اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصّہ 4، مسیح کے عظیم معجزات

سیرت المسیح، حصّہ 4، مسیح کے عظیم معجزات

جارج فورڈ

2016


1- یوحنا اِصطباغی کا یسوع کی بابت شک کرنا

"... یوحنا نے اپنے شاگردوں میں سے دو کو بلا کر خداوند کے پاس یہ پوچھنے کو بھیجا کہ آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ اُنہوں نے اُس کے پاس آ کر کہا، یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ہمیں تیرے پاس یہ پوچھنے کو بھیجا ہے کہ آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ اُسی گھڑی اُس نے بہتوں کو بیماریوں اور آفتوں اور بُری روحوں سے نجات بخشی اور بہت سے اندھوں کو بینائی عطا کی۔ اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ جو کچھ تم نے دیکھا اور سُنا ہے جا کر یوحنا سے بیان کر دو کہ اندھے دیکھتے ہیں۔ لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کئے جاتے ہیں۔ بہرے سُنتے ہیں۔ مُردے زندہ کئے جاتے ہیں۔ غریبوں کو خوشخبری سُنائی جاتی ہے۔ اور مبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔" (انجیل بمطابق لوقا 7: 19-23)

ہیرودیس بادشاہ نے اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس سے شادی کر لی تھی۔ اِس وجہ سے یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اُسے ملامت کی۔ تب بادشاہ نے غضبناک ہو کر یوحنا کو بیریّہ میں مخیروس کے قلعہ میں قید کرنے کا حکم صادر فرمایا، جہاں پر یوحنا ایک سال سے زیادہ عرصہ قید رہا۔ تاہم، قید کے دوران اُس کے شاگردوں نے اُس سے ملاقات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُنہوں نے اُسے یسوع کے کئے جانے والے بہت سے معجزات کی بابت بتایا، جن میں سے سب سے زیادہ حیرت انگیز معجزہ نائین نامی شہر کی بیوہ کے جواں عمر مُردہ بیٹے کو زندہ کرنا تھا۔ اُنہوں نے یوحنا کو یہ بھی بتایا کہ کیسے لوگوں کے ہجوم یسوع کے کلام اور کام سے حیران ہو کر اُس کے پیچھے ہو لئے تھے۔

یوحنا بپتسمہ دینے والا یسوع کے حق میں اپنی وفاداری اور محبت کا اظہار پہلے ہی کر چکا تھا۔ وہ اپنی بابت یسوع کی محبت کے بارے میں کوئی شک نہیں رکھتا تھا لیکن اُسے تعجب تھا کہ اتنے مہینے قید کی حالت میں رہنے کے باوجود یسوع اُس سے ملاقات کےلئے کیوں نہیں آئے تھے؟ کیا یسوع ستم زدوں کا سہارا مسیحِ موعود نہ تھے؟ کیا سچائی کےلئے یوحنا کی تمام سرگرمی اور جوش کی وجہ سے اُس سے روا رکھی جانے والی بےانصافی سے بُرا کچھ اَور ہو سکتا تھا؟ اُس کے نہایت ہی قریبی پیارے رشتہ دار یسوع نے کیسے اپنے دستِ قدرت کو بڑھا کر اُسے اِس خطرناک صورتحال سے نہ بچایا تھا جبکہ وہ کوئی معجزہ بھی کر سکتا تھا؟ عین ممکن ہے کہ یوحنا کے تصور میں مسیح کی بادشاہی شان و شوکت اور جلال سے معمور زمینی بادشاہت تھی۔ اِس لئے لازماً اُس کے ذہن میں یہ سوال اُبھرے ہوں گے "کہاں ہے وہ بادشاہت جس کے آنے کا اعلان میں کرتا رہا ہوں؟ وہ محبت اور رحم کہاں ہے جو اِس بادشاہی کے بادشاہ یسوع کو ظاہر کرنا چاہئے تھا؟

چونکہ یوحنا باقی تمام انسانوں کی طرح مائل بہ گناہ تھا، اِس لئے ماضی کی اپنی تمام آزادی، قوت اور عظمت کے بعد اُس کے دما غ میں نااُمیدی اور شکوک کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہو گا۔ سالہاسال مشقت کے ساتھ سرگرمِ عمل رہنے کے بعد اِس عالم شباب میں زنجیروں میں گرفتار جیل میں بیکار پڑے رہنا اُس کےلئے بےشک نہایت دشواری کا باعث رہا ہو گا، اور ایک دِن اُس کی تمام ہمت و برداشت جواب دے گئی۔ اُس نے اپنے دو وفادار شاگردوں کو یسوع کے پاس یہ دریافت کرنے کو بھیجا کہ کیا وہ سچ مچ مسیح موعود ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں۔

جب وہ دو شاگرد یسوع کے پاس آئے تو اُنہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ "آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟" اِسی دوران اُن کی موجودگی میں یسوع نے بہت سے بیماروں کو شفا بخشی۔ پھر آپ نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے اُن دونوں شاگردوں سے کہا "مبارک وہ ہے جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔" یوحنا بپتسمہ دینے والے کے دو شاگردوں سے کہے جانے والے اِن الفاظ سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یوحنا کا سوال واقعی شکوک پر مبنی تھا۔ تاہم، اِس عظیم مردِ خدا کی یہی وہ واحد کمزوری ہے جس کا ہمیں تحریری طور پر ذِکر ملتا ہے۔ بائبل مُقدّس انبیا اور رسولوں سے سرزد ہونے والی کئی غلطیوں کا ذِکر کرتی ہے۔ زبور نویس کہتا ہے: "کون اپنی بھول چُوک کو جان سکتا ہے؟ تُو مجھے پوشیدہ عیبوں سے پاک کر" (زبور 19: 12)۔ سلیمان نبی نے بھی اِسی سے ملتی جُلتی بات کہی ہے: "کیونکہ صادِق سات بار گرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے لیکن شریر بلا میں گر کر پڑا ہی رہتا ہے" (امثال 24: 16)۔

یہ امر مبارک ہے کہ یوحنا کے شکوک اُسے یسوع سے دُور نہیں لے گئے بلکہ اُن شکوک میں اُس نے یسوع کی طرف دیکھا۔ بعض لوگ خود غرضانہ منشا کے تحت اپنے آپ کو ذی علم ظاہر کرنے کےلئے شکوک کا اظہار کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ غلط نہیں ہیں۔ تاہم، خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو سزا دے گا۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں جن کے اندر شکوک بعض باتوں سے چمٹے رہنے کی وجہ سے جڑ پکڑتے ہیں۔ ایسے لوگ اُس وقت تک سچائی سے واقف نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ توبہ نہ کریں اور اپنے ظاہر و باطن کے گناہوں کو ترک نہ کر دیں۔ اور جن کے شکوک علم کی کمی کا نتیجہ ہیں، وہ دیانتداری کے ساتھ بروقت مطالعہ، تحقیق اور آسمانی راہنمائی کے ذریعے ایمان کے حامل ہو سکتے ہیں۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا محبت، جوش، حلیمی اور خوف کا امتزاج تھا۔ لیکن جب ایمان کا آفتاب اُس کے دِل میں روشن ہو گیا تو اُس کے شکوک رفع ہو گئے۔

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے شک نہ کیا بلکہ اپنے دو شاگردوں کو یسوع سے قائل کرنے والا جواب حاصل کرنے کےلئے بھیجا جو اُس کے باقی شاگردوں کےلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا تھا۔ اگر یہ خیال درست ہے تو ظاہر ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنی خدمت کے ایام کے خاتمہ تک لوگوں کو مسیح کی جانب راغب کرنے میں جانفشانی سے کام انجام دیا۔ اپنے قید ہونے سے پیشتر یوحنا نے اعلانیہ کہا تھا کہ یسوع اُس سے عظیم ہے، اور گو کہ یسوع مسیح اُس کے بعد آئے لیکن حقیقت میں وہ اُس سے پیشتر موجود تھے۔

خدا نے اپنی محبت اور رحم میں یہ چاہا کہ یوحنا ایک شہید کی موت سہے تا کہ وہ ابدیت میں دوچند اجر کا حقدار ہو۔ یوحنا میں ہمیں ایک دلیر شخص کی موثر مثال نظر آتی ہے جس نے انسان سے بےخوف ہو کر خدا کے احکام کی فرمانبرداری کی، اِس سے قطع نظر کہ وہ انسان کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ ہیرودیس بادشاہ تھا۔ یوحنا کی تکلیف دہ صورتحال نے خارجی حالات کے باوجود خوشخبری اور خدا کے اصولوں کے اعلان کرنے کی بہترین مثال پیش کی۔ یہی سبب تھا کہ یسوع نے یوحنا کو اُس کی صبر آزما مصیبت سے نہیں بچایا۔

یسوع نے الفاظ کی بہ نسبت اعمال کے ذریعے یوحنا کے سوال کا جواب دینے کو ترجیح دی "... اُسی گھڑی اُس نے بہتوں کو بیماریوں اور آفتوں اور بُری روحوں سے نجات بخشی اور بہت سے اندھوں کو بینائی عطا کی" (انجیل بمطابق یوحنا 7: 21)۔ مسیح ہونے کے اِس واضح ثبوت کے بعد یسوع نے یوحنا کے اُن دو پیامبروں سے کہا کہ جو کچھ اُنہوں نے اُس کے الہٰی معجزات اور تعلیمات کے بارے میں دیکھا اور سُنا تھا اُسے جا کر اپنے معزز اُستاد سے بیان کر دیں۔ آپ اُنہیں آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ جس کی شہرت کی دھوم مچی ہوئی ہے، جس نے بڑی قدرت دِکھائی ہے اور جو غریبوں کو خوشخبری پہنچانے میں رحمدلانہ دلچسپی لیتا ہے وہ ضرور ہی مسیح ہے۔ آپ یسعیاہ نبی کی نبوت کی تکمیل تھے جہاں لکھا ہے: "تب مسکین خداوند میں زیادہ خوش ہوں گے اور غریب و محتاج اسرائیل کے قُدُّوس میں شادمان ہوں گے" (یسعیاہ 29: 19)۔ علاوہ ازیں آپ اِس نبوت کی بھی تکمیل تھے جہاں لکھا ہے: "خداوند خدا کی رُوح مجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مجھے مسح کیا تا کہ حلیموں کو خوشخبری سُناﺅں۔ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دِلوں کو تسلی دوں۔ قیدیوں کےلئے رہائی اور اسیروں کےلئے آزادی کا اعلان کروں" (یسعیاہ 61: 1)۔

"جب یوحنا کے قاصد چلے گئے تو یسوع یوحنا کے حق میں لوگوں سے کہنے لگا کہ تم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ہوا سے ہلتے ہوئے سرکنڈے کو؟ تو پھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا مہین کپڑے پہنے ہوئے شخص کو؟ دیکھو جو چمکدار پوشاک پہنتے اور عیش و عشرت میں رہتے ہیں وہ بادشاہی محلّوں میں ہوتے ہیں۔ تو پھر تم کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ایک نبی؟ ہاں میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو۔ یہ وہی ہے جس کی بابت لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیّار کرے گا۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں لیکن جو خدا کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے۔ اور سب عام لوگوں نے جب سُنا تو اُنہوں نے اور محصول لینے والوں نے بھی یوحنا کا بپتسمہ لے کر خدا کو راستباز مان لیا۔ مگر فریسیوں اور شرع کے عالموں نے اُس سے بپتسمہ نہ لے کر خدا کے اِرادہ کو اپنی نسبت باطل کر دیا۔" (انجیل بمطابق لوقا 7: 24-30)

یوحنا کے سوال کے جواب میں یسوع نے اپنے کارِ نمایاں کی اہمیت کی وضاحت کے ذریعہ اپنے آسمانی ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ اگر آپ واقعی مسیح تھے تو اِس حقیقت کا اظہار آپ کے اعمال اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے اقوال میں بھی ہونا تھا۔ اُس وقت آپ کو اندیشہ محسوس ہوا کہ آپ کی خاموشی، یوحنا کے سوال کا جواب دینے میں آپ کا انداز، اور اُس کے بچائے جانے سے آپ کے باز رہنے کو کہیں غفلت سے تعبیر نہ کیا جائے۔ اِس لئے یوحنا کے دونوں قاصدوں کے جانے کے فوراً بعد آپ نے یوحنا کی تعریف کی۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اِس تعریف کی خبر یوحنا کے کانوں تک پہنچے، تا نہ ہو کہ اِسے صرف تسلی یا خوشامد تصور کیا جائے۔ لوگوں کی غیر موجودگی میں اُن کی تعریف کرنے سے اُس آفرین و تحسین کی قدر دوچند ہو جاتی ہے۔

یسوع نے اپنے سامعین کو یوحنا کے کامیابی کے زمانہ کی یاددہانی کرائی۔ یوحنا کے سامعین اپنے گھر اور کام چھوڑ کر بیابان میں اُس کے پاس اُس کا کلام سُننے اور اُس سے بپتسمہ لینے آئے تھے۔ یسوع نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا اُنہوں نے یوحنا کو غیرمستقل مزاج، خوف اور آرزومندی کے سبب ڈانواں ڈول یعنی ہوا میں ہلتے ہوئے سرکنڈے کی مانند دیکھا تھا؟ بےشک اِس کا جواب نفی میں تھا۔ کیا یوحنا کی ثابت قدمی، مصمّم ارادگی اور مستقل مزاجی اُس کے قید میں جانے کی وجوہات تھیں؟ کیا لوگوں کی بھِیڑ نے یوحنا کو ایک خودغرض اور زندگی کی عیش و عشرت کا متلاشی شخص پایا تھا؟ کیا یوحنا کے کلام اور عمل میں کوئی تضاد موجود تھا جس کی بنا پر اُس کی تعلیمات کی اطاعت نہ کی جاتی؟ اِس کے برعکس کیا اُنہوں نے اُسے نہایت خود انکار اور انسان کی خدمت کرنے کے ذریعہ خدا کی خدمت کےلئے پوری طرح سے وقف شخصیت نہ پایا تھا؟ اِس لئے یوحنا کا اپنے دو شاگردوں کے ذریعہ یسوع کی بابت سوال دریافت کرنے کو اُس کی کمزوری یا تلوّن مزاجی کی علامت سمجھ لینا نامناسب ہے۔

اگر لوگ یوحنا بپتسمہ دینے والے کو نبی تصور کرتے تھے تو وہ ایسا کرنے میں صحیح تھے۔ لیکن وہ ایک نبی سے بھی بڑا تھا۔ نہ ہی موسیٰ نبی نے جس نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کرا کے شریعت دی، نہ ہی ایلیاہ نبی نے جس نے بت پرستی کے خلاف مزاحمت کی اور حیرت انگیز معجزات کئے، اور نہ ہی داﺅدنبی نے جس نے بادشاہ کی حیثیت سے اپنے لوگوں کی خبرگیری کی اور دُنیا کو عمدہ مزامیر سے نوازا، یوحنا بپتسمہ دینے والے سے زیادہ اہم خدمت سرانجام دی کیونکہ اُس نے مسیح کی راہ تیار کی اور لوگوں کی آپ کی جانب راہنمائی کی۔

اگر یہ مثل درست ہے کہ "مخلوقات کا انحصار خدا پر ہے، اور اُس کا سب سے زیادہ عزیز اُس پر انحصار کرنے والوں کےلئے نہایت فائدہ مند ہے" تو یوحنا بپتسمہ دینے والا سچ مچ اُس کا نہایت ہی عزیز ہے۔ یوحنا کے بارے میں یسوع کی گواہی اِن الفاظ کو ثابت کرتی ہے "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہُوا" (انجیل بمطابق متی 11: 11)۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ سوائے یسوع کو چھوڑ کر یوحنا فطری طور پر پیدا ہونے والے سب نبیوں سے زیادہ بڑا ہے۔ مسیح موعود یسوع کو روبرو دیکھنے کے سبب یوحنا بپتسمہ دینے والا عہد عتیق کے تمام انبیا پر فضیلت رکھتا ہے۔ تب مسیح نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات پوری کی "لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے" (انجیل بمطابق متی 11: 11)۔ اِس کا مطلب ہے کہ نئے عہد میں ادنیٰ سے ادنیٰ ایماندار بھی پرانے عہدنامہ کے کسی بھی ایمان رکھنے والے سے زیادہ اِس بات کی سمجھ رکھتا ہے کہ مسیح کی بادشاہی روحانی ہے اور وہ اپنی موت کے ذریعہ اپنے لوگوں کو نجات دینے آیا تھا۔

یسوع نے یہودی قوم کے سرداروں کو ملامت کی کیونکہ یہی تھے جن کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ "بعض آخر ایسے ہیں جو اوّل ہوں گے اور بعض اوّل ہیں جو آخر ہوں گے" (انجیل بمطابق لوقا 13: 30)۔ یوحنا کی منادی اور بپتسمہ کی خدمت سے فائدہ حاصل کرنے میں اوّل ہونے کے بجائے اُنہوں نے اپنی نسبت خدا کی مرضی کو ٹھکرا دیا، اور معاشرہ میں اپنے مرتبہ اور علمیت کے سبب یوحنا سے بپتسمہ لینے سے انکار کر دیا۔ تاہم، گنہگاروں نے خدا کی راستباز شرائط کی پابندی کی اور اُس سے بپتسمہ لیا۔ اُنہوں نے یوحنا کے ذریعہ اعلان کی ہوئی خدا کی راستبازی کو تسلیم کیا۔ یسوع نے فرمایا کہ یہودیوں کے سرداروں نے یوحنا پر لوگوں سے دُور رہنے اور راہبانہ زندگی بسر کرنے کی وجہ سے تنقید کی تھی۔ اُنہوں نے یہاں تک کہا کہ یوحنا میں بدرُوح تھی اور اِسی باعث اُنہوں نے اُسے رد کیا۔ دوسری جانب اُنہوں نے یسوع پر اِس وجہ سے نکتہ چینی کی کہ وہ لوگوں سے ملتا اور اُن سے رفاقت رکھتا، سادہ زندگی بسر کرتا اور لوگوں کی خوشیوں اور غموں میں اُن کا شریک ہوتا تھا۔ اُنہوں نے کہا "دیکھو کھاﺅ اور شرابی آدمی محصول لینے والوں اور گنہگاروں کا یار" (انجیل بمطابق لوقا 7: 34)، سو اُنہوں نے مسیح کو بھی رد کر دیا۔ یہ یہودی راہنما دونوں پر الزامات عائد کرنے میں دغاباز اور فریبی تھے، جس سے عیاں ہو جاتا ہے کہ سچی حکمت اُس کے اپنے فرزندوں کے سِوا اَور کسی کے ذریعے نہ تو ظاہر ہوتی ہے اور نہ ترقی پاتی ہے۔

عزیز قاری، بےاعتقاد نہ ہوں بلکہ یسوع مسیح پر توکل کریں۔ اپنے دِل کا دروازہ کھولیں اور اُسے اپنے خداوند اور نجات دہندہ کے طور پر قبول کریں۔ خدا کی جانب سے نجات کی یہی واحد راہ ہے۔

2- یسوع کا ایک فریسی کے گھر جانا

"پھر کسی فریسی نے اُس سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا کھا۔ پس وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔ تو دیکھو ایک بدچلن عورت جو اُس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے سنگِ مرمر کے عِطردان میں عِطر لائی۔ اور اُس کے پاﺅں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہو کر اُس کے پاﺅں آنسوﺅں سے بِھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُن کو پونچھا اور اُس کے پاﺅں بہت چُومے اور اُن پر عِطر ڈالا۔ اُس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ بدچلن ہے۔" (انجیل بمطابق لوقا 7: 34-39)

شمعون نامی ایک فریسی نے اپنے گھر میں چند دوسرے مہمانوں کے ساتھ یسوع کو کھانے پر مدعو کیا، اور یسوع نے اُس دعوت کو قبول کیا۔ ہمیں اِس دعوت میں یسوع کو مدعو کرنے کے پیچھے شمعون کے مقصد کا علم نہیں کیونکہ ہم اِس شخص کے کردار کے بارے میں نہیں جانتے۔ ہو سکتا ہے کہ اُس نے اِس شہرت یافتہ شخص کو تعلیم دینے، اُس کے کام دیکھنے اور کلام سُننے کےلئے نیک اِرادہ کے ساتھ مدعو کیا ہو۔ اِس کے برعکس اُس کا اِرادہ کینہ پرور بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے احباب کے ساتھ مل کر یسوع کو اُسی کی باتوں میں پھانسا جائے۔ تاہم، اِس دعوت کو قبول کرنے میں یسوع کا مقصد واضح ہے، کیونکہ ہم آپ کے کردار اور اصولوں سے واقف ہیں جن کے تحت آپ نے اپنی زندگی بسر کی۔ یسوع نے اپنے دشمنوں سے محبت رکھی، حالانکہ وہ آپ کی جان لینے کے درپے تھے۔ یسوع نے ادنیٰ و اعلیٰ تمام انسانوں کی رُوحوں کو جیتنے کےلئے ہر موقع کو تصرف میں لا کر اپنے آپ کو سرگرم ثابت کیا۔

اگرچہ شمعون یسوع کے معجزوں کے سبب اور ایک نبی کی حیثیت سے چاروں طرف آپ کی شہرت کی وجہ سے آپ کی تعظیم کرتا تھا، لیکن آپ کے معمولی پس منظر کی وجہ سے وہ آپ کےلئے کچھ حقارت کا مادہ بھی رکھتا تھا۔ یسوع ناصرت سے تعلق رکھنے والے ایک غریب شخص تھے۔ آپ یہودیوں کے الہیاتی مدرسوں کے فارغ التحصیل نہ تھے اور نہ فریسیوں کی روایات کی پابندی کرتے تھے۔ شمعون مذہبی نکتہ نظر کے سبب یسوع کو حقیر سمجھتا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ اُس نے اپنے مہمان کی حیثیت سے یسوع کو شایانِ شان احترام اور خدمت سے نہ نوازا۔ یہ گمان گزرتا ہے کہ شمعون نے یسوع ناصری کو مدعو کر کے اپنے خیال میں بہت زیادہ احترام دیا تھا۔

شمعون کے گھر میں یسوع کے مدعو کئے جانے کی خبر اُس قصبہ کے کونے کونے تک پہنچ گئی، اور ہو سکتا ہے کہ مسیح کے شایانِ شان احترام نہ کئے جانے کی خبر بھی پھیل گئی۔ اِس کے ردعمل میں ایک عورت جو جانی پہچانی گنہگار تھی بہت جوش سے بھر گئی۔ وہ ایسے عظیم نبی اور اُستاد کے ساتھ اِس طرح کے حقارت بھرے برتاﺅ کو برداشت نہ کر سکی، اور اُس نے مسیح کےلئے خاطر مدارت کی اِس کمی کی تلافی کرنا چاہی۔ وہ بیش قیمت عِطر لے کر آئی اور یسوع کے پاﺅں کے پاس کھڑی ہو گئی۔ اُس نے ایسا اِس لئے کیا کیونکہ وہ وہاں جمع لوگوں کی نظر میں ایک گنہگار ہونے کے سبب سے اپنی حقیر حالت سے واقف تھی۔ اُسے اپنے ماضی کے گناہوں کے بوجھ کا بھی احساس تھا۔ اُس نے اِس قیمتی عِطر کو یسوع کے سر پر اُنڈیلنے کی جرأت نہ کی، بلکہ اُس نے اِسے آپ کے پاﺅں پر اُنڈیلا۔ غالباً یہ خاتون بھی تھکے ماندے اور بوجھ سے دبے ہوئے اُن لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے چند گھنٹے پیشتر مسیح کی جانب سے بلائے جانے کی آواز کو سُنا تھا۔ اُس نے مسیح کی دعوت کو قبول کیا اور توبہ بھرے ایمان کے ساتھ آپ کے روبرو حاضر ہوئی۔

اُس معاشرے میں کھانا کھانے کےلئے بیٹھتے وقت پاﺅں پیچھے کی جانب کیا کرتے تھے۔ اور ہم اِس خاتون کو مسیح کے پیچھے کی جانب کھڑے ہو کر آپ کے پاﺅں پر عِطر اُنڈیلتے تصور میں لا سکتے ہیں۔ مگر اِس سے زیادہ گراں قدر اُس کے وہ توبہ کے آنسو تھے جو اُس کے رُخسار پر سے بہتے ہوئے اِس عِطر کے ساتھ شامل ہو رہے تھے۔ اُس کے کچھ آنسو اُس کے ماضی کی غلط کاریوں پر ندامت کا اظہار تھے، جبکہ باقی شکرگزاری کرتے ہوئے خوشی کے آنسو تھے کیونکہ یسوع نے اُسے معافی اور نئی زندگی بخشی تھی۔ اُس نے مسیح میں اپنی رُوح کےلئے سلامتی اور اطمینان پایا۔ وہاں موجود سب لوگ اُس خاتون کے ایسے باوقار برتاﺅ کو تو دیکھ رہے تھے، لیکن وہ اِس بات کو سمجھ نہ پائے کہ ایک بدکار خاتون اُن کی آنکھوں کے سامنے توبہ کے آنسو بہا رہی تھی اور بڑے احترام کے ساتھ یسوع کے پاﺅں کو اپنی نہایت ہی عزیز چیز یعنی اپنے بالوں سے پونچھ رہی تھی۔ اُن لوگوں نے اُسے ایسا کرنے میں غالباً نشہ میں غرق تصوّر کیا، اور اُنہیں اِس بات کا احساس نہ ہُوا کہ جو کچھ وہ کر رہی تھی وہ عاجزی پر مبنی عمل تھا جس میں شکرگزاری کے ساتھ ملنے والی معافی کو قبول کرنا شامل تھا۔ اُس نے یسوع کے پاﺅں کو چوما جن پر چل کر مسیحا وہاں آئے تھے اور اُس کی توبہ اور نجات کی طرف راہنمائی ہوئی تھی۔

شمعون نامی فریسی، محصول لینے والوں اور گنہگاروں سے ملنے جلنے سے مکمل طور پر احتراز برتتا تھا۔ اِس وجہ سے وہ ایسی خاتون کو اپنے گھر میں دیکھ کر نہایت ناخوش ہُوا، اور جو کچھ اُس نے یسوع کے ساتھ کیا تھا اُس سبب سے وہ نہایت خفا ہُوا۔ اُس خاتون کے اِس عمل کو مسیح کے ذریعہ قبولیت حاصل ہونے کے سبب وہ مزید متعجب ہُوا ہو گا۔ اُس نے اپنے دِل میں سوچا کہ کیا یسوع کو اِس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ عورت کون تھی؟ اگر اُسے علم تھا تو وہ اپنے پاﺅں چھونے کی اجازت دینے میں غلط تھا۔ اور اگر اُسے علم نہیں تھا تو وہ نبی نہیں ہو سکتا تھا۔ ایسے خیالات شمعون کے دماغ میں گھوم رہے تھے لیکن اُس نے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ مگر یسوع کو علم تھا کہ شمعون کیا سوچ رہا تھا۔ مسیح نے اُسے ایک تمثیل بیان کی: "یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، اے شمعون مجھے تجھ سے کچھ کہنا ہے۔ اُس نے کہا، اے اُستاد کہہ۔" تب یسوع نے کہا "کسی ساہوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا دوسرا پچاس کا۔ جب اُن کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ رہا تو اُس نے دونوں کو بخش دیا۔ پس اُن میں سے کون اُس سے زیادہ محبت رکھے گا؟ شمعون نے جواب میں کہا، میری دانست میں وہ جسے اُس نے زیادہ بخشا۔ اُس نے اُس سے کہا، تُو نے ٹھیک فیصلہ کیا۔ اور اُس عورت کی طرف پھِر کر اُس نے شمعون سے کہا، کیا تُو اِس عورت کو دیکھتا ہے؟ میں تیرے گھر میں آیا۔ تُو نے میرے پاﺅں دھونے کو پانی نہ دیا مگر اِس نے میرے پاﺅں آنسوﺅں سے بھِگو دِئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔ تُو نے مجھ کو بوسہ نہ دیا مگر اِس نے جب سے میں آیا ہوں میرے پاﺅں چُومنا نہ چھوڑا۔ تُو نے میرے سر میں تیل نہ ڈالا مگر اِس نے میرے پاﺅں پر عِطر ڈالا ہے۔ اِسی لئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اِس کے گناہ جو بہت تھے معاف ہوئے کیونکہ اِس نے بہت محبت کی مگر جس کے تھوڑے گُناہ معاف ہوئے وہ تھوڑی محبت کرتا ہے۔ اور اُس عورت سے کہا، تیرے گناہ معاف ہوئے۔ اِس پر وہ جو اُس کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اپنے جی میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے جو گناہ بھی معاف کرتا ہے؟ مگر اُس نے عورت سے کہا، تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامت چلی جا۔" (انجیل بمطابق لوقا 7: 40-50)

ایک ساہوکار کے دو قرضدار تھے، جن میں سے ایک کے ذمے پچاس چاندی کے دینار اور دوسرے پر پانچ سو دینار قرض تھا۔ اُس نے دونوں کا قرض معاف کر دیا۔ اُن میں سے کون اُس سے زیادہ محبت رکھے گا؟ شمعون نے جواب دیا: " ... وہ جس نے اُسے زیادہ بخشا۔" یسوع نے شمعون پر یہ عیاں کیا کہ جس کے ذمہ تھوڑا قرض تھا وہ شمعون خود تھا، جبکہ بدکار عورت وہ تھی جس کے ذمہ زیادہ قرض تھا۔ یسوع نے اپنے پاﺅں پر بہنے والے اُس عورت کے آنسوﺅں کو پاﺅں دھونے کے روایتی دستور سے جو شمعون نے نہیں کیا تھا ایک تضاد کے طور پر بیان کیا۔ پھِر آپ نے اُس عورت کے اپنے پاﺅں چومنے اور شمعون کے آپ کو بوسہ نہ دینے کے درمیان فرق بھی بتایا۔ تیسرا، آپ نے اُس عورت کے اپنے پاﺅں پر قیمتی عِطر اُنڈیلنے کو سر پر تیل ڈالنے سے جو شمعون کو کرنا چاہئے تھا ایک تضاد کے طور پر بیان کیا۔ یسوع نے اُس عورت کے نیک عمل کو گناہوں کی معافی کی درخواست کے طور پر لیا اور اُسے معافی عطا فرمائی۔ اپنے گناہوں کی کثرت کو محسوس کرتے ہوئے وہ عورت اپنے گناہ معاف کرنے والے کی دِل سے شکرگزار ہوئی۔ جبکہ شمعون نے اپنے گناہوں کے اصل بار کو محسوس ہی نہ کیا اِس لئے اُس میں شکرگزاری پر مبنی محبت کا احساس نہ تھا، اور وہ اُس خاتون کے احساسات کو بھی نہ سمجھ سکا۔

یسوع کا بیان کہ "اِس کے گناہ جو بہت تھے معاف ہوئے کیونکہ اِس نے بہت محبت کی" اِس تمثیل کے ساتھ ہی موجود ہے۔ یسوع نے شمعون پر عیاں کیا کہ جس گنہگار کے زیادہ گناہ معاف ہوتے ہیں وہ زیادہ محبت کرتا ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ گنہگار کا محبت کرنے کا عمل معافی پانے سے پہلے آتا ہے یا اِس کا سبب بنتا ہے۔ ایک انسان کو اپنی بڑی محبت کے سبب معافی نہیں ملتی، بلکہ وہ گناہ کے ایک بڑے قرض کے معاف کئے جانے کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔

بعد ازاں یسوع نے اُس عورت سے کہا "تیرے گناہ معاف ہوئے۔" تب یسوع نے دیکھا کہ وہاں موجود افراد آپ پر نکتہ چینی کےلئے ویسے ہی آمادہ تھے جب آپ نے مفلوج شخص کو شفا دینے سے پہلے کہا تھا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے۔ اِس لئے آپ نے اُس عورت سے کہا "تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامت چلی جا۔" جنہیں بہت گناہوں سے معافی ملتی ہے، وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ پھر دوبارہ گناہ کی راہ پر نہ جائیں۔

آج بھی فقط یسوع ہی وہ نجات دہندہ ہے جو گنہگار کو معاف کر سکتا اور اُسے راہِ حق کی طرف لا سکتا ہے۔ کیا آپ اِس واحد نجات دہندہ کو پا چکے ہیں جو حقیقت میں بچا سکتا ہے؟

3- مسیح کے حقیقی رشتہ دار

الف- ایک بدرُوح گرفتہ اندھے گونگے کو شفا دینا

"اُس وقت لوگ اُس کے پاس ایک اندھے گونگے کو لائے جس میں بدرُوح تھی۔ اُس نے اُسے اچھا کر دیا۔ چنانچہ وہ گونگا بولنے اور دیکھنے لگا۔ اور ساری بھیڑ حیران ہو کر کہنے لگی، کیا یہ ابنِ داﺅد ہے؟ فریسیوں نے سُن کر کہا، یہ بدرُوحوں کے سردار بعلزبول کی مدد کے بغیر بدرُوحوں کو نہیں نکالتا۔ اُس نے اُن کے خیالوں کو جان کر اُن سے کہا، جس بادشاہی میں پھوٹ پڑتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس شہر یا گھر میں پھوٹ پڑے گی وہ قائم نہ رہے گا۔ اور اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہو گیا۔ پھر اُس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی؟ اور اگر میں بعلزبول کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہوں تو تمہارے بیٹے کس کی مدد سے نکالتے ہیں؟ پس وہی تمہارے منصف ہوں گے۔ لیکن اگر میں خدا کے رُوح کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہوں تو خدا کی بادشاہی تمہارے پاس آ پہنچی۔ یا کیونکر کوئی آدمی کسی زورآور کے گھر میں گھس کر اُس کا اسباب لُوٹ سکتا ہے جب تک کہ پہلے اُس زورآور کو نہ باندھ لے؟ پھر وہ اُس کا گھر لُوٹ لے گا۔" (انجیل بمطابق متی 12: 22-29)

لوگ یسوع کے پاس ایک ایسے بیمار شخص کو لائے جو بدرُوح گرفتہ، اندھا اور گونگا تھا۔ جب یسوع نے اُسے اُس کی تینوں مصیبتوں سے کامل شفا بخشی تو لوگ نہایت خوش ہوئے اور حیران ہو کرکہنے لگے کہ یہ غمخوار ضرور ابنِ داﺅد، مسیح موعود ہے۔ لیکن یسوع پر نگاہ رکھنے کےلئے یروشلیم سے آئے ہوئے فقیہ اور فریسی بِھیڑ کی جانب سے اُس کےلئے محبت و تعظیم کے جذبات کی بابت خاموش نہ رہ سکے۔ اُنہوں نے لوگوں کو مسیح سے دُور رکھنے کی کوشش میں اپنے سیاسی اثر کو استعمال کیا۔ وہ کہنے لگے کہ مسیح بدرُوحوں کے سردار بعل زبول کا آلہ۶کار تھا، اور اُنہوں نے یہ افواہ اُن لوگوں میں بھی پھیلا دی جنہوں نے مسیح کی باتیں بذاتِ خود نہیں سُنی تھیں۔ جو کچھ لوگوں کے دِل میں تھا یسوع اُس سے واقف تھے، اور جو کچھ آپ کی بابت یہودی سردار کہہ رہے تھے وہ بھی آپ جانتے تھے۔ ایک بار پھر آپ نے اُن کے سامنے اُن کے باطنی خیالات کو بغیر دیکھے اور سُنے پیش کر کے اپنی الہٰی فطرت کو واضح کیا۔ آپ نے اُن سے مخاطب ہو کر اُن کی بدی پر مبنی رائے کو تین طرح سے باطل ٹھہرایا:

(1) یسوع نے ا پنی پہلی دلیل سے اِس الزام کو باطل ٹھہرایا کہ آپ ابلیس کی راہنمائی اور مدد سے کام کر رہے تھے۔ یہ سچ نہیں ہو سکتا تھا کہ ابلیس، یسوع کی مدد کرتا کیونکہ یسوع اُس کے خلاف تھے اور اُس کے ہاتھوں پریشان حال لوگوں کو رہائی عطا کر رہے تھے۔ اگر ابلیس نے یسوع کی مدد کی ہوتی تو اُس کی اپنی بادشاہی میں پھوٹ پڑ جاتی اور وہ برباد ہو جاتی۔

(2) یسوع کی دوسری دلیل اُن یہودی سرداروں کی بابت تھی جو آپ پر شیطان کی قوت سے بدرُوحیں نکالنے کا الزام لگا رہے تھے۔ اگر یہ الزام درست تھا تو یہ اُن دوسرے یہودیوں پر بھی لاگو ہوتا تھا جو بدرُوحیں نکالنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اِس طرح وہ دوسرے یہودی ہی اُن سرداروں کو جھوٹا ثابت کرتے اور منصف کی حیثیت سے اُنہیں سزاوار قرار دیتے۔ اور چونکہ وہ دوسرے یہودی علانیہ کہتے تھے کہ وہ خدا کی قدرت سے بدرُوحوں کو نکالتے تھے، اِس لئے اُنہوں نے اِن سرداروں کے منہ بند کئے۔

(3) یسوع نے اپنی تیسری دلیل سے ظاہر کیا کہ بدرُوحوں کو نکالنا خدا کے رُوح کا کام تھا جس نے مسیح کی نئی بادشاہی کی آمد کا اعلان کیا تھا۔ یسوع نے ابلیس پر حملہ کیا، اُسے باندھ دیا، اور اُس کے شکار کئے ہوﺅں کو اُس کے پنجے سے چُھڑایا۔ جب یسوع نے بدرُوح گرفتہ شخص میں سے بدرُوح کو نکالا، تو آپ نے اپنے آپ کو ایک زبردست نجات دہندہ ثابت کیا جو پوری طرح سے بچاتا ہے۔ لہٰذا یسوع، کیسے ابلیس کے ساتھی ہو سکتے تھے جبکہ آپ اُسے اپنے اختیار کی زنجیروں سے باندھتے ہیں؟

کیا یہ تعجب خیز نہیں کہ فریسیوں نے یسوع کے معجزات میں قوت کو تو دیکھا مگر رحم کو نہ دیکھا؟ ابلیس بھی بڑی قوت رکھتا ہے مگر اُس میں رحم کا جذبہ نہیں ہے۔ یہودی سرداروں نے یسوع کے معجزات میں رحم کے عنصر پر نظر نہ کی۔ جو بات روزِ روشن کی طرح عیاں تھی وہ اُسے دیکھ نہ سکے، یعنی یہ کہ ابلیس کی فطرت اور اُس کے کام رحم اور بھلائی کے کاموں کے بالکل برعکس تھے۔ وہ سردار کس قدر بڑے اندھے پن کا شکار تھے کہ جب اُنہوں نے اُن تمام بھلے کاموں کو جنہیں سب اچھی چیزوں کے خالق سے ہی منسوب کیا جا سکتا تھا، ابلیس سے منسوب کر دیا۔

ب- مذہب میں غیر جانبداری ناممکن ہے

"جو میرے ساتھ نہیں وہ میرے خلاف ہے اور جو میرے ساتھ جمع نہیں کرتا وہ بکھیرتا ہے۔" (انجیل بمطابق متی 12: 30)

اِس بات کی وضاحت کرنے کے بعد کہ آپ کے معجزات خدا کی جانب سے تھے، یسوع نے اِس امر کو ثابت کیا کہ ہم مذہب کے معاملہ میں غیرجانبدار نہیں رہ سکتے۔ ہر انسان یا تو یسوع کے ساتھ ہے یا پھر آپ کے خلاف ہے۔ جو کوئی یسوع کے کام نہیں کرتا وہ آپ کے ساتھ نہیں خواہ وہ کتنا بھی دعویٰ کرے۔ وہ سب جو یسوع کے کام نہیں کرتے آپ کے دشمن شیطان کے کام کرتے ہیں، وہ آپ کے ساتھ جمع نہیں کرتے بلکہ بکھیرتے ہیں۔ روزِ ولادت ہی سے موروثی طور پر ہر شخص شیطان کی خدمت میں ہوتا ہے، اور کامل ارادہ کے ساتھ مسیح کی خدمت میں آنے کے سوا اَور کسی طرح سے اِس سے رہائی نہیں پا سکتا۔

رُوحانی عالم میں فقط دو ہی بادشاہتیں ہیں جن کے درمیان ایک مسلسل جنگ جاری ہے جس کا خاتمہ نہیں ہُوا۔ دونوں مخالفین کے درمیان کوئی مصالحت یا التوائے جنگ نہیں۔ خدا کی بادشاہی نور، سچائی اور راستبازی کی بادشاہی ہے۔ جبکہ ابلیس کی بادشاہی تاریکی، بطالت اور بدی کی بادشاہی ہے۔ اِن دونوں بادشاہتوں میں غیر جانبداری کی حالت ناممکن ہے۔

یسوع نے اپنے تمام معجزات رُوح القدس کی قدرت سے سرانجام دیئے، جس نے آپ کی راہنمائی کی اور شروع سے آخر تک آپ کو تقویت فراہم کرتا رہا۔ اسرائیل کے سرداروں نے یسوع کے کاموں کو بدرُوحوں کے سردار بعلزبول سے منسوب کر کے رُوح القدس کی بےعزتی کی۔ اِسی لئے یسوع نے اُنہیں لوگوں کو گمراہ کرنے پر اعلانیہ مجرم قرار دیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ اُنہوں نے یسوع پر ایک غیرمناسب الزام لگایا تھا۔ یہ لوگ پہلے بھی ایسا کر چکے تھے، جب یسوع نے مفلوج سے کہا تھا کہ "تیرے گناہ معاف ہوئے" (انجیل بمطابق متی 9: 2)۔ یسوع نے اُن کے بارے میں ایک بات صاف صاف کہی کہ وہ لوگ آپ کے بدرُوحیں نکالنے کی بابت جو کچھ سوچ اور کہہ رہے تھے وہ کفرگوئی تھی۔

یہودی سرداروں کے بارے میں اِس رائے کے اظہار کے دوران آپ نے گنہگاروں کےلئے عظیم ترین تسلی کا اعلان کیا کہ اگر ایمان کے ساتھ سچی توبہ کی جاتی ہے تو خدا تعالیٰ سارے گناہوں کو خواہ وہ کتنے بھی سنگین ہوں معاف فرماتا ہے۔ اِس لئے بڑے سے بڑے گنہگار کےلئے بھی گناہ اور اُس کے اثرات سے اپنی نجات کے کام کو ملتوی کرنے کا کوئی عُذر باقی نہیں ہے۔ اگر ایک گنہگار توبہ کرے اور معافی کا طلبگار ہو تو اُس کے نااُمید ہونے کی کوئی وجہ نہیں خواہ اُس کے گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔ جو کچھ مسیح نے فرمایا یسعیاہ نبی کی نبوت اُس کی تصدیق کرتی ہے: "اب خداوند فرماتا ہے، آﺅ ہم باہم حُجّت کریں۔ اگرچہ تمہارے گناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہر چند وہ ارغوانی ہوں تَو بھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے" (یسعیاہ 1: 18)۔

ج- رُوح القدس کے خلاف کفر بکنا

"اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کُفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کُفر رُوح کے حق میں ہو وہ معاف نہ کیا جائے گا۔ اور جو کوئی ابنِ آدم کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اُسے معاف کی جائے گی مگر جو کوئی رُوح القدس کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے معاف نہ کی جائے گی، نہ اِس عالم میں نہ آنے والے میں۔" (انجیل بمطابق متی 12: 31، 32)

یسوع نے یہودی سرداروں اور تمام دُنیا پر واضح کر دیا کہ ایک قسم کا گناہ ایسا ہے جس کی معافی نہیں ہو سکتی، اور وہ ہے رُوح القدس کے خلاف کُفرگوئی کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر گناہ اور کُفر تو معاف ہو سکتا ہے لیکن جو کوئی رُوح القدس کے بارے میں کُفر کہے گا وہ ہرگز معاف نہ کیا جائے گا۔ ایسا شخص ابدی سزا پائے گا۔ حقیقی توبہ رُوح القدس کے زیراثر ہوتی ہے، لیکن جو کوئی رُوح القدس کی توہین کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے اندر اُس کے کام کو روکتا ہے۔ وہ توبہ تک پہنچنے کے راستہ سے اپنے آپ کو محروم کرتا ہے اور گناہوں کی معافی حاصل نہیں کر سکتا۔ مگر جو کوئی رُوح القدس کے حق میں کفرگوئی سے ڈرتا ہے، وہ اِسے حقیقت میں ثابت کرتا ہے کہ اُس نے ایسا نہیں کیا۔ جو واقعی کُفرگو ہے وہ مکمل طور پر ہر رُوحانی ادراک و احساس کھو بیٹھتا ہے اور یوں معافی پانے کی ہر اُمید سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اُس کےلئے توبہ کی کوئی اُمید نہیں۔ رُوح کے معاملات کی جانب اُس کی انتہائی بےاعتنائی سے اُس کا ضمیر مُردہ ہو جاتا ہے۔ یوں وہ جان بوجھ کر توبہ سے گریز کرتے ہوئے اپنے دِل کو سخت کرتا ہے اور تاریکی کو چُننے میں بضد رہتا ہے یہاں تک کہ خدا کا رُوح اُس سے قطعی جُدا ہو جاتا ہے۔

کُفرگوئی کے انتہائی مُضر ہونے کے بارے میں مسیح کے الفاظ سے ہمیں ثبوت ملتا ہے کہ رُوح القدس ایک شخصیت، واحد خدا میں پاک تثلیث کا ایک اقنوم ہے۔

د- جو دِل میں بھرا ہے وہی منہ پر آتا ہے

"یا تو درخت کو بھی اچھا کہو اور اُس کے پھل کو بھی اچھا یا درخت کو بھی بُرا کہو اور اُس کے پھل کو بھی بُرا کیونکہ درخت پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ اے سانپ کے بچو! تم بُرے ہو کر کیونکر اچھی باتیں کہہ سکتے ہو؟ کیونکہ جو دِل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔ اچھا آدمی اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزیں نکالتا ہے۔ اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو نکمی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دِن اُس کا حساب دیں گے۔ کیونکہ تُو اپنی باتوں کے سبب سے راستباز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔" (انجیل بمطابق متی 12: 33-37)

یسوع نے اپنے سامعین کی توجہ اِس حقیقت کی جانب مبذول کرائی کہ اِنسان کے منہ سے نکلے الفاظ اُس کے دِلی خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جب تک دِلی خیالات ٹھیک نہیں ہوں گے، تب تک منہ کے الفاظ بھی درست نہیں ہو سکتے۔ یہودی سرداروں کے اپنے بُرے خیالات اُنہیں جھوٹ بولنے کی طرف لے کر گئے۔ وہ کوئی اچھی بات نہ کہہ سکتے تھے۔ اِسی وجہ سے وہ بلا شک و شبہ اُن الفاظ کے مستحق تھے جو یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اُن کے بارے میں کہے اور خود یسوع نے بھی اُنہیں دہرایا کہ "سانپ کے بچو۔" اُن کی حالت واقعی بہت خراب تھی کیونکہ اُن کا اندر کا زہر موروثی تھا۔ اِسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یسوع نے بجا فرمایا کہ جو دِل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔ آپ نے سکھایا کہ لوگ اپنی ہر ایک کہی ہوئی بُری بات کا عدالت کے دِن حساب دیں گے کیونکہ یہ دِل کی بگڑی حالت کا خاطر خواہ ثبوت ہے جو قصوروار یا بےگناہ ٹھہرائے جانے کی حتمی پرکھ ہے۔

ہ- مذہبی راہنماﺅں کی ایک معجزہ دیکھنے کی تمنا

"اِس پر بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اُس سے کہا، اے اُستاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس نے جواب دے کر اُن سے کہا، اِس زمانہ کے بُرے اور زناکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یُوناہ نبی کے نشان کے سِوا کوئی اَور نشان اُن کو نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ جیسے یُوناہ تین رات دِن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی اِبنِ آدم تین رات دِن زمین کے اندر رہے گا۔ نینوہ کے لوگ عدالت کے دِن اِس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اِن کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ اُنہوں نے یُوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یُوناہ سے بھی بڑا ہے۔ دکھّن کی ملکہ عدالت کے دِن اِس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ اُٹھ کر اِن کو مجرم ٹھہرائے گی۔ کیونکہ وہ دُنیا کے کنارے سے سُلیمان کی حکمت سُننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سُلیمان سے بھی بڑا ہے۔ جب ناپاک رُوح آدمی میں سے نکلتی ہے تو سُوکھے مقاموں میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور نہیں پاتی۔ تب کہتی ہے میں اپنے اُس گھرمیں پھر جاﺅں گی جس سے نکلی تھی اور آ کر اُسے خالی اور جھڑا ہُوا اور آراستہ پاتی ہے۔ پھر جا کر اَور سات رُوحیں اپنے سے بُری ہمراہ لے آتی ہے اور وہ داخل ہو کر وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ اِس زمانہ کے بُرے لوگوں کا حال بھی ایسا ہی ہو گا۔" (انجیل بمطابق متی 12: 38-45)

یہودی سرداروں نے یسوع سے ایک معجزانہ نشان طلب کیا۔ وہ اُس سے محظوظ ہونا چاہتے تھے۔ اپنے رُوحانی اندھے پن کےلئے وہ سخت ملامت کے مستحق تھے۔ یسوع نے کہا کہ یہ بد اعمال لوگ نشان طلب کرتے ہیں لیکن اُنہیں یُوناہ نبی کے نشان کے سِوا اَور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔ اُس ز مانہ کے لوگوں کے بگاڑ کی جڑ یہ تھی کہ اُن کے دِل خدا کی محبت سے منحرف ہو گئے تھے اور اُنہوں نے اِنسانی تعلیمات کے ساتھ وابستگی کا چُناﺅ کیا تھا۔ وہ سردار یسوع کے سامنے ڈھونگ رچ رہے تھے کہ اگر وہ اپنے معجزات سے اُنہیں آسودہ کرے گا تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ یسوع کے مسیح موعود ہونے کے تعلق سے قائلیت کےلئے اور آپ پر ایمان لانے کےلئے جتنے معجزات ضروری تھے وہ اُس سے زیادہ معجزات دیکھ چکے تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہر نسل میں اُن یہودیوں کی مانند لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے مسیح کو رد کرنے کےلئے "ثبوت کی کمی" کا بہانہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لانا چاہتے، یہاں تک کہ اگر مزید ثبوت بھی پیش کر دیئے جائیں تو بھی وہ مُنکر ہی رہیں گے۔

یسوع نے اُن کے سامنے یُوناہ نبی کے نشان کا ذِکر کیا جس سے وہ واقف تھے۔ اُس میں یسوع کی بابت ایک نبوت ہے کہ آپ تین رات دِن زمین کے اندر رہیں گے۔ یسوع کا یُوناہ نبی کے واقعہ کا تذکرہ کرنا اِس کی تواریخی صداقت کی سند ہے، کیونکہ آپ اپنے لوگوں کی مخلصی کےلئے صلیب پر واقع اپنے عظیم کام کےلئے مثال اور ثبوت کے طور پر کسی بناوٹی قصے کو کبھی بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ یُوناہ کے واقعہ میں بڑی مچھلی تصوراتی نہیں ہے۔ یسوع نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ روزِ عدالت نینوہ کے بُت پرست لوگوں اور سبا کی غیرقوم کی ملکہ کو اُن سب پر ترجیح دے گا جو اپنے آپ کو خدا کے لوگ تو کہتے ہیں مگر توبہ نہیں کرتے۔ یُوناہ کی منادی کو سُن کر نینوہ کے لوگوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی۔ سبا کی بت پرست ملکہ اپنے ملک سے طویل سفر طے کر کے آئی اور سلیمان بادشاہ کی تمام باتوں کا یقین کیا۔ یسوع جو یُوناہ نبی اور سلیمان نبی سے بہت ہی عظیم ہیں یہودیوں کے درمیان تشریف لے کر آئے اور حکمت بھرے آسمانی کلام کے ساتھ اُن سے بات چیت کی لیکن اُنہوں نے آپ کا یقین نہ کیا۔

یسوع نے اِس "شریر اور بدکار نسل" کو ایک بدرُوح گرفتہ شخص کے مشابہ قرار دیا، جس میں سے بدرُوح نکل گئی لیکن پھر سات اَور بدرُوحوں کو ساتھ لے کر اُس میں داخل ہو گئی۔ اِس مثال سے مسیح کی مُراد یہ تھی کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے وقت کے دوران یہودی اُس کے پاس گئے، اُس کی تعلیمات سُن کر توبہ کی، اُس کا بپتسمہ لیا، لیکن وہ یسوع پر ایمان نہ لائے اور اُس کے رُوح القدس کو اپنے دِلوں میں بسنے نہ دیا۔ یوں اُن کے دِل خالی رہے اور پرانی بدیاں اُن میں کئی گنا زیادہ بڑھ کر سرایت کر گئیں۔ یسوع نے باوثوق کہا کہ اِس پُشت کے بُرے لوگوں کا حال جن کی بابت وہ بات کر رہے تھے پہلے حال سے بھی بُرا ہو گا۔ آپ کی نبوت سچ ثابت ہوئی۔ جب اُن کی برائیوں کا پیالہ لبریز ہو گیا تو وہ وقت آیا جب زبردست بربادی اور بڑی ایذارسانی ہوئی جس کی بابت یسوع نے کہا تھا کہ ایسا نہ پہلے ہُوا تھا اور نہ ہو گا۔

اِس تمثیل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بُرے کاموں کو چھوڑ دینا اُس وقت تک کافی نہیں جب تک کہ اُن بُرے کاموں کی جگہ اچھی باتوں کو اپنے دِل میں بسا نہ لیا جائے۔ اگر بدرُوح کے نکل جانے کے بعد ہم اُس رُوحانی خالی مقام کو اچھی رُوح سے نہیں بھرتے تو بدرُوح اَور بُری رُوحوں کے ساتھ آ جائے گی۔ دِل کبھی بھی خالی نہیں رہ سکتا۔ اگر خدا کا رُوح دِل میں آ کر ابلیس کی جگہ قیام نہ کرے تو ابلیس پہلے سے بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ آتا ہے اور دِل پر قبضہ جما لیتا ہے۔ گناہ کی طرف لوٹ آنا اُسے پہلی مرتبہ کرنے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

و- یسوع کے گھر والوں کا اُنہیں تلاش کرنا

"جب وہ بھِیڑ سے یہ کہہ رہا تھا اُس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اُس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ کسی نے اُس سے کہا، دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اُس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا، کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی؟ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا، دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور میری بہن اور ماں ہے۔" (انجیل بمطابق متی 12: 46-50)

یسوع کے رشتہ دار آپ کے شاگردوں اور اِردگرد موجود بڑے ہجوم سے واقف تھے، جس کے سبب یسوع کو کھانے تک کی فرصت نہ ہوتی تھی۔ یسوع کے رشتہ دار اُنہیں لینے کےلئے گئے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ یسوع بےخود ہے (انجیل بمطابق مرقس 3: 21)۔ لیکن اُنہیں یہ علم ہونا چاہئے تھا کہ دینی جوش و غیرت رکھنے والا شخص بےخود نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو وقف نہ کرنے والا دینی شخص بےخود ہوتا ہے۔

جب مسیح کی ماں اور بھائی آپ کو لینے کےلئے آئے تو ہم اُس وقت آپ کے غم کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ وہ بھِیڑ کے سبب مسیح تک پہنچنے کے قابل نہ تھے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ لوگ ہر اُس شخص کی عزت و تعظیم کرتے ہیں جو دولت جمع کرنے، دُشمنوں سے مقابلہ کرنے اور محنت سے پڑھائی کرنے میں سرگرمی کا مظاہرہ کرتا ہے، جبکہ دین میں گرمجوشی کو "بےخودی یا پاگل پن" تصور کیا جاتا ہے؟ جب مسیح کے رشتہ دار اُن تک نہ پہنچ سکے تو کسی کے ذریعے اُن کو یہ کہلا بھیجا کہ تیری ماں اور تیرے بھائی تیرا اِنتظار کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسیح اُن کے ساتھ جائیں تا کہ وہ آپ کےلئے علاج تجویز کرا سکتے۔ اگر ضرورت پڑتی تو وہ آپ کو جبراً یہ کہہ کر لے جاتے کہ یہ دماغی طور پر بیمار ہے اور علاج کی ضرورت ہے۔

یسوع نے اپنے رشتہ داروں، شاگردوں اور مجمع کو ضروری سبق سکھانے کےلئے اُس موقع کا اِس اُمید کے ساتھ فائدہ اُٹھایا کہ یہ بات اُن کے دِلوں میں جڑ پکڑ لے گی۔ آپ نے اُنہیں سمجھایا کہ آپ اِس دُنیا کے نہیں لہٰذا آپ اپنی والدہ، بھائیوں اور بہنوں کو دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں سمجھتے۔ آپ کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ عارضی زمینی تعلق پس منظر میں چلا گیا تھا جبکہ اُس کی جگہ ایک نیا، مستحکم روحانی رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ یہ رشتہ زمینی بندھنوں سے آزاد ہے، اور یہ آپ کو اُن سب کے ساتھ ایک تعلق میں پیوست کرتا ہے جو آپ کے ساتھ رُوحانی طور پر ایک ہوتے ہیں۔ یہی بات آپ نے اپنے سوال میں اُس شخص سے کہی جو آپ سے بات کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا "کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی؟" پھر آپ نے اپنے شاگرد مرد و خواتین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور میری بہن اور ماں ہے۔"

یسوع کی اپنی والدہ مُقدسہ مریم اور بھائیوں کےلئے محبت کسی بھی دوسرے انسان کی محبت سے کہیں زیادہ اور پاکیزہ تھی۔ اَور باتوں کی طرح اِس معاملہ میں بھی یسوع ایک کامل نمونہ تھے۔ لیکن اپنے رشتہ داروں کےلئے آپ کی وفاداری اور محبت آپ کے بھیجنے والے باپ سے آپ کی دیانتداری اور محبت کے تابع تھی۔ یہ رُوحانی محبت کے تحت بھی تھی جو آپ کو آپ کے رُوحانی خاندان یعنی آسمانی باپ کے رُوحانی فرزندوں کے ساتھ بندھن میں باندھتی ہے۔ یسوع کے جواب سے ہم سیکھتے ہیں کہ وہ سب جو خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلتے ہیں آپ کے نزدیک اور عزیز ترین لوگ ہیں۔

ایک فرد تصور کر سکتا ہے کہ مسیح کے یہ الفاظ آپ کے پیامبروں کےلئے کتنے تسلی بخش تھے جو مستقبل میں اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں ایذارسانی برداشت کرنے کو تھے۔ جس کسی نے آپ کے پیامبروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا وہ آپ کی طرف سے اجر کا مستحق ہے، اور جنہوں نے اُن کے ساتھ بُرا سلوک کیا یا اُن کے ساتھ نیکی کرنے کو نظرانداز کیا وہ سزا کے مستحق ہیں۔ اُن کے حق میں زکریاہ نبی کے صحیفہ میں لکھا ہے "جو کوئی تم کو چھوتا ہے میری آنکھ کی پُتلی کو چھوتا ہے" (زکریاہ 2: 8)۔

یسوع نے اپنے رشتہ داروں کےلئے فطری انسانی پیار کے جذبات میں بہنے سے انکار کیا۔ ایسی محبت میں رُوحانی کوتاہ بینی کا غلبہ ہوتا ہے۔ بعدازاں یسوع گھر چھوڑ کر جھیل کی جانب روانہ ہو گئے اور بہت سی تمثیلوں کے ذریعے یہ واضح کرنا اور سمجھانا شروع کیا کہ خدا کی بادشاہی کس طرح کی ہے۔

4- مسیح کا تمثیلوں میں تعلیم دینا

یسوع نے اکثر تمثیلوں میں تعلیم دی لیکن یہ پُراِسرار عناصر یا مزاح سے پاک تھی کیونکہ اِن کے ذریعہ مسیح نے اپنے سامعین کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں سے رُوشناس کرایا۔

الف- بیج بونے والے کی تمثیل

"اور اُس نے اُن سے بہت سی باتیں تمثیلوں میں کہیں کہ دیکھو ایک بونے والا بیج بونے نکلا۔ اور بوتے وقت کچھ دانے راہ کے کنارے گرے اور پرندوں نے آ کر اُنہیں چُگ لیا۔ اور کچھ پتھریلی زمین پر گرے جہاں اُن کو بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب سے جلد اُگ آئے۔ اور جب سورج نکلا تو جل گئے اور جڑ نہ ہونے کے سبب سے سُوکھ گئے۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرے اور جھاڑیوں نے بڑھ کر اُن کو دبا لیا۔ اور کچھ اچھی زمین میں گرے اور پھل لائے۔ کچھ سَو گُنا کچھ ساٹھ گُنا کچھ تیس گُنا۔ جس کے کان ہوں وہ سُن لے۔" (انجیل بمطابق متی 13: 3-9)

اِس تمثیل میں یسوع نے اپنے سامعین کو چار گروہوں میں تقسیم کیا۔ پہلے گروہ کے لوگ کلام کو صرف کانوں سے سُننے پر ہی اِکتفا کرتے ہیں اور اُسے اپنے ذہن سے نہیں سمجھتے کیونکہ یا تو دوسرے کاموں میں مصروف رہتے ہیں یا پھر گناہ کرنے کی وجہ سے اُن کے دِل سخت ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ کلام نہ سُننے والوں سے قطعی مختلف نہیں، اور جلد ہی کلام کے فائدہ سے اُن کی محرومیت نظر آتی ہے کیونکہ وہ اِس رُوحانی خوراک کی شیرینی سے آسودہ نہیں ہوتے۔ مسیح نے ایسے لوگوں کو راہ کے کنارے گرے ہوئے بیج سے مشابہ ٹھہرایا جو لوگوں کے پاﺅں کے نیچے روندا گیا اور ہوا کے پرندوں نے اُسے چُگ لیا۔ ایسے لوگ پھل نہیں لاتے۔

دوسرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو مسیح کی تعلیم کو سمجھتے ہیں اور خوشی خوشی قبول کرتے ہیں۔ تاہم اُن کی خوشی سطحی اور عارضی ہوتی ہے کیونکہ وہ شاگردیت کی قیمت کا اندازہ نہیں لگاتے اور نہ ہی باطنی اور خارجی طور پر پیش آنے والی اُس مزاحمت کا مقابلہ کرنے کےلئے خود کو تیار کرتے ہیں جو خدا کے کلام سے محبت کرنے والے ہر فرد کو پیش آتی ہے۔ اِسی وجہ سے جب مصائب آتے ہیں تو وہ اپنے اُس ایمان سے مُنکر ہو جاتے ہیں جس کا پہلے اُنہوں نے اقرار کیا ہوتا ہے اور اُس میں خوش ہوتے ہیں۔ یسوع نے ایسے لوگوں کو کم مٹی پر مشتمل پتھریلے علاقہ میں گرنے والے بیج سے مشابہ قرار دیا جو فوراً اُگتے ہیں لیکن پھر جلد ہی سوکھ جاتے ہیں اور جب سورج اُن پر چمکتا ہے تو مٹی گہری نہ ہونے کے سبب کوئی پھل نہیں لاتے۔

تیسرا گروہ اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو الہٰی تعلیم کو سمجھتے ہیں اور خوشی سے اُسے قبول کرتے ہیں۔ مخالفت کے دوران وہ ایمان میں مستحکم اور تمام نقصان کے باوجود ایذارسانی کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں۔ مگر یہ ثابت قدمی اُن کی فطرت میں ضدی مادہ کے سبب ہوتی ہے کیونکہ وہ خود کو دینی شہید تصور کرتے ہیں۔ وہ پھل نہیں لاتے کیونکہ نہ تو وہ خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہی بنی نوع انسان کی بہبود کے کام آتے ہیں۔ وہ دُنیوی معاملات میں غرق رہتے ہیں۔ اگر وہ غریب ہیں تو اپنی ضروریات پوری کرنے کی اُلجھن میں گرفتار رہتے ہیں، اور اگر وہ دولتمند ہیں تو اپنے مال و دولت اور دوسرے معاملات میں گھرے رہتے ہیں۔ یسوع نے اُنہیں اُن بیجوں کے مشابہ قرار دیا جو اچھے طور پر اُگے اور لوگوں کو اُن میں پھل لانے کی علامات نظر آئیں، لیکن فصل کاٹنے کے موقع پر اُن کا بےپھل ہونا ظاہر ہو گیا۔ وہ اِس لئے پھل نہیں لائے کیونکہ زندگی کی فکروں کی "جھاڑیاں" اُن پر غالب آئیں اور اُنہوں نے اُنہیں دبا دیا۔

چوتھا اور آخری گروہ اُن لوگوں کو ظاہر کرتا ہے جو پہلے بیان کئے گئے تمام نقائص سے مبرّا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ پہلے خدا کی بادشاہی اور راستبازی کی تلاش کرتے ہیں۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، وہ دُنیوی معاملات کے سبب اپنی راہ سے نہیں ہٹتے۔ اِسی لئے وہ ایذاﺅں اور مصیبتوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ اُنہیں اپنے صبر کو تقویت دینے کا موقع تصور کرتے ہیں (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 3)۔ جو کچھ وہ سُنتے ہیں اُسے سمجھتے ہیں اور خدا کے جلال اور دوسروں کی بہتری کےلئے بہت سا پھل لاتے ہیں۔ لیکن اُن کے پھل اُن کی نعمتوں، مواقع اور پیش آنے والے حالات کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔ یسوع نے اُنہیں اچھی زمین میں گرے بیج سے تشبیہ دی جو تیس گُنا، ساٹھ گُنا اور سُو گنا پھل لاتا ہے۔

یسوع نے اِس تمثیل کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مددگار نکتہ بیان کیا جس کے ذریعہ اُن تمام تمثیلوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن کی یسوع نے وضاحت پیش نہیں کی۔ اور وہ نکتہ یسوع نے اِس تمثیل کے شروع میں اپنے سامعین کو خبردار کرتے ہوئے یوں بیان کیا کہ "دیکھو ..."، اور تمثیل کے آخر میں یوں بیان کیا "جس کے کان ہوں وہ سُن لے۔"

ب- کھیت میں کڑوے دانوں کی تمثیل

"اُس نے ایک اَور تمثیل اُن کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اُس آدمی کی مانند ہے جس نے اپنے کھیت میں اچھا بیج بویا۔ مگر لوگوں کے سوتے میں اُس کا دُشمن آیا اور گیہوں میں کڑوے دانے بھی بو گیا۔ پس جب پتیاں نکلیں اور بالیں آئیں تو وہ کڑوے دانے بھی دِکھائی دیئے۔ نوکروں نے آ کر گھر کے مالک سے کہا اے خداوند کیا تُو نے اپنے کھیت میں اچھا بیج نہ بویا تھا؟ اُس میں کڑوے دانے کہاں سے آ گئے؟ اُس نے اُن سے کہا یہ کسی دُشمن کا کام ہے۔ نوکروں نے اُس سے کہا تو کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم جا کر اُن کو جمع کریں؟ اُس نے کہا نہیں ایسا نہ ہو کہ کڑوے دانے جمع کرنے میں تم اُن کے ساتھ گیہوں بھی اُکھاڑ لو۔ کٹائی تک دونوں کو اکھٹا بڑھنے دو اور کٹائی کے وقت میں کاٹنے والوں سے کہہ دوں گا کہ پہلے کڑوے دانے جمع کر لو اور جلانے کےلئے اُن کے گٹھے باندھ لو اور گیہوں میرے کھتے میں جمع کر دو۔" (انجیل بمطابق متی 13: 24-30)

یہ دوسری تمثیل اِس حقیقت پر مبنی ہے کہ دُشمن ابلیس، مسیح کی ظاہری بادشاہی کلیسیا میں ایسے لوگوں کو داخل کر دیتا ہے جو خدا کے اپنے نہیں ہیں۔ شروع میں اُن کی پہچان نہیں ہو سکتی لیکن جب سچائی بتدریج عیاں ہونا شروع ہو جائے تو خدا پرست لوگ مسیحی کلیسیا سے اُنہیں خارج کر کے جُدا کرنا چاہیں گے۔ لیکن ایسی علیحدگی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کلیسیا کے راہنما یہ نہیں جان سکتے کہ لوگوں کے دِلوں میں کیا ہے۔ ایسے میں ممکن ہے کہ وہ توبہ کرنے والے شاگرد کو تو کلیسیا سے علیحدہ کر دیں، لیکن ٹھیک اُسی وقت حقیقی مسیحی صفات سے خالی ایک دغاباز وہیں موجود رہے۔ لہٰذا خدا اپنے لوگوں کے راہنماﺅں کو تلقین کرتا ہے کہ کسی کمزور یا زوال پذیر شخص کو خارج کرنے سے پیشتر نہایت غور و فکر کے ساتھ دھیان دیں تا کہ غیر منصفانہ طور پر غلط قدم نہ اُٹھائیں۔

اِس تمثیل میں یسوع نے خود کو ایک ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ دی جس نے اپنے کھیت میں اچھا بیج بویا۔ اور آپ نے اپنے دُشمن شیطان کو ایک اَور شخص کے ساتھ تشبیہ دی جس نے اُسی کھیت میں کڑوے دانے بو دیئے۔ تمثیل میں یسوع نے اپنے فرشتوں کو فصل کاٹنے والے اور عدالت کے دِن کو فصل کاٹنے کا وقت کہا۔ آپ نے اپنی تمثیل کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ ابنِ آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا جو اُس کی بادشاہی سے ہر اُس چیز کو نکال باہر کریں گے جو گناہ کا باعث بنتی ہے اور سب بدی کرنے والوں کو بھی باہر نکالیں گے، وہ اُنہیں آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے جہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہو گا۔ تب راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے۔

ج- بیجوں کے رازدارانہ طور پر نشوونما پانے کی تمثیل

"اور اُس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے۔ اور رات کو سوئے اور دِن کو جاگے اور وہ بیج اِس طرح اُگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے پہلے پتی۔ پھر بالیں۔ پھر بالوں میں تیار دانے۔ پھر جب اناج پک چُکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا۔" (انجیل بمطابق مرقس 4: 26-29)

یسوع نے یہ تیسری تمثیل بغیر کسی وضاحت کے پیش کی۔ آپ نے اِس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اِسے بیان کیا کہ زمین پر خدا کی بادشاہی کی بڑھوتری کا عمل بھی عین فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ یکدم نہیں بلکہ بتدریج وقوع میں آتا ہے اور اِس کی پوشیدہ ابتدا ہوتی ہے جسے کوئی انسان نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ بیان کر سکتا ہے۔

د- رائی کے دانے کی تمثیل

"اُس نے ایک اَور تمثیل اُن کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اُس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔" (انجیل بمطابق متی 13: 31، 32)

جب یسوع نے یہ تمثیل سُنائی تو اُس وقت موسم سرما کا شروع تھا اور چاروں طرف کھیتوں میں کام جاری و ساری تھا۔ مسیح نے اپنے سامعین کو زراعت سے متعلق عمدہ تمثیل سُنائی جو ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی بادشاہی کی ابتدا بہت چھوٹے پیمانے پر شروع ہوتی ہے مگر آخر میں نہایت عظیم ہو جاتی ہے۔ بیرونی نشوونما کے لحاظ سے یہ اتنی بڑی ہو جائے گی کہ اچھی طرح سے لوگوں کی خدمت کرنے کے قابل ہو گی۔ یسوع نے اپنی بادشاہی کو بیجوں میں سب سے چھوٹے بیج رائی سے مشابہ قرار دیا جو بتدریج آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے ایک بڑا درخت بن جاتا ہے جس پر پرندے اپنے گھونسلے بنانے کےلئے بسیرا کرتے ہیں۔ اپنے ادویاتی مصارف اور تیز مسالہ دار خواص کے سبب رائی کا دانہ یسوع مسیح کے ذریعہ قائم کردہ نئی بادشاہی کی ایک اچھی مثال ہے۔ رائی کے دانے کے کُچلے جانے کے بعد اِس میں شفا دینے کی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور یہی حال نجات دہندہ کی قوت کا ہے۔ آپ کا صلیب پر مخلصی دینے کا کام آپ کے کُچلے جانے پر منحصر ہے۔

ہ- خمیر کی تمثیل

"اُس نے ایک اَور تمثیل اُن کو سُنائی کہ آسمان کی بادشاہی اُس خمیر کی مانند ہے جسے کسی عورت نے لے کر تین پیمانہ آٹے میں ملا دیا اور وہ ہوتے ہوتے سب خمیر ہو گیا۔" (انجیل بمطابق متی 13: 33)

یہ پانچویں تمثیل ہے جو یسوع نے پیش کی۔ اِس میں آپ نے وضاحت کی کہ بادشاہی میں بڑھوتری بیرونی نہیں بلکہ باطنی ہے جیسے زندہ اجسام کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسیح کی کلیسیا کی کامیابی کا دارومدار بیرونی نہیں بلکہ باطنی اسباب پر منحصر ہے۔ چنانچہ سیاسی قوت اور مادی دولت بنیادی طور پر مسیح کی سچی کلیسیا کی ترقی کا باعث نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات وہ اِس کی حقیقی ترقی میں رُکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ حقیقی کلیسیا اپنے اُن اراکین کے ذریعے بڑھتی جاتی ہے جو رُوح القدس کی آسمانی قدرت حاصل کرتے ہیں جو اُن میں بسیرا کرتی ہے۔

یسوع نے یہ بھی فرمایا کہ سچا مذہب اپنی فطرت کے لحاظ سے ایک ایماندار کی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی جزئیات میں بھی عمل دخل رکھتا ہے، جس میں رُوح، جان و بدن کامل طور پر دِل سے لائے ہوئے ایمان کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔ یسوع نے اِس حقیقت کو تھوڑے سے خمیر کی مثال سے بیان کیا کہ جسے ایک عورت نے لیا اور زیادہ مقدار آٹے میں ملا دیا جس سے سارا آٹا خمیر ہو گیا۔ یسوع کا اپنی بادشاہی میں اپنے اثر کو خمیر کے اثر سے مشابہ ٹھہرانا مناسب تھا کیونکہ یہ نادیدہ ہونے کے باوجود ہر لمحہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جیسے خمیر آٹے میں کام کرتا ہے کہ آخرمیں خمیر اور آٹا ایک ہو جاتے ہیں اِسی طرح یسوع بھی نوع انسان کے ساتھ ایک ہو گئے۔ آپ انسانوں کو بچانے کےلئے انسان بنے اور نسل انسانی میں جانیں بچانے کے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔ اِسی طرح ہم بھی مصیبت زدہ بنی نوع انسان کے ساتھ اُن کی ضرورتوں میں ایک ہو جاتے ہیں تا کہ دوسروں کو بچا سکیں۔ بنی نوع انسان کی نجات فرشتوں کے ذریعے نہیں بلکہ انسانوں کے ذریعہ ہی تکمیل کو پہنچتی ہے۔

مسیح کی یہ چند خوبصورت تمثیلیں ہمارے لئے کلام خدا میں موجود ہیں۔ مُقدس مرقس کی معرفت لکھی گئی انجیل 4: 33، 34 میں لکھا ہے کہ "وہ اُن کو اِس قسم کی بہت سی تمثیلیں دے دے کر اُن کی سمجھ کے مطابق کلام سُناتا تھا۔ اور بےتمثیل اُن سے کچھ نہ کہتا تھا لیکن خلوت میں اپنے خاص شاگردوں سے سب باتوں کے معنٰی بیان کرتا تھا۔" آپ نے زبور نویس کے الفاظ کی صداقت کو ثابت کرنے کےلئے ایسا کیا جہاں لکھا ہے کہ "میں تمثیل میں کلام کروں گا اور قدیم معمے کہوں گا" (زبور 78: 2)۔

و- یسوع نے تمثیلوں میں کیوں تعلیم دی؟

جھیل پر بھِیڑ کو تعلیم دینے کے بعد یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں سے گھرکو چلے گئے۔ شاگردوں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ ایسی تمثیلوں میں کیوں تعلیم دیتے ہیں جن کے سمجھانے کی ضرورت پڑے۔ مسیح نے جواب دیا کہ اِس کا مقصد دیدہ و دانستہ اُن لوگوں سے سچائی کو پوشیدہ رکھنا ہے جنہوں نے اُس نور کو رد کیا ہے جو پہلے ہی اُنہیں دیا جا چکا تھا۔ اب اُنہوں نے مزید نور حاصل کرنے کا موقع کھو دیا ہے۔ تب شاگردوں نے یسوع سے کہا کہ وہ اُنہیں بیج بونے والے کی تمثیل کی وضاحت کرے۔ آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اُن سے کہا "کیا تم یہ تمثیل نہیں سمجھے؟ پھِر سب تمثیلوں کو کیونکر سمجھو گے؟" (انجیل بمطابق مرقس 4: 13)۔ اور پھِر یہ بھی کہا "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راستبازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا اور جو باتیں تم سُنتے ہو سُنیں مگر نہ سُنیں" (انجیل بمطابق متی 13: 17)۔

شاگردوں میں سمجھ کی کمی کے سبب یسوع نے بجائے پریشان ہونے کے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اُنہیں "بیج بونے والے" اور "کڑوے دانوں" کی تمثیلوں کو سمجھایا۔ اِس وضاحت سے شاگردوں کو دوسری تمثیلیں سمجھنے میں آسانی ہو گئی۔ یسوع نے جو دیگر تمثیلیں بیان کیں اُن سے ہمیں یہ گمان گزر سکتا ہے کہ خدا کی بادشاہی کی کامیابی یقینی نہیں ہے، لیکن "رائی کے دانے" اور "خمیر" کی تمثیلوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی بادشاہی کی کامیابی یقینی ہے باوجود کہ یہ نہایت چھوٹے پیمانہ پر شروع ہوتی ہے۔

ز- پوشیدہ خزانہ کی تمثیل

"آسمان کی بادشاہی کھیت میں چُھپے خزانہ کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے پا کر چُھپا دیا اور خوشی کے مارے جا کر جو کچھ اُس کا تھا بیچ ڈالا اور اُس کھیت کو مول لے لیا۔" (انجیل بمطابق متی 13: 44)

یسوع نے گھر پر اپنے شاگردوں کے سامنے تین اَور تمثیلیں بیان کیں۔ یوں آپ اپنے شاگروں کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ آپ کی بادشاہی کی قدر و اہمیت دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے۔ اگر ایک فرد اِس کےلئے اپنی ہر چیز قربان کر دیتا ہے تو وہ نہایت ہی عقلمند شخص ہے۔ یسوع یہ بھی بتانا چاہتے تھے کہ گو بعض لوگ مذہب کے حقیقی خزانہ کی تلاش نہیں کرتے مگر دوسرے کام کرتے ہوئے یہ اُنہیں اتفاقیہ حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی واقعہ دمشق کی راہ پر ترسُس کے ساﺅل کے ساتھ پیش آیا (رسول کے اعمال 9: 1-22)۔ ساﺅل اُس آدمی کی مانند تھا جسے دوسرے شخص کے کھیت میں چُھپا ہُوا خزانہ مل گیا، اور اُس نے جا کر جو کچھ اُس کا تھا سب بیچ دیا اور وہ خزانہ حاصل کرنے کےلئے اُس کھیت کو خرید لیا۔

ح- بیش قیمت موتی کی تمثیل

"پھِر آسمان کی بادشاہی اُس سوداگر کی مانند ہے جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔ جب اُسے ایک بیش قیمت موتی ملا تو اُس نے جا کر جو کچھ اُس کا تھا سب بیچ ڈالا اور اُسے مول لے لیا۔" (انجیل بمطابق متی 13: 45، 46)

خزانہ کا اِتفاقیہ مل جانا، جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، اصول نہیں ہے بلکہ اِس کےلئے سنجیدہ تلاش اُصولاً ضروری ہے۔ یہاں ہم ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو دُنیا کے تمام مذاہب میں تلاش کرنے کے بعد مسیح کی رُوحانی بادشاہی سے دوچار ہو تا ہے۔ وہ باقی ہر چیز کو بھول جاتا ہے اور اُس بادشاہی کے حصول کو یقینی بنانے کےلئے اپنی ہر عزیز ترین چیز کو بھی خرچ کر ڈالتا ہے۔ اِس اصول کو واضح کرنے کےلئے مسیح نے عمدہ موتیوں کی تلاش کرنے والے ایک شخص کی تمثیل سُنائی۔ جب اُسے ایک نہایت ہی بیش قیمت موتی ملا تو اُس نے اپنا سب کچھ بیچ کر اُسے خرید لیا۔

ط- جال کی تمثیل

"پھِر آسمان کی بادشاہی اُس بڑے جال کی مانند ہے جو دریا میں ڈالا گیا اور اُس نے ہر قسم کی مچھلیاں سمیٹ لیں۔ اور جب بھر گیا تو اُسے کنارے پر کھینچ لائے اور بیٹھ کر اچھی اچھی تو برتنوں میں جمع کر لیں اور جو خراب تھیں پھینک دیں۔ دُنیا کے آخرمیں ایسا ہی ہو گا۔ فرشتے نکلیں گے اور شریروں کو راستبازوں سے جُدا کریں گے اور اُن کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا۔" (انجیل بمطابق متی 13: 47-50)

یسوع نے اُس دِن تمثیلوں کا سلسلہ دُنیا کے خاتمہ کے وقت سے متعلق تمثیل پیش کرتے ہوئے ختم کیا جس میں بتایا کہ الہٰی منصف کے فرشتے شریروں کو راستبازوں سے جُدا کریں گے۔ شریروں کو آگ کی جلتی بھٹی میں ڈالا جائے گا جہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہو گا۔ اِس سے سبق ملتا ہے کہ کوئی بھی گنہگار اِس خاطر جمعی کے فریب میں نہ رہے کہ خدا ہمیشہ رحم کرے گا بلکہ غور و فکر کرنے کا وقت ابھی ہے۔ یسوع نے دریا میں ڈالے ہوئے جال کی تمثیل سے جو سب قسم کی مچھلیاں سمیٹ لایا ہر گنہگار کو ہشیار کیا ہے۔ جب وہ بھر جاتا ہے تو کنارے پر لا کر مچھلیوں کو چھانٹا جاتا ہے۔ اچھی مچھلیوں کو تو برتنوں میں جمع کیا جاتا ہے جبکہ خراب مچھلیوں کو پھینک دیا جاتا ہے۔

تب یسوع نے پوچھا "کیا تم یہ سب باتیں سمجھ گئے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا ہاں۔ اُس نے اُن سے کہا اِس لئے ہر فقیہ جو آسمان کی بادشاہی کا شاگرد بنا ہے اُس گھر کے مالک کی مانند ہے جو اپنے خزانہ میں سے نئی اور پُرانی چیزیں نکالتا ہے" (انجیل بمطابق متی 13: 51، 52)۔

یسوع نے اپنے شاگردوں سے دریافت کیا کہ کیا وہ یہ سب باتیں سمجھ گئے ہیں۔ اِس سوال کا جواب اُنہوں نے ہاں میں دیا۔ تب آپ نے اُنہیں بتایا کہ بادشاہی سے متعلقہ امور کی معلومات رکھنے والا ہر عالم شخص اپنے خزانہ سے نئی اور پرانی چیزیں نکالتا ہے۔ پرانی چیزیں صحیفوں میں درج کلام ہے، جبکہ نیا وہ ہے جو اِس کلام سے اخذ کیا جاتا ہے جس کےلئے نہایت غور و فکر کی ضرورت ہے تا کہ اِس کا اصل مطلب سمجھا جا سکے۔ جو باتیں ہم نے بچپن میں سُنیں وہ پرانی ہیں لیکن اُن باتوں سے جو سبق ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ نیا ہے اور ہماری روزمرہ ضرورتوں کےلئے موزوں ہے۔ کتاب ِ الہٰی کے تمام حقائق قدیم اور قیمتی خزانہ ہیں جس سے ہم نئی چیز حاصل کرتے ہیں تا کہ کمزور ایمان والے کو مضبوطی فراہم کریں، ناواقف کو راہ دِکھائیں، غمگین کو تسلی دیں اور خطاکار و گمراہ کی راہنمائی کریں۔

5- مسیح کا طوفان کو تھمانا

"اُسی دِن جب شام ہوئی تو اُس نے اُن سے کہا آﺅ پار چلیں۔ اور وہ بھِیڑ کو چھوڑ کر اُسے جس حال میں وہ تھا کشتی پر ساتھ لے چلے اور اُس کے ساتھ اَور کشتیاں بھی تھیں۔ تب بڑی آندھی چلی اور لہریں کشتی پر یہاں تک آئیں کہ کشتی پانی سے بھری جاتی تھی۔ اور وہ خود پیچھے کی طرف گدّی پر سو رہا تھا۔ پس اُنہوں نے اُسے جگا کر کہا اے اُستاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں؟ اُس نے اُٹھ کر ہوا کو ڈانٹا اور پانی سے کہا ساکت ہو! تھم جا! پس ہوا بند ہو گئی اور بڑا اَمن ہو گیا۔ پھِر اُن سے کہا تم کیوں ڈرتے ہو؟ اب تک ایمان نہیں رکھتے؟ اور وہ نہایت ڈر گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ کون ہے کہ ہوا اور پانی بھی اُس کا حکم مانتے ہیں؟" (انجیل بمطابق مرقس 4: 35-41)

دِن ختم ہونے کو تھا اور شام قریب تھی۔ شاگردوں نے بھِیڑ کو اُن کے گھروں میں بھیج دیا اور جھیل کی دوسری طرف جانے کےلئے یسوع کے ساتھ کشتی میں ہو لئے۔ دوسری کشتیاں بھی اُن کے ہمراہ چلیں۔ وہ اندھیرے میں کشتی چلا کر لے جا رہے تھے اور یسوع کشتی کے پچھلے حصہ میں گدّی پر سو رہے تھے۔ کلام مُقدّس میں ذِکر پایا جاتا ہے کہ یسوع کو بھوک لگی، پیاس لگی، آپ غمگین ہوئے، تھکے، روئے اور خوش ہوئے لیکن سِوائے اِس مقام کے کہیں اَور نہیں ملتا کہ آپ سوئے۔ ابنِ آدم کی حیثیت میں آپ سوئے۔ یہ آپ کی حقیقی انسانیت کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن آپ کی الہٰی فطرت کی بابت داﺅد نبی کے الفاظ بھی درست ہیں جہاں لکھا ہے کہ "دیکھ! اسرائیل کا محافظ نہ اُونگھے گا نہ سوئے گا" (زبور 121: 4)۔ چنانچہ، اِس جسمانی نیند کے ہوتے ہوئے بھی آپ بیدار تھے اور کشتی میں سوار اپنے ہمراہیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے جو آس پاس کے پہاڑوں سے آئے طوفان میں کشتی کو چلا رہے تھے۔ شاگردوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اِسی جھیل کے گرد گزارا تھا اور اِس کے پانی میں اُٹھے بہت سے طوفانوں کا مقابلہ کر چکے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے اِس زبردست طوفان کے اندر امکانی ضرورت کے مدِّنظر اپنے بادبان اور چپّو تیار کرنا شروع کر دیئے۔

لیکن آناً فاناً اُونچی لہریں اُٹھ کر کشتی کے اندر آنے لگیں اور کشتی کو پانی سے بھرنا شروع کر دیا اور صورتحال خطرناک ہو گئی۔ بہت عرصہ پہلے راستباز نوح کے خاندان کے آٹھ افراد کو لئے ہوئے ایک کشتی زبردست طوفان میں نہیں ڈوبی تھیں۔ لیکن کیا اِس گروہ نے، جس میں یسوع اور آپ کے شاگرد شامل تھے جس سے دُنیا کے تمام مسیحیوں کا آغاز ہُوا، اِس طوفان میں سے بچ جانا تھا؟ کیا اُن کی سلامتی اتنی اہم نہ تھی جتنی نوح اور اُس کے بیٹوں سم، حام اور یافت کی سلامتی اہم تھی؟

ہم اِس طوفان میں تباہ کن قوت کو دیکھتے ہیں جو مسیح کے سونے کا فائدہ اُٹھا کر آپ کو اور آپ کے شاگردوں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم طوفان کا مقابلہ کرنے والے اِن ماہی گیروں اور اِن کی دلیرانہ کوششوں کو تصور میں لا سکتے ہیں۔ وہ بڑی آندھی اور پُرشور لہروں کے باوجود اونچی آواز سے ایک دوسرے کو ہدایات دے رہے تھے۔ ہم رات کے اندھیرے میں طوفانی لہروں میں اُن کے ڈگمگانے کا احساس کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کشتی کو خالی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک کشتی بپھرے سمندر کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن جب غضبناک سمندر کشتی کے اندر آنے لگے تو یہ کبھی بچ نہیں سکتی۔ اِسی طرح جب ایک شخص کا مقابلہ اِس دُنیا میں بدی کے طوفان سے ہوتا ہے تو وہ خود کو بچا سکتا ہے، لیکن جب بدی کے طوفان اُس کے اپنے دِل ہی میں اُٹھنے لگیں تو وہ نہیں بچ سکتا۔ سمندری طوفان سے بڑھ کر انسان کو تباہ کرنے والا طوفان اُس کی اپنی رُوح میں ہے۔ یہی بات ایک کلیسیا اور اُس کے اراکین پر صادق آتی ہے۔ اُس کے چاروں طرف کے شریر لوگ اُسے برباد نہیں کر سکتے لیکن کلیسیا میں موجود شریر ضرور اُس کی بربادی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

کیا شاگردوں نے اِس بارے میں سوچا کہ یسوع سونے کے باوجود کشتی اور اُس میں سوار تمام افراد کو ہر طرح کے نقصان سے بچا سکتا تھا؟ تاہم ایسا نہیں تھا۔ زبردست خوف انسانی ذہن کو پریشان کر سکتا ہے اور جب ایمان کمزور ہوتا ہے تو خوف اُس پر غالب آ جاتا ہے۔ مسیح کے سونے کے دوران شاگردوں میں آپ پر ایمان میں کمی واقع ہوئی، اور ایسے ہی ہم میں بھی مسیح کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کے سبب ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کشتی کے جھیل میں روانہ ہونے سے پیشتر شاگردوں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ طوفان آنے والا ہے، مگر یہ مان لینا درست نہیں کہ اُنہوں نے مسیح پر کوئی الزام لگایا ہو گا کہ ہم تو ساحل پر ہی ٹھہرنا چاہتے تھے، تُو نے ہی ہمیں چلنے کےلئے کہا تھا۔ تاہم اُنہوں نے یہ ضرور سوچا ہو گا کہ طوفان کے زبردست شور اور اُن کی چیخ و پکار کے باوجود مسیح کیسے سو سکتا ہے، کیسے وہ شاگردوں کے سامنے موجود اتنے بڑے خطرے میں اُن سے بےپروا ہو سکتا ہے؟

اِس بات کا بھی امکان ہے کہ طوفان کی شِدّت کو دیکھتے ہوئے مسیح اُن کے ایمان کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ شاگردوں کے دِل میں مسیح کےلئے جو محبت و تعظیم تھی ممکن ہے اُس کی وجہ سے پہلے پہل اُنہوں نے اپنے آپ کو مسیح کو جگانے سے روکے رکھا۔ وہ کشتی کی رہبری کرنے میں مسیح کی جانب سے مدد کی کوئی توقع نہ رکھتے تھے۔ لیکن جب اُن کی تمام ہمت جواب دے گئی اور سب تدبیریں ناکام ہو گئیں تو اُن کے پاس سوائے مسیح کو جگانے کے کوئی اَور چارہ نہ رہا۔ کیا ایسے ہولناک خطرے کے وقت اُنہیں مسیح سے مدد مانگنے کا حق نہیں تھا؟ وہ چِلّا اُٹھے "اے اُستاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں؟" یوں لگتا ہے کہ مسیح کی اُلُوہیّت اور عظیم قدرت کی بابت جو کچھ اُنہوں نے سیکھا تھا وہ جلد ہی بھول گئے اور اپنی نادانی میں سوچنے لگے کہ اُس شخص کے ہوتے ہوئے بھی کشتی برباد ہو جائے گی جسے وہ اپنا سچا خداوند تسلیم کر چکے تھے۔ آخر کار اُنہوں نے ہمت کر کے اُس شخص کو جگایا جو "سمندر کا پانی تُودے کی مانند جمع کرتا ہے۔ ... گہرے سمندروں کو مخزنوں میں رکھتا ہے" (زبور 33: 7) اور جس نے فرمایا کہ "کیا تم مجھ سے نہیں ڈرتے؟ کیا تم میرے حضور میں تھرتھراﺅ گے نہیں جس نے ریت کو سمندر کی حد پر ابدی حکم سے قائم کیا کہ وہ اُس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور ہر چند اُس کی لہریں اُچھلتی ہیں تَو بھی غالب نہیں آتیں اور ہر چند شور کرتی ہیں تَو بھی اُس سے تجاوز نہیں کر سکتیں؟" (یرمیاہ 5: 22)۔

جب یسوع بیدار ہوئے تو اُنہیں دو طوفان نظر آئے۔ ایک جھیل میں اور دوسرا شاگردوں کے دِل میں۔ گو یسوع پہلے طوفان کے مقابلے میں دوسرے کو ڈانٹنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، لیکن اپنی شفقت و مہربانی میں آپ نے جھیل کے طوفانی پانی کو پہلے ڈانٹا۔ آپ جانتے تھے کہ جب تک پہلے طوفان کو تھما نہ دیا جائے شاگردوں کو پُرسکون کرنے کا فائدہ نہ ہو گا، اور آپ نے وہی کیا۔ سمندر کے مالک نے فرمایا "ساکت ہو! تھم جا!"

یہ معجزہ موسیٰ نبی کے اُس معجزہ سے مختلف ہے جب موسیٰ نبی نے خدا تعالیٰ کے حکم پر اپنی لاٹھی لی اور اپنا ہاتھ سمندر پر بڑھا دیا۔ لیکن یسوع نے طوفانی لہروں کوتھمانے کےلئے فقط اپنی زبان سے حکم دیا۔ جناب یسوع وہ ہیں جن کی بابت لکھا ہے کہ "تُو سمندر کے اور اُس کی موجوں کے شور کو اور اُمّتوں کے ہنگامہ کو موقوف کر دیتا ہے" (زبور 65: 7)۔ اُسی کی بابت ہم گواہی دیتے اور زبور نویس کے ہمراہ کہتے ہیں کہ "سمندر کے جوش و خروش پر تُو حکمرانی کرتا ہے۔ تُو اُس کی اُٹھتی لہروں کو تھما دیتا ہے" (زبور 89: 9)۔ جس نے دریائے گلیل کے پانی کو ڈانٹا، اُسی نے ماضی میں بحیرہ قلزم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر پار نکل گئے تھے۔ خدا نے بحیرہ قلزم کے پانیوں پر اپنے اختیار کو ظاہر کیا تا کہ اُن لوگوں کی مدد ہو جو اُس سے ڈرتے تھے۔ اُسی نے گلیل کی جھیل کے طوفانی پانی کو ساکن کیا تا کہ اُس کے شاگرد کشتی میں اپنے سفر کو جاری رکھ سکتے۔ جیسے بھیڑیں اپنے چرواہے کے علاوہ کسی دوسرے کو نہ تو پہچانتی ہیں اور نہ ہی اُس کا حکم مانتی ہیں، اُسی طرح ہوا اور لہریں اپنے خالق کی آواز کو پہچانتی اور اُس کا حکم مانتی ہیں۔ یسوع کے حکم پر ہوا بند ہو گئی۔ طوفان کا فوری تھم جانا غیر معمولی تھا کیونکہ عموماً سمندر طوفان کے بعد بتدریج آہستہ آہستہ پُرسکون ہوتا ہے۔ یوں یہ معجزہ دو چند موثر تھا۔

طوفانی لہروں میں ہچکولے کھاتی کشتی کے واقعہ میں ہم روزمرہ زندگی کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ زندگی کے طوفانوں میں مسیحیوں اور کلیسیا کی محافظت کا انحصار اپنے لوگوں کے دِلوں میں مسیح کی حقیقی حضوری پر ہے۔ یسوع ہی وہ واحد ہستی ہیں جو شیطانی قوتوں کو ڈانٹ سکتے ہیں اور زندگی میں فتح و اطمینان عنایت کر سکتے ہیں۔

اِس معجزہ میں فطرت کے اوپر انسان کی حکمرانی کی بحالی سے متعلق خدا تعالیٰ کے اِرادہ کی جھلک نظر آتی ہے جسے انسان گناہ میں گراوٹ کے سبب سے کھو چکا تھا۔ خدا نے اِسے صلیب پر مسیح کے مخلصی کے کام کے ذریعہ سے بحال کیا اور اِس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک ایماندار فطرت کے تمام خطرات اور نقصان دہ اثرات کا بےخوف ہو کر مقابلہ کر سکتا ہے۔ جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایماندار اپنے اندر موجود مسیح کی قدرت کے سبب خطرات پر غالب آ سکتے ہیں اور وہ اُن کے فائدے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہوا کی قوت بجلی پیدا کرنے میں استعمال کی جا سکتی ہے، اُسی طرح ایماندار بہت سی دیگر قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کے مضر اثرات کو موقوف کر کے اُن سے فائدے اُٹھا سکتے ہیں۔

طوفانی ہوا اُن بیرونی آفتوں کی ترجمانی کرتی ہے جو انسان پر غالب آتی ہیں، مثلاً وہ قدرتی قوتیں جو بدن کو برباد کرتی ہیں۔ جبکہ طوفانی لہریں اُن باطنی آفتوں کو ظاہر کرتی ہے جو انسانی روح میں اُمڈتی رہتی ہیں۔ یہ وہ شیطانی قوتیں ہیں جو انسانی شخصیت کو تباہ کرتی ہیں۔ اِس دوہرے معجزے میں یسوع نے اپنے دو چند کام کو ہر اُس شخص کی زندگی میں کرنے کے اِرادے کو ظاہر کیا ہے جو زندگی کے طوفانوں کے تھپیڑوں میں پھنسا ہُوا ہے۔ آپ ہی واحد وسیلہ ہیں جو دونوں آفتوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور فتح بھی عطا کرتے ہیں۔ آفتیں اور آزمایشیں ایک جوہری کے ہاں کٹھالی کی مانند ہیں۔ گو کٹھالی نہ سونے کو تانبے میں اور نہ تانبے کو سونے میں تبدیل کرتی ہے لیکن یہ اُس کی تمام کثافتیں دُور کر کے اُس کے خالص پن کو اُجاگر کرتی ہے۔ مزید برآں یہ سونے کو تانبے سے زیادہ چمکدار بناتی ہے۔ اِسی طرح آزمایشیں اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُرا نہیں بناتیں، لیکن یہ سچائی کو اُجاگر کرتی اور شریر لوگوں کے بگاڑ کو سامنے لے کر آتی ہیں جیسے یہ راستبازوں کی نیکی کو ظاہر کرتی اور اُسے ترقی دیتی ہیں۔

جب سمندر کا طوفان ساکت ہو گیا تو یسوع نے اپنی توجہ اُس طوفان پر مبذول کی جو شاگردوں کے دِلوں میں اُمڈ رہا تھا۔ آپ نے مشفقانہ سرزنش کے ذریعہ اُنہیں یہ پوچھتے ہوئے پُرسکون کیا کہ وہ کیوں خوفزدہ تھے۔ کیا اَب تک اُن میں ایمان نہیں تھا؟ مسیح نے بیرونی آفتوں اور ساتھ ہی ساتھ زیادہ خطرناک باطنی آزمایشوں کے معاملہ میں اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا۔ آپ کا کلام سُن کر دونوں طوفان ساکت ہو گئے، اور اِس تجربہ سے شاگردوں نے بیش بہا سبق سیکھا۔ خدا آزمایشوں اور آفتوں کو ہماری بہتری کےلئے آنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہاں ہمیں پولس رسول کے الفاظ کی بازگشت سُنائی دیتی ہے کہ "تم کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑے جو اِنسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تا کہ تم برداشت کر سکو" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 10: 13)۔

6- یسوع کا ایک بدرُوح گرفتہ شخص کو شفا دینا

"اور وہ جھیل کے پار گراسینیوں کے علاقہ میں پہنچے۔ اور جب وہ کشتی سے اُترا تو فی الفور ایک آدمی جس میں ناپاک رُوح تھی قبروں سے نکل کر اُس سے ملا۔ وہ قبروں میں رہا کرتا تھا اور اَب کوئی اُسے زنجیروں سے بھی نہ باندھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے باندھا گیا تھا لیکن اُس نے زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا اور کوئی اُسے قابو میں نہ لا سکتا تھا۔ اور وہ ہمیشہ رات دِن قبروں اور پہاڑوں میں چِلّاتا اور اپنے تئیں پتھروں سے زخمی کرتا تھا۔ وہ یسوع کو دُور سے دیکھ کر دوڑا اور اُسے سجدہ کیا۔ اور بڑی آواز سے چِلّا کر کہا، اے یسوع خدا تعالےٰ کے فرزند مجھے تجھ سے کیا کام؟ تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے عذاب میں نہ ڈال۔ کیونکہ اُس نے اُس سے کہا تھا اے ناپاک رُوح اِس آدمی میں سے نکل آ۔ پھِر اُس نے اُس سے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا میرا نام لشکر ہے کیونکہ ہم بہت ہیں۔ پھِر اُس نے اُس کی بہت مِنّت کی کہ ہمیں اِس علاقہ سے باہر نہ بھیج۔ اور وہاں پہاڑ پر سؤروں کا ایک بڑا غول چر رہا تھا۔ پس اُنہوں نے اُس کی مِنّت کر کے کہا کہ ہم کو اُن سؤروں میں بھیج دے تا کہ ہم اُن میں داخل ہوں۔ پس اُس نے اُن کو اِجازت دی اور ناپاک رُوحیں نکل کر سؤروں میں داخل ہو گئیں اور وہ غول جو کوئی دو ہزار کا تھا کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھیل میں جا پڑا اور جھیل میں ڈوب مرا۔ اور اُن کے چرانے والوں نے بھاگ کر شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی۔ پس لوگ یہ ماجرا دیکھنے کو نکل کر یسوع کے پاس آئے اور جس میں بدرُوحیں یعنی بدرُوحوں کا لشکر تھا اُس کو بیٹھے اور کپڑے پہنے اور ہوش میں دیکھ کر ڈر گئے۔ اور دیکھنے والوں نے اُس کا حال جس میں بدرُوحیں تھیں اور سؤروں کا ماجرا اُن سے بیان کیا۔ وہ اُس کی مِنّت کرنے لگے کہ ہماری سرحد سے چلا جا۔ اور جب وہ کشتی میں داخل ہونے لگا تو جس میں بدرُوحیں تھیں اُس نے اُس کی مِنّت کی کہ میں تیرے ساتھ رہوں۔ لیکن اُس نے اُسے اجازت نہ دی بلکہ اُس سے کہا کہ اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور اُن کو خبر دے کہ خداوند نے تیرے لئے کیسے بڑے کام کئے اور تجھ پر رحم کیا۔ وہ گیا اور دِکَپُلِس میں اِس بات کا چرچا کرنے لگا کہ یسوع نے اُس کےلئے کیسے بڑے کام کئے اور سب لوگ تعجب کرتے تھے۔" (انجیل بمطابق مرقس 5: 1-20)

طوفان کو ساکت کر دینے کے بعد ایک ایسا واقعہ ظہور میں آیا جس نے ہماری توجہ مسیح کے کاموں سے ہٹا کر آپ کے مخالف ابلیس کے کاموں کی جانب دِلائی، جو مسیح کی خدمت کے تمام عرصہ کے دوران آپ کے خلاف خاموش نہیں بیٹھا۔ یسوع کو بیابان میں شکست دینے میں اپنی ناکامی کے بعد اُس نے اپنے اختیار کو کچھ لوگوں پر دوچند کرنے کی کوشش کی تا کہ اُنہیں اپنے بڑے دشمن مسیح کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کر سکے۔

ابلیس کے آلۂ کاروں میں یہ بدرُوح گرفتہ شخص بھی تھا جو بیابان میں اُس جگہ پر پھِر رہا تھا جہاں یسوع کشتی سے اُترنے والے تھے۔ جب اِس شخص نے یسوع کی کشتی کو آتے دیکھا تو وہ چٹانی قبروں میں جہاں رہا کرتا تھا باہر نکلا اور اُس مقام پر پہنچا جہاں یسوع آنے والے تھے۔ اِس سے پیشتر اُس نے اُس طرف آنے والے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔ غالباً اُس کا اِرادہ تھا کہ جو کوئی اور خاص طور پر یسوع وہاں سے گزرے تو اُس پر حملہ کرے کیونکہ وہ یسوع کو جانتا تھا۔ وہ لہولہان چِلّاتا ہوا آیا کیونکہ اُس نے پتھروں سے خود کو زخمی کیا ہوا تھا۔ اِس پر یسوع نے بدرُوحوں کو اُس شخص میں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ فوراً وہ شخص چِلّا کر کہنے لگا "اے یسوع خدا تعالےٰ کے فرزند مجھے تجھ سے کیا کام؟ تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے عذاب میں نہ ڈال۔" بدرُوحوں کے اُس شخص میں سے نکل جانے کے مسیح کے حکم کے ساتھ ہی اُس بدرُوح گرفتہ شخص پر سخت جسمانی تکلیف آئی، کیونکہ ابلیس کسی بھی شخص کو زمین پر پٹک کر اذیت اور ضرر پہنچائے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اُسے انسان کو اذیت دینے اور برباد کرنے میں خوشی ہوتی ہے۔ اِسی لئے بدرُوح گرفتہ شخص نے خوف محسوس کیا اور اپنی تکلیف سے نجات چاہی۔ ابلیس اُس وقت انتہائی غضبناک ہوتا ہے جب کوئی شخص اُس کے قبضہ سے چھِن جاتا ہے۔ اِس لئے ابلیس اور بدرُوح گرفتہ شخص دونوں چِلّائے "مجھے عذاب میں نہ ڈال۔"

جھیل کے کنارے وہ نظارہ کس قدر دِلگداز تھا۔ یسوع قُدُّوسیت، قدرت و اختیار اور رحمت و شفقت سے معمور کھڑے ہیں۔ آپ کے شاگرد گزشتہ رات کے تجربہ سے تھکے ہوئے نہایت پریشانی کی حالت میں آپ کے پیچھے موجود ہیں۔ اَب بدرُوح گرفتہ شخص کی صورت میں ایک نیا خطرہ اُن کے سامنے ہے، اور جو کچھ ہونے کو ہے اُس کے تعلق سے شش و پنج کا شکار ہیں۔ اپنی پریشانی کے باوجود بدرُوحوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے اِس شخص کی حالت پر ترس کھانے کے آثار اُن کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ اُن کے سامنے ایک خونخوار، ننگا اور لہولہان شخص اُن کے آقا کے حضور سرنگوں تھا۔ اُس کے چہرے پر اُس شخص کی مانند اُمید کی جھلک موجود تھی جو کسی ایسے فرد سے مدد کا طلبگار ہو جو اُسے اُس کی افسوسناک حالت سے بچا سکتا ہے۔

یسوع نے اُس سے پوچھا "تیرا نام کیا ہے؟" اُس شخص نے جواب دیا "میرا نام لشکر ہے کیونکہ ہم بہت ہیں۔" بدرُوحوں نے یسوع کی مِنّت کی کہ اُنہیں اتھاہ گڑھے میں بھیجنے کے بجائے قریب چرنے والے سؤروں کے غول میں جانے کی اجازت دی جائے۔ یسوع نے اِس بات کی اجازت دے دی۔ وہاں پہاڑ پر نزدیک ہی تقریباً دو ہزار کے قریب سؤر چر رہے تھے۔ سؤر چرانا یہودیوں میں ممنوع تھا۔ مگر چند یہودیوں کا سؤر پالنا مذہب پر مالی خوشحالی کو ترجیح دینا ظاہر کرتا ہے۔ اِس لئے یسوع نے اُن کے اِس غیر شرعی غول کو برباد کر کے اُنہیں سزا دینا مناسب سمجھا۔ یہ اِس بات کا دیدنی ثبوت ہے کہ بدرُوح گرفتگی ایک حقیقت ہے، اور اِس کیفیت سے رہائی بھی حقیقی ہوتی ہے۔ وہاں ہر کوئی دیکھ سکتا تھا کہ کیسے شیطان کی غلامی کا نتیجہ سزا پانا تھا۔ یہ مادی اشیا پر مسیح کے اختیار کا ثبوت بھی تھا جنہیں آپ اپنی حکمت میں تلف بھی کر سکتے ہیں۔ جس نے سؤروں کے مالکوں کا نقصان ہو جانے کی اجازت دی، حقیقت میں وہ آپ ہی برحق اور اصلی مالک ہے۔ کیا آپ ہر روز دُنیا میں یہاں تک کہ اپنے پیروکاروں میں بھی ایسی باتیں واقع ہونے کی اجازت نہیں دیتے؟ ہر دیندار شخص کو خداوند کے حضور اقرار کرنا چاہئے کہ "جو کچھ تُو مجھے عنایت کرتا ہے، میں اُسے شکرگزاری کے ساتھ قبول کرتا ہوں۔ جو کچھ تُو لے لیتا ہے میں بخوشی تیری نذر کرتا ہوں۔ جو کچھ میں حاصل کرنا چاہتا ہوں اور حاصل نہیں ہوتا اُس سے میں بغیر کسی شکوہ کے دستبردار ہوتا ہوں۔" کیونکہ "خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو" (ایُّوب 1: 21)۔

جب یسوع نے بدرُوحوں کو نکل جانے کا حکم دیا تو وہ اُس آدمی میں سے نکل کر سؤروں میں داخل ہو گئیں۔ وہ سارا غول کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھیل میں جا پڑا اور جھیل میں ڈوب مرا۔ جو لوگ سؤروں کی نگرانی کر رہے تھے یہ ماجرا دیکھ کر متعجب ہوئے اور وہاں سے بھاگ کر شہر اور دیہات میں اِس ماجرا کا بیان کیا۔ تب لوگ یہ سُن کر اُس جگہ دوڑے آئے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو اُنہوں نے سؤروں کے ساتھ پیش آنے والا تمام ماجرا دیکھا اور بدرُوح گرفتہ شخص کو کپڑے پہنے یسوع کے قدموں میں خاموش بیٹھے خدا کی بادشاہی کی تعلیم آپ سے سُنتے دیکھا۔

ایسے حالات میں ہم یہ توقع کرتے ہیں لوگ شیطانی قوت کے باندھے جانے اور اُس کی غلامی سے رہائی پانے والے شخص کو دیکھ کر خوش ہوئے ہوں گے، اور اِس معجزے کےلئے مسیح کے شکرگزار ہوئے ہوں گے۔ مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے یسوع کو اُس علاقہ سے چلے جانے کےلئے کہا، کیونکہ اُنہیں شیطان پر فتح پانے کے فائدہ پر خوشی کی نسبت سؤروں کے نقصان پر غم تھا۔

اَب یہ شفایافتہ شخص کیا کرنے کو تھا؟ کیا اِس نے اپنے گھر جانے اور کام کرنے کی اجازت مانگی تا کہ کھوئے ہوئے برسوں کی تلافی کر سکتا؟ اگر یہ شفا فقط جسمانی ہوتی تو وہ ضرور ایسا کرتا۔ لیکن یسوع نے کبھی بھی کسی جسم کو رُوحانی شفا کے بغیر جسمانی شفا عطا نہ فرمائی کیونکہ رُوحانی شفا زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اِس شخص کا رُوحانی شفا پا لینا عیاں ہے کیونکہ اِس نے یسوع کے ساتھ رہنا چاہا۔

اِس بدرُوح گرفتہ شخص میں ہم ایک حقیقی گنہگار کو دیکھتے ہیں۔ بےشک، گناہ رُوح کی دیوانگی کا نام ہے اور دماغ کا پاگل پن حقیقی پاگل پن یعنی گناہ کی علامت ہے۔ بدرُوح گرفتہ شخص نے ایک صاف گھر کی نسبت قبروں میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اُس کا کام خود کو اور اُس راہ سے گزرنے والے ہر شخص کو نقصان پہنچانا تھا۔ اُس نے صحت مند لوگوں کی صحبت میں رہنے سے گریز کیا اور اپنے جیسے لوگوں اور جنگلی جانوروں کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ اُس نے یسوع سے کہا "مجھے تجھ سے کیا کام؟" لیکن مسیح نے اپنی ابدی شفقت و رحمت میں اِس شخص کو اُس کی تکلیف سے رہائی بخشی۔ گراسینے کے اِس بدرُوح گرفتہ کو رہائی بخشنے والے نجات دہندہ کے سوا گناہ کے پاگل پن اور اُس کے اثرات سے نجات دینے والا نہ کبھی ہُوا ہے اور نہ کوئی ہو گا۔

7- یسوع کا یائیر کی بیٹی کو مُردوں میں سے زندہ کرنا

"جب یسوع پھِر کشتی میں پار گیا تو بڑی بھِیڑ اُس کے پاس جمع ہوئی اور وہ جھیل کے کنارے تھا۔ اور عبادتخانہ کے سرداروں میں سے ایک شخص یائیر نام آیا اور اُسے دیکھ کر اُس کے قدموں میں گرا۔ اور یہ کہہ کر اُس کی بہت مِنّت کی کہ میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے۔ تُو آ کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھ تا کہ وہ اچھی ہو جائے اور زندہ رہے۔ پس وہ اُس کے ساتھ چلا اور بہت سے لوگ اُس کے پیچھے ہو لئے اور اُس پر گرے پڑے تھے۔ پھِر ایک عورت جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا، اور کئی طبیبوں سے بڑی تکلیف اُٹھا چکی تھی اور اپنا سب مال خرچ کر کے بھی اُسے کچھ فائدہ نہ ہُوا بلکہ زیادہ بیمار ہو گئی تھی۔ یسوع کا حال سُن کر بھِیڑ میں اُس کے پیچھے سے آئی اور اُس کی پوشاک کو چُھؤا۔ کیونکہ وہ کہتی تھی کہ اگر میں صرف اُس کی پوشاک ہی چُھو لوں گی تو اچھی ہو جاﺅں گی۔ اور فی الفور اُس کا خون بہنا بند ہو گیا اور اُس نے اپنے بدن میں معلوم کیا کہ میں نے اِس بیماری سے شفا پائی۔ یسوع نے فی الفور اپنے میں معلوم کر کے کہ مجھ میں سے قوت نکلی اُس بھِیڑ میں پیچھے مُڑ کر کہا کس نے میری پوشاک چُھوئی؟ اُس کے شاگردوں نے اُس سے کہا تُو دیکھتا ہے کہ بھِیڑ تجھ پر گری پڑتی ہے، پھِر تُو کہتا ہے مجھے کس نے چُھؤا؟ اُس نے چاروں طرف نگاہ کی تا کہ جس نے یہ کام کیا تھا اُسے دیکھے۔ وہ عورت جو کچھ اُس سے ہُوا تھا محسوس کر کے ڈرتی اور کانپتی ہوئی آئی اور اُس کے آگے گر پڑی اور سارا حال سچ سچ اُس سے کہہ دیا۔ اُس نے اُسے کہا بیٹی تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔ سلامت جا اور اپنی اِس بیماری سے بچی رہ۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عبادتخانہ کے سردار کے ہاں سے لوگوں نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مر گئی۔ اَب اُستاد کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟ جو بات وہ کہہ رہے تھے اُس پر یسوع نے توجہ نہ کر کے عبادتخانہ کے سردار سے کہا خوف نہ کر۔ فقط اعتقاد رکھ۔ پھِر اُس نے پطرس اور یعقوب اور یعقوب کے بھائی یوحنا کے سِوا اَور کسی کو اپنے ساتھ چلنے کی اجازت نہ دی۔ اور وہ عبادتخانہ کے سردار کے گھرمیں آئے اور اُس نے دیکھا کہ ہُلّڑ ہو رہا ہے اور لوگ بہت رو پیٹ رہے ہیں۔ اور اندر جا کر اُن سے کہا تم کیوں غُل مچاتے اور روتے ہو؟ لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ وہ اُس پر ہنسنے لگے لیکن وہ سب کو نکال کر لڑکی کے ماں باپ کو اور اپنے ساتھیوں کو لے کر جہاں لڑکی پڑی تھی اندر گیا۔ اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اُس سے کہا، تلیتا قومی، جس کا ترجمہ ہے اے لڑکی میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔ وہ لڑکی فی الفور اُٹھ کرچلنے پھِرنے لگی کیونکہ وہ بارہ برس کی تھی۔ اِس پر لوگ بہت ہی حیران ہوئے۔ پھِر اُس نے اُن کو تاکید سے حکم دیا کہ یہ کوئی نہ جانے اور فرمایا کہ لڑکی کو کچھ کھانے کو دیا جائے۔" (انجیل بمطابق مرقس 5: 21-43)

جب یسوع کو گراسینے کے علاقہ سے جہاں آپ نے بدرُوح گرفتہ شخص کو شفا بخشی تھی اور سؤروں کو ہلاک کیا تھا نکالا گیا تو آپ کفرنحوم کو چلے گئے۔ اُس علاقہ میں یائیر نام ایک شخص تھا جو عبادتخانہ کا سردار تھا۔ اُس کی بیٹی مرنے کو تھی، اور اُس وقت صرف ایک ہی اُمید باقی تھی کہ مشہور ناصری کی طرف رجوع کیا جائے۔

یائیر نے ضرور سوچا ہو گا کہ خود جا کر یسوع کو اپنے گھر آنے کی التجا کرے۔ لیکن اپنی اکلوتی بیٹی کو ایسی حالت میں چھوڑ کر جانا اُسے مشکل محسوس ہُوا۔ اُسے یہ توقع نہ تھی کہ اگر یسوع کو کسی کے ذریعے بلوایا جائے تو وہ اُس کے گھر آئیں گے، اور پھِر وہ اپنی بیٹی کو یسوع کے پاس لے کر جانے کے قابل بھی نہیں تھا کیونکہ وہ سخت بیمار تھی۔ اِس لئے یائیر جلدی سے جھیل کے کنارے پہنچا اور یسوع کے قدموں میں گر کر آپ کو سجدہ کیا۔ وہاں موجود سب افراد کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُنہوں نے اپنے مذہبی سردار کو محصول لینے والے اور گنہگاروں کے دوست ناصرت کے غریب بڑھئی کے حضور فروتن بنا ہُوا دیکھا۔ تاہم کفرنحوم کے لوگوں نے جو کچھ یسوع کی بابت سُن رکھا تھا وہ اُنہیں یائیر کے اِس تعظیمی رویہ کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہُوا۔ ایک بڑی مصیبت یائیر کو حلیم بنانے اور اُسے یسوع کے پاس لانے کا سبب بنی جہاں اُس کےلئے رحم کا دروازہ کھلا تھا۔ اُس کی مصیبت ایک عظیم برکت میں تبدیل ہونے کو تھی۔

جب تک یائیر اپنی بیٹی کی حالت بتاتا اور یسوع کی مِنّت کرتا رہا، آپ وہیں ٹھہرے رہے۔ یائیر نے یہ کہتے ہوئے یسوع پر سادہ سا ایمان ظاہر کیا کہ "میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے۔ تُو آ کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھ تا کہ وہ اچھی ہو جائے اور زندہ رہے۔" یسوع ایمان بھری ایسی التجا کو کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے، کیونکہ ایمان ہی وہ واحد ڈول ہے جو نجات کے کنویں سے زندگی بخش پانی کھینچ کر اُوپر لا سکتا ہے۔ یہ وہ واحد آنکھ ہے جس سے ہم آسمانی راہ دیکھ سکتے اور اُس پر چل سکتے ہیں "اِس واسطے کہ اُس میں (یعنی انجیل میں) خدا کی راستبازی ایمان سے اور ایمان کےلئے ظاہر ہوتی ہے جیسا لکھا ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا" (رومیوں 1: 17)۔

یہاں ہمارے سامنے ایک سوال اُٹھتا ہے کہ کیوں یسوع نے عبادتخانہ کے سردار کے گھر جائے بغیر لڑکی کی شفا کا حکم نہیں دیا؟ ایسا آپ دو بار پہلے بھی کر چکے تھے۔ کیا ایسا کرنا ایک عظیم معجزہ نہ ہوتا اور بھِیڑ اور قصبہ کے لوگوں کےلئے آپ پر ایمان لانے کا قوی اور معقول سبب نہ ہوتا؟ ممکن ہے کہ یسوع نے یہ قدم اِس لئے اُٹھایا کہ آپ کو اُس بات کا علم تھا جس سے یائیر اور دوسرے لوگ بےبہرہ تھے کہ باپ کے گھر سے چلے آنے کے بعد لڑکی مر چکی تھی۔ یائیر عبادتخانہ کا سردار تھا، اور اِس حیثیت سے وہ یسوع کا دوست نہیں تھا۔ یسوع نے یائیر کے ساتھ جانے سے ہمیں ایک قابل تقلید محبت کا نمونہ دیا ہے کہ دشمنوں سے بھی محبت رکھنی ہے۔ چونکہ یائیر نے نجات دہندہ سے برکت حاصل کرنے کےلئے چار شرائط کو پورا کیا، اِس لئے اُس کی دِلی مُراد پوری ہوئی، اور یسوع اُس کے ہمراہ اُس کے گھر گئے۔ وہ چار شرائط یہ تھیں:

الف- یسوع کے پاس آنا

ب- یسوع کے حضور اپنے آپ کو فروتن کرنا

ج- اپنی درخواست کو گرمجوشی اور متانت سے پیش کرنا

د- یسوع پر زندہ ایمان رکھنا

یائیر کے گھر جاتے ہوئے یسوع بھِیڑ سے گھرے تھے اور تیز قدموں سے نہ جا سکتے تھے۔ اِس سے یائیر کو غصہ آ رہا ہو گا کیونکہ اُس کےلئے ایک ایک منٹ گھنٹوں کے برابر تھا۔ اِس سے زیادہ غصہ اُسے اُس عورت کے سبب دیر ہونے پر آیا ہو گا جو بیماری کی ستائی ہوئی مدد کی متمنی تھی۔ اُسے حد سے زیادہ خون بہنے کی بیماری تھی۔ لیکن یہ تاخیر، جیسا کہ ہم دیکھیں گے، یائیر کے حق میں برکت کا سبب بنی کیونکہ اِس سے اُس کے ایمان کو تقویت ملی اور اُس کی اُمید اَور زیادہ بڑھ گئی۔

یہ عورت جسے بارہ برس سے خون بہنے کا مرض تھا یسوع کے پاس آئی۔ اِس مرض نے اُس کی قوت کو بالکل نڈھال کر دیا تھا، اور وہ اپنی تمام دولت دواﺅں پر خرچ کر چکی تھی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا۔ اپنے مرض کی نوعیت کے سبب وہ موسیٰ کی شریعت کے مطابق ناپاک تصور ہوتی تھی۔ اِسی لئے وہ اپنے مرض کی بابت بتانے کےلئے یسوع سے تنہا نہیں مل سکی اور نہ ہی لوگوں کے سامنے اِس کی بابت بتا سکتی تھی۔ وہ کر ہی کیا سکتی تھی؟

تاہم وہ یسوع پر ایمان رکھنے کی قوت سے معمور تھی اور اِس کے ساتھ ہی اُسے یسوع کی ضرورت تھی۔ اُس نے اپنے دِل میں سوچا کہ "اگر میں صرف اُس کی پوشاک ہی چُھو لوں گی تو اچھی ہو جاﺅں گی۔ اِس طرح نہ تو میں اُستاد کو پریشان کروں گی اور نہ ہی مجھے لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔" جو کچھ اُس نے اپنے لئے ضروری سمجھا اُسے پورا کرنے کےلئے اُس نے کسی چیز کو رکاوٹ نہ بننے دیا۔ بھِیڑ نے بھی اُس میں کچھ رکاوٹ نہ ڈالی۔ وہ اِس شافی کے پیچھے آئی اور اُس کی پوشاک کا کنارہ چھو لیا اور فوراً شفا پا گئی۔ اُس کی بحالی یکدم ہوئی۔

یہ عورت یسوع کے پیچھے سے آئی۔ اُس نے آپ کے بدن کو نہ چُھؤا۔ اُس نے سوچا تھا کہ اِس طرح یسوع اُسے دیکھ نہ پائیں گے اور نہ ہی اُس کے اِس کام کی بابت واقف ہو سکیں گے۔ لیکن چونکہ یسوع میں نادیدہ چیزوں کو بھی دیکھنے کی قوت موجود ہے اِس لئے آپ ٹھہر گئے اور دریافت کیا "کس نے میری پوشاک چھوئی؟" شاگردوں نے آپ کو جواب دیا "تُو دیکھتا ہے کہ بھِیڑ تجھ پر گری پڑتی ہے، پھِر تُو کہتا ہے مجھے کس نے چُھؤا؟" لیکن یسوع اتفاقیہ چھو جانے کی بابت نہیں بلکہ ایمان سے چھونے کی بات کر رہے تھے کیونکہ اِس سے زیادہ آپ کی دلچسپی کسی اَور چیز میں نہیں۔ اِس عورت کے ایمان نے اُسے اپنے جیسے بہت سے اُن لوگوں سے ممتاز ٹھہرایا جو شفا پانا چاہتے تھے۔ ایمان کے ساتھ یسوع کی پوشاک کو چھو لینے کے عمل نے اُسے نجات کی راہ پر گامزن کر دیا۔ بغیر ایمان کے اگر کوئی فرد یسوع کے ساتھ بھی رہے تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں جیسے یسوع کو پکڑوانے والا یہوداہ اِسکریوتی جو تین سال یسوع کے ساتھ رہنے کے باوجود بےپھل رہا۔ یہوداہ اِسکریوتی کو یسوع کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہُوا تھا مگر اُس میں ایمان نہیں تھا، اِس لئے وہ دو چند سزا کا مستحق ہُوا۔

یسوع کا مقصد اِس معجزہ کے ذریعہ جسمانی اور رُوحانی شفا دینا تھا۔ آپ اپنے شاگردوں اور یائیر کے ایمان کو تقویت دینا چاہتے تھے۔ کلام مُقدّس میں لکھا ہے "کیونکہ راستبازی کےلئے ایمان لانا دِل سے ہوتا ہے اور نجات کےلئے اقرار منہ سے کیا جاتا ہے" (رومیوں 10: 10)۔

یسوع نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اُس عورت پر نظر کر کے ظاہر کیا کہ آپ اُسے جانتے تھے۔ وہ نہایت ڈر گئی کیونکہ اُسے لوگوں کے ساتھ مسیح کے رحمدلانہ سلوک اور محبت کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ سوچ کر ڈری کہ جس چیز پر اُس کا حق نہیں تھا اُسے لینے کے سبب اُسے سزا مل سکتی ہے یا پھِر لوگوں کی بڑی بھِیڑ کے سامنے اُسے زبردست سرزنش کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا وہ اقرار کرنے کے سِوا کچھ اَور نہ کر سکتی تھی۔ وہ یسوع کے پاس آئی اور آپ کو سجدہ کر کے اپنی بیماری سے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ جو کچھ اُس نے پوشیدگی میں کیا تھا اُس کا اقرار کیا اور یہ بتایا کہ کیسے حیرت انگیز طور پر وہ شفا پا چکی تھی۔ یسوع نے نہایت رحم اور ہمدردی سے اُسے کہا "بیٹی تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔ سلامت جا اور اپنی اِس بیماری سے بچی رہ۔"

پھِر یسوع نے یائیر کے گھر کی جانب چلنا شروع کیا۔ اِسی اثنا میں اُس کے گھر سے لوگ یہ خبر لے کر آئے کہ "تیری بیٹی مر گئی۔ اَب اُستاد کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟" کیا یائیر نے یہ سُن کر یسوع کے سامنے خود کو عاجز بنانے پر افسوس کیا؟ کیا اُسے اپنی بیٹی کی موت کے وقت گھر پر نہ ہونے کا افسوس ہُوا؟ کیا اُسے اپنے ساتھی فریسیوں کی جانب سے ناراضگی کی توقع تھی کیونکہ وہ یسوع کے پاس گیا جس سے فریسی اِس لئے نفرت کرتے تھے کہ وہ اُن کی ماتحتی قبول نہ کرتا تھا؟ یسوع کو اُن سب باتوں کا جو یائیر کے دماغ میں گھوم رہی تھیں پورا علم تھا، اِس لئے آپ نے اُسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا "خوف نہ کر۔ فقط اعتقاد رکھ۔"

جب یسوع یائیر کے گھر پہنچے تو آپ نے اپنے شاگردوں کو بھِیڑ کے ساتھ باہر ٹھہرنے کےلئے کہا، لیکن صرف قریبی شاگردوں پطرس، یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لیا۔ آپ اُنہیں اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گئے تا کہ معجزہ کے گواہ ہوں۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو لوگوں کے رونے پیٹنے کو ناپسند کیا اور اُنہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ آپ نے جسم میں سے نکلی رُوح کو واپس اُسی میں لوٹا لانے سے لوگوں کی جسمانی موت سے متعلق غلط فہمیوں کو دُور کیا۔ آپ نے آئندہ جہان کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے موت کو نیند سے تشبیہ دی۔ جب ایک انسان سوتا ہے تو بعد میں تازہ دم بیدار ہوتا ہے۔ آپ نے وہاں جمع لوگوں سے کہا "تم کیوں غُل مچاتے اور روتے ہو؟ لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔"

نیند اور موت میں تمیز نہ سمجھنے کے سبب وہ لوگ (خصوصاً کرایہ پر آئے ہوئے ماتم دار) یسوع پر ہنسنے لگے۔ آپ نے اُنہیں کمرے سے باہر نکال دیا۔ یسوع کی موت پر غالب آنے کی اِس جنگ کے گواہ لڑکی کے ماں باپ اور تین شاگردوں کے علاوہ کوئی اَور نہیں تھا۔ انبیا کے ذریعہ یسوع کی بابت یہ کہا گیا تھا کہ "وہ موت کو ہمیشہ کےلئے نابود کرے گا" (یسعیاہ 25: 8)، "میں اُن کو پاتال کے قابو سے نجات دوں گا، میں اُن کو موت سے چھڑاﺅں گا۔ اے موت تیری وبا کہاں ہے؟ اے پاتال تیری ہلاکت کہاں ہے؟" (ہوسیع 13: 14)۔ مسیح کی موت پر فتح کے تعلق سے پولس رسول نے لکھا "جس نے (یعنی یسوع نے) موت کو نیست اور زندگی اور بقا کو اُس خوشخبری کے وسیلہ سے روشن کر دیا" (2- تیمتھیس 1: 10)۔

یسوع نے فرمایا کہ کوئی میری جان مجھ سے نہیں چھینتا بلکہ میں اُسے آپ ہی دیتا ہوں کیونکہ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور پھِر لینے کا بھی اختیار ہے (انجیل بمطابق یوحنا 10: 18)۔ یسوع اُس کمرے میں جہاں موت کا راج تھا پانچ افراد کے ساتھ داخل ہوئے، اور اپنے اختیار کے ساتھ لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور جسم سے پرواز کی ہوئی رُوح کو واپس اُس جسم میں آنے کا حکم دیا۔ آپ نے کہا "اے لڑکی میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔" تب اُس کی رُوح جسم میں واپس آئی اور لڑکی فوراً اُٹھ بیٹھی اور چلنے پھِرنے لگی۔ یسوع نے اُس کے والدین سے اُسے کچھ کھانے کی چیز دینے کےلئے کہا۔ اِس معجزہ کے سبب لوگ بہت ہی زیادہ حیران ہوئے۔

دو اندھوں کو شفا دینا

"جب یسوع وہاں سے آگے بڑھا تو دو اندھے اُس کے پیچھے یہ پُکارتے ہوئے چلے کہ اے ابنِ داﺅد ہم پر رحم کر۔ جب وہ گھر میں پہنچا تو وہ اندھے اُس کے پاس آئے اور یسوع نے اُن سے کہا کیا تم کو اعتقاد ہے کہ میں یہ کر سکتا ہوں؟ اُنہوں نے اُس سے کہا ہاں خداوند۔ تب اُس نے اُن کی آنکھیں چھو کر کہا تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو۔ اور اُن کی آنکھیں کُھل گئیں اور یسوع نے اُن کو تاکید کر کے کہا خبردار کوئی اِس بات کو نہ جانے۔ مگر اُنہوں نے نکل کر اُس تمام علاقہ میں اُس کی شہرت پھیلا دی۔" (انجیل بمطابق متی 9: 27-31)

یائیر کی مُردہ بیٹی کو زندہ کرنے کے بعد یسوع گھر کو روانہ ہوئے۔ راستے میں دو نابینا افراد پکارتے اور رحم کی درخواست کرتے ہوئے آپ کے پیچھے آئے۔ اُنہوں نے یسوع کو "ابنِ داﺅد" کہہ کر اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ عہد عتیق کے انبیا نے باوثوق طور پر کہا تھا کہ یسوع ابنِ داﺅد ہی مسیحا ہو گا۔ اُن دونوں اندھوں نے اپنی جسمانی آنکھوں سے نہ دیکھ سکنے کے باوجود اپنی رُوحانی آنکھوں سے دیکھا اور یسوع کو مسیحا تسلیم کیا۔ بینائی رکھنے والے لوگوں نے وہ نہ دیکھا جو اِن دو اندھوں نے دیکھ لیا۔ اُنہوں نے یسوع میں وہ سب دیکھا جس کی بابت داﺅد نبی نے فرمایا تھا کہ "وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائے گا اور محتاجوں کی جان کو بچائے گا" (زبور 72: 13)۔ وہ جانتے تھے کہ یسعیاہ نبی نے یسوع کی بابت کہا تھا کہ آپ اندھوں کو بینائی عطا کریں گے۔ شروع میں یسوع نے اُن کی درخواست قبول نہ کی اور نہ اُن کی طرف توجہ دی۔ لیکن آپ کی بظاہر نظر آنے والے بےتوجہی سے وہ مایوس نہیں ہوئے بلکہ یسوع کے پیچھے چلے اور اپنی درخواست پیش کرتے رہے۔

شروع میں یسوع نے کیوں اُن پر توجہ نہ دی؟ اِس لئے کہ آپ اُن کے ایمان کی قوت کو جانچنا چاہتے تھے۔ مسیح نے اُن سے یہ نہیں پوچھا کہ آیا وہ ایمان رکھتے تھے کہ خدا اُنہیں شفا دے سکتا ہے، بلکہ دریافت کیا کہ "کیا تم کو اعتقاد ہے کہ میں یہ کر سکتا ہوں؟" چونکہ یہ دونوں افراد اندھے تھے اِس لئے وہ مسیح کے چہرے پر نمایاں محبت کو نہ دیکھ سکے جو آپ کی قدرت کے ہمراہ تھی۔ چنانچہ مسیح نے اُن پر اپنی محبت کو اپنے ہاتھوں سے ظاہر کیا۔ آپ نے اُن کی آنکھیں چھوئیں اور اُن کی بینائی فوراً بحال ہو گئی۔ آپ نے اُن کی آنکھیں کھول کر اُن کےلئے نجات کا راستہ کھول دیا اور اُن سے کہا "تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو۔" شفا پانے میں اُن کی کامیابی کا سبب اُن کا علم، معاشرے میں اُن کا مرتبہ یا اُن کے اچھے کام نہیں تھے بلکہ یہ اُن کے ایمان کا نتیجہ تھا۔

8- یسوع کا بارہ شاگردوں کو منادی کےلئے بھیجنا

"اور یسوع سب شہروں اور گاﺅں میں پھِرتا رہا اور اُن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری دُور کرتا رہا۔ اور جب اُس نے بھِیڑ کو دیکھا تو اُس کو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہ حال اور پراگندہ تھے۔ تب اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔ پس فصل کے مالک کی مِنّت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کےلئے مزدور بھیج دے۔" (انجیل بمطابق متی 9: 35-38)

یسوع ناصرت سے روانہ ہو کر شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں پھِرتے ہوئے لوگوں کی خدمت اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتے رہے، اور عبادتخانوں میں تعلیم دیتے اور بیماروں کو شفا دیتے رہے۔ آپ لوگوں کی حالت دیکھ کر نہایت غمزدہ ہوئے۔ آپ نے اُنہیں بھیڑوں کے ایسے گلہ سے تشبیہ دی جس کا کوئی چرواہا نہ ہو۔ بےشک اُن کے چرواہے تھے مگر وہ برائے نام تھے۔ یہ اُجرت پر رکھے ہوئے چرواہے تھے جنہیں بھیڑوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ وہ نہ اُنہیں ہری چراگاہوں کی جانب لے کر گئے اور نہ اُنہوں نے اُن کی راہنمائی پیاس بجھانے والے چشموں کی جانب کی۔ اُن خستہ حال اور پراگندہ بھیڑوں کےلئے اچھا چرواہا آ موجود ہُوا جو اُن کےلئے اپنی جان دینے کو تھا۔ اِسی لئے لکھا ہے کہ "جب اُس نے بھِیڑ کو دیکھا تو اُس کو لوگوں پر ترس آیا۔"

یسوع نے رُوحوں کی فصل کاٹنے میں شریک ہونے کےلئے اپنے شاگردوں کو تربیت دینی شروع کی۔ آپ نے اپنے بارہ شاگردوں کو بلایا اور اُن کو دو دو کر کے بھیجا۔ آپ نے اُن کو کافی عرصہ سکھایا تھا، اور اَب وقت آ گیا تھا کہ اُنہیں دوسروں کی خدمت کرنے کےلئے بھیجا جاتا۔ آپ نے اُنہیں کہا "فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔" آپ نے اُنہیں سکھایا کہ فصل کا مالک فصل کاٹنے کےلئے مزدور بھیجتا ہے، لہٰذا وہ اُس سے درخواست کریں۔

یہ نہایت اہم ہے کہ رُوحانی چرواہے اپنے کام کی تکمیل کےلئے ہمیشہ مستعد رہیں۔ سب سے پہلے اُنہیں خدمت کےلئے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرنا ہے۔ پھِر اُنہیں مخصوص لوگوں کے ذریعہ چُنا جانا ہے۔ لیکن وہ اپنے کام میں تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ خدا کے رُوح کے ذریعہ نہ بھیجے جائیں۔ کامیاب رُوحانی کام کا انحصار نہ تو الہٰیاتی مدرسوں پر ہے جہاں ایماندار تربیت کےلئے جاتے ہیں اور نہ ہی اِس کا انحصار اُن کی تنخواہ پر ہے بلکہ فصل کے مالک کی جانب سے بھیجے جانے پر ہے۔

"اِن بارہ کو یسوع نے بھیجا اور اُن کو حکم دے کر کہا۔ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ بیماروں کو اچھا کرنا۔ مُردوں کو جِلانا۔ کوڑھیوں کو پاک صاف کرنا۔ بدرُوحوں کو نکالنا۔ تم نے مُفت پایا مُفت دینا۔ نہ سونا اپنے کمربند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے۔ راستہ کےلئے نہ جھولی لینا نہ دو دو کُرتے نہ جُوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار ہے۔" (انجیل بمطابق متی 10: 5-10)

یسوع نے اپنے مُقرر شاگردوں کےلئے جب وہ دو دو کر کے منادی کےلئے روانہ ہوئے، کافی وسائل و ذرائع مہیا فرمائے۔ آپ نے اُنہیں شفا بخشنے، بدرُوحیں نکالنے اور مُردوں کو زندہ کرنے کےلئے معجزے کرنے کی قوت اور اختیار عطا فرمایا۔ اِن معجزات کے ذریعے خوشخبری کی منادی کی سچائی کی تصدیق ہونی تھی۔ یسوع نے اُنہیں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل چیز بھی عنایت کی یعنی اُن کی منادی کے مواد اور طریقہ کار کی بابت ہدایات دیں۔ یسوع نے شاگردوں پر اُن کی منادی سُننے والے عوام اور یہودی سرداروں کے درمیان جنہوں نے مذہب کو نفع کمانے کا ذریعہ بنایا ہُوا تھا فرق واضح کر دیا۔

اگر کسی کے ذریعے کی ہوئی نیکی کا بدلہ چُکایا نہیں جاتا تو اُس کےلئے دو چند اجر ہے۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ اُصول سکھایا کہ "تم نے مُفت پایا مُفت دینا۔" شاگردوں کےلئے اِس اُصول کی پیروی کو آسان بنانے کےلئے یسوع نے اُن کے سفر کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت دی۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ یہ تمام ضروریات اُن کے انتظام کئے بغیر اُن کےلئے مہیا ہو جائیں گی کیونکہ جب تک وہ لوگ آپ کے رُوحانی مقاصد کی تکمیل کو پورا کرتے رہیں گے آپ اُن کی زمینی ضروریات کو مہیا فرماتے رہیں گے۔ اُن افراد کو تمام چیزیں افراط سے دی جائیں گی جو پہلے خدا کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرتے ہیں (انجیل بمطابق متی 6: 33)۔

"اور جس شہر یا گاﺅں میں داخل ہو، دریافت کرنا کہ اُس میں کون لائق ہے اور جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو اُسی کے ہاں رہنا۔ اور گھر میں داخل ہوتے وقت اُسے دعایِ خیر دینا۔ اور اگر وہ گھر لائق ہو تو تمہارا سلام اُسے پہنچے اور اگر لائق نہ ہو تو تمہارا سلام تم پر پھِر آئے۔ اور اگر کوئی تم کو قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سُنے تو اُس گھر یا اُس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاﺅں کی گرد جھاڑ دینا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ عدالت کے دِن اُس شہر کی نسبت سدُوم اور عمّورہ کے علاقہ کا حال زیادہ برداشت کے لائق ہو گا۔" (انجیل بمطابق متی 10: 11-15)

یسوع نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ ایک گاﺅں کے ایک گھر سے دوسرے گھر میں نہ پھِرتے رہنا، کیونکہ اگر وہ ایک گھر سے زیادہ گھروں میں رہنے کےلئے جائیں گے تو مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کےلئے خاطر خواہ وقت میسر نہیں ہو گا۔ شاگروں کو ہر گاﺅں کے ایک گھرانے میں خوشخبری کا نور روشن کرنا تھا تا کہ اُن کے چلے جانے کے بعد اُس گھر کے لوگ باقی شہر کو متاثر کریں۔ چونکہ وہ بادشاہ کے سفیر تھے جس نے اُنہیں بھیجا تھا، اِس لئے یسوع نے اُنہیں تاکید کی کہ جو اُنہیں اور اُن کی تعلیم کو رد کریں اُن کوسخت تنبیہ کریں۔ جو کوئی اُن کی تحقیر کرتا ہے وہ اُس بادشاہ کی تحقیر کرتا ہے جس نے اُنہیں بھیجا ہے۔ جو بھی اُن پیامبروں کو ضرر پہنچائے گا اُسے یسوع کے ذریعے سزا ملے گی۔ آسمانی تخت کے نمائندوں کو رد کرنے والے اپنے انجام سے بچ نہ پائیں گے اور اُنہیں سخت سزا ملے گی۔

"دیکھو میں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بےآزار بنو۔ مگر آدمیوں سے خبردار رہو کیونکہ وہ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے اور اپنے عبادتخانوں میں تم کو کوڑے ماریں گے۔ اور تم میرے سبب سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاﺅ گے تا کہ اُن کے اور غیرقوموں کےلئے گواہی ہو۔ لیکن جب وہ تم کو پکڑوائیں تو فکر نہ کرنا کہ ہم کس طرح کہیں یا کیا کہیں کیونکہ جو کچھ کہنا ہو گا اُسی گھڑی تم کو بتایا جائے گا۔ کیونکہ بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا رُوح ہے جو تم میں بولتا ہے۔ ... جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور رُوح کو قتل نہیں کر سکتے اُن سے نہ ڈرو بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔" (انجیل بمطابق متی 10: 16-20، 28)

یسوع نے اپنے شاگردوں کے سامنے پیشینگوئی کی کہ وہ جن کے درمیان خدمت کریں گے اُن کی جانب سے شاگردوں کو سخت ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ بھیڑوں کی مانند بھیڑیوں کے درمیان ہوں گے۔ خوشخبری سُنانے کے کام کے سبب وہ حاکموں اور بادشاہوں کی نفرت کا نشانہ بنیں گے۔ تب اُنہیں بدمزاجی اور انتقام سے گریز کرتے ہوئے برّوں کی مانند بےضرر رہنا ہو گا۔ اُنہیں یہ بھی جاننے کی ضرورت تھی کہ خدا کا رُوح اُنہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، اور جواب دہی کے وقت اُنہیں اُس پر بھروسا رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ جیسا برتاﺅ اُن شاگردوں کے ساتھ ہونے کو تھا، ویسا ہی برتاﺅ یسوع کے ساتھ بھی ہونا تھا۔ اِس لئے مسیح کے نام کی خاطر سب لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتے وقت اُنہیں اِس بات سے تسلی ملے گی۔ جسمانی ایذا یا موت کے ڈر سے خوفزدہ ہو جانا مناسب نہیں کیونکہ ابدی رُوحانی اذیت کا عذاب اِس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ خدا اُن کی خبرگیری کرے گا جس میں ہر چیز شامل ہے، یہاں تک کہ اُن کے بال بھی گنے ہوئے ہیں (انجیل بمطابق متی 10: 30)۔ جو کوئی زمین پر بےخوفی کے ساتھ نجات دہندہ کا اقرار کرتا ہے، وہ آخرت میں نجات دہندہ کی مقبولیت کو حاصل کرے گا۔

"یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ کیونکہ میں اِس لئے آیا ہوں کہ آدمی کو اُس کے باپ سے اور بیٹی کو اُس کی ماں سے اور بہو کو اُس کی ساس سے جُدا کر دوں۔ اور آدمی کے دشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں، اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔ اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوتا ہے اُسے بچائے گا۔ جو تم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔ جو نبی کے نام سے نبی کو قبول کرتا ہے وہ نبی کا اجر پائے گا اور جو راستباز کے نام سے راستباز کو قبول کرتا ہے وہ راستباز کا اجر پائے گا۔ اور جو کوئی شاگرد کے نام سے اِن چھوٹوں میں سے کسی کو صرف ایک پیالہ ٹھنڈا پانی ہی پلائے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں وہ اپنا اجر ہر گز نہ کھوئے گا۔" (انجیل بمطابق متی 10: 34-42)

یسوع مسیح اپنی ذات میں سلامتی کے شہزادہ ہیں۔ آپ کی بادشاہی سلامتی کی بادشاہی ہے۔ لیکن سلامتی کو قائم رکھنے کےلئے رُوحانی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ سچائی کو منکشف کرنا غلط کاروں کےلئے پلٹ کر لڑنے کا سبب بن جاتا ہے اور ایسا ہونا ہے کیونکہ یسوع نے فرمایا کہ میں زمین پر صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ لازم تھا کہ مسیح کے کام کے نتیجہ میں بہت سے عزیز ترین رشتہ دار بھی ایک دوسرے سے جدا ہوں۔ اِس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کون ہیں جو خدا کی نسبت اپنے خاندان کو ترجیح دیتے ہیں اور عزیز و اقارب کی خاطر آسمانی بادشاہ کو ترک کر دیتے ہیں۔ جو خدا کو ترک کرتا ہے اور اپنی زندگی بچانے کےلئے اپنے ایمان کا انکار کرتا ہے وہ خسارہ میں رہے گا۔ لیکن اِس کے برعکس جو کوئی اپنے ایمان پر قائم رہے گا وہ اپنے نیک اعمال کا اجر پائے گا خواہ وہ کام کتنے بھی ادنیٰ کیوں نہ ہوں۔ یہاں تک کہ یسوع کے شاگردوں کو محبت کے ساتھ ایک پیالہ ٹھنڈا پانی پلانے کا بھی اجر پائے گا۔ جب یسوع نے اپنی گفتگو مکمل کی تو آپ کے شاگرد مختلف مقامات کےلئے روانہ ہوئے تا کہ اُس اہم ذمہ داری کو سرانجام دیں جو آپ نے اُنہیں سونپی تھی۔

"اور رسول یسوع کے پاس جمع ہوئے اور جو کچھ اُنہوں نے کیا اور سکھایا تھا، سب اُس سے بیان کیا۔ اُس نے اُن سے کہا، تم آپ الگ ویران جگہ میں چلے آﺅ اور ذرا آرام کرو۔ اِس لئے کہ بہت لوگ آتے جاتے تھے اور اُن کو کھانا کھانے کی بھی فرصت نہ ملتی تھی۔ پس وہ کشتی میں بیٹھ کر الگ ایک ویران جگہ میں چلے گئے۔ اور لوگوں نے اُن کو جاتے دیکھا اور بہتیروں نے پہچان لیا اور سب شہروں سے اکھٹے ہو کر پیدل اُدھر دوڑے اور اُن سے پہلے جا پہنچے۔ اور اُس نے اُتر کر بڑی بھِیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا۔ کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جن کا چرواہا نہ ہو، اور وہ اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگا۔" (انجیل بمطابق مرقس 6: 30-34)

جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو منادی کرنے کےلئے بھیج دیا تو اِسی دوران ہیرودیس بادشاہ نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر قلم کروا دیا۔ ہیرودیس نے اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کر لی تھی اور اُسی کے کہنے پر ایسا کیا گیا۔ جب مسیح کے بارہ شاگرد اپنے خدمتی کام سے واپس آئے تو یوحنا کی موت کی خبر سُن کر دنگ رہ گئے۔ بےشک اِس خبر سے اُن کو گہرا صدمہ پہنچا ہو گا خصوصاً اُنہیں جو پہلےپہل یوحنا کی منادی کے ذریعہ راہِ حق پر گامزن ہوئے تھے۔

جب شاگرد سارے علاقہ میں بشارت اور تعلیم سے متعلق اپنے مختلف تجربات یسوع کو بتا چکے تو اتنے میں وہاں بہت بڑی بھِیڑ جمع ہو گئی اور اُن سے مزید کارگزاری کا مطالبہ کرنے لگے یہاں تک کہ اُنہیں کھانا کھانے کی بھی فرصت نہ ملی۔ تب یسوع نے یہی بہتر سمجھا کہ شاگردوں کو آرام کےلئے کسی ویران مقام میں لے جائیں۔ علاوہ ازیں چونکہ حال ہی میں یوحنا کا سر قلم کیا گیا تھا، اِس لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ کچھ عرصہ لوگوں کی نظروں سے دُور رہنا مناسب سمجھا۔ کیونکہ جو بھِیڑ یسوع کے پاس جمع ہو رہی تھی اُس سے سرکاری عہدیداروں کو یوحنا کے قتل کے سبب سے لوگوں کی جانب سے انتقام لینے کا گمان ہو سکتا تھا۔ لہٰذا یسوع نے اُس بھِیڑ کو واپس جانے کےلئے کہا۔ آپ اُس بڑے ہجوم کو تِتّر بِتّر کرنا چاہتے تھے کیونکہ یہ آپ کی گرفتاری کا ایک بہانہ بن سکتا تھا۔

مسیح کی خدمت کےلئے کشتی تیار تھی اور شاگردوں کی تھکاوٹ بھی اُن کے آرام کا تقاضا کرتی تھی۔ یسوع اور آپ کے شاگردوں کےلئے بھِیڑ اور کام کے دباﺅ سے دُور رہنے کےلئے وہ بڑی جھیل بہترین مقام تھی۔ علاوہ ازیں اِس طرح یوحنا کے قاتل ہیرودیس بادشاہ کے علاقہ کو چھوڑ دینا عقلمندی کا کام تھا۔ وہ ہیرودیس کے بھائی فلِپُّس کے علاقہ میں چلے گئے جو ہیرودیس سے بہت بہترحاکم تھا۔ مقام کی تبدیلی سے یسوع اپنے شاگردوں کو وہ بہت سی باتیں آسانی اور بہتری کے ساتھ سکھا سکتے تھے جو شہری علاقہ میں نہیں سکھا سکتے تھے۔ آپ اُن کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر جھیل میں سفر پر روانہ ہوئے۔ ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے کشتی آہستہ چل رہی تھی جس سے اُنہیں آرام کرنے کا موقع ملا۔

مگر وہ بھِیڑ جھیل کے شمالی کنارے پر چلتی ہوئی اُن سے پہلے بیت صیدا پہنچ گئی۔ جیسے ہی کشتی وہاں پہنچی تو وہ بھِیڑ بہت سے مقامی باشندوں کے ساتھ یسوع اور آپ کے شاگردوں سے ملی۔ آپ نے اپنی رحمدِلی کے سبب اُنہیں واپس بھیجنا مناسب نہ سمجھا اور نہ ہی اُن کے ساتھ سخت برتاﺅ کیا اور نہ بُرا بھلا کہا۔ جب تک وہ مسیح کے متمنی رہے آپ نے اُن کی ضروریات پوری کیں۔ اُس وقت وہاں جنہیں شفا کی ضرورت تھی مسیح نے اُنہیں شفا دی، اور پھر اپنے شاگردوں کو لے کر پہاڑ پر چلے گئے۔ جب آپ وہاں بیٹھ گئے تو ایک بڑی بھِیڑ نے اُدھر آنا شروع کر دیا۔ لیکن مسیح نے اُن پر غصہ نہ کیا بلکہ اُن کی بھوکی رُوحوں کو دیکھ کر اُن پر ترس کھایا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جن کا چرواہا نہ ہو۔ مسیح نے اُن پر ترس کھایا اور سب بیماروں کو شفا دی۔ وہ بھِیڑ یسوع کے ساتھ شام تک رہی۔ تب ایک اَور مسئلہ سامنے آیا کہ اِن ہزاروں لوگوں کو کون کھانا کھلائے گا؟

9- یسوع کا پانچ ہزار کو کھانا کھلانا

"جب دِن بہت ڈھل گیا تو اُس کے شاگرد اُس کے پاس آ کر کہنے لگے، یہ جگہ ویران ہے اور دِن بہت ڈھل گیا ہے۔ اِن کو رُخصت کر، تا کہ چاروں طرف کی بستیوں اور گاﺅں میں جا کر اپنے لئے کچھ کھانے کو مول لیں۔ اُس نے اُن سے جواب میں کہا، تم ہی اِنہیں کھانے کو دو۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، کیا ہم جا کر دو سو دینار کی روٹیاں مول لیں اور اِن کو کھلائیں؟ اُس نے اُن سے کہا، تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاﺅ دیکھو۔ اُنہوں نے دریافت کر کے کہا، پانچ اور دو مچھلیاں۔ اُس نے اُن کو حکم دیا کہ سب ہری گھاس پر دستہ دستہ ہو کر بیٹھ جائیں۔ پس وہ سو سو اور پچاس پچاس کی قطاریں باندھ کر بیٹھ گئے۔ پھِر اُس نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر برکت دی اور روٹیاں توڑ کر شاگردوں کو دیتا گیا کہ اُن کے آگے رکھیں اور وہ دو مچھلیاں بھی اُن سب میں بانٹ دیں۔ پس وہ سب کھا کر سیر ہو گئے۔ اور اُنہوں نے ٹکڑوں اور مچھلیوں سے بارہ ٹوکریاں بھر کر اُٹھائیں۔ اور کھانے والے پانچ ہزار مرد تھے۔" (انجیل بمطابق مرقس 6: 35-44)

اُس شام شاگرد سوچ رہے تھے کہ کیا کیا جائے۔ کافی غور و خوض کے بعد اُنہوں نے یسوع کے سامنے اپنی تجویز رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی تک وہ اپنے اُستاد کی جانب سے ہدایات پانے کے انتظار اور صبر کرنے کی بابت سیکھ نہ پائے تھے۔ وہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ یسوع کو کسی کے ذریعہ یہ یاد دہانی کرانے کی ضرورت نہ تھی کہ اَب کیا کرنا ہے۔ اُنہوں نے یہ خیال کیا کہ جو کچھ بھِیڑ، یسوع اور اُن کے اپنے حق میں اچھا ہے وہ اُسے بہتر طور پر جانتے ہیں۔

وہ مسیح کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ "یہ جگہ ویران ہے اور دِن بہت ڈھل گیا ہے۔ اِن کو رُخصت کر، تا کہ چاروں طرف کی بستیوں اور گاﺅں میں جا کر اپنے لئے کچھ کھانے کو مول لیں۔" یوں لگتا ہے کہ اُنہیں ڈر تھا کہ کہیں بھِیڑ اُن سے کھانے کا مطالبہ نہ کر دے۔ اُنہوں نے سوچا کہ یہ مرد و خواتین اور بچے، جن میں سے کچھ بیمار بھی تھے، شام ہو جانے پر اِس بیابان میں بھوک کی تکلیف کا سامنا کریں گے۔

یسوع نے شاگردوں سے کسی ایسی جگہ کے بارے میں دریافت کیا جہاں کھانا دستیاب ہو سکتا۔ شاگرد سوچنے لگے کہ اِس بات سے یسوع نے اُنہیں ایک مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اُنہوں نے حساب کیا تو معلوم ہُوا کہ صرف روٹی ہی کی قیمت دو سو دینار سے زیادہ کی ہو گی۔ کیا یسوع کے پاس اتنی رقم تھی؟ اُس کے پاس تو سر دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ اگر اُنہیں اتنی رقم حاصل ہو بھی جاتی تو اِتنا وقت نہیں تھا کہ مختلف گاﺅں میں جا کر اتنی تعداد میں روٹیاں حاصل ہو سکتیں کیونکہ دِن ڈھل چکا تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کھانے کو کس طرح اُس جگہ پر پہنچائیں گے۔ پھِر یسوع جیسے شخص کےلئے اپنے مہمانوں کو تھوڑی سی روٹی کھلانا کوئی اچھی مہمانداری نہیں ہونی تھی۔ اِس لئے اُنہوں نے یسوع سے کہا "کیا ہم جا کر دو سو دینار کی روٹیاں مول لیں اور اِن کو کھلائیں؟" اُنہوں نے سوچا کہ یہ جواب یسوع کو قائل کر لے گا کہ وہ اُن کے مشورہ کو مان کر لوگوں کو روانہ کر دیں گے۔

یسوع اِس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اُن کے پاس کھانا نہیں تھا۔ لیکن آپ اُنہیں سکھانا چاہتے تھے کہ جو دوسروں کا بھلا کرنا چاہتے ہیں اُنہیں آپ کی ضرورت پڑے گی کیونکہ لوگوں کو دینے کےلئے خود اُن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ یسوع نے اِس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ خدا دُنیا میں اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے لوگوں کو ہی استعمال کرتا ہے۔ سوائے شاذ و نادر موقعوں کے خدا اپنی رُوحانی اور زمینی بخششیں بذاتِ خود آ کر اور اپنے فرشتوں کو استعمال کر کے عطا نہیں کرتا۔ اِس اُصول میں مدد کرنے والے اور مدد پانے والے دونوں کا فائدہ موجود ہے کیونکہ اِس سے دونوں کے درمیان باہمی محبت کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ اِس سے مدد کرنے والے فرد کو دوسروں کی خدمت میں خود اِنکاری کی مشق کا موقع ملتا ہے۔

جب یسوع نے شاگردوں کو کہا کہ تم ہی اِنہیں کھانے کو دو، تو شاگردوں نے مسیح کے حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا ہم جا کر دو سو دینار کی روٹیاں مول لیں اور اِن کو کھلائیں؟" یہ سُن کر یسوع نے اُن سے کہا "تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاﺅ دیکھو۔" یہ کہہ کر یسوع نے اُنہیں یاد دِلایا کہ جہاں بھی ممکن ہو خدا انسان کے اِشتراک سے کام سرانجام دیتا ہے۔ اِس لئے یسوع نہیں چاہتے تھے کہ کچھ ذرائع مہیا ہوتے ہوئے وہ نیست سے روٹیاں بنائیں۔ آپ نے اُسے استعمال کیا جو شاگردوں کے ہاتھوں میں پہلے ہی موجود تھا تا کہ اُنہیں سکھا سکیں کہ جو چیز پہلے ہی اُنہیں خدا کی جانب سے میسر ہے اُسے آدمیوں سے کبھی مت مانگیں۔ جب تک یہ وسائل ختم نہ ہو جائیں تب تک مزید مانگنے کا حق نہیں ہے۔ جب ہم اپنے لئے انتظام کرنے کے خود اہل ہیں تو ایسے میں دوسروں پر انحصار کرنا ہمارے لئے قابل مذمّت ہے۔ اگر ہم خدا سے ہر اُس کام کو کرنے کی توقع کریں جو ہم اپنے لئے چاہتے ہیں تو ہم سُست اور حد سے زیادہ دوسروں پر انحصار کرنے والے بن جاتے ہیں۔ لہٰذا جب انسانی ذرائع ناکام یا ختم ہو جائیں تبھی ہمیں خدا سے مداخلت کےلئے کہنا چاہئے۔

مُقدّس یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل 6: 1-14 کے مطابق یہ مسیح کا پہلا شاگرد اندریاس تھا جس نے بھِیڑ میں ایک لڑکے کے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں دیکھی تھیں۔ ممکن ہے یہ لڑکا کھانا فروخت کرنے کا کام کرتا تھا۔ اندریاس شش و پنج کے ساتھ یسوع سے کہنے لگا "مگر یہ (روٹیاں اور مچھلیاں) اتنے لوگوں میں کیا ہیں؟ (یوحنا 6: 9)۔ یسوع نے یہ کہتے ہوئے اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا کہ "چھوڑو اِس بات کو یہ قابل ذِکر نہیں ہے"، اور نہ ہی آپ نے یہ کہا کہ "جاﺅ یہ لوگوں کو دے دو۔" بلکہ آپ نے اُنہیں وہ روٹیاں اور مچھلیاں اپنے پاس لانے کےلئے کہا تا کہ اُنہیں سکھا سکتے کہ آپ ہی سب اچھی چیزوں اور تمام بخششوں کے سرچشمہ ہیں۔ آپ ہی حقیقی بادشاہ اور مالک ہیں۔ ہر چیز جو ہمارے پاس ہے آپ کی ہے اور آپ جو چاہتے ہیں وہ کر سکتے ہیں۔

چونکہ رُوحانی اور دنیوی دونوں عالم میں نظم و نسق نہایت اہم ہے، اِسی لئے ہم یسوع کی دلچسپی اِس جانب دیکھتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو ہری گھاس پر قطاروں میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ اگر کھانا بےقاعدگی سے تقسیم کیا جاتا تو لوگ ایک دوسرے کو دبا دیتے اور طاقتور کمزور پر حاوی ہو جاتا۔ بعض کو بہت مل جاتا اور بعض کو کچھ نہ ملتا۔ لیکن ایک ترتیب سے تقسیم کا کام جلدی ہوتا اور سب کو مناسب اور برابر حصہ ملتا۔ فطرت پر غور کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم آہنگی اور ترتیب میں خوش ہوتا ہے۔

یسوع نے پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کو لیا اور آسمان کی طرف نظر کر کے خدا کا شکر ادا کیا۔ ایسا کر کے یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ ہر اچھی چیز جو ہمارے پاس ہے یہاں تک کہ جو کھانا ہم خریدتے ہیں وہ خدا کی جانب سے ایک بخشش ہے۔ جب بھی ہم کھانا کھائیں ہمیں لازم ہے اُس فیاض بخشندہ کا شکر ادا کریں۔ ہمیں نہ صرف کھانا کھاتے وقت بلکہ ہر اچھی چیز کے ملنے پر بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ "ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اُوپر سے ہے اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے" (یعقوب 1: 17)۔

جب یسوع نے خدا کا شکر ادا کیا تو آپ نے کھانے پر برکت دی، اور روٹیاں اور مچھلیاں توڑ کر اپنے شاگردوں کو دیں تا کہ وہ گھاس پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ اِس طرح آپ نے اُنہیں یہ سبق دیا کہ سب ایمانداروں کو پہلے دوسروں کو آسودہ کرنا اور پھر خود کھانا چاہئے۔

لوگوں کے اتنے بڑے ہجوم کو کھانا تقسیم کرنے کے دوران خوراک کے وافر مقدار میں مہیا ہو جانے کا معجزہ ہُوا۔ لکھا ہے کہ وہ "روٹیاں توڑ کر شاگردوں کو دیتا گیا کہ اُن کے آگے رکھیں اور وہ دو مچھلیاں بھی اُن سب میں بانٹ دیں۔ پس وہ سب کھا کر سیر ہو گئے۔" اور جب بچے ہوئے ٹکڑے جمع کئے گئے تو وہ پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھے۔

مختلف اسباق سے بھرے اِس مؤثر معجزہ کے ذریعہ یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ آپ اُن کی ادنیٰ سی دینی خدمت اور سادہ الفاظ کو قبول کرنے، اُن کی قوت اور اثر میں اضافہ کرنے، اور اُنہیں کئی گنا زیادہ مؤثر بنانے کےلئے تیار تھے۔ جو کچھ آپ کو دیا جاتا ہے آپ اُسے قبول کرتے ہیں اور اُسے باافراط بنا کر واپس کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی جان، اپنا بدن، قابلیتیں، خاندان، علم، مال و اسباب، وقت، کوششیں اور ہر قسم کی جدوجہد یسوع کی سپردگی میں دیں تو آپ اُنہیں قبول کر کے برکت دیں گے اور اُن کی قدر و قیمت اور افادیت کو کئی گنا زیادہ بڑھائیں گے۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے نہایت معمولی شخص کےلئے اِس حقیقت میں زبردست ہمت افزائی موجود ہے کہ جس نے بہت کم خوراک سے ہزاروں کو سیری بخشی وہ معمولی خدمت کے کام کو اپنی برکتوں کی بہتات سے عروج پر پہنچا سکتا ہے جس سے ایک زبردست کام انجام تک پہنچے گا۔

باقی بچے ٹکڑوں میں مسیح کی دلچسپی سے ہم ایک اہم بات سیکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مسیح کو یہ اندیشہ محسوس ہُوا کہ اتنے بڑے معجزہ کو دیکھ کر آپ کے شاگرد باقی بچے ٹکڑوں کو شائد حقیر تصور کرنے لگیں۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ شاگرد اِس تصور میں گرفتار ہو جائیں کہ جس نے قلیل خوردنی اشیا سے ایک بڑی بھِیڑ کو وافر خوراک مہیا کی تھی وہ گھاس پر بکھرے بچے ہوئے ٹکڑوں کی پروا نہیں کرے گا۔ بےشک آپ پروا کرتے ہیں، کیونکہ آپ کا ایک اُصول یہ ہے کہ "کچھ کھو نہ جائے۔"

جب یسوع نے لوگوں کی بڑی بھِیڑ کو خوراک سے سیر کر دیا تو اُنہوں نے آپ کو بادشاہ بنانا چاہا۔ اِس پر یسوع کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ آپ نے اپنے شاگردوں کو جوش سے بھری بھِیڑ سے جُدا کیا اور اُنہیں کشتی میں سوار ہو کر جھیل کے دوسرے کنارے پر جانے کا مشورہ دیا تا کہ لوگوں کو واپس بھیجنے کا آپ کو موقع حاصل ہو سکے۔ شاگردوں کےلئے اپنے اُستاد کو اُس کی اتنی بڑی کامیابی اور بڑھتی ہوئی شہرت کے درمیان چھوڑنا آسان نہ تھا۔ اُن کے تصور میں یہ بات گھر کرتی جا رہی تھی کہ اَب دنیوی عظمت اور دولت کا دروازہ اُن کےلئے کھل رہا تھا۔ لیکن یسوع نے اُنہیں یکدم وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دیا کیونکہ وہ مسیح کی سوچ کو سمجھنے میں ناکام ہوئے تھے۔ لیکن مسیح کے سختی سے حکم دینے کے ساتھ ہم آپ کے لطف و کرم کو بھی دیکھتے ہیں کیونکہ آپ نے شاگردوں کو الوداع کہا۔ اگرچہ آپ شاگردوں سے چند گھنٹوں کےلئے ہی جُدا ہوئے تھے، تاہم آپ نے اُن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے گرمجوشی سے اُنہیں رخصت کیا۔

دوسرا کام یسوع نے یہ کیا کہ بھِیڑ کو واپس بھیج دیا، اور پھِر تیسرا کام یہ کیا کہ آپ تنہائی میں دُعا کرنے کےلئے چلے گئے۔ لوگوں کی بڑی بھِیڑ میں آپ کی بڑھتی ہوئی شہرت ہمیں دو برس پیشتر بیابان میں شیطان کے ذریعہ آپ کی آزمایش کی یاد دہانی کراتی ہے جب شیطان نے یسوع کو ساری بادشاہتیں اور تمام دنیوی شان و شوکت دینے کا وعدہ کیا۔ یسوع اَب ویسی ہی آزمایش کا سامنا کر رہے تھے۔ اِس نئے خطرے کو دُور کرنے کےلئے ایسی حالت میں باپ سے شخصی دُعا کرنے کی ضرورت تھی۔ اِسی وجہ سے آپ پہاڑ پر تنہا چلے گئے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ گھر واپس نہیں گئے تو وہ اپنے دُور دراز علاقوں کو واپس نہ گئے جہاں سے آئے تھے۔ اُنہوں نے دوسرے دِن اُسی مقام پر یسوع سے ملاقات کی توقع کی۔

یسوع تنہائی میں دُعا کرنے کےلئے پہاڑ پر چلے گئے جیسا کہ وہ اکثر کیا کرتے تھے۔ مگر اِس بار پانچ ہزار کو خوراک سے سیر کرنے کے بعد ایسا کرنے کے کئی اَور اسباب بھی تھے، جن میں سے ایک سبب یوحنا بپتسمہ دینے والے کی موت تھی۔ تنہائی میں جانے کے دیگر اسباب میں زمینی سیاسی بادشاہی کی بابت بھِیڑ کا غلط تصور، شاگردوں کا اِس غلط خیال سے متفق ہو جانا، اور آپ کا پہلے ہی یہ علم رکھنا شامل ہے کہ جو آج آپ کے ساتھ ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے آخر میں وہی آپ کو ترک کر دیں گے۔

10- یسوع کا ایمان کی بابت تعلیم دینا

الف- یسوع کا پانی کے اُوپر چلنا

"اور اُس نے فوراً شاگردوں کو مجبور کیا کہ کشتی میں سوار ہو کر اُس سے پہلے پار چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رُخصت کرے۔ اور لوگوں کو رُخصت کر کے تنہا دُعا کرنے کےلئے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔ مگر کشتی اُس وقت جھیل کے بیچ میں تھی اور لہروں سے ڈگمگا رہی تھی کیونکہ ہوا مخالف تھی۔ اور وہ رات کے چوتھے پہر جھیل پر چلتا ہُوا اُن کے پاس آیا۔ شاگرد اُسے جھیل پر چلتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ بھوت ہے اور ڈر کر چِلّا اُٹھے۔ یسوع نے فوراً اُن سے کہا خاطِر جمع رکھو۔ میں ہوں۔ ڈرو مت۔ پطرس نے اُس سے جواب میں کہا اے خداوند اگر تُو ہے تو مجھے حکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آﺅں۔ اُس نے کہا آ۔ پطرس کشتی سے اُتر کر یسوع کے پاس جانے کےلئے پانی پر چلنے لگا۔ مگرجب ہوا دیکھی تو ڈر گیا اور جب ڈوبنے لگا تو چِلّا کر کہا، اے خداوند مجھے بچا۔ یسوع نے فوراً ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیا اور اُس سے کہا، اے کم اعتقاد تُو نے کیوں شک کیا؟ اور جب وہ کشتی پر چڑھ آئے تو ہوا تھم گئی۔ اور جو کشتی پر تھے اُنہوں نے اُسے سجدہ کر کے کہا یقیناً تُو خدا کا بیٹا ہے۔" (انجیل بمطابق متی 14: 22-33)

یسوع اُس رات تنہائی میں پہاڑ پر دُعا کر رہے تھے جبکہ آپ کے شاگرد کشتی میں سفر کر رہے تھے۔ اُس وقت زبردست آندھی آئی اور جھیل میں طوفان بپا کر دیا جس سے کشتی لہروں میں ڈگمگانے لگی۔ شاگرد آج سے چھ ماہ پیشتر کے اُس واقعہ کو نہ بھولے تھے جب یسوع اُن کے ساتھ کشتی میں موجود تھے اور پچھلے حصے میں سو رہے تھے اور پھِر آپ نے طوفان کو تھما دیا تھا۔ لیکن اَب یسوع اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ کیا اُنہیں یقین تھا کہ جس نے دُور ہی سے کہہ کر بیمار کو شفا دی تھی وہ ایک فاصلہ سے بھی اُن کی زندگیوں کو محفوظ کر سکتا تھا؟

پَو پھٹنے کے قریب تک شاگرد موجوں سے لڑتے رہے مگر جھیل کو پار نہ کر سکے۔ یسوع کو تنہائی میں دُعا کرنے والی جگہ پر ہی اُن کی مشکل کا علم تھا۔ آپ کو شاگردوں سے محبت تھی اور نہیں چاہتے تھے کہ جتنا اُن کے مفاد کےلئے ضروری تھا اُس سے زیادہ تکلیف برداشت کریں۔ جب آپ نے اُن کی ابتر حالت اور اُس خطرے کو دیکھا جو اُن کے سامنے تھا تو آپ پہاڑ سے نیچے اُترے اور مضطرب موجوں پر یوں چلنا شروع کر دیا کہ جیسے وہ لہریں پختہ زمین ہوں۔ آپ نے شاگردوں کو مشکل بھرے حالات سے بچانے میں جلدی کی۔

آپ "کلام" ہیں جس کی بابت آپ کے عزیز شاگرد یوحنا نے لکھا کہ "کلام" وہ ہے جس کے وسیلہ سے سب چیزیں پیدا ہوئیں (انجیل بمطابق یوحنا 1: 3)۔ ایُّوب نبی نے آپ کی بابت فرمایا "وہ آسمانوں کو اکیلا تان دیتا ہے اور سمندر کی لہروں پر چلتا ہے" (ایُّوب 8: 9)۔ یسوع براہ راست سیدھے کشتی کی طرف نہ گئے، تا نہ ہو کہ شاگرد خوفزدہ ہو جائیں۔ بلکہ آپ اُن کے نزدیک پانی پر یوں چل رہے تھے کہ گویا اُن سے آگے نکل جائیں گے۔ اِس میں شک نہیں کہ شاگرد اپنے زمانے کے توہم پرستانہ قصوں سے واقف تھے جن میں بھوت پریت کے ظاہر ہونے کے تصورات پائے جاتے تھے۔ اُنہوں نے سمجھا کہ اَب وہ پہلی بار اپنی زندگی میں ایسی کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ خوفزدہ ہو کر چِلّا اُٹھے۔ ممکن ہے اُنہوں نے سوچا ہو کہ ایسا کرنے سے وہ بھوت اُن سے دُور چلا جائے گا۔ لیکن جسے اُنہوں نے بھوت سمجھا، اُس نے جانی پہچانی آواز میں محبت اور تسکین بھرے الفاظ میں جواب دیا "خاطر جمع رکھو۔ میں ہوں۔ ڈرو مت۔" یہی شیریں اور حوصلہ بخشنے والی آواز آج بھی اُس وقت سُنائی دیتی ہے جب پس و پیش میں مبتلا کوئی ایماندار اپنی زندگی کے مسائل اور خوف میں پھنسا ہوتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب اُس کی مشکلات اُس کے گناہوں کا نتیجہ ہوں اور اُسے خدا سے ابدی جدائی کا خوف طاری ہو۔

جب وہ بولنے والا، جسے شاگرد پہچان گئے تھے نزدیک آیا تو جرأت مند پطرس نے اُمید ظاہر کی کہ وہ بھی اپنے آقا کی مانند پانی پر چل سکتا تھا۔ لہٰذا وہ پکار اُٹھا "اے خداوند اگر تُو ہے تو مجھے حکم دے کہ پانی پر چل کر تیرے پاس آﺅں۔" کیا اُس کے کہنے کے باوجود کہ "اگر تُو ہے" یسوع نے اُس کی درخواست قبول کرنی تھی؟ یسوع نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ "میں ہوں" لیکن کیا پطرس کی پکار کے جواب میں آپ نے اُسے پانی پر چلنے کی اجازت دے دینی تھی؟ "ہاں" اگر شاگردوں کو آگاہ کرنا تھا کہ خدا کےلئے ہر کام ممکن ہے اور جو کچھ وہ چاہے لوگوں کو مہیا کر سکتا ہے تو یسوع نے ایسا ہی کرنا تھا۔

جب پطرس کشتی پر سے اُترا تو پہلے پہل یسوع کی طرف جاتے ہوئے پانی پر چلنے میں کامیاب رہا۔ جب تک اُس کی نگاہ یسوع پر ٹکی رہی اُسے کچھ خوف نہ تھا، وہ اُس ناممکن کام کو کر سکتا تھا۔ لیکن جب اُس نے اپنی بابت سوچنا شروع کیا اور جو کام کسی نے نہیں کیا تھا اُسے کرنے کا غرور دِل میں سمایا تو اُس کی کامیابی ناکامی میں بدل گئی۔ اُس نے اپنے ذہن اور آنکھوں کو یسوع کی جانب سے ہٹا کر اپنے اُوپر لگا لیا۔ اور تب غضبناک لہروں نے اُسے خوفزدہ کرنا شروع کر دیا اور وہ ڈوبنے لگا۔ حالانکہ وہ تیرنا جانتا تھا لیکن اِس سے بھی اُسے کچھ فائدہ نہ ہُوا۔ وہ اِس حقیقت کے باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں ہونا چاہتا تھا کہ شاید پانی پر چلنے کے سبب سے اُنہوں نے اُس سے حسد کیا ہو۔ پانی پر چلنے کے باعث اپنے ساتھیوں کی طرف سے ممکنہ حسد کے باوجود وہ اُن کے ساتھ کشتی میں ہونا چاہتا تھا۔ اُس نے چِلّا کر کہا "اے خداوند مجھے بچا لے۔" فوراً یسوع نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیا اور باہر نکالا۔ تب آپ نے پطرس کو یہ کہتے ہوئے تنبیہ کی کہ "اے کم اعتقاد تُو نے شک کیوں کیا؟" اُس وقت داﺅد نبی کا کلام پورا ہُوا کہ "اُس نے اُوپر سے ہاتھ بڑھا کر مجھے تھام لیا اور مجھے بہت پانی میں سے کھینچ کر باہر نکالا" (زبور 18: 16)۔

پطرس ڈوبنے سے اِس لئے نہیں بچا کہ اُس نے یسوع کو پکڑا تھا بلکہ وہ اِس لئے بچا کہ یسوع نے اُسے پکڑا تھا۔ اِسی طرح ایک گنہگار اُس وقت بچایا جاتا ہے جب اُس کے ہاتھ تھک جاتے ہیں، آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور نجات دہندہ پر اُس کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور اُسے اپنے سامنے موت کے سوا کچھ اَور نظر نہیں آتا۔ لیکن جب وہ اِس بات کا احساس کرتا ہے کہ قادر نجات دہندہ جو سوتا نہیں اُس کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے تو نااُمیدی کی جگہ اُمید کی کرن روشن ہو جاتی ہے۔

جب کشتی میں شاگردوں نے سوچا کہ وہ کسی بھوت کو دیکھ رہے ہیں تو اُسے دُور رکھنے کےلئے وہ چِلّا اُٹھے۔ لیکن جب اُنہیں علم ہوا کہ وہ یسوع ہیں تو آپ کا کشتی میں استقبال کیا اور آپ کشتی میں سوار ہوئے۔ جیسے ہی آپ کشتی پر سوار ہوئے تو طوفان تھم گیا اور کشتی منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ بائبل مُقدّس میں لکھا ہے کہ وہ روٹیوں کے معجزے کے بارے میں نہ سمجھے تھے بلکہ اُن کے دِل سخت ہو گئے تھے (انجیل بمطابق مرقس 6: 52)۔ جب ایک ہی دِن اُنہوں نے یہ دوسرا معجزہ دیکھا تو وہ حیرت زدہ ہو گئے، حالانکہ چند ماہ پیشتر اِسی جھیل میں یسوع نے اُن کےلئے طوفان کو ساکن کیا تھا۔ جیسے ہی کشتی کنارے پر پہنچی تو شاگردوں نے پہلی مرتبہ اکھٹے یسوع کو سجدہ کیا اور کہا "یقیناً تُو خدا کا بیٹا ہے۔"

ب- یسوع زندگی کی روٹی

"دوسرے دِن اُس بھِیڑ نے جو جھیل کے پار کھڑی تھی یہ دیکھا کہ یہاں ایک کے سِوا اَور کوئی چھوٹی کشتی نہ تھی اور یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ کشتی پر سوار نہ ہُوا تھا بلکہ صرف اُس کے شاگرد چلے گئے تھے۔ لیکن بعض چھوٹی کشتیاں تِبریاس سے اُس جگہ کے نزدیک آئیں جہاں اُنہوں نے خداوند کے شکر کرنے کے بعد روٹی کھائی تھی۔ پس جب بھِیڑ نے دیکھا کہ یہاں نہ تو یسوع ہے نہ اُس کے شاگرد تو وہ خود چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر یسوع کی تلاش کو کفرنحوم کو آئے۔ اور جھیل کے پار اُس سے مل کر کہا اے ربّی! تُو یہاں کب آیا؟ یسوع نے اُن کے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے۔ فانی خوراک کےلئے محنت نہ کرو بلکہ اُس خوراک کےلئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابنِ آدم تمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خدا نے اُسی پر مہر کی ہے۔ پس اُنہوں نے اُس سے کہا کہ ہم کیا کریں تا کہ خدا کے کام انجام دیں؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا خدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر ایمان لاﺅ۔ پس اُنہوں نے اُس سے کہا پھِر تُو کون سا نشان دِکھاتا ہے تا کہ ہم دیکھ کر تیرا یقین کریں؟ تُو کون سا کام کرتا ہے؟ ہمارے باپ دادا نے بیابان میں منّ کھایا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اُس نے اُنہیں کھانے کےلئے آسمان سے روٹی دی۔" (انجیل بمطابق یوحنا 6: 22-31)

دوسرے دِن صبح سویرے وہ سب جو جھیل کے دوسرے کنارے پر مسیح کا انتظار کر رہے تھے آپ کو تلاش کرنے لگے۔ اُنہیں یہ علم تھا کہ مسیح اپنے شاگردوں کے ہمراہ کشتی میں سوار نہیں ہوئے تھے بلکہ اکیلے پہاڑ پر چلے گئے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہاں کوئی دوسری کشتی بھی نہ تھی جو مسیح کو دوسرے کنارے پر لے جاتی۔ اُس بھِیڑ نے وہ رات ویران جگہ ہی میں گزاری تھی تا کہ جب مسیح صبح کے وقت پہاڑ سے واپس آئیں تو اُن کی راہنمائی میں ایک جلوس کی شکل میں اپنے گھروں کو واپس جائیں۔

جب اُنہیں معلوم ہوا کہ مسیح اُن سے پہلے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے تھے تو اُنہیں تعجب ہُوا۔ لیکن یسوع نے جو تمام ذاتی خواہشات اور آرزوﺅں سے بالاتر تھے اُن لوگوں کی تحسین و آفرین کو نظرانداز کر دیا۔ جب اُنہوں نے دریافت کیا کہ آپ وہاں کیسے پہنچے، تو مسیح نے جواب دیا "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے۔" آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ آپ کو رُوحانی تعلیم ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کی روٹی کےلئے نہیں بلکہ مادی فانی خوراک کےلئے ڈھونڈ رہے تھے۔ ابنِ آدم ہونے کی وجہ سے آپ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہنے والی خوراک دینے کے قابل بھی تھے اور اِس پر رضامند بھی تھے۔ یہ کام انجام دینے کےلئے آپ پر خدا باپ کی مُہر تھی۔ غرض اُن لوگوں کی وجہ سے آپ کو زندگی کی روٹی سے متعلق وعظ و نصیحت کرنے کا موقع ملا۔

قاری ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے اِس درس میں سب باتوں سے اہم مسیح کی شخصیت سے متعلق سچائی کا انکشاف ہے۔ اِس میں مسیح نے اپنے بدن کو کھانے اور اپنے خون کو پینے کی اہمیت و ضرورت کا چھ بار ذِکر کیا ہے۔ آپ نے تیرہ مرتبہ اِس حقیقت کو دُہرایا کہ آپ آسمان سے آئے، اور بارہ مرتبہ اعلان کیا کہ آپ اُن سب کو ہمیشہ کی زندگی عنایت کرتے ہیں جو آپ پر ایمان لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، آپ نے اپنے سامعین کو چھ بار یہ یقین دِلایا کہ صرف وہی لوگ نجات پا سکتے ہیں جو آپ پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ آپ اپنے لوگوں کو نجات دینے کےلئے خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ آپ نے چار مرتبہ ذِکر فرمایا کہ آپ روزِ آخر ایمان لانے والوں کو زندہ کریں گے۔ آپ نے خدا کو اپنا "باپ" کہہ کر خود کو بقیہ بنی نوع انسان سے علیحدہ قرار دیا۔ آپ نے خدا کو دیکھنے کا بھی دعویٰ کیا۔ فقط کوئی انسان ایسی باتیں کیسے کہہ سکتا تھا؟ یا فقط نبی ہوتے ہوئے کسی کے مُنہ سے ایسے الفاظ کا پیش کیا جانا نہایت غیرواجب اور ناجائز ہوتا۔ یہ حقیقت نمایاں ہے کہ یسوع کا مقصد اپنے سامعین کو یہ سمجھانا تھا کہ آپ ذات انسانی سے بالاتر ہیں۔

مسیح کے یہودی سامعین کےلئے گوشت کھانے اور خون پینے سے متعلق آپ کے الفاظ کو قبول کرنا ازحد مشکل تھا۔ اِس سبب سے اُن میں جھگڑا پیدا ہو گیا کیونکہ خون ملا گوشت کھانا اُن کےلئے ممنوع تھا۔ مسیح کا گوشت کھانے کی نسبت خون پینے کی بابت بیان اُنہیں زیادہ قابل نفرت نظر آیا۔ جو لوگ مسیح کے آسمانی نژاد ہونے کو پہچان نہیں پائے تھے اُن کے مسیح کے الفاظ پر شکایت کرنے کی سمجھ آتی ہے کیونکہ وہ آپ کو صرف انسان ہی تصور کرتے تھے اور آپ کے خاندان سے واقف تھے۔ اُنہوں نے ضرور حیرت سے سوچا ہو گا کہ "آپ کو ایسی بات کہنے کا کیاحق ہے؟"

یسوع کو روٹی سے مشابہ ٹھہرانا کئی وجوہات کی بنا پر درست ہے۔ اولاً، جیسے زندہ رہنے کےلئے روٹی ضروری ہے، اِسی طرح بغیر مسیح کے کوئی زندگی نہیں ہے اور وہ زندگی آپ کے مار کھانے اور کُچلے جانے کے وسیلہ سے ہے۔ ثانیاً، لازم ہے کہ روٹی کو کھایا جائے، اور ایمان کی زندگی صرف اُن کےلئے ہے جن کی روحیں ایمان کی بدولت مسیح کےلئے مخصوص ہیں جسے آپ نے کھانے سے مشابہ قرار دیا۔ افسوس ہے کہ لوگوں کی اُس گروہ نے مسیح کے بیان کو لفظی معنٰی میں لیا اور اُس سے ٹھوکر کھائی۔ یہ بات نہ صرف یہودیوں کےلئے بلکہ آپ کے بعض شاگردوں کےلئے بھی سنگ ِراہ بنی۔ یسوع نے اُنہیں اپنے اِن الفاظ کو لفظی طور پر سمجھنے کے بارے میں کہا "زندہ کرنے والی تو رُوح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں میں نے تم سے کہیں ہیں وہ رُوح ہیں اور زندگی بھی ہیں" (انجیل بمطابق یوحنا 6: 63)۔ یسوع کے زمانے کے یہودیوں کی مانند آج بھی بہت سے ضابطہ پرست لوگ ہیں جو صرف لفظی معنٰی ہی کی پابندی کرتے ہیں۔

مسیح نے اپنے الفاظ کی تائید میں مستقبل میں ہونے والے ایک واقعہ کا ذِکر کیا جو حیرت انگیز ہونا تھا۔ آپ نے پہلی مرتبہ اپنے جی اُٹھنے اور آسمان پر صعود کی بابت پیشینگوئی کی، اور آپ پر ایمان رکھنے والے کئی شاگرد اِس واقعہ کے گواہ ہونے تھے۔ آپ کی اِس نبوت کی تکمیل اُن کےلئے اِس بات کا بہترین ثبوت ہونا تھا کہ آپ آسمان سے اُترے تھے۔

یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ آپ اُن کے دِل کی تمام باتوں سے واقف ہیں۔ آپ سچے ایمانداروں اور بناوٹی لوگوں کے درمیان امتیاز کر سکتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کے چند شاگردوں کا ایمان سطحی تھا اور اُن میں سے ایک آپ کو دھوکے سے پکڑوائے گا جس سے آپ شروع ہی سے واقف تھے۔ آپ نے یہ کہہ کر گنہگاروں کےلئے اپنی عوضی موت کی طرف اشارہ کیا کہ آپ دُنیا کےلئے اپنی جان دے دیں گے۔ مسیح کی اِس تمام گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ گلیلی جو کل تک آپ کی تعریف کر رہے تھے آج آپ کے دشمن بن گئے اور یہ دشمنی بڑھتی گئی جو صلیب پر آپ کی جان دیتے وقت بھی نظر آتی ہے جب آپ کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا۔ اِس موقع پر جب مسیح نے اپنی گفتگو مکمل کی تو آپ کے بہت سے شاگرد اُلٹے پھِر گئے اور اِس کے بعد آپ کے ساتھ نہ رہے۔ ممکن ہے بعض کے اُلٹے پھِر جانے سے بارہ شاگردوں کا ایمان بھی متزلزل ہُوا ہو۔ اِس موقع پر یسوع نے اُن کے سامنے چناﺅ کا دروازہ کھول دیا کہ چاہیں تو وہ آپ کا انکار کر دیں یا پھِر مسیح کے ساتھ اپنی وابستگی کی تجدید کریں۔ تب بارہ شاگردوں کی نمائندگی کرتے ہوئے پطرس بولا "اے خداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔ اور ہم ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خدا کا قُدُّوس تُو ہی ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 6: 68-69)۔ اگرچہ یسوع کو پطرس کے جواب سے خوشی ہوئی لیکن اپنے پکڑوانے والے یہوداہ اِسکریوتی کےلئے آپ کو دُکھ ہُوا۔ اِس سلسلے میں آپ نے فرمایا "کیا میں نے تم بارہ کو نہیں چُن لیا؟ اور تم میں سے ایک شخص شیطان ہے" (یوحنا 6: 70)۔

11- مذہبی رسوم اور دِل کی پاکیزگی

"اُس وقت فریسیوں اور فقیہوں نے یروشلیم سے یسوع کے پاس آ کر کہا کہ تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے؟ اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ تم اپنی روایت سے خدا کا حکم کیوں ٹال دیتے ہو؟ کیونکہ خدا نے فرمایا ہے تُو اپنے باپ کی اور اپنی ماں کی عزت کرنا اور جو باپ یا ماں کو بُرا کہے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو کوئی باپ یا ماں سے کہے کہ جس چیز کا تجھے مجھ سے فائدہ پہنچ سکتا تھا وہ خدا کی نذر ہو چکی تو وہ اپنے باپ کی عزت نہ کرے۔ پس تم نے اپنی روایت سے خدا کا کلام باطل کر دیا۔ اے ریاکارو یسعیاہ نے تمہارے حق میں کیا خوب نبوت کی کہ یہ اُمّت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر اِن کا دِل مجھ سے دُور ہے۔ اور یہ بےفائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔ پھِر اُس نے لوگوں کو پاس بُلا کر اُن سے کہا کہ سُنو اور سمجھو۔ جو چیز مُنہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی مگر جو مُنہ سے نکلتی ہے وُہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔ اِس پر شاگردوں نے اُس کے پاس آ کر کہا کیا تُو جانتا ہے کہ فریسیوں نے یہ بات سُن کر ٹھوکر کھائی؟ اُس نے جواب میں کہا جو پودا میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا جڑ سے اُکھاڑا جائے گا۔ اُنہیں چھوڑ دو۔ وہ اندھے راہ بتانے والے ہیں اور اگر اندھے کو اندھا راہ بتائے گا تو دونوں گڑھے میں گریں گے۔ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا یہ تمثیل ہمیں سمجھا دے۔ اُس نے کہا کیا تم بھی اَب تک بےسمجھ ہو؟ کیا نہیں سمجھتے کہ جو کچھ مُنہ میں جاتا ہے وہ پیٹ میں پڑتا ہے اور مزبلہ میں پھینکا جاتا ہے۔ مگر جو باتیں مُنہ سے نکلتی ہیں وہ دِل سے نکلتی ہیں اور وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ بُرے خیال، خونریزیاں، زِناکاریاں، حرامکاریاں، چوریاں، جھوٹی گواہیاں، بدگوئیاں دِل سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔" (انجیل بمطابق متی 15: 1-20)

یوں لگتا ہے کہ مسیح کی زندگی کے آخری واقعات سے یروشلیم میں موجود یہودی سرداروں کے دِلوں میں آپ کو دیکھنے کا اشتیاق بڑھ گیا۔ اُنہیں توقع تھی کہ آپ عیدِ فسح کے موقع پر ضرور آئیں گے، اور اُنہیں اُمید تھی کہ وہ آپ میں کوئی عیب ڈھونڈ کر ایذا پہنچا سکیں گے اور قتل کر دیں گے۔ لیکن اِس دوران جب یسوع وہاں نہیں گئے تو وہ لوگ نہایت مایوس ہوئے اور مسیح کی تلاش کےلئے اپنے آدمیوں کو بھیجا، اور اُنہیں اُمید تھی کہ یہ لوگ کم از کم عوام کو مسیح، اُس کے الفاظ اور کاموں کے خلاف بھڑکا سکیں گے۔

لیکن یسوع پر خدا کی شریعت کی معمولی سی بھی خلاف ورزی کرنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ تاہم اُن کے پاس اپنے مقصد میں کامیابی کےلئے اُن زائد قوانین کے علاوہ کوئی اَور راستہ نہ تھا جنہیں شرع کے معلموں نے گھڑ لیا تھا۔ اور اُن قوانین کو وہ "بزرگوں کی روایات" کہتے تھے۔

موسیٰ کی شریعت دِل کی باطنی پاکیزگی کی اہمیت ظاہر کرنے کےلئے کھانے، اخلاق اور رُوحانی پاکیزگی پر سختی سے کاربند ہونے پر زور دیتی تھی۔ لوگوں کو یہ سکھانے کی غرض سے کہ وہ اپنی رُوح کو گناہ آلودہ نہ کریں، موسوی شریعت نے تعلیم دی کہ بیرونی پاکیزگی میں لاپروائی کا انجام باطنی نجاست ہو گا۔ اِسی سبب سے خدا کی خاص اُمت یہودی قوم نے اپنے آپ کو اِردگرد بسنے والی غیرقوموں سے علیحدہ کیا۔ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہ لوگ بت پرستوں کے طرزِ زندگی اور باطل ایمان میں شرکت سے باز رہیں۔

یہودی بزرگ شریعت کے اصل مفہوم کے بجائے اُسے لفظی طور پر پورا کرنے پر زور دیتے تھے، جس کے سبب صفائی رکھنے کے قوانین بھاری بوجھ بن گئے تھے۔ اُنہوں نے بہت سے چھوٹے چھوٹے قوانین بھی موسیٰ کی شریعت میں شامل کردیئے۔ ایک مشہور ربّی جوسے (Jose) نے کہا کہ بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا زناکاری کے برابر گناہ تھا۔ یہودی بزرگوں نے بھی یہ تعلیم دی کہ جو کوئی اِس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ رات میں سوتے وقت ایک بدرُوح "شیطا" کے زیر سحر ہو گا۔ ایک روایت کے مطابق جب مشہور ربّی عقیبہ قید خانہ میں تھا تو اُسے صرف اتنا ہی پانی میسر ہوتا تھا جو اُس کے پینے اور طہارت کےلئے کافی ہوتا تھا۔ ایک دِن جیلر ضرورت کے مطابق پانی نہیں لایا تو عقیبہ سخت غصہ ہُوا، اور اُس نے پانی پینا چھوڑ کر رسمی طہارت کو سرانجام دینے کا فیصلہ کیا اور کہا "میں اپنے بزرگوں کی روایات کو توڑنے کے بجائے مر جانے کو ترجیح دوں گا۔" یہودی بزرگوں نے تاکید دے کر کہا تھا کہ خواہ پانی لانے میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگ جائے لیکن رسمی صفائی وقت پر ہونی چاہئے۔

ایک مصلح اور اُستاد کی حیثیت سے یسوع کا ایسی نامعقولیت کے ساتھ ہم خیال ہونا ناممکن تھا۔ آپ کی حساس طبیعت کبھی بھی یہودیوں کی طرف سے مجوزہ رسمی طہارت کے دستور کو نظرانداز کرنے پر خطاکار ہونے کے زبردست بوجھ کو عائد کرنا گوارا نہیں کر سکتی تھی۔ جب یسوع نے اِن انسانی احکام کو ماننے سے انکار کیا تو آپ کے شاگردوں نے بھی ویسا ہی کیا۔ مسیح پر نظر رکھنے کےلئے یروشلیم سے آئے لوگوں نے اِس خلاف ورزی کو دیکھا اور اِس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ کو سب کے سامنے لعنت ملامت کرنا چاہی۔ آپ پر نکتہ چینی کے واحد مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اُنہوں نے آپ سے سوال کیا کہ کیوں آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کی پابندی نہیں کرتے۔ یسوع نے اُن کے کینہ پرور اِرادوں کو بھانپتے ہوئے اُنہیں ریاکار کہہ کر مخاطب کیا۔

یسوع نے ریاکاری کے گناہ کی ازحد مذمت کی ہے، اور ریاکاروں کو آپ نے خاص طور پر سرزنش کی۔ جیسے مسیح نے اِس نفرت انگیز گناہ کے خلاف جنگ کی ویسے ہی آج دُنیا کے اِصلاح کاروں کو آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح ایسے سنجیدہ مزاج لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو اِس برائی کو مذہبی حلقوں سے بھی ختم کریں تا کہ ایمانداروں کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ یوں مذہب ایک نئی صورت میں نمایاں ہو گا اور خدا جس کا نام "حق" ہے ہماری زندگیوں سے جلال پائے گا۔

مسیح کے کلام میں طنز شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ تاہم، اِس موقع سے متعلق مرقس کی معرفت لکھی گئی انجیل میں جو تحریر یہودی سرداروں کی بابت پائی جاتی ہے وہ کافی طنز آمیز ہے کہ "تم اپنی روایت کو ماننے کےلئے خدا کے حکم کو بالکل ردّ کر دیتے ہو" (انجیل بمطابق مرقس 7: 9)۔ آپ نے اُنہیں یاد دہانی کرائی کہ وہ اہم باتوں کو چھوڑ کر غیر اہم باتوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ انجیل بمطابق متی 23: 23، 24 کے مطابق آپ نے فرمایا "اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ ... اے اندھے راہ بتانے والو جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔" یہودی بزرگ شاگردوں کی آنکھ میں سے تنکا نکالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اُنہیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آ رہا تھا (دیکھئے انجیل بمطابق متی 7: 3، 4)۔

اگرچہ شاگردوں نے اِن عائد کئے گئے رسمی طہارت کے دستوروں کو نظرانداز کرنے کے مسیح کے نقش قدم کی پیروی کی، لیکن وہ اِس میں مضمر بھید کو نہ سمجھ سکے۔ اُنہوں نے مسیح سے دریافت کیا کہ آیا وہ اِس بات سے واقف تھے کہ آپ کی سرزنش کے سبب فریسیوں نے ٹھوکر کھائی ہے۔ جب وہ بھِیڑ کو چھوڑ کر گھرمیں آئے تو شاگردوں نے مسیح سے اِن تمام باتوں کے سمجھانے کےلئے درخواست کی۔ آپ نے جواب دیا "کیا تم بھی اَب تک بےسمجھ ہو؟ کیا نہیں سمجھتے کہ جو کچھ مُنہ میں جاتا ہے وہ پیٹ میں پڑتا اور مزبلہ میں پھینکا جاتا ہے۔ مگر جو باتیں مُنہ سے نکلتی ہیں وہ دِل سے نکلتی ہیں اور وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ بُرے خیال، خونریزیاں، زِناکاریاں، حرامکاریاں، چوریاں، جھوٹی گواہیاں، بدگوئیاں دِل سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔"

12- یسوع کا غیرقوموں کو خوشخبری سُنانا

یسوع تمام دُنیا کو نجات دینے کےلئے تشریف لائے۔ جیسے آپ نے یہودیوں کے درمیان خدمت سرانجام دی ویسے ہی آپ نے غیرقوموں کے بیچ بھی خدمت کی۔ آپ کئی مقاصد کے ساتھ فینیکے کے علاقہ میں پہنچے۔ غیرقوموں کے علاقہ میں پہنچ کر خود یسوع کو اور آپ کے شاگردوں کو جسمانی اور دماغی آرام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں آپ کے گرد لوگوں کا مجمع نہیں تھا کیونکہ آپ اِس علاقہ کے لوگوں کےلئے کسی حد تک اجنبی تھے۔ یہاں آپ کو شاگردوں سے جُدائی کے وقت کی تیاری کےلئے اُن کی تربیت کرنے کا کافی وقت میسر ہُوا۔ نئے علاقے دیکھنے سے شاگردوں کے ذہن اور سوچ کا احاطہ وسیع ہو گیا اور وہ فریضۂ اعظم کےلئے تیار ہونا شروع ہو گئے کہ "تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناﺅ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو" (انجیل بمطابق متی 28: 19)۔ اِس سفر کے دوران مسیح کے شاگرد آپ کے اُن الفاظ کی صداقت کی نئی گواہی سے روشناس ہوئے ہوں گے جب آپ نے کہا تھا کہ "بُہتیرے پُورب اور پچھم سے آ کر ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے" (انجیل بمطابق متی 8: 11)۔ آپ اُنہیں سکھانا چاہتے تھے کہ نجات کسی کو میراث میں نہیں ملتی بلکہ آپ پر شخصی ایمان لانے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ اِسی لئے آپ اُن کے ساتھ فینیکے کے بہترین اور نہایت مشہور شہروں صور اور صیدا میں تشریف لے گئے۔

وہاں یسوع ایک گھر میں داخل ہوئے۔ حالانکہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اِس بات کو جانے لیکن اِسے پوشیدہ رکھنا آپ کےلئے ممکن نہ رہا۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ آپ کی ذات کی خوشبو کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہے؟ آپ کی محبت و قدرت کے بارے میں خبر اِن علاقوں میں پہلے ہی پہنچ چکی تھی کیونکہ فینیکے کے کچھ لوگ کفرنحوم میں آپ سے مل چکے تھے۔

یہ ناممکن تھا کہ مسیح جیسا مسافر اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک قصبہ میں داخل ہو، اور پھِر نظروں میں نہ آئے۔ وہاں ایک مصیبت زدہ خاتون نے مسیح کی بابت سُنا۔ اُس کی ایک بیٹی تھی جس میں بدرُوح تھی۔

الف- فینیکے کی ایک عورت کا ایمان

"پھِر یسوع وہاں سے نکل کر صُور اور صیدا کے علاقہ کو روانہ ہُوا۔ اور دیکھو ایک کنعانی عورت اُن سرحدّوں سے نکلی اور پُکار کر کہنے لگی اے خداوند ابنِ داﺅد مجھ پر رحم کر۔ ایک بدرُوح میری بیٹی کو بہت ستاتی ہے۔ مگر اُس نے اُسے کچھ جواب نہ دیا اور اُس کے شاگردوں نے پاس آ کر اُس سے یہ عرض کی کہ اُسے رُخصت کر دے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چِلّاتی ہے۔ اُس نے جواب میں کہا کہ میں اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سِوا اَور کِسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ مگر اُس نے آ کر اُسے سِجدہ کیا اور کہا اے خداوند میری مدد کر۔ اُس نے جواب میں کہا لڑکوں کی روٹی لے کر کُتّوں کو ڈال دینا اچھا نہیں۔ اُس نے کہا ہاں خداوند کیونکہ کُتّے بھی اُن ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو اُن کے مالکوں کی میز سے گِرتے ہیں۔ اِس پر یسوع نے جواب میں اُس سے کہا اے عورت تیرا ایمان بُہت بڑا ہے۔ جیسا تُو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو، اور اُس کی بیٹی نے اُسی گھڑی شفا پائی۔" (انجیل بمطابق متی 15: 21-28)۔

اگرچہ کنعانی خاتون اور اُس کی قوم کے لوگ یہودیوں سے نفرت کرتے تھے، مگر اِس خاتون نے نہایت تعظیم کے ساتھ یسوع کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھ گئی ہو کہ یسوع اسرائیل کے نہایت معزز ترین خاندان کی نسل سے ہیں۔ اور شائد وہ اِس بات سے بھی واقف ہو کہ یہودیوں کا نجات دہندہ "ابنِ داﺅد" کہلائے گا۔ اُس نے سوچا کہ اِس لقب سے پکارنے کے ذریعے وہ آپ کو جلال و خوشی دے رہی تھی۔ لیکن اگر مسیح کے محض ابنِ داﺅد ہونے کا یہودی نظریہ درست تھا تو اِس سے اِس عورت کو کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ یسوع صرف اُن لوگوں کے دُنیوی اور سیاسی نجات دہندہ تھے جو اِس عورت اور اِس کے ہم وطنوں کو مردود اور کُتے تصور کرتے تھے۔ یہ اچھا تھا کہ وہ کنعانی عورت اِن سب باتوں سے ناواقف تھی۔ اُس نے یسوع سے رحم کی درخواست کی۔ اُس نے اپنی بیٹی پر نہیں بلکہ خود پر رحم کرنے کی درخواست کی۔ اُس نے کہا "مجھ پر رحم کر" کیونکہ وہ بہت پریشان تھی۔

اِس کنعانی عورت نے یسوع کی تعظیم کی اور آپ کو سجدہ کیا۔ اُس نے تڑپتے دِل کے ساتھ مدد کی التجا کی، مگر یسوع نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن اُس نے اپنی درخواست مسلسل یسوع کے آگے رکھی۔ وہ اَب بھی مایوس نہ ہوئی تھی کیونکہ اُس نے مسیح کی رحمدلی اور دردمندی کے بارے میں سُن رکھا تھا۔ اُس نے سوچا کہ اپنی التجا پر بضد رہنے سے آپ اُسے اپنے فیض سے نوازیں گے۔ ممکن ہے مسیح کی خاموشی کا سبب زیادہ اہم ترین کام میں مصروفیت ہو۔ شاگرد اِس عورت کی متواتر پکار سے تنگ آ کر یسوع سے کہنے لگے کہ اِس عورت کی درخواست کو قبول کریں۔ لیکن یسوع نے کہا "میں اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سِوا اَور کِسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔"

مگر دُنیا کا نجات دہندہ ہوتے ہوئے آپ صرف اسرائیل کی بھیڑوں تک ہی کیسے محدود رہ سکتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ یسوع نے خوشخبری سُنانے سے اپنی خدمت کا آغاز یہودیوں میں کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اُن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وعدے منسلک تھے۔ اگر یسوع نے پہلے غیراقوام میں بشارت کا کام شروع کیا ہوتا تو یہودی آپ کی بات سُننے سے انکار کر دیتے۔ یسوع یہودیوں اور غیراقوام میں ایک ہی وقت میں خدمت نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ ایسا کرنے کےلئے آپ کے پاس وقت نہیں تھا۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو سب لوگوں میں چاہے وہ یہودی ہوں یا غیرقوم کے، انجیل کی منادی کا فریضہ سونپا۔

یہ کہاوت بالکل درست ہے کہ جو ہوا ایک موم بتی کو بُجھا سکتی ہے وہی ہوا ایک بڑی آگ کو بھڑکا بھی سکتی ہے۔ ایمان کے بارے میں بھی یہ بات درست ہے۔ وہ مشکلات جو کمزور ایمان کو نقصان پہنچاتی ہیں، وہی مضبوط ایمان کو اَور زیادہ تقویت دیتی ہیں۔ ہم اِس عورت کو مسیح کی جانب بڑھتے اور بار بار درخواست کرتے دیکھتے ہیں، اور اُس کی درخواست پر بےتوجہی کے باوجود اُس کا ایمان مزید قوی ہوتا جا رہا تھا۔ وہ پھِر مسیح کے قدموں میں جُھک گئی اور پکارنے لگی "میری مدد کر۔" شکستہ دِلی کے ساتھ مُنہ سے نکلے اِن سادہ سے الفاظ کا اثر اُس وقت عظیم ہیکل میں ادا کی گئی مؤثر اور پُرزور مناجات سے زیادہ پُرتاثیر اور زورآور تھا۔ اُس نے سوچا کہ "کیا اَب بھی مسیح اُس کی مدد نہیں کرے گا؟" کیا یہ کافی نہیں تھا کہ وہ دِلی پکار سے مسیح کے حضور آئی تھی؟ مگر شفقت و رحمت سے بھرا ہُوا خداوند اُس کے ایمان کو مزید خالص بنانے کےلئے ایک نیا امتحان لینا چاہتا تھا جو پہلے امتحان سے مزید سخت تھا۔ مسیح نے اُسے بتایا کہ آپ پہلے بچوں کو کھانا کھلانے آئے ہیں، اِس لئے لڑکوں کی روٹی لے کر کُتّوں کو ڈال دینا اچھا نہیں۔ اِن الفاظ کو سطحی طور پر پڑھنے والا فرد گمان کر سکتا ہے کہ کسی مخالفِ مسیح نے یہ بات جعلسازی سے گھڑی ہے، کیونکہ ساری دُنیا سے محبت کرنے والے کے مُنہ سے ایسے الفاظ کا نکلنا ناممکن تھا جس نے اپنا آپ تمام ادنیٰ و اعلیٰ، غریب و امیر، اچھے برے سب بنی نوع انسان کےلئے دے دیا۔ تاہم یسوع نے یہ بات کہی کیونکہ اِن الفاظ کے ذریعہ آپ اُس رُوحانی حقیقت کی طرف اِس عورت کی آنکھیں کھولنا چاہتے تھے جس سے یہ ناواقف تھی۔ اِس عورت نے آپ پر ابنِ داﺅد اور یہودیوں کے مسیح کے طور پر نگاہ کی تھی۔ اِسی سبب سے اِس عورت کو مسیح کی محبت اور رحم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں تھا جب تک کہ وہ اِس بات سے واقف نہ ہو جاتی اور تسلیم نہ کرتی کہ آپ غیر یہودیوں کے بھی مسیحا ہیں۔ لہٰذا اِس سخت جواب سے مسیح نے اِس خاتون کےلئے فہم حاصل کرنے کا دروازہ کھولا۔

وہ عورت نہایت حلیمی و فروتنی کے ساتھ اپنی ضرورت لے کر پھِر مسیح سے درخواست کرتی ہوئی آئی۔ آپ نے اُسے کہا تھا کہ آپ پہلے لڑکوں کو روٹی دینا چاہتے ہیں اور پھِر بعد ازاں لڑکوں کے بچے ہوئے ٹکڑے کُتّوں کو دیئے جائیں گے کیونکہ میز سے بچے ہوئے ٹکڑے ہی اُن کا حصہ ہیں۔ اور وہ خاتون فروتنی کے ساتھ آ کر کُتّوں کے حصہ کے ٹکڑے لینے کی درخواست کرتی ہے۔

اپنے اِس عمل سے اِس عورت نے بڑے ایمان کی ایک مثال قائم کی۔ اگر اُس کا ایمان بہتوں کی مانند فقط دماغی ہوتا تو اپنے ساتھ یسوع کے سلوک کو دیکھ کر جو کچھ وہ یسوع سے حاصل کرنے کی توقع رکھتی تھی اُس سے نااُمید ہو کر واپس چلے جانے پر مجبور ہو جاتی۔ لیکن چونکہ اُس کے اندر دِلی ایمان تھا اِس لئے اُس نے سطحی طور پر دیکھنے کے بجائے گہری نظر کی، اور وہ پُریقین ہو گئی کہ یسوع سخت ضرورتمند کی مدد سے مُنہ نہیں موڑیں گے، گو سطحی طور پر نظر آ رہا تھا کہ آپ اُسے ٹال رہے ہیں۔ یسوع نے اُس کی التجا کو یہ کہتے ہوئے منظور کیا "جیسا تُو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو۔" یسوع نے یہودی فلسفیوں کے ساتھ بات چیت میں کبھی بھی سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ اپنے مُدلّل جوابات سے اُنہیں خاموش کر دیا اور اُن پر عیاں کر دیا کہ وہ لوگ خدا کی بادشاہی سے کتنی دور تھے۔ لیکن یہاں ہم یسوع کو بڑے صبر کے ساتھ اِس غریب ضرورتمند عورت کی طرف توجہ دیتے ہوئے دیکھتے ہیں جب آپ نے اُس پر عیاں کیا کہ وہ آپ کی بادشاہی کے کتنے نزدیک تھی۔

ب- شاگردوں کےلئے ایک سبق

کنعانی عورت کو درپیش امتحان سے شاگردوں کو فائدہ حاصل ہُوا۔ اُنہوں نے اپنے سامنے اُس عظیم چرواہے کی اُن بھیڑوں کا ایک نمونہ دیکھا جو اِس بھیڑخانہ کی نہیں تھیں (انجیل بمطابق یوحنا 10: 16)۔ غیرقوم سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ جو مسیح کے گلّے میں شامل ہوئے وہ رُوحانی نعمتوں میں یہودی بھیڑوں پر سبقت لے گئے۔ شاگرد یسوع کے اصلاحی الفاظ "اے کم اعتقادو" سے مانوس ہو چکے تھے۔ جب پطرس پانی میں ڈوبنے لگا تو یسوع نے اُس سے کہا "اے کم اعتقاد تُو نے شک کیوں کیا؟" (انجیل بمطابق متی 14: 31)۔ شاگردوں کو اُس وقت کتنی شرمندگی محسوس ہوئی ہو گی جب اُنہوں نے اپنے آقا کو بڑی شادمانی کے ساتھ اِس غیرقوم خاتون کو یہ کہتے سُنا کہ "اے عورت تیرا ایمان بُہت بڑا ہے۔ جیسا تُو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو۔"

ج- دُعا کا جواب

اِس واقعہ سے ہم پر عیاں ہو جاتا ہے کہ درخواست کے جواب کا انحصار التجا کرنے والے کے مرتبہ پر نہیں جیسا بہتوں کا خیال ہے، بلکہ اِس کا انحصار اُس رویہ پر ہے جس کے ساتھ درخواست کی جاتی ہے۔ اِس کا واضح ثبوت اُس واقعہ سے ملتا ہے جب مسیح کے دو نمایاں اور قریبی شاگرد یعقوب اور یوحنا اپنی والدہ کے ساتھ مسیح کے پاس آئے۔ اُن کی والدہ ایک نیک خاتون تھی جو یسوع اور آپ کے شاگردوں کی رفاقت میں رہتی تھی اور خدمت کے کام کےلئے مالی مدد فراہم کیا کرتی تھی۔ اُس نے یسوع کے پاس آ کر اپنے دونوں بیٹوں کےلئے خصوصی مقام عطا فرمانے کی درخواست کی۔ مگر یسوع نے اُس کی درخواست کو قبول نہ کیا۔ لیکن آپ نے فینیکے کی اِس عام کنعانی عورت کی درخواست قبول فرمائی جس کا معاشرہ میں کوئی خصوصی مقام نہیں تھا۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ یسوع کے کتنے ہی شاگرد اُنہیں چھوڑ کر واپس پلٹ گئے تھے۔ لیکن اِن واپس گئے پیروکاروں کے بظاہر زیادہ نظر آنے والے نقصان کا فینیکے کی اِس خاتون کی رُوح کے بچنے کے ساتھ موازنہ نہیں ہو سکتا۔

د- دس شہروں میں خوشخبری لے کر جانا

"اور وہ پھِر صُور کی سرحدّوں سے نکل کر صَیدا کی راہ سے دِکَپُلِس کی سرحدّوں سے ہوتا ہُوا گلیل کی جھیل پر پہنچا" (انجیل بمطابق مرقس 7: 31)

یسوع، صور اور صیدا سے مشرق کی طرف گولان کی پہاڑیوں کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ شہر اپنی یونانی ثقافت اور بڑی تجارت کےلئے مشہور تھے۔ یہ ہیرودیس کے غیرمنصفانہ اقتدار اور سلطنت، اور یہودی ارباب اختیار کے نہایت خطرناک اثر سے دور واقع تھے۔ یسوع نے پہلے اِس علاقہ میں چند گھنٹے ہی قیام کیا تھا جب آپ نے بدرُوح گرفتہ شخص میں سے بدرُوحوں کو نکالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس واقعہ سے اُس سارے علاقہ کے لوگوں پر گہرا اثر پڑا تھا کیونکہ یسوع جب پہاڑ پر پہنچے تو ایک بڑی بھِیڑ لنگڑوں، اندھوں اور مفلوجوں کو لے کر وہاں پہنچی اور اُنہیں شفا کےلئے یسوع کے قدموں میں رکھ دیا۔

ہ- یسوع کا ایک بہرے ہکلے شخص کو شفا دینا

"اور لوگوں نے ایک بہرے کو جو ہکلا بھی تھا اُس کے پاس لا کر اُس کی مِنّت کی کہ اپنا ہاتھ اُس پر رکھ۔ وہ اُس کو بھِیڑ میں سے الگ لے گیا اور اپنی اُنگلیاں اُس کے کانوں میں ڈالیں اور تھوک کر اُس کی زُبان چُھوئی۔ اور آسمان کی طرف نظر کر کے ایک آہ بھری اور اُس سے کہا اِفتّح یعنی کُھل جا۔ اور اُس کے کان کُھل گئے اور اُس کی زُبان کی گِرہ کُھل گئی اور وہ صاف بولنے لگا۔ اور اُس نے اُن کو حکم دیا کہ کِسی سے نہ کہنا لیکن جتنا وہ اُن کو حکم دیتا رہا اُتنا ہی زیادہ وہ چرچا کرتے رہے۔ اور اُنہوں نے نہایت ہی حیران ہو کر کہا جو کچھ اُس نے کیا سب اچھا کیا۔ وہ بہروں کو سُننے کی اور گونگوں کو بولنے کی طاقت دیتا ہے۔" (انجیل بمطابق مرقس 7: 32-37)

فینیکے میں ہونے والے ایک اَور واقعہ کا مفصّل تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک شخص جو بہرہ اور ہکلا تھا اُسے یسوع کے پاس لایا گیا۔ اُسے کچھ لوگ وہاں لے کر آئے اور وہ اُسے یہ نہ بتا سکتے تھے کہ وہ اُس کےلئے یسوع سے کیا درخواست کر رہے ہیں۔ یا تو وہ ذہنی مریض تھا یا پھِر ذہنی طور پر نہایت ہی کمزور تھا۔ دیگر لوگوں کے برعکس اِس شخص کے پاس بہرے اور ہکلے ہونے کی وجہ سے یسوع سے خود یا دوسروں سے آپ کے بارے میں کچھ سُننے کا موقع نہیں تھا۔ مسیح کو اِس میں ایمان پیدا کرنا تھا جیسے آپ نے دوسرے لوگوں کو شفا دیتے وقت اُن کے ساتھ کیا تھا۔ یسوع نے اپنی اُنگلیاں اُس کے کانوں میں ڈالیں جیسے کہ آپ قوتِ سماعت کےلئے اُس کا راستہ کھول رہے ہوں۔ پھِر آپ نے تھوک کر اُس کی زبان کو چُھؤا تا کہ اُس میں نیا ایمان پیدا ہو۔ اُس شخص کی معذوری جاتی رہی اور اُس نے بولنا شروع کر دیا۔

لیکن اِس لاچار شخص کے خیالات کو تمام بخششوں کے منبع خدا تعالیٰ کی جانب راغب کرنا باقی تھا تا کہ وہ اِس حقیقت سے واقف ہو سکے کہ اُس کی مدد کہاں سے آئی ہے۔ لہٰذا یسوع نے آسمان کی طرف اپنی نگاہ کی اور ایک آہ بھری جو غالباً تمام دُکھی مخلوق کےلئے ایک درد تھا۔ یسوع نے جسمانی تکلیفوں میں مبتلا تمام لوگوں کےلئے رحم کی درخواست کی۔ اِس تعلق سے مسیح کے بارے میں لکھا ہے کہ "اُن کی تمام مصیبتوں میں وہ مصیبت زدہ ہُوا اور اُس کے حضور کے فرشتہ نے اُن کو بچایا۔ اُس نے اپنی اُلفت اور رحمت سے اُن کا فدیہ دیا۔ اُس نے اُن کو اُٹھایا اور قدیم سے ہمیشہ اُن کو لئے پھِرا" (یسعیاہ 63: 9)۔

پھِر آپ نے اُس بیمار شخص کو ارامی زبانی میں حکم دیتے ہوئے "اِفتّح" کہا جس کا مطلب ہے "کُھل جا۔" اُسی لمحے اُس کی زبان کی گرہ کُھل گئی اور وہ صاف صاف بولنے لگا۔ یوں یسعیاہ نبی کا کلام پورا ہُوا کہ "... بہروں کے کان کھولے جائیں گے" (یسعیاہ 35: 5)۔

معجزانہ شفا کے یہ نظارے بھِیڑ کی اکثریت کےلئے بالکل نئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یسوع اُن کی مانند غیرقوم نہیں بلکہ ایک یہودی تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُن کے دیوتا جن پر اُنہیں فخر اور بھروسا تھا ایسے معجزے نہیں کر سکتے تھے جو یسوع کر رہے تھے۔ اِسی لئے اُنہوں نے حیرت زدہ ہو کر یہ کہتے ہوئے مسیح کی تعریف و تعظیم کرنی شروع کی "جو کچھ اُس نے کیا سب اچھا کیا۔" صدیوں سے ایسے الفاظ اُن کروڑوں لوگوں نے اپنی زبان سے ادا کئے ہیں جو مسیح کے پاس آئے اور اِس بات کو سمجھتے ہوئے کہ آپ ہی وہ واحد ہستی ہیں جو ابدی نجات اور زمین پر حقیقی شادمانی عطا کرتے ہیں آپ کو اپنا ذاتی نجات دہندہ تسلیم کیا۔

و- چار ہزار کو کھانا کھلانا

"اُن دِنوں میں جب پھِر بڑی بھِیڑ جمع ہوئی اور اُن کے پاس کچھ کھانے کو نہ تھا تو اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر اُن سے کہا، مجھے اِس بھِیڑ پر ترس آتا ہے کیونکہ یہ تین دِن سے برابر میرے ساتھ رہی ہے اور اِن کے پاس کچھ کھانے کو نہیں۔ اگر میں اِن کو بھوکا گھر کو رُخصت کروں تو راہ میں تھک کر رہ جائیں گے اور بعض اِن میں سے دُور کے ہیں۔ اُس کے شاگردوں نے اُسے جواب دیا کہ اِس بیابان میں کہاں سے کوئی اِتنی روٹیاں لائے کہ اِن کو سیر کر سکے؟ اُس نے اُن سے پوچھا تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ اُنہوں نے کہا سات۔ پھِر اُس نے لوگوں کو حکم دیا کہ زمین پر بیٹھ جائیں اور اُس نے وہ سات روٹیاں لیں اور شُکر کر کے توڑیں اور اپنے شاگردوں کو دیتا گیا کہ اُن کے آگے رکھیں اور اُنہوں نے لوگوں کے آگے رکھ دیں۔ اور اُن کے پاس تھوڑی سی چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ اُس نے اُن پر برکت دے کر کہا کہ یہ بھی اُن کے آگے رکھ دو۔ پس وہ کھا کر سیر ہوئے اور بچے ہوئے ٹکڑوں کے سات ٹوکرے اُٹھائے۔ اور لوگ چار ہزار کے قریب تھے۔ پھِر اُس نے اُن کو رُخصت کیا۔" (انجیل بمطابق مرقس 8: 1-9)

یسوع نے پانچ ہزار افراد کو کھانا کھلانے کا معجزہ گلیل میں کیا تھا اور اَب آپ نے دس شہروں کے غیرقوم علاقہ میں چار ہزار افراد کو سیر کیا۔ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی بھِیڑ اُس ویران جگہ پر آپ کے گرد جمع ہو گئی۔ وہ تین دِن مسیح کے ساتھ رہے۔ اِس عرصہ میں جو کھانا تھا وہ ختم ہو گیا۔ مسیح کو بھِیڑ پر ترس آیا اور آپ نے لوگوں کو خوراک بخشنے کےلئے پھِر معجزہ کیا۔ یسوع ہر شخص کی پیدایش کے دِن سے مرنے کے دِن تک اُس کی فلاح و بہبود کےلئے فکرمند ہوتے ہیں۔ آپ نے نہایت ہی دردمندی کے احساس سے اپنے شاگردوں سے کہا "اگر میں اِن کو بھوکا گھر کو رُخصت کروں تو راہ میں تھک کر رہ جائیں گے۔" مگر کتنے تعجب کی بات ہے کہ آپ کے شاگردوں نے جو غلطی پہلے کی تھی وہی پھر دُہرائی۔ اُنہوں نے عُذر پیش کیا کہ اتنی بڑی بھِیڑ کو وہ کہاں سے کھلا سکتے ہیں۔ جب یسوع نے پانچ ہزار کی بھِیڑ کو کھانا کھلایا تو وہ موسمِ بہار تھا۔ اور اَب وہ اُسی برس کا موسمِ گرما تھا جب آپ نے یہ معجزہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد یسوع نے اپنے شاگردوں کو ڈانٹا کیونکہ وہ اِن دونوں معجزوں کو بھول گئے تھے اور اِن سے کچھ سبق نہ سیکھا تھا۔ اُس وقت شکوک کے سبب وہ اُن آسمانی رحمتوں کو بھول گئے جن کا اُنہیں ماضی میں تجربہ ہُوا تھا۔

ز- ایک اندھے شخص کو شفا دینا

"پھِر وہ بیت صیدا میں آئے اور لوگ ایک اندھے کو اُس کے پاس لائے اور اُس کی مِنّت کی کہ اُسے چھوئے۔ وہ اُس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گاﺅں سے باہر لے گیا اور اُس کی آنکھوں میں تھُوک کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھے اور اُس سے پوچھا کیا تُو کچھ دیکھتا ہے؟ اُس نے نظر اُٹھا کر کہا میں آدمیوں کو دیکھتا ہوں کیونکہ وہ مجھے چلتے ہوئے ایسے دِکھائی دیتے ہیں جیسے درخت۔ پھِر اُس نے دوبارہ اُس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور اُس نے غور سے نظر کی اور اچھا ہو گیا اور سب چیزیں صاف صاف دیکھنے لگا۔ پھِر اُس نے اُس کو اُس کے گھر کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ اِس گاﺅں کے اندر قدم بھی نہ رکھنا۔" (انجیل بمطابق مرقس 8: 22-26)

اِس معجزہ سے اُس نئے علاقہ میں یسوع کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی یہاں تک کہ بھِیڑ کی کثرت کی سبب سے آپ کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر مگدن اور دَلمنوتہ کے علاقہ میں چلے گئے جو نزدیک ہی تھا۔ جب یسوع جھیل کے مشرقی کنارے پر بیت صیدا کے علاقہ میں پہنچے جہاں آپ نے پانچ ہزار لوگوں کو کھانا کھلایا تھا، تو لوگ ایک اندھے شخص کو آپ کے پاس لائے اور یسوع کی مِنّت کرنے لگے کہ وہ اُس شخص کو چُھوئے۔ یسوع نے شفا دینے کےلئے اُن کے بتائے ہوئے طریقہ کو نہ اپنایا بلکہ اُس شخص کو اپنے طریقہ سے شفا دی۔ آپ اُس اندھے شخص کو گاﺅں سے باہر لے گئے۔ وہ شخص بےصبری سے یہ جاننے کا آرزومند تھا کہ یسوع کیا کریں گے یا کیا پوچھیں گے، کہ اِسی دوران یسوع نے اُس کی آنکھوں پر تھوکا اور اپنے ہاتھ اُس کی آنکھوں پر رکھ دِئے، اور اُس آدمی کو دکھائی دینے لگا۔ پہلے اُسے لوگ ایسے چلتے ہوئے دِکھائی دیئے جیسے درخت، یعنی اُسے اپنے ایمان کے مطابق تھوڑا تھوڑا نظر آنے لگا۔ جب تھوڑا نظر آنے پر اُس کا اعتقاد بڑھا تو یسوع نے دوبارہ اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے اور اُسے کامل بینائی عطا فرمائی۔ یہ نابینا شخص اُن لوگوں کی مثال ہے جنہیں رُوحانی بصارت بتدریج حاصل ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی تھوڑی سی بینائی کا استعمال کریں تو اِس میں اضافہ ہو جائے گا "کیونکہ جس کے پاس ہے اُسے دیا جائے گا" (انجیل بمطابق متی 13: 12)۔

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب "سیرت المسیح، حصّہ 4، مسیح کے عظیم معجزات" کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. یوحنا بپتسمہ دینے والے کے سوالات کا یسوع نے کیا جواب دیا؟

  2. یسوع نے شمعون فریسی کی دعوت کو کیوں قبول کیا؟

  3. کیوں گنہگار عورت نے یسوع سے زیادہ محبت کی؟

  4. غیردیندار لوگ خدا کےلئے مذہبی جوش و غیرت کو دیوانگی کیوں سمجھتے ہیں؟

  5. یسوع کے حقیقی بھائی اور بہن کون ہیں؟

  6. یسوع کے اِس دعوے کے متعلق کوئی ثبوت پیش کیجئے کہ آپ ابلیس کی مدد سے بدرُوحیں نہیں نکالتے تھے۔

  7. یسوع کی قوت اور ابلیس کی قوت میں کیا فرق ہے؟

  8. اِس آیت کو مکمل کیجئے "آﺅ ہم باہم حُجّت کریں ..." (یسعیاہ 1: 18)۔

  9. خدا تعالیٰ نے رُوح القدس کے خلاف کفر کرنے کے گناہ کو معاف کرنے سے کیوں انکار کیا ہے؟

  10. یُوناہ کے نشان میں مسیح کی ایک علامت موجود ہے۔ وہ کیا ہے؟

  11. بیج بونے والے کی تمثیل میں کون سی چار قسم کی زمین کا ذِکر ہے؟

  12. رائی کے بیج کی دو خوبیاں بیان کیجئے جو خدا کی بادشاہی میں پائی جاتی ہیں؟

  13. خمیر کے کام اور خدا کی بادشاہی کے کام دونوں میں کیا مطابقت ہے؟

  14. متی 13: 45، 46 میں مذکور بیش قیمت موتی کی تمثیل سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟

  15. زبور میں سے کوئی ایک آیت بتائیے جو فطرت پر مسیح کے اختیار کا ذِکر کرتی ہے۔

  16. جھیل میں مسیح کے شاگردوں کو کون سے دو قسم کے طوفانوں کا سامنا تھا؟

  17. سؤروں کے مالکوں نے مسیح کو اپنا علاقہ چھوڑنے کےلئے کیوں کہا؟

  18. وہ عورت جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا اُس نے کیوں سب کے سامنے یسوع سے شفا کےلئے التجا نہ کی؟ اُس نے یسوع کی پوشاک کا کنارہ کیوں چُھؤا؟

  19. مسیح سے برکت حاصل کرنے کی کون سی چار شرائط ہیں؟

  20. مسیح نے فرمایا کہ میں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں۔ اِس کا کیا مطلب ہے؟

  21. یہ جانتے ہوئے بھی کہ شاگردوں کے پاس کھلانے کےلئے کچھ نہیں تھا، کیوں یسوع نے اُنہیں بھِیڑ کو کھانا دینے کےلئے کہا؟

  22. یسوع نے روٹیوں اور مچھلیوں کےلئے کیوں شکر کر کے برکت چاہی؟

  23. پطرس پانی پر کیوں چل سکا؟

  24. مسیح اور روٹی کے درمیان پائی جانے والی تین مماثلتیں کون سی ہیں؟

  25. فینیکی عورت سے یسوع نے یہ کیوں کہا کہ "لڑکوں کی روٹی لے کر کُتّوں کو ڈال دینا اچھا نہیں"؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany