے جہاں سے وہ اُسے بہت آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔ مسیح کے دِل سے ایک بوجھ اُٹھ گیا، کیونکہ آپ نے کہا "اب اِبنِ آدم نے جلال پایا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 31)۔ اِس وقت شاگرد سمجھ گئے کہ اُن کا خُداوند دُشمنوں کے حوالے کئے جانے کو ہے جو اُسے قتل کریں گے، مگر وہ اُس کے موت کے معنٰی کو نہ سمجھے۔ اِس لئے، مسیح نے اِس کے مقصد کو ایک نئے ضابطے عشاء ربّانی کے ذریعے سے واضح کیا۔ آپ نے اِسے قدیم فسح کے کھانے کے ساتھ وابستہ کیا، اور اِسے اُن کےلئے قبول کرنا اور سمجھنا آسان بنا دیا۔

"جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا، لو کھاؤ۔ یہ میرا بدن ہے۔ پھِر پیالہ لے کر شکر کیا اور اُن کو دے کر کہا، تم سب اِس میں سے پیو۔ کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کےلئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھِر کبھی نہ پیوں گا۔ اُس دِن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پیوں۔ پھِر وہ گیت گا کر باہر زیتون کے پہاڑ پر گئے۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 26- 30)

مسیح نے بے خمیری روٹی لی جو پرانے خمیر اور بگاڑ سے آزادی کی علامت تھی۔ اِسے توڑنے اور شکر کرنے کے بعد آپ نے اِسے شاگردوں کو دے دیا اور کہا "لو کھاؤ۔ یہ میرا بدن ہے۔" شکر گزاری کے عمل میں، آپ نے اپنے لوگوں کو یاد دِلایا کہ ہر اچھی بخشش کےلئے آسمان کے خُداوند کا شکر کریں۔

روٹی توڑے جانے کے بعد بدن کو غذائیت فراہم کرنے کےلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اِس لئے، جب ہم اکھٹے روٹی توڑتے ہیں تو یا د کرتے ہیں کہ یسوع مسیح گناہ میں مُردہ افراد کو زندہ کرتے ہیں کیونکہ آپ نے زندہ ہونے سے پہلے دُکھ سہا اور پھِر مر گئے۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کو یاد دِلایا کہ وہی وہ شخصیت ہے جسے باپ نے اختیار بخشا ہے۔ اُس کی برکات دولت مند بناتی ہیں اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا (پرانا عہدنامہ، امثال 10: 22)۔ جب مسیح نے اپنے ہاتھوں سے روٹی اُنہیں دی تو آپ نے اُنہیں یاد دِلایا کہ وہ راہ، حق اور زندگی ہے اور کوئی بھی اُس کے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔ یہ کہنے سے کہ "لو کھاؤ" آپ چاہتے تھے کہ آپ کے شاگرد جان جائیں کہ جو کُچھ آپ اُن کی نجات کےلئے کر رہے تھے اُس وقت تک بے فائدہ رہے گا جب تک کہ وہ اُسے اپنی زندگی میں قبول نہیں کریں گے، یعنی رُوحانی طور پر اپنی زندگی میں نہیں لیں گے۔ ہر کسی کو انفرادی طور پر مسیح اور اُس کے کام کو اپنی زندگی میں قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ رُوحانی قبولیت جسمانی طور پر کھانے کے عمل کے ساتھ ملتی جُلتی ہے۔

جب یسوع نے کہا کہ اُس کا بدن اُن کےلئے دیا جائے گا، تو واضح کیا کہ آپ اِس نئی ضیافت میں توڑی ہوئی روٹی کو اِس لئے مقرر کر رہے ہیں کہ دُنیا کے گناہوں کےلئے آپ کی موت کی علامت ہو۔ ایک سال پہلے، آپ نے کفرنحوم کے عبادت خانہ میں یہودیوں کے سامنے رُوحانی معنوں میں اپنے بدن کے کھانے اور اپنے خون کے پینے کے بارے میں کچھ اہم الفاظ کہے تھے (اِنجیل بمطابق یوحنا، 6 باب)۔ تاہم، اِن الفاظ سے آپ کے زیادہ تر شاگردوں نے ناگواری محسوس کی۔ خُداوند کی عشاء کے موقع پر دی گئی تعلیم میں کچھ بھی نیا نہیں تھا جس کے مطابق آپ کا بدن زندگی کی روٹی ہے جسے رُوحانی طور پر کھانے کی ضرورت ہے۔ اُن قدیم الفاظ نے جو نئی اہمیت اختیار کی، کسی بھی طرح کی لفظی تشریح کو موقوف کرنے کےلئے کافی ہے جس کے خلاف مسیح نے انتباہ بھی کیا۔ مسیح کا واضح مطمع نظر رُوحانی تھا نہ کہ لفظی۔ مسیح کے الفاظ کی رُوحانی سمجھ اُس وقت اَور بھی واضح ہوتی ہے جب ایک فرد اِس بات پر غور کرتا ہے کہ مسیح کا بدن اُس وقت نہیں توڑا گیا تھا جب آپ نے یہ الفاظ کہے تھے "یہ میرا بدن ہے۔" بلکہ آپ کا مکمل بدن اور وہ روٹی دونوں اُس لمحہ وہاں تھے۔

یسوع نے اُنہیں پیالہ دیا اور اُس کی اہمیت کو واضح کیا کیونکہ آپ کا خون بہتوں کے گناہوں کی معافی کےلئے بہایا گیا ہے۔ پرانے عہدنامہ کی تعلیمات میں خون انتہائی اہم تھا، اور اِس کی اہمیت اُس وقت سے ہے جب خُدا تعالیٰ نے ہابل کی قربانی کو قبول کیا مگر قائن کی بغیر خون کی قربانی کو رد کر دیا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 4 باب)۔ موسوی شریعت کے نظام کی تمام بنیاد خون پر تھی۔ لیکن تمام بکروں، مینڈھوں اور دیگر جانوروں کے تمام خون کی اِس کے علاوہ کوئی اَور اہمیت نہ تھی کہ یہ خُدا کے برے مسیح کی علامت تھا جس نے دُنیا کے گناہوں کےلئے اپنا خون بہایا۔ جب عبرانیوں نے مِصر میں اپنے گھروں کے بازؤوں اور چوکھٹ پر خون لگایا تو اُس خون نے اُن کے پہلوٹھوں کو مِصر میں بچایا (پرانا عہدنامہ، خروج 12: 13)، ویسے ہی خُدا کے برے کا خون اُس وقت گنہگار کو ابدی ہلاکت سے بچاتا ہے جب اُس کو ایمان سے اپنی زندگی میں لیا جاتا ہے۔ اِس لئے، نئے عہد کا پیالہ ویسا پیالہ نہیں ہے جسے یہوداہ اِسکریوتی کی موجودگی میں لیا گیا تھا، جسے ابرہام کی تمام نسل اپنے کردار سے قطع نظر پینے کے لائق تھی۔ بلکہ یہ اُس خون کی طرف اِشارہ ہے جو چند گھنٹوں میں صلیب سے بہنا تھا جس کی بدولت تمام حقیقی ایمانداروں نے فائدہ پانا تھا۔

ج۔ پاک عشاء کی ضرورت

جب مسیح نے کہا "میری یادگاری کےلئے یہی کیا کرو" تو آپ نے اپنے تمام حقیقی پیروکاروں کو سکھایا کہ اُس دِن سے لے کر آپ کی دُوبارہ آمد تک آپ کی ہدایات کی پیروی کریں، اور اِس پاک ضابطے کو منایا کریں۔ اِس طرح سے، انسانیت کےلئے آپ کی مخلصی بخش موت کی یاد اِس میں شریک ہونے والوں کے ذہنوں میں زندہ رہنی تھی۔ مسیح کی کامل قربانی کی ایک برکت برے کی مستقبل کی شادی کی ضیافت ہے جو تمام ایمانداروں کےلئے تیار کی گئی ہے۔ یہ وہ ضیافت ہے جہاں خُدا تعالیٰ کی قُدُّوسیت کی حضوری میں اُن کی خوشی کا پیالہ لبریز ہو جائے گا (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 19: 6- 9)۔

خُداوند کی عشاء ایمانداروں کے درمیان محبت کی ایک علامت اور نشان ہے۔ یسوع نے کہا "میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو" (اِنجیل بمطابق یوحنا 13: 34)۔ یوں، ایمان میں بھائی چارے والی محبت جس میں ایک ایماندار دوسرے ایماندار کے ساتھ شریک ہوتا ہے، اُسے اپنے جسمانی غیر ایماندار بھائی کی نسبت اُس ایماندار کے زیادہ قریب کر دیتی ہے۔

د۔ پطرس کےلئے حوصلہ افزائی

"اُس وقت یسوع نے اُن سے کہا، تم سب اِسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے کیونکہ لکھا ہے کہ میں چرواہے کو ماروں گا اور گلّہ کی بھیڑیں پراگندہ ہو جائیں گی۔ لیکن میں اپنے جی اُٹھنے کے بعد تم سے پہلے گلیل کو جاؤں گا۔ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا، گو سب تیری بابت ٹھوکر کھائیں لیکن میں کبھی ٹھوکر نہ کھاؤں گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، میں تُجھ سے سچ کہتا ہوں کہ اِسی رات مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تُو تین بار میرا انکار کرے گا۔ پطرس نے اُس سے کہا، اگر تیرے ساتھ مُجھے مرنا بھی پڑے تَو بھی تیرا انکار ہرگز نہ کروں گا۔ اور سب شاگردوں نے بھی اِسی طرح کہا۔" (اِنجیل بمطابق متی 26: 31- 35)

جب مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ جلد اُن کے پاس سے ایک ایسی جگہ جائے گا جہاں وہ ابھی اُس کے پیچھے نہیں آ سکتے، تو پطرس رسول ہمیشہ کی طرح پُر جوش ہو گیا۔ مسیح کے ساتھ گرمجوشی پر مبنی لگاؤ کی وجہ سے اُس کا ردعمل نیک نیّتی پر مبنی تھا، مگر وہ اپنی کمزوری کو نہیں جانتا تھا۔ مسیح کو اُسے بتانا پڑا کہ اِسی رات مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے وہ تین بار آپ کا انکار کرے گا۔ دوسرے شاگردوں کی طرف سے غرور اور ملامت کو روکنے کےلئے، آپ نے کہا کہ وہ سب اُس رات آپ کو چھوڑ دیں گے، اور یوں چرواہے اور بھیڑوں کے علیحدہ ہو جانے کی بابت زکریاہ کی نبوت پوری ہو گی (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 13: 7)۔ مسیح نے اُنہیں کہا کہ جیسے اُس نے اُن سے محبت رکھی تھی ویسے ہی وہ بھی ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ اِس حکم کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حفاظت کریں۔ مگر پطرس نے اپنا ہی دفاع کرنے کی کوشش کرنے سے فوراً اُس حکم کی نافرمانی کی۔ اُس نے یہاں تک کہا کہ دوسرے شاید ٹھوکر کھا جائیں مگر وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھائے گا۔ اِن الفاظ سے وہ مسیح کو جھوٹا قرار دے رہا تھا۔ اُسے سلیمان بادشاہ کے الفاظ پر دھیان دینا چاہئے تھا کہ "ہلاکت سے پہلے تکبُّر اور زوال سے پہلے خود بینی ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 16: 18)۔ سب کو پولس رسول کے الفاظ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے: "پس جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گر نہ پڑے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 10: 12)۔ ایک ایماندار کی رُوحانی ترقی کا انحصار اُس کی اپنی کوششوں پر نہیں ہوتا۔

"شمعون! شمعون! دیکھ شیطان نے تم لوگوں کو مانگ لیا تا کہ گیہوں کی طرح پھٹکے۔ لیکن میں نے تیرے لئے دُعا کی کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے اور جب تُو رجوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔ ... پھِر اُس نے اُن سے کہا کہ جب میں نے تمہیں بٹوے اور جھولی اور جوتی بغیر بھیجا تھا کیا تم کسی چیز کے محتاج رہے تھے؟ اُنہوں نے کہا، کسی چیز کے نہیں۔ اُس نے اُن سے کہا، مگر اَب جس کے پاس بٹوا ہو وہ اُسے لے اور اِسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ جو لکھا ہے کہ وہ بدکاروں میں گِنا گیا اُس کا میرے حق میں پورا ہونا ضرور ہے۔ اِس لئے کہ جو کُچھ مُجھ سے نسبت رکھتا ہے وہ پورا ہونا ہے۔ اُنہوں نے کہا، اے خُداوند! دیکھ یہاں دو تلواریں ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا، بہت ہیں۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 31، 32، 35- 38)

چونکہ یسوع مسیح جانتے تھے کہ پطرس جلد بہت بُری طرح سے گر جائے گا، اِس لئے آپ اُس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے کہ وہ بعد میں اُٹھ کھڑا ہو، اور پھِر آپ اُسے متنبہ بھی کرنا چاہتے تھے کہ بحالی کے بعد غرور نہ کرے۔ مسیح نے اُسے بتایا کہ شیطان نے اُسے گیہوں کی طرح پھٹکنے کےلئے مانگ لیا ہے، لیکن آپ نے اُس کےلئے دُعا کی ہے کہ اُس کا ایمان جاتا نہ رہے۔ یوں اگرچہ کہ ابلیس بُرے منصوبے بناتا ہے، مگر خُدا اُنہیں خالصتاً فائدے کے تحت ہونے کی اجازت دیتا ہے۔

مسیح نے پطرس کے واسطے اِس لئے دُعا کی کیونکہ اُسے حلیمی اور بھروسے کے تعلق سے کچھ اسباق سیکھنے تھے۔ اپنی ناکامی کے ذریعے اُس نے اپنے بھائیوں کے گرنے کے وقت اپنی ذمہ داری کے بارے میں سیکھا۔ اُس کےلئے یسوع کی دُعا کا جواب ملا۔

اِس کے بعد مسیح نے اپنے شاگردوں کو یاد دہانی کرائی کہ ماضی میں آپ نے اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا تھا۔ جب آپ نے اُنہیں منادی کرنے کےلئے بھیجا تو وہ کسی چیز کے محتاج نہ ہوئے تھے۔ مگر اَب حالات مختلف تھے۔ پہلے وقت کا دورانیہ بھی مختصر تھا اور علاقہ بھی اُن کا اپنا تھا (اِنجیل بمطابق لوقا 9: 1- 6)۔ مگر اَب اُنہوں نے دُور دراز کے علاقوں میں سفر کرنا تھا اور وہاں اجنبیوں کے درمیان منادی کرنی تھی۔ اِس لئے اُنہیں اپنے ساتھ رقم لے کر جانے کی ضرورت تھی۔ اگر ضرورت پڑتی، تو اُنہیں اپنی بیرونی پوشاک بیچ کر ڈاکوؤں کے خلاف اپنے دفاع کےلئے تلواریں خریدنا تھیں۔ یوں مسیح اُنہیں کہہ رہے تھے کہ جب دُنیا ایک مسیحی کے خلاف صف آراء ہو تو اُسے اپنا دفاع کرنے میں حکمت کو استعمال کرنا چاہئے۔

یسوع نے اِس بات کو واضح کیا کہ آپ اپنا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے کیونکہ بائبل مُقدّس کی پیش گوئیوں کے مطابق آپ کی موت اٹل تھی۔ جب شاگردوں نے مسیح کو بتایا کہ "یہاں دو تلواریں ہیں" تو آپ نے اُنہیں جو جواب دیا اُس کا مفہوم ہے "اب بہت ہُوا۔" یہ الفاظ قدیم مذہبی اُستاد اپنے طلبا کی لاعلمی کو چُپ کرانے کےلئے استعمال کرتے تھے۔ شاگردوں کو مسیح کے مقصد کی سمجھ نہ آئی۔ باغِ گتسمنی سے مسیح کی گرفتاری کے واقعہ سے، ہم جانتے ہیں کہ آپ اُن سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا دِفاع کرنے کےلئے وہ خونریزی کریں۔ جب پطرس نے اپنے خُداوند کو مخالف ہجوم سے بچانے کی کوشش میں ملخس کا دہنا کان اُڑا دیا تو یسوع نے کہا "اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (اِنجیل بمطابق متی 26: 52)۔

10۔ مسیح بالا خانہ میں

عشاء ربّانی کو مقرر کرنے کے بعد، مسیح اپنے شاگردوں سے مخاطب ہوئے، اور آپ کے وہ الفاظ یوحنا کی معرفت لکھی گئی اِنجیل کے 14 تا 16 باب میں مرقوم ہیں۔ آپ نے یہ کہنے سے اپنی بات شروع کی: "تمہارا دِل نہ گھبرائے۔ تم خُدا پر ایمان رکھتے ہو مُجھ پر بھی ایما ن رکھو۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو میں تم سے کہہ دیتا کیونکہ میں جاتا ہوں تا کہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں۔ اور اگر میں جا کر تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو پھِر آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تا کہ جہاں میں ہوں تم بھی ہو" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 1- 3)۔ یہ اُس شخصیت کی زبان سے ادا ہونے والے حیرت انگیز الفاظ تھے جو اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اُس دِن سورج کے غروب ہونے سے پہلے یہ افراد جن سے وہ مخاطب ہے بکھر جائیں گے، اور اُس کے اور اپنے دُشمنوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ مسیح نے خود صلیب پر دو ڈاکوؤں کے درمیان اپنی جان دینا تھی، اور آپ ایک فاتح کی طرح بات کر رہے تھے۔ آپ مسیح کے اِن الفاظ کے بارے میں کیا کہیں گے؟ "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 6); "اگر تم نے مُجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے۔ اَب اُسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے۔ ... جس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا …" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 7، 9 ب); "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مُجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کروں گا تا کہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے مُجھ سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا" (اِنجیل بمطابق 14: 12- 14)۔

مسیح نے اُن سے اپنا سب سے بڑا وعدہ کیا، کیونکہ اُن کی بھلائی کا انحصار اُس پر تھا۔ کلیسیا کی بھلائی اور ہر زمانے میں اُس کے ارکان کی کامیابی آپ کی قدرت میں قائم رہنے کا نتیجہ تھی۔ آپ نے کہا: "اگر تم مُجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ یعنی رُوحِ حق جسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔ میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ میں تمہارے پاس آؤں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 15- 18)۔ یسوع نے ایک ایماندار کو اُس سے محبت رکھنے اور اُس کے حکموں پرعمل کرنے کے درمیان تعلق کے بارے میں اپنے الفاظ کو دُہرایا، اور فرمانبرداری کے خوبصورت نتائج کو یہ کہنے سے ظاہر کیا: "جس کے پاس میرے حکم ہیں اور وہ اُن پر عمل کرتا ہے وہی مُجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مُجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہو گا اور میں اُس سے محبت رکھوں گا اور اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کروں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 21)۔ اور پھِر اِس غرض سے کہ آپ کے شاگرد آپ کے جانے کے بعد مایوسی کا شکار نہ ہو جائیں، آپ نے کہا: "اگر تم مُجھ سے محبت رکھتے تو اِس بات سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں خوش ہوتے کیونکہ باپ مُجھ سے بڑا ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 28)۔ ایک فرد اِن الفاظ کی اِس کے سِوا اَور کیا وضاحت کر سکتا ہے کہ مسیح خُدائے مجسم نے اپنے عظیم آسمانی اختیار کے ساتھ اِن عظیم بیانات کو دیا۔

مسیح سلامتی کا شاہزادہ ہے، جس کی پیدایش کے وقت آسمانی فرشتوں نے سلامتی کی بشارت دی۔ آپ نے کہا، "میں تمہیں اطمینان دیئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دُنیا دیتی ہے میں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 27)۔ مسیح کے تعلق سے انسانوں کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ "اُس پر سلامتی ہو" بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ "سلامتی اُس کی طرف سے ہے۔" رسولوں نے اپنی تعلیمات میں اِس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔

یسوع نے اپنی توجہ اپنے شاگردوں سے ہٹا کر اُن واقعات کی جانب لگائی جو آدھی رات کے وقت شہر میں پیش آنے تھے۔ جو کُچھ آپ کے شاگرد نہیں دیکھ سکتے تھے، وہ آپ دیکھ سکتے تھے کہ سردار کاہن کے گھر میں جمع ہونے والا ہجوم تاریخ کے سب سے زیادہ وحشیانہ جرم کےلئے تیاری کر رہا تھا۔ آپ نے صرف یہودی بزرگوں، اُن کے معاونوں اور یہوداہ اِسکریوتی کے فریب کو نہیں دیکھا، بلکہ آپ نے اپنے سب سے بڑے دُشمن شیطان کو بھی دیکھا جو اُن کے بُرے منصوبوں میں اُن کی راہنمائی کر رہا تھا اور وہ سب اپنے درمیان اُس کی رُوحانی موجودگی سے ناواقف تھے۔ آپ نے وہ سب دیکھا اور کہا "اِس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دُنیا کا سردار آتا ہے اور مُجھ میں اُس کا کچھ نہیں" (اِنجیل بمطابق یوحنا 14: 30)۔ اِس دُنیا کے سردار شیطان سے کوئی بھی نبی نہ بچا، لیکن ابنِ آدم کے ساتھ ایسا نہ تھا، وہ بے گناہ تھا مکمل طور پر کامل۔

الف۔ انگور کے درخت کی تمثیل

"انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ جو ڈالی مُجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تا کہ زیادہ پھل لائے۔ اب تم اُس کلام کے سبب سے جو میں نے تم سے کیا پاک ہو۔ تم مُجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تم بھی اگر مُجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنا 15: 1- 4)

اِن الفاظ سے مسیح نے اپنے اور اپنے اوپر ایمان لانے والے افراد کے درمیان مضبوط تعلق پر زور دیا۔ آپ نے اپنے آپ کو انگور کے درخت سے اور ایمانداروں کو اُس کی ڈالیوں سے تشبیہ دی۔ مسیح نے سکھایا کہ آپ کے ساتھ تعلق میں ایک اہم چیز پھل ہے، کیونکہ اِس سے خُدا تعالیٰ کو جلال ملتا ہے۔ وہ ایمانداروں کے ذریعہ اپنا پھل ویسے ہی ظاہر کرتا ہے جیسے انگور کا درخت اپنا پھل اپنی ڈالیوں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔ جہاں تک پھل نہ لانے والی ڈالیوں کا تعلق ہے، وہ کاٹی اور آگ میں ڈالی جاتی ہیں۔ پھل دار رہنے کا واحد طریقہ مسیح کے ساتھ منسلک رہنا ہے، یعنی مسیح کے ساتھ گہرے طور پر ایک ہو جائیں۔ درخت اور ڈالیوں کے درمیان جُدائی پھل لانے کو روک دیتی ہے، یوں ڈالی سوکھ جاتی اور پھِر ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن مسیح میں قائم رہنے سے ہر ایک ایماندار میں خوشی کا تسلسل یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ مسیح کی خواہش اور مقصد ہے کہ ہر ایک ایماندار آپ کی مسلسل رفاقت میں شادمان ہو۔

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب "سیرت المسیح، حصہ 6، مسیح کا یروشلیم میں داخلہ" کا گہرے طور سے مطالعہ کیا ہے تو ہم اُمّید کرتے ہیں کہ آپ اِن سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اِن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. لوقا کے اِنجیلی بیان کے پندرھویں باب میں یسوع نے کون سی تین تمثیلیں بیان کی ہیں۔ آپ نے یہ تمثیلیں کیوں سُنائیں؟

  2. مُسرف بیٹے نے اپنی توبہ کا اِظہار کیسے کیا؟

  3. مُسرف بیٹے کی تمثیل میں سے بتائیے کہ خالقِ کائنات کس کام کو کرنے میں تاخیر نہیں کرتا؟

  4. مُسرف بیٹے کی تمثیل میں بڑے بیٹے کے کردار سے آپ نے کون سا ایک سبق سیکھا ہے؟

  5. بے ایمان مختار کی تمثیل سے آپ نے کون سا ایک سبق سیکھا ہے؟

  6. امیر آدمی اور لعزر کی تمثیل سے آپ کو کیا فائدہ حاصل ہُوا ہے؟

  7. کیفا سردار کاہن کی یسوع مسیح کی بابت کیا نبوت تھی؟

  8. لعزر کے مُردوں میں سے زندہ کئے جانے کے نتیجہ میں سامنے آنے والے کسی ایک فائدہ کا ذِکر کریں۔

  9. یسوع نے بچوں کے بارے میں جو خوبصورت الفاظ کہے، اُن کا ذِکر کیجئے۔

  10. مسیح نے نوجوان امیر آدمی کو یہ کیوں کہا کہ خُدا کے سِوا کوئی نیک نہیں ہے؟

  11. اگر آپ اوّل بننا چاہتے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟

  12. زکائی نے ملنے والی نجات کا کیسے اِظہار کیا؟

  13. جب یسوع مسیح یروشلیم شہر میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو آپ نے کیوں لوگوں کی طرف سے خوش آمدید اور شادمانی کو قبول کیا جب وہ آپ کوبادشاہ جان کر نعرے لگا رہے تھے؟

  14. مسیح یروشلیم شہر پر کیوں روئے؟

  15. بے پھل اِنجیر کے درخت پر لعنت سے آپ کیا سیکھتے ہیں؟

  16. کس اختیار سے مسیح نے ہیکل کو دوسری بار صاف کیا؟

  17. شادی کی ضیافت کی تمثیل میں شادی میں بلائے گئے مہمانوں میں سے ایک نے کیوں شاہی پوشاک پہننے سے انکار کیا؟ اور اِس سے ایک فرد کیا سبق سیکھ سکتا ہے؟

  18. مسیح نے کیسے اِس بات کو ثابت کیا ہے کہ خُدا زندوں کا خُدا ہے؟

  19. سب سے بڑا حکم کون سا ہے؟

  20. زبور 110: 1 کی وضاحت کیجئے۔

  21. ہم عقلمند اور بیوقوف کنواریوں کی تمثیل سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

  22. متی کی معرفت لکھی گئی اِنجیل 25: 31 ۔ 46 میں مرقوم مسیح کے الفاظ کے مطابق وہ کون سا نشان ہے جو بھیڑوں کو بکریوں سے پہچاننے میں مدد دیتا ہے؟

  23. مسیح کے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھونے سے آپ نے کون سے دو سبق سیکھے ہیں؟

  24. مسیح کے اِن الفاظ سے کہ "یہ میرا بدن ہے" ہم کیسے جانتے ہیں کہ مسیح کا واضح مطمع نظر رُوحانی تھا نہ کہ لفظی؟

  25. انگور کے درخت اور اُس کی ڈالیوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟ یہ ایمانداروں اور مسیح کے درمیان تعلق کو کیسے واضح کرتا ہے؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany