اِس سے پچھلے صفحے پر جائیں۔
محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی

محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی

منیس عبد النور

2017


1- دیباچہ

آج کی کلیسیا، کرنتھس میں واقع پہلی کلیسیا سے بہت حد تک یکسانیت رکھتی ہے۔ جیسے کرنتھس کی کلیسیا کو محبت پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت تھی، ویسے ہی آج ہمیں بھی اِس خوبی کی ضرورت ہے جو تمام اخلاقی خوبیوں میں افضل ہے جس کا ذِکر نئے عہدنامہ میں 1- کرنتھیوں 13 باب میں مرقوم ہے جو محبت کے بیان کی وجہ سے بائبل مُقدّس میں ایک اہم ترین باب ہے۔

الف- نئے عہدنامہ کے مطابق کرنتھس کی کلیسیا تفرِقہ کا شکار تھی، لوگ مختلف گروہوں میں بٹ چکے تھے جس کی وجہ اُن کا اِنسانی حکمت پر بھروسا کرنا تھا (1- کرنتھیوں 1:1-12)۔ اِس لئے پولس رسول نے اُنہیں بتایا کہ فصاحت و فلسفہ اُس کی زندگی کی اوّل ترجیح نہیں ہے بلکہ اُس کا واحد مقصد مسیح مصلوب کی منادی ہے (1- کرنتھیوں 3، 4 باب)، کیونکہ مسیح نے آسمانی ایثار کن محبت کو واضح طور سے ہم پر ظاہر کیا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس میں بدلے میں کسی شے کی توقع کے بغیر دیا جانا شامل ہے۔

آج کی کلیسیا کو بھی مسیح کے سے اندازِ فکر کی ضرورت ہے، کیونکہ رسول کے کرنتھس کی کلیسیا کےلئے لکھے گئے الفاظ کا ہم پر بھی اِطلاق ہوتا ہے: "تم میں حسد اور جھگڑا ہے" (1- کرنتھیوں 3: 3)۔

ب- کرنتھس کی کلیسیا ایک ایسے شخص کو قبول کرنے سے گناہ کی مرتکب ہوئی تھی جس نے اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کی تھی۔ وہاں کی کلیسیا نے غالباً اُس کی امارت یا معاشرے میں قابل ذِکر مقام کی وجہ سے اُسے قبول کر لیا تھا (1- کرنتھیوں 5 باب)۔ اگر وہ اُس سے حقیقت میں محبت کرتے تو اُس کی خطا پر اُسے جھڑکتے تا کہ وہ خدا کے سامنے توبہ کرتا۔ محبت میں گنہگار کو جھڑکنا شامل ہے کیونکہ اِس میں گناہ سے نفرت لیکن گنہگار سے محبت کی جاتی ہے۔ آج ہمیں بھی اِس محبت کی ضرورت ہے جس میں لوگوں کو توبہ کی طرف مائل کرنے کےلئے جھڑکنا شامل ہوتاہے، اِسی لئے حکمت کی کتاب میں لکھا ہے کہ "جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُروفا ہیں لیکن دُشمن کے بوسے بااِفراط ہیں" (پرانا عہدنامہ، امثال 27: 6)۔

ج- کرنتھس کے رہنے والوں میں لڑنے جھگڑنے کی رُوح موجود تھی اور اُنہیں مشکلات اور تنازعے یہاں تک پسند تھے کہ اُن میں سے ایک اپنے ایماندار بھائی کے خلاف مُقدمے کو لے کر بےدینوں کے پاس فیصلہ کرانے کےلئے چلا گیا (1- کرنتھیوں 6 باب)۔ محبت کلیسیا اور ایمانداروں پر بھروسا کرتی ہے۔ "کیا تم نہیں جانتے کہ مُقدّس لوگ دُنیا کا اِنصاف کریں گے؟" (1- کرنتھیوں 6: 2)۔ ذرا سوچئے کہ آج کل کی شہری عدالتوں میں مسیحی دوسرے مسیحیوں کے خلاف کس قدر مقدمے لے کر گئے ہوئے ہیں!

د- کرنتھس کی کلیسیا نے پولس رسول کو ایک خط بھیجا جس میں شادی بیاہ کی بابت (1- کرنتھیوں 7 باب) اور بتوں کے آگے نذر کی جانے والی خوراک کی بابت سوال تھا کہ کیا اُسے کھایا جائے یا اُس کے کھانے سے احتراز برتا جائے (1- کرنتھیوں 8- 10 ابواب)۔ اِس کا حل محبت ہے۔ یہ ہر سوال کا جواب ہے۔ ایک شوہر کو اپنی بیوی سے ویسی محبت رکھنی چاہئے جیسی محبت مسیح کلیسیا سے کرتا ہے، اور ایک خوش و خرم گھرانے کی بنیاد سچی محبت ہے۔ مزید برآں، محبت ہمیں اُن لوگوں کےلئے حساس رویہ رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے جو بتوں کے آگے پیش کئے جانے والے گوشت کے کھانے یا اُس سے بچنے پر ہم سے متفق یا غیر متفق ہوتے ہیں۔

آج ہمیں بھی محبت کے اِس باب (1- کرنتھیوں 13 باب) کی ضرورت ہے تا کہ اپنے گھرانے کی تعمیر محبت پر کریں، اپنے اردگرد کے افراد کے ساتھ اپنے فکری تعلق کو محبت کی بنیاد پر قائم کریں اور دوسروں کے بارے میں ہماری رائے محبت کی بنا پر ہو۔

ہ- کرنتھس کی کلیسیا نے پولس رسول سے کلیسیا میں عورتوں کے رویہ کے بارے میں بھی پوچھا (1- کرنتھیوں 11:1-16)۔ اِس کا جواب محبت ہے، کیونکہ جو محبت کرتا ہے کلیسیا کے نظم و ضبط کی پیروی کرتا ہے کیونکہ وہ کلیسیا کے خداوند سے محبت کرتا ہے۔ ایک اچھی بیوی جس کا دِل محبت سے بھرا ہو، بلند آواز سے بات نہیں کرتی اور نہ ہی خداوند کے گھر میں عبادت کی پاکیزگی میں خلل پیدا کرتی ہے۔

و- کرنتھس کی کلیسیا نے اگاپے یا محبت کی ضیافت کی بابت بھی پوچھا جو عشائے ربّانی سے پہلے ہوا کرتی تھی (1- کرنتھیوں 11: 17- 37)۔ یہاں بھی محبت ہی جواب ہے۔ کیونکہ اگاپے کی ضیافت کلیسیا کی یگانگی کا ایک اِظہار ہے جو مسیح کا بدن ہے، جو ایک ہی روٹی اور ایک ہی پیالے میں شریک ہوتی ہے۔

ز- پولس رسول نے رُوحانی نعمتوں کے بارے میں بھی بات کی (1- کرنتھیوں 12، 14 باب)۔ کرنتھس کے رہنے والے کچھ لوگ اپنی نعمتوں پر غرور کرتے تھے جبکہ وہ خدا تعالیٰ نے اُنہیں بخشش کے طور پر عنایت کی تھیں اور اِس میں اُن کی اپنی کوئی جدوجہد شامل نہ تھی۔ نعمتیں رُوح القدس کے فضل کی بدولت مُفت بخشی گئی ہیں، اور اُن فطری یا مافوق الفطری نعمتوں کے حامل افراد کےلئے لازم ہے کہ وہ اُنہیں مسیح کے بدن کی خدمت کےلئے استعمال کریں۔

نعمتوں کی بابت اِن دو اَبواب کے درمیان پولس رسول ہمارے لئے ایک بہتر راہ تجویز کرتا ہے، جسے ہمیں بڑی سرگرمی سے قبول کرنا چاہئے (1- کرنتھیوں 12: 31)۔ کیونکہ جو کوئی مسیح کےلئے اپنے جوش و خروش اور اُس کی کلیسیا کی تعمیر کےلئے اپنی خواہش کو دِکھانا چاہتا ہے اُسے محبت میں کامل ہونے کی ضرورت ہے۔

ح- 1- کرنتھیوں 15 باب میں ہمیں قیامت کی بابت بیان ملتا ہے۔ سیدنا مسیح نے ہم سے محبت کی اِس لئے چرنی میں ایک بچہ کی صورت میں جنم لیا، زمین پر حلیمی سے اپنی زندگی بسر کی، ہماری خاطر مصلوب ہو کر اپنی جان دی اور پھر دفن کئے گئے۔ تیسرے دِن وہ مُردوں میں سے جی اُٹھے تا کہ اُن سب میں پہلوٹھے ہوں، تا کہ ہر ایمان لانے والے کو گناہ کی موت میں سے زندہ کریں، اور اُسے روزِ آخر قبر میں سے زندہ اُٹھا کھڑا کریں (انجیل بمطابق یوحنا 5: 28، 31)۔ جو کوئی اپنے گناہ کی مُردہ حالت میں سے زندہ ہو چکا ہے اور مُردوں کی قیامت اور آئندہ جہان کی زندگی کے آنے کا انتظار کر رہا ہے، وہ اپنا آپ خداوند کے کام کےلئے مکمل طور پر دے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کی محنت خداوند میں بےفائدہ نہیں ہے (1- کرنتھیوں 15: 58)۔ کیونکہ محبت زندگی کی وہ خوبی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ محبت کی عظیم ترین مثال مسیح ہے جو خود مجسم محبت ہے۔ اگر آپ 1- کرنتھیوں 13 باب میں محبت کے بیان میں لفظ "محبت" کی جگہ لفظ "مسیح" پڑھیں تو آپ پر اِس کے معنٰی واضح طور پر عیاں ہو جائیں گے۔ تب آپ کچھ یوں پڑھیں گے: "مسیح صابر ہے اور مہربان۔ مسیح حسد نہیں کرتا۔ مسیح شیخی نہیں مارتا اور پھولتا نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتا۔ اپنی بہتری نہیں چاہتا۔ ..." مسیح میں آپ محبت کو مجسم پاتے ہیں۔

مسیح کی زندگی اور تعلیمات میں محبت بڑی واضح تھی۔ آپ نے اپنی قربانی دینے والی محبت کے بارے میں فرمایا: "اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دے دے" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 13)۔ آپ نے اپنے گنہگار مخالفوں کو اپنے دوست کہا۔ آپ نے اپنے شاگردوں کے پاﺅں دھوئے اور یوں کامل محبت دِکھائی۔ انجیل بمطابق یوحنا 13: 1 میں مسیح کی بابت لکھا ہے کہ "اپنے اُن لوگوں سے جو دُنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔"

واضح طور پر محبت آپ کی تعلیمات کا جوہر ہے۔ آپ نے فرمایا: "اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو" (انجیل بمطابق یوحنا 13: 35)۔ "میرا حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 12)۔

جب آپ سے حکموں میں سے سب سے اوّل اور بڑے حکم کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا: "اوّل یہ ہے، اے اسرائیل سُن۔ خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ اور تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔ دوسرا یہ ہے کہ تُو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِن سے بڑا اَور کوئی حکم نہیں" (انجیل بمطابق مرقس 12: 29- 31)۔

آئیے، اَب محبت کے اِس باب کا مطالعہ کریں، وہ محبت جو کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ ہم اِس باب کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

1- محبت کی اہمیت (آیات 1- 3)

2- محبت کی خصوصیات (آیات 4- 7)

3- محبت کی ہمیشگی (آیات 8- 13)

2- محبت اہم ترین خوبی ہے (1- کرنتھیوں 13: 1- 3)

آج کی کلیسیا، کرنتھس کی کلیسیا سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔ کرنتھس کی کلیسیا کی طرح یہ بھی بہت سے گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ آج کی کلیسیا بھی رُوح کی نعمتوں کے بارے میں زیادہ فکرمند ہے، لیکن رُوح القدس کے پھل کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس کا آغاز محبت سے ہوتا ہے (نیا عہد نامہ، گلتیوں 5: 22- 23)۔ مزید برآں، آج کی کلیسیا خدمت، تعلیم، نصیحت، خیرات، پیشوائی، رحم اور محبت جیسی زیادہ اہم نعمتوں (نیا عہد نامہ، رومیوں 12: 6- 9) کی نسبت اُن نعمتوں کے بارے میں سوچتی ہے جو دیکھنے والوں کی توجہ کھینچتی ہیں جیسے غیر زبانوں میں بولنا یا شفا وغیرہ۔

پولس رسول نے رُوحانی نعمتوں کا تذکرہ 1- کرنتھیوں 12، 14 باب میں کیا ہے، لیکن محبت پر باب اِن دونوں کے درمیان رکھا ہے۔ اِن ایام میں ہمیں محبت کے اِس باب پر گیان دھیان کرنے کی ضرورت ہے تا کہ نعمتوں کے تعلق سے ہماری سوچ کی درستی ہو اور ہم اُنہیں خاطر خواہ طور پر استعمال کر سکیں۔

پولس رسول 12 باب کے آخر میں کہتے ہیں کہ "تم بڑی سے بڑی نعمتوں کی آرزو رکھو لیکن اَور بھی سب سے عمدہ طریقہ میں تمہیں بتاتا ہوں" (آیت 31)۔ اِس سے اُن کی مراد محبت کا طریقہ ہے۔ ہمیں اپنی زندگی پر اِس باب کی تعلیم کا اِطلاق کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ثابت کر سکیں کہ ہم مسیح کے شاگرد ہیں۔

بائبل مُقدس میں ہم محبت کے رسول یوحنا سے محبت کے بارے میں سُنتے ہیں جنہیں وہ شاگرد کہا گیا ہے جس سے یسوع محبت رکھتا تھا (انجیل بمطابق یوحنا 13: 23)۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ شاگرد ہے جو مسیح سے محبت کرتا ہے، کیونکہ مسیح کےلئے یوحنا کی محبت، دراصل یوحنا کےلئے مسیح کی محبت کی ایک حقیقی، وفادار اور مضبوط بازگشت ہے۔ وہ کہتا ہے: "ہم اِس لئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبت رکھی" (نیا عہد نامہ، 1- یوحنا 4: 19)۔ لیکن پولس رسول محبت کے گہرے کنویں میں اپنا ڈول ڈال کر ہمارے لئے اِس زندگی بخش کلام کو لیتا ہے جسے ہم 1- کرنتھیوں 13 باب میں پڑھتے ہیں۔

پولس رسول بھی ہمیں نجات بخش ایمان کے بارے میں بتاتا ہے جو اپنا آپ محبت میں ظاہر کرتا ہے، کیونکہ اُس نے کہا "اور مسیح یسوع میں نہ تو ختنہ کچھ کام کا ہے نہ نامختونی مگر ایمان جو محبت کی راہ سے اثر کرتا ہے" (نیا عہد نامہ، گلتیوں 5: 6)۔

"اگر میں آدمیوں اور فرشتوں کی زُبانیں بولوں اور محبت نہ رکھوں تو میں ٹھنٹھناتا پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ ہوں۔ اور اگر مجھے نبوت ملے اور سب بھیدوں اور کُل علم کی واقفیت ہو، اور میرا ایمان یہاں تک کامل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دوں اور محبت نہ رکھوں تو میں کچھ بھی نہیں۔ اور اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کِھلا دُوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دُوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں۔" (1- کرنتھیوں 13: 1- 3)

محبت کی اہمیت اِس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ یہ یسوع کے شاگرد ہونے کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اُس نے فرمایا: "اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو" (انجیل بمطابق یوحنا 13: 35)۔

الف- محبت زبانوں اور خوش گفتاری سے زیادہ اہم ہے

"اگر میں آدمیوں اور فرشتوں کی زُبانیں بولوں اور محبت نہ رکھوں تو میں ٹھنٹھناتا پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ ہوں۔" (1- کرنتھیوں 13: 1)

"فرشتوں کی زبانوں" سے غالباً پولس رسول کی مُراد ایسی زبان ہے جو اِنسانوں کے درمیان بولی اور سمجھی جانے والی زبان سے اعلیٰ و ارفع ہے، اُس زبان کی مانند ہے جو اُس نے تب سُنی جب وہ تیسرے آسمان پر اُٹھا لیا گیا اور ناقابل بیان باتیں سُنیں جن کا کہنا آدمی کو روا نہیں (2- کرنتھیوں 12: 4)۔ "فرشتوں کی زبانوں" کا مطلب وہ غیر زبانیں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں پینتِکوست کے دِن رُوح القدس سے معمور ہونے والے افراد نے بولا تھا۔ اِن میں سے کوئی بات کیوں نہ ہو، چاہے وہ ارفع اور اِنسانی سمجھ سے بالاتر زبان ہو، لیکن بغیر محبت ایسی زبان کا بولنا ٹھنٹھناتے پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ کی مانند ہے۔ یہ انتہائی سادہ، بنیادی اور سستے موسیقی کے ساز ہیں جو سادہ سی تال کے سبب گہرا اثر نہیں کرتے۔ سو زبردست فصاحت و بلاغت اور اعلیٰ و ارفع زبان اگر محبت کے بغیر ہے تو وہ اِن سادہ اور سستے موسیقی کے سازوں کی مانند ہے۔

یہاں پر پولس رسول اُن قابل فہم زبانوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا جو خدا تعالیٰ نے پینتِکوست کے دِن شاگردوں کی جماعت کو عطا کی تھیں (نیا عہد نامہ، رسولوں کے اعمال 2: 4)، بلکہ اُن ناقابل فہم زبانوں کی بات کر رہا ہے جو کرنتھس کی کلیسیا میں لوگ بول رہے تھے۔ پولس رسول اُن کے بارے میں کہتا ہے: "کیونکہ جو بیگانہ زُبان میں باتیں کرتا ہے وہ آدمیوں سے باتیں نہیں کرتا بلکہ خدا سے اِس لئے کہ اُس کی کوئی نہیں سمجھتا حالانکہ وہ اپنی رُوح کے وسیلہ سے بھید کی باتیں کہتا ہے۔ ... اگرچہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم سب بیگانہ زُبانوں میں باتیں کرو لیکن زیادہ تر یہی چاہتا ہوں کہ نبوت کرو، اور اگر بیگانہ زُبانیں بولنے والا کلیسیا کی ترقی کےلئے ترجمہ نہ کرے تو نبوت کرنے والا اُس سے بڑا ہے۔ پس اے بھائیو! اگر میں تمہارے پاس آ کر بیگانہ زُبانوں میں باتیں کروں اور مُکاشفہ یا علم یا نبوت یا تعلیم کی باتیں تم سے نہ کہوں تو تم کو مُجھ سے کیا فائدہ ہو گا؟ چنانچہ بےجان چیزوں میں بھی جن سے آواز نکلتی ہے مثلاً بانسری یا بربط اگر اُن کی آوازوں میں فرق نہ ہو تو جو پُھونکا یا بجایا جاتا ہے وہ کیونکر پہچانا جائے؟ ... لیکن کلیسیا میں بیگانہ زبان میں دس ہزار باتیں کہنے سے مُجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ اَوروں کی تعلیم کےلئے پانچ ہی باتیں عقل سے کہوں۔ ... پس اگر ساری کلیسیا ایک جگہ جمع ہو، اور سب کے سب بیگانہ زبانیں بولیں اور ناواقف یا بےایمان لوگ اندر آ جائیں تو کیا وہ تم کو دیوانہ نہ کہیں گے؟" (1- کرنتھیوں 14: 2، 5- 7، 19، 23)۔

سو زبانیں، چاہے وہ کتنی ہی عظیم کیو ں نہ ہوں اگر وہ ناقابل فہم ہیں تو وہ سُننے والوں پر اثر نہیں کرتیں۔ لیکن نصیحت کے الفاظ تعمیر و ترقی کرتے ہیں۔

کرنتھس کے رہنے والے، دوسرے افراد کےلئے ناقابل فہم الفاظ بول رہے تھے،جن کے بولنے کے دوران اُن کے جذبات محبت سے خالی تھے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دوسروں کےلئے اپنی نعمتوں پر فخر کر رہے تھے۔ سو اُن کے جذبات سے محروم الفاظ سامعین کےلئے برکت کا باعث نہ تھے۔ اِس کے برعکس، وہ محض خود نمائی کا ذریعہ تھے کیونکہ اُن میں محبت مفقود تھی۔

جب کسی میں محبت کی کمی ہو تو وہ اپنے لئے خدا کی نعمت کے بارے میں تو فکرمند رہے گا لیکن نعمت بخشنے والے کو بھول جاتا ہے۔ اِس طرح کا مظاہرہ ایک ایسا بچہ کرتا ہے جو اپنے باپ سے تحفہ لے کر بغیر شکریہ ادا کئے بھاگ کر چلا جاتا ہے کیونکہ وہ تحفہ دینے والے باپ سے زیادہ تحفہ کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے۔ لیکن ایک بچہ کی سوچ کا انداز تو بہت سادہ ہوتا ہے۔ بالکل اِسی طرح بہت سے لوگ ہیں جو رُوحانی نعمتوں کے بارے میں تو فکرمند رہتے ہیں لیکن اُن نعمتوں کے بخشنے والے کو بھول جاتے ہیں۔ تاہم، محبت نعمتوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ محبت ہمیں نعمتیں بخشنے والے خداوند کے ساتھ ایک کرتی ہے اور ہمیں اِس قابل بناتی ہے کہ نعمتوں کو بہتر انداز میں دوسروں کی خدمت کےلئے مستعدی سے استعمال کریں۔ لیکن اگر ہم نعمتیں بخشنے والے سے محبت کئے بغیر نعمت پر ہی توجہ مرکوز کئے رکھیں اور جس مقصد کےلئے اُس نے ہمیں نعمت بخشی ہے اُسے بھلا دیں تو پھر ہماری نعمت ایک ٹھنٹھناتے پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ کی مانند ہو گی چاہے وہ ہماری اپنی یا دوسروں کی نگاہ میں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

جب کسی میں محبت کی کمی ہو تو وہ اپنے لئے خدا تعالیٰ کی نعمت پر مغرور ہو جاتا ہے۔ اُس کے غرور کو دیکھ کر دوسرے ایماندار اُس سے دُور ہو جاتے ہیں۔ اِس صورتحال میں اُس کی نعمت تعمیر نہیں کرتی بلکہ تباہ کرتی ہے۔ ایک کرنے کی جگہ یہ جُدائی ڈال دیتی ہے۔ اِسی لئے نعمتیں محبت کے بغیر بیکار ہیں۔

ابتدائی کلیسیا میں ایسے واعظ تھے جو انجیل اور مسیح کی منادی حسد، تنازعات اور گروہ بندیوں کی وجہ سے کر رہے تھے۔ وہ غیر مخلص تھے اور سمجھتے تھے کہ یوں وہ پولس رسول کےلئے مشکل پیدا کر دیں گے (فلپیوں 1: 15- 16)۔ وہ اُستاد تھے اوراُن کی فصاحت لوگوں کو قائل کرتی تھی، لیکن اُس کے پیچھے محرک میں محبت مفقود تھی۔ اِس لئے وہ ایک ٹھنٹھناتے پیتل یا جھنجھناتی جھانجھ کے سوا کچھ نہ تھے۔ تاہم، پولس رسول نے ایسے اُستادوں کے کام کے بارے میں اپنے تاثرات کی یہ کہہ کر وضاحت کی کہ: "پس کیا ہُوا؟ صرف یہ کہ ہر طرح سے مسیح کی مُنادی ہوتی ہے خواہ بہانے سے ہو خواہ سچائی سے اور اِس سے میں خوش ہوں اور رہوں گا بھی۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری دُعا اور یسوع مسیح کے رُوح کے اِنعام سے اِس کا انجام میری نجات ہو گا" (فلپیوں 1: 18، 19)۔ کسی بھی وعظ سے زیادہ خوش بیان اور فصیح محبت کی حقیقت ہے۔

ب- محبت نبوت اور علم سے زیادہ اہم ہے

"اور اگر مجھے نبوت ملے اور سب بھیدوں اور کُل علم کی واقفیت ہو، اور میرا ایمان یہاں تک کامل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دوں اور محبت نہ رکھوں تو میں کچھ بھی نہیں۔" (1- کرنتھیوں 13: 2)

پولس رسول نے نبوت کی تعریف یوں بیان کی ہے: "لیکن جو نبوت کرتا ہے وہ آدمیوں سے ترقی اور نصیحت اور تسلی کی باتیں کہتا ہے" (1- کرنتھیوں 14: 3)۔ نبوت صرف مستقبل کے بارے میں پیش بینی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کےلئے تعلیم اور حوصلہ افزائی بھی ہے۔ محبت کے باب میں رسول اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نبوت بغیر محبت کے کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ جو دوسروں کو تاکید و نصیحت کرتا ہے، جو دوسروں کو مستقبل کی برکت کے بارے میں نبوت بتاتا ہے لازم ہے کہ وہ اُن سے محبت بھی رکھے۔ اِسی طرح جو مستقبل کی سزا کے بارے میں نبوت کرتا ہے لازم ہے کہ وہ سزا سُنانے والوں سے درد مندی سے پیش آئے، جیسے کہ یرمیاہ نبی نے کہا ہے: "کاشکہ میرا سر پانی ہوتا اور میری آنکھیں آنسوﺅں کا چشمہ تا کہ میں اپنی بنتِ قوم کے مقتولوں پر شب و روز ماتم کرتا" (یرمیاہ 9: 1)۔

نعمت کے طور پر علم گہرے رُوحانی بھیدوں کا علم ہے جن کے بارے میں ہم منادی کرتے ہیں۔ نبوت اور علم ایک دوسرے سے مربوط ہیں، کیونکہ جو بھیدوں سے واقف ہوتا ہے وہ اُنہیں منادی میں سکھائے گا۔ سب سے بڑا بھید جو ہمارے لئے خدا کی محبت کو منکشف کرتا ہے اُسے "دینداری کا بھید" کہا گیا ہے (1- تیمتھیس 3: 16)۔ خدا نے دُنیا سے اتنی محبت رکھی کہ وہ دُنیا میں مجسم ہوا، اور مسیح میں آیا تا کہ ہمارے لئے اپنی محبت کو ظاہر کرے اور ہم سے ہمارے گناہوں کی سزا دُور کر دے، اِس لئے اُس نے تمام دُنیا کے گناہوں کےلئے اپنا آپ کفارہ بخش قربانی کے طور پر پیش کر دیا۔ خدا گنہگار اِنسانیت سے اِس قدر محبت کیسے رکھ سکتاہے؟ یہ ایک آسمانی بھید ہے لیکن مسیح کا تجسم اِس کا ایک ثبوت ہے۔

ایک اَور بڑا بھید بھی ہے: خدا نے ہم غیر قوم والوں کو چُنا تا کہ ہم مسیح پر ایمان لانے والے چُنے ہوئے یہودی لوگوں کے ساتھ میراث میں شریک ہوسکیں۔ یہ مکاشفہ کا وہ بھید ہے "جو اَزل سے پوشیدہ رہا۔ مگر اِس وقت ظاہر ہو کر خدایِ اَزلی کے حکم کے مطابق نبیوں کی کتابوں کے ذریعہ سے سب قوموں کو بتایا گیا تا کہ وہ ایمان کے تابع ہو جائیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 16: 25- 26)۔ سو، خدا کے تمام دُنیا سے محبت کے نتیجہ میں غیر اقوام بھی میراث میں شامل ہوئی ہیں۔

پرانے عہدنامہ میں زبور نویس ہمیں بتاتا ہے: "خداوند کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اُس سے ڈرتے ہیں" (زبور 25: 14)۔ خدا اپنی بادشاہی کے بھید اُن پر عیاں کرتا ہے جو اُس پر بھروسا کرتے ہیں کیونکہ وہ اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی اُس سے محبت کرتے ہیں۔ اگر کسی کو تمام آسمانی بھیدوں سے واقفیت حاصل ہے اور وہ اُنہیں دِلی محبت کے بغیر سکھاتا ہے تو اِس کا کوئی بھی فائدہ نہیں۔ یہودی مذہبی راہنما مسیح کی آمد اور بیت لحم میں ایک کنواری سے آپ کی پیدایش کے بارے میں نبوتوں کے تمام بھیدوں سے واقف تھے۔ اور جب اُن سے پوچھا گیا کہ مسیح کی پیدایش کہاں ہونی تھی تو اُنہوں نے درست جواب دیا اور اُس کے بارے میں نبوت کا اقتباس بھی پیش کیا (انجیل بمطابق متی 2: 5- 6)۔ تاہم، اُن میں سے کوئی بھی داﺅد کے شہر میں پیدا ہونے والے نجات دہندہ کو دیکھنے کےلئے بیت لحم کو نہ گیا جس کے سب لوگ منتظر تھے۔ دوسری طرف جہاں تک خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کی بات ہے تو وہ دور دراز کے ملکوں سے اُس کی تلاش کرتے ہوئے آئے اور اُنہوں نے اُسے اپنے تحائف پیش کئے۔

پرانے عہدنامہ میں ہم ایک نبی بلعام کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اُس نے کہا: "بعور کا بیٹا بلعام کہتا ہے یعنی وہی شخص جس کی آنکھیں بند تھیں یہ کہتا ہے۔ بلکہ یہ اُسی کا کہنا ہے جو خدا کی باتیں سُنتا ہے اور حق تعالیٰ کا عرفان رکھتا ہے" (گنتی 24: 15، 16)۔ بلعام نے خدا تعالیٰ کی واحدانیت کا اعلان کیا، اُس کا تعلق خدا کے دوست ابرہام کے ملک سے تھا، اور اُس کی شہرت اِس قدر پھیلی ہوئی تھی کہ ہر طرف کے لوگ اُس کے پاس آتے تھے تا کہ وہ اُن کے مستقبل کے بارے میں بتائے اور اُنہیں اور اُن کے مال و اسباب کو برکت دے۔ تاہم، اُس کے دِل میں خدا کے لوگوں کےلئے کوئی محبت نہ تھی، بلکہ وہ دولت کی محبت سے بھرا ہوا تھا کیونکہ بلق بادشاہ نے اُسے بنی اسرائیل پر لعنت کرنے کےلئے اُجرت پر بلایا۔ جب خدا نے اُس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور وہ اَیسا نہ کر سکا تو اُس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ اُنہیں بتوں کی پرستش کے جال میں پھنسائے اور مکروہ کاموں میں لگائے۔ پھِر اسرائیلی اِن پھندوں کے سبب خطا کا شکار ہوئے اور نتیجتاً خدا تعالیٰ نے اُن پر بڑی سخت وبا بھیجی (گنتی 31: 16)۔ پطرس رسول نے گمراہ ہونے والے ایسے لوگوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ "وہ سیدھی راہ چھوڑ کر گمراہ ہو گئے اور بعور کے بیٹے بلعام کی راہ پر ہو لئے جس نے ناراستی کی مزدوری کو عزیز جانا" (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 2: 15)۔ سو بلعام نبی اپنے دِل میں محبت کی کمی کی وجہ سے کچھ بھی نہیں تھا۔

نئے عہدنامہ میں بھی ہم ایسے نبی کی نبوت کے بارے میں پڑھتے ہیں جس کا دِل محبت سے محروم ہے۔ انجیل مُقدس اُسے اِس انداز سے بیان کرتی ہے: "اور اُن میں سے کائفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہن تھا اُن سے کہا تم کچھ نہیں جانتے۔ اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔ مگر اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اُس سال سردار کاہن ہو کر نبوت کی کہ یسوع اُس قوم کے واسطے مرے گا۔ اور نہ صرف اُس قوم کے واسطے بلکہ اِس واسطے بھی کہ خدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کر کے ایک کر دے" (انجیل بمطابق یوحنا 11: 49- 52)۔ کائفا نے تمام دُنیا کےلئے مسیح کی موت کی پیشگوئی کی، اور اُس کی نبوت درست تھی، لیکن اُس میں محبت نہیں تھی کیونکہ اُس نے دوسرے یہودی راہنماﺅں کے ساتھ مل کر مسیح کو مصلوب کرانے کا منصوبہ بنایا۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی بہت بڑا واعظ ہو، اور اُس کے دِل میں محبت نہ ہو۔ وہ کسی ضرورتمند شخص تک خدا کی محبت کے پیغام کو پہنچانے کے قابل ہو سکتا ہے ۔ تاہم، اگر اُس میں محبت نہیں ہے تو چاہے وہ بڑی فصاحت کے ساتھ نبوت اور علم کو پیش کرے لوگوں پر اُس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ کیونکہ محبت کے بغیر ہم خدا کے نزدیک نہیں آ سکتے اور نہ ہی لوگوں کو خدا کے پاس لا سکتے ہیں۔

محبت نبوت اورعلم سے عظیم تر ہے کیونکہ اِس کا آنا ایسے وقت میں ہوا جب ہم نصیحت و علم کے محتاج نہیں ہیں۔ نئے عہدنامہ میں عبرانیوں کی کتاب کا مصنف اُس وقت کا ذِکر کرتا ہے جب خدا کا کلام ہمارے دِل کی تختی پر لکھا ہو گا: "پھِر خداوند فرماتا ہے کہ جو عہد اسرائیل کے گھرانے سے اُن دِنوں کے بعد باندھوں گا وہ یہ ہے کہ میں اپنے قانون اُن کے ذہن میں ڈالوں گا اور اُن کے دِلوں پر لکھوں گا اور میں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے۔ اور ہر شخص اپنے ہم وطن اور اپنے بھائی کو یہ تعلیم نہ دے گا کہ تُو خداوند کو پہچان کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک سب مُجھے جان لیں گے" (عبرانیوں 8: 10، 11)۔

ج- محبت ایمان اور معجزات سے زیادہ افضل ہے

"اور میرا ایمان یہاں تک کامل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دوں اور محبت نہ رکھوں تو میں کچھ بھی نہیں۔" (1- کرنتھیوں 13: 2)

دسویں صدی عیسوی میں مصر میں فاطمی سلطنت کے دوران ایک یہودی وزیر خلیفہ کے پاس حاضر ہوا اور کہا "مسیحیوں کی اِنجیل میں لکھا ہے کہ اگر کسی میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو وہ ایک پہاڑ کو ہلا سکتا ہے۔" سو فاطمی خلیفہ العزیز باللہ نے مصری بطریق کو چیلنج کیا اور اُس سے پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ یہ آیت اِنجیل میں موجود ہے۔ جب مصری بطریق نے اِس بات کی تصدیق کی کہ یہ الفاظ انجیل بمطابق متی 21: 22 میں لکھے ہیں تو خلیفہ نے بطریق کو جبل المقطم کو ہلانے کےلئے کہا۔ خدا نے ایمان کی دُعا کو سُنا۔ اُس نے پہاڑ کو ہلا دیا۔ یوں نتیجہ بڑا زبردست نکلا۔

ایک ایمان عقلی ایمان ہے جو جانتا ہے کہ بائبل میں کیا کچھ لکھا ہے، جو جانتا ہے کہ مشکل مذہبی سوالات کے جوابات کیسے دینے ہیں اور تشریح میں درپیش مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔ تاہم، یہ ایک پرسکون دِل کا ایمان نہیں ہے بلکہ صاحبِ علم ذہن کا ایمان ہے۔ یہ اُن بدارواح کے ایمان کی طرح ہے جو تھرتھراتی اور کانپتی ہیں لیکن تبدیل نہیں ہوتیں (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 19)۔

محبت معجزاتی ایمان سے بھی عظیم ہے۔ ایمان ہر زمانہ میں جبل المقطم کو ہلانے جیسا ایک بڑا معجزہ کرتا ہے، جبکہ محبت ہر روز سرگرم نظر آتی ہے۔ اِسی وجہ سے محبت ایمان سے بھی عظیم ہے۔

پولس رسول ایمان کی اہمیت کو گھٹا نہیں رہا اور نہ ہی ایک معجزہ کی اہمیت کو کم کر رہا ہے، لیکن وہ ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ محبت ہر روز ناگزیر اور اہم ہے۔ پہاڑوں کو ہلانے والا ایمان حیرت پیدا کرتا ہے، لیکن محبت ایک سخت دِل کو توڑ ڈالتی ہے۔ ایک فرد ایمان لائے بغیر حیران ہو سکتا ہے جیسے یہودی راہنما لعزر کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر حیران ہوئے جسے مرے ہوئے چار دِن ہو گئے تھے، اور وہ اِنکار نہ کر سکتے تھے کہ مسیح نے ایک معجزہ کیا تھا۔ لیکن وہ بس اِتنا ہی سوچ سکے کہ لعزر کو کیسے ماریں تا کہ مسیح کے قدرت و اختیار کے ثبوت کو مٹا سکیں۔ سو ایک معجزہ اُس دِل کو تبدیل نہیں کرتا جو اُس سے خیرہ ہو جاتا ہے، بلکہ اُس دِل کی مدد کرتا ہے جو خدا سے محبت کرتا ہے اور یوں اُس کے ایمان کو بڑھاتا ہے۔

پرانے عہدنامہ میں خروج 7: 11- 12 میں ہم پڑھتے ہیں کہ کیسے موسیٰ نبی نے اپنی لاٹھی نیچے پھینکی اور وہ ایک سانپ میں تبدیل ہو گی۔ تاہم، مصری جادوگروں نے بھی اپنی لاٹھیاں زمین پر پھینکیں جو سانپ بن گئیں۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ اِسی باب کی بیسویں اور اکیسویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ کیسے جناب موسیٰ نے پانی کو خون میں تبدیل کیا اور اُن جادوگروں نے بھی ویسا ہی کیا۔ موسیٰ نبی کے معجزہ اور اُن جادوگروں کے کام میں فرق یہ تھا کہ موسیٰ نبی کے معجزہ میں محبت تھی کیونکہ اُس میں خدا تعالیٰ نے اپنے لوگوں کےلئے اپنی فکر کا اظہار کیا۔ جہاں تک فرعون کے جادوگروں کی بات ہے تو اُنہوں نے اپنا معجزہ جناب موسیٰ کو تباہ کرنے اور الہٰی ثبوت کو مٹانے کےلئے کیا کیونکہ اُن کے دِل محبت سے خالی تھے اور وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی ہی میں رکھنا چاہتے تھے۔ اور جہاں تک خدا تعالیٰ کے معجزہ کی بات ہے تو یہ قیدیوں کو رہائی بخشتا ہے۔ اِن دونوں کے درمیان پایا جانے والا یہ فرق کس قدر بڑا ہے! فرعون کے جادوگروں کی طرح کے لوگوں سے مسیح کہتا ہے کہ "جو مُجھ سے اے خداوند اے خداوند! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اُس دِن بُہتیرے مُجھ سے کہیں گے اے خداوند اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دِکھائے؟ اُس وقت میں اُن سے صاف کہہ دُوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاﺅ" (انجیل بمطابق متی 7: 21- 23)۔

د- محبت جوش و خروش سے زیادہ افضل ہے

"اور اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کِھلا دُوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دُوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں۔" (1- کرنتھیوں 13: 3)

بہت سے لوگ محبت کے بغیر روپیہ پیسہ دیتے ہیں۔ اُن کا محرک لوگوں کی تعریف سُننا ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات میں مغرور ہوتے ہیں۔ ایک شخص احساسِ ذمہ داری کی وجہ سے بھی دے سکتا ہے۔ تاہم، خودنمائی اور مجبوری کے تحت دینے اور محبت سے دینے میں فرق کس قدر بڑا ہے! انجیل بمطابق مرقس 12: 41- 44 میں ہم پڑھتے ہیں کہ "پھِر وہ ہیکل کے خزانہ کے سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ لوگ ہیکل کے خزانہ میں پیسے کس طرح ڈالتے ہیں اور بہتیرے دولتمند بہت کچھ ڈال رہے تھے۔ اِتنے میں ایک کنگال بیوہ نے آ کر دو دَمڑیاں یعنی ایک دھیلا ڈالا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر اُن سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اِس کنگال بیوہ نے اُن سب سے زیادہ ڈالا۔ کیونکہ سبھوں نے اپنے مال کی بُہتات سے ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جو کچھ اِس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی۔" سو خداوند دیکھتا ہے کہ ہدیہ کیسے اور کس رُوح میں دیا جاتا ہے، اور وہ صرف سچے دِل اور محبت سے دینے والوں کی قدر کرتاہے۔

میں محبت رکھے بغیر "اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کِھلا دُوں" تو شاید کسی غریب کا تو فائدہ ہو لیکن یوں دینے والے کو خدا تعالیٰ سے کوئی اجر نہیں ملے گا۔

"یا اپنا بدن جلانے کو دے دُوں-" ایسے بھی لوگ ہیں جو خدا کی محبت کی خاطر سمجھوتا کئے بغیر اپنا آپ آگ کے حوالے کر دیتے ہیں، مثلاً جب تین ایماندار نوجوانوں نے ایسا کیا تو نبوکدنضر بادشاہ کہہ اُٹھا: "سدرک اور میسک اور عبدنجو کا خدا مبارک ہو جس نے اپنا فرشتہ بھیج کر اپنے بندوں کو رہائی بخشی جنہوں نے اُس پر توکُّل کر کے بادشاہ کے حکم کو ٹال دیا اور اپنے بدنوں کو نِثار کیا کہ اپنے خدا کے سِوا کسی دوسرے معبود کی عبادت اور بندگی نہ کریں" (پرانا عہدنامہ، دانی ایل 3: 28)۔ خداوند نے اِن تینوں نوجوانوں کے بدنوں کو آگ سے محفوظ رکھا کیونکہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنا آپ وقف کر دیا تھا۔ تاہم، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے لوگوں کی نفرت میں اپنے بدن جلانے کےلئے دیئے جیسی صلیبی جنگیں لڑنے والے جو قتل و غارت کرتے خون بہاتے مرے اور زندہ جلائے گئے، لیکن مسیح کا ہتھیار تو رُوح کا ہتھیار یعنی خدا کا کلام ہے (نیا عہدنامہ، افسیوں 6: 17)۔ اُنہوں نے ایسا مسیح کے اِس کلام کے باوجود کیا: "جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (انجیل بمطابق متی 26: 52)۔

اِن تین آیات میں پولس رسول نے ہمیں سکھایا ہے کہ نبوت، علم، ایمان، معجزات اور جوش و خروش کی تمام نعمتوں سے زیادہ افضل محبت ہے۔

ہمارا بنیادی رُوحانی مسئلہ اپنی ترجیحات میں عدم ترتیب ہے۔ ہماری سب سے اوّل ترجیح محبت ہونی چاہئے، پھر نعمتیں، نبوت اور علم، اِس کے بعد ایمان، معجزات اور جوش و خروش۔

خدائے بزرگ و برتر ہمیں ویسے محبت کرنا سکھائے جیسے مسیح نے ہم سے محبت کی اور ہماری خاطر اپنا آپ دے دیا، تا کہ ہم نہ صرف اپنے چاہنے والوں سے محبت کریں بلکہ اُن تمام مخالفوں سے بھی محبت کریں جو ہم سے بری طرح سے پیش آتے ہیں۔

دُعا

اے آسمانی باپ، تُو نے ہمیں اپنے کلام اور مسیح میں محبت سکھائی ہے کیونکہ تُو خود محبت ہے۔ تُو نے ہم دُشمنوں سے محبت کی، کیونکہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُوا۔ اُس کے کفارہ کے وسیلہ سے تُو نے ہمارے گناہ معاف کئے ہیں اور مسیح میں ہمیں ہم میراث بنایا ہے۔ ہم تجھ سے مِنّت کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کو محبت کی زندگی بنا دے تا کہ ہم اپنے پورے دِل و ذہن سے محبت کا گیت گا سکیں اور جیسے تُو نے ہم سے محبت رکھی ویسے ہی محبت رکھ سکیں۔ مسیح کے نام میں ہم دُعا مانگتے ہیں۔ آمین

3- محبت صابر اور مہربان ہے (1- کرنتھیوں 13: 4)

اَب جبکہ ہم محبت کی اہمیت کو دیکھ چکے ہیں۔ تو آئیے اِس بات پر غور کریں کہ کیسے محبت کو بیان کیا گیا ہے (آیات 4- 7)۔ پولس رسول نے محبت کےلئے پندرہ مختلف اِسم صفت درج کئے ہیں۔ اِس باب میں ہم پہلے دو پر غور کریں گے۔

1- "محبت صابر ہے۔" اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صابر ہے اور اِس میں بڑی اِستقامت پائی جاتی ہے، یہ جلد غصے میں نہیں آتی، فوری طور پر دوسروں سے تعلق ختم نہیں کرتی اور بُرا کرنے والوں کو مسلسل نئے مواقع فراہم کرتی ہے۔

2- "محبت مہربان ہے۔" ایسا اِس لئے ہے کہ یہ میانہ رو ہے۔ اِس کےلئے استعمال ہونے والے یونانی لفظ کا مطلب "سب کے لئے شیریں" ہے۔

خدا تعالیٰ نے ہمیں صبر اور مہربانی کی نہایت ارفع مثال پیش کی ہے۔ کیونکہ جب ہمارے اوّل والدین آدم اور حوا عصیان کا شکار ہوئے تو خدا تعالیٰ اپنا پُرمحبت ہاتھ بڑھاتے ہوئے آیا، لیکن تب آدم نے خدا سے کہا "میں نے باغ میں تیری آواز سُنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چُھپایا" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 10)۔ جناب آدم نے الزام حوا کے سر پر لگا دیا۔ اور پھر حوا نے سانپ پر الزام لگایا۔ اِس سب کے باوجود، خدا نے اپنی محبت میں ہمارے اصل والدین کےلئے نجات و کفارہ کو مقرر کیا۔ اُس نے اُنہیں ایک بڑا وعدہ بخشا کہ عورت کی نسل کے وسیلہ سانپ کا سر کُچلا جائے گا (پیدایش 3: 15)۔ بعد ازاں، خدا تعالیٰ نے اُنہیں چمڑے کے کرتے بنا کر پہنائے۔ خداوند کریم کی محبت کس قدر عظیم ہے! یہ صابر اور مہربان ہے کیونکہ اِس میں خدا نے وعدہ کیا کہ نجات دہندہ آئے گا اور پھر اِس نے اُن کی شرمندگی دور کی۔ بعد میں خدا تعالیٰ نے موسیٰ نبی کی وساطت سے شریعت دی جس میں جانوروں کی قربانیاں بھی شامل تھیں جو خدا کے برّہ کی ترجمانی کرتی تھی جو تمام جہان کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے، جس نے پاکترین مقام میں ایک بار داخل ہو کر ہمارے لئے ابدی مخلصی کو ممکن کر دیا (نیا عہدنامہ، انجیل بمطابق یوحنا 1: 27; عبرانیوں 9: 12)۔

خداوند خدا اُس وقت جناب آدم کو ختم کر کے ایک اَور انسان کی تخلیق سے نیا آغاز کر سکتا تھا، لیکن اُس نے اپنی مہربانی اور تحمل میں آدم کو ایک دوسرا موقع دیا۔

بنی اسرائیل کی تمام تاریخ میں ہم خدائے کریم کے صبر و تحمل اور مہربانی کو واضح طور پر یوں دیکھتے ہیں کہ اُس نے بار بار اُن کےلئے اپنے نبی بھیجے اور ایک کے بعد دوسرا سبق دیا، تاہم لوگ مسلسل نافرمانی کے گناہ کا شکار ہوئے۔ ہوسیع نبی کی زندگی کے واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے نبی کو سکھایا کہ وہ لوگوں کےلئے ویسے ہی احساسات رکھے جیسے خدا خود رکھتا ہے۔ جیسے خدا نے گناہ میں گراوٹ کے شکار لوگوں سے ایک تعلق رکھا ویسے ہی خدا نے ہوسیع کو ایک گنہگار عورت کے ساتھ بیاہ کرنے کےلئے کہا۔ تاہم، گنہگار عورت گناہ میں پھر گر گئی۔ پہلی مرتبہ گناہ میں گرنے کی وجہ سے اُس کی اہمیت کم ہو گئی تھی، اور جب وہ دوبارہ گناہ کا شکار ہوئی تو اُس کی قدر و منزلت بالکل ختم ہو گئی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ہوسیع سے کہا کہ اِس سب کے باوجود وہ پھر اُس سے شادی کرے کیونکہ وہ ہوسیع اور سب لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے تمام گناہوں کے باوجود اُن سے محبت کرتا ہے۔

خدا تعالیٰ نے کہا: "جب اِسرائیل ابھی بچہ ہی تھا میں نے اُس سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو مصر سے بُلایا۔ اُنہوں نے جس قدر اُن کو بُلایا اُسی قدر وہ دُور ہوتے گئے، اُنہوں نے بعلیم کےلئے قربانیاں گُزرانیں اور تراشی ہوئی مُورتوں کےلئے بخور جلایا۔ میں نے بنی افرائیم کو چلنا سکھایا۔ میں نے اُن کو گود میں اُٹھایا لیکن اُنہوں نے نہ جانا کہ میں ہی نے اُن کو صحت بخشی۔ میں نے اُن کو انسانی رشتوں اور محبت کی ڈوریوں سے کھینچا۔ میں اُن کے حق میں اُن کی گردن پر سے جُوا اُتارنے والوں کی مانند ہُوا، اور میں نے اُن کے آگے کھانا رکھا" (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 11: 1- 4)۔

خدا تعالیٰ لوگوں کے گناہوں اور اپنی طرف اُن کی تمام بے وفائی کے باوجود اُن کےلئے اپنی محبت اور پدرانہ جذبات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اُنہیں قدم بہ قدم سکھاتا اور خوراک مہیا کرتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے: "اے افرائیم میں تُجھ سے کیونکر دستبردار ہو جاﺅں؟ اے اِسرائیل میں تجھے کیونکر ترک کروں؟ میں کیونکر تُجھے ادمہ کی مانند کروں اور ضبوئیم کی مانند بناﺅں؟ ..." (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 11: 8)۔ یہ گویا یوں کہنا ہے: میں تمہاری زمین کو (تمہارے گناہوں کے باوجود) کیسے تباہ کر سکتا ہوں کہ تم ادمہ اور ضِبیان کی مانند ہو جاﺅ؟ یہ سدوم اور عمورہ کے نزدیک واقع دو شہر تھے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 10: 19)۔ سدوم اور عمورہ کو خدا تعالیٰ نے اُن کے گناہوں کی وجہ سے آگ سے تباہ کر دیا تھا۔ سو خدا کہتا ہے: "... میرا دِل مجھ میں پیچ کھاتا ہے۔ میری شفقت موجزن ہے" (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 11: 8)۔ سو خدا اُنہیں تباہ کرنا برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کی محبت اُسے اُن کی طرف تحمل اور مہربانی سے پیش آنے پر مجبور کرتی ہے۔

ہم اِسی تحمل اور مہربانی کو مسیح کے اپنے شاگردوں کے ساتھ برتاﺅ میں بھی دیکھتے ہیں جن سے آپ نے محبت کی اور تعلیم دی اور وہ تین برس آپ کے ساتھ رہے۔ تاہم، مسیح کی مصلوبیت کے وقت وہ خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے۔ لیکن اِس سب کے باوجود مسیح نے اپنے جی اُٹھنے کے بعد دونوں مریم کو کہا: "جاﺅ میرے بھائیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں۔ وہاں مُجھے دیکھیں گے" (انجیل بمطابق متی 28: 10)۔

مسیح نے پھل نہ لانے والے انجیر کے درخت کی تمثیل میں محبت میں تحمل و برداشت کی وضاحت کی ہے۔ اُس کے مالک نے زمین کی دیکھ بھال کرنے والے شخص سے کہا "دیکھ تین برس سے میں اِس اِنجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا ہوں اور نہیں پاتا۔ اِسے کاٹ ڈال۔ یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے؟" اُس نے جواب میں اُس سے کہا "اے خداوند اِس سال تو اَور بھی اُسے رہنے دے تا کہ میں اُس کے گِرد تھالا کھودُوں اور کھاد ڈالوں۔ اگر آگے کو پھَلا تو خیر، نہیں تو اُس کے بعد کاٹ ڈالنا" (انجیل بمطابق لوقا 13: 7- 9)۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں الٰہی تحمل اور مہربانی کا واضح طور پر تجربہ کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے گناہ کرنے، خدا تعالیٰ سے دُور چلے جانے اور اُس کے خلاف بڑبڑانے کے باوجود خدا ہم پر اپنا رحم کرتا ہے۔ وہ ہماری کمزوری کے باوجود اپنی کامل محبت سے ہم سے محبت کرتا ہے۔ الٰہی محبت ہمیں تحریک دیتی ہے کہ ہم محبت کی زندگی بسر کریں جس میں سب کےلئے صبر اور مہربانی ہو، اور ایسا ہم "عزیز فرزندوں کی طرح" کریں (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 1)۔

آئیے ہم غور کریں کہ ہم محبت کی زندگی کیسے بسر کر سکتے ہیں:

الف- تحمل اور مہربانی کی خصوصیات

(1) صابر اور مہربان محبت میں مایوسی کے بغیر برداشت موجود ہوتی ہے

صابر اور مہربان محبت میں برداشت ہوتی ہے اور یہ اپنی اُمید نہیں کھوتی۔ یہ دوسروں کو ایک اَور موقع فراہم کرتی ہے، جیسے جب ہم خطا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ ہمیں ہمیشہ بحالی کا ایک اَور موقع فراہم کرتا ہے۔

جب ایک ایماندار گر جاتا ہے اور اُس سے خطا سرزد ہوتی ہے، تو وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کےلئے ایک اَور موقع فراہم کرتا ہے، کیونکہ وہ کہتا ہے: "اے میرے دُشمن مُجھ پر شادمان نہ ہو کیونکہ جب میں گِروں گا تو اُٹھ کھڑا ہوں گا۔ جب اندھیرے میں بیٹھوں گا، تو خداوند میرا نُور ہو گا۔ میں خداوند کے قہر کی برداشت کروں گا کیونکہ میں نے اُس کا گناہ کیا ہے جب تک وہ میرا دعویٰ ثابت کر کے میرا اِنصاف نہ کرے۔ وہ مُجھے روشنی میں لائے گا اور میں اُس کی صداقت کو دیکھوں گا" (پرانا عہدنامہ، میکاہ 7: 8- 9)۔

کیونکہ خداوند ایماندار کو نور میں لے کر آتا ہے اور اُسے آسمانی راستبازی دِکھاتا ہے۔ جیسے خدا تعالیٰ گناہ میں گرے ہوئے اِنسان سے محبت سے پیش آتا ہے، ویسے ہی وہ ایک ایماندار کو بھی تحریک دیتا ہے کہ وہ دوسروں سے ویسے ہی پیش آئے جیسے خداوند خود دوسروں سے پیش آتا ہے۔

مسیح اپنے شاگرد توما سے مہربانی سے پیش آیا جس نے یہ کہتے ہوئے مسیح کے جی اُٹھنے کی حقیقت پر شک کیا تھا: "جب تک میں اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی اُنگلی نہ ڈال لُوں اور اپنا ہاتھ اُس کی پسلی میں نہ ڈال لُوں ہرگز یقین نہ کروں گا۔" سو مسیح نے اپنے شاگردوں بشمول توما کو یہ کہتے ہوئے اپنا آپ دِکھایا کہ "اپنی اُنگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بےاعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔" تب توما نے یہ اقرار کیا "اے میرے خداوند! اے میرے خدا!" (انجیل بمطابق یوحنا 20: 24- 28)۔

(2) صابر اور مہربان محبت قائم رہے گی اور کبھی ختم نہیں ہو گی

صابر اور مہربان محبت قائم رہے گی اور کبھی ختم نہیں ہو گی کیونکہ اِس میں لوگوں کے بار بار بدی کرنے کے باوجود مہربانی کا رویہ جاری و ساری رہتا ہے۔

جب ابی سلوم نے اپنے باپ داﺅد بادشاہ کے خلاف ناکام بغاوت کی تو بنی اسرائیل دو گروہوں میں منقسم ہو گئے: ایک گروہ ابی سلوم کے ساتھ تھا اور دوسرا داﺅد بادشاہ کے ساتھ۔ لیکن اُس وقت جناب داﺅد نے تحمل پر مبنی محبت کی وجہ سے اپنے حمایتیوں کو حکم دیا کہ وہ اُس جوان ابی سلوم کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 18: 5)۔ اُسے اپنے بیٹے میں ایک "جوان" ناتجربہ کار لڑکا نظر آیا، اِس لئے جو کچھ اُس کے بیٹے نے کیا، اُس پر اُسے رحم آیا۔ اور جب داﺅد بادشاہ نے اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں سُنا تو وہ شدتِ غم سے پکار اُٹھا "میرے بیٹے ابی سلوم! کاش میں تیرے بدلے مر جاتا۔"

ایک نوجوان شخص نے بہت سے جرم کئے اور آخرکار قیدخانہ میں ڈال دیا گیا، جہاں اُس کی ماں اکثر اُس سے ملنے آتی اور اُس کےلئے بہت سی چیزیں لاتی، یہاں تک کہ وہ مقروض ہو گئی اور اُس کی صحت بھی خراب ہو گئی۔ اُس کا بیٹا اگرچہ ہر ملاقات پر اُس سے بُری طرح سے پیش آتا لیکن ماں نے اُس کے پاس آنا جاری رکھا۔ اُس کے ایک پڑوسی نے اُسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیٹے سے نہ ملے کیونکہ تھک چکی ہے اور اُس کا بیٹا اُس کی قدر نہیں کرتا۔ لیکن اُس نے اپنے پڑوسی سے کہا: یہ سچ ہے کہ وہ کبھی بھی میری قدر نہیں کرتا لیکن میں اُس کی قدر کرتی ہوں۔ اُس کی صرف ایک ہی ماں ہے جس کی زندگی اَب تھوڑی ہی رہ گئی ہے۔ یہ ایک ماں کی محبت ہے، اور یہ باقی رہے گی کیونکہ یہ وہ محبت ہے جو تحمل اور مہربانی والی ہے، اور بغیر انقطاع کے عطا کرتی ہے کیونکہ اِس کا منبع آسمانی ہے۔

(3) صابر اور مہربان محبت کا حامل فرد باطنی اطمینان کا حامل ہو گا

محبت آلام و مصائب کے درمیان بھی صابر اور مہربان ہوتی ہے۔ جس فرد کی زندگی میں اِس قسم کی محبت ہوتی ہے اُس کے دِل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے گہرا اطمینان ہوتا ہے جو کہتا ہے: "اپنے صبر سے تم اپنی جانیں بچائے رکھو گے" (انجیل بمطابق لوقا 21: 19)۔ یہ سچ ہے کہ محبت کا فائدہ اُنہیں پہنچتا ہے جن سے ہم محبت کرتے ہیں، لیکن اِس سے پہلے یہ ہم میں سے اُن کو فائدہ پہنچاتی ہے جو اپنے آپ سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ صبر سے محبت کرنے سے ہم اپنے آپ کو بچائیں گے۔

(4) صابر اور مہربان محبت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا

نصیحت پر مبنی ایک کہاوت ہے کہ "لوگوں سے بہت زیادہ توقع نہ رکھیں تا کہ آپ کی اُمید کو مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاہم، اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ وہ لوگ جو آپ سے اچھی چیزوں کی توقع کرتے ہیں مایوس نہ ہوں۔" صرف مہربان محبت ہی اِس حکم پر عمل کر سکتی ہے، کیونکہ یہ ابدیت میں سے پھوٹ نکلنے والے ایک چشمہ کی مانند ہے جو کبھی بھی خشک نہیں ہوتا اور اِسے بجا طور پر بےبیان محبت اور مخلصی کا دریا کہا جا سکتا ہے۔

صابر محبت رکھنے والے فرد سے جب لوگ بُری طرح سے پیش آتے ہیں تو وہ تب بھی محبت کرنا ترک نہیں کرتا۔ ایسا فرد مسیح کی طرح برتاﺅ کرتا ہے جس نے ملخس کے کان کو بھی شفا دے دی جو مسیح کو گرفتار کرنے آیا تھا۔ جب مسیح پر ہاتھ ڈالا گیا تو مسیح نے ہاتھ نہ اُٹھایا، بلکہ آپ نے ملخس کےلئے اچھا کام کیا۔

پولس رسول نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو کہا "پس اپنی اور اُس سارے گلّہ کی خبرداری کرو جس کا رُوح القدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تا کہ خدا کی کلیسیا کی گلّہ بانی کرو جسے اُس نے خاص اپنے خون سے مول لیا۔ ... اِس لئے جاگتے رہو، اور یاد رکھو کہ میں تین برس تک رات دِن آنسو بہا بہا کر ہر ایک کو سمجھانے سے باز نہ آیا" (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 20: 28، 31)۔

ب- صبر اور مہربانی پر اعتراضات

بہت سے لوگ اپنے جیون ساتھی، اپنے بچوں، اپنے افسر، اپنے کاروباری شراکت دار یا اپنے پڑوسی کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ اور جب آپ اُنہیں مشورہ دیں کہ بدی کے جواب میں بدی سے پیش نہ آئیں تو وہ اعتراض کرتے ہیں۔

میں صبر اور مہربانی پر ہونے والے تین اعتراضات کو بیان کروں گا اور پھر اُن کا جواب پیش کروں گا۔

(1) ایک شخص کہتا ہے: "مجھ سے بہت سخت قسم کی برائی کی گئی ہے۔ اُنہوں نے میرا بہت بڑا نقصان کیا ہے، اور میں صابر یا مہربان نہیں ہو سکتا کیونکہ میں بری طرح سے مجروح ہوا ہوں۔"

ایسے شخص کو ہم تین باتیں کہیں گے:

جو برائی لوگوں نے آپ سے کی ہے وہ اُس برائی سے بڑی نہیں ہو سکتی جو آپ نے خداوند اور لوگوں کے خلاف کی ہے۔ لیکن اِس کے باوجود خداوند نے آپ کو برداشت کیا ہے۔ ہم دوسروں کی طرف کی ہوئی اپنی برائی کو تو عموماً بھول جاتے ہیں، جبکہ اُس برائی کو یاد رکھتے ہیں جو دوسروں نے ہمارے خلاف کی ہوتی ہے۔ ہمیں رسولی نصیحت کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے: "اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دِل ہو، اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو" (افسیوں 4: 32)۔

دُعائے ربّانی میں خداوند نے ہمیں وہ بات سکھائی ہے جو ہمیں صبر اور مہربانی سے محبت رکھنے میں مدد دے گی۔ سیدنا مسیح نے ہمیں یوں دُعا کرنا سکھایا: "جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ ... اِس لئے کہ اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا۔ اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا" (انجیل بمطابق متی 6: 12، 14، 15)۔

مسیح نے برا کرنے والے اور برا سہنے والے دونوں کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کیا۔ جیسے خداوند ہمارے ساتھ صبر و تحمل سے پیش آیا ہے، آئیے ہم بھی ویسے ہی صبر کو اپنائیں۔ آئیں خداوند کے حضور دُعا کریں کہ وہ ہمارے خلاف برائی کرنے والوں سے ویسے ہی صبر و تحمل سے پیش آئے جیسے اُس نے ہمیں برداشت کیا ہے۔

ہم ایسے شخص کو ایک اَور نصیحت کر سکتے ہیں جو کہتا ہے کہ اُس سے بہت بری طرح سے پیش آیا گیا ہے۔ مسیح آپ کے خلاف کی گئی برائی کو آپ کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ اِس کا ثبوت ہمیں اُس وقت ملتا ہے جب ترسس کا ساﺅل ایمانداروں کے خلاف برائی کے منصوبہ پر عمل پیرا تھا تو مسیح نے اُس سے کہا: "اے ساﺅل اے ساﺅل! تُو مُجھے کیوں ستاتا ہے؟ ... میں یسوع ہوں جسے تُو ستاتا ہے" (رسولوں کے اعمال 9: 4، 5)۔

پرانے عہدنامہ میں ہم زکریاہ نبی کی نبوت میں بھی پڑھتے ہیں: "جو کوئی تم کو چھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چھوتا ہے" (زکریاہ 2: 8)، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے خلاف برائی کرنے والا اپنے لئے برا کرتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ خود خدا تعالیٰ کے خلاف برا کرتا ہے۔ کیونکہ جب ہم دُکھ اُٹھاتے ہیں تو مسیح ہمارے ساتھ دُکھ اُٹھاتا ہے۔ پرانے عہدنامہ میں خدا تعالیٰ یسعیاہ نبی کی معرفت کہتا ہے: "اُن کی تمام مصیبتوں میں وہ مصیبت زدہ ہوا اور اُس کے حضور کے فرشتہ نے اُن کو بچایا۔ اُس نے اپنی اُلفت و رحمت سے اُن کا فدیہ دیا۔ اُس نے اُن کو اُٹھایا اور قدیم سے ہمیشہ اُن کو لئے پھرا" (یسعیاہ 63: 9)۔

مسیح نے آپ کو اپنا سادہ آسان جوا، اپنے احکام کی فرمانبرداری کا جوا اُٹھانے کےلئے بلایا ہے۔ اگر آپ انجیل بمطابق متی 11: 29 میں مرقوم مسیح کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں کہ "میرا جوا اپنے اوپر اُٹھا لو" تو وہ آپ کے ساتھ جوا اُٹھائے گا۔

ہم ایسے شخص کو جو یہ کہتا ہے کہ اُس سے بہت بری طرح سے پیش آیا گیا ہے ایک تیسری نصیحت بھی کر سکتے ہیں، اور وہ نصیحت مسیح کا کلام ہے: "جان دینے تک بھی وفادار رہ تو میں تجھے زندگی کا تاج دوں گا" (مکاشفہ 2: 10)۔ یہ سچ ہے کہ آپ کے ساتھ سخت برا برتاﺅ روا رکھا گیا ہے، لیکن خداوند کی طرف ہماری وفاداری ہمیں صابر بناتی ہے اور ہماری مدد کرتی ہے کہ صبر اور مہربانی سے محبت کریں تا کہ ہم جان دینے تک وفادار رہیں اور زندگی کا تاج حاصل کر سکیں۔

(2) دوسرا اعتراض پیش کرنے والا شخص کہتا ہے: "یہ نہیں لگتا کہ برائی کرنے والے افراد مجھے نقصان پہنچانے سے باز آئیں گے۔ وہ توبہ نہیں کریں گے اور یہ ظاہر ہے کہ میری جانب وہ اپنے رویے کو تبدیل نہیں کریں گے۔"

سوال یہ ہے کہ "کیا اُن کے برے کام اعتراض کرنے والے شخص کے کسی غلط کام کی وجہ سے ہیں، یا پھر محض اِس وجہ سے ہیں کہ وہ برائی کرنے والے افراد ہیں؟ آئیے پولس رسول کے نصیحتی الفاظ کو سُنیں: "اے نوکرو! بڑے خوف سے اپنے مالکوں کے تابع رہو۔ نہ صرف نیکوں اور حلیموں ہی کے بلکہ بدمزاجوں کے بھی۔ کیونکہ اگر کوئی خدا کے خیال سے بےانصافی کے باعث دُکھ اُٹھا کر تکلیفوں کی برداشت کرے تو یہ پسندیدہ ہے۔ اِس لئے کہ اگر تم نے گناہ کر مکے کھائے اور صبر کیا تو کون سا فخر ہے؟ ہاں اگر نیکی کر کے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ اور تم اِسی کےلئے بلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تا کہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔ نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 2: 18- 24)۔

آئیے ہم اپنے آپ کو جانچیں: کیا ہم اپنے کسی کئے گئے گناہ کی وجہ سے دُکھ پاتے ہیں؟ اگرایسا ہے تو آئیں خداوند کے حضور توبہ کریں تا کہ وہ ہم پر اپنا رحم کرے "کیونکہ وہ کثرت سے معاف کرے گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 7)۔ لیکن اگر آپ نیکی کر کے دُکھ پاتے ہیں تو آپ مبارک ہیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ ثابت قدمی سے مسیح کو تکتے رہیں گے جس نے خدمت کے دوران دُکھ سہے، کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈا اور نجات بخشی تا کہ آپ اُس کی مانند ہو سکیں اور وہ آپ کو بچا سکے۔

(3) تیسرا اعتراض پیش کرنے والا شخص کہتا ہے: "اگر میں اُنہیں صبر اور مہربانی دِکھاﺅں گا تو ایذا رسانی اور برے کاموں میں اِضافہ کر دیں گے۔"

ہم ایسے شخص کو جواب دیں گے: آپ کیسے جانتے ہیں کہ دُشمن کل آپ کو زیادہ ایذا رسانی پہنچائیں گے؟ ہم میں سے کوئی بھی جو کچھ کل پیش آئے گا اُس کے بارے میں نہیں بتا سکتا کیونکہ مستقبل خدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے۔ "کل کا دِن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کےلئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے" (انجیل بمطابق متی 6: 34)۔ خداوند مناسب وقت پر مداخلت کرے گا اور تمام ایذا رسانی کے حالات بدل کر اچھا وقت لائے گا، جیسے کہ بزرگ یوسف نے اپنے بھائیوں کو بتایا تھا: "کیا میں خدا کی جگہ پر ہوں؟ تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا اِرادہ کیا تھا لیکن خدا نے اُسی سے نیکی کا قصد کیا" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 50: 19- 20)۔

ایک اَور سچائی بھی ہے: خدا تعالیٰ اپنے حکموں کی پیروی کرنے والے افراد کا ساتھ دیتا ہے۔ مُقدّس اگستین نے کہا: خدا کی مرضی کو اپنی مرضی سمجھتے ہوئے عمل کریں، اور خدا آپ کی مرضی کو اپنے مرضی سمجھتے ہوئے پورا کرے گا۔" جب آپ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو اُس کے احکام کی فرمانبرداری کے جو بھی نتائج سامنے آئیں خدا اُن کی ذمہ داری لیتا ہے۔ پولس رسول ہمیں حکم دیتا ہے: "تم بڑی سے بڑی نعمتوں کی آرزو رکھو، لیکن اَور بھی سب سے عمدہ طریقہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ ... محبت صابر ہے اور مہربان۔" سو، اگر ہم اِس مبارک حکم کی پیروی کریں گے تو خداوند خدا ہمارا ذِمہ لے گا، اور فرمانبردار شخص پر ہمیشہ برکت رہے گی۔

ایک تیسری سچائی بھی ہے: یہ رسولی حکم کس قدر عظیم ہے! "بدی کے عوِض کسی سے بدی نہ کرو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔ جہاں تک ہو سکے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل ملاپ رکھو۔ اے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ خداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہی دوں گا۔ بلکہ اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آﺅ" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 17- 21)۔

صابر اور مہربان محبت، محبت کرنے والے فرد اور جس سے محبت کی جائے دونوں کی زندگی کو بدل دیتی ہے۔ یہ بھٹکے ہوئے شخص کو باپ کے گھر کی طرف واپس لاتی ہے۔ جیسے خدائے کریم کی تحمل و برداشت اور مہربانی والی محبت آپ کی راہنمائی کرتی ہے کہ آپ اپنا دِل مسیح نجات دہندہ کو دے دیں تا کہ وہ اپنی محبت میں آپ کے دِل پر بادشاہ کے طور پر راج کرے، ویسے ہی آپ اپنے خلاف بدی کرنے والے فرد سے بھی محبت رکھیں تا کہ اُس کی رُوح بچائی جا سکے اور اُس کی راہنمائی راستی کی راہوں کی طرف ہو۔

دُعا

صبر و تحمل اور مہربانی کرنے والے خداوند، جیسے تُو صابر و مہربان ہے، مجھے بھی ویسا ہی بنا۔ جب تک میں نے اپنے دِل میں تجھے قبول نہ کیا تُو نے مجھے برداشت کیا۔ میری مدد فرما کہ میں تیری خاطر اور دوسروں کی خاطر اپنے خلاف برائی کرنے والوں کو برداشت کروں، اور ایسا ایمان رکھوں جو اپنا آپ محبت میں ظاہر کرے۔ میری بڑبڑاہٹ اور جھنجھلاہٹ پر مجھے معاف کر، اور بخش کہ میں تیرے حضور توبہ کروں تا کہ تجھ سے محبت رکھوں اور اُن سے بھی محبت رکھوں جو تجھے عزیز ہیں اور یوں یسوع کا حقیقی شاگرد ٹھہروں۔ اُس کے نام میں ہماری دُعا سُن۔ آمین

4- محبت حسد نہیں کرتی (1- کرنتھیوں 13: 4)

حقیقی ایمان عملی ہوتا ہے جو اپنا آپ محبت میں ظاہر کرتا ہے۔ وہ ایمان جو بغیر اعمال کے ہو بدارواح کے سے ایمان کی طرح ہے جو تھرتھراتی اور کانپتی ہیں (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 19)۔ حقیقی ایمان کا پھل ایک ایماندار کی زندگی میں ہر روز ظاہر ہونا چاہئے۔ یسوع سے محبت رکھنے والے ایمانداروں کے طور پر ہمیں محبت کے اِس باب کو اکثر پڑھتے رہنا چاہئے تا کہ اِس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ محبت کی وہ زندگی کیسی ہوتی ہے جو خداوند چاہتا ہے کہ ہم گزاریں۔

آئیے، اِس باب میں موجود محبت کی خوبیوں میں سے دوسری خوبی پرغور کریں کہ "محبت حسد نہیں کرتی۔"

حسد اُس برہمی و جھنجھلاہٹ کا نام ہے جو ہمیں اُس شخص کو دیکھ کر محسوس ہوتی ہے جس کے پاس وہ سب کچھ ہو جو ہمارے پاس نہ ہو۔ جیسا کہ تھامس اکوائنس کہتا ہے، یہ دوسرے لوگوں کی کامیابی پر محض افسوس کرنے کا سوچ کا ایک انداز ہو سکتا ہے۔ غالباً کرنتھس میں رہنے والے ایمانداروں کی صورتحال ایسی ہی تھی۔ نعمتوں کے حامل کچھ لوگ غالباً اُن افراد کو جن کے پاس وہ نعمتیں نہیں تھیں حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، اور جن کی پاس نعمتیں تھیں اُن سے حسد کرتے تھے۔

تاہم، حسد کا نتیجہ اُس شخص کو تکلیف پہنچانے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے جس سے حسد کیا جاتا ہے۔ اِس کی ایک مثال وہ تمام بُغض ہے جو بزرگ یوسف کے بھائیوں نے جناب یوسف سے اُس وقت روا رکھا جب اُنہوں نے دیکھا کہ یوسف کو بُوقلمُون قبا بنوا کر دی گئی ہے جو اُن کے لباس سے بہت بہتر تھی۔ اُن کا حسد اِس قدر زیادہ تھا کہ اُنہوں نے اپنے بھائی یوسف کو ایک سوکھے گڑھے میں ڈال دیا اور پھر اسمٰعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔

حسد ہمیشہ حاسد شخص کو نقصان پہنچاتا ہے اور ذہنی اطمینان کو تباہ کر دیتا ہے کیونکہ حاسد شخص اپنی چیزوں کو تو نہیں دیکھتا لیکن اُس کی نگاہیں دوسروں کی چیزوں پر لگی رہتی ہیں۔ اِس لئے وہ اُن تمام چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہوتا جو خدا تعالیٰ کے فضل کی بدولت اُسے میسر ہوتی ہیں۔ یوں چیزوں کو دیکھنے والا بددِلی کا یہ انداز اُسے ہمیشہ بدحال بناتا ہے۔

پادوا، اٹلی میں ایک چرچ کے اندر چھت پر بنی ایک تصویر میں حسد کو دِکھایا گیا ہے۔ یہ تصویر اٹلی کے مصورجاتو نے بنائی تھی جو دانتے کا دوست تھا۔ اِس میں حسد کو ایک ایسے شخص کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جس کے بہت لمبے کان ہیں جو لوگو ں کے بارے میں ہر افواہ کو سُن سکتے ہیں۔ اُس کی زبان کو سانپ سے ظاہر کیا گیا ہے جو دوسروں کی ساکھ کو تباہ کرتی ہے۔ اُس کی زبان کو خمدار بھی دِکھایا گیا ہے جو اُس کی اپنی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ یوں مصور بیان کرنا چاہتا تھا کہ ایک حاسد شخص اپنے آپ کو اندھا کر دیتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ اُس کے پاس ہوتا ہے وہ اُسے نہیں دیکھ سکتا اور دوسروں کے خلاف برائی کرتا ہے۔

آئیے بائبل مُقدس میں سے پرانے عہدنامہ اور نئے عہدنامہ دونوں میں سے ایک ایک آیت دیکھیں جو حسد کرنے سے منع کرتی ہے: "تُو بدکرداروں کے سبب سے بیزار نہ ہو اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر" (پرانا عہدنامہ، زبور 37: 1)۔ "ہم بےجا فخر کر کے نہ ایک دوسرے کو چڑائیں، نہ ایک دوسرے سے جلیں" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 26)۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم دوسروں کی چیزوں کو دیکھتے رہنے میں وقت ضائع نہ کریں بلکہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے ہم اُن نعمتوں کےلئے اُس کا شکر ادا کریں۔

مادی کامیابی کےلئے ایک ایماندار کا شریر سے حسد کرنا بہت ہی عجیب بات ہے۔ زبور کی کتاب میں آسف کے زبور بھی ہیں، اُس نے کہا: "کیونکہ جب میں شریروں کی اقبالمندی دیکھتا تو مغروروں پر حسد کرتا تھا" (زبور 73: 3)۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی اِنسان بےگناہ نہیں، اور ہر کسی کو آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایمانداروں کو ہمیشہ ابلیس کی آزمایشوں کے مقابلے میں جاگتے رہنے اور ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے تا کہ حسد کی طرح کے قابل نفرت گناہ میں نہ گر جائیں، اور خدا تعالیٰ کے اطمینان سے بھرے رہیں تا کہ خداوند میں رُوح کی سلامتی پائیں۔

میں چار باتوں کا ذِکر کروں گا جو حسد سے نبٹنے میں ہمارے لئے مددگار ہیں:

الف- شکرگزار ہونے سے ہمیں حسد پر غالب آنے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ محبت شکرگزاری کرتی ہے جبکہ حسد بڑبڑاتا ہے۔

جب بزرگ داﺅد نے جاتی جولیت کو ہلاک کیا تو اسرائیلی عورتیں خوشی سے کہنے لگیں: "ساﺅل نے تو ہزاروں کو پر داﺅد نے لاکھوں کو مارا۔" اِس بات سے ساﺅل بادشاہ نہایت خفا ہوا اور اُس نے کہا: "اُنہوں نے داﺅد کےلئے تو لاکھوں اور میرے لئے فقط ہزاروں ہی ٹھہرائے۔ سو بادشاہی کے سِوا اُسے اَور کیا ملنا باقی ہے؟" (پرانا عہد نامہ، 1- سموئیل 18: 7- 8)۔

بزرگ داﺅد نے حقیقت میں لاکھوں کو مارا، جس کے نتیجے میں دشمن بنی اسرائیل کے مقابلے سے بھاگ گئے اور خدا کے لوگوں کو ایک لمبے عرصہ کےلئے امن نصیب ہوا۔ اور ساﺅل بادشاہ نے تو ہزاروں کو بھی نہیں مارا تھا، کیونکہ دُشمن چالیس دِن تک اُس کے سامنے کھڑے رہے اور اُس کی اور اُس کے خدا کی فضیحت کرتے رہے اور ساﺅل کچھ نہ کر سکا۔ جہاں تک داﺅد کا تعلق تھا تو اُس کےلئے گایا جانے والا گیت بالکل سچ تھا، لیکن عورتوں نے ساﺅل کی عزت افزائی کےلئے کچھ زیادہ کہہ دیا تھا۔ اِس کے باوجود ساﺅل میں موجود حسد نے اُسے فتح پر خوش ہونے سے روکے رکھا۔ اِس حسد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے اپنا آپ تباہ کر دیا، کیونکہ اُس نے داﺅد کا پیچھا کرنے اور اُسے قتل کرنے کےلئے اپنا محل چھوڑا۔ داﺅد تو ساﺅل بادشاہ کی فوج میں ایک سپاہی کی مانند تھا۔ تخت ساﺅل بادشاہ کے پاس تھا، لیکن وہ اپنے دِل میں حسد کا اِس حد تک شکار ہو گیا کہ وہ ہمیشہ بڑبڑاتا اور شکوہ کرتا رہتا، اور داﺅد کو دہشت زدہ کرنے کی ناکام کوشش میں اُس نے اپنی زندگی تباہ کی اور اپنے لوگوں کی حالت کو ناگفتہ بہ بنا دیا۔ آخرکار، ساﺅل نے خودکشی کر لی اور داﺅد بادشاہ بن گیا۔ اگر ساﺅل قدرے سمجھداری کا مظاہرہ کرتا تو وہ داﺅد کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک آلہ کار کے طور پر سمجھتا۔ داﺅد دوسرے سپاہیوں میں سے ایک سپاہی تھا اور خداوند نے اُس کے ہاتھوں کے وسیلہ سے فتح بخشی تھی۔ لیکن حسد نے ساﺅل بادشاہ کی آنکھیں اندھی کر دیں اور وہ سچائی نہ دیکھ سکا۔

ساﺅل کے برعکس ہم داﺅد نبی کی زندگی میں شکرگزاری دیکھتے ہیں۔ محبت شکرگزاری کرتی ہے اور بڑبڑاتی نہیں۔ بزرگ داﺅد نے کہا: "اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اُس کے قُدُّوس نام کو مبارک کہے۔ اے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔ وہ تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔ وہ تجھے عمر بھر اچھی اچھی چیزوں سے آسودہ کرتا ہے۔ تُو عقاب کی مانند ازسرِنو جوان ہوتا ہے" (زبور 103: 1- 5)۔ اِس لئے آئیے ہم اپنی نگاہیں دوسروں کی چیزوں سے ہٹا کر خدا کے حضور اُن چیزوں کےلئے شکرگزاری کریں جو ہمارے پاس ہیں۔ تب ہم ہمیشہ اطمینان میں ہوں گے اور حسد کے گناہ سے بچے رہیں گے۔

ب- اپنی چیزوں پر غور کرنا ہمیں حسد پر غالب آنے میں مدد دیتا ہے، کیونکہ محبت جو کچھ ہے اُسے دیکھتی ہے جبکہ حسد جو کچھ نہیں ہے اُسے دیکھتا ہے۔

پرانے عہدنامہ میں گنتی کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب قورح نے اپنے ساتھیوں سمیت مردِ خدا موسیٰ اور ہارون کی خدمت سے حسد کیا تو اُس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آئے۔ "اور قورح بن اِضہار بن قہات بن لاوی نے بنی رُوبن میں سے الیاب کے بیٹوں داتن اور ابیرام اور پلت کے بیٹے اون کے ساتھ مل کر اَور آدمیوں کو ساتھ لیا۔ اور وہ اور بنی اسرائیل میں سے ڈھائی سو اَور اشخاص جو جماعت کے سردار اور چیدہ اور مشہور آدمی تھے موسیٰ کے مقابلہ میں اُٹھے۔ اور وہ موسیٰ اور ہارون کے خلاف اکھٹے ہو کر اُن سے کہنے لگے تمہارے تو بڑے دعوے ہو چلے۔ کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مُقدّس ہے اور خداوند اُن کے بیچ رہتا ہے سو تم اپنے آپ کو خداوند کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟" (گنتی 16: 1- 3)۔

جب ہم اِس شکایت پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جو کچھ اُنہوں نے کہا اُس میں سے آدھی بات سچ تھی کیونکہ جماعت اِس لئے مُقدّس تھی کہ خداوند اُن کے بیچ میں تھا۔ لیکن باقی آدھی بات غلط تھی کہ: "تم اپنے آپ کو خداوند کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟" کیونکہ خداوند نے خود موسیٰ اور ہارون کو اپنے لوگوں کے راہنما کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو خود مقرر نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ خدا تعالیٰ تھا جس نے اُنہیں بلایا تھا، مقرر کیا تھا اور فرعون کے پاس بھیجا تھا۔ اُس نے اُنہیں اپنے لوگوں کو برکت دینے اور غلامی سے رہا کرنے کےلئے استعمال کیا۔ قورح اور اُس کے ساتھیوں کو ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس برکت کےلئے شکرگزار ہونا چاہئے تھا جو خدا نے اُنہیں اور اُن کے لوگوں کو بزرگ موسیٰ اور ہارون کی وساطت سے دی تھی۔ تاہم، اُن کے دِلوں میں پائے جانے والے حسد سے نہ صرف اُن کی برکت جاتی رہی بلکہ وہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، کیونکہ زمین نے اپنا منہ کھولا اور اُنہیں، اُن کے آدمیوں اور اُن کے سب مال و اسباب سمیت نِگل گئی (گنتی 16: 31)۔

حسد کی ایک اَور بہت بڑی مثال وہ حسد ہے جو یہودی اربابِ اختیار نے مسیح کے خلاف روا رکھا۔ مسیح اُن کے نجات دہندہ کے طور پر دُنیا میں تشریف لائے اور مُدتوں سے لوگ اُن کی آمد کے منتظر تھے کہ وہ آ کر نبوتوں کو پورا کریں گے۔ تاہم، اُنہوں نے مسیح کا انکار کیا اور اُنہیں رومی حاکم پینطُس پیلاطس کے حوالہ کر کے مصلوب کرنے کا مطالبہ کیا۔ جب پیلاطس نے یسوع سے تفتیش کی اور اُسے پتا چلا کہ مسیح تو بےگناہ ہے لیکن اُسے اُنہوں نے حسد کی بنا پر اُس کے حوالے کیا تھا (انجیل بمطابق متی 27: 18)۔ لوگ محبت کی وجہ سے مسیح کی پیروی کر رہے تھے، اِس لئے یہودی اربابِ اختیار نے مسیح سے حسد کیا۔ لوگوں نے یہ نعرے لگا لگا کر مسیح پر اپنے بھروسے کا اظہار کیا تھا کہ "ابن داﺅد کو ہوشعنا۔ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔ عالم بالا پر ہوشعنا۔" لفظ "ہوشعنا" کا مطلب ہے "خداوند، بچا لے"۔ یہ دُعا کے ساتھ ساتھ مسیح کی آمد پر خوشی کا اظہار کرنا ہے۔ اُس وقت یہودی راہنماﺅں نے ایک دوسرے سے کہا: "سوچو تو! تم سے کچھ نہیں بن پڑتا۔ دیکھو جہان اُس کا پیرو ہو چلا" (انجیل بمطابق یوحنا 12: 19)۔ اُنہوں نے مسیح کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا، اور چونکہ اِس پر عملدرآمد کرنے کا اُن کے پاس اختیار نہیں تھا اِس لئے اِس ضمن میں وہ پیلاطس کی مدد کے طالب ہوئے۔

یہ امر کس قدر عجیب ہے۔ اُنہیں خداوند مسیح کی آمد پر خوب خوشی کرنی چاہئے تھی جو عظیم اُستاد، مردِ معجزات اور وعدہ شدہ مسیحا تھا۔ لیکن اُن کے دِل محبت سے خالی اور حسد سے بھرے ہوئے تھے، اِس لئے اُنہوں نے مسیح کو پیلاطس کے حوالے کر دیا۔

اُن کے اور یوحنا اِصطباغی کے درمیان فرق کس قدر بڑا ہے جو خدا اور مسیح سے محبت رکھتا تھا اور جس نے گواہی دی کہ مسیح "خدا کا برہ" ہے۔ یوحنا اِصطباغی نے مسیح کی پیروی کرنے میں اپنے شاگردوں کی راہنمائی کی اور کہا "ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میں گھٹوں" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 30)۔ سچ مچ، محبت حسد نہیں کرتی۔

ج- خوشی ہمیں حسد پر غالب آنے میں مدد دیتی ہے، کیونکہ محبت بھلائی میں خوش ہوتی ہے جبکہ اِس تعلق سے حسد میں جھنجھلاہٹ پائی جاتی ہے۔

دوسروں کی بھلائی میں خوش ہونے کی ایک بہترین مثال ساﺅل بادشاہ کے بیٹے یونتن کی داﺅد کےلئے محبت ہے۔ جب داﺅد نے جاتی جولیت کو قتل کیا تو "یونتن اور داﺅد نے باہم عہد کیا کیونکہ وہ اُس سے اپنی جان کے برابر محبت رکھتا تھا۔ تب یونتن نے وہ قبا جو وہ پہنے ہوئے تھا اُتار کر داﺅد کو دِی اور اپنی پوشاک بلکہ اپنی تلوار اور اپنی کمان اور اپنا کمربند تک دے دیا" (پرانا عہد نامہ، 1- سموئیل 18: 3- 4)۔ جب ساﺅل بادشاہ نے داﺅد سے حسد کیا اور اُسے قتل کرنا چاہا تو یونتن نے داﺅد کو اُس منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا اور اپنے باپ ساﺅل کے سامنے داﺅد کا دِفاع کیا (1- سموئیل 19: 3; 20: 32)۔ یونتن نے داﺅد سے کہا کہ جب وہ مملکت سنبھالے گا تو اُس کے گھرانے سے اپنے کرم کو باز نہ رکھے (1- سموئیل 20: 15)۔ یونتن واقعی داﺅد سے محبت رکھتا تھا اور اُس کے ہاتھوں سے لوگوں کو ملنے والی فتح پر شادمان تھا، اگرچہ یہ بات یونتن کے اپنے مفاد کے خلاف تھی۔

محبت اُس بات میں خوش ہوتی ہے جس سے لوگوں کی بھلائی میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ یہ جانتی ہے کہ دوسروں کے نقصان میں ایک فرد کا فائدہ نہیں ہوتا۔ دانی ایل کی کتاب ہمیں اُس عزت افزائی کے بارے میں بتاتی ہے جو دارا بادشاہ کے زمانے میں دانی ایل نبی کو حاصل ہوئی: "دارا کو پسند آیا کہ مملکت پر ایک سو بیس ناظم مقرر کرے جو تمام مملکت پر حکومت کریں۔ اور اُن پر تین وزیر ہوں جن میں سے ایک دانی ایل تھا تا کہ ناظم اُن کو حساب دیں اور بادشاہ خسارت نہ اُٹھائے۔ اور چونکہ دانی ایل میں فاضِل رُوح تھی اِس لئے وہ اُن وزیروں اور ناظموں پر سبقت لے گیا اور بادشاہ نے چاہا کہ اُسے تمام ملک پر مختار ٹھہرائے۔ تب اُن وزیروں اور ناظموں نے چاہا کہ مُلک داری میں دانی ایل پر قصور ثابت کریں لیکن وہ کوئی موقع یا قصور نہ پا سکے کیونکہ وہ دیانتدار تھا اور اُس میں کوئی خطا یا تقصیر نہ تھی۔ تب اُنہوں نے کہا کہ ہم اِس دانی ایل کو اُس کے خدا کی شریعت کے سِوا کسی اَور بات میں قصوروار نہ پائیں گے" (پرانا عہدنامہ، دانی ایل 6: 1- 5)۔

کیا اِن راہنماﺅں کو نہیں پتا تھا کہ دانی ایل کی کامیابی صرف اُس کی اپنی کامیابی نہ تھی بلکہ تمام ملک اور اُن کی بھی کامیابی تھی؟ اُنہیں ایسے ذہین، فاضل رُوح کے حامل دیانتدار وزیر کےلئے شکر کرنا چاہئے تھا کہ امورِ سلطنت کامیابی اور اطمینان سے نبٹ رہے تھے۔ لیکن حسد نے اُنہیں اندھا کر دیا، اِس لئے اُنہیں دانی ایل میں ایسے شخص کے علاوہ کچھ اَور نظر نہ آیا جس نے تمام ملک کی مختاری کے اُس عہدہ پر قبضہ کر لیا تھا جس کے وہ مستحق تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے اُس کے خلاف ایک منصوبہ باندھا۔ تاہم، خداوند نے اُسے اُس منصوبہ سے بچایا (دانی ایل 6 باب)۔

د- اطمینان ہمیں حسد پر غالب آنے میں مدد دیتا ہے، کیونکہ محبت سلامتی سے رہتی ہے، جبکہ حسد میں اِنسان تشویش اور بےچینی کا شکار رہتا ہے۔

جب ایک شخص خدا سے محبت رکھتا ہے تو اپنے ساتھی اِنسانوں سے بھی محبت رکھتا ہے۔ جب لوگ محبت کرتے ہیں تو اُن کے دِل آسمانی اطمینان سے بھر جاتے ہیں جیسے مسیح کا دِل اُس وقت بھی اطمینان سے معمور تھا جب آپ راہِ صلیب پر چلے جا رہے تھے اور آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا: "میں تمہیں اطمینان دِئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جس طرح دُنیا دیتی ہے میں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 27)۔

تاہم، حسد کرنے والا شخص اپنے ذہنی اطمینان کو تباہ کردیتا ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ دوسروں کے پاس موجود چیزوں کا آرزومند رہتا ہے لیکن اپنے پاس موجود چیزوں کےلئے شکرگزاری کرنے سے پہلوتہی کرتا ہے۔ رسولی نصیحت کس قدر خوبصورت ہے: "پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔ اور اِن سب کے اوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو" (نیا عہد نامہ، کلسیوں 3: 12- 14)۔

جب بزرگ یُوسُف نے اپنے والد اور بھائیوں کی عزت افزائی کی تو اُسے جو ذہنی اطمینان حاصل تھا، ذرا اُس کا موازنہ اُس تشویش سے کریں جو اُس کے بھائیوں کے دِلوں پر چھائی ہوئی تھی جب اُنہوں نے ایک دوسرے سے کہا: "ہم دراصل اپنے بھائی کے سبب سے مجرم ٹھہرے ہیں کیونکہ جب اُس نے ہم سے مِنّت کی تو ہم نے یہ دیکھ کر بھی کہ اُس کی جان کیسی مصیبت میں ہے اُس کی نہ سُنی۔ اِسی لئے یہ مصیبت ہم پر آ پڑی ہے" (پیدایش 42: 21)۔ جب بزرگ یُوسُف اپنے باپ کو مکمل عزت و تعظیم سے دفنا کر واپس لوٹا تو اُس وقت جو ذہنی اطمینان اُسے حاصل تھا اُس کا موازنہ بھی اُس کے بھائیوں کی تشویش سے کیجئے جن کے دِل اُس وقت خوف سے بھرے ہوئے تھے اور اُنہوں نے کہا: "یُوسُف شاید ہم سے دُشمنی کرے اور ساری بدی کا جو ہم نے اُس سے کی ہے پُورا بدلہ لے" (پیدایش 50: 15)۔ یہ الفاظ ہم پر عیاں کرتے ہیں کہ جتنا عرصہ وہ مصر میں رہے اور جب تک اُن کا باپ زندہ تھا اُن کی جان تشویش کا شکار تھی اور اُنہیں کوئی ذہنی اطمینان حاصل نہ تھا۔

محبت اطمینان بخشتی ہے جبکہ حسد تشویش پیدا کرتا ہے۔ سو، آئیے خدا تعالیٰ سے التجا کریں کہ اُس کی محبت ہمارے دِلوں پر غالب آئے، وہ محبت جو حسد نہیں کرتی۔

دُعا

اے ہمارے باپ، ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ تُو نے ہم پر کثرت سے اپنی عنایت کی ہے اور کبھی ہمیں شرمندہ نہیں ہونے دیتا۔ ہمیں یہ دیکھنے کی توفیق بخش کہ کیسے تُو نے اپنی مُٹھی کھولی ہے اور ہمیں اچھی چیزوں سے آسودہ کیا ہے۔ ہمارے دِلوں کو اپنے رُوح القدس کی خوشی سے معمور کر، تا کہ ہم تجھ میں اور تیری بخششوں میں شادمان رہیں۔ اپنی محبت کو ہم میں بڑھا۔ ہم میں سے تمام حسد کو دُور کر دے اور بخش کہ ہم اپنی سیرت اور کوششوں سے تجھ سے وابستہ ہونے کی قدر کرسکیں، اور یوں ہم اپنے ایمان کو اپنی زندگی میں عمل سے ظاہرکریں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین

5- محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں (1- کرنتھیوں 13: 4)

جس شخص کے پاس رُوحانی نعمتوں ہوں وہ اُن کی بابت شیخی بگھارنے کی آزمایش کا زیادہ شکار ہو سکتا ہے۔ ایک مشہور واعظ اپنی منادی کرنے کی صلاحیتوں پر غرور کا شکار ہو سکتا ہے۔ بھلائی کرنے والا کوئی فرد غریب کو خوراک مہیا کرنے پر فخر کر سکتا ہے۔ لیکن سچی خالص محبت جو کچھ کرتی ہے اُس پر شیخی نہیں مارتی کیونکہ یہ مسیح کے نام کی خاطر اور مسیح کے وسیلہ سے بخشی ہوئی قوت سے ایسا کرتی ہے۔

کرنتھس کی کلیسیا کے عیبوں میں سے ایک عیب شیخی مارنا تھا، کیونکہ وہاں کے ایماندار گروہ بندیوں کا شکار تھے۔ اُن میں سے ہر ایک جس بھی رسول کی پیروی کرتا تھا اُس پر فخر کرتے تھے۔ کچھ پولس پر فخر کرتے تھے جبکہ کچھ اپلوس پر، لیکن پولس رسول نے اُنہیں 1- کرنتھیوں 4: 6- 7 میں کہا: "... تا کہ تم ہمارے وسیلہ سے یہ سیکھو کہ لکھے ہوئے سے تجاوز نہ کرو، اور ایک کی تائید میں دوسرے کے برخلاف شیخی نہ مارو۔" (مطلب یہ ہوا کہ کسی خاص گروہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے غرور سے پھول نہ جاﺅ)۔ "تجھ میں اور دوسرے میں کون فرق کرتا ہے؟" (مطلب یہ ہوا کہ تجھے کس نے دوسروں سے فرق بنایا؟)، "اور تیرے پاس کون سی ایسی چیز ہے جو تُو نے دوسرے سے نہیں پائی؟" (مطلب یہ ہوا کہ جو کچھ بھی تیرے پاس ہے وہ ایک بخشش ہے)، "اور جب تُو نے دوسرے سے پائی تو فخر کیوں کرتا ہے کہ گویا نہیں پائی؟"۔ سو رسول اپنے سامعین سے کہتا ہے کہ نہ وہ اُس کی طرفداری کریں نہ اپلوس کی، کیونکہ اُن میں سے کوئی بھی خود سے کسی شے کا مالک نہیں ہے۔ اگراُن کے پاس کچھ ہے یا وہ دوسروں سے فرق ہیں تو یہ خدائے کریم کے فضل کے وسیلہ سے ہے، اور ایسا کسی شخصی قابلیت کی وجہ سے نہیں ہے۔

پولس رسول یہ بھی کہتا ہے کہ "علم غرور پیدا کرتا ہے لیکن محبت ترقی کا باعث ہے" (1- کرنتھیوں 8: 1)۔ ایک عالم فاضل شخص اپنے علم پر شیخی سے پھول سکتا ہے، لیکن اِس سے اُس کا رُوحانی قد ہرگز نہیں بڑھتا جس کےلئے ضروری ہے کہ محبت اُس کے دِل میں نور کی مانند چمک اُٹھے۔

پولس رسول نے یہ کہنے کی نسبت کہ "محبت حلیم ہے" یہ کیوں کہا ہے کہ "محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں"؟ کیوں اُس نے اپنی بات کو مثبت طور پر بیان کرنے کی نسبت منفی طور پر بیان کیا؟ شاید کرنتھس کے رہنے والے اپنی حلیمی پر فخر کر رہے تھے، اور یوں وہ اِس خوبی کو غرور کی برائی میں بدل رہے تھے۔

دو احکام ایسے ہیں جو سب حکموں کاخلاصہ ہیں: "تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل سے محبت رکھ، اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔" اگر آپ اپنے پورے دِل سے خداوند سے محبت رکھتے ہیں تو آپ ممکنہ طور پر غرور کا شکارنہیں ہوں گے کیونکہ آپ سمجھ جائیں گے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ ہر طرح کے فضل کے منبع خدا کی طرف سے ہے۔ اگر آپ اپنے ساتھی اِنسانوں سے محبت کرتے ہیں تو آپ اُن کے خلاف ممکنہ طور پر غرور سے پھول نہیں سکتے۔ بلکہ اِس کے برعکس آپ اُس خدا کے خادم ہونے کی وجہ سے، حلیمی میں اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، جو اِنسانیت سے محبت رکھتا ہے اور اپنا آپ اُن کےلئے بخش دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو مسیح نے ظاہر کیا جو خدمت لینے نہیں بلکہ خدمت کرنے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دینے کےلئے آیا (انجیل بمطابق مرقس 10: 45)۔

محبت کے شیخی نہ مارنے کی تین وجوہات ہیں:

الف- محبت اِس بات کا اِدراک رکھتی ہے کہ شیخی مارنا جسم کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔

یا تو آپ جسم کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں یا پھر رُوح کے مطابق۔ جسم رُوح کے خلاف جنگ کرتا ہے اور اِس شدت سے اُس کا مقابلہ کرتا ہے کہ ہم وہ کام کرتے ہیں جو کرنا نہیں چاہتے۔ اِس لئے رسول ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ "روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کرو گے" (نیا عہد نامہ، گلتیوں 5: 16)۔ سو، ہم دیکھتے ہیں کہ محبت شیخی نہیں مارتی کیونکہ یہ رُوح القدس کے کام کا نتیجہ ہے جیسا کہ پولس رسول کہتا ہے: "جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو رُوحانی ہیں وہ رُوحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں" (نیا عہد نامہ، رومیوں 8: 5)۔ یہ محبت جس کا تعلق رُوح القدس سے ہے جسم کے مطابق زندگی نہیں گزارتی جو شیخی مارتا ہے۔

نبوکدنضر کے رویہ کے پیچھے جسم کارفرما تھا۔ نبوکدنضر نے کہا: "کیا یہ بابل اعظم نہیں جس کو میں نے اپنی توانائی کی قدرت سے تعمیر کیا ہے کہ دارُالسّلطنت اور میرے جاہ و جلال کا نمونہ ہو؟" (پرانا عہد نامہ، دانی ایل 4: 30)۔ یہ نبوکدنضر خود نہیں تھا جس نے بابل کو تعمیر کیا تھا اور اُس نے تعمیراتی اخراجات اپنی جیب سے ادا نہیں کئے تھے، بلکہ اُس نے محصول و خراج ادا کرنے والے لوگوں کے پیسے سے فائدہ اُٹھایا، اِس طرح تعمیراتی کام کو ماہر نقشہ سازوں اور انجینئروں نے سرانجام دیا تھا۔

زبدی کے بیٹوں یعقوب اور یوحنا کی ماں سلومی کے رویہ کے پیچھے بھی جسم کارفرما تھا جب اُس نے جناب مسیح سے کہا: "فرما کہ یہ میرے دونوں بیٹے تیری بادشاہی میں تیری دہنی اور بائیں طرف بیٹھیں" (انجیل بمطابق متی 20: 21)۔ جس چیز کی اُس نے درخواست کی تھی، خداوند نے اُس کا وعدہ نہ کیا، تاہم دیگر شاگرد اُس کی درخواست پر سخت ناراض ہوئے کہ جیسے مسیح نے اُس کی درخواست مان لی ہو۔ اُس کی درخواست اور شاگردوں کی ناراضگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ سلومی اپنے دونوں بیٹوں پر کس قدر مغرور تھی، اور دیگر شاگرد کس قدر خودپسند اور مغرور تھے کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو زبدی کے دونوں بیٹوں سے بڑا سمجھا۔ شاید اُن میں سے ہر ایک اپنے آپ سے یہ سوال کر رہا تھا: اب اگر یعقوب اور یوحنا اُس کے دایاں اور بائیں بیٹھ گئے تو میں کہاں بیٹھوں گا؟ مسیح نے اُن سب سے کہا: "جو بپتسمہ میں لینے کو ہوں تم لے سکتے ہو؟" یسوع کے بپتسمہ کا مطلب یہ ہوا کہ اُس کی تمام زندگی حلیمی اور محبت کی زندگی تھی، اورجب ہم بپتسمہ پاتے ہیں تو وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی ایسی ہی زندگی بسر کریں کیونکہ وہ حلیم اور دِل کا فروتن ہے۔

انجیل بمطابق لوقا 22: 24 کے مطابق جسم ہی شاگردوں کے اُس تنازع کے پیچھے تھا کہ جب وہ آپس میں اِس بات پر تنازع کا شکار ہو گئے کہ اُن میں سے کون بڑا تھا۔ اُنہوں نے سوچا کہ مسیح کی بادشاہی سیاسی اور زمینی بادشاہی تھی۔ لیکن خداوند مسیح نے سوچ کے اِس انداز کو درست کیا جو گناہ میں گری ہوئی فطرت سے تعلق رکھتا ہے، اور اُن سے کہا: "جو تم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کی مانند اور جو سردار ہے وہ خدمت کرنے والے کی مانند بنے۔ ... میں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں" (انجیل بمطابق لوقا 22: 26- 27)۔

یہ واضح ہے کہ انسانیت اپنی سوچ کے عمومی انداز کے اعتبار سے شیخی مارنے اور غرور کی طرف رجحان رکھتی ہے۔ لوگ اپنے خاندانوں پر فخر کرتے ہیں اور اُنہیں دُنیا کے بہترین خاندان سمجھتے ہیں اور پھر اپنے خاندانوں میں سے اپنے آپ کو بہترین افراد سمجھتے ہیں۔ اِس کے برعکس محبت آسمانی طرز زندگی ہے، اِس لئے محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔

مصر سے خروج کے بعد خدا کے لوگ بنی اسرائیل شیخی مارنے کے گناہ کا شکار ہوئے تو خداوند نے یہ کہتے ہوئے اُنہیں تنبیہ کی: "خداوند نے جو تم سے محبت کی اور تم کو چُن لیا تو اِس کا سبب یہ نہ تھا کہ تم شمار میں اَور قوموں سے زیادہ تھے کیونکہ تم سب قوموں سے شمار میں کم تھے۔ بلکہ چونکہ خداوند کو تم سے محبت ہے اور وہ اُس قسم کو جو اُس نے تمہارے باپ دادا سے کھائی پورا کرنا چاہتا تھا اِس لئے خداوند تم کو اپنے زورآور ہاتھ سے نکال لایا اور غلامی کے گھر یعنی مصر کے بادشاہ فرعون کے ہاتھ سے تم کو مخلصی بخشی۔ سو جان لے کہ خداوند تیرا خدا وہی خدا ہے۔ وہ وفادار خدا ہے اور جو اُس سے محبت رکھتے اور اُس کے حکموں کو مانتے ہیں اُن کے ساتھ ہزار پُشت تک وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا اور اُن پر رحم کرتا ہے" (پرانا عہد نامہ، اِستثنا 7: 7- 9)۔

خدا تعالیٰ نے اپنے لوگوں کو اِس لئے چُنا کہ وہ اِردگرد کی اقوام سے تعداد میں بہت کم تھے تا کہ وہ اُن کی حلیمی میں اُن کی حفاظت کرے۔ اِس لئے موسیٰ نبی نے اُنہیں غرور کا شکار ہونے سے منع کیا اور حلیمی اختیار کرنے کا حکم دیا اور کہا: "میرا باپ ایک ارامی تھا جو مرنے پر تھا۔ وہ مصر میں جا کر وہاں رہا اور اُس کے لوگ تھوڑے سے تھے اور وہیں وہ ایک بڑی اور زورآور اور کثیرُ التعداد قوم بن گیا۔ پھر مصریوں نے ہم سے بُرا سلوک کیا اور ہم کو دُکھ دیا اور ہم سے سخت خدمت لی۔ اور ہم نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کے حضور فریاد کی تو خداوند نے ہماری فریاد سُنی اور ہماری مصیبت اور محنت اور مظلومی دیکھی" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 26: 5- 7)۔

بزرگ ابرہام پناہ ڈھونڈتا ہوا مصر کو آیا۔ جب اُس نے اپنے آپ کو وہاں مشکل میں پایا تو خداوند کے حضور فریاد کی اور خداوند خدا نے اُسے بچایا۔ یہ نہ تو اُس کا مقام تھا، نہ مضبوطی، نہ اُس کی انسانی سوچ کا انداز جس نے اُسے بچایا (پرانا عہد نامہ، پیدایش 12: 10- 20)۔ خدا کے فضل کی قدر کرنے والے ایماندار شیخی مارنے سے باز رہتے ہیں۔

خدا تعالیٰ نے یسعیاہ نبی کے وسیلہ سے شیخی کے خلاف اپنے لوگوں کو ایک بار پھر تنبیہ کی: "اے لوگو جو صداقت کی پیروی کرتے ہو اور خداوند کے جویان ہو میری سُنو! اُس چٹان پر جس میں سے تم کاٹے گئے ہو اور اُس گڑھے کے سوراخ پر جہاں سے تم کھودے گئے ہو نظر کرو" (پرانا عہد نامہ، یسعیاہ 51: 1)۔ "چٹان" سے اُس کی مُراد خدا کا دوست ابرہام اور "گڑھے کے سوراخ" سے اُس کی مُراد سارہ ہے۔ کیونکہ جب اضحاق سارہ کے رحم میں پرورش پا رہا تھا تو تب بزرگ ابرہام کی عمر ننانوے برس اور سارہ کی عمر اُننانوے برس تھی۔ سارہ کو اِس عمر میں بچہ کی اب کوئی اُمید نہ تھی، لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے دوست ابرہام سے کئے گئے اپنے وعدہ کو پورا کیا (نیا عہدنامہ، رومیوں 4: 18)۔ اِس لئے یسعیاہ نبی نے کہا کہ خدا نے "چٹان" اور "گڑھے کے سوراخ" میں سے اپنے لئے ایک قوم پیدا کی۔ سو، یہاں پر فخر کی کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ خدا کے حضور صرف حلیمی ہی چاہئے جو ایسے معجزات کرتا ہے کہ ابرہام نے "ایمان میں مضبوط ہو کر خدا کی تمجید کی" (رومیوں 4: 20)۔

جب مسیح نے پطرس سے کہا کہ وہ تین مرتبہ اُس کا انکار کرے گا (انجیل بمطابق لوقا 22: 34) تو آپ نے اُسے تنبیہ کی کہ وہ ضرورت سے زیادہ اعتماد والا نہ بنے۔

مسیح کو یہ اِدراک تھا کہ وہ شاگرد جنہیں آپ نے چُنا تھا شیخی کی آزمایش کا شکار ہوں گے، اِسی لئے آپ نے اُن سے کہا: "تم نے مجھے نہیں چُنا بلکہ میں نے تمہیں چُن لیا اور تم کو مقرر کیا کہ جا کر پھل لاﺅ اور تمہارا پھل قائم رہے" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 16)۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ الہٰی فضل ہے جس نے ڈالی کو انگور کے درخت میں پیوست کیا ہے اور اُسے اُس کے فیاض رس سے آسودہ کیا ہے تا کہ وہ پھل لائے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو ڈالی پھل نہیں لاتی وہ جُھکتی نہیں، لیکن جب بہت سا پھل لائے تو جُھک جاتی ہے۔ شیخی مارنے والے وہ ہیں جو کم پھل لاتے ہیں۔

ب- محبت خدا تعالیٰ کی ہستی کا اِدراک رکھتی ہے اِس لئے پھولتی نہیں۔

اِنسان کی فطرت گنہگار ہے، وہ زمین کی خاک ہے۔ لیکن اِنسان رُوح بھی ہے جو خدا تعالیٰ کا پھونکا ہوا دم ہے۔ خاک غرور نہیں کر سکتی کیونکہ اِسے اوپر پھینکا جائے تو یہ نیچے خاک میں جا ملتی ہے۔ سو، آئیں پولس رسول کے ساتھ مل کر کہیں: "اگر ہم جیتے ہیں تو خداوند کے واسطے جیتے ہیں اور اگر مرتے ہیں تو خداوند کے واسطے مرتے ہیں۔ پس ہم جئیں یا مریں خداوند ہی کے ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 14: 8)۔ کیونکہ خداوند سے محبت رکھنا ہمیں یہ آگہی بخشتا ہے کہ اُسی میں ہم جیتے چلتے پھرتے اور موجود ہیں (نیا عہدنامہ، اعمال 17: 28)، تا کہ ہم اُس کو جلال دیں جو تمام جلال کے لائق ہے اور جس کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے۔

ہمیں درست طور پر ہی اپنے آ پ کو دیکھنا چاہئے، جیسا کہ پولس رسول کہتے ہیں: "میں اُس توفیق کی وجہ سے جو مجھ کو ملی ہے تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال کے ساتھ اپنے آپ کو ویسا ہی سمجھے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 3)۔

ایسے لوگوں کی دومثالیں بزرگ یعقوب اور زبور نویس داﺅد ہیں جن کی سوچ اپنے بارے میں ہوشمندی پر مبنی تھی۔ یعقوب نے خدا سے کہا: "میں تیری سب رحمتوں اور وفاداری کے مقابلہ میں جو تُو نے اپنے بندہ کے ساتھ برتی ہے بالکل ہیچ ہوں کیونکہ میں صرف اپنی لاٹھی لے کر اِس یردن کے پار گیا تھا اور اَب ایسا ہوں کہ میرے دو غول ہیں۔ میں تیری منت کرتا ہوں کہ مجھے میرے بھائی عیسو کے ہاتھ سے بچا لے کیونکہ میں اُس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ آ کر مجھے اور بچوں کو ماں سمیت مار نہ ڈالے" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 32: 10- 11)۔ یعقوب نے اقرار کیا کہ جب اُس نے دریائے یردن کو عبور کیا تھا تو اُس کے پاس سوائے اپنی لاٹھی کے اَور کچھ نہ تھا۔ لیکن جب وہ واپس لوٹا تو اُس کے ساتھ دو غول تھے، اور یہ سب خدا تعالیٰ کی وجہ ہی سے تھا۔ تاہم، اُسے خطرہ محسوس ہوا کہ کچھ دیر میں عیسو اُن کو لے جائے گا یا مار ڈالے گا۔ سو یعقوب اپنی نالائقی اور خدا کی مدد کی ضرورت کا اقرار کرتا ہے۔

خداوند تعالیٰ کے نبی داﺅد نے بھی یہ دُعا کی: "اے مالک خداوند میں کون ہوں اور میرا گھرانا کیا ہے کہ تُو نے مجھے یہاں تک پہنچایا؟ تَو بھی اے مالک خداوند یہ تیری نظر میں چھوٹی بات تھی کیونکہ تُو نے اپنے بندہ کے گھرانے کے حق میں بہت مُدّت تک کا ذِکر کیا ہے اور وہ بھی اے مالک خداوند آدمیوں کے طریقہ پر۔ اور داﺅد تجھ سے اَور کیا کہہ سکتا ہے؟ کیونکہ اے مالک خداوند تُو اپنے بندہ کو جانتا ہے۔ تُو نے اپنے کلام کی خاطر اور اپنی مرضی کے مطابق یہ سب بڑے کام کئے تا کہ تیرا بندہ اُن سے واقف ہو جائے۔ سو تُو اے خداوند خدا بزرگ ہے کیونکہ جیسا ہم نے اپنے کانوں سے سُنا ہے اُس کے مطابق کوئی تیری مانند نہیں اور تیرے سِوا کوئی خدا نہیں" (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 7: 18- 22)۔ داﺅد نبی اقرار کرتا ہے کہ وہ تو چرواہا تھا جسے خدا نے بادشاہ بنا دیا۔ کیونکہ محبت شیخی نہیں مارتی، بلکہ یہ اُس نعمت کے بخشنے والے خدا کی ہستی کا اقرار کرتی ہے۔

پہلی مبارکبادی میں لکھا ہے: "مبارک ہیں وہ جو دِل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے" (انجیل بمطابق متی 5: 3)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رُوح کے وسیلہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ اُن کے پاس ہے وہ اُن کی کسی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ تو خداوند کی طرف سے مفت بخشش ہے۔

ج- محبت اپنی نعمتوں کی محدودیت کو سمجھتی ہے۔

جب ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کےلئے ہماری محبت اور خدمت کے مقابلے میں اُس کی ہماری لئے محبت اور ہمیں بخشی ہوئی برکات بے انتہا زیادہ ہیں تو ہم کیسے شیخی مارتے ہوئے مغرور ہو سکتے ہیں؟ جب ہم جانتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق سے غفلت برتی ہے تو ہم کیسے ایسا کر سکتے ہیں؟ اِسی لئے مسیح نے فرمایا: "اِسی طرح تم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تمہیں حکم ہوا تعمیل کر چکو تو کہو کہ ہم نکمے نوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے" (انجیل بمطابق لوقا 17: 10)۔

کوئی بھی فرد اپنے اعتقادات کے مطابق ویسے سب کچھ نہیں کر سکتا جو اُسے کرنا چاہئے۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتا ہے تو لازمی طور پر اُسے اقرار کرنا چاہئے کہ وہ سوائے ایک نکمے نوکر کے کچھ نہیں جس نے کوئی بھی قابل ذِکر کام نہیں کیا ہے، اور یہ جھوٹی حلیمی نہیں بلکہ ایک سچی حقیقت ہو گی۔ کیونکہ اگر ہم مالی طور پر کچھ حصہ ڈالتے ہیں تو وہ خدائے کریم کی بخشش ہی کی بدولت ہے، اور جو بھی کام ہم سرانجام دیتے ہیں اُنہیں اُس صحت اور طاقت میں ہی کر سکتے ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ خدا کی ہی مفت بخشی ہوئی نعمت ہے، تمام عزت و جلال اُسی کی پاک ذات کا ہے۔ جب بھی خدا تعالیٰ کےلئے ہماری محبت بڑھتی ہے تو ہم بھی فضل میں بڑھتے جاتے ہیں، اور جب بھی ہم فضل میں بڑھتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارا معیار اُس الہٰی معیار کے تقاضے سے بہت کمتر ہے جو مسیح کے پورے قد کے اندازہ کے موافق پہنچنا ہے۔ سو آئیں ہم کوشش کرتے رہیں اور ہمت نہ ہاریں۔ غرور کےلئے کبھی کوئی جگہ نہیں۔ صرف اپنے مقصد کی جانب دوڑتے جانے اور گناہ کے خلاف جدوجہد کرنے کی جگہ ہے جس میں اپنے ہی خون کو بہا دینے کی حد تک مقابلہ کرنا شامل ہے (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 12: 4)۔ انجیل مقدس ہمیں ایک ایسے رومی صوبیدار کے بارے میں بتاتی ہے جس نے بہت نیکی کی لیکن اُس نے اُسے صرف اپنے ایک فرض کے طور پر دیکھا۔ اِس لئے اُس نے فخر نہ کیا بلکہ اپنے آپ کو حلیم کیا کیونکہ اُس کے دِل میں خدا اور اُس کے لوگوں کےلئے کثرت کی محبت تھی۔ یہودیوں کے بزرگوں نے یسوع کو بتایا کہ "وہ اِس لائق ہے کہ تُو اُس کی خاطر یہ کرے۔ کیونکہ وہ ہماری قوم سے محبت رکھتا ہے اور ہمارے عبادت خانہ کو اُسی نے بنوایا (انجیل بمطابق لوقا 7: 4- 5)۔ تاہم، اُس نے خود مسیح سے کہا: "میں اِس لائق نہیں کہ تُو میری چھت کے نیچے آئے" (انجیل بمطابق لوقا 7: 6)۔ محبت میں جو کچھ دیا جاتا ہے اُس میں اپنی محدودیت کو سمجھا جاتا ہے، اِسی لئے اِس میں شیخی مارنا یا کوئی فخر نہیں ہوتا۔

آئیے ہم اپنی خطاﺅں اور تقصیروں کے احساس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور حلیمی کے ساتھ جھک جائیں، اور اُس کی بےبہا محبت سے فیضیاب ہوں جو فضل سے معمور ایک سمندر کی مانند ہے۔ آئیے ہم اُس کی راستی میں کوشاں رہیں تا کہ اُس کا نام سربلند ہو اور زمین اُس کے جلال سے معمور ہو۔

دُعا

اے میرے ربّ، مجھے وہ محبت سکھا جو شیخی نہیں بگھارتی اور فخر نہیں کرتی، کیونکہ میرے پاس ایسی کون سی چیز ہے جو میں نے تیرے فیاض ہاتھ سے نہیں پائی؟ تیرا شکر ہو کہ تُو نے مجھے اپنی بڑی محبت میں اپنی ہی مرضی سے چنا کیونکہ تجھے ایسا پسند آیا۔ مجھے مسیح کے نمونہ سے سکھا جو محبت اور حلیمی کی اعلیٰ ترین مثال ہے جس نے کہا: "میں حلیم ہوں اور دِل کا فروتن"، جس نے اپنا آپ سپردگی میں دے دیا اور موت تک، صلیب پر اپنی جان دینے تک فرمانبردار رہا۔ مجھے حلیمی اور دِل کی نرمی عطا کر۔ میرے دِل سے تمام شیخی، غرور اور تکبر دُور کر دے۔ مجھے اپنے حبیب پیارے نجات دہندہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخش۔ اُسی کے نام میں میری اِس دُعا کو سُن۔ آمین

6- محبت نازیبا کام نہیں کرتی (1- کرنتھیوں 13: 5)

نازیبا کام کرنا مشیئت الہٰی کی ضد ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے دُنیا کو خلق کیا تو "خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 1: 4، 12، 18، 21، 25)۔ جب خدا نے سب کچھ خلق کر لیا جس میں انسان بھی شامل تھا تو "خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے" (پیدایش 1: 31)۔ خدا کا ارادہ بھلا ہے، لیکن پھرگناہ کے سبب سے نازیبا کام سامنے آئے۔ جب پولس رسول نے کہا کہ محبت "نازیبا کام نہیں کرتی" تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دُنیا میں گناہ نہ آتا تو یہ وہ بنیادی صفت ہے جو انسانوں میں قائم و دائم رہتی۔

اپنی محبت میں آدم کی تخلیق سے پہلے خدا تعالیٰ نے اُس کےلئے سب کچھ اچھا تیار کیا، اور ہر چیز یعنی روشنی، درخت، پرندے، مچھلیاں اور جانور اچھے تھے۔ سب سے آخر میں خدا نے انسان کو بنایا تا کہ وہ اِن سب چیزوں سے لطف اندوز ہو۔ اور جب خدا نے دیکھا کہ آدم اکیلا ہے تو اُس نے حوّا کو بنایا جو اُس کی بیوی اور مددگار تھی۔ جیسے ہی آدم نے اُسے دیکھا تو انسانی تاریخ میں پہلا گیت کہا جو نغمہ محبت ہے۔ آدم نے کہا "یہ تو اَب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی" (پیدایش 2: 23)۔

لیکن جیسے ہی گناہ دُنیا میں داخل ہوا، تو اِس کے ساتھ کراہیت، خوف اور نازیبا کام بھی داخل ہوئے، اور نغمہ محبت کہنے والے آدم نے اپنی پیاری بیوی حوا پر، اور اِس کے ساتھ ساتھ خدا پر بھی یہ کہتے ہوئے الزام لگایا: "جس عورت کو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے اُس نے مجھے اُس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا" (پیدایش 3: 12)۔ اَب یہ محبت کراہیت میں کیسے بدل گئی؟ کیسے خدا تعالیٰ کےلئے شکرگزاری کی جگہ بڑبڑاہٹ آ گئی؟

گناہ کے نازیباپن کی سب سے بڑی مثال جناب مسیح کے خلاف گناہ کے کام میں نظر آتی ہے۔ مردِ دانا سلیمان نبی نے حکمت کی روح سے مسیح کے بارے میں کہا "تُو بنی آدم میں سب سے حسِین ہے۔ تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 45: 2)۔ تاہم، یسعیاہ نبی نے مسیح کو بالکل مختلف طرح سے یہ کہتے ہوئے بیان کیا ہے "پر وہ اُس کے آگے کونپل کی طرح اور خشک زمین سے جڑ کی مانند پھوٹ نکلا ہے۔ نہ اُس کی کوئی شکل و صورت ہے نہ خوبصورتی اور جب ہم اُس پر نگاہ کریں تو کچھ حُسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں۔ وہ آدمیوں میں حقیر و مردود، مردِ غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اُس سے گویا روپوش تھے، اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 2- 3)۔ بنی آدم میں سے اِس افضل ترین شخصیت کو کیوں اِن غم و اندوہ والی اصطلاحات میں بیان کیا گیا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اُس نے ہما رے تمام گناہ اپنے اوپر برداشت کئے۔ گناہ اِس قدر نازیبا ہے کہ یہ ہر چیز کو بگاڑ دیتا ہے۔ اور مسیح نے اِس تمام نازیباپن کو اپنے اوپر برداشت کیا تا کہ جو کچھ بگڑ گیا تھا اُسے بحال کر سکے اور داﺅد نبی کے الفاظ کی تکمیل ہو: "وہ حلیموں کو نجات سے زینت بخشے گا" (زبور 149: 4)۔ مارٹن لوتھر نے مسیح کے تعلق سے اِسی حقیقت کو یوں اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے: "میرے خداوند مسیح، تُو وہ بن گیا جو نہیں تھا، تا کہ میں وہ بن جاﺅں جو میں نہیں تھا۔"

دو طرح سے محبت نازیبا کام نہیں کرتی:

الف- محبت الفاظ میں نازیبا برتاﺅ نہیں کرتی۔

ایمانداروں کو محبت میں کیسا برتاﺅ کرنا چاہئے؟ اِس تعلق سے پولس رسول نے ایمانداروں کو یہ کہتے ہوئے تعلیم دی ہے: "پس عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔ اور محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو خوشبو کی مانند خدا کی نذر کر کے قربان کیا۔ اور جیسا کہ مُقدّسوں کو مناسب ہے تم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذِکر تک نہ ہو۔ اور نہ بےشرمی اور بےہودہ گوئی اور ٹھٹھا بازی کا کیونکہ یہ لائق نہیں بلکہ برعکس اِس کے شکرگزاری ہو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 1- 4)۔

بیوقوفانہ گفتگو اور گھٹیا مذاق غیرمہذب اور ناشایستہ ہوتے ہیں، اور نہ صرف اِن کو عمل میں نہیں لانا چاہئے بلکہ اِن کا ذِکر بھی نہیں کرنا چاہئے، ایسی کسی بات کا "تم میں ... کسی طرح ... کا ذِکر تک نہ ہو"۔ کیونکہ جب ایک فرد کسی دوسرے شخص کو غیرمناسب طور پر مخاطب کرتا ہے تو وہ اُس شخص کامقام دوسرے کی نگاہ میں بگاڑتا ہے، اور اِس کے علاوہ وہ اپنی بھی بےعزتی کرتا ہے۔ لیکن اِس کے برعکس روح القدس کے تابع رہنے والی زبان دوسروں کےلئے برکت کے علاوہ کچھ اَور نہیں بولتی۔ کسی شخص کے ساتھ اُس کے پہناوے، علم یا کلام کی بنا پر بیوقوفانہ گفتگو اور گھٹیا مذاق نامناسب ہے جس سے عموماً دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ ہمیشہ وہ رویہ ہے جس کا محبت سے کچھ لینا دینا نہیں، کیونکہ دوسروں کا ٹھٹھا اور مذاق اُڑانے والا اُن کے وقار کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے اپنے اور اپنے ہمجولیوں کی تفریح کا سامان کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ وہ اُس بات کا مذاق اُڑاتا ہے جسے وہ دوسرے میں کمزور پہلو سمجھتا ہے۔

پولس رسول نے کلسیوں کے نام اپنے خط میں یہ نصیحت کی ہے: "لیکن اَب تم بھی اِن سب کو یعنی غصہ اور قہر اور بدخواہی اور بدگوئی اور منہ سے گالی بکنا چھوڑ دو۔ ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولو کیونکہ تم نے پرانی انسانیت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار ڈالا۔ اورنئی انسانیت کو پہن لیا ہے جو معرفت حاصل کرنے کےلئے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 8- 10)۔ خدائے خالق جو سب انسانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اُسی نے ہمیں اپنی شبیہ کے مطابق تبدیل کیا اور نیا بنایا ہے۔

یعقوب کے خط میں، جسے عملی زندگی پر مبنی خط کہا جاتا ہے، زبان کے بارے میں ایک زبردست بیان پایا جاتا ہے: "کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔ ... کیونکہ ہر قسم کے چوپائے اور پرندے اور کیڑے مکوڑے اور دریائی جانور تو اِنسان کے قابو میں آ سکتے ہیں اور آئے بھی ہیں۔ مگر زبان کو کوئی آدمی قابو میں نہیں کر سکتا۔ وہ ایک بلا ہے جو کبھی رکتی ہی نہیں۔ زہرِ قاتل سے بھری ہوئی ہے۔ اِسی سے ہم خداوند اور باپ کی حمد کرتے ہیں اور اِسی سے آدمیوں کو جو خدا کی صورت پر پیدا ہوئے ہیں بددُعا دیتے ہیں۔ ایک ہی منہ سے مبارکباد اور بددُعا نکلتی ہے۔ ... کیا چشمہ کے ایک ہی منہ سے میٹھا اور کھاری پانی نکلتا ہے؟ اے میرے بھائیو! کیا انجیر کے درخت میں زیتون اور انگور میں انجیر پیدا ہو سکتے ہیں؟ اِسی طرح کھاری چشمہ سے میٹھا پانی نہیں نکل سکتا" (نیا عہدنامہ، یعقوب 3: 2، 7- 12)۔

طبعی دُنیا میں ہمیں کوئی بھی ایسا چشمہ نہیں ملتا جس میں سے ایک ہی وقت میں میٹھا اور کھارا دونوں طرح کا پانی نکلتا ہو، اور نہ ہی زیتون کا درخت اور انگور انجیر پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایک ہی زبان متضاد بیانات دیتی ہے! مقدس یعقوب نے اِس بارے میں یہ کہا ہے کہ "اے میرے بھائیو! ایسا نہ ہونا چاہئے" (آیت 10)۔ کیونکہ محبت نازیبا کلام نہیں کرتی بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی باتیں کرتی ہے، اور یہ صرف تعمیر یا بحال کرنے کی غرض سے سرزنش کرتی ہے لیکن اِس میں کبھی بھی نازیبا پن نہیں پایا جاتا۔ سو، اگر ہم اِس اصول کا اطلاق گھر میں اپنی گفتار پر کریں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے؟ عموماً ہم انسان جب گھر میں نہیں ہوتے تو بہت اچھا بولتے ہیں اور مہمانوں کے سامنے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں۔ لیکن جب اپنے خاندان میں اکیلے ہوتے ہیں تو ہماری برداشت یوں جواب دے جاتی ہے کہ جیسے ہم نے اپنی تمام محبت باہر خرچ کر دی ہے اور اپنے خاندان کےلئے ہمارے پاس سوائے بڑبڑانے، سرزنش اور بیوقوفانہ گفتگو کے کچھ باقی نہیں بچا۔ ہم ایسا برتاﺅ کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس الہٰی حکمت، فضل اور الفاظ کی شیرینی ہے جس سے ہم اپنے اور اپنے معاشرہ کی ضرورت کے مطابق استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

میں عہد عتیق میں سے حوصلہ افزائی کرنے والے الفاظ کی دو مثالیں پیش کروں گا، جن میں سے پہلی مثال ایک نیکوکار شوہر کی اور دوسری مثال ایک نیکوکار بیوی کی ہے جن میں سے ہر ایک نے اپنے جیون ساتھی کو حوصلہ افزائی کا کلام دیا۔ خداوند کا فرشتہ منوحہ کی بیوی پر ظاہر ہوا جو بانجھ تھی اور اُسے بتایا کہ اُس کے ہاں ایک بیٹا ہو گا جسے خدا اپنے لوگوں کےلئے نجات دہندہ بنائے گا (یہ بیٹا بعد میں قاضی سمسون بنا)۔ منوحہ کی بیوی نے اپنے شوہر کو اِس بارے میں بتایا۔ اور منوحہ نے دُعا کی کہ فرشتہ پھر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ نے اُس کی دُعا کا جواب دیا اور فرشتہ ایک بار پھر اُس کی بیوی پر ظاہر ہوا جو بتانے کےلئے بھاگی بھاگی منوحہ کے پاس گئی۔ تب دونوں نے اپنے ہونے والے بیٹے اور اُس کے مستقبل کے بارے میں فرشتہ سے بات کی۔ جس کے بعد فرشتہ مذبح کے شعلہ میں ہو کر آسمان کو چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب خداوند کا فرشتہ منوحہ کو دِکھائی نہ دیا تو وہ خوفزدہ ہو گیا اور اُس نے اپنی بیوی سے کہا "ہم اب ضرور مر جائیں گے کیونکہ ہم نے خدا کو دیکھا۔" تب اُس کی بیوی نے اُسے تسلی دی اور کہا "اگر خداوند یہی چاہتا ہے کہ ہم کو مار دے تو سوختنی اور نذر کی قربانی ہمارے ہاتھ سے قبول نہ کرتا اور نہ ہم کو یہ واقعات دِکھاتا اور نہ ہم سے اَیسی باتیں کہتا" (پرانا عہدنامہ، قضاة 13: 22- 23)۔ اُس کی بیوی کے الفاظ کس قدر خوبصورت ہیں۔ اُس نے ناسمجھی پر اپنے شوہر کا مذاق نہ اُڑایا، بلکہ اُسے تسلی دی اور اُس کی حوصلہ افزائی کی، اور اُس کے سامنے اِس بات کی تائید کرنے والا ثبوت رکھا کہ خدا نے اُن کی قربانی کو قبول کیا تھا اور اُن سے کلام کیا تھا۔ اپنی محبت میں اُس نے نازیبا برتاﺅ نہیں کیا اور نہ اپنے کمزور اور خوفزدہ شوہر کو جھڑکا۔ اُس کا برتاﺅ بےشک اِس رسولی نصیحت کے عین مطابق تھا: "کوئی گندی بات تمہارے منہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کےلئے اچھی ہو، تا کہ اُس سے سُننے والوں پر فضل ہو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 29)۔

دوسری مثال ایک شوہر کی ہے جس نے اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی کی۔ حنہ بانجھ تھی۔ اِس میں اُس کے شوہر القانہ کا کوئی قصور نہ تھا، کیونکہ اُس کے ہاں اپنی دوسری بیوی فننّہ سے اولاد تھی۔ حنہ خدا کے حضور کراہتی اور دُعا کرتی رہی کہ وہ اُسے اولاد بخشے۔ کئی سال گزر گئے مگر اُس کی دُعاﺅں کا جواب نہ ملا، لیکن اُس کی تکلیف کے دوران اُس کے نیک نام شوہر نے یہ کہہ کر اُسے تسلی دی: "اے حنّہ تُو کیوں روتی ہے اور کیوں نہیں کھاتی اور تیرا دِل کیوں آزُردہ ہے؟ کیا میں تیرے لئے دس بیٹوں سے بڑھ کر نہیں؟" (پرانا عہدنامہ، 1- سموئیل 1: 8)۔ پھر خدا تعالیٰ نے حنہ اور القانہ پر اپنا کرم ظاہر کیا اور اُنہیں اولاد بخشی، جس میں سے سموئیل پہلوٹھا تھا جو اسرائیل میں قاضی اور نبی بنا۔

ب- محبت عمل میں نازیبا برتاﺅ نہیں کرتی۔

جب خدا کا روح ہماری زندگی کا راہنما ہوتا ہے تو وہ ہمیں اِس کا مبارک پھل دیتا ہے جس کا سب سے پہلا پہلو محبت ہے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 22)۔ پولس رسول نے کہا: "اِس لئے کہ نور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے۔ اور تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔ اور تاریکی کے بےپھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ اُن پر ملامت ہی کیا کرو۔ کیونکہ اُن کے پوشیدہ کاموں کا ذِکر بھی کرنا شرم کی بات ہے۔ اور جن چیزوں پر ملامت ہوتی ہے وہ سب نور سے ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ جو کچھ ظاہر کیا جاتا ہے وہ روشن ہو جاتا ہے۔ اِس لئے کہ وہ فرماتا ہے، اے سونے والے جاگ اور مُردوں میں سے جی اُٹھ تو مسیح کا نور تجھ پر چمکے گا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 9- 14)۔ مسیح کی معرفت پانے سے پہلے ایک ایماندار نے برے کام کئے ہوتے ہیں، لیکن جب وہ گناہ کی موت میں سے جی اُٹھا ہے اور مسیح کا نور اُس پر چمکا ہے تو اُس کا اُن کاموں کو کرنا بالکل نامناسب ہے کیونکہ "اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 5: 17)۔ سو، ایک ایماندار کی زندگی میں نازیبا کاموں کی نہ تو کوئی جگہ ہے اور نہ کوئی جگہ ہونی چاہئے۔

ہم کتنی ہی مرتبہ دیکھتے ہیں کہ بھونڈاپن اور نازیبا کام ہمارے اردگرد کی خوبصورتی کو جیسے نگل رہے ہیں۔ لیکن حتمی فتح محبت کی ہے کیونکہ یہ نازیبا طور پر پیش نہیں آتی۔

مصر کے بادشاہ فرعون نے اپنے خواب میں دیکھا کہ دریا میں سے سات خوبصورت اور موٹی موٹی گائیں نکل کر نیستان میں چرنے لگی ہیں۔ پھر سات اَور گائیں اُن کے بعد دریا میں سے نکلیں جو بدشکل اور دُبلی تھیں اور دوسری گایوں کے برابر دریا کے کنارے جا کر کھڑی ہو گئیں۔ یہ بدشکل اور دُبلی گائیں ساتوں خوبصورت اور موٹی گایوں کو کھا گئیں (پرانا عہدنامہ، پیدایش 41: 2- 4)۔

جو کچھ فرعون نے دیکھا آج ہمارے ساتھ بھی ہو تا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نازیبا کام خوبصورتی کو کھا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارا ایک بہترین دوست ہو جس کے ساتھ ہماری ایک طویل گہری رفاقت ہو، لیکن ایک غلطی اِس دوستی کو تباہ کر سکتی ہے۔ ہم اچھے دِنوں کو بھول کر ایک عیب کو یاد رکھتے ہیں۔ آپ اپنے دِن اچھے کام کرنے میں گزارتے ہیں، اور پھر ایک غلطی تمام بھلائی کو مٹا دیتی ہے۔ بھونڈا پن اور نازیبا کام خوبصورتی کو کھا جاتے ہیں۔

صرف محبت ہی ہے جو نازیبا کام نہیں کرتی، برائی پر غالب آتی ہے اور اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ محبت موسیٰ نبی کے عصا کی مانند ہے۔ جب موسیٰ نے فرعون کے سامنے اپنے عصا کو ڈالا تو وہ سانپ بن گیا۔ مصر کے جادوگروں نے بھی ویسا ہی کیا۔ لیکن موسیٰ کے عصا نے اُن کو کھا لیا (پرانا عہدنامہ، خروج 7: 10- 12)۔ سچائی کے عصا نے بطالت اور نازیبا کاموں کے عصاﺅں کو نگل لیا۔

جب ہم مسیح کے فضل کو قبول کرتے ہیں تو وہ ہم میں ایک خوبصورتی کا معجزہ سرانجام دیتا ہے۔ یہ گناہ کے نازیباپن کو ختم کر دیتا ہے۔ لفظ "فضل" کا ایک مطلب زندگی کی خوبصورتی ہے۔ خداوند یسوع زندگی کی خوبصورتی اُنہیں ودیعت کرتا ہے جو اُس کی نجات کو قبول کرتے ہیں۔

خداوند یسوع نے اپنے مقدمہ کے دوران پطرس کے تین مرتبہ کے انکار کو سُنا۔ یہ نازیبا الفاظ تھے، جن کو سُن کر یسوع کا ردعمل کیا تھا؟ لوقا انجیل نویس نے لکھا ہے: "اور خداوند نے پھر کر پطرس کی طرف دیکھا اور پطرس کو خداوند کی وہ بات یاد آئی ... اور وہ باہر جا کر زار زار رویا" (انجیل بمطابق لوقا 22: 61- 62)۔ یسوع کی پطرس پر نگاہ جھڑکنے کی یا طعن آمیز نگاہ نہ تھی۔ یہ لازماً محبت اور ہمدردی سے بھرپور نگاہ ہو گی۔ اِسی لئے اِس نے پطرس کے دِل پر گہرا اثر کیا اور اُس نے توبہ کی۔ خداوند یسوع نے اپنے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد پطرس اور اُس کے ساتھیوں کو اُس وقت مچھلیوں کا ایک بڑا غول بخشا جب وہ ساری رات تمام کوشش سے کوئی مچھلی نہ پکڑ سکے تھے۔ پھرخداوند یسوع نے پطرس سے پوچھا "اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تُو اِن سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا، ہاں خداوند تُو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔"

خداوند یسوع مسیح کی محبت نے پطرس کے انکار کو شفا بخشی۔ یوں اُسے یسوع کی پیروی کرنے اور تقوی ٰکی زندگی بسر کرنے کی تحریک ملی۔

دُعا

اے آسمانی باپ، ہمیں اُن تمام نازیبا الفاظ بولنے پر معاف فرما جو ہمارے لبوں نے ادا کئے، جن سے دوسروں کے احساسات کو تکلیف پہنچی اور ہمارے ضمیر مضطرب ہو گئے۔ ہمیں ہمارے گھروں میں اور اپنے خاندانوں اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں برکت بخش۔ جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اُن کے ساتھ ہمیں محبت سے پیش آنے میں مدد فرما۔ ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم دوسروں کی اصلاح کرنے والے الفاظ کہیں۔ حتیٰ کہ جب دوسرے غلطیاں کریں تو بخش کہ ہم اُن سے ویسا ہی برتاﺅ کریں جیسا یسوع نے انکار کرنے والے پطرس سے کیا، تا کہ ہم اپنے حبیب نجات دہندہ کے نقش قدم پر چلیں جو ہمیں اپنی پیروی کرنے کی تحریک بخشتا ہے اور ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ ہم تقویٰ کی زندگی بسر کریں۔

ہم کمزور ہیں اور تُو ہماری قوت ہے۔ اپنے روح القدس سے ہمیں راہنمائی بخش تا کہ ہم تیری فرمانبرداری کر سکیں اور محبت کی زندگی بسر کریں جو نازیبا برتاﺅ نہیں کرتی اور شرمندہ نہیں ہونے دیتی۔ اے خداوند، میرے منہ پر پہرا بٹھا۔ میرے منہ کا کلام اور میرے دِل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے، اے خداوند، میری چٹان اور میرے فدیہ دینے والے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین

7- محبت اپنی بہتری نہیں چاہتی (1- کرنتھیوں 13: 5)

محبت "اپنی بہتری نہیں چاہتی" کا مطلب یہ ہے کہ محبت اُس بات کی متمنی ہوتی ہے جو دوسروں کے فائدہ میں ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو کسی انسان میں اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ خدا سے پیدا نہ ہو، اور اُس کا روح القدس اُس میں سکونت نہ کرے۔ کیونکہ جو جسم سے پیدا ہوا وہ جسم ہے اور صرف اپنے بارے میں فکرمند ہوتا ہے، جبکہ جو روح سے پیدا ہوا ہے وہ خدا اور دوسروں کے معاملات کے بارے میں فکرمند ہوتا ہے۔

جب ہم کتاب مقدس کی تعلیمات کو سُنتے ہیں اور اُن کا اطلاق نہیں کر سکتے تو اُس وقت اپنے آپ کو عاجز پاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب ہم مسیح کی مثالی زندگی پر غور کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنی کوشش سے اُس کے نقش قدم کی پیروی نہیں کر سکتے۔ ایسی عاجزی اہم اور مبارک ہے کیونکہ جب ہم اپنے آپ کو نالائق سمجھتے ہیں تو اپنے دیوالیہ پن کا اقرار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل میں پناہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ پھر خداوند خدا ہماری جگہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، تا کہ ہم پولس رسول کے ساتھ یہ کہہ سکیں: "میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں، اور اَب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 2: 20)۔ جب ایسا ہوتا ہے تو خداوند مسیح ہم میں اپنی زندگی کی بدولت یہ خوبیاں ودیعت کرتا ہے تا کہ ہم اُس کے نقش قدم پر چل سکیں۔ اگر ہم ٹھوکر کھاتے اور گر پڑتے ہیں تو وہ ہمیں اوپر اُٹھاتا ہے۔ "کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اُس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 10)۔

محبت "اپنی بہتری نہیں چاہتی" کیونکہ یہ دوسروں کی بھلائی کو مقدم رکھتی ہے۔ ایک قدیم یہودی روایت ہے کہ جس جگہ پر ہیکل سلیمانی بنائی گئی، وہ جگہ تھی جہاں دو بھائی آپس میں ملے جن کے دِل محبت سے معمور تھے۔ اُن میں سے بڑا بھائی شادی شدہ تھا جس کے بچے تھے، جبکہ چھوٹا بھائی غیر شادی تھا۔ گندم کی فصل کی کٹائی کے بعد بڑے بھائی نے اپنے آپ سے کہا "اَب ہم گندم کی فصل کاٹ چکے ہیں، اور آدھی فصل میرے پاس ہے اور آدھی میرے بھائی کے پاس ہے۔ میں اُسے اپنے حصہ میں سے گندم کی ایک بوری دوں گا تا کہ وہ اپنی شادی کے اخراجات اور اپنے لئے ایک نئے گھر کی تعمیر کےلئے ادائیگی کر سکے۔" اُسی وقت چھوٹا بھائی بھی اپنے ذہن میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے حصہ میں سے ایک بوری اپنے بھائی کو دے دے گا، کیونکہ وہ اپنے شادی شدہ بھائی کی اپنی بیوی اور بچوں کی طرف ذمہ داریوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اُن دونوں نے جیسا سوچا تھا اُس کے مطابق آدھی رات کو ویسا ہی کیا۔ جب صبح ہوئی اور اُن دونوں نے اپنے اپنے حصہ کا شما ر کرنا شروع کیا تو اُنہوں نے دیکھا کہ کچھ بھی کم نہیں تھا۔ اُنہیں اِس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی، سواُنہوں نے اگلی رات کو بھی ویسا ہی کرنے کا ارادہ کیا جیسا اُنہوں نے پہلے کیا تھا۔ رات کے وقت دونوں بھائی ایک دوسرے سے راستے میں ملے، اور اُن دونوں نے ایک دوسرے کو دینے کےلئے گندم کی بوری اُٹھائی ہوئی تھی۔ اُس وقت دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگ گئے۔ اُس جگہ، محبت کی ملاقات کی جگہ سلیمان کی ہیکل تعمیر ہوئی۔

آخری عشاء کے وقت مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کے کھانے میں شامل تھے، اُس وقت جناب مسیح کھانے سے اُٹھے اور رُومال لے کر اپنی کمر سے باندھا، اُن کے پاﺅں دھوئے اور رُومال سے اُنہیں پونچھا اور پھر اُن سے کہا: "کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ ... پس جب مجھ خداوند اور اُستاد نے تمہارے پاﺅں دھوئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاﺅں دھویا کرو" (انجیل بمطابق یوحنا 13: 4- 14)۔

خدا تعالیٰ نے ہم سے عظیم محبت کی اور ہمیں قبول کیا۔ اُس نے ہمیں کہا ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے ویسی محبت رکھیں جیسی محبت وہ ہم سے رکھتا ہے یا ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ اِسی طرح، خدا تعالیٰ ہم سے یہ کہتا ہے کہ جیسے اُس نے ہمیں معاف کیا ہے ہم اپنے آپ کو قبول اور معاف کریں۔ کیونکہ اگر ہم اپنے آپ کو ویسے ہی معاف کرتے ہیں جیسے خدا ہمیں معاف کرتا ہے، تو ہم دوسروں کو قبول اور معاف کر سکتے ہیں۔ اِس طرح سے ہم محبت کی ایک عظیم ترین صفت کا اپنی زندگی پر اطلاق کرتے ہوئے اِس رسولی حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں: "میری یہ خوشی پوری کرو کہ یکدِل ہو۔ یکساں محبت رکھو۔ ایک جان ہو۔ ایک ہی خیال رکھو۔ تفرقے اور بےجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 2- 8)۔ سو، مسیح اُس محبت کی بلند ترین مثال ہے جو دوسروں کے بارے میں سوچتی ہے۔ کاش کہ ہم مسیح کے اندازِ فکر کو اپنائیں جو دوسروں کو قبول کرتا، برکت دیتا اور معاف کرتا ہے۔ کیونکہ جب ہم مسیح کے اندازِ فکر کو اپنی زندگی میں اپناتے ہیں تو ہم اُس کی محبت کے ساتھ محبت کرسکتے ہیں، پھر ہم اپنی ستایش، خوشی یا فائدے کے متمنی نہیں ہوتے، کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کی بادشاہی اور راستبازی کی تلاش کرتے ہیں اور یہ سب چیزیں ہمیں خود بخود مل جائیں گی (انجیل بمطابق متی 6: 33)۔

الف- محبت دوسروں کی بہتری چاہتی ہے کیونکہ اِس میں رحم ہوتا ہے۔

جو فرد خدا تعالیٰ کی رحمت اور معافی کا تجربہ کرتا ہے وہ نتیجہ کے طور پر خود بھی دوسروں کی طرف رحمدل ہو گا اور اُنہیں معاف کرے گا، اور دوسروں کی بھلائی کےلئے کوشاں ہو گا۔ جب بھی خدا کی رحمت ایک شخص کی زندگی میں کام کرتی ہے تو پھر اُس میں سے ہو کر دوسروں میں بھی کام کرتی ہے۔

پرانے عہدنامہ میں زبور نویس کے الفا ظ کس قدر خوبصورت ہیں: "انسان کی روشیں خداوند کی طرف سے قائم ہیں اور وہ اُس کی راہ سے خوش ہے۔ اگر وہ گر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا کیونکہ خداوند اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھالتا ہے۔ میں جوان تھا اور اَب بوڑھا ہوں تو بھی میں نے صادِق کو بیکس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔ وہ دِن بھر رحم کرتا ہے اور قرض دیتا ہے اور اُس کی اولاد کو برکت ملتی ہے" (زبور 37: 23- 24)۔ آیات 23- 25 ایک ایماندار کےلئے خداوند کی محبت اور حمایت کو بیان کرتی ہیں، اور اِن میں اِس بات کا ذِکر ملتا ہے کہ کیسے خداوند ایماندار اور اُس کی اولاد کو اچھی چیزوں سے آسودہ کرتا ہے۔ اِس کے جواب میں ایماندار کا ردعمل دِن بھر رحم کرنے اور قرض دینے میں نظر آتا ہے اور اُس کی اولاد دوسروں کےلئے برکت ہو گی کیونکہ ماضی میں خداوند نے اُس پر اپنی شفقت و رحمت ظاہر کی۔

جس بات کا ذِکر زبور نویس نے زبور 37 میں کیا ہے وہی بات ہمیں پولس رسول کے الفاظ میں بھی نظر آتی ہے: "پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی معاف کرو" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 12- 13)۔

ب- محبت دوسروں کی بہتری چاہتی ہے کیونکہ اِس میں فیاضی پائی جاتی ہے۔

محبت میں فیاضی ہوتی ہے۔ اِس میں کسی چیز کی توقع کے بغیر دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس اِس کی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں سے ایک کا اطلاق ہمیں آج مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اِس مثال کا تعلق ابتدائی کلیسیا سے ہے اور نئے عہدنامہ میں رسولوں کے اعمال نامی کتاب میں اِس کا ذِکر موجود ہے: "اور جو ایمان لائے تھے وہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور سب چیزوں میں شریک تھے۔ اور اپنا مال و اسباب بیچ بیچ کر ہر ایک کی ضرورت کے موافق سب کو بانٹ دیا کرتے تھے" (اعمال 2: 44- 45)۔ اُس وقت کوئی بھی ضرورتمند نہ رہا کیونکہ جن کے پاس تھا اُنہوں نے اُنہیں دیا جن کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اِسی کتاب کے چوتھے باب میں ہم پڑھتے ہیں کہ "اور ایمانداروں کی جماعت ایک دِل اور ایک جان تھی اور کسی نے بھی اپنے مال کو اپنا نہ کہا بلکہ اُن کی سب چیزیں مُشترک تھیں۔ اور رسول بڑی قدرت سے خداوند یسوع کے جی اُٹھنے کی گواہی دیتے رہے اور اُن سب پر بڑا فضل تھا۔ کیونکہ اُن میں کوئی بھی محتاج نہ تھا۔ اِس لئے کہ جو لوگ زمینوں یا گھروں کے مالک تھے اُن کو بیچ بیچ کر بِکی ہوئی چیزوں کی قیمت لاتے۔ اور رسولوں کے پاﺅں میں رکھ دیتے تھے۔ پھر ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے موافق بانٹ دیا جاتا تھا" (اعمال 4: 33- 35)۔ یہی باب ہمارے سامنے ایک شخص کی قابل تقلید مثال پیش کرتا ہے جو "یوسف نام ایک لاوی تھا جس کا لقب رسولوں نے برنباس یعنی نصیحت کا بیٹا رکھا تھا اور جس کی پیدایش کپرس کی تھی۔ اُس کا ایک کھیت تھا جسے اُس نے بیچا اور قیمت لا کر رسولوں کے پاﺅں میں رکھ دی" (اعمال 4: 36- 37)۔

فیاض محبت کی یہ ایک مثال ہے جو اپنا سب کچھ دیتی ہے اور کثرت سے دیتی ہے۔ تاہم، یروشلیم کی کلیسیا میں سب چیزوں کا یہ مشترک ہونا مسلسل جاری نہ رہا، کیونکہ یہ پیدا کرنے والی کلیسیا نہیں بلکہ خرچ کرنے والی کلیسیا تھی۔ جب اِس کے وسائل ختم ہو گئے تو یہ کلیسیا غربت کا شکار ہو گئی۔ اِسی لئے پولس رسول ہمیں سکھاتا ہے: "جسے محنت کرنا منظور نہ ہو وہ کھانے بھی نہ پائے" (نیا عہدنامہ، 2- تھسلنیکیوں 3: 10)۔ اِسی طرح افسیوں کی کلیسیا کے بزرگوں کو پولس رسول نے کہا: "تم آپ جانتے ہو کہ اِنہی ہاتھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی حاجتیں رفع کیں" (رسولوں کے اعمال 20: 34)۔ پولس رسول نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے خیمہ دوزی کا کام کیا تھا۔

ابتدائی کلیسیا کے ارکان کی باہمی محبت بہت عظیم تھی کیونکہ اُنہوں نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ اور ایک دوسرے کی خاطر دے دیا۔ اور چونکہ اُن میں سے زیادہ تر یہ توقع کرتے تھے کہ اُن کی زندگی کے دوران ہی مسیح کی دوبارہ آمد ہو گی، اِس لئے اُنہوں نے باہمی فائدے کےلئے اپنا مال و اسباب بیچ دیا۔ تاہم، کوئی بھی خداوند مسیح کی دوبارہ آمد کے وقت کی پیش بینی نہیں کر سکتا، اِس لئے آئیں ہم کام کریں، دیانتداری سے محنت کریں اور رسولی حکم کو پوراکریں: "چوری کرنے والا پھر چوری نہ کرے بلکہ اچھا پیشہ اختیار کر کے ہاتھوں سے محنت کرے تا کہ محتاج کو دینے کےلئے اُس کے پاس کچھ ہو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 28)۔

سو آئیں، ہم اپنے فیاض خدا سے محبت کریں تا کہ ہم بھی اُس کی طرح فیاض ہو جائیں کیونکہ "جو کوئی اپنے جسم کےلئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو رُوح کےلئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹے گا۔ ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدِل نہ ہوں گے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔ پس جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاص کر اہلِ ایمان کے ساتھ" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 8- 10)۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی محبت آپ کےلئے ایک برکت ہے اور آپ نے الہٰی فیاضی سے آسودگی پائی ہے جو اپنی بھلائی نہیں چاہتی بلکہ دوسروں کی بھلائی چاہتی ہے۔ اور خود آسودگی پانے والا آسمانی فیاضی میں دوسروں کوبھی شامل کرتا ہے۔ "اور بھلائی اور سخاوت کرنا نہ بھولو اِس لئے کہ خدا اَیسی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 16)۔

ج- محبت اپنی بہتری نہیں چاہتی کیونکہ یہ دوسروں کی روحانی بہتری چاہتی ہے۔

خداوند ہماری روحانی بھلائی چاہتا ہے۔ وہ ہماری ویسے ہی تلاش کرتا ہے جیسے اچھا چرواہا اپنی ایک کھوئی ہوئی بھیڑ کی اُس وقت تک تلاش کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اُسے مل نہیں جاتی۔ اچھا چرواہا آپ کی جان کو بحال کرنے کےلئے اور اپنے نام کی خاطر آپ کو صداقت کی راہوں پر لے جانے کےلئے کبھی بھی آپ کی تلاش کرنا ترک نہیں کرتا (پرانا عہدنامہ، زبور 23: 3)۔ "کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے" (انجیل بمطابق لوقا 19: 10)۔

دوسروں سے محبت کرنے کی ایک شاندار مثال پولس رسول کے یہودیوں کی جانب رویہ میں نظر آتی ہے جنہوں نے اُسے ہراساں کیا اور اُس کی مخالفت کی۔ اُنہوں نے پہلے مسیح کو مصلوب کیا تھا اور اَب انجیل کی منادی کو روکنا چاہتے تھے۔ حتیٰ کہ وہ یہودی جنہوں نے مسیح کے پیغام کو قبول کیا اُنہوں نے غیرقوموں تک انجیل کی منادی کے پھیلنے کو روکنا چاہا۔ پولس رسول نے اُن پر اپنے جذبات کا اظہار یہ کہتے ہوئے کیا: "میں مسیح میں سچ کہتا ہوں۔ جھوٹ نہیں بولتا اور میرا دِل بھی رُوح القدس میں گواہی دیتا ہے۔ کہ مجھے بڑا غم ہے اور میرا دِل برابر دُکھتا ہے۔ کیونکہ مجھے یہاں تک منظور ہوتا کہ اپنے بھائیوں کی خاطر جو جسم کے رُو سے میرے قرابتی ہیں میں خود مسیح سے محروم ہو جاتا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 9: 1- 3)۔ وہ نجات سے محروم ہو جانے کی تمنا کرتا ہے کہ اگر یہ محرومی یہودیوں کی تبدیلی کی طرف لے کر جاتی ہے اور اُن کی نجات کا باعث بنتی ہے۔

کیا آپ نے سیدنا مسیح کی خاطر کسی چیز کی قربانی دی ہے، جس سے کسی فرد کی مسیح کو جاننے کی طرف راہنمائی ہوئی ہو؟ ذرا سوچئے کہ خداوند مسیح نے آپ کی خاطر کیا کیا ہے، اور آپ کی نجات کےلئے کیسے اپنی قربانی دی؟ اُس کی آواز کو سُنیں کہ وہ آپ سے کہہ رہا ہے: اور تم، تم نے میری خاطر کیا دُکھ سہا ہے؟

د- جو محبت اپنی بہتری نہیں چاہتی اُسے آسمانی جزا ملتی ہے۔

ہم سب آسمانی جزا کے متمنی ہوتے ہیں، اور دوسروں کی خدمت کرنے اور اُن کی بھلائی کے طالب ہونے سے ہم اِس کی تمنا کرتے ہیں۔ اِس کی بہترین مثال ہمارے عظیم نجات دہندہ کی مثال ہے جس نے "انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سربُلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 8- 11)۔ کیونکہ جو اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کےلئے کوشاں ہوتا ہے اور جو دوسروں کی عزت کرتا ہے آسمانی باپ اُس کی ویسے ہی عزت کرے گا جیسے باپ نے بیٹے کی عزت کی ہے جس نے اپنا آپ گنہگار انسانیت کےلئے دے دیا۔

آئیں، ہم مسیح کے نقشِ قدم پر چلیں تا کہ ہمارا شمار اُس کے دہنے ہاتھ والے لوگوں میں ہو جن سے بادشاہ کہتا ہے: "آﺅ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔ کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا۔ تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا۔ تم نے مجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ ننگا تھا۔ تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا۔ تم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا۔ تم میرے پاس آئے" (انجیل بمطابق متی 25: 34- 36)۔ خداوند آپ کے بھلائی اور محبت کے ہر ایک کام کو چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا یا غیرمعمولی کیوں نہ ہو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور اُس کے اجر میں آپ کو نہ صرف دُنیا میں بڑی برکت عطا کرتا ہے بلکہ ابدی میراث بھی بخشتا ہے جو بنائے عالم سے آپ کےلئے تیار کی گئی ہے۔ "اور جو کوئی شاگرد کے نام سے اِن چھوٹوں میں سے کسی کو صرف ایک پیالہ ٹھنڈا پانی ہی پلائے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں وہ اپنا اجر ہرگز نہ کھوئے گا" (انجیل بمطابق متی 10: 42)۔

محبت کے رسول پولس نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو ایک خوبصورت نصیحت کی کہ "میں نے کسی کی چاند ی یا سونے یا کپڑے کا لالچ نہیں کیا۔ تم آپ جانتے ہو کہ اِنہی ہاتھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی حاجتیں رفع کیں۔ میں نے تم کو سب باتیں کر کے دِکھا دیں کہ اِس طرح محنت کر کے کمزوروں کو سنبھالنا اور خداوند یسوع کی باتیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے خود کہا، دینا لینے سے مبارک ہے" (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 20: 33- 35)۔ یہاں پولس رسول نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اُس محبت کے ساتھ محبت کریں جو اپنی بہتری نہیں چاہتی بلکہ خداوند مسیح کے الفاظ کے عین مطابق عمل کرتی ہے کہ دینا لینا سے مبارک ہے۔ مسیح نے اِس کی مثال خود اُس وقت قائم کی جب اُس نے اپنا آپ ہمارے لئے دے دیا۔ پولس نے بھی یہ مثال قائم کی کیونکہ اُس نے اپنی بہتری چاہنے کی نسبت دوسروں کی خدمت کی اور دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے بوجھ اُٹھائے۔ اِس لئے، خداوند نے پولس کو برکت بخشی۔ خدا تعالیٰ کے روح القدس کے الہام سے لکھی گئی اُس کی تعلیمات اَب بھی ایمانداروں کےلئے مشعلِ راہ ہیں اور مسیح کی دوبارہ آمد تک مشعلِ راہ رہیں گی جو اُنہیں اپنی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی زندگی کےلئے خدا کی مرضی کو جاننے کےلئے راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

دُعا

اے خداوند، مجھے سکھا کہ میں اپنی بہتری چاہنے سے پہلے اپنے جیون ساتھی، بچوں، والدین، پڑوسیوں اور دوستوں کی بھلائی چاہوں۔

تیرا شکر ہو کہ تُو نے سب لوگوں کےلئے اپنے بیٹے کو بخش کر مجھے ایک خوبصورت نمونہ دیا ہے۔ میں بیٹے کےلئے بھی تیرا شکر کرتا ہوں جس کی تمجید و ستایش ہو کہ اُس نے ہمیں اپنا آپ دینے کا نمونہ بخشا ہے۔ ہمیں سکھا کہ ہم اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی بہتری چاہئیں، تا کہ ہم تیرے قیمتی کفارہ کی قدر کرنے والے ٹھہریں اور یہ سُن سکیں کہ "اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش!" بخش کہ ہم تیرے الٰہی حکم کی فرمانبرداری کریں اور اپنے آسمانی اجر کو پہچانیں۔ ہماری دُعا سُن۔ یسوع کے نام میں۔ آمین

8- محبت جُھنجھلاتی نہیں (1- کرنتھیوں 13: 5)

غصہ ایک فطری جذبہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر رکھا ہے کہ مناسب وقت اور جگہ پر ظاہر کیا جائے۔ تاہم، کچھ لوگ اِس فطری جذبہ کو نامناسب حالات میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن محبت ایسے نہیں کرتی کیونکہ یہ جھنجھلاتی نہیں۔

جب پولس رسول اپنے وقت کی تہذیب و تمدن کے مرکز اتھینے میں گیا تو "شہر کو بتوں سے بھرا ہوا دیکھ کر اُس کا جی جل گیا" (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 17: 16)۔ یہ پاک غصہ ہے۔ اپنے وقت کے یہ فلسفی، بڑے مفکر اور سرکردہ عالم کیسے اپنے شہر کو بتوں کے ساتھ بھر سکے تھے؟ اُن میں سے کچھ نے جب ایک معجزہ دیکھا تو اُلجھن کا شکارہو گئے کہ کس خدا نے اُسے کیا، اِس لئے اُنہوں نے ایک ایسی قربان گاہ بنا دی جس کا اُنہوں نے نام رکھا: "نامعلوم خدا کےلئے" (رسولوں کے اعمال 17: 23)۔ دُنیوی باتوں کے لحاظ سے وہ دانا تھے لیکن رُوحانی عالم کے بارے میں نافہم تھے۔ اِس لئے پولس رسول اپنے دِل میں سخت غصہ ہوا، اور اُس نے اِس کا اظہار اپنے الفاظ میں کیا۔

وہ غصہ جو محبت میں نہیں کیا جاتا گنہگار غصہ ہے، جس کے بارے میں ہماری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی جڑیں ہماری زندگی سے نکال باہر کرے۔ کیونکہ جب ہم مسیح میں نئی زندگی اور نجات پاتے ہیں تو وہ ہمیں ہمارے ماضی کے گناہوں سے معاف کر دیتا ہے۔ ہمارا منجی ہمیں ہماری تمام زندگی گناہ کے اُن دھبوں سے محفوظ رکھتا ہے جو نہایت آسانی سے ہمیں گھیر لیتے ہیں، اور وہ ہمیں ہماری پرانی بگڑی ہوئی فطرت کے تمام بوجھ سے رہائی بخشتا ہے جو ہمیں ہمارے اندر اپنا اثر محسوس کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس طرح سے وہ ہمیں ہم پر گناہ کے اختیار سے بچاتا ہے، اور ہم اپنی عقل میں نئے بن جاتے ہیں اور روزبروز گناہوں سے نجات پاتے ہیں۔ یوں وہ ہماری تقدیس کرتا ہے اور ہمارے دِلوں کو پاک صاف کرتا ہے۔

الف- گنہگار غصہ

دو طرح کی صورتحال میں غصہ گناہ ہے:

(1) بغیر کسی وجہ کے غصہ

مسیح نے اپنے پہاڑ پر دیئے گئے وعظ میں فرمایا: "جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدر عدالت کی سزا کے لائق ہو گا" (انجیل بمطابق متی 5: 22)۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو مناسب طور پر غصہ ہوتے ہیں اور اِس حکم کو پورا کرتے ہیں کہ "غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور ابلیس کو موقع نہ دو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 26- 27)۔ اور دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو بغیر کسی وجہ کے اپنے بھائی پر غصہ ہوتے ہیں اور آسمانی منصف کی عدالت میں اُن کا انصاف ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم محض اِس لئے غصہ ہوتے ہیں کہ کوئی فرد ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔ کئی مرتبہ ہم صرف اِس لئے غصہ ہو جاتے ہیں کہ کوئی فرد ہمارے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہوتا ہے، اِس لئے ہم اپنے مزاج پر قابو کھو بیٹھتے ہیں اور نازیبا الفاظ ہمارے ہونٹوں سے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہم اپنے بہت ہی قریبی اور عزیز ترین لوگوں کے ساتھ بھی غصہ ہو سکتے ہیں کہ جب ہم اُن کے اپنے دِفاع میں اُن کی بات نہیں سُنتے، یا جب ہم اُنہیں اپنے نکتہ نظر کا دِفاع کرنے کا موقع نہیں دیتے۔ ہم اُن کے ساتھ اِس لئے بھی غصہ ہو سکتے ہیں کیونکہ ہم اُنہیں بغیر کوئی سوال کئے اپنے نظریات کی پیروی کرنے کےلئے کہتے ہیں۔ وہ باتیں جو اِنسان میں بہت تکلیف کا باعث بنتی ہیں اُن میں شادی شدہ زندگی کے تنازعات بھی شامل ہیں اور ماں باپ کے بچوں کے ساتھ جھگڑے بھی ہیں، باوجود کہ بچے اپنے والدین کےلئے سب سے عزیز ترین ہوتے ہیں۔ تاہم، ایسی محبت صرف جذباتی اور جبلی ہوتی ہے، جسے مسیح کی محبت کے مطابق آسمانی تعلیم اور دُرستی کی ضرورت ہے۔

(2) بدلے کی خواہش کے ساتھ غصہ

پولس رسول نے روم کی کلیسیا کے ارکان کو کہا: "اے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھا ہے کہ خداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہی دوں گا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 19)۔ ہم مناسب جگہ بنا کر غصہ کو جگہ دیتے ہیں جس میں غصہ وہ طوفان نہیں بنتا جو اچھے اور بُرے دونوں کو اُڑا کر رکھ دے۔ اگر ہم گناہ پر غصہ ہوتے ہیں تو ہم بدلہ نہیں لیتے، کیونکہ غصہ میں گناہ قصوروار فرد کے خلاف بدلہ لینے کا رُجحان ہے۔

پولس رسول نے افسیوں کی کلیسیا کو حکم دیا: "ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔ اور ایک دوسرے پر مہربان اور نرم دِل ہو اور جس طرح خدا نے مسیح میں تمہارے قصور معاف کئے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 31- 32)۔ کیونکہ سچی محبت کسی نامعقول وجہ سے غصہ نہیں ہوتی۔ سو، اگر یہ ایک ایسی وجہ سے غصہ ہوتی ہے جو معقول ہے تو یہ کبھی بھی بدلہ لینے کی طرف نہیں جائے گی۔

ب- گنہگار غصہ کی برائیاں

(1) گنہگار غصہ ایک فرد سے اُس کا اطمینان اور توازن چھین لیتا ہے:

جب کوئی فرد غصہ میں آتش فشاں کی طرح پھٹ جاتا ہے، تو وہ اپنے توازن اور ذہنی سکون کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ تب وہ اپنے الفاظ اور جسم کو قابو میں رکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اُس کے الفاظ گولی کی طرح نکل کر دوسروں کو مجروح کرتے ہیں اور اُس کے اپنے اطمینان کو بھی تباہ کرتے ہیں۔ جب غصہ کے بعد اُسے ہوش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے بولے ہوئے غصیلے الفاظ کو واپس نہیں لے سکتا جو ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔ وہ اُن پروں کی مانند بن جاتے ہیں جنہیں ہوا اُن جگہوں پر بھی اُڑاتی پھرتی ہے جہاں وہ نہیں چاہتا تھا اور جن جگہوں کو وہ جانتا بھی نہیں۔

سلیمان نبی نے کہا: "تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر کیونکہ خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے" (پرانا عہدنامہ، واعظ 7: 9)۔ غصہ ایک انسان سے اُس کا توازن چھین لیتا ہے، کیونکہ اُس کا غصہ اُس کے سینے میں رہتا ہے اور اُسے دوسروں سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک فرد کےلئے اُس وقت نہایت شرمندگی کا مقام ہوتا ہے جب وہ ایک محبت کرنے والے شخص کے ساتھ غصہ ہوتا ہے اور اُس کی برداشت جواب دے دیتی ہے، لیکن یکدم وہ محبت کرنے والا شخص اُسے معاف کر دیتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایماندار جو خداوند سے محبت کرتا اور اُس کے جلال کی سربلندی کےلئے کام کرتا ہے، اُس کی دوسرے ایماندار کے ساتھ برداشت جواب دے دیتی ہے اور وہ رائے میں فرق یا متصادم شخصی مفادات کی وجہ سے نامناسب الفاظ بولتا ہے اور تب اُسے پتا چلتا ہے کہ "خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے۔"

(2) گنہگار غصہ روحانی برکت سے محروم کر دیتا ہے:

پہاڑ پر دیئے گئے وعظ میں مسیح نے فرمایا: "پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو، اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔ تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آ کر اپنی نذر گذران" (انجیل بمطابق متی 5: 23- 24)۔ اِس آسمانی حکم میں مسیح نے میل ملاپ کو قربانی چڑھانے پر فوقیت دی ہے۔ کیونکہ خداوند ایک محبت کرنے والے دِل اور خالص نفس کی قربانی قبول کرتا ہے، لیکن وہ اُس فرد کی دُعا اور قربانی کو رد کر دیتا ہے جو غصہ ہوتا ہے۔

جب ایک باپ کی اپنے بیٹے کے ساتھ قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، تو اُس کی حُجّت کرنے کی صلاحیت جاتی رہتی ہے اور وہ اپنے بیٹے کی اچھائی کی جانب ترغیب نہیں کر سکتا، کیونکہ غصہ کرنے والا فرد عقلی طور پر نہیں سوچتا۔ غصہ کی وجہ سے وہ اپنی منطقی صلاحیت کو استعمال نہیں کر سکتا۔ اپنے نکتہ نظر کی تائید کےلئے منطقی صلاحیت کو غصہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جب کوئی فرد غصہ ہوتا ہے، تو وہ ایک اچھی مثال نہیں ہو سکتا، اور اپنے اندر مسیح کی صورت کو بگاڑ دیتا ہے۔

پرانے عہدنامہ میں امثال کی کتاب میں گنہگار غصہ کے تعلق سے بڑی حکمت کی باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ داناﺅں کے دانا جناب سلیمان نبی نے کہا: "غصہ ور آدمی سے دوستی نہ کر، اور غضبناک شخص کے ساتھ نہ جا۔ مبادا تُو اُس کی روِشیں سیکھے اور اپنی جان کو پھندے میں پھنسائے" (امثال 22: 24- 25)۔ کیونکہ ایک غصیلا شخص دوسرے لوگوں کو مشتعل کرتا ہے اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو خود داری سے محروم کرتا ہے۔

(3) گنہگار غصہ ایک شخص کو سماجی وقار سے محروم کر دیتا ہے:

گنہگار غصہ کرنے والا فرد معاشرہ میں بُری ساکھ رکھتا ہے۔ سلیمان نبی نے کہا: "قہر آلودہ آدمی فتنہ برپا کرتا ہے اور غضبناک گناہ میں زیادتی کرتا ہے" (امثال 29: 22)۔ جو شخص اپنے کام کا آغاز ہی غصہ سے کرتا ہے اُس کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ گناہ کرتا ہے اور پھر اپنے ہوش میں آتا ہے، یوں وہ گناہ کے بعد گناہ کرتا ہے اور معاشرے میں اُس کی ساکھ خراب ہو جاتی ہے۔

ج- ہم گنہگار غصہ پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟

رُوح القدس نے ایمانداروں کو رُوحانی نعمتیں اور فضل بخشا ہے کہ ایمان میں ترقی کرنے کےلئے اُن کی مدد ہو۔ تو پھر کیسے وہ ضبطِ نفس میں رُوح القدس کے پھل سے محروم ہو سکتے ہیں جو مہربان اور صابر ہے؟ ہم سب اپنی روحانی جنگ لڑ تے ہیں اور یہ جاننے کے مشتاق نظر آتے ہیں کہ کس وجہ سے جناب مسیح ہمارے پاس دُنیا میں آئے۔ جب ہم مسیح کے ساتھ ہیں تو کوئی مایوسی نہیں۔ روح القدس ہم سب کو اپنے مزاج کو قائم رکھنے، اپنا آپ قابو میں کرنے اور محبت کی زندگی گزارنے میں مدد فراہم کرتا ہے جو غصہ سے مشتعل نہیں ہوتی۔

ہمیں اکثر اِس تسلی کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم مسیح میں نئی مخلوق ہیں کیونکہ "... جو مسیح یسوع کے ہیں اُنہوں نے جسم کو اُس کی رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچ دیا ہے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 5: 24)۔ کیونکہ یہ اخلاقی اصول صرف اخلاقی نہیں ہیں بلکہ مسیح میں ایک نئی زندگی کا طرزِ عمل ہیں۔ جن کی زندگی بدل چکی ہے، اُن کی زندگی اِس بات کا عملی ثبوت ہے کہ "اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 5: 17)۔ سو، جب ہم غصہ پر غالب آنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک نئی فطرت کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کےلئے زندگی گزارتی ہے اور اُس کے پاک روح کے اختیار میں رہتی ہے، تا کہ ہم اپنا آپ پاک روح کی سپردگی میں دیتے رہیں جو خدا ہے۔ جب ہم اُس کے تابع ہوتے ہیں تو ہمارے اعصاب اُس کے اختیار میں رہتے ہیں اور وہ ہمیں غصہ ہونے سے بچاتا ہے۔

ہم غصہ پر غالب آنے کےلئے چار نصیحتوں کی پیروی کر سکتے ہیں:

(1) آئیے ہم حلیمی سیکھیں، کیونکہ ہم میں عیب موجود ہیں۔

ہم سب خطاکار ہیں، اُن بھیڑوں کی مانند ہیں جو بھٹک گئی ہیں (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 6)۔ اپنی راہ کی درستی کےلئے ہمیں خداوند کے فضل کی ضرورت ہے۔ اپنے ادراک کی وسعت کےلئے ہمیں اُس کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ پر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم جان سکیں کہ ہم دوسروں سے بہتر نہیں ہیں۔

جب آپ کسی فرد پر غصہ ہوتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اُس کی طرح آپ میں بھی عیب موجود ہیں، اور خدا تعالیٰ اور دیگر ایمانداروں نے آپ کو قبول کیا ہے۔ سو، جس شخص کے ساتھ آپ غصہ ہوتے ہیں اُس کو بھی اپنی ہی طرح کا شخص سمجھیں۔

(2) ہم دوسروں کے گناہوں کو اُن کے تناسب سے باہر نہ لائیں اور نہ ہی اُس بدی کا ڈھنڈورا پیٹیں جو اُن کے گناہوں نے ہمارے خلاف کی ہے۔

ہم دوسروں کے گناہ کے نتیجہ کے طور پر غصہ ہو سکتے ہیں، لیکن ہمیں گناہ اور غصہ کی وسعت کا لازمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے: کیا ہمارے خلاف دوسرے کے گناہ کاحجم ہمارے غصہ کی وسعت کا کوئی جواز پیش کرتا ہے؟ ہمیں دوسروں کے گناہوں کو محدب عدسہ سے نہیں دیکھنا جو اُن کے منفی اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔

پولس رسول نے جو عظیم اسباق سکھائے ہیں اُن میں سے معافی کا سبق بہت اہم ہے۔ جب اُس نے قیصر روم نیرو کی عدالت میں اپنے مقدمہ کےلئے اپیل کی تو اُس نے اپنے شاگرد تیمتھیس کو اِس بارے میں یہ کہتے ہوئے لکھا: "میری پہلی جوابدہی کے وقت کسی نے میرا ساتھ نہ دیا بلکہ سب نے مجھے چھوڑ دیا۔ کاش کہ اُنہیں اِس کا حساب دینا نہ پڑے۔ مگر خداوند میرا مددگار تھا اور اُس نے مجھے طاقت بخشی تا کہ میری معرفت پیغام کی پوری منادی ہو جائے اور سب غیرقومیں سُن لیں اور میں شیر کے منہ سے چھڑایا گیا۔ خداوند مجھے ہر ایک بُرے کام سے چھڑائے گا اور اپنی آسمانی بادشاہی میں صحیح سلامت پہنچا دے گا۔ اُس کی تمجید ابدُالآباد ہوتی رہے۔ آمین" (نیا عہدنامہ، 2- تیمتھیں 4: 16- 18)۔ شاید ہم توقع کر رہے ہوں کہ پولس رسول نے اُن ایمانداروں کو برا بھلا کہا ہو گا جن کی اُس نے مسیح کی پہچان تک راہنمائی کی تھی اور جن کی خاطر اُس نے بہت دُکھ سہے تھے۔ جب اُسے اُن کی نفسی، جذباتی، اخلاقی اور مالی مدد کی بہت سخت ضرورت تھی تو اُنہوں نے اُسے اُس کی مصیبت میں چھوڑ دیا۔ لیکن غور کیجئے اُس کے الفاظ کس قدر اچھے ہیں: "کاش کہ اُنہیں اِس کا حساب دینا نہ پڑے۔" اُس نے خداوند کی ستایش کی کہ اُس نے اُس کا ساتھ دیا، اُسے تقویت بخشی تا کہ انجیلی پیغام کی پوری طرح سے منادی ہو اور وہ سب تک پہنچے۔ اور صرف یہی نہیں ہے، کیونکہ اُس نے گواہی دی کہ خدا مستقبل میں بھی اُسے چھڑائے گا۔ جیسے آج بہت سے لوگ کرتے ہیں پولس رسول نے ویسے دوسروں کی خطاﺅں کا حساب نہ رکھا۔ اُس نے اُن لوگوں کے خلاف کچھ نہ کیا جنہوں نے اُس کے حقوق کو نظر انداز کیا، اور جو کچھ کیا وہ سب خدا تعالیٰ کے جلال کےلئے کیا۔

(3) آئیے ہم خطاکار کو معاف کریں۔

جب کوئی ہمارے خلاف برائی کرتا ہے تو ہم اُس کے محرکات کا مثبت طور پر تجزیہ کر سکتے ہیں، سو، آئیے ایسے شخص کو معاف کرنے کےلئے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے وہ کریں۔ ہماری سامنے مسیح کی ایک بہترین مثال ہے اور اُس کے قد کے اندازہ کے موافق پہنچنا ہماری اُمید ہے جس نے اپنے خلاف برائی کرنے والوں کےلئے دُعا کی، جن کےلئے جو کچھ وہ بہترین کر سکتا تھا اُس نے کیا۔ مسیح نے اُن کےلئے دُعا کی: "اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں" (انجیل بمطابق لوقا 23: 34)۔ اِسی بات کا اعلان پولس رسول نے کیا: "اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 8)۔ خدا کے فضل سے ہم شدید اور فوری غصہ سے بچیں اور قہر کرنے میں دھیمے ہوں تا کہ ہم اُن محرکات کا تجزیہ کر سکیں جن کی وجہ سے دوسرے ہمارے خلاف گناہ کرتے ہیں۔ "اے میرے پیارے بھائیو! یہ بات تم جانتے ہو۔ پس ہر آدمی سُننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما ہو۔ کیونکہ انسان کا قہر خدا کی راستبازی کا کام نہیں کرتا" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 19- 20)۔

(4) غصہ کے منفی نتائج کا اندازہ لگائیں۔

جب ایک فرد کے غصہ میں پھٹ پڑنے کے بعد اوسان بحال ہوتے ہیں تو جو کچھ اُس نے کہا ہوتا ہے اُس پر اُسے افسوس ہوتا ہے، ایسے شخص کو ایک چینی کہاوت یاد رکھنی چاہئے: "اگر آپ اپنا منہ بند رکھیں گے تو آپ مکھیوں کو اندر جانے سے روک سکیں گے۔" تب اُسے یہ قدیم نصیحت بھی یاد آئے گی کہ "بولنا چاندی ہے اور خاموشی سونا"، اور اِس کے ساتھ ساتھ عربی شاعری کا یہ مصرع بھی یاد رکھنا چاہئے کہ "ہو سکتا ہے کہ میں کبھی خاموشی پر ندامت کا اظہار کروں، لیکن بولنے کے بہت سے ایسے وقت ہیں جن پر مجھے ندامت ہے۔"

حکم خداوندی پر عمل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جہاں پر حکم ہے وہاں اُس پر عمل کرنے کےلئے کافی فضل بھی موجود ہے، کیونکہ خداوند بذات خود حکم کا منبع بھی ہے اور فضل کا منبع بھی ہے۔ وہ ہمارے مانگنے سے پہلے جانتا ہے کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے۔

دُعا

اے خدا تعالیٰ، تُو میرے نفس کو جانچ اور دوسروں کے ساتھ میرے الفاظ اور تعلقات کو پرکھ۔ اپنے روح القدس کے وسیلہ سے میرے رویہ پر غالب آ۔ تیرا شکر ہو کہ تُو اُس تمام بدی کو جو میں نے تیری بادشاہی، اپنے بھائیوں بہنوں اور اپنے خلاف کی، معاف کرتے ہوئے میرے ساتھ برتاﺅ کرتا ہے۔ میں نے تو تیرا ہی گناہ کیا ہے۔

جب میں اپنا ضبط کھو کر غصے ہو جاتا ہوں تو میری زبان کو قابو کر اور مجھے اپنی محبت بخش۔ مجھے اِس بات کی یاد دہانی کرا کہ تُو نے کس قدر مجھے معاف کیا ہے تا کہ میں بھی معاف کر سکوں، اور یہ بھی یاد دِلا کہ تُو نے کس قدر مجھے برداشت کیا ہے تا کہ میں بھی دوسروں کے ساتھ برداشت سے پیش آﺅں۔ میری مدد فرما کہ میں بغیر کسی وجہ کے غصہ نہ ہوں، بلکہ تیرے فضل سے تمام باطل غصہ اور کڑواہٹ پر غالب آﺅں جو میرے، دوسروں اور تیری بادشاہی کےلئے نقصان دہ ہے۔ میری دُعا سُن ۔ یسوع کے نام میں۔ آمین

9- محبت بدگمانی نہیں کرتی (1- کرنتھیوں 13: 5)

یہ ماننا کہ دوسروں نے ہمارے خلاف گناہ کیا ہے اور پُریقین ہونا کہ درحقیقت اُنہوں نے ایسا کیا ہے، دونوں کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے۔ یہ مبارک الفاظ کہ محبت "بدگمانی نہیں کرتی"، ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہم کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے خوب پرکھ کر لیں، کیونکہ محض برائی کے بارے میں تصور کر لینا دوسروں کو اور اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ محبت بدگمانی نہیں کرتی کیونکہ یہ مہربان اور صابر ہے، اِس لئے یہ فیصلہ صادِر کرنے میں جلدی نہیں کرتی بلکہ حقیقت کو جانچنے کےلئے مناسب وقت صرف کرتی ہے۔

ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ نغمہ محبت ایسے دو اَبواب کے درمیان موجود ہے جن میں رُوح القدس کے وسیلہ سے مفت ملنے والی رُوحانی نعمتوں کے حامل افراد کی بات کی گئی ہے، کیونکہ پولس رسول اِن لوگوں سے کہتا ہے: تم جن کے پاس رُوحانی نعمتیں ہیں، ایک دوسرے کے خلاف بُرا نہ سوچو، کیونکہ ایک ہی بدن کا حصہ ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں، ایک ہی خاندان کے رُکن ہیں جس کا سر مسیح ہے۔ سو، ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کریں، بلکہ شفقت و مہربانی سے ایک دوسرے سے پیش آئیں۔

الف- بدگمانی کرنے کا کیا مطلب ہے؟

بدگمانی کرنے کا مطلب دوسروں کے الفاظ و افعال کو منفی طور پر دیکھنا اور اُن میں کسی برے اِرادے کے ثبوت کے نہ ہونے کے باوجود اُن کی نامناسب طور پر عدالت کرنا ہے۔

(1) ایسا عمل ہمارے اندر اُس فرد کےلئے منفی رویہ پیدا کرتا ہے جسے ہم برا سمجھتے ہیں۔ ایسا رویہ اُس طرزِعمل کا تعین کرتا ہے جس سے ہم ایسے شخص کے ساتھ اَب اور مستقبل میں پیش آتے ہیں۔ اور پھر ہمارے ذہن میں ایسے فرد کے بارے میں بری رائے مسلسل رہتی ہے، جو بدلتی نہیں کیونکہ ہم اُس کے بارے میں برا سوچتے ہیں۔

(2) جس شخص کے بارے میں ہم برا سوچتے ہیں اُس سے برائی کی توقع کرتے ہیں، اور یہ ایسے ہے کہ جیسے ہم ہمیشہ کالا چشمہ پہن کر اُس شخص کو دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بہت اچھا برتاﺅ کرے لیکن اِس کے باوجود ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اِس کے پسِ پردہ یقیناً برائی پنہاں ہے۔ اور جیسے ہی کوئی افسوسناک واقعہ ہوتا ہے تو ایسے شخص کا نام ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ وہی اِس کے پیچھے ہے، اور ہم ہمیشہ یہی رائے رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ہر اچھے کام کے خلاف غلط ردِعمل دِکھائے گا۔ ایسی سوچ کا انتہائی برا نتیجہ اُس وقت سامنے آتا ہے جب برا سوچنے والا شخص اُس کے بارے میں جنونی ہو جائے اور ایسی صورتحال میں اُسے فوری نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا شخص یہ سوچتا رہتا ہے کہ دوسرے لوگ اُسے دھوکا دینے کو ہیں، اُس کے مال و اسباب کا لالچ کرتے ہیں، اُس کی چیزیں چُرا لیں گے اور اُسے نقصان پہنچانے کےلئے کوئی بھی برا کام کریں گے، اور یوں اِس سوچ اور توقع کے سبب وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔

(3) ہم دوسروں کے بارے میں بری سوچوں کو پنپنے دیتے ہیں، اُن کی سادہ باتوں کو پیچیدہ سمجھتے ہیں۔ اُنہیں غلط رنگ دیتے ہیں، اور یہ صورتحال بگڑتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ ہم اُن کی باتوں کو بالکل اُلٹ سمجھتے ہیں۔

اِن تین افسوسناک وجوہات کی بناء پر ہمیں محبت کی ضرورت ہے جو "بدگمانی نہیں کرتی"، کیونکہ یہ ہماری رُوحانی، سماجی اور ذہنی زندگی کو محفوظ رکھتی ہے۔ یہ ہمیں اپنے اور معاشرے کے ساتھ مشکلات سے راحت بخشتی ہے۔ بائبل مقدس محض آخرت کے بارے میں بتانے والی کتاب نہیں ہے، اگرچہ یہ مسیح کی دوبارہ آمد اور ہمیشہ کی زندگی کی بات کرتی ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اِس کا تعلق یہاں اور اَب سے بھی ہے، یہ زمانہ حال کےلئے ہے۔ اِس کا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے، اُن سب باتوں سے ہے جو ہمارے اور دوسروں سے متعلق ہیں۔

ب- ہم بدگمانی کیوں کرتے ہیں؟

دوسروں کے بارے میں برا سوچنا ایک انسان کا ذہنی رویہ ہے۔ یہ ماضی کے برے تجربات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً، ہو سکتا ہے کہ آپ ایک شخص سے بہت اچھائی کی توقع کریں لیکن جب آپ کی اُمید پوری نہ ہو تو آپ اُس سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو آپ اُس کے بارے میں برا سوچتے ہیں اور آپ کے ذہن میں اُس کا برا تاثر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے آپ نے اُس کی ایک ذہنی تصویر لے لی ہے۔ وہ اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور تبدیل نہیں ہوتی، اگرچہ کہ زندگی مسلسل متحرک ہے۔

اِسی طرح، برے ماضی پر مبنی بری سوچ آپ کے ماضی کو تو تباہ کرتی ہی ہے، لیکن اِس کے ساتھ وہ آپ کے حال اور مستقبل کو بھی تباہ کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو کوئی آپ سے اَب محبت رکھتا ہے وہ بعد میں آپ سے برائی کرے، اور وہ جس نے کبھی آپ کے خلاف برائی کی ہے بعد میں آپ کےلئے اپنی محبت کو ثابت کرے۔ سو آئیں، ہم دوسروں کی طرف یہ جانتے ہوئے کشادہ دِلی کا مظاہرہ کریں کہ زندگی جامد نہیں ہے بلکہ آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

بدگمانی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فوری عدالت کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے، اور دستیاب معلومات کے ماخذ کے بارے میں پُریقینی ہونے اور منطقی تجزیہ کرنے کےلئے کافی وقت نہیں دیا جاتا۔ کسی بھی فرد کی عدالت کرنے سے پہلے ہمیں اُس کے ساتھ صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔

بدگمانی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اُن لوگوں کے بارے میں جن کے ساتھ پہلے ہماری کوئی شخصی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی دوسروں کی آراء کو سُنتے ہیں، اور اُن آراء کی جانچ پرکھ کئے بغیر اُنہیں قبول کر لیتے ہیں۔ زیادہ تر ایسی آراء منفی ہوتی ہیں جو ہمارے ذہن میں دوسروں کی منفی تصویر پیدا کرتی ہیں، اور اِس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ہم نے اُن کے ساتھ معاملہ اچھی طرح سے نبٹانا ہوتا ہے بلکہ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے اُن کے بارے میں منفی باتیں سُن رکھی ہوتی ہیں۔ اِس طرح سے ہمارے ذہنوں میں لوگوں کی صورت بگڑ جاتی ہے اور ہم اُن سے اُکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

ج- بدگمانی کے ذریعے پیدا ہونے والی مشکلات

بدگمانی کرنا ہماری رُوحانی فلاح کو نقصان پہنچاتا ہے اور اِس سے ہمارا باطنی اطمینان کھو جاتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پُرسکون اور بھروسے والا شخص اطمینان پانے کے قابل ہوتا ہے، جبکہ برا سوچنے والا شخص اپنے آپ کو تھکا دیتا ہے کیونکہ وہ اچھے الفاظ کو بھی بُرا سمجھتا ہے۔ اِس سے اُس کا دوسرے سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔ اِس وجہ سے وہ دوسرے لوگوں پر بھروسا شروع کرنے سے پہلے اُن کی صداقت اور خلوص دِلی کا ثبوت پر ثبوت مانگتا ہے۔ یہ اُس کےلئے اور دوسروں کےلئے بھی تھکا دینے والا عمل ہوتا ہے۔

بدگمانی کرنے والا خداوند کے ساتھ بھی اپنے تعلق کو کمزور کر دیتا ہے، کیونکہ جب ہم دوسروں کے بارے میں برا سوچتے ہیں تو کیسے اُن کےلئے دُعا کر سکتے ہیں اور خداوند کی برکت اُن کےلئے مانگ سکتے ہیں؟ جب ہم خداوند میں اپنے بھائیوں اور بہنوں، ایمانداروں، کلیسیا کے ارکان کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں تو کیسے ہم اپنے ساتھ اطمینان میں ہو سکتے ہیں، تا کہ ہم ایمانداروں اور کلیسیا کے بارے میں خدا تعالیٰ سے بات کرنے کی شادمانی محسوس کر سکیں؟

بدگمانی بہت زیادہ حد تک خطرناک ہے کیونکہ ایک فرد کی سوچیں اُس کی اپنی دُنیا ہوتی ہیں، جب وہ اکیلا ہوتا ہے تو اِسی دُنیا میں رہتا ہے۔ سو، اگر اُس کی سوچیں منفی ہوں تو اُس کی تمام زندگی منفی ہو جائے گی، اور اگر وہ مثبت ہوں تو اُس کی زندگی کو مثبت بنا دیتی ہیں۔

پرانے عہدنامہ میں امثال کی کتاب کا مصنف کہتا ہے: "کیونکہ جیسے اُس کے دِل کے اندیشے ہیں وہ ویسا ہی ہے" (امثال 23: 7)۔ سوچیں شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ اگر ایک فرد برا سوچتا ہے تو اُس کی تمام زندگی بری بن جائے گی۔ یوں اُس کے کندھوں پر ایک بھاری بوجھ آ جاتا ہے۔ سو آئیں غیرجانبدار سوچ کے ساتھ محبت میں زندگی گزاریں۔ ایسا کرنا ممکن ہے کیونکہ ہم خود اپنی سوچوں کی دُنیا کی نگہبانی کر سکتے ہیں، اور اپنے فائدے کےلئے اِسے پاکیزگی اور محبت کی طرف لے کر جا سکتے ہیں۔

ہماری سوچیں ہماری رُوحانی زندگی کا پیمانہ ہیں۔ ہماری رُوحانی ترقی کی پیمایش میں یہ ہمارے کاموں سے بھی زیادہ اہم ہیں، کیونکہ سوچیں اُن کاموں کو تحریک بخشتی ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ پہاڑ پر دیئے گئے اپنے وعظ میں مسیح خداوند نے ہمارے کاموں سے زیادہ ہماری سوچ پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے کیونکہ یہ سوچیں ہیں جو اعمال کو سامنے لے کر آتی ہیں۔ آئیے ایک ایسے فرد کی مثال پر غور کریں جو اپنے بھائی پر بغیر کسی وجہ کے غصہ ہو جاتا ہے اور پھر اپنے غصہ کی پرورش کرتا ہے۔ اُس کا غصہ آخرکار اِس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ یہ اُسے قتل کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک اَور مثال اُس شخص کی ہے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی پر بری نگاہ ڈالتا ہے، اور آخرکار وہ زناکاری کی طرف چلا جاتا ہے (انجیل بمطابق متی 5: 21- 32)۔ جتنا زیادہ ہم رُوحانی زندگی میں ترقی کرتے ہیں، اُتنا زیادہ ہم نفسیاتی طور پر پختہ ہوتے ہیں اور رُوحانی معرفت میں ترقی کرتے ہیں، اور ہماری اپنی اور دوسروں کے بارے میں سوچ میں بہتری آتی ہے۔

پولس رسول نے ططس کے نام اپنے پاسبانی خط میں لکھا: "اُن کو یاد دِلا کہ حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں اور اُن کا حکم مانیں اور ہر نیک کام کےلئے مستعد رہیں۔ کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرم مزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔ کیونکہ ہم بھی پہلے نادان، نافرمان، فریب کھانے والے اور رنگ برنگ کی خواہشوں اور عیش و عشرت کے بندے تھے اور بدخواہی اور حسد میں زندگی گزارتے تھے۔ نفرت کے لائق تھے اور آپس میں کینہ رکھتے تھے۔ مگر جب ہمارے منجی خدا کی مہربانی اور انسان کے ساتھ اُس کی اُلفت ظاہر ہوئی۔ تو اُس نے ہم کو نجات دی مگر راستبازی کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدایش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے۔ جسے اُس نے ہمارے منجی یسوع مسیح کی معرفت ہم پر اِفراط سے نازل کیا۔ تا کہ ہم اُس کے فضل سے راستباز ٹھہر کر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے مطابق وارث بنیں۔ یہ بات سچ ہے اور میں جانتا ہوں کہ تُو اِن باتوں کا یقینی طور سے دعویٰ کرے تا کہ جنہوں نے خدا کا یقین کیا ہے وہ اچھے کاموں میں لگے رہنے کا خیال رکھیں۔ یہ باتیں بھلی اور آدمیوں کے واسطے فائدہ مند ہیں۔ مگر بیوقوفی کی حُجّتوں اور نسبناموں اور جھگڑوں اور اُن لڑائیوں سے جو شریعت کی بابت ہوں پرہیز کر۔ اِس لئے کہ یہ لاحاصل اور بےفائدہ ہیں" (نیا عہدنامہ، ططس 3: 1- 9)۔

اِس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جو فرد مسیح میں نئی زندگی بسر کرتا ہے بُری سوچوں کی دُنیا میں زندگی نہیں گزار سکتا۔ بلکہ ایساشخص مسیح کی سوچ کے انداز کے موافق اپنی عقل بدلتا جاتا ہے۔

د- بدگمانی کا علاج

ہمیں بدگمانی چھوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایسا فرد جو مسلسل اپنے ذہن کو بدگمانی میں لگائے رکھتا ہے، لازم ہے کہ وہ اپنی سوچ کے انداز کو تبدیل کرے جس کےلئے اپنے آپ کو اور اپنی سوچ کے انداز کو درست کرنا درکار ہوتا ہے۔

بدگمانی سے شفا پانے میں ہماری مدد کےلئے یہاں تین اہم باتیں تجویز کی گئی ہیں:

(1) ہمیں جاننا چاہئے کہ صرف خدا تعالیٰ ہی کی ہستی کے پاس بغیر کسی تصنع کے پورا اختیار موجود ہے۔ اُس میں بغیر تعصب کے تمام معلومات موجود ہیں۔ صرف وہی سب تفاصیل، محرکات، افکار اور دِل کی نیتوں سے واقف ہے۔

ایک اتوار کی صبح ایک چھوٹے گاﺅں میں ایک خاتون کو اپنے بچہ کی پیدایش کے وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا، اِس لئے اُس نے اپنی مدد کےلئے ڈاکٹر کو بلوا بھیجا۔ جب ڈاکٹر کو پتا چلا کہ وہ خاتون بہت غریب ہے اور اُس کی فیس ادا نہیں کر سکتی تو اُس نے یہ عذر پیش کر کے معذرت کی کہ وہ چرچ میں تاخیر سے نہیں پہنچنا چاہتی۔ سو اُس خاتون نے ایک اَور ڈاکٹر کو بلوا بھیجا، جس نے مدد کی حامی بھری اور اُس سے کسی بھی فیس کا تقاضا نہ کیا۔ خاتون کی مدد کرنے کےلئے ڈاکٹر کو چرچ جانا چھوڑنا پڑا۔ جو کچھ ہوا اُس پر چرچ کے لوگوں کا ردعمل بہت افسوسناک تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ پہلی ڈاکٹر نے عبادت و پرستش کو دولت پر ترجیح دی اور دوسری ڈاکٹر نے مالی فائدے کے حصول کےلئے دُعا کو نظرانداز کیا۔ یہ انسانی فیصلہ ہے جو فوری طور پر کیا گیا۔ اِس فیصلہ نے محبت کرنے والی ڈاکٹر کے ساتھ برائی کی جس نے بدلے میں کسی چیز کی توقع کئے بغیر مدد فراہم کی، اور اُس ڈاکٹر کو سراہا جو لائق ستایش نہ تھی۔ اِسی لئے مسیح نے یہ نصیحت کی: "ظاہر کے موافق فیصلہ نہ کرو بلکہ اِنصاف سے فیصلہ کرو" (انجیل بمطابق یوحنا 7: 24)۔

جب صورتحال واضح ہوتی ہے، تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں ہمارا فیصلہ غلط تھا، کیونکہ دوسروں کا درستی سے فیصلہ کرنے کےلئے ہمارے پاس کافی وقت نہیں تھا۔ ہمارے عزیز رسول پولس نے ہم سب کےلئے ایک نصیحت کی ہے: "پس جب تک خداوند نہ آئے وقت سے پہلے کسی بات کا فیصلہ نہ کرو۔ وہی تاریکی کی پوشیدہ باتیں روشن کر دے گا اور دِلوں کے منصوبے ظاہر کر دے گا اور اُس وقت ہر ایک کی تعریف خدا کی طرف سے ہو گی" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 4: 5)۔

(2) گنہگار کا درشتی سے فیصلہ کرنے کی نسبت نرمی سے فیصلہ کرنا زیادہ درست ہے۔ اپنی رُوحانی زندگی میں ترقی کرنے والا ہر فرد ترقی اِس لئے کرتا ہے کیونکہ وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ گنہگار سے محبت کرتا ہے۔ کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل میں بڑا بیٹا، کھوئے ہوئے چھوٹے بیٹے کے ساتھ غصہ ہوا کیونکہ وہ اپنی میراث کا سارا حصہ ضائع کرنے اور خاندان کی بدنامی کا باعث بننے کے بعد واپس آیا تھا۔ بڑے بیٹے نے اپنے بھائی کی گھر واپسی پر ہونے والی ضیافت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، کیونکہ اُس نے اُس کے بارے میں بدگمانی کی اور اُس کے گھر آنے کو حقیقی توبہ کے طور پر قبول نہ کیا۔ غالباً بڑے بیٹے نے وہ بات نہیں سُنی تھی جو اُس کے بھائی نے اپنے باپ سے کہی تھی کہ "اَب اِس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاﺅں" (انجیل بمطابق لوقا 15: 19)۔

داﺅد نبی نے رُوحانی طور پر آگے بڑھنے کو اِس طرح سے بیان کیا ہے: "اے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہے گا؟ تیرے کوہِ مُقدّس پر کون سکونت کرے گا؟ وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دِل سے سچ بولتا ہے۔ وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سُنتا" (پرانا عہدنامہ، زبور 15: 1- 3)۔ جتنا زیادہ ایک فرد رُوحانی طور پر آگے بڑھتا ہے اُتنا زیادہ وہ مبارک حالی کو پائے گا اور دردمند، مہربان، فروتن، حلیم اور تحمل والا بنتا جائے گا (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 12)۔

(3) دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرنے والا خود سے فیصلہ کرتا ہے اور اُسے توقع کرنی چاہئے کہ دوسرے بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی برتاﺅ کریں گے۔ سلیمان نبی نے فرمایا: "بدکردار جھوٹے لبوں کی سُنتا ہے اور دروغ گو مُفسِد زُبان کا شنوا ہوتا ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 17: 4)۔ جو بُرا سوچتا ہے اُس کے بارے میں بھی بُرا سوچا جاتا ہے، کیونکہ جب وہ لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو خود بھی وہیں کھڑا ہوتا ہے۔ جو کوئی دوسروں پر پتھر پھینکتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خود بھی شیشے کے گھر میں رہتا ہے۔

دُعا

اے خداوند، دوسروں کی بدگمانی کرنے پر مجھے معاف فرما، کیونکہ میں ہر فرد کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا۔ میری مدد فرما کہ میں لوگوں کے تاریک پہلو کو دیکھنے سے پہلے اُن کے اچھے پہلو کو دیکھوں، اور دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کےلئے مجھے کبوتر کی طرح کا بھولا پن اور سانپ کی طرح کی ہشیاری بخش۔ مجھے فضل بخش کہ میں دوسروں کے بارے میں ویسا ہی سوچوں جیسے تُو میرے بارے میں سوچتا ہے، کیونکہ تُو ہمیشہ مجھ سے بھلائی کی توقع کرتا ہے، تُو نے مجھے بہت کچھ بخشا ہے اور تُو نے مجھے خدمت سونپی ہے تا کہ اُسے تیرے لئے کروں۔ تُو نے مجھے وسائل، وقت، خاندان اور رُوحانی برکات بخشی ہیں، اَب یہ عنایت کر کہ میں دوسروں کو تیرے نکتہ نظر سے دیکھوں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین

10- محبت راستی سے خوش ہوتی ہے (1- کرنتھیوں 13: 6)

محبت "بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے" - یہ ایک آسمانی حقیقت ہے، لیکن یوں لگتا ہے کہ کرنتھس کے رہنے والے کچھ لوگ دوسروں میں خامیاں نکال کر خوش ہو رہے تھے۔ عموماً، جب کوئی فرد رُوحانی طور پر انحطاط کا شکار ہوتا ہے تو وہ دوسروں میں عیب ڈھونڈنے میں سرور محسوس کرتا ہے تا کہ اپنے نفس کی راحت اور ضمیر کی تسکین کا سامان کرے۔ جب وہ اپنی خطاﺅں کا دوسروں کی خطاﺅں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ وہ اُن سے بُرا نہیں یا شاید بہتر ہے، اور یوں وہ ناراستی میں خوشی محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسی راحت ِنفسی غلط ہے کیونکہ یہ خود فریبی پر مبنی ہے جس سے ہرگز ضمیر کی تسکین نہیں ہو سکتی۔

کئی مرتبہ ہم اپنی ذات کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم بہتر ہو گئے ہیں اور ہم نے ترقی کی ہے۔ شاید ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی دہ یکی پوری دیتے ہیں، باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں اور اُس کی خدمت میں شریک ہیں، سو ہم اِسے اپنے آپ کو تسلی دینے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہم اپنا آپ دوسروں کے قد و قامت کے مقابلہ میں دیکھتے ہیں اور اِس حقیقت میں شادمانی محسوس کرتے ہیں کہ ہم بہت سے دوسرے لوگوں سے بہتر ہیں۔ لیکن کتاب مقدس ہم سے ہمیشہ اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے آپ کا مسیح کے پورے قد کے اندازہ کے مطابق جائزہ لیں، "جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اُس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک نہ پہنچ جائیں" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 13)۔ اِس لئے، آئیے ہم دوسروں کے گناہوں میں شادمان نہ ہوں، کیونکہ ہم جان جائیں گے کہ ہمارے عیب اُن سے کہیں زیادہ ہیں۔ سو، اپنے گناہوں کا اقرار کریں اور اُن سے توبہ کریں۔ اور پھر مسیح میں شادمان ہوں جو سب کے ضمیر کو تسکین دیتا ہے، کیونکہ وہ برحق فدیہ دینے والا ہے اور اُس کی انجیل کا کلام سچی خوشخبری کا اعلان ہے۔

ہم سچائی کی بابت کچھ خیالات کو یہاں بیان کر رہے ہیں جن میں محبت خوشی کرتی ہے۔

الف- مسیح سچائی ہے

خداوند مسیح نے پیلاطس سے کہا کہ وہ حق کی گواہی دینے کےلئے آیا ہے۔ تب پیلاطس نے مسیح سے سوال کیا: "حق کیا ہے؟" پیلاطس جواب سُننے کےلئے تیار نہیں تھا۔ غالباً جب اُس نے سوال کیا تو اُس کی آواز کے لہجہ کا مطلب یہ تھا: "کون جانتا ہے کہ حق کہاں ملے گا؟ تمام ادیان کے پیروکار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے پاس سچائی ہے۔" یہی وہ وجہ ہو سکتی ہے جس کی بنا پر یسوع نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے پہلے ہی اِس سوال کا جواب دے دیا تھا جب یہ کہا تھا کہ "اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔ ... پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 32، 36)۔ "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 6)۔ سو مسیح وہ حق ہے جس میں محبت خوش ہوتی ہے، کیونکہ انتہائی قیمتی موتی کو پانے سے واقعی بہت بڑی خوشی ملتی ہے جو اِس لائق ہے کہ ہم اُس کےلئے اپنی سب سے قیمتی متاع قربان کر دیں۔ چاہے یہ کوئی جذباتی تعلق ہو یا مالی معاملہ، اگر یہ مسیح سے ہماری محبت کے مقابلہ میں آ کھڑا ہوتا ہے یا اُس کی مرضی کو پورا کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو ہمیں لازماً اُسے ترک کرنا ہے۔

محبت راستی میں خوش ہوتی ہے جو مسیح ہے۔ جب آپ اُسے اپنے فدیہ دینے والے نجات دہندہ کے طور پر جانتے ہیں، اور جب آپ اُن لوگوں کے بارے میں سُنتے ہیں جنہوں نے توبہ کی اور مسیح کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا تو آپ خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک انسان کی زندگی کا سب سے عظیم ترین دِن وہ دِن ہے جب وہ مسیح کی پہچان پاتا ہے۔ اِس عظیم ترین دِن کی طرح کا دوسرا اہم ترین دِن وہ ہے جب آپ کسی کی توبہ اور مسیح کی معرفت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ خداوند آپ کو دونوں طرح کی خوشیاں عطا فرمائے۔

یوحنا رسول نے اپنے دو خطوط دو اہم شخصیات کے نام لکھے۔ اُس کا دوسرا خط برگزیدہ بی بی کے نام لکھا گیا ہے۔ جبکہ اُس کا تیسرا خط اُس کے عزیز دوست گِیُس کے نام لکھا گیا ہے۔ اِن دونوں خطوط میں یوحنا رسول نے مسیح میں جو سچائی ہے، اُس پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے، اور وہ ہر اُس فرد میں بھی شادمانی کرتا ہے جو سچائی میں چلتا ہے۔

مُقدس یوحنا کے دوسرے خط کے دیباچہ میں لکھا ہے: "مجھ بزرگ کی طرف سے اُس برگزیدہ بی بی اور اُس کے فرزندوں کے نام جن سے میں اُس سچائی کے سبب سے سچی محبت رکھتا ہوں جو ہم میں قائم رہتی ہے اور ابد تک ہمارے ساتھ رہے گی۔ اور صرف میں ہی نہیں بلکہ وہ سب بھی محبت رکھتے ہیں جو حق سے واقف ہیں۔ خدا باپ اور باپ کے بیٹے یسوع مسیح کی طرف سے فضل اور رحم اور اطمینان، سچائی اور محبت سمیت ہمارے شامل حال رہیں گے۔ میں بہت خوش ہوا کہ میں نے تیرے بعض لڑکوں کو اُس حکم کے مطابق جو ہمیں باپ کی طرف سے ملا تھا حقیقت میں چلتے ہوئے پایا۔ اَب اَے بی بی میں تجھے کوئی نیا حکم نہیں بلکہ وہی جو شروع سے ہمارے پاس ہے لکھتا اور تجھ سے مِنّت کر کے کہتا ہوں کہ آﺅ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ اور محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر چلیں۔ یہ وہی حکم ہے جو تم نے شروع سے سُنا ہے کہ تمہیں اِس پر چلنا چاہئے" (نیا عہدنامہ، 2- یوحنا، آیات 1- 6)۔ مُقدس یوحنا رسول اُن میں خوش ہوتا ہے جن سے وہ سچی محبت رکھتا ہے کیونکہ وہ سچائی میں چلتے ہیں۔

اُس کے تیسرے خط کے دیباچہ میں لکھا ہے: "مجھ بزرگ کی طرف سے اُس پیارے گِیُس کے نام جس سے میں سچی محبت رکھتا ہوں۔ اَے پیارے! میں یہ دُعا کرتا ہوں کہ جس طرح تُو روحانی ترقی کر رہا ہے اُسی طرح تُو سب باتوں میں ترقی کرے اور تندرُست رہے۔ کیونکہ جب بھائیوں نے آ کر تیری اُس سچائی کی گواہی دی جس پر تُو حقیقت میں چلتا ہے تو میں نہایت خوش ہوا۔ میرے لئے اِس سے بڑھ کر اَور کوئی خوشی نہیں کہ میں اپنے فرزندوں کو حق پر چلتے ہوئے سُنوں" (نیا عہدنامہ، 3- یوحنا، آیات 1- 4)۔ یوحنا رسول گِیُس سے اِس لئے خوش تھا کہ وہ سچائی میں چلتا تھا، اور اُس نے اُسے دُعا دی کہ جیسے اُس نے روحانی باتوں میں ترقی کی ویسے ہی عمومی طور پر بھی ترقی کرے، کیونکہ محبت راستی میں اور اُن سب سے جو اُس میں چلتے ہیں خوش ہوتی ہے۔

جب ہم اپنے لئے مسیح کی بےانتہا محبت کے بارے میں سوچتے ہیں تو پولس رسول کے ساتھ کہہ سکتے ہیں: "کیونکہ مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 5: 14)۔ جب مسیح کی محبت ہمیں اپنا بنا لیتی ہے تو ہم اُن سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں جنہوں نے اپنے دِل میں مسیح کو داخل ہونے دیا ہے، کیونکہ جس سے ہم محبت کرتے ہیں وہ اُس سے محبت کرتے ہیں، اور جس کے ساتھ ہم مطابقت رکھتے ہیں وہ بھی اُس کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں یعنی یسوع مسیح۔

ب- انجیل سچائی ہے

انجیل وہ سچائی ہے جس کا خداوند مسیح نے ہمارے لئے اعلان کیا ہے، اور پولس رسول نے اِسے یہ کہہ کر نئے عہدنامہ میں بیان کیا ہے: "کلام حق ... نجات کی خوشخبری" (افسیوں 1: 13)، اور "خوشخبری کے کلام حق" (کلسیوں 1: 5)۔ اپنی شفاعتی دُعا میں خداوند مسیح نے کہا: "اُنہیں سچائی کے وسیلہ سے مُقدّس کر۔ تیرا کلام سچائی ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 17: 17)۔ انجیل سچی خوشخبری ہے کیونکہ اِس کی تعلیم آسمانی سچائی ہے، اور ہم اِس کے پیغام کو قبول کرنے سے نجات پاتے ہیں جس سے ہمیں خوشی ملتی ہے کیونکہ یہ ہمیں مسیح نجات دہندہ کے ساتھ متعارف کراتی ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 1: 16)۔ یہ خدا کے فضل اور صلح کی خوشخبری کی انجیل ہے (نیا عہدنامہ، افسیوں 6: 15)۔ یہ بادشاہی کی خوشخبری ہے (انجیل بمطابق متی 1: 35)۔ انجیل وہ خبر ہے جو خوشی لاتی ہے، کیونکہ یہ یسوع کے قیمتی خون کی بناء پر ہمیں گناہوں کی معافی کا وعدہ فراہم کرتی ہے، اور یہ ہم پر اِس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ معافی راستبازی کے کاموں کے سبب سے نہیں ہے جو ہم نے خود کئے ہیں بلکہ یہ اُس کی رحمت کے مطابق نئی پیدایش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے ہے (نیا عہدنامہ، ططس 3: 5)۔

خداوند مسیح نے جناب ابرہام کے سچائی میں خوش ہونے کے بارے میں یہ کہتے ہوئے بات کی: "تمہارا باپ ابرہام میرا دِن دیکھنے کی اُمید پر بہت خوش تھا چنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہوا" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 56)۔ ابرہام ایمان اور اُمید کے ساتھ بہت خوش ہوا، کیونکہ اُس نے مستقبل کی نجات کو واقع ہونے سے پہلے دیکھا۔ اِسی طرح جب خداوند کے فرشتہ نے چرواہوں پر محبت کے تجسد کا اعلان کیا تو اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی مدح سرائی کی (انجیل بمطابق لوقا 2: 15)، اور "یہ بات جو ہوئی" وہ اُسے دیکھنے کو گئے۔ جب فرشتہ نے مسیح کی پیدایش کے بارے میں خبر دی تو اُس سے پہلے بھی چرواہے خدا تعالیٰ کی عبادت و پرستش کرتے تھے جب وہ اُن بھیڑوں کو جن کی گلہ بانی کرتے تھے علامتی طور پر ہیکل میں قربانی کے طور پر پیش کرتے اور فسح کا کھانا کھاتے تھے، جس کےلئے ایک برہ ذبح کرنا پڑتا تھا جو مصر کی غلامی سے رہائی کی یادگاری ہوتا تھا۔ کیونکہ محبت اُس راستی میں خوش ہوتی ہے جو انجیل ہے۔ یہ اُن میں بھی خوش ہوتی ہے جو انجیل یعنی کلام حق کو قبول کرتے ہیں۔ یسوع نے فرمایا کہ جب چرواہا کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈ لیتا ہے تو خوش ہو کر اُسے کندھے پر اُٹھا لیتا ہے اور گھر آتا ہے، جہاں وہ اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کو بلاتا ہے اور اُنہیں کہتا ہے "میرے ساتھ خوشی کرو کیونکہ میری کھوئی ہوئی بھیڑ مل گئی۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح ننانوے راستبازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہو گی" (انجیل بمطابق لوقا 15: 5- 7)۔

پولس رسول نے بھی اُن ایمانداروں کےلئے جنہوں نے تھسلُنیکے میں انجیل کو قبول کیا تھا، اپنی خوشی کا اظہار اُنہیں یہ کہتے ہوئے کیا: "تم سب کے بارے میں ہم خدا کا شکر ہمیشہ بجا لاتے ہیں اور اپنی دُعاﺅں میں تمہیں یاد کرتے ہیں۔ اور اپنے خدا اور باپ کے حضور تمہارے ایمان کے کام اور محبت کی محنت اور اُس اُمید کے صبر کو بِلاناغہ یاد کرتے ہیں جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کی بابت ہے۔ اور اَے بھائیو! خدا کے پیارو! ہم کو معلوم ہے کہ تم برگزیدہ ہو۔ اِس لئے کہ ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طور پر پہنچی بلکہ قدرت اور رُوح القدس اور پورے اعتقاد کے ساتھ بھی چنانچہ تم جانتے ہو کہ ہم تمہاری خاطر تم میں کیسے بن گئے تھے۔ اور تم کلام کو بڑی مصیبت میں رُوح القدس کی خوشی کے ساتھ قبول کر کے ہماری اور خداوند کی مانند بنے۔ یہاں تک کہ مکِدُنیہ اور اَخیہ کے سب ایمانداروں کےلئے نمونہ بنے" (نیا عہدنامہ، 1- تھسلنیکیوں 1: 2- 7)۔

سو، رسول تھسلُنیکے میں انجیل کی سچائی لے کر آیا، اور وہاں کے لوگوں نے ایذارسانی اور مشکلات کے باوجود اُسے خوشی کے ساتھ قبول کیا، اِس لئے رسول اُن میں خوش ہوتا ہے کیونکہ محبت راستی سے خوش ہوتی ہے۔

ج- عدل سچائی ہے

خدا تعالیٰ عدل و انصاف کا خدا ہے جو عدل سے محبت کرتا اور اُس کی مشق کرتا ہے: "خداوند سب مظلوموں کےلئے صداقت اور عدل کے کام کرتا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 103: 6); "اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرّا ہے" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 32: 4)۔ اِسی لئے پولس رسول کہتا ہے: "ہم جانتے ہیں کہ ایسے کام کرنے والوں کی عدالت خدا کی طرف سے حق کے مطابق ہوتی ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 2: 2)۔ اِسی لئے، آخرت کے دِن ایماندار یہ گائیں گے کہ "اے خداوند خدا! قادرِ مطلق! تیرے کام بڑے اور عجیب ہیں۔ اے ازلی بادشاہ! تیری راہیں راست اور درست ہیں۔ اے خداوند! کون تجھ سے نہ ڈرے گا؟ اور کون تیرے نام کی تمجید نہ کرے گا؟ کیونکہ صرف تُو قدوس ہے اور سب قومیں آ کر تیرے سامنے سجدہ کریں گی کیونکہ تیرے اِنصاف کے کام ظاہر ہو گئے ہیں" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 15: 3- 4)۔

جیسے خدا تعالیٰ انصاف کرتا اور سچائی سے محبت کرتا ہے، ویسے ہی وہ اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اُس کے لوگ عدل کی مشق کریں، سچائی سے محبت کریں، ظلم کی مخالفت کریں اور مظلوم کا ساتھ دیں۔ کیونکہ موسیٰ نبی کی شریعت میں لکھا ہے: "جو کچھ بالکل حق ہے تُو اُسی کی پیروی کرنا تا کہ تُو جیتا رہے اور اُس ملک کا مالک بن جائے جو خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 16: 20)۔ زبور نویس ہم سے تقاضا کرتا ہے: "غریب اور یتیم کا انصاف کرو۔ غمزدہ اور مُفلِس کے ساتھ انصاف سے پیش آﺅ۔ غریب اور محتاج کو بچاﺅ۔ شریروں کے ہاتھ سے اُن کو چھڑاﺅ" (پرانا عہدنامہ، زبور 82: 3- 4)۔ سلیمان نبی نے کہا: "صداقت اور عدل خداوند کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ ہیں" (پرانا عہدنامہ، امثال 21: 3)، جس کا مطلب ہے کہ صداقت اور عدل ظاہری پرستش سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ خدا نے یسعیاہ نبی کی معرفت بھی کہا کہ "عدل کو قائم رکھو اور صداقت کو عمل میں لاﺅ" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 56: 1)۔

بنی اسرائیل کے قاضی بھی صداقت میں شادمان ہوئے۔ سموئیل نبی جو قاضی بھی تھا جب اُس نے بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ ساﺅل کے مقرر کئے جانے کے بعد عدالتی ذمہ داری اُسے سونپی تو قاضی کے طور پر اپنی خدمت کا ایک جائزہ یہ کہتے ہوئے پیش کیا: "تم خداوند اور اُس کے ممسوح (ساﺅل بادشاہ) کے آگے میرے منہ پر بتاﺅ کہ میں نے کِس کا بیل لے لیا یا کِس کا گدھا لیا؟ میں نے کِس کا حق مارا یا کِس پر ظلم کیا یا کِس کے ہاتھ سے میں نے رشوت لی تا کہ اندھا بن جاﺅں؟ بتاﺅ اور یہ میں تم کو واپس کر دوں گا۔ اُنہوں نے جواب دیا، تُو نے ہمارا حق نہیں مارا، اور نہ ہم پر ظلم کیا اور نہ تُو نے کسی کے ہاتھ سے کچھ لیا" (پرانا عہدنامہ، 1- سموئیل 12: 3- 4)۔

پھر بہت سے نبی برپا ہوئے جنہوں نے ظلم و تشدد کے وقت میں لوگوں کو سماجی انصاف کےلئے بلایا، کیونکہ اُن کے دِلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت نے اُنہیں گناہ میں خوش ہونے سے روکا اور اُنہوں نے سچائی میں فرحت پائی۔ عاموس نبی اُن نبیوں میں سے ایک اہم نبی تھا جنہوں نے غریب کے خلاف امیر کے ظلم کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور اُس نے اِس عظیم شعار کا اعلان کیا: "عدالت کو پانی کی مانند اور صداقت کو بڑی نہر کی مانند جاری رکھ" (پرانا عہدنامہ، عاموس 5: 24)۔ اُس نے ظلم کرنے والوں کےلئے سزا کا بھی ذِکر کیا اور اُنہیں یہ کہتے ہوئے توبہ کی دعوت دی: "بدی کے نہیں بلکہ نیکی کے طالب ہو، تا کہ زندہ رہو اور خداوند ربُّ الافواج تمہارے ساتھ رہے گا جیسا کہ تم کہتے ہو۔ بدی سے عداوت اور نیکی سے محبت رکھو اور پھاٹک میں عدالت کو قائم کرو۔ شاید خداوند ربُّ الافواج بنی یوسف کے بقیّہ پر رحم کرے" (عاموس 5: 14- 15)۔

خدا تعالیٰ کے بندے کبھی بھی سچائی سے محبت کرنے اور ظلم کا مقابلہ کرنے سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ ناتن نبی داﺅد بادشاہ کو اُس وقت اُس کے گناہ کے بارے میں بتانے کےلئے گیا جب اُس نے غریب شخص کی اکلوتی بھیڑ کو لے لیا تھا۔ اُس نے اُسے کہا: "وہ شخص تُو ہی ہے" (پرانا عہدنامہ، 2- سموئیل 12: 7)۔ اُس نے سمجھوتا نہ کیا اور نہ اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا کہ وہ بادشاہ سے بات کر رہا تھا۔ ناتن نبی کے لبوں سے نکلنے والے خداوند کے کلام نے داﺅد بادشاہ کے دِل پر اثر کیا، سو اُس نے یہ کہتے ہوئے توبہ کی: "میں نے خداوند کا گناہ کیا۔" جس کے بعد ناتن نبی نے اُس سے کہا "خداوند نے بھی تیرا گناہ بخشا۔ تُو مرے گا نہیں" (2- سموئیل 12: 13)۔

ذرا سُنیے، خدا تعالیٰ یسعیاہ نبی کے ذریعے ہمیں کیا دعوت دے رہا ہے: "اپنے آپ کو دھو۔ اپنے آپ کو پاک کرو۔ اپنے برے کاموں کو میری آنکھوں کے سامنے سے دُور کرو۔ بدی سے باز آﺅ۔ نیکوکاری سیکھو۔ اِنصاف کے طالب ہو۔ مظلوموں کی مدد کرو۔ یتیموں کی فریاد رسی کرو۔ بیواﺅں کے حامی ہو۔ اَب خداوند فرماتا ہے آﺅ باہم حُجّت کریں۔ اگرچہ تمہارے گناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہر چند وہ اَرغوانی ہوں تو بھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے۔ اگر تم راضی اور فرمانبردار ہو تو زمین کے اچھے اچھے پھل کھاﺅ گے۔ پر اگر تم انکار کرو اور باغی ہو تو تلوار کا لُقمہ ہو جاﺅ گے کیونکہ خداوند نے اپنے مُنہ سے یہ فرمایا ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 1: 16- 20)۔

دُعا

سیدنا مسیح، ہمیں فضل بخش کہ تیری پاک ذات میں شادمان ہوں کیونکہ تُو سچائی ہے، اور تیرے کلام میں شادمان ہوں جو سچائی ہے۔ تیرا شکر ہو کہ تُو ہمیں سچائی کے ساتھ پاک کرنا چاہتا ہے۔ ہماری مدد فرما کہ ہم اُن سب کے ساتھ شادمان ہوں جو سچائی پر ایمان لاتے ہیں اور سچائی اُنہیں آزاد کرتی ہے او ر وہ عدل و سچائی کی مشق کرتے ہیں۔ ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم سچائی میں بھی شادمان ہوں اور اُس کے مطابق عمل کریں، اُس کی مشق کریں اور اُس میں زندگی بسر کریں، اور کسی پر ظلم نہ کریں اور کسی کی مظلومیت اور بدقسمتی پر خوش نہ ہوں۔ بخش کہ ہماری زندگی ہمیشہ سچائی کے مطابق بسر ہو۔ تیرے ہی مبارک نام میں یہ دُعا مانگتے ہیں۔ آمین

11- محبت پُراُمید ہوتی ہے (1- کرنتھیوں 13: 7)

محبت "سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔"

غالباً اِس باب کی ساتویں آیت اِس بناء پر ناقابل اِطلاق معلوم ہوتی ہے کہ یہ باتیں ناممکن سی لگتی ہیں۔ کیا یہ ایک فرد کےلئے ممکن ہے کہ وہ کسی کی ہر بات کو برداشت کرے، ہر اُس بات کا یقین کرے جو دوسرا کہتا ہے، اور ہمیشہ دوسروں کی طرف سے اچھائی کی اُمید کرے؟ اور اگر ایسا نہیں، تو کیا پھر یہ ممکن ہے کہ ایک فرد سب کچھ کے باوجود برداشت کرتا رہے؟ یہ بہت بڑے الفاظ ہیں، بہت پُراُمید اور اِن میں سب کچھ شامل ہے۔ تاہم، یہ حقیقی بھی ہیں کیونکہ مجھے مسیح میں یہی نظر آتا ہے، اور اِس کے ساتھ ساتھ ماں میں بھی جس کی محبت خدا کی محبت کی ودیعت کردہ ہے۔ اِس لئے، یہ باتیں مجھے اُس ایماندار میں بھی نظر آتی ہیں جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ رُوح کے مطابق چلتا ہے۔

الف- یہ باتیں مسیح میں ملتی ہیں

جب ہم گناہ کرتے اور مسیح سے دُور ہو جاتے ہیں تو وہ تب بھی ہمارے ساتھ برداشت سے کام لیتا ہے۔ بالا خانہ میں خداوند مسیح کو پتا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں اُس کے شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ جا ئیں گے، وہاں مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا "اَب سے میں تمہیں نوکر نہ کہوں گا ... بلکہ تمہیں میں نے دوست کہا ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 15: 15)۔ اُس نے واقعی اُنہیں اپنا دوست سمجھا، اگرچہ کہ وہ نہیں تھے۔ اور جب ہم اُس کے پاس آتے اور محصول لینے والے کے الفاظ میں دُعا کرتے ہیں کہ "اے خدا! مجھ گنہگار پر رحم کر" (انجیل بمطابق لوقا 18: 13)، تو وہ ہم پر بھروسا کرتے ہوئے ہمیں معاف کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اُس سے پوچھے کہ "آپ ایسے دغاباز گنہگار کو کیسے قبول کر سکتے ہیں؟" تو وہ جواب دے گا: "یہ توبہ کرنے والا محصول لینے والا شخص جو راستباز ٹھہر کر اپنے گھر گیا ایک راست زندگی بسر کرے گا اور دوسروں کی بھی راستبازی کی راہ کی تلاش میں مدد دے گا۔ اور اگر وہ گناہ میں گر بھی جائے تو میں اُسے رد نہ کروں گا بلکہ اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھالوں گا" (زبور 37: 24)۔

ب- یہ باتیں ماں میں ملتی ہیں

ماں اُن تمام مشکلات کو برداشت کرتی ہے جو کوئی دوسرا اُس کی اولاد کےلئے برداشت نہیں کر سکتا۔ اور اپنی مشکلات کے درمیان جیسے ہی وہ اپنے بچہ میں ذہانت کا کوئی چھوٹا سا بھی نشان دیکھتی ہے تو خوشی کے مارے چِلّا اُٹھتی ہے۔ وہ بچہ کو سراہتی ہے اور اِس بات کی توقع کرتی ہے کہ اُس کا مستقبل شاندار ہو گا۔ جب بھی کوئی اُس کی شکایت کرتا ہے تو وہ اُس کا دِفاع کرتی ہے۔ وہ اُسے روئے زمین پر سب سے زیادہ ذہین اور خوبصورت بچہ معلوم ہوتا ہے۔ یقیناً، ایسے کرنے میں وہ حقیقت پسند نظر نہیں آتی بلکہ اُس کا تعصب واضح ہوتاہے، اور ایک محاورہ بھی ہے کہ "محبت اندھی ہوتی ہے۔" جب وہ اُسے غلطیاں کرتے دیکھتی ہے تو یقین رکھتی ہے کہ وہ اپنی خطاﺅں پر غالب آئے گا اور اُن سے سیکھے گا۔ وہ بھروسا رکھتی ہے کہ اُس کے بچہ کا مستقبل اُس کے ماضی سے بہتر ہو گا۔

ج- یہ باتیں ایک ایماندار میں ملتی ہیں

ابرہام نبی نے جو خدا کا دوست کہلاتا ہے اپنے ساتھ کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسا کیا، اور اُس وعدہ کے پورا ہونے کےلئے بیس برس انتظار کیا جب اُس کی بیوی سارہ نے وعدہ کے فرزند کو جنم دینا تھا۔ اُسے صبر کے ساتھ برداشت کرنا پڑا۔ "اور وہ جو تقریباً سو برس کا تھا باوجود اپنے مردہ سے بدن اور سارہ کے رَحِم کی مُردگی پر لحاظ کرنے کے ایمان میں ضعیف نہ ہوا۔ اور نہ بےایما ن ہو کر خدا کے وعدہ میں شک کیا بلکہ ایمان میں مضبوط ہو کر خدا کی تمجید کی" (نیا عہدنامہ، رومیوں 4: 19- 21)۔

رُوح القدس نے ابرہام کے دِل کو اپنا مسکن بنایا اور اُسے خدا تعالیٰ سے متعلقہ باتیں سکھائیں، مسیح کی محبت اُس کے دِل میں اُنڈیلی گئی اور وہ مسیح کی سوچ و فکر سے معمور تھا (رومیوں 5: 5)۔ اِس محبت میں اُس نے محبت کی زندگی بسر کی جو سب کچھ برداشت کرتی ہے۔ بےشک اُس کی زندگی پولس رسول کی اپنے شاگرد تیمتھیس کو دیئے جانے والے حکم کے مطابق تھی: "اور جو باتیں تُو نے بہت سے گواہوں کے سامنے مجھ سے سُنی ہیں اُن کو ایسے دیانتدار آدمیوں کے سپُرد کر جو اَوروں کو بھی سکھانے کے قابل ہوں" (نیا عہدنامہ، 2- تیمتھیس 2: 2)۔ اُستاد تربیت کے دوران اپنے شاگرد پر بھروسا کرتا ہے جیسے پہلے اُس کے اُستاد نے اُس پر بھروسا کیا ہوتا ہے۔ پولس نے تیمتھیس پر بھروسا کیا۔ اُس نے اُس کی تربیت کی اور اُسے برداشت کیا، اور یہ ایمان رکھا کہ خدا تعالیٰ اُسے برکت کےلئے استعمال کرے گا، سو تیمتھیس نے جن کی تربیت کی اُن پر بھروسا کیا۔ یہ محبت کی مشق ہے جو برداشت کرتی ہے، یقین کرتی ہے، اُمید کرتی ہے، صبر کرتی ہے، کیونکہ یہ جانتی ہے کہ کلام کو رُوح القدس استعمال کرتا ہے اور وہ پھل لائے گا: "کیونکہ جس طرح آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے اور پھر وہ وہاں واپس نہیں جاتی بلکہ زمین کو سیراب کرتی ہے اور اُس کی شادابی اور روئیدگی کا باعث ہوتی ہے تا کہ بونے والے کو بیج اور کھانے والے کو روٹی دے۔ اُسی طرح میرا کلام جو میرے منہ سے نکلتا ہے ہو گا۔ وہ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہو گی وہ اُسے پورا کرے گا اور اُس کام میں جس کےلئے میں نے اُسے بھیجا موثر ہو گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 10- 11)۔ بالکل اِسی طرح، اُستاد خدا تعالیٰ کے فضل کے کام پر ایمان رکھتا ہے، اور یہ اُمید کرنا جاری رکھتا ہے کہ اُس کا رُوحانی فرزند اُس سے بہتر ہو گا۔

جب الیشع نبی نے ایلیاہ نبی سے اُس کی رُوح کے دُگنا حصہ کی درخواست کی تو ایلیاہ نے اُسے کہا "تُو نے مشکل سوال کیا" (پرانا عہدنامہ، 2- سلاطین 2: 10)۔ اگر خداوند خدا اُس کی درخواست کو پورا کر دیتا تو یقیناً یہ الیشع نبی کےلئے ایک مشکل کام ہوتا، کیونکہ اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ اُس سے یہ توقع ہونی تھی کہ وہ اپنے اوپر بڑی ذمہ داریاں یعنی ایلیاہ نبی کی بڑی ذمہ داریوں کا دُگنا حصہ لے گا۔ الیشع کی درخواست ایلیاہ کےلئے بھی مشکل تھی کیونکہ یہ ایلیاہ نہیں تھا جس نے الیشع کی درخواست کو پورا کرنا تھا۔ صرف خدا تعالیٰ ہی اِسے پورا کر سکتا تھا۔ صرف وہی تھا جو ایلیاہ نبی کی رُوح کا دُگنا حصہ دے سکتا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود ایلیاہ نے اپنے شاگرد الیشع کو اُس کے بڑے لالچ یا جذبہ پر نہ جھڑکا۔ بلکہ اِس کے برعکس وہ اُس میں خوش ہوا کیونکہ وہ اُس سے محبت کرتا تھا اور اُس نے اُسے کہا "اگر تُو مجھے اپنے سے جُدا ہوتے دیکھے تو تیرے لئے اَیسا ہی ہو گا۔"

جب ایک دینی باپ کو پتا چلتا ہے کہ اُس کے شاگرد نے گناہ کیا ہے، تو وہ اپنی مہربانی اور صبر کی وجہ سے اُ س کے ساتھ برداشت سے کام لیتا ہے، اُس کا دِل رُوح القدس سے ملنے والی محبت کے ساتھ موجزن ہوتا ہے جو خود بھی مہربان اور صابر ہے۔

پُراُمید محبت گنہگار کی معذرت کو قبول کرتی ہے اور اُسے ایک نیا موقع دیتی ہے۔ جب اُسے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں تاخیر ہوتی ہے تو محبت توقع کرتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گا اور بہتری کی اُمید کرتی ہے۔ لیکن جب اِس میں ناکامی ہو تو پھر بھی محبت ہر چیز میں صبر سے کام لیتی ہے کیونکہ یہ ناکامی کو معاف کرتی ہے اور بہتری کی اُمید کرتی ہے۔ یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمارے موجودہ حالات چاہے کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں، پُراُمید محبت اچھے دِنوں اور بہترین حالات کی توقع کرتی ہے۔ آئیں اَب اِس بات پر غورکریں کہ پُراُمید محبت کیسا برتاﺅ کرتی ہے۔

(1) محبت سب کچھ سہہ لیتی ہے

حقیقی محبت سب کچھ سہتی ہے، جیسے بزرگ یعقوب نے اپنی محبت اپنی ماموں زاد بہن راخل کےلئے بہت کچھ سہا، اور اُس سے شادی کی غرض سے اپنے ماموں کے گھر میں چودہ برس کا وقت گزارا۔ یہ سال راخل کی محبت کے سبب سے اُسے چند دِن معلوم ہوئے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 29: 20)۔ یعقوب نے اُن سالوں کو اِس طرح سے بیان کیا ہے: "میرا حال یہ رہا کہ میں دِن کو گرمی اور رات کو سردی میں مرا، اور میری آنکھوں سے نیند دُور رہتی تھی" (پیدایش 31: 40)۔

سب کچھ سہنے والی محبت دو کام کرتی ہے: (الف) یہ بدی معاف کرتی ہے، (ب) یہ گناہ ڈھانکتی ہے

(الف) یہ بدی معاف کرتی ہے اور برائی کرنے والے کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ گنہگار کی جانب مسیح کے تحمل کی مانند ہے جب وہ اُس کے دِل کے دروازے پر کھڑا کھٹکھٹاتا ہے تا کہ گنہگار اُس کی سُنے اور دروازہ کھولے۔ باوجود کہ محتاج شخص نہیں سُنتا لیکن سب اچھی چیزوں کا دینے والا دروازہ پر کھڑے ہونے اور کھٹکھٹانے سے باز نہیں رہتا۔ محتاج شخص اگرچہ اپنی مشکل کو نہ جانتا ہو، لیکن خداوند مسیح جانتا ہے کہ اُسے مشکل کا سامنا ہے، اِس لئے وہ برداشت سے کام لیتا ہے اور کھٹکھٹاتا رہتا ہے تا کہ اُسے اُس کی مشکل سے بچا سکے۔

پولس رسول نے مسیح کی مثال سے سیکھا تھا، سو وہ کرنتھس کے رہنے والے ایمانداروں کے ساتھ تحمل سے پیش آیا اور اُنہیں یہ لکھا: "بلکہ خدا کے خادموں کی طرح ہر بات سے اپنی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔ بڑے صبر سے، مصیبت سے، احتیاج سے، تنگی سے، کوڑے کھانے سے، قید ہونے سے، ہنگاموں سے، محنتوں سے، بیداری سے، فاقوں سے، پاکیزگی سے، علم سے، تحمل سے، مہربانی سے، رُوح القدس سے، بےریا محبت سے" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 6: 4- 6)۔

خداوند مسیح کےلئے اپنی تمام خدمت کے دوران پولس رسول نے اپنے جسم میں کانٹے کی چبھن کے درد کو برداشت کیا۔ اِس بارے میں اُس نے لکھا: "اِس کے بارے میں میں نے تین بار خداوند سے اِلتماس کیا کہ یہ مجھ سے دُور ہو جائے۔ مگر اُس نے مجھ سے کہا کہ میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔ پس میں بڑی خوشی سے اپنی کمزوری پر فخر کروں گا تا کہ مسیح کی قدرت مجھ پر چھائی رہے۔ اِس لئے میں مسیح کی خاطر کمزوری میں، بےعزتی میں، اِحتیاج میں، ستائے جانے میں، تنگی میں خوش ہوں کیونکہ جب میں کمزور ہوتا ہوں اُسی وقت زور آور ہوتا ہوں" (2- کرنتھیوں 12: 8- 10)۔

سو محبت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، اور مسیح نے فرمایا: "جو کوئی اپنی صلیب اُٹھا کر میرے پیچھے نہ آئے وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا" (انجیل بمطابق لوقا 14: 27)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: "اور میرے نام کے باعث سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا" (انجیل بمطابق متی 10: 22)۔ سو، سب باتوں کی برداشت کرنے والی محبت وہ محبت ہے جو رُوح القدس سے ملتی ہے۔ یہ سب باتوں کو برداشت کرتی ہے یہاں تک کہ رُوح القدس تحمل کے ثمر کو تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

(ب) سب کچھ سہنے والی محبت گناہ ڈھانکتی ہے۔ سلیمان نبی نے فرمایا: "محبت سب خطاﺅں کو ڈھانک دیتی ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 10: 12)۔ اِسی سوچ کا اظہار ہمیں پطرس رسول کی تحریر میں بھی نظر آتاہے: "محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 4: 8)۔ پولس رسول کے الفاظ کہ محبت "سب کچھ سہہ لیتی ہے" ہمیں سکھاتے ہیں کہ مسیح سے محبت کرنے والا شخص زندگی کی مشکلات کو برداشت کرتا ہے، جب دوسرے اُس کے خلاف گناہ کرتے ہیں تو اُنہیں معاف کرتا ہے اور پوری رضامندی کے ساتھ اُن کے عیب ڈھانپتا ہے، کیونکہ وہ مسیح سے اور اِس کے ساتھ اُن سے بھی محبت کرتا ہے اور وہ مسیح کے ساتھ ایک اچھے تعلق سے آسودہ ہونا چاہتا ہے۔ وہ ایک ایسے آرٹسٹ کی مانند ہے جو اپنے فن کی خاطر بہت کچھ برداشت کرتا ہے اور کئی گھنٹوں تک کینوس کے سامنے بیٹھا رہتا ہے اور فن سے محبت کی خاطر کئی طرح کی مسرتوں سے کنارہ کرتا ہے۔

(2) محبت سب کچھ یقین کرتی ہے

(الف) محبت سب کچھ اِس لئے یقین کرتی ہے کہ یہ بدی پر توجہ مرکوز کرنے کی نسبت چیزوں اور افراد کی تبدیلی کےلئے مسیح کی قدرت پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ایماندار ترسس کے رہنے والے ساﺅل سے خوفزدہ ہوا کرتے تھے اور اُس کی آمد کا سُن کر پریشان ہو جایا کرتے تھے۔ جب خداوند نے حننیاہ کو کہا کہ وہ جا کر ساﺅل کو بپتسمہ دے تو وہ خوفزدہ تھا کیونکہ ساﺅل نے خداوند کے مقدسوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ تاہم، خداوند نے اپنی شفقت و محبت میں حننیاہ کے دِل کو تسلی دی اور اُسے بتایا کہ ساﺅل اُس کا انتظار کر رہا ہے اور بپتسمہ پانے کے بعد مسیح کا خادم بن کر وہ مسیح کی خاطر بہت دُکھ سہے گا۔ اور یہ سب کچھ حقیقت میں ہوا۔ ساﺅل مکمل طور پر بدل گیا۔ حننیاہ کو اسیر کر کے لے جانے کے بجائے وہ خود اُس سے بپتسمہ پا کر مسیح کا خادم بن گیا اور صلیب کی محبت کا اسیر ہو گیا (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 9: 10- 22)۔ حننیاہ کو یہ سب باتیں یقین کرنے میں مشکل کا سامنا تھا لیکن اِس کے باوجود اُس نے خداوند کے حکم کی فرمانبرداری کی کیونکہ وہ مسیح نجات دہندہ کی گنہگار جان کےلئے قدرت اور محبت کی وسعت کو جانتا تھا۔

خداوند مسیح نے کمزور اور بےکس لوگوں کو چُنا جو معاشرے میں زیادہ اثر و رسوخ والے نہ تھے، اُن کے پاس مالی وسائل کی کمی تھی اور علمی ڈگریاں نہ تھیں۔ اُن میں سے زیادہ تر ماہی گیر تھے۔ مسیح نے اُنہیں بتایا کہ وہ اُنہیں "آدم گیر" بنائے گا (انجیل بمطابق مرقس 1: 17)۔ اُن کےلئے یہ یقین کرنا آسان نہ تھا کہ خدا تعالیٰ اُن کے ہاتھوں معجزات کرے گا اور اُن کے ذریعے آسمان کی بادشاہی قائم کرے گا۔ لیکن اُن میں مسیح کےلئے محبت تھی، جس کی بناء پر اُنہوں نے مسیح کے کلام کا یقین کیا جو اُن سے محبت رکھتا تھا اور جس نے اُنہیں چُنا تھا، سو وہ ایمان لائے کہ "آسمان کی بادشاہی اُس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور اَیسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں" (انجیل بمطابق متی 13: 31- 32)۔

پولس رسول نے مسیح میں کام کرنے والی خدا کی قدرت کے بارے میں یہ کہتے ہوئے بات کی: "اور ہم ایمان لانے والوں کےلئے اُس کی بڑی قدرت کیا ہی بےحد ہے۔ اُس کی بڑی قوت کی تاثیر کے موافق جو اُس نے مسیح میں کی جب اُسے مُردوں میں سے جِلا کر اپنی دہنی طرف آسمانی مقاموں پر بٹھایا ... اور سب کچھ اُس کے پاﺅں تلے کر دیا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 1: 19- 22)۔ یہی قدرت جس کے ذریعے خدا نے مسیح کو مُردوں میں سے جِلایا، ہمیں ہمارے گناہوں کی موت سے زندہ کرتی ہے، ہمیں آسمانی مقاموں میں اُس کے دہنے ہاتھ بٹھاتی ہے، اور ہمیں ہمارے دِلوں میں رُوح القدس کے کام کے وسیلہ یہ فضل بخشتی ہے کہ ہم مکمل طور پر اُس کے تابع ہو جائیں۔

(ب) محبت جو سب کچھ یقین کرتی ہے، زندگی کی مشکلات پر نہیں بلکہ خداوند پر توجہ مرکوز کرتی ہے جو ہماری فکر کرتا ہے: "اِنسان دُکھ کےلئے پیدا ہوا ہے ... تھوڑے دِنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے" (پرانا عہدنامہ، ایوب 5: 7; 14: 1)۔ یقیناً، ہماری زندگی مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ اگر ہم اپنی توجہ اِن مشکلات پر لگائے رکھیں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہم اپنی نگاہ خداوند کی فکر پر لگائیں گے تو وہ ہمیں اپنی رحمت دِکھائے گا اور موت سے زندہ کرے گا۔ ابرہام نے خداوند سے سوال کیا "کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 18: 25)۔ہاں، بےشک کرے گا، اور محبت بھروسا رکھتی ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کےلئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کےلئے جو خدا کے اِرادے کے موافق بلائے گئے، چاہے اُن کے حالات کچھ بھی ہوں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ ہمیشہ بدی کے اثرات کو بھلائی میں تبدیل کرنے کےلئے کام کرتا ہے۔

کلامِ خدا میں ہم پڑھتے ہیں کہ پطرس رسول جب پانی پر چلا تو جیسے ہی اُس کی توجہ مسیح سے ہٹ کر ہوا پر ہو گئی تو وہ ڈوبنے لگا (انجیل بمطابق متی 14: 22- 33)۔ اِس میں ہم سب کے غور و خوض کےلئے ایک سبق پایا جاتا ہے۔

(3) محبت سب باتوں کی اُمید کرتی ہے

(الف) ایسا اِس لئے ہے کیونکہ محبت ایک خارجی قوت پر مبنی ہے جو خدا تعالیٰ کی قوت و قدرت ہے۔ نئے عہدنامہ میں رومیوں 4: 17- 21 کے مطابق ایمانداروں کا باپ ابرہام ہمارے سامنے اِس کی ایک مثال ہے۔ خدا نے اُس سے وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ "میں نے تجھے بہت سی قوموں کا باپ بنایا"۔ اگرچہ اُس وقت ابرہام کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی، تاہم اُسے یقین تھا کہ خدا وہ خدا ہے جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور جو چیزیں نہیں ہیں اُن کو اِس طرح بُلا لیتا ہے گویا وہ ہیں۔ سو، ہر اِنسانی اُمید کے برعکس ابرہام الہٰی اُمید کے وعدے پر ایمان لایا کہ وہ بہت سی قوموں کا باپ بنے گا، جیسا کہ اُسے بتایا گیا تھا کہ "تیری نسل ایسی ہی ہو گی"۔ خدا کے وعدوں پر بھروسا کرنے سے ابرہام اپنے ایمان میں مضبوط ہوا، اور اِس بات کا مکمل طور پر قائل ہونے سے اُس نے خدا کو جلال دیا کہ جو وعدہ خدا نے کیا ہے وہ اُسے پورا کرنے پر قادِر ہے، کیونکہ اُس نے خدا کی محبت اور وفاداری کا تجربہ کیا تھا۔اِس الہامی کلام میں یہ نہیں لکھا کہ ایسا صرف ابرہام کے ساتھ ہوا، بلکہ ہمارے ساتھ بھی ہوا جو ابرہام کا سا ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے تمام وعدوں کی تکمیل کی اُمید رکھتے ہیں جن کےلئے ایمان راستبازی گنا جائے گا۔

محبت جو سب باتوں کی اُمید کرتی ہے خدا تعالیٰ کی قوت و قدرت، رحمت اور فضل سے واقف ہوتی ہے۔ مُسرِف بیٹے نے باپ کے طرزِعمل کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اُس کے گھر کو چھوڑ دیا تھا۔ لیکن محبت کرنے والا باپ جانتا تھا کہ اُس کے بیٹے کو اپنے باپ کے گھر سے بہتر جگہ نہیں ملے گی، سو ہر روز وہ راستہ میں کھڑے ہو کر اپنے کھوئے ہوئے بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا تھا۔ اور پھر کھوئے ہوئے بیٹے نے واپس آنے کا فیصلہ کیا، اور جب وہ ابھی دُور ہی تھا تو اُس کے باپ نے اُسے دیکھا اور اُسے اُس پر ترس آیا۔ وہ اُس کی طرف دوڑ کر گیا اور اُسے گلے لگایا اور چوما (انجیل بمطابق لوقا 15: 11- 24)۔ پُراُمید محبت جو اُمید کر رہی تھی وہ اُسے ملا، اور خدا نے اِس بات کو سچ ثابت کیا کیونکہ باپ اپنے بیٹے کی گھر واپسی کےلئے متمنی تھا۔

مقدس مونیکا نے اپنے بیٹے اگستین کےلئے چوبیس برس تک دُعا کی۔ لیکن جتنا زیادہ وہ اُس کےلئے دُعا کرتی گئی، اُتنا زیادہ وہ بھٹک کر دُور جاتا گیا۔ روتی، دُعا کرتی ماں تب میلان میں مقدس ایمبروز سے جا کر ملی اور اُس کے سامنے شکایت کی کہ دُعاﺅں کا جواب نہیں مل رہا، جس نے اُس سے پوچھا "کیا تم اُس کےلئے آنسوﺅں کے ساتھ دُعا کرتی ہو؟" اُس خاتون نے اِس سوال کا ہاں میں جواب دیا۔ تب مقدس ایمبروز نے اپنا مشہور جواب دیا: "ممکن نہیں کہ آنسوﺅں والا ایسا بیٹا کھو سکے۔" اور پھر اگستین کھو نہیں گیا، بلکہ خداوند کی طرف لوٹا اور ایک مبارک مقدس بنا۔ اپنی مشہور کتاب "Confessions" (اعترافات) میں مقدس اگستین نے کہا "اے خداوند، تُو مجھے بُلا رہا تھا، لیکن میں نے تجھ سے کہا: ابھی نہیں، سو تُو نے مجھے پھر بُلایا اور میں نے کہا: ابھی نہیں، لیکن پھر تُو نے مجھے بُلانا جاری رکھا، یہاں تک کہ میں نے تجھے کہا، میں حاضر ہوں۔"

خدا کی محبت، ایک ماں کی محبت اور وہ سب محبت جس کا منبع مسیح ہے، سب باتوں کی اُمید کرتی ہے۔

کیا آپ کا جیون ساتھی خداوند سے دُور ہے؟ - یاد رکھیں محبت سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔

کیا آپ کا بھائی خداوند سے دُور ہے؟ - یاد رکھیں محبت سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔

مسیح میں ہوتے ہوئے کوئی مایوسی نہیں ہے۔

(ب) محبت پُراُمید ہوتی ہے اور سب باتوں کی اُمید کرتی ہے کیونکہ یہ جانتی ہے کہ جس کا اُس نے تجربہ کیا ہے دوسرے بھی اُس کا تجربہ کریں گے، کیونکہ خدا نوروں کے باپ میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 17)، اور "یسوع مسیح کل اور آج بلکہ اَبد تک یکساں ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 13: 8)۔ "میں ... اُس چیز کے پکڑنے کےلئے دوڑا ہوا جاتا ہوں جس کےلئے مسیح یسوع نے مجھے پکڑا تھا" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 12)۔ جب خداوند ایک فرد کو بچاتا ہے جو اُس سے دُور ہوتا ہے اور اُسے ایمانی گلہ میں واپس لاتا ہے، تو ایسا فرد سمجھ جاتا ہے کہ کھویا ہوا شخص کتنا ہی دُور کیوں نہ چلا جائے وہ واپس لوٹ آئے گا۔ خدا کی محبت کبھی تبدیل نہیں ہوتی، نہ ہی ایک رُوح کی ضرورت تبدیل ہوتی ہے، اور نہ ہی رُوح القدس کا کام تبدیل ہوتا ہے۔ کامل اُمید میں ایسا فرد پولس رسول کے ساتھ کہہ سکتا ہے: میں "اُس چیز کے پکڑنے کےلئے دَوڑا ہوا جاتا ہوں جس کےلئے مسیح یسوع نے مجھے پکڑا تھا" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 3: 12)۔ مسیح نے ترسس کے ساﺅل کو اُس وقت پکڑا جب وہ اُس سے دُور بھاگ رہا تھا اور اُسے توبہ کی طرف لے کر آیا۔ سو اگر ایسا سخت دِل مخالف، مسیح کا ایک پیروکار بن سکتا ہے، تو پھر کوئی بھی دوسرا سخت دِل ایسا ایماندار بن سکتا ہے کیونکہ محبت سب باتوں کی اُمید کرتی ہے۔

د- محبت سب باتوں کی برداشت کرتی ہے

محبت اُس وقت کیا کرتی ہے جب تحمل کرتی ہے، یقین کرتی ہے، اُمید کرتی ہے اور اپنی اُمیدیں پوری ہوتے ہوئے دیکھے بغیر انتظار کرتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ محبت مایوسی اور بےبسی کے صبر کے ساتھ نہیں بلکہ اُمید کے صبر کے ساتھ برداشت کرتی ہے جو زبور نویس کے ساتھ متفق ہو کر کہتی ہے: "رات کو شاید رونا پڑے، پر صبح کو خوشی کی نوبت آتی ہے" (زبور 30: 5)۔ ضروری ہے کہ تاریکی کا خاتمہ ہو، اور سورج طلوع ہو۔

جب سامریہ کا محاصرہ ہوا، اور لوگوں کی نوبت فاقوں تک پہنچی تو شاہِ اسرائیل نے ٹاٹ اوڑھا۔ اُس وقت ایک عورت نے مدد کےلئے دہائی دی تو شاہِ اسرائیل نے کہا: "اگر خداوند ہی تیری مدد نہ کرے تو میں کہاں سے تیری مدد کروں؟ کیا کھلیہان سے یا انگور کے کولھو سے؟" (پرانا عہدنامہ، 2- سلاطین 6: 27)۔ لیکن الیشع نبی جس نے خدا تعالیٰ کی قدرت اور محبت دیکھی تھی پُراُمید تھا اور اُس نے کہا: "کل اِسی وقت کے قریب سامریہ کے پھاٹک پر ایک مثقال میں ایک پیمانہ میدہ اور ایک ہی مثقال میں دو پیمانے جو بِکے گا" (2- سلاطین 7: 1)، اور پھر ایسا ہی ہوا۔

محبت صبر کرتی ہے کیونکہ جانتی ہے کہ الٰہی فضل کی مداخلت مناسب وقت پر ہو گی اور یہ بھی سمجھتی ہے کہ خدا بچانے میں جلدی کرے گا۔

خدا کی محبت نے ہمارے ساتھ تحمل اور برداشت سے کام لیا جب تک کہ ہم نے توبہ نہ کر لی۔ اِس نے ہماری نافرمانی برداشت کی جب تک کہ ہم نے فرمانبرداری نہ کی۔

کیا ہم اُن لوگوں کے ساتھ تحمل اور برداشت سے پیش آتے ہیں جو ہمارے خلاف گناہ کرتے ہیں؟

خدا تعالیٰ کی محبت نے ہم پر بھروسا کیا اور ہمیں ایک نیا موقع فراہم کیا۔

کیا ہمارے لئے یہ کرنا ممکن ہے کہ اُس فرد کو توبہ کرنے اور خدا کی طرف لوٹنے کا ایک نیا موقع دیں جس نے ہمارے خلاف برائی کی ہے؟

خدا کی محبت نے ہمیں ایک نئی اُمید عطا کی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم کسی دوسرے کےلئے پُراُمید ہو سکیں؟ محبت سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔

دُعا

اے ہمارے آسمانی باپ، تیرا شکر ہو کہ تُو نے ہمیں برداشت کیا اور جب ہم نے تیرے حضور توبہ کی تو تُو نے ہم پر بھروسا کیا، اور تُو نے ہم سے توقع کی کہ ہم اچھے ایماندار ہوں۔ جب ہم نے غلط برتاﺅ کیا تو تُو نے صبر سے کام لیا۔ جب ہمارے خلاف برائی کرنے والے ہم سے معذرت کریں تو ہماری مدد فرما کہ ہم اُنہیں برداشت کریں اور اُن پر بھروسا کریں۔ بخش کہ ہم اُن سے بہترین کی اُمید کریں، اورجیسے تُو نے مسیح میں ہمارے ساتھ برداشت کا رویہ روا رکھا ہم بھی اُن کی کمزوریوں میں تحمل سے کام لیں اور شفقت و برداشت کا مظاہرہ کریں۔

بخش کہ جب ہم ہر لحظہ تیری حضوری میں ہیں تو یہ ہمارے لئے ایک گہرا سبق ہو۔ ہماری مدد فرما کہ ہم تیرے اور اپنے اِردگرد کے افراد کے ساتھ محبت سے پیش آئیں۔ مسیح کے نام میں۔ آمین

12- محبت کی ہمیشگی

"محبت کو زوال نہیں۔ نبوتیں ہوں تو موقوف ہو جائیں گی۔ زُبانیں ہوں تو جاتی رہیں گی۔ علم ہو تو مٹ جائے گا۔ کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت ناتمام۔ لیکن جب کامل آئے گا تو ناقِص جاتا رہے گا۔ جب میں بچہ تھا تو بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔ بچوں کی سی سمجھ تھی۔ لیکن جب جوان ہُوا تو بچپن کی باتیں ترک کر دیں۔ اَب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دِکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت روبرو دیکھیں گے۔ اِس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت اَیسے پورے طور پر پہچانوں گا جیسے میں پہچانا گیا ہوں۔" (1- کرنتھیوں 13: 8- 12)

"محبت کو زوال نہیں۔" یونانی زبان میں الفاظ "زوال نہیں" ہمارے سامنے سپاہیوں کے ایک گروہ کی تصویر پیش کرتے ہیں جو دُور ایک جگہ پہنچنے کےلئے دوپہر کی گرمی میں طویل سفر طے کر رہے ہوں۔ اپنے سفر کو شروع کرنے کے بعد سپاہی سخت گرمی اور راستہ کی خراب حالت کی وجہ سے ایک کے بعد ایک ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اُن میں سے صرف ایک ہی اُن تمام رکاوٹوں پر غالب آتا ہے جہاں دوسرے ناکام ہوئے، سو وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے، اُسے "زوال نہیں۔"

یہ محبت کی تصویر ہے جسے کبھی زوال نہیں، کیونکہ جب باقی تمام خوبیاں ختم ہو جاتی ہیں، محبت کی خوبی پھر بھی باقی رہتی ہے۔ ہم اِسے اپنے فدیہ دینے والے نجات دہندہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں جو مکمل طور پر راہِ صلیب پر چلا۔ اُس کی اپنی شاگردوں کی وفاداری سے آنکھیں چندھیا نہیں گئیں، کیونکہ وہ کمزور لوگ تھے جنہوں نے اُس کی مشکل کے وقت اُس کا انکار کیا، باوجود کہ ایک دوست کو ہر وقت خاص طور پر ضرورت کے وقت اپنے دوست کی مدد کرنی چاہئے (امثال 17: 17)۔ باغِ گتسمنی میں مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: "کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے؟" (انجیل بمطابق متی 26: 40)۔ ہجوم نے اُس کو بہت سراہا جنہیں اُس نے کھانا کھلایا جنہوں نے اُس کے ہاتھوں شفا پائی، لیکن وہ یقیناً جانتا تھا کہ وہی چِلّا چِلّا کر کہیں گے "وہ مصلوب ہو۔ ... اِس کا خون ہماری اور ہماری اَولاد کی گردن پر" (انجیل بمطابق متی 27: 23، 25)۔

یہ کوئی اِنسانی جذبہ نہیں تھا جس کی وجہ سے صلیب پر بھی مسیح کی محبت جاری و ساری رہی۔ جس چیز نے اُسے تحریک بخشی وہ دُنیا میں دوسروں کےلئے آخر تک اُس کی محبت تھی (انجیل بمطابق یوحنا 13: 1)۔ اُس کی محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ جب تمام خوبیاں ناکام ہو جائیں، محبت تب بھی باقی رہتی اور کامیاب ہوتی ہے۔

آیات 8- 12 میں پولس رسول نے، محبت جسے زوال نہیں، کے بارے میں دو بنیادی تصورات پیش کئے ہیں۔ سب سے پہلے وہ عظیم اشیاء کا بیان کرتا ہے جنہیں دوام حاصل نہیں۔ اور پھر وہ وضاحت پیش کرتا ہے کیسے محبت کو زوال نہیں ہے۔

الف- تین چیزیں جنہیں دوام حاصل نہیں

(1) نبوتیں موقوف ہو جائیں گی

نبوت کا مطلب مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا یا لوگوں تک خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانا اور اُنہیں تنبیہ کرنا ہے، کلام مقدس میں لکھا ہے "لیکن جو نبوت کرتا ہے وہ آدمیوں سے ترقی اور نصیحت اور تسلی کی باتیں کہتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 14: 3)۔

نبوتیں جب پوری ہو جاتی ہیں تو موقوف ہو جائیں گی۔ سو، ایک کنواری سے مسیح کی پیدایش کے بارے میں نبوت یسعیاہ اور اُس کے وقت کے لوگوں کےلئے نبوت تھی (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 7: 14)۔ لیکن اَب جبکہ یہ پوری ہو چکی ہے تو یہ صرف نبوت نہیں رہی بلکہ ہمارے لئے تاریخ کا ایک حصہ بن گئی ہے۔

بیت لحم میں خداوند مسیح کی پیدایش کے بارے میں میکاہ نبی کی نبوت میکاہ اور اُس کے زمانے کے لوگوں کےلئے مستقبل کے بارے میں نبوت تھی (میکاہ 5: 2)۔ لیکن اَب جبکہ یہ پوری ہو چکی ہے تو یہ ہمارے لئے ایک مبارک تاریخ اور جلالی ورثہ بن گئی ہے۔

مسیح کی دوبارہ آمد کے تعلق سے کئی نبوتیں موجود ہیں اور وہ اَب بھی نبوتیں ہیں، لیکن ایک وقت آئے گا جب وہ پوری ہو جائیں گی۔

تنبیہ اور حوصلہ افزائی سے متعلقہ نبوت بھی موقوف ہو جائے گی کیونکہ وہ وقت آئے گا جب ایماندار اپنے آپ کو آسمانی باپ کی حضوری میں پائے گا، جیسا کہ مسیح نے فرمایا: "تا کہ جہاں میں ہوں تم بھی ہو" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 3)۔ تب ایک ایماندار کو کسی تنبیہ یا حوصلہ افزائی کی ضرورت نہ ہو گی۔ کیونکہ آسمان پر کوئی گناہ نہیں، کوئی آزمایش نہیں اور بدی کے خلاف کوئی جنگ نہیں ۔ سو، ایمانداروں کو آزمایشوں پر غالب آنے کےلئے ایک دوسرے کو خدا کے کلام کو یاد کرانے کی ضرورت نہ ہو گی، "اور ہر شخص اپنے ہم وطن اور اپنے بھائی کو یہ تعلیم نہ دے گا کہ تُو خداوند کو پہچان کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک سب مجھے جان لیں گے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 8: 11)۔

(2) زُبانیں جاتی رہیں گی

رُوح القدس نے پینتِکوست کے دِن زُبانیں بولنے کی نعمت بخشی۔ یہ نعمت شاگردوں کو بخشی گئی تا کہ اُن لوگوں کو انجیل کے پیغام کی منادی کریں جو یروشلیم میں عیدِ پینتِکوست منانے کےلئے مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ یہ افراد شاگردوں کی مادری زبان سمجھ نہیں سکتے تھے، سو خدا تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کو اُن سب کی زبانوں میں بولنے کے قابل بنایا جو وہاں موجود تھے تا کہ وہ اِنجیلی پیغام کو سمجھ سکیں (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 2: 1- 8)۔ تاہم، چونکہ اِنجیل تمام دُنیا کے علاقوں تک پہنچی ہے اور بائبل مقدس کا ایک ہزار سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، تو ہمیں زُبانوں کی نعمت کی ویسے ضرورت نہیں جیسے عیدِ پینتِکوست کے دِن رسولوں کےلئے یہ اہم تھی۔ اور جب ہم خدا کی حضوری میں ہوں گے تو وہاں صرف ایک ہی زبان ہو گی یعنی محبت کی زُبان۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ مختلف زُبانیں اُس وقت سامنے آئیں جب خدا نے اُن لوگوں کی زبان میں فرق ڈال دیا جو بابل کا برج بنا رہے تھے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 11 باب)۔ زبانیں لوگوں کے تنوع کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، آسمان پر فکری و قلبی یگانگت ہو گی جو آسمانی زبان ہے۔

(3) علم مٹ جائے گا

جس قسم کے علم کی یہاں پر بات ہو رہی ہے وہ طبعی علم نہیں ہے یا ریاضی کا علم نہیں ہے، بلکہ الہٰی معرفت کا علم ہے، لوگوں کو آسمانی چیزوں کی بشارت دینے کا علم ہے۔ آسمان پر علم مٹ جائے گا کیونکہ ایمانداروں کو اُس کی ضرورت نہ ہو گی کیونکہ وہ زندگی کے کلام مسیح کی حضوری میں کھڑے ہوں گے۔ اِس لئے، اُنہیں تحریری کلام بائبل مقدس کی ضرورت نہ ہو گی کیونکہ مسیح بذاتِ خود کامل معرفت ہے، "اور وہ اُس کا منہ دیکھیں گے اور اُس کا نام اُن کے ماتھوں پر لکھا ہوا ہو گا۔ اور پھر رات نہ ہو گی اور وہ چراغ اور سورج کی روشنی کے محتاج نہ ہوں گے کیونکہ خداوند خدا اُن کو روشن کرے گا" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 22: 4- 5)۔

حتیٰ کہ طبعی علم بھی مٹ جائے گا، کیونکہ جن چیزوں کو آج ہم قائم و مستحکم سمجھتے ہیں کل ویسے نہیں ہوں گی کیونکہ انسانی معرفت بڑھتی جاتی ہے۔ پہلے لوگ کہا کرتے تھے کہ ایٹم تقسیم نہیں ہو سکتا، لیکن پھر یہ دریافت ہوا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ جس علم کو ہم اپنے بچپن کے سالوں میں درست سمجھتے تھے، اَب بڑے ہو کر پتا چلا کہ بات ویسی نہیں تھی کیونکہ ہمارا علم بڑھتا جاتا ہے۔ "کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت ناتمام۔ لیکن جب کامل آئے گا تو ناقِص جاتا رہے گا" (آیات 9، 10)۔ کیونکہ جو آج بچہ ہے وہ بڑا ہونے پر بچپن کی باتوں کو ترک کر دیتا ہے جیسا کہ پولس رسول نے بھی کہا ہے: "جب میں بچہ تھا تو بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔ بچوں کی سی سمجھ تھی۔ لیکن جب جوان ہُوا تو بچپن کی باتیں ترک کر دیں" (آیت 11)۔

پولس رسول مزید کہتا ہے کہ "اَب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دِکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت روبرو دیکھیں گے۔ اِس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت اَیسے پورے طور پر پہچانوں گا جیسے میں پہچانا گیا ہوں" (آیت 12)۔ اُس زمانے میں آئینے پالش کی ہوئی دھاتوں یا پتھروں سے بنے ہوتے تھے جس میں ایک شخص اپنے چہرے کو واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ شیشے کے آٰئینے جو واضح عکس دِکھاتے ہیں، بےشک یہ اِس سے پہلے کی بات ہے۔ سو، رسول یہ کہہ رہا ہے کہ اَب ہم دھات کے بنے ہوئے آئینہ میں دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یوں غیرواضح نظر آ رہا ہے جیسے کہ کوئی بھید ہو۔ لیکن مستقبل میں جب ہم خداوند کی حضوری میں اُس کے سامنے ہوں گے تو "اُس وقت اَیسے پورے طور پر پہچانوں گا جیسے میں پہچانا گیا ہوں۔"

جو آج ایک بھید ہے وہ کل واضح طور پر منکشف ہو جائے گا، کیونکہ ایسے امور بھی ہیں جن کا آج عقل اِدراک نہیں کر سکتی، لیکن آنے والے وقت میں ہم اُنہیں بہتر طور پر جان جائیں گے۔

پھر ایسے امور بھی ہیں جنہیں کچھ لوگ تو سمجھتے ہیں مگر دوسرے اُن کا اِدراک نہیں کرتے۔ مثلاً، ابتدائی مسیحی موسیٰ کی شریعت کو کچھ اِس طرح سے سمجھ سکے جیسے یہودی اُسے نہ سمجھ پائے تھے۔ پولس رسول نے کہا: "موسیٰ ... نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا تا کہ بنی اسرائیل اُس مٹنے والی چیز کے انجام کو نہ دیکھ سکیں۔ لیکن اُن کے خیالات کثیف ہو گئے کیونکہ آج تک پرانے عہدنامہ کو پڑھتے وقت اُن کے دِلوں پر وہی پردہ پڑا رہتا ہے اور وہ مسیح میں اُٹھ جاتا ہے۔ مگر آج تک جب کبھی موسیٰ کی کتاب پڑھی جاتی ہے تو اُن کے دِل پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ لیکن جب کبھی اُن کا دِل خداوند کی طرف پھرے گا تو وہ پردہ اُٹھ جائے گا۔ اور خداوند رُوح ہے اور جہاں کہیں خداوند کا رُوح ہے وہاں آزادی ہے۔ مگر ہم سب کے بےنقاب چہروں سے خداوند کا جلال اِس طرح منعکس ہوتا ہے جس طرح آئینہ میں تو اُس خداوند کے وسیلہ سے جو رُوح ہے ہم اُسی جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 3: 13- 18)۔

خداوند مسیح کے بارے میں ایک ایماندار کل جس سمجھ کا حامل ہو گا اُس کے مقابلہ میں آج وہ کم فہم رکھتا ہے، کیونکہ وہ مسیح کے فضل اور معرفت میں ترقی کرتا جاتا ہے (نیا عہدنامہ، 2- پطرس 3: 18)۔ یوحنا رسول کہتا ہے: "عزیزو! ہم اِس وقت خدا کے فرزند ہیں اور ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔ اِتنا جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا تو ہم بھی اُس کی مانند ہوں گے کیونکہ اُس کو ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 3: 2)۔ غرض، ہم محدود ہیں۔ لیکن ایک غیرمحدود اور ابدی حقیقت بھی ہے، اور وہ محبت ہے جسے زوال نہیں۔

ب- کس لحاظ سے محبت دائمی ہے؟

(1) ایک زندہ اصول کے طور پر محبت کو زوال نہیں

(الف) خدا محبت ہے: "اے عزیزو! آﺅ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور خدا کو جانتا ہے۔ جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔ جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اِس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ ہم اُس کے سبب سے زندہ رہیں۔ محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کےلئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔ اے عزیزو! جب خدا نے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 7- 11)۔

محبت مضبوطی سے قائم رہتی ہے اور اِسے زوال نہیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی حقیقت ہے جو اپنے وجود میں ابدی ہے، عطا کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ یہ محبت ہے جس کی بناء پر خدا تعالیٰ کے کلام میں یوں لکھا ہے: "خداوند خدا فرماتا ہے کیا شریر کی موت میں میری خوشی ہے اور اِس میں نہیں کہ وہ اپنی روِش سے باز آئے اور زندہ رہے؟" (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 18: 23)۔ خدا تعالیٰ وہ ہستی ہے جو "چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں" (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 2: 4)۔ ہر وہ فرد جو توبہ کرتا اور خدا کی محبت میں قائم رہتا ہے، خدا کےلئے اپنی محبت میں ناکام نہیں ہو گا، کیونکہ خدا کا تخم اُس میں قائم رہتا ہے، اور وہ پولس رسول کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ "کون ہم کو مسیح کی محبت سے جُدا کرے گا؟ مُصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ یا تلوار؟ ... کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اُس سے ہم کو نہ موت جُدا کر سکے گی نہ زندگی۔ نہ فرِشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ اِستقبال کی چیزیں۔ نہ قُدرت نہ بُلندی نہ پستی نہ کوئی اَور مخلوق" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 35- 39)۔

(ب) ہم تمام حکموں کا خلاصہ محبت میں کر سکتے ہیں۔ یہودی مذہبی راہنماﺅں نے مذہبی تعلیم کے تعلق سے شریعت کو خلاصہ کے طور پر کچھ الفاظ میں بیان کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہوا تھا۔ اُن میں سے ایک یسوع کے پاس آیا اور اُس سے حکموں میں سے سب سے بڑے حکم کے بارے میں سوال کیا تو یسوع نے جواب دیا: "خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِنہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے" (انجیل بمطابق متی 22: 34- 40)۔

پولس رسول نے اِس تعلق سے لکھا ہے: "کیونکہ یہ باتیں کہ زِنا نہ کر۔ خون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ لالچ نہ کر اور اِن کے سوا اَور جو کوئی حکم ہو اُن سب کا خلاصہ اِس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ محبت اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتی۔ اِس واسطے محبت شریعت کی تعمیل ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 13: 9- 10)۔

(ج) محبت ایک مسیحی کا امتیازی نشان ہے۔ مسیح نے اپنے شاگردوں کو کہا: "میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو" (انجیل بمطابق یوحنا 13: 34- 35)۔ مُقدس یوحنا نے اپنے خط میں یہ لکھا ہے: "اگر کوئی کہے کہ میں خدا سے محبت رکھتا ہوں اور وہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو جھوٹا ہے کیونکہ جو اپنے بھائی سے جسے اُس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی جسے اُس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا۔ اور ہم کو اُس کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ جو کوئی خدا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے بھائی سے بھی محبت رکھے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 20- 21)۔

(2) خدمت کےلئے ایک محرک کے طور پر محبت کو زوال نہیں

ایک ماں کس محرک کے تحت دِن رات، سال بسال خدمت کرتی ہے؟ حتیٰ کہ جب اُس کے بچے بڑے ہو کر گھرسے چلے جاتے ہیں تو وہ پھر بھی اُن کی اور اپنے پوتوں پوتیوں نواسے نواسیوں کی اپنی پوری محبت اور شخصی قربانی کے ساتھ خدمت کرتی رہتی ہے۔ ایک ماں کبھی بھی چھٹیوں پر نہیں جاتی، اُس کی خدمت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ اُس کے مسلسل شخصی قربانی دیتے ہوئے اپنا آپ دے دینے کے عمل کی وجہ ایک ماں کی محبت ہے جسے زوال نہیں۔

اگر کوئی فرد اجر کے حصول کےلئے خدمت کرتا ہے، تو اِس کا مطلب ہے کہ جب اُسے اُس خدمت کا معاوضہ ملنا ختم ہو جاتا ہے تو اُس کی خدمت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی فرد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر خدمت کرتا ہے، تو جب اُس کے مفادات پورے ہو جاتے ہیں تو وہ خدمت کرنا روک دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی محبت کی وجہ سے خدمت کرتا ہے تو وہ کبھی بھی خدمت ترک نہیں کرتا کیونکہ وہ کسی ایسے فرد کی طرح نظر آنے کےلئے خدمت نہیں کرتا جو محض لوگوں کو خوش کرنا چاہتا ہو۔ اور جو کچھ وہ کرتا ہے وہ اپنے دِل سے خداوند کےلئے کرتا ہے نہ کہ لوگوں کےلئے، اور جانتا ہے کہ چونکہ وہ خداوند مسیح کی خدمت کرتا ہے اِس لئے خداوند اُسے بدلہ دے گا (نیا عہدنامہ، کلسیوں 3: 22- 24)۔

مسیح نے حقیقتاً ہمیں یہ کہہ کر ایک بہت بڑی بات سکھائی ہے: "تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالِش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا" (انجیل بمطابق متی 5: 38- 41)۔

اُس زمانے میں ایک قانون تھا جس کے مطابق ایک رومی سپاہی کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اُس زیرقبضہ ملک کے کسی بھی شہری کو حکم دے سکتا تھا کہ وہ اُس کے ہتھیار یا متاع اُٹھا کر ایک میل تک پیدل لے کر جائے۔ ایک دِن ایک یہودی راہ کے کنارے جا رہا تھا کہ ایک رومی سپاہی نے اُسے روکا اور ایک میل تک اپنا سامان اُٹھانے کا حکم دیا، اور اُس یہودی شخص نے ایسا ہی کیا۔ جب اُس نے ایک میل کا سفر طے کیا تو رومی سپاہی نے کہا: "کافی ہے۔" لیکن اُس یہودی نے جواب دیا: "میں آپ کا ساز و سامان ایک میل اَور اُٹھاﺅں گا۔" سپاہی نے اُسے کہا: "لیکن قانون کے مطابق تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔" یہودی شخص نے اُسے جواب دیا: یہ بات ٹھیک ہے، لیکن میں آج مصروف نہیں ہوں، اور میری بہت سی ذمہ داریاں بھی نہیں ہیں۔" سپاہی بہت حیران ہوا۔ اُس نے یہودی شخص کی پیشکش کے مطابق اُسے اپنا ساز و سامان اُٹھانے دیا، لیکن سپاہی کا یہودی کے بارے میں نکتہ نظر بدل گیا۔ کیونکہ پہلے وہ یہودی سپاہی کے پیچھے چل رہا تھا، لیکن اَب وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ سپاہی نے یہودی شخص سے رضاکارانہ طور پر اپنا آپ خدمت کےلئے پیش کرنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا: "ناصرت کا ایک معلم ہے جس نے ہمیں سکھایا کہ اگر کوئی تمہیں ایک میل تک بیگار میں لے جائے تو اُس کے ساتھ دو میل تک بیگار میں جاﺅ۔" پھر سپاہی نے اُس یہودی شخص سے اُس معلم کے بارے میں سیکھنے کےلئے مزید سوالات کئے۔ اور جس وقت اُنہوں نے ایک اَور میل سفر طے کیا تو سپاہی نے ناصرت کے اِس معلم کا ایک پیروکار بننے کا فیصلہ کر لیا۔

محبت برداشت کے ذریعے اپنا آپ واضح کرتی ہے۔ باوجود کہ لوگ اِسے کمزوری سمجھیں یہ رُکے بغیر آگے بڑھتی جاتی ہے اور کامیاب ہوتی ہے۔ اِس کے معترض ایک دِن دیکھ لیں گے کہ محبت مضبوط اور فاتح ہے۔

(3) خوشی کے ایک منبع کے طور پر محبت کو زوال نہیں

ایک ماہر تحلیل نفسی نے اپنا دِل مسیح کےلئے کھولا اور گہرے طور پر بائبل مُقدّس کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اُس نے بشمول اپنے دُشمنوں سب سے محبت سے پیش آنے کا فیصلہ کیا۔ بہت جلد اُس نے جان لیا کہ محبت، اُن کےلئے بھی جو بدی کرتے ہیں اور اُن کےلئے بھی جن کے خلاف بدی کی جاتی ہے، خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مندرجہ ذیل تجربہ میں ایسا ہی ہوا:

ایک ماہر تحلیل نفسی کو اُس کا ایک افسر بہت تنگ کیا کرتا تھا، جس میں اُس کا کوئی قصور نہ تھا، سو اُس نے تین کام کرنے کا فیصلہ کیا:

(الف) اُس شخص کےلئے دِن میں تین مرتبہ دُعا کرنا۔ دُعا کے الفاظ مثبت ہوں گے۔ اگر وہ شخص اُس کی دُعا سُنے گا تو اُس کا دِل خوشی سے بھر جائے گا۔

(ب) اُس شخص کےلئے مثبت سوچنا۔ تا کہ جب بھی اُس کے بارے میں اِس کے ذہن میں بُری سوچ آئے تو وہ اِسے اچھی سوچ سے بدل دے۔ اِس غرض سے اُس ماہر تحلیل نفسی کو اُس شخص میں کسی مثبت بات کو ڈھونڈنے کےلئے کافی وقت سوچنا پڑا، جو اُس کے بارے میں اُس کے رویہ کو تبدیل کرنے میں مدد فراہم کر سکے۔

(ج) جب بھی وہ اُس کے بارے میں سوچے گا تو فوراً اُس کےلئے یہ ایک مختصر دُعا کرے گا: اے خداوند، اِسے برکت دے، اِس کا بھلا کر۔

اُس ماہر تحلیل نفسی نے اِس روحانی مشق کو ایک پورے ماہ تک کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر اِس عرصہ کے دوران اُس نے دیکھا کہ کیسے وہ شخص نہ صرف اُس کی جانب بلکہ دوسروں کی جانب بھی اپنے رویہ میں تبدیل ہو گیا اور اُس نے خوشی کا تجربہ کیا، اور وہ ماہر تحلیل نفسی بھی بہت زیادہ خوش ہوا اور اُس نے کہا: "بےشک، محبت کی دُعا، دُعا مانگنے والے فرد کو بدل دیتی ہے کیونکہ وہ مسیح کی طرح محبت کرتا ہے۔ ایسی دُعا اُس فرد کو بھی بدل سکتی ہے جس کےلئے دُعا کی جاتی ہے، اورساتھ ہی ساتھ یہ اُن حالات کو بھی بدل سکتی ہے جن کے باعث مشکلات جنم لیتی ہیں۔"

"محبت کو زوال نہیں۔"

دُعا

اے آسمانی باپ، ہمیں حکمت بخش کہ اپنے لئے تیری محبت کو دیکھ سکیں جسے زوال نہیں۔ جب ہم اپنے گناہوں میں زندگی بسر کر رہے تھے تو تُو نے ہم سے یہاں تک بےانتہا محبت رکھی کہ تُو ہمیں اُن گناہوں سے دُور لے گیا۔ تُو ہمیں اپنی طرف لانے سے اور ہمیں پاک کرنے سے اَب بھی ہماری طرف صبر سے کام لیتا ہے۔ ہمیں توفیق بخش کہ سب سے محبت کریں، اُن سے بھی جو ہمارے خلاف گناہ کرتے ہیں، اور یہ وہ محبت ہو جسے کبھی زوال نہیں، جو آگے بڑھتی جاتی ہے اور کامیابی پر بھروسا کرتی ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین۔

13- مگر افضل اِن میں محبت ہے

"غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت ہے" (1- کرنتھیوں 13: 13)۔

ہم کتاب کے آخری باب میں پہنچ گئے ہیں، جو اِس کتاب کا نکتہ عروج ہے۔ یہاں ہمارے سامنے تین حقیقتیں ایسی ہیں جو ایک ایماندار کی زندگی میں ہوتی ہیں یعنی ایمان، اُمید اور محبت۔ تاہم، تینوں دائمی حقیقتوں میں سے افضل محبت ہے۔

اَب تک ہم نے محبت کی اہمیت پر غور کیا ہے (آیات 1- 3)، اُس کی خصوصیات پر غور کیا ہے (آیات 4- 7)، اُس کے دوام پر غور کیا ہے ("محبت کو زوال نہیں" آیات 8- 12)۔ لیکن اِس حصہ میں اِس بات پر غور کیا جائے گا کہ محبت افضل ہے۔

نبوتیں، علم اور زبانیں ختم ہو جائیں گی، لیکن ایمان، اُمید اور محبت باقی رہیں گی۔ ایمان اور اُمید بھی ماند پڑ جائیں گے لیکن محبت ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ "خدا محبت ہے۔"

الف- تین دائمی چیزیں: ایمان، اُمید اور محبت

(1) ایک ایماندار کی تمام زندگی قائم رہنے والے ایمان کا مطلب ہے:

یقین کرنا، خدا کے کلام پر بھروسا کرنا۔ رُوح القدس ہمیں قائل کرتا ہے، سو ہم اِنجیلی سچائی پر ایمان لاتے ہیں۔ جب ہم اِنجیل کا پیغام سُنتے ہیں، تو رُوح القدس ہمیں بتاتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی خوشخبری ہے۔ ایسا ہی چرواہوں کے ساتھ ہوا جنہوں نے فرشتہ کے پیغام کو سُنا جس نے اُنہیں مسیح کی پیدایش کی خوشخبری دی۔ اُنہوں نے اُس پیغام کو ایمان سے قبول کیا، اُس کا یقین کیا، اور آپس میں ایک دوسرے سے کہا "آﺅ بیت لحم تک چلیں اور یہ بات جو ہوئی ہے اور جس کی خداوند نے ہم کو خبر دی ہے دیکھیں" (انجیل بمطابق لوقا 2: 15)، اور پھر وہ تمام ماجرا دیکھنے کےلئے گئے۔ ایسا اِس لئے ہوا کہ رُوح القدس نے اُنہیں ایمان بخشا تھا۔

ایمان، یقین کرنے کے اعتبار سے ہمیں توکل بھروسا بھی دیتا ہے۔ ایمان لانے اور بھروسا کرنے کے نتیجہ کے طور پر ہم میں خدا پر توکل ہوتا ہے۔ پطرس رسول نے مسیح خداوند سے کہا: "اے اُستاد ہم نے رات بھر محنت کی اور کچھ ہاتھ نہ آیا مگر تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہوں" (انجیل بمطابق لوقا 5: 5)۔ داﺅد نبی نے اِس توکل، بھروسے کو خدا میں پناہ لینے کے الفاظ میں بیان کیا ہے: "اے خدا! میری حفاظت کر کیونکہ میں تجھ ہی میں پناہ لیتا ہوں۔ میں نے خداوند سے کہا ہے تُو ہی رَبّ ہے۔ تیرے سوا میری بھلائی نہیں" (پرانا عہدنامہ، زبور 16: 1- 2)۔

ایمان کا مطلب ہے امن و سلامتی، جیسا کہ ایمان اور امن و سلامتی کے عبرانی الفاظ ایک ہی مادہ سے نکلے ہیں۔ ایماندار ایک ایسا فرد ہے جو محفوظ، پُرسکون اور بغیر کسی ڈر کے ہوتا ہے۔ "دیکھو خدا میری نجات ہے۔ میں اُس پر توکل کروں گا اور نہ ڈروں گا کیونکہ یاہ یہوواہ میرا زور اور میرا سرود ہے اور وہ میری نجات ہوا ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 12: 2)۔ خداوند ہی حقیقی سلامتی ہے، "میں سلامتی سے لیٹ جاﺅں گا اور سو رہوں گا کیونکہ اَے خداوند! فقط تُو ہی مجھے مطمئن رکھتا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 4: 8)۔ خدا تعالیٰ ہی ہمیں اِس قابل بناتا ہے کہ ہم بغیر کسی ڈر کے سو جائیں، کیونکہ وہ ہمیں سنبھالتا ہے اور نہ اونگھتا ہے نہ سوتا (زبور 121: 4)۔ "اگر تم ایمان نہ لاﺅ گے تو یقیناً تم بھی قائم نہ رہو گے" (یسعیاہ 7: 9)۔

مزید برآں، ایمان کا مطلب ہے وفاداری۔ ایک ایماندار خداوند کا وفادار ہوتا ہے۔ اِسی لئے خداوند نے ایک ایماندار کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی ہے: "جان دینے تک بھی وفادار رہ تو میں تجھے زندگی کا تاج دوں گا" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 2: 10)۔ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں اُسے خدا کی طرف سے یہ الفاظ سُننے کو ملیں گے: "اے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش! تُو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناﺅں گا۔ اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو" (انجیل بمطابق متی 25: 23)۔

وفادار خداوند اِس لائق ہے کہ ہم اُس پر اپنا بھروسا رکھ سکیں۔ اور ایمان اِس لئے دائمی ہے کیونکہ یہ نجات کی خدا کی بخشش کو ہمیں ودیعت کرتا ہے۔ کیونکہ "جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا بلکہ اُس پر خدا کا غضب رہتا ہے" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 36)۔ سو، آئیں محتاط ہو جائیں کہ کوئی ایسا بےایمان دِل نہ ہو جائے جو زندہ خدا سے پھر جائے (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 3: 11- 12)، کیونکہ بغیر ایمان کے خدا تعالیٰ کو پسند آنا ناممکن ہے (عبرانیوں 11: 6)۔

(2) اُمید خداوند کے کلام کا انتظار کرنا، اُس پر اعتماد کرنا ہے۔

خداوند کے کلام کی ایک بات بھی خالی نہ جائے گی (پرانا عہدنامہ، 1- سلاطین 8: 56)۔ سو، اُمید ہمیں تسلی و اطمینان بخشتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں گے، اور وہ ہمیں بھروسے اور فتح کا گیت گانے کے قابل بناتی ہے: "ہاں تیری عدالت کی راہ میں اَے خداوند ہم تیرے منتظر رہے۔ ہماری جان کا اِشتیاق تیرے نام اور تیری یاد کی طرف ہے۔ رات کو میری جان تیری مشتاق ہے۔ ہاں میری رُوح تیری جستجو میں کوشاں رہے گی کیونکہ جب تیری عدالت زمین پر جاری ہے تو دُنیا کے باشندے صداقت سیکھتے ہیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 26: 8- 9)۔

اُمید ہمیں آنے والے جلال کا انتظار کرنے کے قابل بھی بناتی ہے، جیسے کہ پطرس رسول نے کہا: "ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی حمد ہو جس نے یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ اُمید کےلئے نئے سِرے سے پیدا کیا۔ تا کہ ایک غیرفانی اور بےداغ اور لازوال میراث کو حاصل کریں۔ وہ تمہارے واسطے جو خدا کی قدرت سے ایمان کے وسیلہ سے اُس نجات کےلئے جو آخری وقت میں ظاہر ہونے کو تیار ہے حفاظت کئے جاتے ہو آسمان پر محفوظ ہے" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 1: 3- 5)۔

اور یوحنا رسول نے کہا: "اور جو کوئی اُس سے یہ اُمید رکھتا ہے اپنے آپ کو ویسا ہی پاک کرتا ہے جیسا وہ پاک ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 3: 3)۔ جب ہم شِدّت سے مسیح کی دُوبارہ آمد کا انتظار کرتے ہیں تو یہ انتظار ہمیں زندگی کی پاکیزگی میں قائم رکھتا ہے۔

(3) محبت خدا، اپنے پڑوسیوں اور دشمنوں کےلئے بھلائی کے کام کرنے کا اِرادہ ہے۔

حقیقی محبت وہ محبت ہے جو صرف اپنے چاہنے والوں کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی دینا چاہتی ہے۔ مسیح خداوند نے ہمیں اپنے پہاڑ پر دیئے گئے وعظ میں اِس بارے میں سکھایا ہے: "تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے" (انجیل بمطابق متی 5: 45)۔

مسیحی محبت (مسیح کی طرح کی محبت) اِرادہ پر مبنی محبت ہے جو اپنا آپ اعمال میں ظاہر کرتی ہے، جو صرف زبان اور الفاظ کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ عمل اور سچائی میں رسولی حکم کی اطاعت کے ساتھ ہوتی ہے کہ "اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھِلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا کیونکہ اَیسا کرنے سے تُو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آﺅ" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 20- 21)۔

ایک مرتبہ ایک غیر مسیحی اُستانی جن لڑکیوں کو تعلیم دیتی تھی اُن میں سے اُسے مسیحی بچیوں کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا تو اُس نے اُن سب سے پوچھا: کیا آپ اپنے دُشمن سے محبت کرتی ہیں؟ اُن بچیوں کے جواب نے واضح کر دیا کہ کون مسیح کی بھیڑ ہے اور کون نہیں ہے۔

ب- ایمان، اُمید اور محبت کا باہمی تعلق

ہم اِن تینوں دائمی چیزوں کےلئے درخت کی تشبیہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اُس کی جڑیں اور تنا ایمان ہیں، جو خدا کے ساتھ مضبوط تعلق کا اظہار ہے۔

اُس کی شاخیں اُمید ہیں جو اپنی ذات کےلئے خدا تعالیٰ کے مقاصد کو خوش آمدید کہتی ہیں۔

اُس کا پھل محبت ہے جو خدا تعالیٰ اور دوسرے لوگوں کےلئے پوری رضا کے ساتھ خدمت اور عملِ خیر ہے۔

ایمان خدا تعالیٰ کے کلام سے پیدا ہوتا ہے جس میں خوشخبری کا پیغام ہمیں پیش کیا گیا ہے: "پس ایمان سُننے سے پیدا ہوتا ہے اور سُننا مسیح کے کلام سے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 10: 17)۔ اُمید خدا کے کلام پر ہمارے اعتماد سے پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ پولس رسول نے اپنے مقدمہ کے وقت کہا: "اور اَب اُس وعدہ کی اُمید کے سبب سے مجھ پر مُقدمہ ہو رہا ہے جو خدا نے ہمارے باپ دادا سے کیا تھا" (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 26: 6)۔ کیونکہ ہم اپنی اُمید ایمان پر قائم کرتے ہیں۔ اور پھر ایمان اور اُمید سے محبت آتی ہے، اور جیسا کہ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ محبت اپنی مضبوطی پر بھروسا کرنے کی وجہ سے سرگرم ہوتی ہے جسے خدا کا کلام مضبوط اُمید کے طور پر بیان کرتا ہے اور اُسے زوال نہیں۔

ایمان کلام خدا پر بھروسا کرتا ہے، اُمید کلام کے وعدوں پر بھروسا کرتی ہے، اور محبت کلام پر عمل کرتی ہے۔

ایمان خداوند کا انتظار کرتا ہے، اُمید خداوند کی توثیق کے نشانوں کا انتظار کرتی ہے، اور محبت خداوند کی خدمت کرتے ہوئے انتظار کرتی ہے۔

محبت کے بغیر ایمان ایسا ایمان ہے جس میں عمل نہ ہو۔ ایسا ایمان صرف عقلی ہونے کی وجہ سے مُردہ ہے، شیاطین کے سے ایمان کی طرح ہے جو تھرتھراتے تو ہیں لیکن تبدیل نہیں ہوتے۔ اُمید کے بغیر ایمان مستقبل کی رویا کے بغیر ہوتا ہے کیونکہ اِسے سوائے ماضی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن بامقصد شادمان زندگی وہ زندگی ہے جس میں ایمان اور اُمید ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جیسے کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے جد امجد بزرگ یعقوب کے الفاظ سے ظاہر ہے: "میں تو مرتا ہوں لیکن خدا تمہارے ساتھ ہو گا اور تم کو پھِر تمہارے باپ دادا کے مُلک میں لے جائے گا" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 48: 21)۔

اُمید کے بغیر ایمان خواہشمندانہ سوچ پر مبنی ایک التباس ہے۔ ایک ایماندار اِس کی مشق نہیں کرتا، کیونکہ وہ اپنی اُمید کی بنیاد بائبل مُقدس میں مرقوم خدا کے کلام پر اپنے ایمان میں رکھتا ہے۔ محبت کے بغیر اُمید اناپرستی ہے، کیونکہ پھر اِنسان اپنے ہی بارے میں، اپنی خواہشوں اور اُمیدوں کے بارے میں سوچتا ہے۔

بغیر ایمان کے خدا تعالیٰ کو پسند آنا ناممکن ہے، بغیر اُمید کے زندگی مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو جاتی ہے اور ہم سب لوگوں سے زیادہ بدبخت بن جاتے ہیں، اِسی طرح بغیر محبت کے زندگی خودغرضی کا شکار ہو جاتی ہے۔ تاہم، اگر یہ خوبیاں اکھٹی موجود ہوں تو ہمارا ایمان دوسروں کی خدمت کےلئے تیار ہو گا، اور ہماری اُمید اپنی بہتری کےلئے اور اِس کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بہتری کےلئے بھی ہو گی۔

ج- افضل اِن میں محبت ہے

تاہم، اگر ایمان اور اُمید کی دونوں خوبیاں دائمی ہیں اور محبت کی بدولت مربوط ہیں، تو پھر پولس رسول کیوں کہتا ہے کہ افضل اِن میں محبت ہے؟

(1) یہ خدا تعالیٰ کی صفت ہے جو ازل سے موجود ہے۔

انجیل مُقدّس یہ بیان کرتی ہے کہ خدا محبت ہے (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 8، 16)، لیکن اِس میں یہ نہیں لکھا کہ خدا ایمان ہے یا اُمید ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ محبت، ایمان اور اُمید بخشتا ہے، اور وہ ایمانداروں پر بھروسا کرتا ہے کہ وہ دُنیا کےلئے اُس کے مقاصد کو سمجھیں، اور اُمید کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی خدمت کریں گے، لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ "جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خدا میں قائم رہتا ہے اور خدا اُس میں قائم رہتا ہے" (1- یوحنا 4: 16)۔

(2) محبت، ایمان اور اُمید سے افضل ہے کیونکہ اِس کے نتائج بہت عظیم ہیں۔

یہ ہمیں آسمانی باپ کے بیٹے بیٹیاں بناتی ہے (انجیل بمطابق متی 5: 45)۔ رسول کہتاہے: "پس عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔ اور محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو خوشبو کی مانند خدا کی نذر کر کے قربان کیا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 1- 2)۔

(3) یہ دوسروں کو برکت دیتی ہے۔

ایمان اور اُمید ایک ایماندار کےلئے برکات ہیں، جس کے اندر ایمان ہے وہ اُس کےلئے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ اُس کے گناہوں سے اُسے بچاتا ہے۔ "خداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا" (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 16: 31)۔ جس شخص میں اُمید ہو، وہ پُراُمید ہوتا ہے۔ لیکن محبت جس کے اندر ہو اُس کےلئے بھی فائدہ مند ہے اور اِس کے علاوہ اُس کے خاندان اور خدا کی تمام بادشاہی کےلئے فائدہ مند ہے، کیونکہ جو خدا سے اپنے پورے دِل سے محبت رکھتا ہے مبارک ہو گا۔ وہ اپنے خاندان، گھرانے، اپنی کلیسیا اور اُن کے ساتھ بھی محبت رکھے گا جو اُس سے اختلاف کرتے ہیں۔

(4) محبت ہمیشہ رہنے والی صفت ہے۔

ایمان موسیٰ نبی کی مانند ہے جب وہ کوہِ پسگہ کی چوٹی پرکھڑے ہوئے اپنے سامنے موجود کنعان کی سرزمین کو دیکھ رہا تھا، باوجود کہ اُس کا ایمان تھا کہ لوگ اُس میں داخل ہو جائیں گے لیکن وہ خود اُس میں جانے کے قابل نہ تھا (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 34: 1)۔

اُمید اُفق پر چمکتے صبح کے ستارے کی مانند ہے، جو دِن کا اعلان تو کرتا ہے لیکن طلوع ہوتے سورج کی روشن کرنوں میں ماند پڑتا جاتا ہے۔

تاہم، محبت ایلیاہ نبی کی مانند ہے جب وہ آتشی رتھ میں آسمان کی طرف اُٹھا لیا گیا (پرانا عہدنامہ، 2- سلاطین 2: 11)۔ یہ موت نہیں دیکھتی، کیونکہ یہ ہمارے ساتھ آسمان میں صعود کرتی ہے اور ہمارے ساتھ رہتی ہے کیونکہ خدا محبت ہے۔

ایمان، اُمید اور محبت تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت ہے۔

خدا تعالیٰ ہمارے دِلوں کو اپنی عظیم ترین محبت سے معمور کر دے جسے کبھی زوال نہیں۔

دُعا

اے ہمارے آسمانی باپ، ہمیں ایسا ایمان عطا فرما جو اپنا سارا بھروسا تجھ پر رکھے تا کہ وعدوں کو حاصل کر سکیں۔ ہم میں اُمید کو گہرا کر، تا کہ اُمید کی زندگی بسر کریں جو مستحکم ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی جیسی محبت بخش تا کہ ہم بدلے میں کسی چیز کی توقع کئے بغیر دیں، تا کہ ہم تیری محبت کے آتشی رتھ میں سربلند کئے جائیں جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ مسیح کے نام میں۔ آمین

سوالات

کتاب "محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی" کے سوالات کے جوابات تحریر کیجئے۔

اب جبکہ آپ نے اِس کتاب کا مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب لکھ کر ہمیں روانہ کریں اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طورپر لکھیں۔

  1. ایک جملے میں بیان کیجئے کہ (الف) محبت خوش گفتاری سے زیادہ اہم کیوں ہے؟ (ب) محبت معجزات سے زیادہ اہم کیوں ہے؟

  2. اِس کا کیا مطلب ہے کہ "محبت صابر ہے اور مہربان"؟

  3. صبر کرنے والی محبت کے دو کاموں کا ذِکر کریں۔

  4. آپ اُس شخص کو کیسے جواب دیں گے جو کہتا ہے کہ "اگر میں اپنے خلاف برائی کرنے والے فرد کو صبر اور مہربانی دِکھاﺅں گا تو وہ میرے خلاف ایذا رسانی اور برے کاموں میں اِضافہ کر دے گا؟

  5. کس طرح سے نفرت ہمیشہ نفرت کرنے والے کو نقصان پہنچاتی ہے؟ اور کب نفرت اُس فرد کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے نفرت کی جاتی ہے؟

  6. اُن دو چیزوں کا ذِکر کریں جو نفرت کے خلاف ہماری مدد کرتی ہیں۔

  7. شیخی نہ مارنے کی دو وجوہات بیان کیجئے۔

  8. جس شخص کے پاس رُوحانی نعمتیں ہوں اُس کا دوسروں کی نسبت شیخی مارنے کا امکان زیادہ کیوں ہوتا ہے؟

  9. گناہ کے بھدے پن کی دو مثالیں دیجئے۔

  10. مارٹن لوتھر کے اِس قول کی وضاحت کریں: "میرے خداوند مسیح، تُو وہ بن گیا جو نہیں تھا، تا کہ میں وہ بن جاﺅں جو میں نہیں تھا۔"

  11. ہم اپنی زبان کو بیوقوفانہ گفتگو سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

  12. سمسون کی والدہ نے اپنے شوہر منوحہ کی کیسے حوصلہ افزائی کی؟

  13. اُس خوبصورت واقعہ کا ذِکر کریں جو اُس جگہ پیش آیا تھا جہاں سلیمان نبی کی ہیکل بنی تھی۔

  14. محبت دوسروں کی بھلائی کیوں مقدم رکھتی ہے؟ نئے عہدنامہ سے اِس کی ایک مثال دیں۔

  15. کس طرح کے حالات میں غصہ پاک ہوتا ہے؟

  16. کب غصہ گنہگار ہوتا ہے؟

  17. آپ گنہگار غصہ پر کیسے غلبہ پاتے ہیں؟

  18. بدگمانی کرنے کا کیا مطلب ہے؟

  19. ہم بدگمانی کیوں کرتے ہیں؟

  20. وہ راستی کیا ہے جس میں محبت خوش ہوتی ہے؟

  21. راستی اور سماجی انصاف کے درمیان کیا تعلق ہے؟ سموئیل نبی نے اِس بات کا کس طرح سے اظہار کیا کہ وہ صداقت کے کاموں میں خوش تھا؟

  22. پُراُمید محبت کا تعلق آسمان سے ہے اور زمین پر یہ ہمیں دو طرح سے نظر آتی ہے۔ اِن کا ذِکر کیجئے۔

  23. اپنے کسی ایسے جاننے والے فرد کی مثال دیں جس نے اِس اصول کا اپنی زندگی میں اطلاق کیا ہو کہ "محبت سب خطاﺅں کو ڈھانک دیتی ہے" (پرانا عہدنامہ، امثال 10: 12)۔

  24. اپنی زندگی میں سے کلام مقدس کی اِس آیت کے پورے ہونے کی مثال دیں کہ "رات کو شاید رونا پڑے پر صُبح کو خوشی کی نوبت آتی ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 30: 5)۔

  25. اِس کا کیا مطلب ہے کہ "محبت کو زوال نہیں"؟

  26. نبوتیں کب موقوف ہوں گی؟

  27. اِس بات کے ثبوت میں کوئی موجودہ مثال دیں کہ محبت خدمت کےلئے تحریک بخشتی ہے۔

  28. ایک ماہر تحلیل نفسی نے اُس فرد کے تعلق سے تین کام کئے جو اُسے بہت تنگ کیا کرتا تھا۔ وہ تین کام کون سے تھے؟

  29. مسیح کا ایک شاگرد رومی سپاہی کے ساتھ ایک اضافی میل پیدل چلا۔ اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟

  30. ایمان، اُمید اور محبت کس طرح سے ایک درخت سے ملتے جُلتے ہیں؟


Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany