اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
ہم دُعا کیسے کریں؟

ہم دُعا کیسے کریں؟

اسکندر جدید

2013


سوال

ایک دِن میں کتنی نمازیں فرض ہیں اور کہاں پر پڑھنی چاہئیں؟

(اے۔ اے۔، مراکش)

1- دُعا کیا ہے؟

ایک عظیم مفکر کا قول ہے کہ ''دُعا روح و نفس کا اعلیٰ ترین اور واضح طبعی ظہور ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کی مرضی ہو گی یوں ہی رہے گا۔'' دُعا کی طبیعت اور مزاج کا ظہور ہمیشہ ہی انسان میں طرح طرح سے بکثرت ظاہر ہوتا رہا ہے خواہ اُن کی زبان، مذہب اور طبقے کچھ ہی رہے ہوں۔ اِس لئے دُعا و عبادت کی کوئی بھی شکل کیوں نہ ہو، ہر زمانے اور مقام کے انسان حتیٰ کہ قدیم ترین انسان میں بھی اِس کا ظہور نظر آتا ہے۔

کبھی کبھی جب دُعا کا جواب نہیں ملتا اور کوئی نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہیں آتا تو کچھ لوگ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، اِس کے باوجود وہ دُعا کرنا بالکل نہیں چھوڑتے کیونکہ انسان کی سرشت و خمیر میں دُعا کرنے کی طرف رغبت و میلان جڑ پکڑے ہوئے ہے۔

اِس حقیقت کے زیر اثر ایک انگریز نقاد و ادیب سموئیل جانسن نے کہا تھا کہ ''دُعا ایک ایسی چیز ہے جس کے ثبوت کےلئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اِس کی دلیلیں بذاتِ خود اِس میں مل جاتی ہیں۔ یہ انسان کی فطرت و عمل میں ہے جیسے کھانا پینا اور سانس لینا اور وہ اِس کی مشق اپنے وجود کے ایک حصے کے طور پر کرتا ہے۔"

دُنیا کی قدیم تاریخ گواہ ہے کہ یونان جو فلسفہ و تمدن کا گہوارہ تھا دُعا کے رویے سے بھرا ہوا تھا۔ مشہور فلسفی زینوفینیس (زنوفان) اپنے سفر کا ہر دن دُعا سے شروع کرتا تھا۔ مشہور مقرر پریکلیس اپنی تقریر دُعا کر کے شروع کیا کرتا تھا۔ شاعر ہومر نے اپنی شہرہ آفاق نظم ایلیڈ کو دُعا سے شروع کیا ہے۔ افلاطون نے کہا ہے کہ "ہر عقلمند آدمی اپنی زندگی کا ہر کام کرنے سے پہلے خدا سے مدد طلب کرتا ہے۔"

دُعا کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے جو کوشش کر کے انسان میں پیدا ہوتی ہو وہ تو انسان کے خمیر میں ہے۔ اور اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گو انسان نے علوم و فنون اور تمدن میں بہت ہی ترقی کر لی ہے مگر خود کو اُس نے کبھی دُعا کرنے سے بالا نہیں سمجھا۔ بلکہ اُس نے یہ بات تجربہ سے سیکھی ہے کہ فکر و تمدن کی ترقی کے باوجود دُعا ہمیشہ ہی مفید و ضروری ہے۔

2- دُعا کیسے کی جائے؟

لوقا انجیل نویس نے ہمیں خبر دی ہے کہ ایک بار جناب مسیح تخلیہ میں دُعا کر رہے تھے اور جب فارغ ہوئے تو اُن کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا کہ اے خداوند ہمیں بھی دُعا کرنا سکھا (انجیل بمطابق لوقا 11: 1)۔ غالباً شاگردوں نے اِس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ مسیح کی عجیب و پرجلال زندگی اور دُعا میں ایک گہرا اور اٹوٹ رشتہ تھا، اِسی لئے وہ آپ کے پاس ایسی درخواست لے کر آئے کہ وہ اُنہیں دُعا کرنا سکھائے۔ وہ اپنے آقا کے پاس جانے کے سوا کوئی اَور بہتر کام نہیں کر سکتے تھے۔ یسوع مسیح ایک تجربہ کار اور کامیاب معلم تھے اور قابل استاد وہی مانا جاتا ہے جو اپنے تجربہ کی روشنی میں تعلیم دیتا ہے۔ اُنہوں نے شاگردوں کو فقط یہی بتانے پر اکتفا نہیں کیا کہ وہ اپنی منزل مقصود پر کیسے پہنچیں بلکہ مثال سے اُنہیں دکھایا بھی کہ ایسا کیسے کرنا ہے۔

سو اِس طریقے سے جو تجربے سے بھرپور تھا اُنہوں نے دُعا کا ایک زندہ و پائندہ نمونہ عطا فرمایا جس میں خدا کے فضل کے تخت کے سامنے اظہار کےلئے مناسب مختصر جملے پائے جاتے ہیں۔ یہ نمونہ جو الفاظ کے لحاظ سے نہایت سادہ لیکن معنٰی کے لحاظ سے بڑا گہرا ہے "دُعائے ربّانی" کہلاتا ہے کیونکہ یہ دُعا خداوند مسیح نے سکھائی۔ یہ دُعا چند حصوں پر مشتمل ہے، آیئے دیکھیں:

الف۔ تعارف یا پیش لفظ: (اے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے۔)

دُعا کے اِس حصے میں ایک پکار ہے جو ہمیں اُس حیران کن رشتہ میں لا کھڑا کرتی ہے جسے سیدنا مسیح ہمارے اور باپ کے درمیان قائم کرنے کےلئے تشریف لائے۔ اِس میں فدیہ و مخلصی کا راز پنہاں ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب مسیح ہمیں لعنت سے چھٹکارا بخشتے ہیں تا کہ ہم خدا تعالیٰ کے فرزند بن سکیں۔ تخلیق نو کا راز بھی اِسی میں پوشیدہ ہے کہ روح القدس نئی پیدایش کے وسیلے ہمیں نئی زندگی بخشتا ہے۔ اِس میں ایمان کا بھید بھی پایا جاتا ہے۔

ب۔ خدا کی بابت تین التجائیں:

  • تیرا نام پاک مانا جائے۔

  • تیری بادشاہی آئے۔

  • تیری مرضی پوری ہو۔

پہلی التجا کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دِل، اپنے خیالات اور اپنی زبانوں کے ساتھ باپ (خدا تعالیٰ) کے نام کی تعظیم کریں اور اُسے مُقدّس جانیں۔

دوسری درخواست پہلی التجا کا فطری نتیجہ ہے۔ جب خدا تعالیٰ کے نام کو دِل و خیالات میں اور الفاظ سے مُقدّس جانا جاتا ہے تو اُس کے اختیار کے خوب پھیلنے کا موقع ہوتا ہے۔

تیسری التجا کا مطلب انسان کا خدا کے حضور مکمل طور پر سر تسلیم و اطاعت خم کر دینا ہے۔ خدا تعالیٰ کی مرضی آسمان پر پوری ہوتی ہے اور مسیح نے ہمیں دُعا کرنا سکھایا ہے کہ جیسے خدا کی مرضی آسمان پر پوری ہوتی ہے ویسے پرستش کی روح اور مکمل فرمانبرداری میں زمین پر بھی پوری ہو کیونکہ مشیئتِ الہٰی کو جاری کرنا آسمان کا جلال و شادمانی ہے۔ جب یہ مرضی ہم میں پوری ہونے لگتی ہے تو خداوند تعالیٰ کی بادشاہی دِلوں میں قائم ہو جاتی ہے۔

ج۔ انسان کی بابت تین التجائیں:

اِس میں سے پہلی التجا کا تعلق جسمانی ضروریات سے ہے: "ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔" اِس کا مقصد یہ ہے کہ بدن کو وہ چیز ملے جو زندگی کےلئے ضروری ہے تا کہ انسان کےلئے یہ ممکن بنے کہ وہ اپنے روحانی فرائض کو ادا کر سکے۔

دوسری التجا معافی سے متعلق ہے: "ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔" جیسے خوراک بدن کی پہلی ضرورت ہے اُسی طرح روح کےلئے پہلی ضرورت معافی ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں لیکن ہم خطاکار بھی تو ہیں اور ہماری باپ تک رسائی مسیح کے خون پر منحصر ہے جس کے وسیلہ ہمیں معافی نصیب ہوتی ہے۔

تیسری التجا ہے "ہمیں آزمائش میں نہ لا بلکہ برائی سے بچا۔" یہ التجا گناہ اور اُس کی فریب کاریوں سے متعلق ہے جو ہمیں آزمائش کی طرف لے جاتی ہیں۔ اِس درخواست میں ایک خاص ذمہ داری بھی پنہاں ہے کیونکہ جو اِن الفاظ کو ادا کرتا ہے لازم ہے کہ وہ آزمائش سے بھاگے۔

د۔ نتیجہ:

اِس میں تمام دُعا کا سبب پایا جاتا ہے۔ یہ دُعا ہم خدا کے حضور اِس لئے کرتے ہیں کیونکہ اُس کی بادشاہی راست ہے، وہ تمام عالم پر مکمل اختیار رکھتا ہے اور اُس کے پاس اِن درخواستوں کا جواب دینے کی قوت و قدرت ہے۔ جلال اُسی کا ہے اور ہم یہ چیزیں اُسی کے جلال و بزرگی کےلئے مانگتے ہیں۔

دُعا کےلئے اِس نمونے کو پیش کرنے کے بعد جناب مسیح نے لوگوں کو شوق دِلایا کہ وہ خدا کے حضور اپنی التجائیں لے کر آئیں۔ آپ نے فرمایا:

"مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔" (متی 7:7)

یقین کامل کے ساتھ آپ نے اِس بات کی ترغیب دی کہ جو مانگتا ہے اُسے ملے گا اور جو تلاش کرتا ہے وہ پائے گا۔ گویا کہ آپ نے ہمارے ذہنوں پر اِس حقیقت کے اثر کو چھوڑنا چاہا کہ دُعا کا ایک لاتبدیل قانون ہے یعنی یہ کہ جو بھی مانگتا ہے اُسے ملے گا۔

لیکن اگر کوئی مانگتا ہے اور پاتا نہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی دُعاﺅں کے قبول ہونے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور ہے۔ کبھی یہ رکاوٹ اِس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دُعا مانگنے والا شک کی کیفیت میں ہوتا ہے کیونکہ جو شک کرتا ہے ممکن نہیں کہ وہ خدا کے حضور سے کچھ حاصل کر سکے۔ کبھی اِس کی وجہ کوئی گناہ ہوتا ہے جس کا دُعا مانگنے والے نے خدا کے حضور اعتراف و اقرار نہیں کیا ہوتا کیونکہ گناہ انسان سے خدا کے چہرے کو مستور کر دیتا ہے۔ زبورنویس لکھتا ہے: "اگر میں بدی کو اپنے دِل میں رکھتا تو خداوند میری نہ سُنتا" (زبور 66: 18)۔

دُعا اُس وقت بھی قبول نہیں ہوتی جب دُعا مانگنے والا غلط چیزیں مانگتا ہے، جیسے مُقدّس یعقوب نے فرمایا: "تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لئے کہ بری نیت سے مانگتے ہو" (یعقوب 4 :3)۔ دُعا کبھی اِس لئے بھی نامقبول ہوتی ہے کیونکہ وہ خدا کےلئے محبت اور رغبت و شوق سے نہیں بلکہ محض مذہبی فریضہ کے ادا کی جاتی ہے۔

3- پہلے عبادت کیسے کی جاتی تھی؟

سامری قوم کی ایک عورت سے گفتگو کرتے ہوئے سیدنا مسیح نے فرمایا کہ آسمانی باپ اپنے پرستاروں کو ڈھونڈتا ہے، اور جب ہم روح اور سچائی سے اُس کی پرستش کرتے ہیں تو وہ خوش ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: "مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں" (انجیل بمطابق یوحنا 4: 24،23)۔ مسیح کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور جو اُس کی عبادت کرتے ہیں اُن کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ جس طرح بدن میں آنکھ اِس لئے ہوتی ہے کہ روشنی کا احساس کرے، کان اِس لئے ہوتے ہیں کہ آواز سنیں، سو عبادت گزار جو روحانی پرستش میں خوش ہونا چاہتا ہے لازم ہے کہ باطنی طور پر روح القدس کو حاصل کرنے کےلئے تیار ہو۔ تب روح اُس میں شفاعت کرتا ہے اور عابد کی عبادت روح اور سچائی سے ہوتی ہے۔

غالباً جناب مسیح ہمیں یہ سکھانا چاہتے تھے کہ عہد جدید کے عبادت گزاروں کےلئے تقاضے اُن تقاضوں سے قطعی مختلف ہیں جو عہد عتیق میں یہودیوں کےلئے تھے۔ یہودیوں کے نزدیک عبادت کا انحصار شریعت کے الفاظ پر تھا، سامریوں کی عبادت بہت کچھ اوہام پرستی کی نذر ہو چکی تھی۔ تاہم مسیحی عبادت روح سے (یہودی عبادت کے برعکس) اور سچائی سے (سامری عبادت کے برعکس )عبادت کرنے کا نام ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جناب مسیح کا سکھایا ہوا طریقہ عبادت معقول ہے جس میں اُن روایتی رسومات کی قید نہیں ہے جو عہد عتیق کی عبادت کے ساتھ تھیں۔ باالفاظ دیگر سچے مسیحی، خدا کی عبادت موسوی شریعت کی رسومات کے مطابق نہیں بلکہ روحانی ضابطہ عمل کے مطابق کرتے ہیں جس میں جسمانی وضع اور نقل و حرکت کی کم اہمیت ہے۔ یہ الہٰی قدرت اور سرگرمی سے بھرپور ہوتی ہے۔

"باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔" اِس آیت سے زیادہ اَور کون سی بات عبادت کےلئے حوصلہ کُن ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اگر روح خدا کی طالب ہو جس نے اُسے بھیجا، تو خدا جس نے روح کو بھیجا پرستش میں اُس سے ملنے کا طالب ہوتا ہے۔

4- دُعا کا طریقہ کیا ہو؟

دُعا کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کے بعد مسیح نے ایک اَور سبق دیا جس میں آپ نے یہ سکھایا کہ دُعا میں خدا کےلئے حقیقی پیاس اور اشتیاق کو لازمی ہونا چاہئے۔ اِس کی وضاحت میں آپ نے ایک تمثیل کہی جو "ڈھیٹ و بیحیا دوست" کی تمثیل کے نام سے مشہور ہے۔ آپ نے فرمایا:

"تم میں سے کون ہے جس کا ایک دوست ہو اور وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر اُس سے کہے اے دوست مجھے تین روٹیاں دے۔ کیونکہ میرا ایک دوست سفر کر کے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں کہ اُس کے آگے رکھوں۔ اور وہ اندر سے جواب میں کہے مجھے تکلیف نہ دے۔ اب دروازہ بند ہے اور میرے لڑکے میرے پاس بچھونے پر ہیں۔ میں اُٹھ کر تجھے دے نہیں سکتا۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگرچہ وہ اِس سبب سے کہ اُس کا دوست ہے اُٹھ کر اُسے نہ دے تو بھی اُس کی بیحیائی کے سبب سے اُٹھ کر جتنی درکار ہیں اُسے دیگا۔" (انجیل بمطابق لوقا11: 5-8)

ایک دوسری تمثیل میں جناب مسیح نے یہ سکھایا کہ آدمی کو بغیر ہمت ہارے ہر وقت دُعا کرتے رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا:

"کسی شہر میں ایک قاضی تھا۔ نہ وہ خدا سے ڈرتا نہ آدمی کی کچھ پروا کرتا تھا۔ اور اُسی شہر میں ایک بیوہ تھی جو اُس کے پاس آ کر یہ کہا کرتی تھی کہ میرا انصاف کر کے مجھے مُدّعی سے بچا۔ اُس نے کچھ عرصہ تک تو نہ چاہا لیکن آخر اُس نے اپنے جی میں کہا کہ گو میں نہ خدا سے ڈرتا اور نہ آدمیوں کی کچھ پروا کرتا ہوں۔ تو بھی اِس لئے کہ یہ بیوہ مجھے ستاتی ہے میں اِس کا انصاف کروں گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بار بار آ کر آخر کو میرا ناک میں دم کرے۔ خداوند نے کہا سُنو! یہ بے انصاف قاضی کیا کہتا ہے۔ پس کیا خدا اپنے برگزیدوں کا انصاف نہ کرے گا جو رات دن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟ اور کیا وہ اُن کے بارے میں دیر کرے گا؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ وہ جلد اُن کا انصاف کرے گا۔" (انجیل بمطابق لوقا 18: 2-8)

اِن دونوں تمثیلوں سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ دُعا میں محض لفظوں کی تکرار اور بے حد اصرار کے درمیان ایک بڑا فرق ہے۔ یسعیاہ نبی کے صحیفہ میں لکھا ہے:

"اے خداوند کا ذِکر کرنے والو خاموش نہ ہو۔ اور جب تک وہ یروشلیم کو قائم کر کے روی زمین پر محمود نہ بنائے اُسے آرام نہ لینے دو۔" (یسعیاہ 62: 7،6)

اِن دونوں تمثیلوں میں مسیح نے دُعا میں باعزم رہنے اور ہمت نہ ہارنے کی عادت کو بہت سراہا ہے، گویا کہ وہ اِس حقیقت کو ذہنوں میں خوب بٹھا دینا چاہتے تھے کہ "جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا" (متی 8:7)۔

ڈھیٹ قسم کے دوست کی تمثیل سے ہم ایمان کے اِس اہم سبق کو بھی سیکھتے ہیں جو محبت کی راہ سے اثر کرتا ہے۔ وہ شخص آدھی رات کو کسی دوسرے کےلئے روٹیاں مانگنے گیا۔ کسی دوسرے شخص کےلئے درخواست و زاری کرنا بڑی تعریف کا کام ہے کیونکہ یہ ہم میں ایمان کی قوت کو متحرک کرتا ہے اور ہمیں موثر دُعا کےلئے ترغیب دیتا ہے۔ دوسروں کےلئے شفاعتی دُعا بہترین قسم کی دُعا ہے کیونکہ یہ زندہ مسیح کے نام میں التجا کرنا ہے جو عرشِ الہٰی پر اپنا شفاعتی کام انجام دیتے ہیں۔

بےحد اصرار کرنے والی بیوہ کی تمثیل میں مسیح نے ہمیں سکھایا ہے کہ دُعا میں استقلال وہ چیز ہے جس کا خدا ہم سے مطالبہ کرتا ہے اور خدا اپنوں کی درخواستوں کو نظرانداز نہیں کرتا۔ اگر بیوہ کا بےحد اصرار قاضی کے ٹال مٹول پر غالب آ سکتا ہے تو خدا آسمانی باپ کے حضور جس کی رحمت عظیم ہے اُس کے برگزیدوں کی دُعائیں کس قدر زیادہ بااثر اور مستجاب ہو سکتی ہیں۔

ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقاصد پورا ہونے میں خواہ دیر لگے اُس کا وقت ہوا کرتا ہے اور اُسی کی حکمت کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔ ممکن ہے دُعا کے مقبول ہونے میں دیر لگتی نظر آئے لیکن ہمیں اپنی توقعات برقرار رکھنی ہیں، خدا کی طرف اپنی آس لگائے رکھنا ہے کیونکہ اُس کی یہی خواہش ہے۔

5- عبادت و دُعا کس جگہ کی جائے؟

انجیل مُقدّس ہمیں سکھاتی ہے کہ جناب مسیح کی آمد نے عبادت کو روایتی طور طریقوں سے آزاد کر دیا جنہوں نے اُسے خاص مقامات تک محدود کیا ہوا تھا جہاں مقررہ وقتوں کےلئے لوگوں کا آنا ضروری تھا۔ آپ نے سامری عورت سے فرمایا: "اے عورت میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلیم میں" (انجیل بمطابق یوحنا 4: 21)۔ آپ نے اُس عورت سے ، جس نے یہ دریافت کیا کہ کس جگہ دُعا و عبادت کرنی چاہئے، فرمایا کہ نہ تو اِس پہاڑ (کوہِ نابلس) پر نہ ہی کوہِ یروشلیم پر ہو گی۔ آپ نے اُسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ خدا تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اِس لئے جہاں کہیں ہم ہیں ہم اُس کی پرستش کر سکتے ہیں۔

مسیح نے اکیلے میں شخصی دُعا کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: "بلکہ جب تُو دُعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا کر۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔" (انجیل بمطابق متی 6:6)

اِس تنہائی سے مقصود یہ ہے کہ دُعا کرنے والے کےلئے ایک پرسکون جگہ ہو جہاں وہ آسمانی باپ کے ساتھ اکیلا ہو۔ یقیناً جب ہم جناب مسیح کے پہاڑی وعظ کی روشنی میں دُعا کے موضوع پر غور کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے دُعا کی کوٹھری کی تصویر کشی کی ہے کہ وہ گویا خدا آسمانی باپ کے نور سے معمور ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ نے اِس مقام پر لفظ "باپ" تین بار استعمال کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: "اپنے باپ سے ... دُعا کر" ، "تیرا باپ ... تجھے بدلہ دے گا" ، "تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کِن کِن چیزوں کے محتاج ہو۔"

یہ تنہا مقام وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ایماندار اپنے آسمانی باپ سے ملاقات کا لطف اُٹھاتا ہے۔ جو نور وہاں چمکتا ہے حیات بخش نور ہے۔ روح القدس سے وہ جگہ معمور ہوتی ہے جو خدا کی محبت کو لوگوں کے دِلوں میں اُنڈیلتا ہے۔ سیدنا مسیح نے سکھایا کہ "اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر کے ... دُعا کر۔" اِس مقام پر مسیح اِس بات کے خواہشمند ہیں کہ دُعا کرنے والا پوشیدگی کا پورا پورا لحاظ رکھے تا کہ اُن ریاکاروں کی طرح بن کر نہ رہ جائے جو عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تا کہ لوگ اُنہیں دیکھیں (متی 6: 5)۔ لوگوں نے خدا کی نسبت آدمیوں کی تعریف کی زیادہ خواہش کی لیکن الہٰی معلم کا ارشاد یہ ہے کہ "دروازہ بند کر۔" بند اِس لئے کر لے تا کہ دنیا سے کٹ جائے اور باپ کے ساتھ تھوڑی سی تنہائی پا لے جو اِس بات کے شوق و انتظار میں رہتا ہے۔

ایک فلسفی نے کہا "جب تم دروازہ بند کر کے اپنی کوٹھری کی تنہائی میں ہوتے ہو تو خود سے یہ نہ کہو کہ میں تنہا ہوں بلکہ یاد رکھو کہ خدا وہاں موجود ہے۔"

سیدنا مسیح کی تعلیم کہ "اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر" سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خدا کے ساتھ تنہائی سوا دروازہ بند کئے ممکن نہیں۔ اِس سے تو صرف یہ مراد ہے کہ جو دُعا کرتا ہے اُسے عبادت کےلئے کسی اکیلے اور خاموش مقام کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے یہ ایک کھیت ہو جیسے جناب یعقوب نے کیا، ممکن ہے انجیر کے درخت کے نیچے ہو جیسے مسیح کے شاگرد نتنی ایل نے کیا، ممکن ہے چھت پر ہو جیسے پطرس نے کیا یا پھر جیسے پہاڑ پر مسیح نے اکثر کیا۔

معلم دُعا جناب مسیح نے فرمایا: "اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا کر۔" آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہ حقیقت جان جائیں کہ خدا جسمانی آنکھ سے نہیں بلکہ ایمان کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے۔ اُس کا نور تو ہر اُس عابد و پرستار کے دِل میں چمکتا ہے جو خود کو دنیا سے الگ کر لیتا ہے اور مسیح کے روح کی راہنمائی کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے جو اُس فرد کو خدا کی حضوری میں لے آتا ہے۔

دراصل یہ بند دروازہ، پوشیدہ مقام، تنہائی و خلوت یہ ساری کی ساری اِس بات کی تعبیر ہیں کہ خود کو الگ کر لیا جائے ایک یکسوئی کی جگہ پر پاک مقام پر جہاں خدا کے کامل ہونے کا اور اُس کی پدرانہ محبت کا گہرائی سے دھیان اور مراقبہ کیا جا سکے۔

6- کیا دُعا کے مستجاب و مقبول ہونے کی شرطیں بھی ہیں؟

سیدنا مسیح نے فرمایا: "اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہو جائے گا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 7)

جناب مسیح کے شاگرد یوحنا رسول نے فرمایا: "اے عزیزو! جب ہمارا دِل ہمیں الزام نہیں دیتا تو ہمیں خدا کے سامنے دلیری ہو جاتی ہے۔ اور جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہمیں اُس کی طرف سے ملتا ہے کیونکہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں اور جو کچھ وہ پسند کرتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ اور اُس کا حکم یہ ہے کہ ہم اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے نام پر ایمان لائیں اور جیسا اُس نے ہمیں حکم دیا اُس کے موافق آپس میں محبت رکھیں۔" (1۔ یوحنا 3: 21-23)

درمیانی و ثالث کی خدمت دنیا میں جو سرانجام دیتا ہے، اُس کا اختیار و اثر اِس پر منحصر و موقوف ہوتا ہے کہ اُس کی اپنی شخصیت کیا ہے اور جس کی طرف سے وہ ثالث بنتا ہے اُس کے ساتھ اُس کے رشتہ کی نوعیت کیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی یہی بات ہے جہاں ہماری دُعا کے جواب و قبولیت کا انحصار مسیح کی شخصیت پر ہے جو واحد درمیانی ہے اور ہمارا درمیانی بننے کےلئے اُس کی شرط یہ ہے کہ "اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں۔"

سیدنا مسیح نے اِس قائم رہنے کی وضاحت انگور کی تمثیل میں کی۔ آپ نے فرمایا: "انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تا کہ زیادہ پھل لائے۔ اب تم اُس کلام کے سبب سے جو میں نے تم سے کیا پاک ہو۔ تم مجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی۔ اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔ میں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 1-5)۔

مسیح جو انگور کا حقیقی درخت ہے سچے ایماندار اُس کی شاخیں ہیں اور اُن کےلئے یہ ممکن ہے کہ اُن کی دعائیں قبول کر لی جائیں۔ ایماندار سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ مسیح میں قائم رہے اور آپ کے حکموں پر چلتا رہے اور زندگی اور دِل میں اُن کی پوری پوری اطاعت کرے۔ تب وہ راستبازی کی حالت میں دُعا کر سکتا ہے اور خداوند اُس کی التجاﺅں پر کان دھرے گا۔

کچھ حیران ہوتے ہیں کہ کیوں وہ اِس بابرکت زندگی کو پانے سے محروم ہیں جس میں شاخ کی زندگی درخت میں پیوست رہنے سے ہے۔ اُنہیں انگور کے درخت کی تمثیل میں آئے ہوئے اہم الفاظ پر غور کرنا چاہئے جہاں سیدنا مسیح نے فرمایا: "انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ ... تم ڈالیاں ہو۔" اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس الوہیت کی ساری معموری کے ساتھ جلالی بیٹا ہے اور باپ ہے جو ہم شاخوں پر نگاہ رکھتا ہے اور ہر ایک شاخ کی نشوونما کو ملاحظہ کرتا ہے۔ اگر ہم انگور کے ساتھ مسلسل پیوست رہنے کو نظرانداز کریں تو خدا میں ہماری ترقی میں رکاوٹ آنے لگتی ہے جس کے باعث ثمر آوری کم ہو جاتی ہے اور وہ باغبان قینچی لے کر اُسے چھانٹ دیتا ہے۔

کتاب مُقدّس ہمارے سامنے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت ایلیاہ (الیاس) کی زندگیوں میں دُعا کی قوت کی مثالیں رکھتی ہے اور اُن کی پھلدار زندگیوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ اُن کی زندگیوں پر غور کرنے سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ اُنہیں یہ استحقاق اور برکتیں تبھی عطا ہوئیں جب خداوند کے ضابطوں اور تادیبوں کو اُنہوں نے خوشی سے اپنا کر اُس کے حکموں کی تعمیل کی اور خود کو اِس دنیا سے جس پرشیطان کی عملداری ہے الگ کر رکھا تھا۔

اِس لئے اے میرے عزیز! اگر آپ کو مردِ دُعا بننے کا شوق ہے تو اپنے آپ کو الہٰی باغبان کے ہاتھوں میں سونپ دیں جب وہ آپ کی زندگی میں کانٹ چھانٹ کرنے والی قینچی استعمال کرتا ہے۔ کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ قینچی خدا کا کلام ہے۔ جناب مسیح کا قول ہے: "اب تم اُس کلام کے سبب سے جو میں نے تم سے کیا پاک ہو۔" اور آپ نے یہ شفاعتی دُعا بھی کی: "اُنہیں سچائی کے وسیلہ سے مُقدّس کر۔ تیرا کلام سچائی ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 17:17)۔

7- مستجاب و مقبول دُعا کا راز

سیدنا مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا: "خدا پر ایمان رکھو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی اِس پہاڑ سے کہے کہ تُو اُکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ اور اپنے دِل میں شک نہ کرے بلکہ یقین کرے کہ جو کہتا ہے وہ ہو جائیگا تو اُس کےلئے وہی ہو گا۔ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تم کو مل گیا اور وہ تم کو مل جائیگا" (انجیل بمطابق مرقس 11: 22-24)۔ یہ حیرت انگیز الفاظ ہمیں یقین دہانی کراتے ہیں کہ موثر و مقبول دُعا کا راز ایمان ہے جو خدا کے دِل پر اثر کرتا ہے۔ خداوند نے دو بنیادی عناصر بیان کئے ہیں جو دُعا کےلئے ضروری ہیں:

الف۔ دِل کی خواہش و تمنا:

یرمیاہ نبی نے خدا کا یہ پیغام دیا: "اور تم مجھے ڈھونڈو گے اور پاﺅ گے۔ جب پورے دِل سے میرے طالب ہو گے" (یرمیاہ 29: 12)۔ دِل کی خواہش دُعا کی روح ہے اور اگر خواہش کمزور ہے تو دُعا بھی کمزور ہی رہے گی۔ ایمان رکھنے والے میں روحانی برکتوں کے حصول کی سچی خواہش ہونی چاہئے لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ دنیوی خواہشات اوّل مقام لے لیتی ہیں۔ ایسے شخص کی دُعا میں رسائی نہیں رہتی کیونکہ وہ خداوند کے حکموں میں قائم نہیں ہے جو یہ ہے کہ "بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی" (انجیل بمطابق متی 6: 33)۔

ب۔ ایمان:

"جو کچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تم کو مل گیا۔" ایمان سے ہم خدا کو جانتے ہیں، ایمان ہی سے ہم خداوند یسوع کو قبول کرتے ہیں، اور ایمان ہی سے ہم فتح مند زندگی گزارتے ہیں۔ اسی طرح ایمان سے دُعا سے بھرپور زندگی، طاقت اور توفیقِ دُعا ملتی ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ نئے سرے سے سیکھیں کہ ایمان کیا ہے، ایمان سے زندگی گزاریں اور ایمان میں دُعا کریں۔

"خدا پر ایمان رکھو۔" یہ الفاظ خداوند نے اُس وقت کہے جب آپ نے ایسے ایمان کے بارے میں گفتگو کی جو پہاڑوں کو ہلا اور سرکا سکتا ہے۔ ایسا ایمان مسیح اپنے ہر شاگرد کو ہر زمانے اور ہر دور میں عطا کرتے ہیں۔ اِسی ایمان کی بدولت ابتدائی مسیحیوں نے معجزات کئے، بیماروں کو شفا دی اور بدارواح کو نکالا۔ اور یہ کام گویا پہاڑوں کو سرکانے کے مترادف ہیں۔

اگر ہم دُعائیہ اور شفاعتی زندگی کی تمنا کرتے ہیں جس میں خوشی و شادمانی، قوت و برکت ہے تو ہمیں نئے سرے سے سیکھنا ہے کہ ایمان کیا ہے کیونکہ ایمان کا تعلق خدا کے ساتھ ہے اور اُسے اُسی کے کلام پر بھروسا رکھ کر قبول کرنا ہے۔

خدا کے جواب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے پہلے ہی اُس پر یقین کرنے کا نام ایمان ہے۔ ایمان اندیکھی چیزوں کو دیکھنا ہے۔ ایسا شاید عجیب معلوم ہو لیکن یہ دُعا میں بہت اہم ہے۔ اِس طرح خدا کی طرف سے دُعا کی استجابت و قبولیت کو جو آسمانی برکت ہے آنکھوں سے دیکھنے سے پہلے ہی روحانی طور پر سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایمان ایسا کرتا ہے اور وہ جان جو خدا اور اُس کے جواب کی طالب ہوتی ہے اُسے مسیح کے فرمان کے موافق یہ یقین و تسلی ملے گی کہ جو کچھ مانگا گیا ہے وہ ملے گا: "مانگو تو تمہیں دیا جائیگا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاﺅ تو تمہارے واسطے کھولا جائیگا۔"

مسیح نے فرمایا: "جو کچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین کرو کہ تم کو مل گیا اور وہ تم کو مل جائیگا۔" یہ وہ حوصلہ افزا کلمات ہیں جو دُعا مانگنے والے کی ہمت بڑھاتے ہیں کہ آسمانی باپ ایمان کی دُعاﺅں کو سنتا اور جواب دیتا ہے۔ ایمان میں آغاز کریں، اے عزیز، چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ دُعا سے بھرپور ایک نئی زندگی شروع کریں اور آپ خدا سے یہ تسلی پائیں گے کہ آپ کو مسیح میں فضل مل گیا ہے۔ یہ فضل قدم بہ قدم آپ کی راہنمائی کرے گا کہ آپ دُعا میں وفادار رہیں۔ روح القدس سے توقع رکھیں کہ وہ آپ کے دِل میں کام کرے گا۔ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: "اور یوں ہو گا کہ میں اُن کے پکارنے سے پہلے جواب دوں گا اور وہ ہنوز کہہ نہ چُکیں گے کہ میں سُن لوں گا" (یسعیاہ 65: 24)۔ جیسا خدا نے فرمایا ہے وہ ویسا ہی کرتا ہے۔

8- دُعا میں کون ہماری رہبری کرتا ہے؟

ہم رومیوں کے نام خط 8: 26 میں پڑھتے ہیں:

"اِسی طرح روح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے کیونکہ جس طور سے ہم کو دُعا کرنا چاہئے ہم نہیں جانتے مگر روح خود ایسی آہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جنکا بیان نہیں ہو سکتا۔"

اور افسیوں کے نام خط 6: 18 میں ہم پڑھتے ہیں:

"اور ہر وقت اور ہر طرح سے روح میں دُعا اور منت کرتے رہو اور اِسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مُقدّسوں کے واسطے بلاناغہ دُعا کیا کرو۔"

روح القدس دراصل روحِ فضل اور روحِ دعا و مناجات ہے جو ایماندار کے دِل میں اُنڈیلا جاتا ہے۔ کتاب مُقدّس میں لکھا ہے کہ "وہ خدا کی مرضی کے موافق مُقدّسوں کی شفاعت کرتا ہے" (رومیوں 8: 27)۔

دُعا اپنے جوہر کے اعتبار سے ہمارے اندر روح القدس کی قوت کا اظہار ہے۔ اُس کے منتظر ہوں، اُس پر توکل رکھیں اور اُس پر ایمان لائیں۔ روح کی راہنمائی میں بھروسے کی کمی کی وجہ سے دُعا میں مایوسی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درست اور غالب آنے والی دُعا کا انحصار اِس بات پر ہے کہ ہم کس حد تک روح القدس سے معمور ہیں۔

9- کس کے نام کا واسطہ دے کر دُعا پیش کی جائے؟

جناب مسیح نے فرمایا: "اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کروں گا تا کہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 13-14)۔ آپ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے نام کی قدرت پر پوری طرح سے بھروسا کریں جس کے حضور سارے گھٹنوں کو جھکنا چاہئے اور اُسی میں ساری دُعاﺅں کا جواب ملتا ہے۔

اِس قول میں ایک سچائی ہے جسے ہمیں سمجھنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ مسیح کے نام میں دُعا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دُعا کے شروع میں یا آخر میں اُس کا نام پکارا جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایماندار کو مسیح کی روح میں اور اُس کی شخصیت اور خوبی کے وسیلہ سے دُعا کرنی چاہئے۔

الفاظ "اگر میرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا" کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم باپ سے دُعا کریں گے تو جناب مسیح اپنے نام اور اختیار میں جواب دیں گے۔ ایماندار اپنی دُعا مسیح کے نام میں مانگتے ہیں اور وہ ہستی باپ کے نام میں کام کرتی ہے۔ درحقیقت ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو وہ سب سے پہلے مسیح کی اہلیت اور شفاعت کے بارے میں سوچتا ہے جو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ تاہم جب وہ مسیح کے فضل اور معرفت میں بڑھتا ہے تو وہ اُس کے ساتھ ایک گہری یگانگت میں داخل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسیح کے نام میں دُعا کرنا سیکھتا ہے اور یہی مسیح کی روح میں دُعا ہے۔ باالفاظ دیگر مسیح کے ساتھ یگانگت ہمیں اُس کی فطرت میں رفاقت فراہم کرتی ہے اور پھر ہم میں اُس کی مرضی کے مطابق دُعا کی قوت پیدا ہوتی ہے۔

آپ نے فرمایا: "اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہو جائے گا۔" اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان رکھنے والا فرد جس کے دِل میں مسیح سکونت کرتے ہیں مسیح کے نام میں ملنے والی تمام قوت کا لطف اُٹھا سکتا ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ جناب مسیح نے ہمیں یہ دُعا سکھائی ہے اور خاص طورپر اُس کے نام میں دُعا اُس کے ساتھ یگانگت میں دُعا کرنا ہے۔

10- ہمارا شفیع کون ہے؟

جناب مسیح نے ہمیں سکھایا کہ ہم کیسے دُعا کریں اور اُن کے کلام الہٰی سے ہم اُن کے نام میں دُعا کے معنٰی سیکھتے ہیں۔ اب ذرا بطور وکیل اور شفیع مسیح کی قوت پر غور کر لیں۔

آپ نے اپنے شاگردوں کو دیئے جانے والے الوداعی پیغام کا اختتام اُن کےلئے شفاعتی دُعا سے کیا جس سے آپ نے اپنا تمام کئے کاموں پر مہر ثبت کی۔ آپ نے اپنوں کےلئے یہ کہتے ہوئے شفاعت کی: "میں اُن کےلئے درخواست کرتا ہوں ... اُس نام کے وسیلہ سے جو تُو نے مجھے بخشا ہے اُن کی حفاظت کر ... اُنہیں سچائی کے وسیلہ سے مُقدّس کر" (انجیل بمطابق یوحنا 17: 17،11،9)۔

اِس میں شک نہیں کہ یہ دُعا آسمان میں آپ کی شفاعت کا نمونہ ہے۔ اِسی سچائی سے متاثر ہو کر رسول نے کہا: "اِسی لئے جو اُس کے وسیلہ سے خدا کے پاس آتے ہیں وہ اُنہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کےلئے ہمیشہ زندہ ہے" (عبرانیوں 7: 25)۔ اِس آیت سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسیح نے جیسے زمین پر کیا، ویسے ہی وہ باپ کے ساتھ مسلسل رفاقت میں اور اُس کے حضور براہ راست شفاعت سے اب بھی آسمان میں نجات کا اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ مسیح کے تمام پرفضل کاموں میں ہمیشہ آپ کی شفاعت مقدم ہے اور ہر وہ برکت جو ہم پر آسمان سے نازل ہوتی ہے الہٰی چھاپ کی حامل ہوتی ہے اور مسیح کی شفاعت کے وسیلہ سے ہی ملتی ہے۔

بےشک مسیح کی شفاعت کفارہ کا ثمر اور اُس کا جلال ہے۔ جب آپ نے انسانیت کے فدیہ کےلئے اپنا آپ دیا تو آپ کا ایک ہی مقصد تھا: انسانوں کی نجات میں خدا کا جلال۔ آپ کی شفاعت سے یہ مقصد پورے طور پر سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خدا کا جلال گنہگار انسان کی نجات سے ظاہر ہوتا ہے جس کی زندگی خدا کی بزرگی و تمجید کےلئے ایک زندہ پرستش بن جاتی ہے۔

11- مقبول دُعا کی شرطیں کیا ہیں؟

دُعا کی مقبولیت کےلئے کچھ لازمی شرائط ہیں وگرنہ کوئی فائدہ نہیں۔ اور وہ شرائط یہ ہیں:

1۔ دُعا دِل کی گہرائی سے کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ جو دِلوں کو جانتا ہے اُس کے سامنے محض الفاظ اور خارجی اظہار بے معنٰی ہیں۔ وہ دُعا جو دِل سے نہ ہو خدا کو پسند نہیں اور وہ اُسے قبول نہیں کرتا۔

2۔ اُس کی لامحدود عظمت و پاکیزگی، علم و قدرت کو مدنظر رکھتے ہوئے دُعا احترام و عقیدت سے کی جانی چاہئے۔ چونکہ سچے مذہب میں اُس کی الہٰی مرضی بنیادی عنصر ہے، یعنی اُن لوگوں میں جو اُسے جانتے ہیں اُس کے پاک نام کی تعظیم کرتے ہیں اور جیسے آسمان کے فرشتے خدا کی پرستش تعظیم سے کرتے ہیں وہ بھی ویسے کرتے ہیں، اِس لئے ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم اُسے ایسے الفاظ سے پکاریں جو احترام سے خالی ہیں۔

3۔ دُعا حلیمی سے کی جانی چاہئے اور ہر وقت یہ شعور بیدار رہے کہ ہم اپنی فاسد طبیعت کے باعث خدا کی نگاہ میں اُس کے حضور آنے کے مستحق نہیں۔ ہمیں مردِ خدا حضرت ایوب کے نمونہ کو سامنے رکھنا چاہئے جنہوں نے کہا: "میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں" (ایوب 42: 6)۔ اور جلیل القدر نبی جناب یسعیاہ نے کہا: "مجھ پر افسوس! میں تو برباد ہوا! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں" (یسعیاہ 6: 5)۔ ہمیں دُعا اُس محصول لینے والے کی مانند کرنی چاہئے جو ہیکل میں دُعا کی غرض سے داخل ہوا اور دور کھڑے ہو کر اتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہا: "اے خدا! مجھ گنہگار پر رحم کر" (لوقا 18: 13)۔

4۔ دعا میں خدا کے حضور مکمل طور پر سر تسلیم خم ہونا چاہئے۔ جو کوئی اپنا آپ خدا کے حضور سپرد کرتا ہے چاہے اُس کی درخواست کچھ ہی کیوں نہ ہو اُسے یہ کہنا چاہئے کہ "میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔" اگر ایک بچہ کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اُسے اپنے تمام معاملات اپنے زمینی باپ کے ہاتھوں میں دے دینے چاہئیں تو کتنا زیادہ ہمیں اپنی مرضی اپنے آسمانی باپ کی سپردگی میں دے دینے کی ضرورت ہے کہ صرف وہی جانتا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے؟

5۔ دُعا کو ایمان کے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ صرف ایمان کے ساتھ مانگی گئی دُعا خدا کے حضور موثر ہے۔ شکی آدمی کو خدا تعالیٰ کے حضور سے کچھ نہیں ملتا۔ دُعا کرنے والا یہ یقین رکھے کہ:

الف۔ خدا موجود ہے۔

ب۔ خدا دُعاﺅں کو سننے اور اُن کا جواب دینے کی قدرت رکھتا ہے۔

ج۔ خدا دُعا کا جواب دینا پسند کرتا ہے۔

د۔ اگر ہماری دُعا خدا کی مرضی کے مطابق اور ہماری بھلائی کےلئے ہو تو خدا ضرور جواب دے گا۔

6۔ دُعا میں اپنی بڑائی یا لالچ سے پیدا ہونے والی کوئی نفسانی خواہش نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کا جلال مطلوب ہونا چاہئے۔

7۔ دُعا مسیح کے نام میں مانگنی چاہئے جس کے بارے میں کتاب مُقدّس کا اعلان یہ ہے کہ وہ انسان کا واحد درمیانی اور شفیع ہے۔

8۔ دُعا کو خدا کے مقاصد کے شایانِ شان ہونا چاہئے۔

12- روزانہ کتنی دُعائیں فرض ہیں؟

یہودیوں کی مذہبی کتاب تالمود میں ایک شخص کےلئے یہ ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ وہ دن میں تین سے زیادہ بار دُعا کرے کیونکہ ہر گھڑی کی دُعاﺅں سے خدا کو اکتاہٹ ہوتی ہے۔ لیکن سیدنا مسیح نے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے معلم بن کر آئے یہ فرمایا:

"ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا چاہئے۔" (انجیل بمطابق لوقا 18: 1)

ظاہر ہے کہ اِس سے اُن کا یہ مقصد نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے گھٹنوں پر رہیں بلکہ آپ کا مطلب تو یہ تھا کہ دُعا سے کبھی نہ تھکنا چاہئے۔

اب رہا دُعاﺅں اور عبادتوں کا شمار اور اُن کے اوقات تو اِس کےلئے کتاب مُقدّس نے کوئی حد مقرر نہیں کی، تاہم اِس میں مردان دُعا کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں:

  • دانیال نبی صبح کے وقت، دوپہر کو اور شام کو دُعا کیا کرتے تھے۔

  • داﺅد نبی نے زبور 119: 164 میں فرمایا: "میں تیری صداقت کے احکام کے سبب سے دن میں سات بار تیری ستائش کرتا ہوں۔"

  • انجیل شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا مسیح صبح سویرے اُٹھتے اور کسی ویران جگہ میں جا کر تنہائی میں دُعا کیا کرتے تھے (مرقس 1: 35)۔ سچ بھی یہی ہے کہ صبح کا وقت بہترین وقت ہوتا ہے۔ بلاشک و شبہ دُعا اور گیان دھیان کےلئے اِس سے بہتر کوئی وقت نہیں۔ اِس وقت میں ہماری روح سرگرم اور چوکنّی ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ ہی مستحسن عمل ہے کہ ہم اپنے وقت کا پہلا پھل خداوند کے حضور نظر کریں۔

ایک متّقی آدمی نے کہا: "صبح دن کا دروازہ ہے اور یہ اچھا عمل ہے کہ اِس دروازہ کی حفاظت دُعا سے کی جائے۔"

ایک اَور شخص کا یہ کہنا ہے کہ "صبح کا وقت اُن دھاگوں میں سے ایک دھاگہ ہے جس سے ہمارے روزانہ کے کام بندھتے ہیں، اِس لئے یہ اچھا ہے کہ اِسے دُعا سے اچھی طرح باندھیں۔"

انجیل شریف نے جس مذہب کی تعلیم دی ہے اُس میں دُعا معین اوقات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اُسے دِل کی امنگ اور خواہش پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ جس کا دِل خدا تعالیٰ سے لگ چکا ہے وہ اُس سے دُعا مانگتا ہے اور ایسا کرنے سے تھکتا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کی دُعا بظاہر حمد و ثنا کے الفاظ کی حامل نہ ہو لیکن پھر بھی یہ ایک ایسی سرگرمی ہو سکتی ہے کہ جس سے خدا کو جلال ملے۔ سیدنا مسیح کے کلام سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ دُعا ایک وضع و صورت کی نسبت حالت و کیفیت کا نام ہے۔ یہ الفاظ سے زیادہ ایک روحانی چیز ہے۔ یہ ایک مذہبی فریضہ کی نسبت خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت میں رفاقت رکھنا ہے۔

یہ سچ ہے کہ جناب مسیح نے اپنے شاگردوں کو دُعا کا ایک جیتا جاگتا نمونہ دیا لیکن اِسے کسی سانچے میں ڈھال کر پیش نہیں کیا کہ وہ وہاں جم کر پتھرا جائے۔ آپ کی غرض اِس نمونہ سے یہ تھی کہ یہ دُعا کےلئے ایک نکتہ آغاز ہو جس سے دُعا نمو پائے۔ جب آپ نے اُنہیں یہ نمونہ پیش کیا تو فرمایا "پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو" جس کا مطلب ہے روح میں دُعا کیا کرو۔

سوالات

عزیز قاری، اگر آپ نے اِس کتاب کا مطالعہ کیا ہے تو آپ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب دینے کے قابل ہوں گے۔ اگر آپ کے زیادہ تر جوابات درست ہوئے تو ہم آپ کو ایک عمدہ کتاب بطور تحفہ روانہ کریں گے۔

  1. کیا دُعا انسان میں طبعی رجحان ہے یا ایک اکتسابی چیز؟

  2. دُعا کیا ہے؟

  3. دُعا میں خدا تعالیٰ کے حضور ہمارا اندرونی رویہ کیسا ہونا چاہئے؟

  4. ہمیں کتنی مرتبہ دُعا کرنی چاہئے؟

  5. ہمیں کس جگہ دُعا کرنی چاہئے؟

  6. مقبول دُعا کی کیا شرائط ہیں؟

  7. موثر دُعا کا کیا راز ہے؟

  8. دُعا کا جواب نہ ملنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

  9. مسیح کے نام میں دُعا کرنے کا کیا مطلب ہے؟

  10. آسمان میں مسیح کی خدمت کیا ہے؟

  11. ایک ایماندار کو دُعا کرتے وقت کیا یقین رکھنا چاہئے؟

  12. ہم اپنی دُعاﺅں میں سستی پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany