اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصّہ 5، مسیح کی شخصیت اور شاگردیت کے اصول

سیرت المسیح، حصّہ 5، مسیح کی شخصیت اور شاگردیت کے اصول

جارج فورڈ

2018


1- مسیح کون ہے اور وہ کیا کرے گا؟

"پھر یسوع اور اُس کے شاگرد قیصریہ فلِپّی کے گاﺅں میں چلے گئے اور راہ میں اُس نے اپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعض ایلیاہ اور بعض نبیوں میں سے کوئی۔ اُس نے اُن سے پوچھا، لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو؟ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا، تُو مسیح ہے۔ پھر اُس نے اُن کو تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ نہ کہنا۔" (انجیل بمطابق مرقس 8: 27- 30)

جناب مسیح اور آپ کے شاگرد شمال کی جانب تقریباً دو دِن کا سفر کر کے قیصریہ فلپی کے نزدیک کوہِ حرمون کے دامن میں پہنچے۔ وہاں آپ نے اپنے شاگردوں سے سوال پوچھا: "لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟" آپ کے اِس سوال کرنے کا مقصد محض اُن کا جواب سُننا نہیں تھا، بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ اِس سوال کے جواب سے اُن کا فائدہ ہو۔ آپ چاہتے تھے کہ وہ آپ کے ابنِ آدم ہونے کے بارے میں لوگوں کی آراء کے بارے میں بتائیں کیونکہ لوگوں کی بھِیڑ صرف آپ کی انسانیت دیکھ سکتی تھی۔ شاگردوں نے یسوع کو بتایا کہ لوگ اُس کی شخصیت کے تعلق سے اُلجھن کا شکار ہیں۔ وہ مسیح کو ایک بڑا نبی تو مانتے تھے لیکن یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کوئی نیا نبی ہے۔ اُنہوں نے سوچا کہ شاید وہ ایلیاہ، یرمیاہ، یوحنا بپتسمہ دینے والا یا قدیم نبیوں میں سے کوئی اَور نبی ہے جو ظاہر ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ وہ مسیح ہے جس کا طویل عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

کیا تین برس کی خدمت کا یہ نتیجہ تھا؟ کیا آپ کی تمام جانفشانی بیفائدہ گئی تھی؟ یسوع کے عزیز شاگرد یوحنا نے بجا طور پر لکھا ہے: "اور نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 5)۔ جب یسوع نے پانچ ہزار سے زیادہ کی بھِیڑ کو کھانا کھلایا تو لوگوں نے کہا کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔ یوں وہ اُس نبی کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جس کے بارے میں توقع تھی کہ وہ مسیح سے پہلے آئے گا اور اُس کی آمد کا اعلان کرے گا (دیکھئے پرانا عہدنامہ، ملاکی 3: 1; 4: 5)۔

اپنے متعلق لوگوں کی آراء کے بارے میں مسیح کا سوال درحقیقت اُس زیادہ اہم سوال کا تعارف تھا جو لوگوں کی بھِیڑ کے چلے جانے کے بعد مسیح نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کہ وہ اُس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اُن تمام سالوں کی تعلیم و تربیت کے بعد وہ وقت آ پہنچا تھا کہ مسیح اُن سے اپنی شخصیت سے متعلق سمجھ کے بارے میں تحقیق کرتا۔ اِس لئے، آپ نے اُن سے پہلے کی طرح اپنے سوال کو محدود نہ رکھا بلکہ یہ پوچھا کہ تم مجھے کیا کہتے ہو؟

بلا شک و شبہ، ماضی میں اُنہوں نے اِس بارے میں آپس میں بات چیت اور بحث کی تھی، اور اَب یسوع نے اُن سے ایک جواب کا تقاضا کیا تھا۔ اپنی تمام زندگی وہ مسیح کی آمد کے تعلق سے سیاسی دُنیوی آرزوﺅں سے وابستہ رہے، اور اُن خیالات کو مکمل طور پر ترک کرنا اُن کےلئے بہت مشکل تھا۔ تاہم، مسیح اُن کے ذہنوں سے اِن سوچوں کو ایک ہی بار ہمیشہ کےلئے ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور اِس کےلئے ضروری تھا کہ وہ اِس معاملہ میں فیصلہ کن ہونے کی ضرورت کو پہچانتے، اور بغیر کسی جنبش یا ہچکچاہٹ کے مسیح کے بارے میں حتمی فیصلہ کرتے اور اپنے ایمان کے مطابق عملی طور پر زندگی بسر کرتے۔

جناب مسیح کو اُس وقت کِس قدر زیادہ خوشی ہوئی جب آپ کو پطرس رسول کی طرف سے ایک واضح جواب ملا: "تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے" (انجیل بمطابق متی 16: 16)۔ مسیح کے پہلے سوال کا تعلق اِس بات سے تھا کہ لوگ اُس کے ابنِ آدم ہونے کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے۔ مسیح کے دوسرے سوال کے جواب میں اُسے بتایا گیا کہ "تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔" نئے عہدنامہ میں پولس رسول نے 1- تیمتھیس 3: 16 میں خدا تعالیٰ کے جسم میں ظاہر ہونے کے تعلق سے لکھا ہے کہ "اِس میں کلام نہیں کہ دینداری کا بھید بڑا ہے"۔

دونوں باتوں میں بظاہر نظر آنے والے تضاد کے باوجود یسوع مسیح کو ابنِ آدم اور زندہ خدا کا بیٹا کہنا صحیح ہے۔ مسیح نے خود اپنے لئے حلیمی پر مبنی لقب ابنِ آدم کا استعمال کیا، جبکہ پطرس رسول نے آپ کے اعلیٰ و ارفع لقب کا اقرار کیا۔ اگر یہ بات تمثیلاتی لحاظ سے کہی گئی ہوتی تو مسیح کو جلال نہ ملتا۔ اِس سے پہلے، بدارواح نے بھی مسیح کے اعلیٰ ترین مقام کا اقرار کیا تھا۔ یوحنا اصطباغی، نتن ایل اور خود پطرس نے بھی اِس بارے میں بات کی تھی۔ جناب مسیح نے پطرس اور اُس کے ساتھیوں کے رویہ اور ثابت قدم ایمان پر خوشی کا اظہار کیا، اور پطرس کو مبارک کہتے ہوئے سراہا: "مبارک ہے تُو شمعون بریوناہ" (انجیل بمطابق متی 16: 17)۔

برکت کے اِن الفاظ پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ سچائی کِسی انسان نے نہیں بلکہ آسمانی باپ نے پطرس پر منکشف کی تھی۔ پطرس کو کِسی ایسی بات کےلئے نہیں سراہا گیا کہ جو اُس نے بذات ِخود کہی تھی بلکہ اُس بات کےلئے سراہا گیا جو اُس نے خدا تعالیٰ کے الہام سے کہی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ پطرس کے اِس اعلان کی طرح نجات کے نُور کا منبع ایک اِنسان نہیں ہے کیونکہ اِنسان تو صرف چراغ یا تیل کو تیار کرتا ہے، لیکن نُور الٰہی کام ہے۔ پولس رسول نے کہا: "نہ کوئی رُوح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خداوند ہے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 12: 3)۔

الف- میں آسمان کی بادشاہی کی کُنجیاں تجھے دوں گا

"شمعون نے جواب میں کہا، تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، مبارک ہے تُو شمعون بریوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے۔ اور میں بھی تجھ سے کہتا ہوں کہ تُو پطرس ہے اور میں اِس پتھر پر اپنی کلیسیا بناﺅں گا اور عالم ارواح کے دروازے اُس پر غالب نہ آئیں گے۔ میں آسمان کی بادشاہی کی کُنجیاں تجھے دوں گا اور جو کچھ تُو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تُو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر کُھلے گا۔ اُس وقت اُس نے شاگردوں کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ میں مسیح ہوں۔" (انجیل بمطابق متی 16: 16- 20)

اِس حوالہ میں یوں لگتا ہے کہ جیسے یسوع اپنے اہم ترین رسول پطرس کو یہ کہہ رہے تھے: "پطرس جب تُو نے میرے وجود کی حقیقت کا اعلان ایک شخصیت میں اِنسانی مسیح اور زندہ خدا کے بیٹے کے طور پر کیا ہے تو یوں اِن مشکل حالات میں چٹان کی طرح کی اپنی مضبوطی ظاہر کی ہے۔ میں تجھے بتاتا ہوں کہ میں اِس بنیادی سچائی کی چٹان پر اپنی کلیسیا کی تعمیر کروں گا جس کا اظہار تُو نے ابھی میرے آسمانی باپ کی طرف سے ملنے والے مکاشفہ سے کیا ہے۔ دُنیا کی تمام مخالفت اور ابلیسی قوت کلیسیا کو شکست دینے کے قابل نہ ہو گی کیونکہ اِس کی بنیاد اِس سچائی پر ہے۔ میں تجھ میں اِس بڑے کام کو سرانجام دینے کی لیاقت دیکھتا ہوں جس کےلئے میں نے تجھے اختیار بخشا ہے۔ میں تجھے آسمان کی بادشاہی کی کُنجیاں دیتا ہوں تا کہ تُو اپنی گواہی سے مختلف خطوں تک نجات کے پیغام کو لے کر جانے کے قابل ہو، اور میری کلیسیا میں اُن لوگوں کو لے کر آئے جو نجات کے پیغام پر ایمان لانے سے ایمانداروں کے خاندان کا حصہ بنیں گے۔ میں تجھے نجات کے پیغام کو رد کرنے اور توبہ، ایمان اور راستبازی کو ترک کرنے والوں کےلئے ابدی سزا کا اعلان سُنانے کا بھی اختیار دیتا ہوں۔ خداوند کا رُوح تجھے میری خوشخبری کا پیغام لکھنے کی تحریک بخشے گا جس کے ذریعے یہ اختیار قائم ہو گا۔ اُن پیغامات کی توثیق آسمانی ہو گی۔ وہ ہمیشہ میری کلیسیا کےلئے راہنما ہوں گے کیونکہ اُس پیغام میں تُو اُن احکام اور انتباہات کو تحریر کرے گا جو تُو نے مجھ سے سُنے یا الہٰی تحریک سے پائے ہوں گے۔ میں نے تجھے مقرر کیا ہے کہ تُو میرے آسمانی صعود کے بعد میری نمائندگی کرے اور میرے کام کو پورا کرے۔ میں تجھے اِس غیرمعمولی کام کےلئے نبوت اور امتیاز کے رُوح کا خاص مسح بخشوں گا۔ میں تجھ پر رُوح القدس کے معجزاتی نزول کے ذریعے تجھے اپنا مصدقہ نمائندہ بناﺅں گا۔ میں تجھے بڑے معجزات کرنے کی قوت دینے سے اِس اختیار پر مہر ثبت کروں گا۔ میں تمہیں اِس کام کو سونپ رہا ہوں اور اِسے پورا کرنے کےلئے میں تمہیں تقویت بخشوں گا۔"

ب- مسیح کیا کرے گا؟

"پھر وہ اُن کو تعلیم دینے لگا کہ ضرور ہے کہ ابنِ آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اُسے رد کریں اور وہ قتل کیا جائے اور تین دِن کے بعد جی اُٹھے۔ اور اُس نے یہ بات صاف صاف کہی۔ پطرس اُسے الگ لے جا کر اُسے ملامت کرنے لگا۔ مگر اُس نے مُڑ کر اپنے شاگردوں پر نگاہ کر کے پطرس کو ملامت کی اور کہا، اے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔" (انجیل بمطابق مرقس 8: 31- 33)

جب پطرس رسول نے مسیح کے زندہ خدا کا بیٹا ہونے کا اقرار کیا تو یسوع نے اُسے کہا کہ اِس بارے میں ابھی کِسی کو نہ بتانا کیونکہ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔ پھِر آپ نے پہلی مرتبہ واضح طور پر شاگردوں کو آسمان سے اپنے آنے کے مقصد کے بارے میں بتایا۔ آپ نے اُنہیں سکھانا شروع کیا کہ آپ یروشلیم میں بہت سے دُکھ سہیں گے، یہودی بزرگوں کی طرف سے رد کئے جائیں گے، پھر آپ کو قتل کیا جائے گا اور تیسرے دِن آپ جی اُٹھیں گے۔ یہ سب بتانے سے پہلے یسوع نے اِس بات کا انتظار کیا کہ وہ اُس کے تجسم کے بھید کو واضح طور پر سمجھ جائیں اور سب کے سامنے اُس کا اقرار کریں۔ مسیح کی موت کے ذریعے مخلصی کے کام کو سمجھنے کےلئے اُنہیں تجسم کو سمجھنے کی ضرورت تھی کہ وہ ایک ہی وقت میں خدا اور اِنسان دونوں ہے۔ جب تک وہ اُسے مسیح، خدا کے بیٹے اور ابنِ آدم کے طور پر نہ جانتے وہ اُس کی موت اور قیامت کے مکمل معنٰی کو سمجھ نہیں سکتے تھے۔ جو تجسم کی حقیقت کا انکار کرتا ہے وہ مخلصی کے کام کا بھی انکار کرے گا۔ جو مسیح کی الوہیت کا انکار کرتے ہیں وہ اُس کی کفارہ بخش موت کا بھی انکار کریں گے کیونکہ دونوں حقیقتیں گہرے طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

تاہم، یہ نیا اعلان شاگردوں کی تمام آرزوﺅں کے برعکس تھا۔ اِس لئے، پطرس خاموش نہ رہ سکا۔ وہ مسیح کو ایک طرف لے گیا اور ملامت کرنے لگا۔ کس قدر عجیب بات ہے! وہ جس نے ابھی اقرار کیا تھا کہ نہ صرف اُس کا اُستاد مسیح ہے بلکہ زندہ خدا کا بیٹا بھی ہے، وہ یہ کہتے ہوئے اپنی ہی تردید کر رہا تھا "اے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔" جس بات کو پطرس نے اپنے اُستاد کےلئے محبت بھرا جذبہ سمجھا حقیقت میں وہ ایک شیطانی بات تھی۔ ابلیس ایک دھاڑتے شیر کی مانند اِس اہم رسول کا انتظار کر رہا تھا، اُس کے جلال کے وقت میں اُس پر حملہ آور ہوا اور اُسے زمین پر زخمی پچھاڑ گرایا۔ سب کامیاب لوگوں کو اِس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ ابلیس اُن کی تباہی و بربادی کےلئے تباہ کن چالیں چلتا ہے۔ ہمیں یہ تنبیہ پولس رسول کے الفاظ میں بھی نظر آتی ہے: "پس جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 10: 12)۔ مردِ دانا سلیمان نبی نے کہا: "ہلاکت سے پہلے تکبُّر اور زوال سے پہلے خُودبینی ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 16: 18)۔

جناب مسیح اِن الفاظ سے درگزر نہیں کر سکتے تھے، اِس لئے اُنہوں نے شیطان کو جھڑکا جس نے پطرس کے ذریعے بات کی تھی۔ آپ نے اُسے سخت ملامت کی اور کہا "اے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔" یسوع جو دِل کی پوشیدہ باتوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں، اُنہوں نے دیکھا کہ پطرس کی سوچ دُنیوی شان و شوکت سے آزاد نہ تھی، اور اُسے اِس سخت تنبیہ کی ضرورت تھی۔ چونکہ پطرس ایک حقیقی شاگرد تھا اِس لئے اُس نے اِس جھڑک کو محبت میں یہ جانتے ہوئے قبول کیا کہ مسیح کی غرض صرف یہ تھی کہ اُس کا فائدہ ہو۔ سلیمان نبی نے کہا: "دانا کو ملامت کر اور وہ تجھ سے محبت رکھے گا" (پرانا عہدنامہ، امثال 9: 8); "صاحبِ فہم کو تنبیہ کر، وہ علم حاصل کرے گا" (امثال 19: 25)۔

ج- مسیح کی پیروی کرنے کےلئے شرائط

"پھر اُس نے بھِیڑ کو اپنے شاگردوں سمیت پاس بُلا کر اُن سے کہا، اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔ کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری اور اِنجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اُسے بچائے گا۔ اور آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہو گا؟ اور آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے؟" (انجیل بمطابق مرقس 8: 34- 37)

جناب مسیح نے اپنے شاگردوں کو اکھٹا کیا اور اُن تین شرائط کا ذِکر کیا جنہیں پورا کرنے کی توقع اُن افراد سے کی گئی ہے جو اُس کی پیروی کرتے ہیں:

(1) اپنی خودی کا انکار کرنا۔ اِس کا مطلب اپنی شخصیت اور زندگی کا اختیار یسوع کے سپرد کر دینا ہے۔ جب پطرس نے یسوع کا انکارکیا تو کہا "میں اُسے نہیں جانتا۔" جو کوئی سچائی سے مسیح کی پیروی کرتا ہے اور اپنی خودی کا انکار کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے: "میں اپنے آپ کو اپنی زندگی کا مالک نہیں سمجھتا، بلکہ اِس پر مکمل اختیار خداوند کا ہے۔ میں اپنی زندگی کے تمام پہلو مسیح کے سپرد کروں گا جو مجھ سے محبت کرتا ہے۔"

(2) ہر روز اپنی صلیب اُٹھانا۔ اِس کا مطلب مسیح کی مثال کی پیروی کرنا ہے جس نے اپنی آزاد مرضی سے صلیب کو اُٹھایا۔ مسیح نے لوگوں کو گناہ اور جہنم سے بچانے کےلئے ایک مقصد کے تحت محبت کی وجہ سے صلیب کو اُٹھایا۔ مسیح کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے صلیب اُٹھانا پوری رضامندی کے ساتھ مشکلات اور پریشانیوں کو موت کی حد تک قبول کرنا ہے۔ ہماری حتمی فکر روحوں کی نجات ہونی چاہئے۔ جس صلیب کو ہم برداشت کرتے ہیں وہ ہم پر تھوپی نہیں گئی، بلکہ اپنی چُنی ہوئی صلیب برداشت کرتے ہیں جو ہم دوسروں کی بھلائی کی خاطر اُٹھاتے ہیں۔

(3) مسیح کے پیچھے چلنا۔ اِس کا مطلب، بیزاری، شرمائے اور پیچھے مڑے بغیر مسیح کے نقشِ قدم کی دھیان سے پیروی کرنا ہے۔ وہ چرواہا ہے جو اپنی بھیڑوں کے آگے آگے چلتا ہے اور اُس کی بھیڑیں اُس کے پیچھے چلتی ہیں، اور محفوظ ہوتی ہیں۔

یسوع نے اِس بات کو واضح کیا کہ یہ تین شرائط فضل کی شریعت کی اہم سچائی پر مبنی ہیں; کہ جو سب سے پہلے اپنی سلامتی کی تمنا کرتے ہیں وہ اُسے کھو دیں گے، جبکہ جو سب سے پہلے خدمت کرنے کا چناﺅ کرتے ہیں سلامتی پائیں گے۔ جب ہماری پہلی فکر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی ہوتی ہے تو خداوند ہمیں محفوظ نہیں کرے گا اور ہم نقصان اُٹھائیں گے۔ لیکن اِس کے برعکس جو اپنے آپ کو بنیادی طور پر خدا تعالیٰ کی خدمت کےلئے وقف کرتا ہے اور اِس عمل میں مشکلات برداشت کرنے کےلئے تیار ہوتا ہے تو وہ خداوند خدا کی حفاظت میں ہو گا۔

پھر مسیح نے کہا: "آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہو گا؟" یہاں پر مسیح اپنے سامعین سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا تمام دُنیا کی قدر ایک انسانی جان کے برابر ہے؟ بےشک، جواب یہ ہے کہ "ایسا ناممکن ہے۔" جیسے ہی دُنیا اور اُس کی تمام دولت اور شان و شوکت ختم ہوتی ہے، تو غیرفانی جان پھر بھی باقی رہتی ہے اور اِس کی زیادہ قدر ہے۔ اُس شخص کی حماقت کس قدر بڑی ہے جو دُنیوی فائدے کے حصول کےلئے اپنی کوششوں میں رُوح کے معاملات کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ فرض کریں وہ تمام دُنیا کو حاصل کرتا ہے اور پھِر جب اِس کے ساتھ اپنی نجات کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے پتا چلتا ہے کہ اُس کے وسائل پھِر بھی ناکافی ہیں۔

مسیح نے اپنے سامعین کو تنبیہ کی کہ وہ اُس سے اور اُس کے کلام سے نہ شرمائیں۔ اگر اُس کے زمانے کی بری اور گنہگار نسل نے اُس کا انکار کیا، تو ایک دِن آئے گا جب وہ ہر ایک کو اُس کے کاموں کے مطابق بدلہ دینے کےلئے فرشتوں کے ہمراہ اپنے باپ کے جلال میں واپس آئے گا۔ تب جو اُس سے شرمائے تھے، وہ اُن سے شرمائے گا۔

2- مسیح کی پہاڑ پر تبدیلی صورت

"چھ دِن کے بعد یسوع نے پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو ہمراہ لیا اور اُن کو الگ ایک اُونچے پہاڑ پر تنہائی میں لے گیا اور اُن کے سامنے اُس کی صورت بدل گئی۔ اور اُس کی پوشاک اَیسی نورانی اور نہایت سفید ہو گئی کہ دُنیا میں کوئی دھوبی ویسی سفید نہیں کر سکتا۔ اور ایلیاہ موسیٰ کے ساتھ اُن کو دِکھائی دیا اور وہ یسوع سے باتیں کرتے تھے۔ پطرس نے یسوع سے کہا، ربّی! ہمارا یہاں رہنا اچھا ہے۔ پس ہم تیرے ڈیرے بنائیں۔ ایک تیرے لئے۔ ایک موسیٰ کےلئے۔ ایک ایلیاہ کےلئے۔ کیونکہ وہ جانتا نہ تھا کہ کیا کہے اِس لئے کہ وہ بہت ڈر گئے تھے۔ پھِر ایک بادِل نے اُن پر سایہ کر لیا اور اُس بادِل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو۔ اور اُنہوں نے یکایک جو چاروں طرف نظر کی تو یسوع کے سِوا اَور کِسی کو اپنے ساتھ نہ دیکھا۔ جب وہ پہاڑ سے اُترتے تھے تو اُس نے اُن کو حکم دیا کہ جب تک اِبنِ آدم مُردوں میں سے جی نہ اُٹھے جو کچھ تم نے دیکھا ہے کِسی سے نہ کہنا۔" (انجیل بمطابق مرقس 9: 2- 9)

پہلے، یسوع نے اپنے شاگردوں پر ظاہر کیا تھا کہ وہ قتل کیا جائے گا اور پھِر تین دِن کے بعد جی اُٹھے گا۔ تاہم، شاگردوں نے اپنے ترجمان پطرس کی وجہ سے اِس خیال کو رد کر دیا۔ لیکن اَب جناب مسیح اُن پر اپنی صلیب کی لازمی ضرورت کو واضح کرنا چاہتے تھے، اِس لئے آپ نے پطرس، یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لیا اور پہاڑ پر چلے گئے۔ جہاں تک باقی نو شاگردوں کی بات ہے اُنہیں مسیح نے نیچے بھِیڑ کے ساتھ چھوڑ دیا۔

ہمیں اُن تمام تفصیلات کا علم نہیں جو اُس پہاڑ پر واقع ہوئیں جسے پطرس رسول نے بعد میں "مُقدّس پہاڑ" کہا (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 1: 18)۔ غالباً، وہ چاروں دِن کے آخری حصہ میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ مسیح تو دُعا کر رہے تھے لیکن تینوں شاگردوں کی آنکھوں میں نیند بھری ہوئی تھی۔ اگر اُنہیں پتا ہوتا کہ سونے سے وہ کیا کھو بیٹھیں گے، تو وہ جاگتے رہتے اور مسیح کو اکیلا نہ چھوڑتے، کیونکہ جب وہ اُونگھ رہے تھے تو حیرت انگیز طور پر مسیح کی صورت تبدیل ہو گئی۔ یہ ایسے تھا کہ جیسے آدمی کے طور پر اُس کی زمینی صورت کی جگہ اُس کا حقیقی اصل جلال چمک اُٹھا۔ باپ نے اُس کی دُعا کا جواب دیا اور اُسے جلال دیا تا کہ اُس کے شاگردوں کو تقویت بخشے۔ خدا باپ نے مسیح کو اُس کی بدلی ہوئی صورت میں جناب موسیٰ اور ایلیاہ کے ساتھ جلال دیا۔ خدا تعالیٰ نے جیسے ماضی میں کیا تھا ویسے کوئی فرشتہ نہ بھیجا، بلکہ جلال پائے ہوئے دو آدمی بھیجے، یعنی موسیٰ نبی جو شریعت کی ترجمانی کرتے تھے اور جناب ایلیاہ جو ایک بڑے نبی تھے۔ خدا تعالیٰ کے نمائندہ موسیٰ نبی پر بنی اسرائیل بہت فخر کرتے تھے اورموسیٰ نبی کی مشہوری کی وجہ اُن کی حلیمی فروتنی تھی۔ مسیح سے تقریباً پندرہ سو سال پہلے خدا نے موسیٰ نبی کو پہاڑ پر دفن کیا تھا، اور اُن کی قبر کا کسی کو پتا نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ موسیٰ نبی کا جسم گلے سڑے بغیر جلال میں داخل ہو گیا ہو۔ ایلیاہ نبی کی بات کریں تو وہ خدا کا عظیم نبی تھا جو قوت و جوش سے بھرا تھا اور بدی سے نفرت کرتا تھا۔ ایلیاہ نبی کو "آتشی نبی" کہا جاتا ہے جن کا عرصہ مسیح سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے تھا اور ایلیاہ کو ہوا کے بگولے میں آتشی رتھ میں اُٹھایا گیا۔ موت ایلیاہ نبی کو چھو نہ سکی۔ خدا تعالیٰ نے عالم ارواح سے اِن دونوں آدمیوں کو بلایا تا کہ یسوع کے ساتھ اُس کی صلیب کے بارے میں بات کریں۔

الف- مسیح کا اپنی صلیبی موت کے بارے میں بات کرنا

پطرس، یعقوب اور یوحنا کے درمیان گفتگو کا موضوع مسیح کی نزدیکی موت تھی جس نے شاگردوں کو پریشان کر دیا۔ انجیل مُقدّس میں "موت" کےلئے یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "انتقال"، یہی لفظ ہمیں توریت شریف میں بنی اسرائیل کی مصر کی غلامی سے موعودہ سرزمین میں جانے کےلئے ملتا ہے۔ لوقا انجیل نویس نے بیان کیا ہے کہ موسیٰ اور ایلیاہ نبی مسیح کے ساتھ اُس کے انتقال کے بارے میں بات کر رہے تھے جو یروشلیم میں واقع ہونے کو تھا (انجیل بمطابق لوقا 9: 31)۔ یوں اُس نے بیان کیا کہ مسیح کی موت اُس پر تھوپی نہیں گئی تھی بلکہ یہ اُس کا اپنا چناﺅ تھا، اِسی مقصد کے تحت وہ آیا تھا اور اِسے اُس نے پورا کرنا تھا۔

تبدیلی صورت کا واقعہ تاریخ کا وہ واحد لمحہ ہے جہاں ایک عالمگیر مسیحی کلیسیا جس کی مسیح نے بات کی ترجمانی ہوئی۔ یسوع اِس کلیسیا کا واحد سر، پہاڑ پر کھڑے ہوئے پرانے عہدنامہ کے دو بڑے راہنماﺅں سے بات کر رہا تھا جو آسمان پر پہلے سے موجود کلیسیا کی ترجمانی کر رہے تھے۔ اُن کے نزدیک ہی تین بڑے رسول نئے عہد کے وقت کے راہنما کھڑے تھے، جو اِس کلیسیا کے زمینی حصہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔

پولس رسول نے اِس گفتگو کے موضوع اور اہمیت میں بڑا فخر محسوس کیا کیونکہ اُس نے کہا "کیونکہ میں نے یہ اِرادہ کر لیا تھا کہ تمہارے درمیان یسوع مسیح بلکہ مسیح مصلوب کے سِوا اَور کچھ نہ جانوں گا" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 2)۔ آسمان پر فرشتے اور مُقدّسین اپنی حمد و ستایش میں مسیح کی جلالی موت کے موضوع اور اُس جلال کے شاندار تاج کا اظہار کرتے ہیں جس کےلئے باپ اُس سے محبت کرتا ہے۔ وہ جو یسوع کی کفارہ بخش موت کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں یا اُس کا انکار کرتے ہیں، وہ اپنے آپ میں مسیح کے علم سے فائدہ نہیں پاتے اور نہ ہی اُن کے پیروکاروں کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے، کیونکہ یسوع نے کہا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 12: 24)۔

ب- شاگردوں کی حیرانی

جب مسیح کے تینوں شاگرد اپنی گہری نیند سے جاگے تو غالباً مسیح نے آسمان سے آنے والے موسیٰ اور ایلیاہ نبی کے ساتھ اپنی بات چیت ختم کر دی تھی۔ اُنہوں نے فوراً دیکھا کہ اُن کا خداوند دُعا میں جھکا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ دو اَور آدمیوں کے ساتھ موجود تھا جن کے بارے میں اُنہیں پتا تھا کہ وہ اُن کے ساتھ پہاڑ پر نہیں آئے تھے۔ دونوں جلالی انبیا کی جھلک نے اُن پر ایک گہرا اثر ڈالا کہ جیسے وہ فرشتوں کی موجودگی میں تھے۔ اُنہوں نے اپنے اُستاد کو حیرت انگیز طور پر جلالی صورت میں دیکھا، وہاں موسیٰ اور ایلیاہ بھی آسمانی جلال سے ملبس تھے۔ اَب وہ مکمل طور پر جاگ گئے تھے اور جان گئے تھے کہ وہ رویا نہیں دیکھ رہے تھے۔ سو جانے کی وجہ سے ایسے جلال کو دیکھنے کے موقع کو ہاتھ سے گنوانے پر غالباً وہ افسُردہ تھے، اور اَب موسیٰ اور ایلیاہ رُخصت ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ اِس لئے، ہمیں پطرس رسول پر حیرت نہیں ہوتی کہ اُس نے اپنی بےچینی میں اُنہیں وہاں سے رُخصت ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ پطرس رسول نے اپنی دلیری میں مسیح کو روکنے کی کوشش کی لیکن اَب اُس نے اپنے جوش میں مسیح کے سامنے ایک منصوبہ عمل پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ بھول گیا تھا کہ مسیح کی سوچ اور کامل مرضی کا انتظار کرنا اُس کا فرض تھا، اور اُسے اپنی سوچ نہیں تھوپنی تھی کہ جیسے وہ اپنے اُستاد سے زیادہ عقلمند تھا۔ اُس نے رائے دی کہ وہ اور اُس کے دو ساتھی جا کر خیمے کھڑے کر دیتے ہیں، بالکل ویسے جیسے خیموں کی عید کے دوران وہ یروشلیم اور اُس کے قرب و جوار میں خیمے لگایا کرتے تھے۔

پطرس کی رائے کے جواب میں آسمانی ردعمل سامنے آیا کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ بادِل میں سے ایک آواز آئی۔ تب شاگرد خوف سے بھر گئے اور منہ کے بل زمین پر گرے اور اُنہوں نے یہ آواز سُنی: "یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو۔"

جب مسیح نے بتایا کہ وہ مصلوب کیا جائے گا تو پطرس نے اُسے ملامت کر کے کہا "اے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔" لیکن جب تبدیلی صورت کے پہاڑ پر آسمان سے خدا کی آواز نے مسیح کی شخصیت اور اختیار کی گواہی دی تو کہا: "اِس کی سُنو۔" یہ ایسے تھا کہ جیسے خدا تعالیٰ شاگردوں سے کہہ رہا تھا "جو کچھ مسیح تمہیں کہہ رہا ہے قبول کرو; صلیب پہلے سے مقرر کی گئی ضرورت ہے۔"

ج- خدا کی اپنے بیٹے کی بابت گواہی

ایک ہفتہ پہلے، مسیح نے اپنے بارے میں نہ صرف شاگردوں کی گواہی کو قبول کیا تھا کہ وہ نہ صرف ابنِ آدم ہے بلکہ ابنِ خدا بھی ہے۔ اَب خدا تعالیٰ کی آواز اِس گواہی کی تصدیق کر رہی تھی، اور جو کچھ تبدیلی صورت کے پہاڑ پر اُن کی آنکھوں نے دیکھا تھا اور اُن کے کانوں نے سُنا تھا اُسے اُن پر ثابت کر رہی تھی۔ کیا اَب شک کی کوئی گنجایش موجود تھی؟ جب اِن شاگردوں نے اِس سچائی کے بارے میں بعد میں بات کی تو اُنہوں نے اپنا مدعا اِس بےمثل واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے پیش کیا۔

آسمانی آواز سے شاگردوں نے ایک نہایت اہم سبق سیکھا کہ اُنہیں اِنسانی رضا کا نہیں بلکہ الٰہی رضا کا متمنی ہونا چاہئے۔ وہ سب جو الہٰی رضا پر عمل کرتے ہیں اُنہیں بڑے سے بڑے اِنسان کے غصہ کا خوف نہیں ہوتا۔ چاہے مخالفت کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو وہ اُس سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ الفاظ "اِس کی سُنو" میں شاگردوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ فقیہ، فریسیوں اور سردار کاہنوں کی نہیں بلکہ مسیح کی بات سُنیں۔ اگرچہ موسیٰ اور ایلیاہ بھی موجود تھے، لیکن الہٰی آواز نے شاگردوں کو مسیح کی بات سُننے کےلئے کہا۔ کیا یہ آسمانی آواز ہر ایک ایماندار کے کان میں نہیں سُنائی دیتی کہ صرف مسیح کی آواز کو سُنے؟ جب ایک ایماندار ایسے کرتا ہے تو یہ اُسے اِنسانی تعلیم کی پیروی کرنے سے روکے گی، سوائے اُس وقت کے کہ جب ایسی تعلیم الہٰی معلم کی تعلیم کی بازگشت ہو۔

جب یہ تینوں شاگرد زمین پر پڑے خوف کا شکار تھے، تو موسیٰ اور ایلیاہ ایک بادِل میں واپس آسمان پر لے جائے گئے کیونکہ اُن کے وہاں آنے کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اِس بات کی اجازت نہ دی کہ شاگرد موسیٰ اور ایلیاہ پر زیادہ توجہ دیں جیسا کہ اُنہوں نے کیا تھا، بلکہ اُس کی آواز نے واضح طور پر کہا کہ وہ اُس کے پیارے بیٹے مسیح کی سُنیں۔ اُس آواز نے اُنہیں موسیٰ اور ایلیاہ کے بارے میں گہری سوچ میں گم ہونے پر نرمی سے جھڑکا، کیونکہ اُن کا برتاﺅ ایسا تھا کہ جیسے موسیٰ اور ایلیاہ کی موجودگی سے اُنہیں مسیح سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ یہ ایسے تھا کہ جیسے وہ آواز اُنہیں کہہ رہی تھی "تمہارے مستقبل کا انحصار اُن پر نہیں ہے جو تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے (جیسے کہ شریعت کا دینے والا موسیٰ نبی اور بڑا نبی ایلیاہ)، بلکہ تمہارے مستقبل کا انحصار اُس پر ہے جو تمہارا مستقل ساتھی ہے اور جس کی حقیقی قدر کا اَب تک تمہیں احساس نہیں ہوا۔"

شاگردوں کو بادِل میں موسیٰ اور ایلیاہ کی غیرموجودگی کا اُس وقت تک احساس نہ ہوا جب تک کہ مسیح نے اُنہیں چھو کر یہ نہ کہا "اُٹھو۔ ڈرو مت۔" جب اُنہوں نے اوپر دیکھا تو سوائے یسوع کے اَور کِسی کو نہ دیکھا۔ وہ تجربہ کِس قدر حیرت انگیز ہوتا ہے جس میں خوف کے بعد خداوند کی طرف سے ذہنی اطمینان میسر آتا ہے۔ وہ رویا کِس قدر مبارک ہوتی ہے جو صرف مسیح پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔اُس لمحہ پطرس، یعقوب اور یوحنا کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اَب اُنہیں اُس شخصیت کے سِوا کوئی اَور نظر نہ آیا جو سب کچھ ہے، کیونکہ کِسی دوسرے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یسوع ہماری زندگی کا واحد نجات دہندہ، درمیانی اور خداوند ہے۔

د- ابدیت کا ایک ثبوت

موسیٰ اور ایلیاہ نبی کو دیکھنے کے بعد اِن آدمیوں کے ذہنوں سے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں ہر ایک شک ختم ہو گیا۔ شاگردوں کےلئے، جنہوں نے نئی مسیحی کلیسیا کو تعلیم دینی تھی، یہ واقعہ صدوقیوں کے خلاف ایک اہم ثبوت تھا جو موت کے بعد کی زندگی اور عالم ارواح کا انکار کرتے تھے۔ شاگردوں پر واضح کیا گیا کہ وفات پانے والے ایماندار سوئے ہوئے روزِ قیامت کا انتظار نہیں کر رہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے، بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تخت کے سامنے اُس کی خدمت کرنے کےلئے تیار کھڑے رہتے ہیں۔ اِن تینوں شاگردوں نے یہ بھی سیکھا کہ ہر ایک ایماندار موت کے بعد ایک جلالی بدن پائے گا کیونکہ اُنہوں نے جلالی بدن اور زمینی بدن کا فرق واضح طور پر دیکھا۔ جلالی بدن ویسے محدودیت کا شکار نہیں ہوتا جیسے زمینی بدن ہوتا ہے۔

3- مسیح کا ایک بدرُوح گرفتہ شخص کو شفا دینا

"اور جب وہ شاگردوں کے پاس آئے تو دیکھا کہ اُن کی چاروں طرف بڑی بھِیڑ ہے اور فقِیہ اُن سے بحث کر رہے ہیں۔ اور فی الفور ساری بھِیڑ اُسے دیکھ کر نہایت حیران ہوئی اور اُس کی طرف دوڑ کر اُسے سلام کرنے لگی۔ اُس نے اُن سے پوچھا، تم اُن سے کیا بحث کرتے ہو؟ اور بھِیڑ میں سے ایک نے اُسے جواب دیا کہ اے اُستاد میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی رُوح ہے تیرے پاس لایا تھا۔ وہ جہاں اُسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور وہ کف بھر لاتا اور دانت پیستا اور سُوکھتا جاتا ہے اور میں نے تیرے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اُسے نکال دیں مگر وہ نہ نکال سکے۔ اُس نے جواب میں اُن سے کہا، اے بےاعتقاد قوم میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں گا؟ کب تک تمہاری برداشت کروں گا؟ اُسے میرے پاس لاﺅ۔ پس وہ اُسے اُس کے پاس لائے اور جب اُس نے اُسے دیکھا تو فی الفور رُوح نے اُسے مروڑا اور وہ زمین پر گرا اور کف بھر لا کر لوٹنے لگا۔ اُس نے اُس کے باپ سے پوچھا، یہ اِس کو کتنی مُدّت سے ہے؟ اُس نے کہا، بچپن ہی سے۔ اور اُس نے اکثر اُسے آگ اور پانی میں ڈالا تا کہ اُسے ہلاک کرے لیکن اگر تُو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر ترس کھا کر ہماری مدد کر۔ یسوع نے اُس سے کہا، کیا! اگر تُو کر سکتا ہے! جو اعتقاد رکھتا ہے اُس کےلئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اُس لڑکے کے باپ نے فی الفور چِلّا کر کہا، میں اِعتقاد رکھتا ہوں۔ تُو میری بےاِعتقادی کا علاج کر۔ جب یسوع نے دیکھا کہ لوگ دَوڑ دَوڑ کر جمع ہو رہے ہیں تو اُس ناپاک رُوح کو جھِڑک کر اُس سے کہا، اے گونگی بہری رُوح! میں تجھے حکم کرتا ہوں۔ اِس میں سے نکل آ اور اِس میں پھِر کبھی داخل نہ ہو۔ وہ چِلّا کر اور اُسے بہت مروڑ کر نکل آئی اور وہ مُردہ سا ہو گیا اَیسا کہ اکثروں نے کہا کہ وہ مر گیا۔ مگر یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھایا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ جب وہ گھر میں آیا تو اُس کے شاگردوں نے تنہائی میں اُس سے پوچھا کہ ہم اُسے کیوں نہ نکال سکے؟ اُس نے اُن سے کہا کہ یہ قِسم دُعا کے سِوا کِسی اَور طرح سے نہیں نکل سکتی" (انجیل بمطابق مرقس 9: 14- 29)

اِس واقعہ سے پہلے، جناب مسیح "آزمایشوں اور پستی کی وادی" سے تبدیلی صورت کے جلالی پہاڑ پر گئے۔ اور پھِر وہاں سے بالآخر وہ ایک اَور گہری وادی میں اُترنے کو تھے جہاں اپنی خدمت کے آخر میں اُنہوں نے دُکھ سہنے اور صلیب پر اپنی جان دینی تھی۔ جہاں تبدیلی صورت کے پہاڑ کی چوٹی پر جلال تھا، وہاں نیچے شکست تھی; کیونکہ پطرس، یعقوب اور یوحنا مسیح کے جلال کو دیکھ رہے تھے، تو اُن کے باقی ساتھی نیچے اپنی ناکامی پر سوچ بچار کا شکار تھے۔ پہاڑ پر موجود تین شاگردوں نے مسیح کی آنے والی موت کی خبر سُننے سے اپنے ایمان کی تصدیق پائی جو نیچے موجود شاگردوں کو نہ ملی تھی۔ اُن کا ایمان متزلزل ہوا کیونکہ وہ معجزات کو سرانجام دینے کے قابل نہ تھے جنہیں کرنے کےلئے مسیح نے پہلے اُنہیں قوت بخشی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اُستاد کی غیرموجودگی میں ایک ایسے لڑکے میں سے ایک بدرُوح نکالنے کی کوشش کر رہے تھے جس کا والد یسوع پر ایمان رکھتا تھا۔ مگر شاگرد اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے معجزہ کرنے میں ناکام رہے۔ اِس ناکامی اور اِس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی حقارت نے اُنہیں گہرے طور پر شرمندہ کر دیا۔ اُن کی شرمندگی اُس وقت اَور زیادہ ہوئی جب ہجوم میں سے فقیہوں نے اُن سے بحث کی اور سوالات پوچھے جن کے جوابات وہ دینے کے قابل نہ تھے۔ جب شاگرد مسیح کے ساتھ پہاڑ پر سے اُترے تو لوگوں کی ایک بڑی بھِیڑ اُس کی طرف دوڑ کر گئی۔ چونکہ یسوع کو پتا تھا کہ اُس کے وہاں آنے سے پہلے کیا ہوا تھا، اِس لئے یسوع نے پوچھا کہ تم اُن سے کیا بحث کرتے ہو؟ اُس لڑکے کے باپ نے آگے آ کر یسوع کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور درخواست کی کہ اُس معجزہ کو سرانجام دے جو شاگرد کرنے میں ناکام ہوئے تھے۔ اُس نے مسیح کو بتایا کہ اُس کا بیٹا اُس کی اکلوتی اولاد تھی اور کیسے ایک بدرُوح نے اُسے سخت ایذا پہنچائی تھی، اور اُس پر حملہ کرنے اور اُسے زمین پر پٹکنے سے اُس کی زندگی کو خطرے میں ڈالا تھا۔

اگر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ کئی مثالوں میں جسمانی اور رُوحانی بیماری میں ایک قریبی تعلق ہوتا ہے، تو ہم آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں کہ اِس نوجوان شخص کا گونگا اور بہراپن اُس پر ایک شیطانی قوت کی وجہ سے تھا۔ اِسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے علامات سے پہلے وجہ پر توجہ دی۔ اُس لڑکے کے والد نے نو شاگردوں کی ناکامی کو یسوع کی مدد مانگنے کی ایک وجہ کے طور پر استعمال کیا۔ یسوع کا ردعمل وہاں موجود افراد کےلئے ایک عمومی سرزنش تھی، جو بحث کرنے والے فقیہوں، شکست خوردہ شاگردوں اور ناکافی ایمان کے حامل باپ کےلئے تھی۔ یسوع نے اُنہیں "اے بےاعتقاد قوم" کہہ کر جھڑکا۔ اِن الفاظ نے اُس لڑکے کے باپ کو فروتن ہونے اور اُس میں وہ ایمان پیدا کرنے میں مدد دی جس کی اُسے ضرورت تھی۔ مسیح نے اُسے بےحوصلہ نہ چھوڑا، بلکہ اُس کے بیٹے کے بارے میں یہ کہتے ہوئے اُس کی حوصلہ افزائی کی "اُسے میرے پاس لاﺅ۔" والدین کا بچوں کو مسیح کے پاس لے کر آنا ہمیں آج بھی نظر آتا ہے، مثلاً جب والدین اپنے بچوں کو مسیحی بپتسمہ کےلئے لے کر آتے ہیں۔ ایسے ہی ہر ایک مسیحی بھی کرتا ہے جب وہ اپنے خاندان کے اُن افراد کی نجات کےلئے جو شیطان کے بند میں گرفتار ہوتے ہیں ایمان میں دُعا کرتا ہے۔

مسیح نے بدرُوح گرفتہ لڑکے کے باپ کے ایمان کو نیا بنانے اور اپنی محبت کا اظہار کرنے کےلئے اُس سے پوچھا کہ یہ تکلیف اُس کے بیٹے کو کتنی مُدّت سے ہے؟ اُس کے جواب سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگرچہ وہ پہلے مسیح سے نہیں ملا تھا، لیکن وہ سمجھتا تھا کہ شاگردوں کو بدرُوحیں نکالنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اِس لئے جب وہ ناکام ہوئے تو اُس نے سوچا کہ مسیح بھی ناکام ہو گا۔ لیکن یسوع نے اُسے کہا "جو اعتقاد رکھتا ہے اُس کےلئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔" یہ ایسے تھا کہ جیسے وہ اُس شخص سے کہہ رہا تھا: "مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مجھ میں شفا دینے کی کمی ہے بلکہ تیرا ایمان ناکافی ہے۔" اِس الٰہی طبیب کی شفا بخش قوت نے باپ کی بیمار رُوح پر گہرا اثر ڈالا اور وہ آنسوﺅں کے ساتھ پکار اُٹھا "میں اِعتقاد رکھتا ہوں۔ تُو میری بےاِعتقادی کا علاج کر۔" اُس نے درست طور پر اپنے ایمان کی مضبوطی کی درخواست کی۔

اِس مایوس شخص کی درخواست اُن سب کےلئے ایک خوبصورت دُعا ہے جو ایمان کی اہمیت سے واقف ہیں، اور اپنی نالائقی کا احساس کرتے ہیں۔ مسیح پر ایمان وہ کلید ہے جو الہٰی رحمتوں کا در کھول دیتی ہے۔ خدا کے فیاض ذخیرہ خانے میں سے برکات کو حاصل کرنے کےلئے یہ کلید واحد موثر ذریعہ ہے۔ اِس شخص کے آنسو اُس باطنی رُوحانی تبدیلی کی ایک مثال بن گئے ہیں جو مسیح کے شفا بخش معجزات کے ساتھ ہوتی ہے۔ پرانے عہدنامہ میں داﺅد نبی کے الفاظ اِس سچائی کو ہمارے سامنے بیان کرتے ہیں: "جو روتا ہوا بیج بونے جاتا ہے، وہ اپنے پولے لِئے ہوئے شادمان لوٹے گا" (زبور 126: 6)۔ پھر، مسیح نے اپنے اختیار سے بدرُوح کو حکم دیا کہ لڑکے میں سے نکل جائے اور پھر اُس میں نہ جائے۔

شیطان نے اپنے شکار کو ایذا پہنچانے اور تباہ کرنے کی پوری طرح سے کوشش کی، لیکن پھر اُس کا سامنا مسیح کی برتر قدرت سے ہوا۔ یسوع کے آنے کی ایک خاص وجہ ابلیسی کاموں کو شکست دینا بھی تھی۔ جیسا کہ ہمیشہ سورج طلوع ہونے سے پہلے تاریکی ہوتی ہے، ویسے ہی اِس لڑکے کے ساتھ ہوا۔ شیطانی رُوح اُس میں سے نکلنے سے پہلے چِلّائی اور اُسے خوب مروڑا، اور یوں لگا کہ جیسے وہ لڑکا مر گیا ہے، لیکن مسیح نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ بڑھایا جو مایوسی کے شکار فرد کو اُمید بخشتا ہے، اور اُس لڑکے کی زندگی اُس سخت مشکل میں سے بچائی اور اُسے بحال کیا۔ پھِر جناب مسیح نے لڑکے کو اُس کے باپ کے حوالے کیا۔ اِسی طرح، شیطان کے اختیار میں رہنے والا گنہگار آسمانی آواز کو نہیں سُنتا اور نہ ہی خدا تعالیٰ کے جلال کا اقرار کرتا ہے، لیکن جنہیں مسیح رہائی بخشتا ہے وہ اُس کی تعلیم کو سُن سکتے ہیں اور اُس کی حمد و ستایش کر سکتے ہیں۔

وہاں موجود سب لوگ سمجھ گئے کہ مسیح نے یہ معجزہ اپنے باپ کے نام میں اُس کے جلال کےلئے کیا تھا۔ اِس لئے، وہ خدا تعالیٰ کی بڑی عظمت پر حیران ہو گئے۔ اُس غیرقوم کے علاقے کے لوگوں کی اکثریت بت پرست تھی، اور اُنہوں نے اپنے سامنے اپنے بیکار معبودوں اور اسرائیل کے زندہ اور قادر خدا کے درمیان فرق کا حقیقی ثبوت دیکھا۔

بعد میں مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئے جہاں آپ کے نو شاگردوں نے آپ سے اپنی ناکامی کی وجہ پوچھی۔ اَب تک اُنہوں نے یہ نہیں سیکھا تھا کہ ہر بیرونی ناکامی کا منبع اندرونی ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے دِلوں کے اندر جھانکنے کے بارے میں نہ سوچا کہ اُن کی ناکامی کی وجہ وہاں تھی۔ بہت ممکن ہے کہ خودغرضی نے اُنہیں اپنے اُستاد کی کامیابی پر شادمان ہونے سے روکا۔ چونکہ اِس سب کے پیچھے بےاعتقادی تھی، اِس لئے مسیح نے اُنہیں بتایا: "یہ قِسم دُعا کے سِوا کِسی اَور طرح سے نہیں نکل سکتی۔" مسیح نے یہ کہہ کر ایمان کی ضرورت کو واضح کیا: "اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو اِس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی" (انجیل بمطابق متی 17: 20)۔ اِس بیان کی وضاحت کرنا آسان نہیں ہے، لیکن کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ مسیح کی لفظی طور پر اِن الفاظ سے یہی مراد تھی۔ بلکہ یہ مجازی روحانی معنٰی میں استعمال ہوئے ہیں۔ جب ایمانداروں نے اپنے نجات دہندہ کی قدرت پر ایمان رکھا تو مشکلات کے کتنے پہاڑ ختم ہو گئے!

الف- مسیح کا نیم مِثقال محصول دینا

"اور جب کفرنحوم میں آئے تو نیم مِثقال لینے والوں نے پطرس کے پاس آ کر کہا، کیا تمہارا اُستاد نیم مِثقال نہیں دیتا؟ اُس نے کہا، ہاں دیتا ہے، اور جب وہ گھر آیا تو یسوع نے اُس کے بولنے سے پہلے ہی کہا، اے شمعون! تُو کیا سمجھتا ہے؟ دُنیا کے بادشاہ کِن سے محصول یا جِزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے؟ جب اُس نے کہا، غیروں سے، تو یسوع نے اُس سے کہا، پس بیٹے بری ہوئے۔ لیکن مبادا ہم اُن کےلئے ٹھوکر کا باعث ہوں تُو جھیل پر جا کر بنسی ڈال اور جو مچھلی پہلے نکلے اُسے لے اور جب تُو اُس کا مُنہ کھولے گا تو ایک مِثقال پائے گا۔ وہ لے کر میرے اور اپنے لئے اُنہیں دے۔" (انجیل بمطابق متی 17: 24- 27)

خداوند مسیح کافی عرصہ بعد کفرنحوم میں تشریف لائے۔ اُس وقت ہیکل میں موجود محصول لینے والے اُن کی باری کا انتظار کر رہے تھے تا کہ یسوع سے نیم مثقال کا تقاضا کریں، کیونکہ یہ محصول بائیس برس یا اُس سے بڑے ہر یہودی شخص کےلئے ادا کرنا ضروری تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تقاضا سب سے پہلے اُن راہنماﺅں کی درخواست پر کیا گیا جو چاہتے تھے کہ یسوع وہ محصول ادا کرے جو نبیوں اور مذہبی اُستادوں کو ادا نہیں کرنا ہوتا تھا، اور یوں وہ یسوع کی تذلیل کرنا چاہتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہوں کہ کیا وہ محصول ادا کرنے سے انکار کر دے گا، تا کہ اُن کے پاس اُس پر الزام لگانے کی کوئی وجہ ہو۔ یہ ممکن ہے کہ خداوند مسیح ہر سال محصول کی اِس تھوڑی سی رقم کو ادا کرتے ہوں۔ محصول لینے والے پطرس سے گھر کے باہر ملے اور اُس سے پوچھا: "کیا تمہارا اُستاد نیم مِثقال نہیں دیتا؟"

پطرس کو جواب دینے سے پہلے اپنے اُستاد سے پوچھنا چاہئے تھا کہ کیا کہے۔ اُس نے فوراً جواب دیا "ہاں دیتا ہے۔" جب وہ گھر کے اندر گیا تو مسیح نے یہ پوچھتے ہوئے اُس کی غلطی اُسے دِکھائی: "دُنیا کے بادشاہ کِن سے محصول یا جِزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے؟" پطرس نے جواب دیا "غیروں سے۔" تب مسیح نے کہا "پس بیٹے بری ہوئے۔" یوں وہ پطرس کو کہہ رہے تھے "تُو نے خود اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں; تو پھر کیسے وہ میرے باپ کے گھر کےلئے مجھ سے محصول کا تقاضا کر رہے ہیں؟"

مسیح نے اپنے حقوق پر اصرار کئے بغیر اُنہیں بیان کرنے پر اکتفا کیا ۔اگر آپ یکسر محصول ادا کرنے سے انکار کر دیتے، تو اِس سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی، کیونکہ سرداروں اور لوگوں نے آپ کو مسیحا کے طور پر نہیں پہچانا تھا۔ مسیح کا انکار ہیکل اور مذہب کے وقار کے خلاف ایک بےعزتی اور بغاوت تصور کیا جاتا۔ یہ محصول بزرگوں کی روایت کی وجہ سے لاگو نہیں تھا بلکہ اِس کا ماخذ موسیٰ کی شریعت تھی۔ مسیح الہٰی نوعیت کے ایسے احکام کو اُس وقت تک منسوخ کرنا نہیں چاہتا تھا جب تک کہ وہ صلیب پر اُس کے مخلصی کے کام سے پورے نہ ہو جاتے۔ اِس لئے، مسیح نے شریعت کی فرمانبرداری کی۔ ایسا کرنے میں آپ نے اپنے پیروکاروں کو ایک نمونہ دیا کہ ایسے حالات میں جن کا نتیجہ نقصان، جھگڑے یا شکوک شبہات کی صورت میں نکل سکتا ہے، اپنے حقوق پر زور نہ دیں۔ اگر لوگ صرف اپنے حقوق پر زور نہ دیں تو زیادہ تر مسائل اور لوگوں کے باہمی تنازعے کم ہو جائیں گے۔

اِس بات کا امکان ہے کہ یہوداہ اسکریوتی کے حوالے کی گئی رقم کی تھیلی اُس وقت خالی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ جناب مسیح شریعت کی اپنی فرمانبرداری کو ایک معجزہ کے ساتھ یکجا کر کے پطرس کے ایمان کو مضبوط کرنے کے خواہشمند ہوں، اور ساتھ ہی یہ دِکھا رہے ہوں کہ آپ کا یہ عمل کمزوری کی وجہ سے نہیں تھا۔ سو، اپنے باپ کے گھر ہیکل میں اپنے آپ کو ایک بےانصافی کے تابع کرتے ہوئے، آپ اپنے باپ کے بڑے گھر میں جو فطرت ہے اپنے جائز اختیار کا اظہار کرنے کو تھے۔ آپ نے پطرس کو ایک بنسی لے کرجھیل میں ڈالنے کو کہا اور بتایا کہ جو مچھلی سب سے پہلے نکلے گی اُس کا منہ کھولنا تو اُس میں ایک مثقال پائے گا، اور پھر کہا "وہ لے کر میرے اور اپنے لئے اُنہیں دے"، غور کریں یسوع نے یہ نہیں کہا "ہم دونوں کےلئے دے" کیونکہ پطرس قانونی طور پر اِس محصول کو دینے کا ذمہ دار تھا جبکہ مسیح نہیں تھا۔ یوں، محصول کی ادائیگی رضاکارانہ طور پر آزادی کی رُوح میں ہونی تھی۔

4- مسیح کا حقیقی عظمت کے بارے میں سکھانا

"اُس وقت شاگرد یسوع کے پاس آ کر کہنے لگے، پس آسمان کی بادشاہی میں بڑا کون ہے؟ اُس نے ایک بچے کو پاس بُلا کر اُسے اُن کے بیچ میں کھڑا کیا۔ اور کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔ پس جو کوئی اپنے آپ کو اِس بچے کی مانند چھوٹا بنائے گا وہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہو گا۔ اور جو کوئی ایسے بچے کو میرے نام پر قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے۔" (انجیل بمطابق متی 18: 1- 5)

جب خداوند یسوع پہاڑ پر سے واپس آئے تو کچھ شاگردوں کے درمیان بحث ہو رہی تھی کہ اُن میں سے بڑا کون ہے۔ جنہوں نے اپنے بڑے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا فطری طور پراُنہوں نے اُن شاگردوں کی حمایت کی جنہوں نے ایسا کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح سے کچھ شخصی فائدے حاصل کرنے کی اُمید کی بنا پر حسد اور شکوہ شکایت سامنے آیا۔ یسوع کے شفیق اور محبت کرنے والے دِل کو، اُن لوگوں میں جنہیں آپ نے اپنے رسولوں کے طور پر چُنا تھا اور اتنا عرصہ اُن کی تربیت کی تھی، اِس قسم کے ناپختہ مقابلہ کو دیکھ کر کس قدر بڑی مایوسی ہوئی۔

جب یسوع نے اُن سے پوچھا کہ "تم راہ میں کیا بحث کرتے تھے؟" وہ چُپ رہے۔ اُنہیں اپنی غلطی کا اقرار کر کے اُسے درست کرنا چاہئے تھا۔ پرانے عہدنامہ میں سلیمان بادشاہ نے کہا "جو اپنے گناہوں کو چھپاتا ہے کامیاب نہ ہو گا لیکن جو اُن کا اِقرار کر کے اُن کو ترک کرتا ہے اُس پر رحمت ہو گی" (امثال 28: 13)۔ داﺅد نبی نے لکھا: "میں نے تیرے حضور اپنے گناہ کو مان لیا اور اپنی بدکاری کو نہ چھپایا۔ میں نے کہا میں خداوند کے حضور اپنی خطاﺅں کا اِقرار کروں گا اور تُو نے میرے گناہ کی بدی کو معاف کیا" (زبور 32: 5)۔ بعدازاں، شاگردوں نے یسوع سے کہا کہ وہ اُنہیں آسمان کی بادشاہی میں بڑے ہونے کے موضوع کے بارے میں نصیحت کرے۔ تب یسوع نے بارہ شاگردوں کو اپنے پاس بلایا اور ایک بچہ کو اُن کے بیچ میں کھڑا کیا، یہ ایسے تھا کہ جیسے آپ اُن سے کہہ رہے ہوں کہ آپ کی بادشاہی میں بڑائی صرف اُن کےلئے ہے جو اُس کی تمنا نہیں کرتے، اور جو آپ کی بادشاہی میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُسی وقت داخل ہو سکیں گے کہ اگر وہ آپ کے پاس آ کر چھوٹے بچوں کی مانند بنتے ہیں۔

بچوں کے اندر کردار کی ایک خوبصورت سادگی پائی جاتی ہے، اور وہ بڑوں کی مانند رُتبہ یا عظمت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اُن کی آسانی سے راہنمائی کی جا سکتی ہے، وہ فوراً معاف کر دیتے ہیں اور تکلیف بھول جاتے ہیں۔ جو کچھ اُنہیں کرنے کو کہا جاتا ہے وہ بڑوں کی نسبت زیادہ آسانی سے کر دیتے ہیں۔ وہ لمبے عرصے کےلئے عداوت نہیں رکھتے، اور اُنہیں پریشانی یا تشویش کا مطلب پتا نہیں ہوتا۔ وہ خوشی کے ساتھ ہر دِن آگے بڑھتے ہیں اور سادہ خوشیوں میں مطمئن رہتے ہیں۔

اِس وجہ سے مسیح نے کہا "جو تم میں سب سے چھوٹا ہے وہی بڑا ہے۔" انیس صدیاں گزر چکی ہیں اور آج بھی بہت سوں کو یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ حقیقی حلیمی کو سمجھنے والے تھوڑے ہی ہیں۔ حتیٰ کہ مسیح کے شاگردوں نے بھی اِس سبق کو پوری طرح سے نہ سیکھا، کیونکہ بعد میں ایک مرتبہ پھر اُن میں اِس بارے میں بحث ہوئی کہ آسمان کی بادشاہی میں کون بڑا ہے۔ یوں، وہ نہ صرف اپنے رُتبہ کو کھونے کے خطرے میں تھے بلکہ آسمان کی بادشاہی میں ناکامی کاخطرہ بھی اُن کے سامنے تھا۔ آج ہمارے دور میں جو اپنے لئے بڑائی کی تمنا کرتے ہیں اور بچوں کی طرح حلیم نہیں بنتے وہ کبھی بھی آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوں گے۔ اُنہیں بڑائی کی اپنی جدوجہد ترک کرنی ہو گی اور آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کی فکر کرنی ہو گی۔

پھر مسیح نے شاگردوں کو اپنے نام میں کرنے والے کچھ کاموں کے بارے میں سکھایا۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ ہر وہ کام جو اُس کی خاطر کیا جائے گا وہ اُس کی تعظیم شمار کیا جائے گا۔ غرض، مسیح کے نام میں کسی چھوٹے ترین شخص کےلئے کی گئی کوئی بھی خدمت مسیح کی خدمت کرنے کی مانند ہے، اور اُس کی خدمت کرنا باپ کی عزت کرنے کے مترادف ہے جس نے اُسے بھیجا ہے۔ یہ بندھن کس قدر خوبصورت ہے جو مسیح کے نام میں باپ کو بیٹے کے ساتھ، اور بیٹے کو ایمانداروں میں سے سب سے چھوٹوں کے ساتھ ایک کرتا ہے۔

"یوحنا نے اُس سے کہا، اے اُستاد ہم نے ایک شخص کو تیرے نام سے بدرُوحوں کو نکالتے دیکھا اور ہم اُسے منع کرنے لگے کیونکہ وہ ہماری پیروی نہیں کرتا تھا۔ لیکن یسوع نے کہا، اُسے منع نہ کرنا کیونکہ اَیسا کوئی نہیں جو میرے نام سے معجزہ دِکھائے اور مجھے جلد بُرا کہہ سکے۔ کیونکہ جو ہمارے خلاف نہیں وہ ہماری طرف ہے۔ اور جو کوئی ایک پیالہ پانی تم کو اِس لئے پِلائے کہ تم مسیح کے ہو، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر ہرگز نہ کھوئے گا۔" (انجیل بمطابق مرقس 9: 38- 41)

اِن آیات میں یوحنا رسول، جناب مسیح کو ایک ایسے واقعہ کے بارے میں بتاتا ہے جہاں اُس نے اور دوسرے شاگردوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اگرچہ یسوع کا پیروکار نہیں تھا مگر اُس کے نام میں بدرُوحیں نکال رہا تھا۔ شاگرد سوچتے تھے کہ اُستاد کی طرف سے صرف اُنہی کو یہ استحقاق ملا تھا۔ لیکن چونکہ یسوع ہی ایسی قوت ودیعت کرتا ہے، اِس لئے ہو سکتا ہے اِس آدمی نے شاگردوں کے علم کے بغیر اِس قدرت کو یسوع سے حاصل کیا ہو۔ اور مسیح نے اِسے اپنے پیچھے آئے بغیر اپنا مُقدّس نام استعمال کرنے کی اجازت دی ہو۔ یسوع نے یہ کہتے ہوئے یوحنا کی درستی کی کہ جو اُس کے خلاف نہیں وہ اُس کے ساتھ ہیں، اور یہ کہ آسمان کی بادشاہی کے تعلق سے کوئی غیرجانبداری نہیں ہے۔ مذہب میں یہ کہنا بہت غلط ہے کہ "وہ نہ ہمارے ساتھ ہے نہ ہمارے خلاف ہے۔" یوحنا کو اِس بات کا پتا ہونا چاہئے تھا کہ ہر راستباز شخص جو اپنے کام میں مسیح کا نام استعمال کرتا ہے اُسے مسیح سنبھالتا ہے۔ جو کوئی مسیح کے نام کو مناسب طور پر استعمال کرتا ہے اُس کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ جو کوئی شاگردوں کو نقصان پہنچاتا ہے اُسے خداوند کی طرف سے سزا ملے گی جو اپنے نام میں خدمت کرنے والوں کو اجر بھی دیتا ہے۔

الف - ٹھوکر کھلانے کے خلاف تنبیہ

"لیکن جو کوئی اِن چھوٹوں میں سے جو مُجھ پر ایمان لائے ہیں کِسی کو ٹھوکر کِھلاتا ہے اُس کےلئے یہ بہتر ہے کہ بڑی چکی کا پاٹ اُس کے گلے میں لٹکایا جائے اور وہ گہرے سمندر میں ڈبو دِیا جائے۔ ٹھوکروں کے سبب سے دُنیا پر افسوس ہے کیونکہ ٹھوکروں کا ہونا ضرور ہے لیکن اُس آدمی پر افسوس ہے جس کے باعث سے ٹھوکر لگے۔ پس اگر تیرا ہاتھ یا تیرا پاﺅں تُجھے ٹھوکر کھِلائے تو اُسے کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے۔ ٹُنڈا یا لنگڑا ہو کر زندگی میں دِاخل ہونا تیرے لئے اِس سے بہتر ہے کہ دو ہاتھ یا دو پاﺅں رکھتا ہوا تُو ہمیشہ کی آگ میں ڈالا جائے۔ اور اگر تیری آنکھ تُجھے ٹھوکر کِھلائے تو اُسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے۔ کانا ہو کر زندگی میں داخل ہونا تیرے لئے اِس سے بہتر ہے کہ دو آنکھیں رکھتا ہوا تُو آتشِ جہنم میں ڈالا جائے۔" (انجیل بمطابق متی 18: 6- 9)

یہاں یسوع ایک اَور اہم موضوع یعنی ٹھوکروں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ یسوع نے پہلے ہی پہاڑ پر دیئے گئے اپنے وعظ میں اِس کا ذِکر کیا تھا، اور اَب اکیلے میں اپنے شاگردوں کے فائدہ کےلئے پھر اِس بات کو دُہرایا۔ ہیکل کا محصول ادا کرنے سے یسوع نے اپنے شاگردوں کو راہنمائی بخش کر سکھایا کہ جرم کرنے سے بچیں اور محصول ادا کریں۔ پھر یسوع نے اُنہیں نامعلوم شاگرد کو ٹھوکر پہنچانے پر جھڑکا جو مسیح کے نام میں بدرُوحوں کو نکال رہا تھا۔ اور اَب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اِن چھوٹوں میں سے کِسی کو ٹھوکر کھلانے سے بہتر ہے کہ ایسا شخص سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ بلا شک و شبہ یسوع کے نزدیک جرم نہ صرف دوسروں کے ٹھوکر کھانے اور گناہ میں گرنے کا سبب بنتا ہے بلکہ بغیر وجہ کے جھنجھلاہٹ اور اہانت کی وجہ بھی بنتا ہے۔ ایک حقیقی ایماندار کے ساتھ جو بھی شخص ایسے کرتا ہے، اُسے اِس سے بھی خوفناک نتیجہ بھگتنا پڑے گا کہ بڑی چکی کا پاٹ اُس کے گلے میں لٹکایا جائے اور وہ گہرے سمندر میں ڈبو دِیا جائے۔

اِس غرض سے کہ شاگرد یہ تاثر نہ لیں کہ اِس دُنیا میں ٹھوکریں مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہیں، یسوع نے کہا "ٹھوکروں کا ہونا ضرور ہے۔" لیکن کیا یہ دوسروں کو ٹھوکر کھلانے کےلئے ایک بہانہ ہو سکتا ہے؟ کِسی بھی ایسی غلط فہمی کا تدارک کرنے کےلئے آپ نے فوراً یہ بھی کہا "لیکن اُس آدمی پر افسوس ہے جس کے باعث سے ٹھوکر لگے۔"

پھر مسیح نے کہا: "پس اگر تیرا ہاتھ یا تیرا پاﺅں تُجھے ٹھوکر کھِلائے تو اُسے کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے۔ ... اور اگر تیری آنکھ تُجھے ٹھوکر کِھلائے تو اُسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے۔" یقیناً جناب یسوع مجازی طور پر بات کر رہے تھے، کیونکہ اِن اعضا کا کاٹ دینا اُس گناہ کو ختم نہیں کرتا جو اِنسان کے دِل میں ہے; ہر گناہ سب سے پہلے دِل و دماغ میں کیا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ جو گناہ اور ہلاکت کے تعلق سے واحد منصف ہے، وہ ہمارے جسم کے اعضا پر نہیں بلکہ ہمارے دِل پر نگاہ کرتا ہے۔ اِن الفاظ کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اِنسان کو گناہ کی طرف لے کر جاتی ہے اُسے دُور کرنا چاہئے، چاہے وہ اُس کے ہاتھ یا آنکھ کی طرح اُس کےلئے عزیز ہی کیوں نہ ہو۔

خالق خداوند کا اِنسانی بدن کے ہر عضو کےلئے مقصد یہ ہے کہ وہ ایک برکت اور دوسروں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہو۔ اِسی لئے پولس رسول نے 1- کرنتھیوں 6: 19 میں ہمارے بدنوں کو "روح القدس کا مقدِس" کہا ہے۔ جو کوئی اِس بدن کو بگاڑتا یا اِس کا غلط استعمال کرتا ہے وہ اِس کے بنانے والے کی توہین کرتا ہے۔ چنانچہ یسوع نے ہمیں اپنے بدن کے اعضا کاٹنے کےلئے نہیں کہا بلکہ یہ کہا ہے کہ ہم اُن کا خیال رکھیں اور اُنہیں اپنے خداوند کی خدمت کرنے کےلئے مخصوص کریں۔ یقیناً یہ خدمت اُس فرد کےلئے ناممکن ہو جائے گی جو اپنے اعضا کو کاٹ ڈالے گا۔

پھر مسیح نے کہا ہر کوئی جو دوسرے کو ٹھوکر کھلاتا ہے جہنم کی آگ میں ڈالے جانے کے خطرہ میں ہے جہاں نہ کیڑا مرتا ہے اور نہ آگ بجھتی ہے۔ یہ الفاظ ڈرانے کےلئے نہیں تھے بلکہ محبت کرنے والے خداوند کے منہ سے خبرداری اور تنبیہ تھے جو ہمیں اِس خطرناک ابدی سزا سے بچانے کےلئے آسمان سے آیا۔ مسیح نے ہمیں جہنم کے بارے میں اِس لئے بتایا ہے کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم توبہ کرنے اور باپ کے پاس آنے سے ہلاکت سے بچ جائیں۔

ب- چھوٹوں کو ٹھوکر کھِلانے کے خلاف تنبیہ

"خبردار اِن چھوٹوں میں سے کِسی کو ناچیز نہ جاننا کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ آسمان پر اُن کے فرشتے میرے آسمانی باپ کا مُنہ ہر وقت دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ اگر کِسی آدمی کی سو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک بھٹک جائے تو کیا وہ ننانوے کو چھوڑ کر اور پہاڑوں پر جا کر اُس بھٹکی ہوئی کو نہ ڈھونڈے گا؟ اور اگر اَیسا ہو کہ اُسے پائے تو میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اُن ننانوے کی نِسبت جو بھٹکی نہیں اِس بھیڑ کی زیادہ خوشی کرے گا۔ اِسی طرح تمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔" (انجیل بمطابق متی 18: 10- 14)

مسیح نے اپنے شاگردوں کو تنبیہ کی کہ اُن لوگوں کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں جو غیراہم معلوم ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اُن کی فکر کرتا ہے۔ یقیناً وہ اپنے فرشتوں کے ذریعے اُن کی حفاظت کرتا ہے۔ لوگوں کے پاس کیا حق ہے کہ وہ اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھیں جن کے فرشتے ہر وقت خدا کا چہرہ دیکھتے ہیں؟ مسیح نے یہ کہتے ہوئے واضح کیا کہ اُس کی نجات میں سب بچے شامل ہیں: "تمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔" اِس سے مسیح کی مراد نہ صرف وہ ہیں جو عمر میں چھوٹے ہیں بلکہ اِس میں بچوں کے سے دِل کے حامل لوگ بھی شامل ہیں، خاص کر جو ایذارسانی کا شکار ہیں یا جو تضحیک کا نشانہ بننے کو ہیں۔

اپنے لقب "ابنِ آدم" کو استعمال کرتے ہوئے مسیح نے آسمان پر سے اپنے آنے کے مقصد کے بارے میں ایک خوبصورت بات کہی: "ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔" آپ نے اپنے کام کو اُس شخص کے کام سے تشبیہ دی جو اپنی ننانوے بھیڑوں کو جو کھوئی نہیں چھوڑ کر اُس ایک کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جو کھو چکی ہوتی ہے۔ جب وہ اُسے ڈھونڈ لیتا ہے تو ننانوے بھیڑوں کی نسبت اُس کی وجہ سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ سچ مچ، خدا تعالیٰ کو اُن سب لوگوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے، ایک گنہگار کی توبہ کے باعث زیادہ خوشی ہوتی ہے، اور یہ بات اِنسانی اِدراک سے پرے ہے کیونکہ اُس کی سوچیں ہماری سوچیں نہیں ہیں۔

ج- اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے

"اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو جا اور خلوت میں بات چیت کر کے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سُنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔ اور اگر نہ سُنے تو ایک دو آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جا، تا کہ ہر ایک بات دو تین گواہوں کی زبان سے ثابت ہو جائے۔ اگر وہ اُن کی سُننے سے بھی اِنکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا کی سُننے سے بھی اِنکار کرے تو تُو اُسے غیرقوم والے اور محصول لینے والے کے برابر جان۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ زمین پر باندھو گے وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تم زمین پر کھولو گے وہ آسمان پر کُھلے گا۔ پھِر میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے دو شخص زمین پر کِسی بات کےلئے جِسے وہ چاہتے ہوں اِتفاق کریں تو وہ میرے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے اُن کےلئے ہو جائے گی۔ کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اِکھٹے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں۔" (انجیل بمطابق متی 18: 15- 20)

اِن آیات میں مسیح نے کلیسیا میں ایمانداروں کے مابین ہونے والے ایک اَور اہم معاملہ کے بارے میں بات کی ہے، جو یہ ہے کہ ایک ایماندار اُس وقت کیسا برتاﺅ کرے ہے جب اُس کا بھائی اُس کے خلاف گناہ کرے؟ سب سے پہلے وہ اُس کے ساتھ جھگڑا نہ کرے بلکہ اپنے آپ کو غصہ سے بچائے رکھے۔ پھر اُسے برادرانہ محبت قائم رکھتے ہوئے اُس بات کو پھیلنے سے روکنا چاہئے تا کہ اصلاح کا عمل مشکل نہ ہو جائے۔ اُسے گناہ کرنے والے بھائی کے پاس اکیلے میں جا کر اِس اُمید میں مہربانی سے تمام معاملہ کی وضاحت کرنی چاہئے کہ وہ غصہ میں بےقابو نہیں ہو جائے گا۔ اکثر جب گناہ کرنے والا شخص محبت اور اطمینان کے رویہ کو دیکھتا ہے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ یوں اُس کی گناہ کو ترک کرنے کی طرف راہنمائی ہوتی ہے اور وہ معاملہ کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس وجہ سے یسوع نے فرمایا: "اگر وہ تیری سُنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔"

تاہم، اگر گنہگار شخص اپنے بھائی کے خلاف اپنے دِل کو سخت کرتا ہے، نہ شرم محسوس کرتا ہے اور نہ توبہ کی حاجت سمجھتا ہے، تو ایک چھوٹے گروہ کو دونوں کے مابین درمیانی کے طور پر کام کرتے ہوئے مسئلہ کے حل کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر یہ اچھی کوشش ناکام ہو جاتی ہے تو تمام قضیہ کو کلیسیا کے پاس لے جانا چاہئے تا کہ وہ تحقیق کرے اور گنہگار کو سُدھارنے کی کوشش کرے۔ یہ طریقہ بہت مفید ہے، کیونکہ اِس سے گنہگار شخص کی توبہ کرنے کی طرف مدد ہوتی ہے۔ مگر جب وہ کلیسیا کی بات بھی سُننے سے انکار کرے تو جس کے خلاف گناہ ہوا ہو اُسے حق حاصل ہے کہ وہ اُس سے اجتناب برتے اور اُسے اپنا بھائی نہ سمجھے کیونکہ اُس نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا ہوتا ہے کہ اُس میں مسیحی محبت کی بنیادی خوبی موجود نہیں ہے۔

"اُس وقت پطرس نے پاس آ کر اُس سے کہا اے خداوند اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو میں کتنی دفعہ اُسے معاف کروں؟ کیاسات بار تک؟ یسوع نے اُس سے کہا میں تُجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔" (انجیل بمطابق متی 18: 21- 22)

یہودی شریعت کے مطابق ایک فرد دوسرے کے گناہ کو تین مرتبہ معاف کر سکتا تھا لیکن اگر گنہگار باز نہ آتا تو وہ اُسے مسلسل معاف کرنے کا پابند نہیں تھا۔ پطرس رسول نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مسیح کی شریعت فیاضی پر مبنی ہے، پوچھا کہ "اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو میں کتنی دفعہ اُسے معاف کروں؟ کیاسات بار تک؟" یوں لگتا ہے جیسے اُس نے سوچا کہ ایک فرد سے زیادہ سے زیادہ سات مرتبہ معاف کرنے کی توقع ہو گی اور یوں وہ بڑی فراخدلانہ سوچ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ لیکن یسوع کا یہ جواب سُن کر اُسے کس قدر شرمندگی محسوس ہوئی ہو گی کہ "سات دفعہ کے ستر بار تک۔" ایسا کہنے سے یسوع کا مطلب تھا کہ معافی کی کوئی حد نہیں ہے۔

یہ بات عملی طور پر کس قدر مشکل ہے! کیونکہ انسانی فطرت اِس طرح سے معاف نہیں کر سکتی، اِس کےلئے الہٰی فضل کی مدد کی ضرورت ہے۔ رُوح القدس جو پہلی مرتبہ دِلی معافی کی طرف لے کر جاتا ہے، وہی دوسری مرتبہ بھی ایسا کرنے کی راہنمائی بخشتا ہے اور پھر اِس کے بعد بھی معاف کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ بات خاص کر اِس لحاظ سے سچ ہے کہ جو فرد ایک مرتبہ معاف کرتا ہے وہ بار بار ایسا کرنے کےلئے تقویت پاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جو سویں مرتبہ بھی معاف نہیں کر سکتا وہ یہ دِکھاتا ہے کہ اُس کی پہلی معافی حقیقی مسیحی رُوح میں نہیں تھی۔ ہر وہ فرد جو خدا تعالیٰ کی معافی کا احساس رکھتا ہے، اگر اُس کے خلاف اُس کے بھائی نے کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ کیا ہو، ممکن نہیں کہ وہ اُسے معاف نہ کر سکے۔

د- معاف کرنے والے بادشاہ کی مثال

"پس آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی مانند ہے جس نے اپنے نوکروں سے حساب لینا چاہا۔ اور جب حساب لینے لگا تو اُس کے سامنے ایک قرض دار حاضر کیا گیا جس پر اُس کے دس ہزار توڑے آتے تھے۔ مگر چونکہ اُس کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ تھا اِس لئے اُس کے مالک نے حکم دیا کہ یہ اور اِس کی بیوی بچے اور جو کچھ اِس کا ہے سب بیچا جائے اور قرض وصول کر لیا جائے۔ پس نوکر نے گِر کر اُسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند مجھے مہلت دے۔ میں تیرا سارا قرض ادا کروں گا۔ اُس نوکر کے مالک نے ترس کھا کر اُسے چھوڑ دیا اور اُس کا قرض بخش دیا۔ جب وہ نوکر باہر نکلا تو اُس کے ہمخدمتوں میں سے ایک اُس کو ملا جس پر اُس کے سو دینار آتے تھے۔ اُس نے اُس کو پکڑ کر اُس کا گلا گھونٹا اور کہا جو میرا آتا ہے ادا کر دے۔ پس اُس کے ہمخدمت نے اُس کے سامنے گِر کر اُس کی مِنّت کی اور کہا مُجھے مہلت دے۔ میں تُجھے ادا کر دوں گا۔ اُس نے نہ مانا بلکہ جا کر اُسے قیدخانہ میں ڈال دیا کہ جب تک قرض ادا نہ کر دے قید رہے۔ پس اُس کے ہمخدمت یہ حال دیکھ کر بہت غمگین ہوئے اور آ کر اپنے مالک کو سب کچھ جو ہوا تھا سُنا دیا۔ اِس پر اُس کے مالک نے اُس کو پاس بُلا کر اُس سے کہا اے شریر نوکر! میں نے وہ سارا قرض تُجھے اِس لئے بخش دیا کہ تُو نے میری مِنّت کی تھی۔ کیا تُجھے لازم نہ تھا کہ جیسا میں نے تُجھ پر رحم کیا تُو بھی اپنے ہمخدمت پر رحم کرتا؟ اور اُس کے مالک نے خفا ہو کر اُس کو جلّادوں کے حوالہ کیا کہ جب تک تمام قرض ادا نہ کر دے قید رہے۔ میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اِسی طرح کرے گا اگر تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کو دِل سے معاف نہ کرے۔" (انجیل بمطابق متی 18: 23- 35)

شاگردوں کو اِس بات کے ممکن ہونے کے بارے میں قائل کرنے کےلئے اِس مشکل اصول کی بنیاد کی وضاحت کرنا ضروری تھا۔ یسوع نے اِس بات کو معاف نہ کرنے والے نوکر کی مثال کے ذریعے واضح کیا۔ باوجود کہ اِس شخص کے مالک نے اُس کے ذمے واجب الادا ایک بہت بڑا قرض معاف کر دیا، لیکن اُس نے اپنے ہمخدمتوں میں سے ایک کے ذمہ آنے والے چھوٹے سے قرض کو معاف نہ کیا بلکہ اُسے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ جب دوسروں نے اِس بارے میں سُنا تو اُنہوں نے یہ تمام ماجرا اُس شخص کے مالک کو بتایا جو یہ سب سُن کر بہت غصے ہوا۔ اُس نے معاف نہ کرنے والے نوکر کو بلوایا اور رحم نہ کرنے پر اُسے جھڑکا اور پھر جلّادوں کے حوالہ کیا کہ جب تک تمام قرض ادا نہ کر دے قید رہے۔ قیدخانہ میں رہتے ہوئے اُس کےلئے دس ہزار توڑے قرض ادا کرنے کا امکان بہت کم تھا۔

اِس تمثیل میں مسیح نے خدا تعالیٰ کو ایک مالک کے ساتھ اور گنہگاروں کو قرضداروں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ چونکہ ایک گنہگار کا خدا کے ذمہ قرض بہت بڑا ہے، اِس لئے اُس کےلئے اُس قرض کو ادا کرنا ناممکن ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ اپنے رحم اور مسیح کے کفارہ بخش کام کی بنیاد پر بڑے سے بڑے گنہگار کو بھی اُس وقت معاف کر دیتا ہے جب وہ اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے، رحم کا طلبگار ہوتا ہے اور نئی زندگی گزارنے کا چناﺅ کرتا ہے۔ ایک شخص کا اپنے ساتھی انسان کے ذمہ قرض اُس وقت معمولی لگتا ہے جب اُس کا موازنہ اُس قرض سے کیا جائے جو ایک شخص کو خدا کے حضور ادا کرنا ہوتا ہے۔ جب ایک شخص خدا کی معافی حاصل کرتا ہے تو اُسے کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے خلاف گناہ کرنے والے کسی فرد کو معاف نہ کرے چاہے وہ اُس کے خلاف کتنی ہی مرتبہ گناہ کیوں نہ کرے۔ اُسے اپنے بھائی سے ملے اور اُس کی سُنے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس کے بھائی نے غیر ارادی طور پر گناہ کیا ہو یا پھر اُس پر بہتان باندھا گیا ہو۔ پطرس کے سوال کے ردعمل میں مسیح نے جو بیان دیا وہ کس قدر حواس گم کردینے والا ہے: "میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اِسی طرح کرے گا اگر تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کو دِل سے معاف نہ کرے۔"

خداوند کی سکھائی ہوئی دُعا میں ہمارے سامنے نفرت کو دِل میں جگہ نہ دینے کا ایک ثبوت موجود ہے: "اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر" (انجیل بمطابق متی 6: 12)۔ ایک بےگناہ شخص کو قصوروار کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ آئے اور معافی طلب کرے بلکہ اُسے اِس حکم کے مطابق صلح صفائی کرنے میں پہل کرنی چاہئے: "اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو جا اور خلوت میں بات چیت کر کے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سُنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا" (انجیل بمطابق متی 18: 15)۔ ایسا کرنے سے وہ مسیح کی مانند ہو گا جس نے اِس بات کا انتظار نہیں کیا کہ پہلے گنہگار اُس کے پاس آئیں اور توبہ کریں بلکہ آسمان سے "کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے" (انجیل بمطابق متی 18: 11)۔

5- مسیح کا زِنا میں پکڑی عورت کو معاف کرنا

"اور فقِیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زِنا میں پکڑی گئی تھی اور اُسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا۔ اے اُستاد! یہ عورت زِنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔ توریت میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تُو اِس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے؟ اُنہوں نے اُسے آزمانے کےلئے یہ کہا تا کہ اُس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں مگر یسوع جُھک کر اُنگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ جب وہ اُس سے سوال کرتے ہی رہے تو اُس نے سیدھے ہو کر اُن سے کہا کہ جو تم میں بیگناہ ہو وہی پہلے اُس کے پتھر مارے۔ اور پھِر جُھک کر زمین پر اُنگلی سے لکھنے لگا۔ وہ یہ سُن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اُس سے کہا اے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟ کیا کِسی نے تُجھ پر حکم نہیں لگایا؟ اُس نے کہا اے خداوند کسی نے نہیں۔ یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا۔ پھِر گناہ نہ کرنا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 3- 11)

مسیح یروشلیم میں تشریف لائے، اور جب ہیکل میں داخل ہوئے تو وہاں اپنی رُوحانی بادشاہی کی سچائیوں کی تعلیم دینی اور اُس کی تشریح کرنی شروع کی۔ کچھ دیر بعد ہجوم میں اضطراب پیدا ہوا، مذہبی اُستادوں کا ایک گروہ مسیح تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا جو اپنے ساتھ زنا میں پکڑی ہوئی ایک عورت کو گھسیٹتے ہوئے لا رہے تھے۔ اپنی روایتی ریاکاری میں وہ پاکیزگی کے قانون کےلئے غیرت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور مسیح کی طرف تعظیم بھی ظاہر کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اِس بات کا فیصلہ پاک شریعت کے مطابق کرے۔ اُنہوں نے اپنے سب سے بڑے لقب "اُستاد" سے مسیح کو مخاطب کیا۔

وہ عورت ہجوم کے سامنے کھڑی تھی۔ اُنہوں نے مسیح سے کہا کہ وہ اِس بات کا فیصلہ کرے کہ کیا اِس عورت کو موسیٰ کی شریعت کے مطابق سزا دی جائے جس میں ایسے گناہ کےلئے سنگساری کی سزا تجویز کی گئی تھی۔

رومی ارباب اختیار نے یہودی مذہبی عدالتوں کو موت کی سزا دینے سے منع کیا ہوا تھا۔ اگر مسیح سنگساری کی سزا کا حکم دیتے جس کی وہ مستحق تھی تو حکومتی اختیار کے برعکس رویہ اختیار کرنے والے ٹھہرتے۔ وہ ہجوم میں اُن بہت سے لوگوں کو بھی غصہ دِلا دیتے جو ایسے معاملات میں بُردباری کے عادی تھے۔ لیکن اگر اِس کے برعکس وہ کہتے کہ وہ سنگسار نہ کی جائے تو آپ پر الزام کا دروازہ کھل جاتا کہ آپ اُن کی پاک شریعت کے ایک دُشمن تھے۔ یہودی مذہبی اُستادوں کو اُمید تھی کہ جیسے سبت کے معاملہ میں مسیح نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا تھا اورموسیٰ سے بڑے ہونے کا دعویٰ کیا تھا ویسے ہی وہ اَب بھی شریعت کی تشریح کرے گا۔ یسوع سے یہ پوچھنے سے کہ وہ موسیٰ کے الفاظ کی بابت کیا کہتا ہے، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ مسیح یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ چاہے شریعت کے برعکس بات کہہ سکتا ہے۔ اِس طرح اُس گروہ کے سامنے مسیح کا ایسا ردعمل اپنے لئے مشکل پیدا کر دیتا۔

مسیح کی توجہ گنہگار عورت پر مرکوز نہیں تھی بلکہ آپ کی توجہ الزام لگانے والوں پر تھی جن کا گناہ زیادہ بڑا تھا۔ یسوع اُن ظالم اور شریر لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ آپ کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ آپ نے زمین پر جھک کر اپنی انگلی سے لکھنا شروع کیا، اور یوں غالباً اُن الزام لگانے والوں کو پھر سوچنے کا موقع فراہم کیا۔

جب اُنہوں نے اپنی بات پر اصرار جاری رکھا تو یسوع نے اپنی قانونی رائے کچھ یوں دی: تمہاری شریعت کے مطابق جب ایک زناکار عورت کے خلاف الزام لگایا جاتا ہے تو گواہوں کو سب سے پہلے پتھر مارنے چاہئیں۔ تم میں سے جو خود شریعت کے مجرم ہیں اُنہیں اِس بات کا کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سب کے سامنے اِس عورت کو سزا دینے کی توقع کریں۔ اِس لئے جو بےگناہ ہو وہی اِس کے پہلا پتھر مارے۔

اِن الفاظ کے بعد یسوع نے ایک بار پھر نیچے جُھک کر زمین پر لکھنا شروع کیا۔ اور جب آپ کھڑے ہوئے تو اُس عورت پر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک الزام لگانے والے سب لوگ ایک ایک کر کے چلے گئے۔ یقیناً اُن کے ضمیر اُنہیں مجرم ٹھہرا رہے تھے۔

غالباً مسیح کے شاگرد دوسروں کے ساتھ وہاں سے نہ گئے بلکہ تمام معاملہ کا نتیجہ دیکھنے کےلئے وہیں پر ٹھہرے رہے۔ عورت وہیں پر کھڑی تھی اور اَب مسیح نے اپنی توجہ اُس عورت پر کی۔ کیا وہ کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے نہیں آیا تھا؟ خدا نے یسوع کو دُنیا پر الزام لگانے کےلئے نہیں بلکہ بچانے کےلئے بھیجا۔

آپ نے اُس سے سوال کیا: "اے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟ کیا کِسی نے تُجھ پر حکم نہیں لگایا؟" اُس نے جواب دیا: "اے خداوند کسی نے نہیں۔" تب آپ نے اُسے کہا: "میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا۔ پھِر گناہ نہ کرنا۔"

یہ کہنے سے کہ "میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا"، یسوع نے معاملہ کو قانونی طور پر نبٹایا، کیونکہ اُس پر الزام لگانے والوں کے جانے سے دعویٰ خارج ہو گیا تھا۔ اِن الفاظ سے مسیح نے اُس گناہ سے چشم پوشی نہ کی جس کا اُس پر الزام تھا۔ چونکہ یسوع گناہ سے نفرت کرتا ہے مگر گنہگار سے محبت کرتا ہے اِس لئے آپ نے اُسے اپنے گناہ کو پیچھے چھوڑ دینے کا موقع فراہم کیا۔

"یسوع نے پھِر اُن سے مخاطب ہو کر کہا دُنیا کا نُور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نُور پائے گا۔ فریسیوں نے اُس سے کہا تُو اپنی گواہی آپ دیتا ہے۔ تیری گواہی سچی نہیں۔ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا اگرچہ میں اپنی گواہی آپ دیتا ہوں تَو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں لیکن تم کو معلوم نہیں کہ میں کہاں سے آتا ہوں یا کہاں کو جاتا ہوں؟ تم جسم کے مطابق فیصلہ کرتے ہو۔ میں کِسی کا فیصلہ نہیں کرتا۔ اور اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ اور تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔ اُنہوں نے اُس سے کہا تیرا باپ کہاں ہے؟ یسوع نے جواب دیا نہ تم مجھے جانتے ہو نہ میرے باپ کو۔ اگر مجھے جانتے تو میرے باپ کو بھی جانتے۔ اُس نے ہیکل میں تعلیم دیتے وقت یہ باتیں بیتُ المال میں کہیں اور کِسی نے اُس کو نہ پکڑا کیونکہ ابھی تک اُس کا وقت نہ آیا تھا۔ اُس نے پھِر اُن سے کہا میں جاتا ہوں اور تم مجھے ڈھونڈو گے اور اپنے گناہ میں مرو گے۔ جہاں میں جاتا ہوں تم نہیں آ سکتے۔ پس یہودیوں نے کہا کیا وہ اپنے آپ کو مار ڈالے گا جو کہتا ہے جہاں میں جاتا ہوں تم نہیں آ سکتے؟ اُس نے اُن سے کہا تم نیچے کے ہو۔ میں اوپر کا ہوں۔ تم دُنیا کے ہو۔ میں دُنیا کا نہیں ہوں۔ اِس لئے میں نے تم سے یہ کہا کہ اپنے گناہوں میں مرو گے کیونکہ اگر تم ایمان نہ لاﺅ گے کہ میں وہی ہوں تو اپنے گناہوں میں مرو گے۔ اُنہوں نے اُس سے کہا تُو کون ہے؟ یسوع نے اُن سے کہا وہی ہوں جو شروع سے تم سے کہتا آیا ہوں۔ مجھے تمہاری نسبت بہت کچھ کہنا اور فیصلہ کرنا ہے لیکن جس نے مجھے بھیجا وہ سچا ہے اور جو میں نے اُس سے سُنا وہی دُنیا سے کہتا ہوں۔ وہ نہ سمجھے کہ ہم سے باپ کی نسبت کہتا ہے۔ پس یسوع نے کہا کہ جب تم ابنِ آدم کو اُونچے پر چڑھاﺅ گے تو جانو گے کہ میں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اُسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔ اور جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اُسے پسند آتے ہیں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 12- 29)

اِس عورت کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد مسیح نے پھر سے تعلیم دینی شروع کی، اور اپنے آپ اور اپنے کام کو نور کے ساتھ تشبیہ دی۔ آپ کا ایک عظیم الشان لقب "دُنیا کا نور" ہے۔

فریسیوں نے یسوع کے دعویٰ پر اِس وجہ سے اعتراض کیا کہ ایک شخص کی اپنے بارے میں گواہی سچی نہیں ہو سکتی۔ یسوع نے جواب دیا کہ اگرچہ یہ اصول گنہگاروں کےلئے درست ہے جو خودغرضی اور فریب سے اندھے ہیں، لیکن اِس کا اطلاق اُس پر نہیں ہوتا کیونکہ وہ بےگناہ ہے۔ یہ گواہی باپ کی گواہی کے علاوہ ہے جو ہر قسم کے شک کے امکان کو خارج کرتی ہے۔ جب اُنہوں نے مسیح سے پوچھا کہ "تیرا باپ کہاں ہے؟" تو آپ نے اُن الفاظ میں جواب دیا جو کوئی انسان استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ آپ نے جواب دیا: "نہ تم مجھے جانتے ہو نہ میرے باپ کو۔" جب آپ نے اُنہیں بتایا کہ وہ ایسی جگہ جانے کو ہے جہاں وہ نہیں آ سکتے، تو اُنہوں نے حقارت سے اشارتاً کہا کہ وہ اپنی جان کو خود خطرہ میں ڈال رہا تھا۔ تب آپ نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا: "تم نیچے کے ہو..."۔ کوئی اِنسان ایسا بیان نہیں دے سکتا تھا۔

"پس یسوع نے اُن یہودیوں سے کہا جنہوں نے اُس کا یقین کیا تھا کہ اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔ اُنہوں نے اُسے جواب دیا ہم تو ابرہام کی نسل سے ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں رہے۔ تُو کیوں کر کہتا ہے کہ تم آزاد کئے جاﺅ گے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے گناہ کا غلام ہے۔ اورغلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا بیٹا ابد تک رہتا ہے۔ پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے۔ میں جانتا ہوں کہ تم ابرہام کی نسل سے ہو تو بھی میرے قتل کی کوشش میں ہو کیونکہ میرا کلام تمہارے دِل میں جگہ نہیں پاتا۔ میں نے جو اپنے باپ کے ہاں دیکھا ہے وہ کہتا ہوں اور تم نے جو اپنے باپ سے سُنا ہے وہ کرتے ہو۔ اُنہوں نے جواب میں اُس سے کہا ہمارا باپ تو ابرہام ہے۔ یسوع نے اُن سے کہا اگر تم ابرہام کے فرزند ہوتے تو ابرہام کے سے کام کرتے۔ لیکن اب تم مجھ جیسے شخص کے قتل کی کوشش میں ہو جس نے تم کو وہی حق بات بتائی جو خدا سے سُنی۔ ابرہام نے تو یہ نہیں کیا تھا۔ تم اپنے باپ کے سے کام کرتے ہو۔ اُنہوں نے اُس سے کہا۔ ہم حرام سے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا۔ یسوع نے اُن سے کہا اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اِس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اُسی نے مجھے بھیجا۔ تم میری باتیں کیوں نہیں سمجھتے؟ اِس لئے کہ میرا کلام سُن نہیں سکتے۔ تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔ لیکن میں جو سچ بولتا ہوں اِسی لئے تم میرا یقین نہیں کرتے۔ تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟ اگر میں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟ جو خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سُنتا ہے۔ تم اِس لئے نہیں سُنتے کہ خدا سے نہیں ہو۔ یہودیوں نے جواب میں اُس سے کہا کیا ہم خوب نہیں کہتے کہ تُو سامری ہے اور تُجھ میں بدرُوح ہے؟" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 31- 48)

جب یسوع نے اپنے آپ کو "دُنیا کا نور" کہا تو بہت سے لوگ آپ پر ایمان لائے۔ پھر آپ نے کہا کہ جو اِس سچائی کو قبول کرتے ہیں وہ یقیناً آزاد ہوں گے، کیونکہ وہ سچ مچ اُن کےلئے یہ کرے گا۔

جب اُن لوگوں نے کہا کہ اُنہیں اِس بات کی حاجت نہیں کہ وہ آزاد کئے جائیں کیونکہ وہ کبھی غلامی میں نہیں رہے، تو یسوع نے اُنہیں بتایا کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے گناہ کا غلام ہے۔ جو اُسے قتل کرنے کی کوشش میں تھے اُن کے بارے میں یسوع نے کہا کہ تم نے اپنے دِل میں میرے کلام کوجگہ نہیں دی ہے اِس لئے ایسا کرنا چاہتے ہو۔ آپ نے اِس بات کا اعلان کیا کہ چونکہ وہ ابلیس کے فرزند تھے اِس لئے گناہ کے غلام تھے۔ غرض، ابرہام کے فرزند ہونے کا اُن کا دعویٰ بےبنیاد تھا کیونکہ وہ ابرہام کے سے نہیں بلکہ ابلیس کے کام کر رہے تھے۔ اِسی طرح، اُن کے عملی جھوٹ اُن کے حقیقی اصل کی واضح گواہی دے رہے تھے کیونکہ ابلیس کو "جھوٹوں کا باپ" کہا گیا ہے۔

پھر آپ نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص بےگناہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سب انبیاء نے افسوس و ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے۔ یہ کون شخص ہے جو اپنے لئے ایسا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یقیناً وہ باقی سب سے برتر ہے! پھر آپ نے کہا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 51)۔

ایک بار پھر یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اِنسان کو کہنے کا حق نہیں ہے، یہ الفاظ خدا کے بیٹے کے الفاظ ہیں۔

"یسوع نے جواب دیا کہ مجھ میں بدرُوح نہیں مگر میں اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں اور تم میری بےعزتی کرتے ہو۔ لیکن میں اپنی بزرگی نہیں چاہتا۔ ہاں۔ ایک ہے جو اُسے چاہتا اور فیصلہ کرتا ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا۔ یہودیوں نے اُس سے کہا کہ اَب ہم نے جان لیا کہ تجھ میں بدرُوح ہے، ابرہام مر گیا اور نبی مر گئے مگر تُو کہتا ہے کہ اگر کوئی میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کا مزہ نہ چکھے گا۔ ہمارا باپ ابرہام جو مر گیا کیا تُو اُس سے بڑا ہے؟ اور نبی بھی مر گئے۔ تُو اپنے آپ کو کیا ٹھہراتا ہے؟ یسوع نے جواب دیا اگر میں آپ اپنی بڑائی کروں تو میری بڑائی کچھ نہیں لیکن میری بڑائی میرا باپ کرتا ہے جسے تم کہتے ہو کہ ہمارا خدا ہے۔ تم نے اُسے نہیں جانا لیکن میں اُسے جانتا ہوں اور اگر کہوں کہ اُسے نہیں جانتا تو تمہاری طرح جھوٹا بنوں گا مگر میں اُسے جانتا اور اُس کے کلام پر عمل کرتا ہوں۔ تمہارا باپ ابرہام میرا دِن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہوا۔ یہودیوں نے اُس سے کہا تیری عمر تو ابھی پچاس برس کی نہیں پھِر کیا تُو نے ابرہام کو دیکھا ہے؟ یسوع نے اُن سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہوا میں ہوں۔ پس اُنہوں نے اُسے مارنے کو پتھر اُٹھائے مگر یسوع چھپ کر ہیکل سے نکل گیا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 49- 59)

یسوع نے کہا کہ سچائی ایک شخص کو آزاد کرتی ہے۔ یہ الفاظ سُنتے ہیں یسوع کے مخالفین نے اُس پر الزام لگایا کہ وہ سامری ہے اور اُس میں ایک بدرُوح ہے۔ اُنہوں نے یسوع کے اِس بیان کو چیلنج کیا کہ "اگر کوئی شخص میرے کلام پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا" اور یہ دلیل دی کہ ابرہام، باقی بزرگان دین اور انبیاء تو مر چکے ہیں۔ اُنہوں نے یسوع سے پوچھا کہ وہ کیا سوچتا ہے کہ وہ کون ہے۔ جواب میں یسوع نے ابرہام سے بھی پہلے اپنے وجود کے بارے میں اپنا مشہور بیان دیا جس سے ناقابل تردید طور پر آپ کی الوہیت ثابت ہوتی ہے۔ آپ ابرہام سے بھی پہلے ہونے کا دعویٰ کس طرح کر سکتے تھے کہ اگر آپ میں واقعی الہٰی فطرت نہ ہوتی جو ابتدا سے تھی (انجیل بمطابق یوحنا 1: 1)۔ اِسی طرح یسوع کے الفاظ "میں ہوں" خدا تعالیٰ کا نام ہے جو بہت عرصہ پہلے خدا نے موسیٰ نبی پر ظاہر کیا تھا (پرانا عہدنامہ، خروج 3: 14)۔ وہ واضح طور پر سمجھ گئے کہ یسوع کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ابدی خدا ہے، اور اِس بات سے وہ بہت غصے میں آ گئے۔ وہ یسوع کو سنگسار کرنا چاہتے تھے لیکن یسوع اُن کے بیچ میں سے نکل گیا کیونکہ ابھی اُس کا وقت نہیں آیا تھا۔

6- مسیح کی پیروی کےلئے شرائط

"جب وہ دِن نزدیک آئے کہ وہ اوپر اُٹھایا جائے تو ایسا ہوا کہ اُس نے یروشلیم جانے کو کمر باندھی۔ اور اپنے آگے قاصد بھیجے۔ وہ جا کر سامریوں کے ایک گاﺅں میں داخل ہوئے تا کہ اُس کےلئے تیاری کریں۔ لیکن اُنہوں نے اُس کو ٹکنے نہ دیا کیونکہ اُس کا رُخ یروشلیم کی طرف تھا۔ یہ دیکھ کر اُس کے شاگرد یعقوب اور یوحنا نے کہا اے خداوند کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم حکم دیں کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر اُنہیں بھسم کر دے، جیسا ایلیاہ نے کیا۔ مگر اُس نے پھِر کر اُنہیں جھِڑکا اور کہا تم نہیں جانتے کہ تم کِیسی رُوح کے ہو۔ کیونکہ ابنِ آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا۔ پھِر وہ کِسی اَور گاﺅں میں چلے گئے۔" (انجیل بمطابق لوقا 9: 51- 56)

گلیل سے یہودیہ کی طرف آتے ہوئے اپنے آخری سفر کے دوران جناب مسیح سامریہ کے علاقہ سے گزرنا چاہتے تھے جو یسعیاہ نبی کی نبوت میں مذکور "یردن کے پار" کے ملک کا حصہ تھا، جس کے لوگوں نے "بڑی روشنی" دیکھنی تھی (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 9: 2)۔

یسوع نے سامریوں کے ایک گاﺅں میں جانے سے پہلے اپنے قاصد وہاں بھیجے کیونکہ آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں پر رات قیام کرنا چاہتے تھے۔ اِس خبر سے وہاں کے رہنے والے بہت زیادہ ناخوش ہوئے کیونکہ یہ یہودیوں کے ایسے گروہ نے اُن تک پہنچائی تھی جن کے مشہور اُستاد نے اپنی خدمت کے دوران اُن کے علاقے کو زیادہ تر نظرانداز کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یسوع اور اُس کے شاگردوں کی میزبانی سے انکار کرنے میں حسد کا عنصر بھی شامل تھا۔

جب قاصد رد کئے جانے کی خبر کے ساتھ لوٹے تو شاگرد بہت زیادہ پریشان ہوئے۔ وہ سوچ ہی رہے تھے کہ پطرس کوئی بات کرے گا لیکن زبدی کے بیٹے جنہیں مسیح نے "گرج کے بیٹے" کا نام بھی دیا تھا، خداوند سے کہنے لگے کہ کیا وہ حکم دیں کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر اُنہیں بھسم کر دے؟ کیا ایلیاہ نبی نے اِسی علاقے میں آسمان سے آگ طلب نہیں کی تھی جس نے اخزیاہ بادشاہ کے سیکڑوں سپاہیوں کو جو اُسے گرفتار کرنے کےلئے بھیجے گئے تھے بھسم کر دیا تھا؟ (پرانا عہدنامہ، 2- سلاطین 1: 10)۔ کیا اُنہوں نے تبدیلی صورت کے پہاڑ پر یہ نہیں سیکھا تھا کہ اُن کا خداوند ایلیاہ سے بھی بڑا ہے؟ وہ اُنہیں سزا دینے سے کیسے باز رہ سکتا تھا جنہوں نے اُس کی تحقیر کی تھی جسے وہ جانتے تھے اور اقرار کیا تھا کہ وہ خدا کا بیٹا اور اُس کا مسیح ہے؟

تاہم، ایک فرد کو تمام معاملوں میں نبیوں کی مثال کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ مسیح نے دونوں شاگردوں کو جھڑکا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی: جو میرے ساتھ چلتے ہیں اُن میں ایسی رُوح نہیں ہونی چاہئے۔ تمہاری درخواست ظاہر کرتی ہے کہ تم میں فرق قسم کی رُوح موجود ہے جو تعصب اور بدلہ کی رُوح ہے۔ کیا تم نے کبھی مجھے ایسے کرتے دیکھا جب ناصرت میں ہجوم نے مجھے نقصان پہنچانا چاہا، یا یہودیہ میں جب مجھے تقریباً سنگسار کرنے لگے تھے، یا جب مجھے گدرینے کے علاقے میں سے نکالا گیا؟ کیا میں نے کسی طرح سے اُس کا مقابلہ کیا؟ کیا میں نے تمہیں مسلسل یہ نہیں سکھایا کہ اپنے دُشمنوں سے محبت کرو اور اپنے نفرت کرنے والوں کا بھلاچاہو؟ اَب تم مجھے کیسے اِس گاﺅں کے لوگوں کو آگ سے تباہ کرنے کےلئے کہہ سکتے ہو؟ تمہیں اَب تک پتا چل جانا چاہئے تھا کہ میں لوگوں کے بدنوں یا رُوحوں کو تباہ کرنے نہیں آیا بلکہ بچانے آیا ہوں!

مسیح نے اُن عداوت رکھنے والے سامریوں کو تباہ کرنے کی اُن دونوں شاگردوں کی صلاح کو رد کر دیا۔ پھر وہ اُس کے نزدیک کسی اَور گاﺅں میں چلے گئے۔ یوں اِس طرح سے مسیح نے عداوت کے جواب میں مہربانی، شفقت اور حلیمی کی ایک مثال قائم کی۔ اِس سفر کے دوران بےشک شفا کے کئی معجزات ہوئے ہوں گے، تاہم ہمیں اِس بات کا اندراج ملتا ہے کہ مسیح نے تین تمثیلیں سکھائیں، جو اسباق سے بھری ہیں اور رحم کرنے والے افراد کو وہ اسباق سیکھنے چاہئیں۔

"جب وہ راہ میں چلے جاتے تھے تو کِسی نے اُس سے کہا جہاں کہیں تُو جائے میں تیرے پیچھے چلوں گا۔ یسوع نے اُس سے کہا کہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِ آدم کےلئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔ پھِر اُس نے دوسرے سے کہا میرے پیچھے چل۔ اُس نے کہا اے خداوند! مجھے اجازت دے کہ پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کروں۔ اُس نے اُس سے کہا کہ مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے لیکن تُو جا کر خدا کی بادشاہی کی خبر پھیلا۔ ایک اَور نے بھی کہا اے خداوند میں تیرے پیچھے چلوں گا لیکن پہلے مجھے اجازت دے کہ اپنے گھر کے لوگوں سے رُخصت ہو آﺅں۔ یسوع نے اُس سے کہا جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔" (انجیل بمطابق لوقا 9: 57- 62)

ایک شخص یسوع کے پاس آیا اور سلام دُعا کے بعد کہنے لگا کہ "جہاں کہیں تُو جائے میں تیرے پیچھے چلوں گا۔" ممکن ہے کہ اُس نے سوچا، یوں یسوع فخر محسوس کرے گا کہ میرا ایک اَور پیروکار بن گیا ہے۔ لیکن مسیح کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ اِس شخص کے محرکات اچھے نہیں تھے جو غالباً دنیوی تھے۔ یوں وہ مسیح کے شاگردوں میں ہونے کےلئے تیار نہ تھا۔ خدائے مجسم کے طور پر مسیح انسانی محرومی کے انتہائی نچلے درجے تک آیا، تا کہ اِس دُنیا کے غریبوں کو تسلی دے سکے اور اُن کےلئے اِس بات کو آسان بنائے کہ وہ اُس کی پیروی کر سکیں۔ مسیح کا جھولنا اور قبر دونوں دوسروں کے تھے۔ آپ سے محبت کرنے والے آپ کی مالی ضروریات کو پورا کرتے تھے، اور جب مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اُس نے اپنے پیچھے قبر میں صرف خالی کفن اور رومال چھوڑا۔ اِس لئے اُس شخص کو یسوع نے جواب دیا: "ابنِ آدم کےلئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔" اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس شخص کو دنیوی چیزوں کے لحاظ سے دینے کےلئے مسیح کے پاس بہت زیادہ موجود نہیں تھا۔ اور پھر اُس شخص کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں پڑھتے۔

بعدازاں، یسوع نے اپنے اوپر ایمان لانے والے ایک فرد کو اپنا شاگرد بننے کا موقع فراہم کیا۔ اُس نے اِسے قبول کیا اور پھر پوچھا کہ کیا وہ اپنے باپ کی وفات تک اُس کے ساتھ رہ سکتا ہے؟ اُن ایام میں والدین کا یوں خیال رکھنا ایک مُقدّس فرض سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مسیح نے اُس کے اپنے والدین کےلئے فرض کو خدا تعالیٰ کےلئے اُس کی ذمہ داری سے بڑا نہ سمجھا۔ اِس لئے، مسیح نے اُسے مشورہ دیا کہ جو رُوحانی طور پر مُردہ ہیں اُنہیں اپنے جسمانی مُردوں کا خیال رکھنے دے۔ با الفاظ دیگر، جب وہ اپنی تبدیلی کے ذریعے رُوحانی طور پر جی اُٹھا تھا تو اُسے اَب اُن لوگوں کے ساتھ شامل ہونے کی ضرورت تھی جو اُس کی طرح رُوحانی طور پر جاگ اُٹھے تھے۔ اِس میں شک نہیں کہ مسیح نے والدین کی عزت کرنے کے حکم کو قائم رکھا، اور اِس بات کا اظہار مسیح کی زندگی کے ابتدائی سالوں سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے ناصرت میں گزارے۔ یہاں یہ بتانا بھی قابل ذِکر ہے کہ مسیح نے اُن یہودی مذہبی راہنماﺅں کو بھی جھڑکا جو اپنے ماں باپ کی مدد نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ چیز تو ہیکل کی نذر ہو چکی ہے (انجیل بمطابق مرقس 7: 10- 13)۔ پھِر یسوع نے اِس شخص کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی زندگی پر خدا تعالیٰ کے مکمل حق کو پہچانتے ہوئے اپنے باپ کو چھوڑ کر آپ کی پیروی کرے۔ جب کبھی خدا تعالیٰ کے حقوق ہمارے عزیزوں کے حقوق کے ساتھ متصادم ہوں تو ہمیں خدا تعالیٰ کو ترجیح دینی چاہئے۔

ایک اَور تیسرا شخص یسوع کے پاس آیا جو آپ کی پیروی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پہلے وہ چاہتا تھا کہ اپنے گھر کے لوگوں سے رُخصت ہو آئے۔ جناب مسیح نے اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ ممکن ہے کہ وہ کچھ دُور رہتا ہو، اور یسوع جانتے تھے کہ اگر وہ گھر گیا تو اُس کا ارادہ کمزور پڑ جائے گا یا پھر اُس کے والدین اُسے واپس آنے سے روک لیں گے۔ ایک اَور وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ مسیح وہاں موجود سب لوگوں پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایک فرد کو خداوند کی طرف سے بلاوے کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ یسوع نے اُس شخص کی درخواست کے جواب میں کہا کہ جو اُس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اُنہیں بغیر کسی ٹال مٹول یا پس و پیش کے آگے بڑھنا چاہئے، بالکل جیسے کسان اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے نہیں دیکھتا۔

الف- عملی شاگردیت

"اِن باتوں کے بعد خداوند نے ستر آدمی اَور مقرر کئے اور جس جس شہر اور جگہ کو خود جانے والا تھا، وہاں اُنہیں دو دو کر کے اپنے آگے بھیجا۔ اور وہ اُن سے کہنے لگا کہ فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں اِس لئے فصل کے مالک کی مِنّت کرو کہ اپنی فصل کاٹنے کےلئے مزدور بھیجے۔ جاﺅ۔ دیکھو میں تم کو گویا برّوں کو بھیڑوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں۔ نہ بٹوا لے جاﺅ نہ جھولی نہ جوتیاں اور نہ راہ میں کِسی کو سلام کرو۔ اور جس گھر میں داخل ہو پہلے کہو کہ اِس گھر کی سلامتی ہو۔ اگر وہاں کوئی سلامتی کا فرزند ہو گا تو تمہارا سلام اُس پر ٹھہرے گا نہیں تو تم پر لوٹ آئے گا۔ اُسی گھر میں رہو اور جو کچھ اُن سے ملے کھاﺅ پیو کیونکہ مزدور اپنی مزدوری کا حقدار ہے۔ گھر گھر نہ پھرو۔ اور جس شہر میں داخل ہو اور وہاں کے لوگ تمہیں قبول کریں تو جو کچھ تمہارے سامنے رکھا جائے کھاﺅ۔ اور وہاں کے بیماروں کو اچھا کرو اور اُن سے کہو کہ خدا کی بادشاہی تمہارے نزدیک آ پہنچی ہے۔ لیکن جس شہر میں داخل ہو اور وہاں کے لوگ تمہیں قبول نہ کریں تو اُس کے بازاروں میں جا کر کہو کہ ہم اِس گرد کو بھی جو تمہارے شہر سے ہمارے پاﺅں میں لگی ہے تمہارے سامنے جھاڑے دیتے ہیں مگر یہ جان لو کہ خدا کی بادشاہی نزدیک آ پہنچی ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اُس دِن سدوم کا حال اُس شہر کے حال سے زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 10: 1- 12)

اِس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شاگردوں کے طور پر یسوع کی پیروی کی۔ اُن میں ستر آدمی شامل تھے جنہیں دو دو کر کے بھیجا گیا تھا۔ جیسے مسیح نے بارہ شاگردوں کے ساتھ کیا تھا، ویسے ہی اُنہیں بھی مختلف گاﺅں اور شہروں میں منادی کرنی، تعلیم اور شفا دینی تھی۔ اُنہیں دو دو کر کے بھیجنا زیادہ موثر ہونا تھا کیونکہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کر سکتا تھا، وہ باری باری منادی اور خدمت کر سکتے تھے۔ دو سے زیادہ افراد میزبانوں پر بھی بوجھ ہوتے اور اُن کے منادی کرنے کے مواقع کم ہونے تھے۔ بیماریوں سے شفا دینے کی قوت ہونے سے، وہ لوگوں کے اعتماد اور اُلفت کو حاصل کرتے ہوئے اُن کی توجہ کو کھینچ سکتے تھے۔ یوں وہ سب کی دنیوی اور رُوحانی بھلائی کےلئے اپنے خداوند کی فکر کا اظہار کر سکتے تھے۔ وہ بادشاہی کے کلام کو پھیلا سکتے تھے جو اَب نزدیک تھا اور بادشاہ کے بارے میں بتا سکتے تھے جس نے اُنہیں اپنے نمائندوں کے طور پر بھیجا تھا۔

یسوع نے اِن ستر آدمیوں کی ویسے ہی نصیحت اور ہدایات دیں جیسے بارہ شاگردوں کو دی تھیں۔ تاہم، وقت کی کمی کی وجہ سے یہ بھی کہا کہ راہ میں کسی کو سلام نہ کرو۔ مشرق وسطیٰ کے علاقے کے لوگ سلام دُعا لیتے ہوئے بات چیت میں کافی وقت صرف کرتے ہیں۔ مزید برآں، یسوع نے اُنہیں مشورہ دیا کہ جو کچھ اُن کے آگے رکھا جائے وہ بغیر کسی سوال کے کھائیں۔ یہ باتیں ستر شاگردوں اور اُن افراد کے درمیان ایک رکاوٹ ہو سکتی تھیں جو اُنہیں اپنے گھروں میں قبول کرتے۔ پھر یسوع نے اپنی بات کی تائید میں کہا "مزدور اپنی مزدوری کا حقدار ہے..."۔

"وہ ستر خوش ہو کر پھِر آئے اور کہنے لگے اے خداوند تیرے نام سے بدرُوحیں بھی ہمارے تابع ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا میں شیطان کو بجلی کی طرح آسمان سے گرا ہوا دیکھ رہا تھا۔ دیکھو میں نے تم کو اختیار دیا کہ سانپوں اور بچھوﺅں کو کچلو اور دشمن کی ساری طاقت پر غالب آﺅ اور تم کو ہرگز کِسی چیز سے ضرر نہ پہنچے گا۔ تو بھی اِس سے خوش نہ ہو کہ رُوحیں تمہارے تابع ہیں بلکہ اِس سے خوش ہو کہ تمہارے نام آسمان پر لکھے ہوئے ہیں۔" (انجیل بمطابق لوقا 10: 17- 20)

زیادہ امکان یہ ہے کہ شاگردوں کا یہ گروہ بتدریج واپس لوٹا۔ لیکن وہ سب خوش و خرم اور حیران واپس آئے۔ جو اختیار مسیح نے اُنہیں دیا تھا، اُس میں غالباً بدرُوحوں کو نکالنا شامل نہیں تھا، لیکن جب اُنہوں نے ایسا کیا اور کامیاب ہوئے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ جب وہ اپنے بھیجنے والے کے پاس آ کر اپنی کارگزاری بیان کر رہے تھے تو اُس میں یہ کامیابی سب سے نمایاں تھی، اِسی لئے اُنہوں نے یسوع سے کہا "اے خداوند تیرے نام سے بدرُوحیں بھی ہمارے تابع ہیں۔"

یہ کامیابی اُنہیں خدا کے نام کی نسبت مسیح کے نام میں کیوں ملی؟ اگر مسیح حقیقتاً رُوح میں اُن کے ساتھ موجود نہ ہوتا تو محض ایک نام میں کیا اثر ہو سکتا تھا؟

مسیح نے جواب میں اِس حقیقت کی طرف نشاندہی کی کہ اُن کی کامیابی، شیطان کو اُس کے غرور کی وجہ سے آسمان سے گرانے کے الہٰی عمل کی وجہ سے تھی۔ یوں گویا مسیح اُن سے کہہ رہے تھے کہ "تم نے کچھ سپاہیوں کی شکست کو دیکھا ہے، لیکن میں نے اُن کے کماندار کی شکست اور گراوٹ، اُس کی حتمی شکست کو دیکھا ہے۔" مسیح ابلیس کو قیدی بنائے گا جس نے ہمیشہ انسانوں کو غلام بنایا اور بگڑی ہوئی فطرت اور قابل نفرت عادات کی بیڑیوں سے اُنہیں جکڑا ہے۔ انجیل بمطابق یوحنا 16: 11 میں مرقوم شیطان کے نام "دُنیا کا سردار" سے ہم اُس کی بادشاہی کو پہچانتے ہیں، اور جب اُسے نئے عہدنامہ میں افسیوں 2: 2 میں ہوا کی عملداری کا حاکم کہا گیا ہے تو اِس سے ہمیں اُس کی جائے سکونت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ اِسی طرح نئے عہدنامہ میں کلسیوں 1: 13 میں مرقوم اُس کے دائرہ اثر سے متعلق "تاریکی کے قبضہ" کے الفاظ سے ہمیں اُس کے کاموں کی نوعیت سمجھ میں آتی ہے، اور افسیوں 2: 2 کے الفاظ "نافرمانی کے فرزندوں" سے ہمیں اُن لوگوں کا رویہ نظر آتا ہے جو اُس کے پیروکار ہیں۔

یسوع نے کہا: "اُس دِن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دِکھائے؟ اُس وقت میں اُن سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاﺅ" (انجیل بمطابق متی 7: 22- 23)۔ کیا اُنہوں نے اِس بات کا احساس نہیں کیا تھا کہ اُن کی حقیقی کامیابی بدرُوحوں کے نکالنے میں نہیں تھی، جس سے غالباً وہ مغرور بن سکتے تھے کیونکہ اُنہیں یہ اپنے کاموں کا نتیجہ محسوس ہونا تھا؟ تاہم، حقیقی کامیابی اِس بات میں تھی کہ اُن کے نام آسمان پر لکھے تھے جو خدا تعالیٰ کا کام اور اُس کے فضل کی مفت بخشش ہے۔ مبارک ہیں وہ جنہیں خداوند مسیح اِس حقیقت کی تصدیق فراہم کرتے ہیں کہ اُن کے نام کتابِ حیات میں لکھے ہوئے ہیں۔ کیا محض ایک اِنسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ اُن کے نام آسمان پر لکھے ہیں؟ کیا اِس سے ہمیں واضح طور پر یہ نہیں پتا چلتا کہ مسیح ابنِ آدم اور ابنِ خدا دونوں ہے؟

ب- مسیح کا اپنے شاگردوں کی خدمت پر خوش ہونا

"اُسی گھڑی وہ رُوح القدس سے خوشی میں بھر گیا اور کہنے لگا اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند! میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں داناﺅں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں۔ ہاں اے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا۔ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی نہیں جانتا کہ بیٹا کون ہے سِوا باپ کے اور کوئی نہیں جانتا کہ باپ کو ن ہے سِوا بیٹے کے اور اُس شخص کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے۔ اور شاگردوں کی طرف متوجہ ہو کر خاص اُن ہی سے کہا مبارک ہیں وہ آنکھیں جو یہ باتیں دیکھتی ہیں جنہیں تم دیکھتے ہو۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور بادشاہوں نے چاہا کہ جو باتیں تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھیں اور جو باتیں تم سُنتے ہو سُنیں مگر نہ سُنیں۔" (انجیل بمطابق لوقا 10: 21- 24)

مسیح کی تمام زمینی زندگی کے واقعات کے دوران یہی ایک موقع ہے جہاں ہم پڑھتے ہیں کہ جناب مسیح خوشی سے بھر گئے۔ لیکن، ہم اُن تین واقعات کے بارے میں جانتے ہیں جہاں مسیح روئے، اور کئی اُن واقعات کے بارے میں جانتے ہیں جب وہ رُوح میں رنجیدہ ہوئے۔ مسیح شیطان پر اپنے شاگردوں کی فتح اور نتیجہ کے طور پر لوگوں کو ملنے والی برکات دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ یہ آپ کی خدمت کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اُس خوشی میں آپ کی رُوح لوگوں کی جانب نہیں بلکہ اپنے آسمانی باپ کی جانب متوجہ ہوئی۔ یسوع نے باپ کا اُنہی الفاظ میں شکر ادا کیا جو آپ نے پہلے استعمال کئے تھے۔ پھر، آپ نے اپنی توجہ شاگردوں کی جانب مبذول کی اورخاص اُن ہی سے کہا کہ جو کچھ تم نے دیکھا اور سُنا ہے یہ استحقاق تو بہت سے نبیو ں اور بادشاہوں کو بھی نہیں ملا۔

ہمیں اُن عظیم فائدوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جو اُن ستر شاگردوں نے حاصل کئے، اور جن سے آج ہم اُن کی خدمت کی وجہ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جب یسوع نے اِن آدمیوں کو وہ کام سونپا جو پہلے بارہ شاگردوں کو دیا تھا، تو اِس سے ہمیں سکھایا ہے کہ بشارت کا کام صرف پاسبانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک ایماندار کا خاص فرض ہے کہ وہ اپنے وقت اور رقم کا کچھ حصہ انجیل کے پھیلاﺅ کےلئے وقف کرے۔ اگرتمام مسیحی اِس سچائی کو سمجھ جائیں اور اِس کی پیروی کریں تو وہ معجزات سرانجام دے سکتے ہیں۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کو انجیل بمطابق یوحنا 14: 12 میں جب کہا کہ "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں"، تو یہی حقیقت بتانے کی کوشش کی۔ اِس اصول کی سچائی ابتدائی کلیسیا کی تاریخ میں ظاہر ہوئی۔ یہ سچائی آج بھی مختلف علاقوں میں انجیل کے پھیلاﺅ کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہے۔

7- میرا پڑوسی کون ہے؟

"اور دیکھو ایک عالم شرع اُٹھا اور یہ کہہ کر اُس کی آزمایش کرنے لگا کہ اے اُستاد! میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ اُس نے اُس سے کہا توریت میں کیا لکھا ہے؟ تُو کس طرح پڑھتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اُس نے اُس سے کہا تُو نے ٹھیک جواب دیا۔ یہی کر تو تُو جیئے گا۔ مگر اُس نے اپنے تئیں راستباز ٹھہرانے کی غرض سے یسوع سے پوچھا پھِر میرا پڑوسی کون ہے؟ یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلیم سے یریحو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوﺅں میں گھِر گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لئے اور مارا بھی اور ادھمﺅا چھوڑ کر چلے گئے۔ اِتّفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔ لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا۔ اور اُس کے پاس آ کر اُس کے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اُس کی خبرگیری کی۔ دوسرے دِن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دِئے اور کہا اِس کی خبرگیری کرنا اور جو کچھ اِس سے زیادہ خرچ ہو گا میں پھِر آ کر تجھے ادا کر دوں گا۔ اِن تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوﺅں میں گھِر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟ اُس نے کہا وہ جس نے اُس پر رحم کیا۔ یسوع نے اُس سے کہا جا۔ تُو بھی ایسا ہی کر۔" (انجیل بمطابق لوقا 10: 25- 37)

ستر شاگردوں کے واپس لوٹنے کے بعد ایک عالم شرع مسیح کی آزمایش کرنے کےلئے آیا۔ اُس نے یسوع مسیح سے پوچھا کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بننے کےلئے اُسے کیا کرنا چاہئے؟ اگر اُس کا سوال مخالفانہ ہوتا، تو مسیح بڑی سختی کے ساتھ اُسے سرزنش کرتے، لیکن چونکہ وہ شرعی اعتبار سے سوال کر رہا تھا اِس لئے اِس کا ایک مناسب جواب دینا ضروری تھا۔ سوال کرنے والے سے یسوع نے بھی ایک سوال پوچھا اور یوں اُسے موقع دیا کہ وہ شریعت میں سے جواب دے۔ اُس عالم شرع کا جواب اپنے سوال کی طرح بڑا اچھا تھا۔ اُس نے جواب دیا: "خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔" مسیح نے اُس سے کہا تُو نے ٹھیک جواب دیا، یہی کر تو تُو جیئے گا۔

یہ شخص الہٰی شریعت کے بارے میں کافی معلومات رکھتا تھا، لیکن یہ بھی اچھی طرح سے جانتا تھا کہ وہ پوری طرح سے نہ خدا سے اور نہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ سکتا تھا اِس لئے ہمیشہ کی زندگی پر اُس کا کوئی حق نہیں تھا۔ صرف علم، ضمیر کو تسکین نہیں دیتا بلکہ اُسے مجرم ٹھہراتا ہے، علمیت عدالت کو ختم نہیں کرتی بلکہ اُس میں اضافہ کرتی ہے، اور شریعت پر عمل کرنا نجات کی ضمانت نہیں ہے جب تک کہ اُس پر مکمل طور پر عمل نہ کیا جائے جو ناممکن ہے۔

اِس وجہ سے، خدا تعالیٰ ہر گنہگار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ نہ صرف شریعت کی معرفت حاصل کرے بلکہ اپنی تقصیروں اور کمزوریوں کو بھی دیکھے۔ اُس عالم شرع میں ضروری شخصی معرفت کی کمی تھی، لیکن پھر بھی اُس نے اپنے آپ کو راستباز ٹھہرانے کی کوشش کی۔ اُس نے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کی کہ خدا تعالیٰ کون ہے تا کہ وہ اُس سے محبت رکھ سکے۔ بلکہ اِس کے برعکس اُس نے پوچھا کہ اُس کا پڑوسی کون ہے ؟ تا کہ جان سکے کہ وہ اُس سے اپنی مانند محبت رکھتا ہے یا نہیں، کیونکہ وہ ابدی زندگی کا وارث بننا چاہتا تھا۔ ایک بار پھر مسیح نے سوال کرنے والے شخص سے ایک اَور سوال کیا تا کہ وہ اپنے سوال کا خود سے جواب دے سکتا۔ دوسرے سوال کا تعارف فراہم کرنے کےلئے یسوع مسیح نے ایک تمثیل سُنائی جسے "نیک سامری کی تمثیل" کہا جاتا ہے۔

مسیح نے ایک یہودی مسافر کی کہانی سُنائی جو یروشلیم سے یریحو کی طرف جا رہا تھا۔ ڈاکوﺅں نے اُس پر حملہ کیا اور اُس کا سب کچھ لوٹ لیا، یہاں تک کہ اُس کے کپڑے تک اُتار لئے۔ اُنہوں نے اُسے مارا، زخمی کیا اور ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر ایک کاہن کا وہاں سے گزر ہوا جس نے اُسے دیکھا۔ جہاں تک کہ کاہن کا تعلق تھا وہ اتفاقاً وہاں سے گزر رہا تھا۔ تاہم حقیقت میں یہ صورتحال خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی گئی تھی۔ ایسے اتفاقات کے ذریعے خدا تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کا امتحان لیتا ہے۔ کیا ہم اُس باطنی آواز کو سُنیں گے جو ہمیں رحم و ترس ظاہر کرنے کےلئے کہتی ہے؟

جب کاہن نے اُسے دیکھا تو کترا کر نکل گیا۔ بلا شک و شبہ، اُس نے کمزور عُذر سے اپنے آپ کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کی، لیکن جو کچھ اُس نے کیا تھا وہ ناقابل عُذر تھا۔ وہاں پڑا زخمی شخص بھی یہودی تھا، اور کاہن کو اُس کی مدد کرنی چاہئے تھی کیونکہ وہ ایک مذہبی راہنما تھا اور ہر ممکنہ طریقہ سے لوگوں کی خدمت کرنے کا کام اُس کے ذمہ تھا، اور اُسے اپنے تمام کاموں میں قوم کےلئے ایک مثال ہونا تھا۔ اِس لئے، اِس ذمہ داری سے پہلوتہی کرنا ایک بڑا قصور تھا۔

اُس کے بعد ایک لاوی کا وہاں سے گزر ہوا۔ لاوی کاہنوں کے معاون ہوتے تھے، اور مذہبی راہنماﺅں میں دوسری اہم ذمہ داری کے حامل تھے۔ ہم پڑھتے ہیں کہ اُس نے بھی اُس غریب زخمی شخص کو دیکھا اور کترا کر چلا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس میں ترس کا احساس موجود ہو، لیکن وہ احساس عمل میں تبدیل نہ ہوا۔ اُس زخمی شخص کو دیکھ کر وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔

کاہن اور لاوی دونوں ہی شریعت کے اُس حکم سے لاعلم نہیں تھے جہاں اپنے ضرورتمند بھائی کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اِن دونوں مذہبی افراد کے بارے میں کیا سوچا جائے جنہوں نے اپنے بھائی کو سخت بری حالت میں دیکھا لیکن مدد کےلئے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا؟ کیا اُنہوں نے اِس شخص کو اِس لئے نظرانداز کیا تھا کہ وہ پہلے ہی اپنے تمام مذہبی کاموں کو ادا کرنے سے خدا تعالیٰ اور انسانیت کےلئے اپنے فرض کو پورا کر چکے تھے؟ کیا اُنہوں نے سوچا کہ یہ شخص تو مرنے کو ہے اِس کی مدد سے کیا ہو گا؟ بےشک، اگر وہ اُن کے ہاتھوں میں مر جاتا تو وہ "ناپاک" ہو جاتے، اور یوں وہ کچھ دیر کےلئے خاص مذہبی کاموں کو سرانجام نہ دے سکتے۔ اُنہیں یہ الہٰی قول یاد رکھنا چاہئے تھا: "کیونکہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں" (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 6: 6)۔ ممکن ہے شاید اُنہوں نے اِس عُذر کے پیچھے چُھپنے کی کوشش کی کہ یہ سڑک تو بہت خطرناک ہے اوراُنہیں اپنی حفاظت کےلئے یہاں سے تیزی سے نکلنے کی ضرورت تھی۔ ہو سکتا ہے کہ کاہن نے سوچا ہو کہ وہ اِس کام کو اپنے پیچھے آنے والے لاوی کےلئے چھوڑ دیتا ہے۔ دوسری طرف ہو سکتا ہے کہ لاوی نے احساس ذمہ داری محسوس نہ کیا ہو کیونکہ اُس سے پہلے کاہن نے جو اُس سے عہدے میں بڑا تھا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ کیا خدا تعالیٰ ایسے عُذر قبول کر سکتا ہے؟

مسیح نے کاہن اور لاوی دونوں کی مذمّت کی، اور یہ مذمّت ہمارے سامنے اِس بات کا بڑا ثبوت پیش کرتی ہے کہ ایک فرد کے نہ صرف کئے گئے بُرے کاموں کی عدالت ہو گی بلکہ جو عملِ خیر کرنے میں وہ ناکام رہا اُس کا بھی حساب لیا جائے گا۔ اگر عوامی رائے لی جائے تو وہ بھی اِن دونوں افراد کو ہی موردِ الزام ٹھہرائے گی، اِس لئے نہیں کہ اُنہوں نے کوئی غلط کام کیا تھا بلکہ اِس لئے کہ اُنہوں نے اپنے ساتھی انسان کی حالت کو نظرانداز کیا جسے فوری مدد کی ضرورت تھی۔

اَب ہم اپنی توجہ کاہن اور لاوی سے اُس شخص کی طرف لگاتے ہیں جو ہمارے دِل کی خوشی کا باعث بنتا ہے، یعنی تیسرا مسافر، ایک سامری، جو زخمی شخص کا جو ڈاکوﺅں میں گھر گیا تھا ایک دشمن تھا۔ عمومی حالات میں زخمی شخص غالباً سامری پر تھوک دیتا اور اُس کےلئے نفرت محسوس کرتا کیونکہ وہ سماجی طور پر کمتر حیثیت کا مالک تھا۔

ہو سکتا ہے اِس تیسرے مسافر نے سوچا ہو کہ اِس زخمی شخص کے اپنے لوگ اِس کی مدد کئے بغیر گزر گئے ہیں۔ لیکن اِن تمام احساسات کے باوجود اُس نے اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کے الہٰی حکم کی فرمانبرداری کی۔ یہ حکم موسیٰ کی شریعت کی کتابوں میں موجود ہے اور سامری اِن کتابوں پر ایمان رکھتے تھے (پرانا عہدنامہ، احبار 19: 15)۔ یہاں مسیح کے الفاظ حقیقت ثابت ہو رہے ہیں کہ آخر اوّل ہو جائیں گے اور اوّل آخر ہو جائیں گے۔

سامری اپنے جانور سے نیچے اُترا، اُس شخص کے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا، اور اپنے جانور پر سوار کرا کے اُس تمام دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئے اُسے ایک سرائے میں لے گیا۔ یہاں بھی اُس نے اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی نہ کی، بلکہ اُس شخص کا خیال رکھنے کےلئے دو دینار دِئے۔ اور پھر اُس نے وعدہ کیا کہ اگر اُس زخمی شخص کی دیکھ بھال پر کچھ زیادہ خرچ ہو گا تو وہ واپس آ کر ادا کر دے گا۔

جب مسیح نے اِس تمثیل کو ختم کیا تو عالم شرع سے سوال کیا کہ تیری دانست میں کون شخص ایسا ہے جس نے اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کی؟ اُس عالم شرع کا جواب ہونا چاہئے تھا کہ "سامری شخص"۔ لیکن مذہبی فخر نے اُسے یہ سادہ سا جواب دینے کی اجازت نہ دی کہ سامری شخص یہودی کاہن اور لاوی سے بہتر مثال تھا۔ اُس نے صرف یہ جواب دیا کہ "وہ جس نے اُس پر رحم کیا۔" جناب مسیح اُس کے اِس جواب سے مطمئن تھے اور آپ نے کہا "جا۔ تُو بھی ایسا ہی کر۔" باالفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہے تھے کہ سب ضرورتمندوں یہاں تک اپنے دشمنوں پر بھی مہربانی ظاہر کر!

مسیح نے اِس سامری شخص کی تعریف کی، لیکن اِس کا مقصد سامریوں کی بڑائی کرنا یا کاہنوں اور لاویوں کی توہین کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ سکھانا تھا کہ کسی اَور دین کا حامل شخص جو محبت کی شریعت کی فرمانبرداری کرتا ہے، اُس مذہبی شخص سے بہتر ہے جو اُس شریعت کو نظرانداز کرتا ہے۔ عالم شرع نے سوال کیا: "پھِر میرا پڑوسی کون ہے؟"، جبکہ اُسے یہ سوال پوچھنا چاہئے تھا کہ "کیا ہر کوئی میرا پڑوسی نہیں ہے؟ کیا مجھے ہر کسی کو اپنا پڑوسی جانتے ہوئے برتاﺅ نہیں کرنا چاہئے اور اپنی مانند محبت نہیں رکھنی چاہئے؟" پڑوسی وہ ہے جو میرے قریب ہے اور جس تک میرا ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُس کا دِل مجھ سے کتنی دُور ہے یا وہ مجھ سے کتنا لاتعلق ہے، مگر وہ پھر بھی میرا پڑوسی ہے۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جیسے ہم اپنے آپ سے محبت رکھتے ہیں ویسے ہی اپنے پڑوسیوں سے محبت رکھیں، اور اُن کے ساتھ ایسا برتاﺅ کریں جس سے ظاہر ہو کہ یہ محبت حقیقی ہے۔

اِس کہانی میں یسوع نے اپنی بنیادی تعلیم کو دُہرایا ہے، جو یہ ہے کہ کاہن اور لاوی کا رویہ ریاکارانہ تھا: دینداری ظاہری پارسائی کے کاموں پر مشتمل نہیں ہوتی، اِس کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کے بنیادی اصول کو توڑا گیا تھا۔ کاہن اور لاوی نے حقیقتاً خدا سے محبت نہیں کی اور اُن کے مذہبی کام بیکار تھے۔ اِس کے برعکس خدا تعالیٰ نے سامری کو قبول کیا جس نے بظاہر مذہبی فرائض کی بجاآوری نہ کی تھی اور ایک یہودی بھی نہیں تھا مگر اُس نے اپنے ساتھی انسان سے محبت کرنے سے ظاہر کیا کہ وہ خدا سے محبت رکھتا تھا۔

اِس تمثیل میں، مسیح نے مذہبی گروہوں کے درمیان پائے جانے والی رکاوٹ کو دُور کیا اور یہ واضح کیا کہ دین کا جوہر اِس بات میں نہیں کہ ہمارا کس گروہ سے تعلق ہے بلکہ دین کا جوہر محبت ہے۔ مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان معمولی فرق کے باوجود ایمان کی یگانگی کی تصدیق کرنے والا محبت کا ایک رُوحانی بندھن موجود ہونا چاہئے۔ برادرانہ محبت کو تمام طرح کے فرق سے بالا ہونا چاہئے۔ حقیقی سچائی اور بھلائی ایک ہیں، اور حقیقی مسیحی ایمان کی مختلف شاخیں نسل انسانی کےلئے خدا تعالیٰ کے پیغام کو پیش کرتی ہیں۔

الف- مریم اور مرتھا کا مسیح کو خوش آمدید کہنا

"پھِر جب جا رہے تھے تو وہ ایک گاﺅں میں داخل ہوا اور مرتھا نام ایک عورت نے اُسے اپنے گھر میں اُتارا۔ اور مریم نام اُس کی ایک بہن تھی۔ وہ یسوع کے پاﺅں کے پاس بیٹھ کر اُس کا کلام سُن رہی تھی۔ لیکن مرتھا خدمت کرتے کرتے گھبرا گئی۔ پس اُس کے پاس آ کر کہنے لگی اے خداوند! کیا تجھے خیال نہیں کہ میری بہن نے خدمت کرنے کو مُجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ پس اُسے فرما کہ میری مدد کرے۔ خداوند نے جواب میں اُس سے کہا مرتھا! مرتھا! تُو تو بہت سی چیزوں کی فکر و تردُّد میں ہے۔ لیکن ایک چیز ضرور ہے اور مریم نے وہ اچھا حصہ چُن لیا ہے جو اُس سے چھینا نہ جائے گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 10: 38- 42)

مسیح اور اُس کے شاگرد یروشلیم کی طرف رواں دواں تھے، یہاں تک کہ بیت عنیاہ میں پہنچے جو یروشلیم سے تقریباً پون گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ تاریخ میں بیت عنیاہ کا ایک خاص مقام ہے کیونکہ یہاں ایک خداپرست خاندان رہتا تھا۔ اِس خاندان کے افراد یسوع کے ذاتی دوست تھے اور اُنہوں نے یسوع اور اُس کے شاگردوں کو جب کبھی بھی ضرورت پڑی آرام دہ رہائش فراہم کی۔ جب یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ اِس گھر میں داخل ہوئے تو گاﺅں کے دوسرے لوگ بھی وہاں آئے جنہیں یسوع نے اپنے دستور کے موافق تعلیم دی۔ اُس وقت دونوں بہنوں مریم اور مرتھا نے اپنے معزز مہمان کی خدمت کی، اگرچہ کہ دونوں کا انداز فرق تھا۔ مرتھا بڑی ہونے کے ناتے گھر کی نگران تھی اور اُن کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھ رہی تھی۔ جب کبھی بھی مردِ معجزات یسوع اُن کے ہاں آتے تو وہ سب کےلئے کھانا تیار کرتی۔

جہاں تک مریم کا تعلق ہے، وہ سمجھ گئی تھی کہ مسیح پُرتکلف ضیافت کا خواہشمند ایک روایتی اُستاد نہیں تھا، بلکہ اُس کی حقیقی خوشی اِس بات میں تھی کہ لوگ اُس کی تعلیم پر دھیان دیں۔ آپ نے فرمایا تھا: "مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے" (انجیل بمطابق متی 5: 6)۔ اِسی لئے، مریم یسوع کے پاﺅں کے پاس بیٹھ کر اُس کا کلام سُن رہی تھی۔ مریم کا یہ عمل بہت خوبصورتی سے لوگوں کے اُس چھوٹے سے گروہ کی ترجمانی کرتا ہے جن کے نزدیک خدا تعالیٰ پر ایمان کے مقابلہ میں دُنیا کی ہر چیز کمتر ہے۔ ایسے لوگ دُنیا اور اُس کی شرارت کو چھوڑ کر اپنے ایمان کو سب چیزوں سے زیادہ بلند درجہ دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام کتابِ حیات میں لکھے ہوئے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی کےلئے چُن لیا ہے۔

مرتھا کی خطا یہ تھی کہ اُس نے دُنیا کی اچھی چیز کو خدا پر ایمان سے زیادہ اہمیت دی۔ کتنی مرتبہ "اچھی" چیز "بہترین" کی دُشمن ہوتی ہے۔ چونکہ گناہ مزید گناہ کی طرف لے کر جاتا ہے، اِس لئے وہ اپنے دِل میں اپنی بہن کے خلاف بڑبڑائی اور یسوع کے پاﺅں میں بیٹھنے پر اُس کے ساتھ حسد کیا۔ اِس کے نتیجہ میں اُس نے اُستاد سے شکایت کی۔ اُسے تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ اُس کی بہن کو سیکھنے کا نادِر موقع ملا تھا۔ وہ اپنی بہن سے یہ کہہ سکتی تھی "مہربانی سے پہلے میری مدد کرو، اور پھر ہم اکھٹے خداوند کے قدموں میں بیٹھیں گے۔" لیکن اِس کے برعکس اُس نے اپنی بہن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "اُسے فرما کہ میری مدد کرے۔"

جناب مسیح مادی اشیاء کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتے تھے اور اکثر رُوحانی ضروریات کے ساتھ ساتھ آپ نے مادی ضروریات بھی پوری کیں۔ تاہم، آپ نے واضح کیا کہ آپ کو یہ بات زیادہ پسند تھی کہ وہ جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کی نسبت بیٹھ کر آپ کی تعلیم سُنے۔

خداوند نے اُسے کہا: "مرتھا! مرتھا! تُو تو بہت سی چیزوں کی فکر و تردُّد میں ہے۔" یہ ایسے تھا کہ جیسے آپ اُسے کہہ رہے تھے کہ دُنیوی معاملات کے ساتھ مصروفیت نے اُس کا اطمینان، سکون اور خوشی چُرا لی تھی، جو اُسے مادی بہبود کی نسبت پہلے خدا کی بادشاہی کی تلاش کرنے سے مل سکتی تھی۔ صرف ایک چیز ضروری تھی، اور مریم نے وہ اچھا حصہ چُن لیاتھا جو اُس سے چھینا نہ جا سکتا تھا۔

8- مسیح کا ایک اندھے شخص کی آنکھیں کھولنا

"پھِر اُس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔ اور اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اے ربّی! کِس نے گناہ کیاتھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اِس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟ یسوع نے جواب دیا کہ نہ اِس نے گناہ کیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے، بلکہ یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں۔ جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرور ہے۔ وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کرسکتا۔ جب تک میں دُنیا میں ہوں دُنیا کا نُور ہوں۔ یہ کہہ کر اُس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مِٹّی سانی اور وہ مِٹّی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر اُس سے کہا، جا شیلوخ (جس کا ترجمہ "بھیجا ہوا" ہے) کے حوض میں دھو لے۔ پس اُس نے جا کر دھویا اور بینا ہو کر واپس آیا" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 1- 7)

جب مسیح یروشلیم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے تھے تو آپ نے ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا۔ آپ کے شاگردوں نے آپ سے پوچھا: "کِس نے گناہ کیاتھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اِس شخص نے یا اِس کے ماں باپ نے؟" یسوع نے جواب دیا کہ یہ دونوں میں سے کسی کے گناہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ اِس لئے ہوا کہ خدا کے کام اُس میں ظاہر ہوں۔

یسوع کے اِن تسلی بخش الفاظ اور دوسروں کے حوصلہ شکنی کرنے والے اُن الفاظ میں کس قدر عظیم فرق تھا جو اِس شخص نے اپنے اندھے پن کی وجہ کے بارے میں سُنے تھے۔ پہلی مرتبہ اُسے احساس ہوا کہ وہ لعنتی نہیں تھا اور خدا نے اُسے چھوڑ نہیں دیا تھا۔ بلکہ اِس کے برعکس خدا کی مہربانی اُس پر تھی اور وہ اُس کے بھلے مقاصد کے تحت اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ اِس احساس نے اُسے مایوسی سے اُمید کی دُنیا میں پہنچا دیا۔ جب اُس اندھے شخص نے بولنے والے فرد کا نام پوچھا تو اُسے بتایا گیا کہ یہ "یسوع" ہے۔ اُسے کس قدر افسوس ہوا ہو گا کہ وہ اندھا تھا اور اُس لمحہ اُس شخصیت کو دیکھ نہیں سکتا تھا جو فاتح تھی۔ اِس شخص کو لوگوں کی طرف سے کانسی کے سِکّے ملتے تھے، اور اگر مسیح اِسے سونے کے سِکّے بھی دے دیتا تو اُن کی قدر اُس جواب سے کم تھی جو شاگردوں کے سوال پر مسیح نے دیا تھا۔

اِس جواب نے اُس کی زندگی میں مسیح کے بھلے کام کے آغاز کی نشاندہی کی۔ یسوع نے سب سے پہلے اپنے سامعین کی توجہ اُس مختصر وقت کی طرف دِلوائی جو کام کرنے کےلئے مسیح کے پاس تھا۔ آپ نے کہا: "جس نے مجھے بھیجا ہے ہمیں اُس کے کام دِن ہی دِن کو کرنا ضرور ہے۔" پھر آپ نے اپنے آپ کو "دُنیا کا نُور" کہا جو ہر شخص کو روشن کرتا ہے۔ یسوع کا مطلب یہ تھا کہ اِس اندھے شخص پر جو تاریکی کی مصیبت آئی ہوئی تھی وہ مسیح کی کامل فطرت کے نور کے برعکس تھی، اِس لئے مسیح اِسے دُور کرنے کو تھا۔ آپ نے زمین پر تھوکا اور کچھ مٹی سانی اور اُسے لے کر اندھے شخص کی آنکھوں پر لگا دیا۔ پھر آپ نے اُسے کہا کہ وہ شیلوخ کے حوض پر جا کر اُنہیں دھو لے۔ اُس شخص نے جا کر ایسا ہی کیا اور بینا ہو کر واپس آیا۔

اِس عمل میں شفا دینے کے طریقے اور اُس کے نتائج کے درمیان پائے جانے والے بڑے فرق سے الہٰی قدرت ظاہر ہوئی۔ کیچڑ عموماً ایک آنکھ کی بینائی کو متاثر کرتا ہے، لیکن اِس شخص کی آنکھوں پر مٹی لگانی اِس لئے ضروری تھی کہ وہ مسیح اور اِس معجزے کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو سمجھ جائے۔ اِس نے اندھے شخص کی رُوح میں ایمان کی شمع کو بھی جلایا، اور اُس کی مدد کی کہ وہ ایمان کے پھل، فرمانبرداری کی اہمیت کو جان جائے۔ اُسے فرمانبرداری کرنی تھی وگرنہ اُسے اِس عمل سے کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا۔ اُس کا حیرت انگیز طور پر ٹھیک ہونا اگرچہ اُس کے اپنے عمل کا نتیجہ نہیں تھا لیکن اُس کے فرمانبردار ایمان کا نتیجہ تھا۔ اگر وہ ایمان نہ لاتا تو فرمانبرداری نہ کرتا۔ مزید برآں، ایمان لانے کے بعد اگر وہ فرمانبرداری نہ کرتا تو یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اُس کے اندر سچا ایما ن تھا۔ اُس نے شفا پائی کیونکہ اُس میں ایمان تھا جس کا نتیجہ فرمانبرداری میں نکلا۔ نجات کے دو اہم اصول یہ ہیں: ایمان اور فرمانبرداری۔ جو ایمان لاتا ہے وہ نجات یافتہ ہے کیونکہ یقیناً وہ اپنے ایمان کے مطابق عمل کرے گا۔ اگر وہ موقع ملنے پر عمل نہیں کرتا تو غالباً ایسا اِس لئے ہوتا ہے کہ وہ شروع میں حقیقی طور پر ایمان نہیں لایا ہوتا۔ وہ ہلاک ہو جاتا ہے، اِس لئے نہیں کہ اُس نے عمل نہیں کیا ہوتا، بلکہ اِس لئے کہ وہ حقیقی ایمان نہیں لایا ہوتا۔

ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یہ اندھا شخص جتنی جلدی ہو سکتا شیلوخ کی حوض کی طرف چلا جا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کے چہرے پر لگی مٹی کی وجہ سے اُس کا مذاق اُڑایا گیا ہو، مگر یہ بات فرمانبردار ہونے میں مزاحم نہ ہو سکی; اور نہ ہی مذہبی راہنماﺅں کا مشورہ جنہوں نے اُسے مسیح کی بات کو نہ ماننے کےلئے کہا، اُسے اِس ارادے سے باز رکھ سکا۔ اُس نے اِس بات کی فکر نہ کی کہ سبت کے دِن کام کرنا مذہبی راہنماﺅں کو غصہ دِلا دے گا۔ اُن کی تلخی اُس کے کمزور ایمان کو ختم نہ کر سکی، اور نہ ہی اُس جگہ جانے سے روک سکی جہاں مسیح نے اُسے جانے کےلئے کہا تھا۔ اپنی بینائی پانے کے بعد وہ اُسی جگہ واپس آیا جہاں اُس نے یسوع کو چھوڑا تھا۔ وہ اُس شخصیت کو دیکھنا چاہتا تھا جس نے اُسے یہ بیش قیمت بخشش عطا کی تھی، وہ اُس کا شکر ادا کرنا چاہتا تھا اور نئی روحانی راہنمائی کا متمنی تھا۔ تاہم، اُسے یسوع مسیح وہاں نہیں ملے، اور کوئی بھی فرد موجود نہیں تھا جو اُسے بتا سکتا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔

یہ معجزہ نجات کے کام کی ایک مناسب علامت ہے۔ اِس معجزہ نے جنم کے اندھے شخص کو وہ عطا کیا جو اُس کے پاس پہلے نہیں تھا۔ گناہ میں پیدا ہونے کی وجہ سے وہ رُوحانی طور پر اندھا پیدا ہوا تھا، یہی بات یہودی بزرگ اُس سے کہتے تھے۔ اِس لئے، مسیح نے اُسے جسمانی طور پر بینائی عطا کرتے ہوئے رُوحانی بینائی جیسی نہایت ہی بڑی نعمت بھی بخشی۔ ہم بھی اِس دُنیا میں رُوحانی طور پر اندھے پیدا ہوئے ہیں جنہیں خداوند یسوع مسیح ایمان اور فرمانبرداری کے ذریعے بینائی عطا کرتا ہے۔

"پس پڑوسی اور جِن جِن لوگوں نے پہلے اُس کو بھیک مانگتے دیکھا تھا کہنے لگے کیا یہ وہ نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا؟ بعض نے کہا یہ وہی ہے، اوروں نے کہا نہیں لیکن اُس کا کوئی ہم شکل ہے۔ اُس نے کہا میں وہی ہوں۔ پس وہ اُس سے کہنے لگے پھِر تیری آنکھیں کیوں کر کُھل گئیں؟ اُس نے جواب دیا کہ اُس شخص نے جس کا نام یسوع ہے مِٹّی سانی اور میری آنکھوں پر لگا کر مجھ سے کہا شیلوخ میں جا کر دھو لے۔ پس میں گیا اور دھو کر بینا ہو گیا۔ اُنہوں نے اُس سے کہا وہ کہاں ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں جانتا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 8- 12)

اندھے شخص کو سبت کے دِن بینائی ملی جو یہودیوں کےلئے آرام کا دِن تھا۔ اِس لئے جب متعصب یہودیوں کو پتا چلا کہ اُسے سبت کے دِن شفا ملی ہے تو وہ سخت غصے ہوئے اور اُسے سزا دینا چاہتے تھے۔ جنم کے اندھے کو شفا دینے کا جو کام یسوع نے کیا تھا کسی نے بھی اُس کا دِفاع کرنے کی جرأت نہ کی کیونکہ یہودی بزرگوں نے سب کے سامنے اِس بات کا اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی اُس کے مسیح ہونے کا اقرار کرے گا تو عبادت خانہ سے خارج کیا جائے گا اور اُسے مذہبی یا سماجی حقوق سے محروم رکھا جائے گا۔

جب اُس شخص کو یسوع نہ ملا تو وہ اپنے گھر آیا اور اُس نے اپنے ماں باپ اور اپنے پڑوسیوں کو دیکھا۔ وہ تقریباً تیس برس کا تھا اور اُنہیں اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا۔

جو کچھ اِس شخص کے ساتھ ہوا تھا اُس کی وجہ سے اِس کے چہرے پر آنے والی تبدیلی کس قدر بڑی تھی; اُس کی آنکھیں کُھل گئیں تھیں، اُس کا چہرہ خوشی کی وجہ سے دمک رہا تھا، اُس کا انداز اِس حد تک مختلف لگ رہا تھا کہ جو اُسے جانتے تھے وہ اُسے پہچان نہ سکے۔ اِسی وجہ سے جو کچھ ہوا تھا اُس کے بارے میں فرق فرق آراء تھیں۔ کچھ نے اِسے دھوکا قرار دیا اور کہا کہ جس اندھے شخص کو وہ جانتے تھے یہ وہ نہیں ہے بلکہ کوئی اُس کا ہمشکل ہے۔ لیکن اُس نے اصرار کے ساتھ کہا "میں وہی ہوں۔"

جب اُس سے پوچھا گیا کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کس نے ایسا کیا تو اُس نے تمام حقائق بیان کئے۔ لیکن جب اُس سے پوچھا گیا کہ اُس کو شفا دینے والا کہاں گیا تو وہ صرف یہ کہہ سکا: "میں نہیں جانتا۔" یقیناً اُس کے دِل میں یہ خواہش ہو گی کہ وہ اِس قابل ہوتا کہ لوگوں کی مسیح کی طرف راہنمائی کر سکتا۔

"لوگ اُس شخص کو جو پہلے اندھا تھا فریسیوں کے پاس لے گئے۔ اور جس روز یسوع نے مِٹّی سان کر اُس کی آنکھیں کھولی تھیں وہ سبت کا دِن تھا۔ پھِر فریسیوں نے بھی اُس سے پوچھا تُو کِس طرح بینا ہوا؟ اُس نے اُن سے کہا اُس نے میری آنکھوں پر مِٹّی لگائی۔ پھِر میں نے دھو لیا اور اَب بینا ہوں۔ پس بعض فریسی کہنے لگے یہ آدمی خدا کی طرف سے نہیں کیونکہ سبت کے دِن کو نہیں مانتا مگر بعض نے کہا کہ گنہگار آدمی کیونکر اَیسے معجزے دِکھا سکتا ہے؟ پس اُن میں اختلاف ہوا۔ اُنہوں نے پھِر اُس اندھے سے کہا کہ اُس نے جو تیری آنکھیں کھولی ہیں تُو اُس کے حق میں کیا کہتا ہے؟ اُ س نے کہا وہ نبی ہے۔ لیکن یہودیوں کو یقین نہ آیا کہ یہ اندھا تھا اور بینا ہو گیا ہے۔ جب تک اُنہوں نے اُس کے ماں باپ کو جو بینا ہو گیا تھا بُلا کر اُن سے نہ پوچھ لیا کہ کیا یہ تمہارا بیٹا ہے جسے تم کہتے ہو کہ اندھا پیدا ہوا تھا؟ پھِر وہ اَب کیونکر دیکھتا ہے؟ اُس کے ماں باپ نے جواب میں کہا ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمارا بیٹا ہے اور اندھا پیدا ہوا تھا۔ لیکن یہ ہم نہیں جانتے کہ اَب وہ کیونکر دیکھتا ہے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کِس نے اُس کی آنکھیں کھولیں۔ وہ تو بالغ ہے۔ اُسی سے پوچھو۔ وہ اپنا حال آپ کہہ دے گا۔ یہ اُس کے ماں باپ نے یہودیوں کے ڈر سے کہا کیونکہ یہودی ایکا کر چکے تھے کہ اگر کوئی اُس کے مسیح ہونے کا اقرار کرے تو عبادتخانہ سے خارج کیا جائے۔ اِس واسطے اُس کے ماں باپ نے کہا کہ وہ بالغ ہے اُسی سے پوچھو۔" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 13- 23)

متعصب یہودی جب اُس شخص کو نہ ڈھونڈ سکے جس نے سبت کے دِن کی خلاف ورزی کی تھی، تو وہ اِس شخص کو جو اندھا تھا صدر عدالت میں لے گئے تا کہ اُس سے سوال کر سکیں۔ جب اِس شخص نے تمام ماجرا خود بتایا تو اُنہیں پتا چلا کہ اِس تمام واقعہ کی وجہ یسوع ہے جس سے وہ نفرت کرتے ہیں اور قتل کرنا چاہتے تھے، اور تب اُنہیں سمجھ نہ آئی کہ کیا کریں۔ اگر وہ سبت کے توڑنے پر مسیح کی بازپرس کرتے تو وہ اِس معجزے کی تصدیق کرنے والے ٹھہرتے اور یوں مسیح کے بارے میں خبر اَور پھیل جاتی۔ اِس طرح اِس بات کا امکان تھا کہ لوگوں کا ہجوم مسیح کی طرف کھِنچا چلا آتا اور آپ کو بادشاہ بنانے کی ایک سیاسی تحریک اُبھرنا شروع ہو جاتی کیونکہ یہ وقت بڑی عید کا وقت تھا۔ لیکن اگر وہ اُس معجزے کا انکار کرتے تو اُن کا سبت کو توڑنے کا الزام ختم ہو جاتا تھا۔ اِس لئے، وہ شش و پنج کا شکار ہو کر آپس میں بحث کرنے لگے۔ پہلے اُنہوں نے معجزے کی تصدیق کی تھی، لیکن اَب اُنہوں نے یہ کہنے سے اِس کے مثبت اثر کو ختم کرنے کی کوشش کی کہ یہ سبت کے دِن ہوا تو ہے لیکن یہ خدا کی طرف سے نہیں ہوا بلکہ شیطانی قوت سے ہوا ہے۔ تاہم عدالت میں کچھ لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: "گنہگار آدمی کیونکر اَیسے معجزے دِکھا سکتا ہے؟"

اِس سے اُن میں اختلاف پیدا ہوا اور اُنہوں نے اپنے منصوبہ کو بدل دیا۔ اَب اُنہوں نے کوشش کی کہ اِس معجزہ کے ہونے کا انکار کریں اور یسوع پر دھوکے کا الزام لگائیں۔ لیکن اِس کےلئے اُنہیں پہلے شفا پانے والے شخص اور اُس کے ماں باپ سے ایسے ہونے کا جبراً انکار کروانا تھا۔ تاہم، وہ ایسا نہ کروا سکے، کیونکہ شفا پانے والے شخص نے اِن الفاظ میں شفا کی تصدیق کی: "ایک بات جانتا ہوں کہ میں اندھا تھا۔ اب بینا ہوں۔" یہ الفاظ اُن بہت سے لوگوں کا اقرار ہے کہ جنہوں نے مسیح میں زندہ ایمان کی بدولت نجات کا تجربہ کیا ہے۔

"پس اُنہوں نے اُس شخص کو جو اندھا تھا دوبارہ بُلا کر کہا کہ خدا کی تمجید کر۔ ہم تو جانتے ہیں کہ یہ آدمی گنہگار ہے۔ اُس نے جواب دیا میں نہیں جانتا کہ وہ گنہگار ہے یا نہیں۔ ایک بات جانتا ہوں کہ میں اندھا تھا۔ اب بینا ہوں۔ پھِر اُنہوں نے اُس سے کہا کہ اُس نے تیرے ساتھ کیا کیا؟ کس طرح تیری آنکھیں کھولیں؟ اُس نے اُنہیں جواب دیا میں تو تم سے کہہ چکا اور تم نے نہ سُنا۔ دوبارہ کیوں سُننا چاہتے ہو؟ کیا تم بھی اُس کے شاگرد ہونا چاہتے ہو؟ وہ اُسے برا بھلا کہہ کر کہنے لگے کہ تُو ہی اُس کا شاگرد ہے۔ ہم تو موسیٰ کے شاگرد ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ کے ساتھ کلام کیا ہے مگر اِس شخص کو نہیں جانتے کہ کہاں کا ہے؟ اُس آدمی نے جواب میں اُن سے کہا یہ تو تعجب کی بات ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کہاں کا ہے حالانکہ اُس نے میری آنکھیں کھولیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا گنہگاروں کی نہیں سُنتا لیکن اگر کوئی خدا پرست ہو اور اُس کی مرضی پر چلے تو وہ اُس کی سُنتا ہے۔ دُنیا کے شروع سے کبھی سُننے میں نہیں آیا کہ کِسی نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں۔ اگر یہ شخص خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا۔ اُنہوں نے جواب میں اُس سے کہا تُو تو بالکل گناہوں میں پیدا ہوا۔ تُو ہم کو کیا سکھاتا ہے؟ اور اُنہوں نے اُسے باہر نکال دیا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 24- 34)

جب یہودی بزرگوں نے بینائی پانے والے شخص سے سوال کیا تو اُس نے جواب دیا: "میں تو تم سے کہہ چکا اور تم نے نہ سُنا۔ دوبارہ کیوں سُننا چاہتے ہو؟ کیا تم بھی اُس کے شاگرد ہونا چاہتے ہو؟" یہ سُن کر اُنہوں نے اُسے بُرا بھلا کہا، اور اُسے ایک نامعلوم گلیلی شخص کے شاگرد ہونے کا طعنہ دیا اور خود کو موسیٰ کا شاگرد کہتے ہوئے فخر کا اظہار کرنے لگے۔ اُنہوں نے اُسے ملامت کی اور الزام لگایا کہ مسیح کو ایک نبی کہنے سے وہ راہِ حق سے پھر گیا ہے اور اُس نے خدا کا انکار کیا ہے۔ شفا پانے والے شخص نے اُن پر تعجب کا اظہار کیا کہ وہ اُس شخص کے بارے میں نہیں جانتے جس کے کام بتاتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اُس نے اپنی بات جن جامع اور موثر الفاظ میں کہی وہ اُس میں بصیرت، جرأت اور ایمان کو ظاہر کرتے ہیں۔ اُس نے اُنہیں یاد دِلایا کہ پہلے کبھی سُننے میں نہیں آیا کہ کِسی نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں۔ مزید برآں، اُس نے کہا "ہم جانتے ہیں کہ خدا گنہگاروں کی نہیں سُنتا لیکن اگر کوئی خدا پرست ہو اور اُس کی مرضی پر چلے تو وہ اُس کی سُنتا ہے۔" تب یہودی بزرگوں نے اُسے جواب دیا: "تُو تو بالکل گناہوں میں پیدا ہوا۔ تُو ہم کو کیا سکھاتا ہے؟" پھر اُنہوں نے اُسے باہر نکال دیا۔

بینائی پانے والے اِس شخص کے الفاظ کتاب مُقدّس پر مبنی تھے، کیونکہ خدا تعالیٰ اُس گنہگار کی دُعا کو سُنتا ہے جو اُس کی مرضی پر چلتا ہے۔ اِس بات سے وہ سخت غصہ میں آ گئے اور پھر اُسے برا بھلا کہنے لگے اور اُسے اپنی جماعت میں سے باہر نکال دیا۔

"یسوع نے سُنا کہ اُنہوں نے اُسے باہر نکال دیا اور جب اُس سے ملا تو کہا کیا تُو خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا اے خداوند وہ کون ہے کہ میں اُس پر ایمان لاﺅں؟ یسوع نے اُس سے کہا تُو نے تو اُسے دیکھا ہے اور جو تجھ سے باتیں کرتا ہے وہی ہے؟ اُس نے کہا اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں اور اُسے سجدہ کیا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 35- 38)

جب اُسے جماعت سے باہر نکال دیا گیا تو بعد میں مسیح اُس سے ملے اور پوچھا: "کیا تُو خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟" یسوع مسیح نے عقلمندوں پر اپنے آپ کو ابنِ خدا کے طور پر ظاہر نہ کیا بلکہ اِس غریب شخص پر ظاہر کیا جو ایمان لانے کےلئے تیار تھا۔ اُس شخص نے مسیح سے کہا: "اے خداوند وہ کون ہے کہ میں اُس پر ایمان لاﺅں؟"، یوں اُس نے اِن الفاظ میں اپنی دِلی ارادے کا اظہار کیا۔ یسوع نے اُسے جواب دیا: "تُو نے تو اُسے دیکھا ہے اور جو تجھ سے باتیں کرتا ہے وہی ہے؟" تب اُس نے کہا: ”اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں۔"

ایک یہودی ہوتے ہوئے اِس شخص کےلئے یہ جواب دینا کس قدر مشکل تھا۔ اُس کے سامنے موجود شخص یسوع کیسے ابنِ خدا ہو سکتا تھا؟ اُس کے سامنے دو راستے تھے: اُس کے سامنے سجدے میں گر کر اُس کی تمجید کرے یا ایسا نہ کرے۔ اگر وہ ایسے نہ کرتا تو یہ ایک بڑا گناہ ہوتا۔ پہلے اُس نے اقرار کیا تھا کہ مسیح ایک نبی ہے لیکن اُس نے مسیح کی تمجید نہیں کی تھی۔ مگر اَب اُس نے مسیح کی تمجید کی کیونکہ وہ ایمان لایا کہ مسیح خدا کا بیٹا تھا اور وہ ایک نبی یا بادشاہ سے بھی زیادہ عزت و تعظیم کا مستحق تھا۔

اُسی لمحہ اُس نے اپنے رُوحانی اندھے پن سے شفا پائی۔ اَب وہ اپنی جسمانی آنکھوں اور اپنے ایمان کی رُوحانی آنکھوں سے واضح طور پر دیکھ سکتا تھا کہ یسوع ناصری ابن مریم خدا کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اُس غریب شخص نے یہودیوں کے بزرگوں سے لعن طعن سُنی تھی اور اُسے رد کیا گیا تھا، لیکن مسیح نے اُسے کثرت کی برکات اور نجات بخشی۔ مذہبی لوگوں نے اُسے عبادتخانہ سے خارج کر دیا اور اُس کے سامنے اُن مذہبی استحقاق کا دروازہ اُس کےلئے بند کر دیا جو اُسے حاصل تھے، لیکن مسیح نے اُس کی راہنمائی خدا کی بادشاہی کی طرف کی اور اُس کےلئے آسمان کا دروازہ کھولا۔ اپنے اندھے پن کی وجہ سے اُس نے ابدی نجات حاصل کی، آسمانی دوست کی دوستی پائی، اور تاریخ کے اوراق میں اُس کا اندراج اچھے الفاظ میں کیا گیا ہے جو تا ابد قائم رہے گا۔ اُس نے مسیح کی خدمت کی، اُس کی شہرت کا باعث بنا اور اُس کی گواہی دی۔ اُس نے اپنے اردگرد اُن لوگوں کو جو نجات کا پیغام سُننے کےلئے تیار تھے، نجات دہندہ کے پاس آنے اور اُس سے نجات کی بخشش پانے کےلئے کافی دلائل دیئے۔ یقیناً وہ آسمان پر مقدسین کے ساتھ ہے جو ہمیشہ اِس بات کےلئے شکرگزار ہو گا کہ وہ جنم کا اندھا پیدا ہوا تھا۔

9- مسیح اچھا چرواہا

"یسوع نے کہا میں دُنیا میں عدالت کےلئے آیا ہوں تا کہ جو نہیں دیکھتے وہ دیکھیں اور جو دیکھتے ہیں وہ اندھے ہو جائیں۔ جو فریسی اُس کے ساتھ تھے اُنہوں نے یہ باتیں سُن کر اُس سے کہا کیا ہم بھی اندھے ہیں؟ یسوع نے اُن سے کہا کہ اگر تم اندھے ہوتے تو گنہگار نہ ٹھہرتے۔ مگر اَب کہتے ہو کہ ہم دیکھتے ہیں۔ پس تمہارا گناہ قائم رہتا ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی دروازہ سے بھیڑخانہ میں داخل نہیں ہوتا بلکہ اَور کِسی طرف سے چڑھ جاتا ہے وہ چور اور ڈاکو ہے۔ لیکن جو دروازہ سے داخل ہوتا ہے وہ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ اُس کےلئے دربان دروازہ کھول دیتا ہے اور بھیڑیں اُس کی آواز سُنتی ہیں اور وہ اپنی بھیڑوں کو نام بنام بُلا کر باہر لے جاتا ہے۔ جب وہ اپنی سب بھیڑوں کو باہر نکال چکتا ہے تو اُن کے آگے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیتی ہیں کیونکہ وہ اُ س کی آواز پہچانتی ہیں۔ مگر وہ غیر شخص کے پیچھے نہ جائیں گی بلکہ اُس سے بھاگیں گی کیونکہ غیروں کی آواز نہیں پہچانتیں۔ یسوع نے اُن سے یہ تمثیل کہی لیکن وہ نہ سمجھے کہ یہ کیا باتیں ہیں جو ہم سے کہتا ہے۔" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 39- 10: 6)

جب مسیح نے جنم کے اندھے شخص کی آنکھیں کھولیں تو یہودی بزرگوں نے مسیح کی مخالفت کی۔ پھر اُنہوں نے اُس شخص سے بھی عداوت رکھی اور اُسے یہودی جماعت سے خارج کر دیا۔ اَب مسیح نے اُنہیں کیسے مخاطب کرنا تھا؟ آپ نے اُنہیں چور اور ڈاکو کہہ کر مخاطب کیا کیونکہ وہ خدا کی طرف سے واحد مقرر کئے ہوئے دروازہ یسوع مسیح سے داخل نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ اِس کے برعکس وہ کسی اَور طرف سے چڑھ کر آئے۔ بغیر کسی الہٰی بلاوے یا اہلیت کے، اُنہوں نے اپنے عہدے رُتبے سیاسی ذریعوں سے حاصل کئے تھے۔ وہ بھیڑخانہ میں چپکے سے گُھس آئے تھے، اور اپنی وراثت، اثر، خوشامد، رشوت، چالبازی یا ظلم و استبداد کے ذریعے کہانت کی یا پاسبانی ذمہ داریاں حاصل کی تھیں۔ اگر وہ دروازہ سے داخل نہیں ہوئے تھے تو سردار کاہن ہارون کے گھرانے سے ہونے کا اُنہیں کیا فائدہ تھا؟

الف- مسیح دروازہ ہے

"پس یسوع نے اُن سے پھِر کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں۔ جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکو ہیں مگر بھیڑوں نے اُن کی نہ سُنی۔ دروازہ میں ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پائے گا اور اندر باہر آیا جایا کرے گا اور چارا پائے گا۔ چور نہیں آتا مگر چرانے اور مار ڈالنے اور ہلاک کرنے کو۔ میں اِس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 10: 7- 10)

علم الہٰی کے ایک ماہر نے ایک مرتبہ لکھا: "انسانوں کا اچھا چرواہا وہ ہے جو اپنا عہدہ مسیح سے محبت کی خاطر قبول کرتا ہے، مسیح کو جلال دینا چاہتا ہے، اپنے کام کو مسیح کی مضبوطی میں سرانجام دیتا ہے، اُس کی تعلیم سکھاتا ہے، اُس کے نقشِ قدم پر چلتا ہے، اور رُوحوں کو اُس کے پاس لانے کےلئے کوشاں رہتا ہے۔" پاسبانی خدمت میں مسیح جو دروازہ ہے، اُس کے بغیر کوئی داخلہ نہیں ہے۔ اُس کے بغیر نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایک پاسبان کو مسیح کی اجازت کے بغیر اپنے کام کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اُس نے فرمایا: "دروازہ میں ہوں۔" مزید برآں، چرواہوں کےلئے دروازہ بھیڑوں یعنی عام ایمانداروں کےلئے بھی دروازہ ہے۔

ب- مسیح اچھا چرواہا ہے

"اچھا چرواہا میں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہے۔" (انجیل بمطابق یوحنا 10: 11)

مسیح نے اپنے آپ کو اچھے چرواہے کے طور پر بیان کیا۔ پرانے عہدنامہ میں زبور نویس نے کہا: "اے اسرائیل کے چوپان! تُو جو گلہ کی مانند یُوسُف کو لے چلتا ہے کان لگا! تُو جو کروبیوں پر بیٹھا ہے جلوہ گر ہو!" (زبور 80: 1)۔ یسعیاہ نبی نے کہا: "وہ چوپان کی مانند اپنا گلہ چرائے گا۔ وہ بروں کو اپنے بازوﺅں میں جمع کرے گا اور اپنی بغل میں لے کر چلے گا اور اُن کو جو دودھ پلاتی ہیں آہستہ آہستہ لے جائے گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 40: 11)۔ انتہائی خوبصورت ترین زبور وہ ہے جس میں چرواہے کا ذِکر ہے: "خداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی" (زبور 23: 1)۔

ایک چرواہے کا کام آسان نہیں ہوتا۔ اِس میں مشکلات اور جنگلی جانوروں کے خطرات شامل ہیں۔ مسیح نے اچھے چرواہے کے طور پر بڑی مشکلات اور سختیاں برداشت کیں اور اپنی بھیڑوں کو بچانے کےلئے اپنی جان دے دی۔ اِس کے برعکس جنہیں یسوع نے "چور" کہا ہے وہ سوائے چرانے اور مارنے کے نہیں آئے، اور جنہیں یسوع نے "مزدور" کہا ہے وہ خطرے میں بھیڑوں کی حفاظت نہیں کرتے بلکہ گلے کو پراگندہ اور ہلاک ہونے کےلئے چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ اُنہیں حقیقت میں بھیڑوں کی فکر نہیں ہوتی۔

مسیح وہ اچھا چرواہا ہے جس نے بھیڑوں کےلئے اپنی جان دی ہے۔ بھیڑوں کو شیطان کے چُنگل سے چھڑا نے کےلئے اُس نے موت سہی جس کا وہ مستحق نہ تھا اور اُن سب کو زندگی بخشی جو رُوحانی طور پر مُردہ تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بھیڑوں کی اجتماعی اور شخصی طور پر کتنی زیادہ قدر کرتا ہے۔ وہ گلے کے ہر رُکن کو شخصی طور پر جانتا ہے اور اُن کے نام سے اور دِلی بھیدوں سے بھی واقف ہے۔ اُس کا ہر فرد کو جاننا اور اُن کی فکر کرنا بےبیان ہے، اور یہ حقیقت آج بھی بالکل ویسے ہی ہے جیسے اُس وقت تھی جب اُس نے اپنی جان صلیب پر دی تھی۔

ج- چرواہا اپنی جان دیتا ہے

"مزدور جو نہ چرواہا ہے نہ بھیڑوں کا مالک۔ بھیڑئے کو آتے دیکھ کر بھیڑوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور بھیڑیا اُن کو پکڑتا اور پراگندہ کرتا ہے۔ وہ اِس لئے بھاگ جاتا ہے کہ مزدور ہے اور اُس کو بھیڑوں کی فکر نہیں۔ اچھا چرواہا میں ہوں۔ جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو جانتا ہوں۔ اِسی طرح میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور میں بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہوں۔ اور میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑخانہ کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سُنیں گی۔ پھِر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا۔ باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تا کہ اُسے پھِر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ میں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پھِر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 10: 12- 18)

جب مسیح نے دیکھا کہ وہ آپ کی بات نہیں سمجھے تو اپنی بات دہرائی اور اِس حقیقت کو واضح کیا کہ وہ اپنی جان رضامندی سے قربان کرے گا۔ صرف اُسے یہ کہنے کا حق حاصل تھا کہ "باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں..."۔ یہ الفاظ پرانے عہدنامہ میں یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے اِن الفاظ سے ملتے جلتے ہیں: "اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادِق خادِم بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زورآوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔" (یسعیاہ 53: 11- 12)

مسیح نے اُن پر اِس بات کو واضح کیا کہ آپ کو اپنی جان دے دینے کے بعد اُسے واپس لینے کا بھی اختیار ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی رضاکارانہ موت کے بعد اپنی ہی قدرت سے مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ پھر آپ نے اُن افراد میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا جو آپ کے بھیڑخانہ کے نہیں اور کہا "جو اِس بھیڑخانہ کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے"۔ اِن الفاظ سے آپ کی مُراد غیر اقوام تھیں۔

"اِن باتوں کے سبب سے یہودیوں میں پھِر اختلاف ہوا۔ اُن میں سے بہتیرے تو کہنے لگے کہ اُس میں بدرُوح ہے اور وہ دیوانہ ہے۔ تم اُس کی کیوں سُنتے ہو؟ اَوروں نے کہا یہ ایسے شخص کی باتیں نہیں جس میں بدرُوح ہو۔ کیا بدرُوح اندھوں کی آنکھیں کھول سکتی ہے؟ یروشلیم میں عیدِ تجدید ہوئی اور جاڑے کا موسم تھا۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدہ میں ٹہل رہا تھا۔ پس یہودیوں نے اُس کے گرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دِل کو ڈانوانڈول رکھے گا؟ اگر تُو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں۔ لیکن تم اِس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔ میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔ میں اور باپ ایک ہیں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 10: 19- 30)

یہ باتیں اُن یہودیوں کو پھر سمجھ نہ آئیں۔ کچھ نے کہا: "اُس میں بدرُوح ہے اور وہ دیوانہ ہے۔ تم اُس کی کیوں سُنتے ہو؟" دوسروں نے اِس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا: "یہ ایسے شخص کی باتیں نہیں جس میں بدرُوح ہو۔" اِن اختلاف رائے کرنے والوں کا جواب مسیح کے حال ہی میں ہونے والے معجزہ پر مبنی تھا جس کے بارے میں اُنہوں نے کہا کہ اِسے شیطان سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہاں ایک اَور دلیل پیش کر سکتے ہیں: فرض کریں شیطان کے پاس اندھے کی آنکھیں کھولنے کی طاقت تھی، تو کیا وہ اُس شخص کےلئے کچھ اچھا کرتا؟ اگر وہ بھلائی کا کوئی کام کرتا تو وہ دُشمن شیطان نہ ہوتا!

جب یہودی بزرگ مسیح کے بھلائی کے کاموں کو شیطان سے منسوب کر رہے تھے تو اُنہوں نے ایسا کرنے سے یہ دِکھایا کہ وہ کس قدر بیوقوف تھے، یوں وہ مسیح کی اُس راست عدالت کو اپنے اوپر بلا رہے تھے جو رُوحانی طور پر اندھے افراد کے خلاف ہے۔ یہ مذہبی علما کیوں بھول گئے تھے کہ اندھے کو بینائی عطا کرنا توریت میں مسیح کے نشانوں میں سے ایک نشان تھا؟

مسیح نے واضح طور پر بیان کیا کہ وہ اچھا چرواہا ہے اور اُس کی بھیڑیں اُس کی آواز سُنتی اور اُس کے پیچھے چلتی ہیں۔ یہ یہودی راہنما اُس کی بھیڑیں نہیں تھے۔ اُنہوں نے یسوع کے مسیح ہونے کے واضح ثبوت کا انکار کیا، اُسے اِس وجہ سے رد کر دیا کہ اُس نے اُن کی خواہشات کے مطابق عمل نہیں کیا تھا۔ لیکن مسیح کی رُوحانی لحاظ سے اپنی حقیقی بھیڑوں کےلئے بڑی رغبت اِس بات کا ثبوت تھی کہ وہ اُن کا آنے والا نجات دہندہ تھا۔ اپنی نئی پیدایش میں الہٰی رُوح کے کام کی بدولت وہ اچھے چرواہے کے پاس کھِنچے چلے آئے، اور بھیڑوں کی طرح اُس کی پیروی کی۔

یسوع نے اپنی بھیڑوں سے اُن کے ابدی تحفظ کے بارے میں بات کی۔ جہاں تک اُن لوگوں کی بات ہے جو عموماً یسوع کی بھیڑیں تصور کی جاتی ہیں لیکن اپنے ایما ن سے پھر جاتے ہیں، اُن کے بارے میں مُقدّس یوحنا رسول نے لکھا ہے: "وہ نکلے تو ہم ہی میں سے مگر ہم میں سے تھے نہیں۔ اِس لئے کہ اگر ہم میں سے ہوتے تو ہمارے ساتھ رہتے لیکن نکل اِس لئے گئے کہ یہ ظاہر ہو کہ وہ سب ہم میں سے نہیں ہیں۔" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 2: 19)۔ جسے اِس بات کا یقین ہے کہ وہ مسیح کی ایک بھیڑ ہے وہ اُس کی حفاظت میں آ گیا ہے اور ہلاک نہ ہو گا۔ کوئی بھی قوت اُسے آسمانی چرواہے کے ہاتھوں سے نہیں لے کر جا سکتی۔ یسوع اُس کی جان کو بحال کرے گا اور اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے جائے گا (زبور 23: 3)۔

جب ایک ایماندار خدا تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسا کرتا ہے، تو وہ اپنی جان کےلئے خاص طور پر شکست کے وقت میں ایک محفوظ لنگر پاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہ سوچے کہ مسیح میں اُس کا تحفظ اُسے گناہ کرنے کی آزادی دیتا ہے، لیکن ہم یہ کہیں گے کہ مسیح جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے اُس کے نتیجہ میں اُس کی بھیڑیں گناہ سے نفرت کرتی ہیں اور آسمانی باپ کو خوش کرنا پسند کرتی ہیں۔ وہ سب جو کسی بھی طرح کے گناہ میں رہنے میں راضی رہتے ہیں درحقیقت اُسے اپنے دِل میں پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ وہ اُس کی حقیقی بھیڑ نہیں ہیں۔ وہ جو صرف ابدی سزا سے بچنے کی تمنا کرتے ہیں اُن کی اُن بھیڑوں میں کوئی جگہ نہ ہو گی جنہیں بادشاہ عدالت کے دِن اپنے دائیں ہاتھ کی طرف کھڑا کرے گا۔ لیکن وہ سب جو خلوصِ دل سے نجات دہندہ سے محبت کرتے ہیں اور اُس کی مرضی کے خلاف ہر چیز سے بچنے کی دیانتداری سے کوشش کرتے ہیں، اپنی وقتی ناکامیوں کے باوجود محفوظ رہ سکتے ہیں۔ وہ پولس رسول کے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں: "مجھے اِس بات کا بھروسا ہے کہ جس نے تم میں نیک کام شروع کیا ہے وہ اُسے یسوع مسیح کے دِن تک پورا کر دے گا" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 1: 6)۔ پرانے عہدنامہ میں امثال 24: 16 میں لکھا ہے: "کیونکہ صادِق سات بار گرتا ہے اور پھِر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن شریر بلا میں گر کر پڑا ہی رہتا ہے۔" یہ سوچنا مناسب نہیں کہ نجات دہندہ یعنی خدائے مجسم نے نجات کے کام کو شروع کیا اور پورا کرنے میں ناکام رہا۔ یہ ایک بھید ہے جو اُن لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا جو اُس کی بھیڑیں نہیں ہیں۔

یسوع کی اِن باتوں میں ہمارے سامنے آپ کی الہٰی فطرت کا ایک واضح ثبوت موجود ہے جس کی بدولت آپ ایسی باتیں کہہ سکے جو کوئی انسان نہیں کہہ سکتا تھا۔ آپ نے سب حقیقی ایمانداروں کو اپنی بھیڑیں کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ وہ اُس کی آواز سُنیں گی، یسوع کے یہ الفاظ قدیم انبیا کے الفاظ سے اِس طرح سے مختلف تھے کہ اُنہوں نے اپنی آواز کی نہیں بلکہ خدا کی آواز کی بات کی تھی۔ آپ نے کہا کہ آپ کی بھیڑیں آپ کی آواز سُنیں گی اور آپ کی پیروی کریں گی۔ آپ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشیں گے اور کوئی بھی اُنہیں آپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔ پھر، آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی اُنہیں آپ کے باپ کے ہاتھ سے بھی نہیں چھین سکتا۔ یسوع کے ایسے کچھ بیانات بظاہر ایک دوسرے سے تضاد میں نظر آتے ہیں لیکن یہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کی ذات میں اقانیم کی واحدانیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یسوع نے خود یہ فرمایا: "میں اور باپ ایک ہیں۔"

یہ اہم نتیجہ یہودی بزرگوں کے کانوں میں ایک دھماکہ خیز خبر کی مانند تھا۔ اَب اُن کے سامنے دو ہی راستے تھے: یا تو اُس کی مسیح، خدا کے اکلوتے بیٹے کے طور پر تمجید کرتے، یا پھر اپنی شریعت کے مطابق اُسے کفر کرنے والا جان کر سنگسار کرتے۔ اُنہوں نے مسیح کو سنگسار کرنے کےلئے پتھر اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ مسیح نے اِس سب کا بہادری سے سامنا کیا، اور اُن سے پوچھا کہ "میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دِکھائے ہیں۔ اُن میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟" اُنہوں نے جواب دیا: "تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے۔" تب یسوع نے اُنہیں کہا: "آیا تم اُس شخص سے جسے باپ نے مُقدّس کر کے دُنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تُو کُفر بکتاہے اِس لئے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں؟ اگر میں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو۔ لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرو مگر اُن کاموں کا تو یقین کرو تا کہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں" (انجیل بمطابق یوحنا 10: 33، 36- 38)۔

کسی نبی نے اپنے بارے میں یہ نہیں کہا کہ باپ نے اُسے مُقدّس کر کے دُنیا میں بھیجا ہے۔ جب مسیح نے کفر کے مرتکب ہونے سے انکار کیا تو آپ کے الفاظ کی سچائی واضح تھی۔ جب یہودیوں نے پھر آپ کو پکڑنے کی کوشش کی تو آپ اُن کے ہاتھ سے نکل گئے اور یردن کے پار اُس جگہ چلے گئے جہاں یوحنا بپتسمہ دیا کرتا تھا۔ یہاں مسیح کی منادی کا ایک زبردست نتیجہ نکلا کیونکہ بہتیرے آپ پر ایمان لائے۔

10- مسیح کی مختلف تعلیمات

الف- ہمیں دُعا کیسے کرنی چاہئے؟

"پھِر ایسا ہوا کہ وہ کِسی جگہ دُعا کر رہا تھا۔ جب کر چکا تو اُس کے شاگردوں میں سے ایک نے اُس سے کہا اے خداوند! جیسا یوحنا نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھایا تُو بھی ہمیں سِکھا۔ اُس نے اُن سے کہا جب تم دُعا کرو تو کہو اے باپ! تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دیا کر۔ اور ہمارے گناہ معاف کر کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرضدار کو معاف کرتے ہیں اور ہمیں آزمایش میں نہ لا۔ پھِر اُس نے اُن سے کہا تم میں سے کون ہے جس کا ایک دوست ہو اور وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر اُس سے کہے اے دوست مجھے تین روٹیاں دے۔ کیونکہ میرا ایک دوست سفر کر کے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں کہ اُس کے آگے رکھوں۔ اور وہ اندر سے جواب میں کہے مجھے تکلیف نہ دے۔ اب دروازہ بند ہے اور میرے لڑکے میرے پاس بِچھونے پر ہیں۔ میں اُٹھ کر تجھے دے نہیں سکتا۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگرچہ وہ اِس سبب سے کہ اُس کادوست ہے اُٹھ کر اُسے نہ دے تو بھی اُس کی بےحیائی کے سبب سے اُٹھ کر جتنی درکار ہیں اُسے دے گا۔ پس میں تم سے کہتا ہوں مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔ تم میں ایسا کون سا باپ ہے کہ جب اُس کابیٹا روٹی مانگے تو اُسے پتھر دے؟ یا مچھلی مانگے تو مچھلی کے بدلے اُسے سانپ دے؟ یا انڈا مانگے تو اُس کو بِچھّو دے؟ پس جب تم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو رُوح القدس کیوں نہ دے گا؟" (انجیل بمطابق لوقا 11: 1- 13)

ایک مرتبہ جب مسیح نے دُعا کرنی ختم کی تو آپ کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا کہ جیسے یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھایا ہے ویسے ہی ہمیں بھی دُعا کرنا سکھا۔ جواب میں مسیح نے اُنہیں وہ مشہور دُعا سکھائی جسے "دُعائے ربّانی" کہتے ہیں۔ پھر آپ نے اُنہیں ایک ایسے شخص کی تمثیل سُنائی جس نے آدھی رات کو اپنے دوست کے پاس جا کر اُس سے کچھ روٹی مانگی، لیکن پہلے اُسے ناکامی ہوئی۔ وہ ثابت قدمی سے دروازہ کھٹکھٹاتا رہا اور آخرکار اُسے کامیابی ملی۔

اِس تمثیل کی وضاحت کرتے ہوئے یسوع نے فرمایا: "مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔"

باالفاظ دیگر، پہلے ایک سادہ درخواست کریں، اور پھر اگر جواب نہ ملے تو شِدّت کے ساتھ درخواست پیش کریں۔ اگر پھر بھی جواب نہ ملے تو ایک فرد کو دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔ جو ہمیں فوراً ملتا ہے وہ اچھا ہوتا ہے، جو ہم ڈھونڈنے سے پاتے ہیں وہ اُس سے بہتر ہوتا ہے اور جو ہم دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد پاتے ہیں وہ بہتر ین ہے۔

مسیح ایمانداروں کی خدا تعالیٰ کے ساتھ گہری قربت والے تعلق کی وضاحت کرتے گئے۔ یہ تعلق اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اُس کے ہاتھ سے ایماندار بھلائی پائیں گے، کیونکہ اُس کےلئے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنے فرزندوں سے جن سے وہ محبت رکھتا ہے بھلائی و عافیت کو باز رکھے۔ اگر ایک دُنیوی باپ اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتا ہے تو کامل آسمانی باپ اپنے فرزندوں کو اچھی چیزیں دینے میں کیسے تاخیر کر سکتا ہے، خاص کر جب وہ اعلیٰ ترین بخشش یعنی رُوح القدس کی بخشش کےلئے دُعا مانگتے ہیں۔

ب- لالچ کے بارے میں تعلیم

"پھِر بھِیڑ میں سے ایک نے اُس سے کہا اے اُستاد! میرے بھائی سے کہہ کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔ اُس نے اُس سے کہا، میاں کِس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کیا ہے؟ اور اُس نے اُن سے کہا خبردار! اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو کیونکہ کِسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔ اور اُس نے اُن سے ایک تمثیل کہی کہ کِسی دولتمند کی زمین میں بڑی فصل ہوئی۔ پس وہ اپنے دِل میں سوچ کر کہنے لگا کہ میں کیا کروں کیونکہ میرے ہاں جگہ نہیں جہاں اپنی پیداوار بھر رکھوں؟ اُس نے کہا میں یوں کروں گا کہ اپنی کوٹھیاں ڈھا کر اُن سے بڑی بناﺅں گا۔ اور اُن میں اپنا سارا اناج اور مال بھر رکھوں گا اور اپنی جان سے کہوں گا اے جان! تیرے پاس بہت برسوں کےلئے بہت سا مال جمع ہے۔ چین کر۔ کھا پی۔ خوش رہ۔ مگر خدا نے اُس سے کہا اے نادان! اِسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائے گی۔ پس جو کچھ تُو نے تیار کیا ہے وہ کِس کا ہو گا؟ ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔ پھِر اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ کیونکہ جان خوراک سے بڑھ کر ہے اورر بدن پوشاک سے۔ کووّں پر غور کرو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ اُن کے کھتّا ہوتا ہے نہ کوٹھی۔ تو بھی خدا اُنہیں کِھلاتا ہے۔ تمہاری قدر تو پرندوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بڑھا سکے؟ پس جب سب سے چھوٹی بات بھی نہیں کر سکتے تو باقی چیزوں کی فکر کیوں کرتے ہو؟ سوسن کے درختوں پر غور کرو کہ کِس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے اُن میں سے کِسی کی مانند مُلبّس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اور تم اِس کی تلاش میں نہ رہو کہ کیا کھائیں گے اور کیا پئیں گے اور نہ شکّی بنو۔ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں دُنیا کی قومیں رہتی ہیں لیکن تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم اِن چیزوں کے محتاج ہو۔ ہاں اُس کی بادشاہی کی تلاش میں رہو تو یہ چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔ اے چھوٹے گلّے نہ ڈر کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔ اپنا مال اسباب بیچ کر خیرات کر دو اور اپنے لئے ایسے بٹوے بناﺅ جو پرانے نہیں ہوتے یعنی آسمان پر ایسا خزانہ جو خالی نہیں ہوتا۔ جہاں چور نزدیک نہیں جاتا اور کیڑا خراب نہیں کرتا۔ کیونکہ جہاں تمہارا خزانہ ہے وہیں تمہارا دِل بھی لگا رہے گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 12: 13- 34)

جب ایک شخص نے یسوع کو کہا کہ وراثت کو تقسیم کرنے کے معاملہ میں وہ مداخلت کرے تو یسوع نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ آپ نے اپنے آپ کو اُن کاموں تک محدود رکھا ہوا تھا جو کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا۔

مسیح نے خاص مذہبی یا سیاسی گروہوں کی جانب اپنا میلان رکھتے ہوئے اپنے کام کو سرانجام نہیں دیا۔ آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ آپ کو دُنیوی معاملات کا فیصلہ کرنے والا ایک فرقہ کا سربراہ سمجھیں۔ اِس مثال میں مسیح نے ایک گناہ کو عیاں کیا ہے جو بہت عام ہے اور جسے عموماً قابل قبول سمجھا جاتا ہے یعنی لالچ کا گناہ، دولت کی جانب دِلی رغبت۔

لالچ کی حقیقت کو واضح کرنے کےلئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک ایسے شخص کی کہانی سُنائی جس کی دولت میں اضافہ ہوا۔ لیکن خدا تعالیٰ کا شکرگزار ہونے کے بجائے اُس نے اُس کے بغیر زندگی گزارنے کا چناﺅ کیا۔ اُسے اِس بات کا احساس کرنا چاہئے تھا کہ اُس کی دولت اُس کی نہیں بلکہ خداوند کی تھی، وہ تو اُن چیزوں کا صرف ایک مختار تھا تا کہ اُنہیں ذمہ داری اور بغیر خودغرضی کے استعمال کرے۔ جب وہ صرف اپنے لئے ہی زندگی بسر کر رہا تھا تو اُسے کیا حق حاصل تھا کہ وہ خدا کی حفاظت میں رہتا؟ اگرچہ اُس کی دولت میں اضافہ ہوا، مگر اُس کی جان اُس سے طلب کر لی گئی۔

خدا تعالیٰ نے اُس سے کہا: "اے نادان! اِسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائے گی۔" خداوند خدا صرف اپنے محبت کرنے والوں کو دُنیوی برکات نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے سورج کو نیکوں اور بدوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے (انجیل بمطابق متی 5: 45)۔ خدا تعالیٰ ایسا اِس لئے کرتا ہے تا کہ دین کہیں زمینی خواہشات کی تکمیل تک محدود ہونے سے بگڑ نہ جائے۔

جب یسوع نے فطرت میں سے مثالوں کو استعمال کرتے ہوئے شاگردوں کو یہ حقیقت بتائی کہ خدا تعالیٰ اُن کی دُنیوی ضرورتوں کی فکر کرتا ہے، تو پھر اُنہیں تسلی دی کہ تمہاری کمزوریوں کے باوجود تمہارے باپ کو پسند آیا ہے کہ تمہیں بادشاہی دے۔ یسوع نے اُن کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ خدا کی راہ میں دیا کریں کیونکہ جو انسان بھلائی کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ قائم رہے گا، لیکن جو وہ اپنے لئے جمع کرتا ہے ختم ہو جائے گا۔ جب آپ راستبازی کی خاطر اپنی رقم خرچ کرتے ہیں تو یہ آپ کے دِل کو خدا کی طرف لگائے گا، "کیونکہ جہاں تمہارا خزانہ ہے وہیں تمہارا دِل بھی لگا رہے گا" (انجیل بمطابق لوقا 12: 34)۔

ج- اپنی دوبارہ آمد کے بارے میں تعلیم

"تمہاری کمریں بندھی رہیں اور تمہارے چراغ جلتے رہیں۔ اور تم اُن آدمیوں کی مانند بنو جو اپنے مالک کی راہ دیکھتے ہوں کہ وہ شادی میں سے کب لوٹے گا تا کہ جب وہ آ کر دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً اُس کے واسطے کھول دیں۔ مبارک ہیں وہ نوکر جن کا مالک آ کر اُنہیں جاگتا پائے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ کمر باندھ کر اُنہیں کھانا کھانے کو بٹھائے گا اور پاس آ کر اُن کی خدمت کرے گا۔ اور اگر وہ رات کے دوسرے پہر میں یا تیسرے پہر میں آ کر اُن کو ایسے حال میں پائے تو وہ نوکر مبارک ہیں۔ لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور کِس گھڑی آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھرمیں نقب لگنے نہ دیتا۔ تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمہیں گمان بھی نہ ہو گا ابنِ آدم آ جائے گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 12: 35- 40)

مسیح نے اپنی دوبارہ آمد کے تعلق سے بیان کیا کہ وہ اچانک ہو گی۔ اُس کے خادموں کو جاگتے رہنا چاہئے تا کہ وہ اُسے خوشی سے خوش آمدید کہنے کےلئے تیار ہوں، کیونکہ جو تیار ہوں گے اُنہیں اجر ملے گا اور وہ مبارک ٹھہریں گے۔ جب پطرس رسول نے مسیح سے پوچھا کہ یہ تمثیل تُو ہم ہی سے کہتا ہے یا سب سے؟ تب یسوع نے اُنہیں ایک اَور تمثیل سُنائی تا کہ بےایمان مختار پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرے۔ وہ ایسے نوکر کو خوب کوڑے لگا کر بےایمانوں میں شامل کرے گا (انجیل بمطابق لوقا 12: 46)۔ جنہیں اُس نے زیادہ بخشا ہے اُن سے وہ زیادہ توقع کرتا ہے، اور جنہیں اُس نے کم بخشا ہے اُن سے کم کی توقع کرتا ہے (انجیل بمطابق لوقا 12: 48)۔ یسوع مسیح کے دعووں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔

خداوند انسان سے نہ صرف اُن چیزوں کا تقاضا کرتا ہے جو اُس کے پاس ہیں اور جو اُس عظیم ہستی نے اُسے عنایت کی ہیں، بلکہ وہ اُس سے اُن چیزوں کا بھی تقاضا کرتا ہے جو وہ دیانتداری سے کام کر کے حاصل کر سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ ایک فرد کو نہ صرف اُس کے فرض سے غفلت پر سزا دیتا ہے، بلکہ اُس کام کے نہ کرنے پر بھی سزا دیتا ہے جو وہ جانتا ہے کہ اُسے کرنا چاہئے تھا۔

د- توبہ کے بارے میں تعلیم

"پھِر اُس نے یہ تمثیل کہی کہ کِسی نے اپنے تاکستان میں ایک انجیر کا درخت لگایا تھا۔ وہ اُس میں پھل ڈھونڈنے آیا اور نہ پایا۔ اِس پر اُس نے باغبان سے کہا کہ دیکھ تین برس سے میں اِس انجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا ہوں اور نہیں پاتا۔ اِسے کاٹ ڈال۔ یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے؟ اُس نے جواب میں اُس سے کہا اے خداوند اِس سال تو اَور بھی اُسے رہنے دے تا کہ میں اُس کے گِرد تھالا کھودُوں اور کھاد ڈالوں۔ اگر آگے کو پھلا تو خیر نہیں تو اُس کے بعد کاٹ ڈالنا۔" (انجیل بمطابق لوقا 13: 6- 9)

اِن الفاظ میں جناب مسیح نے دِکھایا ہے کہ آپ اِس دُنیا میں ایسی تعلیم لے کر آئے ہیں جو آگ کی طرح بطالت کے کانٹوں اور اُس کے پیروکاروں کو جلا ڈالے گی۔ جب دُنیا میں نُور آتا ہے اور لوگ تاریکی کو ترجیح دیتے ہیں، تو لازم ہے کہ نُور کے پیروکاروں اور تاریکی کے پیروکاروں کے درمیان کشمکش ہو گی۔ تاریکی کی فطرت میں کشمکش شامل ہے۔ اگر مکمل تاریکی ہو یا مکمل نُور ہو تو کوئی کشمکش نہیں ہو گی۔ لیکن جب نُور تاریکی کی طرف آتا ہے تو تاریکی اُس پر حملہ کرتی ہے اور یوں دونوں میں فرق واضح ہے۔ غرض، تقسیم مسیح کی آمد اور تعلیم کے پھیلاﺅ کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔

پھر مسیح نے یہودی قوم کو ایک انجیر کے درخت کے ساتھ تشبیہ دی، جو پھل نہ لانے کی وجہ سے کاٹے جانے کو ہے۔ آپ نے باپ کو تاکستان کے مالک کے ساتھ اور اپنے آپ کو باغبان سے تشبیہ دی۔ آپ خدا اور انسان کے مابین درمیانی ہوتے ہوئے انسانیت پر خدا کے غضب کو روکے ہوئے ہیں۔

آپ نے باپ سے درخواست کی کہ جب تک آپ اُن کی نجات کے منصوبہ کو مکمل نہیں کرتے وہ اپنا تحمل دِکھائے۔ آپ نے اِس بات کا اعتراف کیا کہ جب آپ تین برس تک تعلیم دینے اور خدمت کرنے میں مصروف تھے تو خدا تعالیٰ نے اُن کے ساتھ صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا تھا۔ آپ نے اُن کا عوضی ہو کر اپنی جان قربان کر دی۔ اگر وہ مسیح کو قبول کرتے تو محفوظ تھے، لیکن قبول نہ کرنے پر وہ کاٹ ڈالے جانے کو تھے۔ تاریخ کے اوراق اِس تمثیل میں بنی اسرائیل کی پیش کردہ تصویر کا ایک ثبوت ہیں۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے الفاظ پورے ہوئے: "اور اب درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے۔ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے" (انجیل بمطابق متی 3: 10)۔

ہ- سبت کے دِن بھلائی کرنے کی بابت تعلیم

"پھِر وہ سبت کے دِن کِسی عبادت خانہ میں تعلیم دیتا تھا۔ اور دیکھو ایک عورت تھی جس کو اٹھارہ برس سے کِسی بدرُوح کے باعث کمزوری تھی۔ وہ کُبڑی ہو گئی تھی اور کِسی طرح سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ یسوع نے اُسے دیکھ کر پاس بُلایا اور اُس سے کہا اے عورت تُو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی۔ اور اُس نے اُس پر ہاتھ رکھے۔ اُسی دم وہ سیدھی ہو گئی اور خدا کی تمجید کرنے لگی۔ عبادت خانہ کا سردار اِس لئے کہ یسوع نے سبت کے دِن شفا بخشی خفا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا چھ دِن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے پس اُنہی میں آ کر شفا پاﺅ نہ کہ سبت کے دِن۔ خداوند نے اُس کے جواب میں کہا کہ اے ریاکارو! کیا ہر ایک تم میں سے سبت کے دِن اپنے بیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پلانے نہیں لے جاتا؟ پس کیا واجب نہ تھا کہ یہ جو ابرہام کی بیٹی ہے جس کو شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا سبت کے دِن اِس بند سے چُھڑائی جاتی؟ جب اُس نے یہ باتیں کہیں تو اُس کے سب مخالف شرمندہ ہوئے اور ساری بھِیڑ اُن عالیشان کاموں سے جو اُس سے ہوتے تھے خوش ہوئی۔" (انجیل بمطابق لوقا 13: 10- 17)

ایک سبت کے دِن مسیح ایک گاﺅں کے عبادتخانہ میں گئے اور تعلیم دینا شروع کی۔ وہاں عبادت گزاروں میں ایک ایسی عورت موجود تھی جو پچھلے اٹھارہ برس سے کبڑی تھی اور سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ وہ اپنی صحت کی بحالی کی تمام اُمید کھو چکی تھی، لیکن اپنے تقویٰ کی بدولت اُس نے اپنی معذوری کے باوجود پرستش کےلئے عبادتخانہ میں آنا جاری رکھا۔ بظاہر اُس نے شفا پانے کےلئے درخواست نہ کی کیونکہ وہ تو یسوع کی تعلیم سُن رہی تھی۔

یسوع نے اُسے شفا دینے کےلئے اور سبت اور اُس کی برکات کے موضوع پر اپنی تعلیم کی توضیح پیش کرنے کےلئے اپنے پاس بلایا۔ جب وہ آ گے آئی تو یسوع نے طبیب کی طرح اُسے چھوا، اور وہ اُسی دم ٹھیک ہو گئی۔ آپ نے کہا: "تُو اپنی کمزوری سے چھوٹ گئی۔" وہ اُسی دم سیدھی ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی تمجید کرنی شروع کر دی۔ عبادتخانہ کا سردار بہت خفا ہوا۔ اگرچہ وہ یسوع کی عزت کرتا تھا، لیکن اُس نے لوگوں سے کہا کہ "چھ دِن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے پس اُنہیں میں آ کر شفا پاﺅ نہ کہ سبت کے دِن۔"

تاہم، مسیح نے اِس غریب عورت اور بہت سے دوسرے لوگوں کو اِس سخت حکم سے رہائی بخشی۔ آپ نے اُس منافقانہ سردار کو یاد دِلایا کہ سبت کے دِن جب کبھی اچانک ضرورت پڑے تو لوگوں کو اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کی اجازت تھی۔ اِس عورت کو شفا دینے کے کام کی نسبت اُن کاموں کےلئے زیادہ جسمانی محنت درکار ہوتی تھی۔ اب اگر وہ ایک جانور کو کھول کر پانی پلانے لے جا سکتے تھے، تو مسیح اِس عورت کو جو اتنے برسوں سے شیطان کے بند میں گرفتار تھی، کیوں اُس کی جسمانی اور رُوحانی غلامی سے آزاد نہیں کر سکتا تھا؟ لوگ یسوع کے اِن الفاظ اور عالیشان کاموں سے بہت خوش ہوئے اور آپ کے سب مخالف شرمندہ ہوئے۔

و- دِل کی غریبی کے بارے میں تعلیم

"پھِر ایسا ہوا کہ وہ سبت کے دِن فریسیوں کے سرداروں میں سے کِسی کے گھر کھانا کھانے کو گیا اور وہ اُس کی تاک میں رہے۔ اور دیکھو ایک شخص اُس کے سامنے تھا جسے جلندر تھا۔ یسوع نے شرع کے عالموں اور فریسیوں سے کہا کہ سبت کے دِن شفا بخشنا روا ہے یا نہیں؟ وہ چُپ رہ گئے۔ اُس نے اُسے ہاتھ لگا کر شفا بخشی اور رُخصت کیا۔ اور اُن سے کہا تم میں ایسا کون ہے جس کا گدھا یا بیل کنوئیں میں گر پڑے اور وہ سبت کے دِن اُس کو فوراً نہ نکال لے؟ وہ اِن باتوں کا جواب نہ دے سکے۔ جب اُس نے دیکھا کہ مہمان صدرجگہ کِس طرح پسند کرتے ہیں تو اُن سے ایک تمثیل کہی کہ جب کوئی تجھے شادی میں بُلائے تو صدر جگہ پر نہ بیٹھ کہ شاید اُس نے کِسی تُجھ سے بھی زیادہ عزت دار کو بُلایا ہو ۔ اور جس نے تُجھے اور اُسے دونوں کو بُلایا ہے آ کر تُجھ سے کہے کہ اِس کو جگہ دے۔ پھِر تُجھے شرمندہ ہو کر سب سے نیچے بیٹھنا پڑے۔ بلکہ جب تُو بُلایا جائے تو سب سے نیچی جگہ جا بیٹھ تا کہ جب تیرا بُلانے والا آئے تو تُجھ سے کہے اے دوست آگے بڑھ کر بیٹھ! تب اُن سب کی نظر میں جو تیرے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے ہیں تیری عزت ہو گی۔ کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔ پھِر اُس نے اپنے بُلانے والے سے بھی یہ کہا کہ جب تُو دِن کا یا رات کا کھانا تیار کرے تو اپنے دوستوں یا بھائیوں یا رشتہ داروں یا دولتمند پڑوسیوں کو نہ بُلا تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی تُجھے بُلائیں اور تیرا بدلہ ہو جائے۔ بلکہ جب تُو ضیافت کرے تو غریبوں لُنجوں لنگڑوں اندھوں کو بُلا۔ اور تُجھ پر برکت ہو گی کیونکہ اُن کے پاس تُجھے بدلہ دینے کو کُچھ نہیں اور تُجھے راستبازوں کی قیامت میں بدلہ ملے گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 14: 1- 14)

ایک فریسی نے سبت کے دِن یسوع کی کھانے پر دعوت کی جہاں آپ نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جسے جلندر تھا۔ یسوع نے وہاں موجود افراد سے پوچھا کہ کیا سبت کے دِن شفا دینا روا ہے یا نہیں؟ اُنہوں نے محسوس کیا کہ اگر وہ کچھ کہیں گے تو اُنہیں ویسے ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے عبادتخانہ میں ہوا تھا۔ اِس لئے وہ خاموش رہے۔ مسیح نے اپنے مخالفوں کو اُن کی بُری سوچوں اور تنقید پر جھڑکنے کے بعد اُس بیمار شخص کو شفا بخشی اور رُخصت کیا۔ پھر مسیح نے یہ بھی دیکھا کہ اِس کھانے پر کیسے مہمان صدر جگہ پسند کر رہے تھے۔ تب آپ نے اِس موقع کو اُنہیں حلیمی کے بارے میں ایک سبق سکھانے کےلئے استعمال کیا کہ خدا تعالیٰ حلیم کو سرفرازی بخشتا ہے اور مغرور کو شرمندہ کرتا ہے۔

پھر یسوع اپنے میزبان کی طرف متوجہ ہوئے اور اُسے یاد دِلایا کہ جو اپنے دوستوں اور امیروں کو اپنی ضیافتوں میں بُلاتے ہیں وہ اِس دُنیا میں اپنا اجر پا لیتے ہیں کیونکہ وہ بھی بدلہ میں اُنہیں اپنی ضیافتوں میں بُلاتے ہیں۔ تاہم، قیامت میں بدلہ پانے کا متمنی شخص غریبوں اور رد کئے ہوﺅں کو بُلائے گا اور کھانا کھلائے گا۔ دوسروں کی حقیقی مہمان نوازی اِس جہان یا آنے والے جہان میں کسی بدلہ کے بغیرخدا تعالیٰ کی محبت کی بناء پر کی جاتی ہے۔ ایسی مہمان نوازی کےلئے خداوند نے اجر کا وعدہ بھی کیا ہے۔

ز- آسمان کی بادشاہی میں کھانا

"جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اُن میں سے ایک نے یہ باتیں سُن کر اُس سے کہا مبارک ہے وہ جو خدا کی بادشاہی میں کھانا کھائے۔ اُس نے اُس سے کہا ایک شخص نے بڑی ضیافت کی اور بہت سے لوگوں کو بُلایا۔ اور کھانے کے وقت اپنے نوکر کو بھیجا کہ بُلائے ہوﺅں سے کہے آﺅ۔ اب کھانا تیار ہے۔ اِس پر سب نے مل کر عُذر کرنا شروع کیا۔ پہلے نے اُس سے کہا میں نے کھیت خریدا ہے مجھے ضرور ہے کہ جا کر اُسے دیکھوں۔ میں تیری مِنّت کرتا ہوں مجھے معذور رکھ۔ دوسرے نے کہا میں نے پانچ جوڑی بیل خریدے ہیں اور اُنہیں آزمانے جاتا ہوں۔ میں تیری مِنّت کرتا ہوں مجھے معذور رکھ۔ ایک اَور نے کہا میں نے بیاہ کیا ہے۔ اِس سبب سے نہیں آ سکتا۔ پس اُس نوکر نے آ کر اپنے مالک کو اِن باتوں کی خبر دی۔ اِس پر گھر کے مالک نے غصے ہو کر اپنے نوکر سے کہا جلد شہر کے بازاروں اور کوچوں میں جا کر غریبوں لُنجوں اندھوں اور لنگڑوں کو یہاں لے آ۔ نوکر نے کہا اے خداوند! جیسا تُو نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا اور اب بھی جگہ ہے۔ مالک نے اُس نوکر سے کہا کہ سڑکوں اور کھیت کی باڑوں کی طرف جا اور لوگوں کو مجبور کر کے لا تا کہ میرا گھر بھر جائے۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ جو بُلائے گئے تھے اُن میں سے کوئی شخص میرا کھانا چکھنے نہ پائے گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 14: 15- 24)

یسوع کی ضیافتوں سے متعلقہ تعلیم کو سُن کر وہاں موجود ایک شخص نے یوں کہتے ہوئے اپنی رائے دی: "مبارک ہے وہ جو خدا کی بادشاہی میں کھانا کھائے۔" اُسے اِس بات کا یقین تھا کہ وہ بھی ایسوں میں شامل ہو گا۔ مسیح نے ضیافت کو دینداری کی ایک علامت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک تمثیل پیش کی کیونکہ حقیقی دینداری یا روحانیت رُوح کو آسودہ کرتی اور خوشی بخشتی ہے۔

خدا تعالیٰ ہمیں اِس ضیافت کی مُفت دعوت دیتا ہے اور ہمیں اِس دعوت کو قبول یا رد کرنے کی مکمل آزادی بھی دیتا ہے۔ وہ اُن سب کو اپنے گلے لگاتا ہے جو اُس کے الہٰی حکم کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اِس تمثیل میں یسوع نے ایک معزز شخص کے بارے میں بتایا جس نے اپنے گھر میں ایک بڑی ضیافت کی اور بہت سے لوگوں کو بُلایا، لیکن اُنہوں نے اپنے اپنے عُذر پیش کئے اور دعوت میں نہ آئے۔

مسیح نے مذہبی لوگوں کو دعوت دی، لیکن چونکہ اُنہوں نے آنے سے انٰکار کر دیا تو آپ نے محصول لینے والوں اور گنہگاروں کو بالکل ویسے ہی دعوت دی جیسے اِس تمثیل میں غریبوں اور لُنجوں کو دعوت دی گئی۔ تمثیل میں معزز شخص نے اپنی بڑی ضیافت کو بازاروں اور کوچوں کے لوگوں کےلئے کھولا، جو کہ غیراقوام کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اُس پیغام کو قبول کریں گے جسے یہودیوں نے رد کر دیا تھا اور یوں توبہ اور ایمان کی راہ پر آ جائیں گے۔

مسیح نے مذہبی راہنماﺅں کو اُن لوگوں کے ساتھ تشبیہ دی جو کہتے ہیں، "میں نے کھیت خریدا ہے" یا "میں نے پانچ جوڑی بیل خریدے ہیں" یا "میں نے بیاہ کیا ہے۔ اِس سبب سے نہیں آ سکتا۔" مذہب کے معاملہ میں جھوٹی معذرتیں عام ہیں، جو ہر طرف پھیلی ہوئی اورخطرناک ہیں۔ مسیح نے اُن لوگوں پر الٰہی غضب کا اعلان کیا جو عُذر پیش کرتے ہوئے نجات کی الہٰی ضیافت کی بےقدری کرتے ہیں۔ وہ اُن لوگوں کی حماقت کی ترجمانی بھی کرتے ہیں جو آسمانی اجر کی نسبت دُنیوی فائدہ کو مقدم جانتے ہیں۔ ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ اُن کے حماقت پر مبنی عُذر اُنہیں فائدہ دیں گے، یا پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کےلئے ابدی زندگی کا دروازہ ہمیشہ کُھلا رہے گا۔

عزیز قاری، مسیح کی محبت کی ضیافت کادعوت نامہ آپ تک پہنچا ہے، اور اَب آپ کیا اپنی جان کی آسودگی کےلئے اُس کے پاس آنے کے متمنی ہیں؟ وہ ضیافت میں آپ کا ساتھ چاہتا ہے (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 3: 20)۔ کیا آپ اُس کی دعوت کو قبول کریں گے؟ کیا آپ اپنے دِل کے دروازہ کو اُس کےلئے کھولیں گے؟ عُذر پیش کرنے چھوڑ دیں اور اِس عظیم ضیافت میں اپنی جان کو آسودگی پانے دیں۔

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب "سیرت المسیح، حصّہ 5، مسیح کی شخصیت اور شاگردیت کے اصول" کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. پطرس نے یسوع کے اِس سوال کا کیا جواب دیا: "تم مجھے کیا کہتے ہو؟"

  2. پطرس نے وہ نور کہاں سے حاصل کیا جس نے اُسے مسیح کے سوال کا درست جواب دینے کے قابل بنایا؟

  3. مسیح دُنیا میں کہاں سے تشریف لائے؟

  4. مسیح کی پیروی کرنے کی تین شرائط ہیں۔ وہ کون سی ہیں؟

  5. تبدیلی صورت کے پہاڑ پر موسیٰ، ایلیاہ اور مسیح کے مابین گفتگو کا موضوع کیا تھا؟

  6. خدا تعالیٰ نے مسیح کے شاگردوں کو یہ کیوں بتایا کہ "یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ اِس کی سُنو"؟

  7. یسوع کے اِن الفاظ سے ہم کیا سیکھتے ہیں کہ "اُسے میرے پاس لاﺅ"؟

  8. یسوع نے اپنے اور پطرس کےلئے محصول کی رقم کو کس طرح سے ادا کرنے کا انتظام کیا؟

  9. مسیح کے ہیکل کے محصول کو ادا کرنے کی مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟

  10. بچے کی طرح کی کچھ صفات کا ذِکر کریں جو ایک مسیحی ایماندار میں ہونی چاہئیں۔

  11. اگر ہمارا بھائی ہمارے خلاف گناہ کرتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

  12. اُس بادشاہ کی کہانی کو مختصر بیان کریں جس نے اپنے دو قرضداروں کو معاف کیا۔

  13. کس موقع پر یسوع نے زمین پر اپنی اُنگلی سے لکھا؟

  14. یسوع کے اپنے دُشمنوں سے پوچھے گئے اِس سوال سے ہم کیا سیکھتے ہیں "تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟"

  15. جب مسیح نے کہا کہ "پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہوا میں ہوں" تو یہودی یہ الفاظ سُن کر کیوں غصے میں آ گئے؟

  16. مسیح کے الفاظ "میں ہوں" کی وضاحت کیجئے۔ آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ "میں تھا"؟

  17. مسیح کی اپنے دُشمنوں کی طرف برداشت اور معافی کی تین مثالیں بیان کیجئے۔

  18. آپ کا "پڑوسی" کون ہے؟

  19. نیک سامری کی تمثیل میں کاہن اور لاوی کا قصور کیا تھا؟

  20. مرتھا اور اُس کی بہن مریم نے کس طرح سے مسیح کی خدمت کی؟

  21. انجیل بمطابق یوحنا، باب 9 میں جس اندھے شخص کا ذِکر ہے وہ اندھا کیوں پیدا ہوا تھا؟

  22. جنم کے اندھے شخص کو بینائی ملنے کے بعد لوگوں نے اُسے کیوں نہ پہچانا؟

  23. اُن تین کاموں کا ذِکر کریں جو اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کےلئے کرتا ہے؟

  24. انجیل بمطابق لوقا 12: 16- 21 میں ہم بیوقوف امیر آدمی کی تمثیل پڑھتے ہیں۔ اِس تمثیل کا خلاصہ بیان کیجئے۔

  25. اگر آپ ایک ضیافت کا اہتمام کریں تو کسے مدعو کریں گے؟ آپ خاص طور پر اِن لوگوں کو کیوں بلانا چاہیں گے؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany