اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
کیا خدا تعالیٰ موجود ہے؟

کیا خدا تعالیٰ موجود ہے؟

اسکندر جدید

2015


سوالات

کیا کوئی خدا ہے؟

اُس کے وجود کے کیا ثبوت ہیں؟

جی۔ اے۔ جی۔ ( گبالہ، لبنان)

1- خدا تعالیٰ کا وجود کس بات سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟

تاریخ انسانی میں اِس سے اہم قدر و منزلت والا سوال کوئی اَور نہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو انسانی وجود کے آغاز سے اَب تک ہر زمانے کے لوگوں نے پوچھا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ وہ سوال ہے جو علم کی جستجو میں انسانی ذہن اِس اُمید کے ساتھ پوچھتا رہے گا کہ اِس کے جواب میں رنج و الم سے بھری دُنیا میں روشنی، تابندگی، خوشی اور شادمانی ملے گی۔ ایمان پر بحث کرنے سے پہلے غالباً یہ سب کئے جانے والے سوالات میں سے اہم ترین ہے جس کا جواب دینا ازحد ضروری ہے۔

مختلف آراء اور عقائد رکھنے والے لوگوں کے جوابات کو تین لحاظ سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

الف - مُلحدوں کا جواب

ایسے لوگ کہتے ہیں: "خدا کا کوئی وجود نہیں۔" بائبل مُقدّس ایسے لوگوں کو بےخبر اور بیوقوف کہتی ہے، لکھا ہے "احمق نے اپنے دِل میں کہا ہے کہ کوئی خدا نہیں" (زبور 14: 1)۔ اِنہیں احمق کہا گیا ہے کیونکہ یہ کوئی منطقی ثبوت سامنے لائے بغیر اپنے انکار اور بےاعتقادی کو منفی رویے سے سہارا دیتے ہیں۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ملحد نظر آئے جو خدا تعالیٰ پر اپنے عدم ایمان کو مثبت یا منطقی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہو۔

ب- لا ادریوں کا جواب

یہ افراد الحاد اور ایمان کے درمیان آتے ہیں، اور اِن میں کسی بھی طرف قائلیت نہیں ہوتی۔ اِن لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ اِن کے دِلوں پر شک کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ اِن کے جذبات خوف و اِضطراب سے مغلوب ہوتے ہیں۔ اِن میں ایمانی تحریک کی کمی اِنہیں ایمان کی حالت کی نسبت الحاد کے قریب لے آتی ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مذہب اپنے تمام پہلوﺅں میں ایک لا ینحل معمہ اور ناقابل دریافت بھید ہے، اور دین کے بارے میں بحث سے زیادہ سے زیادہ جو حاصل ہو سکتا ہے وہ شک اور غیر یقینی ہے۔ بلا شک و شبہ لا ادریت اپنی فکر کے اعتبار سے ذہنی بنجر پن ہے اور انسان کی جہالت کی قابل افسوس حالت میں تنزلی کا باعث بنتی ہے۔ یہ انسان میں اُس کی غیر یقینی اور شک و شبہ کے باعث کئی مثبت اوصاف اور خصوصیات کو ختم کر دیتی ہے، اور ایسے معاملات میں جہاں وہ خدا پر توکّل اور ایمان کے سوا کچھ نہیں کر سکتا اُسے اُس ایمان سے پس قدمی پر مجبور کر دیتی ہے۔

ج- ایمانداروں کا جواب

یہ خدا تعالیٰ کے وجود پر اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں، اور اپنے ایمان کو مادی، عقلی اور حسی تجزیہ کے تابع نہیں کرتے۔ کیونکہ خدا جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں رُوح ہے، اور اُسے عقل یا حِس کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر اُسے پانچ حِسّوں کے ذریعے سمجھا جا سکتا تو انسان اپنے خدا سے بڑا بن گیا ہوتا۔ اور پھر اگر حواس سے اُس کا ادراک کیا جا سکتا تو لفظ "ایمان" لغت میں شامل نہ ہوتا، کیونکہ جیسے پولس رسُول نے بیان کیا "ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 11: 1)۔

2- خدا تعالیٰ کے وجود کے ثبوت

ثبوت پیش کرنے سے قبل، پہلی سچائی جسے سمجھنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ ہمیں خدا کے وجود سے متعلقہ مادی دلائل کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ خدا ناقابل دید ہے اور تمام آسمانی ادیان یہی سکھاتے ہیں۔ ہمیں ایماندار کو یہ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں خدا کو دِکھائے تا کہ ہم اُس کے وجود پر ایمان لا سکیں۔ جو بات ہمیں جاننے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان اُس پر ایمان نہ لانے سے بہتر ہے۔ ایک قدیم عرب شاعر نے لکھا:

اِک معلم و طبیب مجھ سے یہ گویا ہوئے

کوئی بھی الہٰ نہیں

میں نے تب اُن سے کہا

گر تمہارا سچ ہے کہا

میں تو گھاٹے میں نہیں

لیکن اگر میں ہوں برحق

تو تم پر ہے پھر وبال

الف- کائنات کا وجود

یہ ایک مُسلّم حقیقت ہے کہ ہر معلول کی کوئی علّت ہوتی ہے جو اُس معلول کے ہونے پر قدرت رکھتی ہے۔ کائنات نہ تو ابدی ہے اور نہ اِس نے بذاتِ خود اپنے آپ کو تخلیق کیا۔ اِس لئے یہ ایک معلول یا ایک نتیجہ ہے، یعنی اِس کی اِس سے باہر ایک علت ہے جو اِس کے ہونے پر قادر تھی۔ اِس سے فطری طور پر حقیقی اور دائمی وجود رکھنے والی ایک علت کی پہچان لازمی ٹھہرتی ہے، کیونکہ لا شے کسی شے کو وجود نہیں دے سکتی۔

کائنات کی عارضی فطرت کے کئی دلائل ہیں، جن میں سے ہم دو کا ذِکر کر رہے ہیں:

(1) دُنیا اپنی موجودہ صورت میں مسلسل تغیر پذیر ہے، اور ہر متغیر شے ایک آغاز رکھتی ہے۔

(2) مسلسل ارضیاتی انقلابات جو دُنیا میں کئی بڑی تبدیلیوں کا سبب بنے ہیں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دُنیا ازلی نہیں بلکہ عارضی ہے۔

یہ کہنا کہ دُنیا واجب الوجود ہے (یعنی خود سے موجود ہے) عقل سلیم کے برعکس ہے۔ دُنیا اَن گِنت عناصر سے مل کر بنی ہے اور ہر بنی ہوئی شے ایک معلول ہے (یعنی اُس کا کوئی سبب ہے)۔ جدید دریافتوں کی گواہی ظاہر کرتی ہے کہ دُنیا ایک ہاتھ کی کاریگری ہے۔ اِس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات عقل واحد نے مرکب و منظم کی ہیں۔ یہ قطعی طور پر واضح ہے کہ ایک خالق عظیم وجود رکھتا ہے جو سب چیزوں کی عِلّت اصلی ہے۔

پھر علم ارضیات کے ماہرین کے اقوال بھی موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں مقابلتاً کافی جدید ہے:

(1) حیوانات و نباتات کی تمام انواع جن سے آج ہم واقف ہیں دُنیا کے مکمل وجود کی نسبت قدیم نہیں ہیں۔

(2) زندگی سے خالی مواد نہ خود سے اور نہ کسی اَور میں زندگی کو پیدا کر سکتا ہے۔ صرف "زندگی" ہی "زندگی" کو جنم دیتی ہے۔ باالفاظ دیگر، کوئی بھی شے ایسی نہیں جو محض بذات خود زندہ ہے۔

(3) محتاط جائزے کے بعد کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ کسی زندہ مخلوق نے ماہیت بدلی تھی یا پھر کسی اَور نوع میں تبدیل ہوئی تھی۔ سو، اِس اصول کے مطابق ہر حیوان یا نبات کا ایک آغاز ہے اور ہر آغاز رکھنے والی شے ایک مخلوق ہے اور اِس کے آغاز کےلئے خالق کا ہونا امرِ لازم ہے۔

ب- کائنات میں مقصد کی علامات

خدا تعالیٰ کے وجود کے تمام ثبوتوں میں سے یہ ثبوت سب سے زیادہ معتبر ہے۔ اِس میں پائی جانے والی مجموعی تنظیم ایک منظم وجود کی متقاضی ہے۔ اور کائنات تنظیم کے اعتبار سے حسن ترتیب و ترکیب اور ہر شے کا مقصد ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک عاقل وجود کے ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے جس نے اِس میں نظم کو قائم کیا ہے۔ یہ وجود خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ یقیناً کائنات میں مقصدیت کے نشانات ایک عاقل منصوبہ ساز کو ثابت کرتے ہیں جو ہر شے کو بنانے پر قدرت رکھتا ہے۔ اِس لئے ہمیں ایک عاقل خالق کے وجود کو تسلیم کرنا چاہئے۔

ہماری دُنیا کے وجود کے پیچھے کار فرما مقصد کی علامات کئی لحاظ سے ظاہر ہوئی ہیں، مثلاً مختلف انواع کی مخلوقات میں بالکل واضح ترتیب کا ہونا، جس میں سے ہر ایک متعلقہ فطرت کے قوانین کے عین مطابق ہے۔ علاوہ ازیں، ایک مخصوص نظام میں ہر مخلوق کی بتدریج ترقی جو اُس مقصد کو پورا کرنے کے قابل بناتی ہے جس کےلئے وہ خلق کی گئی تھی، اور یہ سب اُن اخلاقی مقاصد کے حصول کی طرف لے جاتے ہیں جو خالق کائنات کے ذہن میں تھے جو اپنی دستکاری سے جلال پاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا ایک اَور مقصد اپنی ذہین مخلوق کو اخلاقی اور روحانی اصول سکھانا ہے۔ خالق کائنات کی حکمت پر مبنی منصوبہ بندی کے بغیر تمام مخلوق میں عمومی ابتری ہی ہوتی۔

ج- جسم انسانی کی بناوٹ میں مقصد کی علامات

انسان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی کوئی بھی چیز انسانی جسم کے حصوں میں پائے جانے والے کمال، حتمیت اور ہنر مندی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مثلاً، آنکھ نظر کے تمام آلات میں سے روشنی کے قوانین کے ساتھ اپنی مطابقت کے لحاظ سے کامل ترین ہے۔ اِس میں ایک عصبیہ ہے جو دماغ تک جاتا ہے اور روشنی اور رنگ کےلئے حساس ہے۔ روشنی پُتلی کے ذریعے آنکھ میں داخل ہوتی ہے، اور جب روشنی تیز ہو تو یہ پُتلی سُکڑ جاتی ہے، اور روشنی کم ہونے پر یہ پھیل جاتی ہے۔ درست طور پر دیکھنے کےلئے یہ عمل ضروری ہے۔ پُتلی میکانکی طریقہ سے کام کرتی ہے اور اِس کا تعلق مرضی سے نہیں۔

تاہم، ایک چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے سے محض روشنی کا داخلہ دیدنی اشیاء کی واضح تصویر پیدا کرنے کےلئے کافی نہیں ہے۔ اِس کےلئے لازم ہے کہ یہ ایک محدّب عدسہ میں سے گزرے تا کہ اُس کی شعائیں علیحدہ ہوں اور مرکز میں اکھٹی ہوں۔ یہ دونوں کیفیتیں آنکھ میں پائی جاتی ہیں۔ اگر آنکھ کا اندرونی حصہ سفید ہوتا تو یہ روشنی کی کرنوں کو منعکس کرتا اور دیکھنے کی صلاحیت درہم برہم ہو جاتی۔ اِس لئے آنکھ میں کالے رنگ کا حلقہ موجود ہے۔

مزید برآں، آنکھ میں مخصوص عضلات پائے جاتے ہیں جو نزدیک اور دُور نظر مرکوز کرنے کا کام کرتے ہیں، اور اِس کی رفتار حیرت انگیز ہے۔ یہ سب اُن ذرائع کو تیار کرنے میں جن کے ذریعے مطلوبہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے خدا کی بےمثال حکمت کا اظہار ہے، اور یہ انسان کی کسی بنائی ہوئی شے سے کہیں برتر انداز میں ہے۔

اِسی طرح کان بھی کمالیت کی حیرت انگیز مثال ہے جس میں سمعی عصب پائی جاتی ہے۔ یہ ایک لہر نُما عضو ہے جو آواز کی لہروں کو ایک نازک جھلی تک لے کر جاتا ہے جسے کان کا پردہ کہا جاتا ہے۔ یہ جھلی آواز کی لہروں سے مرتعش ہوتی ہے۔ اِس جھلی کے اندر چھوٹی نازک ہڈیاں ہوتی ہیں جو ارتعاش کو سمعی عصب تک لے کر جاتی ہیں، جو پھر اُنہیں دماغ میں سماعت کے مرکز تک لے کر جاتی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زیادہ تر انسانی معاملات کا انحصار اِسی حیرت انگیز آلہ پر ہے، جس پر سُننے کا انحصار کیا جاتا ہے اور جس کے ذریعے بولنا سیکھا جا سکتا ہے۔

اگر ہم انسانی جسم کے حصوں کا باری باری مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اُن کی بناوٹ تکمیل کے لحاظ سے حیرت انگیز اور درکار کا م کے عین مطابق ہے، اور اِس سے خالق کائنات کی حکمت، قدرت اور صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔

د- ولادت پر زندگی کی حفاظت کےلئے مقصد کی علامات

انسان کی زندگی کا انحصار اُس آکسیجن پر ہوتا ہے جسے وہ اپنی سانس سے اندر لے کر جاتا ہے۔ سو، بچہ پیدایش کے وقت سانس لینے کے ایک عضو کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اگرچہ کہ اُسے پیدایش سے پہلے اِس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِسی طرح اُس کا خون صاف کرنے والا عضو ہے جو پیدایش پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے جہاں سے خون بدن کے باقی اعضا میں جاتا ہے۔ رحمِ مادر میں پلنے والے بچے کو خوراک کی علیحدہ سے ضرورت نہیں ہوتی، لیکن بچے کی پیدایش کے فوراً بعد اِس کی بچے کو ضرورت ہوتی ہے۔ اِس لئے، بچے کی ولادت سے پہلے خالق کائنات ایک مکمل نظام انہظام مہیا کرتا ہے۔ اِسی طرح ولادت سے پہلے بچے کو حرکت کرنے اور کام کرنے کےلئے ہاتھوں یا پاﺅں کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن تب خالق رحمِ مادر میں جنین کے ہاتھوں اور پاﺅں کو بنا رہا ہوتا ہے تا کہ وہ زندگی میں اپنے کام کاج کو سر انجام دے۔ یہ مستقبل کی ضروریات کے عین مطابق حرکت کےلئے جوڑوں اور ہڈیوں کے ساتھ بنائے جاتے ہیں ۔ اور اِس سب سے ایک خالق عظیم کے وجود کی گواہی ملتی ہے۔

ہ- جسم کے اعضا میں تناسب اور ہم آہنگی

تمام حیوانات میں جسم کے اعضا ایک تناسب سے ہیں اور ہر نوع کے مخصوص حالات کے عین مطابق ہیں۔ سُننا، دیکھنا، نظام انہظام اور نظام تنفس اُن کی ضروریات اور کاموں کے عین مطابق مہیا کئے گئے ہیں۔ اور ہر نوع کے حیوان میں خاص ضروریات کو پورا کرنے کےلئے اِن میں فرق نظر آتا ہے۔ جنگلی حیات اپنے خاص ماحول کے عین مطابق ہے، اِسی طرح بحری حیات اور پرندوں کی حیات ہے۔ ایک ہڈی کی خاص خصوصیات دیکھ کر ایک ماہر سائنسدان بتا سکتا ہے کہ یہ کس نوع اور جنس کے جانور کی ہڈی ہے۔ پانی میں کھڑے ہو کر خوراک کےلئے مچھلی کا شکار کرنے والے پرندوں کو لمبی گردنیں اور ٹانگیں دی گئیں تا کہ وہ پانی کی سطح کے نیچے اپنے شکار تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ اِس کے برعکس وہ پرندے جو پانی کی سطح پر رہتے اور تیرتے ہیں اُن کے پاﺅں جھلی دار بنائے گئے ہیں، اور جو اُڑتے ہیں اُن کے اپنے وزن کے تناسب سے بڑے پر اور کھوکھلی ہڈیاں ہوتی ہیں تا کہ وزن میں ہلکے ہوں۔ جو پرندے درختوں پر رہتے ہیں اُن کے پنجے، تیز چونچ اور لمبی زبان ہوتی ہے تا کہ درخت کے تنوں کے اندر سے اپنے لئے خوراک حاصل کر سکیں۔ خدا کی اپنی حکمت میں مخصوص ضروریات کےلئے مستعد کرنے کی ایسی بہت سے مثالیں ہیں۔ کچھ مثالیں اُن کیڑے مکوڑوں کی ہیں جن میں پرندوں کی بِیٹ جیسی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے یا پھر تتلیاں جو ایک پتے کی صورت سے مشابہت اختیار کر سکتی ہیں، اور یوں یہ اِس صلاحیت کو اپنے آپ کو دشمن کی نظروں سے بچانے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ حیوانات میں یہ تمام خصوصیات اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے ہیں اور ہمیں خدائے خالق کی حکمت کے بارے میں قائل کرتی ہیں۔

و- پیدایش سے پہلے خوراک کی فراہمی اور تیاری

یہ غالباً دُنیا میں خالق کی منصوبہ بندی کے مضبوط ترین ثبوتوں میں سے ایک ہے۔ مثال کے طور پر نوزائیدہ بچے کےلئے خوراک کی فراہمی ماں کے دودھ کو لیں۔ جب بچہ دُنیا میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی نشوونما کےلئے یہ انتہائی مناسب ترین خوراک پہلے ہی سے مہیا کی گئی ہوتی ہے۔ انڈے دینے والوں جانوروں کے معاملے میں جنین انڈے کی زردی اور سفید حصے سے گھرا ہوتا ہے جس سے اُسے خوراک ملتی ہے اور وہ نشوونما پاتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک خاص درجے پر پہنچ کر چھلکے کو توڑتا اور باہر آ جاتا ہے اور اپنی خوراک حاصل کرنے کےلئے تیار کیا گیا ہوتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی پروردگاری ہے۔

ز- زندہ مخلوقات کی ضروریات کے موافق عناصر کا ہونا

عالم الجماد میں ہم نباتات اور حیوانات کی زندگی کی حفاظت کرنے کےلئے خالق کے مقصد اور منصوبہ کی علامات دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں عالم روشنی، ہوا، اور حرارت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اب کس نے اُن کےلئے اِن سب عناصر کو بنایا؟ کس نے اُنہیں تمام دُنیا میں پھیلایا؟ کس نے سورج کو وجود بخشا کہ وہ روشنی اور حرارت کا مصدر ہو؟ کس نے ہوا کو اُس کے اجزائے ترکیبی کے حوالہ سے زندہ مخلوقات کے موافق درست تناسب بخشا اور ہماری زمین کو اُس سے گھرا ہوا بنایا؟ کس کی بدولت پانی بخارات میں تبدیل ہوتے ہیں، جو بادلوں میں جمع ہوتے ہیں اور ہوا اُنہیں اُٹھائے پھرتی ہے اور پھر وہ زمین کی سطح پر بارش کے طور پر برستے ہیں؟ حکمت سے بھرپور قادر خدا کے سوا اَور کون سی ذات ایسی ہے؟

ح- کائنات میں پائی جانے والی ترتیب

ایک ہمعصر سائنسدان اور اکیڈمی آف سائنس نیویارک کے صدر کروسلی موریسن نے خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان کی تائید کرنے والے کئی سائنسی ثبوتوں کا ذِکر کیا ہے۔ اُن میں سے چند ایک یہ ہیں:

(1) زمین اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ اگر یہ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی تو آج کی نسبت رات اور دِن دس گنا زیادہ لمبے ہوتے۔ نتیجے کے طور پر دِن کے وقت حرارت نباتاتی زندگی کو جلا دیتی، اور رات کے وقت برف زندہ حیات کو ختم کر دیتی۔

(2) ہمیں زندہ رہنے کےلئے حرارت کے منبع سورج کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس کی سطح کا درجہ حرارت بارہ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ ہے۔ زمین اِس حرارت کی نسبت سے مناسب مقام پر رکھی گئی ہے۔ اگر سورج کی حرارت نصف درجہ کم ہوتی تو ہم جم جاتے، اور اگر دُگنی ہوتی تو ہم جل جاتے۔

(3) کرہ ارض کا 23 درجے تک ترچھا ہونا ہمارے لئے موسموں کا باعث بنتا ہے، اور اگر یہ اِس زاویے پر نہ ہوتی تو سمندروں پر عمل تبخیر نے شمال اور جنوب کو بدل دیا ہوتا اور برف کی بڑی مقدار نے ہمیں تباہ کر دیا ہوتا۔

(4) اگر چاند صرف پچاس ہزار میل کے فاصلے پر ہوتا تو دُنیا دِن میں دو مرتبہ ڈوبنے کے خطرے میں ہوتی اور پہاڑ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے ہوتے۔

(5) اگر زمین کی بیرونی پرت دس فٹ موٹی ہوتی تو آکسیجن موجود نہ ہوتی اور زندگی ختم ہو گئی ہوتی۔

(6) اگر سمندر چند فٹ اَور گہرے ہوتے تو آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اُن میں جذب ہو گئی ہوتی اور نتیجتاً زمین پر کوئی نباتات نہ ہوتیں۔

(7) اگر زمین کے ارد گرد کا کرہ ہوائی پتلا ہوتا تو زمین ہر روز گرنے والے شہابیوں کی وجہ سے جل جاتی۔

موریسن اپنے الفاظ کا اختتام یوں کرتا ہے: "یہ اور اِس طرح کے اَور کئی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں اتفاق سے وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ ہر شے پر قادر حکمت سے معمور خدا تعالیٰ کی صنعت کاری ہے۔

ط- زندگی کا بھید

وہ وسائل جن کے ذریعے زندگی اپنی ضروریات کو پوری کرتی ہے اِس کے بنانے والے کی جامع حکمت کا واضح ثبوت ہے۔ زندگی کا کوئی بھی تجزیہ نہیں کر سکتا، کیونکہ اِس کا کوئی وزن یا پیمائش نہیں، تاہم اِس میں چٹانوں کو توڑ دینے کی، پانی اور ہوا پر قابو پانے کی اور عناصر کو بروئے کار لانے کی اور اُن کا تجزیہ کرنے کی یا اُنہیں مقید کرنے کی خدا داد صلاحیت ہے۔

زندگی بےمثال مجسمہ ساز کی مانند ہے جو کائنات میں زندہ وجود بناتی ہے، تخلیقی مصور کی مانند ہے جو ہر درخت کے ہر پتے کو بناتا ہے اور ہر پھول میں رنگ بھرتا ہے۔ یہ موسیقار صاحب ذوق کی مانند ہے جو پرندے کو اُس کا شیریں گیت سکھاتا ہے اور کیڑے مکوڑوں کو سکھاتا ہے کہ خوبصورت تال میں کیسے وہ ایک دوسرے سے رابطہ کریں۔ یہ ماہر کیمیا دان کی مانند ہے جو مصالحوں اور پھلوں کو خاص ذائقہ عطا کرتا ہے، جو گلاب کے پھول کو خوشبو عطا کرتا ہے، اور کاربونیک ایسڈ کو شکر میں تبدیل کرتا ہے۔

سائنسدانوں کی طرف سے بیان کی جانے والی ایک حقیقت یہ ہے کہ پروٹو پلازم کا ایک قطرہ شفاف لیس دار زندہ مواد جس سے ہر زندہ وجود بنا ہے اُسے خالی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ یہ سورج سے اپنی توانائی حاصل کرتا ہے اور اِس میں زندگی کا جرثومہ پایا جاتا ہے اور اِس میں زندہ وجود میں چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو زندگی منتقل کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ اِس قوت کے ہونے سے یہ حیوانات یا نباتات اور حتیٰ کہ انسانوں سے بھی بڑا ہے کیونکہ سب زندگی اِسی سے نکلتی ہے۔ کچھ لوگوں کے دعوے کے برعکس فطرت زندگی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اِسی طرح آتش فشانی چٹانیں اور میٹھا پانی فطرت سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِن سب کی وجہ کون ہے؟ یقیناً، خالق عظیم جس کی حکمت کی بدولت سب چیزیں بنی ہیں۔

ی- حیوانات کی جبلّت

بلا شک و شبہ، حیوانات میں پائی جانے والی حکمت ایک اچھے خالق کی گواہی دیتی ہے جس نے اِن بےجان مخلوقات کو اُن کی زندگی کےلئے لازمی جبلّتیں عطا کی ہیں۔ سامن مچھلی کی مثال لیں، یہ مچھلی سالوں سمندر میں رہتی ہے، پھر آخرکار دریا کے اوپری پانی میں اپنی پیدایش کے مقام پر آتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو سامن مچھلی کو اُس کی پیدایش کی جگہ پر لے کر آتی ہے اور اُسے اِس قابل بناتی ہے کہ وہ ضروری جدوجہد کرے؟ یہ وہ جبلّت ہے جو خدا تعالیٰ نے اُسے بخشی ہے تا کہ وہ انڈے دے سکے اور اپنی نسل کے تسلسل کو یقینی بنا سکے۔

جب ایک تیتر اپنے بچوں پر حملہ کرنے کےلئے تیار دشمن کو دیکھتا ہے تو وہ زمین پر گر جاتا ہے، تھوڑا سا اُوپر اُڑتا ہے اور پھر پیچھے گر جاتا ہے جیسے کہ اُس کا پر ٹوٹا ہوا ہو۔ اگر دشمن پھر بھی آگے بڑھے تو وہ اِس فریبی چال کو دہراتا ہے تا کہ جہاں چھوٹے بچے ہیں اُن سے اُسے بہلا پھسلا کر دُور لے جائے۔ کیا یہ جبلّت اُس خالق کی حکمت کا ثبوت نہیں جس نے اِسے بخشا ہے؟

غالباً بام مچھلی کی عادت سب سے زیادہ نرالی ہے۔ یہ مخلوق جب پوری عمر پا چکتی ہے تو دریاﺅں اور سمندروں کو چھوڑ کر اپنی نوع کی دوسری مچھلیوں کے ساتھ برمودا کے نزدیک ایک گہری جگہ پر جاتی ہے جہاں یہ اپنے بچوں کو جنم دیتی ہے اور پھر مر جاتی ہے۔ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ تب کیسے نوجوان بام مچھلیوں کا گروہ اُس جگہ کی طرف سفر کرتا ہے جہاں سے اُن کے والدین آئے ہوتے ہیں۔ ہم اِس مخلوق کو نہیں سمجھ سکتے جو جبلّت کی وجہ سے ایسا کرتی ہے، لیکن یہ ہماری سوچ کو خالق کی طرف مبذول کراتی ہے، جس نے اِسے زندگی برقرار رکھنے اور اپنی نوع کے تسلسل کی حفاظت کرنے کےلئے ضروری صلاحیتیں دی ہیں۔

ک- انسانی عقل

خدا نے انسان کو ایسی عقل سے نوازا ہے جو دوسری زندہ مخلوقات سے کئی بہتر ہے۔ سوائے انسان کے کوئی اَور مخلوق ایک سے دس تک گن نہیں سکتی۔ سو، ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہئے کہ اُس نے ہمیں عقل عطا کی ہے جس کے ذریعے ہم چیزوں کا اِدراک اور تجزیہ کر سکتے ہیں، اور جس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ خدا حکمت و قوت میں کامل ہے۔

یہ واضح ہے کہ انسان عقلی قوت رکھتا ہے کہ ناقابل دید کا تصور کر سکے اور یہ خدا کے وجود کا ایک ثبوت ہے۔ خدا کا شعور انسان کے اندر وہ باطنی حقیقت ہے جو زمین پر کسی اَور مخلوق کو حاصل نہیں۔ انسان میں یہ آگہی اُسے اِس قابل بناتی ہے کہ کائنات اور اُس میں پائی جانے والے اشیا سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ خدا موجود ہے اور وہ ہمہ دان اور ہمہ جا ہے جو ہمیشہ سے ہر جگہ موجود ہے اور ہمارے دِلوں کے نزدیک ہے۔ یہ سچائی داﺅد بادشاہ پر واضح کی گئی جس نے خدا کی اِن الفاظ کے ساتھ ستایش کی: "آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے" (زبور 19: 1)۔

ل- ایک اخلاقی معیار کی گواہی

یہ ایک مُسلّم حقیقت ہے کہ انسان زندہ مخلوقات میں منفرد ہے کیونکہ اِس میں اخلاقی احساس پایا جاتا ہے۔ انسان میں پائی جانے والی یہ صفت مسلسل خدا کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔ تاہم، انسان کے رہنے کے حالات، سماجی معیار یا ذہنی استعدادوں میں کتنا ہی تنوع کیوں نہ ہو، اُس میں پایا جانے والا اخلاقی احساس اُس کی فطرت کا حصہ ہے اور کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ کسی نے کہا ہے: "آپ ایک شہر بغیر فیکٹریوں، بغیر سکولوں، بغیر تھیٹروں یا بغیر ہوٹلوں کے دیکھ سکتے ہیں، لیکن آپ کو کبھی بھی کوئی شہر بغیر عبادت کی جگہ کے نہیں ملے گا۔" یہ الفاظ سلیمان نبی کے قول کے مطابق ہیں: "میں نے اُس سخت دُکھ کو دیکھا جو خدا نے بنی آدم کو دیا ہے کہ وہ مشقت میں مبتلا رہیں۔ اُس نے ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا اور اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دِل میں جا گُزین کیا ہے اِس لئے کہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا" (واعظ 3: 10-11)۔

م- ضمیر کی گواہی

ضمیر اپنی قوت فیصلہ کے لحاظ سے خود مختار ہے، کیونکہ یہ عقل و مرضی کے ماتحت نہیں ہے۔ یہ اِس بات سے متفق نہیں ہو سکتا کہ ایک حرام شے حلال ہو سکتی ہے یا حلال شے حرام ہو سکتی ہے، اور اگر یہ ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے تو پھر بھی متفق نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح ضمیر کالے کو سفید اور سفید کو کالا نہیں کہہ سکتا۔ مزید برآں، اِس کےلئے لازم ہے کہ یہ اخلاقی شریعت کا پابند ہو، جس کا اختیار اُوپر سے ہوتا ہے اور یہ درست کردار کی بابت فیصلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ بغیر کسی شک کے ضمیر کا وجود اور اخلاقی شریعت ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم نہ صرف اپنی طرف اور لوگوں کی طرف بلکہ خدا کی طرف بھی جو ہم میں ضمیر کا منبع و خالق ہے اپنے حال و اعمال کے خود ذمہ دار ہیں۔ خدا بھلائی میں خوش ہوتا ہے اور بدی سے نفرت کرتا ہے، اور ہر ایک کی اُس کے اعمال کے مطابق عدالت کرتا ہے۔ اِس سب سے ہم پر واضح ہو جاتا ہے کہ ایک شخصیت ہے جس کو ہم جوابدہ ہیں اور وہ خدا ہے۔

ن- فلکی نظام اور اُس کی ترتیب کی گواہی

فلکی نظام میں ترتیب کے ثبوت ایک حکمت سے معمور عاقل اور قادر خالق کے وجود کی گواہی دیتے ہیں، اور یہ تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ اِس کتابچہ میں سب کا بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جو افراد اِس کائنات کی عظمت، اَن گِنت اجرام فلکی، صدیوں سے اُن کی آسمان پر بےنقص محوری گردش، اُن کی رفتار، قوت محرکہ اور کشش ثقل کی دو بڑی قوتوں اور اُن کے حیرت انگیز توازن پر غور و فکر کرتے ہیں داﺅد نبی کی طرح خوشی سے کہہ سکتے ہیں: "اے خداوند! تیری صنعتیں کیسی بے شمار ہیں! تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے" (زبور 104: 24)۔ پولس رسُول نے لُسترہ کے لوگوں سے کہا: "زندہ خدا کی طرف پھرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا۔... تو بھی اُس نے اپنے آپ کو بےگواہ نہ چھوڑا۔ چنانچہ اُس نے مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کئے اور تمہارے دِلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا" (نیا عہدنامہ، اعمال الرسل 14: 15-17)۔

س- فطرت میں حسن تنظیم

فطرت میں حسن ترتیب ہمیں سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ الہٰی حکمت نے پہلے سے جان کر فطرت میں اُس کے تسلسل کےلئے ہر لازمی چیز کو بنایا۔ مثلاً، ناگ پھنی کے پودے پر غور کریں جو آسٹریلیا میں کھیتوں کے کناروں پر باڑ کے طور پر لگایا گیا تھا۔ جب آسٹریلیا اِس قسم کے پودے کےلئے نقصان دہ کیڑوں سے پاک ہو گیا، تو ناگ پھنی کے پودے ناقابل یقین حدّ تک بڑھ گئے، اور زرعی زمین کے بڑے رقبے پر پھیل گئے۔ جب اِس کے تیز رفتار پھیلاﺅ کو روکنے کے تمام اقدامات ناکام ہو گئے تو سائنسدانوں کو اِس کے سوا کوئی اَور طریقہ نہیں ملا کہ وہ اُن کیڑے مکوڑوں کو پروان چڑھنے دیں جو اِس پودے پر زندہ رہتے ہیں۔ یوں اِس مشکل پر قابو پا لیا گیا اور یہ مسئلہ دوبارہ پیش نہیں آیا۔ پودے اور اُس کے پھیلاﺅ کو قابو میں رکھنے والے کیڑے مکوڑے کے درمیان یہ تعلق خالق مدبّر خدا تعالیٰ کی منصوبہ بندی تھی۔

ع- کتاب مُقدّس کی گواہی

ماہر عربیات ڈاکٹر وان ڈیک نے کہا: "دُنیا میں بائبل کی طرح کوئی اَور کتاب نہیں جو اپنے آپ میں حیرت انگیز حیات پذیری، وسیع اثر اور زبردست قائلیت کی حامل ہے۔ یہ اقوام کو ایک نئی تہذیب، اخلاقی فضائل کی بابت اعلیٰ اصول اور جدید افکار کی پیشکش ہی نہیں کرتی بلکہ انسانی تصور و خیال کو ادب و فنون کے حوالے سے بھی متاثر کرتی ہے۔ اِس نے مائیکل اینجلو، رفائیل اور موریلو کے حیرت انگیز کام، اور اُس کے ساتھ ساتھ باخ اور بیتھووِن کی موسیقی، دانتے، مارٹن لوتھر، وکٹر ہوگو اور جبران خلیل جبران کی تحریروں کو تحریک بخشی۔ اِس عزیز کتاب میں الہٰی اعلانات و تعلیمات ہیں جو یقیناً خدا تعالیٰ کے وجود کی بات کرتے ہیں۔ کون سا ایسا فرد ہے جو اِس الہٰی کتاب کو پڑھ کر حیران نہ ہو گا جس میں تاریخ کے وہ واقعات درج ہیں جو اُن پیشین گوئیوں کی تکمیل تھے جو خدا کے بندوں نے صدیوں پہلے کی تھیں۔"

درحقیقت، اگر ہم اپنی روحانی ضروریات کو دیکھیں اور اُن کا جائزہ لیں تو ہم دیکھ سکیں گے کہ بائبل مُقدّس کا مواد اُن سب میں سے ہر ایک کو پورا کرنے کے قابل ہے۔ ایسا اِس لئے ہے تا کہ ہم دریافت کر سکیں کہ خالق خدا نہ صرف راست منصف ہے بلکہ محبت کرنے والا باپ بھی ہے جو ہمیں دیکھتا ہے اور ہماری فکر کرتا ہے۔ اور یہ ہماری بھلائی کےلئے تھا کہ اُس نے ہمیں بائبل مُقدّس دی جس میں اُس کے احکامات اور تنبیہات ہیں تا کہ ہمیں اُن کاموں سے دُور رکھے جو ہمارے کردار کےلئے نقصان دہ ہیں اور اُس کی عظیم ذات کے لائق نہیں ہیں۔

بائبل مُقدّس میں ہدایت و راہنمائی اور تربیت کے اصول بھی پائے جاتے ہیں اور یہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی کےلئے تیار کرتی ہے۔ غرض، ہم یہ اعتقاد رکھنے میں درست ہیں کہ بائبل مُقدّس وہ واحد کتاب ہے جو حق کی طرف راہنمائی کر سکتی ہے۔ اِس کی راہنمائی کی بدولت، ہم اِس جہان اور آنے والے جہان میں خوشی حاصل کرتے ہیں۔ یہ عظیم کتاب ایک عمیق ذہن اور ہستی کی وجہ سے جو ہمہ دان، پاک اور عادل ہے وجود میں آئی ہے، یہ ہستی خدا کی ہستی ہے جس نے اپنے مُقدّس خادموں کو تحریک بخشی کہ وہ اِس جلالی کتاب کو ہمارے لئے تحریر کریں۔

ف- تجسم کی گواہی

اگر خدا قدیم وقتوں میں کئی لوگوں جیسے حاجرہ، ابرہام، یعقوب، موسیٰ، نوح اور دوسروں پر دیدنی لحاظ سے ظاہر ہُوا، تو تجسم جب انجیل مُقدّس کے مطابق خدا مسیح میں واضح محسوس طور پر ظاہر ہُوا، اُس کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ ... اور کلام مجسم ہوا، اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا، اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 1، 14)۔

جب ہم انجیل مُقدّس میں مسیح کی شخصیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ اُس وقت کوئی جھوٹا دعویٰ نہیں کر رہا تھا جب یہ کہا کہ "میں اور باپ ایک ہیں" (انجیل بمطابق یوحنا 10: 30)، "میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 11)، "جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 9)۔ اپنے اقوال اور عجیب کاموں کے ذریعے مسیح نے ثابت کیا کہ وہ فی الواقعی مجسم خدا تھا (نیا عہدنامہ، 1-تیمتھیس 3: 16)۔

اِس کے علاوہ اُن افراد کی گواہیاں بھی ہیں جو اُس کے ساتھ رہے، جنہوں نے اُس کی تعلیمات کو سُنا، اُس کو معجزات کرتے ہوئے اور اُس کے جلال کو دیکھا۔ یوحنا رسُول نے لکھا: "اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا اور جسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ یہ زندگی ظاہر ہوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اِسی ہمیشہ کی زندگی کی تمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہر ہوئی" (نیا عہدنامہ، 1-یوحنا 1: 1-2)۔ رسول نے یہ بھی لکھا: "ہم اُس میں جو حقیقی ہے یعنی اُس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے" (نیا عہدنامہ، 1-یوحنا 5: 20)۔ مزید برآں، پطرس رسُول نے لکھا: "جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا" (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 1: 16)۔ پولس رسُول نے بھی لکھا: "جس میں ہم کو مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے۔ وہ اندیکھے خدا کی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔ کیونکہ اُسی میں سب چیزیں پیدا کی گئیں۔ آسمان کی ہوں یا زمین کی۔ دیکھی ہوں یا اندیکھی۔ تخت ہو یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات۔ سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں۔ اور وہ سب چیزوں سے پہلے ہے اور اُسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 1: 14-17)۔

یہ، اور کئی اَور گواہیاں نہ صرف مسیح کی الوہیت کی بات کرتی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی بات کرتی ہیں، جو حیرت انگیز طور پر مجسم ہو کر ظاہر ہوا۔

ص- شخصی تجربے کی گواہی

خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں یہ سب ثبوتوں میں سے زیادہ قائل کرنے والا ثبوت ہے۔ کوئی بھی اِس ثبوت کو رد نہیں کر سکتا جو دِل کی گہرائی سے نکلتا ہے۔ وہ نوجوان اندھا شخص جسے مسیح نے بینائی عطا کی، اُس نے شفا پانے کے بعد لوگوں کو بتایا: "ایک بات جانتا ہوں کہ میں اندھا تھا۔ اب بینا ہوں" (انجیل بمطابق یوحنا 9: 25)۔ یہ اُن سب کی گواہی ہے جنہوں نے خدا کی سچائی کو پا لیا ہے اور اُس کا ایک شخصی تجربہ رکھتے ہیں۔

تاریخ ہمارے سامنے ہر اُس عمر اور نسل کے لوگوں کی گواہیاں پیش کرتی ہے جنہوں نے خدا کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اُن کےلئے یہ حیات آفریں اور واضح تجربہ تھا جسے تصوراتی یا وہم کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگر کوئی شخص اُن افراد کی گواہیوں کا جو اپنی زندگیوں میں خدا کا شخصی تجربہ رکھتے تھے محض اِس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ خود اُس کا تجربہ نہیں رکھتا تو یہ حماقت ہے، اور اگر یہ حماقت ہے تو اِس کے مقابلے میں اُن لاکھوں افراد کی گواہی کو نظر انداز کرنا کتنی بڑی حماقت ہے جو ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں یا جو ہمارے ہمعصر ہیں جو روزانہ اُن ہونے والے معجزات کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو خدا اُن میں اور اُن کےلئے کرتا ہے۔ اِس تجربے نے اُن کی زندگیوں کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا اور یہ خدا پر اُن کے ایمان کا نتیجہ ہے۔

مشہور عالم فرادی اُس وقت تک کسی شے کی حقیقت کو نہیں مانتا تھا جب تک کہ وہ اُس کا مطالعہ اور احتیاط سے جائزہ نہ لے لیتا۔ جب بسترِ مرگ پر اُس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خدا، اور حیات جاودانی پر ایمان رکھتا ہے، تو اُس نے ایک کشادہ مسکراہٹ کے ساتھ یوں جواب دیا: "میں قیاس آرائی اور اندازے کے تکیے پر نہیں سو رہا۔" فرادی اُن بہت سے عالموں میں سے محض ایک ہے جو خدا پر ایمان لائے، اُس کی عنایت کا تجربہ کیا، اُس کے ساتھ چلے اور اُس کی محبت کی تسلی میں جان دے دی۔

ق- تاریخ کی گواہی

کرامویل نے کہا کہ تاریخ ممالک کے عروج و زوال میں خدا کے ظہور کے سوا کچھ نہیں۔ یقیناً یہ اچھا ہو گا کہ اگر انسان تاریخ کو پڑھتے ہوئے اور اُس کے واقعات پر غور کرتے ہوئے یہ ادراک کریں کہ خدا اُس میں ہے، اور اگرچہ بدی پہلی جنگ جیت گئی ہے لیکن یہ آخر میں ہار جائے گی۔ اگر آپ قدیم زمانے کی تہذیبوں اور اقوام کا محتاط جائزہ لیں جو مختلف عرصے میں عروج و زوال کا شکار ہوئیں تو یقیناً آپ دانی ایل نبی کے ساتھ خوشی کریں گے جس نے کہا: "خدا کا نام تا ابد مبارک ہو کیونکہ حکمت اور قدرت اُسی کی ہے۔ وہی وقتوں اور زمانوں کو تبدیل کرتا ہے۔ وہی بادشاہوں کو معزول اور قائم کرتا ہے۔ وہی حکیموں کو حکمت اور دانشمندوں کو دانش عنایت کرتا ہے" (دانی ایل 2: 20-21)۔

تاریخ انسانی پر غور و فکر کرنے والے مشاہدہ کریں گے کہ یہ ایک بلند و برتر ہستی پر اعتقاد کی جانب لے کر جاتی ہے جو غیر محدود قدرت کا مالک خدا ہے اور اپنے شاندار مقاصد کی تکمیل کےلئے اپنی مرضی کے ساتھ مطابقت میں انسانوں کے تمام معاملات اور اُن کے کاموں کو قابو میں رکھتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اِس کے بعد ہونے والے واقعات، ایجادات، اور انقلابات نے زندگی، تہذیب، علم، انسان کی ترقی اور مذہبی سمجھ میں نسل در نسل اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اِس میں ایک دانا حکمران کے وجود کا ناقابل انکار ثبوت نظر آتا ہے جو انسانیت کی خوشحالی اور راستبازی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

ر- عقل کی گواہی

علما اور قابل ذِکر فلسفیوں کی ایک بڑی تعداد جو اپنے متعلقہ میدانوں میں سبقت لے گئے اِن مذکورہ ثبوتوں کی بنا پر خدا کے وجود پر ایمان لے آئے۔ یہ سچ ہے کہ یہ ثبوت مادی نہیں اور انسانی ترازو میں تولے نہیں جا سکتے اور نہ ہی دیدنی طور پر اِن کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، لیکن یہ معقولیت پر مبنی منطقی ثبوت ہیں جو انسان کی آنکھوں اور عقل کےلئے واضح ہیں اور اِن کی نظیر تقریباً حواس خمسہ کی طرح ہی ہے۔ جب عقلِ سلیم کائنات کو دیکھ کر اُس میں ترتیب و مقصد کے لاتعداد نشانات کی تمیز کرتی ہے تو فطری طور پر یہ رائے سامنے آتی ہے کہ اِس کی ایک عِلّت ہے۔ یہ عِلّت عاقل و حکیم ہے، اور کائنات میں نظر آنے والے عجائب کو خلق کرنے کے قابل ہے۔ خالق کے بغیر فطرت کی ایسی حیرت انگیز دُنیا اور زندہ مخلوقات عقل سلیم کے نزدیک ممکن نہیں اور خود فطرت کی گواہی کے برعکس ہے جو پُکار کر کہتی ہے کہ یہ تخلیق کی گئی ہے اور اپنی ذات میں خود خالق نہیں ہے۔ اِس کا وجود، اِس کی بناوٹ، اِس کی ترتیب، نشو و نما اور ترقی کےلئے اِس کی انوکھی خصوصیات ایک آزاد خارجی قوت سے صادر ہوتی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ثبوت تمام ایمانداروں میں قبولیت پائیں گے کیونکہ ایسے سب لوگ خدا کے وجود کے بارے میں سب سے پہلے کائنات اور اُس کے مقصد، قدرت اور حکمت کی نشاندہی سے، ثانیاً انسان کی اخلاقی اور رُوحانی بناوٹ اور ضمیر کی گواہی سے، اور ثالثاً بائبل مُقدّس اور مجسم الہٰی شخصیت یسوع مسیح سے قائل و پُریقین ہوتے ہیں۔

ش- علما کی گواہی

تاریخ کے مختلف وقتوں میں لوگوں نے خطرہ محسوس کیا کہ علم کی ترقی اور سائنسی دریافتیں مذہب کو نقصان پہنچائیں گی اور خدا کے وجود پر ایمان کو ہلا دیں گی۔ تاہم، علم کی ہواﺅں نے الحاد کی کشتی کو وہاں پہنچا دیا جہاں اُنہوں نے خواہش نہ کی تھی۔ حقیقی علم نے نئی شہادتیں اور مُقدّسوں کو ایک ہی بار سونپے گئے ایمان کی تصدیق فراہم کی۔

علما کے خدا تعالیٰ پر ایمان کی تصدیق کرنے والے چند بیانات یہ ہیں:

(1) اپنی کتاب "Modern Man Discusses Spirit" (دورِ جدید کے شخص کا رُوح پر بحث کرنا) میں عظیم طبیب نفسی، کارل ژونگ کہتا ہے: "پچھلے تیس سالوں میں ہر قسم کے اور کئی قومیتوں کے لوگ میرے پاس آئے ہیں۔ میں نے سینکڑوں بیمار لوگوں کا علاج کیا ہے اور جو ادھیڑ عمر تک پہنچ گئے تھے اُن کی کئی مشکلات میں میں نے کبھی ایسی مشکل کو نہیں پایا جو ایمان کی کمی اور دین کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے نہیں تھی۔ یہ کہنا سچ ہے کہ اِن میں سے ہر ایک اِس لئے اپنی بیماری کے ہاتھوں شکار بن گیا تھا کہ وہ خدا کی طرف سے ودیعت کردہ سکون ذہنی سے محروم تھا جو خدا پر ایمان کی بدولت ملتا ہے۔ کوئی بھی اُس وقت تک ٹھیک نہ ہوا جب تک کہ وہ اپنے ایمان میں بحال نہ ہوا، اور اُس نے زندگی کا سامنا کرنے کےلئے خدا کے احکام اور ہدایات سے مدد نہ پائی۔

(2) ڈیل کارنیگی، پرنسپل آف دی کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار ہیومن ریلیشنز نے اپنی کتاب "How to Stop Worrying and Begin to Live" (پریشان ہونا چھوڑیئے) میں کہا ہے کہ خدا پر ایمان بھروسے، اُمید اور حوصلے کو مضبوط کرتا ہے، اور خوف، پژمُردگی اور تشویش کو دُور کرتا ہے۔ یہ ایک فرد کو زندگی میں مقاصد اور منزل مقصود عطا کرتا ہے، اور خوشی کے اُفق وا کرتا ہے جس سے زندگی کے صحرا کے درمیان ایک زرخیز نخلستان میں زندگی بسر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

(3) ایک مشہور طبیب نفسی ڈاکٹر ہنری کی لکھی ہوئی کتاب "Back to Faith" (واپس ایمان کی طرف) میں ہم پڑھتے ہیں: "نیویارک میں مزدوروں کےلئے مدد فراہم کرنے والی سوسائٹی نے دو لاکھ ڈالر کی رقم میرے انتظام میں دی تا کہ دس ہزار افراد سے متعلقہ ایک شماریاتی مطالعہ کی نگرانی کروں۔ میں نے ہر فرد پر ایک مکمل شخصی رپورٹ کا اندراج کیا، اور اُس وقت انسان کی زندگی کے تعلق سے مذہبی عقائد کی میری سمجھ کا آغاز ہوا۔ میں نے مریضوں پر کی گئی پرانی پرکھ کے درمیان موازنہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور ایک شاندار نتیجہ میرے سامنے آیا۔ اِن تجربات سے اخذ کیا جانے والا اہم نتیجہ یہ تھا کہ خدا پر ایمان رکھنے والا فرد اُس فرد کی نسبت زیاد مضبوط اور بہتر شخصیت کا حامل تھا جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا یا جس نے اُس کی عبادت و پرستش کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اگر میں اپنی بات کروں تو میں خداوند یسوع کی پیدایش کے واقعے پر ایمان رکھتا ہوں لیکن ایسا اپنے اعتقاد کا دوسروں سے موازنہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے مذہب کی حقیقی فضیلت کو دریافت کرنے کے اپنے نتیجے کی بدولت پیدا ہونے والے خالص ایمان کی وجہ سے ہے، یہ وہ ایمان ہے جسے پہلے میں نے ترک کر دیا تھا کہ جب میں اُس میں کوئی بھلائی ڈھونڈنے کے قابل نہ تھا۔"

(4) ایک اَور مشہور طبیب نفسی کا کہنا ہے: "طبِ نفسی کی جدید سائنس مذہب کو خوش آمدید کہتی ہے۔ نفسیات کے ڈاکٹر تسلیم کرتے ہیں کہ خدا پر ایمان اور دُعا تشویش، خوف اور اعصابی تناﺅ پر غالب آنے کے ذرائع ہیں، اور جن بیماریوں کا ہم شکار ہوتے ہیں اُن میں سے آدھی کو ختم کر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک حقیقی ایماندار کے پاس ذہنی بیماریوں کو شکست دینے کے ذرائع ہوتے ہیں۔"

(5) فلسفی فرانسس بیکن نے کہا: "چند ہی فلسفی الحاد کی طرف جھکاﺅ رکھتے ہیں، لیکن فلسفہ میں گہرے طور پر جانا ایک شخص کو خدا پر ایمان بحال کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔"

(6) ڈاکٹر چارلس مالک نے اپنی کتاب "?Why I believe in Jesus Christ" (میں یسوع مسیح پر کیوں ایمان رکھتا ہوں؟) میں کہا: "عہد عتیق میں خدا تخلیق کرتا ہے، چُنتا ہے، مہیا کرتا ہے، راہنمائی کرتا ہے اور امتحان لیتا ہے۔ مرحلوں میں وہ اپنے آپ کو اور اپنی مرضی کو منکشف کرتا ہے۔ اگر آپ اِس مکاشفہ کو دھیان سے سُنیں، تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ جو کچھ منکشف کیا گیا ہے وہ روزمرہ کی زندگی میں ایک حقیقت ہے جو خدائے خالق ہے۔"

(7) ایک مشہور ماہر فلکیات سے جب پوچھا گیا کہ اُس نے فلکیات پر اپنی بات چیت میں خدا کا ذِکر کیوں نہیں کیا، تو اُس نے جواب دیا: "یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ جو بات چیت میں نے کی ہے اور جو رائے میں نے دی ہے اُس کے پیچھے خدا ہی ہے۔ خدا ہر اُس دیدنی چیز کے پیچھے ہے جو کائنات، فطرت اور زندگی میں ہے۔"

(8) جوناتھن ایڈورڈز کو ارسطو کی طرح ایک بڑا مفکر مانا جاتا ہے، اُس نے کہا: "خدا کا جلال ہر شے میں، سورج میں، چاند میں، ستاروں میں اور تمام فطرت میں نظر آتا ہے۔ اُس نے اپنے جلال اور عظمت کو ظاہر کرنے کےلئے اِن سب کو تخلیق کیا۔ جب ہم ہرے بھرے کھیتوں، بادِ نسیم، کھِلتے پھول، خوشبودار گُلِ سوسن پر نگاہ کرتے ہیں، تو ہمیں خدا کی نعمتیں اور پروردگاری، اُس کی محبت اور پاکیزگی نظر آتی ہے۔ اور میں ہرے درختوں اور خدا کی بھرپور خوشی اور چمکتے دریاﺅں، طلوع صبح کے وقت کی سُرخی، چمکتے دمکتے سورج اور سنہری غروب آفتاب، قوس قزح، اور خدا کے جلال کے تمام پہلوﺅں کے بارے میں کیا کہوں؟"

(9) عمانوئیل کانٹ نے کہا: "یہ ناممکن ہے کہ ہم دُنیا میں اِس کے کامل نمونے اور اِس میں پائے جانے والی ہم آہنگی میں خدا کا ہاتھ دیکھے بغیر بسیرا کریں۔ عقل انسانی جب اِس کی شان و شوکت اور خوبصورتی کو سراہتی ہے تو اُس جہالت پر جو کائنات میں پائی جانے والی سب چیزوں کو ایک اتفاق سے منسوب کرنے کی کوشش کرتی ہے گہرے طور پر اپنے ردعمل ظاہر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اِس دُنیا کے عجائب الہٰی حکمت کا نتیجہ ہیں اور اُس کی فکر کا اظہار ہیں۔ یقیناً، مخلوقات میں پائی جانے والی باہمی ہم آہنگی ایک خالق کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کی حکمت انسانی ادراک سے پرے ہے۔ فطرت مفروضوں کی اجازت نہیں دیتی بلکہ یہ ایک قادر مطلق خدا کے وجود پر ایمان کا تقاضا کرتی ہے۔"

(10) اپنے زمانے کے ایک ممتائز عالم لارڈ کیلون نے کہا: "دُنیا ہمیں ایک خالق کے وجود کا حتمی یقین کے ساتھ جواب فراہم کرتی ہے۔ ہم مُردہ مادے کی وجہ سے نہیں بلکہ تخلیقی قوت کے باعث وجود رکھتے ہیں، جو ہماری زندگی کی راہنما ہے اور جس کا علم ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اُسے ایمان سے قبول کریں۔ بلا شک و شبہ، ہم خدا کو اُس کے کاموں کے ذریعے جان سکتے ہیں، لیکن یہ آگہی ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ ایک تخلیقی اور انتظامی قوت کے وجود پر ایمان لائیں۔"

(11) ایڈمیرل بیرڈ، خدا کی قوت پر مکمل انحصار کرنے کا معنٰی جانتا تھا۔ اور اِسی معرفت نے اُس کی سخت ترین مشکل میں مدد کی، جس کا ذِکر اُس نے اپنی کتاب "Alone" میں کیا ہے۔ اُس نے انٹارکٹیک میں پانچ ماہ ایک برفانی گھر میں گزارے۔ جس مدد کا وہ متمنی تھا وہ تقریباً 132 میل دُور واقع تھی اور کوئی بھی اُس تک کئی ماہ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اُس کے اردگرد گہری تاریکی اور تنہائی تھی۔ اُس نے محسوس کیا کہ آگ کے دھویں سے آہستہ آہستہ زہر اُس کے اندر جا رہا تھا، اِس لئے اُس نے بغیر کامیابی کے اُسے ہوا دار بنانے کی کوشش کی۔ کمزوری کی وجہ سے نہ تو وہ حرکت کر سکتا تھا اور نہ خوراک کھا سکتا تھا، اور ہر روز وہ سوچتا کہ اب اُس کا اختتام نزدیک آ پہنچا ہے۔ پھر کس نے اُس کی زندگی بچائی؟ وہ خود ہمیں بتاتا ہے کہ جب وہ گہری مایوسی میں گرا جا رہا تھا تو اُس نے اپنی ڈائری لی اور اُس میں زندگی کے بارے میں اپنے فلسفے کو لکھنے کی کوشش کی۔ اُس نے یہ الفاظ لکھے: "انسانیت اِس زندگی میں اکیلی نہیں"، اور جب وہ یہ لکھ رہا تھا تو اُس نے تمام آسمان پر پھیلے ہوئے ستاروں، سیاروں، اور بالکل ٹھیک ترتیب سے گردش کرنے والے اجرام فلک کے بارے میں سوچنا شروع کیا، اُس نے سورج کے بارے میں سوچنا شروع کیا جو زمین کی دُور اُفتادہ جگہوں پر اپنی روشنی اور حرارت بھیجتا ہے۔ اکیلے نہ ہونے کے اِس احساس نے اُس کی زندگی بچائی، اور اُس کے خدا نے جس کے پاس اُس کےلئے مکمل آرام تھا اُس جگہ پر سورج کی روشنی بھیجی جس سے ممکن ہوا کہ جان بچانے والی ٹیم دیر ہونے سے پہلے وہاں پہنچ گئی۔

(12) ایک بار ایک عالم ولیم جیمس سے پوچھا گیا: "خدا پر ایمان اور توکل کیوں حفاظت، اطمینان اور ذہنی سکون کا سبب بنتا ہے؟" اُس نے جواب دیا: "سمندر کی پُرشور اور طاقتور لہریں گہرائیوں کو متاثر نہیں کرتیں۔ سو، اگر انسان کا ایمان خدا پر گہرا ہو تو وہ عارضی اور سطحی مشکلات سے پریشان نہیں ہوتا۔ ایماندار تشویش کو اپنی زندگی میں آنے کی جگہ نہیں دیتا اور توازن برقرار رکھتا ہے اور ہر طرح کے آنے والے حالات کےلئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔" پھر کیوں ہم خدا کے پاس اُس وقت نہیں آتے جب ہم مشکل میں ہوں؟ ہم کیوں خدا پر ایمان نہیں لاتے جب ہمیں ایمان کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیوں ہم اپنے آپ کو اُس کے ہاتھوں میں نہیں دے دیتے جو تمام کائنات کا نظام سنبھالتا ہے؟

خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اُسے سمیٹتے ہوئے آئیے ہم یاد رکھیں کہ ہم جو اِس کائنات میں موجود ہیں اِس کا ایک حصہ ہیں۔ ہمارے ذہن مسلسل یہ سوال پوچھتے ہیں: "کائنات کا مصدر کیا ہے؟ اِس کا مقصد کیا ہے؟ یہ کیسے محفوظ ہے؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ اور ہم کہاں جا رہے ہیں؟" اِن سوالات کے جوابات سب سے بڑی، ہر شے پر قادر، سب چیزوں کی علّتِ اصلی، واجب الوجود، عاقل، حکیم، ارادہ اور اخلاقی صفات کی حامل ہستی کے وجود کو تسلیم کئے بغیر ناممکن ہیں۔ اِن سوالات کے جوابات ہمیں بائبل مُقدّس میں مل سکتے ہیں جو بیان کرتی ہے: "خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ اور زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہراﺅ کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی رُوح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی" (پیدایش 1: 1، 2)۔

اب میرے عزیز دوست، میں اپنے پورے دِل سے دُعا کرتا ہوں کہ آپ اِن ثبوتوں کو کافی پائیں تا کہ اپنے دوستوں کے ذہنوں سے شک کے بادل ختم کر سکیں۔ شاید اُن کا عذر یہ ہو کہ خدا کو دیکھا نہیں جا سکتا، لیکن وہ بہت سی ایسی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنہیں وہ سمجھتے نہیں، جیسے بجلی، کششِ ثقل، مقناطیسی قوت اور زندگی۔ جب برنارڈ رسل سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو مانتا ہے؟ تو اُس نے جواب دیا "میں اِسے نہیں سمجھتا، لیکن میری ناسمجھی مجھے اُس کے ماننے سے نہیں روکتی۔" یہی بات خدا پر ایمان کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، جس کی گہرائیوں کو پوری طرح سے ماپا نہیں کیا جا سکتا۔

میں اِس کہانی سے اپنی بات کو ختم کروں گا: "چند نوجوانوں کے ایک گروہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر اُنہیں خدا کے وجود کے کوئی مادی ثبوت نہیں ملیں گے تو وہ اُس پر ایمان نہیں رکھیں گے۔ ایک دن ایک بوڑے شخص نے جو اپنی دانائی کی وجہ سے جانا جاتا تھا اُن سے کہا: 'آج میں نے ایک کھیت میں ایک ہنس، ایک بھیڑ اور ایک اونٹ دیکھا اور وہ ایک ہی گھاس میں سے کھا رہے تھے۔ کیا آپ مجھے سمجھا سکتے ہیں کہ کیسے وہی گھاس ہنس میں پروں میں تبدیل ہو جاتی ہے، بھیڑ میں اون میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور اونٹ میں بالوں میں تبدیل ہو جاتی ہے؟' اور پھر اُس نے اپنی بات جاری رکھی، 'اِس سے پہلے کہ آپ اِس فرق کی مجھ پر وضاحت کریں، آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے؟' اُنہوں نے جواب دیا: 'ہاں یہ بات سچ ہے، لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے کہ کیسے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔' تب بوڑھے دانا شخص نے جواب دیا: 'پھر خدا کی بابت رموز و اسرار کے ساتھ ایسا کیوں ممکن نہیں ہے؟'"

سوالات

اگر آپ نے اِس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. خدا تعالیٰ کے وجود کے تعلق سے لوگوں میں تین طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ اُن کا ذِکر کریں۔ آپ کس موقف کے حامی ہیں؟

  2. عربی کے اُن دو اشعار کا مفہوم کیا ہے جن میں معلم و طبیب کا ذِکر ہے؟ اُن کی تشریح کیا ہے؟

  3. زمین جس پر ہم رہتے ہیں مقابلتاً کافی جدید ہے۔ ثابت کیجئے۔

  4. ولادت کے موقع پر زندگی کی حفاظت کےلئے مقصد کی علامات کا ذِکر کریں۔ اِن سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟

  5. عناصر زندہ مخلوقات کی ضروریات کے موافق ہیں۔ وضاحت کریں۔

  6. کروسلی موریسن نے خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان کی تائید کرنے والے سات ثبوت بیان کئے ہیں۔ اُن کا ذِکر کیجئے۔

  7. انسانی عقل خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔ کیسے؟

  8. تجسم خدا کے وجود کی زندہ گواہی ہے۔ وضاحت کریں۔

  9. شخصی تجربے کی گواہی خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔ وضاحت کریں۔

  10. لارڈ کرامویل نے تاریخ کی جو تعریف بیان کی اُس کی وضاحت کریں۔

  11. ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب "پریشان ہونا چھوڑیئے" میں کیا کہا ہے؟

  12. اپنی کتاب "واپس ایمان کی طرف" میں ہنری نے کس نتیجہ کا ذِکر کیا ہے؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany