اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصّہ 3، مسیح کا اختیار اور تعلیمات

سیرت المسیح، حصّہ 3، مسیح کا اختیار اور تعلیمات

جارج فورڈ

2016


1- ایک کوڑھی کو شفا دینا

"اور ایک کوڑھی نے اُس کے پاس آ کر اُس کی مِنّت کی اور اُس کے آگے گُھٹنے ٹیک کر اُس سے کہا، اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ اُس نے اُس پر ترس کھا کر ہاتھ بڑھایا، اور اُسے چُھو کر اُس سے کہا، میں چاہتا ہوں۔ تُو پاک صاف ہو جا۔ اور فی الفور اُس کا کوڑھ جاتا رہا اور وہ پاک صاف ہو گیا۔ اور اُس نے اُسے تاکید کر کے فی الفور رُخصت کیا۔ اور اُس سے کہا، خبردار کسی سے کچھ نہ کہنا مگر جا کر اپنے تئیں کاہن کو دِکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت اُن چیزوں کو جو موسیٰ نے مُقرر کیں نذر گُزران تا کہ اُن کےلئے گواہی ہو۔ لیکن وہ باہر جا کر بہت چرچا کرنے لگا، اور اِس بات کو ایسا مشہور کیا کہ یسوع شہر میں پھر ظاہراً داخل نہ ہو سکا بلکہ باہر ویران مقاموں میں رہا اور لوگ چاروں طرف سے اُس کے پاس آتے تھے۔" (انجیل بمطابق مرقس 1: 40-45)

یسوع نے کئی ایسے بیمار لوگوں کو شفا بخشی جو کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھے۔ ماضی کے وقتوں میں اِس بیماری کو گناہ اور ناپاکی کا ایک نشان سمجھا جاتا تھا۔ کوڑھ کی بیماری سے شفا کےلئے استعمال کی جانے والی اصطلاح "پاک صاف کرنا" ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ یہ بیماری گناہگاروں کے خلاف خدا کے غضب کی ایک علامت تصور کی جاتی تھی۔

یہودیوں کی طب کی کتابوں میں سِوائے کوڑھ کی بیماری کے باقی ہر قسم کی بیماری کے علاج کا بیان ملتا ہے کیونکہ اِسے صرف خدا کے ایک معجزہ کی بدولت ہی قابل علاج تصور کیا جاتا تھا۔ ہم الیشع نبی کے ایام میں نعمان سوریانی کی شفا کی بابت یہورام بادشاہ کے الفاظ میں اِس تصور کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں (2- سلاطین 5: 7)۔

ایک کوڑھی سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ تمام لوگوں سے یہاں تک کہ اپنے گھر کے افراد سے بھی دُور رہے۔ اگر وہ کسی شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرتا تو اُسے چالیس کوڑے مارے جاتے تھے۔

یوں ایک کوڑھی کو حقیقت میں مُردہ تصور کیا جاتا تھا اور اُس کو چھونے والا ہر فرد ناپاک ہو جاتا تھا۔ کوڑھیوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے کپڑے پھاڑ کر، اپنے سر کو ننگا کر کے، اپنے منہ کو ڈھانپ کر، اور نہائے بغیر رہتے ہوئے ماتم کا اظہار کرتے رہیں۔ ایک کوڑھی کو ہمیشہ چِلّا کہ یہ کہنا ہوتاتھا کہ "ناپاک، ناپاک" تا کہ دوسرے اُس کے قریب آنے سے بچیں۔ جب ایک کوڑھی شفا پا جاتا تو اُسے کاہن سے اپنی صحت کا تصدیق نامہ حاصل کر کے اِس کا ثبوت دینا ہوتا تھا۔

یسوع ایک دِن ایک شہر میں گئے، اور ایک کوڑھی آپ کے پاس آیا۔ کوڑھیوں کو دوسروں کے پاس آنے سے منع کیا جاتا تھا۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ لوگوں کا ہجوم ناپاک ہو جانے کے خوف سے وہاں سے ہٹ گیا ہو گا۔ اُس کوڑھی کی حالت لازماً انتہائی ناگفتہ بہ ہو گی۔ اُس کا سر ننگا ہو گا، کپڑے پھٹے ہوں گے، پھیلی ہوئی بیماری کی وجہ سے آواز بھرائی ہوئی ہو گی۔

مُقدّس لوقا انجیل نویس بتاتا ہے کہ وہ شخص کوڑھ سے بھرا ہُوا تھا، اور وہ منظر یقیناً خوفزدہ کر دینے والا ہو گا، اُس کی ناک، کان، ہونٹ اور پپوٹے غالباً گل سڑ گئے ہوں گے اور وہ "ناپاک، ناپاک" چِلّاتے ہوئے چلا آتا ہو گا۔ جب اُس نے یسوع کو دیکھا تو آپ کے آگے گھٹنوں کے بل گر گیا۔

اُس کی ظاہری حالت کو تصور میں لایا جائے تو وہ یقیناً انتہائی مایوس و پریشان محسوس کرتا ہو گا۔ لیکن حقیقت میں وہ خوش قسمت تھا کہ خدا کے رُوح نے اُسے اُبھارا کہ مسیحا کے حضور جُھک جائے جسے اُس نے خداوند کہہ کر پکارا۔ اِس کوڑھی سے پہلے مسیح کے حضور جنہوں نے جھک کر سجدہ کیا تھا وہ پورب سے آنے والے مجوسی تھے۔ اِس کوڑھی کے سجدے کی تقلید کرتے ہوئے مختلف قوموں اور نسلوں کے لاکھوں کروڑوں لوگ مسیح کے حضور سجدہ ریز ہوئے۔

یہاں مسیح کے وہ پُراختیار الفاظ ہمارے ذہن میں آتے ہیں جب آپ نے ابلیس کو جھڑکتے ہوئے کہا "لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر، اور صرف اُسی کی عبادت کر۔" یسوع اِس پرستش کو کیسے قبول کر سکتے تھے؟ یہاں تک کہ مسیح کے رسولوں اور فرشتوں نے بھی لوگوں کو اپنی عبادت کرنے سے روکا کیونکہ یہ منع تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ مکمل طور پر مسیح سے مختلف تھے، اور وہ خدا کے اِس الہٰی حق سے حسد نہیں کرتے تھے جو تمام عبادت و پرستش، عزت و تعظیم کا واحد حقدار ہے۔ لیکن یسوع مسیح چونکہ مجسم خدا ہیں اِس لئے اُنہوں نے اُس کوڑھی کی طرف سے کی جانے والے پرستش کو قبول کیا۔

اِس کوڑھی کا واقعہ ہمیں حیران کر دیتا ہے۔ اُس کے دِل میں ایمان کیونکر پیدا ہُوا؟ یسوع کی مدد کے متمنی دوسرے بیمار لوگوں نے کہا "... لیکن اگر تُو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر ترس کھا کر ہماری مدد کر" (انجیل بمطابق مرقس 9: 22)۔ اُنہوں نے یہ الفاظ تب کہے جب اُن کی بیماریاں اکثر و بیشتر قابل علاج تھیں۔ اور یہ کوڑھی جس کی بیماری کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ ناقابل علاج ہے پکار کر کہنے لگا "اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔" اِن الفاظ کے ساتھ اُس کوڑھی نے اپنے ایمان کا اظہار کیا کہ صرف مسیح ہی اُسے ٹھیک کر سکتا تھا، اور یہ وہ کام تھا جو صرف خدا ہی کر سکتا تھا۔

کوڑھی فروتنی کا مظاہرہ کرتا ہے، اور یسوع سے شفا دینے کا تقاضا نہیں کرتا۔ اپنی بڑی ضرورت کے باوجود اُس نے مسیح کی مرضی کی تعظیم کی، اور اپنی بڑی حلیمی اور ایمان کی وجہ سے وہ اِس قابل ہو سکا کہ یسوع کی طرف سے شفا کو پا سکے۔

چونکہ کوڑھی کا ایمان صاف ظاہر تھا، اِس لئے مسیح نے اُسے شفا دینے میں دیر نہ کی۔ آپ نے فوراً اُس آدمی کو تسلی دی اور بتایا کہ آپ اُسے شفا دینا چاہتے ہیں۔

جب ایمان لانے والے اپنے گناہوں سے شفا کی خاطر مسیح کے حضور التجا کرتے ہیں تو آپ اُنہیں جواب دینے میں کبھی بھی تاخیر نہیں کرتے۔ آپ اپنی معافی کی بدولت فوری نجات بخش دیتے ہیں۔

یسوع نے اُس کوڑھی کی درخواست پر محض ایک میکانکی ردعمل کی وجہ سے شفا نہیں دی کیونکہ آپ ایسے نہیں ہیں۔ یسوع نے ایسا اِس لئے بھی نہیں کیا تھا کہ آپ مشہور ہونا چاہتے تھے کیونکہ بعد میں آپ نے اُس کوڑھی کو اِس شفا کے بارے میں دوسروں کو بتانے سے منع کیا۔ یسوع نے اِس زبردست معجزہ کو صرف اِس وجہ سے کیا کہ آپ کو اُس پر ترس آیا، آپ نے رحم و ترس کی بدولت ایسا کیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے چھوا۔

جب یسوع نے اُسے چھوا، تو آپ گویا اعلان کر رہے تھے کہ خدا محبت ہے۔ اپنے خاندان سے کئی سالوں کی جدائی اور اِس خوفناک بیماری کے ہاتھوں دُکھ پانے کے بعد اِس شخص کے زبردست ایمان نے اِس کےلئے یہ ممکن کیا۔ مسیح نے اُسے چھونے کے ذریعے آرام بخشا۔ جب یسوع نے اُس شخص کے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا کہ "میں چاہتا ہوں۔ تُو پاک صاف ہو جا" تو اُس کا دِل کس قدر خوشی سے معمور ہو گیا ہو گا۔ اِن الفاظ نے اُس کوڑھی کو بحال کر دیا اور وہ اندر اور باہر سے نیا ہو گیا۔

یسوع نے مذہبی رسومات کے مقابلہ میں محبت کی فضیلت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا: "میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں" (انجیل بمطابق متی 12: 7)۔ مسیح ایک حتمی کفارہ بخش قربانی ہونے کےلئے مجسم خدا کے طور پر آئے۔ کوڑھی کو چھونے کے ذریعے سے آپ نے مخلصی کے اپنے اُس کام کی ایک جھلک پیش کی جس کا ذِکر ہمیں نئے عہدنامہ میں 2-کرنتھیوں 5: 21 میں ملتا ہے: "جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔"

یسوع کوڑھی کی شفا کی خبر کی مشہوری سے پیدا ہونے والی مشکلات کو جانتے تھے، لیکن شفا پانے والا وہ شخص اِس قدر شادمان تھا کہ وہ سب کو اِس بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ یسوع نے اُسے کہا "خبردار کسی سے کچھ نہ کہنا۔"

یسوع یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہجوم یہ سوچے کہ وہ کوڑھی کو چھونے سے ناپاک ہو گئے تھے۔ یوں آپ کی خدمت میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی۔ یسوع یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ آپ کے اردگرد اَور زیادہ ہجوم جمع ہو، کیونکہ اِس سے آپ کے بشارت اور تعلیم دینے کے اہم کام میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی۔

یوحنا خروسستم آبائے کلیسیا میں سے ایک نے کہا کہ شفا پانے والوں سے یسوع چاہتے تھے کہ وہ خاموش رہیں اور آپ سے عزت و تکریم سے پیش آئیں۔ وہ اُن سے چاہتے تھے کہ وہ اپنے لئے خدا کی رحمتوں کو یاد رکھیں تا کہ احساسِ غرور کا شکار نہ ہو جائیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جب بہت سے لوگ ہونے والے معجزات سے متاثر ہوں تو ایسی صورتحال میں وہ مشہوری کے طالب ہوں۔

یسوع نے اُس آدمی کو ایک حکم دیا: "جا کر اپنے تئیں کاہن کو دِکھا۔" یہ ہر ایک یہودی کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ موسوی شریعت کی فرمانبرداری کرے، اور یسوع اُس شفا پانے والے کوڑھی سے چاہتے تھے کہ وہ یروشلیم میں کاہن کے پاس جائے تا کہ اُس سے اپنی شفا کی تصدیق کروائے۔ ایک کاہن کی طرف سے اپنی شفا کی تصدیق کی بدولت اُس کےلئے ممکن ہو جانا تھا کہ وہ واپس اپنے لوگوں کے پاس لوٹ سکتا۔ ایسی تصدیق حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا، مگر یہ ضروری تھا۔

یسوع یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُس وقت وہ شفا پانے والا کوڑھی اپنے معجزاتی طور پر ٹھیک کئے جانے کے بارے میں دوسروں کو خبر دے کیونکہ کاہن اُسے پاک صاف ہونے کا تصدیق نامہ دینے سے انکار کر سکتا تھا کہ اگر اُسے پتا چل جاتا کہ اُس نے شفا کیسے پائی تھی، اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ کاہن یسوع سے نفرت کرتے تھے۔

شفا پانے والے کوڑھی نے یسوع کی نافرمانی کی اور دوسروں کو اپنی شفا کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگ یسوع کے گرد جمع ہو گئے، اور تب مسیح دور ویران جگہ کو چلے گئے تا کہ اپنے باپ کے ساتھ اکیلے میں وقت گزاریں۔ مُقدّس لوقا انجیل نویس بتاتا ہے کہ "لیکن اُس کا چرچا زیادہ پھیلا، اور بہت سے لوگ جمع ہوئے کہ اُس کی سُنیں اور اپنی بیماریوں سے شفا پائیں۔ مگر وہ جنگلوں میں الگ جا کر دُعا کیا کرتا تھا" (انجیل بمطابق لوقا 5: 15، 16)۔

عزیز قاری، اِس شخص نے جوش میں یسوع کی نافرمانی کی اور نتیجہ مسیح کی خدمت کے مفاد میں نہ تھا۔ اُسے یسوع کے حکم کی پیروی کرنی چاہئے تھی۔ جب مسیح ہمیں ہمارے گناہ سے پُرفضل طور پر نجات بخشتے ہیں تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم شکرگزاری کے طور پر اُس کے احکام کی فرمانبرداری کریں۔

2- کفرنحوم میں دو معجزے

مچھلیوں کا معجزاتی طور پر پکڑا جانا

"جب بھِیڑ اُس پر گری پڑتی تھی اور خدا کا کلام سُنتی تھی اور وہ گنّیسرت کی جھیل کے کنارے کھڑا تھا تو ایسا ہوا کہ اُس نے جھیل کے کنارے دو کشتیاں لگی دیکھیں لیکن مچھلی پکڑنے والے اُن پر سے اُتر کر جال دھو رہے تھے۔ اور اُس نے اُن کشتیوں میں سے ایک پر چڑھ کر جو شمعون کی تھی، اُس سے درخواست کی کہ کنارے سے ذرا ہٹا لے چل اور وہ بیٹھ کر لوگوں کو کشتی پر سے تعلیم دینے لگا۔ جب کلام کر چُکا تو شمعون سے کہا، گہرے میں لے چل اور تم شکار کےلئے اپنے جال ڈالو۔ شمعون نے جواب میں کہا، اے اُستاد ہم نے رات بھر محنت کی اور کچھ ہاتھ نہ آیا مگر تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہوں۔ یہ کِیا اور وہ مچھلیوں کا بڑا غول گھیر لائے اور اُن کے جال پھٹنے لگے۔ اور اُنہوں نے اپنے شریکوں کو جو دوسری کشتی پر تھے اِشارہ کیا کہ آﺅ ہماری مدد کرو۔ پس اُنہوں نے آ کر دونوں کشتیاں یہاں تک بھر دیں کہ ڈوبنے لگیں۔ شمعون پطرس یہ دیکھ کر یسوع کے پاﺅں میں گِرا، اور کہا اے خداوند! میرے پاس سے چلا جا کیونکہ میں گنہگار آدمی ہوں۔ کیونکہ مچھلیوں کے اِس شکار سے جو اُنہوں نے کیا، وہ اور اُس کے سب ساتھی بہت حیران ہوئے۔ اور ویسے ہی زبدی کے بیٹے یعقوب اور یوحنا بھی جو شمعون کے شریک تھے حیران ہوئے۔ یسوع نے شمعون سے کہا، خوف نہ کر۔ اَب سے تُو آدمیوں کا شکار کیا کرے گا۔ وہ کشتیوں کو کنارے پر لے آئے، اور سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔" (انجیل بمطابق لوقا 5: 1-11)

پطرس، یعقوب اور یوحنا نے مچھلیاں پکڑنے کی کوشش میں تمام رات بیکار کوشش کی۔ صبح کے وقت وہ جھیل کے کنارے خالی ہاتھ لوٹے اور اپنے جال دھونے شروع کر دیئے۔ جب یسوع وہاں پر پہنچے تو بہت سے لوگ آپ کا کلام سُننے کےلئے جھیل کے کنارے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ اُن کشتیوں میں سے ایک پر سوار ہوئے اور آپ نے اپنے شاگرد پطرس سے کہا کہ وہ اُس کشتی کو کنارے سے ذرا دُور لے جائے۔ اپنا وعظ ختم کرنے کے بعد یسوع نے پطرس کو کشتی گہرے میں لے جانے اور شکار کی غرض سے جال ڈالنے کےلئے کہا۔ یہ سب پطرس کےلئے قابل فہم نہ تھا کیونکہ اُسے اپنے جال دھوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی اور وہ اُنہیں آنے والی رات کےلئے تیار کر رہا تھا۔ اَب اگر وہ پھر جال ڈالتا اور کامیابی حاصل نہ ہوتی تو اُس کی ساری محنت بےفائدہ جاتی اور اُسے پھر سے تمام جال دھونے پڑتے۔ پطرس ایک تجربہ کار مچھیرا تھا جبکہ یسوع بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ اَب بھلا ایک مچھیرے کو ایک بڑھئی سے اِس بارے میں ہدایات کیوں لینی چاہئے تھیں کہ مچھلی کیسے پکڑنی ہے۔ پطرس پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہ اُس جگہ پر مچھلی موجود نہیں تھی۔ اُس نے پہلے تو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا مگر پھر یسوع کی بات مان لی۔ تھوڑی ہی دیر میں اُسے فرمانبرداری کرنے کا نتیجہ مل گیا۔ اور اُس کی کشتی اور یعقوب اور یوحنا کی کشتی مچھلیوں سے اتنی بھر گئیں کہ ڈوبنے لگیں۔ مچھلی کے اِس بڑے شکار پر شاگرد اور اُن کے ساتھ کے باقی سب لوگ بہت حیران ہوئے۔ اِس واقعہ سے پطرس اتنا زیادہ حیران ہوا کہ وہ یہ کہتے ہوئے یسوع کے قدموں پر گر پڑا "اے خداوند! میرے پاس سے چلا جا کیونکہ میں گنہگار آدمی ہوں۔" ہم تصور کر سکتے ہیں کہ پطرس نے یہ سب کچھ اِس لئے کہا کیونکہ وہ پہلے یسوع کی بات ماننے سے انکار کرنے پر شرمندہ تھا۔ مسیح کے جلال اور پاکیزگی کی ایک جھلک دیکھ کر وہ بہت خوفزدہ ہو گیا۔ جناب مسیح جو اُس کی تمام کمزوریوں سے واقف تھے اُس کی کشتی میں اُس کے ساتھ موجود تھے۔ خدائے قدوس کی حضوری میں کوئی بھی گناہگار خوفزدہ ہوئے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ یسوع پطرس کی دِلی کیفیت سے واقف تھے اِس لئے آپ نے اُسے "میرے پاس سے چلا جا" کہنے پر نہ جھڑکا۔ پطرس کی نیت ٹھیک تھی اور اُسے اپنے گناہوں کا احساس تھا، باوجود کہ وہ ابھی تک یسوع کی شخصیت اور دُنیا میں اُس کے آنے کے مقصد سے مکمل طور پر واقف نہ تھا۔ اُس نے سوچا کہ یسوع کو گناہگاروں سے دور ہونا چاہئے تھا۔ اکثر ابلیس گناہگاروں کے ذہنوں میں تذبذب کا ایسا بیج بو دیتا ہے تا کہ اُنہیں مسیح کے پاس آنے سے روک سکے۔

اپنی عظیم حکمت و محبت میں یسوع نے پطرس کی درخواست کو رد کر دیا۔ جب ایماندار مسیح کو کوئی ایسا کام کرنے کےلئے کہیں جو اُن کی اپنی بھلائی کے خلاف ہو تو مسیح اُن کی ایسی درخواست پوری نہیں کرتے۔ مسیح نے پطرس کی درخواست کے نتیجہ میں بالکل برعکس کیا۔ جب پطرس نے یسوع کو اپنے پاس سے چلے جانے کےلئے کہا تو وہ اَور نزدیک آ گئے۔ وہ پطرس کی نیت سے واقف تھے اِس لئے آپ نے اُس کے الفاظ کو نظرانداز کر دیا۔ پھر آپ نے اُسے یہ کہنے سے تسلی دی کہ وہ خوفزدہ نہ ہو۔ آپ نے اُسے یہ بھی بتایا کہ وہ آدمیوں کا شکار کیا کرے گا۔ یہ اُس کے پچھلے کام کی نسبت زیادہ عزت افزا کام تھا۔ یسوع نے اپنے سب شاگردوں کو چاہے اُن کی صلاحیتیں یا حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں آدمیوں کی جانوں کا شکار کرنے کےلئے بلایا ہے۔

جب شاگرد دونوں کشتیوں کو کنارے پر لائے تو اُنہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑا اور یسوع کے پیچھے ہو لئے۔

ایک مفلوج کو شفا دینے کا معجزہ

"کئی دِن بعد جب وہ کفرنحوم میں پِھر داخل ہوا تو سُنا گیا کہ وہ گھر میں ہے۔ پھِر اتنے آدمی جمع ہو گئے کہ دروازہ کے پاس بھی جگہ نہ رہی اور وہ اُن کو کلام سُنا رہا تھا۔ اور لوگ ایک مفلوج کو چار آدمیوں سے اُٹھوا کر اُس کے پاس لائے۔ مگر جب بھِیڑ کے سبب سے اُس کے نزدیک نہ آ سکے تو اُنہوں نے اُس چھت کو جہاں وہ تھا کھول دیا اور اُسے اُدھیڑ کر اُس چارپائی کو جس پر مفلوج لیٹا تھا لٹکا دیا۔ یسوع نے اُن کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا، بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے۔ مگر وہاں بعض فقِیہ جو بیٹھے تھے۔ وہ اپنے دِلوں میں سوچنے لگے کہ یہ کیوں ایسا کہتا ہے؟ کُفر بکتا ہے، خدا کے سِوا گناہ کون معاف کر سکتا ہے؟ اور فی الفور یسوع نے اپنی رُوح سے معلوم کر کے کہ وہ اپنے دِلوں میں یوں سوچتے ہیں، اُن سے کہا، تم کیوں اپنے دِلوں میں یہ باتیں سوچتے ہو؟ آسان کیا ہے؟ مفلوج سے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھِر؟ لیکن اِس لئے کہ تم جانو کہ ابنِ آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے، اُس نے اُس مفلوج سے کہا، میں تجھ سے کہتا ہوں، اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔ اور وہ اُٹھا اور فی الفور چارپائی اُٹھا کر اُن سب کے سامنے باہر چلا گیا۔ چنانچہ وہ سب حیران ہو گئے اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے، ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔" (انجیل بمطابق مرقس 2: 1-12)

جھیل کے کنارے سے لوٹنے کے بعد یسوع ایک گھر میں داخل ہوئے اور تعلیم دینے لگے۔ اِس سے پہلے یسوع نے ہیکل میں، ایک کنویں کے پاس، عبادتخانہ میں اور ایک کشتی پر سے تعلیم دی تھی۔ اور اَب اُنہوں نے ایک گھر میں جا کر تعلیم دینا شروع کیا، اور لوگوں کا ایک ہجوم اُن کے گرد موجود تھا۔ اور اَب وہاں پر مزید لوگوں کےلئے یہاں تک کہ دروازے کے پاس بھی جگہ موجود نہ تھی۔ آپ اُن میں خدا کے کلام کی منادی کر رہے تھے۔ اُس ہجوم میں یہودیہ اور گلیل کے کئی دیہات اور قصبوں کے فریسی اور فقیہ موجود تھے۔ وہ آپ کی تعلیم سُننے اور معجزات دیکھنے آئے تھے۔ ہم اُنہیں اُس مشہور اُستاد کی باتوں کو سُننے کےلئے اُس گھر میں بلند مرتبہ جگہوں پربیٹھے ہوئے تصور کر سکتے ہیں۔ وہاں ضرورتمندوں کو شفا دینے کےلئے خداوند کی قوت موجود تھی۔ بہت سے لوگ اپنے لئے یا اپنے عزیزوں کےلئے شفا پانے کی غرض سے اُس حیرت انگیز طبیب تک پہنچنے کی اُمید کے ساتھ ایک موقع کی تلاش میں تھے۔

اچانک ہجوم میں چار آدمیوں کی وجہ سے جو ایک مفلوج کو اُٹھائے ہوئے تھے ہلچل سی پڑ گئی۔ اِن آدمیوں نے یسوع تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کی وجہ سے پہنچ نہ سکے۔ اِس لئے اُنہوں نے ایک منصوبہ بنایا جس سے وہ یسوع تک پہنچ سکتے۔ اُنہوں نے گھر میں اُس جگہ کو دریافت کیا جہاں پر یسوع بیٹھے تھے، اور وہاں سے چھت کے اُس حصے کو اُدھیڑا۔ یوں اُس حصے کو کھول کر اُنہوں نے اُس چارپائی کو جس پر مفلوج پڑا تھا نیچے لٹکا کر یسوع کے آگے رکھ دیا۔ ہر کوئی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اور یقیناً اُنہوں نے کئی دِن تک اِس بارے میں بات کی ہو گی۔ یہ مفلوج وہاں یسوع اور اُن لوگوں کے سامنے پڑا تھا۔ نہ تو اُس نے کوئی لفظ کہا اور نہ کوئی حرکت کی، البتہ اُس کی قابل افسوس حالت خود ہی اُس کی ساری کہانی سُنا رہی تھی۔

یسوع باقی تمام اُستادوں سے اِس لحاظ سے مختلف تھے کہ آپ لوگوں کی ظاہری وضع قطع کی نسبت اُن کی اندرونی حالت کے بارے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ آپ اُن کے دِلوں کے پوشیدہ خیالات جانتے تھے، اِسی لئے آپ اپنے کلام اور کام سے اُن کے باطن کی ضروریات کو پورا کر سکنے کے قابل تھے۔ اِس واقعے میں یسوع نے مفلوج کے دِل میں شفا دینے سے اپنے کام کا آغاز کیا اور اُس سے کہا "بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے۔" غالباً مفلوج اپنے گناہوں کو اپنی فالج کی بیماری کی وجہ سمجھتا تھا اور یسوع نے اُس کے توبہ کرنے والے دِل پر نگاہ کی۔ یسوع اُسے جسمانی بیماری سے شفا دینا چاہتے تھے لیکن اِس سے بھی زیادہ آپ کو اُس کی جان بچانے میں دلچسپی تھی۔ ممکن ہے کہ اِس مفلوج نے پہلے یسوع کو تعلیم دیتے سُنا ہو، اور اَب وہ اپنی زندگی میں بدن اور رُوح دونوں کی بحالی کےلئے مسیح کے معجزہ کی توقع کر رہا تھا۔

مفلوج کو اُٹھانے والے چاروں افراد نے بڑے ایمان کا مظاہرہ کیا۔ اپنے عمل سے اُنہوں نے اُس توکل کا اظہار کیا جو ضرور اُس فالج زدہ شخص کے دِل میں موجود تھا۔ غالباً اُس کی بیماری نے اُسے بولنے کے قابل نہ چھوڑا تھا، اور وہ خود شفا کےلئے اپنی خواہش کا اظہار نہ کر سکتا تھا۔ جب یسوع نے اُسے اُس کے گناہوں کےلئے معافی بخشی تو یقیناً اُس نے دِلی تسلی پائی ہو گی، اور اپنے فالج زدہ جسم میں بلا شک و شبہ اُس کا دِل خوشی سے بھر گیا ہو گا۔ اُس کی بڑی جسمانی مصیبت اُسے مسیح خداوند کے پاس لے آئی جنہوں نے اُسے اُس کے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کی بڑی تباہی و بربادی سے رہائی بخشی۔

یسوع کی معافی اُنہی لوگوں میں کام کرتی ہے جو اپنے گناہ کا احساس کرتے ہیں۔ اِس مفلوج نے لازماً اپنے دِل میں داﺅد نبی کے الفاظ میں یہ گیت گایا ہو گا کہ "مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا۔ مبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا اور جس کے دِل میں مکر نہیں" (زبور 32: 1، 2)۔ ایک فرد خدا کی طرف سے ملنے والی معافی کی بنا پر مبارک ہے، اور تب وہ اپنی تمام دوسری برکات اُس پر نازل کرتا ہے۔ جب خدا معاف کرتا ہے تو وہ معاف کئے جانے والے فرد کو اپنے قیمتی وعدے، کثرت کا فضل اور ابدی جلال عنایت کرتا ہے۔

جب یسوع مسیح نے گناہوں کو معاف کرنے کی اپنی صلاحیت کا اظہار کیا تو آپ نے ثابت کیا کہ آپ دیگر انسانوں کی نسبت برتر حیثیت کے حامل ہیں۔ کئی لحاظ سے اُس مفلوج کی جسمانی شفا اُس کی روحانی بحالی سے ملتی جلتی تھی۔ اُس کا اپنی چارپائی کو اُٹھانا شفا کو حاصل کرنے کےلئے ایک شرط نہیں تھا بلکہ یہ تو اُس کا ایک نتیجہ تھا۔ اِسی طرح معافی حاصل کرنے کےلئے اچھائی کوئی شرط نہیں ہے، بلکہ یہ تو اِس مفت بخشش کا نتیجہ یا پھل ہے۔ اور پھر یہ کہ اِس کے ساتھ ساتھ اُس کے جسم نے بھی فوری شفا پائی۔ اِسی طرح خدا ہمارے گناہوں کو معاف کرنے کا وعدہ کسی ایسے وقت میں نہیں کرتا جو ہماری موت کے بعد ہو گا یا تب جب ہم اپنے آپ کو اِس قابل سمجھیں گے۔ ایک گنہگار اُسی لمحے مسیح نجات دہندہ سے معافی پاتا ہے جب وہ اپنے پورے دِل سے آپ کے حضور اِس بات کا طلبگار ہوتا ہے۔ اور یوں انسان کے باطن سے بخوبی آگاہی رکھنے والی شخصیت جناب مسیح معافی کی پکار کا جواب دیتے ہیں۔ آپ کو دیگر انسانوں کی طرح اِس بات کو یقینی بنانے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا کہ آیا ایک گنہگار معافی پانے کےلئے تیار ہے یا نہیں، آپ تو فوراً ہی اِس بات کو جان جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ مسیح نے اُس مفلوج شخص کو ادھوری شفا نہیں دی کہ بتدریج شفا پانے کےلئے اُسے چھوڑ دیا۔ آپ نے مفلوج کو اُٹھا کر لانے والے چار افراد سے یہ نہیں کہا کہ جہاں سے اُسے لائے ہیں وہیں واپس لے جائیں، بلکہ ایک لمحہ میں اُس کے تمام گناہوں کو معاف کرتے ہوئے اُسے مکمل طور پر شفا بخشی۔ اگر مسیحا اُس کے کچھ گناہوں کو معاف نہ کرتے تو یقیناً اُس کی جان تباہی کا شکار ہو گئی ہوتی۔ اگر ایک کشتی کے پیندے میں بہت سے سوراخ ہوں اور اُس کا مالک سوائے ایک سوراخ کے باقی سب کو بند کر دے تو تب بھی کشتی پانی میں ڈوب جائے گی۔ جیسے سو سوراخ خطرناک ہیں ویسے ہی ایک سوراخ بھی خطرناک ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہو کہ وہ مکمل معافی عطا کرتا ہے۔ جو کچھ یسوع نے کہا اُس کا سُننے والوں پر بڑا گہرا اثر پڑا۔ آپ کے صعودِ آسمانی کے بعد بھی گناہوں کو معاف کرنے کا آپ کا دعویٰ پطرس کی یادداشت پر کندہ تھا۔ جب پطرس کو ہیکل میں منادی کرنے کی وجہ سے گرفتار کر کے صدر عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو وہاں پطرس نے یہ اعلان کیا "اُسی کو خدا نے مالک اور منجی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سربلند کیا تا کہ اسرائیل کو توبہ کی توفیق اور گناہوں کی معافی بخشے" (نیا عہدنامہ، اعمال الرُّسل 5: 31)۔

یروشلیم سے آنے والے نمایاں فقیہ یسوع کے نزدیک موجود تھے۔ اُنہوں نے آپ کا دوسروں کے گناہ معاف کرنا قبول نہ کیا، بلکہ آپ کو محض ایک ایسے انسانی اُستاد کے طور پر لیا جس کے پاس یہ سب کرنے کا اختیار نہ تھا۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے آپ کو کفر بکنے والا تصور کیا کیونکہ آپ نے الہٰی کام کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اُن کی شریعت کے مطابق الہٰی قدرت کا دعویٰ کرنے والا شخص نہایت ہی بدکار و شریر شخص ہوتا تھا اور وہ سنگسار کئے جانے کے لائق ہوتا تھا۔

اپنی الوہیت کا ثبوت پیش کرنے سے یسوع نے اُن کی بےاعتقاد آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تا کہ وہ اِس حقیت کو جان جائیں کہ مسیحا محض ایک انسانی اُستاد سے بڑھ کر ہے۔ خدا اور انسان دونوں ہوتے ہوئے آپ کے پاس معافی بخشنے کا حق تھا اور یوں آپ کفر کے مرتکب ہرگز نہ ہو رہے تھے۔ اِس حقیقت کو ظاہر کرنے کےلئے آپ نے پہلا ثبوت یہ دیا کہ اُنہیں اُن کے دِل کے خیالات کے بارے میں آگاہ کیا جن کا ابھی اُنہوں نے اظہار بھی نہ کیا تھا۔ اِس تعلق سے یسعیاہ نبی نے کئی سو سال پہلے یسوع کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ "اور خداوند کی رُوح اُس پرٹھہرے گی۔ حکمت اور خِرد کی رُوح، مصلحت اور قدرت کی رُوح، معرفت اور خداوند کے خوف کی رُوح۔ اور اُس کی شادمانی خداوند کے خوف میں ہو گی اور وہ نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق انصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سُننے کے موافق فیصلہ کرے گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 11: 2، 3)۔

پھر یسوع نے اُن کے سوچنے کےلئے ایک اَور ثبوت پیش کیا جو مفلوج کو شفا دینے کی اُن کی قدرت تھی۔ عموماً جب ایک شخص طویل عرصہ سے فالج کا شکار ہو تو یہ ناقابل علاج ہوتا ہے۔ چونکہ یسوع نے مفلوج کو فوری شفا بخشی تھی اور اُس کے فوری نتائج سامنے تھے، اور کوئی بھی اُسے جھوٹا کہنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا، اِس لئے مسیح نے مفلوج سے کہا "میں تجھ سے کہتا ہوں، اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔" جہاں تک اِس بات کے کہنے کا تعلق ہے کہ "تیرے گناہ معاف ہوئے" تو کوئی بھی جھوٹا شخص یہ کہہ سکتا تھا کیونکہ کوئی بھی اِس کے نتائج نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اِس لئے یہ کہنے کی نسبت کہ "اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا" یہ کہنا آسان ہے کہ "تیرے گناہ معاف ہوئے۔" اگر کوئی فرد ایک مفلوج کو شفا دے کر اپنا اختیار ثابت کرنے کے بعد گناہوں کو معاف کرنے کی پیشکش کرے تو اُسے قابل بھروسا سمجھا جا سکتا ہے۔ یوں یسوع نے اپنے مخالفوں کے اعتراضات کو غلط ثابت کیا۔ آپ نے ابن آدم اور ابن خدا ہونے کی وجہ سے گناہوں کو معاف کرنے کے اپنے اختیار کو ظاہر کیا۔ پھر اپنے الفاظ کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کےلئے آپ نے مفلوج کو کھڑا ہونے، اپنی چارپائی اُٹھانے اور چلنے کا حکم دیا۔

مفلوج فوراً اُٹھا۔ اور وہ سب افراد جنہوں نے پہلے اُسے اندر آنے نہ دیا تھا، اَب اُس کے باہر جانے پر اُنہوں نے فوری راستہ دیا۔ اور وہ چارپائی جو اُس کی معذوری کی علامت تھی اَب اُس کی معجزاتی شفا کی علامت بن گئی، اور وہ اُسے اُٹھائے وہاں سے چلا گیا۔ اُس کی بحالی کے تعلق سے یہ کتنی بڑی بات ہے۔ وہ فوراً اُٹھا، اور اپنی چارپائی اُٹھا کر خدا کی تمجید کرتا ہوا وہاں سے چل دیا۔

3- یسوع متی کو بُلاتا ہے

"وہ پھِر باہر جھیل کے کنارے گیا، اور ساری بھِیڑ اُس کے پاس آئی اور وہ اُن کو تعلیم دینے لگا۔ جب وہ جا رہا تھا تو اُس نے حلفئی کے بیٹے لاوی کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھا اور اُس سے کہا، میرے پیچھے ہو لے۔ پس وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔ اور یوں ہوا کہ وہ اُس کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا اور بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار لوگ یسوع اور اُس کے شاگردوں کے ساتھ کھانے بیٹھے کیونکہ وہ بہت تھے اور اُس کے پیچھے ہو لئے تھے۔ اور فرِیسیوں کے فقیہوں نے اُسے گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ کھاتے دیکھ کر اُس کے شاگردوں سے کہا، یہ تو محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے۔ یسوع نے یہ سُن کر اُن سے کہا، تندرستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں بلکہ بیماروں کو۔ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں۔" (انجیل بمطابق مرقس 2: 13-17)

یسوع محصول کی چوکی کے پاس کھڑا تھا جہاں تاجروں سے محصول وصول کیا جاتا تھا۔ آپ نے وہاں ایک محصول لینے والے شخص سے کہا "میرے پیچھے ہو لے۔" جیسے مسیح نے متی محصول لینے والے کو اپنے پیچھے چلنے کی دعوت دی ویسے ہی وہ آج آپ کو بھی اپنے پیچھے چلنے کےلئے بلاتا ہے۔

اگر ہم اِس دعوت پر گیان دھیان کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اُتنا سادہ نہیں جتنا دِکھائی دیتا ہے۔ مثلاً، اِس شخص کے تعلق سے بہت سی ایسی باتیں تھیں کہ دوسرے اِسے دیکھ کر پسند نہیں کرتے تھے، اور اَب وہ مسیح کے ساتھ تھا۔ یہ سچ ہے کہ وہ اُن کے اپنے شہر کفرنحوم کا رہنے والا تھا۔ اُس کا نام "متی" تھا جس کا مطلب ہے "خدا کا تحفہ۔" اُس کا عبرانی نام "لاوی" تھا جس کا مطلب ہے "کاہن"، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک معزز کاہن خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ تعلیم یافتہ اور امیر شخص تھا، لیکن ایک محصول لینے والا بھی تھا اور اِس پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ناپسندیدگی اور نفرت سے دیکھا جاتا تھا۔ مسیح کے شاگردوں کو غالباً اِس دعوت کے دیئے جانے پر تشویش لاحق ہو گئی ہو گی کہ متی اَب اُن کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ چونکہ متی نے یسوع کی دعوت قبول کی اور آپ کا شاگرد بن گیا، اِس لئے مسیح کے تمام مخالف خوش ہوئے اور اُنہوں نے سوچا کہ یوں مسیح کی شہرت پر حرف آئے گا۔

جناب مسیح کی طرف سے متی کو دیا جانے والا دعوت نامہ ہمیں آپ کی عظمت کی وضاحت پیش کرتا ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے لوگوں کی آراء سے متاثر نہ تھے۔ یہ آپ کی الہٰی فطرت کا بھی ایک ثبوت ہے کیونکہ باقی سب لوگوں کو اِس بات کی فکر ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور معاشرے کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا خدا تعالیٰ نے اپنے لوگوں سے یہ نہیں کہا تھا: "... میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں" (یسعیاہ 55: 8)۔ اپنے ہمعصر افراد سے برعکس عمل کی بدولت یسوع نے دکھایا کہ آپ اُن سے فرق ہیں کیونکہ آپ کے اصول اور خیالات لاثانی تھے۔ آپ اِس زمین سے نہ تھے۔ یہودی راہنما محصول لینے والوں سے نفرت کرتے تھے اور اُنہیں اُن کے شہری حقوق سے محروم رکھتے تھے۔ وہ عدالت میں اُن کی گواہی کو قبول نہیں کرتے تھے، اور اُنہیں سود خوروں، جواریوں، ڈاکوﺅں، خونیوں، حرامکاروں اور غیرقوم والوں کے برابر سمجھتے تھے۔ محصول لینے والوں سے وہ خیراتی کاموں کےلئے مدد بھی طلب نہ کرتے تھے، اور نہ ہی اُن کے ساتھ کھانا کھانے کےلئے بیٹھتے تھے۔ وہ محصول لینے والوں کو جنگلی جانوروں کے ساتھ تشبیہ دیتے تھے۔ یوں جن افراد نے محصول جمع کرنے کے پیشہ کو اپنایا ہوتا تھا، اِس برے برتاﺅ کے نتیجہ میں وہ اَور زیادہ بدعنوان ہوتے جاتے۔

اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں یسوع نے ایک محصول لینے والے فرد کو دعوت دی کہ وہ آپ کے پیچھے ہو لے، آپ کا ایک شاگرد اور بعد میں ایک رسول بن جائے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یسوع نے دوسرے یہودیوں کی طرح برتاﺅ نہ کیا جو لوگوں کے اِس گروہ سے نفرت رکھتے تھے۔ اپنی عظیم محبت میں یسوع ہر کسی تک گئے جس میں خاص طور پر معاشرے کے دھتکارے ہوئے افراد شامل تھے، اور اُن پر خدا کی شفقت و مہربانی کو ظاہر کیا۔ اِسی لئے یسوع نے ایک محصول لینے والے کو اپنی پیروی کرنے کی دعوت دی۔

یسوع کے نزدیک محصول لینے والوں کے مقابلہ میں مذہبی راہنماﺅں کے قصور کہیں زیادہ تھے اور وہ سزا کے زیادہ مستحق تھے۔ اگر فریسی یہ بات سمجھ جاتے تو وہ آنے والی سزا سے بچ جاتے۔ لیکن اُنہوں نے اِس حقیقت کو نہ سمجھا جس کی وجہ سے یسوع نے کئی مرتبہ اُن کی برملا مُذمّت کی۔ مذہبی ریاکار جو اپنے آپ کو راستباز ظاہر کرتے ہیں اُن کی نسبت وہ گنہگار جو اپنی تقصیروں کو جانتے اور اُن کا یسوع کے حضور اقرار کرتے ہیں خدا کی بادشاہی کے زیادہ نزدیک ہیں۔ اِسی وجہ سے فریسیوں سے پہلے ایک ناپسندیدہ محصول لینے والے فرد کو آسمان کی بادشاہی میں داخلے کا موقع دیا گیا۔

یسوع نے اِس سے پہلے ایک سامری عورت کی توبہ اور ایمان کی طرف راہنمائی کرنے سے معاشرے کے ایک دھتکارے ہوئے فرد کو نجات بخشی تھی۔ اور اَب آپ نے متی کو اپنی روحانی بادشاہی میں داخل ہونے کی دعوت دی۔ یسوع نے اِس بات کی وضاحت بھی کی کہ یہ محصول لینے والوں کی بداعمالی تھی کہ جس کی وجہ سے بطور طبیب اعظم آپ نے اُن پر اپنی خاص توجہ دی۔ آپ تندرستوں کو نہیں بلکہ بیماروں کو ڈھونڈنے اور شفا دینے آئے۔ فریسیوں کا نجات دہندہ، محصول لینے والوں کا بھی نجات دہندہ ہے۔

ایک مرتبہ آپ نے یہودیوں کے سردار کاہنوں اور بزرگوں کو دو بیٹوں کی تمثیل سنا کر پوچھا "اِن دونوں میں سے کون اپنے باپ کی مرضی بجا لایا؟" اُن بزرگوں نے جواب دیا "پہلا"۔ جواب میں یسوع نے اُنہیں کہا "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول لینے والے اور کسبیاں تم سے پہلے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوتی ہیں۔ کیونکہ یوحنا راستبازی کے طریق پر تمہارے پاس آیا اور تم نے اُس کا یقین نہ کیا مگر محصول لینے والوں اور کسبیوں نے اُس کا یقین کیا اور تم یہ دیکھ کر پیچھے بھی نہ پچھتائے کہ اُس کا یقین کر لیتے" (انجیل بمطابق متی 21: 31، 32)۔ یہاں یسوع اِس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ آپ کے ساتھ بھی لوگ ویسا ہی برتاﺅ کریں گے جیسے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ساتھ پیش آئے تھے جسے توبہ کرنے والے گنہگاروں نے تو قبول کیا لیکن توبہ نہ کرنے والے یہودیوں کے بزرگوں نے رد کر دیا۔

یوں لگتا ہے کہ متی یسوع مسیح کو پہلے ہی جانتا تھا۔ غالباً اُس نے یسوع کی منادی کئی بار سُنی تھی اور اُس نے اُس پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ ممکن ہے اُس نے مسیح کے کئی معجزات دیکھے ہوں اور بہت سے اَور لوگوں کی طرح اُس پر سادہ ایمان لے آیا ہو۔ شاید اُس نے اپنے ناپسندیدہ کام سے نفرت کرنی شروع کر دی ہو اور اُسے چھوڑنے کی تمنا کر رہا ہو۔ یسوع نے اُس کے دِلی رویہ پر نگاہ کی، اور یوں وہ جانتے تھے کہ متی آپ کی پیروی کرنے کےلئے تیار تھا، اِس لئے آپ نے اُسے دعوت دی۔ متی نے اپنا سب کچھ چھوڑا اور آپ کے پیچھے ہو لیا۔ الہٰی فضل کا کام اُس میں آشکارا تھا، کیونکہ اُس میں روپے پیسے کےلئے محبت جاتی رہی اور اُس نے اپنا سب کچھ مسیح کی خاطر قربان کر دیا۔

متی نے مسیح کی خاطر نہ صرف اپنا نفع بخش کام چھوڑا، بلکہ آپ کےلئے اپنے گھر میں ایک بڑی ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ اُس نے اپنے کئی ساتھیوں کی بھی وہاں ضیافت کی کیونکہ غالباً وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی مسیح کو جان جائیں اور اُس نور کو حاصل کر لیں جو اُسے مل گیا تھا۔ مسیح کے ہر روشن ضمیر پیروکار کو ایسے ہی کرنا چاہئے۔ متی وہ واحد شاگرد تھا جس نے یسوع کےلئے ایسی ضیافت کا اہتمام کیا۔ وہ یسوع کےلئے اپنی ممنونیت کا اظہار کرنا چاہتا تھا کیونکہ مسیحا نے اُسے اپنا شاگرد ہونے کی دعوت دی تھی اور اُسے اُس کی گنہگار حالت سے چھڑایا تھا۔ دیکھئے، متی کو اپنی ملازمت اور آمد ن کھونی پڑی، مگر اُس نے نجات اور گناہوں سے معافی کو پا لیا۔ جو کچھ اُس نے پہلے حاصل کیا تھا اَب اُسے مسیح کی خاطر ایک نقصان سمجھا۔ یسوع نے اُسے ایک ایسا اجر بخشا جو زمانوں تک قائم رہے گا۔

چاروں انجیلی بیانات میں سے متی کی معرفت لکھا گیا انجیلی بیان سب سے پہلے موجود ہے جو دُنیا میں یسوع مسیح کے آنے کی خوشخبری کو پیش کرتا ہے۔ اُس نے بادشاہوں، سائنسدانوں اور اُمراء پر فضیلت کو حاصل کیا۔ اُس کے لکھے گئی انجیلی بیان کی بدولت بہت سی روحیں مسیح کے قدموں میں آئیں۔ جو کوئی بھی عظیم الہٰی معلم مسیحا کی پیروی اور خدمت کرنے کےلئے اِس دُنیا اور اِس کی تمام بری ترغیبوں کا انکار کرتا ہے، وہ کثرت سے اجر پائے گا۔

متی نے اپنی تبدیل شدہ زندگی کا ثبوت پیش کیا کیونکہ اُس نے فوراً لینے کی نسبت دینے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کلیسیا میں شامل ہونے سے وہ اُس پر احسان کر رہے ہیں اور پھر وہ بدلے میں دُنیوی فوائد کی توقع کرتے ہیں۔ وہ پطرس کی مانند خطا کا مظاہرہ کرتے ہیں جب اُس نے مسیح سے کہا تھا "... دیکھ ہم تو سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے ہو لئے ہیں۔ پس ہم کو کیا ملے گا؟" (انجیل بمطابق متی 19: 27)۔ ایمان لانے کی وجہ سے کلیسیا کو اپنا سرپرست سمجھنے کی نسبت بہتر رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی برکات کا ایک بڑا حصہ شکرگزاری کے طور پر دیں۔

اپنے انجیلی بیان میں متی نے بیان کیا ہے کہ کیسے یسوع نے اُسے اپنا شاگرد ہونے کےلئے بلایا۔ حلیمی متی کے کردار کا خاصہ ہے اور اِس وجہ سے متی نے اِس بات کا ذِکر نہیں کیا کہ اُس نے اپنا سب کچھ یسوع کےلئے چھوڑ دیا یا یہ کہ اُس نے یسوع کےلئے ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا۔ صرف مُقدّس لوقا ہمیں اِس بارے میں بتاتا ہے۔

اِسی طرح ایک اَور قابل ذِکر نکتہ یہ ہے کہ مرقس اور لوقا اپنے انجیلی بیان میں شاگردوں کے ناموں کی فہرست میں متی کےلئے "محصول لینے والا" کے الفاظ استعمال نہیں کرتے، لیکن متی اپنے انجیلی بیان میں اِس قابل نفرت خطاب کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ مسیح کو جلال دینا چاہتا ہے جس نے اپنی بڑی فیاضی میں ایک محصول لینے والے کو اپنے چنے ہوئے شاگردوں میں شامل کیا۔

بہت سی زبانوں میں ایک کہاوت ہے کہ "ہم جنس باہم جنس کند پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز"۔ فریسی مسیح کو تضحیک سے دیکھتے تھے کیونکہ آپ نے گنہگاروں کو اپنی رفاقت میں قبول کیا اور اُن کے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ کہاوت مسیح کے بارے میں اُس وقت درست ہوتی کہ اگر آپ نے اُن گنہگاروں کے گناہ میں شمولیت اختیار کی ہوتی۔ لیکن ایسا ہرگز نہ تھا۔ آپ کا گنہگاروں کے ساتھ ملاقات کرنے کا مقصد اُنہیں تبدیل کرنا اور الہٰی نور تک اُن کی راہنمائی کرنا تھا۔

مسیح نے متی کی دعوت قبول کی اور اُس کے گھر میں کھانا کھایا۔ ایسا کرنے سے آپ نے لوگوں کے مختلف گروہوں کے درمیان پائی جانے والی تقسیم کو مٹایا اور دِکھایا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے (اعمال 10: 35)۔ یسوع کے زمانہ کے لوگ اِس حقیقت کو بھول بیٹھے تھے کہ خدا کی نظر میں امیر اور غریب، پڑھے لکھے اور عام سے شخص، بادشاہ اور غلام میں کوئی فرق نہیں۔ یسوع نے اُنہیں یہ اصول سکھایا اور اِسے دُنیا کےلئے ایک قیمتی ورثہ کے طور پر پیچھے چھوڑا۔

اگر متی کے گھر میں ہونے والے اِس غیرمعمولی اکٹھ پر غور کیا جائے تو ایک نمایاں تضاد نظر آتا ہے۔ ایک طرف جناب مسیح ہیں جنہیں آپ کی پیدایش سے پہلے مُقدّس کہا گیا ہے اور آپ کے بارے میں بدارواح نے بھی گواہی دی "... میں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے" (انجیل بمطابق مرقس 1: 24)۔ جبکہ دوسری طرف ہم محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے گروہ کو دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ ایک جگہ کیوں اکٹھے موجود تھے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں یسوع کے الفاظ میں ملتا ہے کہ "میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں۔"

جب یسوع نے متی کی دعوت کو قبول کیا تو فقیہ اور فریسیوں نے گِلہ کیا۔ اُنہیں اعتراض اِس بات پر نہیں تھا کہ محصول لینے والے اپنی ہی طرح کے شخص کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے بلکہ اُنہوں نے اِس بات کی وجہ سے مسیح سے بیزاری کا اظہار کیا کہ آپ قابل نفرت لوگوں کے ساتھ موجود تھے اور اِس بنا پر اُنہیں موردِ الزام ٹھہرایا۔

جب اِسی شہر کے ایک اَور گھر میں یسوع نے ایک مفلوج کو شفا بخشی تو آپ نے یہودیوں کے راہنماﺅں کے دِلی اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اُن کو جھڑکا۔ غالباً اُنہوں نے آپ کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار اعلانیہ اِس لئے نہ کیا تھا کہ وہ اِس بات سے خوفزدہ تھے کہ اُن کی اعلانیہ تنقید کے نتیجہ میں مسیح کا جواب اَور زیادہ سخت ہو گا۔ اِس لئے اُنہوں نے مسیح کے شاگردوں پر چڑھائی کر دی اور اُن سے پوچھنے لگے کہ کیوں اُن کا اُستاد گنہگاروں اور محصول لینے والوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے۔

یسوع نے اپنے شاگردوں کو جواب دینے کا موقع نہ دیا۔ آپ نے فوراً خود اِس بات کا جواب دیا۔ شاگرد ابھی اِس دُنیا میں مسیح کی آمد کے بنیادی مقصد سے متعلق اہم سوال کا تسلی بخش جواب دینے کے قابل نہیں تھے۔ اپنے جواب میں یسوع نے اِس بات کی وضاحت پیش کی کہ آپ کے نظر آنے والے کام تو محض آپ کی رُوحانی خدمت کی علامت تھے، آپ نے انسانی بدنوں کو شفا بخشی تا کہ ظاہر ہو کہ آپ انسانی رُوحوں کے بھی شافی ہیں۔ بیماروں کو شفا دینے میں آپ کی دلچسپی کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں انسانی جانوں کو گناہ سے شفا دینے میں آپ کی رضا کو بھی سمجھنے کی ضرورت تھی۔

مسیح نے یہودی راہنماﺅں پر اِس حقیقت کو واضح کیا کہ آپ رُوحوں کے بھی طبیب ہیں۔ اُنہیں اِس بات کا احساس کرنا چاہئے تھا کہ نجات دہندہ ہونے کی وجہ سے آپ نے راستبازوں میں نہیں بلکہ گنہگاروں میں اپنی خدمت سرانجام دی۔ ایک طبیب اُس بیمار شخص کا علاج نہیں کرتا جو بالکل تندرست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اِسی طرح اگر ایک گنہگار شخص راستباز ہونے کا دعوی کرے تو وہ مسیح کی بخشی جانے والی نجات نہیں پا سکتا۔ لیکن یہودیوں کے یہ راہنما ایسا ہی کر رہے تھے۔ اُنہیں اپنے مذہبی اُستاد ہونے پر فخر تھا اِس لئے اُن کی دانست میں اُنہیں نجات دہندہ کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر وہ واقعی راستباز ہوتے تو کھوئے ہوﺅں کو توجہ دینے اور اُن کی راہ راست کی جانب راہنمائی کرنے پر یسوع کو دیکھ کر خوش ہوئے ہوتے۔ بیماروں پر مسیح کو توجہ دیتے دیکھ کر اُنہیں خوشی کرنی چاہئے تھی۔

جب یسوع نے یہ فرمایا کہ "میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں"، تو آپ نے اِن الفاظ سے توبہ کی اہمیت کا اظہار کیا۔ اَب وہ توبہ کیا ہے جس کی طرف آپ نے لوگوں کو بلایا؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ ایک فرد میں اِس بارے میں آگاہی ہے کہ وہ گنہگار ہے اور گناہ گھناﺅنا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک فرد میں اپنے گناہوں پر غم و ندامت کرنے اور اُنہیں چھوڑنے کا حقیقی عزم مصمم ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ ایسا فرد لازماً الہٰی معافی بخشنے والے خدا میں پناہ ڈھونڈے اور وفادار رہنے کےلئے اُس کی مدد کا طالب ہو۔

4- بیت حسدا کے حوض پر ایک بیمار شخص کو شفا دینا

"اِن باتوں کے بعد یہودیوں کی ایک عید ہوئی اور یسوع یروشلیم کو گیا۔ یروشلیم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتا ہے اور اُس کے پانچ برآمدے ہیں۔ اِن میں بہت سے بیمار اور اندھے اور لنگڑے اور پژمُردہ لوگ جو پانی کے ہِلنے کے منتظر ہو کر پڑے تھے۔ ... وہاں ایک شخص تھا جو اڑتیس برس سے بیماری میں مُبتلا تھا۔ اُس کو یسوع نے پڑا دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ بڑی مُدّت سے اِس حالت میں ہے اُس سے کہا، کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟ اُس بیمار نے اُسے جواب دیا۔ اے خداوند، میرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب پانی ہلایا جائے تو مجھے حوض میں اُتار دے بلکہ میرے پہنچتے پہنچتے دُوسرا مجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا، اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھِر۔ وہ شخص فوراً تندرست ہو گیا۔ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چلنے پھِرنے لگا۔ وہ دِن سبت کا تھا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 5: 1-9)

یوحنا انجیل نویس ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے ایک شخص نے جو اڑتیس برس سے بیمار تھا شفا پائی۔ وہ یروشلیم کے نزدیک بیت حسدا کے حوض کے پاس پڑا رہتا تھا۔ جب بھی اُس حوض کا پانی ہلتا تو لوگوں کا ماننا تھا کہ شفا بخش خواص جاری ہوتے۔ لوگ ہجوم در ہجوم اُس حوض کے پاس پہنچ جاتے۔ اُس کے اردگرد پانچ برآمدے تعمیر کئے گئے تھے تا کہ وہاں لوگ پانی ہلنے کا انتظار کر سکتے۔

ایک سبت کے دِن یسوع اِس حوض کے ایک برآمدے میں تشریف آئے۔ وہاں آپ نے بیماروں، اندھوں، لنگڑوں اور مفلوج لوگوں پر مشتمل پریشان حال بھیڑ دیکھی جو پانی کے ہلنے کی منتظر تھی۔ اِن سب میں سے یسوع نے ایک بوڑھے شخص کو شفا دینے کا فیصلہ کیا اور اپنا ترس ظاہر کر کے معجزہ کیا۔ یسوع نے اِ س خاص شخص کو ہی کیوں چُنا؟ غالباً یہ اُس کی بڑی عمر یا شدید بیماری کی وجہ سے تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑے عرصہ سے اِس حوض پر پڑا تھا۔ ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یسوع کے نزدیک یہ ایسے شخص کی مناسب مثال تھی جسے ایک ایسی بیماری سے روحانی و جسمانی شفا کی ضرورت تھی جس کے بارے میں دوسرے یہ سوچتے تھے کہ یہ اُس کے پوشیدہ گناہوں کا نتیجہ تھی۔ وہ اپنی تکلیف دہ لاعلاج صورتحال پر مایوسی کا شکار تھا۔ جب ایک فرد مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے تو جناب مسیح مدد کےلئے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

مسیح اُس بیمار شخص کے پاس جا کھڑے ہوئے، اُس پر نگاہ کی اور ایک سادہ سا سوال پوچھا: "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" گلیل سے تعلق رکھنے والے اِس معلم انسانیت نے ایک ایسے بیمار شخص میں دلچسپی ظاہر کی جس سے پہلے وہ نہیں ملا تھا۔ یوں بھی ہو سکتا تھا کہ یہ شخص ایک اجنبی کے سوال کو اہمیت نہ دیتا لیکن یسوع کےلئے احترام کی وجہ سے اُس نے آپ کو اپنے احساسات کے بارے میں بتایا۔ بلا شک و شبہ وہ مسیح کی موجودگی اور آواز کی وجہ سے متاثر ہوا ہو گا کیونکہ اُس نے نہایت احترام سے جواب دیا: "اے خداوند، میرے پاس کوئی آدمی نہیں کہ جب پانی ہلایا جائے تو مجھے حوض میں اُتار دے بلکہ میرے پہنچتے پہنچتے دُوسرا مجھ سے پہلے اُتر پڑتا ہے۔" اِس آدمی کو شفا دینے کےلئے یسوع کا واحد تقاضا یہ تھا کہ وہ خود اپنی ضرورت کا اظہارکرتا۔ چونکہ یسوع ہر گنہگار کو شفا پاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، اِس لئے آپ نے اُس شخص سے یہ پوچھا کہ کیا وہ واقعی تندرست ہونا چاہتا تھا۔ خدا چاہتا ہے کہ سب نجات پائیں، لیکن ہر گنہگار کو شخصی طور پر نجات کےلئے درخواست کرنی ہوتی ہے۔

اِس شخص کے جواب سے واضح ہے کہ اُس کی بیماری نے اُسے کس قدر لاغر کر دیا تھا کہ پانی ہلنے پر وہ دوسروں سے پہلے حوض میں نہیں اُتر سکتا تھا۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ اکیلا تھا اور اُس کی مدد کرنے والا کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔ اگر وہ صرف یہ جانتا کہ یسوع اِس لئے اُس کے پاس آئے تھے کہ اُسے کوئی مدد میسر نہ تھی، تو وہ مایوسی سے اُمید کی حالت میں داخل ہو جاتا۔ یہ نجات دہندہ اَب بھی اُن سب کوڈھونڈتا اور بچاتا ہے جو اِس بات کا احساس و اقرار کرتے ہیں کہ اُن کےلئے کوئی اَور مدد نہیں ہے۔ مُقدّس داﺅد نے لکھا: "نہ اُمرا پر بھروسا کرو، نہ آدم زاد پر۔ وہ بچا نہیں سکتا" (زبور 146: 3)۔

اِس بیمار شخص کی حوض کے پاس موجودگی سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ شفا پانا چاہتا تھا۔ لیکن یسوع نے کیوں اُس سے یہ سوال کیا "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟" غالباً اِس کی وجہ یہ تھی کہ طویل بیماری اور حوض تک پہنچنے کی کوشش میں مسلسل ناکامی نے اِس بیمار شخص کے بدن کی طرح اُس کے ارادہ اور ہمت کو بھی کمزور کر دیا تھا۔ اِس لئے یہ ضروری تھا کہ اُس کے ارادہ و ہمت میں پھر سے جان پڑتی تا کہ وہ مسیح کی شفا بخش قوت کے حضور اپنا آپ پیش کر دیتا۔ یسوع اُسے اُس سُستی کی حالت میں سے جگانا چاہتے تھے جس سے وہ مانوس ہو چکا تھا، اور اَب آپ کی اُن گنہگاروں کےلئے بھی یہ رضا ہے جو اپنے گناہوں سے نجات پانے کی اُمید میں بیرونی مذہبی رسومات کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ جب اُس شخص نے اپنی زندگی میں گناہ کی قوت و اثر کو توڑنے کی کوشش کی تو وہ ناکامی سے خوفزدہ تھا، کیونکہ ماضی میں اُسے کئی بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہتری کی کسی اُمید کے بغیر اُس کا ارادہ و ہمت جمود کا شکار ہو گئے تھے اور اُس نے مدد مانگنی بند کر دی تھی۔ اِسی وجہ سے یسوع نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ تندرست ہونا چاہتا تھا۔

جناب مسیح جن کی مدد کرنا چاہتے ہیں اُن سے تاکیدی طور پر پوچھتے ہیں کہ کیا وہ واقعی اُس کی مدد کے طالب ہیں کیونکہ بہت سے لوگ آپ کی طرف سے بخشی جانے والی نجات کو حاصل کرنا نہیں چاہتے۔ مسیح یہ قیمتی بخشش صرف اُنہیں عطا کرتے ہیں جو اپنے پورے دِل سے اِس کے طالب ہوتے ہیں۔

اِس شخص نے شفا پانے کےلئے جس طریقہ پر بھروسا کرنے کا چناﺅ کیا تھا اُس کے برعکس بالکل فرق طرح سے اُسے شفا ملی۔ اُس نے شفا کی برکت کےلئے ہمیشہ حوض کی جانب ہی دیکھا تھا اور اُس وقت کا متمنی ہوتا تھا جس کے بارے میں قیاس یہ کیا جاتا تھا کہ فرشتہ پانی کو ہلاتا ہے۔ لیکن اِس کے برعکس مسیحا وہاں تشریف لائے اور سب فرشتے آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ آپ نے اِس بیمار شخص کو اِس طرح سے مکمل شفا بخشی جس کے بارے میں اُس نے سوچا بھی نہیں تھا۔

مسیح نے اُس بیمار شخص کو کہا "اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھِر۔" ہمیں ہرگز اِس بات پر حیرت نہ ہوتی کہ اگر بیمار شخص نے اِن الفاظ میں جواب دیا ہوتا: "برائے مہربانی میری مدد فرمائیے اور جب پانی ہلے تو مجھے حوض میں اُتار دیں۔ تب میں اپنی چارپائی اُٹھانے اور چلنے کے قابل ہوں گا۔ اگر آپ کو واقعی میری صورتحال سے کوئی دلچسپی ہے تو میرے پاس پانی کے ہلنے کا انتظار کریں۔ اِس ضرورت کے وقت میں میرے دوست بنیں۔ وہ فرد بن جائیں جس کی مدد کا میں ہمیشہ سے منتظر تھا۔" تاہم اِس بیمار شخص نے یہ الفاظ نہ کہے، اُس میں ایمان تھا اور اُس نے اُس کے مطابق عمل کیا اور اِس وجہ سے ہم اُسے سراہ سکتے ہیں۔ اِس شخص سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ نجات کےلئے ضروری آگہی مسیح سے اُس کی تعلیمات پر گیان دھیان کرنے سے ملتی ہے۔ یہ ہماری اپنی پیش بینی یا دوسرے لوگوں سے حاصل نہیں ہوتی۔

چونکہ بیماری سے شفا دینا گناہ سے نجات کی علامت ہے، اِس لئے یسوع نے سبت ہونے کے باوجود بیمار شخص کو شفا دینے میں دیر نہ کی۔ اِسی طرح نجات میں بھی تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ جب یسوع نے اُس آدمی سے کہا "اُٹھ"، تو جو وہ کر سکتا تھا آپ نے اُسے وہ کرنے کےلئے کہا۔ یسوع اَب بھی گنہگاروں سے کہتے ہیں: "یقین رکھو کہ جو تمہیں اپنے پاس آنے کےلئے کہتا ہے وہ ایسا کرنے کےلئے درکار قوت بھی عطا کرے گا۔ تم بائبل مُقدّس پڑھ سکتے ہو، دُعا میں جھک سکتے ہو، دوسرے ایمانداروں میں رفاقت و نصیحت کو پا سکتے ہو، روحانی قائدین کی مشورت کو حاصل کر سکتے ہو۔ اَب اُٹھ جاﺅ، اور رُوحانی طور پر آگے بڑھو۔"

مسیح نے اُس مایوس شخص کے دِل میں اُمید کی شمع جلائی۔ اُ س نے اپنے پٹھوں میں نئی قوت محسوس کی اور فوراً شفا پا گیا، اور پھر وہ اُٹھ کھڑا ہوا، اپنی چارپائی اُٹھائی اور چلنا شروع کر دیا۔ یسوع نے اُس شخص کو چارپائی اُٹھانے کےلئے کہا۔ یوں آپ چاہتے تھے کہ وہ اپنی مُفت اور مکمل ملنے والی فوری شفا کا اظہار کرے تا کہ اُس کے اِس عمل سے اُس کے شافی کو جلال ملتا۔ آپ اُس سے چاہتے تھے کہ وہ اپنی اُس جگہ کو جہاں وہ کئی سال سے پڑا تھا چھوڑ دے اور پھر کبھی وہاں دوبارہ نہ لوٹے۔ یہ ایسے تھا کہ جیسے یسوع نے اُسے اُٹھنے اور اپنے لئے اور دوسروں کےلئے مُفید کام سرانجام دینے کا حکم دیا۔ مسیح گنہگاروں کو کہتے ہیں: "اَب جب تم نے مُفت اور مکمل معافی کو پایا ہے تو جتنا ممکن ہے اپنے گناہوں کے اثرات کو ختم کرو۔ اِس لئے جاﺅ اور اُس کام کو سرانجام دو جو تمہارے لئے اور دوسروں کےلئے خدا کی مرضی ہے۔ بجائے وہ تمہیں سہارا دیں، تم اُنہیں سہارا دو۔ بجائے وہ تمہاری خدمت کریں، تم اُن کی خدمت کرو۔ اپنے بھلے کاموں سے اپنی نجات کا ثبوت دو۔ اپنی پرانی گناہ آلودہ زندگی کی طرف پھر نہ جانے کے اپنے مصمم ارادہ کا اعلان کرو۔"

جب مسیح نے اُس بیمار شخص کو چلنے کےلئے کہا، تو واضح ہے کہ آپ چاہتے تھے کہ وہ شفا پائے۔ آپ اُس سے یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ بیمار لوگوں کی صحبت کو چھوڑے اور تندرست لوگوں کی رفاقت میں شامل ہو، اور اُن کی مانند بن جائے۔ اُسے باہر لوگوں کے پاس جانے کی ضرورت تھی تا کہ اُنہیں دِکھائے کہ یسوع نے اُس کےلئے کیا کیا تھا۔ ہر نجات یافتہ شخص کو اپنی پرانی بگڑی رفاقتوں کو چھوڑنا اور ایمانداروں کی رفاقت میں شامل ہونا چاہئے تا کہ وہ اپنے ایمان میں ترقی کر سکے۔ اپنے الفاظ اور اعمال سے اُسے ہر کسی پر اپنے اندر واقع ہونے والی اہم تبدیلی کو ظاہر کرنا چاہئے، اور ایسا کرنے سے وہ اپنے نجات دہندہ کو جلال دے گا۔ یسوع نے بیت حسدا کے حوضوں کو ایک ایسی جگہ میں بدل دیا جہاں اُن کی شفا دینے کی الہٰی قدرت ظاہر ہوئی۔ یسوع توبہ کرنے والی جگہ کو نجات کی جگہ بنا دیتے ہیں۔

"پس یہودی اُس سے جس نے شفا پائی تھی، کہنے لگے کہ آج سبت کا دِن ہے۔ تجھے چارپائی اُٹھانا رَوا نہیں۔ اُس نے اُنہیں جواب دیا، جس نے مجھے تندرست کیا، اُسی نے مجھے فرمایا کہ اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھِر۔ اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کون شخص ہے جس نے تجھ سے کہا، چارپائی اُٹھا کر چل پھِر؟ لیکن جو شفا پا گیا تھا وہ نہ جانتا تھا کہ کون ہے کیونکہ بھِیڑ کے سبب سے یسوع وہاں سے ٹل گیا تھا۔ اِن باتوں کے بعد وہ یسوع کو ہیکل میں مِلا۔ اُس نے اُس سے کہا، دیکھ تُو تندرست ہو گیا ہے۔ پھِر گناہ نہ کرنا۔ اَیسا نہ ہو کہ تجھ پر اِس سے بھی زیادہ آفت آئے۔ اُس آدمی نے جا کر یہودیوں کو خبر دی کہ جس نے مجھے تندرست کیا وہ یسوع ہے۔ اِس لئے یہودی یسوع کو ستانے لگے کیونکہ وہ اَیسے کام سبت کے دِن کرتا تھا۔ لیکن یسوع نے اُن سے کہا کہ میرا باپ اَب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں۔ اِس سبب سے یہودی اَور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا بلکہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا تھا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 5: 10-18)

بیمار شخص نے اپنے شفا دینے والے کے حکم کی پیروی کی۔ اُس نے اپنی چارپائی اُٹھائی اور لوگوں کے درمیان چلنے لگ پڑا۔ یہ سبت کا دِن تھا۔ یہودی بزرگوں نے اُس پر تنقید کی اور جب اُس سے پوچھا کہ وہ کون شخص ہے جس نے تجھ سے کہا چارپائی اُٹھا کر چل پھِر، تو اُس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ بہت سے لوگ اپنے لئے یسوع کے کاموں پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، تاہم وہ آپ کے ساتھ ایک گہرے تعلق کو پروان چڑھانے یا ملنے والی نجات کےلئے یسوع کی شکرگزاری کا اظہار کرنے کی فکر نہیں کرتے۔

یہودی بزرگ پوری طرح سے مذہبی جنونیت کے اندھے پن کا شکار ہو گئے۔ وہ یسوع پر الزام لگانا چاہتے تھے کیونکہ آپ نے بیمار شخص کو سبت کے دِن اپنی چارپائی اُٹھانے کےلئے کہا تھا۔ اُنہوں نے بیمار شخص سے یہ پوچھنے کا تکلُّف نہ کیا کہ وہ کون تھا جس نے اُسے شفا بخشی تھی۔ بلکہ اِس کے برعکس اُنہوں نے پوچھا: "وہ کون شخص ہے جس نے تجھ سے کہا، چارپائی اُٹھا کر چل پھِر؟" اور جب اُنہیں پتا چلا کہ وہ نہیں جانتا تو وہاں سے چلے گئے۔ لیکن یسوع نے اُسے چھوڑ نہ دیا۔ آپ اُس سے ہیکل میں ملے اور اُسے کہا: "دیکھ تُو تندرست ہو گیا ہے۔ پھِر گناہ نہ کرنا۔ اَیسا نہ ہو کہ تجھ پر اِس سے بھی زیادہ آفت آئے۔" ایک فرد کے تمام دُکھ تکالیف اُس کے اندر سے برے رجحانات کو ختم نہیں کر دیتے۔ اُس شفا پانے والے شخص کی گزری مصیبت اِس بات کی ضمانت نہ تھی کہ وہ گناہ سے دُور رہے گا۔ اِسی لئے یسوع نے اُسے تنبیہ کی کہ پھر گناہ کی طرف نہ لوٹ جائے۔

جیسے ہی اُس شخص کو اپنے شفا دینے والے کے نام کا پتا چلا تو اُس نے یہودی بزرگوں کو اِس بارے میں بتا دیا۔ وہ مسیح کو قتل کرنا چاہتے تھے کیونکہ آپ نے سبت کے دِن شفا بخشی تھی اور خدا کو اپنا باپ کہتے تھے۔ اُن کی دانست میں آپ اپنے آپ کو خدا کے برابر ٹھہرا رہے تھے۔ صحائف مُقدّسہ میں ہم بنی نوع انسان کے بارے میں تسلسل سے یہ بیان پاتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ تاہم اِس بیان کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ لوگ خدا کے برابر ہیں۔ چونکہ یسوع نے خدا کے ساتھ اپنی برابری پر زور دیا اِس لئے یہودی بزرگوں نے آپ کے الفاظ کو بےحرمتی کرنے والے الفاظ تصور کیا، اور اُنہوں نے اِس بارے میں سوچنا شروع کر دیا کہ کُفر کے مرتکب ہونے پر کیسے مسیح کو قتل کیا جائے۔ حقیقت میں تو ہمیں اُن کی یسوع کے خلاف سخت مزاحمت کےلئے اُن کے ممنون ہونا چاہئے کیونکہ اِس سے مسیح کو سب کے سامنے اپنی الہٰی فطرت اور باپ کے ساتھ گہری رفاقت کا اعلان کرنے کا موقع ملا۔

"پس یسوع نے اُن سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سِوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے۔ اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اُسے دِکھاتا ہے بلکہ اِن سے بھی بڑے کام اُسے دِکھائے گا تا کہ تم تعجب کرو۔ کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔ کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کیا ہے۔ تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے۔ کیونکہ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔ بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لئے کہ وہ آدم زاد ہے۔ اِس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔ میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ جیسا سُنتا ہوں عدالت کرتا ہوں، اور میری عدالت راست ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 5: 19-30)

مسیح نے خدا اپنے باپ کے ساتھ برابری کے اپنے دعوے کا انکار نہ کیا۔ آپ خاموش بھی نہ رہے تا کہ کہیں آپ کی خاموشی کے بارے میں یہ تصور نہ کیا جاتا کہ آپ اُن کی رائے کو تسلیم کر رہے تھے۔ آپ نے اِس کے بالکل برعکس کیا اور اُن کے الزام پر یہ کہتے ہوئے وضاحت پیش کی کہ جن کاموں کو باپ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے۔ اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اُسے دِکھاتا ہے۔ جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔ کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپُرد کیا ہے۔ تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا۔ جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتا ہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔ بلکہ اُسے عدالت کرنے کا بھی اِختیار بخشا۔ اِس لئے کہ وہ آدم زاد ہے۔

مسیح نے خدا کے اپنے باپ ہونے یا اُس کی ذات میں مساوی طور پر شریک ہونے کی حقیقت کا انکار نہ کیا۔ آپ اِس بارے میں خاموش نہ رہے بلکہ اِس حقیقت کی مزید تائید اپنے اِن الفاظ سے کی: "اگر میں خود اپنی گواہی دوں تو میری گواہی سچی نہیں۔ ایک اَور ہے جو میری گواہی دیتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ میری گواہی جو وہ دیتا ہے سچی ہے۔ تم نے یوحنا کے پاس پیام بھیجا اور اُس نے سچائی کی گواہی دی ہے۔ لیکن میں اپنی نسبت انسان کی گواہی منظور نہیں کرتا تَو بھی میں یہ باتیں اِس لئے کہتا ہوں کہ تم نجات پاﺅ۔ وہ جلتا اور چمکتا ہُوا چراغ تھا، اور تم کو کچھ عرصہ تک اُس کی روشنی میں خوش رہنا منظور ہُوا۔ لیکن میرے پاس جو گواہی ہے، وہ یوحنا کی گواہی سے بڑی ہے کیونکہ جو کام باپ نے مجھے پورے کرنے کو دیئے یعنی یہی کام جو میں کرتا ہوں وہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔ اور باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسی نے میری گواہی دی ہے۔ تم نے نہ کبھی اُس کی آواز سُنی ہے اور نہ اُس کی صورت دیکھی۔ اور اُس کے کلام کو اپنے دِلوں میں قائم نہیں رکھتے کیونکہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس کا یقین نہیں کرتے۔ تم کتابِ مُقدّس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے، اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔ پھِر بھی تم زندگی پانے کےلئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے۔ میں آدمیوں سے عزت نہیں چاہتا۔ لیکن میں تم کو جانتا ہوں کہ تم میں خدا کی محبت نہیں۔ میں اپنے باپ کے نام سے آیا ہوں اور تم مجھے قبول نہیں کرتے۔ اگر کوئی اَور اپنے ہی نام سے آئے تو اُسے قبول کر لو گے۔ تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو، اور وہ عزت جو خدایِ واحِد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے، کیونکر ایمان لا سکتے ہو؟ یہ نہ سمجھو کہ میں باپ سے تمہاری شکایت کروں گا۔ تمہاری شکایت کرنے والا تو ہے یعنی موسیٰ جس پر تم نے اُمّید لگا رکھی ہے۔ کیونکہ اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اِس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے، لیکن جب تم اُس کے نوِشتوں کا یقین نہیں کرتے تو میری باتوں کا کیونکر یقین کرو گے؟" (انجیل بمطابق یوحنا 5: 31-47)

یسوع نے خدا کا بیٹا ہونے کے تعلق سے پانچ گواہیوں کا ذِکر کیا ہے:

1- یوحنا بپتسمہ دینے والے کی گواہی۔ مسیح کے سامعین غالباً پہلے ہی یوحنا بپتسمہ دینے والے کے یسوع کے خدا کا بیٹا ہونے کے اعلان کو سُن چکے تھے۔ مسیح نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی گواہی کی طرف اِس لئے اشارہ کیا کیونکہ اُس کے سامعین اُس کی سچائی پر شک نہ کر سکتے تھے، اُس کا انکار نہ کر سکتے تھے۔ اِس لئے مسیح نے اپنے سامعین کی مدد کرنے کےلئے اُس کی گواہی کا ذِکر کیا تا کہ وہ ایمان لاتے کہ یسوع خدا کا بیٹا تھا۔

2- اپنے عظیم کاموں اور معجزات کی گواہی۔

3- اُس ذات کی گواہی جس کی عظمت و بڑائی کا کسی دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا یعنی باپ خود۔ یسوع کے سامعین گناہ میں اِس قدر گہرے طورپر غرق ہو چکے تھے کہ وہ باپ کی آواز کو سُن نہیں رہے تھے۔ وہ باپ پر یسوع کی طرح نگاہ کرنے کے قابل نہ تھے۔

4- کتاب مُقدّس کی گواہی۔ مسیح نے فرمایا: "تم کتابِ مُقدّس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے، اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔"

5- شریعت کے دینے والے موسیٰ نبی کی گواہی۔ یسوع نے فرمایا: "اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اِس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے، لیکن جب تم اُس کے نوِشتوں کا یقین نہیں کرتے تو میری باتوں کا کیونکر یقین کرو گے؟"

مسیح نے باپ کے تفویض کردہ اپنے دوہرے کام کا بیان کیا یعنی زندگی کو بحال کرنا اور اُس کی عدالت کرنا۔ تاہم آپ نے یہ واضح کیا کہ لوگ اپنے ہی چناﺅ کی وجہ سے سزایافتہ ٹھہرتے ہیں: "تم زندگی پانے کےلئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے۔" آپ نے اپنے سامعین کے سامنے اپنی انسانیت پر بھی زور دیا تا کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھنے لگ جاتے کہ آپ اپنی فطرت میں صرف الہٰی ہی تھے۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ باپ نے اُنہیں آدم زاد ہونے کی وجہ سے عدالت کرنے کا اختیار بخشا ہے۔ فلپیوں 2: 5-11 میں اِس بات کی وضاحت یوں کی گئی ہے: "ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا، خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور اِنسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور اِنسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا، اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سربلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گُھٹنا جُھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 5-11)

عزیز قاری، آپ مسیح کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ جو کچھ انجیل مُقدّس آپ کے بارے میں بیان کرتی ہے کیا آپ اُس پر ایمان لائیں گے؟

5- یسوع کا روزہ کے بارے میں تعلیم دینا

"اور یوحنا کے شاگرد اور فریسی روزہ سے تھے۔ اُنہوں نے آ کر اُس سے کہا، یوحنا کے شاگرد اور فریسیوں کے شاگرد تو روزہ رکھتے ہیں لیکن تیرے شاگرد کیوں روزہ نہیں رکھتے؟ یسوع نے اُن سے کہا، کیا براتی جب تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں؟ جس وقت تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے وہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ مگر وہ دِن آئیں گے کہ دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا۔ اُس وقت وہ روزہ رکھیں گے۔ کورے کپڑے کا پیوند پُرانی پوشاک پر کوئی نہیں لگاتا۔ نہیں تو وہ پیوند اُس پوشاک میں سے کچھ کھینچ لے گا یعنی نیا پُرانی سے اور وہ زیادہ پھٹ جائے گی۔ اور نئی مے کو پرانی مشکوں میں کوئی نہیں بھرتا۔ نہیں تو مشکیں مے سے پھٹ جائیں گی اور مے اور مشکیں دونوں برباد ہو جائیں گی بلکہ نئی مے کو نئی مشکوں میں بھرتے ہیں۔" (انجیل بمطابق مرقس 2: 18-22)

یوں معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد یہودی دستور کے مطابق روزہ سے تھے، جبکہ یسوع اور آپ کے شاگرد روزہ سے نہ تھے۔ جب متی محصول لینے والا یسوع کی پیروی کرنے کےلئے بلایا گیا تو اُس نے یسوع اور آپ کے شاگردوں کےلئے ایک ضیافت تیار کی۔ اِس کے نتیجہ میں یہودی راہنماﺅں نے تنقید کی۔

یہودی روزہ کو بہت اہمیت دیتے تھے، اور آج بھی اِسے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ شریعت کے مطابق اُن کےلئے ہر سال کفارہ کے دِن روزہ رکھنا لازمی تھا۔ اُنہوں نے سمجھا کہ اُن کا روزہ خدا کو خوش کرتا ہے، اِس لئے اُنہوں نے بابل کی اسیری سے واپس آنے کے بعد کچھ اَور سالانہ روزے مقرر کر لئے۔ مزید برآں اُنہوں نے ہر ہفتہ دو روزے اپنے اوپر عائد کر دیئے۔ مسیح کے جواب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روزہ رکھنا ایک اختیاری بات ہے اور اِس کا انحصار حالات پر ہے۔ سوائے اُس وقت کے جب روزہ رکھنا موزوں و مناسب ہے روزہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اِسے فریضہ نہیں بن جانا چاہئے کہ جسے عمومی حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے مخصوص اوقات میں سرانجام دیا جائے۔

چونکہ یہودی درست محرکات کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے تھے اِس لئے اکثر خدا کو اُن کی خود انکاری ناقابل قبول لگتی تھی۔ یسعیاہ نبی نے اِس بارے میں لکھا ہے کہ خدا اُن کے روزے کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یسعیاہ 58: 3 میں یہودیوں کو خدا کے حضور یہ شکایت کرتے بیان کیا گیا ہے:

"وہ کہتے ہیں ہم نے کس لئے روزے رکھے جبکہ تُو نظر نہیں کرتا اور ہم نے کیوں اپنی جان کو دُکھ دیا جبکہ تُو خیال میں نہیں لاتا؟"

اِس بات کا جواب خدا نے اُنہیں یہ دیا:

"... دیکھو تم اپنے روزہ کے دِن میں اپنی خوشی کے طالب رہتے ہو، اور سب طرح کی سخت محنت لوگوں سے کراتے ہو۔ دیکھو تم اِس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مکے مارو۔ پس اَب تم اِس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالم بالا پر سُنی جائے۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے؟ ایسا دِن کہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دُکھ دے اور اپنے سر کو جھاﺅ کی طرح جُھکائے اور اپنے نیچے ٹاٹ اور راکھ بِچھائے؟ کیا تُو اِس کو روزہ اور ایسا دِن کہے گا جو خداوند کا مقبول ہو؟" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 58: 3-7)

مقبول روزہ وہ ہے جو حقیقی غم کے نتیجہ میں رکھا جاتا ہے۔ غور کیجئے کہ غمزدہ شخص کھانا نہیں کھاتا۔ وہ اپنے غم کی وجہ سے کھانے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا، کیونکہ اُس کا جسم آسانی سے کھانا ہضم نہیں کر سکتا۔ خوشی سے بھرپور رویہ ہاضمہ کے عمل میں مدد دیتا ہے جبکہ غم و افسوس سے اِس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ رُوح کی شکستگی کے بغیر جسم کی انکساری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پہاڑی پر دیئے گئے اپنے وعظ میں یسوع نے ہمیں روزہ میں غرور اور ریاکاری کے خلاف تنبیہ کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ روزہ جو خدا قبول کرتا ہے وہ ہے جسے سوائے خدا کے اور روزہ رکھنے والے کے کوئی نہیں جانتا (انجیل بمطابق متی 6: 16-18)۔

یہودی بزرگوں سے روزہ کی بابت بات کرتے ہوئے یسوع نے وضاحت کی کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگردوں کے پاس روزہ کی ایک وجہ تھی۔ اُن کے اُستاد کو اُن سے چھین کر بےانصافی سے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا تھا۔ جبکہ یسوع کے شاگردوں کے پاس روزہ رکھنے کی کوئی وجہ نہ تھی کیونکہ اُن کا اُستاد اَب بھی اُن کے ساتھ تھا۔ یسوع نے کہا کہ ایک وقت آئے گا جب اُن کا دُلہا (یعنی وہ خود) اُن سے لے لیا جائے گا، تب وہ روزہ رکھیں گے۔ ایسا کہنے سے یسوع یہودیوں کی سفاکی اور سخت دِلی کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس کا نتیجہ آپ کی مصلوبیت کی صورت میں نکلنا تھا۔ جی ہاں، یسوع نے صلیب پر اپنا آپ بہ رضا و رغبت پیش کیا، لیکن آپ کی موت آپ کے اپنے لوگوں کی عداوت کے نتیجہ میں سامنے آئی۔ یسعیاہ نبی نے اِس کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا: "وہ ظلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے" (یسعیاہ 53: 8)۔ پطرس رسول نے اِس کا نقشہ اِن الفاظ میں کھینچا ہے: "جب وہ خدا کے مقررہ انتظام اور علم سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بےشرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کروا کر مار ڈالا" (نیا عہدنامہ، اعمال الرُّسل 2: 23)۔

جب یسوع نے روزہ کے بارے میں بات کی تو یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد سب سُن رہے تھے۔ یسوع نے اُنہیں اِس بات کی یاد دہانی کرائی کہ اُن کے اُستاد نے یسوع کو دُلہا سے اور اُس کے شاگردوں کو براتیوں سے تشبیہ دی تھی۔ جب تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے براتی کیسے ماتم کر سکتے اور روزہ رکھ سکتے ہیں؟ اپنے اور اپنے شاگردوں کے درمیان مکمل یگانگت کی وضاحت کےلئے یہ مسیح کی پیش کی گئی انتہائی اہم ترین مثال ہے۔ یہ یگانگت ایک دُلہا اور اُس کی دُلہن میں تعلق کی مانند ہے۔ جناب یسوع ایمانداروں سے نہ صرف موت تک محبت رکھتے ہیں بلکہ تمام ابدیت تک بھی محبت کرنا جاری رکھیں گے۔ اِس محبت کا نتیجہ آپ کے اور تمام ایمانداروں کے درمیان مکمل یگانگت کی صورت میں نکلتا ہے۔ دونوں ایک ہو جاتے ہیں، وہ مسیح میں ہیں اور مسیح اُن میں ہے۔

ایماندار بدن ہیں اور مسیح اُس بدن کا سر ہے۔ مسیح خدا کے حضور اُن کے تمام قرض ادا کرتے ہیں، اُن کی تمام ضرورتیں پوری کرتے ہیں، اُن کی مشکلات میں شریک ہوتے ہیں اور اُن کے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ آپ اُن کی کمزوری میں اُن سے ہمدردی کرتے ہیں، اُن کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں اور اُنہیں تنہا نہیں چھوڑتے۔ اگر کوئی ایمانداروں سے اچھائی یا برائی سے پیش آئے تو مسیح اِسے گویا اپنے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک تصور کرتے ہیں۔ آپ اُنہیں وہ جلال دینے کےلئے تیار ہیں جو دُنیا کی تخلیق سے پہلے آپ باپ کے ساتھ رکھتے تھے۔ جہاں آپ ہیں، وہاں وہ بھی ہوں گے۔ یہ شاندار تعلق یسوع پر ایمان لانے اور آپ کے ساتھ ایک ہو جانے کا پُرمُسرّت نتیجہ ہے۔

جب مسیح نے اِس بات کی وضاحت کی کہ آپ کے ساتھ ایمانداروں کی یگانگت دُلہے اور دُلہن کے تعلق کو ظاہر کرتی ہے، تو پھر آپ نے موسوی روایات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

آپ نے دو تمثیلیں سُنائیں جو خاص طور پر یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگردوں کےلئے تھیں، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یسوع کی لائی ہوئی خوشخبری موسیٰ کی لائی ہوئی قدیم تعلیم کے ساتھ اضافہ کے طور پر ہے۔ اُنہوں نے سمجھا کہ قدیم قائم رہے گا اور اُسے نئے سے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اِس کا یہ مطلب تھا کہ مسیح اور اُس کے شاگردوں کو تمام یہودی رسوم پر عمل کرنا ضروری تھا۔ لیکن یسوع نے کہا کہ اگر نیا قاعدہ قانون پرانے سے جُڑا رہے گا تو اُسے نقصان پہنچائے گا۔ آپ نے کہا: "کورے کپڑے کا پیوند پرانی پوشاک پر کوئی نہیں لگاتا۔ نہیں تو وہ پیوند اُس پوشاک میں سے کچھ کھینچ لے گا یعنی نیا پرانی سے اور وہ زیادہ پھٹ جائے گی" (انجیل بمطابق مرقس 2: 21)۔

کوئی دانا شخص ایسا نہیں کرے گا، نہ ہی وہ نئی مے پرانی مشکوں میں ڈالے گا، کیونکہ اِس سے مشک اور مے دونوں کا نقصان ہو گا۔ کپڑے لوگوں کو لباس مہیا کرتے ہیں، جبکہ مشکیزوں میں مے رکھی جاتی ہے۔ مسیح نے سکھایا کہ جب کپڑا اپنا کام کر چکے اور پرانا ہو جائے تو اُسے استعمال نہیں کرتے بلکہ اُس کی جگہ نیا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ اُس کا پیوند نہیں لگایا جاتا۔ اِس کامطلب یہ نہیں ہے کہ پرانا بُرا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ پرانے کا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ جب ایک شخص کو شادی میں جانا ہو تو وہ پرانے کپڑے کو جس میں سوراخ ہوں لے کر پیوند نہیں لگاتا۔ وہ اُس موقع کےلئے نئے کپڑے خریدتا ہے۔ یہ بات ہماری مذہبی زندگی کے بارے میں بھی سچ ہے۔ اگر یوحنا بپتسمہ دینے والے کا یا فریسیوں کا کوئی شاگرد آسمانی دُلہے مسیح کی پیروی کرنا چاہتا تھا تو اُسے نئے کپڑے پہننے کی ضرورت تھی یعنی اُنہیں نئے ضابطہ عمل کو اپنانا تھا، مثلاً ختنہ کی جگہ بپتسمہ، فسح کی جگہ عشائے ربانی، لاویوں کی کہانت کی جگہ تمام ایمانداروں کی کہانت، ساتویں دِن کی جگہ ہفتے کے پہلے دِن عبادت، اور ہیکل کی جگہ ایمانداروں کی تمام جماعت کلیسیا۔

اِس مثال کے ساتھ یسوع نے اِس حقیقت کی وضاحت کی کہ روایتی موسوی ضابطہ عمل اپنا مقصد پورا کر چکا تھا اور یوں پرانا ہو گیا تھا۔ اُس میں ترمیم نہیں کی جا سکتی تھی بلکہ اُس کی جگہ کسی برتر ضابطہ کی ضرورت تھی۔ موسیٰ کی شریعت مذہب کی بیرونی تہہ کی مانند تھی۔

دوسری مثال میں یسوع نے بتایا کہ جو کوئی آپ کی نئی تعلیم کو قبول کرتا ہے، اُسے ایک نئے دِل سے اِسے قبول کرنے کی ضرورت ہے جو رُوح القدس کے کام کے باعث ہو سکتا ہے۔ جب مسیح نے اپنی گفتگو کو اِن الفاظ سے ختم کیا کہ "اور کوئی آدمی پرانی مے پی کر نئی کی خواہش نہیں کرتا کیونکہ کہتا ہے کہ پرانی ہی اچھی ہے" (انجیل بمطابق لوقا 5: 39)، تو آپ کا مطلب تھا کہ نیا دِل ایک نئی مشک کی مانند ہے جو نئی مے یعنی طاقتور مسیحی پیغام کے دباﺅ کو برداشت کر سکتا ہے۔

مُقدّس بیسِلیئس نے بھی اِس کی ایسے ہی تشریح کی ہے۔

مُقدّس اگستین نے کہا کہ اِس کی تکمیل عید پینتیکوست کے دِن ہوئی جب نئے مے نئی مشکوں میں بڑی قوت سے اُنڈیلی گئی، جب آسمانی پیدایش پانے والے نئے شاگردوں کو رُوح القدس نے بھر دیا۔

کچھ مُفسّروں نے پرانی مشکوں کو فریسیوں کے طور پر اور نئی مشکوں کو رسولوں کے طور پر بیان کیا ہے۔

یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد پرانی مشکوں سے وابستہ رہے۔ زیادہ تر لوگ یہی کرتے ہیں۔ اُنہیں احساس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ نئی پرانی سے کہیں بہتر ہے۔ یہ فہم ہوشمندی کے ساتھ کئے گئے گیان دھیان اور غور و فکر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ اِ س نئے نور کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ آگہی رکھنا بہت اہم ہے۔ ہمیں کرخت یا گھمنڈی نہیں ہونا، بلکہ اِس بات کا تعین کرنا چاہئے کہ کون سی رکاوٹیں اُن کی راہ میں کھڑی ہیں جو اُنہیں نئی مے کی برتری کو دیکھنے نہیں دے رہیں۔

6- یسوع کا سبت کے بارے میں تعلیم دینا

"پھِر سبت کے دِن یوں ہُوا کہ وہ کھیتوں میں ہو کر جا رہا تھا اور اُس کے شاگرد بالیں توڑ توڑ کر اور ہاتھوں سے مَل مَل کر کھاتے جاتے تھے۔ اور فریسیوں میں سے بعض کہنے لگے، تم وہ کام کیوں کرتے ہو جو سبت کے دِن کرنا روا نہیں؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، کیا تم نے یہ بھی نہیں پڑھا کہ جب داﺅد اور اُس کے ساتھی بھوکے تھے تو اُس نے کیا کیا، وہ کیونکر خدا کے گھر میں گیا اور نذر کی روٹیاں لے کر کھائیں جن کو کھانا کاہنوں کے سِوا اَور کسی کو روا نہیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی دیں؟ پھِر اُس نے اُن سے کہا کہ ابنِ آدم سبت کا مالک ہے۔" (انجیل بمطابق لوقا 6: 1-5)

یسوع اور اُ س کے شاگرد کھیتوں میں لگی فصل میں سے گزر کر جا رہے تھے۔ شاگردوں نے کچھ بالیں توڑیں اور اُنہیں کھانے لگ گئے۔ موسیٰ کی شریعت میں اِس بات کی اجازت تھی۔ لکھا ہے: "جب تُو اپنے ہمسایہ کے کھڑے کھیت میں جائے تو اپنے ہاتھ سے بالیں توڑ سکتا ہے، پر اپنے ہمسایہ کے کھڑے کھیت کو ہنسوا نہ لگانا" (توریت شریف، اِستثنا 23: 25)۔ تاہم جب یسوع کے شاگردوں نے ایسا کیا تو یہ سبت کا دِن تھا، اور یہودی بزرگوں نے ٹھہرا دیا تھا کہ بالیں توڑنا فصل کاٹنے کے برابر ہے، اور سبت کو فصل کاٹنے کی اجازت نہ تھی۔ اُنہوں نے اناج کی چند بالوں کے ملنے کو غلہ سے بھوسی کو علیحدہ کرنے کا کام گردانا، جس کی سبت کے دِن اجازت نہیں تھی۔ اِس لئے یہودی بزرگوں نے شاگردوں کے عمل کو دس احکام میں سے ایک کو توڑنے کا مرتکب سمجھا۔ دس احکام خدا تعالیٰ نے موسیٰ نبی کو کوہِ سینا پر دیئے تھے۔ اِن احکام کے دیئے جانے کے وقت گرج اور چمک نے اِن کی اہمیت و شدت کو واضح کیا۔ رسوم و رواج کی بجاآوری کرنے والے یہودی بزرگوں نے سبت کو ماننے کے حکم کو بڑی سختی سے تھام رکھا تھا کیونکہ اِس کا تعلق ظاہری تعمیل سے تھا۔ وہ ہر قسم کی سرگرمی پر ممانعت کی غرض سے بڑی انتہا تک نکل گئے، جس سے شریعت کے حقیقی مقصد سے بھی پہلوتہی ہوئی۔

جو کچھ مسیح کے شاگردوں نے کیا تھا، فریسیوں نے اُس پر تنقید کی۔ اُنہوں نے کہا: "تم وہ کام کیوں کرتے ہو جو سبت کے دِن کرنا روا نہیں؟" یسوع نے توریت کا اقتباس کرنے سے اُنہیں جواب دیا، جسے اُن لوگوں نے یاد بھی کیا ہوا تھا۔ آپ نے اُن کی سرزنش کی کیونکہ جو کچھ اُن کے عظیم بادشاہ، راہنما اور نبی داﺅد نے کیا تھا اُسے بُھلا بیٹھے تھے۔ جب داﺅد نبی اور اُن کے ساتھی بھوکے تھے تو اُنہوں نے اُن نذر کی روٹیوں میں سے کھایا جو صرف کاہنوں کو کھانے کی اجازت تھی۔ اگر خدا نے اِس کےلئے داﺅد نبی کو نہ جھِڑکا تو پھر ابنِ داﺅد جو کہیں بڑا تھا یقیناً اپنے شاگردوں کو سبت کے دِن اناج کی بالیں توڑنے اور کھانے کی اجازت دے سکتا تھا۔

مسیح کی تعلیمات کے مطابق اپنے پورے وجود سے خدا سے محبت کرنے کا پہلا حکم، اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کے دوسرے حکم سے مختلف نہیں ہے۔ ہم خدا کو اُس وقت خوش نہیں کر سکتے کہ جب ایک طرف سبت کو تو منائیں لیکن دوسری طرف دیگر لوگوں سے بےرحمی سے پیش آئیں۔ اِس لئے، مسیح نے اپنے سامعین کو نبوتانہ الفاظ کی یاد دہانی کرائی جو یہ ہیں کہ "کیونکہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں اور خدا شناسی کو سوختنی قربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں" (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 6: 6)۔ اگر یسوع کے سامعین اِس حوالہ کے معنٰی سے واقف ہوتے تو وہ آپ کے بےگناہ شاگردوں کے بارے میں ایسی بات نہ کرتے۔

پھر یسوع نے ایک اَور مثال پیش کی جو سبت کے تعلق سے تھی اور جس سے یہود ی راہنما بخوبی واقف تھے۔ یہ الہٰی احکام کی فرمانبرداری تھی اور انسانی روایت نہ تھی۔ آپ نے کہا "تم نے توریت میں نہیں پڑھا کہ کاہن سبت کے دِن ہیکل میں سبت کی بےحرمتی کرتے ہیں اور بےقصور رہتے ہیں؟" (انجیل بمطابق متی 12: 5)۔ وہ قربانیوں کےلئے آگ جلانے سے اور مذہبی خدمت کی خاطر دُگنی محنت کے کام کو سرانجام دینے سے سبت کی بےحرمتی کرتے تھے۔

اِس موقع پر مسیح نے اپنے مذہبی اختیار کا پُرزور دعویٰ کیا۔ آپ نے ہیکل سے بھی بڑے ہونے کا دعویٰ کیا کیونکہ آپ تو اُس کے مالک ہیں۔ اگر عظیم الشان ہیکل کی خدمت کےلئے سبت کے قوانین کو توڑنے کی اجازت تھی، تو اِنسان کی قائم کی ہوئی ممانعتوں کو جو اُس دِن کے تعلق سے یہودیوں نے ٹھہرائی تھیں، ہیکل کے خداوند کو توڑنے کا کس قدر زیادہ حق حاصل تھا کیونکہ آپ ہیکل اور سبت دونوں کے مالک ہیں۔ درحقیقت، آپ تو خود ہی ہیکل ہیں کیونکہ الوہیت کی ساری معموری آپ ہی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے (نیا عہدنامہ، کُلُسِّیوں 2: 9)۔ آپ میں خدا کےلئے حقیقی پرستش پیش کی جاتی ہے کیونکہ آپ خدا اور انسان کے مابین درمیانی ہیں (نیا عہدنامہ، 1-تیمتھیس 2: 5)۔ اگر ہیکل سبت سے عظیم ہے، تو ہیکل کا مالک کس قدر عظیم تر ہے!!

مسیح نے سبت کے تعلق سے ایک اضافی بیان بھی دیا۔ آپ نے کہا کہ یہ دِن انسان کےلئے بنا ہے، نہ کہ انسان اِس دِ ن کےلئے بنا ہے (انجیل بمطابق مرقس 2: 27)۔ سبت اور ہیکل دونوں انسان کی خدمت کےلئے ہیں۔ یسوع سبت کا مالک ہے، اور آپ نے اِسے عزت بخشی۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ آپ نے اِس کی افادیت کو وسعت عطا کی اور اِسے فریسیوں کی بندشوں سے آزادی بخشی۔ اگر مسیحا محض ایک انسان ہوتے، تو آپ کو اپنے آپ کو سبت کا مالک کہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔

نئے عہدنامہ کی کئی آیات سے، خاص طور پر وہ جو مسیح کے جی اُٹھنے کے تعلق سے ہیں، ہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسیح نے عبادت کے بنیادی دِن کو ہفتہ کے آخری دِن سے اُس کے پہلے دِن اتوار کو منتقل کرنے کےلئے اپنے سبت کے مالک ہونے کے اختیار کو استعمال کیا۔ اتوار کو "خداوند کا دِن" کہا جانے لگا۔ یہاں اصول یہ ہے کہ ہر ہفتہ نیک کاموں (رحمدِلی کے کام)، عبادت اور آرام کےلئے ایک دِن مخصوص کیا جائے۔ جب ہم ہفتہ کے ایک دِن کو مکمل طور پر خداوند کی پرستش اور خدمت کےلئے وقف کرتے ہیں تو اِس الہٰی حکم کے مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ مسیح کے رسولوں نے رُوح القدس کی راہنمائی اور تحریک میں اِس دِن کو ہفتہ کے ساتویں دِن سے پہلے دِن کی طرف منتقل کیا۔ لیکن اِس سے حکم کی رُوح یا اِس کا مقصد تبدیل نہیں ہوا۔ خدا نے پرانے عہدنامہ میں ساتویں دِن کو ایک خاص جگہ دی، لیکن نئے عہد کے زمانہ کےلئے ایک شاندار تر دِن، ہفتہ کا پہلا دِن رکھا ہے۔ جیسے یہودی سبت تخلیق کائنات میں الہٰی کام کی یادگاری کرنے کےلئے تھا، اُسی طرح عبادت و پرستش کا مسیحی دِن اِس سے بھی بڑے کام (مخلصی کے کام) کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلئے ہے جب ہمارا نجات دہندہ ہفتہ کے پہلے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اِس لئے ہم اِس دِن کو "خداوند کا دِن" کہتے ہیں۔ ہفتہ کے پہلے دِن عبادت و پرستش کرنا ہمیں پینتِکوست کے دِن کو یاد رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے جب رُوح القدس کے نزول کی وجہ سے مسیحی کلیسیا کا آغاز ہُوا۔ مسیح کے وقتوں سے تہذیب و تمدن کی تاریخ میں عبادت و پرستش کے مسیحی دِن کے عزت و تعظیم کے فوائد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

"اور وہ وہاں سے چل کر اُن کے عبادتخانہ میں گیا۔ اور دیکھو وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھا ہُوا تھا۔ اُنہوں نے اُس پر الزام لگانے کے ارادہ سے یہ پوچھا کہ کیا سبت کے دِن شفا دینا روا ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، تم میں ایسا کون ہے جس کی ایک ہی بھیڑ ہو، اور وہ سبت کے دِن گڑھے میں گر جائے تو وہ اُسے پکڑ کر نہ نکالے؟ پس آدمی کی قدر تو بھیڑ سے بہت ہی زیادہ ہے۔ اِس لئے سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے۔ تب اُس نے اُس آدمی سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھا۔ اُس نے بڑھایا اور وہ دوسرے ہاتھ کی مانند درست ہو گیا۔ اِس پر فریسیوں نے باہر جا کر اُس کے برخلاف مشورہ کیا کہ اُسے کس طرح ہلاک کریں۔" (انجیل بمطابق متی 12: 9-14)

ایک اَور سبت کے دِن یسوع نے سبت کے موضوع پر ایک تیسرا سبق سکھایا۔ آپ نے پہلا سبق ہیکل میں دیا، جبکہ دوسرا کھیتوں میں دیا، اور یہ تیسرا سبق ایک عبادتخانہ میں دیا۔ اُس سبت کے دِن جب یسوع عبادتخانہ میں تعلیم دے رہے تھے، تو وہاں موجود فقیہ فریسیوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کا دہنا ہاتھ سوکھا ہُوا تھا۔ مسیح اُن سب کو شفا دینے کےلئے جانے جاتے تھے جنہیں آپ بیمار دیکھتے، یا جو آپ کے پاس آ کر شفا کی درخواست کرتے تھے۔ فقیہ اور فریسی اُمید کر رہے تھے کہ یہ شفا پا جائے گا، لیکن اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اُنہیں اِس پر ترس آیا تھا بلکہ اِس لئے کہ وہ یسوع میں کسی عیب کی تلاش کر رہے تھے جس کی خبر وہ یہودی مذہبی راہنماﺅں کو دے سکتے۔ اِس لئے اُنہوں نے یسوع سے پوچھا: "کیا سبت کے دِن شفا دینا روا ہے؟"

یسوع جانتے تھے کہ وہ سوال پوچھنے میں مخلص نہ تھے۔ آپ نے بیمار شخض کو اُن کے بیچ میں کھڑا ہونے کےلئے کہا تا کہ آپ کے مخالف خاموش ہو جائیں اور اُن پر ظاہر ہو جائے کہ آپ اُن سے خوفزدہ نہیں تھے۔ تب آپ نے اُن سے کہا: "میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ آیا سبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا؟ جان بچانا یا ہلاک کرنا؟" (انجیل بمطابق لوقا 6: 9)۔ اِس شخص کو سبت کے دِن شفا دینا ایک نیکی کا کام ہونا تھا، جبکہ سبت کے دِن مسیح کو قتل کرنے کی اُن کی خواہش بدی تھی۔ اَب حکم خداوندی پر کون عمل پیرا تھا اور کون اُسے توڑ رہا تھا؟ آپ نے اُنہیں یاد دہانی کرائی کہ اگر اُن میں سے کسی کے پاس بھیڑ ہو، اور وہ سبت کے دِن ایک گڑھے میں گر جائے تو یقیناً وہ اُسے بچائے گا۔ اور اگر کوئی شخص نیکی کر سکتا ہو لیکن اُس سے پہلوتہی کرے تو یہ بھی بدی گنا جائے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی فرد کسی شخص کی نجات کی طرف راہنمائی کر سکتا ہو، اور اِس سے بےاعتنائی برتے تو وہ اُس کی تباہی میں حصہ دار ہوتا ہے۔ مسیح نے اپنے سوال سے فقیہوں اور فریسیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا، اور وہ کچھ کہنے کے قابل نہ تھے۔

یسوع نے اُن کے جواب کا انتظار کیا لیکن وہ خاموش رہے۔ اپنی خاموشی سے اُنہوں نے یسوع کے اخلاقی اختیار کو تسلیم کیا۔ بدقسمتی سے اپنی خطا کو دیکھ کر بھی اُن کے ضمیر پر کوئی اثر نہ ہُوا، نہ اُنہوں نے اپنے گناہ کا اقرار کیا اور نہ اُس شخص سے معافی طلب کی جس کا ہاتھ سوکھا ہُوا تھا۔ یسوع اُن کے دِل کی سختی سے غصے اور افسردہ ہوئے۔ خداوند کی خاطر خفگی و احتجاج کا اظہار کرنا مستحسن امر ہے، اور اُس کی بادشاہی کی حالت پر غم غصہ کی تقدیس کرتا ہے اور اُسے ایک خوبی میں بدل دیتا ہے۔ ہم بائبل مُقدّس میں کئی بار خدا کے غصہ کے بارے میں پڑھتے ہیں، تاہم خدا پاک اور کامل ہے۔ ہم مسیح کے غصہ کو اِسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مناسب غصہ لائقِ تحسین ہے۔ مسیح کو اُن مغرور لوگوں پر غصہ آیا، مگر آپ اُس سوکھے ہاتھ والے شخص کےلئے ترس سے بھرے تھے۔ آپ نے چند الفاظ کہنے کی بدولت اُسے شفا بخشی، اور اِس معجزاتی شفا کی بدولت آپ نے ثابت کیا کہ بےشک آپ سبت کے مالک تھے۔ آپ نے اُس شخص سے کہا "اپنا ہاتھ بڑھا۔" اِس قسم کے بیان پر ایک فطری ردعمل یہ ہو سکتا تھا "خداوند، میں نہیں کر سکتا۔ اگر میں اُسے بڑھا سکتا تو مجھے تیری مدد کی ضرورت نہ ہوتی۔" لیکن اِس شخص نے ناممکن کام کا یقین کیا، اور یسوع نے اُسے جزوی طور پر نہیں بلکہ مکمل طور پر شفا بخشی۔ اُس کا ہاتھ بحال ہو گیا۔ اِسی طرح یسوع نامکمل معافی عطا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے پاس آنے والے سب لوگوں کو مکمل معافی بخشتے ہیں۔ اِس سوکھے ہاتھ والے آدمی کی مثال میں ہم نجات کی حقیقی تصویر دیکھتے ہیں۔ اِس شخص نے اپنے عمل کی بدولت نہیں بلکہ مسیح کے کام کی بدولت شفا پائی۔ تاہم مسیح ایک فرد کو اُس وقت تک شفا نہیں دیتے جب تک کہ وہ آپ اور آپکے کام پر ایما ن نہ لائے۔ ایک گنہگار کسی انسانی کام کی بدولت نہیں بلکہ مسیح کے کام کی بدولت نجات پاتا ہے۔ مسیح کی گنہگاروں کو بخشی جانے والی نجات کا انحصار اُن کے اُس ایمان پر ہوتا ہے جو وہ نجات دہندہ مسیح کی شخصیت اور کام پر رکھتے ہیں۔

اِن تین مواقعوں پر جب یسوع نے سبت سے متعلق بات کی تو آپ نے ایک بڑے اصول کی وضاحت یہ کہتے ہوئے کی کہ "زندہ کرنے والی تو رُوح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔ جو باتیں میں نے تم سے کہی ہیں وہ رُوح ہیں اور زندگی بھی ہیں" (انجیل بمطابق یوحنا 6: 63)۔ پولس رسول نے بھی ایسی ہی بات کہی ہے جب کہا کہ خدا نے "ہم کو نئے عہد کے خادم ہونے کے لائق بھی کیا۔ لفظوں کے خادم نہیں بلکہ رُوح کے کیونکہ لفظ مار ڈالتے ہیں مگر رُوح زندہ کرتی ہے" (نیا عہدنامہ، 2-کرنتھیوں 3: 6)۔

یسوع کے الفاظ نے فقیہوں اور فریسیوں کو غصہ دِلا دیا۔ مُقدّس لوقا انجیل نویس بیان کرتا ہے کہ وہ آپے سے باہر ہو کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم یسوع کے ساتھ کیا کریں؟ (انجیل بمطابق لوقا 6: 11)۔ سبت کے تعلق سے حکم کو قائم رکھنے کی غرض سے وہ چھٹے حکم کو توڑنے کےلئے تیار تھے جو کہتا ہے کہ "تُو خون نہ کرنا۔" مسیح سے متعلق اُن کے خیالات اور برتاﺅ بالکل اُس رویہ کے مماثل ہے جو دُنیوی لوگوں نے ہر زمانہ میں خدا کے لوگوں سے روا رکھا ہے۔ نبیوں، رسولوں، مُصلحین اور شہدا نے مسیح ہی کی طرح راستبازی کی خاطر دُکھ سہے۔ جب عداوت رکھنے والے افراد راستبازوں کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں تو اِس کا فائدہ یوں سامنے آتا ہے کہ وہ اپنی عوامی اور ذاتی زندگی میں بہت محتاط ہو جاتے ہیں اور اُن کی گواہی کی چمک دمک خوب روشن ہو جاتی ہے۔

7- یسوع کا اپنے شاگردوں کو چُننا

"اور اُن دِنوں میں ایسا ہُوا کہ وہ پہاڑ پر دُعا کرنے کو نکلا اور خدا سے دُعا کرنے میں ساری رات گزاری۔ جب دِن ہُوا تو اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر اُن میں سے بارہ چُن لئے اور اُن کو رسول کا لقب دیا۔ یعنی شمعون جس کا نام اُس نے پطرس بھی رکھا اور اُس کا بھائی اندریاس، اور یعقوب اور یوحنا، اور فلپس اور برتلمائی۔ اور متی اور توما، اور حلفئی کا بیٹا یعقوب، اور شمعون جو زیلوتیس کہلاتا تھا۔ اور یعقوب کا بیٹا یہوداہ، اور یہوداہ اِسکریوتی جو اُس کا پکڑوانے والا ہُوا۔ اور وہ اُن کے ساتھ اُتر کر ہموار جگہ پر کھڑا ہُوا، اور اُس کے شاگردوں کی بڑی جماعت اور لوگوں کی بڑی بھِیڑ وہاں تھی جو سارے یہودیہ اور یروشلیم اور صور اور صیدا کے بحری کنارے سے اُس کی سُننے اور اپنی بیماریوں سے شفا پانے کےلئے اُس کے پاس آئی تھی۔ اور جو ناپاک رُوحوں سے دُکھ پاتے تھے وہ اچھے کئے گئے۔ اور سب لوگ اُسے چھونے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ قوت اُس سے نکلتی اور سب کو شفا بخشتی تھی۔" (انجیل بمطابق لوقا 6: 12-19)

یہودی راہنما اگرچہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے تھے، مگر یسوع کی مخالفت میں سب ایک ہو گئے۔ فریسی سبت کو توڑنے کی وجہ سے آپ سے نفرت رکھتے تھے۔ وہ آپ کو بگاڑ کا سبب بننے والا، کفر کا مرتکب، ایک سامری، دھوکہ باز، اور بدرُوح گرفتہ تصور کرتے تھے۔ آپ چونکہ گنہگاروں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے اِس لئے اُن کی نگاہ میں آپ نے اُن کی شریعت اور ہیکل کی بےعزتی کی تھی۔ دوسری طرف ہیرودی تھے جو اِس بات سے خوفزدہ تھے کہ آپ ہیرودیس بادشاہ سے تخت چھین لیں گے۔

جب مسیح نے دیکھا کہ یہودیوں کے بزرگ آپ کے خلاف متحد ہو گئے ہیں تو آپ گلیل کی جھیل کے کنارے چلے گئے تا کہ ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں اور اپنے پیروکاروں میں سے اُن افراد کا چناﺅ کر سکیں جنہیں آپ نے خدمت کےلئے تیار کرنا تھا۔ آپ کا اِن رسولوں کو چُننے کا مقصد یہ تھا کہ وہ آپ کے یہودی راہنماﺅں کے ہاتھوں مرنے، جی اُٹھنے اور آسمان پر صعود کر جانے کے بعد خوشخبری کی منادی کریں۔ تب بہت سے لوگ آپ کے پاس گلیل، یہودیہ، ادومیہ، صور اور صیدا کے بحری علاقوں، اور بیریہ سے آئے اور آپ نے اُن سب کو شفا بخشی۔

اِس ہجوم میں کچھ یسوع کی تعلیم کو سُننے کےلئے آئے اور بہت سے شفا پانا چاہتے تھے۔ مسیح نے بدرُوح گرفتوں میں سے بدرُوحیں باہر نکالیں۔ بدرُوحوں نے آپ کو پہچان کر کہا "تُو خدا کا بیٹا ہے۔" بداروح نے مسیح کے الہٰی اختیار کو دیکھا اور اُس کی گواہی دی۔ لوگوں کا ہجوم یسوع کے گرد جمع ہو گیا تا کہ آپ کو چھوئے، کیونکہ قوت آپ سے نکلتی اور سب کو شفا بخشتی تھی۔

آئیے ہم یسوع کے شاگردوں کے چناﺅ پر غور کریں جن کا کام بیماروں کو شفا دینا، یسوع کے نام میں بدارواح کو نکالنا، آپ کی تعلیمات کو پھیلانا، ایمانداروں کے گروہوں کی تشکیل دینا اور مستقبل کی نسلوں کےلئے ایمان کی سچائیوں کو تحریر کرنا تھا۔ یسوع نے دُنیا کے عظیم لوگوں کو نہیں چُنا تا کہ کہیں وہ اپنے آپ پر فخر کرنے نہ لگ جاتے، اگر ایسے ہوتا تو خدا کو وہ جلال نہ ملتا جو یسوع دیکھنا چاہتے تھے۔ سارا جلال صرف خدا ہی کا ہے۔ اِس کی حمایت میں پولس رسول نے یہ کہا ہے "لیکن ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا ہے تا کہ یہ حدّ سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے معلوم ہو" (نیا عہدنامہ، 2-کرنتھیوں 4: 7)۔ یسوع نے کمزوروں اور بےوجودوں کو چُنا، اور اُنہیں اپنی خدمت کرنے کے قابل بنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے وقتوں کے کسی بھی دُنیوی قائد سے زیادہ سبقت لے گئے۔ یسوع نے اُنہیں اپنی خدمت کے ابتدائی سالوں میں چُنا تا کہ آسمان پر اپنے صعود سے پہلے اُن کی تربیت کر سکیں۔

رسولوں نے یسوع کو گہرے طور پر جاننے کےلئے آپ کے ساتھ کافی عرصہ گزارا، اور اُنہوں نے یسوع پر اپنے ایمان میں ترقی کی۔ اُنہوں نے آپ کی محبت کا تجربہ کیا اور آپ کی خاطر مشکلات اور ایذارسانی برداشت کی۔ جتنی اسرائیل کے قبیلوں کی تعداد تھی مسیح نے بھی اُتنے ہی رسولوں کا چناﺅ کیا۔ یوں آپ پرانے اور نئے عہدنامہ کو باہم منسلک کرنا چاہتے تھے۔ رسولوں کا چناﺅ بہت اہم تھا، اِس لئے یسوع نے اُن کے چناﺅ سے پہلے ساری رات دُعا میں گزاری۔ دُعا کی اُس رات نے اُن کی زندگیوں میں رُوحانی بیج بو دیا۔ بعدازاں اُن کے کاموں اور تحریروں سے ایسی بڑی فصل سامنے آئی جس نے انسانیت کی آنے والی تمام نسلوں پر گہرا اثر ڈالا۔ خدا اور اُس کے مسیح کے جلال کےلئے اِس فصل کی کٹائی آج بھی جاری و ساری ہے۔

"پھِر وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور جن کو وہ آپ چاہتا تھا اُن کو پاس بُلایا اور وہ اُس کے پاس چلے آئے۔ اور اُس نے بارہ کو مقرر کیا تا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور وہ اُن کو بھیجے کہ منادی کریں۔ اور بدرُوحوں کو نکالنے کا اختیار رکھیں۔" (انجیل بمطابق مرقس 3: 13-15)

مسیح نے بارہ شاگردوں کو "رسولوں" کا لقب دیا جس کا مطلب "بھیجے ہوئے" ہے، کیونکہ آپ نے اُنہیں بھیجنا تھا تا کہ اپنے نام میں نہیں بلکہ آپ کے نام میں خدمت کے کام کو سرانجام دیں۔ بعدازاں آپ نے فرمایا: "... جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے اُسی طرح میں بھی تمہیں بھیجتا ہوں" (انجیل بمطابق یوحنا 20: 21)۔ آپ نے اُنہیں اپنے صعود سے کافی عرصہ پہلے چنا تا کہ اُن کے پاس کافی وقت ہو، اور وہ اُن فریب خوردہ خیالات اور ثقافتی رسومات کو چھوڑ سکتے جن کی تعلیم اُنہوں نے بچپن میں پائی تھی یا جو اُنہوں نے نوجوانی میں اپنے قائدین سے سیکھی تھیں۔ آپ اُنہیں اپنی نئی رُوحانی خوراک حقیقی الہٰی تربیت سے آسودہ کرنا چاہتے تھے تا کہ اُن کی مدد ہو، اور وہ پرانی اور نئی تعلیم کی نوعیت میں تمیز کر سکیں۔

ہم یسوع کے اپنے اردگرد جمع ہونے والے لوگوں پر محبت سے نگاہ کرنے کو تصور میں لا سکتے ہیں۔ ہم اُنہیں اپنے چنیدہ رسولوں پر اپنے نئے کام کی اہمیت کو پُرفضل طریقے سے واضح کرتے ہوئے سُن سکتے ہیں۔ آپ نے اُنہیں اپنے محبت بھرے مقاصد اور اُن بڑی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جن کے مطابق اُنہیں کام کرنا تھا۔ کسی بھی رسول کے چُنے جانے سے پہلے آپ کے سامعین کیا سوچتے ہوں گے؟ غالباً اُن میں سے سب چُنے ہوﺅں میں ہونے کی اُمید کر رہے تھے۔ اُنہوں نے اپنے عزیز اُستاد یسوع پر پوری طرح بھروسا کیا، اور یہ اُن کےلئے ایک سنہری موقع تھا کہ آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کی حکمت سے فیض یاب ہوں۔ اور پھر ایک شاندار خدمت کا موقع سامنے آیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب آپ نے ایک ایک کر کے اپنے رسولوں کو چُننا شروع کیا تو اُن کے دِل خوشی سے بھر گئے ہوں گے۔ غالباً کچھ چُنے گئے رسولوں کو مبارکباد دینا چاہتے ہوں گے جبکہ دوسرے منفی جذبات سے نبرد آزما ہوتے ہوں گے۔

غالباً یسوع نے شعمون کو اُس کی سرگرمی اور جوش و جذبہ کی وجہ سے چُنا۔ اُس کا نام سب سے پہلے آتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ یسوع نے اُسے سب سے پہلے رسول ہونے کےلئے بلایا۔ ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مسیح نے اُسے نیا نام پطرس اِس لئے دیا، تا کہ ایک اَور چُنے گئے شاگرد شمعون اور اُس میں فرق واضح ہو۔ اِس کے بعد ہمیں اندریاس کا نام ملتا ہے۔ اندریاس نے سب سے پہلے یسوع کی پیروی شروع کی تھی اور و ہ تاریخ میں پہلا مسیحی مبشر بھی تھا جس نے اپنے بھائی پطرس کو یسوع کی پیروی کرنے کی دعوت دی۔ اُس کے بارے میں کلام مُقدّس میں اِس کے بعد زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ اِس کے بعد یسوع نے دو اَور بھائیوں، زبدی کے بیٹوں یعقوب اور یوحنا کو چُنا۔ اُن کا تعلق بھی اُسی قصبہ سے تھا اور وہ پطرس اور اندریاس کے ہم پیشہ تھے۔ اُن میں سے بڑا بھائی یعقوب، مسیح کے صعود کے بعد کلیسیا کا ایک سرکردہ راہنما بنا، جسے پندرہ برس بعد ہیرودیس اگرپّا نے یہودیوں کو خوش کرنے کےلئے قتل کر ڈالا۔ جبکہ چھوٹے بھائی یوحنا نے طویل عمر پائی، اور اپنے باقی سب ساتھیوں کے دُنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی کئی کلیسیاﺅں میں خدمت سرانجام دی۔

اِن چاروں رسولوں کا پہلے ذِکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ یسوع کی پیروی کرنے والے اوّلین افراد میں شامل تھے جب آپ کے بارے میں لوگ ابھی زیادہ نہیں جانتے تھے۔ پھر یسوع نے دو اَور رسولوں فلِپُّس اور برتلمائی کو چُنا۔ اِس کے بعد سوائے ایک جگہ کے، جو یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان میں ہے، کہیں اَور فلِپُّس کا ذِکر نہیں آیا۔ یہ چھ رسولوں کی نصف تعداد تھی۔ یہ سب یوحنا بپتسمہ دینے والے کے شاگرد تھے اور اُس کے ساتھ رہے تھے کیونکہ اُنہوں نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی میں حقیقی رُوحانیت کے جوہر کو پہچان لیا تھا۔ بلا شک و شبہ سب رسولوں نے یسوع کی جانب سے چُنے جانے پر فخر محسوس کیا۔

متی محصول لینے والے کا رسول ہونے کےلئے چناﺅ قابل غور ہے۔ کیا اُس جیسا شخص رسول ہونے کے قابل ہو سکتا تھا؟ رُوحانی اور ذہنی طور پر وہ اِس کام کےلئے مناسب تھا۔ اُس کا چناﺅ کرنے سے یسوع نے ظاہر کیا کہ بہت سے ایسے لوگ جن سے دوسرے نفرت کرتے ہیں خدا کی نظر میں اہم ہیں۔ متی کا چناﺅ خدا کے فضل کی قدرت کی ایک اچھی مثال ہے جس نے ایک گنہگار کو لیا اور ایک عظیم رسول بنایا۔ متی کے بعد توما کا نام لکھا ہے۔ ہم اُس کے ماضی کے بارے میں نہیں جانتے۔ اِس لحاظ سے وہ پہلے چُنے گئے سات رسولوں سے فرق ہے۔ اِس کے بعد جو نام درج ہے، وہ ہے: حلفئی کا بیٹا یعقوب۔ کچھ خیال کرتے ہیں کہ وہ متی کا بھائی تھا کیونکہ دونوں کے باپ کا نام حلفئی تھا۔ لیکن یہ غالباً درست نہیں ہے کیونکہ جیسے پطرس اور اندریاس، اور یعقوب اور یوحنا کے نام اکھٹے آئے ہیں ویسے متی اور یعقوب کا نام اکھٹے نہیں دیا گیا۔

اِس کے بعد جس شخص کو مسیح نے چُنا اُس پر ہمیں حیرانی ہوتی ہے۔ اُس شخص کا نام شمعون تھا جو زیلوتیس کہلاتا تھا۔ وہ رومیوں کا مخالف تھا۔ وہ معاشرے کا ایسا فرد تھا جس نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی ہوئی تھی، اِس لئے اُس کے لوگ اُس کی عزت کرتے تھے۔ یسوع نے شاگردوں کے اپنے گروہ میں اُس جیسا فرد اِس لئے شامل کیا تا کہ وہ گروہ مختلف مزاج اور پس منظر کے لوگوں پر مشتمل ہو۔ گیارہویں رسول کے مختلف نام تھے: یہوداہ، یعقوب کا بھائی یا تدّی۔

آخری رسول یہوداہ اسکریوتی یہودیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ باقی سب گلیل کے رہنے والے تھے۔ وہ دوسروں سے اِس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ مختلف علاقہ سے آیا تھا اور اُس نے اپنے اُستاد کو دھوکے سے پکڑوایا تھا۔ اُس کے نام کے ساتھ ہمیشہ "دھوکے باز" کا لفظ آتا ہے۔ اگرچہ یہوداہ میں ایک رسول ہونے کےلئے کسی لازمی خوبی کا پتا نہیں چلتا، تاہم یسوع نے غالباً اُسے اِس لئے چُنا کہ نبوت پوری ہو اور خدا کی مرضی پوری ہو (دیکھئے زبور 41: 9; 109: 7، 8)۔ یہوداہ کا چناﺅ کرنے سے یسوع غالباً اپنے پیروکاروں کےلئے ایک مثال بھی قائم کرنا چاہتے تھے کہ کیسے کھوئے ہوﺅں تک جایا جائے۔ کچھ لوگ فوراً تبدیل نہیں ہوتے، اور ایک شخص کو توبہ کی طرف لے کر جانے والے طریقے شاید دوسروں کےلئے کام نہ کریں۔ کوئی ایسی بات نہ تھی جس کی وجہ سے یہوداہ یسوع کو دھوکا دیتا، لیکن اِس کے باوجود اُس نے ایسا کیا۔ اُسے تبدیل ہونے کے کئی مواقع ملے، لیکن اُس نے اُنہیں نظرانداز کیا۔

یہوداہ نے جب پہلی بار یسوع کی پیروی کرنی شروع کی تو غالباً وہ بُرا شخص نہیں تھا۔ لیکن جب وہ ایک رسول بنا تو اُس کے بعد وہ اُن لوگوں کی طرح راہ سے بھٹک گیا جو آغاز تو اچھا کرتے ہیں مگر پھرالہٰی فضل کے بارے میں اپنی ناقص سمجھ کی وجہ سے اختتام بُرا کرتے ہیں۔ یہوداہ اُس گروہ کا خزانچی تھا، اور غالباً اُس کے ساتھیوں نے اُس میں کاروباری رجحان کو دیکھتے ہوئے اُسے اِس عہدے پر مقرر کیا۔

یسوع مکمل طور پر جانتے تھے کہ آپ کے شاگردوں کے ساتھ مستقبل میں کیا ہو گا، اور اِس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے رسولوں کا چناﺅ ختم کیا۔ آپ نے نبوتانہ رُوح میں نہ صرف اُن کی کمزوریوں اور خامیوں کو دیکھا بلکہ اُن کا جوش و جذبہ، مشکلات پر اُن کی فتح، اور اُن کی ایذارسانیوں کو بھی دیکھا۔ مزیدبرآں، آپ نے اُن کی زندگی میں اُن کی منادی کے اثر کو بھی دیکھا۔ آپ نے اُن کی تحریروں اور اُن کے قائم کئے ہوئے اداروں اور اُن کی موت کے بعد آگے جاری و ساری رہنے والے کام کو بھی دیکھا۔ آپ نے اُنہیں الہٰی تخت کے دہنے ہاتھ بڑے جلال میں شہیدوں کے درمیان تاج پہنے بیٹھے اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرتے دیکھا (انجیل بمطابق متی 19: 28)۔

8- پہاڑ پر دیا گیا وعظ

رسولوں کے چُناﺅ کے بعد مسیح نے ایک دو ٹوک وعظ پیش کیا جسے "پہاڑ پر دیا گیا وعظ" کہا جاتا ہے۔ اِس پر گہرے طور سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مذہب کے معاملے میں جو کچھ خدا لوگوں سے توقع کرتاہے اُس کا ایک مکمل خلاصہ اور راہنما اصول اِس میں موجود ہیں۔ مسیح نے اِسے کفرنحوم کے نزدیک ایک پہاڑی پر پیش کیا۔ زیادہ تر مُفسّروں کے نزدیک جس جگہ پر اِسے مسیح نے پیش کیا وہ تبریاس کے شمال میں قرون حطین کا مقام تھا۔ یہ مسیح کا مشہور ترین اور طویل وعظ ہے، جس کی فضیلت کو سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اور اِس میں مسیحیت کے مخالفین بھی شامل ہیں۔

یہ وعظ مسیح کی نئی قائم کردہ رُوحانی بادشاہی کا دستور ہے۔ اِس کی بنیاد جناب موسیٰ اور دیگر انبیا کو دیئے گئے مکاشفوں پر ہے جنہیں مسیح پورا کرنے کےلئے تشریف لائے۔ خدا تعالیٰ نے داﺅد نبی کی معرفت مسیح کو اِس رُوحانی بادشاہی کے بادشاہ طور پر یوں بیان کیا: "میں تو اپنے بادشاہ کو اپنے کوہِ مُقدّس صِیُّون پر بٹھا چکا ہوں" (زبور 2: 6)۔ بادشاہ کے طور پر یہ آپ کےلئے لازمی امر تھا کہ اپنے رسولوں کو جو آپ کی نمائندگی کرتے تھے ایک خاص فرمان دیں جس میں آپ کی بادشاہی کے نئے عناصر کا اعلان اور قدیم ضابطہ کے نئے معنٰی شامل ہوں۔ بادشاہ نے نہ صرف اپنے رسولوں کو مقرر کیا بلکہ اُنہیں خاص قوت بھی بخشی تا کہ وہ اُس زبردست اور کثیرجہتی کام کو سرانجام دے سکیں جو اُنہیں کرنے کےلئے سونپا گیا تھا۔

آئیے اِس سے پہلے کہ ہم مسیح کے الفاظ پر غور کریں، اُس تناظر پر ایک نگاہ کریں جس میں یہ وعظ دیا گیا۔ اِس کا دیا جانا بنجر کوہِ سینا پر عہد عتیق کی شریعت کے دیئے جانے کی طرح نہ تھا جس میں نادیدنی خدا کی آواز نے شریعت دی جس کے ساتھ گرج چمک، زلزلہ اور آگ تھی۔ سوائے موسیٰ کے کسی اَور کو پہاڑ پر آنے کی اجازت نہ تھی، اور اگر کوئی ایسا کرتا تو سنگسار کیا جاتا۔ لیکن اِس کے برعکس، مسیح کا یہ مشہور وعظ قرون حطین کے مقام پر دیا گیا جہاں ہر طرف ہریالی تھی، پرندوں کے چہچہانے کی آواز سُنی جا سکتی تھی، اور خوبصورت پھولوں کی خوشگوار مہک نے اُس ساری جگہ کو معطر کر رکھا تھا، اور خدائے مجسم مسیح نے جو حلیم و فروتن تھے اُس جگہ اپنی زبان مبارکہ سے اِن الفاظ کو بیان کیا۔ آپ کے اردگرد آپ کے شاگرد موجود تھے اور فلستین کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی ایک بڑی بھیڑ بھی آپ کی باتوں پر کان لگائے ہوئے تھی۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک یہودی روایت میں مسیح کے آنے کے منظر کا نقشہ کچھ یوں کھینچا گیا ہے کہ وہ یافا کے ساحل پر کھڑا ہو گا، اور سمندر کو حکم دے گا کہ اپنے خزانے اُگل دے۔ سمندر فوراً مسیح کے قدموں میں اپنی گہرائی میں دبے تمام جواہرات و خزانے نکال کر رکھ دے گا۔ مسیح اپنے شاگردوں کو زرق برق لباس پہنائے گا، قیمتی پتھروں سے اُنہیں مُزّین کرے گا، اُنہیں آسمانی من کھلائے گا جو اُس من سے کہیں زیادہ میٹھا اور مزیدار ہو گا جو بنی اسرائیل نے بیابان میں کھایا تھا۔ تاہم یہ روایت مسیح کی آمد کی غیرحقیقی اور فریب پر مبنی تصویر پیش کرتی ہے۔

کیا اصل منظر جس پر ہم سوچ بچار کر رہے ہیں زیادہ خوبصورت نہیں؟ کیا سمندر کی تہہ میں موجود جواہرات کا ہمارے سامنے موجود بنیادی رُوحانی تعلیمات کے ساتھ کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی لباس اِس وعظ اور مسیح کے کردار میں موجود قابل تحسین خوبیوں سے زیادہ شاندار ہے؟ کیا سمندر کو اپنے خزانے اُگل دینے کا حکم اُسی پُرجلال اختیار کو ظاہر کرتا ہے جو بدارواح کو جھڑکنے، مُردوں کو زندہ کرنے یا اپنے پیروکاروں کو دوسرے کے گناہ معاف کرنے کے تقاضے میں نظر آتا ہے؟

یسوع نے اِس پہاڑ پر جو تعلیمات دیں وہ سب نئی نہ تھیں۔ یہودی پرانے عہدنامہ سے اپنی آگاہی کی وجہ سے آپ کی تعلیمات کی بنیادی سچائیوں سے واقف تھے، جبکہ غیراقوام کے پاس بھی ایسے کئی قوانین تھے جن میں خدا کی شریعت کی جھلک موجود تھی (دیکھئے رومیوں 2: 14، 15)۔ مسیح کی تعلیمات نے عہد عتیق کی شریعت میں بالکل ویسے زندگی کا دم پھونکا جیسے خدا تعالیٰ نے زمین کی مٹی سے آدم کو بنانے کے بعد اُس کے خوبصورت بدن میں زندگی کا دم پھونکا تھا۔

"وہ اِس بھِیڑ کو دیکھ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب بیٹھ گیا تو اُس کے شاگرد اُس کے پاس آئے۔ اور وہ اپنی زبان کھول کر اُن کو یوں تعلیم دینے لگا۔ مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔ مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارِث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کیا جائے گا۔ مبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہو گے۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے، اِس لئے کہ لوگوں نے اُن نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اِسی طرح ستایا تھا۔" (انجیل بمطابق متی 5: 1-12)

وعظ کا آغاز

یسوع پہاڑ پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور آپ کے شاگرد آپ کے پاس آئے۔ آپ نے اُنہیں تعلیم دی اور اپنے وعظ کا آغاز لفظ "مبارک" سے کیا۔ جہاں تک پرانے عہد کی بات ہے تو اُس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: "لعنت اُس پر جو اِس شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کےلئے اُن پر قائم نہ رہے" (توریت شریف، اِستثنا 27: 26)۔ اِسے ہم کوہِ عیبال پر دی جانے والی تفصیلی لعنتوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ نیا عہد جو یسوع کے وسیلہ سے باندھا گیا ہے اُس کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں: "کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 16)۔ لفظ "مبارک" وہی اظہار ہے جسے آپ کے اجداد میں سے داﺅد نبی نے اپنے کئی زبوروں میں استعمال کیا تھا۔

یسوع نے اپنے وعظ کا آغاز کسی حکم کے دینے سے نہیں بلکہ برکات سے شروع کیا۔ آپ باپ کی طرف سے نسل انسانی کو پھر سے وہ خوشی دینے کےلئے آئے جو اُن سے گناہ کے باعث چھِن گئی تھی۔ اِس لئے، آپ نے خوشی کو اپنی بادشاہی کے انتہائی اہم ترین اصولوں میں شامل کیا۔

لفظ "مبارک" میں آپ نے تحسین، خوشی و شادمانی کو یکجا کر دیا، کیونکہ آپ نے تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی مبارک حالی کی بات کی۔ یسوع نے جب یہ الفاظ اپنی زبان مبارکہ سے ادا کئے تو تب سے لے کر اَب تک کئی صدیوں کا عرصہ گزر چکا ہے، اور یہ تمام عرصہ آپ کی بادشاہی کے اصولوں کے اثر کی گواہی دیتا ہے۔

بہت سے لوگ، یہاں تک کہ مختلف مذاہب کے بڑے بڑے دانشور اِس بات سے متفق ہیں کہ مسیح کی شریعت مذہب کی تاریخ میں سامنے آنے والی کسی بھی تعلیم سے زیادہ افضل ہے۔

پہاڑ پر دیئے گئے وعظ کے شروع میں ایک حقیقت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جو اِس الہٰی قول کے عین مطابق ہے: "خداوند فرماتا ہے کہ میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 8)۔ یسوع کے اوّلین کاموں میں سے ایک کام اپنے وقت کے مُروّجہ غلط مذہبی نظریات کا خاتمہ تھا۔

مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں

پہلی مبارکبادی یوں ہے: "مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔"

یسوع کے ہمعصر لوگ غریبوں کے خدا کی بادشاہی کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس زمینی بادشاہی کو مسیح قائم کرے گا اُس میں مذہبی قائدین، کاہن، فقیہ اور فریسی سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ تاہم، مسیح نے یہ نہیں کہا کہ آسمان کی بادشاہی ایسوں کی ہے بلکہ یہ کہا کہ یہ دِل کے غریبوں کی ہے کیونکہ وہ مسیح کے ساتھ بادشاہی کریں گے۔ آپ نے اِس سے پہلے کہا تھا: "خداوند کا رُوح مجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کےلئے مسح کیا" (انجیل بمطابق لوقا 4: 18)۔ اِسی لئے آپ نے اپنی پہلی مبارکبادی میں یہ کہتے ہوئے غریبوں کی بات کی: "مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔"

مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں

دوسری مبارکبادی اُن سب کےلئے تسلی پر مشتمل ہے جو زندگی کے المناک حالات میں ماتم کرتے ہیں مگر رونے کے وقت کے گُزر جانے کے بعد خوشی منا سکتے ہیں۔ مسیح کے سامعین تو سمجھتے تھے کہ تسلی تو امیر لوگوں کو ہی مل سکتی ہے کیونکہ اُن کے بہت سے دوست اُن کی دلجوئی کر کے مصیبت و پریشانی کے اثرات کم کر سکتے ہیں۔ تاہم، یہاں یسوع نے اُن لوگوں کی بات کی ہے جو اپنی غلط کاریوں اور نکمےپن پر غم کرتے ہیں، جنہیں اپنے گناہوں کے معاف کئے جانے پر الہٰی تسلی ملتی ہے۔ ایسوں کے بارے میں یسعیاہ نبی نے کہا کہ "اُس نے خداوند کے ہاتھ سے اپنے سب گناہوں کا بدلہ دو چند پایا" (یسعیاہ 40: 2)۔

مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں

تیسری مبارکبادی زمین کے وارث ہونے کی ہے۔ وہ کون ہیں جو اِس کے وارث ہوں گے؟ وہ صاحب اختیار یا بااثر لوگ نہیں جو مکاری سے دوسروں پر تسلط حاصل کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ حلیم ہیں جو زمین کے وارث ہوں گے۔ یہ جابرانہ طرزِ ِعمل رکھنے والے افراد نہیں بلکہ مسیح کی بادشاہی میں محبت کرنے والے افراد ہیں۔ داﺅد نبی نے اِسی سچائی کو اپنے ایک زبور میں یوں بیان کیا ہے: "کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا۔ تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا، پر وہ نہ ہو گا۔ لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے" (زبور 37: 10، 11)۔

مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں

چوتھی مبارکبادی آسودہ کئے جانے کی برکت ہے۔ مسیح کے سامعین نے سوچا کہ آسودہ سے مُراد وہ امیر افراد ہیں جو اِس زندگی میں اپنی مادی دولت کی وجہ سے آرام سے رہ رہے ہیں، اور جو چاہیں وہ خرید سکتے ہیں۔ وہ بھوک کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ مگر یسوع کے مطابق آسودہ حال وہ ہیں جو دولت کےلئے فکرمند نہیں رہتے اور اِس دُنیا کی مادی اشیا کی حرص نہیں رکھتے۔ یہ وہ ہیں جو اپنے لئے اور اپنے اردگرد موجود افراد کےلئے آسمانی راستبازی کی بھوک اور پیاس رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو مسیح کی بادشاہی میں آسودہ ہوں گے۔ "... میرے بندے کھائیں گے پر تم بھوکے رہو گے۔ میرے بندے پِئیں گے پر تم پیاسے رہو گے۔ میرے بندے شادمان ہوں گے پر تم شرمندہ ہو گے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 65: 13)۔

مبارک ہیں وہ جو رحم دِل ہیں

پانچویں مبارکبادی میں اُن کےلئے رحم کا وعدہ کیا گیا ہے جو خود رحمدِل ہیں۔ اُن پر خدا اور انسان کی طرف سے رحم ہو گا۔ کیا یہ امیر کبیر، حاکم اور صاحب اختیار لوگ ہیں؟ کیا یہ وہ ہیں جو دوسروں کو دباتے ہیں اور لوگ اُن سے ڈرتے ہیں؟ کیا یہ وہ ہیں جو مذہبی کاموں کی انجام دہی کرتے ہیں اور خدا کی طرف سے توجہ کئے جانے کی توقع کرتے ہیں؟ مسیح کے نزدیک رحم مغروروں پر نہیں ہو گا جو دوسروں پر حکومت جتاتے ہیں، بلکہ اُن پر ہو گا جو دوسروں کا خیال رکھتے ہیں، جو دوسروں سے توقع نہیں کرتے کہ اُن کی خواہشوں کے آگے جُھک جائیں بلکہ اپنا آپ دوسروں کے تابع کرتے ہیں۔ مسیح کی بادشاہی زور آوروں کےلئے نہیں بلکہ رحمدِلوں کےلئے ہے۔ سلیمان نبی نے کہا "نیک صلاح کے بغیر لوگ تباہ ہوتے ہیں لیکن صلاح کاروں کی کثرت میں سلامتی ہے" (اَمثال 11: 14)۔ اِسی طرح سلیمان نبی کے والد جناب داﺅد نبی نے کہا "رحم دِل کے ساتھ تُو رحیم ہو گا اور کامل آدمی کے ساتھ کامل" (زبور 18: 25)۔

مبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں

چھٹی مبارکبادی کو سمجھنا مشکل ہے۔ یسوع نے فرمایا: "مبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔"

کیا اِس دُنیا میں خدا تعالیٰ کو دیکھنا ناممکن نہیں ہے؟ کیا خدا تعالیٰ وہ ہستی نہیں جو دیکھتا تو ہے مگر خود نظر نہیں آتا۔ کیا یسوع نے ایک بار یہ نہیں کہا "خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ ..." (انجیل بمطابق یوحنا 1: 18)؟ انسان کی اعلیٰ ظرف خواہشوں میں سے ایک، خدا کی ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش ہے۔ یسوع کے سامعین نے سوچا کہ خدا کو دیکھنے والے، خاص کر وہ جو گہری الہیاتی سمجھ رکھتے ہیں، دُنیا میں اقبالمند ہوں گے۔ لیکن یسوع نے کہا کہ پاک دِل وہ ہیں جو خدا کو دیکھیں گے۔ داﺅد نبی نے کہا ہے: "خداوند کے پہاڑ پر کون چڑھے گا اور اُس کے مُقدّس مقام پر کون کھڑا ہو گا؟ وہی جس کے ہاتھ صاف ہیں اور جس کا دِل پاک ہے۔ جس نے بطالت پر دِل نہیں لگایا اور مکر سے قسم نہیں کھائی" (زبور 24: 3، 4)۔

مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں

ساتویں مبارکبادی خدا تعالیٰ کی فرزندیت کے بارے میں ہے۔ لیکن خدا کی فرزندیت کا دعویٰ کرنے والے سب ایسے نہیں ہیں۔ بلا شک و شبہ مسیح کے سامعین نے سوچا کہ ابراہام کی نسل اور خدا کے چنیدہ لوگ ہونے کی وجہ سے وہ خدا کے فرزند تھے۔ وہ ختنہ کے وسیلہ سے خدا کے ساتھ ایک عہد میں داخل ہوئے تھے۔ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے رُومیوں کی مخالفت کی خواہش کی اور اپنی مُقدّس قوم کو آزاد کرنا چاہتے تھے، لیکن خدا کو اپنے واحد حقیقی بادشاہ کے طور پر چھوڑ چکے تھے۔ یہ وہ تھے جو دوسرے لوگوں سے لڑنا چاہتے تھے، اور اُنہیں مجبور کرتے تھے کہ اُن کے مذہب کی پیروی کریں اور اُنہیں اپنے غلام بناتے تھے۔ لیکن یسوع نے کہا کہ تُند مزاج نہیں بلکہ صلح کرانے والے خدا کے فرزند ہیں۔ صلح یسوع کی بادشاہی میں کونے کے سرے کا پتھر ہے۔ خدا کے فرزند وہ ہیں جو فرمانبرداری کے ذریعے خدا کے ساتھ، اور محبت کے ذریعے انسان کے ساتھ صلح کرتے ہیں۔ انجیل مُقدّس ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ یسوع سب لوگوں کو ایک کرنے اور صلح کرانے آئے۔ "اور صلح کرانے والوں کےلئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 3: 18)۔

مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں

آخری مبارکبادی اُن کےلئے ہے جو راستبازی کی خاطر ستائے گئے ہیں۔ آسمان کی بادشاہی اُن کی ہے اور وہ حقیقی اور قائم رہنے والی خوشی کا تجربہ کریں گے۔ مسیح کے سامعین نے سوچا کہ آسمان کی بادشاہی اُن کےلئے ہے جو ظاہری طور پر نیکو کار ہیں یعنی وہ جو اکثر و بیشتر روزہ رکھتے، دُعا کرتے اور خیرات دیتے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو مبارک سمجھتے تھے کیونکہ اُنہیں اِس بات کی اُمید تھی کہ اُن کا آنے والا مسیح اُنہیں ایسے لوگ بنائے گا جن کی شان و شوکت دُگنی تِگنی ہو جائے گی۔ اُن کا ماننا تھا کہ اُن کی بادشاہت قائم ہو گی اور اسرائیل کا جلال دُگنا ہو جائے گا۔ اُنہوں نے اپنے بارے میں محسوس کیا کہ وہ بادشاہت کو حاصل کریں گے اور اُس کی بدولت مالامال ہو جائیں گے۔ لیکن یسوع نے بتایا کہ بادشاہی اُن کےلئے ہے جو راستبازی کے سبب سے ستائے جاتے ہیں، جو دِل کے غریب ہیں، جو غمگین ہیں، حلیم ہیں، جو راستبازی کے بھوکے پیاسے ہیں، جو پاک دِل ہیں اور صلح کراتے ہیں۔ اگرچہ دُنیا ایسے لوگوں کو نظرانداز کرتی ہے، لیکن خدا تعالیٰ اُنہیں آسمان کی بادشاہی عنایت کرے گا۔

مبارکبادیوں کا خلاصہ

یہ آٹھ مبارکبادیاں ظاہری مذہب پرستی سے متعلق نہیں ہیں۔ اِن کا لب لباب یہ ہے کہ یسوع کے مطابق دِل کے غریب وہ ہیں جو آسمانی بادشاہی میں امیر ہوں گے، غمگین وہ ہیں جو آرام پائیں گے، اَب رونے والے وہ ہیں جو ہنسیں گے، حلیم وہ ہیں جو زمین پر راج کریں گے، راستبازی کے بھوکے اور پیاسے وہ ہیں جو آسودہ ہوں گے۔ دینے والے پائیں گے، اور جو بچوں کی مانند ہیں وہ فہم حاصل کریں گے (انجیل بمطابق متی 11: 25)۔ جنگجو نہیں بلکہ صلح کرانے والا فاتح اور بادشاہ کا فرزند ہے۔ وہ جسے مسیح کی خاطر اُس کے گھر سے نکال دیا جاتا ہے آسمان میں ابدی شہریت رکھتا ہے۔

یہ مبارکبادیاں ایک کلہاڑے کی مانند تھیں جسے یسوع نے دُنیوی تمناﺅں کے اُس درخت کی جڑوں پر چلایاجسے یہودیوں نے اپنے مسیح کی آمد کے تعلق سے اپنے ذہنوں میں لگایا ہُوا تھا۔ حقیقی دائمی مبارک حالی کا انحصار خارجی مذہبی معمولات یا مادی ترقی پر نہیں، بلکہ انسان کی اندرونی حالت اور اُس کی ابدی فلاح پر ہے۔ نِیکُدِیمُس سے بات چیت کرتے ہوئے آپ کی گفتگو اپنی بادشاہی کی رُوحانی نوعیت پر مرکوز رہی۔ جب آپ نے سامری عورت سے گفتگو کی تو خدا کو رُوح کے طور پر بیان کیا، اور اُس کی بادشاہی کو رُوحانی بادشاہی کہا۔ پہاڑ پر دیئے گئے وعظ میں بھی یہی مضمون غالب ہے۔

ہمیں آج بھی اِس قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ آج کے کچھ بااثر کلیسیائی گروہوں میں نظر آنے والی حقیقتیں اِس سے کس قدر مختلف ہیں جہاں رُوحانی پہلوﺅں کو نکال کر مادیت پرستی کی پیروی کی جا رہی ہے اور جہاں پاسبان اور معلم صرف دنیوی جلال میں دلچسپی رکھنے والے نظر آتے ہیں۔

یہ مبارکبادیاں مزید نصیحت و ہدایت کا ایک تعارف تھیں، اور اِن میں آپ کے ہونے والے رسولوں کےلئے ایک نصب العین موجود تھا۔ آپ گویا اُنہیں یہ کہہ رہے تھے: "جب تم اِن بنیادی خوبیوں کے مالک ہو گے، تو تمہارے اپنے تم سے نفرت کریں گے۔ جب تمہارے ساتھ ایسا برتاﺅ روا رکھا جائے گا تو تم مبارک ہو گے۔ جب تمہیں ابنِ آدم کے سبب سے اِن تمام ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنے پڑے تو نہ تو غم کرنا اور نہ شکایت کرنا۔ بلکہ اِس کے برعکس خوشی کرنا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔ یوں تم اُن نبیوں کی مانند ہو جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ اُن سب کو خدا کے عظیم پیامبر ہونے کا استحقاق حاصل ہُوا، اور اِس سبب سے اُنہیں ستایا بھی گیا۔

تم نمک اور نور ہو

"تم زمین کے نمک ہو، لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کِس چیز سے نمکین کیا جائے گا؟ پھِر وہ کسی کام کا نہیں، سِوا اِس کے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاﺅں کے نیچے روندا جائے۔ تم دُنیا کے نور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے، وہ چُھپ نہیں سکتا۔ اور چراغ جلا کر پیمانہ کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان پر رکھتے ہیں تو اُس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ اِسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تا کہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔" (انجیل بمطابق متی 5: 13-16)

یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ دُنیا کے نور اور زمین کے نمک ہیں۔ اَب اگر دُنیا اُنہیں رد کرتی ہے تو اُنہیں اپنا ذائقہ یا اثر نہیں کھونا۔ کھانے میں نمک نظر نہیں آتا لیکن اِس کا ایک بڑا اثر ہوتا ہے جو کھانے کو ذائقہ بخشتا ہے۔ اِسی طرح، مسیحی جو اکثر نظر نہیں آتے یا جن کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اپنے اردگرد موجود افراد پر ایک مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔

موم بتی کا شعلہ چھوٹا سا ہوتا ہے لیکن یہ اردگرد موجود سب چیزوں کو روشن کر دیتا ہے اور دوسروں کو دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ مسیحیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ لوگ اُن کے نیک کاموں کو دیکھ کر اُن کی نہیں بلکہ اُن کے آسمانی باپ کی تمجید کریں گے۔ لوگ چراغ کو دیکھنے کےلئے اُسے روشن نہیں کرتے بلکہ دوسری چیزوں کو اُس کی روشنی میں دیکھنے کےلئے ایسا کرتے ہیں۔ اگر نمک میں ذائقہ نہ ہو تو اُس کی کوئی وقعت نہیں ہے، اِسی طرح چراغ کی بھی روشنی پہنچانے کے مقصد سے ہٹ کر کوئی اہمیت نہیں۔

یہی بات یسوع کے رسولوں کے بارے میں بھی بالکل سچ تھی جن کی اہمیت اُن کی تعلیم میں اور دوسروں کو منور کرنے میں تھی۔ مسیح نے اُنہیں نمک اور نور ہونے کےلئے چُنا، تا کہ صرف بنی اسرائیل میں نہیں بلکہ دُنیا کے تمام لوگوں میں نمک اور نور ہوں۔ آپ کے شخصی چال چلن میں "نمک اور نور" کا اثر آپ کے الفاظ سے بڑھ کر نظر آنا چاہئے، کیونکہ جو کچھ محض الفاظ حاصل نہیں کر سکتے وہ ایک زندہ سرگرم مثال کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔

شریعت کو پورا کرنا، نہ کہ منسوخ کرنا

"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں، ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ پس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا، لیکن جو اُن پر عمل کرے گا اور اُن کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔" (انجیل بمطابق متی 5: 17-20)

اِن الفاظ سے یسوع نے واضح کیا کہ آپ کی نئی تعلیم الہامی کتاب توریت کو منسوخ نہیں کرتی۔ جب تک آسمان اور زمین نہ ٹل جائیں، ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ یسوع، موسیٰ کی شریعت اور نبیوں کی تعلیمات کو منسوخ کرنے کےلئے نہیں بلکہ اُنہیں پورا کرنے کےلئے آئے۔ جو عارضی تھا اُسے آپ نے تبدیل کیا۔ شریعت اور نبیوں کی تعلیمات کو پورا کرنے کے بعد آپ بدی کے کاموں کو مٹانے کےلئے آئے۔ آپ شریعت یا نبیوں کی تعلیمات کو دبانے یا ختم کرنے نہیں آئے تھے۔ یہ بیج کے پھول یا پھل میں بدل جانے کی طرح کی تبدیلی تھی۔

فقیہوں اور فریسیوں کے ہاتھوں میں شریعت تھی لیکن اُس کے نتیجہ میں نیکی کا پھل سامنے نہیں آیاتھا، یہ ناقابل خوردن پھل کے بیج کی مانند تھی۔ اِسی لئے یسوع نے کہا "... اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔" آپ لوگوں کو شریعت کے تقاضوں سے آزاد کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ اِس طرح سے اُنہیں اِس کی عظمت دکھانے آئے جس کے بارے میں پہلے اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

مصالحت کا قانون

"تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہو گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا، اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدر عدالت کی سزا کے لائق ہو گا، اور جو اُس کو احمق کہے گا وہ آتشِ جہنم کا سزاوار ہو گا۔ پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گزرانتا ہو، اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے، تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آ کر اپنی نذر گزران۔ جب تک تُو اپنے مُدّعی کے ساتھ راہ میں ہے اُس سے جلد صلح کر لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مُدّعی تجھے مُنصِف کے حوالہ کر دے، اور مُنصِف تجھے سپاہی کے حوالہ کر دے اور تُو قیدخانہ میں ڈالا جائے۔ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تُو کوڑی کوڑی ادا نہ کر دے گا وہاں سے ہرگز نہ چُھوٹے گا۔" (انجیل بمطابق متی 5: 21-26)

یسوع نے فرمایا کہ وہ حکم جو قتل کرنے کی ممانعت کرتا ہے، وہ غصہ، فضول گوئی اور نفرت سے بھی منع کرتا ہے۔ آپ کی دُعائیں اُس وقت قبول ہوں گی جب آپ نہ صرف قتل کرنے سے باز رہیں گے بلکہ دوسروں کی جانب نفرت کے جذبات سے بھی کنارہ کشی کریں گے۔ یہ الفاظ سے بڑھ کر شریعت کی حقیقی رُوح ہے۔

یہودیوں کو سکھایا گیا تھا کہ اگر اُن کے گھر میں کسی قسم کا خمیر موجود ہو تو وہ مذبح کے سامنے اپنی فسح کی قربانی کو بھی چھوڑ دیں اور پہلے گھر جا کر اُس خمیر کو وہاں سے دُور کریں۔ اَب یسوع اُنہیں کہہ رہے تھے کہ خدا کے حضور اپنی دُعائیں پیش کرنے سے پہلے وہ گھر جائیں اور اپنے بھائی کے ساتھ صلح صفائی کریں۔

پاکیزگی کا قانون

"تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زِنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی، وہ اپنے دِل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا۔ پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھِلائے تو اُسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے۔ اور اگر تیرا دہنا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ جائے۔" (انجیل بمطابق متی 5: 27-30)

کتنے لوگ ہیں جو اپنے گناہ والے کاموں کا اقرار کرتے ہیں لیکن اپنی سوچوں پر دھیان نہیں دیتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کسی دوسرے فرد پر شہوت بھری نگاہ ڈالنا زنا کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ یہ اِس عمل کی جڑ اور وجہ ہے۔

یہ مستحسن عمل ہے کہ اِس سے پہلے گناہ کو پنپنے کا موقع ملے اُس کی جڑ کو نکال باہر کیا جائے۔ ایک شخص کےلئے یہ کہیں بہتر ہے کہ ابدی زندگی کھونے کی جگہ اپنی انتہائی قیمتی متاع چاہے وہ اُس کا بدن کا حصہ ہی کیوں نہ ہو کھو دے۔ خدا تعالیٰ کی سزا کا نتیجہ موت اور جہنم ہے، جبکہ اُس کی فرمانبرداری خوشی اور ابدی زندگی کی طرف لے کر جاتی ہے۔

طلاق کا قانون

"یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑے اُسے طلاق نامہ لکھ دے۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سِوا کِسی اَور سبب سے چھوڑ دے، وہ اُس سے زِنا کراتا ہے اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زِنا کرتا ہے۔" (انجیل بمطابق متی 5: 31، 32)

موسیٰ نبی نے یہودیوں کو اُن کی سخت دِلی کی وجہ سے طلاق کی اجازت دی تھی۔ طلاق خدا کی کبھی بھی مرضی نہ تھی کیونکہ اُسے طلاق سے نفرت ہے۔ جناب مسیح بھی یہ نہیں چاہتے کہ اُن کے پیروکار ایسے کریں۔ ایک یہودی شخص معمولی سی وجہ کےلئے اور صرف ایک لفظ سے اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا تھا۔ موسیٰ نبی نے طلاق کو مشکل بنایا تھا، جس میں ایک مرد کو علیحدگی سے پہلے اپنی بیوی کو تنسیخ نکاح کا سرٹیفیکیٹ دینا ہوتا تھا۔

تاہم، مسیحی زمانہ میں شادی کی حُرمت اور دوام کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اُس کا احترام بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک عورت کو حرامکاری کے سوا کسی اَور وجہ سے طلاق دی جاتی ہے تو خدا کی نگاہ میں تب بھی وہ اپنے شوہر سے ہی منسوب ہے، اِس لئے جو کوئی ایسی عورت سے شادی کرتا ہے تو درحقیقت زنا کرتا ہے۔

سچائی کا قانون

"پھِر تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قسم نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کےلئے پوری کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا۔ نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس کے پاﺅں کی چوکی ہے۔ نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ نہ اپنے سر کی قسم کھانا کیونکہ تُو ایک بال کو بھی سفید یا کالا نہیں کر سکتا۔ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اِس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔" (انجیل بمطابق متی 5: 33-37)

یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ جس کام کو کرنے کی وہ قسم اُٹھائیں اُسے سرانجام دیں۔ لیکن یسوع ہمیں یہاں کہتے ہیں کہ قسم بالکل بھی نہیں کھانی۔ جب ایک فرد کو اپنی بات کے مانے جانے کا یقین نہیں ہوتا تو وہ قسم کھاتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی گفتگو سچ اور جھوٹ کے ملغوبہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ مسیحیوں کو جواب دیتے وقت یہ جانتے ہوئے "ہاں" یا "نہ" کہنا چاہئے کہ اِ س سے ہٹ کر کوئی اَور چیز ابلیس کی طرف سے ہے۔

حقوق کا قانون

"تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے اُس سے منہ نہ موڑ۔" (انجیل بمطابق متی 5: 38-42)

موسیٰ کی شریعت میں انصاف کے تعلق سے لکھا ہے "آنکھ کے بدلے آنکھ ۔ دانت کے بدلے دانت" (توریت شریف، خروج 21: 24)۔ تاہم، یسوع ایک نئی تعلیم کے ساتھ آئے۔ آپ لوگوں کے دِلوں سے بدلے کی رُوح کو دُور کرنا چاہتے تھے۔ شہری قوانین خود سے بدلہ لینے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ اِس کام کو منصف کےلئے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ مجرم کو سزا دے (نیا عہدنامہ،رومیوں 13 باب)۔

یہ انجیل مُقدّس کی تعلیم کے عین مطابق ہے: "اے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ خداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہی دوں گا" (رومیوں 12: 19)۔ مسیح ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم اِس ضمن میں شخصی طور پر بدلہ نہ لیں کیونکہ لڑنے جھگڑنے سے یہ کہیں بہتر ہے۔

محبت کا قانون

"تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دُشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو۔ تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیرقوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔" (انجیل بمطابق متی 5: 43-48)

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو نفرت کرتے ہیں اُن کے ساتھ نفرت کرنا، اور جو دشمنی دِکھاتے ہیں اُن کے ساتھ دُشمنی کرنا بالکل درست ہے۔ لیکن شریعت کی رُوح خدا تعالیٰ کی ذات کے عین مطابق ہے جو اپنے سورج کو نیکوں اور بدوں دونوں پر چمکاتا ہے۔ وہ اپنی بارش کو اپنے دُشمنوں اور اپنے فرزندوں پر یکساں برساتا ہے۔

اگر ہم اپنے دُشمنوں سے نفرت کرتے ہیں اور صرف اپنا بھلا چاہنے والوں کے ساتھ بھلا کرتے ہیں، تو پھر ہم غیرقوموں اور بت پرستوں کے برابر ہیں۔ ہمیں بدی کے جواب میں بدی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر ہم برائی پر اچھائی کے ذریعہ غالب آتے ہیں، تو یوں عداوت کو ختم کرنے والے ٹھہرتے ہیں اور نفرت کی آگ کو بجھا دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی شریعت کو اپنی زندگی میں اپنا لینے سے ہم حقیقت میں اُس کے فرزند بنتے ہیں۔ اِس لئے سب سے پہلے ہمیں خدا کے احکام کی اپنے دِل میں فرمانبرداری کرنے کی ضرورت ہے، تبھی ہم حقیقت میں ظاہری طور پر بھی اُن پر قائم رہ سکتے ہیں۔

خیرات اور روزہ

"خبردار، اپنے راستبازی کے کام آدمیوں کے سامنے دِکھانے کےلئے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لئے کچھ اجر نہیں ہے۔ پس جب تُو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا ریاکار عبادتخانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تا کہ لوگ اُن کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تُو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے اُسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے، تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔" (انجیل بمطابق متی 6: 1-4)

"اور جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بناﺅ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تا کہ لوگ اُن کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تُو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو، تا کہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔" (انجیل بمطابق متی 6: 16-18)

مسیح کی بادشاہی کی نئی شریعت عہد عتیق کے خدا کے الہامی فرامین کو منسوخ نہیں کرتی۔ ہمیں اپنے آپ میں تربیت کی خاطر ضرورتمندوں کو خیرات دینا، خدا سے دُعا کرنا اور روزہ رکھنا چاہئے۔ تاہم، یسوع نے اِس بات کا اضافہ کیا کہ ہمیں دوسرے لوگوں کے سامنے اِسے نہیں کرنا تا کہ کہیں شیخی بگھارتے نہ پھریں اور دوسروں سے داد کے طلبگار نہ رہیں۔ ایسا رویہ تو ریاکاری ہو گا۔ آئیے ہم اپنے پڑوسیوں کو دِکھانے کےلئے نہیں بلکہ خدا کے حضور پوشیدگی میں خیرات دیں، دُعا کریں، اور روزہ رکھیں، بصورت دیگر خدا یہ سب کچھ قبول نہیں کرے گا۔ مسیح اپنے پیروکاروں سے چاہتے تھے کہ وہ یہودی راہنماﺅں کی طرح ریاکاری کے رویہ کا مظاہرہ نہ کریں۔ ہمیں بھی ریاکاری کرنے والے یہودی راہنماﺅں کی طرح نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اُن کے کام خدا کے حضور قابل نفرت تھے۔

دُعا

"اور جب تم دُعا کرو تو ریاکاروں کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تا کہ لوگ اُن کو دیکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تُو دُعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا، اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا کر۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔ اور دُعا کرتے وقت غیرقوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سُنی جائے گی۔ پس اُن کی مانند نہ بنو کیونکہ تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کِن کِن چیزوں کے محتاج ہو۔ پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ، تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا، کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ آمین۔ اِس لئے کہ اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا۔ اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا۔" (انجیل بمطابق متی 6: 5-15)

دُعا مذہب کے انتہائی اہم ترین پہلوﺅں میں سے ایک ہے۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کے سامنے ایک مثالی دُعا رکھی۔ اِس دُعا کو خلوصِ دِل سے مانگنے والے سب افراد فرزندیت کے اُس رشتے کا اظہار کرتے ہیں جو اُن کے اور خدا کے درمیان پایا جاتا ہے، جس کی بدولت وہ خدا کو باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔ یوں آسمانی باپ اور اُس کے فرزندوں کے درمیان پائی جانے والی باہمی محبت اُن میں ظاہر ہو گی، اور خدا کے حضور اُن کی فرمانبرداری اور اپنی جسمانی اور رُوحانی ضروریات کےلئے خدا پر اُن کا انحصار آشکارا ہو گا۔

خدا کے فرزند ہونے کے ناطے وہ محبت کے تعلق میں شادمان ہوتے ہیں، اور اِس سے اُنہیں تحریک ملتی ہے کہ جو کچھ اُن کے پاس ہے اُسے دوسروں کے ساتھ بانٹیں۔ خدا کا حقیقی فرزند دوسروں کی طرف برادرانہ محبت کا اظہار کرے گا۔ حقیقی مسیحی "میرے باپ" کہہ کر دُعا نہیں کرتا بلکہ "ہمارے باپ" کہہ کر دُعا کرتا ہے۔ وہ آسمانی باپ کے حضور التجا کرتا ہے کہ جیسے اُس نے دوسروں کے قصور معاف کئے ہیں، وہ بھی اُس کے قصور معاف کر دے۔ مسیح نے واضح طور پر خدا تعالیٰ کی پدریت اور تمام نسلِ انسانی کی اخوت کے بارے میں تعلیم دی۔ یہ بنیادی حقیقت یہودی راہنماﺅں کی تعلیم میں واضح نہیں تھی۔

خداوند کی سکھائی ہوئی دُعا میں ایک فرد واضح طور پر فرزندیت اور برادرانہ محبت کی رُوح دیکھ سکتا ہے۔ ہم مودبانہ عبادت و پرستش کی رُوح کو بھی دیکھتے ہیں کیونکہ خداوند کے دِن، اُس کے گھر، اُس کی کتاب، اُس کے خادم اور کلیسیا پاک ہیں۔ مسیح نے سکھایا کہ ہم خدا سے کہیں کہ وہ ہمیں آزمایش میں نہ پڑنے دے۔ یہ التجا اِبلیس کے زبردست اختیار اور آدمیوں پر اُس کے تسلُّط کا اقرار ہے۔ خدا کی قدرت کے بغیر کوئی بھی اُس سے بچ نہیں سکتا۔ خداوند کی سکھائی ہوئی دُعا میں ہم خدا کے معاملات کو اپنی دلچسپیوں سے مقدم رکھنے کے موضوع کو دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ خدا سب سے بڑا ہے۔ بادشاہی، عزت اور جلال اُسی کا ہے۔

بچے کے سے ایمان، برادرانہ محبت اور پرستش نے اِس انتہائی اہم اور سادہ دُعا میں جان سی ڈال دی ہے۔ جب یسوع نے اِسے اپنے شاگردوں کو سکھایا تو درمیانی کے طور پر آپ کا کام ابھی پورے طور پر شروع نہیں ہُوا تھا، اِس لئے آپ نے اپنے نام سے اِس کا اختتام نہیں کیا۔ لیکن چونکہ اَب یسوع صعود کے بعد آسمان پر موجود ہیں، اِس لئے اَب دُعائیں یسوع کے نام میں پیش کی جاتی ہیں۔ مسیح نے اِس دُعا میں رُوح القدس کا بھی ذِکر نہ کیا کیونکہ رسولوں کو مسیح کے دُنیا میں آ کر ایمانداروں کے دِلوں میں بسنے کی ابھی سمجھ نہ آئی تھی۔

ایماندار اور دولت کی محبت

"اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دِل بھی لگا رہے گا۔ بدن کا چراغ آنکھ ہے۔ پس اگر تیری آنکھ درست ہو تو تیرا سارا بدن روشن ہو گا۔ اور اگر تیری آنکھ خراب ہو تو تیرا سارا بدن تاریک ہو گا۔ پس اگر وہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہو تو تاریکی کیسی بڑی ہو گی! کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔ یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تَو بھی تمہارا آسمانی باپ اُن کو کھلاتا ہے۔ کیا تم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کےلئے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ تَو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوُجُود اپنی ساری شان و شوکت کے اُن میں سے کسی کی مانند مُلبّس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی اَیسی پوشاک پہناتا ہے تو اَے کم اعتقادو! تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اِس لئے فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کےلئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دِن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کےلئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔" (انجیل بمطابق متی 6: 19-34)

یسوع نے اپنے شاگردوں کو دولت کی محبت کے خلاف متنبہ کیا۔ آپ نے اُنہیں اِس بات کی یاد دہانی کرائی کہ اِس دُنیا کی دولت عارضی ہے، جبکہ دوام صرف آسمانی دولت کو حاصل ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جس کا دِل زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر لگا ہُوا ہے۔ ایسے شخص کےلئے اچھے کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ایک فرد کے کاموں میں بنیادی محرک دولت کی محبت ہو تو وہ خدا سے ویسے محبت نہیں کر سکتا جیسے اُسے کرنی چاہئے۔ آسمان کے خزانے ایک فرد کے خدا کی محبت کی وجہ سے کئے گئے کاموں اور دوسروں کی بھلائی کےلئے اپنے وسائل دینے کا پھل ہیں۔

یسوع نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ چونکہ وہ دُنیا کا نور ہیں، اِس لئے وہ دوسروں تک نور لے کر جائیں گے۔ آنکھ کی بدولت سارا بدن روشن ہوتا ہے جو بدن کا چراغ ہے۔ اگر یسوع کے شاگرد اپنا نور کھو دیتے، تو خدا سے دُور لوگ کیسے سچائی کو پہچان سکتے؟ دوسروں کو منور کرنے کے قابل ہونے کےلئے ضروری ہے کہ ایک فرد اپنی دُنیوی ضروریات کی فراہمی کےلئے آسمانی باپ پر مکمل طور پر بھروسا کرے۔

خدا تعالیٰ جو پرندوں اور پھولوں تک کی فکر کرتا ہے، یقیناً وہ اُن تمام مرد و خواتین کی بھی فکر کرے گا جنہیں اُس نے اپنی شبیہ پر تخلیق کیا اور جو اُس کے بچّے ہیں۔ اگر وہ تمام چھوٹی بڑی مخلوقات کی فکر کرتا ہے تو یقیناً وہ ہمارے لئے بھی مہیا کرے گا۔ جس نے ہمیں بدن دیا، کیا وہ ہم سے لباس باز رکھے گا؟ اُس نے ہمیں قیمتی زندگی عنایت کی ہے، اور یقیناً وہ اِسے برقرار رکھنے کےلئے ضروری خوراک بھی ہمیں دے گا۔ یہ صحیح ہے کہ ایک فرد کو اپنی جسمانی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے، لیکن اُسے فکرمند ہوئے بغیرخدا کی پروردگاری پر مکمل بھروسا رکھتے ہوئے ایسا کرنا چاہئے۔ اگر ہم پر فضلِ ربّی نہ ہوتا تو سب کے سب غیرایماندار ہوتے۔ یسوع نے ہمیں ایک بنیادی حکم دیا ہے: "بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔"

عیب جوئی نہ کرو

"عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔ کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟ اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تُو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں؟ اے ریاکار! پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال، پھِر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا۔ پاک چیز کتوں کو نہ دو، اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ ڈالو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اُن کو پاﺅں تلے روندیں اور پلٹ کر تم کو پھاڑیں۔" (انجیل بمطابق متی 7: 1-6)

یسوع نہیں چاہتے کہ ہم دوسروں کی عیب جوئی کریں۔ لوگ ہم سے ویسا ہی برتاﺅ کریں گے جیسے ہم اُن سے پیش آئیں گے۔ جو کوئی دوسرے کی عیب جوئی کرے گا اُس کی اپنی بھی عیب جوئی کی جائے گی۔

دوسروں کی عیب جوئی کے پیچھے عموماً غرور اور بدلے کا رویہ کارفرما ہوتا ہے۔ دونوں ہی باتیں غلط ہیں کیونکہ ایسے رویے کا حامل فرد جب دوسروں کی خامیوں کو دیکھتا ہے تو اُن کو بڑھا چڑھا کر بیان کر سکتا ہے۔ اپنی خامیاں ہمیں چھوٹی دِکھائی دیتی ہیں۔ ایک بڑا خطاکار کسی دوسرے کم خطاکار فرد کی اِصلاح نہیں کر سکتا۔ ہمیں اِن الفاظ پر دِل کی گہرائی سے غور کرنا چاہئے: "اے ریاکار! پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال، پھِر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا۔"

یسوع ہم سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم اپنی مذہبی گفتگو میں دانش مندی کا مظاہرہ کریں، تا کہ کہیں ہم اپنے الفاظ میں تمسخر یا تضحیک کرنے والے نہ ٹھہریں۔ اگر ہم احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے تو پھِر اُن لوگوں کی مانند ہوں گے جو پاک چیز کتوں کو دیتے ہیں یا اپنے موتی سؤروں کے آگے ڈالتے ہیں۔ ہمارے الفاظ حالات اور اپنے سامعین کے لحاظ سے مناسب ہونے چاہئیں۔

مانگو تو تم کو دِیا جائے گا

"مانگو تو تم کو دِیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔ تم میں ایسا کون سا آدمی ہے کہ اگر اُس کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھر دے؟ یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے؟ پس جب کہ تم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟ پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں، وہی تم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔" (انجیل بمطابق متی 7: 7-12)

ہمارا آسمانی باپ یقیناً ہماری دُعاﺅں کا جواب دینے پر راضی ہے۔ اگر ایک زمینی باپ گنہگار ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو وہ سب، جو وہ مانگیں اور اُن کی بہتری کےلئے ہو، دینے سے نہیں ہچکچاتا، تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کی دُعاﺅں کا جواب کیوں نہ دے گا۔ وہ اپنے بچوں کو ہرگز بہترین سے کم کچھ نہیں دینا چاہتا۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اُنہیں رُوح القدس دینا چاہتا ہے۔

اِس کے بعد یسوع نے اخلاقی مسائل کو حل کرنے کےلئے ایک راہنما "سنہری اُصول" بیان کیا۔ یہ باقی سب احکام سے افضل ہے۔ آپ نے کہا "پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں، وہی تم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔" بہت سے اِس حکم کی تعمیل کو مذہبی فرض کی تکمیل کے طور پر لیتے ہیں۔ یہ بالکل سچ بات ہے، تاہم، اِس کا خالص اظہار مناسب محرکات سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ ہمارے آسمانی باپ نے ہم سے محبت رکھی ہے اور ہمیں بہت سے اچھی نعمتیں بخشی ہیں، اِس لئے ہمیں اُس سے محبت کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے۔ خدا کے ساتھ ہماری برتر محبت کا ایک نتیجہ اپنے ساتھی انسانوں سے محبت سے پیش آنے کی صورت میں نکلے گا۔

تنگ اور چوڑا دروازہ

"تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئے ہیں۔ اُن کے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اِسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے۔ اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا، نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے۔ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا، وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ پس اُن کے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لو گے۔ جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اُس دِن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟ اُس وقت میں اُن سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو، میرے پاس سے چلے جاﺅ۔" (انجیل بمطابق متی 7: 13-23)

یسوع نے ہمارے سامنے دو راہیں رکھی ہیں جن سے کوئی شخص گزر سکتا ہے۔ پہلاراستہ شروع میں سُکڑا ہے لیکن اُس کے اختتام پر فضل اور شادمانی ہے۔ دوسرا راستہ اِس کے برعکس ہے، جو شروع میں تو کُشادہ ہے لیکن اُس کے آخر میں تباہی و بربادی ہے۔ یسوع نے ہمیں اُس تنگ راستہ کو چُننے کا مشورہ دیا ہے جو اِس دُنیا میں تو مشکل ہوتا ہے لیکن آنے والی زندگی میں جلالی ہو گا۔ خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم لوگوں کی اُس بڑی اکثریت کی طرح چلیں جو موجودہ آرام و آسائش کا چناﺅ کرتے ہیں اور آنے والی ابدی ہلاکت کو بھول جاتے ہیں۔ یسوع ہمیں ایک درخت اور اُس کے پھل کے درمیان تعلق کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ جس قسم کا درخت ہے، پھل کو بھی ویسا ہی ہونا چاہئے۔

ایک فرد کے دِل میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کا اظہار اُس کے کاموں سے ہوتا ہے۔ کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہُوا نبی ہے، اور ممکن ہے وہ ایک نبی کی طرح کلام کرے، لیکن اُس کے کردار کی حقیقی نوعیت بالآخر اُس کی زندگی میں ظاہر ہو جائے گی۔ لازمی طور پر ہر وہ شخص جو اچھا پھل نہیں لاتا، کاٹ ڈالا اور آگ میں پھینکا جائے گا۔ وہ سب ریاکار جو ظاہری حالت پر فخر کرتے اور خدا کے قوانین کو نظرانداز کرتے ہیں، اُن کا کوئی حیلہ بہانہ اُن کے کاٹے ڈالے اور آگ میں پھینکے جانے سے بچنے کے کام نہیں آئے گا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے احتجاج کریں گے: "اے خداوند اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟" تب یسوع ایسوں کو رد کرتے ہوئے کہیں گے: "میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو، میرے پاس سے چلے جاﺅ۔"

عقلمند اور بیوقوف

"پس جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا اور اُن پر عمل کرتا ہے وہ اُس عقلمند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اُس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ اور جو کوئی میری یہ باتیں سُنتا ہے اور اُن پر عمل نہیں کرتا وہ اُس بیوقوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا۔ اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اُس گھر کو صدمہ پہنچایا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا۔" (انجیل بمطابق متی 7: 24-27)

مسیح نے اپنے سامعین کے سامنے ایک چبھنے والی مثال رکھی۔ خدا کی مرضی کو جاننے والا اور اُس پر عمل کرنے والا فرد اُس عقلمند شخص کی مانند ہے جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا ہو۔ لیکن جو خدا کی مرضی کو جاننے کے باوجود اُس کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ اُس بیوقوف شخص کی مانند ہے جس نے دریا کے کنارے اپنا گھر ریت پر تعمیر کیا۔ جب موسم ٹھیک ہو اور تیز ہوائیں نہ ہوں تو وہ ٹھیک دِکھائی دیتا ہے۔ وہ عقلمند لگتا ہے کیونکہ اُس نے بنیاد کھودنے میں کوئی رقم خرچ نہیں کی ہوتی۔ وہ اپنے آپ میں خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے اُسے تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن جب مینہ برسے اور سیلاب چڑھ آئے تو اُس کا گھر گر جائے گا، اور اُس آندھی طوفان سے واضح ہو جائے گا کہ کون عقلمند معمار تھا۔ وہ شخص جو آگہی رکھے لیکن اُس علم کا اپنی زندگی پر اطلاق نہ کرے بیوقوف شخص ہے۔ وہ اِس زندگی کی آسائشوں میں شادمان ہوتا ہے اور راستبازوں پر آنے والی مشکلات سے بچتا ہے۔ لیکن جب خدا کی عدالت کی ہوائیں چلنا شروع ہوں، اور الہٰی غضب کی بارش برسے تو اُس شخص کا گھر قائم نہ رہے گا اور باقی بیوقوف گنہگاروں کے ساتھ برباد ہو جائے گا۔ لیکن چٹان پر بنایا جانے والا گھر مضبوطی سے قائم رہے گا۔

"جب یسوع نے یہ باتیں ختم کیں تو ایسا ہُوا کہ بھِیڑ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔ کیونکہ وہ اُن کے فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار کی طرح اُن کو تعلیم دیتا تھا۔" (انجیل بمطابق متی 7: 28، 29)

جب یسوع نے یہ باتیں ختم کیں تو لوگوں کی بھیڑ بےحد حیران ہوئی کیونکہ آپ فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار شخص کی طرح تعلیم دے رہے تھے۔ جو کوئی بھی مسیح کی رُوحانی بادشاہی کی شریعت اور اُس کے تقاضوں پر دھیان کرتا اورخلوصِ دِل سے سوچ بچار کرتا ہے، وہ اِن حکموں پر قائم رہتے ہوئے شکستگی کا شکار بھی ہو گا۔ یہ شکستگی نجات کی طرف پہلا قدم ہے جو گنہگار کے اپنے کاموں پر کسی بھی جھوٹے بھروسے کو ختم کرتی ہے، اور اُس کی نشاندہی دُنیا کے واحد نجات دہندہ کی طرف کرتی ہے جو بیش قیمت نجات کےلئے حقیقی زندہ ایمان کو واحد شرط کے طور پر لیتا ہے۔

9- ایک صوبیدار کے نوکر کو شفا دینا

"جب وہ لوگوں کو اپنی سب باتیں سُنا چکا تو کفرنحوم میں آیا۔ اور کسی صوبیدار کا نوکر جو اُس کو عزیز تھا بیماری سے مرنے کو تھا۔ اُس نے یسوع کی خبر سُن کر یہودیوں کے کئی بزرگوں کو اُ س کے پاس بھیجا اور اُس سے درخواست کی کہ آ کر میرے نوکر کو اچھا کر۔ وہ یسوع کے پاس آئے اور اُس کی بڑی مِنّت کر کے کہنے لگے کہ وہ اِس لائق ہے کہ تُو اُس کی خاطر یہ کرے۔ کیونکہ وہ ہماری قوم سے محبت رکھتا ہے اور ہمارے عبادتخانہ کو اُسی نے بنوایا۔ یسوع اُن کے ساتھ چلا، مگر جب وہ گھر کے قریب پہنچا تو صوبیدار نے بعض دوستوں کی معرفت اُسے یہ کہلا بھیجا کہ اے خداوند تکلیف نہ کر کیونکہ میں اِس لائق نہیں کہ تُو میری چھت کے نیچے آئے۔ اِسی سبب سے میں نے اپنے آپ کو بھی تیرے پاس آنے کے لائق نہ سمجھا بلکہ زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پائے گا۔ کیونکہ میں بھی دوسرے کے اختیار میں ہوں اور سپاہی میرے ماتحت ہیں اور جب ایک سے کہتا ہوں جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے آ تو وہ آتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے۔ یسوع نے یہ سُن کر اُس پر تعجب کیا اور پھِر کر اُس بھِیڑ سے جو اُس کے پیچھے آتی تھی کہا، میں تم سے کہتا ہوں کہ میں نے ایسا ایمان اسرائیل میں بھی نہیں پایا۔ اور بھیجے ہوئے لوگوں نے گھر میں واپس آ کر اُس نوکر کو تندرست پایا۔" (انجیل بمطابق لوقا 7: 1-10)

مسیح نے فرمایا کہ آپ لوگوں سے خدمت لینے نہیں بلکہ اُن کی خدمت کرنے کےلئے آئے تھے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے دعوﺅں کو مکمل طور پر پورا کر کے دِکھایا۔ آپ کے سامعین آپ کے بارے میں کہتے تھے کہ آپ فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ اختیار کے ساتھ کلام کرتے تھے۔ آپ کے پُراختیار کلام کے ساتھ پُراختیار کام بھی تھے۔ تعلیم دینے کے بعد آپ نے پھر معجزات کرنے شروع کئے۔ آپ کفرنحوم میں داخل ہوئے تو ایک بڑی بھِیڑ آپ کے ساتھ تھی۔ اور یہودی بزرگوں کا ایک وفد آپ سے ملا اور بڑے اشتیاق سے آپ سے درخواست کرنے لگا کہ ایک رومی صوبیدار کے مفلوج نوکر کو جو مرنے کے قریب تھا شفا بخشیں۔ ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ نوکر رومی صوبیدار کو بہت عزیز تھا، کیونکہ الفاظ "میرے نوکر" کا ترجمہ "میرا لڑکا" بھی کیا جا سکتا ہے۔ یونانی میں یہ لفظ بیٹوں کےلئے استعمال ہوتا تھا۔ رومی صوبیدار ایک شریف النفس انسان تھا، کیونکہ اُس کے الفاظ اور اُس کی فکر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوکر سے محبت کرتا تھا جبکہ اُس کے زیادہ تر ہمعصر اپنے نوکروں کو حقیر جانتے اور اُن سے بری طرح سے پیش آتے تھے۔

رومی صوبیدار نے سوچا کہ یسوع یہودی بزرگوں کی درخواست کو سُنے گا، اِس لئے اُس نے اُن کی مدد کا سہارا لیا۔ اِس سے ہم یہ بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مسیح اور کفرنحوم کے یہودی بزرگوں کے درمیان تعلقات اَب بھی ٹھیک تھے، جبکہ یہودیہ میں ایسی صورتحال نہ تھی۔ یہودی بزرگوں نے رومی صوبیدار کی درخواست یسوع کے سامنے اِس لئے رکھی کیونکہ وہ ابھی تک یسوع کے مخالف نہ ہوئے تھے۔ وہ رومی صوبیدار کو اُس کے نوکر کے پاس چھوڑ کر یسوع سے ملنے گئے۔ اور جب وہاں پہنچ گئے تو یسوع سے کہنے لگے کہ رومی صوبیدار اُن کی قوم سے محبت رکھتا ہے اور اُس نے اُن کےلئے ایک عبادتخانہ بھی تعمیر کرایا ہے، اِس لئے وہ اِس لائق ہے کہ اُس کا نوکر شفا پائے۔ رومی صوبیدار نے سوچا کہ یسوع سے شفا پانے کےلئے درمیانیوں کی ضرورت ہے۔ تاہم وہ اِس بات سے واقف نہ تھا کہ یسوع اِن درمیانیوں سے کہیں بڑھ کر اُسے جانتے تھے، اور کسی بھی دوسرے شخص سے بڑھ کر اُس سے محبت کرتے تھے۔ اِس لئے اُن کا بیچ میں پڑنا غیر اہم تھا۔ حتیٰ کہ آج بھی ہمارے لئے سوائے یسوع مسیح کے کوئی اَور درمیانی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی فرشتہ اور نہ ہی کوئی مُقدّس ہمارے لئے کچھ کر سکتا ہے، کیونکہ خدا اور انسان کے مابین واحد درمیانی مسیح ہے۔ اور یہ صلیب پر آپ کے مخلصی کے لاثانی کام کی بدولت ممکن ہو سکا۔ ہم 1-تیمتھیس 2: 5 میں یہ الفاظ پڑھتے ہیں: "کیونکہ خدا ایک ہے اور خدا اور اِنسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو اِنسان ہے۔"

وہ جو فرشتوں اور مُقدسین کی شفاعت کے متلاشی ہیں، درحقیقت اُن لوگوں کی مانند ہیں جو دِن کے عین درمیانی وقت میں چراغ مانگ رہے ہیں۔ وہ اِس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ اُن میں پائی جانے والی شفقت و مہربانی کا مسیح کے اعلیٰ ترین کردار کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہے۔ کسی بھی مُقدّس نے کبھی مسیح سے بڑھ کر محبت نہیں دکھائی۔ صرف آپ ہی آسمان سے تشریف لائے، مجسم ہوئے، تعلیم دی، خدمت کی، دُکھ اُٹھایا، مر گئے، مُردوں میں سے جی اُٹھے، آسمان پر صعود فرمایا اور اَب ہمارے درمیانی اور شفیع کے طور پر خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ نے اپنی کامل محبت کی وجہ سے ایسا کیا۔ وہ جو مسیح سے ہٹ کر کسی اَور سے مدد کے طالب ہوتے ہیں، درحقیقت اُس بچے کی مانند ہیں جس کو مشکلات درپیش ہوں اور وہ اپنی والدہ کی جگہ جس نے اُس کی محبت میں اپنا آپ وقف کر دیا ہو، کسی نوکر کی طرف متوجہ ہو جائے۔ یسوع کی زمینی ماں مُقدسہ مریم کی شفاعت بھی لاحاصل ہے۔ اِس کی تائید میں ہم قانائے گلیل میں یسوع کی مثال کا حوالہ دے سکتے ہیں جب آپ نے اپنی والدہ کو مداخلت کرنے سے روک دیا۔

بیمار لوگ عموماً یسوع کے پاس لائے جاتے تھے۔ تاہم اِس معاملے میں یسوع رومی صوبیدار کے بیمار نوکر کے پاس جانے کو روانہ ہوئے، اور اِس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ وہ دوسری قوم کا تھا۔ جب رومی صوبیدار کو یسوع کے اپنے گھر کی طرف آنے کے بارے میں پتا چلا تو اُس نے اپنے چند دوستوں کو راہ میں یسوع سے ملنے کو بھیجا تا کہ مسیح کی قدرت کےلئے اُس کی بڑی تعظیم اور ایمان کا اظہار کریں۔ وہ یسوع کو بتانے کا خواہشمند تھا کہ وہ اِس قابل نہیں کہ یسوع اُس کی چھت کے نیچے آئے۔ وہ یسوع سے چاہتا تھا کہ وہ صرف زبان سے کہہ دے، اور وہ جانتا تھا کہ اُس کا خادم شفا پا جائے گا۔ یہ کتنی بڑی عاجزی و فروتنی ہے! یہ بہترین ثبوت تھا کہ وہ مسیح کی مدد کے لائق بن گیا تھا۔ وہ سب جو مسیح کی مدد اور نجات کے متمنی ہیں اُن کےلئے لازم ہے کہ وہ خدا کے حضور اپنی نالائقی کا احساس کریں۔

ممکن ہے اِس شخص نے سوچا ہو کہ جیسے یسوع تقریباً ڈیڑھ برس پہلے ایک اَور صوبیدار سے پیش آئے تھے اور دُور ہی سے اپنے کہنے سے شفا بخشی تھی ویسے ہی وہ اَب کریں گے۔ اُس کا ایمان تھا کہ جیسے وہ رومی صوبیدار کے طور پر اپنے سپاہیوں اور خادموں پر اختیار رکھتا تھا اُسی طرح یسوع بھی فطرت کے عناصر اور بیماری پر اختیار رکھتا تھا۔

یسوع غیرقوم کے اِس فرد کے بڑے ایمان، حکمت اور حلیمی سے حیران ہوئے۔ آپ نے اردگرد دیکھ کر کہا "میں تم سے کہتا ہوں کہ میں نے ایسا ایمان اسرائیل میں بھی نہیں پایا۔" مسیح نے یہودی سامعین کے ردعمل کی پروا نہ کی، اور آپ نے واضح کر دیا کہ خدا لوگوں کو بلاامتیاز رنگ و نسل قبول کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ "بہتیرے پُورب اور پچھّم سے آ کر ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے، مگر بادشاہی کے بیٹے باہراندھیرے میں ڈالے جائیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا" (انجیل بمطابق متی 8: 11، 12)۔ یسوع نے واضح ثبوت بھی دیا کہ آپ ایک روایتی مذہبی اُستاد نہ تھے، اور یہ کہ آپ محض انسان نہ تھے۔ آپ کے خیالات اپنے ہمعصر لوگوں سے مکمل طور پر جُدا اور پوری طرح سے مختلف تھے۔ یہاں آپ نے اُن کی اِس سوچ کو رد کیا کہ یہودی نسل سے تعلق ہونا خدا کی طرف سے قبول کئے جانے کی ایک شرط ہے۔

مسیح نے اُس صوبیدار کے گھر کی طرف جائے بغیر یہ کہتے ہوئے اُسے اپنا جواب بھجوایا "جا جیسا تُو نے اعتقاد کیا تیرے لئے ویسا ہی ہو، اور اُسی گھڑی خادم نے شفا پائی" (انجیل بمطابق متی 8: 13)۔ تب بھیجے ہوئے لوگوں نے واپس آ کر اُس نوکر کو تندرست پایا۔ اُس رومی صوبیدار میں یسوع کو مستقبل میں ایمان لانے والے غیراقوام کے پہلے پھل کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ لیکن دوسری طرف آپ کے اپنے لوگوں نے آپ کو رد کر دیا۔ اور ایسا صرف اُس وقت فلستین میں آپ کی زمینی زندگی کے دوران نہیں ہُوا، بلکہ آج ہمارے دور میں بھی وہ ایسا ہی رویہ روا رکھے ہوئے ہیں۔

عزیز قاری، کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ خدا کی معافی حاصل کرنے کے لائق نہیں ہیں؟ یاد رکھئے اگر ایسا ہے تو آپ مبارک ہیں۔ یہ معافی پانے کی راہ کی شروعات ہیں۔ جو کچھ یسوع نے صلیب پر آپ کی خاطر کیا ہے، اُس کی بنیاد پر خدا سے درخواست کریں کہ وہ آپ کو معاف کر دے۔ اُس سے التجا کیجئے کہ وہ آپ کو مسیح کے نام میں ایک ایماندار میں بدل دے۔

10- یسوع کا ایک نوجوان شخص کو مُردوں میں سے زندہ کرنا

"تھوڑے عرصہ کے بعد ایسا ہُوا کہ وہ نائِین نام ایک شہر کو گیا اور اُس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اُس کے ہمراہ تھے۔ جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مُردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بُہتیرے لوگ اُس کے ساتھ تھے۔ اُسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اُس سے کہا، مت رو۔ پھِر اُس نے پاس آ کر جنازہ کو چھوا، اور اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے اور اُس نے کہا اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔ وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُس کی ماں کو سونپ دیا۔ اور سب پر دہشت چھا گئی اور وہ خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہُوا ہے اور خدا نے اپنی اُمّت پر توجہ کی ہے۔ اور اُس کی نسبت یہ خبر سارے یہودیہ اور تمام گرد و نواح میں پھیل گئی۔" (انجیل بمطابق لوقا 7: 11-17)

یسوع نے ناصرت سے نائین نام شہر کی طرف سفر کیا۔ یہ شہر وہاں سے پیدل ایک دِن کی مسافت پر واقع تھا۔ زندگی کے مالک کے پیچھے ایک بڑی بھِیڑ آ رہی تھی اور اُن کا سامنا ایک اَور بھِیڑ سے ہُوا جو ایک مُردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ مُردہ لڑکا اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اُس کی ماں ایک بیوہ تھی۔ اُس ماں کا غم بہت بڑا تھا، اور اُس کے غم میں شریک شہر کے لوگ اُس کے بیٹے کو دفنانے کےلئے اُس کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ لیکن اچانک اُن کی ملاقات مسیح سے ہوئی جو قیامت اور زندگی ہے، اور آپ کے سامنے نہ صرف موت بلکہ ابلیس کا بھی کچھ زور نہیں چل سکتا۔

ہم شیطان کو مُردہ شخص کے تابوت پر بیٹھے تصور میں لا سکتے ہیں، گو وہ نظر نہیں آ رہا لیکن اِس نوجوان پر اپنی فتح کےلئے فخر کر رہا ہے۔ اُسے اپنے مخالف یسوع کو دیکھ کر کتنا غصہ آیا ہو گا جس نے اَب تک ہر جنگ میں اُسے شکست دی تھی۔ جب بھی یسوع نے بدرُوح گرفتہ افراد میں سے بدرُوحوں کو نکالا تو کیا ابلیس نے ماضی میں غصے میں ہر بار اپنے دانت نہ پیسے تھے؟ شاید شیطان اپنے آپ کو اِس سوچ سے تسلی دیتا ہو کہ مسیح نے اَب تک اُس کے ہاتھ سے موت کے کسی شکار کو نہ چُھڑایا تھا۔ وہ اَب تک اِس حصہ میں اُس فاتح کی مانند تھا جسے چیلنج نہ کیا گیا ہو۔

یہودی جنازہ میں ماتم کرنے والوں کی دلجوئی کرنے کو انتہائی اہم اور مُقدّس فریضہ سمجھتے تھے، اور مانتے تھے کہ اِس کا اجر خدا کی طرف سے ملے گا۔ اُس وقت کے رواج کے مطابق یسوع اور اُن کے ساتھ آنے والوں کو ایک طرف ہو کر جنازہ میں شامل لوگوں کو گزر جانے دینا اور پھر اُس میں شامل ہو جانا چاہئے تھا۔ گلیل میں عورتیں عموماً جنازے کے آگے آگے چلتی تھیں اور یہ اِس اعتقاد کا اظہار ہوتا تھا کہ گناہ اور موت عورت کی بدولت ہی نسلِ انسانی میں داخل ہوئے۔ لیکن یسوع اُس ہجوم کے سامنے آئے اور اُسے روک دیا۔

جب دوسرے ایسے جنازے کے گروہ میں آ شامل ہوں تو عموماً اُس وقت رونے اور ماتم کرنے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِس لئے جب یہ دو ہجوم ایک دوسرے سے ملے تو یقیناً غم اور ماتم میں اضافہ ہو گیا ہو گا۔ اُس غریب بیوہ کو دیکھ کر یسوع کو اُس پر ترس آیا، اور آپ نے اُس سے کہا "مت رو۔"

آپ نے ایسا اِس لئے نہیں کہا تھا کہ رونا غلط ہے، کیونکہ آنسو تو خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہیں۔ رونا ایک برکت بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ اِس سے غم کا درد جاتا رہتا ہے۔ وہ آنسو کتنے قیمتی ہیں جو دوسروں کی محبت میں بہائے جائیں، جو اپنی خطاﺅں اور گناہوں کےلئے خدا کے حضور افسوس و ندامت کو ظاہر کرنے کےلئے بہائے جائیں۔ یسوع نے اُس بیوہ کو رونے سے منع کیا اور پھر اُس کے سامنے اپنے الفاظ کی اہمیت کو ثابت بھی کیا۔ آپ آگے بڑھے اور جنازہ کو چھوا، اور جنازے کو اُٹھانے والے وہاں کھڑے ہو گئے اور اِس بات کے منتظر تھے کہ اَب کیا ہوتا ہے۔

نائین نامی شہر میں اِس نوجوان کی موت کا اعلان یقیناً نرسنگا پھونک کر کیا گیا ہو گا۔ تاہم، اَب وہاں راستہ میں موجود سب افراد وہ آواز سُننے کو تھے جس نے یروشلیم میں یہودی راہنماﺅں کے سامنے ایک گہری حقیقت کا اعلان یہ کہہ کر کیا تھا کہ "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے" (انجیل بمطابق یوحنا 5: 25)۔ یسوع اپنے الفاظ کو ایک معجزہ سے ثابت کرنے کو تھے۔ آپ نے مُردہ شخص سے کہا "اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔"

اِردگرد موجود افراد کےلئے یہ الفاظ ایک دھماکہ خیز خبر تھے۔ یہ سچ ہے کہ بھِیڑ کے بہت سے لوگوں نے پہلے سُن رکھا تھا کہ کیسے اِس عظیم اُستاد نے بدرُوحیں نکالی تھیں، بیماریوں سے شفا بخشی تھی، اور طوفان کو جھِڑکا تھا، لیکن اُنہوں نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ مسیح انسان کے مرنے کے بعد اُس کی رُوح کو واپس لوٹ آنے کا حکم دے سکتے تھے۔

انسانی بدن میں جان لوٹانے کا مطلب یہ تھا کہ بدن کو چھوڑ جانے والی زندگی واپس لوٹ آتی۔ جی ہاں، اُنہوں نے کتاب مُقدّس میں اُن نبیوں کے بارے میں پڑھا تھا جنہوں نے خدا سے کافی دُعا کرنے کی جدوجہد کے بعد مُردوں کو زندہ کیا تھا۔ اُن لوگوں نے مشکل طریقے استعمال کئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا معجزہ معمولی نہیں تھا۔ اُنہوں نے ایسا پوشیدگی میں کیا کہ جیسے وہ ناکامی سے خوفزدہ تھے۔ مزیدبرآں، ایلیاہ نبی کے ایام میں ایسے ہونے والے واقعہ کو نو سو سال گزر چکے تھے (1- سلاطین 17: 17-24)۔ اُس ہجوم نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا اُن کی آنکھوں کے سامنے ہونے کو تھا۔ لیکن مسیح وہ شخصیت تھی جنہوں نے اختیار کے ساتھ موت کا سامنا کیا، اور آپ نے نبیوں کی طرح عاجزی سے درخواست نہیں کی۔ مسیح کی قوت و قدرت کس قدر عظیم ہے!

ہم مسیح کے معجزہ کی تاثیر کو اُس کے نتیجہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ نوجوان اُٹھ بیٹھا اور باتیں کرنے لگا۔ جب اُس نے اپنی آنکھیں کھولی ہوں گی تو یہ دیکھ کر کس قدر حیران ہُوا ہو گا کہ اُسے دفنانے کےلئے لے جایا جا رہا تھا اور اِردگرد ماتم کرنے والے موجود تھے۔

اُس نے اپنی ماں کی بڑی غمگینی کو دیکھا اور ہجوم کے آہ و نالہ کو سُنا۔ اِس سے بڑھ کر اُسے اُس وقت حیرت ہوئی ہو گی جب اُس نے ایک اجنبی کو اپنے پاس کھڑے دیکھا جو اُس کے جنازہ کو چھو رہا تھا جس کے چہرے پر اُسے بڑی حکمت، آسمانی پاکیزگی اور مہربانی کے سوتے پھوٹتے نظر آئے۔

جب نائین شہر کی بیوہ کے بیٹے نے یسوع پر نگاہ کی تو اُسے یسوع کا چہرہ نظر آیا۔ اَب یسوع کا چہرہ مبارک کیسا تھا؟ قدیم مصنفین نے ہمیں یسوع کی صورت کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کی ہے، لیکن ہم اُن بیانات میں سے کسی پر پوری طرح سے یقین نہیں کر سکتے۔ کیا آپ میں جسمانی خوبصورتی تھی؟ آپ سے متعلق نبوتوں میں ہمیں کچھ ایسی آیات بھی ملتی ہیں جو اِس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ مسیح کے چہرے میں کوئی خوبصورتی نہ تھی، مثلاً "... نہ اُس کی کوئی شکل و صورت ہے نہ خوبصورتی اور جب ہم اُس پر نگاہ کریں تو کچھ حُسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں" (یسعیاہ 53: 2)۔

جبکہ دوسری طرف ایسی آیات بھی ہیں جو آپ کی خوبصورتی کی بات کرتی ہیں۔ زبور نویس لکھتا ہے: "تُو بنی آدم میں سب سے حسین ہے۔ تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے اِس لئے خدا نے تجھے ہمیشہ کےلئے مبارک کیا" (زبور 45: 2)۔

اِسی طرح سلیمان نبی نے لکھا: "میرا محبوب سُرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔ ... وہ سراپا عشق انگیز ہے" (پرانا عہدنامہ، غزل الغزلات 5: 10، 16)۔

ہمارے نزدیک یہ خیال زیادہ معتبر ہے کہ مسیح غیرمعمولی طور پر جاذب نظر تھے۔ خدا تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ یہ خیال زبور نویس کے الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے: "میں نے خداوند سے ایک درخواست کی ہے۔ میں اُسی کا طالب رہوں گا کہ میں عمر بھر خداوند کے گھر میں رہوں تا کہ خداوند کے جمال کو دیکھوں اور اُس کی ہیکل میں اِستِفسار کیا کروں" (زبور 27: 4)۔

اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو کچھ خدا نے خلق کیا ہے اُس میں سے ہر چیز خوبصورت ہے۔ جو کچھ دِلکش نہیں وہ گناہ یا اُ س کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ اپنی شکل و صورت کا خیال رکھنا اہم بات ہے، اور وہ سب جو اپنی زندگی کے کام کی بدولت خوبصورتی کو برقرار رکھنے اور اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ درحقیقت نسلِ انسانی کےلئے ایک بھلائی کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں جسے یاد رکھنا اور سراہا جانا چاہئے۔

کچھ قدیم لوگ خاص کر یونانی بیرونی خوبصورتی کو سراہتے ہوئے اِس انتہا تک چلے گئے کہ اُنہوں نے اِسے اپنی عبادت و پرستش کا موضوع بنا دیا۔ دیگر جھوٹے مذاہب کی طرح یہ بھی بگاڑ کی طرف لے کر گیا۔ لیکن خوبصورتی میں اُن کی دلچسپی نے اُن کی تہذیب کے مرتبہ کو بلند کرنے میں مدد فراہم کی، اور اِس نے قوموں میں اُن کی شہرت کو دوام بخشا۔

غالباً یسوع ایک جاذب نظر شکل و صورت کے حامل تھے کیونکہ آپ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو کنواری سے رُوح القدس کی بدولت پیدا ہوئی۔ خدا نے اسرائیل کی ہزاروں کنواریوں میں سے ایک کنواری مُقدّسہ مریم کو چُنا تا کہ وہ اُس بدن کو جنم دے جس میں ذاتِ الہٰی سکونت پذیر ہو۔ مسیح کے جاذِب نظر ہونے کے ہمارے خیال کی تائید اِس آگہی سے بھی ہوتی ہے کہ باطنی خوبصورتی کا اظہار بیرونی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ بےشک گناہ سے مبرّا اِنسانِ کامل یسوع بےحد شخصی خوبصورتی اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے جس نے بےشمار لوگوں یہاں تک کہ آپ کے دُشمنوں پر بھی مثبت اثر ڈالا۔

مسیح نے دُنیا سے جسمانی موت کو دُور نہ کیا۔ یہ الہٰی سزا، اگرچہ وقتاً فوقتاً معطل کی گئی، مگر اِس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ جب یسوع نے مُردہ نوجوان کو زندہ کیا تو آپ اپنی بڑی قدرت سے لوگوں کو خیرہ نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ اِس کا محرک اُس بیوہ کےلئے آپ کا ترس تھا۔ ابلیس انسانیت کو موت کا مغلوب کرنے اور لوگوں کے دِلوں سے مہربانی و ترس کو دور کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ بیوہ کی جانب مسیح کی ہمدردی ابلیس کے کام پر غالب آنے کا ایک اظہار تھا۔ جیسے ہی وہ نوجوان شخص جی اُٹھا تو یسوع نے اُسے اُس کی ماں کو لوٹایا، گویا کہ اُسے کہہ رہے ہوں "اَب تم سمجھ سکتی ہو کہ کیوں میں نے تمہیں رونے سے منع کیا تھا۔" مسیح کے ہر پیروکار کے دِل میں شفقت و مہربانی یکجا موجود ہوتی ہیں۔ یہ اِس حکم کی عین فرمانبرداری ہے کہ "خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کرو۔ رونے والوں کے ساتھ روﺅ" (رومیوں 12: 15)۔

بےشک، نائین شہر کی بیوہ اور اُس کا بیٹا، مسیح نجات دہندہ پر ایمان لائے۔ ہمیں اُنہیں یسوع کے دو باوفا پیروکاروں کے طور پر لے سکتے ہیں۔ نائین شہر میں ایمان کا بیج بویا گیا۔ اِس عام سے شہر کو یسوع نے شہرت بخشی۔ اِس بڑے معجزے کی بدولت یسوع کی شہرت تیزی سے اِردگرد کے علاقے میں پھیلی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سب پر دہشت چھا گئی اور وہ خدا کی تمجید کرنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہُوا ہے۔

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب "سیرت المسیح، حصّہ 3، مسیح کا اختیار اور تعلیمات" کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. مسیح کی کوڑھی کی طرف سے پرستش کو قبول کرنے کی کیا اہمیت ہے؟

  2. یسوع نے کوڑھی کو کیوں چھوا؟

  3. کوڑھی نے سب کو اپنی شفا کے بارے میں بتا کر یسوع کی نافرمانی کی۔ یوں وہ کس نقصان کا سبب بنا؟

  4. پطرس نے کیوں یسوع کو اپنے پاس سے چلے جانے کےلئے کہا؟

  5. وہ کون سا نیا کام تھا جو یسوع نے پطرس کو دیا؟

  6. چار افراد نے اپنے مفلوج دوست کی تین طرح سے کیسے مدد کی؟

  7. یسوع نے مفلوج شخص کے گناہوں کو معاف کیا؟ اِس معافی کا کیا مطلب ہے؟

  8. اُن تین اسباق کا ذِکر کریں جو یسوع کی طرف سے متی محصول لینے والے کے بلائے جانے کے واقعے سے آپ نے سیکھے ہیں؟

  9. متی کو توبہ کرنے کے بعد یسوع نے کیا شرف بخشا؟

  10. توبہ کی طرف لے کر جانے والے چار اقدام کا ذِکر کریں۔

  11. شکستگی کیسے ہمیں خدا کے نزدیک لے کر جا سکتی ہے؟

  12. یسوع نے اڑتیس برس کے بیمار شخص کو شفا دینے کا چناﺅ کیوں کیا؟

  13. یسوع نے حوض کے پاس بیمار شخص کو یہ کیوں کہا "کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟"

  14. یسوع کے خدا کا بیٹا ہونے کے پانچ گواہ کون سے ہیں؟

  15. یسعیاہ 58: 3-7 کے مطابق خدا کس روزہ کو قبول کرتا ہے؟

  16. یسوع کی نئی تعلیم کو قبول کرنے کے قابل دِل کی حالت کیسی ہوتی ہے؟ دِل کی ایسی حالت کے حصول کےلئے ایک فرد کو کیا کرنا چاہئے؟

  17. جب یسوع نے اپنے شاگردوں کو رسولوں کے طور پر چُنا تو آپ نے اُن میں کیا دیکھا؟

  18. لفظ "مبارک" کے کیا معنٰی ہیں؟

  19. یسوع نے جن آٹھ قسم کے مبارک لوگوں کا ذِکر کیا ہے وہ کون ہیں؟

  20. ہمیں گواہی دیتے وقت قسم کیوں نہیں اُٹھانی چاہئے؟

  21. یسوع نے دُعائے ربانی کا آغاز "اے ہمارے باپ" سے کیوں کیا؟

  22. چوڑے اور تنگ دروازہ کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں؟

  23. اُس شخص کی کیا خوبیاں ہیں جسے یسوع نے عقلمند کہا ہے؟

  24. کیوں ہمیں یسوع کے پاس آنے کے بعد کسی دوسرے درمیانی کی ضرورت نہیں؟

  25. آپ نائین نامی شہر کی بیوہ کے بیٹے کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے معجزہ سے کیا سیکھتے ہیں؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany