اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
تاریکی مٹتی جاتی ہے اور اَب حقیقی روشنی چمک اُٹھی ہے

تاریکی مٹتی جاتی ہے اور اَب حقیقی روشنی چمک اُٹھی ہے

عبد المسیح

2015


1- آفتابِ صداقت آپ پر چمک رہا ہے

آج کل ہزاروں لوگ کامیابی اور بہتر قسمت کے حصول کی خاطر بڑی اُمید و توقع کے ساتھ دور دراز ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔ اِن میں سے بہت لوگ جلد ہی زندگی کی بے رحم حقیقتوں کے باعث مایوس ہو جاتے ہیں۔ جب وہ اپنی محدودیت اور ناکامیوں کو دیکھتے ہیں تو اُن پر یہ خیال حاوی ہوتا جاتا ہے کہ آنے والے حالات بد سے بدتر ہی ہوں گے۔ تب وہ انتہائی شکست کی حالت میں اپنے آبائی وطن کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ اگر آپ سڑک کے کنارے گزرنے والے افراد کے چہروں کا بغور جائزہ لیں توآپ بعض اوقات ایسی بھی آنکھوں کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو بغیر کسی اُمید کے بھسم شدہ آتش فشاں پہاڑ کی مانند خالی ہوتی ہیں۔

اگر وہ زندہ خدا کے پاس آ کر اپنی زندگی اُس کے لائق بسر کریں تواُن کےلئے ممکن ہے کہ وہ اپنی تکالیف و مشکلات سے رہائی پا سکیں۔ دُنیا کے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اپنے خالق خدا کو بھلا کر مادیت پر مبنی مقاصد اور دُنیاوی خواہشات کی متلاشی ہے، اور وہ لوگ تنہائی کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بعض ممالک میں انسان کی خدا سے جُدائی دھریت کی حد تک پہنچ چکی ہے، جس میں خدا کے وجود کے عقیدہ کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ مگر خدا کی ازلی و اطمینان بخش حقیقت ہمیشہ اُس کی مخلوق میں ظاہر ہوتی ہے۔

مثلاً، قازقستان میں حکومت کو ایسے اساتذہ کی ضرورت رہی ہے جو اپنے طالب علموں کو ایسا نصاب پڑھا سکتے جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہو۔ اُن اساتذہ نے جدید سائنسی طریقوں کے ذریعہ بچوں کے احساس و ذہنوں سے خدا کی بابت اعتقاد کو تلف کرنا چاہا۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ موجودہ دُنیا صرف مادہ سے بنی ہے اور انسان کے اندر کوئی رُوح نہیں، اور یہ بھی کہ انسانی موت کے بعد مزید کوئی زندگی نہیں اور موت کے بعد زندگی کا اعتقاد محض ایک خیال ہے۔

تاہم، ایک دن ایک لڑکی نے اپنے استاد سے دریافت کیا کہ "آپ کیوں خدا کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے اُس کا کوئی وجود نہیں؟ جبکہ ہماری زبان میں "خدا" کا نام برابر موجود ہے، تو اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ درحقیقت ایسی ہستی لازماً موجود ہے۔" اُس بچی نے ابھی اپنی گفتگو بمشکل ختم کی تھی کہ استاد نے اُس کے مُنہ پر طمانچہ دے مارا۔ پھر وہ جلدی سے منتظم اعلیٰ کے پاس گیا کہ اُسے اُس واقعے کے بارے میں بتائے۔ سکول کی انتظامیہ نے اُس لڑکی کو ایک سخت قسم کے بے دین اقامتی مدرسہ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ وہاں خدا پر ایمان کا انکار کرنا سیکھ سکے۔ اُس لڑکی کی والدہ ایک بیوہ اور ایماندار خاتون تھی، سو وہ خدا سے دُعا کرنے اور اُسے پکارنے لگی۔ اپنی بیٹی کو اِس بے دین اسکول سے بچانے کی خاطراُس نے مختلف سرکاری دفتروں میں جا کر دھوڑ دھوپ کی۔ آخرکار، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ گرگس کے دُور دراز کے پہاڑی علاقے کی جانب بھاگ گئی جہاں ویرانوں و پہاڑوں میں ابھی بھی کچھ آزادی کا احساس تھا۔ وہاں خدا کے عرفان کی روشنی ابھی تک نہیں بُجھی تھی اوراُس کے وجود پر ایمان قائم و دائم تھا۔ اِس چھوٹی لڑکی کو وہاں ایسے دوست ملے جو خدائے خالق پر ایمان رکھتے تھے۔ جُوں جُوں اِس لڑکی کی رحیم و زندہ خدا کی بابت آگہی بڑھی اور خدا پر اُس کا ایمان ترقی کرنے لگا، تو اُس نے اپنے آپ کو گمشدہ اور بے مقصد نہ پایا۔ اُسے دُنیا کا نُور مل گیا تھا اور اب وہ اُس نُور کو اپنے گرد و نواح میں منعکس کرنے کے قابل تھی۔

عزیز قاری! ہمیں آپ کی سوچ و حالت کی بابت علم نہیں۔ تاہم، اگر تفکرات آپ پر حملہ آور ہیں اور تاریکی نے آپ کو گھیرا ہوا ہے، تو خدا کے پاس آئیے جو دُنیا کا نُور ہے۔ وہ بانہیں پھیلائے آپ کو اپنے گلے لگانے کےلئے برابر تیار ہے کہ آپ کی حیات کو نئے معنٰی عطا کرے۔ آگے دی گئی وضاحتوں کی بابت سوچیں تا کہ آپ کا ذہن روشن ہو سکے اور آپ اپنے مستقبل کےلئے ایک زندہ اُمید پا سکیں۔

2- نُور کو خوش آمدید کہنے کےلئے بیدار ہو جائیں

خدا کا وعدہ آپ کی بابت کتنا ہی عظیم ہے! وہ آپ کو اپنی حیرت انگیز روشنی کی طرف بُلاتا ہے۔ اپنے آپ کو اپنے مسائل و تاریکی میں مت ڈھانکیے، کیونکہ خدا کا نُور آپ پر چمک رہا ہے۔ اُس کی پُر مروت و تاثیر کن روشنی کےلئے اپنے دِل کو کھولئے۔ تب آپ خدا کے نُور سے منور ہو کر شیشے کی مانند اُس کے جلال کو منعکس کر سکیں گے۔ خدا شخصی طور پر آپ کو دعوت دے رہا ہے۔ سو اپنے غموں سے لپٹے نہ رہیں، اور نہ ہی اپنی خفگی اور نفرت کو موقعہ دیں کہ وہ آپ کے دِل کے دروازہ کو بند کر دیں، کیونکہ خدا کی محبت آپ سے مخاطب ہے اور اُس کی قدرت آپ کو نیا بنا دے گی۔

ایک تاریک رات کو سفر کے دوران، ایک مسافر کو دُور سے روشنی دکھائی دی اور وہ خُوشی سے اُس کی جانب بڑھا۔ مگرجس راستہ پر وہ چل رہا تھا وہ ابھی بھی تاریک تھا۔ تاہم، اُس نے اپنی منزل کا تعین کیا اور اُس کی جانب دوڑا۔ روشنی سے قریب ایک سو میٹردُور اُسے اپنے اِردگرد کی اشیاء کی پہچان ہونے لگی، جو تاریکی کی وجہ سے اُس کی نظر سے اوجھل تھیں۔ کھمبے پر موجود روشنی کے نیچے وہ کھڑا ہو کر اُس علاقہ کا نقشہ پڑھ سکتا تھا۔

روشنی میں آ کر اُسے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریک راستوں پر چلتے وقت اُس کا لباس انجانے میں مٹی و کیچڑ کے دھبوں سے بُری طرح آلودہ ہو چکا تھا۔ اُس نے روشنی کی اِن منکشف کر دینے والی شعاعوں میں اپنے لباس کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ اُسے ایک گھر نظر آیا جس میں روشنی تھی۔ یہ شخص اُس گھر کی جانب بڑھا اور گھر کے مدخل کے نزدیک آ کھڑا ہوا۔ بڑی حیرت اور خوف کی حالت میں اب اُس شخص کو اپنی سفید قمیض پر اَور بھی زیادہ مٹی کے داغ نظر آئے اور اُسے شرمندگی کا احساس ہوا۔

عزیز قاری! خدا کی روشنی میں آئیے۔ خدا کی جلالی حضوری کے نزدیک بغیر کسی خوف کے آئیں، اور اِس بات سے خوفزدہ نہ ہوں کہ اُس کے نُور میں آپ کے گناہ ظاہر ہو جائیں گے۔ اُس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کریں۔ اِس ازلی نُور کی بدولت آپ اُس وقت تک نئے نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ پاک و صاف ہونے کی اپنی ضرورت کا اعتراف نہ کریں۔ کیونکہ ہر کوئی جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی نظر میں راستباز ہے، وہ خدا کی نظر میں ابھی تک تاریکی ہی میں ہے۔ لیکن جو حلیمی سے خدا کے نزدیک آتا ہے، اُس کا فخر و غرور چکنا چُور ہو جاتا ہے۔ تب وہ نُور میں چلنے لگتا ہے۔

جتنا ہم خدا کے قریب آتے ہیں، اُتنی ہی ہماری رُوحانی حالت واضح نظر آتی ہے۔ مُقدس لوگ خدا کے سامنے شکستہ حالت میں ہوتے ہیں۔ ضرور ہے کہ ہمارا تکبر خدا کے سامنے بالکل ٹوٹ جائے، ورنہ ہمیں روحانی شفا نہ ملے گی۔

یُوحنّا رسُول نے اِس سچائی کا تجربہ کیا اور 1- یوحنا 1: 9 کے مطابق پاک انجیل میں یوں لکھا کہ: "اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔"

آپ بھی خدائے پاک کے حضور اپنے ماضی کے تمام گناہوں جھوٹ، چوری یا ناپاکی کا اقرار کیجئے۔ سچّائی کے نُور کے پاس آئیے اور خداوند کے حضور اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیجئے۔ اپنے آپ کو دھوکا مت دیں اور یہ خیال نہ کریں کہ آپ راستباز ہیں۔ خدا کے سوا کوئی راستباز نہیں۔

عزیز قاری! ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ اِس وقت جیسے بھی ہیں خدا آپ سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ گناہگاروں کو پیار کرتا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ ہر بشر توبہ کرے اور رضاکارانہ طور پر اُس کے پاس لوٹ آئے تا کہ کوئی بھی ہلاک نہ ہو۔

ایک نوجوان شخص تاریک جنگل میں اپنا راستہ بھول گیا اور اپنے اردگرد کی مختلف آوازوں سے خوف زدہ سا ہونے لگا۔ اُس نے گھنے درختوں اور کانٹوں میں سے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی، جس سے اُس کے کپڑے پھٹ گئے۔ اچانک اُسے اپنے بالکل پیچھے ایک آواز یہ کہتی ہوئی سُنائی دی: "رُکو اور واپس مُڑ جاﺅ۔" اُس شخص نے سوچا کہ گویا اُسے ایسے ہی آواز کا گمان سا ہوا ہے، سو وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ مگر ایک بار پھر اُس نے آواز کو سُنا، جو اِس بار پہلے کی نسبت زیادہ نزدیک اور واضح تھی۔

اُس نے اپنی جیب سے ایک ماچس نکالی اور تیلی کی رگڑ سے آگ کو سُلگایا۔ ٹمٹماتی سی روشنی میں اُس نے دیکھا کہ وہ ایک بڑے گڑھے کے کنارے کھڑا تھا، اور اگر وہ ایک قدم اَور اُٹھاتا تو گڑھے میں گر کر موت کی آغوش میں جا سکتا تھا۔

خدا آج آپ کو کہتا ہے "رُکو اور لوٹ آﺅ۔ میرے پاس آﺅ۔" اگر آپ گناہ کرنا جاری رکھیں گے تو آپ ابدی ہلاکت کے گڑھے میں گر جائیں گے۔ توبہ کریں اور زندہ خدا کی جانب لوٹ آئیں۔ اپنے گناہوں کو ترک کیجئے، اور اپنا دِل ہمارے خدا کی پاک رُوح کےلئے کھولئے۔ دُور مت رہیں، بلکہ آئیں اور اُس کے نُور میں قیام کریں۔ خدا کی محبت آپ کو اپنی جانب کھینچتی ہے تا کہ وہ آپ کو اپنی پاک زندگی سے معمور کر سکے۔

کچھ لوگ خدا کی بُلاہٹ سُن کر ہاں میں جواب دیتے ہیں اور اُس کی مرضی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر ہر طرح کی قربانی اور مشقت کرنے کےلئے خوشی سے تیار ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک شیخ اپنے سامعین کو خدا تعالیٰ کے احکامات و قوانین کی بابت تلقین کر رہا تھا۔ وہ اِس بات پر خاص زور دے رہا تھا کہ آتشِ جہنم ہر اُس زندگی کے انتظار میں ہے جو اللہ کے احکامات ماننے کے تمام لوازمات کو پورا نہیں کرتا۔ اچانک اُس شیخ پر یہ خیال حاوی ہونے لگا کہ وہ خود اِس آتشِ جہنم کا شکار ہو جائے گا کیونکہ اُسے اپنے خیالات میں ناراستی اور اپنی گفتگو میں خطاﺅں کا شدت سے احساس ہوا۔ چنانچہ اُس نے فیصلہ کیا کہ جب تک وہ اپنی تمام راہوں میں پاک و صاف نہیں ہو جاتا، وہ روزہ رکھے گا اور دُعا کرے گا۔ چھ ماہ کی ریاضت کے بعد، اُس شیخ کی بیوی اُسے چھوڑ کر چلی گئی کیونکہ وہ تارک الدنیا شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ گوشہ نشینی کرنے والے انسان کے ساتھ زندگی بسر کرنا غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اس پُختہ ارادہ والے شیخ نے اپنے آپ کو پارسا بنانے کی خاطر ایک سال تک ریاضت کے اِس سلسلہ کو جاری رکھا۔ مگر اِس کے باوجود اُسے مایوسی نے گھیر لیا کیونکہ اُسے اِس بات کا اَور بھی زیادہ احساس ہوا کہ دُنیا میں کوئی شخص بھی اپنی ذاتی کوششوں سے اپنے آپ کو بہتر نہیں بنا سکتا، حتیٰ کہ نماز و ریاضت بھی انسان کو اُس کے گناہ سے بچانے میں ناکام ہیں۔

تب خدا نے کچھ ایماندار دوستوں کو اُس شیخ کے پاس بھیجا، جنہوں نے اُس کی نُور حقیقی تک راہنمائی کی جو کہ توریت، زبور اور انجیل کے پاک نوشتوں سے عیاّں ہوتا ہے۔ اُس نے اِن پاک نوشتوں کا مطالعہ کیا اور الٰہی نُور سے مُنور ہو گیا۔ یوں وہ خدا کے بچانے والے فضل کی بدولت اپنی ماضی کے گناہوں سے پاک صاف ہو گیا اور خدا نے اُسے ایک راستباز شخص میں تبدیل کر دیا۔

کیا آپ بھی اُن پاک نوشتوں کو پڑھنا پسند کریں گے جو اُس بنگلہ دیشی شیخ نے پڑھے؟ کیا آپ بھی دُعا میں وہ سب کچھ دریافت کرنے کی جُستجو کرنا چاہیں گے، جو اُس بنگلہ دیشی شیخ نے دریافت کر لیا؟ کتاب مُقدس کی درج ذیل آیت پر غور و فکر کریں اور خدا تعالیٰ سے منت کریں کہ وہ آپ کی آنکھیں کھول دے تا کہ آپ اُس کے پُر جلال نُور کی قدرت کے باعث اپنے گناہوں سے بچائے جا سکیں۔

"جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اُن پر نُور چمکا۔" (یسعیاہ 9: 2)

3- الہٰی نُور طالع ہو چکا ہے

نُورِ خداوندی کے ظہور کا پیغام ایک پُراسرار مذہبی نظریہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو خدا کا وہ وعدہ ہے جو اُس نے ایمان کے سورماﺅں اپنے نبیوں کو دیا۔ انجیل مُقدّس کے درج ذیل حوالہ جات کو پڑھئے اور خود پرکھ کیجئے کہ واقعی خدا نے اپنے نُور کو ہم تک بھیج کر ہماری دُنیا کی تاریکی کو چاک کیا۔

"چھٹے مہِینے میں جبرائیل فرِشتہ خدا کی طرف سے گلِیل کے ایک شہر میں جِس کا نام ناصرة تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔ جِس کی منگنی داﺅد کے گھرانے کے ایک مَرد یُوسُف نام سے ہوئی تھی اور اُس کنواری کا نام مریم تھا۔ اور فرِشتہ نے اُس کے پاس اندر آ کر کہا سلام تجھ کو جِس پر فضل ہوا ہے! خداوند تیرے ساتھ ہے۔ وہ اِس کلام سے بہت گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کَیسا سلام ہے۔ فرِشتہ نے اُس سے کہا اَے مریم! خَوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔ اور دیکھ تُو حامِلہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یِسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالےٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اُس کے باپ داﺅد کا تخت اُسے دے گا۔ اور وہ یعقو ب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخِر نہ ہو گا۔ مریم نے فرِشتہ سے کہا یہ کیوں کر ہو گا جبکہ میں مَرد کو نہیں جانتی؟ اور فرِشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ رُوح القدس تجھ پر نازِل ہو گا اور خدا تعالےٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مَولودِ مُقدّس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ اور دیکھ تیری رِشتہ دار الیشبع کے بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے والا ہے اور اب اُس کو جو بانجھ کہلاتی تھی چھٹا مہینہ ہے۔ کیونکہ جو قَول خدا کی طرف سے ہے وہ ہرگِز بے تاثِیر نہ ہو گا۔ مریم نے کہا دیکھ میں خداوند کی بندی ہوں۔ میرے لِئے تیرے قَول کے موافِق ہو۔ تب فرِشتہ اُس کے پاس سے چلا گیا۔" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 1: 26-38)

"اَب یسوع مسیح کی پیدایش اِس طرح ہوئی کہ جب اُس کی ماں مریم کی منگنی یُوسُف کے ساتھ ہوگئی تو اُن کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ رُوح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔ پس اُس کے شوہر یُوسُف نے جو راستباز تھا اور اُسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اُسے چپکے سے چھوڑ دینے کا اِرادہ کیا۔ وہ اِن باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اُسے خواب میں دِکھائی دے کر کہا اَے یُوسُف ابنِ داﺅد! اپنی [ہونے والی] بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اُس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح القدس کی قدرت سے ہے۔ اُس کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا۔ یہ سب کچھ اِس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ: دیکھو! ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اُس کا نام عمّانُوایل رکھیں گے جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ۔ پس یُوسُف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا خداوند کے فرشتہ نے اُسے حکم دیا تھا اور اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آیا۔ اور اُس کو نہ جانا جب تک اُس کے بیٹا نہ ہوا اور اُس کا نام یسوع رکھا۔" (انجیل جلیل بمطابق متی 1: 18-25)

"اُن دنوں میں اَیسا ہوا کہ قیصر اوگوستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دُنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔ یہ پہلی اِسم نویسی سُوریہ کے حاکم کورنیس کے عہد میں ہوئی۔ اور سب لوگ نام لکھوانے کےلئے اپنے اپنے شہر کو گئے۔ پس یُوسُف بھی گلیل کے شہر ناصرة سے داﺅد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے۔ اِس لئے کہ وہ داﺅد کے گھرانے اور اَولاد سے تھا۔ تا کہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے۔ جب وہ وہاں تھے تو اَیسا ہوا کہ اُس کے وضعِ حمل کا وقت آپہنچا۔ اور اُس کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔ اُسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔ اور خداوند کا فرشتہ اُن کے پاس آ کھڑا ہوا اور خداوند کا جلال اُن کے چوگرد چمکا اور وہ نہایت ڈر گئے۔ مگر فرشتہ نے اُن سے کہا ڈرو مت کیونکہ دیکھو میَں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہو گی۔ کہ آج داﺅد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی مسیح خداوند۔ اور اِس کا تمہارے لئے یہ نشان ہے کہ تُم ایک بچّہ کو کپڑے میں لپٹا اور چرنی میں پڑا ہوا پاﺅ گے۔ اور یکایک اُس فرشتہ کے ساتھ آسمانی لشکر کی ایک گروہ خدا کی حمد کرتی اور یہ کہتی ظاہر ہوئی کہ: عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صُلح۔ جب فرشتے اُن کے پاس سے آسمان پر چلے گئے تو ایسا ہوا کہ چرواہوں نے آپس میں کہا کہ آﺅ بیت لحم تک چلیں اور یہ بات جو ہوئی ہے اور جس کی خداوند نے ہم کو خبر دی ہے دیکھیں۔ پس اُنہوں نے جلدی سے جا کر مریم اور یُوسُف کو دیکھا اور اُس بچہ کو چرنی میں پڑا پایا۔ اور اُنہیں دیکھ کر وہ بات جو اُس لڑکے کے حق میں اُن سے کہی گئی تھی مشہور کی۔ اور سب سننے والوں نے اِن باتوں پر جو چرواہوں نے اُن سے کہیں تعجب کیا۔ مگر مریم اِن سب باتوں کو اپنے دِل میں رکھ کر غور کرتی رہی۔ اور چرواہے جیسا اُن سے کہا گیا تھا ویسا ہی سب کچھ سُن کر اور دیکھ کر خدا کی تمجید و حمد کرتے ہوئے لوٹ گئے۔" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 2: 1-20)

عزیز قاری! کیا آپ نے احساس کیا کہ ہماری دُنیا کی گہری تاریکی پر الہٰی نُور طالع ہوا؟ بیت لحم اور اُس کے گرد و نواح پر رات کا سایہ ڈھل چکا تھا۔ سوائے اُن چند چرواہوں کے جو رات کو میدان میں اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے تمام انسان و حیوان سو رہے تھے۔

اچانک آسمان کھل گئے اورچندھیا دینے والی روشنی نے اُن چرواہوں کو گھیر لیا، جس سے تاریک رات چمکنے لگی اوروہ گڈریے ڈر گئے۔ جلالی روشنی میں خداوند کے فرشتہ کے نمودار ہونے کے باعث اُن گڈریوں کا خوف اَور بھی بڑھا۔ اُن کے چوگرد خداوند کا جلال چمکا۔ اُن کی آنکھیں چندھا گئیں اور وہ گم سم و ساکت ہو کر زمین پر گر پڑے۔ اُنہوں نے خیال کیا کہ روزِ قیامت آ پہنچا، روزِ حساب آ گیا۔ اُنہیں اپنے گناہوں کا شدت سے احساس ہونے لگا، جو اُن کے نیم مُردہ ضمیر پر الزام دے رہے تھے۔ اُنہیں اپنی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند نظر آنے لگی۔ وہ بہت زیادہ ڈر گئے اور انجانے خوف سے کانپ رہے تھے۔ مگر خداوند کے فرشتہ نے بڑی نرمی سے پکار کر کہا کہ ڈرو مت، کیونکہ دیکھو! میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں کہ آج تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے یعنی یِسوع مسیح۔

اُس نے اُنہیں بتانا چاہا کہ جس کا خدا نے اپنے نبیوں کی معرفت وعدہ کیا تھا وہ آ چکا ہے۔ وہ خدائے رحیم کی طرف سے تمام انسانیت کےلئے رحمت ہے۔ جو اُس پر بھروسا کریں گے وہ اُنہیں روزِ عدالت بچا لے گا۔ آپ بھی اِس پیغام میں خدا کے جلال سے مُنور ہو جانے کے بڑے بھید کو پا سکیں گے۔ جو بھی خدا کے پاک حضور اپنے گناہوں سے پچھتاتے ہوئے اُن سے توبہ کرتا ہے، وہ ضرور ہی آسمانی شادمانی سے معمور ہو جائے گا۔ اور جو کوئی بھی خداوند کے کلام کو اپنے دِل و ضمیر میں قبول کرتا ہے، وہ خدا کی مفت دی گئی نجات کی شادمانی کو محسوس کرے گا۔

غرض کہ پیار کرنے والے خدا نے آپ کےلئے اپنی بڑی رحمت کو تیار کر رکھا ہے۔ وہ آپ سے شخصی طور پر مخاطب ہے۔ نہ تو وہ آپ کو رد کرے گا اور نہ ہی ہلاک کرے گا بلکہ آپ پر اپنا نجات بخش مقصد واضح کرے گا۔

کیا آپ نے اپنے لئے ابدی نُور کے حقیقی بھید کو پا لیا ہے؟ مسیح نے انتہائی حلیمی کی حالت میں مویشیوں کے اصطبل میں جنم لیا اور اُسے مویشیوں کے چارہ کھانے کی جگہ چرنی میں رکھا گیا۔ وہ انسانی صورت میں ایک عام سی جگہ میں آ گیا تا کہ انسان یہ نہ کہہ سکے کہ "میں اپنی بُری اور کمتر حالت کے باعث رد کیا ہوا ہوں، اور میں خدا کی محبت کے لائق نہیں ہو سکتا۔" مسیح مسافر پردیسی کی طرح اِس دُنیا میں پیدا ہوا، جسے اُس کے معاشرے نے رد کیا، تا کہ ہر مایوس فرد کو اُمید اور احساس عطا کرے کہ خدا اُس کے پاس آیا ہے، وہ اُس کے قریب ہے اور اُسے شخصی طور پر پیار کرتا ہے۔

تُرکی کے شہر استنبول میں سلطنت عثمانیہ کے ایک سلطان کے محل میں بادشاہ کے شیرخوار بچوں کےلئے خالص سونے کا بنا ہوا چمکدار جھولنا دیکھا جا سکتا ہے، جو جگمگاتے جواہرات سے مزین ہے۔ جِن شہزادوں کو اِس جھولنے میں پرورش ملی آج اُن کے ناموں سے دُنیا واقف نہیں، لیکن سونے کا بنا ہوا یہ خالی جھولنا اب عجائب گھر کی زینت ہے۔

لیکن چرنی میں پیدا ہونے والے فروتن مسیح کا نام صدیوں سے قائم ہے کیونکہ وہ خدا کا سچا نشان ہے، جو آج کے دن تک برابر معجزات کو ظہور میں لا رہا ہے۔ وہ آپ کو آپ کی گمراہی کی حالت سے نکالنے، گناہ کے بندھنوں سے آزاد کرنے اور اِس دُنیا کی برائیوں سے آپ کو رہائی عطا کرنے کےلئے تیار ہے۔ مسیح آپ کو ابدی حیات عطا کرے گا۔

خدا کے فرشتوں نے مسیح کی پیدایش کے موقع پر زبردست خوشی کا اظہار کیا۔ اُن کی جلالی آب و تاب کے باعث وہ جگہ جہاں چرواہے موجود تھے، چمک اُٹھی۔ خداوند کی جانب سے اِس آسمانی نور کے باعث چرواہوں کی زندگی کی گہرائی تک یہ لاثانی معرفت و آگاہی نقش ہو گئی کہ وعدہ شدہ مسیحا اِس دُنیا میں تشریف لا چکا ہے، وہ نبی جس نے موسیٰ سے عظیم ہونا تھا نمودار ہو چکا ہے، اور داﺅد بادشاہ سے بڑا ابدی بادشاہ اِس جہان میں تشریف لایا ہے۔ وہ ہلاک کرنے والے ہتھیاروں کے ساتھ اِس دُنیا میں نہ آیا، بلکہ محبت کے ساتھ آیا کہ موت، گناہ اور شیطان پر فاتح ہو۔ وہ خدا تعالیٰ کے تمام اختیار کا حامل ہے کیونکہ وہ اُس کے روح کی قدرت سے پیدا ہوا، اور وہ خدا کا مجسم کلام ہے۔

آج دُنیا میں ایمانداروں کی جماعت انتہائی شادمانی سے اِس بات کا اقرار کرتی ہے کہ یسوع مسیح اُن کا واحد موثر ترین شخصی نجات دہندہ ہے۔ ہر لمحہ دُنیا کے ہر خطے سے اُن کی حمد و ستایش کی آواز بلند ہوتی ہے جو اوپر فضاﺅں میں گونجتی ہے، یہاں تک کہ اجرام فلک ستارے اور سیارے بھی خدا کے جلال، اُس کی حضوری اور اُس کی بچانے والی قدرت کا اعلان کرتے ہیں اور اُس کی تعریف میں یوں پکار اُٹھتے ہیں: "عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو، اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 2: 14)۔

جب فرشتے چرواہوں سے جدا ہو کر واپس چلے گئے تو آسمانی روشنی سے جگمگاتا سماں ایک بار پھر رات کی گہری تاریکی میں ڈوب سا گیا۔ مگر چرواہے فوراً اُٹھے اور بیت لحم کو گئے کہ جو بات واقع ہوئی تھی اور جس کی اُن کو خبر ملی تھی اُسے دیکھیں۔ اُنہوں نے جلدی کی، عین ممکن ہے کہ رات کی تاریکی میں اُن کے پاﺅں کو ٹھوکر بھی لگی ہو، مگر اُن کے باطن میں ایک عجیب نیا آسمانی نور چمک رہا تھا۔ گڈریوں کو جلد ہی وہ مقام مل گیا، جہاں یسوع کی پیدایش ہوئی تھی اور اُن کے دِل شادمانی سے لبریز تھے۔ اُنہوں نے بچہ یسوع کو چرنی میں پڑا پایا اور اُس کے آگے گر کر اُسے سجدہ کیا۔

وہ اپنے دِلوں میں حمد و ستایش کرتے ہوئے رات کے اندھیرے ہی میں واپس ہو گئے اور اپنے گاوں پہنچنے پر اُنہوں نے فرشتوں کے نمودار ہونے، اوربیت لحم میں چرنی میں پیدا ہونے والے بچہ یسوع کے ساتھ ملاقات کا احوال سب کو بتایا۔ یقیناً لوگوں نے اپنے سروں کو تعجب سے جھٹک کر اِن تمام وقوع پذیر ہونے والی حیرت انگیز باتوں کی بابت سوچ بچار کی۔ یوں لگتا تھا کہ گویا اِن گڈریوں نے اِس تمام کہانی کو گھڑا اور ترتیب دیا ہو۔ کلمتہ اللہ کے تجسم کے بارے میں جو کچھ اُن لوگوں نے سُنا، اُس کا اُنہوں نے یقین نہ کیا۔ اُن سُننے والوں میں سے شاید ہی کوئی چرنی میں بچہ کو دیکھنے اور اُس کے سامنے سجدہ کرنے گیا۔

یقینا اُن چرواہوں نے اِس کے بعد گہرے طور پرجانا کہ نجات تو سب بشر کےلئے تیار کی گئی تھی۔ تاہم، خدا کے پیغام کو قبول کرنے والے سب نہیں ہیں۔ صرف وہی لوگ جنہوں نے اِس پیغام کو قبول کیا حقیقت میں منور ہو گئے۔ گرچہ گڈریے، اِس جلالی بچہ یسوع میں بظاہر کسی بھی شان و شوکت اور دولت کے نشان کو نہ دیکھ کر حیران ضرور ہوئے مگر وہ خدا کے کلمہ پر ایمان لائے جو مجسم ہو گیا تھا، وعدہ شدہ مسیحا جو انتہائی خاکسار سی چرنی میں ظاہر ہوا تھا۔

مسیح کی پیدایش نے دُنیا کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آپ کے پیروکاروں نے آپ کی پیدایش کی تواریخی اہمیت کے پیش نظر زمانوں اور وقتوں کی تقسیم کےلئے ایک نئی تقویم (قبل از مسیح اور بعد از مسیح) کو استعمال کرنا شروع کیا جس نے انسانی تاریخ کو بہت زیادہ متاثر کیا۔

4- نُور تاریکی میں چمکتا ہے

فرمان یسوع مسیح: "دُنیا کا نُورمیں ہوں جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نُور پائے گا۔" (یوحنا 8: 21)

مسیح، خدائے قادر کا وہ عجیب نُور ہے جو تمام انسانیت کو اپنے جلالی نُور سے مُنور کرنے کےلئے اِس دُنیا میں آیا۔ مسیح سے پیشتر اِس دُنیا میں انبیا، فلسفی اور بادشاہ آئے۔ بہت سے لوگوں نے سوچا کہ شاید اِن میں سے کوئی دُنیا کا نجات دینے والا ہو گا، مگر وہ سب گزر گئے۔ صرف یسوع مسیح ہی قائم و دائم ہوتے ہوئے، حقیقی نُور کے سرچشمہ کی طرح گہری تاریکی میں درخشاں ہے۔ جو کوئی بھی اِس پاک مسیحا کی محبت کی شعاعوں میں آ تا ہے، وہ اُس سے مُنور ہو جائے گا۔

ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ "کیوں مسیح نے اعلان کیا کہ وہ دُنیا کا نُور ہے؟ مسیح کن نئی تعلیمات و خیالات کو لے کر آیا جو پہلے کبھی کسی نبی یا بادشاہ نے پیش نہیں کئے تھے؟"

مسیح ہمارے پاس مجسم خدا کی صورت میں آیا۔ اُس نے انسانیت پر واضح طور پر اعلان کیا کہ قادر خدا ابدی محبت ہے۔ وہ ایسا خدا ہرگز نہیں کہ جو اجنبی یا بہت دُورہے جسے انسانیت سے کچھ سروکار نہیں یا جو جسے چاہے سیدھی راہ پر چلائے اور جسے چاہے گمراہ کر دے۔ بلکہ وہ محبت و شفقت کرنے والا آسمانی باپ ہے جو گناہ و بدنصیبی میں غرق انسانیت سے نفرت نہیں کرتا۔ وہ ہر ایک بشر کو مسیح یسوع کی معرفت اپنے ازلی رحم اور سچائی کی پیشکش کرتا ہے۔ یہ عرفانِ خداوندی کا وہ انقلاب ہے جسے ابنِ مریم اِس دُنیا میں لے کر آیا۔ اب ہم میں خوفِ خداوندی اِس وجہ سے نہیں کہ ہم خدا کو قہر سے معمور جابر منصف سمجھتے ہیں، بلکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر ہمارا آسمانی باپ ہے جس نے ہمیں فرزندیت کا حق عطا کیا ہے۔ جیسے ایک دُنیاوی باپ اپنے بچوں کی فکر کرتا ہے ویسے ہی خدا تعالیٰ ہماری فکر کرتا ہے۔ وہ ہمیں پیار محبت کرتا ہے، اور گناہ اور موت کے بندھن سے چھڑانے کےلئے نجات کی اپنی مفت بخشش پیش کرتا ہے۔

کیا آپ مسیح کے پیغام کو قبول کرتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ خدا آپ کا آسمانی باپ ہے؟ یسوع مسیح آسمان سے ہماری خاطر اُترا اور انسان بنا کیونکہ وہ ہمارے پیاسے دِلوں اور رُوحوں میں اپنی محبت اُنڈیلنے کا آرزومند ہے۔

جناب مسیح نے آسمانی بادشاہی کی اپنی پاک تعلیمات پر اپنی زندگی میں عمل کر کے دکھایا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا مجسم کلام ہے۔ اپنے آسمانی خدا باپ کی قدرت کے باعث، یسوع نے اپنے دشمنوں سے محبت رکھی، اپنے اُوپر لعنت بھیجنے والوں کےلئے برکت چاہی اور قول و فعل میں پاکیزہ حیات بسر کی۔ اُس نے بیماروں کو شفا عطا کی اور مُردوں کو موت سے زندہ کیا۔ اُس نے محض خدا کے کلام کی منادی نہیں کی بلکہ اُس کے مطابق اپنی زندگی بھی بسر کی۔ آپ سے پہلے تمام انبیا نے انسان کےلئے خدا کی مرضی کو پیش کیا، مگر مسیح بذات خود خدا کا کلمہ تھا۔ قادر مُطلق خدا نے یسوع مسیح میں انسانی جسم اختیار کیا، اِس لئے یسوع نے فرمایا: "جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 14: 9)۔

جناب مسیح نے انسانیت کو سکھایا کہ خدا کون ہے؟ اُس کی لامحدود محبت کے بارے میں بتایا جس کی کوئی انتہا نہیں، اُس کی رحمت کے بارے میں بتایا جو ناقابل بیان ہے، اُس کی قدرت کے بارے میں بتایا جو لامحدود ہے۔ مسیح نفرت انگیز اور مُلحد لوگوں کو تباہ و برباد کرنے کےلئے نہیں آیا بلکہ اُس نے فرمایا "کیونکہ ابن آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے" (انجیل جلیل بمطابق لوقا 19: 10)۔

جناب مسیح کی اپنی بابت یہ بڑی عظیم گواہی ہے۔ ہمارا خداوند یسوع مسیح دِل کا اِس حد تک حلیم و فروتن ہے کہ اُس نے بہتوں کے بدلے فدیہ میں اپنی جان صلیب پر دے دی۔ وہ کسی جابِر حاکم یا خُود سر آقا کی طرح اِس دُنیا میں نہ آیا، بلکہ اپنی بابت اُس نے کہا "ابنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اوراپنی جان بہتوں کے بدلے فدیہ میں دے" (انجیل بمطابق متی 20: 28)۔ اِن الفاظ میں جناب مسیح نے اپنی خدمت کے حیرت انگیز طریق کے کردارکا اعلان کیا جسے آپ نے اپنے پیروکاروں کےلئے واضح بھی کیا "جو تم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے اور جو تم میں اوّل ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے" (انجیل بمطابق متی 20: 26-27)۔

تکبر و غرور مسیحیت کا نعرہ نہیں، بلکہ حلیمی اور خدمت اور اِس کے ساتھ ساتھ دوسروں کےلئے شخصی قربانی اِس کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اور یہ جذبہ اُن سب کےلئے بھی ہے جو اِس قربانی کو قبول کرنے کے بجائے رد کرتے ہیں۔ یہ اوصاف مسیح کی تعلیمات کا ثمر ہیں جس نے ہم پر واضح کر دیا کہ خدا تعالیٰ محبت سے بھرا آسمانی باپ ہے۔ جناب مسیح نے اِن اصولوں کے مطابق اپنی زندگی انسانیت کے سامنے بسر کی۔

5- تاریکی نُور سے عداوت رکھتی ہے

کیا آپ نے کبھی کسی طبیب، نبی، فلسفی یا راہنما کی بابت سُنا ہے جو یسوع مسیح کی مانند آسمانی معجزات کرنے کے قابل تھا؟ یسوع نے اپنے کلام کی قدرت سے موجزن طوفان کو ساکت کر ڈالا، دُور افتادہ علاقے میں پانچ ہزار سے زیادہ کی بھیڑ کو صرف پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے ایک ہی وقت میں کھانا کھلایا۔ اپنے مُنہ کے کلام کی قوت سے یسوع نے بد رُوح گرفتہ لوگوں میں سے بد رُوحوں کو نکال باہر کیا۔ اُس نے اُن سب کو بیماریوں سے شفا بخشی جو اُس کے پاس شفا پانے کےلئے آئے۔ نہ ہی کوئی قوت اور نہ ہی کوئی بیماری و انسانی اختیار یسوع کی الہٰی محبت کے آسمانی اختیار کے سامنے کھڑا رہ سکا۔

مسیح نے انسانیت کےلئے اپنی شفا بخش معجزانہ خدمات بغیر کسی قیمت کے پیش کیں، جبکہ اُس نے خود اپنی غریبی کی حالت پر خوشی سے قناعت کی۔ اُس نے شخصی طور پر اپنے آپ کو جلال نہ دیا بلکہ اپنے آسمانی باپ کو جلال بخشا اور اُس کے نام کی تعظیم و بزرگی ظاہر کی۔ یسوع کی ذات میں پائی جانے والی حلیمی کا اندازہ آپ کے اِس قول سے لگایا جا سکتا ہے "میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا" (انجیل بمطابق یوحنا 5: 30)۔

یسوع مسیح نے غریبوں کو آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری سُنائی اور اپنی پاک رُوح کی قدرت سے اُنہیں اُن کی مشکلوں سے رہائی بخشی۔ تاہم، یسوع کا عظیم ترین کام اِس دُنیا کے گناہ کو اُٹھا لے جانے والا کام تھا۔ اُس نے ہمارے لئے اِس بات کا اعلان کرنے کے بعد کہ ہماری بگڑی ہوئی فطرت کو نجات کی ضرورت ہے، ہمیں شیطان کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد بھی کیا ہے۔ مسیح نے اپنے پیروکاروں کے غلط فہمی پر مبنی اِس خام خیال کو بھی دُور کیا کہ اُن کی پارسائی اُنہیں بچائے گی، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ مسیح نے اُنہیں ایک حیرت انگیز اُمید بھی بخشی۔

اپنی الٰہی محبت ہی کے باعث یسوع انسانیت کو خدا کے اُس غضب سے بچا سکتا ہے جو گناہوں کے باعث گناہگاروں پر ہے۔ یسوع نے دُنیا کے گناہوں کو اپنے اُوپر لے لیا اور تمام انسانیت کی خاطر خدا کے غضب کو برداشت کیا۔ اُس نے اپنی قربانی کی بدولت خدائے قدوس کی گنہگار انسان سے صلح کرا دی۔ اِسی سبب سے مسیح فروتن، پاک کرنے والا شفا بخش نُور ہے۔ وہ سب لوگ جو ایمان سے اُس کے پاس آتے ہیں، وہ مجرم نہیں ٹھہرائے جائیں گے، بلکہ راستباز ٹھہرائے جانے کے باعث بچائے جائیں گے۔ جو اُس کی پیروی کرتے ہیں، وہ اندھیرے میں نہ چلیں گے، بلکہ زندگی کا نُور پائیں گے۔

مسیح ہر قسم کی آزمایش پر غالب آیا اور گناہ میں نہ گرا۔ اُس کے تمام مخالفین اور اُس وقت کی رومی حکومت اُس میں کسی ایک بدی یا قصور کو بھی نہ پا سکی۔ کیونکہ اُس میں پایا جانا والا الٰہی نُور ہر طرح کی آزمایش، تاریکی اور بدی پر غالب آیا۔ الہامی مکاشفہ مسیح کی ہر جگہ پاکیزگی کی تصدیق کرتا ہے، اُس میں کوئی گناہ نہ تھا۔ صرف وہی گناہگاروں کے عوضی ہونے کے لائق تھا۔ اپنی عظیم ترین محبت میں اُس نے ہمارے گناہوں کےلئے دُکھ اُٹھایا اور ہماری خطاﺅں کو ڈھانکا۔ اِسی لئے صلیب پر اُس نے پکار کر کہا "اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" (انجیل جلیل بمطابق متی 27: 46)۔

کیونکہ مسیح جس نے باپ کی ابُّوت کو ہم پر ظاہر کیا اور جو ازل سے اُس کے ساتھ تھا، ہماری خاطر سزا برداشت کی۔ وہ خدا کا برہ تھا جس نے ہمارے گناہ اپنے اُوپر لے لئے اور ہماری جگہ دُکھ سہا۔ کیا آپ راستبازی کے اِس عظیم بھید کو سمجھ گئے ہیں جو خدا یسوع کے وسیلے آپ کو پیش کرتا ہے؟

خدائے قدوس بغیر کسی عِلّت کے گناہ معاف نہیں کر سکتا، کیونکہ اِس طرح عدل کے تقاضے اُس کی محبت کے تقاضے سے میل نہیں کھاتے۔ چونکہ گناہ گار نے اپنی خطاﺅں کے سبب خدا کی پاک شریعت کو توڑا ہوتا ہے اور خدا کو ناراض کرتا ہے اِس لئے عدلِ خداوندی مطالبہ کرتا ہے کہ گناہ گار ابدی ہلاکت میں جائے۔ گناہ حد سے بڑھنے خلاف ورزی کرنے کا نام ہے، لیکن الٰہی محبت گناہ گار کی نجات کی متمنی ہے۔ اِسی سبب سے خدا نے اپنے مسیح کو انسانیت کے عوضی کے طور پر فدیہ و کفارہ کےلئے بھیجا کہ وہ دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جائے اور ہماری جگہ سزا کو برداشت کرے۔

ایسا کرنے سے مسیحا نے خدا کی شریعت کو ملحوظِ خاطر رکھا، اُس کے تمام تقاضوں کو پورا کیا اور ایمانداروں پر استغاثہ دائر کرنے والے (مکار و خبیث شیطان) کے مُنہ کو بند کر دیا، کیونکہ مسیحا نے اپنی محبت میں خدا کے ساتھ ہماری صلح کی ساری قیمت کو چُکا دیا۔ مندرجہ ذیل واقعہ اِن گہری روحانی سچائیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔

مغربی ممالک میں سے ایک ملک کے وزیر مذہبی امور کو اپنی کار بہت تیز رفتاری سے چلانے کی عادت تھی۔ ایک دن پولیس نے اُسے روکا اور مقررہ رفتار سے زیادہ تیز کار چلانے پر چالان کر دیا۔ اب اُسے مقامی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ اُس وزیر کو یہ جان کر کچھ تسلی و خوشی کا احساس تھا کہ جس عدالت میں اُس کی پیشی تھی، اُس کا جج، اُس کی کلیسیا کا ایک انتظامی بُزرگ [Elder] تھا۔ سو یہ وزیر، اُس عدالت میں اطمینان کی یقینی حالت میں حاضر ہوا، کیونکہ یہاں کا جج اُس کا دوست تھا۔

مگر ذرا تصور کیجئے کہ یہ وزیر کتنا حیران ہوا ہو گا، کیونکہ جب یہ کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو اُس نے جج کو سخت چہرہ کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ وزیر کی حیرانی اُس وقت اَور بڑھ گئی جب جج نے اُس سے اُس کا نام اور پیشہ پوچھا اور دریافت کیا کہ کیا وہ ٹریفک کے قوانین سے بخوبی واقف ہے یا نہیں۔ جب وزیر نے اپنا جواب ہاں میں دیا تو جج نے اُس سے پوچھا "پھر آپ کیوں تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے تھے؟ آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ نے قانون شکنی کی ہے اور اِس کے نتیجے میں آپ مجرم ہیں۔" جب وزیر نے اِن الفاظ کو سُنا تو وہ پریشان ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سڑکوں پر معمور پولیس اہلکار اکثر تیز رفتاری کرنے والوں سے نرمی سے پیش آتے تھے۔ اُس وزیر کو بہت ہی غُصّہ تھا کہ اُس کے دوست جج نے ایک معمولی سے جرم کو بہت بڑا گردانا تھا، اور اُسے بھری عدالت کے سامنے اُس کے جرم کے اعتراف پر مجبور کیا تھا۔ چونکہ وہ قانون شکنی کا اعتراف کر چکا تھا، اِس لئے جج نے اُسے اُس کی ماہانہ تنخواہ کے نصف جرمانہ کی سزا سُنائی۔

اُس سزا یافتہ شخص نے کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کے بعد اپنے گھر جانے میں جلدی کی۔ پھر اُس نے اپنے جج دوست کے گھر ٹیلی فون کر کے جج سے بات کرنا چاہی تو جج کی اہلیہ نے وزیر کو بتایا کہ اُس کا شوہر اُس وقت گھر میں نہیں۔ وزیر نے غصے سے جج کی بیوی سے پوچھا کہ کیوں اُس کے شوہر نے اُس کے خلاف ایسا برتاﺅ کیا کہ اُس کو ساری عدالت کے سامنے لا کھڑا کیا اور اُس پر اُس کی برداشت سے بھی زیادہ جرمانہ عائد کیا۔ جج کی بیوی نے نرمی سے جواب دیا: "جب صبح کو میرے شوہر نے آپ کے مقدمہ کے کاغذات دیکھے تو وہ مسکرا اُٹھے اور پھر کہنے لگے کہ 'آج میں اپنے وزیر دوست کو انصاف و رحم کا ایسا سبق سکھاﺅں گا جو وہ کبھی بھی نہیں بھول سکے گا'۔" وزیر نے جلدی سے جواب دیا "کہاں گیا وہ رحم اور کہاں گیا وہ انصاف؟ اب مجھے اِس معمولی سے جرم کےلئے ایک بہت بڑی رقم ادا کرنی ہے۔" تب جج کی بیوی نے وزیر کوحوصلہ دیتے ہوئے کہا "صبر سے کام لیں، پاسبان، آپ کو جلد ہی اپنے روحانی بھائی کے اِس عمل کے پس پردہ مقصد کا اندازہ ہو جائے گا۔"

اِسی اثناء میں وزیر کے گھر کے دروازہ پر دستک ہوئی اور جج کی جانب سے ڈاک میں اُس کےلئے ایک فوری ترسیل والا خط تھا۔ خط کو کھولنے پر وزیر کو جرمانہ والی تمام رقم کا چیک دکھائی دیا جس کے ساتھ کمرہ عدالت کے تمام اخراجات کا خرچہ بھی تھا۔ اِس کے ساتھ جج نے ایک رقعہ بھی بھیجا تھا جس پر لکھا تھا: "میں آپ کا قریبی دوست ہوں جو آپ سے محبت کرتا اور آپ کی عزت کرتا ہوں۔ تاہم، میں انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے کا پابند بھی ہوں۔ ہماری دوستی کی وجہ سے کمرہ عدالت میں سب لوگ توقع کر رہے تھے کہ آپ کے حق میں میرا فیصلہ قدرے نرم ہو گا اور سزا کم سے کم ہو گی۔ مگر میرے سامنے قانون و انصاف کے مطابق سخت ترین سزا تجویز کرنے کے سوا اَور کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن چونکہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اِس لئے اِس کے ساتھ ہی میں نے فیصلہ کیا کہ میں تمام جرمانہ خود ادا کروں گا۔ کیا آپ اِس قسم کے برتاﺅ کو فروتنی سے بھرے اُس سبق کے طور پر قبول کریں گے جو ہمیں اپنے لئے مسیح کی قربانی میں خدا کی محبت اور انصاف کی یگانگت میں نظر آتا ہے؟"

خدا اپنی کامل ترین پاکیزگی میں کسی طرح سے بھی انصاف سے انحراف نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے کلام و قانون کے مطابق ہمارا انصاف کرے گا، اور اُس موت اور ابدی سزا کو ہم پر لاگو کرے گا جس کے ہم مستحق ہیں۔ خدا تعالیٰ کی اُس عظیم محبت کےلئے اُس کا شکر ہو جو وہ ہم سے رکھتا ہے کہ اُس نے ہماری بد کرداری مسیح پر لاد دِی، جس نے ہماری خاطر اپنی جان دی۔ اِس طرح اُس نے ہمیں عدالت کے نتائج سے مخلصی دینے کےلئے قیمت ادا کی۔ مسیح کی موت تاریکی پر ایک زبردست فتح یابی تھی۔

یوں اُس راستباز نے ہم ناراستوں کی جگہ لے لی تا کہ ہمارے لئے فضل و نُور کی ابدی راہ کو کھول دے۔ اُس وقت سے آفتاب صداقت مسیح کے پیروکاروں پر برابر چمک رہا ہے۔ اب وہ اپنے گناہوں کے تاریک سایہ میں زندگی بسر نہیں کرتے کیونکہ مسیح نے بالآخر اُنہیں گناہ کی سزا سے آزاد کر دیا ہے۔ ابلیس کا اُن پر اب کوئی حق یا اختیار نہیں رہا، کیونکہ اب مسیح باپ کے سامنے اُن کی نمائندگی کرتا ہے۔ اِس لئے تمام سچے اور وفادار مسیحی حمد و شکر گزاری کے ساتھ مسیح کی مخلصی دینے والی قربانی کے الہٰی مکاشفہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں، جس کا یسعیاہ نبی نے مسیح کی موت سے سات سو برس پہلے یوں اظہار کیا تھا: "تو بھی اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا پر خداوند نے ہم سب کی بد کرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔" (یسعیاہ 53: 4-7)

عزیز قاری، صحائف مُقدّسہ میں ہم مسیح کی "عظیم قربانی" کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اُس کی موت کی بدولت خدا اور انسان کے درمیان صُلح ہو سکی۔ بہت ہی اچھا اور مناسب ہو گا کہ اگر آپ یسعیاہ نبی کے اِن الہامی الفاظ کو اپنے ذہن و دِل میں یاد کر کے خوب غور کریں تا کہ مسیح کے دُکھوں کے مطلب کو سمجھ سکیں۔ یوں آپ خدائے قدوس کی راستبازی کو حاصل کریں گے جو آپ کےلئے شخصی طور پر تیار کی گئی ہے۔

6- نُور تاریکی پر غالب آتا ہے

فرمان یسوع مسیح : "قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زِندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 11: 25-26)

جس طرح مشرق سے طلوع ہوتا ہوا سورج اپنے جاہ و جلال میں چمکتا ہے، اُسی طرح مسیح جو دُنیا کا نُور ہے مُردوں میں سے جی اُٹھ کر طالع ہوا۔ باقی انبیا اور دُنیوی قائدین کی طرح وہ قبر میں نہیں رہ گیا، اور نہ ہی اُس کا بدن مٹی میں گل سڑ گیا، بلکہ وہ جی اُٹھا اور مہر لگی قبر میں سے باہر آ گیا۔

مسیح نے اپنی جلالی قیامت کے بعد اپنے آپ کو زندہ اپنے شاگردوں پر ظاہر کیا۔ اُس نے لوگوں کے ساتھ گھل مل کر اُن سے بات چیت کی، اُن کے ساتھ کھانا کھایا، اپنے ہاتھوں پر لگے کیلوں کے زخم اور اپنا پہلو اُنہیں دکھایا، اُنہیں برکت دی اور سلامتی کے کلمات اُن سے کہے۔ شاگرد، پہلے پہل تو مُردوں میں سے زندہ ہو جانے والے یسوع مسیح کو دیکھ کر خوفزدہ ہوئے، مگر بعد میں یہی شاگرد بہت خوش بھی ہوئے کہ جب اُنہوں نے جانا کہ یسوع کا مُردوں میں سے زندہ ہونا اُس کی رُوحانی فتح اور اختیار کا ناقابلِ بیاں ثبوت تھا۔ شاگردوں کو بے حد تسلی و سکون ملا اور اُنہیں اپنے مکمل راستباز ٹھہرائے جانے اور پختہ اُمید کا پورا یقین ہوا۔

مسیح آج بھی زندہ ہے اور خدائے قادر کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہے۔ موت اُسے اپنے اختیار میں نہ رکھ سکی، اور نہ ہی شیطان یسوع کو اپنی طاقت کے تابع کر سکا۔ اِسی طرح مسیح کی مصلوبیت سے پہلے شیطان اُس پر آزمایش کے ذریعے غالب نہ آ سکا، کیونکہ مسیح کی پاک ذات گناہ سے بالکل پاک صاف تھی۔ یوں اپنے پُختہ ایمان، گہری محبت اور زندہ اُمید کے باعث بالآخر وہ ابلیس پر غالب آیا۔ اسی لئے تاریکی مغلوب ہوئی اور شیطان کو شکست ہوئی۔ وہ سب جو مسیح سے لپٹے رہتے ہیں، اُن کو کسی قسم کے جادو، اوہام یا نظر بد کا کوئی خوف نہیں ہوتا، کیونکہ یہ سب قوتیں شکست کھا چُکی ہیں۔

زندہ خدا ہماری مضبوط پناہ گاہ ہے جہاں ہم پناہ کےلئے فوراً آتے ہیں۔ اِس لئے کوئی بد رُوح یا کوئی اَور مخلوق ہمیں خدا کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتی جو ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیں حاصل ہے۔

مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا آسمانی باپ کے ساتھ اُس کی مستقل یگانگت کا اظہار ہے۔ صلیب پر مسیح کی موت اُس کے اپنے کسی گناہ کی سزا کا نتیجہ نہ تھی، اور نہ ہی یہ اُس کی زندگی کا شکست خوردہ اختتام تھا۔ اگر مسیح اپنی کسی خطا کے سبب مصلوب کیا گیا ہوتا تو اُس کی لاش قبر میں ہی موجود ہوتی۔

یوں اُس کی جلالی قیامت اُس کی قدوسیت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہمارے نئے استحقاق اور ہماری راستبازی کی قانونی حیثیت کا ثبوت ہے۔ مُردوں میں سے مسیح کی قیامت کی وجہ سے خدا کے ساتھ ہماری صلح کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ازلی منصف یعنی آسمانی باپ نے ہمارے لئے مسیح کی قربانی کو قبول کر لیا ہے۔ اُس نے مسیح کو موت پر جلالی فتح بخشی اور اُس کے تمام پیروکاروں کو ہمیشہ کےلئے راستبازی عطا کی۔

مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے ہم ایک بڑی اُمید حاصل کرتے ہیں کیونکہ اُس نے موت پر فتح کو حاصل کیا۔ موت نے عرصہ قدیم سے انسانیت اور تمام کائنات کو مسلط کر رکھا تھا۔ آج بھی بہت سے لوگ موت کے بارے میں بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے۔ جو لوگ حیات ہیں، وہ قبر کے بعد آتش جہنم کے ڈر کی وجہ سے اپنی موت کے وقت سے خوف زدہ ہیں۔

مگر یسوع نے ہمیں اِس تاریک قید سے رہائی بخشی اور ابدی نُور میں ہمارا داخلہ ممکن کیا۔ مسیح کی موت پر ابدی فتح کے وقت سے اب تک، آپ کے شاگرد خُوشی سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ "مسیح جی اُٹھا، فی الحقیقت وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔" ہم مسیحیوں کا یہ پُختہ ایمان ہے کہ جب مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے تو ہم بھی اُس کے ساتھ جی اُٹھے ہیں۔ فتح کے نعرے اور اُمید کبھی بھی ختم نہیں ہو گی جس کے بارے میں پولس رسول نے خدا کے رُوح کی تحریک سے لکھا:

"مسیح یسوع ...نے موت کو نیست اور زندگی اور بقا کو اُس خوشخبری کے وسیلہ سے روشن کر دیا۔" (انجیل مُقدّس، 1-تیمتھیس 1: 10)

"اور جب یہ فانی جِسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جِسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قَول پُورا ہو گا جو لکھا ہے کہ مَوت فتح کا لُقمہ ہو گئی۔ اَے مَوت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے مَوت تیرا ڈنک کہاں رہا؟ مَوت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے۔ مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔" (انجیل مُقدّس، 1-کرنتھیوں 15: 54-57)

اب جو مسیح یسوع میں ہیں، جو اُس کی موت اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں، اُن کےلئے موت کسی قسم کی ڈرانے والی چیز نہیں رہی۔ مُردوں میں سے زندہ ہونے والے مسیح یسوع پر ایمان ہی ہمیں حیاتِ ابدی کےلئے یقینی اُمید عطا کرتا ہے۔

7- سُورج گھنے بادلوں کو بھی منتشر کر دیتا ہے

مُردوں میں سے زندہ ہونے کے چالیس دِن بعد مسیح اپنے باپ کی طرف صعود کر گیا اور اُس جلال کو پھر سے پایا جسے وہ ہم انسانوں کی خاطر چھوڑ کر انسان بنا تھا۔

اپنی صلیبی موت سے کچھ روز پہلے مسیح اپنے تین شاگردوں کو لے کرحرمون کے بلند و بالا پہاڑ پر گیا۔ وہ اُن پر اپنے ابدی جلال کی حشمت و بزرگی اور وقت و زمانوں سے ماورا اپنے جوہر کی شان و شوکت ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کے ایمان کو مستحکم کرنا اور آنے والی سخت آزمایش کی گھڑی میں اُن کے ایمان کی ثابت قدمی کو یقینی بنانا چاہتا تھا۔ اِس لئے مسیحا نے اپنے پوشیدہ جلال کو اپنے شاگردوں پر منکشف کیا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور اُس کی الوہیت پر شک نہ کریں۔

یسوع مسیح کے بارہ نوجوان شاگردوں کا تعلق عام سے گھرانوں سے تھا جن میں سے چھ ماہی گیر تھے۔ اُنہوں نے خدا کے حضور بیابان میں کھلے عام اپنے گناہوں کا اقرار کیا تھا اور یوحنا بپتسمہ دینے والے سے دریائے یردن میں گناہوں سے توبہ کا بپتسمہ لیا تھا۔

جب شاگردوں نے بپتسمہ دینے والے یوحّنا نبی سے یسوع کی بابت سُنا کہ وہ خدا کا برہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے، تو اُن میں سے بعض نے اُسے چھوڑ کر فوراً یسوع کی پیروی کی، اور اُس کے اقوال و افعال کی روشنی میں اُس کی محبت کی قوت کو سراہا۔ تاہم، اُس کے جلال کی تاب و چمک اُس وقت تک شاگردوں کی نظروں سے پنہاں رہی، جب تک کہ خُود مسیح نے پہاڑ کی چوٹی پر اپنے تین شاگردوں کے سامنے اپنی جلالی شان و شوکت کو ظاہر نہ کیا۔

یسوع نے اپنے اِن چُنے ہوئے شاگردوں کو اپنی تبدیلی صورت کے بارے میں بات کرنے سے اُس وقت تک منع کیا جب تک کہ اُس کا صعود آسمانی نہ ہوا، کیونکہ خدا کے جلال کے بھید کو سمجھنا منطق یا فلسفہ پر موقوف نہیں بلکہ یہ تبھی ممکن ہے جب کوئی شخص اپنے آپ کو کامل طور پر ایمان کے وسیلہ خدا کے تابع کر دے۔ پہاڑ پرمسیح کی صورت جلالی ہو جانے کی حقیقت کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے اِس اہم واقعہ پر دھیان دیجئے تا کہ آپ جان سکیں کہ کیسے یسوع آج بھی زندہ ہے، اور مُردوں میں سے زندہ ہونے والے یسوع کا جلال اور اُس کی ابدی سلطنت کی قوت و قدرت دیکھ سکیں۔

"چھ دِن کے بعد یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا اور اُنہیں ایک اُونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔ اور اُن کے سامنے اُس کی صورت بدل گئی اور اُس کا چہرہ سُورج کی مانند چمکا اور اُس کی پوشاک نُور کی مانند سفید ہو گئی۔ اور دیکھو مُوسیٰ اور ایلیاہ اُس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اُنہیں دِکھائی دِئے۔ پطرس نے یسوع سے کہا اَے خداوند ہمارا یہاں رہنا اچھا ہے۔ مرضی ہو تو میں یہاں تین ڈیرے بناﺅں۔ ایک تیرے لئے۔ ایک موسیٰ کےلئے اور ایک ایلیاہ کےلئے۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک نُورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لیا اور اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جِس سے میں خُوش ہوں اِس کی سُنو۔ شاگرد یہ سُن کر مُنہ کے بل گرے اور بہت ڈر گئے۔ یسوع نے پاس آ کر اُنہیں چُھوا اور کہا، اُٹھو۔ ڈرو مت۔ جب اُنہوں نے اپنی آنکھیں اُٹھائیں، تو یسوع کے سِوا اَور کِسی کو نہ دیکھا۔" (انجیل جلیل بمطابق متی 17: 1-8)

شاگردوں کو یسوع کا چہرہ سورج کی طرح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہوا نظر آیا اور اُنہوں نے اُس کا حقیقی جلال دیکھا۔ تب شاگردوں نے اِس حقیقت کو جانا کہ یسوع کوئی عام شخص نہ تھا بلکہ جسم انسانی میں قادر مطلق خدا کا بیٹا دُنیا کا نُور تھا۔ "نُور سے نُور، حقیقی خدا سے حقیقی خدا، مصنوع نہیں بلکہ مولود، اُس کا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے۔" جب شاگردوں پر اِس سچائی کا مکاشفہ ہوا تو وہ مُردہ سے ہو کر زمین پر گر پڑے، کیونکہ اُن کا انسانی وجود خدا تعالیٰ کا جلال برداشت نہ کر سکا۔ تب یسوع نے اُنہیں اُٹھایا اور کہا کہ ڈرو مت۔

یسوع کی موت اور قبر میں سے زندہ ہونے اور اُس باپ کی طرح اُس کے صعود آسمانی کے بعد ابلیسی قوتیں غضبناک ہو گئیں۔ شیطان نے ایک مذہبی جنونی ساﺅل کے ذریعے یسوع کے پیروکاروں سے اپنی شکست کا بدلہ لیا۔ ساﺅل نے خدا کے نام پر مسیح کے پیروکاروں کو ایذا پہنچانی شروع کر دی۔ انتہائی سخت ظلم کرتے ہوئے ساﺅل نے مسیحیوں کو اپنا ایمان ترک کرنے پر مجبور کیا۔ لیکن جو اپنے ایمان پر قائم رہے اُنہیں موت کی سزا دی گئی۔ مسیحیوں کی مخالفت میں ساﺅل کے جوش و جذبہ کے پیش نظر یروشلیم میں یہودیوں کی مذہبی مجلس صدر عدالت نے اُسے خصوصی اختیار سونپے کہ وہ دمشق میں رہنے والے مسیحیوں کی جائیداد چھین لے اور اُنہیں اذیتیں دے کر تکلیف پہنچائے۔

جب ساﺅل اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے دمشق کے قریب پہنچا تو خداوند یسوع نے اُسے راستہ میں روکا اور اُس مذہبی متعصب ہٹ دھرم پر اپنے جلال کو ظاہر کیا۔ یسوع نے پل بھر ہی میں اُس پر منکشف کر دیا کہ وہ (مسیح مصلوب) زندہ ہے جسے وہ ستا رہا ہے۔ وہ قبر میں نہیں رہ گیا۔ اگرچہ اُس کی اپنی قوم نے اُسے رد کیا لیکن حقیقت میں وہ دُنیا کا نُور تھا۔

اگر آپ انجیل مُقدس میں اِس ساﺅل کی گواہی کا بغور مطالعہ کریں تو آپ جان جائیں گے کہ کس طرح زندہ خداوند موجودہ زمانہ میں بھی بےشمار انسانوں سے ملاقات کرتا ہے، اُنہیں پاک صاف کرتا ہے، اپنے روح سے معمور کرتا ہے اور پھر دُنیا کی اقوام میں بھیجتا ہے تا کہ اُن لوگوں تک اُس کا نُور پہنچائیں جو تاریکی میں اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ مسیح کے ظہور کی بابت پولس (جو کہ پہلے ساﺅل تھا) نے بات کرتے ہوئے لکھا:

"اِسی حال میں، سردار کاہنوں سے اِختیار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔ تو اَے بادشاہ! میں نے دوپہر کے وقت راہ میں یہ دیکھا کہ سُورج کے نُور سے زیادہ ایک نُور آسمان سے میرے اور میرے ہمسفروں کے گِردا گِرد آ چمکا۔ جب ہم سب زمین پر گِر پڑے تو میں نے عِبرانی زبان میں یہ آواز سُنی کہ اَے ساﺅل، اَے ساﺅل! تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ پَینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مُشکل ہے [لوہے کی نوکدار کیل جیسی چیز پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے]۔ میں نے کہا اَے خداوند! تُو کون ہے؟ خداوند نے فرمایا میں یسوع ہوں جِسے تُو ستاتا ہے۔ لیکن اُٹھ، اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو کیونکہ میں اِس لئے تجھ پر ظاہر ہُوا ہوں کہ تجھے اُن چیزوں کا بھی خادم اور گواہ مقرر کروں جن کی گواہی کےلئے، تُو نے مجھے دیکھا ہے اور اُن کا بھی جن کی گواہی کےلئے، میں تجھ پر ظاہر ہُوا کروں گا۔ اور میں تجھے اِس اُمت اور غیر قوموں سے بچاتا رہوں گا جن کے پاس تجھے اِس لئے بھیجتا ہوں۔ کہ تُو اُن کی آنکھیں کھول دے تا کہ اندھیرے سے روشنی کی طرف اور شیطان کے اِختیار سے خدا کی طرف رجوع لائیں اور مجھ پر ایمان لانے کے باعث گناہوں کی معافی اور مُقدسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں۔" (انجیل مُقدّس، اعمال الرسل 26: 12-18)

یہ سچا تاریخی واقعہ بڑی صراحت سے ظاہر کرتا ہے کہ مذہب کی جانب ایک فرد کا جوش و خروش یا مذہبی جنون انسان کےلئے راستبازی کا کام نہیں کرتا، بلکہ یہ نجات دہندہ یسوع کی رحمت و شفقت ہے جو گناہ گار کو بچاتی ہے اور اُن کے دِلوں کی تقدیس کرتی ہے۔

مسیح نے اپنے جاہ و جلال میں کلیسیا کو ایذا پہنچانے والے ساﺅل کو تباہ و برباد نہیں کر دیا۔ بلکہ اِس کے برعکس اُس نے ساﺅل پر ترس کھایا اور شخصی طور پر اُس سے بات کی۔ مسیح نے ساﺅل کے گناہ معاف کر دیئے اور اپنے فضل سے اُسے ابلیس کے بندھنوں سے آزادی بخشی۔ اِس آسمانی رویا کے وسیلہ، ساﺅل پر واضح ہوا کہ یسوع مسیح اور اُس کی کلیسیا کے ارکان ہمیشہ کےلئے ایک دوسرے میں پیوستہ ہیں۔ جب مسیحی کلیسیا کے ارکان دُکھ اُٹھاتے ہیں تو مسیح کو بھی بالکل اِس طرح دُکھ پہنچتا ہے کہ جیسے وہ خود شخصی طور پر اُس دُکھ میں سے گزرا ہو۔ اُس کی محبت اپنی کلیسیا کی معرفت روشنی پھیلاتی ہے اور اُس کا پاک رُوح اُن کی زندگیوں میں سکونت کرتا ہے۔ مسیح اور اُس کی کلیسیا کے درمیان پائی جانے والی یگانگت کی حقیقت کا بھید پولس رسول کے دِل و دماغ میں گہرے طور پر جا گزین ہوا، اور پھر یہ اُس کی منادی میں ایک نیا پیغام بن کر اُبھرا۔

وقت کے ساتھ ساتھ جب مسیحی کلیسیا کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا، تو شیطان نے کلیسیا کو مٹا ڈالنے کی کوشش کی۔ مسیحیوں کے خلاف، ایذا رسانیوں کی اِس لہر میں مسیح کے ایک عزیز شاگرد یوحنا کو پتمس کے جزیرہ پر قیدی بنا لیا گیا۔ اُسے وہاں تنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ بھوک اور پیاس سے مر جائے۔ اِسی دوران مسیح کے کئی اَور پیروکاروں کو گرفتار کیا گیا، اور اذیتیں پہنچانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔

جب یوحنا قید تنہائی میں اپنا وقت دُعا کرتے ہوئے گزار رہا تھا تو خداوند یسوع نے اپنا آپ اُس پر منکشف کیا اور اُسے تسلی دی کہ عالم ارواح کے دروازے اُس کی کلیسیا پر غالب نہ آئیں گے کیونکہ وہ خود اپنی کلیسیا کا خداوند ہے۔ یوحنا نے اپنے اِس بے مثل تجربہ کا اندراج اِن الفاظ میں کیا ہے:

"خداوند کے دِن رُوح میں آ گیا اور اپنے پیچھے نرسنگے کی سی یہ ایک بڑی آواز سُنی کہ جو کچھ تُو دیکھتا ہے، اُس کو کتاب میں لکھ کرساتوں کلیسیاﺅں کے پاس بھیج دے یعنی اِفسُس اور سمُرنہ اور پِرگمُن اور تھواتِیرہ اور سردِیس اور فِلدِلفیہ اور لَودیکیہ میں۔ میں نے اُس آواز دینے والے کو دیکھنے کےلئے مُنہ پھیرا جس نے مجھ سے کہا تھا اور پِھر کر سونے کے سات چراغدان دیکھے۔ اور اُن چراغدانوں کے بیچ میں آدمزاد سا ایک شخص دیکھا جو پاﺅں تک کا جامہ پہنے اور سونے کا سِینہ بند سِینہ پر باندھے ہوئے تھا۔ اُس کا سر اور بال سفید اُون بلکہ برف کی مانند سفید تھے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شعلہ کی مانند تھیں۔ اور اُس کے پاﺅں اُس خالص پیتل کے سے تھے جو بھٹّی میں تپایا گیا ہو اور اُس کی آواز زور کے پانی کی سی تھی۔ اور اُس کے دہنے ہاتھ میں سات سِتارے تھے اور اُس کے مُنہ میں سے ایک دو دھاری تیز تلوار نکلتی تھی اور اُس کا چہرہ، اَیسا چمکتا تھا جَیسے تیزی کے وقت آفتاب۔ جب میں نے اُسے دیکھا تو اُس کے پاﺅں میں مُردہ سا گر پڑا اور اُس نے یہ کہہ کر مجھ پر اپنا دہنا ہاتھ رکھا کہ خوف نہ کر۔ میں اوّل اور آخر اور زندہ ہوں۔ میں مر گیا تھا اور دیکھ ابدُالآباد زِندہ رہُوں گا اور مَوت اور عالمِ ارواح کی کُنجیاں میرے پاس ہیں۔" (انجیل مُقدّس، مکاشفہ 1: 10-18)

یسوع مسیح زندہ ہے اور آسمان و زمین کا کُل اختیار اُس کے ہاتھوں میں سونپا گیا ہے۔ اُس کا چہرہ مبارک یوں چمکتا ہے جیسے دوپہر کو تیزی کے وقت آفتاب۔ اُس کی کرنوں کی بدولت پاکیزگی کا ظہور ہوتا ہے جو اُس کے تمام مُقدسین کی زندگیوں کو منور کرتی ہے، حتیٰ کہ اُس کے جلال کی تاب نہ لا کر زمین پر گرنے والوں پر عدالت کا احساس غالب ہوتا ہے۔ مسیح محبت اور زندگی ہے اور گناہ گار کی ہلاکت نہیں چاہتا، بلکہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے، اور ہر توبہ کرنے والے انسان کے اقوال، افعال اور دُعائیں دوسروں کےلئے آسمانی روشنی کو منعکس کریں۔ اِسی لئے یسوع نے اپنے بندہ یوحنا کو مرنے سے بچایا اور اُسے اُس کے پاﺅں پر کھڑا کیا تا کہ وہ یسوع کے حقیقی جلال کی خاطر زندہ رہے اور اُس کی گواہی دے۔

عزیز قاری! اگر آپ یسوع مسیح کی پیدایش، اُس کی حیات مبارکہ، موت اور قیامت کا مطالعہ کرتے ہیں اور اِس بات کا احساس کرتے ہیں کہ وہ اپنے ابدی جلال میں آسمان پر زندہ ہے تو تب آپ یسوع کے کہے ہوئے اِن الفاظ کے گہرے مطلب کو پا سکیں گے کہ "دُنیا کا نُور میں ہوں۔" اُس کی ازلی و لامحدود بزرگی کسی بھی انسانی اختیار یا شان و شوکت سے بہت بلند تر ہے، اور ہر وہ بشر جو مسیح، اُس کی موت اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے خدائے پاک کے اطمینان سے معمور ہو جائے گا۔ اپنی ذات مبارکہ پر ایمان لانے والے ہر فرد کو زندہ مسیح آسمانی اطمینان عطا کرتا ہے۔

8- انسانوں پر آسمانی نُور کا نزول

یسوع نے اپنے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اور آسمان پر اپنے صعود سے کچھ پہلے، اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ وہ اکھٹے باپ کے وعدہ کے منتظر ہوں تا کہ جب روح القدس اُن پر نازل ہو تو وہ قوت حاصل کر سکیں: "لیکن جب رُوح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاﺅ گے اور ... میرے گواہ ہو گے" (نیا عہدنامہ، کتاب اعمال الرسل 1: 8)۔

خدا کے ساتھ ہماری صلح کرانے کےلئے مسیح نے اپنی جان دے دی اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اُس نے ہمیں تمام گناہوں سے پاک کیا ہے تا کہ اُس کا پاک رُوح ہم میں سکونت کر سکے۔ درحقیقت، انسان صلیب پر مسیح کی موت کے باعث ہی مُنور ہو سکے ہیں۔

مسیحا کے صعود آسمانی کے بعد، اُس کے شاگردوں نے اُس کے پا ک حکم کے مطابق دُعا میں اکھٹے وقت گزارا۔ پھر دسویں دن، اُنہوں نے اپنے گرد ایسی آواز سُنی جیسے زور کی آندھی کا سنّاٹا ہو اور اُس سے وہ سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ پھر اچانک اُنہوں نے آگ کے شعلے دیکھے جس سے کوئی چیز جلی نہیں۔ اُنہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دِکھائی دیں جو اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں اور وہ رُوح القدس سے بھر گئے اور یہ عید پنتیکُوست کا وہ لمحہ تھا جب مسیح کے پیروکاروں پر رُوح القدس نازل ہوا۔

مُردوں میں سے زندہ ہونے والے مسیح نے اپنے جلال اور اپنی زندگی کو صرف اپنے لئے روا نہیں رکھا بلکہ اپنا رُوح اُن پر بھی نازل کرنے کا ارادہ کیا جو اُس کے طالب ہوئے۔ اِس طرح اُس نے اپنے یقینی وعدہ کو پُورا کیا: "دُنیا کا نُور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نُور پائے گا" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 8: 21)۔

ہر وہ فرد جو مسیح کی پاک انجیل (خوشخبری) کو قبول کرتا ہے، وہ خدا کے رُوح القدس کو پانے کا پورا حق رکھتا ہے۔ مسیح کی کفارہ بخش موت نے اُن سب کےلئے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں مفت بخشش کے حق کو خریدا۔ عزیز قاری! آپ بھی خدا کے پاک رُوح کو حاصل کرنے کےلئے چُنے گئے ہیں، لیکن اُس کےلئے شرط یہ ہے کہ آپ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور خدا کے برہ کے خون پر ایمان لائیں جس نے آپ کےلئے ابدی نجات مہیا کر دی ہے۔

رُوح القُدس کا نزول، عہد عتیق میں خدا کے وعدوں میں سے ایک وعدہ تھا جس سے اُس وقت کے تمام ایماندار بخوبی واقف تھے۔ اور خدا تعالیٰ نے مسیح کے صعود آسمانی کے بعد اپنے اِس وعدے کو پورا کیا۔ تمام ایماندار اُس لمحے کے منتظر رہے جس کے بارے میں خدا نے حزقی ایل نبی کو الہام بخشا تھا: "میں تم کو نیا دِل بخشوں گا اور نئی رُوح تمہارے باطن میں ڈالوں گا" (حزقی ایل 36: 26)۔

یسوع نے اپنے عزیز شاگردوں اور پیروکاروں کو یتیم نہیں چھوڑا بلکہ وہ اپنے رُوح میں اُن کے پاس آیا۔ تب سے تمام روئے زمین پر شکر گزاری کی صدائیں اور حمد کے گیت ہر وقت بلند ہوتے رہتے ہیں۔ رُوح القُدس کسی بھی انسانی زندگی میں سکونت کرنے کےلئے عقل، دولت یا اعلیٰ تعلیم کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک فرد کا تائب دِل ہو جو اُسے پانے کےلئے اور یسوع پر ایمان لانے کےلئے تیار ہو۔

9- دُنیا کے نُور، مسیح کو ایمان سے قبول کیجئے

مسیح نے اپنی موت سے پہلے اپنے شاگردوں کو روایتی انداز میں بغیر سپردگی کے اپنی پیروی کرنے سے خبردار کیا، اور اُنہیں تاکید کی کہ وہ ثابت قدم اور گہرے ایمان کا مظاہرہ کریں تا کہ اُن کی زندگیاں نیا پن کا تجربہ کر سکیں۔ یسوع نے اُن سے کہا: "اور تھوڑی دیر تک نُور تمہارے درمیان ہے۔ جب تک نُور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔ اَیسا نہ ہو کہ تاریکی تمہیں آ پکڑے اور جو تاریکی میں چلتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کِدھر جاتا ہے۔ جب تک نُور تمہارے ساتھ ہے نُور پر ایمان لاﺅ تا کہ نُور کے فرزند بنو" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 12: 35-36)۔

عزیز قاری! اگر آپ چاہتے ہیں کہ مسیح کا پاک رُوح آپ میں سکونت کرے تو مسیح کی پیروی کیجئے۔ اپنے دِل کو اُس کے کلام کےلئے کھولئے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو اُس کی ابدی قوت و قدرت، اطمینان اور راستبازی آپ کی زندگی کو معمور کر دے گی۔ آپ کو صرف مسیح ہی میں صراطِ مُستقیم مل سکتی ہے کیونکہ اُس نے اپنے بارے میں اِس سچائی کا یوں اعلان کیا: "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں، کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 14: 6)۔

قریب ہرزمانہ میں، ہمیں کہیں نہ کہیں اَیسی بھی روشنی نظر آتی ہے جو دھوکہ و فریب والی ہوتی ہے۔ اِس طرح کی بھٹکا دینے والی چند روزہ روشنی جلد ہی بُجھ جاتی ہے۔ مگر ایک بات کےلئے آپ یقینی طور پر تسلی رکھ سکتے ہیں کہ صرف یسوع ہی ہے جو آپ کو سچی محبت کرتا ہے۔ اُس کے بغیر آپ تنہا اور گمشدہ، بغیر اطمینان کے جہنم کے شعلوں کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اِس دُنیا کی تاریکی کو ترک کرنا چاہتے ہیں اور گناہ اور اُس کے بندھنوں سے رہائی حاصل کرنے کے متمنی ہیں تو یسوع کے پاس آئیے، اور وہ آپ کو آسمانی قوت عطا کرے گا۔ یہ آسمانی قوت آپ کو تبھی ملے گی جب آپ واحد نجات دہندہ پر ایمان لائیں گے، اور ہر اُس تعلیم، عقیدہ اور جھوٹی وابستگی کو رد کر دیں گے جو مسیحا کی پاک مرضی کے خلاف ہے۔

آپ کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ: "میں کس طرح مسیح پر ایمان لا سکتا ہوں جبکہ میں اُسے اچھی طرح جانتا بھی نہیں؟" ہمارا جواب یہ ہے کہ "انجیل مُقدس میں اُس کی حیات پاک کا بغور مطالعہ کیجئے اور آپ اُسے جان جائیں گے۔ اُس کے کلام کا جائزہ لیں اور اُس پر خوب گیان دھیان کیجئے۔"

"تم کتابِ مُقدس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔ پھر بھی تم زندگی پانے کےلئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے۔" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 5: 39-40)

جیسے ایک اچھے دوست کے ساتھ آپ پیش آتے ہیں ویسے ہی زندگی کی راہ میں اُس کے ساتھ چلیے، اُس کے کاموں پر غور کریں اور اُس سے دُعا میں بات چیت کریں۔ وہ آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور آپ کی ہر بات کو سُنتا ہے۔ وہ آپ کی دُعاﺅں کا جواب دینے کےلئے تیار ہے کیونکہ وہ آپ سے شخصی طور پر محبت رکھتا ہے۔ وہ آپ کو ناکام نہیں ہونے دے گا اور نہ ہی آپ کو فراموش کرے گا، کیونکہ یہ اُس کا ازلی مقصد ہے: "اُس نے ہمارے گناہوں کے مُوافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مُطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر اُس کی شفقت اُن پر ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں۔ جَیسے پُورب پچھم سے دُور ہے وَیسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دیں۔ جَیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے وَیسے ہی خداوند اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔ کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں" (زبور 103: 10-14)۔

ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ اپنا ہاتھ مسیح کے ہاتھ میں دے دیجئے اور ہمیشہ کےلئے اُس کے ساتھ ایک عہد کریں۔ وہ آپ کو راہنمائی، مشورت، سلامتی، تقویت اور محافظت عطا کرنا چاہتا ہے تا کہ آپ اُس کی محبت اور اُس کے وفادار اور سچے وعدوں کا تجربہ کر سکیں۔ تب آپ اُس بات کو سمجھ سکیں گے جس کا تجربہ داﺅد نبی نے کیا تھا: "خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔ مجھے کس کی دہشت؟ خداوند میری زندگی کا پُشتہ ہے۔ مجھے کس کی ہیبت؟" (زبور 27: 1)۔

مسیح پر ایمان محض عقلی علم کی حالت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں آپ اپنی زندگی مسیح کے تابع کرتے ہوئے پُرخلوص اور حقیقی سپردگی ظاہر کرتے ہیں۔ مسیح کی پیروی کرنے کے نتیجے میں آپ اُس کی قوت و قدرت، محبت اور اطمینان کا تجربہ کریں گے جو سمجھ سے باہر ہے۔ "خداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا۔" (نیا عہد نامہ، کتاب اعمال الرسل 16: 31)

آپ اپنے نجات دہندہ کے حضور مکمل اطاعت کا تجربہ بھی کریں گے جو آپ کی زندگی کو مُنور کر دے گا اور آپ کو نُور کا فرزند بنائے گا۔ ایمان صرف ایک احساس نہیں کہ آپ اِس بات کو محسوس کریں کہ خداوند آپ میں ہے۔ یہ کافی ہے کہ آپ اپنی زندگی اُس کی سپردگی میں دے دیں، اِس پر ایمان لائیں کہ اُس نے آپ کو قبول کر لیا ہے اور آپ اُس کے فرزند بن گئے ہیں۔ اپنی پُرعزم محبت میں اُس نے وعدہ کیا ہے کہ جو کوئی اپنے دِل کو اُس کےلئے کھولے گا وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا (نیا عہد نامہ، کتاب مکاشفہ 3: 20)۔

لیکن اگر آپ یہ نہیں جانتے کہ مسیح جو مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اُس سے کیسے بات کریں یا اگر آپ اِس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ کیسے اپنی زندگی اُس کے حوالے کریں تو ہم نے آپ کےلئے سپردگی کی ایک دُعا لکھی ہے جو آپ اپنے الفاظ میں دہرا سکتے ہیں:

اے خداوند مسیح، انجیل مُقدس ہمیں بتاتی ہے کہ تُو ہماری نجات کی خاطر ایک انسان بن کر آیا، اور ہمیں راستبازی عطا کرنے کےلئے مر گیا اور پھر جی اُٹھا۔ اپنی محبت و شفقت میں مجھ گناہ گار پر رحم کر اور میرے گناہ معاف فرما۔ اپنے قیمتی خون سے میرے دِل کو دھو ڈال، اور اپنے روح القدس کے وسیلے میری سوچوں کو پاک کر۔ میں ایمان لاتا ہوں کہ تُو نے میری خاطر موت سہی، اور خدائے قدوس سے تُو نے میری صلح کرا دی ہے۔ جو دُکھ تُو نے میری خاطر سہے، میں اُن کےلئے تیرا شکر ادا کرتا ہوں۔ مجھے اپنے حضور میں قبول فرما اور توفیق بخش کہ تجھ سے دُور نہ جاﺅں۔ مجھے اپنے رُوح سے مستعد و معمور کر تا کہ میں اِس حقیقت کو جانوں اور تسلی پاﺅں کہ قادر مطلق خدا میرا آسمانی باپ ہے اور میں اُس کا فرزند بن گیا ہوں۔ میں اپنے پورے دِل سے تیرا شکر کرتا ہوں کہ جیسا میں ہوں، تُو نے مجھے اپنی پاک محبت میں قبول کیا ہے۔ آمین۔

عزیز قاری، تسلی پائیں کہ خداوند یسوع نے آپ کی دُعا سُن لی ہے، اِس لئے نہیں کہ آپ راست یا مذہبی ہیں، بلکہ اِس کے برعکس اِس لئے یہ دُعا سُن لی ہے کہ آپ کھوئے ہوئے گناہ گار ہیں۔ خدا اپنے آسمانی باپ سے بات کریں اور اُسے اپنی زندگی کی تمام تفصیلات بتائیں۔ اپنے لئے اُس کی تمام برکات اور راہنمائی کےلئے اُس کا شکر ادا کریں۔ اپنی زندگی کا اختیار اُس کی سپردگی میں دے دیں اور اُس کا کلام روزانہ پڑھیں۔ تب آپ روز بروز آسمانی مضبوطی حاصل کریں گے۔ اُس کا تخلیقی کلام آپ کو نیا بنائے گا اور آپ کی زندگی کا انداز تبدیل کر دے گا۔ آپ یسوع کی مثال کی پیروی کرنے میں حلیم و فروتن بن جائیں گے۔

10- تم دُنیا کے نُور ہو

یسوع نے جب زمین پر اپنی زندگی بسر کی تو وہ کسی بلند مرتبہ پر بسر کی جانے والی زندگی نہ تھی جو اُس کے شاگردوں کی پہنچ سے دُور تھی۔ بلکہ اِس کے برعکس وہ حلیم و فروتن تھا جس نے اُن کے ساتھ اپنی محبت و حکمت بانٹی۔ جب اُس نے اُنہیں کہا کہ "تم دُنیا کے نُور ہو" (انجیل جلیل بمطابق متی 5: 14) تو وہ اُنہیں ایک خاص استحقاق بخش رہا تھا۔ ایک مسیحی اپنی جسمانی فطرت میں راستباز نہیں ہوتا اور کسی ہندو، مسلم، یہودی یا بےدین سے بہتر نہیں ہوتا۔ مسیح مصلوب کے خون سے راستباز ٹھہرنا اور رُوح القدس سے معمور ہونا ہر ایک ایماندار کو خدا کے فرزند کہلائے جانے کا حق بخشتا ہے۔ غرض کہ وہ مسیح میں دُنیا کا نُور بن جاتا ہے۔

لفظ "مسیح" کا مطلب خدا کے رُوح سے مسح شدہ ہے۔ یسوع ہمیشہ رُوح القدس سے معمور تھا کیونکہ وہ اِسی رُوح کی قدرت سے پیدا ہوا تھا۔ یوں وہ دُنیا کو مخلصی دینے کے قابل تھا۔ جہاں تک سچے مسیحیوں کی بات ہے تو وہ رُوح القدس سے معمور ہوتے ہیں، لیکن اُس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے ہوتے ہیں یا اُنہوں نے مسیحی تعلیم سُنی ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں ایک حقیقی مسیحی نہیں بناتیں۔ تاہم، توبہ کرنے اور مسیح پر ایمان لانے کے بعد ایک شخص خدا کا فرزند بن جاتا ہے۔ تب اُسے نئی انسانیت حاصل ہوتی ہے جو راستبازی، پاکیزگی اور سچائی میں خدا سے پیدا ہوتی ہے۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کےلئے اُن کی زندگی کے مقصد کا یوں اعلان کیا: "تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تا کہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں" ( انجیل جلیل بمطابق متی 5: 16)۔

نجات یافتہ مسیحی ایک چھوٹے شیشے کی مانند ہوتے ہیں جو سورج کی کرنیں منعکس کرتا ہے۔ اگرچہ شیشہ سورج کی تمام روشنی کو سمونے کے قابل نہیں ہوتا، لیکن یہ جذب کی گئی تمام روشنی کو اِردگرد کی تاریکی میں منعکس کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

اِسی طرح ہر مسیحی کو مسیح کی محبت، اُس کی خوشی اور اطمینان کو دوسروں کی طرف منعکس کرنے کےلئے بلایا گیا ہے۔ کیونکہ مسیح کا تحمل، مہربانی، نیکی، حلم اور پرہیزگاری رُوح القدس کا پھل ہے جس کی ہر مسیحی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اُس میں زندگی گزارے گا اور اپنے گرد و نواح میں اُسے پھیلائے گا۔ ایسی قوت و قدرت میں گزاری جانے والی زندگی کےلئے زیادہ الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ محبت کی زبان وہ زبان ہے جو ہر شخص سمجھتا ہے۔

ایک سیاہ فام نوجوان عورت نے ایک پاسبان سے ایک پورا سال اُس کے گھر میں خدمتگذار کے طور پر کام کرنے کی اجازت طلب کی اور اُس کی بیوی رضامند ہو گئی۔ جتنا عرصہ وہ سیاہ فام عورت اُن کے ساتھ رہی اُ س نے دیانت، مہربانی اور وفاداری سے اُن کی خدمت کی۔ سال پورا ہو جانے پر اُس نے جانے کی اجازت طلب کی۔ پاسبان نے اُس سے پوچھا: "تم یہیں پر ہمارے ساتھ کیوں ٹھہر نہیں جاتی؟ اب تو تم ہمارے خاندان کا ایک حصہ بن گئی ہو، ہم تمہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔" اُس نے جواب دیا: "ایسا ممکن نہیں، کیونکہ میرے باپ نے جو ہمارے قبیلے کا سردار ہے، مجھے ایک سال کےلئے آپ کے گھر میں خدمت کرنے کےلئے اور پھر ایک اَور سال ایک مسلم امام کے گھر میں خدمت کرنے کےلئے بھیجا ہے۔ میں ایسا کر چکوں گی تو میں اپنے باپ کے پاس لوٹ جاﺅں گی اور اُسے بتاﺅں گی کہ دونوں میں سے کون اپنے گھر میں اچھی زندگی بسر کر رہا ہے، کون اپنی بیوی بچوں اور خادموں سے اچھی طرح پیش آتا ہے، اور پھر میرا باپ اور تمام قبیلہ اُس بہتر مذہب کو اختیار کر لیں گے۔"

پاسبان نے جلدی سے اپنے ذہن میں گزرے سال کے اپنے الفاظ اور رویے کو لانا شروع کیا، کہ کہیں وہ اپنے گھرانے اور عزیزوں کے ساتھ برتاﺅ میں کوتاہی کا شکار تو نہیں ہوا تھا۔ اُس نے اِس حقیقت کو جانا کہ اُس کی تمام زندگی ہی ایک طرح سے گواہی تھی، جو ایک آئینہ کی مانند تھی جو اُس میں بسنے والی رُوح کو منعکس کر رہی تھی۔ عزیز قاری، اِس بارے میں سوچئے کہ آپ کے پڑوسی، خدمتگذار اور دوست آپ کی زندگی میں کیا دیکھتے ہیں؟ کیا آپ مسیح کا نُور منعکس کرنے والا ایک صاف آئینہ ہیں؟

مسیح کی محبت ہمیں اپنے بارے میں شیخی بگھارنے پر نہیں اُبھارتی کیونکہ اُس میں ہمیں فرزندیت کا حق ملتا ہے۔ اُس سے ہم رُوح القدس میں بسر کی جانے والی زندگی کی قوت حاصل کرتے ہیں۔ غرض، ایماندار اپنی ذات کی عظمت و بڑائی نہیں چاہتا کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے وہ خدا کے رُوح کے کام کا نتیجہ ہوتا ہے جو اُس میں بستا ہے۔ پھر اُس کی زندگی خدا کےلئے جس نے اُسے مخلصی و نجات بخشی ہوتی ہے، پرستش و شکر گزاری کرنے والی زندگی بن جاتی ہے۔

مسیحی خدا کے مغلوب یافتہ غلام نہیں ہیں، اور اُس کے سامنے دہشت سے سجدہ بجا نہیں لاتے بلکہ اپنی زندگی کے تمام ایام میں خوشی و شادمانی سے اُس کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ اُن کی زندگیوں میں کام کرنے والا محرک خوف نہیں بلکہ محبت ہے۔

پولس رسول نے دوسری پیدایش اور مسیحی رویہ کا بیان مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے: "تم پہلے تاریکی تھے مگر اَب خداوند میں نُور ہو۔ پس نُور کے فرزندوں کی طرح چلو۔ اِس لئے کہ نُور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے" (نیا عہدنامہ، کتاب افسیوں 5: 8-9)۔

اِن دو آیات میں پولس رسول اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ مسیح کے پیروکار اپنی زندگی میں ایک ماضی اور حال رکھتے ہیں۔ اُن کا ماضی جب وہ خطاﺅں اور دغابازی کی تاریکی سے گھرے تھے، لیکن اَب وہ یسوع کے خون سے دُھل چکے ہیں، اُس کی شفقت و رحمت اُن کی زندگیوں میں کار فرما ہے، اور اُس کے نُور سے وہ مُنور ہو گئے ہیں، تا کہ وہ بغیر کسی خوف کے اُس میں قائم رہ سکیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نہ تو کوئی مشکل نہ ایذا رسانی اور نہ موت اُنہیں اُس کے ہاتھ سے چھین سکتی ہے۔ پولس رسول نے اُنہیں "نُور کے فرزند" کہا ہے کیونکہ مسیح جو اُنہیں مُنور کرتا ہے دُنیا کا نُور ہے۔

نہ ہی اعلیٰ مدارج اور نہ ہی ترک دُنیا یا کوئی ذہنی مشق ایک فرد کو تبدیل کر سکتے ہیں، بلکہ صرف خدا کا رُوح اُس میں ایک نیا فرد پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ انسان فطرتاً گناہ گار ہے اِس لئے اُس کی اپنی قوت و طاقت میں اِس تخلیق نو کا ہونا ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کے کلام کی قدرت اور اُس کے رُوح کے ذریعے ممکن ہے۔

یسوع نے جواب دیا: "میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں، جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو، وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جو جسم سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو رُوح سے پیدا ہوا ہے رُوح ہے" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 3: 5-6)۔

تاہم، مسیح کے نُور کی بدولت ایک فرد کی پیدایش خدا کے منصوبہ نجات کا حتمی مقصد نہیں ہے، بلکہ ایماندار کی ترقی حتمی مقصد ہے جب تک کہ نُور کے پھل ایماندار کے کردار میں نظر نہ آئیں۔ پولس اِس تناظر میں نیکی، راستبازی اور سچائی کو خدا کے نُور کی خصوصیات کے طور پر بیان کرتا ہے۔ تمام انسانیت اِن خوبیوں کی اُس حد تک مشتاق ہے جہاں کچھ افراد جو مخصوص عقائد اور نظریات سے منسلک ہوتے ہیں خود انسان میں اُنہیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بےکار ہے۔ خدا کی زندگی اُن افراد میں نہیں ہوتی جو اپنے گناہوں خطاﺅں میں مُردہ ہیں۔ صرف مسیح آپ کی زندگی کو نُور بخش سکتا ہے اور سچائی، پاکیزگی اور محبت کےلئے زندہ رہنے کی قابلیت عطا کر سکتا ہے۔ وہ آپ کی مدد کرتا ہے کہ ہر طرح کی خود غرضی سے آزاد ہوں، اور آپ کو سکھاتا ہے کہ دوسروں کا خیال رکھیں، بڑبڑائے بغیر اُنہیں برداشت کریں، اُن کی خدمت کریں اور اُنہیں معاف کریں۔

مسیح میں نئی زندگی کا ایک اہم حصہ بے ایمانوں کے سامنے مسیح کی واضح اور سمجھداری سے دی گئی گواہی ہے۔ زندہ خداوند نے اپنے رسول پولس کے ذمہ غیر اقوام کی آنکھیں کھولنے کا کام سونپا، تا کہ وہ تاریکی سے نُور کی طرف اور شیطان کی طاقت سے زندہ خدا کی طرف آئیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ماچس کی جلتی ہوئی چھوٹی سی تیلی ایک تاریک رات میں تقریباً تین کلومیٹر دُور تک دیکھی جا سکتی ہے؟ آپ کی زندگی، آپ کے الفاظ اور دُعائیں تاریکی میں ایک چمکتی ہوئی گواہی اور نُور ہیں جو چُھپی نہیں رہ سکتیں۔ اِسی لئے خدا آپ کو بلاتا ہے کہ آپ چھوٹی باتوں میں بھی وفادار رہیں اور جو نُور آپ میں ہے اُسے دوسروں تک پہنچائیں۔

یسوع سے دُعا کیجئے کہ آپ کو وہ کسی ایسے فرد کے پاس بھیجے جو راستبازی کا بھوکا پیاسا ہو; اُس کی دِلی آرزو کو سُنئے اور آپ اُس کے مسائل کا اندازہ لگا لیں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ خدا کے رُوح کی آواز کو بھی سُنیں کہ وہ آپ سے کیا چاہتا ہے کہ ایسے فرد کو کیا کہیں۔ خدا کے حضور فرمانبردار اور وفادار رہیں۔ دُعا کیجئے کہ آپ کے عزیز و اقارب اور دوست احباب کی آنکھیں یسوع نجات دہندہ کو دیکھنے کےلئے کھل جائیں اور وہ اپنے گناہ چھوڑ دیں۔ اُن کےلئے مسلسل دُعا کریں کہ یسوع کا نُور آپ کی زندگی سے چمکے۔ صرف وہی گہری ترین تاریکی کو مُنور کر سکتا ہے اور سیاہ دِل کو پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑنے والی برف سے بھی زیادہ سفید بنا سکتا ہے۔ ہر سچے مسیحی کو استحقاق حاصل ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو ہمیشہ کی زندگی کی دعوت دے۔ آپ تاریکی میں ایک مینارہ نُور اور دوسروں کےلئے ایک مدد ہو سکتے ہیں۔

ایک فرد کو لازماً یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ مسیح کی گواہی دینے اور خدمت کرنے کو بعض جگہوں پرخوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ جلد یا بدیر ہمیں مخالفت اور ایذا رسانی کا سامنا کرنے پڑے گا۔ یوں خدمت میں رضاکار کی سرگرمی سُست ہو جاتی ہے اور مایوسی آ دباتی ہے۔ پھر اُس کی رُوحانی زندگی نیم گرم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اِسی وجہ سے پولس رسول ہمیں تنبیہ کرتا اور حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جاگتے رہیں اور دُعا کریں تا کہ ہم بھلے اور بُرے میں امتیاز کر سکیں۔ تب ہم برائی کو برائی کہیں گے، اور ہم عملی طور پر بھلائی کی پیروی کریں گے۔ اِس لئے الہامی کلام کا سرگرمی و شوق سے مطالعہ کیجئے، تب آپ اپنے خدا کی خدمت کرنے کےلئے حکمت و دانائی حاصل کریں گے۔

"تاریکی کے بے پھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ اُن پر ملامت ہی کیا کرو۔ کیونکہ اُن کے پوشیدہ کاموں کا ذکر بھی کرنا شرم کی بات ہے۔ اور جن چیزوں پر ملامت ہوتی ہے وہ سب نُور سے ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ جو کچھ ظاہر کیا جاتا ہے وہ روشن ہو جاتا ہے۔ اِس لئے وہ فرماتا ہے کہ اے سونے والے جاگ اور مُردوں میں سے جی اُٹھ تو مسیح کا نُور تجھ پر چمکے گا۔" (نیا عہدنامہ، کتاب افسیوں 5: 11-14)

11- خدا نُور ہے اور ہمیں اپنے نُور میں متحد کرتا ہے

جب رُوح القدس آپ کو مسیح کے نُور میں لے کر آتا ہے تو آپ اِس بات کا اَور زیادہ احساس کرتے ہیں کہ خدا رُوح اور سچائی میں آپ کا باپ ہے۔ یہ وہ خبر ہے جس کے بارے میں یوحنا رسول نے ہمیں اِن الفاظ میں آگاہی دی: "خدا نُور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہماری اُس کے ساتھ شراکت ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہم نُور میں چلیں جس طرح کہ وہ نُور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1-یوحنا 1: 5-7)۔

جب ہم اپنے خالق کے نزدیک آتے ہیں تو ایک اَور سچائی کا ادراک کرتے ہیں کہ خدا پاک ہے۔ جب خدا تعالیٰ کے نبی یسعیاہ نے ہیکل میں خداوند کو دیکھا تو پکار اُٹھا: "مجھ پر افسوس! میں تو برباد ہوا! کیونکہ میرے ہونٹ ناپاک ہیں اور نجس لب لوگوں میں بستا ہوں کیونکہ میری آنکھوں نے بادشاہ رب الافواج کو دیکھا" (یسعیاہ 6: 5)۔

اگر آپ اِس بیان کا جائزہ لیں تو آپ دیکھ سکیں گے کہ خدائے قدوس نے اُس گناہ گار کو جس نے اپنے گناہ کا اقرار کیا پاک صاف کر دیا۔ خدا تعالیٰ نے اُسے چُنا، کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو غیر مشروط پر خدا کے اختیار کے حوالہ کر دیا تھا، اور خدا نے اُسے اپنے فضل سے کثرت سے معمور کیا یہاں تک کہ وہ خدا کا خادم بنا۔

جب حزقی ایل نبی عراق میں اسیر کے طور پر رہ رہا تھا تو وہاں خدا کا جلال ایک فرق طرح سے اُس پر ظاہر ہوا۔ اُس نے خدا کو ایک بڑے تخت پر بیٹھے دیکھا جو سورج کی چمک سے بھی زیادہ روشن تھا۔ اُس کا تخت مسلسل حرکت کر رہا تھا۔ عہد عتیق میں خدا کے جلال کا حیرت انگیز تنوع اُس کی جلالی صفت اور ناموں کی بھرپوری کو ظاہر کرتا ہے۔

یوحنا رسول نے بھی قادر مطلق کے بارے میں دیکھی گئی رویا کا بیان درج کیا ہے۔ چونکہ مسیح نے اپنے بارے میں یہ اعلان کیا کہ وہ "دُنیا کا نُور" ہے، اِس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا ہمارا محبت کرنے والا باپ ہے۔ خدا باپ اور اُس کا بیٹا مسیح اور حتیٰ کہ اُس کی کلیسیا بھی اِس نُور کی خوبی کی حامل ہے، کیونکہ وہ ایک ہی جوہر ایک ہی رُوح سے ہیں۔

خدا ہر طرح کی راستبازی کا پیمانہ ہے، اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔ اُس کی محبت ہم سے اِس بات کی متقاضی ہے کہ ہم بدی سے مکمل طور پر جدا ہو جائیں۔ باپ کی محبت سچائی ہے اور تمام طرح کے جھوٹ سے پاک ہے، اور وہ اپنے تمام فرزندوں میں بھی اپنی خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے۔

ہمارے خداوند یسوع مسیح کے باپ نے مسیحا کے پیروکاروں کو اپنے نُور میں "چلنے" کے قابل بنایا ہے، اور نُور کے فرزندوں میں ہمیں شامل کیا ہے۔ باپ، بیٹا اور رُوح القدس باہمی محبت میں شروع سے مکمل طور پر ایک ہیں۔ یسوع کی دُعا سے بھی یہ واضح ہے: "وہ جلال جو تُو نے مجھے دیا ہے میں نے اُنہیں دیا ہے تا کہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔ میں اُن میں اور تُو مجھ میں تا کہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں اور دُنیا جانے کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا اور جس طرح کہ تُو نے مجھ سے محبت رکھی اُن سے بھی محبت رکھی" (انجیل جلیل بمطابق یوحنا 17: 22-23)۔

خدا کی مرضی صرف یہ نہیں کہ وہ ہمیں مُنور کرے، بچائے اور پاک کرے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہر طرح کی خود غرضی بھی ہم سے دُور ہو، اور ہم دوسرے مسیحیوں کی خدمت کرنے کی خواہش سے معمور ہو جائیں۔ حقیقی مسیحیت کا اظہار مسیحیوں کے مابین پائی جانے والی رفاقت سے ہوتا ہے۔

اِس اصول کے اطلاق کےلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم دوسرے ایمانداروں کے بارے میں بدگمانی کو اپنے آپ سے دُور کر دیں، تا کہ ہم اُن پر اور اُن کی باتوں پر بھروسا کر سکیں۔ اِس طرح ہم اپنے روحانی غرور پر غالب آتے ہیں۔ نتیجتاً ہم اپنی سوچ کے انداز میں ایک تبدیلی کا تجربہ کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم حلیمی اور ہم آہنگی کی رُوح میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ یسوع نے کہا: "جو تم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادم بنے۔ اور جو تم میں اوّل ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے۔ چنانچہ ابن آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے" (انجیل جلیل بمطابق متی 20: 26-28)۔

یہ اصول نُور کے فرزندوں کا نصب العین ہے۔ اب ہم مالک نہیں بلکہ بہ رضا و رغبت تمام لوگوں کے خادم ہیں۔ یسوع کی پیروی کرنے والا شخص اپنا وقت اور روپیہ دوسروں کی خدمت کرنے میں صرف کرتا ہے، اور اِس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اُسے رد کریں۔ ہمارے خداوند نے ہمیں اِسی بات کی تعلیم دی ہے۔ اُس کے پیروکار صبر سے مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے اپنے آپ کو نظم و ضبط کی تربیت دیتے ہیں کہ جیسے خدا خود اُن کے ساتھ تحمل سے پیش آیا تھا۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ مسیح میں ایماندار ہر طرح سے کامل ہوتے ہیں۔ ہم سب انسان ہیں اور غصے، فخر، سُستی، جھوٹ اور ہر طرح کی برائی کی آزمایشوں کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم، ہم میں بسنے والا خدا کا رُوح ہمیں فتح بخشتا ہے۔ اگر ہم ٹھوکر کھائیں یا بھٹک جائیں یا گناہ کریں تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار وکیل یسوع مسیح ہے جس نے ہمارے گناہوں کےلئے کفارہ دیا ہے۔

"اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1-یوحنا 1: 9)

خدا باپ کا رُوح ہماری زندگی ہے اور یسوع مسیح کا خون ہماری راستبازی ہے۔ مسیح کے خون سے مسلسل پاکیزہ ہوئے بغیر ہم خدا کی قوت و قدرت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُس کے نُور میں چلنا جاری رکھ سکتے ہیں۔ غرض، نُور میں چلتے رہنے کےلئے ضروری ہے کہ ہمیں گناہوں کی مسلسل معافی حاصل ہو۔

جب بھی ہم رُوح القدس میں خدا کے نزدیک آتے ہیں، تو ہمارے دِل کا بگاڑ عیاں ہو جاتا ہے جو ہمیں اپنی حالت پر رونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن مسیح کی حلیمی ہمیں حقدار ٹھہراتی ہے کہ توبہ کرنے والوں میں شامل ہوں اور خدائے ثالوث کے فضل میں زندگی بسر کریں۔

12- کیا آپ اَب بھی اپنے بھائی سے نفرت کرتے ہیں؟

"کیونکہ تاریکی مٹتی جاتی ہے اور حقیقی نُور چمکنا شروع ہو گیا ہے۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نُور میں ہوں اور اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ ابھی تک تاریکی ہی میں ہے۔ جو کوئی اپنے بھائی سے محبت رکھتا ہے وہ نُور میں رہتا ہے اور ٹھوکر نہیں کھانے کا۔ لیکن جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ تاریکی میں ہے اور تاریکی ہی میں چلتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کہاں جاتا ہے کیونکہ تاریکی نے اُس کی آنکھیں اندھی کر دی ہیں۔" (نیا عہدنامہ، 1-یوحنا 2: 8-11)

اپنی طویل زندگی میں، محبت کے رسول یوحنا کو کئی غلط نظریات اور بڑی تاریکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس نے دیکھا کہ فلسفیوں اور مذاہب کے بانیوں میں سے بہت سے آئے اور گزر گئے۔ اُن میں سے کئی کے مقبروں کی بہت زیادہ عزت و تعظیم ہوئی اور کئی کو نظر انداز کیا گیا۔ لیکن اِس کے برعکس مسیح کی قبر خالی ہے کیونکہ وہ زندہ ہے۔ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ اُس کی محبت غیر فانی ہے، اُس کی قوت و قدرت ناقابل تسخیر ہے اور اُس کی انجیل اَب بھی بچاتی ہے۔

جب یوحنا نے اِس سچائی کو دریافت کیا تو اُس نے دلیری کے ساتھ گواہی دی کہ تاریکی جاتی رہی ہے اور اُس کی قوت کو شکست ہوئی ہے; موت مغلوب ہو گئی ہے اور خدا کی زندگی ظاہر ہوئی ہے۔ تاریکی کا دور ختم ہو گیا ہے اور یہ فضل کا زمانہ ہے۔ مسیح کی محبت کی کرنیں آپ پر طالع ہو چکی ہیں، اور جو اُس کے نزدیک آتے ہیں اُنہیں آگہی، معافی اور الہٰی قوت و قدرت ملتی ہے۔ مسیح وہ طاقتور نُور ہے جو کبھی ماند نہیں پڑتا، کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو حلیم کر دیا اور دُنیا کے گناہوں کی خاطر صلیب پر مر گیا۔

"اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سر بلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جُھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 9-11)

یہ امر قابل افسوس ہے کہ کچھ ایماندار اپنے بھائیوں بہنوں کو رد کرتے ہوئے اپنے دِلوں میں نفرت کا بیج رکھتے ہیں۔ یوحنا اُنہیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ نُور اور تاریکی ایک ہی جگہ پر اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ یا تو آپ اپنے بھائی کے تمام گناہوں کو بغیر کسی حیل و حجت کے معاف کریں اور اُنہیں ہمیشہ کےلئے بھول جائیں، وگرنہ آپ اندھے پن کا شکار ہو کر تاریکی میں ہیں۔ یسوع نے ہمیں سکھایا ہے: "اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو۔ تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو" (انجیل جلیل بمطابق متی 5: 44-45)۔

اپنے اندر مسیح کی رُوح کے اثر کے باعث ہم اپنے سخت ترین دُشمنوں کو بھی دوست بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ رُوح میں ہمارے بھائی اور بہنیں ہمارے لئے بہت زیادہ قدر رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے ابدی عزیز ہیں۔ اِس لئے ہم اُنہیں معاف کرتے ہیں اور اُن کی خطاﺅں کو بھول جاتے ہیں۔ ہم اُن تک جانے میں پہل کرتے ہیں، اُنہیں گلے لگاتے ہیں، اُن کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، اُن پر اعتماد کرتے ہیں اور اپنے بوجھ اُن کے ساتھ بانٹتے ہیں۔

ہر جرم یا غلط فہمی آپ کو اپنے بھائی سے جدا کرتی ہے۔ سو، اُس وقت کا انتظار نہ کریں کہ جب آپ کا مجرم آپ کے پاس آ کر معذرت کرے، بلکہ آپ اُس کے پاس جائیں اور حالات بہتر بنائیں، اُس کے پاس جائیں اور اُس سے معافی کے طلبگار ہوں۔ پہلے معذرت کرنے والا رُوح میں مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے اُس وقت کا انتظار کرتا ہے کہ جب تک دوسرا اُس کے پاس نہ آئے، تو وہ کمزور اور اپنی روحانی زندگی کے اعتبار سے حقیر ہے۔

ایک خاص افریقی مسیحی قبیلے میں میاں بیوی کے درمیان ایک رواج ہے کہ اگر اُن میں کسی بات پر اختلاف رائے پیدا ہو جائے اور وہ سخت غصے میں ایک دوسرے کو نامناسب الفاظ کہیں، اور یعد میں اُن میں سے ایک اپنے ہوش و حواس میں آ کر مسئلے کو سمجھ جائے تو وہ گھر کے ایک کونے میں جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بلند آواز سے کہتا ہے "میں بیوقوف ہوں۔" اور اگر دوسرا ساتھی رُوح میں مضبوط ہو تو وہ مخالف کونے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے "میں اُس سے زیادہ بیوقوف ہوں۔"

پھر دونوں بتدریج ایک دوسرے کی طرف آتے ہیں اور ایک دوسرے سے کہتا ہے "غلطی میری ہے" اور دوسرے کا جواب ہوتا ہے "میری غلطی زیادہ ہے۔" یوں اگر وہ خدا کے فضل میں زندگی بسر کرنے والے ایماندار ہیں تو دونوں میں صلح صفائی ہو جاتی ہے۔

خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپ کو شکستہ رُوح عنایت کرے اور آپ کا ذہن اور اندازِ فکر بدلے تا کہ آپ اُس کے کلام میں قائم ہوں اور عدالت کے اٹل اصول کو بہتر طور پر جان سکیں۔

"عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔ کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟" (انجیل جلیل بمطابق متی 7: 1-3)

ایک سپاہی اپنے گروہ کے ساتھ ایک سوئمنگ پول (تیرنے کے تالاب) پر گیا۔ دورانِ تربیت اُس نے دیکھا کہ اُس کے مخالف قبیلے کا ایک سپاہی ڈوبنے کو تھا۔ اُس کا پہلا ردعمل اُسے وہاں اکیلے چھوڑ دینے کا تھا لیکن خدا کے رُوح نے اُسے قائل کیا اور اُس کی سوچ کو تبدیل کیا۔ نتیجتاً اُس نے اُس ڈوبتے شخص کی طرف چھلانگ لگائی جس نے مایوسی میں اپنے بچانے والے کو زور سے پکڑ لیا، یہاں تک کہ وہ بھی تقریباً ڈوبنے کو تھا۔ تب بچانے والے نے ڈوبتے شخص کو بے ہوش کرنے کےلئے زور سے مارا، پھر اُسے گھسیٹ کر کنارے پر لایا۔ پھر اُس کے اوپر جُھک کر اپنے منہ کے ذریعے اُس کے عمل تنفس کو بحال کیا اور اُس کے جسم پر اُس وقت تک مالش کی جب تک کہ زندگی کے نشانات اُس کے چہرے پر نمودار نہ ہوگئے۔

اُسی دن بچ جانے والا شخص اپنے بچانے والے کے پاس گیا اور شرمندگی سے کہنے لگا "میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے بچایا۔ جب تک میں زندہ ہوں، میں اِس مہربانی کو نہیں بھول سکتا۔" بعد میں اُس کا باپ اپنے قبیلے کے اکابرین کے ہمراہ ایماندار سپاہی کے والدین کے گھر آیا اور اپنے بیٹے کے بچائے جانے کےلئے تشکر کا اظہار کرتے ہوئے اُن کے سامنے جھک گیا۔ یوں اُن دو قبائل کے درمیان امن و سلامتی آئی جو ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے سے عداوت رکھے ہوئے تھے۔

اگر ایماندار سپاہی ڈوبتے شخص کو ڈوبنے دیتا تو وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مشکل میں ہوتا، لیکن اُس میں بسنے والا خدا کا رُوح تاریکی کی آزمایش پر غالب آیا۔ خدا کی پاکیزگی نے اُس نفرت کو نکال باہر کیا جو ابلیس نے اُس کے دِل میں ڈال دی تھی۔ یوں مسیح کی محبت غالب آئی; تاریکی جاتی رہی اور نُور حقیقی آب و تاب سے چمکا۔

آپ کی حالت کیسی ہے؟ کیا آپ کو کوئی ایسا شخص یاد آ رہا ہے جس سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے؟ اُس کےلئے خداوند کا شکر ادا کریں۔ اُس کے ذریعے خداوند آپ کو اپنی ذات پر فتح سکھانا چاہتا ہے تا کہ جیسے خدا آپ سے محبت کرتا ہے ویسے ہی آپ اپنے دشمن سے پیار کریں۔ جب تک کہ آپ خدا کے رُوح کی راہنمائی میں اپنے دشمن کی بھلائی کےلئے دُعا نہ کریں اور اُس کی خدمت نہ کریں تب تک آپ خدا کے رُوح کی قائلیت سے حاصل ہونے والے اطمینان کو اپنے دِل میں نہیں پا سکتے۔

13- نُور اور تاریکی میں آخری جنگ کا آغاز

پولس رسول جس نے بحیرہ روم میں منادی کی خاطر سفر کیا، رومیوں کے نام اپنے خط کا اختتام اِن الفاظ سے کرتا ہے: "محبت اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتی۔ اِس واسطے محبت شریعت کی تعمیل ہے۔ اور وقت کو پہچان کر ایسا ہی کرو۔ اِس لئے کہ اَب وہ گھڑی آ پہنچی کہ تم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اُس وقت کی نسبت اَب ہماری نجات نزدیک ہے۔ رات بہت گذر گئی اور دن نکلنے والا ہے۔ پس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔ جیسا دِن کو دستور ہے شایستگی سے چلیں نہ کہ ناچ رنگ اور نشہ بازی سے۔ نہ زنا کاری اور شہوت پرستی سے اور نہ جھگڑے اور حسد سے۔ بلکہ خداوند یسوع مسیح کو پہن لو اور جسم کی خواہشوں کےلئے تدبیریں نہ کرو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 13: 10-14)۔

پولس رسول نے اپنی تعلیم میں بتایا کہ انسانی تاریخ کے آخر میں تاریکی مسیح کے راج کو ایک انتہائی منظم حملے سے تباہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اِس لئے رسول مسیح کے پیروکاروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ نُور کے ہتھیاروں سے لیس ہو جائیں۔ اِس سے اُس کی مراد تلواریں یا تیر، توپیں یا زہریلی گیس نہیں اور نہ ہی لیزر بیم یا نیوکلیائی ہتھیار ہیں، کیونکہ خدا کی محبت ہمیں ناپاک جنگ کےلئے نہیں بلاتی۔ اِس کے برعکس یہ ہمیں دوسروں کے خلاف تشدد کے استعمال سے منع کرتی ہے جیسے مسیح نے اپنے خاص الخاص رسول پطرس کو یہ کہتے ہوئے تنبیہ کی: "اپنی تلوار کو میان میں رکھ کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (انجیل جلیل بمطابق متی 26: 52)۔

غرض، صلیبی جنگوں میں کار فرما سوچ کی انجیل مقدس میں کوئی بنیاد نہیں پائی جاتی یا اُس کی توجیہہ کو یہاں سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ مسیحی جدوجہد سیاسی اعتبار سے نہیں بلکہ روحانی اعتبار سے پوری ہوتی ہے۔ یہ تباہ کرنے والے ہتھیار نہیں بلکہ رُوحانی ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ پولس رسول کے افسیوں کے نام لکھے گئے خط میں بیان کئے گئے اِن رُوحانی ہتھیاروں کی نوعیت پر غور کیجئے تا کہ آپ اُس رُوحانی جنگ کے معنٰی کو سمجھ سکیں جو ہمیں درپیش ہے: "خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تا کہ تم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔ کیونکہ ہمیں خون اور گوشت سے کُشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اِس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن رُوحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔ اِس واسطے تم خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تا کہ بُرے دِن میں مقابلہ کر سکو اور سب کاموں کو انجام دے کر قائم رہ سکو۔ پس سچائی سے اپنی کمر کس کر اور راستبازی کا بکتر لگا کر۔ اور پاﺅں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن کر۔ اور اُن سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔ جس سے تم اُس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو۔ اور نجات کا خود اور رُوح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو۔ اور ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا اور مِنّت کرتے رہو اور اِسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مُقدّسوں کے واسطے بلاناغہ دُعا کیا کرو" (نیا عہد نامہ، افسیوں 6: 11-18)۔

ایماندار کی لڑائی کا بنیادی ہدف دشمن نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے اُس کی اپنی ذات ہے۔ اِس لئے ہمیں یسوع کے نام میں "میں" پر فتح پانے کی اور شہوت، نشہ بازی، حرامکاری، نفرت، حسد اور دِل میں غرور کی طرف اپنے جھکاﺅ کے خاتمہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ساتھی انسانوں کےلئے اُسی چیز کی خواہش کرنی چاہئے جس کی ہم اپنے لئے خواہش کرتے ہیں، جیسے کہ بائبل مُقدّس میں لکھا ہے: "تو میری یہ خوشی پوری کرو کہ یکدل رہو۔ یکساں محبت رکھو۔ ایک جان ہو۔ ایک ہی خیال رکھو۔ تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا" (نیا عہد نامہ، فلپیوں 2: 2-5)۔

جہاں تک آخری جنگ کی بات ہے تو یہ انتہائی غضبناک اور بغیر رحم کے ہو گی، جیسا کہ مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا: "خبردار! کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے" (انجیل جلیل بمطابق متی 24: 4-5)۔

سخت اذیت کے اُن ایام میں لوگ آسانی سے غلط تعلیمات اور جھوٹے نظریات کو قبول کر لیں گے۔ اِس لئے، ہمیں سچائی کی مضبوط بنیاد کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح ہی واحد سچائی ہے جس میں ہمارا قائم رہنا ضروری ہے۔ جیسے ہم اپنا بہترین لباس پہنتے ہیں ویسے ہی ہمیں اُس سے ملبس ہونے کی ضرورت ہے۔ اِسی لئے بائبل مُقدّس میں لکھا ہے: "خداوند یسوع مسیح کو پہن لو اور جسم کی خواہشوں کےلئے تدبیریں نہ کرو" (نیا عہد نامہ، رومیوں 13: 14)۔

یوں آپ کے دوست آپ کے کردار و گفتار میں مسیح کو دیکھیں گے; سو، اُس کی خالص محبت میں حلیمی سے قائم رہیں، اور فروتنی سے سب کے ساتھ بھلائی کریں۔ مسیح کی راستبازی آپ کو ابلیس اور اُس کی قوت سے بچائے گی، کیونکہ خداوند آپ کی واحد پناہ گاہ ہے اور اگر آپ اُس کی حفاظت میں آئیں گے تو آپ دلیری پائیں گے۔

نُور اور تاریکی میں جنگ قدیم وقتوں سے جاری ہے۔ یہ جنگ سچائی، ایمان اور دیانتداری کے بارے میں ہے۔ مسیح، ابلیس کے کاموں کو مٹانے کےلئے آیا۔ اُس نے ابلیس کو "دُنیا کا سردار" کہا۔ یوحنا رسول گواہی دیتا ہے کہ "ساری دُنیا اُس شریر کے قبضے میں پڑی ہوئی ہے۔" لیکن جو کوئی اپنے دِل کو مسیح کے نُور کےلئے کھولتا ہے، ابلیس کی قوت سے آزاد ہو جاتا ہے اور تاریکی سے اُس کے حیرت انگیز نُور میں داخل ہو جاتا ہے۔ یسوع نے اپنے عزیز شاگردوں سے کہا: "تم مجھ میں قائم رہو اور میں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔ میں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور میں اُس میں وہی بہت پھل لاتا ہے کیونکہ مجھ سے جدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 4-5)۔

کوئی بھی مسیحی شیطان اور بد ارواح پر بذات خود غالب نہیں آ سکتا۔ تاہم، خدا کا بیٹا واحد غالب آنے والی ہستی ہے۔ ایک فرد میں اُس وقت تک الہٰی نُور کی قوت موجود نہیں ہوتی جب تک کہ یہ مسیح کی طرف سے عطا نہ کی جائے۔ غرض، جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ "ہمیں برائی سے بچا" تو ہم ایک طرح سے اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم خود اپنے آپ کو شیطان کے قبضے یا فریب کاریوں سے نہیں چھڑا سکتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جو ہمیں مسیح میں محفوظ کرتا ہے اور شیطان کے اختیار سے رہائی بخشتا ہے۔ وگرنہ ہم تو اُس پروانے کی مانند ہیں جو روشنی کی طرف کھنچا چلا آتا ہے اور چمک کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب ہم مسیح پر بھروسا کرتے ہیں تو ہماری "انا" ختم ہو جاتی ہے اور خداوند ہم میں اپنا آپ دیکھتا ہے۔

وہ جو مسیح میں ہیں اُنہیں شیطان ہر طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن جب وہ کلیسیا کے اندر نفاق ڈالنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر وہ دھمکیوں، تفتیشوں، قید اور ایذا رسانیوں کا سہارا لے کر آتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ مسیح کے پیروکار اپنے آسمانی باپ کا انکار کریں اور اُس کے نام کی تکفیر کریں۔ تاریکی ہمیشہ نُور کے خلاف سرگرم ہوتی ہے اور اُسے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن مسیح ہمیں تسلی دیتا ہے:

"عالم ارواح کے دروازے اُس پر غالب نہ آئیں گے۔" (انجیل بمطابق متی 16: 18)

"جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔" (انجیل بمطابق متی 24: 13)

آخری دنوں میں ہم ریڈیو، ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے گمراہ کن شوز کے بارے میں سُنیں اور دیکھیں گے، اور کئی سیاسی اور مذہبی علتوں کے بارے میں سُنیں گے۔ دُنیا ہمیں سخت ایذا رسانی پہنچائے گی۔ تاہم، ہمارا باطن اطمینان میں رہے گا کیونکہ رُوح القدس کی نرم آواز مضبوط ترین ہے اور تمام طرح کی گمراہ کن آوازوں کو مغلوب کرنے کے قابل ہے۔ اِس بارے میں مسیح نے بتایا کہ "میں نے یہ باتیں تم سے اِس لئے کہیں کہ تم ٹھوکر نہ کھاﺅ۔ لوگ تم کو عبادت خانوں سے خارج کر دیں گے بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی تم کو قتل کرے گا وہ گمان کرے گا کہ میں خدا کی خدمت کرتا ہوں۔ اور وہ اِس لئے یہ کریں گے کہ اُنہوں نے نہ باپ کو جانا نہ مجھے۔ ...میں نے تم سے یہ باتیں اِس لئے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاﺅ۔ دُنیا میں مصیبت اُٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو۔ میں دُنیا پر غالب آیا ہوں" (انجیل بمطابق یوحنا 16: 1-3، 33)۔

پھر ہم میں الہامی وعدہ پورا ہو گا جو کہتا ہے کہ "مسیح جو جلال کی اُمید ہے تم میں رہتا ہے" (نیا عہد نامہ، کلسیوں 1: 27)۔

14- مسیح بڑے جلال میں واپس آئے گا

زمانے کے آخر میں تاریکی بڑھ جائے گی، بدی مورچہ زن ہو گی اور بہت سے جان بوجھ کر کھلے عام باپ، بیٹے اور رُوح القدس کے نام کی تکفیر کریں گے۔ مذہبی مفکر دُنیا میں امن کےلئے کوشش کرنے اور اُسے قائم رکھنے کےلئے ایک ہو جائیں گے۔ وہ خدا کے مصلوب ہوئے بیٹے کو اپنے جھوٹے مذاہب میں سے نکال باہر کریں گے اور اُس پر ایمان رکھنے پر پابندی لگائیں گے۔ آخری وقت میں مخالف مسیح تھوڑے وقت کےلئے اختیار پائے گا۔ وہ اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں سے لوگوں کو حیران کر دے گا اور بڑی طاقت دکھا کر لوگوں کے ہجوموں کو دھوکا دے گا، یہاں تک کہ بہت سے برگزیدوں کو بھی گمراہ کر دے گا۔ وہ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کےلئے ہر ایک چالاکی، منصوبے اور دھوکے کو استعمال کرے گا۔ دُنیا کے نُور مسیح کی طرف اُس کے بُغض کی کوئی انتہا نہ ہو گی اور مسیح کی کلیسیا کےلئے اُس کی ایذا رسانی انتہائی ظالمانہ صورتوں میں نظر آئے گی۔

اِس ایذا رسانی کے عروج پر مسیح خداوند مشرق سے مغرب کی طرف چمکتی ہوئی بجلی کی طرح نظر آئے گا۔ اُس کا نُور چھبنے والا ہو گا اور اُن سب کو خیرہ اور دہشت زدہ کر دے گا جنہوں نے اُسے رد کیا تھا اور اُس کی آمد کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ وہ آسمانی فرشتوں کے ساتھ اُس کی جلالی آمد کو دیکھ کر موم کی طرح پگھل جائیں گے۔ صلیب کے دشمن یہ دیکھ کر ڈر جائیں گے کہ اُن کے عقائد تو محض دھوکہ تھے اور اُن کی پارسائی تو لا حاصل تھی۔ واپس آنے والے مسیح کا نُورانی جلال ہر مذہبی جھوٹ کو عیاں کر دے گا اور ہر فرد پر ظاہر کرے گا کہ صرف یسوع مسیح ہی راہ اور حق اور زندگی ہے اور اُس کے وسیلے کے بغیر کوئی بھی باپ کے پاس نہیں آتا۔

آج کل اخبارات اور رسائل میں ہم کئی ایسے مضامین پڑھتے ہیں جن میں کرہ ارض پر پائی جانے والی آلودگی پربحث کی جاتی ہے، اور اِس کا بتدریج بگاڑ ایک حقیقت ہے۔ دراصل، ذخیرہ شدہ نیوکلیائی اور ہائیڈروجن بموں کی تعداد ہمارے چھوٹے سے سیارہ سے زندگی کو پچاس مرتبہ ختم کرنے کےلئے کافی ہے۔ اگر انسان اِس دُنیا کو جس میں رہتا ہے تباہ کرنے کے قابل ہے تو ذرا تصور کیجئے کہ خدا تعالیٰ اپنی عدالت میں اُن سب کو جو ابلیس کا ساتھ دے کر اپنی مرضی سے شریر بن گئے ہیں کتنا زیادہ ختم کر سکتا ہے۔

مسیح میں سچا ایماندار خدا کی طرف سے ابدی زندگی ایک بخشش کے طور پر پانے کے بارے میں پُریقین ہوتا ہے۔ اُس میں بسنے والا رُوح القدس مسیح کی دوسری آمد کے موقع پر ظاہر ہونے والے جلال کی ضمانت ہوتا ہے۔ جبکہ مُقدسین کا دکھائی دینا تمام کائنات کےلئے نئی تخلیق کا آغاز ہے۔ تمام مخلوقات اپنے خداوند کی آمد پر نُور کے فرزندوں کے ظہور کی منتظر ہیں۔

"اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دُکھ اُٹھائیں تا کہ اُس کے ساتھ جلال بھی پائیں۔ کیونکہ میری دانست میں اِس زمانہ کے دُکھ درد اِس لائق نہیں کہ اُس جلال کے مقابل ہو سکیں جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے۔ کیونکہ مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے۔" (نیا عہد نامہ، رومیوں 8: 17-19)

جب مسیح مُردوں کو زندگی کے دشمن کے قبضے سے چھڑائے گا تو وہ تاریکی کو شکست دے گا اور جلالی فتح حاصل ہو گی۔ مندرجہ ذیل آیات میں ہم پڑھتے ہیں کہ پولس رسول کیسے غاضب کی قوت کو للکارتا ہے: "اے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟ موت کا ڈنک گناہ ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے۔ مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے" (نیا عہد نامہ، 1-کرنتھیوں 15: 55-57)۔

مُقدسین نارِ جہنم میں داخل نہیں ہوں گے کیونکہ مسیح اُن کا محافظ، اُن کی زندگی اور اُن کی راستبازی ہے۔ اُس کی آمد کے موقع پر وہ خداوند کی صورت پر تبدیل ہو جائیں گے۔ وہ جنہوں نے اپنی ذات کا انکار کیا اور رُوح القدس کی قوت میں باپ اور بیٹے کی تعظیم کی، اُس کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے رہیں گے۔ وہ جو خداوند سے محبت کرتے ہیں سورج کی مانند چمکیں گے، جیسا کہ یسوع نے خود کہا: "اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے" (انجیل بمطابق متی 13: 43)۔

عزیز قاری، آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ خدا باپ کے حضور جانا اور اُسے اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں؟ کوئی بھی انسان اُس کے جلالی حضور میں اُس کے نُور یا چمک کی تاب نہیں لا سکتا۔ کیونکہ ہم سب اپنے بچپن ہی سے گناہ گار ہیں۔

تاہم، چونکہ مسیح کے خون نے ہمیں تمام گناہ سے پاک کر دیا ہے اور اُس کے ُروح نے ہمیں نیا بنا دیا ہے، اِس لئے وہ ہمیں تحریک بخش سکتا اور تسلی دے سکتا ہے جب تک کہ ہم اپنے آپ کو خدا کے بازﺅوں میں نہ دے دیں، جو کہ ویسے ہی ہمیں اپنے گلے لگانے کےلئے تیار ہے جیسے ایک باپ اپنے پیارے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔

اِس نبوت کا بنظر غور مطالعہ کیجئے: "دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہو گا۔ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ ونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اُس نے کہا دیکھ میں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں" (نیا عہد نامہ، مکاشفہ 21: 3-5)۔

نُور کے فرزندوں کو اپنے آسمانی باپ کے ساتھ رفاقت میں زندگی بسر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ سو، ہمیں ایک ایسی جنت کی توقع نہیں کرنی چاہئے جہاں شراب کا پیا جانا ہو گا یا وہاں جنسی خواہش ہو گی، بلکہ ہم اپنے آسمانی باپ کو آمنے سامنے دیکھنے اور ہمیشہ اُس کی حضوری میں ہونے کی توقع کرتے ہیں۔ ہم سب باپ کے گھر میں جانے کے متمنی ہیں جہاں ہم باپ کے سامنے جُھک کر مُسرف بیٹے کے کہے ہوئے الفاظ دہرائیں گے: "میں ... اِس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاﺅں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے" (انجیل بمطابق لوقا 15: 19)۔

تب باپ ہمیں اپنی شفقت و رحمت کی پوشاک پہنائے گا، ہمارے ہاتھ میں راستبازی کی انگوٹھی پہنائے گا اور ہمیں اپنی خوشی و شادمانی کی ضیافت میں لے کر جائے گا۔ انجیل مُقدّس کے مطابق اُس نے یسوع کی قربانی کے وسیلے سے ہمیں مخلصی بخشی ہے: "خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 16)۔

عزیز قاری، تسلی رکھئے کہ کوئی بھی شخص فردوس میں اپنی دُعاﺅں، روزوں، اعمال حسنہ یا عہد و پیمان کی بنا پر داخل نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ یہ مسیح ہے جو ہمیں اپنے ہی قیمتی خون کے وسیلہ سے گناہ کی غلامی سے خدا کی حضوری میں لے کر آیا ہے۔ اِس لئے، اَب ہمارے پاس اپنے آسمانی باپ کے گھر میں داخل ہونے کا پورا حق ہے۔ کلیسیا اِس سچائی کا تجربہ کرے گی کہ خدا کا برہ ایمانداروں کےلئے روشن کر دینے والا نُور ہے، جس کے نُور میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں جو مُقدّس یوحنا کی دیکھی گئی رُویا کے عین مطابق ہے: "وہ مجھے رُوح میں ایک بڑے اور اونچے پہاڑ پر لے گیا اور شہر مُقدّس یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا۔...اُس شہر میں سورج یا چاند کی روشنی کی کچھ حاجت نہیں کیونکہ خدا کے جلال نے اُسے روشن کر رکھا ہے ...اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھِنَوے کام کرتا یا جھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخل نہ ہو گا مگر وہی جن کے نام برہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہوئے ہیں" (نیا عہد نامہ، مکاشفہ 21: 10، 23، 27)۔

جب یہ وعدہ پورا ہو گا تو ہم شکر گزاری کے ساتھ یسعیاہ نبی کے الفاظ کو یاد کریں گے جو آج سے تقریباً 2700 سال پہلے لکھے گئے تھے: "پھر تیری روشنی نہ دِن کو سورج سے ہو گی نہ چاند کے چمکنے سے بلکہ خداوند تیرا ابدی نُور اور تیرا خدا تیرا جلال ہو گا۔ تیرا سورج پھر کبھی نہ ڈھلے گا اور تیرے چاند کو زوال نہ ہو گا کیونکہ خداوند تیرا ابدی نُور ہو گا اور تیرے ماتم کے دِن ختم ہو جائیں گے" (یسعیاہ 60: 19-20)۔

اُس وقت سب جان جائیں گے کہ مسیحی تین خداﺅں کی عبادت نہیں کرتے کیونکہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس ایک ہی ہیں۔ اُس سے محبت کرنے والے اُس کی یگانگت و محبت میں ایک ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح کی شفاعتی دُعا کا پورا جواب ملا جو کہ یہ تھی: "وہ جلال جو تُو نے مجھے دیا ہے میں نے اُنہیں دیا ہے تا کہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں" (انجیل بمطابق یوحنا 17: 22)۔

سوالات

عزیز قاری، اگر آپ نے اِس کتاب کا بنظر غور مطالعہ کیا ہے، تو آپ یہ جانتے ہوئے کہ ہر سوال ایک خاص موضوع کا خلاصہ بیان کرتا ہے، مندرجہ ذیل سوالات کے جواب دینے کے قابل ہوں گے۔ اِن موضوعات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے جوابات لکھئے۔ ایسا کرنے سے آپ اپنے لئے بہت ہی زیادہ برکت حاصل کریں گے۔ اگر آپ اِن سوالات کے درست جواب دیں گے، تو ہم آپ کو اپنی مطبوعات میں سے ایک کتابچہ روانہ کریں گے۔ اگر اِس کتاب کے کسی موضوع کے بارے میں آپ کا کوئی سوال ہے تو آپ اُسے ایک علیحدہ کاغذ پر لکھ کر اِن سوالات کے جواب کے ساتھ ہمیں روانہ کریں۔

  1. قازقستان میں رہنے والی لڑکی کیوں خدا کے ساتھ وابستہ رہی؟

  2. شیخ نے روزے رکھنے اور تارک الدُنیا ہونے کے بعد کس چیز کا احساس کیا؟

  3. مسیح کی پیدایش کا کیا مطلب ہے؟

  4. مسیح کون سا نیا مکاشفہ لے کر آیا؟

  5. یسوع مسیح کا سب سے بڑا پورا کیا ہوا کام کیا ہے؟

  6. یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے نے کیسے اُس کے شاگردوں پر اثر ڈالا؟

  7. آپ پولس کی زندہ خداوند سے ملاقات سے کیا سیکھتے ہیں؟

  8. کیا آپ جانتے ہیں کہ رُوح القدس کیسے آپ میں بسیرا کر سکتا ہے؟

  9. آپ اپنی رُوح کی نجات کے بارے میں کیسے پُریقین ہو سکتے ہیں؟

  10. ہم دُنیا کےلئے کیسے نُور بن سکتے ہیں؟

  11. خدا کی محبت ہم سے کس بات کا تقاضا کرتی ہے اور کیوں؟

  12. آپ معافی کے سبق کا اپنی زندگی میں کیسے اطلاق کر سکتے ہیں؟

  13. خدا کے تمام ہتھیاروں میں کیا شامل ہے؟

  14. آخری ایام میں کیا ہو گا؟ آپ اپنے آپ کو مسیح کی آمد کےلئے کیسے تیار کرتے ہیں؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany