اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
سیرت المسیح، حصّہ 2، مسیح کی آزمایش اور خدمت کی ابتدا

سیرت المسیح، حصّہ 2، مسیح کی آزمایش اور خدمت کی ابتدا

جارج فورڈ

2016


1- یسُوع کا ابلیس سے آزمایا جانا

یسوع کے بچپن کے ایام کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم نے ہیرودیس بادشاہ کے کاموں سے ظاہر ہونے والے ابلیس کے کاموں کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ لیکن اب تک ابلیس کے نام کا ذِکر یا اُس کی بابت واضح بیان اِس کتاب میں نہیں آیا۔ مگر اب ہم ابلیس کو دیئے جانے والے تین ناموں کی روشنی میں اُس کا جائزہ لیں گے جو اُس کے کردار کو بیان کرتے ہیں، یعنی آزمانے والا، شیطان (الزام لگانے والا) اور ابلیس (دشمن یا مخالف)۔ انجیل جلیل بیابان میں آزمایش کے واقعہ میں اُس کے بارے میں بیان کرتی ہے کہ اُس نے یسوع کو گناہ میں گرانے کےلئے آزمایش کی (انجیل بمطابق متی 4: 1-11; انجیل بمطابق لوقا 4: 1-13)۔

کتاب مُقدّس ہمیں سکھاتی ہے کہ ابلیس نہایت شریر ہے جو بغیر جسمانی وجود کے رُوحانی مخلوق ہے۔ وہ گمراہ و شریر فرشتوں کا پیشوا ہے۔ جناب مسیح نے بتایا کہ ابلیس اور اُس کے فرشتوں کےلئے ہمیشہ کی آگ تیار کی گئی ہے (انجیل بمطابق متی 25: 41)۔ نئے عہد نامہ میں یہوداہ کے خط کی آیت چھ میں ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں: "اور جن فرشتوں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا بلکہ اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا، اُن کو اُس نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روزِ عظیم کی عدالت تک رکھا ہے۔" نئے عہدنامہ میں شیطان کو دُنیا کا سردار (انجیل بمطابق یوحنا 16: 11)، اِس جہان کا خدا (نیا عہدنامہ، 2-کرنتھیوں 4: 4)، اور ہوا کی عملداری کا حاکم (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 2) بھی کہا گیا ہے۔

شیطان عیاری سے ایک طاقتور اور پراسرار طریقے سے نسلِ انسانی پر تسلط جماتا ہے۔ ابلیس کی اثر ڈالنے والی حقیقی شخصیت ہونے کا بڑا ثبوت ہمیں شاگردوں کو سکھائی جانی والی دُعائے ربانی میں ملتا ہے، جب یسوع مسیح نے شیطان کی بابت مختصر ذِکر کے ساتھ یوں فرمایا کہ "ہمیں آزمائش میں نہ لا، بلکہ بُرائی سے بچا" (انجیل بمطابق متی 6: 13)۔ یہ بری چیزوں یا بُرائی کرنے والے لوگوں سے چھٹکارا پانے کی نہیں بلکہ شریر ابلیس سے محفوظ رہنے کی دُعا ہے۔

کتاب مُقدّس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ابلیس کو انسانیت پر کامل غلبہ پانے کےلئے جو چیز روک رہی ہے وہ الہٰی رضا ہے۔ ابلیس اِس حقیقت کو پہچانتا ہے اور خدائی اجازت کے بغیر وہ انسان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کر سکتا۔ خدا کی جانب سے ابلیس کو مہیا کی جانے والی اِس اجازت میں آزمائے جانے والوں کےلئے خدا کی بے بیان محبت کار فرما نظر آتی ہے۔ آزمایش میں سے گزر کر فتح پانے والے ایماندار پاک کئے جاتے ہیں، تقویت پاتے ہیں، اور بالآخر خدا تعالیٰ کے جلال میں شامل کئے جاتے ہیں۔ بلا شک و شبہ ہم اِس بات کو جانتے ہیں کہ ایمانداروں کی آزمایش کے پسِ پردہ خدا تعالیٰ کی محبت متحرک ہوتی ہے، کیونکہ مسیح کی آزمایش کے وقت خدا کا پاک رُوح ہی مسیح کو بیابان میں لے کر گیا تھا کہ وہ ابلیس سے آزمایا جائے۔

پہلی آزمایش: بھوک

"اُس وقت رُوح یسوع کو جنگل میں لے گیا تا کہ ابلیس سے آزمایا جائے۔ اور چالیس دِن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی۔ اور آزمانے والے نے پاس آ کر اُس سے کہا، اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔ اُس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔" (انجیل بمطابق متی 4: 1-4)

آزمایش کی دو اقسام ہیں جو واضح طور پر مختلف ہیں۔ ایک آزمایش مصائب کی صورت میں ہوتی ہے جو مثبت اور معاون ہوتی ہے; یہ ایک امتحان کی مانند ہے جس کا مقصد ہمیں پاکیزگی، قوت اور جلال بخشنا ہوتا ہے جیسے کہ خدا تعالیٰ نے ابرہام کو یہ توفیق بخشی۔ یعقوب رسول نے ایسی آزمایش کو یہ کہتے ہوئے نہایت شادمانی کا موقع تصور کیا کہ "اے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 2-3)۔ دوسری قسم کی آزمایش بدی کرنے کی آزمایش ہے جس کا مقصد تباہ و برباد کرنا اور شرمندگی دلانا ہوتا ہے۔ اِس قسم کی آزمایش کے بارے میں مُقدّس یعقوب نے لکھا: "جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 13)۔

جناب مسیح کی آزمایش اہم ترین واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جس کی تفسیر و وضاحت بہت ضروری ہے۔ یہاں ایک درپیش دشواری یہ ہے کہ مسیح کی کامل پاکیزگی کو اِس انجیلی بیان کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے جہاں لکھا ہے کہ "کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 4: 15)؟

ہم کیسے ایک راست و مُقدّس شخص کی آزمایش کا گنہگار انسان کی آزمایش سے موازنہ کر سکتے ہیں؟ مسیح کے کامل کردار کی بابت جو کچھ ہم جانتے ہیں اُس کے باعث یہ سوچنے کی گنجایش ہرگز نہیں بچتی کہ اُس کی آزمایش تمثیلی یا تصوراتی نوعیت کی تھی، کیونکہ مسیح نے خود اِس واقعہ کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور آزمایش کے وقت کوئی بھی دوسرا آپ کے ساتھ نہ تھا۔

مسیح کسی ایسے شخص کے ساتھ ملاقات کے ذِکر کو بھلا کیسے بیان کر سکتے تھے جس کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا، اور نہ ہی مسیح کسی بےبنیاد بات کو حقیقت بنا کر پیش کر سکتے تھے۔ ہم یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ مسیح کے رسول اپنے اُستاد اور خداوند کے بارے میں اُس کے ابلیس کے ساتھ آزمائے جانے کے فیصلہ کن واقعہ کو اپنے ہی طور پر گھڑ کر بیان نہیں کر سکتے تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ مسیح کا ابلیس کے ساتھ آزمایش کا واقعہ تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔

اِس آزمایش کے واقعہ میں، مسیح یسوع نے اپنے رُوحانی تجربات سے وابستہ گہرے راز کو افشاں کیا ہے، جو کہ ایک ایسی کڑی آزمایش تھی جس میں سے مسیح بالکل تنہا گزرا۔ چونکہ یسوع نے خود اِس واقعہ کو بیان کیا، اِس لئے قاری کےلئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی قیاس آرائی سے دُور رہے اور انجیلی کلام کے سچے متن سے نہایت احترام و دھیان سے وابستہ رہے۔

کچھ لوگ اپنی ہی ناراستی کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہراتے ہیں اور یوں وہ اپنے آپ میں پائے جانے والے موروثی گناہ کی وضاحت کرتے ہیں جو تمام نسل انسانی کو گناہ کی طرف لے کر جاتا ہے۔ لیکن یسوع کی آزمایش ثابت کرتی ہے کہ یسوع کے ساتھ ایسا نہیں تھا کیونکہ اُس کے دِل اور خیالات میں ہرگز کوئی گناہ نہ تھا۔ باالفاظ دیگر، آزمایش مسیح کے باطن میں سے پیدا نہ ہوئی، بلکہ بیرونی تھی جو شیطانی قوت کی جانب سے تھی۔

یسوع کی تیاری کے سال اپنے اختتام کو پہنچے اور وہ اپنی عوامی خدمت کا آغاز کرنے کو تھا، لیکن اِس سے پیشتر اُسے آزمایش کی آگ سے گزرنا ضرور تھا تا کہ اِس بات کا اظہار ہو سکتا کہ وہ نجات دہندہ ہونے کے لائق ہے۔ ایسا کرنے کےلئے مسیح کو بدی کی قوتوں کے سردار سے مقابلہ کرنا اور اُسے شکست دینا ضرور تھا تاکہ عہدنامہ عتیق کی اوّلین نبوت جو ہمارے پہلے والدین (آدم اور حوا) کو باغِ عدن میں دی گئی تھی، پایہ تکمیل تک پہنچتی جہاں ہم پڑھتے ہیں: "اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا، اِس لئے کہ تُو نے یہ کیا، تُو سب چوپائیوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا۔ اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کُچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا" (توریت شریف، کتاب پیدایش 3: 14-15)۔

مسیح کےلئے ضرور تھا کہ وہ سرکش ابلیس کو شکست دیتا جسے اب تک کوئی انسان زیر نہ کر سکا تھا۔ شیطان کو شکست دینے سے، مسیح نے اُن سب کےلئے جو اُس پر بھروسا رکھتے ہیں، فتح کے واحد دروازہ کو کھول دینا تھا۔ یہ فتح فقط مسیح کے نام ہی میں ممکن ہے، جو اُسی روح القدس کی قوت کے وسیلہ حاصل ہوتی ہے جو یسوع کو بیابان میں لے گیا اور وہ فتحمندی سے ہمکنار ہوا۔

ابنِ آدم ہونے کے ناطے یسوع نے اپنے آپ کو اُنہی زمینی حالات کے تابع کر دیا، جن کے تحت سب انسان زندگی بسر کرتے ہیں۔ مسیح انسانی تجربات کے دائرے سے باہر نہ تھا۔ جس طرح بلند پہاڑ کے دامن میں ایک وادی ہوتی ہے اور بڑی خوشی کے بعد اکثر رنج و غم کا وقت ہوتا ہے، اُسی طرح یسوع کو بپتسمہ کے بعد نہایت مسرّت و شادمانی ملی، لیکن اب بیابان میں آزمایش کا وقت یسوع کےلئے بےحد تکلیف و رنج کا دَور تھا۔ پاک نوشتوں کے مطابق ہم سیکھتے ہیں کہ شیطان انسان کو شکست دینے کےلئے اُس کی خوشی کا حالت کا منتظر ہوتا ہے، جس کے باعث آزمانے والا ابلیس تو خوش ہوتا ہے مگر آزمایش میں گر جانے والا شخص گہرے رنج و غم کا شکار ہو جاتا ہے۔

موسیٰ، ایلیاہ، پطرس اور یہوداہ اسکریوتی کی مثالیں شیطان کی چالوں کا بَیّن ثبوت ہیں۔ ابلیس نے رویِ زمین کے سب سے حلیم شخص موسیٰ نبی کو غصہ میں گر جانے کے گناہ میں مبتلا کیا، جس کی وجہ سے موسیٰ نبی بیابان میں مصائب کے چالیس برس کے بعد موعودہ سرزمین میں داخل نہ ہو سکا، اور اُس کی آرزو پوری نہ ہو سکی (توریت شریف، کتاب گنتی 12: 3; 20: 8-13)۔ کوہِ کرمل پر ایلیاہ نبی نے ایک بادشاہ اور بعل کے نبیوں اور اُن کے دیوتا کو شکست دے کر اُن پرنمایاں زبردست فتح پائی، لیکن اگلے ہی دن ابلیس نے ایلیاہ نبی کو نااُمیدی و مایوسی کے گناہ میں گرا دیا، جس کے نتیجے میں وہ اپنی خدمت کے موقع و مقام کو چھوڑ کر سینا کے بیابان کو بھاگ گیا اور اپنی موت کی تمنا کرنے لگا (پرانا عہدنامہ، 1-سلاطین 18: 30-40; 19: 1-10)۔

اِسی طرح کا ایک واقعہ تب ہوا، جب یسوع نے پطرس کے ایمان کی تعریف کی تو اُس نے خود کو آسمان کی بلندیوں میں محسوس کیا، لیکن وہ غرور کے گناہ میں مبتلا ہو گیا اور شیطان نے اُسے ترغیب دی کہ وہ یسوع کے صلیب پر جانے کی حوصلہ شکنی کرے۔ پطرس کو احساس نہ ہوا کہ یہ بات مسیح کے نجات بخش کام کو روکنے کی ایک شیطانی سازش تھی، اِسی لئے یسوع نے اُسے سختی سے جھڑکا اور کہا "اے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔ تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے" (انجیل بمطابق متی 16: 13-23)۔ یہوداہ اسکریوتی، مسیح کی رفاقت میں روحانی برکات سے فیض یاب ہونے کے باوجود آزمانے والے شیطان کے جال میں پھنس کر لالچ کے گناہ کا شکار ہوا، جس کے باعث اُس کا نام آج کے دن تک سخت غداری اور بےانتہا سنگدلی کی علامت بنا ہوا ہے (نیا عہدنامہ، اعمال 1: 15-20)۔

جس طرح ظالم و جابر ابلیس نے موسیٰ، ایلیاہ، پطرس اور یہوداہ اسکریوتی کے خلاف اپنے منصوبے پر کام کیا، بالکل ویسے ہی یسوع کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے کہ ابلیس اپنے اُسی منصوبے کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ جب اُس نے بپتسمہ کے وقت، یسوع کو رُوح القدس کی معموری اور باپ کی جانب سے تحسین و تعریف کے سبب شادمان دیکھا، تو وہ مسیح پر اِس غرض سے حملہ آور ہوا کہ اُسے گناہ میں گرائے۔ اُس نے یسوع کو چالیس دن تک شدت سے آزمایا۔ اِس سے پیشتر یہی ابلیس تمام بنی نوع انسان کو ٹھوکر کھلا کر اپنے پھندے میں پھنسا چکا تھا، اور اَب وہ ابنِ مریم کو شکست دینے کےلئے پُر اُمید تھا کیونکہ ظاہری طور پر مسیح اُس کو آسانی سے پھنسنے والا شکار معلوم ہو رہا تھا۔

آدم اور یسوع کی آزمایشوں کا موازنہ

جب آدم و حوا عظیم الشان باغِ عدن میں ناقابل تصور خوشی و شادمانی میں زندگی بسر کر رہے تھے، تو ابلیس نے اُن کی آزمایش کی اور گناہ میں گرا دیا۔ اِس سے پہلے آدم کے گرد کوئی گناہ یا بگاڑ نہ تھا، یہاں تک کہ جانور بھی انسان کے دوست اور فرمانبردار تھے۔ آدم کسی قسم کی بیماری، غم یا تھکان سے واقف نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ خدا کی جانب سے دیئے گئے مقام میں رہے گا، اُس کےلئے شادمانی کی یہ حالت ہمیشہ تک رہے گی۔

اِسی ابلیس نے آدم ثانی یعنی یسوع کو بیابان میں بغیر کسی آرام و آسایش اور خوراک کے، جنگلی جانوروں کے درمیان دیکھا۔ آدم اوّل کے برعکس یسوع کی ابتدائی زندگی گنہگاروں کے درمیان گزری تھی۔ مزید برآں، یسوع جانتا تھا کہ دُنیا کی نجات کے اپنے مقصد کے حصول کےلئے اُسے لمبے عرصے کی ماندگی، مصیبت، بے عزتی، جسمانی ایذارسانی یہاں تک کہ صلیب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اِن حالات کے پیش نظر مسیح کےلئے آسانی سے یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے مضبوط عزم کو برقرار نہ رکھ پاتا۔ اُس بیابان میں صرف جنگلی جانور ہی اُس کے پاس تھے۔ پاک کلام سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آدم اوّل، گناہ میں گرنے سے پہلے باغِ عدن میں پالتو اور جنگلی جانوروں دونوں پر حکمران تھا، مگر بعد میں اُس کے گناہ کے باعث جانور اُس سے عداوت رکھنے لگے۔ جب ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع جنگلی جانوروں کے درمیان تھا، تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ آدم کے گناہ کے باعث جو اختیار کھو گیا تھا، یسوع اُسے پھر سے حاصل کر رہا تھا، اور اِس کی ایک جھلک عہد عتیق میں بھی نظر آتی ہے کہ جب دانی ایل شیروں کی ماند میں تھا اور الہٰی راستبازی نے اُسے شیروں کے منہ سے بچایا (پرانا عہدنامہ، کتاب دانی ایل، باب 6)۔ یہ قابل فہم ہے کہ گناہ کےلئے مسیح کے فدیہ و کفارہ کے نتائج میں سے ایک نتیجہ عالم حیوانات پر انسان کے کھوئے ہوئے اختیار کا پھر سے مل جانا ہو گا۔ علاوہ ازیں، مذہب و اخلاقیات کے ایک پہلو کے طور پر جانوروں کی جانب رحمدلی بھی بحال ہو جائے گی۔

یسوع نے بیابان میں چالیس دن اور رات فاقہ کیا۔ آزمانے والے نے فاقہ کشی کے باعث مسیح کی جسمانی حالت کی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ کو سخت آزمایشوں سے نڈھال کر دیا۔ یسوع کی فاقہ کشی قابل فہم ہے کیونکہ آپ بیابان میں تھے جہاں کھانا میسر نہ تھا۔ اور یہ ایسی جگہ تھی جہاں خوراک آسانی سے دستیاب نہ تھی، اور پھر یسوع روحانی امور میں مشغول تھے، اور آپ کے پاس کھانے کےلئے سوچنے کا وقت نہ تھا۔

کھانے پینے کی غرض سے یسوع مسیح بیابان کو اُس وقت تک چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے جب تک کہ روح القدس کی طرف سے آپ کو ایسی راہنمائی نہ ملتی کیونکہ پاک رُوح کی ہدایت ہی سے تو آپ وہاں بیابان میں آئے تھے۔ یسوع کو اُس وقت تک حقیقی معنوں میں بھوک نہ لگی جب تک کہ آزمایش کا یہ عرصہ پورا نہ ہوا۔

جب ابلیس نے باغِ عدن میں حوا کو آزمایا، تو اُس نے سانپ کی شکل اختیار کی کیونکہ وہاں کوئی اَور ایسا انسان نہ تھا جسے شیطان آزمانے کےلئے استعمال کرتا۔ جب ابلیس حوا کو ورغلا کر گمراہ کر چکا تو اُس نے حوا کو استعمال کیا، اب ابلیس گناہ میں گرے انسان کو اپنے مقصد کےلئے استعمال میں لا سکتا تھا۔ آزمایش اُس وقت اَور بھی سخت ہو جاتی ہے جب ابلیس ہمیں ورغلانے کےلئے ہمارے ہی عزیز و اقارب کو استعمال کرتا ہے۔ اِسی لئے جب ابلیس نے دُنیا کی نجات کے مقصد سے مسیح کی توجہ ہٹانا چاہی تو اُس نے مسیح کے ایک نمایاں اور قریبی شاگرد شمعون پطرس کو استعمال کیا (انجیل بمطابق مرقس 8: 32-33)۔

جس شکل و صورت میں ابلیس، یسوع کے سامنے ظاہر ہوا، اُس بارے میں کلام الہٰی بالکل خاموش ہے۔ یہ سوچ معقول ہو سکتی ہے کہ وہ کسی شیطانی صورت میں یسوع کے سامنے نمودار نہ ہوا کیونکہ ایسا کرنے سے شیطان کے کارِ بد میں رکاوٹ ہو جاتی، اور اِس صورت میں یسوع ابلیس کا مقابلہ کر کے اُس کو مار بھگاتے۔ یہ امکا ن غالب ہے کہ ابلیس، یسوع پر ایک فرد کی حیثیت سے ظاہر ہوا۔ چونکہ یسوع کے اپنے وجود میں ہرگز کوئی گناہ نہ تھا، لہٰذا آزمایش مسیح کے اندر سے نہ آ سکتی تھی۔ غالباً ابلیس پہلے ایک عام شخص کی صورت میں ظاہر ہو کر بیابان میں یسوع کے پاس آیا۔ اگر یہ مفروضہ درست ہے تو جب رُوح نے مسیح کو بیابان میں خوراک مہیا کئے بغیر بھیجا جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے تو ابلیس نے مسیح کی بھوک پر اپنے تعجب کا اظہار کیا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ اُس نے یسوع کو بڑی ہمدردی سے یہ بھی کہا ہو کہ خدا کا بیٹا ہوتے ہوئے اُس کےلئے اپنی ضروریات کو پورا کرنا کتنا آسان ہے۔

چونکہ مسیح نے پتھروں کو خلق کیا تھا، اِس لئے وہ نہایت آسانی سے اُنہیں کسی بھی دوسری صورت میں تبدیل کر سکتے تھے۔ پتھروں کو روٹی میں تبدیل نہ کرنے کی صورت میں مسیح کے اندر شک پیدا ہو سکتا تھا کہ آیا وہ حقیقت میں خدا کا بیٹا تھا یا نہیں کہ جب لگ رہا تھا کہ گویا باپ نے مسیح کو خوراک مہیا نہ کر کے آپ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ وہ الہٰی پروردگاری پر بڑبڑاتے ہوئے اپنے باپ کی محبت پر شک کر سکتا تھا، تاہم حیران کن بات یہ تھی کہ اِس سب کے باوجود جناب یسوع اپنے باپ کے حکم و مرضی کا منتظر رہے۔

آج ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ اپنی بھوک کو مٹانے کی خاطر کیوں یسوع نے پتھروں کو روٹی میں تبدیل نہ کیا؟ ابلیس کون سا گناہ مسیح کی دِل میں پیدا کرنا چاہتا تھا؟ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یسوع نے اِس تجویز کو محض اِس لئے رد کیا کہ یہ ابلیس کی طرف سے تھی۔ یسوع نے صرف آزمانے والے کو انکار نہ کیا بلکہ آزمایش کو بھی انکار کیا، چاہے وہ کسی بھی جانب سے کیوں نہ ہوتی۔ اِن آزمایشوں کی جو بھی حقیقی صورت تھی، اُس کے بارے میں آگہی ہمیں مسیح کے دیئے جانے والے جوابات و اعتراضات کی روشنی میں مل سکتی ہے، کیونکہ مسیح نے کتاب مُقدّس میں سے اپنے جوابات دیئے اور اُسی بنیاد پر اپنی بات کی۔

یسوع کا پہلا جواب یہ تھا کہ "لکھا ہے..." یعنی پاک نوشتوں میں لکھا ہے۔ اِس طرح کے جواب کے ردِعمل سے یسوع نے دُنیا اور ابلیس کے سامنے اپنے آپ کو صاحبِ سلطان کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے انسان کے طور پر پیش کیا جو شریعت اور اُس کی تعمیل کے ماتحت ہے۔ آپ نے کلام خدا کے حوالے دے کر ظاہر کیا کہ مذہبی معاملات میں پاک نوشتے ہی آخری سند ہیں۔

یسوع آزمانے والے ابلیس کو فلسفیانہ دلائل پر مبنی جواب دے سکتے تھے، مگر جب کہا کہ "لکھا ہے" تو آپ نے ظاہر کیا کہ مذہبی دلائل کو انسانی علم سے نہیں بلکہ خدا کے کلام سے تقویت ملتی ہے۔ کلام خدا ایک ایسی دو دھاری تلوار کی مانند ہے جس سے انسان اپنے عظیم ترین دشمن ابلیس کو شکست دے سکتا ہے۔ یسوع نے اِس ہتھیار کی بدولت ابلیس پر غلبہ حاصل کیا اور یہی ہتھیار آج ہر انسان کےلئے بھی میسر ہے۔

آزمانے والے ابلیس نے تسلیم کیا کہ یسوع ابنِ خدا تھا، اور اگر وہ مسیح پر غالب آتا تو اُس کی تسکین کی کوئی انتہا نہ ہونی تھی۔ اپنی تمام تر دانش کے باوجود، شیطان یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ کامل طور پر ابنِ خدا ہوتے ہوئے یسوع کو نہ تو بھوک لگ سکتی تھی اور نہ ہی آپ نے روٹی کو کھانا تھا، اور نہ کسی طرح سے آپ کو آزمایش میں گرایا جا سکتا تھا۔ لیکن جب یسوع نے ابنِ آدم کی حیثیت سے شیطان کا مقابلہ کیا تو مسیح کی بابت شیطان کا تصور پاش پاش ہو گیا۔ یسوع اگرچہ ابنِ خدا تھے، تو بھی آپ نے لوگوں سے ابنِ خدا کی اپنی حیثیت کا تاکیداً اصرار نہ کیا۔ آپ نے اپنے پاک انجیلی کلام میں اِس لقب کو صرف دس مرتبہ استعمال کیا، جبکہ "ابنِ آدم" کے لقب کو پچاس مرتبہ استعمال کیا۔

اگر آزمایش کے دوران، یسوع کی الہٰی فطرت نے آپ کی طبیعت بشری کی مدد کی ہوتی، تو نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ آپ کی جسمانی فطرت اپنے طور پر آزمایش کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی۔ پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا اور نہ ہی وہ انسانیت کےلئے ایک نمونہ ٹھہرتے۔ مسیح نے اپنی آزمایش کے وقت میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جو بعد میں آپ کے پیروکار کرنے کی سکت نہ رکھ سکتے ہوں۔ پتھروں کو روٹی میں بدلنے کے انکار کی یہ نہایت معقول وجہ تھی۔ علاوہ ازیں، یسوع نے بھوک کی تکلیف کا خود بھی تجربہ کرنا چاہا جس کا آج دُنیا کے بےشمار لوگوں کو سامنا بھی ہے۔

پہلی آزمایش، ابلیس کی وہی مکّارانہ چال تھی جس سے اُس نے باغِ عدن میں حوا کو خدا پر شک کرنے کےلئے اُکسایا۔ حوا اپنے خالق سے بےنیاز ہو کر اپنی ذات میں خودمختار ہونا چاہتی تھی کیونکہ خدائے خالق نے باغِ عدن کے بیچ میں موجود ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا (توریت شریف، کتاب پیدایش 3: 3)۔ ابلیس نے بیابانی سفر کے دوران بنی اسرائیل کو خدا کی مرضی کے خلاف بڑبڑانے پر اُکسانے کےلئے کھانے پینے کے تعلق سے ایسی ہی چال چلی (توریت شریف، کتاب خروج 16: 3)۔ تاہم، یسوع نے ابلیس پر ظاہر کیا کہ خدا کا زندہ کلام ہونے کی وجہ سے وہ بھوک کی حالت میں باپ کے خلاف شکایت نہیں کرے گا۔ آپ کےلئے الہٰی پاک نوِشتے، جسمانی خوراک سے کہیں بڑھ کر اہم تھے۔ یسوع نے باپ کی مرضی سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرنا تھا، اور آپ نے خدا کی راہنمائی کے بغیر کھانا بھی نہ کھانا تھا۔ ایک اَور موقع پر اِسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے آپ نے کہا "میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُس کا کام پورا کروں" (انجیل بمطابق یوحنا 4: 34)۔

اِس آزمایش کے ذریعے، ابلیس یہ بھی چاہتا تھا کہ یسوع پہلے اپنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف توجہ دیتا۔ اگر یسوع نے اپنا معجزہ اپنے ذاتی مفاد کےلئے کیا ہوتا تو یہ ابلیس کی بڑی کامیابی ہونی تھی کیونکہ دوسروں کےلئے نہیں بلکہ صرف اپنے ہی لئے زندگی بسر کرنے سے نجات کا کام پورا نہ ہو سکتا تھا۔

مسیح کے تمام معجزات کا مقصد دوسروں کی یہاں تک کہ دشمنوں کی بھی بھلائی کرنا تھا۔ آپ نے سردار کا ہن کے نوکر ملخُس کے کان کو بھی ٹھیک کیا جو باغِ گتسمنی میں آپ کو گرفتار کرنے والی بِھیڑ کا حصہ تھا (انجیل بمطابق لوقا 22: 51)۔ آپ نے کوئی بھی معجزہ محض اپنی ذاتی تسکین کےلئے نہیں کیا۔ پولس رسول کے الفاظ کتنے برحق ہیں جب یہ کہا کہ "کیونکہ مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی" (نیا عہدنامہ، رومیوں 15: 3)۔

غرض صلیب پر مصلوبیت کے وقت خداوند مسیح کے دشمنوں کی لعن طعن آپ کی خود انکاری کی حقیقت کی تائید کرتی ہے: "اِس نے اَوروں کو بچایا۔ اگر یہ خدا کا مسیح اور اُس کا برگزیدہ ہے تو اپنے آپ کو بچائے" (انجیل بمطابق لوقا 23: 35)۔ آپ نے اپنے شاگردوں کےلئے جو پہلا راہنما اصول اور تقاضا رکھا وہ یہی تھا کہ اپنی خودی کا انکار کیا جائے۔ آپ کے عظیم احکام میں سے ایک حکم یہ ہے: "تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو، تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی" (انجیل بمطابق متی 6: 33)۔

اپنے اعمال و اقوال کے ذریعہ یسوع نے خودغرضی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی۔ آزمانے والا ابلیس یسوع سے چاہتا تھا کہ وہ روحانی باتوں کی نسبت جسمانی چیزوں کو مقدم رکھے اور لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑی تعداد میں پیروکار بنائے۔ یوں مسیح کو ظاہری طور پر جلد ہی کامیابی مل جاتی۔

یسوع نے ابلیس کی اِس چال کو ٹُھکرا دیا کیونکہ مسیح کا اصول یہ تھا کہ "فانی خوراک کےلئے محنت نہ کرو، بلکہ اُس خوراک کےلئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابنِ آدم تمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خدا نے اُسی پر مہر کی ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 6: 27)۔ اِن الفاظ کے ذریعے یسوع نے بنی نوع انسان کو درس دیا کہ ہر وقت اور ہر جگہ جسمانی بدن کی خدمت کی نسبت روحوں کی خدمت کو ترجیح دی جائے۔

حقیقی احسان صرف انسانی بدن کی نہیں بلکہ انسانی روح کی بھی بہتری چاہتا ہے۔ جسمانی ضروریات کےلئے خدمت اصولی طور پر اِس لئے کی جاتی ہے تا کہ وہ غیر فانی انسانی روح کی خدمت کا باعث بنے۔

جناب مسیح جن کی ہماری طرح آزمایش ہوئی اور جنہوں نے ہمارے لئے فتح حاصل کی، وہ ابلیس کی جانب سے ہمارے خلاف لڑی جانے والی ہر طرح کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ اگر آزمایش کے وقت ہم اپنے ساتھ یسوع کی حضوری کے لحاظ رکھیں تو وہ ہمیں دشمن پر فتح بخشیں گے تا کہ ہم پولس رسول کے ساتھ خوش ہو کر نغمہ سرا ہو سکیں کہ "خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1-کرنتھیوں 15: 57)۔

یسوع نے پہلی آزمایش میں فتح حاصل کی۔ آپ نے اپنی بھوک مٹانے کےلئے پتھروں کو روٹی بنانے سے انکار کر دیا، اور یہ کہتے ہوئے اِس آزمایش پر غلبہ پایا کہ "آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔"

دوسری آزمایش: سنسنی خیزیت

"تب ابلیس اُسے مُقدّس شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگُرے پر کھڑا کر کے اُس سے کہا کہ اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے، کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا، اور وہ تجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے، ایسا نہ ہو کہ تیرے پاﺅں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔ یسوع نے اُس سے کہا، یہ بھی لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر" (انجیل بمطابق متی 4: 5-7)۔

جب ابلیس نے یسوع کو پہلی آزمایش میں گرانا چاہا، تو اُسے ناکامی ہوئی، لیکن وہ اپنے مقصد سے دستبردار نہ ہوا۔ مکّار تو وہ ہے ہی، سو اُس نے ایک مختلف طریقے سے یسوع پر حملہ کیا۔ اُس نے آزمانے کا سادہ طریقہ چھوڑ کر نہایت ہی عیارانہ چال استعمال کی۔ وہ جانتا تھا کہ ہر فتح ایک اَور فتح کےلئے راہ ہموار کرتی ہے، سو اُس نے ریاکاری سے یوں چال چلی کہ جیسے کہ وہ "تحریر شدہ کلام خدا" کےلئے یسوع کی فرمانبرداری اور باپ کے ساتھ آپ کی یگانگت کے دعویٰ کو قبول کر رہا تھا۔

جب ابلیس نے محسوس کیا کہ یسوع روحانی امور کو جسمانی امور پر ترجیح دیتا ہے، تو اُس نے یسوع کو ایسا کام کرنے کےلئے کہا جس میں گرچہ جسمانی مفاد نہیں تھا، مگر اُس سے مسیح کو جسمانی خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

اُس نے یسوع کو کچھ ایسا کام کرنے کےلئے کہا، جس کا مذہبی طور پر بڑا اثر ممکن ہو سکتا تھا۔ اُس میں خود انکاری اور خدمت دونوں پہلو شامل تھے۔ یوں ہیکل میں جمع سب لوگوں کے سامنے یسوع یہ ثابت کر سکتا تھا کہ وہی فی الحقیقت خدا کا بیٹا تھا۔ پہلی اور دوسری آزمایش میں پائی جانے والی واحد مشابہت ابلیس کا یہ بیان تھا کہ "اگر تُو خدا کا بیٹا ہے..."۔

انجیلی بیان میں درج ہے کہ ابلیس یسوع کو مُقدّس شہر یروشلیم میں لے گیا اور ہیکل کے کنگُرے پر کھڑا کر کے آپ سے کہا کہ "اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے، کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا، اور وہ تجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے، ایسا نہ ہو کہ تیرے پاﺅں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔" عین ممکن ہے کہ ابلیس نے نورانی فرشتہ کی شکل اختیار کر لی ہو۔ پولس رسول نے شیطان کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ "اور کچھ عجب نہیں کیونکہ شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1-کرنتھیوں 11: 14)۔ وہ اُن فرشتوں میں سے ایک کی طرح کی صورت میں ظاہر ہوا، جن کا ذِکر کتاب زبور میں ہے: "وہ تجھے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا لیں گے تا کہ ایسا نہ ہو کہ تیرے پاﺅں کو پتھر سے ٹھیس لگے" (پرانا عہدنامہ، زبور 91: 12)۔

شیطان نے یسوع کو یہ تاثّر دینا چاہا کہ اگر وہ اپنے آپ کو ہیکل کی اُس بلند جگہ سے نیچے گرا دے گا تو وہ خود اُسے ہر طرح کے نقصان سے بچائے گا۔ ہیکل کے کنگُرے سے اپنے آپ کو نیچے گرا دینے کی صورت میں، مسیح بڑے مجمع اور دُنیا پر، ایسے ثبوت کے ساتھ واضح کر سکتا تھا کہ وہ خدا کی طرف سے آسمان سے آیا تھا۔ تاہم، مسیح کے جواب سے ہمیں اِس آزمایش کی اصل کیفیت کا علم ہوتا ہے۔

آپ نے جواب دیا "یہ بھی لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر۔" اِس جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب مُقدّس میں جو بات ایک مقام پر کہی گئی ہے، اُس کی تفسیر و تشریح اُسی موضوع پر بیان شدہ دیگر آیات کی روشنی میں پیش کرنی چاہئے۔ پاک نوِشتے بذاتِ خود اپنی بہترین تشریح ہیں۔ ہم کلام مُقدّس کی ایک آیت کو، اُسی طرح کے موضوع والی دیگر آیات کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ امر بائبلی تشریح و تفسیر کےلئے ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ تجربے نے ظاہرکیا ہے کہ کلام مُقدّس کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر استعمال کرنا اور تمثیلی علامتی حوالہ جات کو لفظی طور پر سمجھنا بہت سی نقصان دہ غلطیوں کا سبب ہو سکتا ہے۔

شیطان نے دوسری آزمایش کے دوران، لوگوں کے روبرو یسوع کو اُبھارا کہ وہ اپنی خداداد قوت و قدرت پر غرور کرے۔ تاہم، صحائف مُقدّسہ کے بیانات سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا انسان کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بغیر کسی معقول وجہ کے وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالے۔

خود اپنے آپ کو بغیر کسی مناسب سبب کے خطرے میں ڈال کر خدا کی حفاظت کی توقع کرنا یقیناً نامناسب ہے۔ انسان کا اپنی شیخی و غرور اور جذبات انگیزی میں غیر ضروری خطرات کو مول لے کر خدا کی طرف سے تحفظ کی آرزو کرنا واقعی غیر موزوں ہے۔ یقیناً یہ خداوند کو آزمانا ہوتا ہے۔ یسوع نے اپنی زندگی کو اُس وقت تک خطرات میں ڈالنے سے گریز کیا جب تک کہ آپ کا انسانیت کے گناہوں کےلئے اپنی زندگی کفارہ و فدیہ میں قربان کر دینے کا وقت نہ آیا۔

اِس آزمایش کا ایک پہلو یہ ہے کہ ابلیس نے یسوع کو ایک شعبدہ کرنے کےلئے کہا تا کہ لوگ اُس پر ایمان لے آتے۔ لیکن اِس طرح جناب یسوع سچائی کی قدرت اور دِلی شعور و احساس کی نسبت معجزات کی قدرت اور عقلی تحریک پر بھروسا کرنے والے ٹھہرتے، اور آپ کا انحصار آس پاس کے لوگوں کو تعلیم دینے کے بجائے اُنہیں حیرت زدہ کرنے پر ہوتا۔ یسوع کے لوگوں کو روحانی باتوں سے متاثر کرنے کے ارادے کو اگر ابلیس تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتا، تو بنی نوع انسان پر شیطان کا تسلط قائم رہتا، خواہ لوگ جتنے مرضی معجزے دیکھتے رہتے۔

آزمانے والے ابلیس نے جو جال یسوع کےلئے بچھایا تھا، آپ اُس میں نہ پھنسے۔ یہ درست ہے کہ اِس واقعے کے بعد یسوع کئی معجزات کرنے کو تھے، لیکن آپ نے اُن معجزات کو سنسنی خیزیت کی خاطر نہیں کرنا تھا، اور نہ اِس لئے کہ محض لوگ آپ پر ایمان لاتے۔ بلکہ آپ اِس لئے اُن معجزات کو کرنے کو تھے کہ ایماندار اپنے ایمان میں مستحکم ہوں۔ آپ پر بنی نوع انسان کے ایمان کی اساس معجزات کرنے کی قدرت پر نہیں بلکہ سچائی کے عظیم ترین اختیار، آپ کی پاکیزہ خوبیوں اور آپ کےلئے محبت پر ہونی تھی۔

مذہب کا مرکز و مقام انسان کا دماغ نہیں بلکہ دِل ہے۔ لوگ اُس وقت تک خدا کے نور کونہیں دیکھ سکتے جب تک کہ اُن کے دِل اُس سے متاثر نہ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ یسوع نے آسمانی معجزات دکھانے کی یہودیوں کی درخواست کو ہمیشہ ٹھکرایا۔

تیسری آزمایش: کثرتِ اِلٰہ کی پرستش

"پھر ابلیس اُسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا، اور دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شان و شوکت اُسے دِکھائی۔ اور اُس سے کہا، اگر تُو جُھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، اے شیطان دُور ہو، کیونکہ لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر، اور صرف اُسی کی عبادت کر۔ تب ابلیس اُس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آ کر اُس کی خدمت کرنے لگے۔" (انجیل بمطابق متی 4: 8-11)

جب ابلیس اپنے سادہ منصوبے اور عیارانہ چال دونوں میں ناکام ہو گیا تو اُس نے اَور بھی دلیری سے چال چلی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے اپنی التماس کا انداز تبدیل کیا۔ اُس نے مسیح کو وہ کچھ کرنے کو کہا جو ممنوع تھا، یعنی اُس کے آگے جُھک کر سجدہ کرنا۔ اور ایسا کرنے پر شیطان نے مسیح کو ناقابل اندازہ صلہ دینے کا وعدہ کیا۔ انسانی ادراک سے باہر کسی طریقے سے ابلیس، یسوع کو ایک بلند پہاڑ پر لے گیا تا کہ وہ دُنیا کی تمام سلطنتوں اور اُن کی شان و شوکت کو لمحہ بھر کےلئے دیکھ سکتا، اور شیطان نے مسیح سے کہا: "اگر تُو جُھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا" (انجیل بمطابق متی 4: 9)۔

اِس آزمایش کا جواب دیتے وقت مسیح کے بیان سے یہ قطعاً ظاہر نہیں ہوتا کہ ابلیس جھوٹ بول رہا تھا یا یہ کہ اُس کے وعدے غلط ہوں گے۔ مسیح حقیقت میں ابلیس کو اپنا وعدہ پورا کرنے کےلئے مجبور بھی کر سکتا تھا۔ لیکن مسیح نے ابلیس کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ عبادت و سجدہ صرف خدا کے حضور ہی کرنا واجب و شایاں ہے۔

اگر نماز و عبادت دِل سے نہ کی جائے اور ریاکاری پر مبنی ہو تو یہ خدا کے حضور مقبول نہیں ہوتی۔ یسوع بھلائی کے حصول کی خاطر کسی بھی قسم کی برائی کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن ابلیس ہمیشہ اِسی مقصد کےلئے کوشاں رہتا ہے، اور جو شخص بدی کے ساتھ سمجھوتا کرتا ہے اُس سے خدا کی حقیقی برکات چُرا لیتا ہے۔

اِس تیسری شیطانی آزمایش نے یسوع کو اُبھارنے کی کوشش کی کہ آپ دُنیاوی شان و شوکت کی اُمیدوں کو اپنائیں۔ حتیٰ کہ یسوع کے شاگرد اور یوحنا بپتسمہ دینے والے بھی اِس تعلق سے آزمائے گئے۔ وہ اِس بات کی توقع اور خواہش کر رہے تھے کہ یسوع ایک عظیم دُنیاوی بادشاہت قائم کریں گے۔ اب اِبلیس نے یہودی بادشاہت کے اِس ہر دلعزیز خواب کو مسیح میں تقویت بخشنا چاہی۔ یوں یسوع آنے والی مشکلات، حقارت اور صلیب پر مصلوبیت کی ایذاﺅں سے بچ سکتے تھے، اور آپ کو زمین پر شیطان کی بادشاہت کی جگہ اپنے حتمی اختیار کو قائم کرنے کےلئے صبر سے سینکڑوں برس تک انتظار کرنے کے کرب کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اِس طرح یسوع کو یوں لگنا تھا کہ گویا وہ اپنے مقاصد کو جلد و بآسانی حاصل کر سکتے تھے۔

یہاں پھر اِبلیس کا یسوع کے سامنے نمودار ہونا مکاری سے بھرپور تھا تا کہ اُس کے سامنے جُھکنے کے خیال کے پیش نظر یسوع کے جذبات تغیر پذیر نہ ہوں اور نہ ہی آپ کو ٹھوکر کھانے کا احساس ہو۔ ابلیس نے خدا کے پاک بیٹے کو مذہبی طور پر ممنوعہ کام کرنے پر اُکسایا، اور اِس سے ابلیس کی گری ہوئی روحانی حالت عیاں ہوتی ہے۔ اِسی لئے مسیح نے ابلیس کو سختی سے جھڑکتے ہوئے کہا "اے شیطان دُور ہو۔" اِن الفاظ کے کہنے کے ساتھ یسوع نے شیطان کے عزائم کو نظر انداز نہ کیا، اور پھر سے توریت شریف میں سے موسیٰ نبی کے الفاظ کا اقتباس کیا: "تُو خداوند اپنے خدا کا خوف ماننا، اور اُسی کی عبادت کرنا اور اُسی کے نام کی قسم کھانا" (اِستثنا 6: 3)۔

یسوع نے ابلیس کو دُور جانے کا حکم دیا، مگر وہ کچھ وقت کےلئے دُور ہوا۔ جب راستبازی کے شہزادہ نے بدی کے شہزادہ پر فتح حاصل کی تو ابلیس شکست کھا کر چلا گیا اور مسیح کے پاس آسمانی لشکر کی حضوری نظر آنے لگی، کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ فرشتے آ کر اُس کی خدمت کرنے لگے۔ اُن فرشتوں نے اِس جلالی فتح پر مسیح کو آسمانی خراج عقیدت پیش کیا، اور مسیح کےلئے خدا کی بڑی خوشی و خرمی کا اظہار کیا۔ آسمانی فرشتے، ابلیس کو شکست دینے والے راستبازی کے شہزادہ کی خدمت کر کے کتنے شادمان ہوئے ہوں گے!

اُس بیابان میں یسوع نے تین طرح کی آزمایشوں کا سامنا کیا: (1) جسم کی خواہش، (2) آنکھوں کی خواہش، اور (3) زندگی کی شیخی۔ جسم کی آزمایش جسمانی تھی جس کا تعلق کھانے کے ساتھ تھا۔ آنکھوں کی آزمایش ذہنی تھی جس کا تعلق لوگوں کی توجہ کو سنسنی خیزیت پر مبنی کامیابی کی طرف مائل کرنے سے تھا۔ زندگی کی شیخی کی آزمایش روحانی تھی، اور اِس کا مقصد دُنیاوی قوت، شان و شوکت اور جلال حاصل کرنا تھا۔ ہم سبھوں کی طرح یسوع بھی آزمایا گیا تا کہ وہ ہماری آزمایشوں میں ہمارا ہمدرد بنتا۔ نتیجتاً، یسوع کو اَور بھی تقویت اور جلال ملا۔ ابلیس نے یسوع کی قوت و قدرت کی تصدیق کی کیونکہ اُس نے پہلی آزمایش میں مسیح کو پتھروں کو روٹی میں تبدیل کرنے کےلئے کہا۔ پتھروں کو روٹی میں تبدیل کرنے میں بذاتِ خود کوئی برائی نہ تھی۔ تاہم، ابلیس اِس میں یسوع کو مغلوب کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ مزید شرارتی منصوبوں کے ساتھ مسیح کو بتدریج پُھسلا سکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بیابان میں یسوع کی آزمایش ایک طرح سے تیسرا بپتسمہ تھی، یہ پانی اور رُوح القدس کے بپتسمہ کے بعد آگ کا بپتسمہ تھا۔ اِس کے علاوہ ایک چوتھا بپتسمہ بھی تھا جس میں سے یسوع کو گزرنا تھا اور وہ خون و صلیب کا بپتسمہ تھا۔

تمام بنی نوع انسان کی نمائندگی آدمِ اوّل سے ہوتی ہے جسے ابلیس نے آزمایا اور وہ گناہ میں گر کر ناکام ہوا، اور اِس سبب سے آدم بشمول اپنی نسل کے جہنم کے سزاوار ٹھہرے۔ آدمِ ثانی یسوع کے ذریعے بھی تمام انسانیت کی نمائندگی ہوتی ہے کہ جب وہ آزمائے گئے تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کےلئے فردوس میں داخلہ ممکن بنا دیا۔ آدمِ اوّل کی ناکامی پر باغِ عدن ایسے ہو گیا کہ جیسے ایک ویرانہ تھا۔ مگر آدمِ ثانی کی ثابت قدمی کی بدولت بیابان ایک فردوس میں تبدیل ہو گیا۔ ناراستی و بدی کا ویرانہ راستبازی کی جنت، اور نفرت کا بیابان سلامتی کی فردوس بن گیا۔ الہٰی غضب اور ابدی ہلاکت کا بیابان خدا کی خوشی، رحم اور ہمیشہ کی زندگی کا فردوس معلوم ہونے لگا۔ خدا کے خلاف دشمنی کا بیابان خدا کی فرزندیت کا فردوس نظر آنے لگا۔ نا اُمیدی اور ہلاکت کا بیابان اُمید و نجات کے فردوس میں تبدیل ہو گیا۔

2- یسوع کا اپنے اوّلین شاگردوں کو چُننا

"دوسرے دِن پھر یوحنّا اور اُس کے شاگردوں میں سے دو شخص کھڑے تھے۔ اُس نے یسوع پر جو جا رہا تھا نگاہ کر کے کہا، دیکھو یہ خدا کا برّہ ہے! وہ دونوں شاگرد اُس کو یہ کہتے سُن کر یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ یسوع نے پھِر کر اور اُنہیں پیچھے آتے دیکھ کر اُن سے کہا، تم کیا ڈھونڈتے ہو؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، اے ربّی (یعنی اے اُستاد) تُو کہاں رہتا ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، چلو دیکھ لو گے۔ پس اُنہوں نے آ کر اُس کے رہنے کی جگہ دیکھی اور اُس روز اُس کے ساتھ رہے اور یہ دسویں گھنٹے کے قریب تھا۔ اُن دونوں میں سے جو یوحنا کی بات سُن کر یسوع کے پیچھے ہو لئے تھے ایک شمعون پطرس کا بھائی اندریاس تھا۔ اُس نے پہلے اپنے سگے بھائی شمعون سے مل کر اُس سے کہا کہ ہم کو خرِستُس یعنی مسیح مل گیا۔ وہ اُسے یسوع کے پاس لایا۔ یسوع نے اُس پر نگاہ کر کے کہا کہ تُو یوحنا کا بیٹا شمعون ہے۔ تُو کیفا یعنی پطرس کہلائے گا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 35-42)

یوحنا اِصطباغی (یعنی بپتسمہ دینے والا) اپنے دو شاگردوں کے ساتھ کھڑا تھا کہ اُس نے یسوع کو آتے دیکھا۔ تب اُس نے کہا "دیکھو یہ خدا کا برّہ ہے!" اُن دو شاگردوں میں سے ایک اندریاس تھا، جو شمالی گلیل میں تبریاس کی جھیل کے شمال میں واقع بیت صیدا نامی شہر کا باشندہ تھا۔ وہ یوحنا اِصطباغی کا شاگرد بننے کےلئے دُور دراز کے علاقے سے آیا تھا۔ دوسرے شاگرد کا نام یوحنا تھا جو زبدی کا بیٹا تھا۔ وہ بھی بیت صیدا کے علاقے سے آیا تھا۔

ہم نہیں جانتے کہ اِس سے پیشتر اُنہوں نے اپنے اُستاد یوحنا اِصطباغی سے مسیح کی بابت کیا سُنا تھا۔ لیکن اُنہوں نے اُسے یہ کہتے ضرور سُنا کہ یسوع خدا کا برّہ تھا۔ یوحنا اِصطباغی نے یسوع کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ "دیکھو یہ خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 29)۔ یہ لقب، یسعیاہ نبی کے الفاظ سے بالکل مطابقت رکھتا ہے "وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بےزبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 7)۔

یوحنا اِصطباغی ایک کاہن کا بیٹا تھا۔ کاہن کا خصوصی کام ہیکل میں برّہ کی قربانی گزراننے کے فرائض انجام دینا ہوتا تھا۔ قربانی کا بےداغ ہونا لازمی ہوتا تھا۔ جب یوحنا نے یسوع کی بابت کہا کہ وہ خدا کا برّہ ہے تو وہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ یسوع بالکل بےداغ اور ہر لحاظ سے کامل تھے۔ درویشانہ زندگی بسر کرنے والا یہ عظیم شخص روح القدس سے معمور لائق و فائق مبلغ تھا۔ یوحنا کو اِس بات کا بخوبی علم تھا کہ ہیکل میں جانوروں کی پیش کی جانے والی قربانیاں اُس حقیقی اور اصل قربانی یعنی خدا کے برّہ کا پیش خیمہ تھیں جو خدا کی رضا کے مطابق قربان ہوا جس کا علم بنایِ عالم سے پیشتر سے تھا (نیا عہدنامہ، 1-پطرس 1: 18-20)۔ یوحنا جانتا تھا کہ جانوروں کی قربانیاں انسانیت کے گناہ کو مٹا نہ سکتی تھیں، کیونکہ دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جانے کا کام خدا کی جانب سے قربانی کے برّہ مسیح کا ہی کام تھا۔

مسیح کے بارے میں یوحنا اصطباغی کی گواہی کا اثر بڑا واضح ہے۔ اندریاس اور یوحنا بغیر کسی حیل و حُجّت کے، احترام کے ساتھ فوراً یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ جب یسوع مسیح نے اُنہیں دیکھا تو مُڑ کر اُن سے پوچھا "تم کیا ڈھونڈتے ہو؟" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 38)۔ ایسا ہی سوال مسیح ہر اُس شخص سے پوچھتے ہیں جو اُن کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔ اِس ضمن میں مسیح کی پیروی کرنے والوں کے محرکات مختلف ہو سکتے ہیں، اور اُنہیں مناسب طور پر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بار یسوع نے اپنے پیچھے آنے والی بڑی بھِیڑسے یوں کہا "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے" (انجیل بمطابق یوحنّا 6: 26)۔ یوں یسوع نے اُنہیں اپنے شاگردوں کے طور پر قبول نہ کیا۔

اِندریاس اور یوحنّا نے یسوع کے سوال کا جواب نہایت احترام اور اعتدال سے دیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ یسوع کی تعلیم کو سُننے اور سیکھنے کےلئے کسی اَور مناسب وقت پر آپ کے پاس آنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے جواب دیا: "اے ربّی، تُو کہاں رہتا ہے؟" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 38)۔ یسوع نے اُنہیں فوراً اپنے رہنے کی جگہ کے بارے میں نہ بتایا، بلکہ آپ نے اُن سے چاہا کہ وہ جان جائیں کہ آپ اُن سے اور ہر کسی سے اِس بات کی توقع کرتے ہیں کہ آپ کی فی الفور پیروی کی جائے۔ جو لوگ آپ کی پیروی کرنے کو کھٹائی میں ڈال دیتے ہیں اُنہیں آپ کی طرف سے رد کر دیا جاتا ہے۔ مسیح تمام لوگوں کو اپنی فوری پیروی کرنے پر اُبھارتے ہیں، بصورت دیگر وہ اُنہیں قبول نہیں کریں گے۔ یسوع مسیح نے اندریاس اور یوحنّا سے کہا "چلو، دیکھ لو گے۔" جب اُنہوں نے مسیح کی بات مانی، تو مسیح نے دِن بھر اُنہیں اپنے ہمراہ رہنے کی دعوت دی۔ اب بھی خدا اِسی طریقہ سے کام کرتا ہے۔ ایمان کا قبول کیا جانا محض کسی دوسرے فرد کی گواہی پر نہیں ہوتا بلکہ اِس کا تو شخصی طور پر تجربہ کیا جاتا ہے۔ ضرور ہے کہ انسان خود ایمان کو دیکھے اور پرکھے جیسا کہ داﺅد نبی نے لکھا ہے: "آزما کر دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے۔ مبارک ہے وہ آدمی جو اُس پر توکُّل کرتا ہے" (زبور 34: 8)۔

یسوع سے ملاقات کے بعد اِندریاس اور یوحنّا کی زندگیاں مکمل طور پر تبدیل ہو گئیں۔ اگرچہ اِندریاس زیادہ معروف تو نہ ہوا، مگر وہ اپنے بھائی شمعون کو مسیح کے پاس لایا۔ یوں لگتا ہے کہ شمعون بھی یوحنّا اصطباغی کا شاگرد تھا۔ اِندریاس نے شمعون کی تلاش کی جب تک کہ وہ اُسے مل نہ گیا۔ پھر اِندریاس نے شمعون کو بتایا کہ اُسے اپنے دوست یوحنّا کے ساتھ ایک بیش قیمت خزانہ ملا ہے۔ اُس نے کہا "ہم کو خرِستُس یعنی مسیح مل گیا" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 41)۔ یہ بیان راہِ نجات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جو بھی مسیح کو پا لیتا ہے، اُسے گویا سب کچھ مل جاتا ہے، اور اُسے کسی اَور انسان کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ یسوع ہی ہے جس کے حق میں داﺅد نبی نے یوں فرمایا کہ "خداوند میرا چوپان ہے۔ مجھے کمی نہ ہو گی" (زبور 23: 1)۔ وہی راہ، حق اور زندگی ہے (انجیل بمطابق یوحنّا 14: 6)۔ جس نے اِس راہ، حق اور زندگی کو پا لیا، گویا اُس نے سب کچھ پا لیا۔ اِندریاس صرف لفظی و زبانی ایمان تک محدود نہ رہا بلکہ اُس نے عملی طور پر پیروی کی، اور اپنے بھائی کو یسوع کے پاس لانے میں راہنمائی کی۔ وہ سب جو یسوع کو حقیقت میں پا لیتے ہیں، اُنہیں دوسروں کو اُس کے پاس آنے کی دعوت دینے میں سُستی نہیں کرنی چاہئے اور ضرور و مناسب ہے کہ اِس کارِ خیر کو اپنوں ہی سے شروع کریں جیسے کہ اِندریاس نے اپنے بھائی کےلئے کیا۔

جب یسوع نے شمعون کو دیکھا تو اُسے فوراً پہچان لیا۔ بلکہ یسوع تو شمعون کو دیکھنے سے پیشتر ہی اُس کے تمام اوصاف، توڑوں اور مستقبل سے واقف تھے۔ اپنی پہلی ہی ملاقات میں یسوع نے شمعون کو نیا نام دیا جو ارامی زبان میں "کَیفا" اور یونانی زبان میں "پطرس" ہے، جس کا مطلب "چٹان" ہے۔ پطرس اِس نام کےلئے اُس وقت تک لائق نہ تھا جب تک کہ وہ رُوح القدس سے معمور نہ ہوا، جس کی بدولت اُس کی زندگی میں وہ خوبیاں ظاہر ہوئیں جس کی بِنا پر اُسے یہ نام دیا گیا تھا۔

"دوسرے دِن یسوع نے گلیل میں جانا چاہا اور فِلپُّس سے مل کر کہا، میرے پیچھے ہو لے۔ فِلپُّس، اِندریاس اور پطرس کے شہر بیت صیدا کا باشندہ تھا۔ فِلپُّس نے نتن ایل سے مل کر اُس سے کہا کہ جس کا ذِکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے وہ ہم کو مل گیا۔ وہ یُوسُف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ نتن ایل نے اُس سے کہا، کیا ناصرة سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟ فِلپُّس نے کہا، چل کر دیکھ لے۔ یسوع نے نتن ایل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اُس کے حق میں کہا، دیکھو! یہ فی الحقیقت اسرائیلی ہے۔ اِس میں مکر نہیں۔ نتن ایل نے اُس سے کہا، تُو مجھے کہاں سے جانتا ہے؟ یسوع نے اُس کے جواب میں کہا، اِس سے پہلے کہ فِلپُّس نے تجھے بلایا جب تُو انجیر کے درخت کے نیچے تھا میں نے تجھے دیکھا۔ نتن ایل نے اُس کو جواب دیا، اے ربّی! تُو خدا کا بیٹا ہے۔ تُو اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، میں نے جو تجھ سے کہا کہ تجھ کو انجیر کے درخت کے نیچے دیکھا، کیا تُو اِسی لئے ایمان لایا ہے؟ تُو اِن سے بھی بڑے بڑے ماجرے دیکھے گا۔ پھِر اُس سے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم آسمان کو کُھلا اور خدا کے فرشتوں کو اُوپر جاتے اور ابنِ آدم پر اُترتے دیکھو گے۔" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 43-51)

شمعون فوراً، اِندریاس اور یوحنّا کے ساتھ شامل ہو گیا اور وہ تینوں یسوع کے شاگرد بن گئے۔ یوں بیت صیدا میں مسیح کے آنے کا مقصد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اگلے دِن یسوع نے گلیل میں اپنے آبائی شہر کو واپس جانے کی تیاری کی۔ تاہم، روانہ ہونے سے پیشتر یسوع نے ایک چوتھے شاگرد کو بلایا جس کا نام فِلپُّس تھا، اور وہ بھی بیت صیدا کا رہنے والا تھا۔ یسوع نے اُسے دیکھ کر کہا "میرے پیچھے ہو لے" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 43)۔ مسیحی ایمان میں عمومی اصول یہ ہے کہ "مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا" (انجیل بمطابق متی 7: 7)۔ خدا تعالیٰ نے اپنے نبی یرمیاہ کے ذریعے اِس اصول کو یوں بیان کیا تھا: "تم مجھے ڈھونڈو گے اور پاﺅ گے۔ جب پورے دِل سے میرے طالب ہو گے" (پرانا عہدنامہ، کتاب یرمیاہ 29: 13)۔ لیکن بعض لوگوں کےلئے اِس اصول میں چھوٹ بھی نظر آتی ہے، اور فِلپُّس اور متی ایسے ہی افراد تھے جن پر یسعیاہ نبی کی معرفت خدا کے یہ الفاظ صادِق آتے ہیں کہ "جو میرے طالب نہ تھے میں اُن کی طرف متوجہ ہوا۔ جنہوں نے مجھے ڈھونڈا نہ تھا مجھے پا لیا۔ میں نے ایک قوم سے جو میرے نام سے نہیں کہلاتی تھی فرمایا، دیکھ میں حاضر ہوں" (پرانا عہدنامہ، کتاب یسعیاہ 65: 1)۔

مسیح کےلئے روحیں جیتنے کا جوش و جذبہ اِندریاس اور فِلپُّس میں فوراً پیدا ہو گیا۔ فِلپُّس کی ملاقات قانائے گلیل کے رہنے والے اپنے خصوصی دوست نتن ایل سے ہوئی، جسے اُس نے بتایا کہ یسوع ہی وہ ہستی ہے جس کا ذِکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 45)۔ نتن ایل نے اِس خبر کا یقین نہ کیا کیونکہ اُس کے خیال میں مسیح ناصرت کے سے معمولی اور بری ساکھ کے حامل شہر سے نہیں آ سکتا تھا۔ نتن ایل نے فِلپُّس کو اعتراضاً کہا کہ کیا ناصرة سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟ فِلپُّس نے اُس سے کہا، چل کر دیکھ لے (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 46)۔ فِلپُّس جانتا تھا کہ بجائے وہ دونوں بحث و مباحثہ میں پڑ جاتے، نتن ایل کا یسوع سے ذاتی طور پر ملنا ہی سب سے بہتر تھا۔ اکثر اوقات مذہبی عقائد و معاملات پر بحث لاحاصل بلکہ کبھی کبھار نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ ایمانداروں کے منہ سے بہترین گواہی یہ ہے کہ آئیے اور دیکھئے (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 39)۔ جب یسوع دو شاگردوں سے کلام کر رہا تھا تو رُوح القدس یسوع مسیح کی معرفت اُن شاگردوں سے مخاطب ہوا کہ چل کر دیکھ لو۔ پھِر فِلپُّس کے ذریعہ بھی رُوح القدس نے وہی کلام کیا۔ اِس بلاہٹ کے سبب نتن ایل کو اطمینان ہو گیا اور اِس معاملہ کی تصدیق کےلئے اُس نے مزید ثبوت نہ مانگا۔ فِلپُّس کی سمجھ اور استقامت پر پورا بھروسا کرتے ہوئے نتن ایل ذاتی طور پر یسوع سے ملاقات کو تیار ہو گیا۔

یسوع، نتن ایل سے ملے بغیر یا اُس کی بابت کسی سے کچھ سُنے بغیر اُس کے پس منظر اور اُس کی خوبیوں سے واقف تھے۔ جب نتن ایل، فِلپُّس کے ساتھ یسوع کی جانب آ رہا تھا تو یسوع نے اُن سے جو پاس کھڑے تھے کہا "دیکھو! یہ فی الحقیقت اسرائیلی ہے۔ اِس میں مکر نہیں" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 47)۔ نتن ایل کسی اجنبی کی زبان سے اپنی بابت خوش وضع گواہی سُن کر چونک گیا اور اُس نے اجنبی سے پوچھا کہ "تُو مجھے کہاں سے جانتا ہے؟" تب یسوع نے اُسے بتایا کہ اِس سے پہلے کہ فِلپُّس نے تجھے بلایا، میں نے تجھے اپنی فوق الفطرت آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ یسوع نے اُسے انجیر کے درخت کے نیچے گیان دھیان کرتے اور دُعا کی حالت میں دیکھا تھا، جبکہ اُس کے خیال میں اُسے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ نتن ایل نے جان لیا کہ یسوع غیب کی ہر بات سے کامل طور پر واقف ہے، اور وہ فوراً یسوع پر ایمان لے آیا۔ اُس نے مسیح سے کہا "اے ربّی! تُو خدا کا بیٹا ہے۔ تُو اسرائیل کا بادشاہ ہے" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 49)۔ ممکن ہے کہ نتن ایل نے یوحنّا اصطباغی سے خود یا دوسروں سے یسوع کی بابت گواہی سُنی ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے، لہٰذا اُس نے اپنے پہلے اُستاد یوحنّا اصطباغی کی دی گئی گواہی کو دہرایا۔ تاہم یہ نتن ایل ہی تھا جس نے سب سے پہلے یسوع کو "اسرائیل کا بادشاہ" کے لقب سے نوازا۔

نتن ایل کی گواہی کے جواب میں یسوع نے اُس سے کہا "تُو اِن سے بھی بڑے بڑے ماجرے دیکھے گا۔ ... میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم آسمان کو کُھلا اور خدا کے فرشتوں کو اُوپر جاتے اور ابنِ آدم پر اُترتے دیکھو گے۔" یسوع کا اِس بات کو کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آسمان جو گناہ کے باعث بند تھا وہ بنی نوع انسان کےلئے پھر سے کھل جائے گا۔ ابنِ آدم ہوتے ہوئے آپ خدا اور انسان کے درمیان پائی جانے والی دوری کو ختم کریں گے، اور بنی نوع انسان کی خدمت کےلئے اپنے فرشتوں کو بھیجیں گے جو ایمانداروں کی نگہبانی کریں گے اور موت کے بعد اُنہیں آسمان پر لے جائیں گے (دیکھئے نیا عہدنامہ، کتاب عبرانیوں 1: 14 ;انجیل بمطابق لوقا 16: 22)۔ فرشتوں نے بوقتِ ضرورت ابنِ آدم یسوع کی خدمت بھی کرنی تھی (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 50، 51)۔

مسیح کے ابنِ خدا ہونے کی ہمارے پاس تہری گواہی موجود ہے: (1) بپتسمہ کے وقت آسمان سے آنے والی آواز، (2) یوحنّا اصطباغی، اور (3) نتن ایل۔ لیکن یہاں پر پہلی مرتبہ مسیح اپنی بابت ابنِ آدم ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ دوسرے انبیا، خصوصاً حزقی ایل نے اِس لقب کو استعمال کیا ہے (پرانا عہدنامہ، کتاب حزقی ایل 2: 1)۔ یسوع نے ابنِ آدم کے لقب کو اپنے لئے ادنیٰ خیال نہ کیا بلکہ اِسے جلیل القدر بنایا۔ پھِر آپ نے نتن ایل کی تعریف کی کہ وہ آپ کو خدا کا بیٹا اور اسرائیل کا بادشاہ تسلیم کرتے ہوئے ایمان لایا۔ یسوع ایک جھوٹ، توہم پرستی، فریب نظر یا مبالغہ آمیزی پر نتن ایل کی تعریف نہیں کر سکتے تھے؟ اگر وہ ابنِ مریم ہوتے ہوئے محض ایک انسان ہوتے تو کیسے وہ نتن ایل کی جانب سے ایسے کلمات کو اپنے حق میں قبول کرسکتے تھے؟ کیسے وہ اپنے حق میں "اسرائیل کے بادشاہ" کا لقب قبول کرسکتے تھے؟

مسیح کی جانب سے نتن ایل کو دیئے جانے والے جواب میں ہم مسیح کی اُس پہلی گواہی کو پاتے ہیں جو آپ نے اپنی بابت دی۔ کسی نبی، رسول یا انسان نے اپنی بابت ایسا بیان کبھی نہیں دیا۔ جب کوئی راستباز اور فہیم شخص اپنے بارے میں کچھ کہتا ہے تو وہ بات اُس شخص کی بابت حقائق کو سمجھنے میں بہت اہم ہوتی ہے۔ اِسی لئے یسوع نے فرمایا: "اگرچہ میں اپنی گواہی آپ دیتا ہوں تو بھی میری گواہی سچی ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جاتا ہوں، لیکن تم کو معلوم نہیں کہ میں کہاں سے آتا ہوں یا کہاں کو جاتا ہوں" (انجیل بمطابق یوحنّا 8: 14)۔ اپنی حیثیت بخوبی جانتے ہوئے مسیح کےلئے ہرگز ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنی بابت جھوٹے دعوے کرتے کیونکہ آپ میں ہر قسم کے دھوکے سے بچاﺅ کےلئے ایمانداری و راستبازی موجود تھی، اِسی طرح ہر قسم کی غلطی سے محفوظ و سلامت رکھنے کےلئے فہم و فراست بھی موجود تھی۔ اگر مسیح جھوٹی تعریف قبول کرتے تو وہ نااہل اور اخلاقی اعتبار سے ناقص ہوتے۔ کوئی بھی معزز و باوقار شخص اپنی اہلیت سے زیادہ غیرمستحق تعریف کا ہمیشہ انکار کرے گا خواہ وہ نیکی، قابلیت یا مرتبت سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ تَو کس قدر زیادہ یسوع نے حقائق کے برعکس باتوں کو اپنے حق میں قبول کرنے سے انکار کر دینا تھا۔

یہودی راہنما کسی راستباز شخص کی اپنی ہی بابت دیئے گئے بیانات کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ اِسی لئے اُنہوں نے یوحنّا اِصطباغی سے یہ پوچھا کہ وہ کون تھا۔ یہودی اِس سوال کا جواب چاہتے تھے تا کہ اپنے بھیجنے والوں کو واپس جا کر اُس کی بابت بتا سکتے۔ اُنہوں نے یوحنّا اِصطباغی سے پوچھا کہ "تُو اپنی بابت کیا کہتا ہے؟" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 22)۔ یوحنّا اِصطباغی کا اپنی بابت بیان اُس کی مستحق شدہ اہلیت سے کم تر تھا۔ کسی نے بھی یوحنّا اِصطباغی کو مسیح سے بہتر یا زیادہ عالم تصور نہیں کرنا تھا کیونکہ مسیح ہر طرح کی حکمت، صداقت اور حلیمی میں سب سے زیادہ سبقت لے گیا اور اُس کا کلام بھی خالص سچائی ہے۔ اِس لئے ہم مسیح سے متعلق خود مسیح ہی کے بیانات کو ازحد اہمیت دیتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ اگر مسیح سے ہٹ کر کوئی اَور شخص اُن باتوں کا دعوی کرے جو مسیح نے کی ہیں تو ایسے فرد کو لوگوں کی جانب سے شرمندگی اور بےعزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک مُلحد نے انگریزی زبان کے ایک مشہور مصنف کارلائیل سے دوران گفتگو نہایت گستاخی سے کہا "میں اپنی بابت وہی دعویٰ کر سکتا ہوں جو یسوع نے اپنے لئے کیا تھا کہ میں اور باپ ایک ہیں۔" کارلائیل نے جواب دیا: "بےشک آپ کہہ سکتے ہیں، مگر یسوع کے دعوے کا تو دُنیا نے یقین کیا۔ آپ کا یقین کون کرے گا؟"

3- مسیح کا پہلا معجزہ

"پھِر تیسرے دِن قانائے گلیل میں ایک شادی ہوئی اور یسوع کی ماں وہاں تھی۔ اور یسوع اور اُس کے شاگردوں کی بھی اُس شادی میں دعوت تھی۔ اور جب مے ہو چکی تو یسوع کی ماں نے اُس سے کہا، اُن کے پاس مے نہیں رہی۔ یسوع نے اُس سے کہا، اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔ اُس کی ماں نے خادموں سے کہا، جو کچھ یہ تم سے کہے، وہ کرو۔ وہاں یہودیوں کی طہارت کے دستور کے موافق پتھر کے چھ مٹکے رکھے تھے اور اُن میں دو دو، تین تین من کی گنجایش تھی۔ یسوع نے اُن سے کہا، مٹکوں میں پانی بھر دو۔ پس اُنہوں نے اُن کو لبالب بھر دیا۔ پھِر اُس نے اُن سے کہا، اَب نکال کر میرِ مجلس کے پاس لے جاﺅ۔ پس وہ لے گئے۔ جب میرِ مجلس نے وہ پانی چکھا جو مے بن گیا تھا اور جانتا نہ تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے (مگر خادم جنہوں نے پانی بھرا تھا جانتے تھے)، تو میرِ مجلس نے دُلہا کو بُلا کر اُس سے کہا، ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اُس وقت جب پی کر چھک گئے، مگر تُو نے اچھی مے اَب تک رکھ چھوڑی ہے۔ یہ پہلا معجزہ یسوع نے قانائے گلیل میں دِکھا کر اپنا جلال ظاہر کیا اور اُس کے شاگرد اُس پر ایمان لائے۔" (انجیل بمطابق یوحنّا 2: 1-11)

ہمیں کسی بھی ایسے کام کو معجزہ تصور نہیں کرنا چاہئے جس کی طبعی وضاحت مل سکے۔ آج کے دور میں لوگوں کا معجزوں پر یقین کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ طبعی قوانین پر انسانی تسلط وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اِن کے استعمال سے حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ آج کے سائنسدان، قدیم وقتوں کے سائنسدانوں سے سبقت لے گئے ہیں، اور اُنہوں نے ایسے حیرت انگیز نتائج پیدا کئے ہیں جنہیں پہلے معجزاتی نوعیت کا تصور کیا جاتا تھا، مثلاً فضائی اُڑان یا چاند پر راکٹ کا بھیجنا، وغیرہ۔ اگر مخلوق حیرت انگیز چیزیں ایجاد کر سکتی ہے تو خالقِ کائنات اپنے مقرر کئے گئے قوانینِ فطرت سے کیا کچھ وقوع میں نہیں لا سکتا؟ غرض، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید ہونے والی دریافتیں اور ایجادات الہٰی معجزات کے امکان کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہ معجزات خالقِ کائنات کا جو تمام مخلوق پر حکمران ہے ایک قابلِ فہم اور یقیناً لازمی محسوس کیا جانا والا ثبوت ہیں۔ مستند ثبوت ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں، اور انسان پر اپنے آپ کو اور اپنی الہٰی مرضی کو ظاہر کرنے کےلئے خدا کے پاس یہ معجزات ایک موثر ذریعہ ہیں۔

ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ مسیح کے معجزات سے متعلق تحریری ثبوت آپ کی عظمت کو ثابت کرنے کےلئے ضروری ہیں۔ چاروں انجیلی بیانات کے مصنفین اِس بات کا ذِکر نہیں کرتے کہ یسوع نے تیس برس کی عمر میں اپنی بشارتی خدمت کے آغاز سے پہلے کوئی معجزہ کیا ہو۔ یہ انجیلی مصنفین کی صداقت کا ایک اہم ثبوت ہے۔ اگر ہم مانتے ہیں کہ نبیوں اور رُسولوں نے خدا تعالیٰ کی جانب سے عطا کی جانے والی الہٰی قوت کی بدولت معجزات کئے، تو ہمیں کتنا زیادہ یہ ماننا چاہئے کہ قوت و قدرت کا سرچشمہ خدائے مجسم اپنی ہی قوت و قدرت سے سب پر سبقت لے جاتے ہوئے معجزات کر سکتا تھا۔

مسیح کے معجزات بغض و عداوت کے نہیں بلکہ رحمت و شفقت پر مبنی معجزات تھے۔ آپ کے صرف دو معجزات ایسے تھے جن میں بظاہر مادی نقصان ہوا، مگر اُن کا مقصد ہمیں ایک رُوحانی سبق سکھانا تھا (دیکھئے انجیل بمطابق لوقا 8: 26-33; انجیل بمطابق مرقس 11: 12-14، 20-24)۔ آپ نے کبھی بھی معجزات اِس لئے نہیں کئے کہ آپ میں خود غرضی کا کوئی پہلو تھا، یا آپ لوگوں کو حیرت زدہ کرنے اور ایمان لانے کی طرف متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اِس کے برعکس، آپ نے معجزات اِس لئے کئے کہ اعتقاد رکھنے والے اپنے ایمان میں مضبوط ہوں۔ اِسی لئے یسوع نے یہودیوں کے اصرار پر معجزات کرنے سے انکار کیا کہ وہ معجزے دیکھ کر ہی مسیح کو قبول کرنا چاہتے تھے۔ اپنے پہلے معجزے میں یسوع نے اپنا جلال ظاہر کیا اور اُس کے شاگرد اُس پر ایمان لائے۔ مسیح کے تمام معجزات میں گہرا معنٰی اور ایک رُوحانی مقصد پوشیدہ تھا۔

معجزات کے ذریعے آپ نے اپنے خیالات، اصول اور عظیم الشان تعلیمات، نیز اپنی دِل پذیر اور پاکیزہ صفات کا اظہار کیا۔ مزید برآں، اگر مختلف مقامات پر معجزات انجام نہ دیئے گئے ہوتے، تو ہم مسیح کی سرگرمیوں اور آپ کے مختلف سفروں سے بے بہرہ رہتے، مثلاً ہمیں صور اور صیدا تک مسیح کے سفر کا ذِکر ملتا ہے جہاں آپ نے ایک معجزہ بھی کیا۔ اگر مسیح کی معرفت ہزاروں افراد کو خوراک مہیا کرنے اور شفا دینے کے معجزات رُونما نہ ہوتے تو ہم کیسے انسانیت کےلئے آپ کی رحمدِلی کا اندازہ کر سکتے تھے؟ کفرنحوم میں ایک مفلوج کو شفا بخش کر آپ نے گناہ معاف کرنے کے اپنے الہٰی اختیار کو ظاہر کیا۔ اگر مسیح کی معرفت کئے گئے معجزات آپ کی سوانحِ حیات سے خارج کر دیئے جائیں تو ایسا کرنا اِنجیل کی بنیادی ساخت کو چاک کر دینے کے مترادف ہو گا، نتیجتاً اِنجیلی بیانات بے ربط ہو جائیں گے اور یوں اِنجیل کی تمام سچائی پر اعتراضات اُٹھیں گے۔ علاوہ ازیں، مسیح کے معجزات نے آپ کے اِس دعوے کی بھی تصدیق کی کہ آپ آسمان سے اُترے تھے۔ اُس وقت کے پرہیزگار اور نیک لوگوں نے مسیح کو قبول کیا۔ آپ کے یہودی مخالفین نے بھی ایسا ہی محسوس کیا لیکن اُنہوں نے کبھی بھی اِس کا اقرار نہ کیا۔

پانی کو مے میں تبدیل کرنا

پانی کو مے میں تبدیل کرنے کے معجزے کی فطری وضاحت ممکن نہیں۔ یہ یسوع کا پہلا معجزہ ہے جو آپ نے قانائے گلیل میں کیا جو آپ کے نئے شاگرد نتن ایل کا آبائی شہر تھا۔ نتن ایل یسوع سے متعلق اپنی گواہی میں قوت و صراحت کے لحاظ سے باقی سب شاگردوں پر سبقت لے گیا۔ مسیح سے عقیدت و محبت کے سبب اُس نے اپنے نئے اُستاد اور دوستوں کو اپنے ہاں مہمان کے طور پر مدعو کیا، جیسا کہ متی نے بھی بعد میں مسیح پر ایمان لانے کے وقت کیا (انجیل بمطابق لوقا 5: 19-39)۔ ایسا ہی ابتدائی کلیسیا میں رسولوں کے ایام میں ایک خاتون بنام لُدیہ نے بھی کیا (نیا عہدنامہ، اعمال 16: 15)۔

قانائے گلیل میں یسوع، آپ کی والدہ مریم، آپ کے بھائی اور شاگرد شادی کی ایک ضیافت میں مدعو تھے۔ اُنہیں ناصرة سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع قانا میں جانا تھا۔ غالباً شاگردوں کو اِس بات کی توقع نہ تھی کہ یسوع اِس دعوت کو قبول کرے گا اور وہ سوچتے ہوں گے کہ مسیح اُن کے پہلے اُستاد یوحنّا اِصطباغی کی مانند ہو گا۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ یسوع، یوحنّا اِصطباغی کے نقشِ قدم کی پیروی کرے گا اور اُس کے عظیم پیشرو ایلیّاہ کی مانند ہو گا جس نے دُنیوی خوشیوں سے پرہیز کیا اور ایک راہبانہ اور تارک الدُنیا زندگی بسر کی تھی۔ شاید شاگردوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ یسوع جیسا عظیم مذہبی راہنما ہفتہ بھر جاری رہنے والی شادی کی اِن تقریبات سے گریز کرے گا جہاں جشن کا سماں مذہبی رُوح کو دُھندلا کر سکتا تھا۔ لیکن یسوع اِس قسم کی تقریب میں شرکت کر سکتے تھے کیونکہ یہودیوں کے مروّجہ دستور کے مطابق دُلہا اور دُلہن شادی سے پہلے کا دِن دُعا، روزہ اور اپنے گناہوں کا اقرار کرنے میں گزارتے تھے۔

تمام انسانیت کے نجات دہندہ نے یوحنّا اِصطباغی کی مانند نہیں ہونا تھا۔ آپ مذہب کے صرف ہیبتناک اور سخت پہلو پیش کرنے یا گنہگاروں کےلئے جہنم کی آگ کی منادی کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ آپ کو انسانیت کی خوشی و غم میں شریک ہونا تھا کیونکہ آپ تمام انسانوں کو خدا کی محبت دکھانے کےلئے آئے تھے۔

مسکراتے چہرے کے ساتھ یسوع نے اعلان کیا کہ وہی انجیلی کلام یعنی خوشخبری کا مصنف و موضوع ہے۔ یسوع نے باہمی ملنساری، رفاقت اور پاک زمینی مسرتوں کو پروان چڑھاتے ہوئے ایمان و دین کی تصویر کو مکمل کیا۔ یہ رُوحانی خوشی کی وہ علامتیں ہیں جو مسیح کے وسیلہ آسمانی بادشاہی کے ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔

یوحنّا اِصطباغی نے مذہبی تعلیمات کو، گرچہ نرم لہجے سے کچھ ہٹ کر پیش کیا، مگر مسیح نے بنیادی طور پر مذہبی رحمدلی کی مثال پیش کی۔ یوحنّا نے اِس بات پر اصرار کیا کہ لوگ توبہ کریں، جبکہ مسیح نے اُنہیں دعوت دی کہ وہ اپنے باطن و ضمیر میں احساسِ جرم و ندامت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی بری روش سے باز آئیں۔ یوحنّا اِصطباغی نے لوگوں کے ساتھ کھانے پینے میں رفاقت نہ رکھی مگر مسیح نے ایسا کیا، اور لوگوں سے ضیافت میں شمولیت کےلئے ملنے والی دعوتوں کو قبول کیا۔ یوحنّا اِصطباغی اونٹ کے بالوں کی بنی ہوئی پوشاک پہنتا تھا جبکہ مسیح کا لباس کتانی یعنی سوتی تھا۔

یوحنّا اِصطباغی نے منادی کرتے ہوئے اعلانیہ یہ کہا "اے سانپ کے بچو! تمہیں کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟" (انجیل بمطابق متی 3: 7)۔ جبکہ یسوع نے بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتے ہوئے اپنے وعظ و نصیحت کا آغاز اِن الفاظ سے کیا: "مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے" (انجیل بمطابق متی 5: 3)۔ یسوع کے شاگرد اپنے نئے اُستاد کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے قانائے گلیل کی شادی میں شریک ہوئے جس کی دعوت یسوع نے بخوشی قبول کی تھی۔

شادی کی تقریب کے دوران پیش کی جانے والی مے ختم ہو گئی۔ چونکہ مُقدّسہ مریم کا شادی کے گھر والوں سے نزدیکی رشتہ تھا اِس لئے وہ مے ختم ہو جانے کے معاملہ سے واقف تھیں جبکہ دوسرے مہمان اِس مسئلے سے بےخبر تھے۔ مریم نے یسوع کو وہاں مے ختم ہو جانے کی بابت بتایا۔ ممکن ہے دریائے یردن میں مسیح کے بپتسمہ کے وقت ہونے والے واقعے سے مریم کی اُمیدیں نئے سرے سے پھِر اجاگر ہوئی ہوں۔ ممکن ہے مریم چاہتی ہو کہ مسیح اپنی اُن صلاحیتوں کا اظہار لوگوں کے سامنے کرتا، جن کا علم مریم کو مسیح کے الہٰی مبدا ہونے کی وجہ سے پہلے ہی سے تھا۔

ہو سکتا ہے کہ ماں ہونے کے فخر کا احساس کرتے ہوئے مریم چاہتی ہو کہ لوگ اُسے ستایش کی نگاہوں سے دیکھیں۔ یا پھِر مریم نے محسوس کیا ہو کہ مے، یسوع اور اُس کے بہت سے شاگردوں کی موجودگی کے باعث تمام ہو گئی تھی۔ ممکن ہے مے ختم ہو جانے کی کوئی اَور وجہ ہو جس سے ہم واقف نہیں۔

مُقدّسہ مریم کی درخواست پر مسیح نے جو جواب دیا، اُس سے پتا چلتا ہے کہ مُقدّسہ مریم نے ایک حد سے زیادہ ہی مسیح کو کچھ کرنے کو کہہ دیا تھا۔ یسوع نے مُقدّسہ مریم کے جواب میں یوں کہا: "اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا" (انجیل بمطابق یوحنا 2: 4)۔ بظاہر لگتا ہے کہ اپنی والدہ کی درخواست پر یسوع کے جوابی الفاظ سخت تھے، مگر آپ چاہتے تھے کہ اِس طرح مُقدّسہ مریم آپ کے نئے اختیار، مستقبل کے نئے تجربات اور خاندانی تعلقات میں آنے والی تبدیلی کو سمجھ جائیں۔

یسوع کے یہ الفاظ، یسوع اور اُن کی ماں مریم کے درمیان ایک ایسی نئی رکاوٹ کی مانند تھے جن سے یسوع کا ماضی اور مستقبل گویا ایک دوسرے سے جُدا سے ہو گئے۔ یسوع اپنی والدہ مریم پر ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ آپ کی خدمت کے کام میں وہ اپنی رائے پیش نہ کریں۔ جب یسوع نے اپنی والدہ مریم سے کہا کہ "اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام ہے؟" تو مُقدّسہ مریم سمجھ گئیں کہ ماضی میں اپنے فرزند پر حاصل اختیار کو اَب وہ مزید استعمال میں نہیں لا سکتی تھیں۔ ابنِ مریم اَب اپنی والدہ سے زمینی بیٹے کے درجے سے بڑھ کر ابنِ خدا کی حیثیت سے پیش آئے، اِس لئے یسوع نے "اے عورت" کے الفاظ استعمال کئے۔ اِس سے پہلے یسوع نے اپنی والدہ سے سیکھا تھا اور تابع فرمانی کی تھی، لیکن اَب مریم کو یسوع سے سیکھنا تھا۔ مسیح کو اَب اپنی والدہ کی جانب سے انسانی رہبری کی ضرورت نہ تھی۔ مریم نے اِس دھیمی تادیب کو قبول کرتے ہوئے میزبان کے خادموں سے کہا کہ "جو کچھ یہ تم سے کہے، وہ کرو۔"

مسیح کو علم تھا کہ معجزات کرنے کا اُس کا وقت آ پہنچا تھا۔ سو، آپ نے اپنے الہٰی کام اور اختیار کے بےشمار ثبوت لوگوں کے دکھائے۔ ہر شخص اور خصوصاً مسیح کے شاگرد اِس بات سے واقف تھے کہ انسانی جسم اختیار کر کے مسیح نے جو حلیمی و فروتنی اختیار کی تھی وہ کسی مجبوری کے سبب نہیں بلکہ بہ رضا و رغبت تھی۔ آپ اپنے پیروکاروں کو اُن کے ایمان میں مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ مسیح اِس طرح کی شہرت و امتیاز کو وقوع میں لانا چاہتے تھے کہ جس کے باعث لوگوں کی کثیر تعداد آپ کی تعلیمات سُننے کےلئے کھنچی چلی آتی۔ آپ اُنہیں ایمان کے وسیلے ملنے والی نجات کےلئے دعوت دینا چاہتے تھے۔ نیز تمام بنی نوع انسان کےلئے اور اپنے باپ کےلئے جس نے اُنہیں بھیجا تھا اپنی محبت دکھانا چاہتے تھے۔ تمام انسانی کوششوں کی ناکامی کی صورت ہی میں مسیح کے وسیلہ معجزات سرانجام دینے کا وقت آنا تھا تا کہ الہٰی مدد دستیاب ہو سکتی۔

اُس وقت گھر میں دو دو، تین تین من کی گنجایش رکھنے والے چھ مٹکے موجود تھے۔ مہمانوں کا اجتماع اتنا زیادہ تھا کہ یہودی شریعت کے مطابق طہارت کےلئے ہی یہ سب مٹکے خالی ہو گئے ہوں گے۔ جب مسیح کا پہلا معجزہ انجام دینے کا وقت آیا تو آپ نے گھر میں موجود خادموں کو خالی مٹکے پانی سے بھرنے کا حکم دیا، جنہوں نے اُنہیں پانی سے لبالب بھر دیا۔ تب یسوع نے خادموں کو اُن مٹکوں میں سے مے نکال کر پہلے میرِ مجلس کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ جب میرِ مجلس نے اُس مے کو چکھا تو کہنے لگا کہ یہ آخری مے تو بہت ہی بہتر تھی۔ یہ بات اُس نے سب کے رُو برُو کہی اور دلہا کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کیا کہ اچھی مے آخر تک بچا کر رکھی گئی تھی۔

مسیح شادی والے گھر کو مہمانوں کےلئے مے کی کمی کے باعث ہونے والی شرمندگی سے بچانا چاہتے تھے۔ آپ نے ایک بڑے واضح معجزے سے ایسا کیا، جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی۔ مسیح نے خالی مٹکوں میں پانی بھروا کر اُس سے مے بنائی اور یوں ثابت کیا کہ یہ مے پانی سے بنی تھی نہ کہ بچی ہوئی مے میں پانی ملانے سے ایسا ہوا تھا۔

مسیح نے پانی کے بڑے مٹکوں کو اِس لئے چُنا تا کہ کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہ ہو جاتی کہ وہ مے باہر سے لے کر آ گیا تھا۔ مسیح نے اپنے شاگردوں سے نہیں بلکہ اُس خاندان کے خادموں سے ہی مے مہمانوں کے سامنے پیش کرنے کےلئے کہا تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اُس نے اُنہیں فریب دیا تھا۔ مسیح نے خادموں کو حکم دیا کہ مٹکوں کو پانی سے لبالب بھر دیں تا کہ کوئی اُن پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ پانی میں مے ملا دی گئی تھی۔

اِس معجزہ کو شہر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے دیکھا، اور اِس میں وہ خادم بھی شامل تھے جنہوں نے پہلے کبھی بھی یسوع سے ملاقات نہ کی تھی۔ یہ ناقابل تصور خیال ہے کہ شادی میں موجود سب مہمانوں اور خادموں نے مل کر دوسروں کے ساتھ کسی قسم کی چالاکی کی ہو۔ وہاں موجود ایک ذمّہ دار ہستی یعنی میرِ مجلس نے اُس مے کے بہترین ہونے کی تصدیق کی۔ لہذا کوئی بھی شخص، یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ اِس اچھی و نئی مَے کو پینے والے لوگ، دِل پسند خواہش والی اِس نئی مَے کی تعریف کی بابت، محض قیاس آرائی کر رہے تھے۔ میرِ مجلس نے سب کو بتایا کہ ایک معجزہ واقع ہوا ہے، اور لوگوں نے اُس ذائقہ دار نئی مے کی بابت گفتگو کرنی شروع کر دی۔ ہر ایک پر عیاں ہو گیا کہ یسوع نے ایک معجزہ کیا تھا، اور یوں "یسوع نے اپنا جلال ظاہر کیا اور اُس کے شاگرد اُس پر ایمان لائے" (انجیل بمطابق یوحنّا 2: 11)۔

یوحنّا رسول نے پاک اِنجیل میں اِس معجزہ کا ذِکر کیا ہے، جس نے یسوع کی بابت یہ لکھا کہ "سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی" (انجیل بمطابق یوحنّا 1: 3)۔ سو اِس بات سے تعجب نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ مسیح جو قدرتی طور پر انگور کی بیل میں زمین کے پانی کو مے بناتا ہے، وہ مافوق الفطرت طریقے سے پانی کو مے میں تبدیل بھی کر سکتا ہے۔

لوگ اِس معجزہ کے خالص پن کی بابت قائل ہو گئے کیونکہ اُنہوں نے مے کو دیکھا، چکھا اور سونگھا۔ یہ معجزہ مسیح کے کام کے اِس فلسفہ کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اچھی چیز کو بہترین چیز میں تبدیل کرنے پر قادر ہیں۔ آپ نے عہد عتیق کی شریعت کو عہد جدید کے فضل میں تبدیل کیا۔ اِسی طرح پانی کے بپتسمہ کو رُوح القدس کے بپتسمہ میں وسعت عطا کی، اور مذہبی راہنمائی کے کلام میں اپنے پیروکاروں کےلئے نجات کا ابدی پیالہ شامل کیا۔

وہ سب باتیں جو یسوع کو انسانیت کےلئے بہترین نمونہ ظاہر کرتی ہیں، اُن میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسیح نے شادی کی ضیافت میں حاضر شرکا کے دِلوں کو جانتے ہوئے اُنہیں مے پیش کر کے مے کے درست استعمال کی توثیق کی۔ تاہم یسوع کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ مے کے غیر متناسب استعمال سے مدہوش ہو جاتے کیونکہ یہ اُن کےلئے نقصان دہ ہونا تھا۔ مسیح کے اصولوں اور طور طریقوں سے جو کچھ ہمیں پتا چلتا ہے، اُس سے باوثوق طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اُس شام مے کا استعمال نقصان کا باعث ہوتا تو مسیح نے مے نہیں بنانی تھی۔ اگر قانون کی حد میں مناسب طور پر لُطف اندوز ہونا دوسروں کےلئے ٹھوکر کا سبب بننے لگے تو شاید یہ بھی درست نہیں۔ مدہوش ہونے کےلئے مے کا غلط استعمال غیرمناسب ہے۔

یسوع نے اپنا پہلا معجزہ ایک شادی کے موقع پر انجام دیا۔ یوں انسانیت کے قدیم ترین ضابطے شادی کو یسوع نے موزوں اور پاک قرار دیا۔ خدا تعالیٰ نے ازدواج کے رشتے کو انسان کےلئے باغِ عدن میں اُس وقت قائم کیا جب ہمارے اوّلین والدین (آدم و حوا) گناہ میں گرنے سے قبل معصومیت کی حالت میں تھے۔ باقی تمام قوانین و ضوابط انسان کے گناہ میں گرنے کے بعد آئے۔

اگرچہ یسوع نے خود شادی نہ کی، مگر قانائے گلیل کی شادی میں آپ کی موجودگی نے اِس سماجی ضابطہ پر مہر ثبت کی۔ درحقیقت اِس کی دوہری اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قانائے گلیل کی شادی میں آپ کی موجودگی سے اِن الفاظ کی تصدیق ہوتی ہے "بیاہ کرنا سب میں عزت کی بات سمجھی جائے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 4)۔ اِس سے اُس باطل نظریہ کی تردید بھی ہوئی جس کے بہت سے لوگ معتقد ہیں کہ شادی انسانی فطرت کی کمزوری کےلئے ایک رعایت ہے جسے بنی نوع انسان کو بدی سے دُور رکھنے کےلئے مقرر کیا گیا ہے۔ اِس خیال کے ساتھ ایک اَور نظریہ بھی سامنے آیا کہ بیاہ سے پرہیز کرنا ایک خوبی ہے جس کے نتیجہ میں کچھ لوگوں نے شادی کو حقیر سمجھتے ہوئے تجرُّد کو فروغ دیا۔ شادی کی ضیافت میں مسیح کی موجودگی اِن غلط نظریات کی تردید کرتی ہے، اِسی طرح توریت شریف کی کتاب پیدایش 1: 28 میں مرقوم حکم بھی اِس غلط سوچ کی تردید کرتا ہے جہاں خدا تعالیٰ نے آدم اور حوا کو گناہ میں گرنے سے قبل یہ حکم دیا کہ "بڑھو، پھلو اور زمین کو معمور و محکوم کرو۔"

قانای گلیل کی اِس شادی میں مسیح کی موجودگی ہر اُس فرد کےلئے جس کی شادی خداوند میں ہوتی ہے، آپ کی موجودگی کی ایک خوبصورت علامت کی مانند ہے۔ اِس زمانہ کے آخر میں، ہم مسیح کی روحانی شادی کی عظیم ضیافت میں جشن منائیں گے جس نے قانای گلیل کی شادی میں پانی کو مے میں تبدیل کیاتھا۔ جناب مسیح آسمانی دُلہا کے روپ میں اپنے جلال میں تخت نشین ہوں گے، اور آپ کی دُلہن اُن تمام ایمانداروں پر مشتمل ہو گی جو آپ کی عزیز کلیسیا ہیں۔ آسمانی شادی کی ضیافت فقط سات دِن تک محدود نہیں ہو گی بلکہ تمام ابدیت تک رہے گی۔ مبارک ہیں وہ جو برہ کی شادی کی ضیافت میں بُلائے گئے ہیں (نیا عہدنامہ، کتاب مکاشفہ 19: 1-10)۔

جب ہم شادی بیاہ کی اخلاقی پابندی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو پھر خاندانی تعلقات کا بھی احترام کرتے ہیں۔ گرچہ آسمانی بادشاہی کی خدمت کے سلسلہ میں مسیح اور آپ کے شاگرد قلیل مدت کےلئے خاندانی ذمہ داریوں سے جُدا ہوئے، لیکن پھر یسوع نے اِس بظاہر غیر متوازی صورتحال کی اصلاح کی غرض سے اپنی خدمت کے ابتدا ہی میں شادی کی ضیافت میں شرکت کی اور خاندانی تعلقات کی عظمت کو ظاہر کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ مسیح نے روحانی رفاقت کو عالی و متبرک سطح پر رکھا کیونکہ یہی روحانی رفاقت انسانیت کو اُس کے خالق خدا، نجات دہندہ مسیح اور دُنیا میں موجود تمام انسانوں سے جو اُن کے روحانی بھائی بہن ہیں منسلک کرتی ہے۔

4- یسوع مسیح کا ہیکل کو صاف کرنا

"اِس کے بعد وہ اور اُس کی ماں اور بھائی اور اُس کے شاگرد کفرنحوم کو گئے اور وہاں چند روز رہے۔ یہودیوں کی عیدِ فسح نزدیک تھی اور یسوع یروشلیم کو گیا۔ اور اُس نے ہیکل میں بیل اور بھیڑ اور کبوتر بیچنے والوں کو اور صرّافوں کو بیٹھے پایا۔ اور رسّیوں کا کوڑا بنا کر سب کو یعنی بھیڑوں اور بیلوں کو ہیکل سے نکال دیا اور صرّافوں کی نقدی بکھیر دی اور اُن کے تختے اُلٹ دیئے۔ اور کبوتر فروشوں سے کہا، اِن کو یہاں سے لے جاﺅ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناﺅ۔ اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ لکھا ہے، تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا جائے گی۔ پس یہودیوں نے جواب میں اُس سے کہا، تُو جو اِن کاموں کو کرتا ہے ہمیں کون سا نشان دِکھاتا ہے؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، اِس مَقدِس کو ڈھا دو تو میں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دُوں گا۔ یہودیوں نے کہا، چھیالیس برس میں یہ مَقدِس بنا ہے اور کیا تُو اُسے تین دِن میں کھڑا کر دے گا؟ مگر اُس نے اپنے بدن کے مَقدِس کی بابت کہا تھا۔ پس جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اُس نے یہ کہا تھا اور اُنہوں نے کتابِ مُقدّس اور اُس قول کا جو یسوع نے کہا تھا یقین کیا۔ جب وہ یروشلیم میں فسح کے وقت عید میں تھا تو بہت سے لوگ اُن معجزوں کو دیکھ کر جو وہ دِکھاتا تھا اُس کے نام پر ایمان لائے۔ لیکن یسوع اپنی نسبت اُن پر اعتبار نہ کرتا تھا اِس لئے کہ وہ سب کو جانتا تھا۔ اور اِس کی حاجت نہ رکھتا تھا کہ کوئی انسان کے حق میں گواہی دے کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ انسان کے دِل میں کیا کیا ہے۔ (انجیل بمطابق یوحنا 2: 12-25)

یسوع نے اِس موقعہ پر اِس لئے غصہ دکھایا کیونکہ یہودی کاہنوں نے عبادت گاہ کو ڈاکوﺅں کی کھوہ بنا دیا تھا۔ اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے ہیکل کو صاف کیا جو انسانوں کے دِلوں کو صاف کرنے کی تیاری کا عکس تھا کیونکہ درحقیقت انسان کا دِل ہی خدا تعالیٰ کا مَقدِس ہے۔ یسوع اپنے کام کو سرانجام دینے کےلئے پورے طور پر مستعد تھے اور اِس ذمہ داری کو پورا کرنے میں آپ نے بالکل بھی سُستی نہ کی۔ آپ نے رسیوں کا ایک کوڑا بنایا اور وہ سب جنہیں وہاں نہیں ہونا چاہئے تھا نکال باہر کیا۔

یسوع نے تاجروں یا صرّافوں پر تشدد نہ کیا کیونکہ آپ اُن پر ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ آپ کا غصہ اُن کی ذات و شخصیت کے خلاف نہیں بلکہ اُن کے بُرے کاموں کے خلاف تھا۔ یسوع نے جانوروں کو باہر نکال دیا اور صرّافوں کے تختے اُلٹ دیئے۔ وہاں کوئی اَور ایسا شخص موجود نہ تھا جو ایسے کر سکتا۔ آپ نے کبوتر فروشوں سے کہا کہ وہ اپنے کبوتروں کو وہاں سے لے جائیں۔ پھِر آپ نے سب کے روبرو یہ کہا "میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناﺅ۔"

خدا کے باقی تمام لوگوں سے اپنے آپ کو یگانہ و منفرد کرنے والا یہ کون شخص تھا جس نے کہا "میرے باپ کا گھر"؟ کیا کبھی کسی نبی، رسول یا آسمانی فرشتہ نے ایسا کلام کیا؟ یہ شخص کون تھا جس نے ہیکل میں لوگوں کے بڑے ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر اُنہیں اُن کی بگڑی راہوں کو بدلنے کا حکم دیا اور غیرقوموں کےلئے مخصوص ہیکل کے حصہ میں تجارت کے فروغ کے سلسلہ کو روکنے کو کہا؟ یہ کون شخص تھا جس نے اُنہیں ہدایت کی کہ وہ عبادت و قربانی کے سلسلہ میں ضرورت کی اشیا ہیکل کی غیراقوام والی جگہ کی بجائے باہر بازار سے خریدیں؟ یہ کون تھا جو یہودی مذہبی راہنماﺅں کی طاقت کے مرکز میں اُن کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا، اور تاجروں اور صرّافوں کے ساتھ اُن کے معاہدوں کو توڑ رہا تھا؟ اُسے کیا حق تھا کہ وہ لوگوں کے بیلوں اور بھیڑوں کو وہاں سے باہر نکالتا، اُن کے منظم شدہ نقدی کے تبادلہ و حساب کتاب کے طریقہ کار کو اُلٹ پُلٹ کر دیتا؟ وہ کیسے عید کے عظیم موقع پر مذہبی راہنماﺅں اور تاجروں کے مفاد کی حق تلفی کر سکتا تھا؟ کیسے اُس نے عظیم رومی حکومت کی پشت پناہی والی یہودی قوم کی قیادت کی تحقیر کرنے کی جُرأت کی؟ کیسے یسوع ہیکل میں اِس کام کو کر سکتا تھا جبکہ بہت سے کاہن اور لاوی ہر روز اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کےلئے وہاں موجود ہوتے تھے؟ کیا اُن تاجروں کو جنہیں یسوع نے ہیکل سے باہر نکالا، سردار کاہن نے تجارتی سرگرمیوں کےلئے ہیکل کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی؟ کیا ہیکل کے نظم و نسق کو سنبھالنے کےلئے رومی سپاہیوں کو وہاں رسائی مہیا نہیں کی گئی تھی؟

جناب یسوع کیونکر اِس طرح کا برتاﺅ یا اِس کام میں کامیابی کی توقع کر سکتے تھے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کے احساس و ضمیر کے باعث یسوع کو کامیابی میں معاونت ملی کیونکہ گناہگار لوگ اپنے ضمیر اور دوسروں کے سامنے بزدل اور پست ہمت ہوتے ہیں، مگر راستباز شخص ہمیشہ دلیری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ عظیم دانشور حضرت سلیمان نے فرمایا "اگرچہ کوئی شریر کا پیچھا نہ کرے تو بھی وہ بھاگتا ہے، لیکن صادِق شیر ببر کی مانند دلیر ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 28: 1)۔ ہیکل میں موجود یہودی سرداروں اور تاجروں کے احساس و ضمیر نے یسوع کی اپنے کام کو کرنے میں معاونت کی۔ جب آپ نے اُنہیں اختیار سے حکم دیا کہ آپ کے باپ کے گھر کو تجارت گاہ نہ بنائیں تو اُنہوں نے مسیح کی اطاعت کی۔

مزید برآں، اِس واقعہ سے پیشتر مذہبی راہنماﺅں نے مسیح کی بابت دریافت کرنے کےلئے یوحنا اِصطباغی کے پاس اپنا ایک وفد بھیجا تھا جن کے سامنے یوحنا اِصطباغی نے مسیح کی گواہی دی تھی، اور وہ گواہی بھی ایک طرح سے بعد ازاں تاجروں کو باہر نکالنے کے مسیح کے حق کی تصدیق کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ اُنہوں نے قانائے گلیل میں مسیح کے پانی کو مے میں تبدیل کرنے کے معجزہ کے بارے میں بھی سُنا جس کے باعث مسیح کا روحانی اختیار مستحکم ہوا۔ علاوہ ازیں، یوحنا اِصطباغی کی خدمت کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کے دِلوں میں زبردست بیداری پیدا ہو چکی تھی جس کی وجہ سے اُن کے دِل اصلاحی عمل کےلئے تیار ہو چکے تھے۔ یوں، مذہبی راہنماﺅں نے اپنی یہودی قوم میں حقیقی خدا پرستی کے ردِعمل کو دیکھ لیا ہو گا، اگرچہ ایسے نیک لوگوں کی تعداد اُس وقت کم ہی تھی۔

اِن مختلف وجوہات نے بگاڑ کے شکار مذہبی راہنماﺅں کی مخالفت کے باوجود مسیح کی کامیابی کےلئے راہ ہموار کی۔ مسیح کی شخصیت کی امتیازی قدّوسیت اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق میں دوسروں سے آپ کی انفرادیت دونوں کا اظہار "میرے باپ کے گھر" کے الفاظ میں ہوتا ہے۔ قدّوسیت کے سبب پیدا ہونے والی تعظیم و تکریم ناقابل بیان ہے۔

یہودی سرداروں نے یسوع کے اِس عمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آپ کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ ہیکل کے انتظامات میں اُس وقت تک دخل اندازی کا کوئی حق نہیں رکھتا جب تک کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجا گیا نبی یا رسول نہ ہو، اور اگر وہ سچا ہے تو اپنے الہٰی مقصد کو اُن کے سامنے کوئی خاص معجزہ کر کے ثابت کرے تا کہ وہ اُس کے مذہبی اختیار کو مان سکیں۔

مگر یسوع رضامند نہ ہوئے کہ وہ شریر لوگ آپ کے الہٰی اختیار کو پرکھنے کےلئے منصف بن جاتے۔ آپ نے اِس امر میں اُنہیں کوئی موقع فراہم نہ کیا، جس کا حقیقت میں مطلب یہ تھا کہ مسیح اپنی شخصیت میں خود ایک کافی اور عظیم ترین معجزہ تھا۔ یسوع کی بابت یہ سچے حقائق جان جانے کی صورت میں یہودیوں نے یسوع کو ہلاک کرنا تھا، مگر یسوع نے اپنی موت کے تیسرے دِن بعد مُردوں میں سے زندہ ہو جانا تھا۔ اِس لئے یسوع نے فرمایا: "اِس مَقدِس کو ڈھا دو تو میں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دُوں گا۔"

اگر یہودیوں کے دِل سخت نہ ہوتے تو وہ یسوع کی بات کو سمجھ گئے ہوتے۔ اُنہوں نے یسعیاہ نبی کے اِن الفاظ پر توجہ نہ دی جہاں لکھا ہے کہ "خداوند یوں فرماتا ہے کہ آسمان میرا تخت ہے اور زمین میرے پاﺅں کی چوکی۔ تم میرے لئے کیسا گھر بناﺅ گے اور کون سی جگہ میری آرامگاہ ہو گی؟ کیونکہ یہ سب چیزیں تو میرے ہاتھ نے بنائیں اور یوں موجود ہوئیں، خداوند فرماتا ہے، لیکن میں اُس شخص پر نگاہ کروں گا۔ اُسی پر جو غریب اور شکستہ دِل ہے اور میرے کلام سے کانپ جاتا ہے۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 66: 1، 2)

مسیح کے ایک سچے پیروکار، ستِفنس نے اِن الفاظ کی وضاحت یوں کی کہ "بارِی تعالیٰ ہاتھ کے بنائے ہوئے گھروں میں نہیں رہتا" (نیا عہدنامہ، اعمال 7: 48)۔ یسوع کے جواب کو یہودی سمجھ نہ سکے، اُنہوں نے مسیح کے الفاظ "اِس مَقدِس کو ڈھا دو" کو قطعی طور پر کُفر سمجھا اور نتیجتاً غصہ ہو گئے۔

کیسے یہ نیا یہودی اُستاد یہودیوں کو خدا کی مُقدّس ہیکل کو جو یہودی قوم کا عظیم ترین فخر تھی ڈھانے کی دعوت دے سکتا تھا؟ یہ کون تھا جو یہ کہہ سکتا تھا کہ اگر ہیکل کو ڈھا دیا جائے تو وہ اُسے تین دِن میں کھڑا کر دے گا جبکہ ہیرودیس بادشاہ کو اپنی تمام تر دولت، اثر و رسوخ اور توانائیوں کے ساتھ صرف اِس کی دیکھ بھال اور کچھ بہتری ہی کر سکا اور اُس کام کو پورے طور پر مکمل نہ کر سکا؟ یہ غریب گلیلی نوجوان کیسے ہیکل کو تین دِن میں دوبارہ تعمیر کر سکتا تھا؟ جو کچھ یسوع نے ہیکل کو ڈھا دینے کی بابت کہا وہ آپ کے شاگردوں پر بھی واضح نہ ہو سکا۔ وہ یسوع کے یہودیوں کے ہاتھوں مصلوب ہونے، مرنے اور دفن ہونے، اور پھر تیسرے دِن آپ کے جی اُٹھنے کے بعد ہی آپ کے اِن الفاظ کو سمجھ سکے۔ تب وہ اِس بات کو سمجھ سکے کہ ہیکل تو مسیح کے بدن کی طرف اشارہ تھا۔ اُس وقت اُن شاگردوں کا اپنے آقا مسیحا پر ایمان مستحکم ہوا، حالانکہ اُن کی اپنی قوم نے مسیح کو رد کر دیا تھا۔

شاگردوں نے یہودی قوم کے سرداروں کی مخالفت کے باوجود مسیح کی دلیری کو دیکھا اور اُسے داﺅد نبی کے اِن الفاظ کی تکمیل سمجھا جہاں درج ہے کہ "تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا گئی" (زبور 69: 9)۔

تین سال بعد یہودی راہنماﺅں نے یسوع کے اِس جواب کو یاد رکھا اور اِسے مسیح کو قتل کرنے کےلئے ایک جواز کے طور پر لیا۔ مسیح سے انتقام لیتے ہوئے اُنہوں نے اِنہی الفاظ کے حوالے سے آپ پر طنز بھی کی۔ مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کو روکنے کےلئے جب اُنہوں نے حاکمِ وقت پیلاطس سے آپ کی قبر پر نگران سپاہی مقرر کرنے کےلئے درخواست کی تو اِنہی الفاظ کا حوالہ دیا۔

اِن الفاظ نے اُن لوگوں کے دِلوں میں نفرت کی آگ بھڑکا دی تھی جس سے آخرکار مسیح صلیب پر مصلوب ہوئے، اور یوں نبوت پوری ہوئی کہ "تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا جائے گی۔" یسوع کو اِس بات کا علم تھا کہ ہیکل کی صفائی کرنے کا مقصد و نتیجہ جلد ہی غائب ہو جانا تھا اور وہاں دُنیوی طرز کی تجارت کا کام پہلے کی طرح پھر سے رائج ہو جانا تھا۔ تین سال بعد عید ہی کے موقع پر یسوع ایک بار پھر ہیکل کی صفائی کرنے کےلئے گئے، اور یہ وہی کام تھا جو آپ نے پہلے بھی کیا تھا۔ اِسی طرح جب ہماری زندگی میں نیک کاموں کے نتائج غائب ہونے لگیں تو ضرورت ہے کہ ہم اُنہیں پھر سے شروع کریں اور اُن میں ثابت قدم رہیں۔

چونکہ مسیح کے خفا ہونے کا یہ پہلا موقع ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ "کیسے مسیح کا یہ غصہ آپ کی کاملیت کے ساتھ مطابقت رکھ سکتا ہے؟"

اِس کا جواب یہ ہے کہ جیسے بسا اوقات کسی پر کی گئی مہربانی بدی پر مبنی ہوتی ہے ویسے ہی غصہ بھی ایک اچھی خوبی ہو سکتا ہے۔ پاک خیالات کے ساتھ روا رکھے جانے والے غصہ کےلئے لازمی شرط یہ ہے کہ وہ تمام خود غرضانہ عناصر اور غیر معقولیت سے آزاد ہو۔ پولس رسول نے لکھا "غصہ تو کرو، مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے اور ابلیس کو موقع نہ دو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 26-27)۔ ہیکل کے مُقدّس مقام کی بےحرمتی دیکھ کر یسوع غصہ ہوا، اور اِس سے مادی دُنیا میں پاک خدا کے معاملات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ خدا کا نام، اُس کا گھر اور اُس کے الفاظ پاک ہیں اور اُس کے خادم بھی پاک ہوتے ہیں۔ خدائے قدوس کی خاطر اُن کی عزت کرنی چاہئے۔ جو اِن باتوں کی پرواہ نہیں کرتا، اُس پر خدا کا غضب نازل ہو گا جیسا کہ ہیکل کو ناپاک کرنے والوں کے ساتھ ہوا۔

مسیح کے غصہ کرنے کا ایک سبب لوگوں میں مال و دولت کےلئے محبت کا ہونا بھی تھا، جو پاک انجیل کے مطابق تمام برائی کی جڑ ہے: "زر کی دوستی ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے" (نیا عہدنامہ، 1-تیمتھیس 6: 10)۔

مسیح کے اِن الفاظ نے کہ "میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناﺅ" واضح کر دیا کہ تجارتی مفاد نے اُن کے دِلوں سے خدا کی محبت کو بےدخل کر رکھا تھا۔ "کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا، کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا" (انجیل بمطابق متی 6: 24)۔ عزیز قاری، آپ کے اعمال ظاہر کر دیں گے کہ آیا آپ خدا کی خدمت کر رہے ہیں یا دولت کی۔ مال و دولت کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن جب اُس سے اِس قدر محبت کی جائے کہ متبرک اقدار گناہ آلودہ ہونے لگیں اور تجارتی نفع دینداری کو چُرا لے جائے، تو تب دولت واقعی برائی ہے۔ دینداری پر دولت کو ترجیح دینا بت پرستی کے برابر بھی ہے۔

اِس جنگ میں یسوع نے یہودی قائدین پر غلبہ حاصل کیا۔ آپ نے ابلیس کو بھی شکست دی جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اگرچہ یسوع نے یہودیوں کے مطلوبہ معجزات دِکھانے سے انکار کیا، تاہم آپ نے یروشلیم میں چند معجزات بھی کئے اور بہت سے لوگ آپ کے نام پر ایمان لائے۔

ایک شخص خیال کرسکتا ہے کہ یسوع کو اِن معجزات کے کرنے میں مُسرّت ہوئی ہو گئی لیکن کیا یوحنا رسول نے یہ نہیں لکھا کہ "یسوع اپنی نسبت اُن پر اعتبار نہ کرتا تھا، اِس لئے کہ وہ سب کو جانتا تھا" (انجیل بمطابق یوحنا 2: 24)۔

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کا ایمان رُوح یا دِل سے نہیں تھا بلکہ صرف عقلی ایمان تھا۔ وہ اُن پودوں کی مانند تھے جو کم گہری زمین میں لگائے گئے ہوں۔ وہ دیر تک قائم نہ رہ سکے کیونکہ جب ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ سوکھ کر مر گئے۔ مسیح پر ایمان لانے والے بعض افراد اپنے ایمان سے پھِر گئے جس کی وجہ اپنے ہی لوگوں کی جانب سے ایذا رسانی تھی یا پھِر اُن لوگوں نے احساس کر لیا کہ مسیحی عارضی دنیوی برکتوں سے ہر وقت لطف اندوز نہیں ہوا کرتے۔ کچھ لوگ اِس حقیقت کے عیاں ہو جانے پر مسیحی دین سے پھِر گئے کہ یسوع ایک یہودی سیاسی بادشاہت قائم کرنے نہیں آئے تھے۔

انجیل مُقدّس یسوع کی بابت ایسی گواہی پیش کرتی ہے جو کسی اَور اِنسان کےلئے نہ تو دی گئی ہے اور نہ دی جا سکتی ہے کہ وہ "اِس کی حاجت نہ رکھتا تھا کہ کوئی انسان کے حق میں گواہی دے کیونکہ وہ آپ جانتا تھا کہ انسان کے دِل میں کیا کیا ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 2: 25)۔ کسی بھی نبی یا رسول کی بابت اِس قسم کا بیان کبھی نہیں دیا گیا۔

اِس سے ہم واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ مسیح میں الہٰی اور انسانی فطرت کے باعث لوگوں کے دِلی تصورات کو جاننے کا اِدراک بہت زیادہ تھا۔ ہم مسیح کی بابت دیکھیں گے کہ انسان کی دِلی معلومات جاننے کی آپ کی قدرت کے باعث کتنے زیادہ بھلائی کے کام ہوئے۔

5- نِیکُدِیمُس کی یسوع سے ملاقات

"فریسیوں میں سے ایک شخص نِیکُدِیمُس نام یہودیوں کا ایک سردار تھا۔ اُس نے رات کو یسوع کے پاس آ کر اُس سے کہا، اے ربّی ہم جانتے ہیں کہ تُو خدا کی طرف سے اُستاد ہو کر آیا ہے کیونکہ جو معجزے تُو دِکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دِکھا سکتا جب تک خدا اُس کے ساتھ نہ ہو۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔ نِیکُدِیمُس نے اُس سے کہا، آدمی جب بوڑھا ہو گیا تو کیونکر پیدا ہو سکتا ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو رُوح سے پیدا ہوا ہے رُوح ہے۔ تعجب نہ کر کہ میں نے تجھ سے کہا تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔ ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تُو اُس کی آواز سُنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے۔ جو کوئی رُوح سے پیدا ہوا ایسا ہی ہے۔ نِیکُدِیمُس نے جواب میں اُس سے کہا، یہ باتیں کیونکر ہو سکتی ہیں؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، بنی اسرائیل کا اُستاد ہو کر کیا تُو اِن باتوں کو نہیں جانتا؟ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہم جانتے ہیں وہ کہتے ہیں اور جسے ہم نے دیکھا ہے اُس کی گواہی دیتے ہیں اور تم ہماری گواہی قبول نہیں کرتے۔ جب میں نے تم سے زمین کی باتیں کہیں اور تم نے یقین نہیں کیا تو اگر میں تم سے آسمان کی باتیں کہوں تو کیونکر یقین کرو گے؟ اور آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابنِ آدم جو آسمان میں ہے۔ اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے۔ تا کہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دُنیا میں اِس لئے نہیں بھیجا کہ دُنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اِس لئے کہ دُنیا اُس کے وسیلہ سے نجات پائے۔ جو اُس پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ اِس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔ اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نور دُنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا۔ اِس لئے کہ اُن کے کام برے تھے۔ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دُشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے۔ مگر جو سچائی پر عمل کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تا کہ اُس کے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 1-21)

ایک روز رات کی خاموشی میں ایک معتبر یہودی بنام نِیکُدِیمُس، مسیح سے ملاقات کےلئے آیا۔ نِیکُدِیمُس "اسرائیل کا اُستاد" اور "یہودیوں کا سردار" والے القابات کا مالک تھا۔ وہ ستر عالموں پر مشتمل یہودی مذہبی عدالت، صدر عدالت کا رُکن تھا۔ مسیح کی زندگی میں نِیکُدِیمُس ایک اہم شخص تھا کیونکہ وہ یہودی صدر عدالت میں سے پہلا فرد تھا جو مسیح کی تعلیمات سے متاثر ہوا۔ یہی وہ شخص تھا جس کے سبب مسیح کی پہلی دینی و رُوحانی تقریر انجیل یوحنا میں درج ہوئی۔ ایک فرد اِس طرح کے خطبے سے لازماً مذہب کے بنیادی اصول پر توجہ مرکوز کئے جانے کی توقع کرے گا۔

کفرنحوم سے واپسی پر مسیح اور آپ کے شاگردوں کو شام کے وقت جس گھر میں مدعو کیا گیا تھا، اُس کی بابت ہم تصور کر سکتے ہیں کہ جب نِیکُدِیمُس اپنی زرق برق خلعت زیب تن کئے وہاں آ موجود ہوا ہو گا تو اُس وقت بہت زیادہ ہلچل پیدا ہوئی ہو گی۔ ایک فریسی ہوتے ہوئے اُس کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا تھا جو بڑے فخر کے ساتھ اپنے سر کے جُبہّ، پوشاک کے چوڑے کناروں اور دیگر نظر آنے والے نشانات کے ذریعے اپنے اعلیٰ مقام کا اظہار کرتے تھے۔ اُس گھر میں داخل ہونے پر یقیناً اُس کا نہایت احترام سے استقبال کیا گیا ہو گا کیونکہ اُس کی شخصیت دولت، علم، مرتبہ، رہبری، سرداری اور عملی نیکی کی حامل تھی۔ اُس نے رات کے وقت غیرمتوقع موقع پر اُس سادہ سے گھر میں داخل ہو کر اُس کی زینت کو بڑھایا۔

نِیکُدِیمُس کی آمد سے گھر میں موجود تمام افراد صرف اِس لئے حیرت زدہ نہ تھے کہ وہ ایک فریسی اور صدر عدالت کا رُکن تھا بلکہ اِس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ یسوع سے اُس وقت ملنے آیا جب اُس سے کچھ دیر پہلے یسوع نے ہیکل کی صفائی کی تھی اور اِس واقعہ نے سردار کاہنوں کو سخت ناراض کر دیا تھا۔

یہودیوں کے اِس سردار کی آمد پر ہم تصور کر سکتے ہیں کہ لوگ احترام کے ساتھ کھڑے ہوئے ہوں گے۔ مسیح اور آپ کے حواری اِس خصوصی مہمان کی گفتگو کے شروع ہونے کے برابر منتظر ہوئے ہوں گے تا کہ وہ اُس کی آمد کی مقصد کو جان سکتے۔ جب نِیکُدِیمُس نے گفتگو شروع کی تو اُس نے یسوع کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہوئے آپ کو "ربّی" یعنی "اُستاد" کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ یہودی قوم کے درمیان اعلیٰ ترین مذہبی لقب تھا۔ یہ لقب صرف اُن افراد کو دیا جاتا تھا جو یہودی دینی درسگاہوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ نِیکُدِیمُس یہ اعلیٰ مرتبہ والا لقب ایک ایسے نوجوان کو دے گا جو نہ تو یہودی مدرسوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور نہ ہی کبھی ایسے مدرسوں میں داخل ہوا تھا۔

پھِر نِیکُدِیمُس سے مسیح کی عظمت کا اقرار کرنے والے یہ الفاظ کہے "اے ربی ّ ہم جانتے ہیں کہ تُو خدا کی طرف سے اُستاد ہو کر آیا ہے۔" یہ بات تسلیم کر کے نِیکُدِیمُس نے یسوع کو اپنی قوم کے دیگر ربیوں سے نہایت مُقدّم مرتبت پر رکھا کیونکہ وہ سب ربی خدا کی طرف سے نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ اُنہوں نے یہودی قوم کے سرداروں اور مدرسوں سے اِس لقب کو حاصل کیا تھا۔ نِیکُدِیمُس نے اپنی رائے کو ثبوت کے ساتھ تقویت بخشی کیونکہ ایک عالم ہوتے ہوئے وہ کسی بات کو پکی دلیل کے بغیر قبول نہیں کرتا تھا۔ اُس نے کہا کہ جو معجزے مسیح کر رہا تھا وہ کوئی اَور اُس وقت تک نہیں کر سکتا تھا جب تک کہ خدا اُس کے ساتھ نہ ہو۔

نِیکُدِیمُس، شمعون کی مانند راستباز اور خدا ترس بزرگ شخص تھا جو بنی اسرائیل پر مسیح کے ظہور کا منتظر تھا، اور یہی سبب تھا کہ وہ آیا تا کہ معلوم کرے کہ آیا یہ نیا اُستاد مسیح تھا یا نہیں۔ یسوع کے جواب سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ نِیکُدِیمُس اپنے آپ پر فخر کرتا تھا اور نجات کےلئے اپنی ذاتی راستبازی اور شجرہ نسب پر بھروسا کرتا تھا۔ اُس نے موسیٰ کی شریعت پر بہت ہی احتیاط سے عمل کیا تھا، اور نہ صرف مال و زر میں بلکہ نیک کاموں میں بھی دولتمند بن گیا تھا۔ چونکہ نِیکُدِیمُس خدا کی شریعت اور مذہبی معاملات میں ماہر تھا اِس لئے لوگ سوچتے تھے کہ آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے والوں میں وہ اوّل ہو گا۔ لوگوں کو نِیکُدِیمُس کے پُرعظمت کردار اور امتیازی مرتبہ کی بدولت یوں لگا کہ جیسے مُقدّسین کے ساتھ فردوس میں ایک اعلیٰ مقام اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ نِیکُدِیمُس کی مانند آج بھی کتنے لوگ ایسے ہیں جو نجات کےلئے دین کے اپنے علم، کلیسیائی فرقہ کے اپنے ایمانی ضابطہ عمل اور ظاہری خیرات پر تکیہ کرتے ہیں۔

ہمارے خیال میں نِیکُدِیمُس نے سوچا ہو گا کہ اُس نے اپنے الفاظ سے یسوع کا بہت احترام کیا تھا۔ اِس لئے وہ مسیح کی جانب سے شکرگزاری اور قدرشناسی سے نوازے جانے کا منتظر تھا۔ اِس میں شک نہیں کہ یسوع کے حواری نِیکُدِیمُس کی گواہی سے متاثر ہوئے اور اُس کی بابت خوش اُمیدی رکھتے تھے۔ لیکن یسوع نے ایک دیانتدار رُوحانی طبیب کی حیثیت سے اپنے ملاقاتی نِیکُدِیمُس کے دِل میں رُوحانی بیماری کو پہچان لیا تھا۔ نِیکُدِیمُس کے وسوسہ و وہم کو دُور کرنے کےلئے یسوع کو اُس کے احساسات کو زخمی ہونے کی حد تک چھونا پڑا تا کہ اُس کا مناسب طور پر دُرست علاج کیا جا سکتا۔

غلط روِش پر گامزن گمراہ رُوحوں کو بچانے کےلئے ابتدائی قدم کے طور پر ضرور ہے کہ اُن کے ایسے تمام لاحاصل و باطل سہاروں و اُمیدوں کو مسمار کیا جائے جن پر وہ اپنی نجات کےلئے تکیہ کئے ہوتے ہیں۔ یسوع کے کلام نے نِیکُدِیمُس کے نجات کی خیالی اُمید کے تمام لبادہ کو چاک کر دیا، اور اُسے معززانہ یا بااحترام الفاظ سے نوازنے کے بجائے یوں کہا "میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔" دوسرے الفاظ میں یسوع، نِیکُدِیمُس سے یہ کہہ رہے تھے کہ "چونکہ تُو اُوپر سے پیدا نہیں ہوا، اِس لئے تُو خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔" نِیکُدِیمُس نئی پیدایش کے موضوع سے ناواقف نہیں تھا کیونکہ اِس مضمون کا تذکرہ عہدنامہ عتیق میں پایا جاتا ہے۔ لیکن یہودی اِس کی تفسیر کرتے ہوئے اِسے صرف غیراقوام کےلئے سمجھتے تھے جو اُن کے نزدیک اُس وقت تک نجات نہیں پا سکتے تھے جب تک کہ وہ یہودیت کو قبول کر کے ختنہ نہ کرواتے اور موسوی شریعت کی پابندی نہ کرتے۔ ہر یہودی یہ سوچتا تھا کہ چونکہ وہ پہلے ہی اِن باتوں پر قائم ہے اِس لئے اُسے نئی پیدایش کی ضرورت نہیں۔ اِسی سبب سے یسوع کے بیان پر نِیکُدِیمُس حیران ہو گیا۔ جن الفاظ میں نِیکُدِیمُس نے یسوع کو جواب دیا اُن سے علم ہوتا ہے کہ نِیکُدِیمُس یسوع کے الفاظ پر زبردست شک کر رہا تھا۔ علاوہ ازیں اُس کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے پیدایش کی بابت مسیح کے الفاظ کو جسمانی معنوں میں سمجھا تھا۔

یسعیاہ نبی نے یسوع کی بابت نبوت کی تھی کہ "وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بُجھائے گا ۔..." (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 42: 3)۔ یہ نبوت مسیح میں اُس وقت پوری ہوئی جب آپ نے نِیکُدِیمُس کو نئے ایمان کی جانب لے جانے کی کوشش کی۔

یسوع نے نِیکُدِیمُس کو اُس کی سخت دِلی اور رُوحانی باتوں کی لفظی تفسیر کرنے پر سرزنش نہ کی، اور نِیکُدِیمُس کے پہلے الفاظ کو دُہراتے ہوئے اُنہیں قائم رکھا اور اُس کے بیان پر مزید وضاحت پیش کی۔

یسوع نے نِیکُدِیمُس پر اِس بات کو آشکارا کیا کہ آسمانی پیدایش سے مُراد پانی اور رُوح سے پیدا ہونا ہے۔ پانی سے پیدایش کا ذِکر کرتے ہوئے وہ توبہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس کےلئے پانی کا بپتسمہ ایک علامت و تصدیقی مُہر تھی۔ اور رُوح سے یسوع کی مُراد رُوح القدس تھا جس کی بدولت باطنی پاکیزگی کے ساتھ نئی پیدایش واقع ہوتی ہے۔ یہ گناہ کے اعتبار سے مر جانے اور پھِر راستبازی کے اعتبار سے نئی زندگی پانے کا دوسرا نام ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں باب 6)۔ خدا تعالیٰ کے فرزندوں کے سوا کوئی بھی آسمان کی بادشاہی کا وارث نہیں ہوتا، اور خدا کے فرزند ہونے کےلئے خدا سے پیدا ہونے کے علاوہ کوئی اَور راہ نہیں جو کہ صرف رُوحانی ہی ہو سکتی ہے کیونکہ ایک فرد جسمانی طور پر تو اپنے والدین سے پیدا ہوتا ہے لیکن رُوحانی اعتبار سے رُوح القدس سے پیدا ہوتا ہے۔

مسیح کو علم تھا کہ عقلیت پسندی پر مبنی فلسفہ میں نئی پیدایش کی حقیقت کو نہ سمجھنے کے باعث اُسے قبول کرنا آسان نہ تھا۔ یسوع نے نئی پیدایش کی رُوحانی اور پُراسرار حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے نِیکُدِیمُس کو الزام نہ دیا۔ باوجود کہ نِیکُدِیمُس اِن رُوحانی حقائق کو سمجھ نہ سکا، یسوع نے اُسے اِن حقائق کو قبول و تسلیم کرنے کےلئے کہا۔ اِس بات کو واضح کرنے کےلئے یسوع نے اُس سے کہا "ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے اور تُو اُس کی آواز سُنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی ہے اور کہاں کو جاتی ہے۔ جو کوئی روح سے پیدا ہوا ایسا ہی ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 8)۔ جب اِن باتوں سے نِیکُدِیمُس کے ذہن سے تمام شکوک رفع نہ ہوئے تو اُس نے مسیح سے دریافت کیا کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک عالم ہونے کی حیثیت سے نِیکُدِیمُس نے مزید وضاحت کی درخواست کی۔

مسیح نے نِیکُدِیمُس کے سوال کے سلسلہ کو ساری دُنیا کےلئے ابدی برکت کے ایک عظیم پیغام میں بدل دیا۔ آپ نے نرم تادیب کے ساتھ نِیکُدِیمُس کو اُس کی کمزوری کا احساس دلاتے ہوئے کہا "بنی اسرائیل کا اُستاد ہو کر کیا تُو اِن باتوں کو نہیں جانتا؟" اِس موقع پر یسوع مسیح نے انتہائی بیش بہا خطبہ دیا جس میں وہ سنہری آیت شامل ہے جسے انتہائی زمین کے اکثریتی لوگوں نے پاک انجیل کی سب سے اہم اور خوبصورت ترین آیت کے طور پر قبول کیا ہے جو یوں ہے: "خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 16)۔

نِیکُدِیمُس سے اپنی گفتگو کی ابتدا ہی پر یسوع نے آسمانی معاملات کے بارے میں اختیار کے ساتھ بات کرنے کے اپنے حق کا دعویٰ کیا۔ جو کچھ مسیح جانتے تھے اُس بارے میں آپ نے بات کی اور جو کچھ آپ نے دیکھا تھا اُس کی خبر دی: "آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوائے اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابنِ آدم جو آسمان میں ہے۔" مسیح کا آسمانی کلام چاہے کتنا ہی مخفی و پُراسرار معلوم ہو، خدا سے پیدا ہونے کی ضرورت کے بارے میں آپ کے الفاظ کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

اِن الفاظ کی بنیاد اِس حقیقت پر قائم ہے کہ گناہگار کا فطری دِل گناہ و بدی کی حالت میں مردہ ہے۔ یہ حقیقت میں رُوحانی موت ہے۔ مگر جو آسمان پر موجود ہیں وہ رُوحانی اعتبار سے زندہ ہیں، اِس لئے زندوں میں مُردوں کےلئے کوئی جگہ نہیں ہے، اور انسان کی گناہ میں گری ہوئی حالت اور آسمانی پاکیزگی میں کوئی موافقت و ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اگر ہم فرض کر بھی لیں کہ ایک فرد اپنی گناہ میں گری ہوئی حالت کے ساتھ بہشت میں چلا جائے گا تو اُسے وہاں اپنی گناہگار طبیعت کے موافق جسم و نفس کو خوش کرنے والا ماحول نہیں ملے گا کیونکہ ایسے فرد کی تمام لذتیں اور خوشیاں محض جسمانی ہوتی ہیں۔ ایسا فرد خود بھی پاک آسمان میں رہنا نہیں چاہے گا۔ اِسی طرح آسمان کے رہنے والے بھی ایسے بدکار انسان کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ جس طرح زندہ لوگ گلنے سڑنے والی کسی لاش سے نفرت کرتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ آسمانی لوگ گناہ آلودہ بگڑی فطرت سے نفرت کریں گے۔

مسیح کی تعلیمات کے مطابق حقیقی مذہب کا تعلق ظاہر سے نہیں بلکہ باطن کے ساتھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر انسان کےلئے خدا کی طرف سے زندگی کی بخشش ہے جس میں اِس بخشش کی بدولت انسانی زندگی میں رُوحانی پھل ظاہر ہوتے ہیں۔ خدا کے اُس فضل سے جس کے ہم ہرگز مستحق نہیں، ہماری نفسانی و جسمانی حالت رُوحانی نئی پیدایش کی حالت میں بدل جاتی ہے، اور یہی وہ کنجی ہے جو اُس دروازے کو کھولتی ہے جس کے ذریعہ ہم فضل کی حالت سے گذرتے ہوئے خدائے پاک کے ابدی جلال میں داخل ہو سکتے ہیں۔ خدا کی اِس بخشش کو پانے کےلئے ضرور ہے کہ ہمارے ذہن الہٰی نور سے منور ہوں، ہمارے جذبات و ہیجانات کی تقدیس ہو، ہماری مرضی الہٰی مرضی سے تبدیل ہو جائے اور ہمارا چال چلن راستبازی کے مطابق بدل جائے۔ اگر اِن باتوں میں ہماری اصلاح نہیں ہوتی تو ہم کبھی بھی آسمانی شہر کو نہیں دیکھ سکیں گے۔

ِیہ باطنی تبدیلی ایک ایمان لانے والے کو پولس رسول کے ساتھ یہ کہنے کا فخر عنایت کرتی ہے کہ "جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں ہو کر میں سب کچھ کر سکتا ہوں" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 4: 13)۔ ایسی تبدیلی کی بدولت انسان نیکی کے وہ سب کام کر سکتا ہے جنہیں پہلے انجام دینے کے قابل نہیں تھا جن میں اپنے دشمنوں سے محبت کرنا، دوسروں کی خدمت کےلئے خود کو وقف کر دینا، غیروں کےلئے اپنی جان دے دینا اور شخصی دُعا اور رُوحانی مطالعہ میں خوشی تلاش کرنا شامل ہیں۔ مزید برآں، یسوع نے اعلان کیا کہ جو نور آپ دُنیا میں لائے ہیں اُسے عموماً قبول نہیں کیا جاتا۔ اِس عجیب حقیقت کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کے کام تاریکی میں کئے گئے کام ہیں اور نور کی تاب نہیں لا سکتے۔ لیکن اِس کے برعکس راست لوگ نور سے محبت کرتے ہیں اور اپنے اعمال کے ظاہر ہونے سے خوفزدہ نہیں ہوتے تا کہ لوگ خدا کے ہاتھ کو کام کرتے ہوئے دیکھ سکیں۔

انجیل یوحنا میں مسیح کی سب سے پہلی تحریری گفتگو میں جو نِیکُدِیمُس کے ساتھ ہوئی، ہم مسیحی ایمان کے ایک اہم پہلو کو دیکھ سکتے ہیں۔ اِس بیان میں ہم مسیح کو ابنِ آدم کے طور پر دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی ابنِ خدا کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ یہاں ہمیں تثلیث فی التوحید کے تین اقانیم کا بیان بھی ملتا ہے جو خدا کی واحدانیت میں تثلیث کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے۔ آخر میں ہم ایک نبی، کاہن اور بادشاہ کے طور پر مسیح کے کام کا بیان بھی پاتے ہیں۔

انسانیت کو نبیوں کی ضرورت اِس لئے ہے کہ اُن کی نبوت سے آنے والے واقعات کی بابت وضاحت مل سکے۔ اُنہیں کاہن کی ضرورت بھی ہے کہ وہ خدا کے روبرو اُن کی نمائندگی کر کے گناہوں کا کفارہ پیش کرے۔ اور پھر اُنہیں بادشاہ کی ضرورت ہے کہ وہ ملک کے تمام معاملات کو سنبھالے اور حکومت کرے۔

یہ تینوں منصب تمام سماجی اور مذہبی ضروریات کےلئے کافی ہیں، اور اِن سب کو یسوع نے اپنی شخصیت میں یکجا کر دیا۔ اسرائیل کی تمام تاریخ میں کبھی بھی یہ سب عہدے کسی ایک شخص میں نہیں پائے گئے۔ سب نبی، کاہن اور بادشاہ علامت تھے جو یسوع کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ اُنہیں پاک مسح سے مخصوص کیا جاتا تھا اور بعض اوقات اُنہیں مسیحا بھی کہا گیا۔ یسوع سے پہلے اِن تین منصبوں کےلئے جن فرائض کی ادائیگی مطلوب تھی وہ یسوع نے اپنی آمد سے ہمیشہ کےلئے پایہ تکمیل کو پہنچا دیئے۔

یسوع وہ نبی ہیں جنہوں نے عالم بالا کی چیزوں کے بارے میں بات کی۔ آپ نے خدا کی مرضی اور صفات اور اِس کے ساتھ ساتھ انسانی دِل کی پوشیدہ باتوں کو عیاں کیا۔ یسوع آج بھی وہ راست اُستاد ہیں جن کی رُوح انسانیت کو وہ سب کچھ سکھاتی ہے جو اِس کی بہتری کےلئے ضروری ہے۔

انسان کےلئے مسیح کا مقام اُس کاہن کی مانند ہے جس نے تمام انسانیت کے گناہوں کے فدیہ و کفارہ کے طور پر اپنے آپ کو ابدی قربانی کےلئے نذر کر دیا۔ خدا کے برہ کی حیثیت سے آپ سب کے گناہ کی مخلصی ہیں تا کہ جو کوئی آپ پر ایمان لائے ابدی ہلاکت کا شکار نہ ہو۔ جیسے موسیٰ نبی نے بیابان میں سانپ اونچے پر چڑھایا تھا ویسے ہی مسیح نے صلیب پر لٹکائے جانے اور اپنی جان دینے سے یہ سب ممکن کیا: "چنانچہ موسیٰ نے پیتل کا ایک سانپ بنوا کر اُسے بلّی پر لٹکا دیا اور ایسا ہوا کہ جس جس سانپ کے ڈسے ہوئے آدمی نے اُس پیتل کے سانپ پر نگاہ کی وہ جیتا بچ گیا۔" (توریت شریف، گنتی 21: 9)؛ "اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے۔ تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 14، 15)

یسوع ہر توبہ کرنے والے شخص کےلئے مکمل، فوری اور مُفت معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ درمیانی کے طور پر شفاعت کرتے ہوئے آپ ایمان لانے والوں کی درخواستوں کو آسمانی باپ کے حضور پیش کرتے ہیں اور اُن کےلئے وکالت کرتے ہیں۔

ایک بادشاہ کے طور پر آپ اپنے لوگوں کے دِلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ آپ اُن کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور اُن کے دشمنوں کو شکست دیتے ہیں اور اُنہیں اپنی ابدی رُوحانی بادشاہی میں لے کر آتے ہیں۔

اگر آپ بادشاہ نہ ہوتے تو انسانوں کو ابدی نجات کےلئے اپنے اوپر ایمان لانے کےلئے نہ کہتے، بلکہ صرف یہ کہتے کہ خدا پر ایمان رکھو، جیسا کہ دوسرے نبیوں نے کرنے کو کہا تھا۔ نبی، کاہن اور بادشاہ ہوتے ہوئے جناب مسیح آج وہ رُوحانی معجزات ظہور میں لاتے ہیں جو اُن معجزوں سے کہیں عظیم ترین ہیں جو آپ نے زمین پر رہتے ہوئے سرانجام دیئے تھے۔

6- یسوع کی سامری عورت سے ملاقات

"وہ یہودیہ کو چھوڑ کر پھر گلیل کو چلا گیا۔ اور اُس کو سامریہ سے ہو کر جانا ضرور تھا۔ پس وہ سامریہ کے ایک شہر تک آیا جو سُوخار کہلاتا ہے۔ وہ اُس قطعہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیا تھا۔ اور یعقوب کا کنواں وہیں تھا۔ چنانچہ یسوع سفر سے تھکا ماندہ ہو کر اُس کنوئیں پر یونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا، مجھے پانی پلا۔ کیونکہ اُس کے شاگرد شہر میں کھانا مول لینے کو گئے تھے۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تُو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟ (کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاﺅ نہیں رکھتے)۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، اگر تُو خدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تُو اُس سے مانگتی اور تجھے زندگی کا پانی دیتا۔ عورت نے اُس سے کہا، اے خداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟ کیا تُو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہم کو یہ کنواں دیا اور خود اُس نے اور اُس کے بیٹوں نے اور اُس کے مویشی نے اُس میں سے پیا؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کےلئے جاری رہے گا۔ عورت نے اُس سے کہا، اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تا کہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے یہاں تک آﺅں۔ یسوع نے اُس سے کہا، جا اپنے شوہر کو یہاں بُلا لا۔ عورت نے جواب میں اُس سے کہا کہ میں بےشوہر ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُو نے خوب کہا کہ میں بےشوہر ہوں۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُو اَب ہے وہ تیرا شوہر نہیں۔ یہ تُو نے سچ کہا۔ عورت نے اُس سے کہا، اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنا چاہئے یروشلیم میں ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا، اے عورت! میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلیم میں۔ تم جسے نہیں جانتے اُس کی پرستش کرتے ہو۔ ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اُب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ خدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچائی سے پرستش کریں۔ عورت نے اُس سے کہا، میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرِستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 4: 3-26)

یسوع، یہودیہ سے گلیل کی جانب سفر کر رہے تھے۔ آپ کےلئے سفر کا آسان اور مختصر ترین راستہ سامریہ سے تھا جو یہودیہ (جہاں یروشلیم واقع تھا) اور آپ کے علاقے گلیل کے درمیان واقع تھا۔ مسیح نے اِس راستہ پر سفر اِس لئے اختیار کیا کیونکہ آپ کو سامریہ میں سے ہو کر گزرنا ضرور تھا۔ یہودیوں اور سامریوں کے درمیان فطری اور قومی رشتوں کے باعث باہمی نفرت مسلسل بڑھتی ہی رہی تھی۔ رشتہ داروں کے درمیان پائی جانے والی نفرت اکثر انتہائی تلخ ترین نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہودی لوگ، سامریوں کو غیرقوم خیال کرتے ہوئے ناپاک تصور کرتے تھے۔ یہودی سوائے کسی سخت مجبوری کے نہ سامریوں کے ساتھ بیٹھتے، نہ گفتگو کرتے اور نہ ہی اُن کے علاقوں سے گزرتے تھے۔ اِن دونوں کے مابین متعدد بار تصادم و شرارت کے باعث توڑ پھوڑ کی نوبت بھی آ چکی تھی اور بالآخر لفظ "سامری" یہودیوں کی نظر میں توہین آمیز بن کر رہ گیا۔ مگر چونکہ یسوع تنگ نظری کے خلاف تھے اِس لئے آپ نے سامریہ سے ہو کر گزرنے کا فیصلہ کیا اور وہ تعصب اور تشدد سے پُر مذہبی جنون کو اپنے شاگردوں کے دِل سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ اِس راہ سے گُزر کر یسوع نے سامریوں کے دِلوں میں رُوحانی بیج بونا چاہا جو اسرائیلیوں کےلئے اجنبی ہو چکے تھے، اور اپنے شاگردوں کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتے تھے کہ خدا کی بادشاہی صرف ابراہام کی نسل ہی کےلئے مخصوص نہ تھی۔

کوہِ عیبال اور کوہِ گرزیم کے درمیان، سِکم (نابلس) سے ہو کر گزرنے والی بڑی شاہراہ پر ایک کنواں تھا جو "یعقوب کا کنواں" کہلاتا تھا۔ اِس کنویں پر یسوع کی سامری عورت سے ملاقات ہوئی جس کی وجہ سے یہ بہت مشہور ہوا۔ یسوع سفر سے تھک اِس کنویں پر بیٹھ گئے اور اپنے شاگردوں کو سُوخار شہر میں بھیجا کہ وہ اپنے لئے کھانا خریدتے۔ اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اپنی اور اپنے شاگردوں کی زمینی غریبی کے باوجود بھی جناب مسیح دوسروں کی جانب سے مہمان نوازی کے محتاج نہ تھے، اور زندگی کی بسر اوقات کےلئے کبھی بھی حاجت مند نہ ہوئے تھے۔ لوگوں کی طرف سے ملنے والے نذرانوں کو مسیح اُن کے ذریعے سے خرچ کرتے جو آپ سے محبت کرتے تھے اور آپ کی عزت کرتے تھے، اور ایسی رقم اپنے شاگردوں میں سے ایک کے پاس جمع کرا دیتے تھے۔

اُس موقع پر یسوع تھکاوٹ، بھوک اور پیاس میں سے گزرے، تا کہ آپ انسانی طبیعت کی کمزوریوں کو سمجھتے ہوئے انسانیت کی مصیبتوں میں ہمدردی کا اظہار کر سکتے۔ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ "کیوں یسوع نے اپنی اور اپنے شاگردوں کی بھوک مٹانے کےلئے کوئی معجزہ نہ کیا؟" اِس کا جواب یہ ہے کہ قدرتی ذرائع موجود ہونے کی صورت میں معجزہ کی ضرورت نہیں۔ یسوع نے کبھی بھی کوئی معجزہ اپنے ذاتی مفاد کےلئے نہ کیا۔ جب آپ کو بیابان میں بھوک لگی جہاں ابلیس نے آپ کو آزمایا تو وہاں بھوک مٹانے کےلئے فطری ذرائع دستیاب نہ تھے، لیکن پھر بھی یسوع نے اپنی سہولت کی خاطر کوئی معجزہ نہ کیا۔ بلکہ انجیلی کلام کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ بعد ازاں فرشتے آ کر آپ کی خدمت کرنے لگے۔

جب یسوع یعقوب کے کنویں پر اپنے شاگردوں کی واپسی کے منتظر تھے تو نزدیکی علاقے سے ایک سامری عورت وہاں پانی بھرنے آئی۔ ممکن ہے وہ عورت اِس کنویں سے پانی اِس لئے بھرنے آئی کہ وہ اِسے متبرک پانی خیال کرتی تھی۔ شاید اُس سے اُس کے آبائی شہر کے لوگ حقارت و نفرت کرتے تھے اور اُس نے اپنے آپ کو اپنے لوگوں سے دُور ہی رکھنا چاہا۔ سامری عورت اُس وقت بہت خفا ہوئی ہو گی جب اُس نے ایک یہودی کو کنویں پر بیٹھے دیکھا ہو گا، خاص کر جب وہ اپنے لباس اور ظاہری وضع سے یہودی مذہب کا اُستاد معلوم ہوتا تھا۔ عام طور پر اِس مرتبہ کے یہودی لوگ پُرجوش طریقہ کے ساتھ سامری لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔

مسیح اور سامری عورت کے درمیان بہت سی رکاوٹیں موجود تھیں جو قابلِ توجہ ہیں:

1- پہلی رکاوٹ یہ تھی کہہ یہ عورت سامری تھی اور جناب یسوع ایک یہودی مذہبی اُستاد تھے۔ اِس عورت کی قوم یہودی اور غیراقوام کی مخلوط نسل کے لوگوں پر مشتمل تھی جو مذہبی اعتبار سے یہودیوں کے مخالف تھے، جبکہ یہودی نسلی پاکیزگی کے دعویدار تھے۔ بلاشک و شبہ آج بھی لوگوں میں جو تلخ ترین تنازعے ہیں وہ مذہبی نوعیت ہی کے ہیں۔

مُلکِ بابل کی اسیری سے واپس آنے کے بعد یہودیوں نے ہیکل کی تعمیرنو اور بحالی کے کام میں سامریوں کو شریک ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، اور اُن سے بُری طرح سے پیش آئے تھے۔ انتقاماً سامریوں نے مُردہ آدمیوں کی ہڈیاں ہیکل میں پھینک کر اُس کی بےحرمتی کی جس سے یہودیوں اور سامریوں کے درمیان نفرت کی خلیج مزید وسیع ہو گئی۔ یہودیوں نے یروشلیم کی ہیکل میں سامریوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا، جس نے سامریوں کو کوہِ گرازیم پر پرستش کےلئے جگہ کا چناﺅ کرنے پر مجبور کیا جس کے بارے میں اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ اپنی قدیم تاریخ کی وجہ سے کوہِ گرازیم، یروشلیم سے زیادہ مُقدّس جگہ تھی۔ اُن کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ابرہام نبی اپنے بیٹے اضحاق کو خدا کے حضور قربان کرنے کےلئے کوہِ گرازیم ہی کے مقام پر لے کر آئے تھے۔

2- اِس سامری عورت کے سامنے دوسری مشکل یہ تھی کہ ایک عورت ہوتے ہوئے وہ اِس بات سے بخوبی واقف تھی کہ یہودی مرد خصوصاً مذہبی اُستاد عوام الناس کے سامنے عورتوں سے گفتگو کرنے یا اُن کے ہمراہ ہونے سے کتنا زیادہ پرہیز کرتے تھے، خواہ وہ خاتون اُن کی زوجہ یا بہن ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کہ اُن کی دعاﺅں میں ایک دُعا ایسی بھی تھی جس میں یہودی مرد خدا کا شکر ادا کرتا تھا کہ اُسے مرد پیدا کیا گیا ہے نہ کہ عورت۔ اِس روشنی میں یہودیوں کی کسی سامری عورت کےلئے حقارت کتنی زیادہ ہو سکتی تھی!

3- تیسری رکاوٹ یہ تھی کہ وہ گناہ میں گِری ہوئی عورت تھی۔ بھلا کیسے کوئی چیز یا شخص، ایک واجب التعظیم یہودی اُستاد اور غلط کاری میں گِری ہوئی بدحال عورت کو جس نے اپنی تمام زندگی گناہ میں بسر کی تھی اور اُس وقت بھی گناہ کی غلام تھی، دونوں کو ایک یکساں مقام پر لا سکتا تھا؟

اِن تین رکاوٹوں کے سبب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اِس سامری عورت کو اُس وقت بڑی تشویش کا سامنا ہوا ہو گا جب وہ لمبا فاصلہ طے کر کے آئی اور اُس نے یسوع کو کنویں پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اِس عورت کو یقیناً توقع نہ تھی کہ یسوع اُس سے گفتگو کرے گا، اور نہ ہی وہ آپ سے بات چیت کرنا چاہتی تھی۔ لیکن یسوع نے جیسے یہودیوں کی فکر کی اور اُن سے محبت رکھی ویسے ہی آپ نے اِس سامری عورت کی بھی فکر کی، کیونکہ آپ سب کے خالق، نجات دہندہ اور منصف ہیں۔ یسوع سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ آپ سب کو نجات دے کر ابدی ہلاکت سے بچانا چاہتے ہیں۔ آپ نے عورتوں کو کمتر جاننے اور اُن کی اہانت کرنے کے نکتہ نظر کی طرفداری نہ کی بلکہ خواتین کو نہایت عزت و قدر بخشی۔ مذہب کی رُوح کو دِلی ایمان، ذہن میں قانون کی حکمرانی اور چال چلن میں اعلیٰ مرتبت و عظمت کی ضرورت ہے۔

یسوع تمام انسانیت، بشمول مرد و زن سب کےلئے نجات کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ اِس سامری عورت کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ اپنے وقت کے بہت سے تارک الدنیا لوگوں کے برعکس مسیح نے خواتین کو اجازت دی کہ وہ آپ کی پیروی کریں، آپ کی تعظیم کریں، اور اپنے وسائل سے مسیح کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ سامری عورت کے ساتھ اپنی ملاقات میں یسوع نے اِس بات کا عظیم ثبوت مہیا کیا کہ آپ خواتین کی رُوحانی تبدیلی بھی چاہتے تھے۔ گرچہ شیطان نے انسانی تاریخ کے آغاز پر ہی حوا کو گناہ میں گرایا، مگر یسوع نے حوا کی بیٹیوں کو اپنی زمینی خدمت کی ابتدا ہی میں فضیلت عطا کرتے ہوئے اُن کی اصلاح کی۔ مسیحیت کے ممتائز پہلوﺅں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خواتین کو معاشرتی، اخلاقی اور رُوحانی طور پر بلند مرتبہ بخشتی ہے۔ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہو کر یسوع نے باغِ عدن میں حوا کے گناہ میں گرنے کے باعث نسوانی جنس سے منسلک شدہ ندامت کو مٹا ڈالا۔ آپ نے اپنی خدمت کے برسوں کے دوران، اور اپنی مصلوبیت اور جی اُٹھنے کے موقع پر مذہبی جوش اور نجات دہندہ کے ساتھ اپنی وفاداری میں بیشتر آدمیوں پر سبقت لے جانے والی عورتوں کو عزت و وقار بخشا۔

سامری عورت ایک گنہگار عورت تھی۔ مگر یسوع کیونکر ایسی عورت کو توجہ دیتے ہوئے اُس کے ساتھ بیٹھنے اور بات چیت کرنے پر آمادہ ہوئے؟ پولس رسول نے بھی پوچھا ہے: "... کیونکہ راستبازی اور بےدینی میں کیا میل جول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 6: 14)۔ مگر ہم یسوع کے اصول کو سمجھتے ہیں جنہوں نے فرمایا کہ "ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور اُنہیں نجات دینے آیا ہے" (انجیل بمطابق لوقا 19: 10)۔ آپ نے متی محصول لینے والے کے گھر میں یوں فرمایا "میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کےلئے بلانے آیا ہوں" (انجیل بمطابق لوقا 5: 32)۔ ایک شخص طبیب کے پاس صحتمند ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بیماری کی ہاتھوں تکلیف اُٹھا کر جاتا ہے۔ طبیب کی توجہ صحتمندوں پر نہیں بلکہ بیماروں پر ہوتی ہے، اور انتہائی سخت بیمار افراد پر تو طبیب اَور زیادہ توجہ دیتا ہے۔

یسوع نے اپنی خدمت کے آغاز میں بنیادی طور پر جوان افراد، غُربا اور سادہ مزاج لوگوں کو توجہ دی، یسوع کے بلائے ہوئے شاگردوں میں سے زیادہ تر اِنہی لوگوں پر مشتمل تھے۔ اِس کے بعد یسوع نے اپنی توجہ ایک بوڑھے، دولتمند اور دیندار مذہبی عالم نِیکُدِیمُس کی نجات کی جانب فرمائی۔ یہ سب لوگ یہودی نسل سے تھے۔ اِس کے بعد یسوع اَب خواتین، دُھتکارے ہوئے افراد اور غیر یہودی لوگوں کی طرف اپنی بڑی فکر کے ساتھ متوجہ ہونا چاہتے تھے۔ سامری عورت سے گفتگو کرتے ہوئے یسوع نے گناہ کی گہرائی میں غرق ہو جانے کے باوجود غیرفانی انسانی رُوح کےلئے قدر و منزلت کا اظہار کیا۔ آپ نے اِس بات کا عملی مظاہرہ کیا کہ آپ بدحال اور بدترین گناہگاروں کو بھی نجات دینے پر قادر ہیں۔

یسوع معاشرتی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے سامری عورت سے مخاطب ہوئے، اور اُس سے پینے کےلئے پانی مانگا۔ یسوع کا بنیادی مقصد محض اپنی پیاس بجھانا تو نہ تھا بلکہ آپ کا دِلی اشتیاق یہ تھا کہ اُس عورت کی گمراہی کی شکار تباہ حال رُوح کو بچایا جا سکے۔ یہ اِس عظیم یہودی ربّی (مسیحا) کی انتہائی حلیمی کی معراج تھی کہ اُس نے اِس سامری عورت کو یہ اجازت دے کر اُسے عزت بخشی کہ وہ اپنے پاس دستیاب شدہ پانی سے مسیح کی ضرورت کو پورا کر سکتی۔ ایسا کر کے مسیح نے رُوحیں جیتنے کےلئے ہمیں ایک نمونہ عطا کیا ہے۔ ایک عورت کے جواب میں جس شائستگی کی توقع کی جا سکتی ہے، وہ سامری عورت کے جواب میں مفقود تھی۔ اُس نے جواب میں مسیح سے کہا "تُو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟" تب یسوع نے اپنا لہجہ تبدیل کیا تا کہ وہ عورت پہچان سکتی کہ جو اُس سے گفتگو کر رہا تھا وہ حقیقت میں کون تھا۔ یسوع کسی بات میں اِس عورت کے محتاج نہ تھے، مگر اِس عورت کو یسوع کی ضرورت تھی کیونکہ اگر وہ مسیح سے مانگتی تو آپ اُسے خدا کی بخشش عطا فرما سکتے تھے۔ یہ بخشش زندگی کے پانی کی مانند تھی۔ جب سامری عورت نے اِس بارے میں اپنی حیرانی و ناسمجھی ظاہر کی تو یسوع نے فرمایا کہ جو پانی وہ دیتا ہے اُس پانی سے مختلف ہے جسے بھرنے کےلئے وہ یعقوب کے کنوئیں پر آئی تھی۔ زندگی کا پانی پیاسے کی ابدی پیاس بجھاتا ہے اور پینے والے کے اندر ایک چشمہ بن جاتا ہے جو ہمیشہ کی زندگی کےلئے جاری رہتا ہے۔ اِس تمام گفتگو کے نتیجے میں سامری عورت نے یسوع سے، جنہوں نے پہلے اُس سے پانی مانگا تھا، یہ درخواست کی کہ "اے خداوند! وہ پانی مجھ کو دے تا کہ میں نہ پیاسی ہوں اور نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آﺅں۔"

گناہوں سے نجات پانے کےلئے شرطِ اوّل ضمیر کا بیدار ہونا ہے، تا کہ گناہگار کو نجات دہندہ کی ضرورت محسوس ہو، اور وہ حقیقی توبہ کی طرف آ سکے۔ اِسی لئے طبیب اعظم مسیح اِس عورت کو شفا دینے سے پہلے چرکا لگاتے ہیں، اور اِس سے اِس جرّاح کی ہنرمندی عیاں ہوتی ہے۔ جس بیماری کا شکار ہو کر وہ عذاب میں تھی یسوع نے اُسے اُس بیماری سے پاک صاف کر دیا۔ یسوع نے اُس عورت سے کہا کہ جا اپنے شوہر کو بُلا لا۔ جب اُس نے اقرار کرتے ہوئے جواب دیا کہ میں تو بےشوہر ہوں، تو تب یسوع نے اُس پر انکشاف کیا کہ آپ کو اُس کے شرمناک ماضی کا علم تھا اور اُس کی موجودہ بدنصیب و خستہ حالت کا بھی جس میں وہ رہ رہی تھی۔ یسوع نے اُس پر شفقت و مہربانی اِس لئے نہیں کی تھی کہ آپ اُس کی بدچلن حالت سے واقف نہ تھے۔ اِس میں ہمیں رُوحوں کو یسوع کی جانب مائل کرنے کی اچھی مثال ملتی ہے۔ ہم لوگوں کی خامیوں پر تُند و تیز حملے کر کے رُوحوں کو ہر وقت مسیح کےلئے نہیں جیت سکتے۔ لیکن انسانوں کی جانوں کا دُشمن شیطان ہمیشہ چوکنا رہتا ہے۔ جب شیطان نے سامری عورت کو مسیحا کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اپنا ایک پسندیدہ حربہ اختیار کرتے ہوئے اُس عورت کی توجہ یہودیوں اور سامریوں کے درمیان عبادت و پرستش کی دُرست جگہ والی فرقہ وارانہ تکرار کی طرف لگانا چاہی۔ شیطان اُسے ایک ایسی بحث کی طرف لے گیا جو آج بھی لاکھوں کروڑوں مذہبی لوگوں کو گمراہ کر نے والا یہ اعتقاد ہے کہ مذہب ایک ایسی چیز ہے جو ایک فرد اپنے والدین سے میراث میں پاتا ہے۔ یوں بہت سے لوگ اپنے آباﺅ اجداد کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے میں مطمئن ہیں۔ تاہم، اِس سامری عورت کے ضمیر کی بیداری کے سبب اُس میں سچا ایمان پیدا ہو چکا تھا۔ اُسے اِس یہودی اجنبی شخص میں ایک نبی نظر آیا کیونکہ یسوع سے مخاطب ہو کر اُس نے کہا "اے خداوند! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔" یوں اُس سامری عورت نے مذہب کی بابت سچائی کے مکاشفہ کو جاننے کےلئے مسیح کے سامنے اپنے نئے ایمانی دروازہ کو کھول دیا۔

کنوئیں کے پاس اِس خطبہ گاہ سے مسیح نے ایک گنہگار سامری عورت پر مشتمل اپنی واحد سامع کے سامنے ایک انتہائی اہم وعظ پیش کیا۔ ماہر اُستاد کی طرف سے دیا جانے والا یہ ایک انتہائی جامع پیغام تھا۔ اِس میں یسوع نے اعلان کیا کہ قدوسیت ہاتھ کے بنائے ہوئے مقدِسوں یا تقدیس شدہ ظروف میں قیام پذیر نہیں ہوتی بلکہ دِلوں میں سکونت کرتی ہے۔ یسوع کی آمد نے اُس دور کا خاتمہ کر دیا جس میں خدا کی پرستش صرف مخصوص مقامات میں کی جاتی تھی جہاں لوگ اپنی قربانیاں پیش کرنے جاتے تھے۔ غیراقوام کے جھوٹے خدا دیوتا اور بت کی شکل میں خصوصی عبادت گاہوں میں نصب کئے جاتے ہیں مگر واحد برحق خدا رُوح ہے، اور وہ اُن سب کو قبول کرتا ہے جو رُوح اور سچائی سے اُس کی پرستش کرتے ہیں، خواہ پرستش کا یہ مقام کہیں بھی کیوں نہ ہو۔ وہ رُوح اور سچائی سے پرستش کرنے والے سچے پرستاروں کے علاوہ کسی اَور کو قبول نہیں کرتا خواہ لوگ کتنے ہی مُقدّس مقامات پر سرنگوں ہوتے ہوں۔ ملاکی نبی نے جس زمانہ کی بابت پیشینگوئی کی تھی وہ آ پہنچا تھا: "آفتاب کے طلوع سے غروب تک قوموں میں میرے نام کی تمجید ہو گی۔ اور ہر جگہ میرے نام پر بخور جلائیں گے اور پاک ہدئے گزارنیں گے۔ کیونکہ قوموں میں میرے نام کی تمجید ہو گی، ربُّ الافواج فرماتا ہے" (پرانا عہدنامہ، ملاکی 1: 11)۔

تاہم، یہ سچائی عبادت و پرستش کےلئے مخصوص مقامات کی تقدیس اور اُن کی جملہ تعظیم و احترام کو قطعاً خارج از عمل نہیں کرتی۔ عبادت گاہوں کو متبرک جاننا ایک مقبول مذہبی رسم ہو سکتی ہے، لیکن ایسے مقامات سے قدوسیت کو منسلک کرنے میں ہمیں انتہاپسند نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ مُقدّسین کے تبرکات یا کلیسیائی سیکرامنٹوں کے اجزا سے یا کسی خاص شخص یا عبادت گاہ کو چھو لینے سے ہم برکت پاتے ہیں۔

جب یسوع نے یروشلیم کو ایک مُقدّس مقام کی جگہ نہ دی تو مسیح کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ خدا رُوح ہے لہٰذا اُس کی پرستش کسی بھی جگہ پر ہو سکتی ہے اور عبادت و پرستش رُوح کے ساتھ کی جانی چاہئے جو ظاہری رسوم پر مبنی نہ ہو۔ ہمیں خدا تعالیٰ کی پرستش اپنے دِل کی گہرائیوں سے کرنی چاہئے۔ یسوع نے سامری عورت پر واضح کیا کہ خدا کی جانب سے قبولیت کا دروازہ یروشلیم کی ہیکل سے خارج شدہ غیراقوام اور اُن سب کےلئے کُھلا ہے جو رُوح اور سچائی سے خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ خدا اُن لوگوں کو بھی قبول کرتا ہے جن کی ماضی کی زندگی گناہ کے باعث شرم سے جُھکی ہے۔ سامری عورت کے دِل کی تبدیلی نے اُسے اپنے پورے دِل اور جان سے آمدِ مسیحا کا خیرمقدم کرنے کے قابل بنایا، جو انسانیت کو رُوحانی و دینی معاملات میں خدا کی تمام توقعات کے بارے میں خبر دیتے ہیں۔ جب اُس عورت نے نور ِحق کےلئے اپنے دِل کو کھولا تو خدا نے اُسی وقت اُسے نور سے مزید مُنوّر کیا۔ جو باتیں یسوع نے ابھی یہودی سرداروں، وفادار نِیکُدِیمُس اور اپنے دوستوں یعنی شاگردوں پر بھی ظاہر نہیں کی تھیں، اُنہیں اُس سامری عورت پر ظاہر کر کے آپ نے اُس کی عزت و حوصلہ افزائی کی۔ مسیح نے اُس عورت سے کہا "میں جو تجھ سے بول رہا ہوں، وہی ہوں۔" اُس وقت تک یسوع نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہی مسیح تھا، لیکن آپ نے یہ سچائی سامری عورت پر ظاہر کی کیونکہ اُس نے یسوع کے نبی ہونے کا اقرار کیا تھا۔

"اتنے میں اُس کے شاگرد آ گئے اورتعجب کرنے لگے کہ وہ عورت سے باتیں کر رہا ہے تو بھی کسی نے نہ کہا کہ تُو کیا چاہتا ہے؟ یا اُس سے کس لئے باتیں کرتا ہے؟ پس عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر میں چلی گئی اور لوگوں سے کہنے لگی، آﺅ! ایک آدمی کو دیکھو، جس نے میرے سب کام مجھے بتا دیئے۔ کیا ممکن ہے کہ مسیح یہی ہے؟ وہ شہر سے نکل کر اُس کے پاس آنے لگے۔ اتنے میں اُس کے شاگرد اُس سے یہ درخواست کرنے لگے کہ اے ربّی! کچھ کھا لے۔ لیکن اُس نے اُن سے کہا، میرے پاس کھانے کےلئے ایسا کھانا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ پس شاگردوں نے آپس میں کہا، کیا کوئی اُس کےلئے کھانے کو کچھ لایا ہے؟ یسوع نے اُن سے کہا، میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُس کا کام پورا کروں۔ کیا تم کہتے نہیں کہ فصل کے آنے میں ابھی چار مہینے باقی ہیں؟ دیکھو! میں تم سے کہتا ہوں، اپنی آنکھیں اُٹھا کر کھیتوں پر نظر کرو کہ فصل پک گئی ہے اور کاٹنے والا مزدوری پاتا اور ہمیشہ کی زندگی کےلئے پھل جمع کرتا ہے تا کہ بونے والا اور کاٹنے والا دونوں مل کر خوشی کریں۔ کیونکہ اِس پر یہ مثل ٹھیک آتی ہے کہ بونے والا اَور ہے اور کاٹنے والا اَور۔ میں نے تمہیں وہ کھیت کاٹنے کےلئے بھیجا، جس پر تم نے محنت نہیں کی۔ اَوروں نے محنت کی اور تم اُن کی محنت کے پھل میں شریک ہوئے۔ اور اُس شہر کے بہت سے سامری اُس عورت کے کہنے سے جس نے گواہی دی کہ اُس نے میرے سب کام مجھے بتا دیئے، اُس پر ایمان لائے۔ پس جب وہ سامری اُس کے پاس آئے تو اُس سے درخواست کرنے لگے کہ ہمارے پاس رہ چنانچہ وہ دو روز وہاں رہا۔ اور اُس کے کلام کے سبب سے اَور بھی بہتیرے ایمان لائے۔ اور اُس عورت سے کہا، اَب ہم تیرے کہنے ہی سے ایمان نہیں لاتے کیونکہ ہم نے خود سُن لیا اور جانتے ہیں کہ یہ فی الحقیقت دُنیا کا منجی ہے۔" (انجیل بمطابق یوحنا 4: 27-42)

مسیح اور سامری عورت کے درمیان گفتگو کے وقت کوئی بھی شاگرد موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ مسیح کے عزیز شاگرد یوحنا نے اِس بارے میں مسیح سے یا اُس عورت سے تمام باتوں کو سُنا ہو گا۔ اُس کے بیان کے مطابق جب وہ اور اُس کے ساتھی شاگرد سوخار سے کھانا مول لے کر واپس آئے تو وہ نہایت متعجب ہوئے۔ اُن کی حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے اُستاد کو ایک اجنبی سامری عورت سے محو ِگفتگو دیکھا۔ اُنہوں نے سامری عورت کے جوش اور جذبے کو بھی بغور دیکھا کہ جب وہ اپنا پانی کا گھڑا چھوڑ کر اپنے قصبہ کو نہایت تیزی سے گئی۔ شاگردوں کا متعجب ہونا حیرانی کی بات نہیں، اور حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے موزوں اور پُراَدب رویہ کے سبب وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ شاگردوں میں سے کسی نے بھی مسیح سے یہ پوچھنے کی جرأت نہ کی کہ سامری عورت کیا چاہتی تھی یا وہ کیوں سامری عورت سے بات چیت کر رہا تھا۔ جب شاگردوں نے کھانے کا انتظام کر دیا تو اُن کی توقع کے برعکس مسیح نے کھانا نہ کھایا۔ تب اُنہوں نے کہا "اے ربّی! کچھ کھا لے۔" پہلے وہ سامری عورت کے ساتھ مسیح کی گفتگو پر حیران تھے اور اَب وہ مسیح کے کھانا نہ کھانے پر تعجب کر رہے تھے۔ اور اُن کی حیرت میں اُس وقت اَور بھی اضافہ ہوا، جب مسیح نے جواب دیا "میرے پاس کھانے کےلئے ایسا کھانا ہے جسے تم نہیں جانتے۔"

نِیکُدِیمُس سے یسوع نے ہمیشہ کی زندگی پانے کےلئے نئے سرے سے پیدا ہونے کے بارے میں گفتگو کی، لیکن وہ یسوع کی بات کا مطلب سمجھ نہ سکا۔ سامری عورت سے یسوع نے زندگی کے پانی کے بارے میں بات کی، مگر وہ بھی اُسے سمجھنے سے قاصر رہی۔ مسیح نے شاگردوں سے اپنی خوراک کے بارے میں بات کی جس کی بابت اُنہیں کوئی علم نہ تھا۔ اور وہ بھی مسیح کے کلام کو نہ سمجھے اور ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے کہ "کیا کوئی اِس کےلئے کھانے کو کچھ لایا ہے؟" مگر یسوع نے جلد ہی اُن کے شکوک دُور کرتے ہوئے واضح کیا کہ آپ کا کھانا آسمانی باپ کی مرضی کے مطابق اُس کام کو پورا کرنا تھا جس کےلئے آپ کو بھیجا گیا تھا۔

سامری عورت مسیحا سے ملاقات کر کے، آپ کا پیغام سُن کر اور آپ پر ایمان لا کر اِس قدر خوش ہوئی کہ اُس نے کنوئیں کے پاس اپنے گھڑے کو چھوڑا، اور اپنے شہر سوخار کو گئی اور وہاں کے باشندوں کو مسیح کی بابت خوشخبری دی۔ مگر ایک بُری عورت کی طرف سے دیئے گئے پیغام کو کس نے سُننا چاہا ہو گا؟ ممکن ہے، سُوخار کے رہنے والوں نے آپس میں اِس طرح کا سوال کیا ہو کہ "کیا آنے والا مسیحا اِس جیسی عورت پر اپنے آپ کو پہلے ظاہر کرے گا؟" انجیلی بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اِس عورت کا پیغام متاثرکُن تھا۔ یوں لگتا ہے کہ مسیح سے ملاقات کے بعد جب اِس عورت کا دِل بدل گیا تو اِس کا اثر اُس کے چہرے کی صورت، اُس کی حرکات و سکنات اور آواز کے لہجہ سے صاف عیاں تھا۔ جب اُس نے سُوخار شہر کے لوگوں سے کہا کہ "آﺅ، ایک آدمی کو دیکھو! جس نے میرے سب کام مجھے بتا دیئے۔ کیا ممکن ہے کہ مسیح یہی ہو؟" تو اُنہوں نے اُس کے پیغام کا یقین کیا۔ وہ چاہتی تھی کہ اُس کے شہر کے لوگ خود آ کر دیکھتے اور یسوع کی باتیں سُنتے تا کہ وہ مسیح کی بابت خود کوئی فیصلہ کر سکتے۔

سامری عورت نے گواہی دی اور اُس کے نتیجہ کو سُننے والوں کے ضمیر و دِل پر چھوڑ دیا۔ اپنے اِس عمل میں اُس نے ہمارے لئے دوسروں کو خوشخبری دینے کا ایک بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔ موثر بشارت کی قوت اِطلاع دینے میں نہیں بلکہ اچھی گواہی میں پائی جاتی ہے۔ روحوں کو جیتنے والا ایک ہوشیار گواہ وہی کہتا ہے جو زبور نویس نے کہا کہ "آزما کہ دیکھو کہ خداوند کیسا مہربان ہے" (زبور 34: 8)۔

مُردوں میں سے زندہ ہو کر آسمان پر اُٹھائے جانے سے پیشتر یسوع نے اپنے الوداعیہ خطاب میں شاگردوں کو حکم کے طور پر زمین کی انتہا تک گواہی دینے کا بنیادی فریضہ سونپا (نیا عہدنامہ، اعمال 1: 8)۔ اور اِس کے بعد جو حیران کن نتائج سامنے آئے، وہ شاگردوں کی جانب سے مسیح کے تمام احکام کی کامل فرمانبرداری کرنے اور لوگوں کی شاگردوں کے کلام کی طرف توجہ دینے کی وجہ سے تھے۔ ایک ذہین سامع پیش کی جانے والی گواہی میں سے اہم نصیحت آموز باتوں کے جوہر کو پا سکتا ہے۔ مگر ایسی نصیحت جس کو گواہی یا تجربہ کی تائید حاصل نہ ہو کمزور ہوتی ہے۔ یسوع کی جانب سے آب ِحیات پا کر سامری عورت یعقوب کے کنوئیں کے ظاہری تقدّس کو بھول گئی، اور یہ ابدی زندگی کا پانی دوسروں کو ہمیشہ کی زندگی دینے کےلئے اُس میں ایک چشمہ کی صورت اختیار کر گیا۔

مسیح کی بابت سامری عورت کی باتوں نے سُوخار کے لوگوں کے دِلوں میں شہر چھوڑ کر یسوع کے پاس آنے کی تحریک پیدا کی۔ جب یسوع نے دُور سے لوگوں کو آتے دیکھا تو اپنے شاگردوں سے تمثیل میں کہا "کیا تم کہتے نہیں کہ فصل کے آنے میں ابھی چار مہینے باقی ہیں؟ دیکھو میں تم سے کہتا ہوں اپنی آنکھیں اُٹھا کر کھیتوں پر نظر کرو کہ فصل پک گئی ہے۔" نجات کی خوشخبری کو قبول کرنے کےلئے مسیح کے پاس آنے والے سامری لوگ پکی ہوئی فصل کی مانند تھے۔ اُن سامری لوگوں کو دیکھ کر مسیح کو نہایت خوشی ہوئی کیونکہ آپ اُن لوگوں کو پہلے پھل کی طرح دیکھ رہے تھے جو غیرقوموں میں سے بڑی فصل کی مانند تھے۔ یہ سامری لوگ مسیح کے پاس اِس لئے نہیں آئے تھے کہ اُنہوں نے مسیح کے کسی شفا بخش معجزے کو دیکھا تھا، اور نہ یہ کسی قسم کے دُنیاوی مفاد کی خاطر اُس کے پاس آئے تھے۔ اُن کے آنے کا اوّلین مقصد یسوع سے ملاقات کرنا اور آپ کی تعلیم کو سُننا تھا۔ یہ سامری لوگ مسیح کی اُس محنت کی فصل تھے جس کے باعث آپ ایک گناہگار عورت کو توبہ اور سچے ایمان کے ذریعہ ابدی نجات کی راہ پر لائے۔

اِس عورت کی گواہی کے سبب اُس شہر کے بہتیرے سامری لوگ یسوع پر ایمان لائے۔ پھر بہت سے اَور لوگ مسیح سے ملاقات کرنے اور اُن کا کلام سُننے کے بعد اُن پر ایمان لائے۔ اُنہوں نے یسوع سے عرض کی کہ وہ کچھ دِن اُن کے ساتھ قیام کرے۔ یہ یسعیاہ نبی کی اُس نبوت کی تکمیل تھی جہاں لکھا ہے کہ "جو میرے طالب نہ تھے میں اُن کی طرف متوجہ ہوا۔ جنہوں نے مجھے ڈھونڈا نہ تھا مجھے پا لیا۔ میں نے ایک قوم سے جو میرے نام سے نہیں کہلاتی تھی فرمایا دیکھ میں حاضر ہوں" (یسعیاہ 65: 1)۔ یسوع نے اپنی قوم کی روایت کے برعکس کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کے شاگرد بھی آپ کے نقشِ قدم پر چلتے۔ آپ نے سامریوں کے اُس شہر میں دو دِن قیام کیا۔ یہ فصل اُس بڑی فصل کی ابتدا تھی جو مستقبل میں یسوع کے آسمان پر صعود کر جانے کے بعد آپ کے شاگردوں کے زمانے میں حاصل ہونے والی تھی۔

یسوع کی بابت اِن سامریوں کی گواہی کتنی عظیم تھی! اُنہوں نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وہ فی الحقیقت دُنیا کا نجات دہندہ تھا۔ اُنہوں نے یسوع میں بنی نوع انسان کےلئے نجات کی واحد اُمید دیکھی۔ یعقوب کے اِس کنویں پر اُس انسانی بدن کو آرام ملا جس میں پاک تثلیث کا دوسرا اقنوم ابدی بیٹا جو "باپ کی گود میں ہے" سکونت پذیر تھا (دیکھئے انجیل بمطابق یوحنا 1: 18)۔ ہلاکت کے موڑ پر کھڑی اِس سامری عورت کےلئے یہ کتنا شیریں موقع تھا کہ موت کی بجائے اُسے آب ِحیات نصیب ہو گیا۔ یہ عورت اپنی جسمانی پیاس بجھانا چاہتی تھی، مگر مسیحا نے جس سے اُس کی ملاقات کنویں کے پاس ہوئی، اُسے ہمیشہ کی زندگی بخشی اور آب ِحیات کا چشمہ اُس میں جاری کر دیا۔

7- یسوع مُعلِّم طبیب

یسوع نے گلیل میں اپنی خدمت کی ابتدا معجزات وقوع میں لاتے ہوئے نہ کی، بلکہ آپ نے یہودی عبادتخانہ میں خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی سے ایسا کیا۔ یسوع کی منادی لوگوں کو ملامت کرنے یا خوفزدہ کرنے کی نہیں تھی، بلکہ یہ پُرمحبت نجات دہندہ کا کلام تھی جو آسمان سے گنہگاروں کےلئے خدا کی محبت کا اعلان کرنے کےلئے زمین پر ظاہر ہوا۔ یسوع اِس دُنیا میں راستبازی، سلامتی اور خوشی کی بادشاہی قائم کرنے کو آئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یسوع حلیم و غریب تھا، جس کسی نے بھی مسیح کے کلام کو سُنا آپ کی تعریف و ستایش کی۔ یسوع نے اعلانیہ کہا کہ "وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔ توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاﺅ" (انجیل بمطابق مرقس 1: 15)۔ ایسا کہہ کر مسیح توریت، زبور اور صحائف انبیا کی نبوتوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اِس وقت پورا ہونے کے بارے میں پولس رسول نے کہا "جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا، جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا" (دیکھئے نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 4)۔ یسوع کی منادی، یوحنا اصطباغی کی بشارتی مہم سے کامل طور پر ہم آہنگ تھی جس نے کہا تھا "توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے" (انجیل بمطابق متی 3: 2)۔

بادشاہ کے ملازم کے بیٹے کو شفا

"پس وہ پھر قانایِ گلیل میں آیا جہاں اُس نے پانی کو مے بنایا تھا اور بادشاہ کا ایک ملازم تھا جس کا بیٹا کفرنحوم میں بیمار تھا۔ وہ یہ سُن کر کہ یسوع یہودیہ سے گلیل میں آ گیا ہے اُس کے پاس گیا، اور اُس سے درخواست کرنے لگا کہ چل کر میرے بیٹے کو شفا بخش کیونکہ وہ مرنے کو تھا۔ یسوع نے اُس سے کہا، جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو ہرگز ایمان نہ لاﺅ گے۔ بادشاہ کے ملازم نے اُس سے کہا، اے خداوند میرے بچہ کے مرنے سے پہلے چل۔ یسوع نے اُس سے کہا، جا تیرا بیٹا جیتا ہے۔ اُس شخص نے اُس بات کا یقین کیا جو یسوع نے اُس سے کہی اور چلا گیا۔ وہ راستہ ہی میں تھا کہ اُس کے نوکر اُسے ملے اور کہنے لگے کہ تیرا بیٹا جیتا ہے۔ اُس نے اُن سے پوچھا کہ اُسے کس وقت سے آرام ہونے لگا تھا؟ اُنہوں نے کہا کہ کل ساتویں گھنٹے میں اُس کی تپ اُتر گئی۔ پس باپ جان گیا کہ وہی وقت تھا جب یسوع نے اُس سے کہا تھا تیرا بیٹا جیتا ہے اور وہ خُود اور اُس کا سارا گھرانا ایمان لایا۔ یہ دوسرا معجزہ ہے جو یسوع نے یہودیہ سے گلیل میں آ کر دکھایا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 4: 46-54)

ایک سال بعد یسوع قانایِ گلیل میں پھِر آئے جہاں آپ نے اپنا پہلا معجزہ دکھایا تھا۔ آپ نے اِسی جگہ اپنا دوسرا معجزہ بھی کیا، لیکن جس مریض کو شفا ملی وہ درحقیقت اِس شہر کا باشندہ نہ تھا۔ یسوع تو قانایِ گلیل کے علاقہ میں موجود تھے مگر جس بیمار شخص کو شفا بخشی وہ قانا سے ایک دِن کی مسافت پر کفرنحوم میں موجود تھا۔ اِس معجزہ کی تفصیل کچھ یوں ہے: ایک دِن جب یسوع قانا میں تھے تو بادشاہ ہیرودیس انتپاس کے دربار کا ایک ملازم آپ کے پاس آیا۔ وہ کفرنحوم کا باشندہ تھا جو دارالحکومت تبریاس سے چند گھنٹے کی مسافت پر واقع تھا۔ ابھی تک یسوع نے گلیل میں شفا دینے کا کوئی معجزہ نہیں کیا تھا۔ جب اِس افسر کا بیٹا بہت بیمار ہو گیا، یہاں تک کہ مرنے کی نوبت آ گئی اور کوئی علاج کارگر ثابت نہ ہوا، تو اُس کے والد نے یسوع کے پاس آنے کا فیصلہ کیا۔ کافی پُوچھ گچھ کے بعد اُسے علم ہوا کہ یسوع قانا میں تھے۔ اور پھِر وہ یسوع کے پاس گیا اور درخواست کی کہ آپ اُس کے ساتھ کفرنحوم میں جا کر اُس کے بیٹے کو شفا بخشیں۔

وہاں بادشاہ کے ملازم کی بےحد عزت ہوتی تھی اور جو کچھ وہ چاہتا آسانی سے پا لیتا تھا، اِس لئے اِس شخص نے خیال کیا کہ یسوع جلدی سے اُس کی منشا کے مطابق عمل کرے گا۔ شاید اُس نے سوچا کہ مسیح اِسے اپنی بڑی عزت تصور کرے گا کہ اُس جیسا کوئی بامرتبہ افسر اُسے دعوت دے کہ وہ آ کر اُس کے بیمار بیٹے کو شفا بخشے۔ اُس نے خیال کیا کہ یسوع اپنی عجیب قدرت کا اظہار کرنے کےلئے اِس موقع کو غنیمت جانے گا۔ مگر یسوع کے خیالات اِس کے برعکس تھے، اور وہ اِس شخص کو فروتنی اور شکستہ دِلی کی راہ پر لانا چاہتے تھے تا کہ وہ الٰہی برکات سے فیض یاب ہو سکتا۔ وہ اِس شخص پر یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ظاہری وضع میں شان و شوکت نہ ہونے کے باوجود وہ قادر مطلق خدا کا نمائندہ تھے۔ یسوع نے اُس شخص سے کہا "جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو گے ہرگز ایمان نہ لاﺅ گے۔" یسوع کی خوشی ہے کہ لوگوں میں ایمان محض آپ کے معجزے دیکھ کر نہیں بلکہ آپ کی صفات و خوبیوں کو دیکھ کر اور آپ کی تعلیم سُننے سے پیدا ہو۔

بادشاہ کا یہ ملازم، یسوع کی تعلیم سُننے کےلئے صبر نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اُس کا بیٹا مرنے کے قریب تھا۔ اِس لئے اُس نے یہ کہتے ہوئے مسیح سے مِنّت کی کہ "اے خداوند میرے بچہ کے مرنے سے پہلے چل۔" یسوع نے اِس شخص کی درخواست کا جواب تو دیا مگر ایسا آپ نے اُس شخص کے سوچے ہوئے طریقہ کے مطابق نہیں کیا۔ یسوع اُس شخص کے ساتھ نہ گئے لیکن اُس کے بیٹے کو شفا ضرور عطا کی۔ ساتھ جانے کے بجائے آپ نے اُسے کہا "جا، تیرا بیٹا جیتا ہے۔" حیرت انگیز طور پر اُس شخص نے یسوع کے کہے ہوئے کلام کا یقین کیا اور وہاں سے اپنی راہ کو چلا۔ اُسے یقین تھا کہ مسیح دُور فاصلہ سے بھی شفا دے سکتے تھے۔ مسیح کےلئے ضروری نہیں تھا کہ آپ اُس شخص کے بیٹے کو دیکھتے، بات کرتے یا اُسے چھوتے۔ اُس بیمار لڑکے کے باپ نے مسیح اور اُس کے کلام کا یقین کیا اور اپنے گھر واپس چلا گیا۔ جب وہ واپس گھر کو آ رہا تھا تو راہ میں اُس کے نوکر اُسے ملے اور اُسے اُس کے بیٹے کی اچانک شفایابی کی خبر دی۔ اُس کے نوکر کفرنحوم سے قانا تک والد کو بیٹے کی شفایابی کی خبر دینے آئے تھے۔ اُس نے اپنے نوکروں سے اپنے بیٹے کی شفا کے وقت کی بابت پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ وہی وقت تھاجب یسوع نے کہا تھا کہ "جا، تیرا بیٹا جیتا ہے۔" اِس سے اُس شخص کا ایمان مضبوط ہوا، اور اُس کے گھر کے افراد بھی اُس کے ساتھ ایمان لائے، کیونکہ خاندان کے اندر جب ایک شخص ایمان میں مضبوط ہوتا ہے تو اِس کا بقیہ افراد پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔

اُس شخص کے بیٹے کی بیماری کی مصیبت خاندان کے سب افراد کےلئے ایک عظیم برکت کا سبب بنی، اور وہ اور اُس کے گھرانے کے افراد ابدی نجات کی بخشش حاصل کر پائے۔ آسمانی باپ اپنی حکمت و محبت میں ہمیں مشکلات سے گزرنے دیتا ہے تا کہ انجام کار ہم اُس کی برکتوں سے سرفراز ہو سکیں۔

ناصرة میں تعلیم

"اور وہ ناصرة میں آیا جہاں اُس نے پرورش پائی تھی، اور وہ اپنے دستور کے موافق سبت کے دِن عبادتخانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔ اور یسعیاہ نبی کی کتاب اُس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اُس نے وہ مقام نکالا جہاں یہ لکھا تھا کہ۔

خداوند کا روح مجھ پر ہے۔

اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کےلئے مسح کیا۔

اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی

اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سُناﺅں۔

کُچلے ہوﺅں کو آزاد کروں۔

اور خداوند کے سالِ مقبول کی مُنادی کروں۔

پھِر وہ کتاب بند کر کے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا اور جتنے عبادتخانہ میں تھے سب کی آنکھیں اُس پر لگی تھیں۔ وہ اُن سے کہنے لگا کہ آج یہ نوِشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا۔ اور سب نے اُس پر گواہی دی اور اُن پُرفضل باتوں پر جو اُس کے مُنہ سے نکلتی تھیں تعجب کر کے کہنے لگے، کیا یہ یُوسُف کا بیٹا نہیں؟ اُس نے اُن سے کہا، تم البتہ یہ مثل مجھ پر کہو گے کہ اے حکیم اپنے آپ کو تو اچھا کر۔ جو کچھ ہم نے سُنا ہے کہ کفرنحوم میں کیا گیا یہاں اپنے وطن میں بھی کر۔ اور اُس نے کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایلیاہ کے دِنوں میں جب ساڑھے تین برس آسمان بند رہا یہاں تک کہ سارے مُلک میں سخت کال پڑا بُہت سی بیوائیں اسرائیل میں تھیں۔ لیکن ایلیاہ اُن میں سے کسی کے پاس نہ بھیجا گیا مگر مُلکِ صیدا کے شہر صارپت میں ایک بیوہ کے پاس۔ اور الیشع نبی کے وقت میں اسرائیل کے درمیان بہت سے کوڑھی تھے لیکن اُن میں سے کوئی پاک صاف نہ کیا گیا مگر نعمان سوریانی۔ جتنے عبادتخانہ میں تھے اِن باتوں کو سُنتے ہی قہر سے بھر گئے۔ اور اُٹھ کر اُس کو شہر سے باہر نکالا اور اُس پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جس پر اُن کا شہر آباد تھا تا کہ اُسے سر کے بل گرا دیں۔ مگر وہ اُن کے بیچ میں سے نکل کر چلا گیا۔" (انجیل بمطابق لوقا 4: 16-30)

یسوع پندرہ ماہ کے وقفہ کے بعد قانا سے ناصرة شہر میں آیا۔ اِس عرصے کے دوران آپ چند رُوحانی تجربات میں سے گزرے، جو آپ کی شخصیت اور کاموں سے ظاہر ہوئے۔ آپ کے اپنے علاقہ کے لوگوں نے آپ میں تبدیلی کو محسوس کیا جس کے باعث یسوع اَب فرق شخص نظر آتا تھا۔ اُن لوگوں نے دوسرے شہروں میں رونما ہونے والے مسیح کے معجزات کے بارے میں بہت کچھ سُنا تھا، اور اَب اُنہیں توقع تھی کہ آپ ناصرة میں بھی ایسا ہی کریں گے، خاص کر جب آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ہمراہ تھے۔ تاہم، مسیح کی دلچسپی معجزات دکھانے سے زیادہ الہٰی تعلیم دینے میں تھی۔ ناصرة میں مسیح نے سبت (ہفتہ) کے دِن عبادتخانہ میں عوام کے روبرو اپنا پہلا وعظ دیا۔ مُقدّس لوقا کے مطابق یسوع اپنے دستور کے مطابق عبادتخانہ میں گئے۔ اپنی زمینی زندگی کے گذشتہ تیس سالوں کے دوران عبادتخانہ میں مسیح کے جانے کا شمار یقیناً ہزاروں میں ہو گا۔

جب مسیح عبادتخانہ میں داخل ہوئے تو وہاں پر سب کچھ پہلے ہی کی طرح تھا۔ آپ نے معمول کی دُعائیں سُنیں، اور جب نبیوں کے صحائف کی تلاوت کا وقت آیا تو مسیح اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے تا کہ جماعت کے راہنما کی اجازت پر وہ پاک نوِشتہ کی تلاوت کرتے۔ یسوع کو یسعیاہ نبی کا صحیفہ دیا گیا، جس میں سے آپ نے اُس دِن کےلئے منتخب شدہ حصہ پڑھا۔ پاک نوِشتہ کے اِس حصہ کا چناﺅ خدا کا انتظام تھا کہ مسیح اِس کا اعلان کرتے۔ اِس میں وہ نبوت مرقوم تھی جس میں مسیح کے زمین پر آنے کے مقصد اور آپ کی بادشاہی کی نوعیت کا بیان تھا جو اَب قریب تھی۔ اِس میں سب سے پہلے اُس مسح کا ذِکر ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کی طرف سے نبی، کاہن اور بادشاہ ہونے کےلئے ایک منفرد ہستی کے طور پر باقی انسانیت سے جُدا ہوتے ہوئے "مسیح" کے لقب سے نوازے گئے۔ مسیح کے طور پر آپ کا کام غریبوں کو خوشخبری سُنانا، قیدیوں کےلئے رہائی کا اعلان کرنا، اندھوں کو بینائی دینا، کچلے ہوﺅں کو آزاد کرنا اور خداوند کے سالِ مقبول کی منادی کرنا تھا (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 61: 1، 2)۔

یہودیوں کےلئے "جوبلی کا سال" خداوند کا سالِ مقبول ہوتا تھا جو ہر پچاسویں برس منایا جاتا تھا، اور غالباً یہ سال بھی جوبلی کا سال تھا۔ یسوع کے سامعین نے قیدیوں کےلئے رہائی اور کچلے ہوﺅں کےلئے آزادی کا مطلب غیرقوم یعنی رومی حکومت کی غلامی سے آزادی سمجھا۔ لیکن یسوع کے نزدیک خداوند کا سالِ مقبول پچاس برس کے بعد آنے والا سال نہیں بلکہ ہر سال کا ہر ایک دِن تھا۔

مسیح بنیادی طور پر لوگوں کو کسی سیاسی یا زمینی غلامی سے رہائی دینے نہیں بلکہ وہ اُنہیں ابلیس کی غلامی سے بچانے آئے، اور یہی ابلیس اُس وقت کی رومی حکومت کے مظالم کا سبب بھی تھا۔ شیطان کے اسیر جسمانی، معاشرتی اور اقتصادی قید سے بھی راہ فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ ابلیس کی غلامی دشمنوں کے آگے جسمانی ماتحتی تک لے جاتی ہے۔ اگر مسیح نے اپنے لوگوں کو صرف جسمانی جوئے (بندھنوں) سے بچایا ہوتا جن سے وہ واقف تھے، تو بعد میں یہی لوگ اَور بھی سخت اور نامعلوم رُوحانی جوئے کے تحت آ سکتے تھے۔ یسوع اِس حقیقت سے بخوبی واقف تھے، اِس لئے آپ سب سے پہلے اپنے لوگوں کو شیطان کے چُنگل سے چھڑانے کےلئے آئے۔ اگر وہ آپ پر ایمان لے آتے تو آپ اُنہیں رومی جوئے سے بھی آزاد کرا سکتے تھے۔ اپنے جوئے سے ہٹ کر وہ اُنہیں ہر دوسرے جوئے سے آزاد کرا سکتے تھے، اور آپ کا جوا نہایت ملائم اور ہلکا ہے (انجیل بمطابق متی 11: 30)۔

یہودی دستور کے مطابق جو شخص پاک نوِشتہ کی تلاوت کرتا تھا، وہ حسبِ منشا متعلقہ حوالہ کی وضاحت بیان کر سکتا تھا۔ پاک نوِشتہ کی تلاوت کے بعد بیٹھ جانا وضاحت بیان کرنے کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔ پس یسوع نے تلاوت کے بعد پاک نوِشتہ کے طومار کو بند کیا اور اُسے عبادتخانہ کے خادم کو سونپ کر آپ بیٹھ گئے۔ اَب عبادتخانہ میں سب کی نظریں یسوع پر لگی تھیں کیونکہ وہ آپ کو جانتے تھے۔ مسیح کی بابت گذشتہ پندرہ ماہ کے واقعات سُننے کے سبب اُن سب کے دِلوں میں مسیح کےلئے بےانتہا عقیدت و احترام تھا۔ یسوع نے اپنی تقریر کی ابتدا یہ کہتے ہوئے کی کہ "آج یہ نوِشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا۔" یوں آپ نے اپنے آپ کو اُن کے سامنے اُن کے مسیحا کے طور پر پیش کیا اور اُن کی تمام دُنیوی اُمیدیں جاگ اُٹھیں۔ جب مسیح نے اِس نوِشتہ کی وضاحت کی تو سب نے سُن کر آپ کی تعریف کی، اور آپ کے پُرفضل کلام کے سبب سے حیرت زدہ ہو کر کہنے لگے کہ "کیا یہ یُوسُف کا بیٹا نہیں؟"

مسیح کا کلام پُرفضل تھا جو آپ کی منادی کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کی منادی ایک پیاسے شخص کےلئے گویا ٹھنڈے پانی کی مانند تھی۔ آپ ایک نئی رُوحانی بادشاہی کی خوشخبری کا اعلان کرنے کےلئے آئے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کے سامعین کی سوچیں آپ کے اپنے خیالات سے کہیں دُور اور برعکس تھیں۔ لوگوں نے تسلیم کیا کہ مسیح کا کلام پُرفضل تھا، تاہم فضلِ خداوندی کے بارے میں لوگوں کی سمجھ معمولی و سطحی تھی۔ وہ مادی مفاد اور شان و مرتبہ کی حامل دُنیوی بادشاہت کی توقع کر رہے تھے۔ وہ یسوع کے معجزات پر حیرت زدہ تھے۔ تاہم، یسوع نے اُن کے سامنے دو تمثیلیں بیان کیں۔ آپ نے کہا: "تم البتہ یہ مثل مجھ پر کہو گے کہ اے حکیم اپنے آپ کو تو اچھا کر۔ جو کچھ ہم نے سُنا ہے کہ کفرنحوم میں کیا گیا یہاں اپنے وطن میں بھی کر۔" لوگوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جتنے معجزے کفرنحوم کے علاقہ کے لوگوں نے دیکھے تھے، ناصرت کا شہر اُس سے زیادہ معجزات دیکھنے کا مستحق تھا۔ غالباً اِس سوچ کی وجہ سے اُن میں حیرانی تھی کہ کیوں مسیح اپنے آبائی شہر میں عظیم معجزات کر کے اُن کی دلجمعی نہیں کر رہا تھا؟ اَب تک اُن لوگوں نے آپ کا ایک بھی معجزہ نہیں دیکھا تھا۔ پھِر یسوع نے ایک اَور مثل پیش کی کہ "کوئی نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا۔" یہ کہہ کر یسوع نے ظاہر کیا کہ لوگ آپ کے بارے میں اِس سوچ کے حامل تھے کہ "تُو جا کر اُن لوگوں میں منادی کر جو تیری غریب حالت سے واقف نہیں۔ ہم سے یہ توقع نہ کرنا کہ ہم تیری نئی تعلیم کو تسلیم کر لیں گے۔"

ناصرت کے لوگ یسوع پر اتنے غضبناک ہوئے کہ جس پہاڑ پر اُن کا شہر بسا ہوا تھا اُس کی چوٹی پر آپ کو لے گئے تا کہ وہاں سے آپ کو سر کے بل نیچے گرا دیں، مگر یسوع اُن کے بیچ سے نکل کر کفرنحوم کو چلے گئے۔ آپ کو اپنے آبائی شہر کی بابت حقیقت میں بہت رنج ہُوا ہو گا۔ اُن لوگوں نے مسیح کے کلام کو قبول نہ کر کے آپ کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ہمیں گمان گزرتا ہے کہ یسوع ناصرت شہر پر افسوس کر کے رویا ہو گا جیسے کہ بعد میں وہ یروشلیم شہر کےلئے رویا تھا۔ یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اپنا آبائی شہر چھوڑتے ہوئے جہاں آپ نے برسوں محنت کی تھی آپ کو بہت افسوس ہُوا ہو گا۔ اپنے ہی لوگوں کو کلام اور کام کے ذریعہ گواہی دینے کے باوجود مسیح کو وہاں سے حتیٰ کہ اپنے بھائیوں میں سے بھی اپنے لئے ایک شاگرد نہ ملا۔

8- یسوع کا چار شاگردوں کو بلانا

"اور گلیل کی جھیل کے کنارے کنارے جاتے ہوئے اُس نے شمعون اور شمعون کے بھائی اندریاس کو جھیل میں جال ڈالتے دیکھا کیونکہ وہ ماہی گیر تھے۔ اور یسوع نے اُن سے کہا، میرے پیچھے چلے آﺅ تو میں تم کو آدم گیر بناﺅں گا۔ وہ فی الفور جال چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔ اور تھوڑی دُور بڑھ کر اُس نے زبدی کے بیٹے یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو کشتی پر جالوں کی مرمت کرتے دیکھا۔ اُس نے فی الفور اُن کو بلایا اور وہ اپنے باپ زبدی کو کشتی پر مزدوروں کے ساتھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔" (انجیل بمطابق مرقس 1: 16-20)

یسوع نے اپنے پہلے چار شاگردوں کو گلیل کی جھیل کے پاس جو تبریاس کی جھیل بھی کہلاتی تھی اپنی پیروی کرنے کےلئے بُلایا۔ وہ چار شاگرد اندریاس اور اُ س کا بھائی شمعون پطرس، یعقوب اور اُس کا بھائی یوحنا تھے۔

یہ چاروں ماہی گیر تھے اور جھیل کے کناروں سے یا کشتیوں کے ذریعے سے مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ یعقوب اور یوحنا کو مسیح نے اُس وقت بلایا جب وہ اپنے باپ زبدی کے ساتھ جالوں کی مرمت کر رہے تھے۔ یسوع نے سب سے پہلے پطرس اور اندریاس کو ایک اَور اہم کام، آدم گیر ہونے کےلئے بلایا۔

اِن شاگردوں کو انجیل کا رُوحانی جال ڈالنا تھا تا کہ ہلاکت کے سمندر میں برباد ہونے والی جانیں بچانے کےلئے اُنہیں سلامتی کے ساحل پر لایا جا سکتا۔ بعد ازاں، مسیح نے اِسی طرح دو اَور لوگوں کو بلایا۔ مسیح کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے یہ چاروں افراد فوراً آپ کے پیچھے ہو لئے۔

مسیح کے پیچھے چلنے کےلئے اِن افراد نے اپنے والدین، نوکروں، کشتیوں، جالوں اور اپنے کام غرض سب کچھ چھوڑ دیا۔ اِس سے پہلے وہ رُوح اور ایمان میں مسیح کی پیروی کرتے ہوئے متعدد بار سفر میں آپ کے ہمراہ رہے تھے، مگر اَب سے اُنہیں متواتر مسیح کے ساتھ رہنا تھا۔ مسیح نے شاگردوں کو یہودیہ اور سامریہ میں آدم گیری کےلئے مثال دی، لیکن اَب آپ نے اُن سے چاہا کہ وہ اپنا روزمرہ کا کام چھوڑ کر اپنی نئی خدمت کےلئے مزید تربیت اور راہنمائی حاصل کریں۔

زبدی کے بیٹوں نے اپنے والد کو کشتی ہی میں چھوڑا، اور مسیح کے پیچھے ہو لئے۔ اپنے آقا یسوع کی پیروی کرنے والوں میں یہ سب سے پہلے افراد تھے جنہوں نے ضروری ہونے پر اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑا۔

کسی بھی شخص کو مذہبی یا اخلاقی طور پر یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو کہے کہ وہ اُسے اپنے عزیز و اقارب پر فوقیت دیں، مگر چونکہ یسوع محض ایک انسان نہیں بلکہ اِس سے بڑھ کر تھے اِس لئے آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے شاگردوں سے مطالبہ کرتے کہ آپ کے پیروکار آپ کو اپنی زندگیوں میں اوّل ترین مقام دیتے۔

اگر یسوع فقط عام انسان ہوتے تو وہ والدین کی عزت سے متعلق پانچویں حکم کو ایک طرف نہ کر سکتے تھے، اور کبھی بھی زبدی کے بیٹوں کو نہ کہتے کہ وہ اپنے بزرگ باپ کو آپ کی خاطر چھوڑ دیں۔

اُنہوں نے مسیح کے حکم کی تعمیل کی کیونکہ اُنہیں احساس ہو گیا کہ یسوع نے اُنہیں الہٰی حکم دیا تھا جو انتہائی اہم انسانی ذمہ داریوں پر سبقت رکھتا تھا۔ چونکہ آپ نے انسان کو شریعت بخشی تھی، اِس لئے آپ کو اپنی مرضی کے مطابق اُسے استعمال کرنے کا حق حاصل تھا۔

خدا کے دوست ابرہام نے کسدیوں کے اُور میں اپنے آبائی گھر کو الہٰی بلاہٹ کے جواب میں چھوڑا۔ ابرہام نبی خدا پر ایمان لانے کی بدولت بنی اسرائیل کا جد امجد ٹھہرا، اِسی لئے اُسے ایمانداروں کا باپ کہا گیا ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 4: 11)۔ خدا نے اُس سے کہا "زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے" (توریت شریف، پیدایش 12: 3)۔

جناب موسیٰ نے بھی الہٰی بلاہٹ کا فرمانبردار ہوتے ہوئے فرعون کے محل، بادشاہ کے لےپالک ہونے، شاہی عیش و آرام، حکمت و دولت اور مصر کی شان و شوکت کو چھوڑ دیا۔ خدا نے موسیٰ نبی کو بلایا کہ وہ بنی اسرائیل کی رہبری کرے، اُنہیں منظم کرے، اور شریعت کو حاصل کرے جو مسیح سے قبل کے نوشتوں اور ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔

اِسی طرح اِن چاروں شاگردوں نے بھی اپنے کام، گھر، عزیز و اقارب کو چھوڑا، اور غریب و فروتن اُستاد یعنی مسیحا کے پیروکار ہو گئے۔ اِن چند شاگردوں اور اِن کے سادہ کمزور ساتھیوں کے ذریعہ ایک نہایت قوی مسیحی کلیسیا وجود میں آئی یعنی ایسا روحانی شاہی نظام جس نے تمام دُنیا کو بدل کر رکھ دیا۔

کتاب مُقدّس میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے اپنے خادم داﺅد کو چُنا اور اُسے بھیڑوں کی گلہ بانی کرنے کی بجائے اپنے لوگوں کا چرواہا بنایا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے اندریاس، پطرس، یعقوب اور یوحنا کو ماہی گیروں میں سے چُنا، اور اُنہیں رسول ہونے کے عظیم مرتبہ تک سرفراز کیا۔

آپ اِن شاگردوں کی زندگیوں میں معجزات کے ظہور کے باعث اُنہیں خادم بنانے کو تھے تا کہ وہ انجیل کی زندہ و پُرنور مثال بنیں۔ جب بھی مسیح نے لوگوں کی بھیڑ میں منادی کی اور اُنہیں تعلیم دی تو آپ کی پہلی ترجیح اپنے اِن چاروں شاگردوں کی تربیت کرنا ہوتی تھی جو مختلف شہروں میں آپ کے پیچھے ہو لئے تھے۔

جن لوگوں نے یسوع کو کفرنحوم کے عبادت خانہ میں کلام کرتے سُنا، وہ حیران ہو گئے کیونکہ اِس سے پیشتر اُنہوں نے جن بڑے بڑے واعظین کو سُنا تھا وہ ماضی کے لوگوں کی باتوں ہی کو دہرایا کرتے تھے۔

اُن واعظین میں حفظ کرنے کی بڑی صلاحیت تھی اور وہ ماضی کے بزرگوں کی باتوں کو یاد رکھنے کےلئے بڑی محنت کرتے تھے اور پھر اُن الفاظ کو لوگوں کے اجتماع کے سامنے پیش کیا کرتے تھے۔ اُن کی شہرت اور ساکھ کا انحصار اِسی بات پر ہوتا تھا۔

لیکن اب لوگوں کے سامنے ایک نئی قسم کا واعظ تھا جو روائتی انسانی تعلیم، فلسفہ یا قدیم خوش بیان مقررین کے اقوال کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کسی مشہور ربّی کا اقتباس کرنے کے بجائے یسوع نے کہا "میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں ..."۔ جب بھی مسیح نے قدیم تعلیمات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اُس پر روشنی ڈالی اور نئی معنٰی کے ساتھ پیش کیا۔ عہدنامہ عتیق کو سمجھانے میں مسیح نے محض شریعت کے الفاظ پر نہیں بلکہ اُس تعلیم کی حقیقی روح پر زور دیا۔

9- یسوع کا بدرُوحیں نکالنا

"پھر وہ گلیل کے شہر کفرنحوم کو گیا اور سبت کے دِن اُنہیں تعلیم دے رہا تھا۔ اور لوگ اُس کی تعلیم سے حیران تھے کیونکہ اُس کا کلام اختیار کے ساتھ تھا۔ اور عبادتخانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی رُوح تھی ۔ وہ بڑی آواز سے چِلّا اُٹھا کہ اے یسوع ناصری! ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ میں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے۔ یسوع نے اُسے جھڑک کر کہا، چپ رہ اور اُس میں سے نکل جا۔ اِس پر بدرُوح اُسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اُس میں سے نکل گئی۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اختیار اور قدرت سے ناپاک رُوحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔ اور گرد و نواح میں ہر جگہ اُس کی دھوم مچ گئی۔" (انجیل بمطابق لوقا 4: 31-37)

کفرنحوم میں یسوع سبت کے دِن عبادت خانہ میں گئے۔ وہاں اُس سبت عبادت کےلئے آنے والوں میں ایک بدرُوح گرفتہ شخص بھی تھا۔ جیسے ہی اُس نے یسوع کو دیکھا تو وہ چِلّا اُٹھا: "اے یسوع ناصری! ہمیں تجھ سے کیا کام؟" یہ الفاظ شیطانی نفرت سے پُر ہیں، اور اِس شخص کا صیغہ جمع میں بولنا ظاہر کرتا ہے کہ اُس میں ایک سے زائد بدرُوحیں بول رہی تھیں۔ اِسی طرح یہ سوال کہ "کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟" اِس بات کا اقرار تھا کہ یسوع بدارواح پر مکمل اختیار رکھتا تھا۔ آخر میں یہ الفاظ کہ "میں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے" ظاہر کرتے ہیں کہ بدارواح روحانی معاملات کے بارے میں انسانوں سے زیادہ جانتی ہیں۔

اِس سے پہلے بھی ابلیس اُس وقت یسوع کی مخالفت کرتے ہوئے آپ کے سامنے آیا تھا جب آپ بیابان میں تنہا تھے۔ بعدازاں اُس نے یسوع پر تب حملہ کیا جب درپردہ رہ کر ناصرة کے لوگوں کو یسوع کے قتل پر اُبھارا۔ اور اب وہ اِس قدوس معلم کی مخالفت میں کُھلے عام سامنے آ گیا۔ جب یسوع راہِ نجات کی وضاحت کرتے ہوئے لوگوں کو خدا کی بادشاہی کی نزدیکی کے بارے میں بتا رہے تھے اور اُس میں داخل ہونے کی شرائط کی وضاحت کر رہے تھے تو ابلیس سے خاموش نہ رہا جا سکا۔ ابلیس جانتا تھا کہ یسوع اُس کے خلاف نبرد آزما تھا اور اُس کے کاموں اور ناراست بادشاہی کو تباہ و برباد کرنے آیا تھا۔ اب جبکہ مسیح ابلیس کے سر کو کچلنے کو تھا (دیکھئے توریت شریف، کتاب پیدایش 3: 15) تو ایسی صورتحال میں بھلا ابلیس کیسے خاموش رہ سکتا تھا؟

شاید ہمیں ابلیس کے اعلانیہ یہ کہنے پر حیرت ہو کہ یسوع "خدا کا قدوس ہے"۔ جب جناب مسیح اُس شخص سے بُری رُوح کو نکالنے کو تھے تو یہ ضرور ہی مسیح کے اختیار کا پہلا پُرقدرت نتیجہ تھا۔ دشمن ابلیس کی یسوع کے حق میں اِس طرح کی گواہی دُگنی اہمیت کی حامل تھی اور یسوع چاہتے تھے کہ لوگ دیکھ لیں کہ ابلیس بھی آپ کی جلالی حیثیت کی گواہی دے رہا تھا۔ مسیح کی بابت ابلیس کی جانب سے یہ پہلی اعلانیہ تصدیق تھی مگر یہ آخری نہ تھی۔ جیسے ہی اِس بدرُوح گرفتہ شخص نے کُھلے عام واضح گواہی دی تو یسوع نے اُسے جھڑکتے ہوئے کہا "چپ رہ اور اُس میں سے نکل جا۔" ساری بھیڑ منتظر تھی کہ مسیح کے اِس حکم کے نتیجہ میں کیا رونما ہو گا۔ تب بدرُوح اُس شخص کو بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اُس میں سے نکل گئی۔ سب دیکھنے والوں نے تعجب کیا اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہمارے بیچ ایسا اعلیٰ کام کرنے والا قابل شخص کون ہے؟ اِن معجزات کے ہمراہ یہ نئی تعلیم کیسی ہے؟ اِس بڑھئی کے بیٹے کو یہ قدرت و اختیار کہاں سے ملا کہ بدرُوحیں بھی اِس کا حکم مانتی ہیں؟

قانائے گلیل میں اپنے پہلے معجزہ میں جب یسوع نے پانی کو مے میں تبدیل کیا تو آپ نے فطرت کے قوانین پر اپنے اختیار کو ظاہر کیا۔ بعدازاں قانائے گلیل میں جب یسوع نے بادشاہ کے دربار میں اعلیٰ مرتبہ رکھنے والا شخص کے بیٹے کو شفا دے کر دوسرا معجزہ کیا تو بیماری پر اپنی قوت و قدرت کو ظاہر کیا۔ اور پھر اِس تیسرے معجزہ میں یسوع نے شیطانی قوتوں کے خلاف اپنی برتر قوت و قدرت کا مظاہرہ کیا۔ مسیح کی خدمت کے آغاز ہی میں اِن تین معجزوں نے ثابت کیا کہ وہ اپنی ذات میں ہر طرح سے انسانیت کےلئے نجات دہندہ ہونے کے قابل تھا۔

اِس عظیم معجزہ کی خبر اُس تمام علاقہ اور اِردگرد کی تمام جگہوں میں پھیل گئی۔ داﺅد کے گھرانے کے شہزادہ اور اِس دُنیا کے سردار یعنی ابلیس کے درمیان زبردست جنگ ہوئی تھی جس میں ابلیس کو شکست و ندامت کا منہ دیکھنا پڑا۔ مسیح کی بابت سب گرد و نواح کے لوگوں کو پتا چل گیا۔ بیابان میں یسوع نے ابلیس کو جھوٹا ثابت کیا، جبکہ کفرنحوم میں آپ نے دوسروں کی زندگیوں میں اُسے مغلوب کیا۔ اپنے قدرت بھرے کاموں کی بدولت مسیح نے اپنے نئے شاگردوں، گلیل کے باشندوں، مستقبل کی آنے والی نسلوں کے لوگوں اور یہاں تک کہ ابلیس کو بھی یہ دکھایا کہ وہ بطور ابنِ آدم اپنی زندگی میں اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں کی زندگیوں میں بھی ابلیس پر فتح پانے کے قابل ہے۔

ہم بدرُوح گرفتگی کی حالت کی وضاحت کئے بغیر اِس معجزہ پر بات چیت کو ختم نہیں کر سکتے، کیونکہ ایسی حالت کا ذِکر ہمیں مسیح کے خدمت کے دوران اور اُس کے بعد کئی بار مختلف لوگوں کے تعلق سے ملتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یسوع کی خدمت کے دوران ابلیس نے ہماری دُنیا میں اپنے کاموں کو کئی گنا زیادہ بڑھا دیا تھا، گویا کہ ایسا کرنا اُس کے نزدیک انتہائی اہم ترین تھا۔ وہ تمام انسانیت پر پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تسلط قائم کرنا چاہتا تھا۔ خدا نے ایسا ہونے دیا تا کہ مسیح کی فتح کی عظمت اور اُس کے نتائج قدرت کے ساتھ بکثرت ظاہر ہوتے۔ ابلیس انسان میں اُس کے ذہن کی قوت سے بخوبی واقف تھا۔ اِس لئے مجنونیت (پاگل پن) اُس کے اختیار کا حصہ بن گئی جو وہ انسانیت پر رکھتا تھا۔ بسااوقات ایک بیمار شخص کو مخبوط الحواس سمجھا جاتا تھا۔ کیا انجیل مُقدّس میں جس حالت کو "بدرُوح گرفتگی" کہا گیا ہے وہی کیفیت ہے جسے آج کل پاگل پن کہا جاتا ہے؟ ایسی وضاحت تبھی ممکن ہو سکتی تھی کہ اگر مسیح مذہبی فریب یا وہم پرستی کی جانب مائل ہوتے۔ تاہم، جب مسیح اُس بیمار شخص کے بجائے اُس پر قبضہ کرنے والی بدرُوح سے یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ "چپ رہ، اور اُس میں سے نکل جا" تو ہم جانتے ہیں کہ یہ ویسا پاگل پن کا معاملہ نہیں تھا جس سے آج ہم واقف ہیں۔ علاوہ ازیں، اگر بدرُوح گرفتہ شخص صرف پاگل ہی ہوتا تو وہ یسوع کی بابت ایسی حیران کن بات نہ کرتا جسے کوئی بھی اُس وقت نہ سمجھتا تھا۔ مزید برآں، اگر مسیح نے صرف دماغی امراض سے شفا دی ہوتی تو پھر ایسی شفا میں کسی بھی قسم کا تشنج یا تکلیف دہ دورہ موجود نہ ہوتا جو عموماً بدرُوح گرفتہ شخص میں سے بدرُوح نکالتے وقت ہوتا تھا۔ مسیح اور اُس کے شاگردوں نے بیماریوں سے شفا دینے کے علاوہ بدارواح کو نکالنے کے خصوصی کام کو بھی سرانجام دیا۔ مندرجہ بالا بیانات کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تکلیف جسے انجیل مُقدّس میں بدرُوح گرفتگی کہا گیا ہے اُسے ایک عام ذہنی بیماری تصور نہیں کیا جا سکتا۔

10- کفرنحوم میں بہتوں کو شفا دینا

"پھر وہ عبادتخانہ سے اُٹھ کر شمعون کے گھر میں داخل ہوا، اور شمعون کی ساس کو بڑی تپ چڑھی ہوئی تھی اور اُنہوں نے اُس کےلئے اُس سے عرض کی۔ وہ کھڑا ہو کر اُس کی طرف جُھکا اور تپ کو جِھڑکا تو اُتر گئی اور وہ اُسی دم اُٹھ کر اُن کی خدمت کرنے لگی۔ اور سورج کے ڈوبتے وقت وہ سب لوگ جن کے ہاں طرح طرح کی بیماریوں کے مریض تھے اُنہیں اُس کے پاس لائے اور اُس نے اُن میں سے ہر ایک پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں اچھا کیا۔ اور بدرُوحیں بھی چِلّا کر اور یہ کہہ کر کہ تُو خدا کا بیٹا ہے بہتوں میں سے نکل گئیں اور وہ اُنہیں جِھڑکتا اور بولنے نہ دیتا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ مسیح ہے۔" (انجیل بمطابق لوقا 4: 38-41)

مسیح اور اُس کے ساتھی پطرس کے گھر گئے، غالباً یا تو مسیح کا وہاں قیام تھا یا پھر پطرس نے شاگرد اور آدم گیر بننے کی شکرگزاری کرتے ہوئے ضیافت میں آپ کو وہاں مدعو کیا تھا۔ ممکن ہے کہ پطرس نے بھی اپنے اُستاد سے اِس بات کی توقع کی ہو کہ وہ اُس کے گھر میں ویسا ہی شفا بخشنے والا معجزہ کرے گا جیسے اُس نے بادشاہ کے افسر کے گھر میں کیا تھا۔ پطرس کی ساس تیز بخار میں مبتلا تھی۔ یوں لگتا ہے کہ پطرس نے اپنی ساس کی شفا کےلئے یسوع کو کہنا مناسب نہ جانا۔ مگر دوسروں نے پطرس کے دِل کی بات مسیح کو بتائی تو آپ نے بخار کو جھڑکا اور وہ شفایاب ہو گئی۔ ہمیں اُن الفاظ کا علم نہیں جو مسیح نے بخار کو جھڑکتے وقت استعمال کئے، لیکن ہم یہ ضرور پڑھتے ہیں کہ مسیح نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھایا اور بخار جاتا رہا۔ اِس کے بعد وہ اُٹھی اور اُن کی خدمت کرنے لگی۔ یہ ایک دوہرا معجزہ تھا۔ بخار کے سبب عموماً جو کمزوری پیدا ہو جاتی ہے وہ بخار کے ساتھ فوراً ہی جاتی رہی، اور وہ اِس قابل ہوئی کہ یکدم خدمت کرنا شروع کر دی۔ مسیح کے خدمت کے آغاز کے بعد یہ پہلی خاتون ہے جس کے بارے میں تحریری طور پر لکھا ہوا ہے کہ اُس نے مسیح کی خدمت کےلئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔

اِس شفایابی کی خبر سارے علاقے میں پھیل گئی۔ یہ معجزہ بدرُوح گرفتہ شخص کی شفا کے بعد وقوع پذیر ہوا۔ اُس علاقے کے تمام بیمار لوگ سبت (ہفتہ کے دِن) کی شام کو پطرس کے گھر پر جمع ہوئے۔ سبت کو پاک ماننے کے حکم کا لحاظ رکھتے ہوئے اُنہوں نے شام تک انتظار کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت کفرنحوم میں کوئی بھی بیمار نہ رہا۔ سب نے ہر قسم کی بیماری سے شفا پائی۔

مُقدّس لوقا بدرُوح گرفتہ افراد کی بابت زیادہ توجہ دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ بہتوں میں سے بدرُوحیں یہ چِلّاتے ہوئے نکل گئیں کہ "تُو خدا کا بیٹا ہے"۔ یسوع نے بیماروں پر تو اپنے ہاتھ رکھے مگر بدرُوح گرفتہ افراد کے ساتھ ایسا نہ کیا۔ بدرُوحوں کو مسیح نے اپنے کلام کی قدرت سے باہر نکالا۔ عبادت خانہ میں مسیح نے بدرُوح سے کہا "چپ رہ"، مگر اِس سے پہلے یہ بدرُوح اقرار کر چکی تھی کہ مسیح خدا کا قدوس ہے۔ شام کے وقت مسیح کی بابت بدارواح کی گواہی اَور بھی زیادہ واضح اور قوی تھی۔ وہ چِلّا رہی تھیں کہ "تُو خدا کا بیٹا ہے۔" ایک بار پھر یسوع نے بدرُوحوں کو جھڑکا اور بولنے نہ دیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ وہ مسیح تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ بدرُوحیں ایک عام شخص کی تعریف کر رہی تھیں جو اُنہیں باہر نکال رہا تھا، بلکہ یسوع کے پاس تو الہٰی اختیار تھا۔ ایک فرد یقیناً شہر کے لوگوں کی بابت افسوس کا اظہار کرے گا جنہوں نے یسوع کو مسیح، خدا کا بیٹا اور قدوس نہ کہا۔ جو شفایاب ہوئے تھے اُنہیں نجات دہندہ کی بابت واضح گواہی دینے میں پہل کرنی چاہئے تھی۔

شفا دینے والے مسیحا کی یہ کتنی حیرت انگیز تصویر ہے! وہ شام کے شروع میں پطرس کے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا اور ہر اُس بیمار شخص کو چھونے کےلئے اپنے ہاتھ کو بڑھائے ہوئے تھا جو اُس کے پاس آیا، اور یوں اُس نے اُن غریب لوگوں کے رنج میں اُن کے ساتھ اپنی ہمدردی کا ثبوت دیا۔ آپ نے شفا دینے کی اپنی قوت کا اظہار کیا اور آپ کے ہاتھوں نے اُن کی ضرورت کے مطابق اُنہیں بحالی عطا کی۔ ایسا کر کے مسیح نے سمجھنے والوں پر یہ عیاں کر دیا کہ رُوحانی امراض سے بھی شفا مل سکتی ہے۔ آپ نے ثابت کر دکھایا کہ آپ کو جسمانی و رُوحانی دونوں طرح کی بیماریوں سے شفا دینے کی قدرت حاصل تھی، اور اُنہیں صرف اُس کے حضور شفا کی درخواست ہی کرنی تھی۔ یسعیاہ نبی نے مسیح کے حق میں برحق پیشین گوئی کی تھی کہ "اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا" (یسعیاہ 53: 4)۔

یہ یسوع کی طویل شفا دینے والی خدمت کا آغاز تھا۔ اپنے تمام کئے گئے شفا کے معجزات میں سب سے پہلے یسوع نے بیماری اور گناہ کے درمیان تعلق پر نگاہ کی، کیونکہ اکثر یہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ بیماری جسم میں خرابی اور خدا کے اصل بھلے مقصد کا بگاڑ ہے، جبکہ گناہ رُوح میں انسانی خرابی کا نام ہے۔ مسیح کا مقصد انسانی رُوحوں کو مرضِ گناہ سے بچانے کےلئے اپنی رضا و قابلیت کو ظاہر کرنا تھا، کیونکہ آپ "اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دینے کےلئے" آئے تھے (انجیل بمطابق متی 1: 21)۔ آپ آسمان سے خدا کے برہ کی صورت میں اِس دُنیا کا گناہ اُٹھانے کی غرض سے زمین پر ظاہر ہوئے تا کہ آپ اُن سب کو جو آپ پر ایمان لائیں اُنہیں اُن کے گناہوں سے معافی بخشیں۔ چونکہ تمام بیماری گناہ کا نتیجہ ہے، اِس لئے گناہ سے جنگ کرنے والے مسیحا کےلئے ضروری ہوا کہ وہ گناہ کے نتائج سے بھی لڑتا، اور جب وہ مسئلہ کی جڑ تک پہنچا تو اُس نے اُس کے مختلف پہلوﺅں کو نظرانداز نہ کیا۔ مسیح کو علم تھا کہ لوگوں کو کسی ایسی چیز کی ضرورت تھی جس سے اُن میں رُوحانی شفا کی ضرورت کی آرزو بیدار ہو جاتی۔ گناہ انسان کو رُوحانی اعتبار سے مُردہ کر دیتا ہے، اِس لئے یسوع نے لوگوں کو جسمانی شفا کے ذریعے بیدار کرنا چاہا۔

وہ سب راستباز جن میں مسیح کا رُوح ہے اُنہیں انسانیت کو اُس کے مصائب سے چھٹکارا دلانے کی تشویش لاحق رہتی ہے جن میں سے بیماری سب سے بڑی مصیبت ہے۔ یہ خدا کا رُوح القدس ہے جو مسیحی ڈاکٹروں کو اپنی رقم، وقت اور زندگی بیماروں کی خدمت میں صرف کرنے کی طرف لے کر آتا ہے۔ اُن کے نزدیک جسمانی بیماری کے خلاف جنگ بھی اُتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنی گناہ کے خلاف محاذ آرائی، اور انسان کی رُوحانی فلاح میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک جسمانی بدنوں کی دیکھ بھال کرنا بھی اُتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ مسیح کے پاک رُوح نے مسیحیوں کو مختلف قسم کے ہسپتال اور یتیم خانے چلانے کی تحریک بخشی، جس کے نتیجے میں ایسے ادارے قائم ہوئے جو یسوع کے زمین پر آنے سے پیشتر اِس دُنیا میں موجود نہیں تھے۔ جہاں جہاں بھی مسیحیت پھیلی ہے، وہاں انسانی ہمدردی کے ایسے خیراتی ادارے دیکھنے کو ضرور ملتے ہیں۔

آج کے دور میں ہمارا طبیب

"یسوع مسیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے" (نیا عہدنامہ، کتاب عبرانیوں 13: 8)۔ یہی وجہ ہے کہ آپ لوگوں کو شفا دینے کے خواہشمند ہیں، اور جیسے آپ نے بعض اوقات جسمانی طور پر موجود ہوئے بغیر بیماروں کو شفا بخشی اُسی طرح آپ آج بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ آپ کی آرزو ہے کہ ہر بیمار فرد آپ کے پاس آئے اور شفا کا طالب ہو، اور اِس کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی معالج کو مسیح کا آلہءکار سمجھے اور اُس کی طرف سے ملنے والے علاج کو خدا کی جانب سے تصور کرے۔ اور شفا پانے پر اُسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہی طبیب اعلیٰ ہے اور شفا اُس کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔ مُقدّس یعقوب نے لکھا کہ "اگر تم میں کوئی بیمار ہو تو کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ خداوند کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کےلئے دُعا کریں۔ جو دُعا ایمان کے ساتھ ہو گی اُس کے باعث بیمار بچ جائے گا اور خداوند اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا اور اگر اُس نے گناہ کئے ہوں تو اُن کی بھی معافی ہو جائے گی" (نیا عہدنامہ، یعقوب 5: 14-15)۔ ہر ایک ایماندار کو مسیح کو طبیب اعظم تسلیم کرنا چاہئے۔ ہم ایک ڈاکٹر کو مسیح کا میڈیکل اسسٹنٹ بھی تصور کر سکتے ہیں جو طبیب اعظم یسوع کی مرضی کو پورا کرتا ہے۔ اِس لئے، شفا کےلئے ہماری شکرگزاری ہمیشہ طبیب اعظم یسوع مسیح کے حضور ہی ہو، کیونکہ جب ہم کسی ڈاکٹر سے مدد کی درخواست کرتے ہیں تو طبیب اعظم مسیح ہی اُس کی راہنمائی کرتا ہے۔

یسوع تنہائی میں باپ کے ساتھ

"اور صبح ہی دِن نکلنے سے بہت پہلے وہ اُٹھ کر نکلا، اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دُعا کی۔ اور شمعون اور اُس کے ساتھی اُس کے پیچھے گئے۔ اور جب وہ ملا تو اُس سے کہا کہ سب لوگ تجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔" (انجیل بمطابق مرقس 1: 35-37)

ہم نے دیکھا ہے کہ یسوع کے اِردگرد بڑی بھیڑ جمع رہتی تھی، لیکن آپ یہ نہیں چاہتے تھے۔ آپ کو اپنے باپ کے ساتھ تنہائی کے وقت کی ضرورت تھی۔ اِسی لئے مُقدّس مرقس نے لکھا کہ "صبح ہی دِن نکلنے سے بہت پہلے وہ اُٹھ کر نکلا، اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دُعا کی۔" یہ انسانیت کےلئے مسیح کی خدمت تھی جو آپ کو خدا کے حضور دُعا میں لے گئی۔ باپ کے ساتھ تنہائی کے اِس وقت میں جناب مسیح لوگوں کے درمیان روزمرہ کی زندگی بخش خدمت کےلئے تقویت پاتے تھے۔ خدا کے ساتھ آپ کا دُعائیہ وقت آپ کو اپنے باپ کے پیار میں انسانیت کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ دُعا میں وقت گزار کر مسیح نئی قوت اور دُگنی خوشی کے ساتھ خدمت کےلئے واپس لوٹتے تھے۔ ہر وقت صرف دُعا میں ہی ٹھہرنے والی زندگی خدمت کےلئے رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔ اِسی طرح دُعا کے بغیر ہر وقت خدمت گزاری میں بسر کی جانے والی زندگی میں وہ قوت اور رُوحانی تاثیر کم ہو جاتی ہے جو دوسروں کی مدد کے دوران ہمیں درکار ہے۔ اگرچہ مسیح مکمل طور پر پاک، بےانتہا قوت سے معمور اور ہر لحاظ سے کامل تھے، تو بھی اُنہیں دُعا کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اِس میں آپ کی سب سے بڑی خوشی تھی۔ یہ آپ کےلئے گویا رُوحانی سانس کی مانند تھی۔ ہمیں مسیح سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے ہم خدا کے ساتھ تنہائی میں دُعا کا وقت گزاریں۔

مسیح کا تنہائی میں جانا نہ تو بھیڑ کو پسند تھا اور نہ ہی شاگردوں کو۔ ایک مرتبہ پطرس اور اُس کے ساتھی مسیح کی تلاش میں تھے۔ جب اُنہوں نے مسیح کو پا لیا تو پطرس نے مسیح سے کہا کہ "سب لوگ تجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔" وہ مسیح کی رفاقت سے جُدا نہیں ہونا چاہتے تھے، مگر مسیح نے اپنی نقل و حرکت پر کسی کو اختیار نہ دیا۔ آپ نے مسلسل رُوح القد س کی راہنمائی کی پیروی کی جو آپ کے بپتسمہ کے وقت آپ پر کبوتر کی مانند نازل ہوا تھا۔ گو مسیح اپنی دِلی محبت میں لوگوں کی درخواستوں کو پورا کرتے ہیں، مگر وہ ہمیشہ اُن سے آزاد ہیں اور بعض اوقات وہ اُن کی درخواستوں کو قبول نہیں بھی کرتے۔ اِس لئے آپ نے اُنہیں کہا "آﺅ، ہم اَور کہیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تا کہ میں وہاں بھی منادی کروں کیونکہ میں اِسی لئے نکلا ہوں" (انجیل بمطابق مرقس 1: 38)۔

اُس وقت سے آگے مسیح نے ایک نیا عملی منصوبہ اختیار کیا جو یوحنا بپتسمہ دینے والے کے نقشِ قدم پر چلنے والے مذہبی اُستادوں کے طریقے سے مختلف تھا۔ اُن اُستادوں نے اپنے پاس لوگوں کے آنے کےلئے خصوصی جگہیں مقرر کی ہوئی تھیں۔ جو لوگ اُن اُستادوں کے پاس نہیں آتے تھے وہ اُنہیں دیکھ اور سُن نہیں سکتے تھے۔ تاہم، مسیح کا خدمت کا منصوبہ اِس اصول پر مبنی تھا کہ "ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے" (انجیل بمطابق لوقا 19: 10)۔

یوحنا انجیل نویس نے یسوع کے تین قسم کے کاموں کا ذِکر کیا ہے جو آپ کیا کرتے تھے:

1- بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنا، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ یسوع نے یہودیہ میں ایسے کیا۔

2- شیطان سے جنگ کرنا اور انسانیت کو اُس کے قبضے سے آزاد کرنا، جیسے کہ یسوع نے ایک ناقابل فراموش سبت کے دِن کفرنحوم کے عبادتخانہ میں کیا۔

3- لوگوں کو ہر قسم کی بیماری اور کمزوری سے شفا دینا، جیسے کہ مسیح نے اُسی سبت کی شام کیا۔

اِس سلسلہ کی باقی پانچ جلدوں میں ہم دیکھیں گے کہ کیسے یسوع مسیح نے اِن تین قسم کی خدمات کو سرانجام دیا۔

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب "سیرت المسیح، حصّہ 2، مسیح کی آزمایش اور خدمت کی ابتدا" کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. شیطان کے تین نام کون سے ہیں؟ ہر ایک نام کے کیا معنٰی ہیں؟

  2. کیسے مسیح نے عورت کی نسل ہوتے ہوئے سانپ کے سر کو کُچلا؟ (پیدایش 3: 15)

  3. موسیٰ، ایلیاہ، پطرس اور یہوداہ اسکریوتی نے کون سے گناہ کا ارتکاب کیا؟

  4. جب ابلیس نے یسوع کو آزمایا تو پہلی آزمایش کون سی تھی؟ مسیح نے اُس کا کیسے جواب دیا؟

  5. ابلیس نے یسوع کے سامنے دوسری آزمایش کیا رکھی؟ مسیح نے اُس کا کیا جواب دیا؟

  6. ابلیس نے یسوع کے سامنے تیسری آزمایش کون سی رکھی؟ مسیح نے اُس کا کیا جواب دیا؟

  7. اُن چار قسم کے بپتسموں کا بیان کیجئے جن کا تجربہ مسیح نے کیا؟

  8. یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کہا کہ مسیح خدا کا برہ ہے۔ یہ مسیح سے قبل کے نوشتوں میں سے ایک نبوت کی تکمیل ہے۔ اِس نبوت کو تحریر کریں اور بیان کریں کہ کیسے یہ پوری ہوئی؟

  9. اندریاس نے اپنے بھائی پطرس کےلئے کون سی سب سے بڑی خدمت سرانجام دی؟

  10. فلپس نے نتن ایل کو اُس وقت کیا جواب دیا جب اُس نے کہا کہ مسیح ناصرة سے کیسے آ سکتا ہے؟

  11. مسیح کا خدا کا بیٹا ہونے کے بارے میں کوئی سی تین گواہیاں قلمبند کیجئے؟

  12. معجزے کرنے میں مسیح کا کیا مقصد تھا؟

  13. مسیح نے قانائے گلیل میں پانی کو مے میں کیوں تبدیل کیا؟

  14. ہیکل کو اپنے باپ کا گھر کہنے سے مسیح کا کیا مطلب تھا؟

  15. یسوع کے اِن الفاظ کا کہ "اِس ہیکل کو گرا دو تو میں اِسے تین دِن میں کھڑا کر دوں گا" کیا مطلب ہے؟

  16. ہم غصہ کو کب ایک خوبی تصور کر سکتے ہیں؟

  17. نئی پیدایش میں پاک رُوح کا کام کیا ہے؟

  18. ایک نبی کی حیثیت سے مسیح کا کیا کام ہے؟

  19. ایک کاہن کی حیثیت سے مسیح کا کیا کام ہے؟

  20. ایک بادشاہ کی حیثیت سے مسیح کا کیا کام ہے؟

  21. یسوع نے سامری عورت کو اپنے گناہ کا اقرار کرنے پر کیسے آمادہ کیا؟

  22. یعقوب کے کنویں کے پانی اور زندگی کے پانی میں کیا فرق ہے؟

  23. مسیح نے کیسے بادشاہ کے اعلیٰ ملازم کی حلیمی اختیار کرنے کی طرف راہنمائی کی؟

  24. ناصرة کے لوگوں نے مسیح کو کیوں رد کیا؟

  25. مسیح کی بابت بدارواح کی گواہی کیا تھی؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany